نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657113 / ڈاؤنلوڈ: 15927
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

یہ شواہد جو میں نے عرض کیے کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ اہل سنت کا اہل بیتؑ نبویؐ سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ لوگ ائمہ اہل بیتؑ سے الگ کیوں رہے؟صرف اس لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ ہماری فقہ،ہمارے عقائد،ہماری ثقافت،کچھ بھی تو اہل بیتؑ سے میل نہیں کھاتی سب کچھ اہلبیتؑ سے الگ ہے اس لئے ہم بھی اہل بیتؑ سے الگ ہیں۔

ائمہ اہل بیتؑ نے امت کی ہدایت و ثقافت اور تہذیب اخلاق کو اہمیت دی

لیکن ائمہ اہل بیتؑ چونکہ نبیؐ کے وارث اور آپؑ کے علوم کے حامل تھے اس لئے انہوں نے ہمیشہ نبیؐ کے بعد امت کی ہدایت کا خود کو ذمہ دار سمجھا اور امت کی ثقافت پردھیان دیتے رہے تا کہ اسلامی سماج کو صحیح سمت کی نشان وہی کرتے رہیں یہی وجہ ہے کہ ان حضرات نے سب سے اہم کام یہ سمجھا کہ علم و معرفت کا زیادہ سے زیادہ پرچار کیا جائے اس سلسلہ میں مولائے کائناتؑ کا قول ثبوت کے طور پر حاضر ہے آپؑ فرمایا کرتے تھے مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں(1) حدیث مشہور میں جناب کمیل سے مروی ہے جناب کمیل کہتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنینؑ نے میرا ہاتھ پکڑا اور صحرا کی طرف لے کر چلے جب ہم لوگ صحرا میں بالکل اکیلے ہوگئے تو آپؑ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور فرمایا(اے کمیل دلوں میں ظرفیت ہوتی ہے اور وہ دل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)المستدرک علی صحیحین ج:2ص:383،کتاب فتن میں مذکور سنتیں،ج:4ص:838،دلائل،علامات اور اشراط کے باب میں ج:6ص:1196،جس نے کہا صافی بن صیّاد ہی دجّال ہے کہ باب میں اسی کے مانند تفسیر طبری ج:13ص:221میں ہے،المستدرک علی صحیحین ج:2ص:506،معتصر المختصرج:2ص:30،مناقب علی کے بیان میں لیکن(تفقدونی)کی جگہ(لا تسالونی)نیز دیگر مختلف الفاظ میں ہر منتخب احادیث میں ذکر ہوا ہےج:2ص:61،مجمع الزوائدج:4ص:669،کتاب النکاح،المصنف،ابن ابی شیبہ ج:3ص:530،مسند الشاشی ج:2ص:96،مسند البزارج:2ص:192،الفتن،ابن نعیم بن حمادج:1ص:40،فتح الباری ج:11ص:291،تحفۃ الاحوذی ج:7ص:27،فیض القدیرج:4ص:357،حلیۃ الاولیاءج:4ص:366،تہذیب التہذیب ج:7ص:297،تہذیب الکمال ج:20ص:487،الطبقات الکبریٰ ج:2ص:338،علی بن ابی طالب کے حالات میں الاصابۃج:4ص:568،تہذیب الاسماءص:317،تلخیص المتشابۃج:1ص:62،اخبار مکہ،ج:3ص:228 ان اشیاء کے اوائل کے بیان میں جو زمانہ قدیم سے آج تک مکہ میں رونما ہوتی ہیں

۱۴۱

سب سے بہتر ہے جس میں علم کی زیادہ گنجائش ہے میں جو کہہ رہا ہوں اس کی حفاظت کرنا لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں:

1۔عالم ربانی.

2۔نجات کے راستے کا طالب علم.

3۔گنوار کمینے لوگ.

ہر آواز دینےوالے کی پیروی کرنےوالے جو ہوا کے رخ پر چل نکلے ہیں انہوں نے نور علم سے روشنی لی نہ قابل اعتبار سہارے پر تکیہ کیا)پھر آپؑ نے علم کی فضیلت میں ایک لمبی گفتگو کی اور تحصیل علم کو فرض ثابت کیا پھر آپؑ نے صدر اقدس پر ہاتھ رکھ فرمایا اے کمیل یہاں بہت علم ہے کاش میں اس علم کو اٹھانےوالا پاتا۔(1)

عمروبن مقدام کہتا ہے جب میں جعفر بن محمدؑ کو دیکھتا تھا تو مجھے یقین ہوجاتا تھا کہ آپ کا لگاؤ شجرہ نبوت سے ہے میں نے آپ کو باب جمرہ پر کھڑے ہوئے دیکھا آپ کہہ رہے تھے مجھ سے پوچھو!مجھ سے پوچھو!(2)

صالح بن ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا جعفر بن محمدؑ کہہ رہے تھے مجھے کھودینے سے پہلے مجھ سے پوچھو!میری طرح میرے بعد تم سے کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرےگا(3) ائمہ اہل بیتؑ سے ایسی بہت سی باتیں ظاہر ہوتی رہی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:4ص:36،نزھۃ الناظر و تنبیہ الخاطرص:57،کنزالعمال ج:10ص:363،حدیث:39391،تاریخ بغدادج:6ص:376،اسحاق بن محمد بن احمد بن ابان کے حالات میں،تاریخ دمشق ج:5ص:252کمیل بن زیاد کے حالات میں تہذیب الکمال ج:24،ص:220کمیل بن زیاد کے حالات میں،تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:11،امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،حلیۃ الاولیاءج:1ص:80،التدوین فی اخبار القزوین ج:3ص:209،صفوۃ الصفوۃ ج:1ص:329۔303۔

(2)سیر اعلام النبلاءج:6ص:257،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں،الکامل فی ضعفاءالرجال ج:2ص:132،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں تہذیب الکمال ج:5ص:79،جعفر بن محمد صادقؑ کے حالات میں

(3)تذکرۃ الحفاظ ج:1ص:166حالات جعفر بن محمد صادقؑ،سیر اعلام النبلاءج:6ص:257حالات جعفر بن محمد صادقؑ،تھذیب الکمال ج:5ص:79حالات جعفر بن محمد بن صادقؑ(میں تمہیں جو بتاؤں گا وہ میرے بعد کوئی بھی نہیں بتائے سکےگا)

۱۴۲

جب جمہور نے منھ موڑ لیا تو آپ حضرات نے اپنے شیعوں کو بہت اہمیت دی

ائمہ اہل بیتؑ نے ب یہ دیکھا کہ جمہور ہم سے منحرف ہے اور ہماری باتوں کو قبول نہیں کرتے تو ان حضرات پر یہ بات بہت گراں گذری،اس سلسلہ میں امام زین العابدین علیہ السلام کا قول ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہوں آپؑ فرمایا کرتے تھے ہمیں نہیں معلوم کہ ہم لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کریں جب ہم ان سے وہ حدیثیں بیان کرتے ہیں جو ہم نے نبیؐ سے سنی ہیں تو وہ ہنسنے لگتے ہیں اور ہم چپ رہیں تو ایسا ہم کر نہیں سکتے۔(1)

پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارے سلسلےمیں لوگوں کو بڑی سخت آزمائش کا سامنا ہے اگر ہم انھیں دعوت دیں تو وہ ہماری سنتے نہیں اور انھیں ان کے حال پر چھوڑدیں تو ہمارے بغیر وہ ہدایت پا نہیں سکتے۔(2)

اسی طرح کی شکایت ابوعبداللہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی کی ہے(3)

مجبور ہو کر ائمہ اہل بیتؑ نے جمہور اہل سنت سے تقیہ اور کتمان کرنا شروع کیا اور اپنےشیعوں کی طرف متوجہ ہوگئے،ان حضرات نے اپنے شیعوں کو اختصاص بخشا،ان سے مطمئن ہوئے،انہیں اپنا رازدار بنایا،انہیں اپنی سیرت کے سانچے میں ڈھالا اور عقیدہ،فقہ،اخلاق،حسن سلوک اور تمام علوم جو انھیں ورثہ میں ہادی برحق سے ملے تھے اپنے شیعوں کو بخش دیئے یہی وجہ ہے کہ شیعیان اہل بیتؑ(محبت اہل بیتؑ اور اپنے اماموں کی خصوصی توجہ کی وجہ سے)تمام عالم اسلام میں ممتاز اور سربلند ہوگئے اور دشمنان اہل بیتؑ سے بےنیاز ہوگئے بلکہ ان سے بچتے رہے اور ان کی طرف سے بالکل ہی روگردانی کردی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکافی ج:3ص:234

(2)الارشادج:2ص:167۔168،اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ ج:1ص:508الخرائج و الجرائح ج:2ص:893،مناقب آل ابی طالب ج:3ص:336،کشف الغمہ ج:2ص:339۔340،بحارالانوارج:26ص:253ج:6ص:288

(3)الامالی للصدوق ص:707،وسائل الشیعہ ج:21ص:142،بحارالانوارج:23ص:99۔

۱۴۳

عالم اسلام میں ائمہ اہل بیتؑ کا بہرحال ایک مقام ہے

عنایات الٰہی کا یہ فیصلہ ہے کہ حجت تمام کرنے کے لئے اہل بیت کے ائمہ اطہارؑ کی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ مقام ان کی اپنے قوت بازو کی کمائی ہے،ان کا علم ان کا جہاد،ان کا تقویٰ،ان کی حکمت،ان کی حسن سیرت،کتاب و سنت کے ارشادات ان کی فضیلت میں ان کی عظمت و بزرگی،ان کے شیعوں کی جد و جہد،مسلسل قربانیاں،یہ تمام باتیں نظرانداز کرنے کے لائق نہیں ہیں اور انھیں صفات حسنہ کی وجہ سے عام عالم اسلام ان کی عزت کرنے پر مجبور ہے اور انہیں ایک مقام دیتا ہے۔

ثبوت یہ ہے کہ جب جمہور اہل سنت نے دیکھا اور محسوس کیا کہ(اہل بیتؑ کو چھوڑ دینے کے بعد)ان کے عقیدے میں کافی خامیاں آگئی ہیں تو کوشش شروع کردی کہ شیعہ اپنے اماموں سے عقیدہ،امامت و خلافت سے جو بات کہتے ہیں اس کا سرے سے انکار کردیا جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ شیعوں نے یہ بات اپنی طرف سے گڑھی ہیں ائمہ اہل بیتؑ اور مولا علی علیہ السلام تو دونوں خلفا(ابوبکر و عمر)کی خلافت کا اقرار کرتے تھے اور ان سے راضی تھے اور یہ کہ اس دلیل کی بنیاد پر ہم اہل بیتؑ کے تابع ہیں نہ کہ شیعہ لوگ،دلیل میں انہوں نے ایسی نادر الوجود اور کمیاب حدیثیں پیش کی ہیں جو یا تحریف شدہ ہیں یا جھوٹی ہیں یا مقام تقیہ میں ہیں بہرحال استدلال سے قاصر ہیں وہ حدیثیں تو خود ہی کمزور ہیں بھلا ان قوی ثقہ اور حسن حدیثوں کا کیا مقابلہ کرسکیں گی جو شیعہ اپنے ائمہ اہل بیتؑ سے خاص طور سے امامت و خلافت کے سلسلے میں وارد کرتے ہیں اور جن کی بنیاد پر شیعوں کے عقیدہ امامت کی عمارت کھڑی ہوئی ہے،جو حدیثیں پکار پکار کے کہتی ہیں کہ اہلبیتؑ کے عقیدہ امامت کی عمارت کھڑی ہوئی ہے،جو حدیثیں پکار پکار کے کہتی ہیں کہ اہلبیتؑ کا حق غصب کیا گیا،ان پر ظلم کیا گیا اور ان کو ہمیشہ ستایا گیا اور جن حدیثوں میں ائمہ اہل بیتؑ ظلم کرنےوالے غاصبوں کا انکار کرتے ہیں وہ حدیثیں اور دلیلیں قائم حقیقتیں ہیں،روشن و ضیا بار حدیثیں ہیں ان میں

۱۴۴

شک کی گنجائش ہے نہ شبہ کی جگہ۔اور اگر کوئی غبی شبہ کرتا بھی ہے تو ہمیں کوئی ایسی حقیقت بتا دیجئے جو چاہے جتنا بھی روشن ہو مگر شبہ سے بری ہو اور شک سے پاک،لیکن یہ دیکھیں کہ شبہ کر کون رہا ہے؟وہی جو اس حقیقت کو مٹانا چاہتا ہے یا ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اس کو ماننا نہیں چاہتا ہے،خاص طور سے یہ حقیقت(عقیدہ امامت)اس پر شبہ تو کیا ہی جائےگا اس لئے کہ یہ ایک بڑےگروہ کے لئے لقمہ تلخ بنی ہوئی ہے،اقتدار غالب کے خلاف ہے اور ایک ایسی بات کو ثابت کر رہی ہے جس کا انکار کرنےوالا فضیحت کا مستحق ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ شکوک و شبہات کی بنیاد پر حق جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے اور شک و شبہ کسی حق کے انکار کی دلیل نہیں بن سکتا کوئی وجہ نہٰں ہے کہ محض شک و شبہ کی وجہ سے ایک واضح حقیقت کا انکار کیا جائے اور اس پر یقین نہ کیا جائے کوئی بھی صاحب عقل اور انصاف پسند انسان اس حقیقت کی وضاحت اور اس کا جلوہ دیکھ کے یہی فیصلہ کرےگا۔

خلافت کے معاملے میں ائمہ اہل بیت(ہدیٰ)علیہم السلام اور ان کے خاص لوگوں کی تصریحات

1۔خود ائمہ ہدیٰ علیہم السلام اور ان حضرات کے خاص افراد(جو ائمہ ھدیٰؑ کی وثاقت و جلالت پر متفق تھے)کی وافر تصریحات موجود ہیں،ان عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان مقدس افراد نے امر خلافت کے بارے میں شکوا کیا ہے،یہ کہا ہے کہ ان پر ظلم ہوا ہے،ان حضرات نے ظالموں کا انکار کیا ہے،ان عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ خلفاء کی خلافت پر بالکل راضی نہیں تھے نہ اسے پسند کرتے تھے اور اس کی شرعیت کے منکر تھے،یہی وجہ ہے کہ شرعی اعتبار سے غاصبان خلافت تجاوز و عدوان کی حدوں میں رہے اور ائمہ ھدیٰ علیہم السلام انہیں ظالم اور غاصب سمجھتے بھی تھے اور کہتے بھی تھے۔

۱۴۵

یہ تصریحات غیر شیعہ کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں،ایسی کتابوں میں جو کافی مشہور ہیں اور ان کا صدور شک سے پرے ہے ان عبارتوں کا صدور اس طرح ہوا ہے کہ اجمالی طور پر یا تفصیل سے علما جمہور انکار نہیں کرسکتے۔

امیرالمومنین علیہ السلام کا امر خلافت کے معاملے میں صریحی بیان

یہ امیرالمومنین علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنے حق کے غاصبوں کی کافی شکایتیں کی ہیں اور صاف لفظوں میں ان کے ظلم کا اظہار کیا ہے اور انہیں ظالم کہا ہے۔

1۔آپ کا مشہور خطبہ ملاحظہ ہو جو خطبہ شقشقیہ کے نام سے مشہور ہے اس مشہور خطبہ میں آپؑ نے ان لوگوں کی بہت مذمت کی ہے جنھوں نے آپ کو الگ کرکے خلافت پر زبردستی قبضہ کرلیا،آپ خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں:

لیکن خدا کی قسم فلاں نے خلافت کی قمیص کو کھینچ تان کر پہنا،حالانکہ وہ جانتا تھا کہ میں خلافت کے لئے ایسا ہی ہوں جیسا چکی کے لئے کھونٹا،مجھ سے(علم و حکمت کے)چشمے نکلتے ہیں اور میری بلندیوں تک طاہر علم و خیال نہیں پہنچ سکتا،تو میں نے خلافت سے اپنے کپڑے کو سمیٹے رکھا اور یہ سونچنے لگا کہ میں اپنے بریدہ ہاتھوں سے حملہ کر بیٹھوں یا اس اندھری رات میں صبر کروں جس میں سن رسیدہ کھوسٹ ہو رہے ہیں اور بچے بوڑھے ہو رہے ہیں اور مومن کچلا جارہا ہے یہاں تک کہ اپنے رب سے ملاقات کرتا ہے،تو میں نے طے کیا کہ ان حالات میں صبر کر لینا سب سے مناسب بات ہے۔میں نے اس حال میں صبر کیا کہ میری آنکھ میں تنکا اور حلق میں ہڈی تھی میں اپنی میراث کو لٹتا ہوا دیکھ رہا تھا،یہاں تک کہ پہلے نے اپنا راستہ لیا اور فلاں بن فلاں کو اپنے بعد ذمہ دار بنا گیا اس نے خلافت کی اونٹنی کو بہت شدت سے دوہا اور اسے ایک ایسی کھردری وادی میں لےگیا جہاں بار بار ٹھوکر لگتی تھی اور راستہ اوبڑکھا بڑتھا،اس وادی میں وہ بار بار پھسلتا تھا اور اکثر عذر پیش کرتا تھا خدا کی قسم

۱۴۶

لوگ خبط ہو کے رہ گئے تھے،تلوُّن اور اعتراض کا دور دورہ تھا پھر میں نے مدت کی درازی اور امتحان کی سختیوں پر صبر کیا یہاں تک کہ کدوسرے نے بھی اپنا راستہ لیا اور نصب خلافت کا ذمہ ایک جماعت کو دے کے چلا گیا۔

اس نے مجھے بھی جاعلین خلیفہ میں قرار دیا یہ سونچ کر کہ میں بھی انھیں جیسا ہوں یا اللہ یہ شوریٰ بھی کیا چیز تھی!میرے بارے میں مستحق خلافت ہونے کا شبہ ہی کب تھا کہ مجھے ایسے لوگوں کے برابر قرار دیا گیا،بہرحال اصحاب شوریٰ میں ایک آدمی تو اپنے کینہ پروری کی وجہ سے ایک طرف جھک گیا دوسرے نے سسرال کی طرف داری کی اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا کھڑا ہوا،پہلو اور پیٹ کو پھلائے اور اس کے ساتھ اس کے باپ کے بیٹے بھی آئے پس مال خدا کو یوں کھانے لگے جیسے اونٹ فصل بہار کی سبزی چرتے ہیں یہاں تک کہ اس رسی کے بٹ کھل گئے اور اس کی بدرفتاری سے عوام بھڑک اٹھی اور اس کی شکم پروری نے اسے تباہ کردیا(1) (ابن عباس کا جب کلام پیش کیا جائےگا تو اس خطبہ کی توثیق بھی پیش کی جائےگی)

2۔طلحہ و زبیر کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو جس میں آپ نے فرمایا:خدا کی قسم مجھے ہمیشہ اپنے حق سے دور رکھا گیا اور مجھ پر دوسروں کو ترجیح دی گئی۔یہ سلسلہ اس دن سے جاری ہے جس دن خداوند عالم نے اپنے نبیؐ کو بلا لیا اور آج بھی وہی صورت حال باقی ہے۔(2)

3۔سقیفہ کے ڈرامے کے بعد حضرتؑ نے اس وقت فرمایا جب آپ کا مددگار آپؑ کے اہل بیتؑ کے علاوہ کوئی نہیں تھا تو آپؑ فرماتے ہیں((پس میں نے غور کیا تو پتہ چلا کہ میرا مددگار سوا میرے اہلبیتؑ کے کوئی نہیں ہے تو میں ان کے بارے میں موت سے ڈرا اور آنکھوں میں تنکے برداشت کرنے اور حلق میں پھانس لگنے کے باوجود میں نے غصہ کو ضبط کیا اور تلخ گھونٹ پی لیا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:30۔35

(2)نہج البلاغہ ج:1ص:42

(3)نہج البلاغہ ج:1ص:67وتقویۃ الایمان محمد بن عقیل ص:68

۱۴۷

4۔آپؑ ہی کا ارشاد ہے:ائمہؑ صرف قریش میں وہ بھی شجرہ ہاشم میں قرار دیئے گئے ہیں ان کے علاوہ کسی میں امامت کی صلاحیت نہیں ہے اور حکمرانوں کی اصلاح کرنا بھی ان کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں ہے۔(1)

5۔ایک اور جگہ آپؑ کا ارشاد ہے یہاں تک کہ نبیؐ کی وفات ہوئی اور قوم اپنے پچھلے مذہب پر پلٹ گئی راستے ان کے سامنے بدل گئے،ٹیڑھے ھے میڑھے راستوں پر اعتماد کرنے لگے،غیر رحم میں صلہ رحم کرنے لگے،ان سب کو چھوڑدیا جن کی مؤدت کا حکم دیا گیا اور عمارت کو اس کے سنگ بنیاد سے ہٹادیا اور ایسی جگہ بنایا جو اس کے لئے مناسب نہیں تھی وہ جگہ ہر غلطی کا معدن اور ہر تاریکی کا دروازہ تھی،لوگ حیرت میں گمراہ ہوگئے اور نشہ میں ان کی عقل ضائع ہوگئی،آل فرعون کے طریقہ پر انہوں نے صرف دنیا سے رشتہ جوڑ کے اسی پر بھروسہ کی اور دین سے الگ ہوگئے پھر دین کو چھوڑ ہی دیا۔(2)

6۔کسی نے آپؑ سے پوچھا کہ آخر جب آپ مستحق تھے تو قوم نے آپؑ سے خلافت کیسے چھین لی؟آپ نے فرمایا کچھ آثار ہیں کچھ طریقے ہیں ایک قوم نے ہمیں ہمارا حق دینے میں بخل کیا اور دوسری قوم نے ہمارا حق دوسروں کو دینے میں سخاوت کی فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی طرف پلٹ کے قیامت میں جانا ہے۔(3)

7۔اپنے بھائی عقیل کو ایک خط میں آپ لکھتے ہیں((آپ قریش کو چھوڑ دیں اور انہیں گمراہیوں میں لوٹنے دیں،اختلافات میں جولانیان کرنے دین اور کیچڑ میں بھٹکنے دیں،انہوں نے مجھ سے جنگ پر ٹھیک اسی طرح اتفاق کیا ہے جس طرح پیغمبرؐ سے لڑنے پر جمع ہوئے میں نے قریش کے ساتھ گذارہ کیا اور کئی راستوں سے گذرا ہوں انہوں نے میرے رحم کو قطع کیا اور مجھ سے میری ماں کے بیٹے کی سلطنت چھیں لی))(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:27 (2)نہج البلاغہ ج:2ص:36۔37

(3)نہج البلاغہ ج:2ص:63۔64

(4)نہج البلاغہ ج:4ص:61،امامت و سیاست ج:1ص:51علیؑ کا مدینہ سے خارج ہونا

۱۴۸

8۔آپؑ معاویہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ((کتاب خدا نے بہت سی نادر چیزیں ہمارے لئے جمع کردی ہیں اور خداوند عالم کا یہ قول ہے:(وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ) (1)

ترجمہ آیت:صاحبان رحم ایک دوسرے کے اوپر زیادہ حق رکھتے ہیں۔

اور یہ قول:(إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ) (2)

ترجمہ آیت:ابراہیمؑ کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جو ابراہیمؑ کی پیروی کریں اور یہ نبیؐ اور ایمان دار لوگ ہیں اللہ تو صاحبان ایمان کا سرپرست ہے۔اور اسی بنیاد پر مہاجرین نے انصار سے رسول خداؐ کے حوالے سے احتجاج کیا اور کامیاب ہوگئے تو اگر اسی آیت کے اصول پر انھیں کامیابی ملی تو تمہارے مقابلے میں ہم زیادہ حقدار تھے اگر اس کی طرح کھینچے ہوئے لے جارہے تھے تا کہ میں بیعت کروں!تو اگر اس تحریر سے میری مذمت کا ارادہ کیا ہے تو کامیاب نہیں ہوا بلکہ اس میں تو مدح کا پہلو نکل رہا ہے اور تو نے مجھے ذلیل کرنے کا اردہ کیا تو تو خود فضیحت کا شکار ہوگیا مومن جب تک اپنے دین میں شک نہ کرے اور اس کا یقین بدگمانی میں نہ بدلے اس وقت تک اس کے مظلوم ہونے میں کوئی بےعزتی کی بات نہیں ہے حالانکہ مذکورہ بالا دلیل تیرے غیر کے لئے ہے لیکن میں نے تجھ کو بقدر ضرورت لکھ دیا۔(3)

9۔آپؑ نے فرمایا:((لوگو!مجھے معلوم ہے کہ تم میرا انکار کروگے لیکن میں کہوں گا ضرور۔پس زمین و آسمان کے پروردگار کی قسم نبیؐ امی نے مجھ سے عہد کیا تھا اور فرمایا کہ یہ امت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ انفال آیت:75

(2)سورہ آل عمران آیت:68

(3)نہج البلاغہ ج:3ص:30

۱۴۹

میرے بعد تم سے غداری کرےگی))(1)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ اکثر اہل حدیث نے اس خبر کو یا تو انہیں الفاظ میں نقل کیا ہے یا اس کے قریب المعنیٰ الفاظ میں۔(2)

10۔اور حضرتؑ نے فرمایا کہ میں چالیس آدمی بھی اپنی حمایت میں پاتا،تو اس قوم کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہوتا۔

معاویہ کا ایک مشہور خط ہے جو اس نے امیرالمومنینؑ کو بھیجا تھا،خط کے ذیل میں معاویہ لکھتا ہے:(میں آپ کو وہ دن یاد دلا رہا ہوں جب لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی تھی اور آپ اپنی بیوی کو خچر پر بٹھا کے اور اپنے دونوں بیٹوں حسنؑ اور حسینؑ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تاریکی میں نکلا کرتے تھے،آپ نے اہل بدر اور سابقین میں سے کسی گھر کے دروازے کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہاں دستک دی اور اپنی نصرت کے لئے پکارا،آپ بیوی کولے کر ان کے پاس جاتے رہے اور اپنے بچوں کا انھیں واسطہ دیتے رہے اور صحابی پیغمبر کے خلاف ان سے نصرت طلب کرتے رہے تو آپ کا جواب دینےوالے نہیں تھے مگر صرف چار یا پانچ آدمی،میری جان کی قسم آہ،اگر آپ حق پر ہوتے تو لوگ آپ کا جواب ضروری دیتے لیکن آپ کا دعویٰ باطل تھا اور آپ وہ بات کہہ رہے تھے جس سے خود ناواقف تھے اور ایسی جگہ تیرمار رہے تھے جو آپ کی دسترس میں نہیں تھی اور شاید آپ بھول گئے ہیں لیکن میں وہ بات نہیں بھولا ہوں جو آپ نے ابوسفیان سے کہی تھی۔

جب آپ کو ابوسفیان نے حرکت میں لانے کی کوشش کی اور آپ کو جوش دلایا تو آپ نے کہا تھا کہ اگر چالیس آدمی بھی مجھے مل جاتے تو میں اس قوم کے خلاف کھڑا ہوجاتا یعنی آج پہلے دن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:3ص:150

(2)شرح نہج البلاغہ ج:4ص:107،اسی طرح کے الفاظ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ کتاب المستدرک،ج:3ص:107،مسند الحارث،ج:2ص:905،تذکرۃ الحفاظ،ج:3ص:995،تاریخ دمشق،ج:42ص:447،البدایۃ و النہایۃ،ج:6ص:218،تاریخ بغداد،ج:11ص:216

۱۵۰

مسلمانوں کے لئے آپ مسئلہ نہیں بنے ہیں اور آپ کی خلفا سے یہ پہلی بغاوت نہیں ہے اور نہ کوئی نئی بات ہے۔(1)

صفین کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اسی طرح کی بات خود امیرالمومنینؑ کی گفتگو میں بھی ملےگی۔(2)

11۔حضرت فرمایا کرتے تھے((میں زمانہ پیغمبرؐ کے ایک جڑ کی طرح تھا لوگ مجھے سراٹھا اٹھا کر یوں دیکھتے تھے جیسے آسمان پر تاروں کو دیکھتے ہیں،پھر دنیا نے مجھ سے آنکھیں موندلیں اور میری برابری میں فلاں،فلاں آگئے،پھر مجھے عثمان جیسے پانچ آدمیوں کے مقارن بنایا گیا تو میں نے کہا وائے ہوذفرپر))(3)

12۔آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی ایّام میں فرمایا،جب اللہ نے اپنے نبیؐ کو اپنے پاس بلالیا تو ہم نے یہ سوچا کہ ہم آپؐ کے اہل،وارث اور اولیا ہیں نہ کہ دوسرے لوگ،ہم سے کوئی بھی اقتدار کے بارے میں نہیں لڑےگا اور لالچ کرنےوالا کم سے کم ہمارے معاملے میں لالچ نہیں کرےگا لیکن قوم نے ہمیں الگ کردیا اور ہمارے نبیؐ کا اقتدار ہم سے لےلیا،پس حکومت ہمارے غیر کے ہاتھوں میں چلی گئی اور ہم رعایا بن گئے،اب تو صورت حال یہ ہے کہ کمزور بھی للچائی ہوئی نظروں سے ہمیں دیکھ رہا ہے اور ذلیل بھی ہم پر حملہ کرنے کی سوچ رہا ہے،اس کی وجہ سے ہماری آنکھیں رو رہی ہیں دل ڈرے ہوئے ہیں اور کراہیں نکل رہی ہیں،خدا کی قسم اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ مسلمان فرقوں میں بٹ جائیں گے اور کفر واپس آجائےگا اور دین برباد ہوجائےگا تو ہم دشمن کو اسی کے ہتھیار سے مارتے۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:2ص:47

(2)واقعہ صفین ص:163

(3)ذفر،عمر کا بدل ہے جسے امامؑ نے بطور تقیہ ملامت استعمال کیا ہے،شرح نہج البلاغہ،ج:2ص:326

(4)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:307

۱۵۱

13۔جس وقت آپ بصرہ جارہے تھے تو آپ نے فرمایا((جب حضور سرور کائناتؐ کی وفات ہوئی تو قریش نے حکومت کے معاملہ میں ہم پر دوسروں کو ترجیح دی اور ہم سے ہمارا وہ حق چھیں لیا جس کے ہم ساری دنیا میں سب سے زیادہ حقدار تھے تو میں نے سمجھ لیا کہ اس معاملے میں صبر کرنا مسلمانوں کو تقسیم کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور ان کے خون بہانے سے زیادہ اچھا ہے صورت حال یہ تھی کہ لوگ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور دین کو تو ابھی متھا جا رہا تھا جو تھوڑی سی کمزوری سے خراب ہوجاتا اور ذراسی بات بھی اس پر فوراً اثر ڈالتی،طلحہ اور زبیر کو کیا ہوا ہے؟یہ لوگ تو اس حکومت کے راستے پر چلنے کے مستحق نہیں ہیں جو اونٹنی دودھ دینا بند کرچکی ہے اس کا دودھ پینا چاہتے ہیں اور جو بدعت مرچکی ہے اس کو زندہ کرنا چاہتے ہیں))(1)

14۔دوسری جگہ حضرت نے فرمایا((لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کرلی حالانکہ میں ابوبکر سے زیادہ امر خلافت کا مستحق تھا پھر بھی میں نے سنا اور خاموشی سے اطاعت کی صرف اس خوف سے کہ لوگ دوبارہ کافر ہوجائیں گے اور ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگیں گے،پھر لوگوں نے عمر کی بیعت کر لی تب بھی میں نے سنا اور چپ چاپ خاموشی سے اطاعت کی حالانکہ میں عمر سے زیادہ مستحق خلافت تھا لیکن مجھے خوف تھا کہ لوگ کفر کی طرف واپس چلے جائیں گے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگیں گے اور اب تم لوگ عثمان کی بیعت کرنا چاہتے ہو تو میں آج بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا،عمر نے مجھے پانچ آدمیوں کے ساتھ چھٹا آدمی قرار دیا ہے وہ ان پر میری فضیلت سے واقف نہیں ہے اور نہ یہ لوگ مجھے پہچانتے ہیں جیسے کہ ہم سب لوگ فضیلت کے معاملے میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں؟خدا کی قسم اگر میں بولنا چاہوں گا تو ان کے عرب و عجم اور ان کے ذمی اور مشرک کوئی بھی میری کسی بات کو جواب نہیں دےسکےگا اور ایسا میں کرسکتا ہوں(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:308

(2)تاریخ دمشق ج:42ص:434،حالات علی ابن ابی طالبؑ،کنزالعمال ج:5ص:724،حدیث14243،میزان الاعتدال ج:2ص:178حالات حارث بن محمد،لسان المیزان ج:2ص:156حالات حارث بن محمد،الضعفاءللعقیلی ج:1ص:211حالات حارث بن محمد

۱۵۲

15۔حضرتؑ نے فرمایا،سرکارؐ نے مجھ سے کہا تھا علیؑ،لوگ تمہارے خلاف اکھٹا ہوں گے تمہیں اس وقت وہی کرنا ہے جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں ورنہ پھر اپنے سینے کو زمین سے متصل کردینا(بے تعلق ہوجانا)تو جب مجھ سے حضورؐ الک ہوگئے تو میں نے مکروہ باتوں کو برداشت کیا اور اپنی آنکھوں میں تنکے کو جھیل گیا اور آنکھیں بند کئے رہا اور اپنے سینے کو زمین سے سٹادیا(اور صبر کیا)۔(1)

16۔روایت ہے کہ معصومہ کونین علیہا السلام آپؑ کے گھر بیٹھے رہنے پر ایک مرتبہ آپ سے گفتگو نے لگیں اور بہت دیر تک آپؑ کو سمجھاتی رہیں کہ آپؑ کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے لیکن موالائے کائناتؑ خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ نماز کا وقت ہوا اور موذن کی آواز آئی جب موذن نے اشھد انَّ محمداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا فقرہ ادا کیا تو آپؑ نے معصومہؑ سے پوچھا کیا آپ چاہتی ہیں کہ یہ فقرہ(جملہ)دنیا سے اٹھ جائے معصومہؑ نے کہا ہرگز نہیں،آپ نے فرمایا یہی بات میں آپ کو اتنی دیر سےسمجھا رہا تھا۔(2)

17۔حضرت نے فرمایا((قریش نے اپنے دلوں میں پیغمبر سے جو کینہ چھپار کھا تھا اس کا اظہار مجھ سے کیا اور میرے بعد میرے بچوں سے یہی کینہ جاری رکھیں گے،میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ قریش ہمارے دشمن کیوں ہوگئے،میں نے انھیں خدا اور خدا کے رسول کے حکم سے قتل کیا اگر وہ لوگ مسلمان ہیں تو خدا را سوچیں کیا خدا اور خدا کے رسولؐ کی اطاعت کرنےالے کا یہی بدلہ ہے))(3)

18۔حضرت فرماتے ہیں کہ((بچپن میں قریش نے مجھے ڈرایا اور بڑے ہونے پر میرے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ حضورؐ سرور کائنات کی وفات ہوگئی یہ بہت بڑی مصیبت تھی اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:326

(2) شرح نہج البلاغہ ج:20ص:326

(3) شرح نہج البلاغہ ج:20ص: 328 ینابیع المودۃ ج:1ص402

۱۵۳

اللہ کے خلاف بولنےوالوں کی سزا دینے کے لئے اللہ ہی سے مدد مانگی جاسکتی ہے))۔(1)

19۔آپؑ نے فرمایا((پالنےوالے میں تجھ سے قریش کے خلاف مدد مانگتا ہوں انھوں نے تیرے رسولؐ کے خلاف اپنے دلوں میں کئی طرح کی غداری اور شر چھپا رکھے ہیں اور یہ بیماریاں بڑھ رہی ہیں تو میں ان کے اور پیغمبرؐ کے درمیان حائل ہوگیا نتیجے میں گاج مجھ پر گری اور مصیبتیں مجھ پر آنے لگیں پالنےوالے تو حسنؑ اور حسینؑ کی حفاظت کرنا جب تک میں زندہ ہوں ان دونوں معصوموں پر قریش کو راستہ نہ دینا اور جب میں مرجاؤں گا تو تو ہی قریش کے خلاف ان کا نگراں ہے اور تو ہر چیز پر گواہ ہے))۔(2)

20۔کسی نے آپؐ سے پوچھا کہ امیرالمومنینؑ اگر حضورؐ کا کائی بیٹا ہوتا اور آپؐ اس کو چھوڑ کے گئے ہوتے اور وہ سن بلوغ اور رشد کی منزل تک پہنچتا تو کیا عرب اس کی حکومت کو قبول کر لیتے آپؑ نے فرمایا نہیں بلکہ انہیں یہ لوگ قتل کردیتے اگر وہ میری طرح نہیں کرتا،سیدھی بات تو یہ ہے کہ عرب محمدؐ کی حکومت کو ناگوار سمجھتے تھے اور اللہ نے جو فضیلت آپ کو دی تھی اس پر حسد کرتے تھے،عرب نے ہمیشہ آپؐ کے ساتھ زیادتی کی کبھی آپؐ کی بیوی پر الزام لگایا اور کبھی آپؐ کے ناقہ کو بھڑکا کے مارنے کی کوشش کی،حالانکہ آنحضرتؐ نے ان پر احسان عظیم اور لطف جسیم کیا تھا لیکن یہ عرب احسان فراموش تھے انھوں نے آپ کی زندگی ہی میں یہ بات جمع ہو کر طے کرلی تھی کہ حکومت اور اقتدار آپ کے مرنے کے بعد آپ کے اہل بیتؑ سے دور کردیں گے۔

اگر قریش نے سرکار دو عالمؑ کے اسم مبارک کو ریاست کا ذریعہ اور حکومت و عزت کا وسیلہ نہ بنایا ہوتا تو لوگ آپؐ کی وفات کے بعد ایک دن بھی خدا کی عبادت نہیں کرتے بلکہ اپنے پچھلے پیروں پلٹ جاتے،پس درخت کے اندر برگ و بار آنے کے بعد سب گرا کے صرف تنارہ جاتا اور اونٹنی کے دانت نکلنے کے بعد پھر وہ سن بکر پر واپس چلی جاتی(بہرحال انھوں نے نام محمدؐ سے فائدہ اٹھایا اس لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:4ص:108

(2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:298

۱۵۴

اذانوں میں ان کا نام شامل ہے اور نمازیں ہورہی ہیں)پھر تو فتوحات کا سلسلہ چل نکلا،فاتے کے بعد ثروت آئی اور جفاکشی کے بعد آرام ملا تو آنکھوں کو اسلام کی ناگوار چیزیں بھی اچھی لگنے لگیں اور جو لوگ دلی اضطراب میں گرفتار تھے وہ بھی ثابت قدم ہوگئے اور کہنے لگے اگر اسلام حق نہ ہوتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔

اس کے بعد(ایک تبدیلی اور آئی کہ)جو لوگ سردار تھے ان سے فتح کو منسوب کردیا گیا اور کہا گیا کہ یہ تو ان کے حسن تدبیر کا نتیجہ تھا جب یہ نظریہ پیدا ہوا تو ایک قوم کی شہرت ہوگئی اور دوسری قوم کی گمنامی،اہم انہیں گمنام لوگوں میں ہیں جن کے شعلے بجھ چلے ہیں،شہرہ ختم ہوچکا ہے یہاں تک کہ زمانہ ہمارے خلاف ہوگیا لوگ ہماری مخالفت ہی پر کھاتے پیتے اور جیتے رہے،وقت گذرتا گیا جو لوگ جانے مانے تھے ان میں سے زیادہ تر لوگ مرگئے اور جو لوگ غیر مشہور تھے پیدا ہوگئے،اگر نبیؐ کع بیٹا ہوتا تو کیا ہوتا؟سنو پیغمبرؐ نسب اور خون کی وجہ سے مجھ کو قریب نہیں رکھتے تھے بلکہ جہاد اور خیرخواہی کی وجہ سے آپؐ نے مجھے تقرب عنایت فرمایا تھا،اچھا اگر آپؐ کے کوئی بیٹا ہوتا تو میں پوچھتا ہوں کہ جتنی خدمت میں نے کی ہے کیا وہ اتنی خدمت کرسکتا تھا؟(جواب ہے نہیں)تو وہ اتنا قریب بھی نہیں ہوتا جتنا میں نبیؐ کے قریب رہا پھر بھی میری نبیؐ سے قربت عرب کی نگاہوں میں میری منزلت اور مرتبہ کا سبب نہیں ہے بلکہ ذلت اور محرومی کا سبب ہے۔

پالنےوالے تو جانتا ہے کہ میں حکومت کا ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ملکیت و ریاست کی بلندی چاہتا ہوں میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ تیری حدیں قائم ہوں تیری شریعت کے مطالبے ادا ہوں،ہر کام اپنی جگہ پر ہو،حقدار کو ان کا حق دیدیا جائے،تیرے نبیؐ کے طریقے پر عمل جاری رہے اور گمراہ کو تیرے نور کی ہدایت کی طرف موڑدیا جائے۔(1)

21۔اپنے اس ابتدائی خطبہ میں جو اپنے دور خلافت میں خطبہ دیا تھا آپ نے فرمایا:اپنے گھروں میں چھپے رہو اور آپس میں صلح و آشتی پیدا کرو اور اس کے بعد توبہ کرو،جس نے حق کے خلاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:298۔299

۱۵۵

لب کشائی کی ہلاک ہوا تمہارے امور تھے جن میں ایک امر کی طرف مائل ہوگئے،اس میں کوئی میرے نزدیک قابل تعریف اور راہ حق و صواب پر نہیں ہے لیکن اگر میں چاہتا تو ضرور کہتا خدا گذشتہ کو معاف کرےدو شخص نے سبقت کی اور تیسرا کوّے کی طرح کھڑا رہا جس کا مقصد صرف پیٹ ہےوای ہو اگر اس کے دونوں پر قطع کردیئے جائیں اور سر اڑادیا جائے تو اس کے لئے بہتر ہوگا۔(1)

ابن ابی الحدید نے کہا:یہ خطبہ حضرت کے عظیم خطبوں میں سے ایک ہے نیز مشہور ہے جسے سارے لوگوں نے روایت کی ہے نیز اسے ہمارے استاد ابوعثمان جا خط البیان اور التبین نامی کتاب میں اسی طرح ذکر کیا ہےاور اسے ابوعبیدہ مصمر بن مثنی نے بھی روایت کی ہے۔

ابن قتیبہ نے((عیوں الاخبار))میں اس کا بیشتر حصہ ذکر کیا ہے(2) اور ابن عبدربہ نے العقد الفرید میں(3) متقی ہندی نے کنزالعمال(4) ابن دمشقی نے مناقب علی بن ابی طالبؑ میں ذکر کیا ہے۔(5)

اس کے بعد ابن ابی الحدید نے کہا:ہمارے استاد ابوعثمانؒ نے کہا:اور ابوعبیدہ نے جعفر بن محمدؑ کے آبا و اجداد سے روایت میں اضافہ کرتے ہوئے کہا:آگاہ ہوجاؤ میری عترت کے نیکوکار اور میری ذریت کے پاکیزہ لوگ چھوٹوں کے اعتبار سے زیادہ بردبار اور بڑوں کے اعتبار سے زیادہ جانکار ہیں،لٰہذا اگر(ہمارا)اتباع کروگے ہدایت پاؤگے اور اگر مخالفت کروگے خداوند عالم تمہیں ہمارے ہاتھوں ہلاک کردےگا ہمارے ساتھ پرچم حق ہے جو اس کا اتباع کرے وہ اس سے ملحق ہوگا اور جو پیچھے رہ جائے وہ ڈوب جائےگا آگاہ!ہمارے ہی ذریعہ ہر مومن عزت پاتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:275۔276

(2)المجلد الثانی ج:5ص:236،کتاب العلم و البیان:خطبہ حضرت علیؑ،قتل عثمان کے بعد،

(3)ج:4ص:68خطبہ امیرالمومنین

(4)ج:5ص:749۔750حدیث:14282

( 5 )ج:1ص:323۔324

۱۵۶

ہمارے ہی ذریعہ اسے رسوائی سے نجات ملےگی ہمارے ہی ذریعہ فتح ہے نہ تمہارے،مجھ پر خاتمہ بخری ہے نہ تم پر۔(1)

22۔نیز آپؑ نے فرمایا:معاویہ کے جواب میں تم نے میرے خلفاء کی نسبت حسد کا ذکر کیا ہے،اور ان سے متعلق کوتاہی اور بغاوت کا۔رہا بغاوت کا سوال تو خدا کی پناہ کہ ایسا ہورہا ہے،رہا ان کے امور میں میری سستی اور ان سے ناپسندیدگی کا اظہار،تو میں ان سے متعلق لوگوں کے سامنے عذر کرنےوالا نہیں ہوں اور تمہارا باپ میرے پاس اس وقت آیا تھا جب لوگوں نے ابوبکر کی ولی بنایا تھا ت اس نے مجھ سے کہا کہ تم محمدؐ کی جانشینی کے زیادہ سزاوار ہو جب کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جس نے انکار کیا کیونکہ لوگ کفر سے قریب العہد تھے اہل اسلام کے درمیان تفرقہ کے خوف سے۔(2)

23۔آپؑ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا:بیٹا جب سے آپ کے جد کی وفات ہوئی لوگ میرے خلاف بغاوت ہی کررہے ہیں۔(3)

24۔آپ نے ابوعبیدہ سے فرمایا((اے ابوعبیدہ کیا وقت زیادہ گذرنے کی وجہ سے تم عہد کو بھول گئے یا آرام ملا تو تم نے خود بھلادیا،میں نے تو سنا اور یاد رکھا اور جب یاد رکھا تو پھر اس کی رعایت کیوں نہ کروں))۔(4)

25۔ابوحذیفہ کے غلام سالم کے بارے میں فرمایا((بنوربیعہ کے کمینے گلام پروائے ہو وہ اپنے شرک قدیم کا پسینہ مجھ پر پھینک کر مجھے برابنانا چاہتا ہے اور ولید،عتبہ اور شیبہ کے خون کا ذکر کر رہا ہے(یہ لوگ بدر میں آپؐ کے ہاتھوں مارے گئے تھے)کہ میں ان کے خون کا ذمہ دار ہوں خدا کی قسم مجھے وہ اسی جگہ لارہا ہے جو اس کے لئے بری ہے اور پھر وہ وہاں پر فلاں اور فلاں سے ملاقات نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:276

(2)شرح نہج البلاغہ ج:15ص:77۔78۔انساب الاشراف ج:3ص:69،المناقب،خوارزمی ص:250۔254 العقد الفریدج:4ص:309

(3)امامت و سیاست ج:1ص:45،واقعہ بیعت علی ابن ابی طالبؑ

(4)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:307

۱۵۷

کرےگا(کوئی اس کا مددگار نہ ہوگا)۔(1)

26۔آپ نے فرمایا سب سے پہلے سعد بن عبادہ نے میرے خلاف ہمت کی لیکن دروازہ اس نے کھولا داخل دوسرا ہوا آگ اس نے بھڑکائی جس کے نتیجہ میں شعلے اس کو ملے اور اس کے دشمن اس آگ کی روشنی سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔(2)

27۔عمر جناب ابن عباس سے بات کررہے تھے ابن عباس کہتے ہیں کہ عمر نے مجھ سے پوچھا اپنے بھتیجے کو کس حال میں چھوڑ کے آئے ہو؟وہ کہتے ہیں میں سمجھا عبداللہ بن جعفر کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔میں نے کہا اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے تھے عمر کہنے لگے میں ان کے بارے میں تھوڑی پوچھ رہا ہوں میں تو تم سے اہل بیتؑ کے سردار کے بارے میں پوچھ رہا ہوں،میں نے کہا میں نے آپ کو اس حال میں چھوڑٓ کہ فلاں کے کھجوروں کے باغ کی سینچائی کررہے تھے اور قرآن بھی پڑھ رہے تھے کہنے لگے اے عبداللہ اگر آج تم نے مجھ سے کچھ چھپایا تو تم سے مزید ایک بات کہتا ہوں،میں نے اپنے والد سے ان کو دعوے کے بارے میں پوچھا تھا تو انھوں نے علیؑ کی تصدیق کی تھی۔

عمر کہنے لگے پیغمبرؐ کے قول سے کوئی صاف بات ظاہر نہیں ہوتی تھی جس کو حجت تسلیم کیا جائے اور کوئی قطعی عذر بھی نہیں تھا کچھ دنوں تک آپ(رسولؐ)نے ان(علیؑ)کے معاملے میں انتظار کیا لیکن آپ جب بیمار پڑے تو ارادہ کیا کہ علیؑ کے نام کی صراحت کردیں لیکن میں نے انھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:296،یہ سالم ابوحذیفہ بن عتبتہ کا غلام ہے اسے تو عتبہ اور اس کے بیٹے ولید اور اس کے بھائی شیبہ نے روز بدر کے مبارزہ میں قتل کیا ہے امیرالمومنینؑ نے اپنے اس کلام سے اشارہ کیا ہے کہ سالم کا موقف معاندانہ تھا۔امیرالمومنین کی نسبت ایسا صرف بدر کے دن اس کے چاہنےوالوں کے مرنے کے انتقام میں تھا۔

(2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:307۔308

۱۵۸

روک دیا،مقصد اسلام کی خیرخواہی تھی میں نے یہ اقدار خوف اور احتیاط کی وجہ سے کیا تھا،اس کعبہ کے پروردگار کی قسم!قریش ہرگز ان پر متحد اور جمع نہین ہوتے اور اگر انہیں والی خلافت بنا دیا جاتا تو عرب ٹوٹ پھوٹ جاتے،پیغمبرؐ صبھی میرے دل کی بات سمجھ گئے اس لئے آپ نے اپنا ہاتھ روک دیا اور جو بات حتمی تھی وہ ہو کر رہی۔(1)

28۔آپؑ نے فرمایا،مجھے کہنےوالے ہیں کہ اے ابوطالب کے بیٹے تم خلافت کے حریص ہو،میں جواب دیتا ہوں تم مجھ سے زیادہ حریص ہو،میں تو اپنے بھائی کی میراث اور ان کا حق کا طالب ہوں اور تم میرے اور میرے بھائی کے درمیان آکے(بغیر کسی حق کے)میرا منھ موڑنے کی کوشش کررہے ہو،پالنےوالے میں تجھ سے قریش کے خلاف مدد مانگ رہا ہوں،انھوں نے میرا رشتہ توڑدیا،میری بڑی منزلت اور فضیلت کو چھوٹا سمجھا،مجھ سے اس حق کے بارے میں جھگڑا کیا جس کا صرف میں حقدار ہوں،انھوں نے مجھ سے وہ حق چھین لیا پھر مجھ سے کہا کہ تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ صبر کرو اور پچھتاوے کی زندگی جیتے رہو،میں نے چاروں طرف دیکھا تو سمجھ گیا کہ سوائے میرے گھروالوں کے میرا کوئی رفیق اور مددگار نہیں ہے،پس مجھے ان کی ہلاکت کا خوف ہوا تو میں آنکھیں بند کرلیں جب کہ میری آنکھ میں تنکا تھا اور میرے حلق میں پھانس تھی لیکن میں یہ گھونٹ پی گیا میں نے غصّہ کو صبر میں بدلا اور کڑوا لقمہ نگل گیا،میرے دل میں ایسا درد تھا جیسےلوہے سے شگافتہ کردیا گیا ہو۔(2)

امیرالمومنین علیہ السلام کے شکوے کی بہت سی خبریں ہیں

ابن ابی الحدید آپ کے مذکورہ بالا بیان کے بعد نوٹ لگاتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے الفاظ آپ نےسیکڑوں بار فرمائے جیسے آپ کا کہنا ہے کہ وفات پیغمبرؐ سے آج کے دن تک میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:12ص:20۔21

(2)امامت و سیاست ج:1ص:126۔127،امام علیؑ کا خط اہل عراق کے نام نہج البلاغہ ج:2ص:84،85

۱۵۹

مسلسل مظلوم رہا((یا یہ کہنا!اے پالنےوالے قریش کو ذلیل کر انھوں نے میرے حق سے مجھے روکا اور میری خلافت کو غصب کرلیا یا ایک بار آپ نے سنا کوئی پکار رہا تھا((میں مظلوم ہوں))آپ نے فرمایا اے بھائی آؤ،ہم دونوں مل کر فریاد کریں میں تو ہمیشہ مظلوم رہا))یا حضرتؑ کا یہ کہنا کہ لوگو!ان دونوں نے ہمارے ہی برتن میں پانی پیا پھر لوگوں کو ہماری ہی گردن پر لاوگئے اور آپ کا یہ قول لوگوں نے ہمیشہ مجھ پر غیروں کو ترجیح دی مجھے میرے حق اور واجب شئی سے باز رکھا۔(1)

ابن ابی الحدید نے اس موضوع پر علی علیہ السلام کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں لیکن چونکہ میں نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہی میرے دعوے کی تصدیق کے لئے کافی ہے اس لئے میں مزید کچھ نہیں لکھوں گا۔

ابن ابی الحدید نے جوہری کی کتاب السقیفہ اور شعبی کی کتاب مقتل عثمان اور شوریٰ اور دیگر کتابوں کے حوالے سے بھی امیرالمومنین علیہ السلام کے اس کلام کی روایت کی ہے جس میں حضرت نے مقام استدلال میں فرمایا کہ خلافت صرف آپ کا اور آپ کے اہل بیت کا حق تھا لیکن انھیں مظلوم و مقہور بنادیا گیا اور وہ حضرات یا تو خوف جان یا ضیاع اسلام کے خوف سے خاموش رہے جب کہ انھیں ہمیشہ اس کا صدمہ رہا اور غاصبوں کے ہاتھوں وہ ستائے بھی گئے۔(2)

ان واقعات و حادثات کی تاریخ شاہد اور حدیثیں گواہ ہیں۔

امیرالمومنینؑ کے شکوے پر ابن ابی الحدید کا نوٹ

ابن ابی الحدید اپنے سابق کالم پر تعقیبی نوٹ لگاتے ہیں:ہمارے اصحاب(یعنی معتزلی فرقہ کے علما)کا خیال ہے کہ آپ کے یہ دعوے آپ کی افضلیت واحقیت کو ثابت کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حق ہے یعنی آپ افضل صحابہ اور احق بالخلافہ ہیں،لیکن ان سب کے باوجود اگر یہ مان لیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:9ص:306۔307

(2)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:185۔194،ج:2ص:21۔60،ج:6ص:5۔52ج:9ص:49۔58،

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

وآيَةً مُحْكَمَةً تَزْجُرُ عَنْه أَوْ تَدْعُو إِلَيْه - فَرِضَاه فِيمَا بَقِيَ وَاحِدٌ وسَخَطُه فِيمَا بَقِيَ وَاحِدٌ - واعْلَمُوا أَنَّه لَنْ يَرْضَى عَنْكُمْ بِشَيْءٍ سَخِطَه - عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - ولَنْ يَسْخَطَ عَلَيْكُمْ بِشَيْءٍ رَضِيَه مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وإِنَّمَا تَسِيرُونَ فِي أَثَرٍ بَيِّنٍ - وتَتَكَلَّمُونَ بِرَجْعِ قَوْلٍ قَدْ قَالَه الرِّجَالُ مِنْ قَبْلِكُمْ - قَدْ كَفَاكُمْ مَئُونَةَ دُنْيَاكُمْ وحَثَّكُمْ عَلَى الشُّكْرِ - وافْتَرَضَ مِنْ أَلْسِنَتِكُمُ الذِّكْرَ.

الوصية بالتقوى

وأَوْصَاكُمْ بِالتَّقْوَى - وجَعَلَهَا مُنْتَهَى رِضَاه وحَاجَتَه مِنْ خَلْقِه - فَاتَّقُوا اللَّه الَّذِي أَنْتُمْ بِعَيْنِه ونَوَاصِيكُمْ بِيَدِه - وتَقَلُّبُكُمْ فِي قَبْضَتِه - إِنْ أَسْرَرْتُمْ عَلِمَه وإِنْ أَعْلَنْتُمْ كَتَبَه - قَدْ وَكَّلَ بِذَلِكَ حَفَظَةً كِرَاماً لَا يُسْقِطُونَ حَقّاً ولَا يُثْبِتُونَ بَاطِلًا - واعْلَمُوا أَنَّه( مَنْ يَتَّقِ الله يَجْعَلْ لَه مَخْرَجاً ) مِنَ الْفِتَنِ - ونُوراً مِنَ الظُّلَمِ ويُخَلِّدْه فِيمَا اشْتَهَتْ نَفْسُه - ويُنْزِلْه مَنْزِلَ الْكَرَامَةِ

ہو یا کوئی محکم آیت نہ نازل کردی ہو جس کے ذریعہ روکا جائے یا دعوت دی جائے۔اس کی رضا اورناراضگی مستقبل میں بھی ویسی ہی رہے گی جس طرح وقت نزول تھی ۔اور یہ یاد رکھو کہ وہ تم سے کسی ایسی بات پر راضی نہ ہوگا جس پر پہلے والوں سے ناراض ہو چکا ہے اور نہ کسی ایسی بات سے ناراض ہو گا جس پر پہلے والوں سے راضی رہ چکا ہے تم بالکل واضح نشان قدم پر چل رہے ہو اور انہیں باتوں کو دہرا رہے ہو جو پہلے والے کہہ چکے ہیں۔اس نے تمہیں دنیا کی زحمتوں سے بچا لیا ہے اور تمہیں شکر پرآمادہ کیا ہے اور تمہاری زبانوں سے ذکر کامطالبہ کیا ہے۔

تمہیں تقویٰ کی نصیحت کی ہے اور اسے اپنی مرضی کی حد آخر قراردیا ہے اور یہی مخلوقات سے اس کا مطالبہ ہے لہٰذا اس سے ڈرو جس کی نگاہ کے سامنے ہو اور جس کے ہاتھوں میں تمہاری پیشانی ہے اور جس کے قبضہ قدرت میں کروٹیں بدل رہے ہو کہ اگر کسی بات پر پردہ ڈالنا چاہو تو وہ جانتا ہے اور اگر اعلان کرنا چاہو تو وہ لکھ لیتا ہے اورتمہارے اوپر محترم کاتب اعمال مقرر کردئیے ہیں جو کسی حق کو ساقط نہیں کر سکتے ہیں اور کسی باطل کوثبت نہیں کر سکتے ہیں اوری ادرکھو کہ جو شخص بھی تقویٰ الٰہی اخیار کرتا ہے پروردگار اس کے لئے فتنوں سے باہر نکل جانے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے تاریکیوں میں نور عطا کر دیتا ہے اسے نفس کے تمام مطالبات کے درمیان دائمی زندگی عطا کر تا ہے اور کرامت کی منزل میں نازل کرتا

۳۴۱

عِنْدَه فِي دَارٍ اصْطَنَعَهَا لِنَفْسِه - ظِلُّهَا عَرْشُه ونُورُهَا بَهْجَتُه - وزُوَّارُهَا مَلَائِكَتُه ورُفَقَاؤُهَا رُسُلُه - فَبَادِرُوا الْمَعَادَ وسَابِقُوا الآجَالَ - فَإِنَّ النَّاسَ يُوشِكُ أَنْ يَنْقَطِعَ بِهِمُ الأَمَلُ ويَرْهَقَهُمُ الأَجَلُ - ويُسَدَّ عَنْهُمْ بَابُ التَّوْبَةِ - فَقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي مِثْلِ مَا سَأَلَ إِلَيْه الرَّجْعَةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - وأَنْتُمْ بَنُو سَبِيلٍ عَلَى سَفَرٍ مِنْ دَارٍ لَيْسَتْ بِدَارِكُمْ - وقَدْ أُوذِنْتُمْ مِنْهَا بِالِارْتِحَالِ وأُمِرْتُمْ فِيهَا بِالزَّادِ واعْلَمُوا أَنَّه لَيْسَ لِهَذَا الْجِلْدِ الرَّقِيقِ صَبْرٌ عَلَى النَّارِ - فَارْحَمُوا نُفُوسَكُمْ - فَإِنَّكُمْ قَدْ جَرَّبْتُمُوهَا فِي مَصَائِبِ الدُّنْيَا.

أَفَرَأَيْتُمْ جَزَعَ أَحَدِكُمْ مِنَ الشَّوْكَةِ تُصِيبُه - والْعَثْرَةِ تُدْمِيه والرَّمْضَاءِ تُحْرِقُه - فَكَيْفَ إِذَا كَانَ بَيْنَ طَابَقَيْنِ مِنْ نَارٍ - ضَجِيعَ حَجَرٍ وقَرِينَ شَيْطَانٍ - أَعَلِمْتُمْ أَنَّ مَالِكاً إِذَا غَضِبَ عَلَى النَّارِ - حَطَمَ بَعْضُهَا بَعْضاً لِغَضَبِه - وإِذَا زَجَرَهَا تَوَثَّبَتْ بَيْنَ أَبْوَابِهَا جَزَعاً مِنْ زَجْرَتِه!

أَيُّهَا الْيَفَنُ الْكَبِيرُ الَّذِي قَدْ لَهَزَه الْقَتِيرُ - كَيْفَ أَنْتَ إِذَا الْتَحَمَتْ أَطْوَاقُ النَّارِ بِعِظَامِ الأَعْنَاقِ

ہے۔اس گھرمیں جس کو اپنے لئے پسند فرماتا ہے جس کا سایہ اس کاعرش ہے اورجس کا نور اس کی ضیا ہے۔ اس کے زائرین ملائکہ ہیں اور اس کے رفقاء مرسلین۔اب اپنی باز گشت کی طرف سبقت کرو اور موت سے پہلے سامان مہیا کرلو کہ عنقریب لوگوں کی امیدیں منقطع ہو جانے والی ہیں اور موت کا پھندہ گلے میں پڑ جانے والا ہے جب توبہ کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ابھی تم اس منزل میں ہو جس کی طرف پہلے والے لوٹ کرآنے کی آرزو کر رہے ہیں اور تم مسافر ہو اور اس گھر سے سفر کرنے والے ہو جو تمہارا واقعی گھر نہیں ہے۔تمہیں کوچ کی اطلاع دی جا چکی ہے اور زاد راہ اکٹھا کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے اور یہ یاد رکھو کہ یہ نرم و نازک جلد آتش جہنم کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔لہٰذا خدارا اپنے نفسوں پر رحم کرو کہ تم اسے دنیا کے مصائب میں آزما چکے ہو۔کیا تم نے نہیں دیکھا ہے کہ تمہارا کیا عالم ہوتا ہے جب ایک کانٹا چبھ جاتا ہے یا ایک ٹھوکر لگنے سے خون نکل آتا ہے یا کوئی ریت تپنے لگتی ہے۔تو پھراس وقت کیا ہوگا جب تم جہنم کے دو طبقوں کے درمیان ہوگے۔دہکتے ہوئے پتھروں کے پہلو میں اور شیاطین کے ہمسایہ میں۔کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ مالک (داروغہ جہنم ) جبآگ پرغضب ناک ہوتا ہے تو اس کے اجزاء ایک دوسرے سے ٹکرانے لگتے ہیں اور جب اسے جھڑکتا ہے تو وہ گھبرا کر دروازوں کے درمیان اچھلنے لگتی ہے۔

اے پیر کہن سال جس پر بڑھا پا چھا چکا ہے۔اس وقت تیرا کیا عالم ہوگا جب جہنم کے طوق گردن کی ہڈیوں

۳۴۲

ونَشِبَتِ الْجَوَامِعُ حَتَّى أَكَلَتْ لُحُومَ السَّوَاعِدِ –

فَاللَّه اللَّه مَعْشَرَ الْعِبَادِ - وأَنْتُمْ سَالِمُونَ فِي الصِّحَّةِ قَبْلَ السُّقْمِ - وفِي الْفُسْحَةِ قَبْلَ الضِّيقِ - فَاسْعَوْا فِي فَكَاكِ رِقَابِكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُغْلَقَ رَهَائِنُهَا - أَسْهِرُوا عُيُونَكُمْ وأَضْمِرُوا بُطُونَكُمْ - واسْتَعْمِلُوا أَقْدَامَكُمْ وأَنْفِقُوا أَمْوَالَكُمْ - وخُذُوا مِنْ أَجْسَادِكُمْ فَجُودُوا بِهَا عَلَى أَنْفُسِكُمْ - ولَا تَبْخَلُوا بِهَا عَنْهَا فَقَدْ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( إِنْ تَنْصُرُوا الله يَنْصُرْكُمْ ويُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ ) - وقَالَ تَعَالَى( مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ الله قَرْضاً حَسَناً - فَيُضاعِفَه لَه ولَه أَجْرٌ كَرِيمٌ ) - فَلَمْ يَسْتَنْصِرْكُمْ مِنْ ذُلٍّ - ولَمْ يَسْتَقْرِضْكُمْ مِنْ قُلٍّ - اسْتَنْصَرَكُمْ ولَه جُنُودُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ وهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - واسْتَقْرَضَكُمْ ولَه خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ - وهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ - وإِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يَبْلُوَكُمْ( أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) - فَبَادِرُوا بِأَعْمَالِكُمْ تَكُونُوا مَعَ جِيرَانِ اللَّه فِي دَارِه -

میں پیوست ہو جائیں گے اور ہتھکڑیاں ہاتھوں میں گڑ کر کلائیوں کا گوشت تک کھا جائیں گی۔

اللہ کے بندو! اللہ کو یاد کرو اس وقت جب کہ تم صحت کے عالم میں ہو قبل اسکے کہ بیمار ہو جائو اور وسعت کے عالم میں قبل اس کے کہ تنگی کا شکار ہو جائو اپنی گردنوں کوآتش جہنم سے آزاد کرانے کی فکر کرو قبل اس کے کہ وہ اس طرح گردی ہوجائیں کہ پھر چڑھائی نہ جا سکیں ۔اپنی آنکھوں کو بیدار رکھو اپنے شکم کو لاغر بنائو اور اپنے پیروں کو راہ عمل میں استعمال کرو۔اپنے مال کو خرچ کرو اور اپنے جسم کو اپنی روح پر قربان کردو۔ خبردار اس راہ میں بخل نہ کرنا کہ پروردگار نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ '' اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عنایت فرمائے گا '' اس نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ '' کون ہے جو پروردگار کو بہترین قرض دے تاکہ وہ اسے دنیا میں چوگنا بنادے اور اس کے لئے بہترین جزا ہے '' تواس نے تم سے کمزوری کی بنا پرنصرت کا مطالبہ نہیں کیا ہے اورنہ غربت کی بنا پر قرض مانگا ہے۔اس نے مطالبۂ نصرت کیا ہے جب کہ زمین و آسمان کے سارے لشکر اسی کے ہیں اور وہ عزیز و حکیم ہے اور اس نے قرض مانگا ہے جب کہ زمین و آسمان کے سارے خزانے اسی کی ملکیت ہیں اور وہ غنی حمید ہے '' وہ چاہتا ہے کہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبارسے سب سے بہتر کون ہے۔اب اپنے اعمال کے ساتھ سبقت کرو تاکہ اللہ کے گھر میں اس کے ہمسایہ کے

۳۴۳

رَافَقَ بِهِمْ رُسُلَه وأَزَارَهُمْ مَلَائِكَتَه - وأَكْرَمَ أَسْمَاعَهُمْ أَنْ تَسْمَعَ حَسِيسَ نَارٍ أَبَداً - وصَانَ أَجْسَادَهُمْ أَنْ تَلْقَى لُغُوباً ونَصَباً -( ذلِكَ فَضْلُ الله يُؤْتِيه مَنْ يَشاءُ والله ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ) .

أَقُولُ مَا تَسْمَعُونَ( والله الْمُسْتَعانُ ) عَلَى نَفْسِي وأَنْفُسِكُمْ - وهُوَ( حَسْبُنَا ) ( ونِعْمَ الْوَكِيلُ ) !

(۱۸۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للبرج بن مسهر الطائي وقد قال له بحيث يسمعه «لا حكم إلا للَّه»، وكان من الخوارج

اسْكُتْ قَبَحَكَ اللَّه يَا أَثْرَمُ - فَوَاللَّه لَقَدْ ظَهَرَ الْحَقُّ فَكُنْتَ فِيه ضَئِيلًا شَخْصُكَ - خَفِيّاً صَوْتُكَ حَتَّى إِذَا نَعَرَ الْبَاطِلُ نَجَمْتَ نُجُومَ قَرْنِ الْمَاعِزِ.

ساتھ زندگی گزارو۔جہاں مرسلین کی رفاقت ہوگی اورملائکہ زیارت کریں گے اورکان جہنم کیآواز سننے سے بھی محفوظ رہیں گے ا ور بدن کسی طرح کی تکان اورتعب سے بھی دو چار نہ ہوں گے '' یہی وہ فضل خدا ہے کہ جس کو چاہتا ہے عنایت کردیتا ہے اور اللہ بہترین فضل کرنے والا ہے ۔''میں وہ کہہ رہا ہوں جو تم سن رہے ہو۔اس کے بعد اللہ یہ مدد گار ہے میرا بھی اور تمہارابھی اور ویہ ہمارے لئے کافی ہے اوروہی بہترین کار ساز ہے۔

(۱۸۴)

آپ کاارشاد گرامی

(جو آپ نے برج بن مسہر(۱) طائی خارجی سے فرمایا جب یہ سنا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کو فیصلہ کا حق نہیں ہے )

خاموش ہو جا۔خدا تیرا برا کرے اے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے۔خدا شاہد ہے کہ جب حق کا ظہور ہوا تھا تواس وقت تیری شخصیت کمزوراور تیری آواز بیجان تھی۔لیکن جب باطل کی آواز بلند ہوئی تو تو بکری کی سینگ کی طرح ابھر کرمنظر عام پر آگیا۔

(۱)یہ ایک خارجی شاعر تھا جس نے مولائے کائنات کے خلاف یہ آواز بلند کی کہ آپ نے تحکیم کو قبول کرکے غیر خدا کو حکم بنادیا ہے اور اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی کی حاکمیت کا کوئی تصورنہیں ہے۔

حضرت امام عالی مقام نے اس فتنہ کے دورمیں اثرات کا لحاظ کرکے سخت ترین لہجہ میں جواب دیا اور قائل کی اوقات کا اعلان کردیا کہ شخص باطل پرست اورحق بیزار ہے۔ورنہ اسے اس امر کا اندازہ ہوتا کہ کتاب خدا سے فیصلہ کرانا خدا کی حاکمیت کا اقرار ہے انکارنہیں ہے۔حاکمیت خداکے منکرعمرو عاص جیسے افراد ہیں جنہوں نے کتاب خدا کو نظر انداز کرکے سیاہی چالوں سے فیصلہ کردیا اور دین خدا کو یکسر نا قابل توجہ قراردے دیا۔

۳۴۴

(۱۸۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه فيها ويثني على رسوله ويصف خلقا من الحيوان

حمد اللَّه تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَا تُدْرِكُه الشَّوَاهِدُ - ولَا تَحْوِيه الْمَشَاهِدُ - ولَا تَرَاه النَّوَاظِرُ - ولَا تَحْجُبُه السَّوَاتِرُ - الدَّالِّ عَلَى قِدَمِه بِحُدُوثِ خَلْقِه - وبِحُدُوثِ خَلْقِه عَلَى وُجُودِه - وبِاشْتِبَاهِهِمْ عَلَى أَنْ لَا شَبَه لَه - الَّذِي صَدَقَ فِي مِيعَادِه - وارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِه - وقَامَ بِالْقِسْطِ فِي خَلْقِه - وعَدَلَ عَلَيْهِمْ فِي حُكْمِه - مُسْتَشْهِدٌ بِحُدُوثِ الأَشْيَاءِ عَلَى أَزَلِيَّتِه - وبِمَا وَسَمَهَا بِه مِنَ الْعَجْزِ عَلَى قُدْرَتِه - وبِمَا اضْطَرَّهَا إِلَيْه مِنَ الْفَنَاءِ عَلَى دَوَامِه - وَاحِدٌ لَا بِعَدَدٍ ودَائِمٌ لَا بِأَمَدٍ وقَائِمٌ لَا بِعَمَدٍ - تَتَلَقَّاه الأَذْهَانُ لَا بِمُشَاعَرَةٍ - وتَشْهَدُ لَه الْمَرَائِي لَا بِمُحَاضَرَةٍ - لَمْ تُحِطْ بِه الأَوْهَامُ بَلْ تَجَلَّى لَهَا بِهَا - وبِهَا امْتَنَعَ مِنْهَا وإِلَيْهَا حَاكَمَهَا

(۱۸۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حمد خدا ' ثنائے رسول (ص) اوربعض مخلوقات کاتذکرہ ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جسے نہ حواس پا سکتے ہیں اورنہ مکان گھیر سکتے ہیں ۔نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔اس نے اپنے قدیم ہونے کی طرف مخلوقات کے حادثات ہونے سے رہنمائی کی ہے اور ان کی وجود بعد از عدم کو اپنے وجود ازلی کا ثبوت بنادیا ہے اور ان کی باہمی مشابہت سیاپنے بے مثال ہونے کا اظہار کیا ہے۔وہ اپنے وعدہ میں سچا ہے اور اپنے بندوں پر ظلم کرنے سے اجل و ارفع ہے۔اس نے لوگوں میں عدل کا قیام کیا ہے اور فیصلوں پر مکمل انصاف سے کام لیا ہے۔اشیاء کے حدوث سے اپنی ازلیت پراستدلال کیا ہے اور ان پر عاجزی کا نشان لگا کر اپنی قدرت کاملہ کا اثبات کیا ہے۔اشیاء کے جبری فناو عدم سے اپنے دوام کا پتہ دیا ہے۔وہ ایک ہے لیکنعدد کے اعتبار سے نہیں۔دائمی ہے لیکن مدت کے اعتبارسے نہیں اور قائم ہے لیکن کسی کے سہارے نہیں۔ذہن اسے قبول کرتے ہیں لیکن حواس کی بنا پر نہیں اور مشاہدات اس کی گواہی دیتے ہیں لیکن اس کی بارگاہ میں پہنچنے کے بعد نہیں۔اوہام اس کا احاطہ نہیں کر سکتے ہیں بلکہ وہ ان کے لئے انہیں کے ذریعہ روشن ہوا ہے اور انہیں کی ذریعہ ان کے قبضہ میں آنے سے

۳۴۵

لَيْسَ بِذِي كِبَرٍ امْتَدَّتْ بِه النِّهَايَاتُ فَكَبَّرَتْه تَجْسِيماً - ولَا بِذِي عِظَمٍ تَنَاهَتْ بِه الْغَايَاتُ فَعَظَّمَتْه تَجْسِيداً - بَلْ كَبُرَ شَأْناً وعَظُمَ سُلْطَاناً.

الرسول الأعظم

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه الصَّفِيُّ - وأَمِينُه الرَّضِيُّ – صلى الله عليه وآله - أَرْسَلَه بِوُجُوبِ الْحُجَجِ وظُهُورِ الْفَلَجِ وإِيضَاحِ الْمَنْهَجِ - فَبَلَّغَ الرِّسَالَةَ صَادِعاً بِهَا - وحَمَلَ عَلَى الْمَحَجَّةِ دَالاًّ عَلَيْهَا - وأَقَامَ أَعْلَامَ الِاهْتِدَاءِ ومَنَارَ الضِّيَاءِ - وجَعَلَ أَمْرَاسَ الإِسْلَامِ مَتِينَةً - وعُرَى الإِيمَانِ وَثِيقَةً.

منها في صفة خلق أصناف من الحيوان

ولَوْ فَكَّرُوا فِي عَظِيمِ الْقُدْرَةِ وجَسِيمِ النِّعْمَةِ - لَرَجَعُوا إِلَى الطَّرِيقِ وخَافُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ - ولَكِنِ الْقُلُوبُ عَلِيلَةٌ والْبَصَائِرُ مَدْخُولَةٌ - أَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى صَغِيرِ مَا خَلَقَ كَيْفَ أَحْكَمَ خَلْقَه - وأَتْقَنَ تَرْكِيبَه وفَلَقَ لَه السَّمْعَ والْبَصَرَ - وسَوَّى لَه الْعَظْمَ والْبَشَرَ

انکار کردیا ہے اور ان کا حکم بھی انہیں کو ٹھہرایا ہے ۔وہ اس اعتبار سے بڑا نہیں ہے کہ اس کے اطراف نے پھیل کر اس کے جسم کو بڑا بنادیا ہے اور نہ ایسا عظیم ہے کہ اس کی جسامت زیادہ ہو اور اس نے اس کے جسد کو عظیم بنادیا ہو ۔وہ اپنی شان میں کبیر اور اپنی سلطنت میں عظیم ہے۔

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد اس کے بندہ اورمخلص رسول اور پسندیدہ امین ہیں۔اللہ ان پر رحمت نازل کرے۔اس نے انہیں نا قابل انکاردلائل۔واضح کامیابی اورنمایاں راستہ کے ساتھ بھیجا ہے۔اور انہوں نے اس کے پیغام کو واشگاف انداز میں پیش کردیا ہے اور لوگوں کو سیدھے راستہ کی رہنمائی کردی ہے ۔ہدایت کے نشان قائم کردئیے ہیں اور روشنی کے منارہ استوار کردئیے ہیں۔اسلام کی رسیوں کومضبوط بنادیا ہے اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کردیاہے۔

اگر یہ لوگ اس کی عظیم قدرت اور وسیع نعمت میں غورو فکر کرتے تو راستہ کی طرف واپس آجاتے اورجہنم کے عذاب سے خوف زدہ ہو جاتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کے دل مریض ہیں اور ان کی آنکھیں کمزور ہیں۔کیا یہ ایک چھوٹی سی مخلوق کو بھی نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اس نے کس طرح اس کی تخلیق کو مستحکم اور اس کی ترکیب کو مضبوط بنایا ہے۔اس چھوٹے سے جسم میں کان اورآنکھیں سب بنادی ہیں اور اسی میں ہڈیاں اور کھال بھی درست کردی ہے۔

۳۴۶

انْظُرُوا إِلَى النَّمْلَةِ فِي صِغَرِ جُثَّتِهَا ولَطَافَةِ هَيْئَتِهَا - لَا تَكَادُ تُنَالُ بِلَحْظِ الْبَصَرِ ولَا بِمُسْتَدْرَكِ الْفِكَرِ - كَيْفَ دَبَّتْ عَلَى أَرْضِهَا وصُبَّتْ عَلَى رِزْقِهَا - تَنْقُلُ الْحَبَّةَ إِلَى جُحْرِهَا وتُعِدُّهَا فِي مُسْتَقَرِّهَا - تَجْمَعُ فِي حَرِّهَا لِبَرْدِهَا وفِي وِرْدِهَا لِصَدَرِهَا - مَكْفُولٌ بِرِزْقِهَا مَرْزُوقَةٌ بِوِفْقِهَا - لَا يُغْفِلُهَا الْمَنَّانُ ولَا يَحْرِمُهَا الدَّيَّانُ - ولَوْ فِي الصَّفَا الْيَابِسِ والْحَجَرِ الْجَامِسِ - ولَوْ فَكَّرْتَ فِي مَجَارِي أَكْلِهَا - فِي عُلْوِهَا وسُفْلِهَا - ومَا فِي الْجَوْفِ مِنْ شَرَاسِيفِ بَطْنِهَا - ومَا فِي الرَّأْسِ مِنْ عَيْنِهَا وأُذُنِهَا - لَقَضَيْتَ مِنْ خَلْقِهَا عَجَباً ولَقِيتَ مِنْ وَصْفِهَا تَعَباً - فَتَعَالَى الَّذِي أَقَامَهَا عَلَى قَوَائِمِهَا - وبَنَاهَا عَلَى دَعَائِمِهَا - لَمْ يَشْرَكْه فِي فِطْرَتِهَا فَاطِرٌ،

ذرا اس چیونٹی کے چھوٹے سے جسم اور اس کی لطیف ہئیت کی طرف نظرکرو جس کا گوشہ چشم سے دیکھنابھی مشکل ہے اور فکروں کی گرفت میں آنابھی دشوار ہے۔کس طرح زمین پر رینگتی ہے اور کس طرح اپنے رزق کی طرف لپکتی ہے۔دانہ کو اپنے سوراخ کی طرف لے جاتی ہے اور پھر وہاں مرکز پرمحفوظ کر دیتی ہے گرمی(۱) میں سردی کا انتظام کرت یہے اور توانائی کے دورمیں کمزوری کے زمانہ کا بندوبست کرتی ہے اس کے رزق کی کفالت کی جا چکی ہے اوراسی کے مطابق اسے برابر رزق مل رہا ہے۔نہ احسان کرنے والا خدا اسے نظر اندازکرتا ہے اور نہ صاحب جزا و عطا اسے محروم رکھتا ہے چاہے وہ خشک پتھر کے اندر ہو یا جمے ہوئے سنگ خارا کے اندر۔اگر تم اس کی غذا کو پست و بلند نالیوں اور اس کے جسم کے اندر شکم کی طرف جھکے ہوئے پسلیوں کے کناروں اور سر میں جگہ پانے والے آنکھ اور کان کو دیکھو گے تو تمہیں واقعاً اس کی تخلیق پرتعجب ہوگا اور اس کی توصیف سے عاجز ہو جائوگے۔بلند و برتر ہے وہ خدا جس نے اس جسم کو اس کے پیروں پر قائم کیا ہے اور اس کی تعمیر انہیں ستونوں پرکھڑی کی ہے۔ نہ اس کی فطرت میں کسی خالق نے حصہ لیا ہے

(۱) ایک چھوٹی سی مخلوق چیونٹی میں یہ دور اندیشی اور اس قدر تنظیم و ترتیب اور ایک اشرف المخلوقات میں اس قدرغفلت اورتغافل کس قدرحیرت انگیز امر ہے اور اس سے زیادہ حیرت انگیز قصہ جناب سلیمان ہے جہاں چیونٹی نے لشکر سلیمان کو دیکھ کرآوازدی کہ فوراً اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ہوجائو کہیں لشکر سلیمان تمہیں پامال نہ کردے اور اسے احساس بھی نہ ہو۔گویا کہ ایک چیونٹی کے دل میں قوم کا اس قدر درد ہے اوراسے سردار قوم ہونے کے اعتبارسے اس قدر ذمہ داری کا احساسا ہے کہ قوم تباہ نہ ہونے پائے اور آج عالم اسلام و انسانیت اس قدر تغافل کا شکار ہوگیا ہے کہ کسی کے دل میں قوم کا درد نہیں ہے بلکہ حکام قوم کے کاندھوں پر اپنے جنازے اٹھا رہے ہیں اور ان کی قبروں پر اپنے تاج محل تعمیر کر رہے ہیں۔

۳۴۷

ولَمْ يُعِنْه عَلَى خَلْقِهَا قَادِرٌ - ولَوْ ضَرَبْتَ فِي مَذَاهِبِ فِكْرِكَ لِتَبْلُغَ غَايَاتِه - مَا دَلَّتْكَ الدَّلَالَةُ إِلَّا عَلَى أَنَّ فَاطِرَ النَّمْلَةِ - هُوَ فَاطِرُ النَّخْلَةِ - لِدَقِيقِ تَفْصِيلِ كُلِّ شَيْءٍ - وغَامِضِ اخْتِلَافِ كُلِّ حَيٍّ - ومَا الْجَلِيلُ واللَّطِيفُ والثَّقِيلُ والْخَفِيفُ - والْقَوِيُّ والضَّعِيفُ فِي خَلْقِه إِلَّا سَوَاءٌ.

خلقة السماء والكون

وكَذَلِكَ السَّمَاءُ والْهَوَاءُ والرِّيَاحُ والْمَاءُ - فَانْظُرْ إِلَى الشَّمْسِ والْقَمَرِ والنَّبَاتِ والشَّجَرِ - والْمَاءِ والْحَجَرِ واخْتِلَافِ هَذَا اللَّيْلِ والنَّهَارِ - وتَفَجُّرِ هَذِه الْبِحَارِ وكَثْرَةِ هَذِه الْجِبَالِ - وطُولِ هَذِه الْقِلَالِ وتَفَرُّقِ هَذِه اللُّغَاتِ - والأَلْسُنِ الْمُخْتَلِفَاتِ - فَالْوَيْلُ لِمَنْ أَنْكَرَ الْمُقَدِّرَ وجَحَدَ الْمُدَبِّرَ - زَعَمُوا أَنَّهُمْ كَالنَّبَاتِ مَا لَهُمْ زَارِعٌ - ولَا لِاخْتِلَافِ صُوَرِهِمْ صَانِعٌ -

اور نہ اس کی تخلیق میں کسی قادرنے کئی مدد کی ہے۔اور ار تم فکرکے تمام راستوں کو طے کرکے اس کی انتہا تک پہنچنا چاہو گے تو ایک ہی نتیجہ حاصل ہوگا کہ جو چیونٹی کا خالق ہے وہی درخت خرما کابھی پروردگار ہے۔اس لئے کہ ہر ایک تخلیق میں یہی باریکی ہے اور ہر جاندار کا دوسرے سے نہایت درجہ باریک ہی اختلاف ہے۔اس کی بارگاہ میں عظیم و لطیف ' ثقیل و خفیف ' قوی و ضعیف سب ایک ہی جیسے ہیں ۔

یہی حال آسمان اور فضا۔اور ہوا اور پانی کا ہے ۔ کہ چاہو شمس و قمر کو دیکھو یا نباتات وشجر کو۔پانی اور پتھر پر نگاہ کرو یا شب و روز کی آمد رفت پر' دریائوں کے بہائو کو دیکھو یا پہاڑوں کی کثرت اور چوٹیوں کے طول و ارتفاع کو۔لغات کے اختلاف کو دیکھو یا زبانوںکے افتراق کو۔سب اس کی قدرت کاملہ کے بہترین دلائل ہیں۔ حیف ہے ان لوگوں پر جنہوں نے تقدیر ساز کا انکار کیا ہے اور تدبیر کرنے والے سے مکرگئے ۔ان کا خیال ہے کہ سب گھاس پھوس(۱) کی طرح ہیں کہ بغیر کھیتی کرنے والے کے اگ آئے ہیں اور بغیر صانع کے مختلف شکلیں اختیار کرلی ہیں

(۱) درحقیقت گھاس پھوس کے بارے میں بھی یہ تصور خلاف عقل ہے کہ اس کی تخلیق بغیر کسی خالق کے ہوگئی ہے لیکن یہ تصور صرف اس لئے پیدا کر لیتا ہے کہ اس کی حکمت اور مصلحت سے با خبر نہیں ہے اوریہ خیال کرتا ہے کہ اسے برسات نے پانی کے بغیر کسی ترتیب و تنظیم کے اگادیا ہے اور اس کے بعد اسی تخلیق پر ساری کائنات کا قیاس کرنے لگتا ہے۔حالانکہ اسے کائنات کی حکمت و مصلحت کودیکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ تخلیق کائنات کے بعض اسرار تو واضح بھی ہوئے ہیں لیکن تخلق نباتات کا تو کوئیراز واضح نہیں ہو سکا ہے اوریہ انسان کی انتہائی جہالت ہے کہ وہ اس قدرحقیر اور معمولی مخلوقات کی حکمت و مصلحت سے بھی با خبرنہیں ہے اور حوصلہ اس قدر بلند ہے کہ مالک کائنات سے ٹکر لینا چاہتا ہے اور ایک لفظ میں اس کے وجود کا خاتمہ کر دیناچاہتا ہے۔

۳۴۸

ولَمْ يَلْجَئُوا إِلَى حُجَّةٍ فِيمَا ادَّعَوْا - ولَا تَحْقِيقٍ لِمَا - أَوْعَوْا وهَلْ يَكُونُ بِنَاءٌ مِنْ غَيْرِ بَانٍ أَوْ جِنَايَةٌ مِنْ غَيْرِ جَانٍ!

خلقة الجرادة

وإِنْ شِئْتَ قُلْتَ فِي الْجَرَادَةِ - إِذْ خَلَقَ لَهَا عَيْنَيْنِ حَمْرَاوَيْنِ - وأَسْرَجَ لَهَا حَدَقَتَيْنِ قَمْرَاوَيْنِ - وجَعَلَ لَهَا السَّمْعَ الْخَفِيَّ وفَتَحَ لَهَا الْفَمَ السَّوِيَّ - وجَعَلَ لَهَا الْحِسَّ الْقَوِيَّ ونَابَيْنِ بِهِمَا تَقْرِضُ - ومِنْجَلَيْنِ بِهِمَا تَقْبِضُ - يَرْهَبُهَا الزُّرَّاعُ فِي زَرْعِهِمْ - ولَا يَسْتَطِيعُونَ ذَبَّهَا ،ولَوْ أَجْلَبُوا بِجَمْعِهِمْ - حَتَّى تَرِدَ الْحَرْثَ فِي نَزَوَاتِهَا وتَقْضِيَ مِنْه شَهَوَاتِهَا - وخَلْقُهَا كُلُّه لَا يُكَوِّنُ إِصْبَعاً مُسْتَدِقَّةً.

فَتَبَارَكَ اللَّه الَّذِي يَسْجُدُ لَه( مَنْ فِي السَّماواتِ والأَرْضِ - طَوْعاً وكَرْهاً ) ويُعَفِّرُ لَه خَدّاً ووَجْهاً - ويُلْقِي إِلَيْه بِالطَّاعَةِ سِلْماً وضَعْفاً - ويُعْطِي لَه الْقِيَادَ رَهْبَةً وخَوْفاً - فَالطَّيْرُ مُسَخَّرَةٌ لأَمْرِه - أَحْصَى عَدَدَ الرِّيشِ مِنْهَا

۔حالانکہ انہوں نے اس دعویٰ میں نہ کسی دلیل کاسہارا لیا ہے اور نہ اپنے عقائد کی کوئی تحقیق کی ہے۔ورنہ یہ سمجھ لیتے کہ نہ بغیر بانی کے عمارت ہو سکتی ہے اور نہ بغیر مجرم کے جرم ہو سکتا ہے۔

اور اگر تم چاہو تو یہی باتیں ٹڈی کے بارے میں کہی جا سکتی ہیں کہ اس کے اندر دوسرخ سرخ آنکھیں پیدا کی ہیں اور چاند جیسے دو حلقوں میں آنکھوں کے چراغ روشن کردئیے ہیں۔چھوٹے چھوٹے کان بنا دئیے ہیں اور مناسب سادہانہ کھول دیا ہے۔لیکن احساس کو قوی بنادیا ہے۔اس کے دو تیز دانت ہیں جن سے تپیوں کو کاٹتی ہے اور دو پیر دندانہ دار ہیں جن سے گھاس وغیرہ کو پکڑتی ہے۔کاشتکار اپنی کاشت کے لئے ان سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن انہیں ہنکا نہیں سکتے ہیں چاہے کسی قدر طاقت کیوں نہ جمع کرلیں۔یہاں تک کہ وہ کھیتوں پرجست وخیز کرتے ہوئے حملہ آور ہو جاتی ہیں اور اپنی خواہش پوری کر لیتی ہیں ۔جب کہ اس کا کال و جود ایک باریک انگلی سے زیادہ نہیں ہے۔

پس با برکت ہے وہ ذات اقدس جس کے سامنے زمین و آسمان کی تمام مخلوقات بر غبت یا بجزز و اکراہ سر بسجود رہتی ہے۔اور اس کے لئے چہرہ اور رخسار کو خاک پر رکھے ہوئے ہیں اورعجزو انکسار کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سراپا اطاعت ہیں اورخوف و دہشت سے اپنی زمام اختیار اس کے حوالہ کئے ہوئے ہیں۔پرندہ اس کے امر کے تابع ہیں کہوہ ان کے پروں

۳۴۹

والنَّفَسِ - وأَرْسَى قَوَائِمَهَا عَلَى النَّدَى والْيَبَسِ - وقَدَّرَ أَقْوَاتَهَا وأَحْصَى أَجْنَاسَهَا - فَهَذَا غُرَابٌ وهَذَا عُقَابٌ - وهَذَا حَمَامٌ وهَذَا نَعَامٌ - دَعَا كُلَّ طَائِرٍ بِاسْمِه وكَفَلَ لَه بِرِزْقِه - وأَنْشَأَ السَّحَابَ الثِّقَالَ فَأَهْطَلَ دِيَمَهَا - وعَدَّدَ قِسَمَهَا فَبَلَّ الأَرْضَ بَعْدَ جُفُوفِهَا - وأَخْرَجَ نَبْتَهَا بَعْدَ جُدُوبِهَا

(۱۸۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التوحيد وتجمع هذه الخطبة من أصول العلم ما لا تجمعه خطبة

مَا وَحَّدَه مَنْ كَيَّفَه ولَا حَقِيقَتَه أَصَابَ مَنْ مَثَّلَه - ولَا إِيَّاه عَنَى مَنْ شَبَّهَه - ولَا صَمَدَه مَنْ أَشَارَ إِلَيْه وتَوَهَّمَه - كُلُّ مَعْرُوفٍ بِنَفْسِه مَصْنُوعٌ وكُلُّ قَائِمٍ فِي سِوَاه مَعْلُولٌ - فَاعِلٌ لَا بِاضْطِرَابِ آلَةٍ مُقَدِّرٌ لَا بِجَوْلِ فِكْرَةٍ

اور سانسوں کاشمار رکھتا ہے اور ان کے پروں کو تری یا خشکی میں جمادیا ہے۔انکاقوت مقدر کردیا ہے اوران کی جنس کا احصارکرلیا ہے کہ یہ کو ا ہے۔وہ عقاب ہے ۔یہ کبوتر ہے۔وہ شترمرغ ہے۔ہر پرندہ کواس کے نام سے عالم وجود میں دعوت دی ہے اور ہر ایک کی روزی کی کفالت کی ہے ۔سنگین قسم کے بادل پیداکئے توان سے موسلا دھار پانی برسا دیا اور اس کے تقسیمات کاحساب بھی رکھا۔زمین کو خشکی کے بعد تر کردیا اور اس کے نباتات کو بنجر ہوجانے کے بعد دوبارہ اگا دیا۔

(۱۸۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(توحید کے بارے میں اور اس میں وہ تمام علمی مطالب پائے جاتے ہیں جو کسی دوسرے خطبہ میں نہیں ہیں)

وہ اس کی توحید کا قائل نہیں ہے جسنے اس کے لئے کیفیات کا تصور پیدا کرلیا اوروہ اس کی حقیقت سے نا آشنا ہے جس نے اس کی تمثیل قراردے دی۔اس نے اس کا قصد ہی نہیں کیا جس نے اس کی شبیہ بنادی اور وہاس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا جس نے اس کی طرف اشارہ کردیا یا اسے تصور کا پابند بنادینا چاہا۔جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہے اور جودسورے کے سہارے قائم ہو وہ اس علت کا متحا ج ہے۔پروردگار غافل ہے لیکن اعضاء کیحرکات سے نہیں اور انداز ے مقرر کرنے والا ہے لیکن فکر کی جولانیوں

۳۵۰

غَنِيٌّ لَا بِاسْتِفَادَةٍ - لَا تَصْحَبُه الأَوْقَاتُ ولَاتَرْفِدُه الأَدَوَاتُ - سَبَقَ الأَوْقَاتَ كَوْنُه - والْعَدَمَ وُجُودُه والِابْتِدَاءَ أَزَلُه بِتَشْعِيرِه الْمَشَاعِرَ عُرِفَ أَنْ لَا مَشْعَرَ لَه - وبِمُضَادَّتِه بَيْنَ الأُمُورِ عُرِفَ أَنْ لَا ضِدَّ لَه - وبِمُقَارَنَتِه بَيْنَ الأَشْيَاءِ عُرِفَ أَنْ لَا قَرِينَ لَه - ضَادَّ النُّورَ بِالظُّلْمَةِ والْوُضُوحَ بِالْبُهْمَةِ - والْجُمُودَ بِالْبَلَلِ والْحَرُورَ بِالصَّرَدِ - مُؤَلِّفٌ بَيْنَ مُتَعَادِيَاتِهَا مُقَارِنٌ بَيْنَ مُتَبَايِنَاتِهَا - مُقَرِّبٌ بَيْنَ مُتَبَاعِدَاتِهَا مُفَرِّقٌ بَيْنَ مُتَدَانِيَاتِهَا - لَا يُشْمَلُ بِحَدٍّ ولَا يُحْسَبُ بِعَدٍّ - وإِنَّمَا تَحُدُّ الأَدَوَاتُ أَنْفُسَهَا - وتُشِيرُ الآلَاتُ إِلَى نَظَائِرِهَا مَنَعَتْهَا مُنْذُ الْقِدْمَةَ وحَمَتْهَا قَدُ الأَزَلِيَّةَ - وجَنَّبَتْهَا لَوْلَا التَّكْمِلَةَ

سے نہیں وہ غنی ہے لیکن کسی سے کچھ لے کرنہیں۔زمانہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا اورآلات اسے سہارا نہیں دے سکتے۔اس کا وجودزمانہ سے پہلے ہے اور اس کا وجودعدم سے بھی سابق اور اس کی ازلیت ابتدا سے بھی مقدم ہے۔اس کے حواس(۱) کوایجاد کرنے سے اندازہ ہوا کہ وہ حواس سے بے نیاز ہے اور اس کے اشیاء کے درمیان ضدیت قراردینے سے معلوم ہوا کہ اس کی کوئی ضد نہیں ہے اوراس کے اشیاء میں مقارنت قرار دینے سے ثابت ہواکہ اس کا کوئی قرین اور ساتھی نہیں ہے۔اس نے نور کی ظلمت کی۔وضاحت کو ابہام کی خشکی کو تری کی اور گرمی کو سردی کی ضد قرار دیاہے۔وہ ایک دوسرے کی دشمن اشیاء کو جمع کرنے والا۔ایک دوسرے سے جدا گانہاشیاء کا ساتھ کردینے والا۔باہمی دوری رکھنے والوں کو قریب بنادینے والا اورباہمی قربت کے حامل امور کا جدا کردینے والا ہے۔وہ نہ کسی حد کے اندر آتا ہے اور نہ کسی حساب و شمارمیں آسکتا ہے کہ جسمانی قوتیں اپنی جیسی اشیاء ہی کو محدود کر سکتی ہیں اور آلات اپنے امثال ہی کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ان اشیاء کو لفظ منذ ( کب ) نے قدیم ہونے سے روک دیا ہے اورحرف قد (ہوگیا) نے ازلیت سے الگ کردیا ہے اور لولا نے انہیں تکمیل سے جداکردیا ہے۔انہیں اشیاء

(۱)مالک کائنات نے تخلیق کائنات میں ایسے خصوصیات کو ودیعت کردیاہے جن کے ذریعہ اس کی عظمت کاب خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے۔صرف اس نکتہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جوش ے بھی کسی کی ایجاد کردہہوتی ہے اس کا اطلاق موجد کی ذات پرنہیں ہو سکتا ہے لہٰذا اگر اس نے حواس کو پیداکیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی ذات حواس سے بالا تر ہے اوراگر اس نے بعض اشیاء میں ہمرنگی اوربعض میں اخلاف پیدا کیا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی ذات اقدس نہ کسی ہمرنگ ہے اورنہ کسی سے ضدیت کی حامل ہے ۔یہ ساری باتیں مخلوقات کے مقدرمیں لکھی گئی ہیں اور خالق کی ذات ان تمام باتوں سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔

۳۵۱

بِهَا تَجَلَّى صَانِعُهَا لِلْعُقُولِ - وبِهَا امْتَنَعَ عَنْ نَظَرِ الْعُيُونِ - ولَا يَجْرِي عَلَيْه السُّكُونُ والْحَرَكَةُ - وكَيْفَ يَجْرِي عَلَيْه مَا هُوَ أَجْرَاه - ويَعُودُ فِيه مَا هُوَ أَبْدَاه ويَحْدُثُ فِيه مَا هُوَ أَحْدَثَه - إِذاً لَتَفَاوَتَتْ ذَاتُه ولَتَجَزَّأَ كُنْهُه - ولَامْتَنَعَ مِنَ الأَزَلِ مَعْنَاه - ولَكَانَ لَه وَرَاءٌ إِذْ وُجِدَ لَه أَمَامٌ - ولَالْتَمَسَ التَّمَامَ إِذْ لَزِمَه النُّقْصَانُ - وإِذاً لَقَامَتْ آيَةُ الْمَصْنُوعِ فِيه - ولَتَحَوَّلَ دَلِيلًا بَعْدَ أَنْ كَانَ مَدْلُولًا عَلَيْه - وخَرَجَ بِسُلْطَانِ الِامْتِنَاعِ - مِنْ أَنْ يُؤَثِّرَ فِيه مَا يُؤَثِّرُ فِي غَيْرِه الَّذِي لَا يَحُولُ ولَا يَزُولُ ولَا يَجُوزُ عَلَيْه الأُفُولُ - لَمْ يَلِدْ فَيَكُونَ مَوْلُوداً ولَمْ يُولَدْ فَيَصِيرَ مَحْدُوداً - جَلَّ عَنِ اتِّخَاذِ الأَبْنَاءِ، وطَهُرَ عَنْ مُلَامَسَةِ النِّسَاءِ - لَا تَنَالُه الأَوْهَامُ فَتُقَدِّرَه ولَا تَتَوَهَّمُه الْفِطَنُ فَتُصَوِّرَه - ولَا تُدْرِكُه الْحَوَاسُّ فَتُحِسَّه

کے ذریعہ بنانے والا عقلوں کے سامنے جلوہ گر ہوا ہے اور انہیں کے ذریعہ آنکھوں کی دید سے بری ہوگیا ہے۔اس پرحرکت و سکون کا قانون جاری نہیں ہوتا ہے کہ اس نے خود حرکت و سکون کے نظام کو جاری کیا ہے اورجس چیزکی ابتدا اس نے کی ہے وہ اس کی طرف کس طرح عائد ہو سکتی ہے یا جس کو اس نے ایجاد کیا ہے وہ اس کی ذات میں کس طرح شامل ہو سکتی ہے۔ایسا ہو جاتا تواس کی ذات بھی تغیر پذیر ہو جاتی اور اس کی حقیقت بھی قابل تجزیہ ہو جاتی اوراس کی معنویت بھی ازلیت سے الگ ہو جاتی اور اس کے یہاں بھی اگر سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی اوروہ بھی کمال کا طلب گار ہوتا اگر اس میں نقص پیداہوجاتا۔اس میں مصنوعات کی علامت پیدا ہو جاتی اور وہ مدلول ہونے کے بعد خود بھی دوسرے کی طرف رہنمائی کرنے والا ہو جاتا۔وہ اپنے امتناع و تحفظ کی طاقت کی بناپ ر اس حد سے باہر نکل گیا ہے کہ کوئی ایسی شے اس پر اثر کرے جو دوسروں پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس کے یہاں نہ تغیر ہے اور نہ زوال اورنہ اس کے آفتاب وجود کےلئے کوئی غروب ہے۔وہ نہ کسی کا باپ ہے کہ اس کا کوئی فرزند ہو اورنہ کسی کاف رزند ہے کہ محدود ہو کر رہ جائے ۔وہ اولاد بنانے سے بھی بے نیاز اور عورتوں کو ہاتھ لگانے سے بھی بلند و بالا ہے۔ادہام اسے پانہیں سکتے ہیں کہ اس کا اندازہ مقرر کریں اورہوش مندیاں اس کا تصور نہیں کر سکتی ہیں کہ اس کی تصویر بناسکیں ۔جو اس کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں کہ اسے محسوس کر سکیں

۳۵۲

ولَا تَلْمِسُه الأَيْدِي فَتَمَسَّه - ولَا يَتَغَيَّرُ بِحَالٍ ولَا يَتَبَدَّلُ فِي الأَحْوَالِ - ولَا تُبْلِيه اللَّيَالِي والأَيَّامُ ولَا يُغَيِّرُه الضِّيَاءُ والظَّلَامُ ولَا يُوصَفُ بِشَيْءٍ مِنَ الأَجْزَاءِ - ولَا بِالْجَوَارِحِ والأَعْضَاءِ ولَا بِعَرَضٍ مِنَ الأَعْرَاضِ - ولَا بِالْغَيْرِيَّةِ والأَبْعَاضِ - ولَا يُقَالُ لَه حَدٌّ ولَا نِهَايَةٌ ولَا انْقِطَاعٌ ولَا غَايَةٌ - ولَا أَنَّ الأَشْيَاءَ تَحْوِيه فَتُقِلَّه أَوْ تُهْوِيَه - أَوْ أَنَّ شَيْئاً يَحْمِلُه فَيُمِيلَه أَوْ يُعَدِّلَه - لَيْسَ فِي الأَشْيَاءِ بِوَالِجٍ ولَا عَنْهَا بِخَارِجٍ - يُخْبِرُ لَا بِلِسَانٍ ولَهَوَاتٍ - ويَسْمَعُ لَا بِخُرُوقٍ وأَدَوَاتٍ يَقُولُ ولَا يَلْفِظُ - ويَحْفَظُ ولَا يَتَحَفَّظُ ويُرِيدُ ولَا يُضْمِرُ - يُحِبُّ ويَرْضَى مِنْ غَيْرِ رِقَّةٍ - ويُبْغِضُ ويَغْضَبُ مِنْ غَيْرِ مَشَقَّةٍ - يَقُولُ لِمَنْ أَرَادَ كَوْنَه كُنْ فَيَكُونُ - لَا بِصَوْتٍ يَقْرَعُ ولَا بِنِدَاءٍ يُسْمَعُ - وإِنَّمَا كَلَامُه سُبْحَانَه فِعْلٌ مِنْه أَنْشَأَه ومَثَّلَه - لَمْ يَكُنْ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ كَائِناً - ولَوْ كَانَ قَدِيماً لَكَانَ إِلَهاً ثَانِياً.

اور ہاتھ اسے چھو نہیں سکتے ہیں کہ مس کرلیں۔ وہ کسی حال میں متغیر نہیں ہوتا ہے اور مختلف حالات میں بدلتا بھی نہیں ہے۔شب و روز اسے پرانا نہیں کر سکتے ہیں اورتاریکی و روشنی اس میں تغیر نہیں پیدا کر سکتی ہے۔وہ نہ اجزاء سے موصوف ہوتا ہے اورنہ جوارح و اعضاء سے ۔نہ کسی عرض سے متصف ہوتا ے اور نہ غیریت اور جزئیت سے۔اس کے لئے نہحداور انتہا کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور نہ اختتام اور زوال کا۔نہ اشیاء اس پر حاوی ہیں کہ جب چاہیں پست کردیں یا بلند کردیں اور نہ کوئی چیز اسے اٹھائے ہوئے ہے کہ جب چاہے سیدھا کردے یا موڑ دے۔وہ نہ اشیا کے اندرداخل ہے اور نہان سے خارج ہے۔وہ کلام کرتا ہے مگر زبان اورتالو کے سہارے نہیں اور سنتاہے لیکن کان کے سوراخ اور آلات کے ذریعہ نہیں۔بولتا ہے لیکن تلفظ سے نہیں اور ہر چیز کو یاد رکھتا ہے لیکن حافظہ کے سہارے نہیں۔ارادہ کرتا ہے لیکن دل سے نہیں۔اور محبت و رضا رکھتا ہے لیکن نرمی قلب کے وسیلہ سے نہیں۔اور بغض و غضب بھی رکھتا ہے لیکن غم و غصہ کی تکلیف سے نہیں ۔ جس چیز کوایجاد کرنا چاہتا ہے اس سے کن کہہ دیتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔نہ کوئی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے اور نہ کوئی ندا سنائی دیتی ہے۔اس کا کلام درحقیقت اس کا فعل ہے جس کو اس نے ایجاد کیا ہے اور اس کے پہلیسے ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے ورنہ وہ بھی قدیم اوردوسرا خدا ہو جاتا ۔

۳۵۳

لَا يُقَالُ كَانَ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ - فَتَجْرِيَ عَلَيْه الصِّفَاتُ الْمُحْدَثَاتُ - ولَا يَكُونُ بَيْنَهَا وبَيْنَه فَصْلٌ - ولَا لَه عَلَيْهَا فَضْلٌ فَيَسْتَوِيَ الصَّانِعُ والْمَصْنُوعُ - ويَتَكَافَأَ الْمُبْتَدَعُ والْبَدِيعُ - خَلَقَ الْخَلَائِقَ عَلَى غَيْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَيْرِه - ولَمْ يَسْتَعِنْ عَلَى خَلْقِهَا بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِه - وأَنْشَأَ الأَرْضَ فَأَمْسَكَهَا مِنْ غَيْرِ اشْتِغَالٍ - وأَرْسَاهَا عَلَى غَيْرِ قَرَارٍ وأَقَامَهَا بِغَيْرِ قَوَائِمَ، ورَفَعَهَا بِغَيْرِ دَعَائِمَ - وحَصَّنَهَا مِنَ الأَوَدِ والِاعْوِجَاجِ - ومَنَعَهَا مِنَ التَّهَافُتِ والِانْفِرَاجِ - أَرْسَى أَوْتَادَهَا وضَرَبَ أَسْدَادَهَا - واسْتَفَاضَ عُيُونَهَا وخَدَّ أَوْدِيَتَهَا - فَلَمْ يَهِنْ مَا بَنَاه ولَا ضَعُفَ مَا قَوَّاه هُوَ الظَّاهِرُ عَلَيْهَا بِسُلْطَانِه وعَظَمَتِه - وهُوَ الْبَاطِنُ لَهَا بِعِلْمِه ومَعْرِفَتِه - والْعَالِي عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مِنْهَا بِجَلَالِه وعِزَّتِه - لَا يُعْجِزُه شَيْءٌ مِنْهَا طَلَبَه - ولَا يَمْتَنِعُ عَلَيْه فَيَغْلِبَه

اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر حادث(۱) صفات کا اطلاق ہو جائے اور دونوں میں نہ کوئی فاصلہ رہ جائے اور نہ اس کا حوادث پر کوئی فضل رہ جائے اور پھر صانع و مصنوع دونوں برابر ہو جائیں اورمصنوع صنعت کے مثل ہو جائے۔اس نے مخلوقات کو بغیر کسی دوسرے کے چھوڑ دے ہوئے نمونہ کے بنایا ہے اور اس تخلیق میں کسی سے مدد بھی نہیں لی ہے۔زمین کو ایجاد کیا اور اس میں الجھے بغیر اسے روک کر رکھا اورپھربغیرکسی سہارے کے گاڑ دیا اور بغیر کسی ستون کے قائم کردیا اوربغیرکھمبوں کے بلند بھی کردیا۔اسے ہر طرح کی کجی اور ٹیڑھے پن سے محفوظ رکھا اورہر قسم کے شگاف اورانتشار سے بچائے رکھا۔اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اورچٹانوں کو مضبوطی سے نصب کردیا۔چشمے جاری کردئیے اور پانی کی گزر گاہوں کو شگافتہ کردیا۔اس کی کوئی صنعت کمزور نہیں ہے اور اس نے جس کو قوت دے دی ہے وہ ضعیف نہیں ہے۔وہ ہر شے پراپنی عظمت و سلطنت کی بناپرغالب ہے۔اور اپنے علم و عرفان کی بنا پر اندر تک کی خبر رکھتا ہے ۔جلال و عزت کی بنا پر ہر شے سے بلند و بالا ہے اور اگر کسی شے کو طلب کرنا چاہے تو کوئی شے اسے عاجز نہیں کر سکتی ہے اور اس سے انکارنہیں کر سکتی ہے اوراس سے انکار نہیں کرسکتی ہے کہ اس پر غالب آجائے ۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پروردگار کا عرفان اس کے صفات و کمالات ہی سے ہوتا ہے اور اسکی ذات اقدس بھی مختلف صفات سے متصف ہے لیکن بات صرف یہ ہے کہ اس کے صفات حادث نہیں ہیں۔بلکہ عین ذات ہیں اور ایک ذات اقدس ہے جس سے اس کے تمام صفات کا اندازہ ہوتا ہے اور اس میں کسی طرح کے تعدد کا کوئی امکان نہیں ہے۔

۳۵۴

ولَا يَفُوتُه السَّرِيعُ مِنْهَا فَيَسْبِقَه - ولَا يَحْتَاجُ إِلَى ذِي مَالٍ فَيَرْزُقَه - خَضَعَتِ الأَشْيَاءُ لَه وذَلَّتْ مُسْتَكِينَةً لِعَظَمَتِه - لَا تَسْتَطِيعُ الْهَرَبَ مِنْ سُلْطَانِه إِلَى غَيْرِه - فَتَمْتَنِعَ مِنْ نَفْعِه وضَرِّه - ولَا كُفْءَ لَه فَيُكَافِئَه - ولَا نَظِيرَ لَه فَيُسَاوِيَه - هُوَ الْمُفْنِي لَهَا بَعْدَ وُجُودِهَا - حَتَّى يَصِيرَ مَوْجُودُهَا كَمَفْقُودِهَا.

ولَيْسَ فَنَاءُ الدُّنْيَا بَعْدَ ابْتِدَاعِهَا - بِأَعْجَبَ مِنْ إِنْشَائِهَا واخْتِرَاعِهَا - وكَيْفَ ولَوِ اجْتَمَعَ جَمِيعُ حَيَوَانِهَا مِنْ طَيْرِهَا وبَهَائِمِهَا - ومَا كَانَ مِنْ مُرَاحِهَا وسَائِمِهَا - وأَصْنَافِ أَسْنَاخِهَا وأَجْنَاسِهَا - ومُتَبَلِّدَةِ أُمَمِهَا وأَكْيَاسِهَا - عَلَى إِحْدَاثِ بَعُوضَةٍ مَا قَدَرَتْ عَلَى إِحْدَاثِهَا - ولَا عَرَفَتْ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَى إِيجَادِهَا - ولَتَحَيَّرَتْ عُقُولُهَا فِي عِلْمِ ذَلِكَ وتَاهَتْ - وعَجَزَتْ قُوَاهَا وتَنَاهَتْ - ورَجَعَتْ خَاسِئَةً حَسِيرَةً - عَارِفَةً بِأَنَّهَا مَقْهُورَةٌ مُقِرَّةً بِالْعَجْزِ عَنْ إِنْشَائِهَا - مُذْعِنَةً بِالضَّعْفِ عَنْ إِفْنَائِهَا!

وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَعُودُ بَعْدَ فَنَاءِ الدُّنْيَا وَحْدَه لَا شَيْءَ مَعَه -

تیزی دکھلانے والے اس سے بچ کر آگے نہیں جا سکتے ہیں اوروہ کسی صاحب ثروت کی روزی کا محتاج نہیں ہے۔تمام اشیاء اس کی بارگاہ میں خضوع کرنے والی اور اس کی عظمت کے سامنے ذلیل ہیں۔کوئی چیز اس کی سلطنت سے فرار کرکے دوسرے کی طرف ہیں جا سکتی ہے کہ اس کے نفع و نقصان سے محفوظ ہو جائے نہ اس کا کوئی کفو ہے کہ ہمسری کرے اور نہ کوئی مثل ہے کہ برابر ہوجائے۔وہ ہر شے کو وجود کے بعد فناکرنے والا ہے کہ ایک دن پھرمفقود ہو جائے اور اس کے لئے دنیا کا فنا کردینا اس سے زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ جب اس نے اس کی اختراع و ایجادکی تھی اور بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ اگر تم حیوانات پرندہ اورچرندہ۔رات کو منزل پر واپس آنے والے اور چراگاہوں میں رہ جانے والے۔طرح طرح کے انواع و اقسام والے اور تمام انسان غبی اورہوشمند سب ملکرایک مچھر کو ایجاد کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے ہیں اور نہ انہیں یہ اندازہ ہو گا کہ اس کی ایجاد کا طریقہ اور راستہ کیا ہے بلکہ ان کی عقلیں اسی راہ میں گم ہو جائیں گی اور ان کی طاقتیں جواب دے جائیں گی اور عاجز و درماندہ ہو کر میدان عمل سے واپس آجائیں گی اور انہیں محسوس ہو جائے گا کہ ان پر کسی غلبہ ہے اور انہیں اپنی عاجزی کا قرار بھی ہوگا اور انہیں فنا کردینے کے بارے میں بھی کمزوری کا اعتراف ہوگا۔

وہ خدائے پاک و پاکیزہ ہی ہے جو دنیا کے فنا ہو جانے کے بعد بھی رہنے والا ہے اور اس کے ساتھ رہنے والا کوئی

۳۵۵

كَمَا كَانَ قَبْلَ ابْتِدَائِهَا كَذَلِكَ يَكُونُ بَعْدَ فَنَائِهَا - بِلَا وَقْتٍ ولَا مَكَانٍ ولَا حِينٍ ولَا زَمَانٍ - عُدِمَتْ عِنْدَ ذَلِكَ الآجَالُ والأَوْقَاتُ - وزَالَتِ السِّنُونَ والسَّاعَاتُ - فَلَا شَيْءَ( إِلَّا الله الْواحِدُ الْقَهَّارُ ) - الَّذِي إِلَيْه مَصِيرُ جَمِيعِ الأُمُورِ - بِلَا قُدْرَةٍ مِنْهَا كَانَ ابْتِدَاءُ خَلْقِهَا - وبِغَيْرِ امْتِنَاعٍ مِنْهَا كَانَ فَنَاؤُهَا - ولَوْ قَدَرَتْ عَلَى الِامْتِنَاعِ لَدَامَ بَقَاؤُهَا - لَمْ يَتَكَاءَدْه صُنْعُ شَيْءٍ مِنْهَا إِذْ صَنَعَه - ولَمْ يَؤُدْه مِنْهَا خَلْقُ مَا خَلَقَه وبَرَأَه - ولَمْ يُكَوِّنْهَا لِتَشْدِيدِ سُلْطَانٍ - ولَا لِخَوْفٍ مِنْ زَوَالٍ ونُقْصَانٍ - ولَا لِلِاسْتِعَانَةِ بِهَا عَلَى نِدٍّ مُكَاثِرٍ - ولَا لِلِاحْتِرَازِ بِهَا مِنْ ضِدٍّ مُثَاوِرٍ - ولَا لِلِازْدِيَادِ بِهَا فِي مُلْكِه - ولَا لِمُكَاثَرَةِ شَرِيكٍ فِي شِرْكِه - ولَا لِوَحْشَةٍ كَانَتْ مِنْه - فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَأْنِسَ إِلَيْهَا.

ثُمَّ هُوَ يُفْنِيهَا بَعْدَ تَكْوِينِهَا - لَا لِسَأَمٍ دَخَلَ عَلَيْه فِي تَصْرِيفِهَا وتَدْبِيرِهَا - ولَا لِرَاحَةٍ وَاصِلَةٍ إِلَيْه - ولَا لِثِقَلِ شَيْءٍ مِنْهَا عَلَيْه

نہیں ہے جیسا کہ ابتدا میں بھی ایسا ہی تھا اور انتہاء میں بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔اس کے لئے نہ وقت ہے نہ مکان۔نہ ساعت ہے نہ زمان، اس وقت مدت اور وقت سب فناہو جائیں گے اور ساعت و سال سب کاخاتمہ ہو جائے گا۔اس خداء واحد و قہار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔اسی کی طرف تمام امور کی باز گشت ہے اور کسی شے کو بھی اپنی ایجاد سے پہلے اپنی تخلیق کا یارانہ تھا اور نہفنا ہوتے وقت انکار کرنے کا دم ہوگا۔اگراتنی ہی طاقت ہوتی تو ہمیشہ نہ رہ جاتے۔اس مالک کو کسی شے کے بنانے میں کسی زحمتکا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اسے کسی شے کی تخلیق و ایجاد تھکا بھی نہیں سکی۔اس نے اس کائات کو نہاپنی حکومت کے استحکام(۱) کے لئے بنایا ہے اور نہ کسی زوال اور نقصان کے خوف سے بچنے کے لئے۔نہ اسے کسی مد مقابل کے مقابلہ میں مدد کی ضرورت تھی اور نہ وہ کسی حملہ آور دشمن سے بچنا چاہتا تھا۔اس کا مقصد اپنے ملک میں کوئی اضافہ تھا اور نہ کسی شریک کے سامنے اپنی کثرت کا اظہارتھا اور نہ تنہائی کی وحشت سے انس حاصل کرنا تھا۔

اس کے بعد وہ اس کائنات کو فنا کردے گا۔نہ اس لئے کہ اس کی تدبیر اور اس کے تصرفات سے عاجز آگیا ہے اور نہ اس لئے کہ اب آرام کرناچاہتا ہے یا اس پر کسی خاص چیز کا بوجھ پڑ رہا ہے۔

(۱)چونکہ دنیا میں ایجادات اورحکومات کا فلسفہ یہی ہوتا ہے کہ کوئی ایجادات کے ذریعہ حکومت کا استحکام چاہتا ہے اور کوئی حکومت کے ریعہ خطرات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔اس لئے بہت ممکن تھاکہ بعض جاہل افراد مالک کائنات کی تخلیق اور اس کی حکومت کے بارے میں بھی اسی طرح کا خیال قائم کر لیتے ۔

حضرت نے یہ چاہا کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا جائے اور اس حقیقت کو بے نقاب کردیا جائے کہ خالق و مخلوق میں بے پناہ فرق ہے اور کسی بھی مخلوق کا قایس خالق پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔مخلوق کا مزاج احتیاج ہے اورخالق کا کمال بے نیازی ہے لہٰذا دنوں کے بارے میں ایک طرح کے تصورات نہیں قائم کئے جا سکتے ہیں۔

۳۵۶

لَا يُمِلُّه طُولُ بَقَائِهَا فَيَدْعُوَه إِلَى سُرْعَةِ إِفْنَائِهَا - ولَكِنَّه سُبْحَانَه دَبَّرَهَا بِلُطْفِه - وأَمْسَكَهَا بِأَمْرِه وأَتْقَنَهَا بِقُدْرَتِه - ثُمَّ يُعِيدُهَا بَعْدَ الْفَنَاءِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنْه إِلَيْهَا - ولَا اسْتِعَانَةٍ بِشَيْءٍ مِنْهَا عَلَيْهَا - ولَا لِانْصِرَافٍ مِنْ حَالِ وَحْشَةٍ إِلَى حَالِ اسْتِئْنَاسٍ - ولَا مِنْ حَالِ جَهْلٍ وعَمًى إِلَى حَالِ عِلْمٍ والْتِمَاسٍ - ولَا مِنْ فَقْرٍ وحَاجَةٍ إِلَى غِنًى وكَثْرَةٍ - ولَا مِنْ ذُلٍّ وضَعَةٍ إِلَى عِزٍّ وقُدْرَةٍ.

(۱۸۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي في ذكر الملاحم

أَلَا بِأَبِي وأُمِّي هُمْ مِنْ عِدَّةٍ - أَسْمَاؤُهُمْ فِي السَّمَاءِ مَعْرُوفَةٌ وفِي الأَرْضِ مَجْهُولَةٌ - أَلَا فَتَوَقَّعُوا مَا يَكُونُ مِنْ إِدْبَارِ أُمُورِكُمْ - وانْقِطَاعِ وُصَلِكُمْ واسْتِعْمَالِ صِغَارِكُمْ - ذَاكَ حَيْثُ تَكُونُ ضَرْبَةُ السَّيْفِ عَلَى الْمُؤْمِنِ - أَهْوَنَ مِنَ الدِّرْهَمِ مِنْ حِلِّه - ذَاكَ حَيْثُ يَكُونُ الْمُعْطَى أَعْظَمَ أَجْراً مِنَ الْمُعْطِي - ذَاكَ حَيْثُ تَسْكَرُونَ مِنْ غَيْرِ شَرَابٍ - بَلْ مِنَ النِّعْمَةِ والنَّعِيمِ - وتَحْلِفُونَ مِنْ غَيْرِ اضْطِرَارٍ - وتَكْذِبُونَ مِنْ غَيْرِ إِحْرَاجٍ - ذَاكَ إِذَا عَضَّكُمُ الْبَلَاءُ كَمَا يَعَضُّ الْقَتَبُ غَارِبَ الْبَعِيرِ

یا طول بقائے کائنات نے اسے تھکا دیا ہے تو اب اسے مٹا دینا چاہتا ہے۔ایسا کچھ نہیں ہے۔اس نے اپنے لطف سے اس کی تدبیر کی ہے اور اپنے امر سے اسے روک رکھا ہے۔اپنی قدرت سے اسے مستحکم بنایا ہے اور پھر فنا کرنے کے بعد دوبارہ ایجاد کردے گا حالانکہ اس وقت بھی نہ اسے کسی شے کی ضرورت ہے اور نہ کسی سے مدد لینا ہوگی۔نہ وحشت سے انس کی طرف منتقل ہونا ہوگا اور نہ جہالت اورتاریکی سے علم اورتجریہ کی طرف آنا ہوگا نہ فقرو احتیاج سے مالداری اور کثرت کی تلاش ہوگی اور نہ ذلت و کمزوری سے عزت اور قدرت کی جستجو ہوگی۔

(۱۸۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حوادث روز گار کا ذکر کیا گیا ہے )

میرے ماں باپ ان چند افراد پر قربان ہو جائیں جن کے نام آسمان میں معروف ہیں اور زمین میں مجہول ۔آگاہ ہو جائو اور اس وقت کا انتظار کرو جب تمہارے امور الٹ جائیں گے اور تعلقات ٹوٹ جائیں گے اوربچوں کے ہاتھ میں اقتدار آجائے گا یہ وہ وقت ہوگا جب ایک درہم کے حلالا کے ذریعہ حاصل کرنے سے آسان تر تلوار کا زخم ہوگا اور لینے والے فقیر کا اجر دینے والے مالدار سے زیادہ ہوگا۔

تم بغیر کسی شراب کے نعمتوں کے نشہ میں سر مست ہو گے اور بغیر کسی مجبوری کے قسم کھائو گے اور بغیر کسی ضرورت کے جھوٹ بولو گے اوریہی وہ وقت ہوگا جب بلائیں تمہیں اس طرح کاٹ کھائیں گی جس طرح اونٹ کی

۳۵۷

مَا أَطْوَلَ هَذَا الْعَنَاءَ وأَبْعَدَ هَذَا الرَّجَاءَ.

أَيُّهَا النَّاسُ أَلْقُوا هَذِه الأَزِمَّةَ - الَّتِي تَحْمِلُ ظُهُورُهَا الأَثْقَالَ مِنْ أَيْدِيكُمْ - ولَا تَصَدَّعُوا عَلَى سُلْطَانِكُمْ فَتَذُمُّوا غِبَّ فِعَالِكُمْ - ولَا تَقْتَحِمُوا مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ فَوْرِ نَارِ الْفِتْنَةِ - وأَمِيطُوا عَنْ سَنَنِهَا وخَلُّوا قَصْدَ السَّبِيلِ لَهَا - فَقَدْ لَعَمْرِي يَهْلِكُ فِي لَهَبِهَا الْمُؤْمِنُ - ويَسْلَمُ فِيهَا غَيْرُ الْمُسْلِمِ.إِنَّمَا مَثَلِي بَيْنَكُمْ كَمَثَلِ السِّرَاجِ فِي الظُّلْمَةِ - يَسْتَضِيءُ بِه مَنْ وَلَجَهَا - فَاسْمَعُوا أَيُّهَا النَّاسُ - وعُوا وأَحْضِرُوا آذَانَ قُلُوبِكُمْ تَفْهَمُوا.

(۱۸۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الوصية بأمور

التقوى

أُوصِيكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ بِتَقْوَى اللَّه - وكَثْرَةِ حَمْدِه عَلَى آلَائِه إِلَيْكُمْ - ونَعْمَائِه عَلَيْكُمْ وبَلَائِه لَدَيْكُمْ - فَكَمْ خَصَّكُمْ بِنِعْمَةٍ وتَدَارَكَكُمْ بِرَحْمَةٍ

پیٹھ کو پالان۔ہائے یہ رنج والم کس قدر طویل ہوگا اور اس سے نجات کی امید کس قدردور تر ہوگی۔ لوگو! ان سواریوں کی باگ ڈور اتار کر پھینک دو جن کی پشت پر تمہارے ہی ہاتھوں گناہوں کا بوجھ ہے اور اپنے حاکم سے اختلاف نہ کرو کہ بعد میں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔وہ آگ کے شعلے جو تمہارے سامنے ہیں ان میں کود نہ پڑو۔انکی راہسے الگ ہو کرچلو اور راستہ کو ان کے لئے خالی کردو کہ میری جان کی قسم اس فتنہ کی آگ میں مومن ہلاک ہو جائے گا اورغیر مسلم محفوظ رہے گا۔

میری مثال تمہارے درمیان اندھیرے میں چراغ(۱) جیسی ہے کہ جواس میں داخل ہو جائے گا وہ روشنی حاصل کرلے گا۔لہٰذا خدارا میری بات سنو اور سمجھو۔اپنے دلوں کے کانوں کو میری طرف مصروف کرو تاکہ بات سمجھ سکو۔

(۱۸۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(مختلف امور کی وصیت کرتے ہوئے )

ایہا الناس ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں تقویٰ الٰہی اورنعمتوں ' احسانات اور فضل و کرم پر شکر خدا ادا کرنے کی دیکھو کتنی نعمتیں ہیں جو اس نے تمہیں عنایت کی ہیں اور کتنی برائیوں کی مکافات سے اپنی رحمت کے

(۱) جس طرح مالک نے رسول اکرم (ص) کو جاہلیت کے اندھیرے میں سراج منیر بناکربھیجا تھا اسی طرح فتنوں کے اندھیروں میں مولائے کائنات کی ذات ایکروشن چراغ کی ہے کہ اگر انسان اس چراغ کی روشنی میں زندگی گزارے تو کوئی فتنہ اس پر اثر اناز نہیں ہوسکتا ہے اور کسی اندھیر ے میں اس کے بھٹکنے کا امکان نہیں ہے۔لیکن شرط یہی ہے کہ اس چراغ کی روشنی میں قدم آگے بڑھائے ورنہ اگر اس نے آنکھیں بند کرلیں اوراندھے پن کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا رہا تو چراغ روشن رہے گا اور انسان گمراہ ہو جائے گا جس کی طرف ان کلمات کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے کہ خدارا میری بات سنو اور سمجھو کہ اس کے بغیر ہدایت کا کوئی امکان نہیں ہے اور گمراہی کا خطرہ ہرگز نہیں ٹل سکتا ہے۔

۳۵۸

أَعْوَرْتُمْ لَه فَسَتَرَكُمْ وتَعَرَّضْتُمْ لأَخْذِه فَأَمْهَلَكُمْ!

الموت

وأُوصِيكُمْ بِذِكْرِ الْمَوْتِ وإِقْلَالِ الْغَفْلَةِ عَنْه - وكَيْفَ غَفْلَتُكُمْ عَمَّا لَيْسَ يُغْفِلُكُمْ - وطَمَعُكُمْ فِيمَنْ لَيْسَ يُمْهِلُكُمْ - فَكَفَى وَاعِظاً بِمَوْتَى عَايَنْتُمُوهُمْ - حُمِلُوا إِلَى قُبُورِهِمْ غَيْرَ رَاكِبينَ - وأُنْزِلُوا فِيهَا غَيْرَ نَازِلِينَ - فَكَأَنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا لِلدُّنْيَا عُمَّاراً - وكَأَنَّ الآخِرَةَ لَمْ تَزَلْ لَهُمْ دَاراً - أَوْحَشُوا مَا كَانُوا يُوطِنُونَ - وأَوْطَنُوا مَا كَانُوا يُوحِشُونَ - واشْتَغَلُوا بِمَا فَارَقُوا - وأَضَاعُوا مَا إِلَيْه انْتَقَلُوا – لَا عَنْ قَبِيحٍ يَسْتَطِيعُونَ انْتِقَالًا - ولَا فِي حَسَنٍ يَسْتَطِيعُونَ ازْدِيَاداً - أَنِسُوا بِالدُّنْيَا فَغَرَّتْهُمْ - ووَثِقُوا بِهَا فَصَرَعَتْهُمْ.

سرعة النفاد

فَسَابِقُوا رَحِمَكُمُ اللَّه إِلَى مَنَازِلِكُمُ - الَّتِي أُمِرْتُمْ أَنْ تَعْمُرُوهَا - والَّتِي رَغِبْتُمْ فِيهَا ودُعِيتُمْ إِلَيْهَا - واسْتَتِمُّوا نِعَمَ اللَّه عَلَيْكُمْ

ذریعہ بچالیا ہے۔تم نے کھل کر گناہ کے اور اس نے پردہ پوشی کی تم نے قابل مواخذہ اعمال انجام دئیے اور اس نے تمہیں مہلت دے دی۔

میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ موت کو یاد رکھو اور اس سے غفلت نہ برتو۔آخر اس سے کیسے غفلت کر رہے ہو جو تم سے غفلت کرنے والی نہیں ہے اور اس فرشتہ موت سے کیسے امید لگائے ہو جو ہرگز مہلت دینے والا نہیں ہے۔تمہاری نصیحت کے لئے وہمردے ہی کافی ہیں جنہیں تم دیکھ چکے ہو کہ کس طرح اپنی قبروں کی طرف بغیر سواری کے لے جائے گئے اور کس طرح قبر میں اتار دئیے گئے کہ خود سے اترنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی اس دنیا کو بسایا ہی نہیں تھا اورگویا کہ آخرت ہی ان کا ہمیشگی کا مکان ہے۔وہ جہاں آباد تھے اسے وحشت کدہ بنا گئے اور جس سے وحشت کھاتے تھے وہاں جا کر آباد ہوگئے۔یہ اس میں مشغول رہے تھے کو چھوڑنا پڑا اور اسے برباد کرتے رہے تھے جدھر جانا پڑ۔اب نہ کسی برائی سے بچ کر کہیں جا سکتے ہیں اورنہ کسی نیکی میں کوئی اضافہ کرسکتے ہیں۔دنیا سے انس پیدا کیا تو اس نے دھوکہ دے دیا اور اس پر اعتبارکرلیا تو اس نے تباہ و برباد کردیا۔

خداتم پر رحمت نازل کرے۔اب سے سبقت کرو ان منازل کی طرف جن کو آباد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن کی طرف سفرکرنے کی رغبت دلائی گئی ہے اور دعوت دی گئی ہے۔اللہ کی نعمتوں کی تکمیل کا انتظام کرو

۳۵۹

بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَتِه - والْمُجَانَبَةِ لِمَعْصِيَتِه - فَإِنَّ غَداً مِنَ الْيَوْمِ قَرِيبٌ - مَا أَسْرَعَ السَّاعَاتِ فِي الْيَوْمِ - وأَسْرَعَ الأَيَّامَ فِي الشَّهْرِ - وأَسْرَعَ الشُّهُورَ فِي السَّنَةِ - وأَسْرَعَ السِّنِينَ فِي الْعُمُرِ!

(۱۸۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الإيمان ووجوب الهجرة

أقسام الإيمان

فَمِنَ الإِيمَانِ مَا يَكُونُ ثَابِتاً مُسْتَقِرّاً فِي الْقُلُوبِ - ومِنْه مَا يَكُونُ عَوَارِيَّ بَيْنَ الْقُلُوبِ والصُّدُورِ - إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ - فَإِذَا كَانَتْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ مِنْ أَحَدٍ فَقِفُوه - حَتَّى يَحْضُرَه الْمَوْتُ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ حَدُّ الْبَرَاءَةِ.

وجوب الهجرة

والْهِجْرَةُ قَائِمَةٌ عَلَى حَدِّهَا الأَوَّلِ - مَا كَانَ لِلَّه فِي أَهْلِ الأَرْضِ حَاجَةٌ مِنْ مُسْتَسِرِّ

اس کی اطاعت کے انجام دینے اور معصیتوں سے پرہیز کرنے پر صبر کے ذریعہ۔اس لئے کہ کل کا دن آج کے دن سے دور نہیں ہے۔دیکھو دن کی ساعتیں 'مہینہ کے دن ' سال کے مہینے اور زندگی کے سال کس تیزی سے گزر جاتے ہیں۔

(۱۸۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(ایمان اور وجوب ہجرت کے بارے میں )

ایمان(۱) کا ایک وہ حصہ ہے جودلوں میں ثابت اورمستحکم ہوتا ہے اور ایک وہ حصہ ہے جو دل اور سینے کے درمیان عارضی طور پر رہتا ہے لہٰذا اگر کسی سے برائت اور بیزاری بھی کرنا ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اسے موت آجائے کہ اس وقت بیزاری برمحل ہوگی۔

ہجرت(۲) کا قانون آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔اللہ کسی قوم کی متحاج نہیں ہے چاہے جو خفیہ طور پر

(۱)ایمان وہ عقیدہ ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں پایا جاتا ہے اورجس کا واقعی اظہار انسان کے عملاور کردار سے ہوتا ہے کہ عمل اور کردارکے بغیر ایمان صرف ایک دعویٰ رہتا ہے جسکی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔

لیکن یہ ایمان بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔کبھی انسانکے دل کی گہرائیوں میں یوں پیوست ہو جاتا ہے کہ زمانہ کے جھکڑ بھی اسے ہلاک نہیں سکتے ہیں اور کبھی حالات کی بنا پر تزتزل کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔حضرت نے اس دوسری قسم کے پیش نظر ارشاد فرمایا ہے کہ کسی انسان کی بد کرداری کی بنا پر برائت کرنا ہے تو اتنا انتظر کرلو کہ اسے موت آجائے تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ ایمان اس کے دل کی گہرائیوں میں ثابت نہیں تھا ورنہ تو بہ و استغفار کرکے راہ راست پرآجاتا ۔

(۲)ہجرت کا واقعی مقصد جان کا بچانا نہیں بلکہ ایمان کا بچانا ہوتا ہے لہٰذا جب تک ایمان کے تحفظ کا انتظام نہ ہو جائے اس وقت تک ہجرت کاکوئی مفہوم نہیں ہے اور جب معرفت حجت کے ذریعہ ایمان کے تحفظ کا انتظام ہو جائے تو سمجھو کہ انسان مہاجر ہوگیا ' چاہے اس کا قیام کسی منزل پر کیوں نہ رہے۔

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863