نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656920 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کے خاتمے پر مذہب شیعہ کی حقیقت اس پر ظاہر اور روشن ہوگئی اور اس نے مذہب حقہ امامیہ اختیار کر لیا۔ اور تمام بلاد ایران میں شیعہ مذہب کی آزادی کا اعلان نافذ کردیا ۔ اور اسی وقت سے سارے حکام اور ولایتوں کے گورنروں کو اطلاع دے دی کہ ساری مسجدوں اور مجمعوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نام کا خطبہ پڑھیں اور حکم دیا کہ دیناروں پر تین متوازی سطروں میں کلمہ طیبہ" لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ" کو سکہ نقش کیا جائے۔

جناب علامہ حلی کو جنہیں ایک اختلافی مسئلہ حل کرنے کے لیے جلہ سے بلوایا تھا ( اور اسی کی بنا پر اس جلسے میں مناظرہ کا دروازہ کھل گیا ۔ اور تشیع کی حقیقت ظاہر ہوئی) اپنے پاس ٹھہرا لیا آپ کے لیے مدرسہ سیارہ تعمیر کرایا اور طالبان علوم آپ کے گرد جمع ہوگئے چونکہ آپ بلا تقیہ اور کھلم کھلا حقائق کو بیان فرماتے تھے لہذا بے خبر لوگوں نے بھی طریقہ حقہ امامیہ کا پتہ لگا لیا، ولایت کا آفتاب درخشان ابر خفا سے باہر آگیا اور اسی زمانے سے مذہب حقہ، شیعہ کی روشنی جہالت و نادانی کا پردہ چاک کر کے ظاہر اور نمایاں ہوئی۔

تقریبا سات سو سال کے بعد با اقتدار صفوی بادشاہوں کی حمایت اور اس زمانے کی مکمل تبلیغات کے اثر سے باطل تیرہ و تار بادل بالکل چھٹ گئے اور ولایت و امامت کا آفتاب عالمگیر ضیا پاشی کرنے لگا۔

چنانچہ ایرانی اگر چہ ایک روز مجوسی اور دو خداؤں ( یزادن و اہرمن) کے معتقد تھے لیکن جس وقت سے انہوں نے اہل اسلام کے عقلی دلائل و براہین کو سنا ان کو دل و جان سے قبول کیا اور اب تک پورے خلوص کے ساتھ اپنے اسلامی عقیدے پر ثابت قدم ہیں۔

اگر ایرانیوں میں چند افراد ایسے پیدا ہوجائیں جو مجوسی ہوں یا کسی طریقے کے پابند نہ ہوں یا غلات کے سلسلے میں شامل ہوکر حضرت علی(ع) کو ان کی منزل سے بلند کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیں اور ان کو بندوں کا خالق و رازق سمجھنے لگیں ۔، حلول و اتحاد اور وحدت وجود کے قائل ہوں تو اس کو پاک نفس ایرانیوں کی اصل جماعت اور اکثریت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس طرح کے غیر مناسب اور بے عقل و خرد افراد ہر قوم و ملت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شریف و عقلمند ایرانی قوم کی اکثریت وحدانیت حق تعالی اور نبوت خاتم الانبیاء پر مضبوط عقیدے سے اور ایمان کی حامل ہے۔ اور رسول اﷲ(ص) کے حسب الحکم سب امیرالمومنین علیہ السلام اور ان حضرت کے گیارہ فرزندوں کے پیرو ہیں۔

حافظ : آپ کے ایسے حجازی ، مکی اور مدنی بزرگ سے تعجب ہے کہ چند روز کے لیے ایران میں قیام کر لیا تو ایرانیوں کی اس قدر طرفداری کررہے ہیں۔ اور ان کو علی کرم اﷲ وجہ ، کا پیرو سمجھتے ہیں باوجودیکہ علی (ع) خود خدائے تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے لیکن ایرانی شیعہ سب کےسب آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور

۴۱

خدا سے جدا نہیں جانتے اور اپنے اشعار میں آپ کو بمنزلہ حق بلکہ عین حق قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ان کے دلوں اور مکتوبات میں ا س طرح کی کفریات واضح طور پر موجود ہیں کیا ۔ اس قسم کے اشعار ایرانی شیعہ عارفین سے وارد نہیں ہیں جنہیں علی کرم اﷲ وجہ کی زبان سے نقل کرتے ہیں ۔ ( حالانکہ علی(ع) قطعا اس قسم کے عقیدے سے بیزار ہیں۔)

من طلسم عیب و کنز لاستم چون بہ کنیز لارسی الاستم

یعنی از اﷲ ولا بالا ستم نقطہ ام بار بار گویا ستم

کثرت تاترات پندارت کند

مظہر کل عجائب کیست من مظہر سرِ غرائب کیست من

صاحب عون نواسب کیست من در حقیقت ذاب واجب کیست من

ایک دوسرے شخص نے کہا ہے۔

در مذہب عارفان آگاہ ( گمراہ) اﷲ علی، علی است اﷲ

خیر طلب : آپ سے تعجب ہے کہ بغیر تحقیق کے قوم ایرانی شیعوں کو غالی اور علی پرست سمجھتے ہیں اور اس قسم کی باتوں سے بے خبر سنی بھائیوں کے سامنے معاملے کو شبہ کر کے برادر کشی کا دروازہ کھولتے ہیں ، چنانچہ افغانستان ، ہندوستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ میں اس قدر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کہ خون کے دھارے بہہ گئے۔

ازبکستان اور ترکستان کے مسلمان اپنے علماء کے بھڑکانے سے کہتے تھے کہ شیعہ علی پرست مشرک اور کافر ہیں اور ان کا قتل واجب ہے ان سبھوں نے ایرانی مسلمانوں کا اس کثرت سے خون بہایا کہ تاریخ کے صفحات کو داغدار بنا دیا۔

بے چارے سنی عوام آپ کے ایسے بزرگ علماء کی رہنمائی میں ایرانی مسلمانوں کو نگاہ کینہ بلکہ کفر و شرک اور ارتداد کے خیالی سے دیکھتے ہیں۔

گذشتہ زبانوں میں ترکمان لوگ خراسان کے راستے میں سر راہ ایرانی قافلوں کو گرفتار کر کے قتل و غارت میں مشغول ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص سات عدد رافضیوں ( شیعوں ) کو قتل کردے اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔

قطعی طور پر جان لیجئے کہ اس طرح کے افعال اور قتل عام کی جواب دہی آپ ہی جیسے حضرات کے ذمے ہے جو ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شیعہ علی(ع) پرست مشرک اور کافر ہیں اور بے خبر عقیدت مند سنی عوام

۴۲

اس کو قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ لہذا بقصد ثواب اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا

پہلے میں آپ کے جملہ اول کا جواب عرض کرتا ہوں تاکہ ہم لوگ اصل مطلب تک پہنچیں۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ تم حجازی ، مکی اور مدنی ہو کر ایرانی بھائیوں کی طرفداری کس لیے کرتے ہو؟ تو یہ بدیہی بات ہے کہ مجھ کو اپنے مکی مدنی اور محمدی ہونے پر فخر ہے لیکن نسلی تعصب جو جہالت اور نادانی کے آثار میں سے ہے میں اپنے دل مین نہیں رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ میرے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے باوجودیکہ ہر ملت کی قومیت اور وطنیت کی حفاظت ملحوظ رکھی ہے۔ اور جملہ حب الوطن من الایمان کے ساتھ ہر قوم و ملت کو محب وطن کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن آں حضرت (ص) نے النافوں کے اتحاد اور ہر فرد بشر کے دل سے ہر طرح کے بیہودہ خیالات دور کرنے کے لیے جو بڑے قدم اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کو کلی طور پر جڑ سے کاٹ دیا اور ایک بلند اور موثر آواز کے ساتھ دنیا والوں کو اپنے اس اعلان کی طرف متوجہ فرمایا کہ

"لافخر للعرب علی العجم ولا للعجم علی العرب ولا للابيض علی الاسود ولا للاسود علی الابيض الا بالعلم و التقی ۔" (1)

اور نیز اس لیے کہ عالم اور متقی اشخاص کو اشتباہ نہ پیدا ہوجائے کہ آں حضرت (ص) کے ارشاد سے سند لے کر تواضع اور خاکساری سے ہٹ جائیں اور دوسروں پر کبر و خودی کا اظہار کرنے لگیں فرمایا ۔

" انا من العرب ولا فخروا فاسيد ولد الآدم ولا فخر ۔ " (2)

نتیجہ کلام یہ کہ میں باوجودیکہ عرب اور سید آدم ہوں لیکن اس نسل اور منزلت سے دوسروں پر کوئی فخر و مباہات نہیں کرتا۔

پیغمبر(ص) کا فخر صرف اس بات پر تھا کہ پروردگار کے اطاعت گذار بندے ہیں۔ آں حضرت(ص) مقام مناجات میں عرض کرتے تھے۔

" کفی بی فخرا ان اکون لک عبدا " یعنی میرے لیے یہی فخر ومباہات کافی ہے کہ تجھ ایسے پروردگار کا بندہ ہوں۔

خدا تعالی سورہ نمبر49 ( حجرات) آیت نمبر13 میں ارشاد فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر ، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فخر و مباہات نہیں ہے سوا علم و تقوی کے۔

2 ـ میں قوم عرب سے ہوں لیکن ان پر فخر نہیں کرتا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ لیکن اس پر فخر نہیں کرتا ہوں۔

۴۳

" يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ " (الحجرات، 13) (1)

اس نے فضل و شرف اور بزرگی تقوی میں قرار دی ہے۔ نیز اسی سورے کے آیت نمبر 10 میں فرمایا ہے:

" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "( الحجرات ، 10)

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا ہمیشہ اپنے ایمانی بھائیوں کے درمیان اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو صلح کرا دیا کرو ) چنانچہ ایشائی ، افریقی، یورپی اور امریکی سفید و سیاہ ، سرخ و زرد شہرستانی اور کوہستانی نسلوں کے جملہ افراد لوائے اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے ماتحت آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی فخر و مباہات نہیں رکھتے۔

اسلام کے عظیم المرتب قائد حضرت خاتم الانبیاء نے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے عجم سے سلمان فارسی کو روم سے صہیب رومی کو اور حبش سے بلال سیاہ کو اپنے آغوش محبت میں قبول فرمایا لیکن اپنے شریف النسل چچا ابولہب کو جو عرب کی بہترین نسل سے تھا اپنے سے دور فرمادیا اور اس کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا جس میں صریح طور پر ارشاد ہے ۔ تبت یدا ابی لھب۔ ( یعنی ابولہب کے ددنوں ہاتھ قطع ہوجائیں ( جو رسول اﷲ(ص) کے درپے آزار تھے۔)

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں

انسانوں کے تمام فتنہ و فساد اور جنگ و جدال انہیں نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کی بنا پر ہیں۔ جرمنی کے باشندے کہتے ہیں کہ آرین اور جرمنی نسلی سب سے بلند ہے ۔ جاپانی کہتے ہیں کہ سرداری کا حق ان کی زرد نسل کو حاصل ہے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ سفید فام لوگ حاکم اور سب کے اوپر افسر ہیں۔ امریکہ کے متمدن ممالک میں اب تک سیاہ فام لوگ اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ۔ یہاں تک کہ سفید فاموں کے کیفے ، سینما اور مہمان خانوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے اور سیاہ فام عیسائی کو سفید فاموں کے کلیساء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ عبادت گاہ میں بھی ایک دوسرے کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں ، سیاہ کھال کے علماء اور افاضل اگر سفید کھال کے دانشمندوں کے جلسوں میں جاتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ جوتے اتارنے کی جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اے انسانو ! ہم نے سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ۔ اور ان میں مختلف شاخیں اور قبیلے قرار دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو( اور سمجھ لو کہ اصل ونسب اور نسلی سرمایہ افتخار نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

۴۴

بیٹھیں ، ان کو سفید فاموں کے سامنے علم و ہنر کا اظہار نہ کرنا چاہئیے ایک بوڑھے سیاہ فام عالم کو چاہیئے کہ سفید فام جوان کے سامنے تعظیم بجالائے اور مطیع و فرمانبردار رہے۔ سفید فام اساتذہ سیاہ فاموں کو اپنے مدرسوں میں داخل نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اگر کوئی سیاہ فام چھوٹ گیا ہو تو ان کو سفید فاموں کے مسافر خانوں میں گھسنے کا اختیار نہیں۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ باوجود ان کوششوں کے جو ان لوگوں کی آزادی کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں) حیوانات میں شمار ہوتے ہیں اور سفید فاموں کی طرح وسائل تمدن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (1)

لیکن مقدس دین اسلام نے سارے بیہودہ اور موہوم عقائد کو تیرہ سو سال پہلے ہی درمیان سے اٹھادیا تھا، اس کا اعلان ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے جس نسل اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یورپ ، ایشا، امریکہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت کا آغوش کھلا رکھیں اور دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں، ہمیشہ ایک دوسرے کے یار و غمگسار رہیں۔ اسلام حجازی، مکی اور مدنی مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے مسلمین میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ چنانچہ اگر میری نسل حجازی ، قریشی ، ہاشمی اور محمدی ہے تو جائز نہیں ہے کہ سچی بات کو چھپاؤں اور مہمل خیالات کی بنا پر حق کو پس پشت ڈال دوں ۔ میں قطعی طور پر حجازی گمراہوں سے متنفر اور ایرانی شیعوں کا دوستدار ہوں۔

مادروں را بنگریم و حال را نے درون را بنگریم و قال را

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایرانی غالیوں کو بغیر کسی مناسبت اور دلیل و برہان کے پاک باز موحد اور خالص شیعوں کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ سب کے سب حق تعالےٰ کے خالص بندے ہیں۔ خدا اور اس کے بندے و رسول محمد(ص) کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ نہ اور کچھ کہتے ہیں نہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم لوگ حضرت علی(ع) کو پروردگار کا عبد صالح اور رسول اﷲ(ص) کا وصی اور خلیفہ مںصوص سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے مردود اور اپنے سے الگ جانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اٹلی کے قائد اور پیشوا مسولینی نے حکم دیا تھا کہ اس کا نمائندہ ادارہ مجلس اقوام سے نکل آئے۔ اس کا عذر یہ تھا کہ میرے لیے باعث ننگ ہے کہ میرا نمائندہ ایسے مجمع میں بیٹھے جہاں حبشی سیاہ فاموں کا نمائیندہ بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن اسلام کے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) نے چودہ سو برس پہلے) بلال سیاہ و حبشی کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا بلال ! یعنی اے بلال میرے سامنے قرآن پڑھو اور مجھ کو شاد و مسرور کرو ۔ اب ناظرین محترم انصاف کریں اور دیکھیں کہ تفاوت راہ کہاں تک ہے۔

۴۵

جیسے مسلمانوں میں سے غلات از قبیل سائیبہ ، خطابیہ، غرابیہ، علیادیہ مخمہ وبزیفیہ اور انہیں کے امثال جیسے نصیریہ جو ایران کے بعض شہروں اور قریوں اور دوسرے بلاد میں مثل موصل اور شام کے اہل حق کے نام سے متفرق طور پر آباد ہیں۔

شیعہ بالعموم ان سے علیحدہ اور ان کو کافر و مرتد اور نجس سمجھتے ہیں ۔ فقہ کی ساری کتابوں اور عملیہ رسالوں میں فقہائے امامیہ نے غلات کو کافروں میں شمار کیا ہے کیونکہ وہ لوگ بے شمار فاسد عقیدوں کے حامل ہیں جن میں سے کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ جسم کے قالب میں روح کا ظہور محال نہیں ہے ۔ جیسے کہ جبرائیل وحبہ کلبی کی صورت میں پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر ہوتے تھے۔لہذا خدا کی حکیمانہ مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ذات اقدس انسانی قالب میں ظاہر ہو چنانچہ علی(ع) کی صورت اور جسم میں نمایاں ہوا، اسی سبب سے علی(ع) کی منزل کو رسول اﷲ(ص) کی مقدس منزل سے بلند تر سمجھتے ہیں اور خود انہیں حضرت کے زمانے میں شیاطین جن و انس کے بہکانے سے ایک جماعت اس عقیدے کی قائل تھی۔ ہند اور سوڈان کے باشندون کی ایک جماعت آئی اور اس نے آپ کی الوہیت کا اقرار کیا۔ حضرت نے ہر چند ان لوگوں کو نصیحت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار جس طریقے سے کہ کتب اخبار میں درج ہے آپ کے حکم سے دھویں کے کنووں میں ہلاک کردئیے گئے۔ چنانچہ اس قبیلے کی مفصل تشریح علامہ جلیل ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیف بحار الانوار جلد ہفتم میں لکھی ہوئی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین سلام اﷲ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مثلا جو ہماری معتبر کتابوں میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ کہ فرمایا :

" اللَّهُمَّ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنَ الْغُلَاةِ كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنَ النَّصَارَى اللَّهُمَّ اخْذُلْهُمْ أَبَداًوَ لَا تَنْصُرْ مِنْهُمْ أَحَداً."

یعنی خداوندا میں گروہ غلات سے بری ہوں ۔ جیسے عیسی بن مریم نصاری سے بیزار تھے ۔ خداوندا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار رکھ۔ اور ان میں سے کسی کی مدد نہ فرما۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِمَّنْ يَغْلُو فِينَا وَ يَرْفَعُنَا فَوْقَ حَدِّنَا كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع مِنَ النَّصَارَى "

یعنی میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوتے ہیں اورمیرے ذمے کوئی گناہ نہیں ہے (یعنی چونکہ میں ان کے عمل سے راضی نہیں لہذا گنہگار نہیں ہوں) ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو میری محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بلا سبب مجھ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں یقینا میں ان لوگوں سے خدا کی طرف بیزاری اختیار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ہم کو ہماری حد سے بڑھاتے ہیں جس طرح سے عیسی بن مریم(ع) نے ںصاری سے بیزاری اختیار کی۔

۴۶

نیز فرمایا ہے۔" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ. " ( یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، ایک ایسے دوست جو محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ دشمن جو مجھ کو میری منزل سے گھٹاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ہر اس شخص سے بیزاری اختیار کرتے ہیں جو نظم و نثر میں امیرالمومنین (ع) اور ان کے اہل بیت اطہار (ع) کے لیے غلو کرے اور مقام تعریف میں ان کو منزل سے بلند قرار دے جو خدا و رسول(ص) نے ان کے لیے معین فرمائی ہے اور بندگی سے خدائی پر پہنچا دے جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ غالی اور ملعون ہیں۔ آپ اثنا عشریہ شیعہ امامیہ جماعت کا معاملہ ان سے الگ سمجھئے کیونکہ غالی فرقوں کے کفر و نجاست پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے اور اگر آپ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں جیسے جواہر الکلام اور مسالک وغیرہ اور عملیہ رسالوں جیسے مرحوم آیتہ اﷲ یزدی قدس سرہ کی عروة الوثقی اور آیتہ اﷲ اصفہانی اعلی اﷲ مقامہ کی وسیلہ النجات کے باب طہارت باب زکوة ، باب ازدواج اور باب ارث کی طرف رجوع کریں تو ہمارے فقہاء کے فتوے ان لوگوں کے کفر ونجاست پر ملیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سب نے یہی فتوی دیا ہے کہ ان کے غسل و دفن میں شرکت جائز نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ( باوجودیکہ متعہ کی صورت سے اہل کتاب کیساتھ تزویج کو جائز جانتے ہیں۔) اور مسلمانوں کا حق وراثت ان کو نہیں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو صدقات و زکوة کادینا بھی ممنوع ہے۔

فرقہ ناجیہ شیعہ کی فن کلام اور عقائد کی کتابوں میں تفصیل اور استدلالی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرقہ فاسد اور کافر ہے ہر مسلمان پر اور خاص طور سے خالص العقیدہ شیعوں پر ان سے تبرا اور بیزاری واجب و لازم ہے۔

غلات کی مخالفت اور رد میں آیات و اخبار سے کافی مضبوط اور مکمل دلیلیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے ۔ سورہ نمبر5( مائدہ) آیت نمبر81 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَ أَضَلُّوا كَثيراً وَ ضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبيلِ "( المائدة ، 77 )

یعنی کہہ دو( اے رسول(ص)) کہ اے اہل کتاب غلو مت کرو اپنے دین میں کہ وہ حق نہیں ہے اور اس قوم کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے بہتوں کو گمراہ کردیا اور راہ راست سے دور جا پڑے۔

مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار جلد سوم میں ( جو شیعہ امامیہ فرقے کا دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ، ان کی مذمت اور ان لوگوں کے مدعا سے خاندان رسالت کے دور ہونے میں بہت سی روائتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ فرمایا :

" و ما نحن الا عبيد الذي خلقنا و اصطفانا، ما لنا على اللّه من حجة، و لا معنا من اللّه براءة، و انا لميتون، و موقوفون، و

۴۷

مسئولون، من احب الغلاة فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبنا الغلاة كفّار و المفوضة مشركون، لعن اﷲ الغلاة ۔۔۔۔۔۔ "

( خلاصہ مطلب یہ کہ ہم اس خدا کے بندے ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا اور مخلوقات میں سے منتخب کیا۔ در حقیقت غالیوں کو دوست رکھے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو شخص ان کو دشمن رکھے وہ ہمارا دوست ہے غلات کافر اور ملفوضہ مشرک ہیں۔ خدا کی لعنت ہو غلات پر)

نیز انہیں حضرت سے شیعوں کے ایک بڑے پیشوا نے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" لعن اللّه عبد اللّه بن سبأ إنه ادّعى الربوبية في أمير المؤمنين و كان و اللّه أمير المؤمنين عبدا للّه طائعا، الويل لمن كذب علينا، و إن قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ إلى اللّه منهم نبرأ إلى اللّه منهم "

(یعنی لعنت خدا کی، عبداﷲ بن سبا پر جس نے امیرالمومنین (ع) کےلیے ربوبیت اور خدائی کا دعوی کیا ۔ خدا کی قسم وہ حضرت خدا کے مطیع بندے تھے ، وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے ہم پر افترا کیا، ایک گروہ ہمارے بارےمیں وہ باتیں کہتا ہے جو ہم خود اپنے بارےمیں نہیں کہتے ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ، ان سے خدا کی طرف ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ان سے خدا کی طرف۔

صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی قدس سرہ نے جو جلیل القدر فقہائے امامیہ میں سے ہیں کتاب عقائد میں ایک روایت زرارہ بن اعین سے جو موثق شیعہ راوی ، حافظ علم اہل بیت(ع) اور حضرت باقر العلوم و صادق آل محمد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداﷲ بن سبا کی اولاد میں سے ایک شخص تفویض کا قائل ہے ۔ فرمایا تفویض کیا؟ میں نے عرض کیا وہ کہتا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ عَلِيّاً- عَلَيْهِ السَّلَامُ- ثُمَّ فَوَّضَ الْأَمْرَ إِلَيْهِمَا، فَخَلَقَا، وَ رَزَقَا، وَ أَحْيَيَا، وَ أَمَاتَا."

( یعنی خدائے عزوجل نے محمد (ص) و علی(ع) کو پیدا کیا پھر بندوں کے امور ان کے سپرد کردئیے چنانچہ وہی خالق ہیں وہی رازق ہیں وہی زندہ کرتے ہیں ۔ وہی مارتے ہیں ) حضرت نے فرمایا کذب واﷲ جھوٹ بولتا ہے دشمن خدا جب تم پلٹ کر اس کے پاس جاؤ تو سورہ رعد کی یہ آیت پڑھو :

"أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ " ( الرعد ،16)

“ یعنی کیا مشرکین نے خدائے تعالیٰ کے کچھ شریک قرار دیئے کہ خدا کا پیدا کیا ہوا کون اور ان شرکاء کا پیدا کیا ہوا کون ہے۔ کہدو (اے محمد(ص)) کہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ صرف خدائے تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی الوہیت میں یکتا ہے جس کا ارادہ ساری کائنات پر غالب ہے۔”

یہ آیت خود توحید باری تعالی کی تصریح کر رہی ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں اس کے پاس گیا اور یہ آیت حسبِ

۴۸

ارشاد امام(ع) میں نے اس کے سامنے پڑھی تو گویا میں نے اس کے منہ پر پتھر مار دیا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا۔

اس طرح کی روایتیں ہماری معتبر کتابوں میں آئمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم اجمعین اور شیعوں کے برحق پیشواؤں کی طرف سے گروہ غلات کے لیے لعن و طعن اور بر کہنے میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس طرح ہم آپ کے علماء کی کتابیں پڑھتے ہیں آپ بھی علمائے شیعہ کی معتبر کتابیں پڑھا کیجئے تاکہ ایسے الفاظ زبان سے نہ نکالیے جو بے چارے عوام کو بہکانے والے ہوں۔ اور آپ بھی خدا کے دربار عدالت میں گرفتار ہوں۔

حضرات محترم! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں ۔ آیا ایسی صورت میں جب کہ ہمارے ائمہ نے اپنے شیعوں کی رہنمائی کے لیے ایسے بیانات ارشاد فرمائے ہیں اور سچے شیعہ علی (ع) واولاد علی(ع) کے پیرو اپنے مقتداؤں سے ان روایتوں کے سنے ہوئے ہیں اس کے بعد بھی ان کو خدا یا خدائی کی جگہ پر قرار دیں گے؟ غالیوں کا گروہ ہم سے بالکل الگ اور ہم ان لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہیں۔ چاہے وہ بظاہر تشیع کا دعوی کریں۔ لیکن خدا اور رسول(ص) علی و اولا علی علیہم السلام سب کےسب ان سے بیزار اور سارے شیعہ بھی ان سے بیزار اورالگ ہیں۔

چنانچہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے رئیس غلات عبداﷲ بن سبا ملعون کو تین روز تک مقید رکھا اور توبہ کا حکم دیا جب اس نے قبول نہ کیا تو مجبورا اس کو آگ میں جلوا دیا۔ آپ کو خدا کے سامنے اس سے شرم آنا چاہئیے کہ آپ کے علماء تعصب و عادت اور اسلاف کی پیروی میں یہ لکھیں کہ تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا یہی عبداﷲ ملعون تھا جو حضرت علی(ع) کے حکم سے جلا دیا گیا۔ حالانکہ علمائے شیعہ نے ساری متعلقہ کتابوں میں اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے عبداﷲ بن سبا کو ملعون بتایا ہے۔ لہذا عبداﷲ کے پیرو بھی ملعون ہیں کیونکہ وہ غلات میں سے ہیں نہ کہ آل محمد(ص) اور عترت طاہرہ پیغمبر(ص) کے محبت خالص شیعوں مین سے اس لیے کہ وہ س خداندان جلیل کے بارے میں غلو کی وہ سے دور اور مطرود ہیں۔

اگر تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا عبداﷲ ملعون ہوتا اور شیعہ اس کے پیرو ہوتے جیسا کہ آپ کے متعصب علماء نے لکھا ہے اور دوسرے ان کی اندھی تقلید کر کے جلسوں میں اس کو نقل کرتے ہیں تو کم سے کم شیعوں کی کسی ایک ہی کتاب میں اس کی کچھ تعریف درج ہونا چاہئیے تھی۔ اگر آپ علماء شیعہ امامیہ کی کسی ایک ایسی کتاب کا پتہ دے دیجئے جس میں عبداﷲ ملعون کی کوئی تعریف کی گئی ہو تو میں آپ کی ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہوں اور اگر یہ پتہ نہ دیں ( اور ہرگز نہیں دے سکتے ہیں) تو روز حساب اور محکمہ عدل الہی سے ڈرئیے ، پاک و موحد شیعوں کو عبداﷲ ملعون کا پیرو نہ کہیئے اور حقیقت کو بیخبر عوام کی نگاہوں میں مشتبہ نہ بنائیے۔

اس کے علاوہ میں آپ سے برادرانہ التماس کرتا ہوں کہ آپ چونکہ اہل علم ہیں لہذا ہمیشہ قاعدہ علم و منطق اور حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائیں اور خلاف عقل و حقیقت باتوں اور بے بنیاد شہرتوں کا سہارا نہ لیں۔

۴۹

جن کو دشمنوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے شیعوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

حافظ : آپ کی برادرانہ نصیحتیں ہر عقلمند کے لیے قابل قبول و توجہ ہیں لیکن اجازت دیجئیے کہ میں بھی فرمائش کے طور پر چند جملے عرض کروں۔

خیر طلب : میں بہت ممنوں ہوں گا فرمائیے!

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود و ملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جارہے ہیں کہ آپ ہی کے بیان کیئے ہوئے قواعد کی روسے وہ حضرات اس قسم امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں۔

خیر طلب : میں خشک و تنگ نظر اور متعصب و جاہل انسان نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا کہ اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش پائی جاتی ہو تو اس کی یاد دہانی فرما دیجئیے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتوں میں جوکچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوکہ ائمہ ہدی علیہم السلام کے خلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرمائیے۔

حافظ : میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کا نام لیتے ہین تو بجائے اس کے کہ رضی اﷲ عنہم کہیں ، سلام اﷲ علیہم اور صلوات اﷲ علیہم کہا ہے در آںحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے :

" إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً" ( الاحزاب، 56 )

یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر کی روح پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو ( اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو) آیت نمبر56 سورہ نمبر133 ( احزاب) سلام اور صلوة صرف رسول خدا(ص) سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانات میں اماموں کے لیے بھی صلوات و سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی ںص صریح کے خلاف ہے۔

آپ کے اوپر جو اعتراض کئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں۔

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ

خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہ رگز کوئ ی عمل نص کے خلاف ن ہ ک یا ہے ن ہ کرت ے ہیں ۔ ہ وا یہ کہ گذشت ہ

۵۰

صد یوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پ یرووں نے ح یلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہ ل بدعت نام زد کرنے ک یلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے ب ڑے ش یعہ علماء نے مکمل جواب د یا اور ثابت کیا ہے ک ہ ہ م ا ہ ل بد عت ن ہیں ہیں ۔ چونک ہ دشمن ک ے ہ ات ھ و ں م یں قلم ہے ل ہ ذا تن ہ ا قاض ی بن کر جو چاہ ت ے ہیں لکھ ت ے ہیں ۔ اس موضوع پر ب ھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔ ل یکن چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے ۔ ل ہ ذا تفص یلی جواب سے قظع نظر کرتا ہ و ں محض اس لئ ے ک ی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے ن ہ ر ہ جائ ے اور حضرات ا ہ ل جلس ہ اور م یرے برادران عزیز کے سامن ے حق یقت امر مشتبہ ن ہ ر ہے مختصر طور س ے عرض کرتا ہ و ں ، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات ب ھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فقط حکم د یا جاتا ہے ک ہ مسلمانو ں کو لازم ہے ک ہ آ ں حضرت (ص) پر صلوات ب ھیجیں ۔

دوسرے جس خدائے بر تر ن ے یہ آیت نازل فرمائی ہے و ہی سورہ 37 (صافات)آ یت 130میں فرماتا ہے ۔ سلام عل ی آل یاسین (یعنی سلام ہ و یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہ م خصوص یات میں سے ا یک یہ بھی ہے ک ہ قرآن مج ید میں ہ رجگ ہ مخصوص طور پر انب یائے کرام پر سلام ہے و ہ ف رماتا ہے ۔ "سلام عل ی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھ ارون" (سور ہ صافات ) ل یکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے ل یئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانب یاء کے جن ک ے لئ ے ارشاد ال ہی ہے ، سلام عل ی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے

آپ کو معلوم ہے ک ہ قرآن مج ید میں پیغمبر(ص)کے بار ہ نامو ں م یں سے پانچ نام امت ک ی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئ ے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبدالل ہ ، نون اور یاسین ہیں ۔ سور ہ نمبر 36 ک ے شروع م یں فرماتا ہے " یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہ ر ی وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔

نواب:- اس کا کیا سبب ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟

خیر طلب :- میں نے عرض ک یا کہ آنحضرت(ص) ک ے عالم معنو ی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ ک یونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پ ہ نچا ہ وا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا

۵۱

ظا ہ ر وباطن یکساں ہ و اور یہ مرتبہ آ ں حضرت (ص) ک ے وجود مق دس کو حاصل تھ ا ،ل ہ ذا حرف "س" ک ے سات ھ اس ح یثیت کا اظہار فرمایا ۔

عام عقلوں س ے قر یب تر بیان یہ ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی کے درم یان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظا ہ ر وباطن برابر ہے اس معن ی سے ک ہ ا ٹھ ائ یس حرفوں م یں سے ہ ر ا یک کے لئ ے علمائ ے علم اعداد ک ے نزد یک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف ک ے زبر و ب یّنہ کا تطابق کرنے م یں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہ وتا ہے یا بیّنہ ۔

نواب :- قبلہ معاف فرمائ یے گا میں جسارت کر رہ ا ہ و ں ۔ چونک ہ م یں گہ ر ے مضام ین کو سمجھ ن ے س ے معذور ہ و ں ل ہ ذا استدعا ہے ک ہ ان راتو ں م یں مطالب کو سادہ اور واضح طر یقے سے ب یان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئ ے لائق توج ہ اور قابل قبول ہ و ں چونک ہ ہ م لوگو ں ن ے زبر وب یّنہ ک ے معن ی نہیں سمجھے ،ل ہ ذا م یں متمنی ہ و ں ک ہ ساد ہ ب یان کے سات ھ وضاحت فرمائ یے تاکہ یہ معمّا حل ہ و جائ ے ۔

خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف ک ی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لک ھی جاتی ہے ا ور بیّنہ سے و ہ ز یادتی ہے جو بولن ے ک ے وقت ظا ہ ر ہ وت ی ہے "س" کاغذ ک ے اوپر ا یک حرف ہے ل یکن تلفظ کے وقت ت ین حرف ہ وجات ے ہیں ۔ س ۔ی ۔ ن ۔ بولن ے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہ وجاتا ہے ۔ اورا ٹھ ائ یس حروف تہ ج ی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے ک ہ حساب ک ی مطابقت کرنے م یں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہ تا ہے "س" ک ے عدد سا ٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے " ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے " ی" کے (10)اور"ن"ک ے (50)مل کر سا ٹھ ہ وئ ے اس ی وجہ سے قرآن مج ید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظا ہ ر و باطن ک ی طرف اشارہ کرت ے ہ وئ ے " یس"کہہ کر مخاطب ک یا ۔یعنی اے و ہ شخص جو ظا ہ ر وباطن دونو ں ح یثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں

اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے ل ہ ذا اس آ یہ مبارکہ م یں فرماتا ہے "سلام عل ی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔

حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو ب یانی سے ثابت کرنا ہ ت ے ہیں ورنہ علماء ک ے درم یان اس کا ذکر نہیں آیا ہے ک ہ آل یا سین پر سلام ہ و ۔

۵۲

خیر طلب :- میں متمنی ہ و ں ک ہ انکار ک ے مواقع پر قطع ی طور سے کوئ ی بات نہ ک ہہ د یا کیجیئے بلکہ ترد ید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب ک ے وقت آپ کو پچ ھ تان ے ک ی ضرورت نہ ہ و ۔ اگر آپ اپن ے علماء ک ی کتابو ں س ے ب ے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے ک ے خلاف سمج ھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں س ے باخبر ہ و ں اور حق س ے من ہ ب ھی نہیں موڑ تا ہ و ں ۔

آپ کے ب ڑے ب ڑے علماء ک ی کتابوں م یں کثرت سے اس معن ی کی طرف اشارہ ک یا گیا ہے ،منجمل ہ ان ک ے متعصب ابن حجر ن ے صواعق محرق ہ ک ے اندر جو آ یات فضائل اہ ل ب یت علیھ م السلام میں نقل کی ہے ان م یں سے ت یسری آیت کے ذ یل میں لکھ ا ہے ک ہ مفسّر ین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خ یر امّت ابن عباس سے نقل ک یا ہے ک ہ "المراد بذالک سلام عل ی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہ ذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لک ھ ت ے ہیں کہ اما م فخر الد ین رازی نے ذکر ک یا ہے ۔ ان اهل بیته صلّی الله علیه وآله وسلّم یساوونه فی خمسة اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایها النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواة علیه علیهم فی التشهد وفی الطهارة قال الله تعالی "طه یا طاهر "وقال " یطهرکم تطهیرا "،و فی تحریم الصدقة ،وفی المحبة قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعونی یحببکم الله وقال قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"

(یعنی رسول کے ا ہ ل ب یت علیھ م السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔ )دوسر ے صلوات م یں تشہ د نماز م یں۔ ت یسرے طہ ارت م یں خدائے تعال ی نے فرمایا ہے ط ہ یعنی اے طا ہ ر اور ان حضرات ک ے بار ے م یں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔ چوت ھے تحر یم صدقہ م یں کیونکہ پیغمبر اور ان کے ا ہ ل ب یت پر صدقہ حرام ہے ،پانچو یں محبت میں ،ک یوں کہ خدائ ے تعال ی نے فرما یا (محمدص) کہہ دو(امت س ے )م یں تم سے کوئ ی اجر اور مزدوری نہیں چاہ تا ہ و ں سوا م یرے ذوی القربی اور اہ لب یت سے محبت ک ے ) ۔

سید ابو بکر بن شہ اب الد ین علوی کتاب "شفتہ الصاد ی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھ اد ی(مطبوعہ مطبع ہ اعلام یہ مصر سنہ 1303 ھ ک ے باب اول صفح ہ 24 پر مفسر ین کی ایک جماعت سے بروا یت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب 2 صفح ہ 42 پر نقل ک یا ہے ک ہ آ یت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفس یر کبیر جلد ہ فتم صفح ہ 163 م یں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آ یت کے معن ی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم م یں کہ ا ہے ک ہ ال یا سین سے مراد آل محمد سلام الل ہ عل یھ م اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرق ہ م یں ذکر کیا ہے ک ہ مفسر ین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل ک یا ہے ، ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "سلام عل ی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔

۵۳

لیکن اہ ل ب یت علیھ م السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فر یقین کے درم یان مسلم ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پ یغمبر نے فرما یا میرے اور میرے اہ ل ب یت علیھ م السلام کے دوم یان صلواۃ میں جدائی نہ ڈ الو ۔

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے

مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق م یں اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء کعب بن عجز ہ س ے نقل کرت ے ہیں کہ جب آ یت "انّ اللہ و ملائکت ہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب 43) ہ وئ ی تو ہ م لوگو ں ن ے عرض ک یا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرن ے کا طر یقہ تو ہ م کو معلوم ہ وا ل یکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت ن ے فرما یا صلوات اس طریقے سے ب ھیجو" اللھ م صلّ عل ی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے ک ہ "کما صلّ یت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 797 م یں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) س ے لوگو ں ن ے سوال ک یا کہ ہ م آپ پر کس طرح س ے صلوا ۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرما یا کہ و " اللهم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراهیم وعلی آل ابرا هیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انّک حمید مجید.

اور ابن حجر نے ت ھ و ڑے س ے لفظ ی اختلاف کے سات ھ یہی روایت حاکم سے نقل ک ی ہے اس ک ے بعد اپن ے عق یدے اوررائے کا اظ ہ ار کرت ے ہ و ے ک ہ ت ے ہیں ۔ "وف یہ دلیل ظاھ ر عل ی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھ ل ی ہ وئ ی دلیل ہے ک ہ پ یغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئ ے ہے ۔ ن یز روایت کی ہے ک ہ فرما یا "لا تصلّوا علیّ الصلواة البتراء" یعنی مجھ پر بترا اور دم بر یدہ صلوات نہ ب ھیجو لوگوں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ صلوا ۃ بتراء کون ہے ؟ فرما یا اگر کہ و "اللھ م صلّ عل ی محمد "لہ ذا یوں کہ و"الل ھ م صلّ عل ی محمدو علی آل محمد۔

اس کے علاو ہ د یلمی نے نقل ک یا ہے ک ہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حت ی یصلی علی محمد وآلہ " ۔ دعا پرد ے م یں رہ ت ی ہے (اور قبول ن ہیں ہ وت ی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ ب ھیجیں ۔ اور اما م شافع ی سے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا :

۵۴

یا اهل بیت رسول الله حبکم ----- فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم ----- من لم یصل علیکم لا صلواة له

(یعنی اے ا ہ ل ب یت رسول اللہ (ص) تم ہ ار ی دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تم ہ ار ی بزرگی ،منزلت اور مرتبے ک یلئے یہی کافی ہے ک ہ جو شخص تم پر صلوا ۃ نہ ب ھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہ وت ی ، شافعی کی مراد تشہ د نماز م یں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کرد یں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)

رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد ک ے پ یش نظر کہ "الصلواة عمود الدین ان قبلت قبل ما سواها وان ردّت ردّ ما سواها "( یعنی نماز دین کا نگہ بان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہ وجائ ے تو اس ک ے علاو ہ دوسر ے تمام اعمال ب ھی قبول ہ وجات ے ہیں ، اور اگر نماز رد ہ وجائ ے تو دوسر ے اع مال بھی رد ہ وجات ے ہیں ۔ تمام اعمال ک ی قبولیت نماز سے وابست ہ ہے اور جو روا یتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہ وئ ے نماز ک ی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے ج یسا کہ شافع ی نے خود اقرار ک یا ہے ۔

سید ابو بکر شہ اب الد ین نے کتاب "شفت ہ الصاد ی من بحر فضائل بنی النبی الہ اد ی"باب 2 میں صفحہ 29-35 تک محمد وآل محمد پر صلوات ب ھیجنے کے وجوب م یں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائ ی سے دارقطن ی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوس ی سے ان ہ و ں ن ے ابو اسحاق مروزی اور سمہ ود ی سے ، نوو ی نے تنق یح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل ک یا ہے ک ہ نماز ک ے تش ہ د م یں محمد صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم ک ے نام مبارک ک ے بعد آل محمد پر صلوات ب ھیجنا واجب ہے ۔

چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ل ہ ذا مفصل ب یان سے قطع نظر کرتا ہ و ں اور ف یصلہ آپ حضرات کے پاک ضم یر پر چھ و ڑ تا ہ و ں ۔

چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ ا ہ ل ب یت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ا یسی عبادت ہے جس ک ے لئ ے خود رسول (ص) ک ی تاکید ہے اور اس ک ی حقیقت سے کوئ ی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھ م الل ہ )ک ے جن ہ و ں ن ے اصل ی بات کو برادران اہ ل سنت ک ی نگاہ و ں پر مشتب ہ بنا د یا ہے اور بنات ے ر ہ ت ے ہیں ۔

یہ بدیہی بات ہے ک ہ جو ہ ست یاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قر یب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر ق یاس کرنا اور دوسروں کو ان ک ے اوپر ترج یح دینا سوا سفاہ ت اور ج ہ الت یا تعصب کے وب ے خبر ی کے اور ک یا ہے ؟

اس موقع پر چونکہ آدھی رات گزرچکی تھی۔ اور بعض حاضرین جلسہ کے چہروں پر کسل مندی کے

۵۵

آثار ظاہر تھے ۔ لہذا ہم لوگوں نے نشست کو ختم کردیا اور چائے نوشی اور اس اقرار کے بعد کہ کل شب میں ذرا سویرے تشریف لائینگے سب حضرات متفرق ہوگئے -

تیسری نشست

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ

ہم لوگ نماز مغرب سے فارغ ہوچکے تو مولوی صاحبان تشریف لے آئے اور معمولی صاحب سلامت کے بعد چاء نوش میں مشغول ہوئے میں بھی نماز عشاء ختم کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ ان حضرات کی گفتگو سننے کے لیے حاضر ہوا۔

حافظ : قبلہ صاحب کا شب میں جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے تو میں نے اپنے کو بہت ملامت کی کہ ہم دوسری قوموں کے عقائد میں اس لیے زیادہ غور فکر نہیں کرتے اور (بقول آپ کے) صرف بعض متعصب لوگوں کی کتابوں پر اکتفا کر لیتے ہیں جس سے حقیقت ہم پر ظاہر نہیں ہوتی۔

خیر طلب : جیسا کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر5( انعام ) ، آیت ص150 میں ارشاد فرمایا ہے کہ قل ﷲ الحجة البالغہ ۔ (1) کل شب کی نشست بھی خدائی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ حضرات ابتدائے صحبت ہی میں کسی قدر اپنی عادت سے ہٹ کے اور دیدہ انصاف و علم و عقل کے ساتھ میری گزارش پر توجہ کر کے یہ جان لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں وہ علم عقل اور منطق و حقیقت کی میزان پر تلا ہوا ہے۔اور جو

باتیں پہلے سے آپ حضرات کے سمع مبارک میں پہنچائی گئی ہیں، اور جنہوں نے آپ کے ذہن کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے اور خود غرض متعصب لوگوں کے عناد اور ضد کا نتیجہ ہیں۔

میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ ان جلسوں میں میرا نظر یہ قطعی طور پر یہ نہیں ہے ۔ کہ گفتگو میں خود غالب رہوں اور آپ حضرات کو مغلوب کروں بلکہ ہمیشہ کی طرح میرا مقصد اور نقطہ نظر حریم تشیع کی طرف سے دفاع اورحق و حقیقت کو نمایاں کرنا ہے۔

حافظ : کل شب کے بیانات میں آپ کے فقرات سے ظاہر ہوا کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں، تو آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ کہدو اے پیغمبر کہ خدا کے لیے کامل حجت ہے۔

۵۶

شیعوں کے کس طبقے کو برحق اور ان کے اقوال و عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر ممکن ہوتو مطلب واضح ہونے کے کیے ان طبقات کو بیان فرمائیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کس گروہ کے بارے میں ہم کو بحث کرنا چاہیے۔

خیرطلب : میں نے گذشتہ شب میں یہ تو عرض نہیں کیا ہے کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں بلکہ شیعہ کی جس معنی کے ساتھ میں نے تشریح کی ہے یعنی خدا و رسول(ص) کے فرمانبردار بندے اورآں حضرت(ص) کے حکم سے خاندان رسالت کے پیرور دہ ایک طبقے سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ چند شعبدہ باز فرقوں نے تشیع کے نام پر اپنی نمائش کر کے بے خبر جاہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ مقدس شیعہ نام سے غلط فائدہ اٹھایا اور باطل عقائد بلکہ کفر و بے دینی کو اس نام سے لوگوں کے درمیان رائج کیا لہذا نا واقف اشخاص نے جو حقائق کی تشخیص نہٰیں کرتے ہیں تاریخ میں لفظ شیعہ سے ان کو موسوم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے بنیادی طبقے چار ہیں جن میں صرف دو باقی رہ گئے ہیں اور دو بالکل فنا ہوچکے ہیں۔ اور ان کے ہر طبقے سے اور دوسرے فرقے پیدا ہوئے ان چار فرقوں سے مراد ہیں زیدیہ ، کیسانیہ، قداحیہ اور غلات۔

عقائد زیدیہ

پہلا فرقہ زیدیہ ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو زید ابن علی ابن الحسین علیہما السلام کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد زید کو امام مانتے ہیں ، زیدیہ فرقے والے فی الحال یمن اور اس کے اطراف میں کثرت سے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو علوی اور فاطمی شخص عالم و زاہد اور شجاع ہو ، اس کے علاوہ تلوار کے ساتھ خروج کرے اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے وہ امام ہے اور چونکہ جناب زید نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے زمانہ خلافت میں بنی امیہ کے ظلم اور چیرہ دستی کی وجہ سے کوفہ میں خروج کیا اور شربت شہادت نوش فرمایا۔ جیسا کہ پرسوں کی شب میں میں نے ایک موقع پر ان بزرگواروں کی مفصل کیفیت عرض کی ہے۔ لہذا ان کو امام سمجھ کر ان کی پیروی اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ جناب زید کی منزل اس سے کہیں الگ ہے کہ ان کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ جناب زید بنی ہاشم کے بزرگ سادات میں سے تھے۔ زہد، علم، فضل ، فہم، دینداری، پرہیزگاری، عبادت ، شجاعت اور سخاوت میں قوم کے اندر نمایاں اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔

رسول اکرم(ص) آں جناب کی خبر شہادت دے چکے تھے جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

" وضع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يده على صلبي فقال: يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يقتل شهيدا إذا كان يوم القيامة يتخطّى هو و أصحابه رقاب الناس، فيدخلون الجنة "

( یعنی رسول اﷲ(ص) نے اپنا دست مبارک میری پشت پر رکھا اور فرمایا کہ اے حسین(ع)

۵۷

عنقریب تمہاری صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا۔ جس کا نام زید ہوگا وہ شہید قتل ہوگا۔ اور جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اور اس کے اصحاب لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت میں داخل ہوں گے۔)

( اور یہ بدیہی بات ہے کہ اصحاب سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خروج کے موقع پر ظلم بنی امیہ کے مقابلے میں ان جناب کے ہمراہ مقاومت کی لیکن خود جناب زید نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔ اور یہ ایک تہمت ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ورنہ وہ خود اپنے کو اپنے برادر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا تابع اور مطیع سمجھتے تھے۔ البتہ ان جناب کے بعد چند شعبدہ باز اس اصول کے قائل ہوگئے کہ:

"ليس الامام من جلس في بيته و أرخى عليه ستره، بل الامام كل فاطمي عالم صالح ذي رأي يخرج بالسيف."

( یعنی وہ شخص اور امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ رہے اور اپنے کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے بلکہ ہر وہ عالم، صالح اور صاحب رائے فاطمی امام ہے۔جو خروج بہ شمشیر کرے۔)

لوگوں کو آپ کی امامت کی طرف دعوت دی اور نئی نئی شکلیں ایجاد کر کے اپنے مقاصد حل کرنے کے لیے ایک وکان کھول دی یہ لوگ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ۔ مغیریہ ، جارودیہ، ذکریہ، خشییہ اور خلقیہ۔

عقائد کیسانیہ

دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے یہ لوگ کیسان غلام و آزاد کردہ علی ابن ابی طالب کے اصحاب شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ حسنین علیہما السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند محمد ابن حنفیہ کی امت کے قائل تھے ۔ لیکن جناب محمدخود ایسا دعوی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کو سید لتابعین کہا جاتا تھا اور علم زہد ورع و تقوی اور امر مولیٰ کی اطاعت میں مشہور تھے بعض بازی گروہ نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مخالفتوں کے قضیہ کو حیلہ بنایا اور آپ کے دعوی امامت کی دلیل قرار دیا ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ نہیں تھی کہ آپ امامت کے مدعی تھے بلکہ ان مخالفتوں سے جناب محمد کا مقصود امام چہارم حضرت سید سجاد علیہ السلام کی منزل ظاہر کرتا تھا تاکہ اس طریقہ سے اپنے جاہل مریدین اور سادہ لوح معتقدین کو متوجہ فرما دیں کہ میں اس منصب پر فائز نہیں ہوں چنانچہ اسی مسجد الحرام کے اندر حجر اسود کے سامنے ثبوت حق اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حجر اسود کے اقرار کے بعد جیسا کہ کتب اخبار و تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابو خالد کابلی نے ان جناب کے معتقدین کا راس و رئیس تھا محمد حنیفہ کو امام ماننے والوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان جناب کی پیروی کرتے ہوئے امامت حضرت سید سجاد علیہ السلام کا اعتراف کیا، لیکن چند مکاروں نے بے عقل اور بے خبر عوام کے ایک گروہ کو اسی عقیدے پر باقی رکھا۔ اور

۵۸

بہانہ یہ بنایا کہ جناب محمد نے انکسار سے کام لیا ہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں سیاست کا یہی تقاضا بھی تھا ورنہ ان کی امامت مسلم ہے آپ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ اس پر جمے رہے اور کہا کہ جناب محمد مرے نہیں بلکہ جبل رضوی کے غار میں پوشیدہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و داد سے بھر دیں گے ۔ ان کے چار فرقے تھے۔ مختاریہ، کربیہ، اسحاقیہ اور حربیہ، لیکن آج اس عقیدے پر کوئی شخص باقی نہیں ہے۔

عقائد قداحیہ

تیسرا گروہ قداحیہ ہے ان لوگوں کے مذہب کی بنیاد بظاہر تشیع مگر باطنا محض کفر ہے۔ اس مذہب کی اصل تشکیلات میمون ابن سالم یا ( ویصان) معروف بہ قداح اور عیسی جہار لختان کے ہاتھوں مصر میں شروع ہوئیں اور انہوں نے قرآن مجید و اخبار میں اپنی خواہش کے مطابق تاویلات کا دروازہ کھولا ۔ شریعت کے لیے ایک ظاہر اور ایک باطن قرار دیا اور کیا کہ باطن شریعت کی خدا نے پیغمبر کو پیغمبر نے علی(ع) کو انہوں نے اپنے فرزندوں کو اور خالص شیعوں کو تعلیم دی۔ ان کا قول ہے کہ جن لوگوں نے باطن شریعت کو سمجھ لیا وہ ظاہری طاعت و عبادت ی قید سے آزاد اوربے فکر ہوگئے۔

انہوں نے مذہب کی بنیاد سات ستونوں پر قائم کی۔ سات پیغمبروں کے معتقد ہیں۔ سات امام مانتے ہیں اور ساتویں امام کا غائب جانتے ہیں۔ اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ یہ دو جماعتوں پر متقسم تھے۔

ناصریہ : مذہب خسرو علوی کے اصحاب جنہوں نے اپنے اشعار و گفتار اور کتابوں میں شیعہ کے نام پر بہت سے لوگوں کو کفر و الحاد کی طرف کھینچ لیا اور طبرستان میں کافی پھیلے ہوئے تھے۔

صباحیہ : یہ دوسری جماعت حسن صباح کے اصحاب تھے جو در اصل معرکا باشندہ تھا لیکن ایران میں آکر قزوین کے اندر واقعہ اسفناک اور الموت کا فتنہ عظیم پرپا کیا اور بکثرت قتل و خونریزی کا باعث بنا جس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے لیکن اس مختصر مجلس میں اس کے مفصل تاریخی حالات بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔

عقائد غلات

چوتھی جماعت غالیہ ہے جو تمام قوموں اور فرقوں سے زیادہ پست ہے یہ لوگ تشیع کے نام سے مشہور ہوگئے لیکن یہ سب کےسب کافر نجس اور فاسد و مفسد ہیں ان کے اصلی فرقے سات میں سبائیہ، منصوریہ، غرابیہ،

۵۹

بزیعینہ، یعقوبیہ، اسماعیلیہ، اور ازدریہ، ان کے حالات اور پیدائش کی تشریح کل کی شب میں مقتضائے مجلس کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کرچکا ہوں ۔ ہم شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی پوری ملت بلکہ دنیا کے سارے مسلمان ان سے اور ان کے عقائد سے بیزار ہیں ہم ان کو ہر نجس سے زیادہ نجس کافر ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں۔

کفر والحاد کے قاعدے پر جو عقیدہ بھی صراحتہ یا کنایة شیعوں کے نام سے زبانوں پر مشہور اور بعض کتابوں میں عمدا یا سہوا درج ہوا ہے، وہ زیادہ تراسی گروہ سے ہے جو اپنے کو شیعہ علی کہتا ہے لیکن جماعت شیعہ امامیہ اثنا عشریہ جو دنیا میں اسی کروڑ سے زیادہ تعداد کے مالک ہے ان فاسد عقائد سے دور ہے بلکہ اصلی دین، پاکیزہ مذہب اور شریعت کا لب لباب جو باب علم رسول امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے حاصل ہوا ہے انہیں لوگوں کے پاس ملتا ہے۔

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ

پانچواں گروہ شیعہ امامیہ اور فرقہ فقہ اثناعشریہ ہے جو عقل و نقل کے مطابق شریعت کے لب و لباب کا حامل ہے اور در اصل حقیقی شیعہ یہی لوگ ہیں اور وہ چار فرقے فرضی شیعہ ہیں۔

ان میں حقیقی شیعوں کے اعتقاد کا خلاصہ فہرست کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ بعد کو ان کی طرف غلط باتیں منسوب نہ کیجئے۔

شیعہ امامیہ کی پوری جماعت ذات واجب الوجود خداوند جل و علا کا اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ ایسا واحد یکتا ہے جو اپنا شبیہ و عدیل اور نظیر نہیں رکھتا نہ جسم ہے نہ صورت نہ جوہر ہے نہ عرض ، جملہ صفات مکانیہ سے مبرا و معرا ہے بلکہ سارے اعراض و جواہر کا خالق ہے اور خلق موجودات اور ان پر فیوض نازل کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بعض عارفین نے پروردگار کی صفات سلبیہ کو شعر میں اس طرح نظم کیا ہے۔

نہ مرکب بود نہ جسم نہ جوہر نہ عرضبے شریک است و معانی تو غنی داں خالق

چونکہ ذات واجب الوجود ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ دیکھا جا سکے اور دوسری طرف مخلوق کی ہدایت و رہنمائی بھی ضروری تھی۔ لہذا قوم انسانی سے معیار کے لحاظ سے کامل انبیاء و مرسلین منتخب کر کے ہر زمانہ والوں کے حالات و ضروریات کے مطابق دلائل و براہین ، معجزات ، بینات اور کافی ہدیات سپرد کر کےبھیجے ۔ جن کی تعداد بہت اور بے شمار ہے یہ سب کے سب ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں کے احکام کے ماتحت

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

وآيَةً مُحْكَمَةً تَزْجُرُ عَنْه أَوْ تَدْعُو إِلَيْه - فَرِضَاه فِيمَا بَقِيَ وَاحِدٌ وسَخَطُه فِيمَا بَقِيَ وَاحِدٌ - واعْلَمُوا أَنَّه لَنْ يَرْضَى عَنْكُمْ بِشَيْءٍ سَخِطَه - عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - ولَنْ يَسْخَطَ عَلَيْكُمْ بِشَيْءٍ رَضِيَه مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وإِنَّمَا تَسِيرُونَ فِي أَثَرٍ بَيِّنٍ - وتَتَكَلَّمُونَ بِرَجْعِ قَوْلٍ قَدْ قَالَه الرِّجَالُ مِنْ قَبْلِكُمْ - قَدْ كَفَاكُمْ مَئُونَةَ دُنْيَاكُمْ وحَثَّكُمْ عَلَى الشُّكْرِ - وافْتَرَضَ مِنْ أَلْسِنَتِكُمُ الذِّكْرَ.

الوصية بالتقوى

وأَوْصَاكُمْ بِالتَّقْوَى - وجَعَلَهَا مُنْتَهَى رِضَاه وحَاجَتَه مِنْ خَلْقِه - فَاتَّقُوا اللَّه الَّذِي أَنْتُمْ بِعَيْنِه ونَوَاصِيكُمْ بِيَدِه - وتَقَلُّبُكُمْ فِي قَبْضَتِه - إِنْ أَسْرَرْتُمْ عَلِمَه وإِنْ أَعْلَنْتُمْ كَتَبَه - قَدْ وَكَّلَ بِذَلِكَ حَفَظَةً كِرَاماً لَا يُسْقِطُونَ حَقّاً ولَا يُثْبِتُونَ بَاطِلًا - واعْلَمُوا أَنَّه( مَنْ يَتَّقِ الله يَجْعَلْ لَه مَخْرَجاً ) مِنَ الْفِتَنِ - ونُوراً مِنَ الظُّلَمِ ويُخَلِّدْه فِيمَا اشْتَهَتْ نَفْسُه - ويُنْزِلْه مَنْزِلَ الْكَرَامَةِ

ہو یا کوئی محکم آیت نہ نازل کردی ہو جس کے ذریعہ روکا جائے یا دعوت دی جائے۔اس کی رضا اورناراضگی مستقبل میں بھی ویسی ہی رہے گی جس طرح وقت نزول تھی ۔اور یہ یاد رکھو کہ وہ تم سے کسی ایسی بات پر راضی نہ ہوگا جس پر پہلے والوں سے ناراض ہو چکا ہے اور نہ کسی ایسی بات سے ناراض ہو گا جس پر پہلے والوں سے راضی رہ چکا ہے تم بالکل واضح نشان قدم پر چل رہے ہو اور انہیں باتوں کو دہرا رہے ہو جو پہلے والے کہہ چکے ہیں۔اس نے تمہیں دنیا کی زحمتوں سے بچا لیا ہے اور تمہیں شکر پرآمادہ کیا ہے اور تمہاری زبانوں سے ذکر کامطالبہ کیا ہے۔

تمہیں تقویٰ کی نصیحت کی ہے اور اسے اپنی مرضی کی حد آخر قراردیا ہے اور یہی مخلوقات سے اس کا مطالبہ ہے لہٰذا اس سے ڈرو جس کی نگاہ کے سامنے ہو اور جس کے ہاتھوں میں تمہاری پیشانی ہے اور جس کے قبضہ قدرت میں کروٹیں بدل رہے ہو کہ اگر کسی بات پر پردہ ڈالنا چاہو تو وہ جانتا ہے اور اگر اعلان کرنا چاہو تو وہ لکھ لیتا ہے اورتمہارے اوپر محترم کاتب اعمال مقرر کردئیے ہیں جو کسی حق کو ساقط نہیں کر سکتے ہیں اور کسی باطل کوثبت نہیں کر سکتے ہیں اوری ادرکھو کہ جو شخص بھی تقویٰ الٰہی اخیار کرتا ہے پروردگار اس کے لئے فتنوں سے باہر نکل جانے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے تاریکیوں میں نور عطا کر دیتا ہے اسے نفس کے تمام مطالبات کے درمیان دائمی زندگی عطا کر تا ہے اور کرامت کی منزل میں نازل کرتا

۳۴۱

عِنْدَه فِي دَارٍ اصْطَنَعَهَا لِنَفْسِه - ظِلُّهَا عَرْشُه ونُورُهَا بَهْجَتُه - وزُوَّارُهَا مَلَائِكَتُه ورُفَقَاؤُهَا رُسُلُه - فَبَادِرُوا الْمَعَادَ وسَابِقُوا الآجَالَ - فَإِنَّ النَّاسَ يُوشِكُ أَنْ يَنْقَطِعَ بِهِمُ الأَمَلُ ويَرْهَقَهُمُ الأَجَلُ - ويُسَدَّ عَنْهُمْ بَابُ التَّوْبَةِ - فَقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي مِثْلِ مَا سَأَلَ إِلَيْه الرَّجْعَةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وأَنْتُمْ بَنُو سَبِيلٍ عَلَى سَفَرٍ مِنْ دَارٍ لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ - وقَدْ أُوذِنْتُمْ مِنْهَا بِالِارْتِحَالِ وأُمِرْتُمْ فِيهَا بِالزَّادِ واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ لِهَذَا الْجِلْدِ الرَّقِيقِ صَبْرٌ عَلَى النَّارِ - فَارْحَمُوا نُفُوسَكُمْ - فَإِنَّكُمْ قَدْ جَرَّبْتُمُوهَا فِي مَصَائِبِ الدُّنْيَا.

أَفَرَأَيْتُمْ جَزَعَ أَحَدِكُمْ مِنَ الشَّوْكَةِ تُصِيبُه - والْعَثْرَةِ تُدْمِيه والرَّمْضَاءِ تُحْرِقُه - فَكَيْفَ إِذَا كَانَ بَيْنَ طَابَقَيْنِ مِنْ نَارٍ - ضَجِيعَ حَجَرٍ وقَرِينَ شَيْطَانٍ - أَعَلِمْتُمْ أَنَّ مَالِكاً إِذَا غَضِبَ عَلَى النَّارِ - حَطَمَ بَعْضُهَا بَعْضاً لِغَضَبِه - وإِذَا زَجَرَهَا تَوَثَّبَتْ بَيْنَ أَبْوَابِهَا جَزَعاً مِنْ زَجْرَتِه!

أَيُّهَا الْيَفَنُ الْكَبِيرُ الَّذِي قَدْ لَهَزَه الْقَتِيرُ - كَيْفَ أَنْتَ إِذَا الْتَحَمَتْ أَطْوَاقُ النَّارِ بِعِظَامِ الأَعْنَاقِ

ہے۔اس گھرمیں جس کو اپنے لئے پسند فرماتا ہے جس کا سایہ اس کاعرش ہے اورجس کا نور اس کی ضیا ہے۔ اس کے زائرین ملائکہ ہیں اور اس کے رفقاء مرسلین۔اب اپنی باز گشت کی طرف سبقت کرو اور موت سے پہلے سامان مہیا کرلو کہ عنقریب لوگوں کی امیدیں منقطع ہو جانے والی ہیں اور موت کا پھندہ گلے میں پڑ جانے والا ہے جب توبہ کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ابھی تم اس منزل میں ہو جس کی طرف پہلے والے لوٹ کرآنے کی آرزو کر رہے ہیں اور تم مسافر ہو اور اس گھر سے سفر کرنے والے ہو جو تمہارا واقعی گھر نہیں ہے۔تمہیں کوچ کی اطلاع دی جا چکی ہے اور زاد راہ اکٹھا کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے اور یہ یاد رکھو کہ یہ نرم و نازک جلد آتش جہنم کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔لہٰذا خدارا اپنے نفسوں پر رحم کرو کہ تم اسے دنیا کے مصائب میں آزما چکے ہو۔کیا تم نے نہیں دیکھا ہے کہ تمہارا کیا عالم ہوتا ہے جب ایک کانٹا چبھ جاتا ہے یا ایک ٹھوکر لگنے سے خون نکل آتا ہے یا کوئی ریت تپنے لگتی ہے۔تو پھراس وقت کیا ہوگا جب تم جہنم کے دو طبقوں کے درمیان ہوگے۔دہکتے ہوئے پتھروں کے پہلو میں اور شیاطین کے ہمسایہ میں۔کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ مالک (داروغہ جہنم ) جبآگ پرغضب ناک ہوتا ہے تو اس کے اجزاء ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتے ہیں اور جب اسے جھڑکتا ہے تو وہ گھبرا کر دروازوں کے درمیان اچھلنے لگتی ہے۔

اے پیر کہن سال جس پر بڑھا پا چھا چکا ہے۔اس وقت تیرا کیا عالم ہوگا جب جہنم کے طوق گردن کی ہڈیوں

۳۴۲

ونَشِبَتِ الْجَوَامِعُ حَتَّى أَكَلَتْ لُحُومَ السَّوَاعِدِ –

فَاللَّه اللَّه مَعْشَرَ الْعِبَادِ - وأَنْتُمْ سَالِمُونَ فِي الصِّحَّةِ قَبْلَ السُّقْمِ - وفِي الْفُسْحَةِ قَبْلَ الضِّيقِ - فَاسْعَوْا فِي فَكَاكِ رِقَابِكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُغْلَقَ رَهَائِنُهَا - أَسْهِرُوا عُيُونَكُمْ وأَضْمِرُوا بُطُونَكُمْ - واسْتَعْمِلُوا أَقْدَامَكُمْ وأَنْفِقُوا أَمْوَالَكُمْ - وخُذُوا مِنْ أَجْسَادِكُمْ فَجُودُوا بِهَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ - ولَا تَبْخَلُوا بِهَا عَنْهَا فَقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( إِنْ تَنْصُرُوا الله يَنْصُرْكُمْ ويُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ ) - وقَالَ تَعَالَى( مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ الله قَرْضاً حَسَناً - فَيُضاعِفَه لَه ولَه أَجْرٌ كَرِيمٌ ) - فَلَمْ يَسْتَنْصِرْكُمْ مِنْ ذُلٍّ - ولَمْ يَسْتَقْرِضْكُمْ مِنْ قُلٍّ - اسْتَنْصَرَكُمْ ولَه جُنُودُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ وهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - واسْتَقْرَضَكُمْ ولَه خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ - وهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ - وإِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يَبْلُوَكُمْ( أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) - فَبَادِرُوا بِأَعْمَالِكُمْ تَكُونُوا مَعَ جِيرَانِ اللَّه فِي دَارِه -

میں پیوست ہو جائیں گے اور ہتھکڑیاں ہاتھوں میں گڑ کر کلائیوں کا گوشت تک کھا جائیں گی۔

اللہ کے بندو! اللہ کو یاد کرو اس وقت جب کہ تم صحت کے عالم میں ہو قبل اسکے کہ بیمار ہو جائو اور وسعت کے عالم میں قبل اس کے کہ تنگی کا شکار ہو جائو اپنی گردنوں کوآتش جہنم سے آزاد کرانے کی فکر کرو قبل اس کے کہ وہ اس طرح گردی ہوجائیں کہ پھر چڑھائی نہ جا سکیں ۔اپنی آنکھوں کو بیدار رکھو اپنے شکم کو لاغر بنائو اور اپنے پیروں کو راہ عمل میں استعمال کرو۔اپنے مال کو خرچ کرو اور اپنے جسم کو اپنی روح پر قربان کردو۔ خبردار اس راہ میں بخل نہ کرنا کہ پروردگار نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ '' اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عنایت فرمائے گا '' اس نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ '' کون ہے جو پروردگار کو بہترین قرض دے تاکہ وہ اسے دنیا میں چوگنا بنادے اور اس کے لئے بہترین جزا ہے '' تواس نے تم سے کمزوری کی بنا پرنصرت کا مطالبہ نہیں کیا ہے اورنہ غربت کی بنا پر قرض مانگا ہے۔اس نے مطالبۂ نصرت کیا ہے جب کہ زمین و آسمان کے سارے لشکر اسی کے ہیں اور وہ عزیز و حکیم ہے اور اس نے قرض مانگا ہے جب کہ زمین و آسمان کے سارے خزانے اسی کی ملکیت ہیں اور وہ غنی حمید ہے '' وہ چاہتا ہے کہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبارسے سب سے بہتر کون ہے۔اب اپنے اعمال کے ساتھ سبقت کرو تاکہ اللہ کے گھر میں اس کے ہمسایہ کے

۳۴۳

رَافَقَ بِهِمْ رُسُلَه وأَزَارَهُمْ مَلَائِكَتَه - وأَكْرَمَ أَسْمَاعَهُمْ أَنْ تَسْمَعَ حَسِيسَ نَارٍ أَبَداً - وصَانَ أَجْسَادَهُمْ أَنْ تَلْقَى لُغُوباً ونَصَباً -( ذلِكَ فَضْلُ الله يُؤْتِيه مَنْ يَشاءُ والله ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ) .

أَقُولُ مَا تَسْمَعُونَ( والله الْمُسْتَعانُ ) عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ - وهُوَ( حَسْبُنَا ) ( ونِعْمَ الْوَكِيلُ ) !

(۱۸۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للبرج بن مسهر الطائي وقد قال له بحيث يسمعه «لا حكم إلا للَّه»، وكان من الخوارج

اسْكُتْ قَبَحَكَ اللَّه يَا أَثْرَمُ - فَوَاللَّه لَقَدْ ظَهَرَ الْحَقُّ فَكُنْتَ فِيه ضَئِيلًا شَخْصُكَ - خَفِيّاً صَوْتُكَ حَتَّى إِذَا نَعَرَ الْبَاطِلُ نَجَمْتَ نُجُومَ قَرْنِ الْمَاعِزِ.

ساتھ زندگی گزارو۔جہاں مرسلین کی رفاقت ہوگی اورملائکہ زیارت کریں گے اورکان جہنم کیآواز سننے سے بھی محفوظ رہیں گے ا ور بدن کسی طرح کی تکان اورتعب سے بھی دو چار نہ ہوں گے '' یہی وہ فضل خدا ہے کہ جس کو چاہتا ہے عنایت کردیتا ہے اور اللہ بہترین فضل کرنے والا ہے ۔''میں وہ کہہ رہا ہوں جو تم سن رہے ہو۔اس کے بعد اللہ یہ مدد گار ہے میرا بھی اور تمہارابھی اور ویہ ہمارے لئے کافی ہے اوروہی بہترین کار ساز ہے۔

(۱۸۴)

آپ کاارشاد گرامی

(جو آپ نے برج بن مسہر(۱) طائی خارجی سے فرمایا جب یہ سنا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کو فیصلہ کا حق نہیں ہے )

خاموش ہو جا۔خدا تیرا برا کرے اے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے۔خدا شاہد ہے کہ جب حق کا ظہور ہوا تھا تواس وقت تیری شخصیت کمزوراور تیری آواز بیجان تھی۔لیکن جب باطل کی آواز بلند ہوئی تو تو بکری کی سینگ کی طرح ابھر کرمنظر عام پر آگیا۔

(۱)یہ ایک خارجی شاعر تھا جس نے مولائے کائنات کے خلاف یہ آواز بلند کی کہ آپ نے تحکیم کو قبول کرکے غیر خدا کو حکم بنادیا ہے اور اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت کا کوئی تصورنہیں ہے۔

حضرت امام عالی مقام نے اس فتنہ کے دورمیں اثرات کا لحاظ کرکے سخت ترین لہجہ میں جواب دیا اور قائل کی اوقات کا اعلان کردیا کہ شخص باطل پرست اورحق بیزار ہے۔ورنہ اسے اس امر کا اندازہ ہوتا کہ کتاب خدا سے فیصلہ کرانا خدا کی حاکمیت کا اقرار ہے انکارنہیں ہے۔حاکمیت خداکے منکرعمرو عاص جیسے افراد ہیں جنہوں نے کتاب خدا کو نظر انداز کرکے سیاہی چالوں سے فیصلہ کردیا اور دین خدا کو یکسر نا قابل توجہ قراردے دیا۔

۳۴۴

(۱۸۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه فيها ويثني على رسوله ويصف خلقا من الحيوان

حمد اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُدْرِكُه الشَّوَاهِدُ - ولَا تَحْوِيه الْمَشَاهِدُ - ولَا تَرَاه النَّوَاظِرُ - ولَا تَحْجُبُه السَّوَاتِرُ - الدَّالِّ عَلَى قِدَمِه بِحُدُوثِ خَلْقِه - وبِحُدُوثِ خَلْقِه عَلَى وُجُودِه - وبِاشْتِبَاهِهِمْ عَلَى أَنْ لَا شَبَه لَه - الَّذِي صَدَقَ فِي مِيعَادِه - وارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِه - وقَامَ بِالْقِسْطِ فِي خَلْقِه - وعَدَلَ عَلَيْهِمْ فِي حُكْمِه - مُسْتَشْهِدٌ بِحُدُوثِ الأَشْيَاءِ عَلَى أَزَلِيَّتِه - وبِمَا وَسَمَهَا بِه مِنَ الْعَجْزِ عَلَى قُدْرَتِه - وبِمَا اضْطَرَّهَا إِلَيْه مِنَ الْفَنَاءِ عَلَى دَوَامِه - وَاحِدٌ لَا بِعَدَدٍ ودَائِمٌ لَا بِأَمَدٍ وقَائِمٌ لَا بِعَمَدٍ - تَتَلَقَّاه الأَذْهَانُ لَا بِمُشَاعَرَةٍ - وتَشْهَدُ لَه الْمَرَائِي لَا بِمُحَاضَرَةٍ - لَمْ تُحِطْ بِه الأَوْهَامُ بَلْ تَجَلَّى لَهَا بِهَا - وبِهَا امْتَنَعَ مِنْهَا وإِلَيْهَا حَاكَمَهَا

(۱۸۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حمد خدا ' ثنائے رسول (ص) اوربعض مخلوقات کاتذکرہ ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جسے نہ حواس پا سکتے ہیں اورنہ مکان گھیر سکتے ہیں ۔نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔اس نے اپنے قدیم ہونے کی طرف مخلوقات کے حادثات ہونے سے رہنمائی کی ہے اور ان کی وجود بعد از عدم کو اپنے وجود ازلی کا ثبوت بنادیا ہے اور ان کی باہمی مشابہت سیاپنے بے مثال ہونے کا اظہار کیا ہے۔وہ اپنے وعدہ میں سچا ہے اور اپنے بندوں پر ظلم کرنے سے اجل و ارفع ہے۔اس نے لوگوں میں عدل کا قیام کیا ہے اور فیصلوں پر مکمل انصاف سے کام لیا ہے۔اشیاء کے حدوث سے اپنی ازلیت پراستدلال کیا ہے اور ان پر عاجزی کا نشان لگا کر اپنی قدرت کاملہ کا اثبات کیا ہے۔اشیاء کے جبری فناو عدم سے اپنے دوام کا پتہ دیا ہے۔وہ ایک ہے لیکنعدد کے اعتبار سے نہیں۔دائمی ہے لیکن مدت کے اعتبارسے نہیں اور قائم ہے لیکن کسی کے سہارے نہیں۔ذہن اسے قبول کرتے ہیں لیکن حواس کی بنا پر نہیں اور مشاہدات اس کی گواہی دیتے ہیں لیکن اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے بعد نہیں۔اوہام اس کا احاطہ نہیں کر سکتے ہیں بلکہ وہ ان کے لئے انہیں کے ذریعہ روشن ہوا ہے اور انہیں کی ذریعہ ان کے قبضہ میں آنے سے

۳۴۵

لَيْسَ بِذِي كِبَرٍ امْتَدَّتْ بِه النِّهَايَاتُ فَكَبَّرَتْه تَجْسِيماً - ولَا بِذِي عِظَمٍ تَنَاهَتْ بِه الْغَايَاتُ فَعَظَّمَتْه تَجْسِيداً - بَلْ كَبُرَ شَأْناً وعَظُمَ سُلْطَاناً.

الرسول الأعظم

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه الصَّفِيُّ - وأَمِينُه الرَّضِيُّ – صلى الله عليه وآله - أَرْسَلَه بِوُجُوبِ الْحُجَجِ وظُهُورِ الْفَلَجِ وإِيضَاحِ الْمَنْهَجِ - فَبَلَّغَ الرِّسَالَةَ صَادِعاً بِهَا - وحَمَلَ عَلَى الْمَحَجَّةِ دَالاًّ عَلَيْهَا - وأَقَامَ أَعْلَامَ الِاهْتِدَاءِ ومَنَارَ الضِّيَاءِ - وجَعَلَ أَمْرَاسَ الإِسْلَامِ مَتِينَةً - وعُرَى الإِيمَانِ وَثِيقَةً.

منها في صفة خلق أصناف من الحيوان

ولَوْ فَكَّرُوا فِي عَظِيمِ الْقُدْرَةِ وجَسِيمِ النِّعْمَةِ - لَرَجَعُوا إِلَى الطَّرِيقِ وخَافُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ - ولَكِنِ الْقُلُوبُ عَلِيلَةٌ والْبَصَائِرُ مَدْخُولَةٌ - أَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى صَغِيرِ مَا خَلَقَ كَيْفَ أَحْكَمَ خَلْقَه - وأَتْقَنَ تَرْكِيبَه وفَلَقَ لَه السَّمْعَ والْبَصَرَ - وسَوَّى لَه الْعَظْمَ والْبَشَرَ

انکار کردیا ہے اور ان کا حکم بھی انہیں کو ٹھہرایا ہے ۔وہ اس اعتبار سے بڑا نہیں ہے کہ اس کے اطراف نے پھیل کر اس کے جسم کو بڑا بنادیا ہے اور نہ ایسا عظیم ہے کہ اس کی جسامت زیادہ ہو اور اس نے اس کے جسد کو عظیم بنادیا ہو ۔وہ اپنی شان میں کبیر اور اپنی سلطنت میں عظیم ہے۔

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد اس کے بندہ اورمخلص رسول اور پسندیدہ امین ہیں۔اللہ ان پر رحمت نازل کرے۔اس نے انہیں نا قابل انکاردلائل۔واضح کامیابی اورنمایاں راستہ کے ساتھ بھیجا ہے۔اور انہوں نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کردیا ہے اور لوگوں کو سیدھے راستہ کی رہنمائی کردی ہے ۔ہدایت کے نشان قائم کردئیے ہیں اور روشنی کے منارہ استوار کردئیے ہیں۔اسلام کی رسیوں کومضبوط بنادیا ہے اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کردیاہے۔

اگر یہ لوگ اس کی عظیم قدرت اور وسیع نعمت میں غورو فکر کرتے تو راستہ کی طرف واپس آجاتے اورجہنم کے عذاب سے خوف زدہ ہو جاتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کے دل مریض ہیں اور ان کی آنکھیں کمزور ہیں۔کیا یہ ایک چھوٹی سی مخلوق کو بھی نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اس نے کس طرح اس کی تخلیق کو مستحکم اور اس کی ترکیب کو مضبوط بنایا ہے۔اس چھوٹے سے جسم میں کان اورآنکھیں سب بنادی ہیں اور اسی میں ہڈیاں اور کھال بھی درست کردی ہے۔

۳۴۶

انْظُرُوا إِلَى النَّمْلَةِ فِي صِغَرِ جُثَّتِهَا ولَطَافَةِ هَيْئَتِهَا - لَا تَكَادُ تُنَالُ بِلَحْظِ الْبَصَرِ ولَا بِمُسْتَدْرَكِ الْفِكَرِ - كَيْفَ دَبَّتْ عَلَى أَرْضِهَا وصُبَّتْ عَلَى رِزْقِهَا - تَنْقُلُ الْحَبَّةَ إِلَى جُحْرِهَا وتُعِدُّهَا فِي مُسْتَقَرِّهَا - تَجْمَعُ فِي حَرِّهَا لِبَرْدِهَا وفِي وِرْدِهَا لِصَدَرِهَا - مَكْفُولٌ بِرِزْقِهَا مَرْزُوقَةٌ بِوِفْقِهَا - لَا يُغْفِلُهَا الْمَنَّانُ ولَا يَحْرِمُهَا الدَّيَّانُ - ولَوْ فِي الصَّفَا الْيَابِسِ والْحَجَرِ الْجَامِسِ - ولَوْ فَكَّرْتَ فِي مَجَارِي أَكْلِهَا - فِي عُلْوِهَا وسُفْلِهَا - ومَا فِي الْجَوْفِ مِنْ شَرَاسِيفِ بَطْنِهَا - ومَا فِي الرَّأْسِ مِنْ عَيْنِهَا وأُذُنِهَا - لَقَضَيْتَ مِنْ خَلْقِهَا عَجَباً ولَقِيتَ مِنْ وَصْفِهَا تَعَباً - فَتَعَالَى الَّذِي أَقَامَهَا عَلَى قَوَائِمِهَا - وبَنَاهَا عَلَى دَعَائِمِهَا - لَمْ يَشْرَكْه فِي فِطْرَتِهَا فَاطِرٌ،

ذرا اس چیونٹی کے چھوٹے سے جسم اور اس کی لطیف ہئیت کی طرف نظرکرو جس کا گوشہ چشم سے دیکھنابھی مشکل ہے اور فکروں کی گرفت میں آنابھی دشوار ہے۔کس طرح زمین پر رینگتی ہے اور کس طرح اپنے رزق کی طرف لپکتی ہے۔دانہ کو اپنے سوراخ کی طرف لے جاتی ہے اور پھر وہاں مرکز پرمحفوظ کر دیتی ہے گرمی(۱) میں سردی کا انتظام کرت یہے اور توانائی کے دورمیں کمزوری کے زمانہ کا بندوبست کرتی ہے اس کے رزق کی کفالت کی جا چکی ہے اوراسی کے مطابق اسے برابر رزق مل رہا ہے۔نہ احسان کرنے والا خدا اسے نظر اندازکرتا ہے اور نہ صاحب جزا و عطا اسے محروم رکھتا ہے چاہے وہ خشک پتھر کے اندر ہو یا جمے ہوئے سنگ خارا کے اندر۔اگر تم اس کی غذا کو پست و بلند نالیوں اور اس کے جسم کے اندر شکم کی طرف جھکے ہوئے پسلیوں کے کناروں اور سر میں جگہ پانے والے آنکھ اور کان کو دیکھو گے تو تمہیں واقعاً اس کی تخلیق پرتعجب ہوگا اور اس کی توصیف سے عاجز ہو جائوگے۔بلند و برتر ہے وہ خدا جس نے اس جسم کو اس کے پیروں پر قائم کیا ہے اور اس کی تعمیر انہیں ستونوں پرکھڑی کی ہے۔ نہ اس کی فطرت میں کسی خالق نے حصہ لیا ہے

(۱) ایک چھوٹی سی مخلوق چیونٹی میں یہ دور اندیشی اور اس قدر تنظیم و ترتیب اور ایک اشرف المخلوقات میں اس قدرغفلت اورتغافل کس قدرحیرت انگیز امر ہے اور اس سے زیادہ حیرت انگیز قصہ جناب سلیمان ہے جہاں چیونٹی نے لشکر سلیمان کو دیکھ کرآوازدی کہ فوراً اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ہوجائو کہیں لشکر سلیمان تمہیں پامال نہ کردے اور اسے احساس بھی نہ ہو۔گویا کہ ایک چیونٹی کے دل میں قوم کا اس قدر درد ہے اوراسے سردار قوم ہونے کے اعتبارسے اس قدر ذمہ داری کا احساسا ہے کہ قوم تباہ نہ ہونے پائے اور آج عالم اسلام و انسانیت اس قدر تغافل کا شکار ہوگیا ہے کہ کسی کے دل میں قوم کا درد نہیں ہے بلکہ حکام قوم کے کاندھوں پر اپنے جنازے اٹھا رہے ہیں اور ان کی قبروں پر اپنے تاج محل تعمیر کر رہے ہیں۔

۳۴۷

ولَمْ يُعِنْه عَلَى خَلْقِهَا قَادِرٌ - ولَوْ ضَرَبْتَ فِي مَذَاهِبِ فِكْرِكَ لِتَبْلُغَ غَايَاتِه - مَا دَلَّتْكَ الدَّلَالَةُ إِلَّا عَلَى أَنَّ فَاطِرَ النَّمْلَةِ - هُوَ فَاطِرُ النَّخْلَةِ - لِدَقِيقِ تَفْصِيلِ كُلِّ شَيْءٍ - وغَامِضِ اخْتِلَافِ كُلِّ حَيٍّ - ومَا الْجَلِيلُ واللَّطِيفُ والثَّقِيلُ والْخَفِيفُ - والْقَوِيُّ والضَّعِيفُ فِي خَلْقِه إِلَّا سَوَاءٌ.

خلقة السماء والكون

وكَذَلِكَ السَّمَاءُ والْهَوَاءُ والرِّيَاحُ والْمَاءُ - فَانْظُرْ إِلَى الشَّمْسِ والْقَمَرِ والنَّبَاتِ والشَّجَرِ - والْمَاءِ والْحَجَرِ واخْتِلَافِ هَذَا اللَّيْلِ والنَّهَارِ - وتَفَجُّرِ هَذِه الْبِحَارِ وكَثْرَةِ هَذِه الْجِبَالِ - وطُولِ هَذِه الْقِلَالِ وتَفَرُّقِ هَذِه اللُّغَاتِ - والأَلْسُنِ الْمُخْتَلِفَاتِ - فَالْوَيْلُ لِمَنْ أَنْكَرَ الْمُقَدِّرَ وجَحَدَ الْمُدَبِّرَ - زَعَمُوا أَنَّهُمْ كَالنَّبَاتِ مَا لَهُمْ زَارِعٌ - ولَا لِاخْتِلَافِ صُوَرِهِمْ صَانِعٌ -

اور نہ اس کی تخلیق میں کسی قادرنے کئی مدد کی ہے۔اور ار تم فکرکے تمام راستوں کو طے کرکے اس کی انتہا تک پہنچنا چاہو گے تو ایک ہی نتیجہ حاصل ہوگا کہ جو چیونٹی کا خالق ہے وہی درخت خرما کابھی پروردگار ہے۔اس لئے کہ ہر ایک تخلیق میں یہی باریکی ہے اور ہر جاندار کا دوسرے سے نہایت درجہ باریک ہی اختلاف ہے۔اس کی بارگاہ میں عظیم و لطیف ' ثقیل و خفیف ' قوی و ضعیف سب ایک ہی جیسے ہیں ۔

یہی حال آسمان اور فضا۔اور ہوا اور پانی کا ہے ۔ کہ چاہو شمس و قمر کو دیکھو یا نباتات وشجر کو۔پانی اور پتھر پر نگاہ کرو یا شب و روز کی آمد رفت پر' دریائوں کے بہائو کو دیکھو یا پہاڑوں کی کثرت اور چوٹیوں کے طول و ارتفاع کو۔لغات کے اختلاف کو دیکھو یا زبانوںکے افتراق کو۔سب اس کی قدرت کاملہ کے بہترین دلائل ہیں۔ حیف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے تقدیر ساز کا انکار کیا ہے اور تدبیر کرنے والے سے مکرگئے ۔ان کا خیال ہے کہ سب گھاس پھوس(۱) کی طرح ہیں کہ بغیر کھیتی کرنے والے کے اگ آئے ہیں اور بغیر صانع کے مختلف شکلیں اختیار کرلی ہیں

(۱) درحقیقت گھاس پھوس کے بارے میں بھی یہ تصور خلاف عقل ہے کہ اس کی تخلیق بغیر کسی خالق کے ہوگئی ہے لیکن یہ تصور صرف اس لئے پیدا کر لیتا ہے کہ اس کی حکمت اور مصلحت سے با خبر نہیں ہے اوریہ خیال کرتا ہے کہ اسے برسات نے پانی کے بغیر کسی ترتیب و تنظیم کے اگادیا ہے اور اس کے بعد اسی تخلیق پر ساری کائنات کا قیاس کرنے لگتا ہے۔حالانکہ اسے کائنات کی حکمت و مصلحت کودیکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ تخلیق کائنات کے بعض اسرار تو واضح بھی ہوئے ہیں لیکن تخلق نباتات کا تو کوئیراز واضح نہیں ہو سکا ہے اوریہ انسان کی انتہائی جہالت ہے کہ وہ اس قدرحقیر اور معمولی مخلوقات کی حکمت و مصلحت سے بھی با خبرنہیں ہے اور حوصلہ اس قدر بلند ہے کہ مالک کائنات سے ٹکر لینا چاہتا ہے اور ایک لفظ میں اس کے وجود کا خاتمہ کر دیناچاہتا ہے۔

۳۴۸

ولَمْ يَلْجَئُوا إِلَى حُجَّةٍ فِيمَا ادَّعَوْا - ولَا تَحْقِيقٍ لِمَا - أَوْعَوْا وهَلْ يَكُونُ بِنَاءٌ مِنْ غَيْرِ بَانٍ أَوْ جِنَايَةٌ مِنْ غَيْرِ جَانٍ!

خلقة الجرادة

وإِنْ شِئْتَ قُلْتَ فِي الْجَرَادَةِ - إِذْ خَلَقَ لَهَا عَيْنَيْنِ حَمْرَاوَيْنِ - وأَسْرَجَ لَهَا حَدَقَتَيْنِ قَمْرَاوَيْنِ - وجَعَلَ لَهَا السَّمْعَ الْخَفِيَّ وفَتَحَ لَهَا الْفَمَ السَّوِيَّ - وجَعَلَ لَهَا الْحِسَّ الْقَوِيَّ ونَابَيْنِ بِهِمَا تَقْرِضُ - ومِنْجَلَيْنِ بِهِمَا تَقْبِضُ - يَرْهَبُهَا الزُّرَّاعُ فِي زَرْعِهِمْ - ولَا يَسْتَطِيعُونَ ذَبَّهَا ،ولَوْ أَجْلَبُوا بِجَمْعِهِمْ - حَتَّى تَرِدَ الْحَرْثَ فِي نَزَوَاتِهَا وتَقْضِيَ مِنْه شَهَوَاتِهَا - وخَلْقُهَا كُلُّه لَا يُكَوِّنُ إِصْبَعاً مُسْتَدِقَّةً.

فَتَبَارَكَ اللَّه الَّذِي يَسْجُدُ لَه( مَنْ فِي السَّماواتِ والأَرْضِ - طَوْعاً وكَرْهاً ) ويُعَفِّرُ لَه خَدّاً ووَجْهاً - ويُلْقِي إِلَيْه بِالطَّاعَةِ سِلْماً وضَعْفاً - ويُعْطِي لَه الْقِيَادَ رَهْبَةً وخَوْفاً - فَالطَّيْرُ مُسَخَّرَةٌ لأَمْرِه - أَحْصَى عَدَدَ الرِّيشِ مِنْهَا

۔حالانکہ انہوں نے اس دعویٰ میں نہ کسی دلیل کاسہارا لیا ہے اور نہ اپنے عقائد کی کوئی تحقیق کی ہے۔ورنہ یہ سمجھ لیتے کہ نہ بغیر بانی کے عمارت ہو سکتی ہے اور نہ بغیر مجرم کے جرم ہو سکتا ہے۔

اور اگر تم چاہو تو یہی باتیں ٹڈی کے بارے میں کہی جا سکتی ہیں کہ اس کے اندر دوسرخ سرخ آنکھیں پیدا کی ہیں اور چاند جیسے دو حلقوں میں آنکھوں کے چراغ روشن کردئیے ہیں۔چھوٹے چھوٹے کان بنا دئیے ہیں اور مناسب سادہانہ کھول دیا ہے۔لیکن احساس کو قوی بنادیا ہے۔اس کے دو تیز دانت ہیں جن سے تپیوں کو کاٹتی ہے اور دو پیر دندانہ دار ہیں جن سے گھاس وغیرہ کو پکڑتی ہے۔کاشتکار اپنی کاشت کے لئے ان سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن انہیں ہنکا نہیں سکتے ہیں چاہے کسی قدر طاقت کیوں نہ جمع کرلیں۔یہاں تک کہ وہ کھیتوں پرجست وخیز کرتے ہوئے حملہ آور ہو جاتی ہیں اور اپنی خواہش پوری کر لیتی ہیں ۔جب کہ اس کا کال و جود ایک باریک انگلی سے زیادہ نہیں ہے۔

پس با برکت ہے وہ ذات اقدس جس کے سامنے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات بر غبت یا بجزز و اکراہ سر بسجود رہتی ہے۔اور اس کے لئے چہرہ اور رخسار کو خاک پر رکھے ہوئے ہیں اورعجزو انکسار کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سراپا اطاعت ہیں اورخوف و دہشت سے اپنی زمام اختیار اس کے حوالہ کئے ہوئے ہیں۔پرندہ اس کے امر کے تابع ہیں کہوہ ان کے پروں

۳۴۹

والنَّفَسِ - وأَرْسَى قَوَائِمَهَا عَلَى النَّدَى والْيَبَسِ - وقَدَّرَ أَقْوَاتَهَا وأَحْصَى أَجْنَاسَهَا - فَهَذَا غُرَابٌ وهَذَا عُقَابٌ - وهَذَا حَمَامٌ وهَذَا نَعَامٌ - دَعَا كُلَّ طَائِرٍ بِاسْمِه وكَفَلَ لَه بِرِزْقِه - وأَنْشَأَ السَّحَابَ الثِّقَالَ فَأَهْطَلَ دِيَمَهَا - وعَدَّدَ قِسَمَهَا فَبَلَّ الأَرْضَ بَعْدَ جُفُوفِهَا - وأَخْرَجَ نَبْتَهَا بَعْدَ جُدُوبِهَا

(۱۸۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التوحيد وتجمع هذه الخطبة من أصول العلم ما لا تجمعه خطبة

مَا وَحَّدَه مَنْ كَيَّفَه ولَا حَقِيقَتَه أَصَابَ مَنْ مَثَّلَه - ولَا إِيَّاه عَنَى مَنْ شَبَّهَه - ولَا صَمَدَه مَنْ أَشَارَ إِلَيْه وتَوَهَّمَه - كُلُّ مَعْرُوفٍ بِنَفْسِه مَصْنُوعٌ وكُلُّ قَائِمٍ فِي سِوَاه مَعْلُولٌ - فَاعِلٌ لَا بِاضْطِرَابِ آلَةٍ مُقَدِّرٌ لَا بِجَوْلِ فِكْرَةٍ

اور سانسوں کاشمار رکھتا ہے اور ان کے پروں کو تری یا خشکی میں جمادیا ہے۔انکاقوت مقدر کردیا ہے اوران کی جنس کا احصارکرلیا ہے کہ یہ کو ا ہے۔وہ عقاب ہے ۔یہ کبوتر ہے۔وہ شترمرغ ہے۔ہر پرندہ کواس کے نام سے عالم وجود میں دعوت دی ہے اور ہر ایک کی روزی کی کفالت کی ہے ۔سنگین قسم کے بادل پیداکئے توان سے موسلا دھار پانی برسا دیا اور اس کے تقسیمات کاحساب بھی رکھا۔زمین کو خشکی کے بعد تر کردیا اور اس کے نباتات کو بنجر ہوجانے کے بعد دوبارہ اگا دیا۔

(۱۸۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(توحید کے بارے میں اور اس میں وہ تمام علمی مطالب پائے جاتے ہیں جو کسی دوسرے خطبہ میں نہیں ہیں)

وہ اس کی توحید کا قائل نہیں ہے جسنے اس کے لئے کیفیات کا تصور پیدا کرلیا اوروہ اس کی حقیقت سے نا آشنا ہے جس نے اس کی تمثیل قراردے دی۔اس نے اس کا قصد ہی نہیں کیا جس نے اس کی شبیہ بنادی اور وہاس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا جس نے اس کی طرف اشارہ کردیا یا اسے تصور کا پابند بنادینا چاہا۔جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہے اور جودسورے کے سہارے قائم ہو وہ اس علت کا متحا ج ہے۔پروردگار غافل ہے لیکن اعضاء کیحرکات سے نہیں اور انداز ے مقرر کرنے والا ہے لیکن فکر کی جولانیوں

۳۵۰

غَنِيٌّ لَا بِاسْتِفَادَةٍ - لَا تَصْحَبُه الأَوْقَاتُ ولَاتَرْفِدُه الأَدَوَاتُ - سَبَقَ الأَوْقَاتَ كَوْنُه - والْعَدَمَ وُجُودُه والِابْتِدَاءَ أَزَلُه بِتَشْعِيرِه الْمَشَاعِرَ عُرِفَ أَنْ لَا مَشْعَرَ لَه - وبِمُضَادَّتِه بَيْنَ الأُمُورِ عُرِفَ أَنْ لَا ضِدَّ لَه - وبِمُقَارَنَتِه بَيْنَ الأَشْيَاءِ عُرِفَ أَنْ لَا قَرِينَ لَه - ضَادَّ النُّورَ بِالظُّلْمَةِ والْوُضُوحَ بِالْبُهْمَةِ - والْجُمُودَ بِالْبَلَلِ والْحَرُورَ بِالصَّرَدِ - مُؤَلِّفٌ بَيْنَ مُتَعَادِيَاتِهَا مُقَارِنٌ بَيْنَ مُتَبَايِنَاتِهَا - مُقَرِّبٌ بَيْنَ مُتَبَاعِدَاتِهَا مُفَرِّقٌ بَيْنَ مُتَدَانِيَاتِهَا - لَا يُشْمَلُ بِحَدٍّ ولَا يُحْسَبُ بِعَدٍّ - وإِنَّمَا تَحُدُّ الأَدَوَاتُ أَنْفُسَهَا - وتُشِيرُ الآلَاتُ إِلَى نَظَائِرِهَا مَنَعَتْهَا مُنْذُ الْقِدْمَةَ وحَمَتْهَا قَدُ الأَزَلِيَّةَ - وجَنَّبَتْهَا لَوْلَا التَّكْمِلَةَ

سے نہیں وہ غنی ہے لیکن کسی سے کچھ لے کرنہیں۔زمانہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا اورآلات اسے سہارا نہیں دے سکتے۔اس کا وجودزمانہ سے پہلے ہے اور اس کا وجودعدم سے بھی سابق اور اس کی ازلیت ابتدا سے بھی مقدم ہے۔اس کے حواس(۱) کوایجاد کرنے سے اندازہ ہوا کہ وہ حواس سے بے نیاز ہے اور اس کے اشیاء کے درمیان ضدیت قراردینے سے معلوم ہوا کہ اس کی کوئی ضد نہیں ہے اوراس کے اشیاء میں مقارنت قرار دینے سے ثابت ہواکہ اس کا کوئی قرین اور ساتھی نہیں ہے۔اس نے نور کی ظلمت کی۔وضاحت کو ابہام کی خشکی کو تری کی اور گرمی کو سردی کی ضد قرار دیاہے۔وہ ایک دوسرے کی دشمن اشیاء کو جمع کرنے والا۔ایک دوسرے سے جدا گانہاشیاء کا ساتھ کردینے والا۔باہمی دوری رکھنے والوں کو قریب بنادینے والا اورباہمی قربت کے حامل امور کا جدا کردینے والا ہے۔وہ نہ کسی حد کے اندر آتا ہے اور نہ کسی حساب و شمارمیں آسکتا ہے کہ جسمانی قوتیں اپنی جیسی اشیاء ہی کو محدود کر سکتی ہیں اور آلات اپنے امثال ہی کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ان اشیاء کو لفظ منذ ( کب ) نے قدیم ہونے سے روک دیا ہے اورحرف قد (ہوگیا) نے ازلیت سے الگ کردیا ہے اور لولا نے انہیں تکمیل سے جداکردیا ہے۔انہیں اشیاء

(۱)مالک کائنات نے تخلیق کائنات میں ایسے خصوصیات کو ودیعت کردیاہے جن کے ذریعہ اس کی عظمت کاب خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے۔صرف اس نکتہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جوش ے بھی کسی کی ایجاد کردہہوتی ہے اس کا اطلاق موجد کی ذات پرنہیں ہو سکتا ہے لہٰذا اگر اس نے حواس کو پیداکیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی ذات حواس سے بالا تر ہے اوراگر اس نے بعض اشیاء میں ہمرنگی اوربعض میں اخلاف پیدا کیا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی ذات اقدس نہ کسی ہمرنگ ہے اورنہ کسی سے ضدیت کی حامل ہے ۔یہ ساری باتیں مخلوقات کے مقدرمیں لکھی گئی ہیں اور خالق کی ذات ان تمام باتوں سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔

۳۵۱

بِهَا تَجَلَّى صَانِعُهَا لِلْعُقُولِ - وبِهَا امْتَنَعَ عَنْ نَظَرِ الْعُيُونِ - ولَا يَجْرِي عَلَيْه السُّكُونُ والْحَرَكَةُ - وكَيْفَ يَجْرِي عَلَيْه مَا هُوَ أَجْرَاه - ويَعُودُ فِيه مَا هُوَ أَبْدَاه ويَحْدُثُ فِيه مَا هُوَ أَحْدَثَه - إِذاً لَتَفَاوَتَتْ ذَاتُه ولَتَجَزَّأَ كُنْهُه - ولَامْتَنَعَ مِنَ الأَزَلِ مَعْنَاه - ولَكَانَ لَه وَرَاءٌ إِذْ وُجِدَ لَه أَمَامٌ - ولَالْتَمَسَ التَّمَامَ إِذْ لَزِمَه النُّقْصَانُ - وإِذاً لَقَامَتْ آيَةُ الْمَصْنُوعِ فِيه - ولَتَحَوَّلَ دَلِيلًا بَعْدَ أَنْ كَانَ مَدْلُولًا عَلَيْه - وخَرَجَ بِسُلْطَانِ الِامْتِنَاعِ - مِنْ أَنْ يُؤَثِّرَ فِيه مَا يُؤَثِّرُ فِي غَيْرِه الَّذِي لَا يَحُولُ ولَا يَزُولُ ولَا يَجُوزُ عَلَيْه الأُفُولُ - لَمْ يَلِدْ فَيَكُونَ مَوْلُوداً ولَمْ يُولَدْ فَيَصِيرَ مَحْدُوداً - جَلَّ عَنِ اتِّخَاذِ الأَبْنَاءِ، وطَهُرَ عَنْ مُلَامَسَةِ النِّسَاءِ - لَا تَنَالُه الأَوْهَامُ فَتُقَدِّرَه ولَا تَتَوَهَّمُه الْفِطَنُ فَتُصَوِّرَه - ولَا تُدْرِكُه الْحَوَاسُّ فَتُحِسَّه

کے ذریعہ بنانے والا عقلوں کے سامنے جلوہ گر ہوا ہے اور انہیں کے ذریعہ آنکھوں کی دید سے بری ہوگیا ہے۔اس پرحرکت و سکون کا قانون جاری نہیں ہوتا ہے کہ اس نے خود حرکت و سکون کے نظام کو جاری کیا ہے اورجس چیزکی ابتدا اس نے کی ہے وہ اس کی طرف کس طرح عائد ہو سکتی ہے یا جس کو اس نے ایجاد کیا ہے وہ اس کی ذات میں کس طرح شامل ہو سکتی ہے۔ایسا ہو جاتا تواس کی ذات بھی تغیر پذیر ہو جاتی اور اس کی حقیقت بھی قابل تجزیہ ہو جاتی اوراس کی معنویت بھی ازلیت سے الگ ہو جاتی اور اس کے یہاں بھی اگر سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی اوروہ بھی کمال کا طلب گار ہوتا اگر اس میں نقص پیداہوجاتا۔اس میں مصنوعات کی علامت پیدا ہو جاتی اور وہ مدلول ہونے کے بعد خود بھی دوسرے کی طرف رہنمائی کرنے والا ہو جاتا۔وہ اپنے امتناع و تحفظ کی طاقت کی بناپ ر اس حد سے باہر نکل گیا ہے کہ کوئی ایسی شے اس پر اثر کرے جو دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس کے یہاں نہ تغیر ہے اور نہ زوال اورنہ اس کے آفتاب وجود کےلئے کوئی غروب ہے۔وہ نہ کسی کا باپ ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو اورنہ کسی کاف رزند ہے کہ محدود ہو کر رہ جائے ۔وہ اولاد بنانے سے بھی بے نیاز اور عورتوں کو ہاتھ لگانے سے بھی بلند و بالا ہے۔ادہام اسے پانہیں سکتے ہیں کہ اس کا اندازہ مقرر کریں اورہوش مندیاں اس کا تصور نہیں کر سکتی ہیں کہ اس کی تصویر بناسکیں ۔جو اس کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں کہ اسے محسوس کر سکیں

۳۵۲

ولَا تَلْمِسُه الأَيْدِي فَتَمَسَّه - ولَا يَتَغَيَّرُ بِحَالٍ ولَا يَتَبَدَّلُ فِي الأَحْوَالِ - ولَا تُبْلِيه اللَّيَالِي والأَيَّامُ ولَا يُغَيِّرُه الضِّيَاءُ والظَّلَامُ ولَا يُوصَفُ بِشَيْءٍ مِنَ الأَجْزَاءِ - ولَا بِالْجَوَارِحِ والأَعْضَاءِ ولَا بِعَرَضٍ مِنَ الأَعْرَاضِ - ولَا بِالْغَيْرِيَّةِ والأَبْعَاضِ - ولَا يُقَالُ لَه حَدٌّ ولَا نِهَايَةٌ ولَا انْقِطَاعٌ ولَا غَايَةٌ - ولَا أَنَّ الأَشْيَاءَ تَحْوِيه فَتُقِلَّه أَوْ تُهْوِيَه - أَوْ أَنَّ شَيْئاً يَحْمِلُه فَيُمِيلَه أَوْ يُعَدِّلَه - لَيْسَ فِي الأَشْيَاءِ بِوَالِجٍ ولَا عَنْهَا بِخَارِجٍ - يُخْبِرُ لَا بِلِسَانٍ ولَهَوَاتٍ - ويَسْمَعُ لَا بِخُرُوقٍ وأَدَوَاتٍ يَقُولُ ولَا يَلْفِظُ - ويَحْفَظُ ولَا يَتَحَفَّظُ ويُرِيدُ ولَا يُضْمِرُ - يُحِبُّ ويَرْضَى مِنْ غَيْرِ رِقَّةٍ - ويُبْغِضُ ويَغْضَبُ مِنْ غَيْرِ مَشَقَّةٍ - يَقُولُ لِمَنْ أَرَادَ كَوْنَه كُنْ فَيَكُونُ - لَا بِصَوْتٍ يَقْرَعُ ولَا بِنِدَاءٍ يُسْمَعُ - وإِنَّمَا كَلَامُه سُبْحَانَه فِعْلٌ مِنْه أَنْشَأَه ومَثَّلَه - لَمْ يَكُنْ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ كَائِناً - ولَوْ كَانَ قَدِيماً لَكَانَ إِلَهاً ثَانِياً.

اور ہاتھ اسے چھو نہیں سکتے ہیں کہ مس کرلیں۔ وہ کسی حال میں متغیر نہیں ہوتا ہے اور مختلف حالات میں بدلتا بھی نہیں ہے۔شب و روز اسے پرانا نہیں کر سکتے ہیں اورتاریکی و روشنی اس میں تغیر نہیں پیدا کر سکتی ہے۔وہ نہ اجزاء سے موصوف ہوتا ہے اورنہ جوارح و اعضاء سے ۔نہ کسی عرض سے متصف ہوتا ے اور نہ غیریت اور جزئیت سے۔اس کے لئے نہحداور انتہا کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور نہ اختتام اور زوال کا۔نہ اشیاء اس پر حاوی ہیں کہ جب چاہیں پست کردیں یا بلند کردیں اور نہ کوئی چیز اسے اٹھائے ہوئے ہے کہ جب چاہے سیدھا کردے یا موڑ دے۔وہ نہ اشیا کے اندرداخل ہے اور نہان سے خارج ہے۔وہ کلام کرتا ہے مگر زبان اورتالو کے سہارے نہیں اور سنتاہے لیکن کان کے سوراخ اور آلات کے ذریعہ نہیں۔بولتا ہے لیکن تلفظ سے نہیں اور ہر چیز کو یاد رکھتا ہے لیکن حافظہ کے سہارے نہیں۔ارادہ کرتا ہے لیکن دل سے نہیں۔اور محبت و رضا رکھتا ہے لیکن نرمی قلب کے وسیلہ سے نہیں۔اور بغض و غضب بھی رکھتا ہے لیکن غم و غصہ کی تکلیف سے نہیں ۔ جس چیز کوایجاد کرنا چاہتا ہے اس سے کن کہہ دیتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔نہ کوئی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے اور نہ کوئی ندا سنائی دیتی ہے۔اس کا کلام درحقیقت اس کا فعل ہے جس کو اس نے ایجاد کیا ہے اور اس کے پہلیسے ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے ورنہ وہ بھی قدیم اوردوسرا خدا ہو جاتا ۔

۳۵۳

لَا يُقَالُ كَانَ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ - فَتَجْرِيَ عَلَيْه الصِّفَاتُ الْمُحْدَثَاتُ - ولَا يَكُونُ بَيْنَهَا وبَيْنَه فَصْلٌ - ولَا لَه عَلَيْهَا فَضْلٌ فَيَسْتَوِيَ الصَّانِعُ والْمَصْنُوعُ - ويَتَكَافَأَ الْمُبْتَدَعُ والْبَدِيعُ - خَلَقَ الْخَلَائِقَ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَيْرِه - ولَمْ يَسْتَعِنْ عَلَى خَلْقِهَا بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِه - وأَنْشَأَ الأَرْضَ فَأَمْسَكَهَا مِنْ غَيْرِ اشْتِغَالٍ - وأَرْسَاهَا عَلَى غَيْرِ قَرَارٍ وأَقَامَهَا بِغَيْرِ قَوَائِمَ، ورَفَعَهَا بِغَيْرِ دَعَائِمَ - وحَصَّنَهَا مِنَ الأَوَدِ والِاعْوِجَاجِ - ومَنَعَهَا مِنَ التَّهَافُتِ والِانْفِرَاجِ - أَرْسَى أَوْتَادَهَا وضَرَبَ أَسْدَادَهَا - واسْتَفَاضَ عُيُونَهَا وخَدَّ أَوْدِيَتَهَا - فَلَمْ يَهِنْ مَا بَنَاه ولَا ضَعُفَ مَا قَوَّاه هُوَ الظَّاهِرُ عَلَيْهَا بِسُلْطَانِه وعَظَمَتِه - وهُوَ الْبَاطِنُ لَهَا بِعِلْمِه ومَعْرِفَتِه - والْعَالِي عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مِنْهَا بِجَلَالِه وعِزَّتِه - لَا يُعْجِزُه شَيْءٌ مِنْهَا طَلَبَه - ولَا يَمْتَنِعُ عَلَيْه فَيَغْلِبَه

اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر حادث(۱) صفات کا اطلاق ہو جائے اور دونوں میں نہ کوئی فاصلہ رہ جائے اور نہ اس کا حوادث پر کوئی فضل رہ جائے اور پھر صانع و مصنوع دونوں برابر ہو جائیں اورمصنوع صنعت کے مثل ہو جائے۔اس نے مخلوقات کو بغیر کسی دوسرے کے چھوڑ دے ہوئے نمونہ کے بنایا ہے اور اس تخلیق میں کسی سے مدد بھی نہیں لی ہے۔زمین کو ایجاد کیا اور اس میں الجھے بغیر اسے روک کر رکھا اورپھربغیرکسی سہارے کے گاڑ دیا اور بغیر کسی ستون کے قائم کردیا اوربغیرکھمبوں کے بلند بھی کردیا۔اسے ہر طرح کی کجی اور ٹیڑھے پن سے محفوظ رکھا اورہر قسم کے شگاف اورانتشار سے بچائے رکھا۔اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اورچٹانوں کو مضبوطی سے نصب کردیا۔چشمے جاری کردئیے اور پانی کی گزر گاہوں کو شگافتہ کردیا۔اس کی کوئی صنعت کمزور نہیں ہے اور اس نے جس کو قوت دے دی ہے وہ ضعیف نہیں ہے۔وہ ہر شے پراپنی عظمت و سلطنت کی بناپرغالب ہے۔اور اپنے علم و عرفان کی بنا پر اندر تک کی خبر رکھتا ہے ۔جلال و عزت کی بنا پر ہر شے سے بلند و بالا ہے اور اگر کسی شے کو طلب کرنا چاہے تو کوئی شے اسے عاجز نہیں کر سکتی ہے اور اس سے انکارنہیں کر سکتی ہے اوراس سے انکار نہیں کرسکتی ہے کہ اس پر غالب آجائے ۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پروردگار کا عرفان اس کے صفات و کمالات ہی سے ہوتا ہے اور اسکی ذات اقدس بھی مختلف صفات سے متصف ہے لیکن بات صرف یہ ہے کہ اس کے صفات حادث نہیں ہیں۔بلکہ عین ذات ہیں اور ایک ذات اقدس ہے جس سے اس کے تمام صفات کا اندازہ ہوتا ہے اور اس میں کسی طرح کے تعدد کا کوئی امکان نہیں ہے۔

۳۵۴

ولَا يَفُوتُه السَّرِيعُ مِنْهَا فَيَسْبِقَه - ولَا يَحْتَاجُ إِلَى ذِي مَالٍ فَيَرْزُقَه - خَضَعَتِ الأَشْيَاءُ لَه وذَلَّتْ مُسْتَكِينَةً لِعَظَمَتِه - لَا تَسْتَطِيعُ الْهَرَبَ مِنْ سُلْطَانِه إِلَى غَيْرِه - فَتَمْتَنِعَ مِنْ نَفْعِه وضَرِّه - ولَا كُفْءَ لَه فَيُكَافِئَه - ولَا نَظِيرَ لَه فَيُسَاوِيَه - هُوَ الْمُفْنِي لَهَا بَعْدَ وُجُودِهَا - حَتَّى يَصِيرَ مَوْجُودُهَا كَمَفْقُودِهَا.

ولَيْسَ فَنَاءُ الدُّنْيَا بَعْدَ ابْتِدَاعِهَا - بِأَعْجَبَ مِنْ إِنْشَائِهَا واخْتِرَاعِهَا - وكَيْفَ ولَوِ اجْتَمَعَ جَمِيعُ حَيَوَانِهَا مِنْ طَيْرِهَا وبَهَائِمِهَا - ومَا كَانَ مِنْ مُرَاحِهَا وسَائِمِهَا - وأَصْنَافِ أَسْنَاخِهَا وأَجْنَاسِهَا - ومُتَبَلِّدَةِ أُمَمِهَا وأَكْيَاسِهَا - عَلَى إِحْدَاثِ بَعُوضَةٍ مَا قَدَرَتْ عَلَى إِحْدَاثِهَا - ولَا عَرَفَتْ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَى إِيجَادِهَا - ولَتَحَيَّرَتْ عُقُولُهَا فِي عِلْمِ ذَلِكَ وتَاهَتْ - وعَجَزَتْ قُوَاهَا وتَنَاهَتْ - ورَجَعَتْ خَاسِئَةً حَسِيرَةً - عَارِفَةً بِأَنَّهَا مَقْهُورَةٌ مُقِرَّةً بِالْعَجْزِ عَنْ إِنْشَائِهَا - مُذْعِنَةً بِالضَّعْفِ عَنْ إِفْنَائِهَا!

وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَعُودُ بَعْدَ فَنَاءِ الدُّنْيَا وَحْدَه لَا شَيْءَ مَعَه -

تیزی دکھلانے والے اس سے بچ کر آگے نہیں جا سکتے ہیں اوروہ کسی صاحب ثروت کی روزی کا محتاج نہیں ہے۔تمام اشیاء اس کی بارگاہ میں خضوع کرنے والی اور اس کی عظمت کے سامنے ذلیل ہیں۔کوئی چیز اس کی سلطنت سے فرار کرکے دوسرے کی طرف ہیں جا سکتی ہے کہ اس کے نفع و نقصان سے محفوظ ہو جائے نہ اس کا کوئی کفو ہے کہ ہمسری کرے اور نہ کوئی مثل ہے کہ برابر ہوجائے۔وہ ہر شے کو وجود کے بعد فناکرنے والا ہے کہ ایک دن پھرمفقود ہو جائے اور اس کے لئے دنیا کا فنا کردینا اس سے زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ جب اس نے اس کی اختراع و ایجادکی تھی اور بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ اگر تم حیوانات پرندہ اورچرندہ۔رات کو منزل پر واپس آنے والے اور چراگاہوں میں رہ جانے والے۔طرح طرح کے انواع و اقسام والے اور تمام انسان غبی اورہوشمند سب ملکرایک مچھر کو ایجاد کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے ہیں اور نہ انہیں یہ اندازہ ہو گا کہ اس کی ایجاد کا طریقہ اور راستہ کیا ہے بلکہ ان کی عقلیں اسی راہ میں گم ہو جائیں گی اور ان کی طاقتیں جواب دے جائیں گی اور عاجز و درماندہ ہو کر میدان عمل سے واپس آجائیں گی اور انہیں محسوس ہو جائے گا کہ ان پر کسی غلبہ ہے اور انہیں اپنی عاجزی کا قرار بھی ہوگا اور انہیں فنا کردینے کے بارے میں بھی کمزوری کا اعتراف ہوگا۔

وہ خدائے پاک و پاکیزہ ہی ہے جو دنیا کے فنا ہو جانے کے بعد بھی رہنے والا ہے اور اس کے ساتھ رہنے والا کوئی

۳۵۵

كَمَا كَانَ قَبْلَ ابْتِدَائِهَا كَذَلِكَ يَكُونُ بَعْدَ فَنَائِهَا - بِلَا وَقْتٍ ولَا مَكَانٍ ولَا حِينٍ ولَا زَمَانٍ - عُدِمَتْ عِنْدَ ذَلِكَ الآجَالُ والأَوْقَاتُ - وزَالَتِ السِّنُونَ والسَّاعَاتُ - فَلَا شَيْءَ( إِلَّا الله الْواحِدُ الْقَهَّارُ ) - الَّذِي إِلَيْه مَصِيرُ جَمِيعِ الأُمُورِ - بِلَا قُدْرَةٍ مِنْهَا كَانَ ابْتِدَاءُ خَلْقِهَا - وبِغَيْرِ امْتِنَاعٍ مِنْهَا كَانَ فَنَاؤُهَا - ولَوْ قَدَرَتْ عَلَى الِامْتِنَاعِ لَدَامَ بَقَاؤُهَا - لَمْ يَتَكَاءَدْه صُنْعُ شَيْءٍ مِنْهَا إِذْ صَنَعَه - ولَمْ يَؤُدْه مِنْهَا خَلْقُ مَا خَلَقَه وبَرَأَه - ولَمْ يُكَوِّنْهَا لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا لِخَوْفٍ مِنْ زَوَالٍ ونُقْصَانٍ - ولَا لِلِاسْتِعَانَةِ بِهَا عَلَى نِدٍّ مُكَاثِرٍ - ولَا لِلِاحْتِرَازِ بِهَا مِنْ ضِدٍّ مُثَاوِرٍ - ولَا لِلِازْدِيَادِ بِهَا فِي مُلْكِه - ولَا لِمُكَاثَرَةِ شَرِيكٍ فِي شِرْكِه - ولَا لِوَحْشَةٍ كَانَتْ مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَأْنِسَ إِلَيْهَا.

ثُمَّ هُوَ يُفْنِيهَا بَعْدَ تَكْوِينِهَا - لَا لِسَأَمٍ دَخَلَ عَلَيْه فِي تَصْرِيفِهَا وتَدْبِيرِهَا - ولَا لِرَاحَةٍ وَاصِلَةٍ إِلَيْه - ولَا لِثِقَلِ شَيْءٍ مِنْهَا عَلَيْه

نہیں ہے جیسا کہ ابتدا میں بھی ایسا ہی تھا اور انتہاء میں بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔اس کے لئے نہ وقت ہے نہ مکان۔نہ ساعت ہے نہ زمان، اس وقت مدت اور وقت سب فناہو جائیں گے اور ساعت و سال سب کاخاتمہ ہو جائے گا۔اس خداء واحد و قہار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔اسی کی طرف تمام امور کی باز گشت ہے اور کسی شے کو بھی اپنی ایجاد سے پہلے اپنی تخلیق کا یارانہ تھا اور نہفنا ہوتے وقت انکار کرنے کا دم ہوگا۔اگراتنی ہی طاقت ہوتی تو ہمیشہ نہ رہ جاتے۔اس مالک کو کسی شے کے بنانے میں کسی زحمتکا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اسے کسی شے کی تخلیق و ایجاد تھکا بھی نہیں سکی۔اس نے اس کائات کو نہاپنی حکومت کے استحکام(۱) کے لئے بنایا ہے اور نہ کسی زوال اور نقصان کے خوف سے بچنے کے لئے۔نہ اسے کسی مد مقابل کے مقابلہ میں مدد کی ضرورت تھی اور نہ وہ کسی حملہ آور دشمن سے بچنا چاہتا تھا۔اس کا مقصد اپنے ملک میں کوئی اضافہ تھا اور نہ کسی شریک کے سامنے اپنی کثرت کا اظہارتھا اور نہ تنہائی کی وحشت سے انس حاصل کرنا تھا۔

اس کے بعد وہ اس کائنات کو فنا کردے گا۔نہ اس لئے کہ اس کی تدبیر اور اس کے تصرفات سے عاجز آگیا ہے اور نہ اس لئے کہ اب آرام کرناچاہتا ہے یا اس پر کسی خاص چیز کا بوجھ پڑ رہا ہے۔

(۱)چونکہ دنیا میں ایجادات اورحکومات کا فلسفہ یہی ہوتا ہے کہ کوئی ایجادات کے ذریعہ حکومت کا استحکام چاہتا ہے اور کوئی حکومت کے ریعہ خطرات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔اس لئے بہت ممکن تھاکہ بعض جاہل افراد مالک کائنات کی تخلیق اور اس کی حکومت کے بارے میں بھی اسی طرح کا خیال قائم کر لیتے ۔

حضرت نے یہ چاہا کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا جائے اور اس حقیقت کو بے نقاب کردیا جائے کہ خالق و مخلوق میں بے پناہ فرق ہے اور کسی بھی مخلوق کا قایس خالق پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔مخلوق کا مزاج احتیاج ہے اورخالق کا کمال بے نیازی ہے لہٰذا دنوں کے بارے میں ایک طرح کے تصورات نہیں قائم کئے جا سکتے ہیں۔

۳۵۶

لَا يُمِلُّه طُولُ بَقَائِهَا فَيَدْعُوَه إِلَى سُرْعَةِ إِفْنَائِهَا - ولَكِنَّه سُبْحَانَه دَبَّرَهَا بِلُطْفِه - وأَمْسَكَهَا بِأَمْرِه وأَتْقَنَهَا بِقُدْرَتِه - ثُمَّ يُعِيدُهَا بَعْدَ الْفَنَاءِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنْه إِلَيْهَا - ولَا اسْتِعَانَةٍ بِشَيْءٍ مِنْهَا عَلَيْهَا - ولَا لِانْصِرَافٍ مِنْ حَالِ وَحْشَةٍ إِلَى حَالِ اسْتِئْنَاسٍ - ولَا مِنْ حَالِ جَهْلٍ وعَمًى إِلَى حَالِ عِلْمٍ والْتِمَاسٍ - ولَا مِنْ فَقْرٍ وحَاجَةٍ إِلَى غِنًى وكَثْرَةٍ - ولَا مِنْ ذُلٍّ وضَعَةٍ إِلَى عِزٍّ وقُدْرَةٍ.

(۱۸۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في ذكر الملاحم

أَلَا بِأَبِي وأُمِّي هُمْ مِنْ عِدَّةٍ - أَسْمَاؤُهُمْ فِي السَّمَاءِ مَعْرُوفَةٌ وفِي الأَرْضِ مَجْهُولَةٌ - أَلَا فَتَوَقَّعُوا مَا يَكُونُ مِنْ إِدْبَارِ أُمُورِكُمْ - وانْقِطَاعِ وُصَلِكُمْ واسْتِعْمَالِ صِغَارِكُمْ - ذَاكَ حَيْثُ تَكُونُ ضَرْبَةُ السَّيْفِ عَلَى الْمُؤْمِنِ - أَهْوَنَ مِنَ الدِّرْهَمِ مِنْ حِلِّه - ذَاكَ حَيْثُ يَكُونُ الْمُعْطَى أَعْظَمَ أَجْراً مِنَ الْمُعْطِي - ذَاكَ حَيْثُ تَسْكَرُونَ مِنْ غَيْرِ شَرَابٍ - بَلْ مِنَ النِّعْمَةِ والنَّعِيمِ - وتَحْلِفُونَ مِنْ غَيْرِ اضْطِرَارٍ - وتَكْذِبُونَ مِنْ غَيْرِ إِحْرَاجٍ - ذَاكَ إِذَا عَضَّكُمُ الْبَلَاءُ كَمَا يَعَضُّ الْقَتَبُ غَارِبَ الْبَعِيرِ

یا طول بقائے کائنات نے اسے تھکا دیا ہے تو اب اسے مٹا دینا چاہتا ہے۔ایسا کچھ نہیں ہے۔اس نے اپنے لطف سے اس کی تدبیر کی ہے اور اپنے امر سے اسے روک رکھا ہے۔اپنی قدرت سے اسے مستحکم بنایا ہے اور پھر فنا کرنے کے بعد دوبارہ ایجاد کردے گا حالانکہ اس وقت بھی نہ اسے کسی شے کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے مدد لینا ہوگی۔نہ وحشت سے انس کی طرف منتقل ہونا ہوگا اور نہ جہالت اورتاریکی سے علم اورتجریہ کی طرف آنا ہوگا نہ فقرو احتیاج سے مالداری اور کثرت کی تلاش ہوگی اور نہ ذلت و کمزوری سے عزت اور قدرت کی جستجو ہوگی۔

(۱۸۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حوادث روز گار کا ذکر کیا گیا ہے )

میرے ماں باپ ان چند افراد پر قربان ہو جائیں جن کے نام آسمان میں معروف ہیں اور زمین میں مجہول ۔آگاہ ہو جائو اور اس وقت کا انتظار کرو جب تمہارے امور الٹ جائیں گے اور تعلقات ٹوٹ جائیں گے اوربچوں کے ہاتھ میں اقتدار آجائے گا یہ وہ وقت ہوگا جب ایک درہم کے حلالا کے ذریعہ حاصل کرنے سے آسان تر تلوار کا زخم ہوگا اور لینے والے فقیر کا اجر دینے والے مالدار سے زیادہ ہوگا۔

تم بغیر کسی شراب کے نعمتوں کے نشہ میں سر مست ہو گے اور بغیر کسی مجبوری کے قسم کھائو گے اور بغیر کسی ضرورت کے جھوٹ بولو گے اوریہی وہ وقت ہوگا جب بلائیں تمہیں اس طرح کاٹ کھائیں گی جس طرح اونٹ کی

۳۵۷

مَا أَطْوَلَ هَذَا الْعَنَاءَ وأَبْعَدَ هَذَا الرَّجَاءَ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَلْقُوا هَذِه الأَزِمَّةَ - الَّتِي تَحْمِلُ ظُهُورُهَا الأَثْقَالَ مِنْ أَيْدِيكُمْ - ولَا تَصَدَّعُوا عَلَى سُلْطَانِكُمْ فَتَذُمُّوا غِبَّ فِعَالِكُمْ - ولَا تَقْتَحِمُوا مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ فَوْرِ نَارِ الْفِتْنَةِ - وأَمِيطُوا عَنْ سَنَنِهَا وخَلُّوا قَصْدَ السَّبِيلِ لَهَا - فَقَدْ لَعَمْرِي يَهْلِكُ فِي لَهَبِهَا الْمُؤْمِنُ - ويَسْلَمُ فِيهَا غَيْرُ الْمُسْلِمِ.إِنَّمَا مَثَلِي بَيْنَكُمْ كَمَثَلِ السِّرَاجِ فِي الظُّلْمَةِ - يَسْتَضِيءُ بِه مَنْ وَلَجَهَا - فَاسْمَعُوا أَيُّهَا النَّاسُ - وعُوا وأَحْضِرُوا آذَانَ قُلُوبِكُمْ تَفْهَمُوا.

(۱۸۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الوصية بأمور

التقوى

أُوصِيكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ بِتَقْوَى اللَّه - وكَثْرَةِ حَمْدِه عَلَى آلَائِه إِلَيْكُمْ - ونَعْمَائِه عَلَيْكُمْ وبَلَائِه لَدَيْكُمْ - فَكَمْ خَصَّكُمْ بِنِعْمَةٍ وتَدَارَكَكُمْ بِرَحْمَةٍ

پیٹھ کو پالان۔ہائے یہ رنج والم کس قدر طویل ہوگا اور اس سے نجات کی امید کس قدردور تر ہوگی۔ لوگو! ان سواریوں کی باگ ڈور اتار کر پھینک دو جن کی پشت پر تمہارے ہی ہاتھوں گناہوں کا بوجھ ہے اور اپنے حاکم سے اختلاف نہ کرو کہ بعد میں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔وہ آگ کے شعلے جو تمہارے سامنے ہیں ان میں کود نہ پڑو۔انکی راہسے الگ ہو کرچلو اور راستہ کو ان کے لئے خالی کردو کہ میری جان کی قسم اس فتنہ کی آگ میں مومن ہلاک ہو جائے گا اورغیر مسلم محفوظ رہے گا۔

میری مثال تمہارے درمیان اندھیرے میں چراغ(۱) جیسی ہے کہ جواس میں داخل ہو جائے گا وہ روشنی حاصل کرلے گا۔لہٰذا خدارا میری بات سنو اور سمجھو۔اپنے دلوں کے کانوں کو میری طرف مصروف کرو تاکہ بات سمجھ سکو۔

(۱۸۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مختلف امور کی وصیت کرتے ہوئے )

ایہا الناس ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں تقویٰ الٰہی اورنعمتوں ' احسانات اور فضل و کرم پر شکر خدا ادا کرنے کی دیکھو کتنی نعمتیں ہیں جو اس نے تمہیں عنایت کی ہیں اور کتنی برائیوں کی مکافات سے اپنی رحمت کے

(۱) جس طرح مالک نے رسول اکرم (ص) کو جاہلیت کے اندھیرے میں سراج منیر بناکربھیجا تھا اسی طرح فتنوں کے اندھیروں میں مولائے کائنات کی ذات ایکروشن چراغ کی ہے کہ اگر انسان اس چراغ کی روشنی میں زندگی گزارے تو کوئی فتنہ اس پر اثر اناز نہیں ہوسکتا ہے اور کسی اندھیر ے میں اس کے بھٹکنے کا امکان نہیں ہے۔لیکن شرط یہی ہے کہ اس چراغ کی روشنی میں قدم آگے بڑھائے ورنہ اگر اس نے آنکھیں بند کرلیں اوراندھے پن کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا رہا تو چراغ روشن رہے گا اور انسان گمراہ ہو جائے گا جس کی طرف ان کلمات کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے کہ خدارا میری بات سنو اور سمجھو کہ اس کے بغیر ہدایت کا کوئی امکان نہیں ہے اور گمراہی کا خطرہ ہرگز نہیں ٹل سکتا ہے۔

۳۵۸

أَعْوَرْتُمْ لَه فَسَتَرَكُمْ وتَعَرَّضْتُمْ لأَخْذِه فَأَمْهَلَكُمْ!

الموت

وأُوصِيكُمْ بِذِكْرِ الْمَوْتِ وإِقْلَالِ الْغَفْلَةِ عَنْه - وكَيْفَ غَفْلَتُكُمْ عَمَّا لَيْسَ يُغْفِلُكُمْ - وطَمَعُكُمْ فِيمَنْ لَيْسَ يُمْهِلُكُمْ - فَكَفَى وَاعِظاً بِمَوْتَى عَايَنْتُمُوهُمْ - حُمِلُوا إِلَى قُبُورِهِمْ غَيْرَ رَاكِبينَ - وأُنْزِلُوا فِيهَا غَيْرَ نَازِلِينَ - فَكَأَنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا لِلدُّنْيَا عُمَّاراً - وكَأَنَّ الآخِرَةَ لَمْ تَزَلْ لَهُمْ دَاراً - أَوْحَشُوا مَا كَانُوا يُوطِنُونَ - وأَوْطَنُوا مَا كَانُوا يُوحِشُونَ - واشْتَغَلُوا بِمَا فَارَقُوا - وأَضَاعُوا مَا إِلَيْه انْتَقَلُوا – لَا عَنْ قَبِيحٍ يَسْتَطِيعُونَ انْتِقَالًا - ولَا فِي حَسَنٍ يَسْتَطِيعُونَ ازْدِيَاداً - أَنِسُوا بِالدُّنْيَا فَغَرَّتْهُمْ - ووَثِقُوا بِهَا فَصَرَعَتْهُمْ.

سرعة النفاد

فَسَابِقُوا رَحِمَكُمُ اللَّه إِلَى مَنَازِلِكُمُ - الَّتِي أُمِرْتُمْ أَنْ تَعْمُرُوهَا - والَّتِي رَغِبْتُمْ فِيهَا ودُعِيتُمْ إِلَيْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعَمَ اللَّه عَلَيْكُمْ

ذریعہ بچالیا ہے۔تم نے کھل کر گناہ کے اور اس نے پردہ پوشی کی تم نے قابل مواخذہ اعمال انجام دئیے اور اس نے تمہیں مہلت دے دی۔

میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ موت کو یاد رکھو اور اس سے غفلت نہ برتو۔آخر اس سے کیسے غفلت کر رہے ہو جو تم سے غفلت کرنے والی نہیں ہے اور اس فرشتہ موت سے کیسے امید لگائے ہو جو ہرگز مہلت دینے والا نہیں ہے۔تمہاری نصیحت کے لئے وہمردے ہی کافی ہیں جنہیں تم دیکھ چکے ہو کہ کس طرح اپنی قبروں کی طرف بغیر سواری کے لے جائے گئے اور کس طرح قبر میں اتار دئیے گئے کہ خود سے اترنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی اس دنیا کو بسایا ہی نہیں تھا اورگویا کہ آخرت ہی ان کا ہمیشگی کا مکان ہے۔وہ جہاں آباد تھے اسے وحشت کدہ بنا گئے اور جس سے وحشت کھاتے تھے وہاں جا کر آباد ہوگئے۔یہ اس میں مشغول رہے تھے کو چھوڑنا پڑا اور اسے برباد کرتے رہے تھے جدھر جانا پڑ۔اب نہ کسی برائی سے بچ کر کہیں جا سکتے ہیں اورنہ کسی نیکی میں کوئی اضافہ کرسکتے ہیں۔دنیا سے انس پیدا کیا تو اس نے دھوکہ دے دیا اور اس پر اعتبارکرلیا تو اس نے تباہ و برباد کردیا۔

خداتم پر رحمت نازل کرے۔اب سے سبقت کرو ان منازل کی طرف جن کو آباد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن کی طرف سفرکرنے کی رغبت دلائی گئی ہے اور دعوت دی گئی ہے۔اللہ کی نعمتوں کی تکمیل کا انتظام کرو

۳۵۹

بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَتِه - والْمُجَانَبَةِ لِمَعْصِيَتِه - فَإِنَّ غَداً مِنَ الْيَوْمِ قَرِيبٌ - مَا أَسْرَعَ السَّاعَاتِ فِي الْيَوْمِ - وأَسْرَعَ الأَيَّامَ فِي الشَّهْرِ - وأَسْرَعَ الشُّهُورَ فِي السَّنَةِ - وأَسْرَعَ السِّنِينَ فِي الْعُمُرِ!

(۱۸۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الإيمان ووجوب الهجرة

أقسام الإيمان

فَمِنَ الإِيمَانِ مَا يَكُونُ ثَابِتاً مُسْتَقِرّاً فِي الْقُلُوبِ - ومِنْه مَا يَكُونُ عَوَارِيَّ بَيْنَ الْقُلُوبِ والصُّدُورِ - إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ - فَإِذَا كَانَتْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ مِنْ أَحَدٍ فَقِفُوه - حَتَّى يَحْضُرَه الْمَوْتُ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ حَدُّ الْبَرَاءَةِ.

وجوب الهجرة

والْهِجْرَةُ قَائِمَةٌ عَلَى حَدِّهَا الأَوَّلِ - مَا كَانَ لِلَّه فِي أَهْلِ الأَرْضِ حَاجَةٌ مِنْ مُسْتَسِرِّ

اس کی اطاعت کے انجام دینے اور معصیتوں سے پرہیز کرنے پر صبر کے ذریعہ۔اس لئے کہ کل کا دن آج کے دن سے دور نہیں ہے۔دیکھو دن کی ساعتیں 'مہینہ کے دن ' سال کے مہینے اور زندگی کے سال کس تیزی سے گزر جاتے ہیں۔

(۱۸۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایمان اور وجوب ہجرت کے بارے میں )

ایمان(۱) کا ایک وہ حصہ ہے جودلوں میں ثابت اورمستحکم ہوتا ہے اور ایک وہ حصہ ہے جو دل اور سینے کے درمیان عارضی طور پر رہتا ہے لہٰذا اگر کسی سے برائت اور بیزاری بھی کرنا ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اسے موت آجائے کہ اس وقت بیزاری برمحل ہوگی۔

ہجرت(۲) کا قانون آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔اللہ کسی قوم کی متحاج نہیں ہے چاہے جو خفیہ طور پر

(۱)ایمان وہ عقیدہ ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں پایا جاتا ہے اورجس کا واقعی اظہار انسان کے عملاور کردار سے ہوتا ہے کہ عمل اور کردارکے بغیر ایمان صرف ایک دعویٰ رہتا ہے جسکی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔

لیکن یہ ایمان بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔کبھی انسانکے دل کی گہرائیوں میں یوں پیوست ہو جاتا ہے کہ زمانہ کے جھکڑ بھی اسے ہلاک نہیں سکتے ہیں اور کبھی حالات کی بنا پر تزتزل کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔حضرت نے اس دوسری قسم کے پیش نظر ارشاد فرمایا ہے کہ کسی انسان کی بد کرداری کی بنا پر برائت کرنا ہے تو اتنا انتظر کرلو کہ اسے موت آجائے تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ ایمان اس کے دل کی گہرائیوں میں ثابت نہیں تھا ورنہ تو بہ و استغفار کرکے راہ راست پرآجاتا ۔

(۲)ہجرت کا واقعی مقصد جان کا بچانا نہیں بلکہ ایمان کا بچانا ہوتا ہے لہٰذا جب تک ایمان کے تحفظ کا انتظام نہ ہو جائے اس وقت تک ہجرت کاکوئی مفہوم نہیں ہے اور جب معرفت حجت کے ذریعہ ایمان کے تحفظ کا انتظام ہو جائے تو سمجھو کہ انسان مہاجر ہوگیا ' چاہے اس کا قیام کسی منزل پر کیوں نہ رہے۔

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863