نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657126 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

الإِمَّةِ ومُعْلِنِهَا - لَا يَقَعُ اسْمُ الْهِجْرَةِ عَلَى أَحَدٍ - إِلَّا بِمَعْرِفَةِ الْحُجَّةِ فِي الأَرْضِ - فَمَنْ عَرَفَهَا وأَقَرَّ بِهَا فَهُوَ مُهَاجِرٌ - ولَا يَقَعُ اسْمُ الِاسْتِضْعَافِ عَلَى مَنْ بَلَغَتْه الْحُجَّةُ - فَسَمِعَتْهَا أُذُنُه ووَعَاهَا قَلْبُه.

صوبة الإيمان

إِنَّ أَمْرَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لَا يَحْمِلُه إِلَّا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ - امْتَحَنَ اللَّه قَلْبَه لِلإِيمَانِ - ولَا يَعِي حَدِيثَنَا إِلَّا صُدُورٌ أَمِينَةٌ وأَحْلَامٌ رَزِينَةٌ.

علم الوصي

أَيُّهَا النَّاسُ سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي - فَلأَنَا بِطُرُقِ السَّمَاءِ أَعْلَمُ مِنِّي بِطُرُقِ الأَرْضِ - قَبْلَ أَنْ تَشْغَرَ بِرِجْلِهَا فِتْنَةٌ تَطَأُ فِي خِطَامِهَا - وتَذْهَبُ بِأَحْلَامِ قَوْمِهَا.

(۱۹۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه ويثني على نبيه ويعظ بالتقوى

حمد اللَّه

پر مومن رہے یا علی اعلان ایمان کا اظہار کرے ہجرت کا اطلاق ہجرت خدا کی معرفت کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے لہٰذا جو شخص اس کی معرفت حاصل کرکے اس کا اقرار کرلے وہی مہاجرہے۔اسی طرح متضعف اسے نہیں کہا جاتا ہے جس تک خدائی دلیل پہنچ جائے اور وہ اسے سن بھی لے اور دل میں جگہ بھی دیدے۔

ہمارا معاملہ(۱) نہایت درجہ سخت اور دشوار گذار ہے۔اس کا تحمل صرف وہ بندہ ٔ مومن کر سکتا ہے جس کے دل کا امتحان ایمان کے لئے لیا جا چکا ہو۔ہماری باتیں صرف انہیں سینوں میں رہ سکتی ہیں جو امانت دار ہوں اور انہیں عقلوں میں سما سکتی ہیں جو ٹھوس اور مستحکم ہوں۔

لوگو!جوچاہو مجھ سے دریافت کرلو قبل اس کے کہ مجھے نہ پائو ۔میں آسمان کے راستوں کو زمین کی راہوں سے بہتر جانتا ہوں۔مجھ سے دریافت کرلو قبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیر اٹھالے جو اپنی مہار کو بھی پیروں تلے روند نے والا ہے اورجس سے قوم کی عقلوں کے زوال کا اندیشہ ہے ۔

(۱۹۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حمد خدا ۔ثنائے رسول (ص) اورنصیحت تقویٰ کا ذکر کیا گیا ہے )

(۱)بعض حضرا ت کا خیال ہے کہ اہل بیت کے معاملہ سے مراد دین و ایمان اور عقیدہ و کردار ہے کہ اس کا ہر حال میں برقرار رکھنا اور اس سے کسی بھی حال میں دست بردار نہ ہونا ہرش خص کے بس کی بات نہیں ہے ورنہ لوگ ادنیٰ مصیبت میں بھی دین سے دست بردار ہو جاتے ہیں اور جان بچانے کی پناہ گا ہیں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔اور بعض حضرات کاخیال ہے کہاس سے مراد اہل بیت کی روحانی عظمت اور ان کی نورانی منزل ہے جس کا ادراک ہر انسان کے بس کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عظیم ظرف درکار ہے لیکن بہر حال اس تصور میں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کو بھی شامل کرنا پڑھے گا۔ورنہ صرف عقیدہ قائم کرنے کے لئے امتحان شدہ اور آزمائے ہوئے دل کی ضرورت نہیں ہے۔

۳۶۱

أَحْمَدُه شُكْراً لإِنْعَامِه - وأَسْتَعِينُه عَلَى وَظَائِفِ حُقُوقِه - عَزِيزَ الْجُنْدِ عَظِيمَ الْمَجْدِ.

الثناء على النبي

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - دَعَا إِلَى طَاعَتِه وقَاهَرَ أَعْدَاءَه جِهَاداً عَنْ دِينِه - لَا يَثْنِيه عَنْ ذَلِكَ اجْتِمَاعٌ عَلَى تَكْذِيبِه - والْتِمَاسٌ لإِطْفَاءِ نُورِه.

العظة بالتقوى

فَاعْتَصِمُوا بِتَقْوَى اللَّه فَإِنَّ لَهَا حَبْلًا وَثِيقاً عُرْوَتُه - ومَعْقِلًا مَنِيعاً ذِرْوَتُه - وبَادِرُوا الْمَوْتَ وغَمَرَاتِه وامْهَدُوا لَه قَبْلَ حُلُولِه - وأَعِدُّوا لَه قَبْلَ نُزُولِه فَإِنَّ الْغَايَةَ الْقِيَامَةُ - وكَفَى بِذَلِكَ وَاعِظاً لِمَنْ عَقَلَ ومُعْتَبَراً لِمَنْ جَهِلَ - وقَبْلَ بُلُوغِ الْغَايَةِ مَا تَعْلَمُونَ مِنْ ضِيقِ الأَرْمَاسِ - وشِدَّةِ الإِبْلَاسِ وهَوْلِ الْمُطَّلَعِ - ورَوْعَاتِ الْفَزَعِ واخْتِلَافِ الأَضْلَاعِ - واسْتِكَاكِ الأَسْمَاعِ وظُلْمَةِ اللَّحْدِ - وخِيفَةِ الْوَعْدِ وغَمِّ الضَّرِيحِ ورَدْمِ الصَّفِيحِ

میں اس کی حمد کرتا ہوں اس کے انعام کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اور اس سے مدد چاہتا ہوں اس کے حقوق سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ۔اس کا لشکر غالب ے اور بزرگی عظیم ہے۔

میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ محمد (ص) اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔انہوں نے اس کی اطاعت کیدعوتدی ہے اور اس کے دشمنوں پرغلبہ حاصل کیا ہے اس کے دین میں جہاد کے ذریعہ۔انہیں اس بات سے نہ ظالموں کا ان کے جھٹلانے پراجتماع روک سکا ہے اور نہ ان کی نور ہدایت کو خاموش کرنے کی خواہش منع کرسکی ہے۔

تم لوگ تقویٰ الٰہی سے وابستہ ہو جائو کہ اس کی ریسمان کے بندھن مضبوط اور اس کی پناہ کی چوٹی ہرجہت سے محفوظ ہے۔موت اور اس کی سختیوں کے سامنے آنے سے پہلے اس کی طرف سبقت کرو اور اس کے آنے سے پہلے زمین کو ہموار کرلو۔اس کے نزول سے پہلے تیاری مکمل کرلو کہ انجام کار بہر حال قیامت ہے۔اور یہ بات ہر اس شخص کی نصیحت کے لئے کافی ہے جو صاحب عقل ہو اور اس میں جاہل کے لئے بھی عبرت کا سامان ہے اورتمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس انجام تک پہنچنے سے پہلے تنگی لحد اور شدت برزخ کا بھی سامنا ہے جہاں برزخ کی ہولناکی۔خوف کی دہشت ۔پسلیوں کا ادھر سے ادھر ہو جانا۔کانوں کا بہر ہو جانا۔قبر کی تاریکیاں ۔عذاب کی دھمکیاں۔قبر کے شگاف کا بند کیا جانا اور پتھر کی سلوں سے پاٹ دیا جانابھی ہے۔

۳۶۲

فَاللَّه اللَّه عِبَادَ اللَّه - فَإِنَّ الدُّنْيَا مَاضِيَةٌ بِكُمْ عَلَى سَنَنٍ - وأَنْتُمْ والسَّاعَةُ فِي قَرَنٍ - وكَأَنَّهَا قَدْ جَاءَتْ بِأَشْرَاطِهَا وأَزِفَتْ بِأَفْرَاطِهَا - ووَقَفَتْ بِكُمْ عَلَى صِرَاطِهَا وكَأَنَّهَا قَدْ أَشْرَفَتْ بِزَلَازِلِهَا - وأَنَاخَتْ بِكَلَاكِلِهَا وانْصَرَمَتِ الدُّنْيَا بِأَهْلِهَا - وأَخْرَجَتْهُمْ مِنْ حِضْنِهَا - فَكَانَتْ كَيَوْمٍ مَضَى أَوْ شَهْرٍ انْقَضَى – وصَارَ جَدِيدُهَا رَثّاً وسَمِينُهَا غَثّاً - فِي مَوْقِفٍ ضَنْكِ الْمَقَامِ وأُمُورٍ مُشْتَبِهَةٍ عِظَامٍ - ونَارٍ شَدِيدٍ كَلَبُهَا عَالٍ لَجَبُهَا - سَاطِعٍ لَهَبُهَا مُتَغَيِّظٍ زَفِيرُهَا - مُتَأَجِّجٍ سَعِيرُهَا بَعِيدٍ خُمُودُهَا - ذَاكٍ وُقُودُهَا مَخُوفٍ وَعِيدُهَا - عَمٍ قَرَارُهَا مُظْلِمَةٍ أَقْطَارُهَا - حَامِيَةٍ قُدُورُهَا فَظِيعَةٍ أُمُورُهَا -( وسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً ) - قَدْ أُمِنَ الْعَذَابُ وانْقَطَعَ الْعِتَابُ - وزُحْزِحُوا عَنِ النَّارِ واطْمَأَنَّتْ بِهِمُ الدَّارُ - ورَضُوا الْمَثْوَى والْقَرَارَ

بندگان خدا! اللہ کو یادرکھو کہ دنیا تمہارے لئے ایک ہی راستہ پر چل رہی ہے اور تم قیامت کے ساتھ ایک ہی رسی میں بندھے ہوئے ہو اورگویا کہ اس نے اپنے علامات کو نمایاں کردیا ہے اور اس کے جھنڈے قریب آچکے ہیں۔اورتمہیں اپنے راستہ پرکھڑا کردیا ہے اورگویا کہ وہ اپنے زلزلوں سمیت نمودار ہوگئی ہے اور اپنے سینے ٹیک دئیے ہیں اور دنیا نے اپنے اہل سے منہ موڑ لیا ہے ۔اور انہیں اپنی گود سے الگ کردیا ہے۔گویا کہ یہ ایک دن تھا جو گزر گیا یا ایک مہینہ تھاجو بیت گیا۔اور اس کا جدید کہنہ ہوگیا اور اس کا تندرست لاغر ہوگیا۔اس موقف میں جس کی جگہ تنگ ہے اور جس کے امور مشتبہ اور عظیم ہیں۔وہ آگ ہے جس کا زخم کاری ہے اور جس کے شعلے بلند ہیں۔اس کی بھڑک نمایاں ہے اور بھڑکنے کی آوازیں غضب ناک ہیں۔اس کی لپیٹیں تیز ہیں اور بجھنے کے امکانات بعید ہیں۔اس کا بھڑکنا تیز ہے اور اس کے خطرات دہشت ناک ہیں۔اس کا گڑھا تاریک ہے اور اس کے اطراف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔اس کی دیگیں کھولتی ہوئی ہیں اور اس کی امور دہشت ناک ہیں۔اس وقت صرف خدا رکھنے والوں کو گروہ گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا جہاں عذاب سے محفوظ ہوں گے اور عتاب کا سلسلہ ختم ہو چکا ہوگا جہنم سے الگ کر دئیے جائیں گے اور اپنے گھرمیں اطمینان سے رہیں گے۔جہاں اپنی منزل اور اپنے مستقر سے خوش ہوں گے

۳۶۳

الَّذِينَ كَانَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا زَاكِيَةً - وأَعْيُنُهُمْ بَاكِيَةً - وكَانَ لَيْلُهُمْ فِي دُنْيَاهُمْ نَهَاراً تَخَشُّعاً واسْتِغْفَارًا - وكَانَ نَهَارُهُمْ لَيْلًا تَوَحُّشاً وانْقِطَاعاً - فَجَعَلَ اللَّه لَهُمُ الْجَنَّةَ مَآباً والْجَزَاءَ ثَوَاباً -( وكانُوا أَحَقَّ بِها وأَهْلَها ) - فِي مُلْكٍ دَائِمٍ ونَعِيمٍ قَائِمٍ.

فَارْعَوْا عِبَادَ اللَّه مَا بِرِعَايَتِه يَفُوزُ فَائِزُكُمْ - وبِإِضَاعَتِه يَخْسَرُ مُبْطِلُكُمْ - وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ - فَإِنَّكُمْ مُرْتَهَنُونَ بِمَا أَسْلَفْتُمْ - ومَدِينُونَ بِمَا قَدَّمْتُمْ - وكَأَنْ قَدْ نَزَلَ بِكُمُ الْمَخُوفُ - فَلَا رَجْعَةً تَنَالُونَ ولَا عَثْرَةً تُقَالُونَ - اسْتَعْمَلَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ بِطَاعَتِه وطَاعَةِ رَسُولِه - وعَفَا عَنَّا وعَنْكُمْ بِفَضْلِ رَحْمَتِه.

الْزَمُوا الأَرْضَ واصْبِرُوا عَلَى الْبَلَاءِ - ولَا تُحَرِّكُوا بِأَيْدِيكُمْ وسُيُوفِكُمْ فِي هَوَى أَلْسِنَتِكُمْ

۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں پاکیزہ تھے اور جن کی آنکھیں خوف خدا سے گریاں تھیں ۔ان کی راتیں خشوع اور استغفار کی بناپ ردن جیسی تھیں اور ان کے دن وحشت اورگوشہ نشینی کی بنا پر رات جیسے تھے۔اللہ نے جنت کو ان کی بازگشت کی منزل بنا دیا ہے اور جزاء آخرت کو ان کا ثواب ''یہ حقیقتاً اسی انعام کے حقدار اور اہل تھے '' جو ملک دائم اور نعیم ابدی میں رہنے والے ہیں۔ بندگان خدا! ان باتوں کا خیال رکھو جن کے ذریعہ سے کامیابی حاصل کرنے والا کامیاب ہوتا ہے اور جن کو ضائع کردینے سے باطل والوں کا گھاٹا ہوتا ہے ۔ اپنی موت کی طرف اعمال کے ساتھ سبقت کرو کہ تم گذشتہ اعمال کے گروی ہو اور پہلے والے اعمال کے مقروض ہو اور اب گویا کہ خوفناک امر نازل ہو چکا ہے جس سے نہ واپسی کا امکان ہے اور نہ گناہوں کی معافی مانگنے کی گنجائش ہے۔اللہ ہمیں اور تمہیں اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کی توفیق دے اوراپنے فضل و رحمت سے ہم دونوں سے در گزر فرمائے ۔ زمین سے چمٹے رہو اور بلائوں(۱) پر صبر کرتے رہو۔اپنے ہاتھ اور اپنی تلواروں کو زبان کی خواہشات کا تابع نہ بنانا

(۱)حالات اس قدر سنگین تھے کہ امام کے مخلص اصحاب منافقین اورمعاندین کی روشن کو برداشت نہ کرسکتے تھے اور ہر ایک کی فطری خواہش تھی کہ تلوار اٹھانے کی اجازت مل جائے اور دشمن کا خاتمہ کردیا جائے جو ہر دور کے جذباتی انسان کی تمنا اورآرزو ہوتی ہے۔لیکن حضرت یہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی کام مرضی الٰہی اور مصلحت اسلام کے خلاف ہو اورمیرے مخلصین بھی جذبات و خواہشات کے تابع ہو جائیں لہٰذا پہلے آپ نے صبرو سکون کی تلقین کی اور اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ اسلام خواہشات کا تابع نہیں ہوتا ہے۔اسلام کی شان یہ ہے کہ خواہشات اس کا اتباع کریں اور اس کے شارہ پر چلیں ۔اس کے بعد مخلصین کے اس نیک جذبہ کی طرف توجہ فرمائی کہ یہ شوق شہادت و قربانی رکھتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے حوصلے پست ہو جائیں۔اور یہ مایوسی کا شکار ہو جائیں ۔لہٰذا اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ شہادت کا دارو مدار تلوارچلانے پر نہیں ہے۔شہادت کا دارو مدار اخلاص نیت کے ساتھ جذبہ قربانی پر ہے لہٰذا اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ شہادت کا دارو مدار تلوار چلانے پرنہیں ہے۔شہادت کا دارو مدار اخلاص نیت کے ساتھ جذبہ قربانی پر ہے لہٰذا تم اس جذبہ کے ساتھ بستر پر بھی مرگئے تو تمہارا شمار شہدا اورصالحین میں ہو جائے گا تمہیں اس سلسلہ میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

۳۶۴

ولَا تَسْتَعْجِلُوا بِمَا لَمْ يُعَجِّلْه اللَّه لَكُمْ. فَإِنَّه مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ عَلَى فِرَاشِه - وهُوَ عَلَى مَعْرِفَةِ حَقِّ رَبِّه - وحَقِّ رَسُولِه وأَهْلِ بَيْتِه مَاتَ شَهِيداً - و( وَقَعَ أَجْرُه عَلَى الله ) - واسْتَوْجَبَ ثَوَابَ مَا نَوَى مِنْ صَالِحِ عَمَلِه - وقَامَتِ النِّيَّةُ مَقَامَ إِصْلَاتِه لِسَيْفِه - فَإِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ مُدَّةً وأَجَلًا.

(۱۹۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه ويثني على نبيه ويوصي بالزهد والتقوى

الْحَمْدُ لِلَّه الْفَاشِي فِي الْخَلْقِ حَمْدُه - والْغَالِبِ جُنْدُه والْمُتَعَالِي جَدُّه - أَحْمَدُه عَلَى نِعَمِه التُّؤَامِ وآلَائِه الْعِظَامِ - الَّذِي عَظُمَ حِلْمُه فَعَفَا وعَدَلَ فِي كُلِّ مَا قَضَى - وعَلِمَ مَا يَمْضِي ومَا مَضَى - مُبْتَدِعِ الْخَلَائِقِ بِعِلْمِه ومُنْشِئِهِمْ بِحُكْمِه - بِلَا اقْتِدَاءٍ ولَا تَعْلِيمٍ - ولَا احْتِذَاءٍ لِمِثَالِ صَانِعٍ حَكِيمٍ - ولَا إِصَابَةِ خَطَإٍ ولَا حَضْرَةِ مَلإٍ.

اور جس چیز میں خدا نے عجلت نہیں رکھی اس کی جلدی نہ کرنا کہ اگر کوئی شخص خدا و رسول (ص) و اہل بیت کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے بستر پر مرجائے تو وہ بھی شہید ہی مرتا ہے اور اس کا اجر بھی خدا ہی کے ذمہ ہوتا ہے اور وہ اپنی نیت کے مطابق نیک اعمال کا ثواب بھی حاصل کر لیتا ہے کہ خود نیت بھی تلوار کھینچنے کے قائم مقام ہو جاتی ہے اور ہر شے کی ایک مدت ہوتی ہے اور اس کا ایک وقت معین ہوتا ہے۔

(۱۹۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حمد خدا۔ثنائے رسول (ص) اور وصیت زہد و تقویٰ کا تذکرہ کیا گیا ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی حمد ہمہ گیراورجس کا لشکرغالب ہے اور جس کی عظمت بلند و بالا ہے۔میں اس کی مسلسل نعمتوں اور عظیم ترین مہربانیوں پراس کی حمد کرتا ہوں کہ اس کا حلم اس قدر عظیم ہے کہ وہ ہر ایک کو معاف کرتا ہے اورپھر ہر فیصلہ میں انصاف سے بھی کام لیتا ہے اور جو کچھ گزر گیا اور گزر رہا ہے سب کا جاننے والا بھی ہے۔وہ مخلوقات کو صرف اپنے علم سے پیدا کرنے والا ہے اور اپنے حکم سے ایجاد کرنے والا ہے۔نہ کسی کی اقتدا کی ہے اور نہ کسی سے تعلیم لی ہے۔نہ کسی صانع حکیم کی مثال کی پیروی کی ہے اور نہ کسی غلطی کا شکار ہوا ہے اورنہ مشیروں کی موجودگی میں کام انجام دیا ہے۔

۳۶۵

الرسول الأعظم

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - ابْتَعَثَه والنَّاسُ يَضْرِبُونَ فِي غَمْرَةٍ - ويَمُوجُونَ فِي حَيْرَةٍ قَدْ قَادَتْهُمْ أَزِمَّةُ الْحَيْنِ - واسْتَغْلَقَتْ عَلَى أَفْئِدَتِهِمْ أَقْفَالُ الرَّيْنِ !

الوصية بالزهد والتقوى

عِبَادَ اللَّه أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا حَقُّ اللَّه عَلَيْكُمْ - والْمُوجِبَةُ عَلَى اللَّه حَقَّكُمْ وأَنْ تَسْتَعِينُوا عَلَيْهَا بِاللَّه - وتَسْتَعِينُوا بِهَا عَلَى اللَّه - فَإِنَّ التَّقْوَى فِي الْيَوْمِ الْحِرْزُ والْجُنَّةُ - وفِي غَدٍ الطَّرِيقُ إِلَى الْجَنَّةِ - مَسْلَكُهَا وَاضِحٌ وسَالِكُهَا رَابِحٌ ومُسْتَوْدَعُهَا حَافِظٌ - لَمْ تَبْرَحْ عَارِضَةً نَفْسَهَا عَلَى الأُمَمِ الْمَاضِينَ مِنْكُمْ - والْغَابِرِينَ

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص)اس کے بندہ اور رسول ہیں۔انہیں اس وقت بھیجاہے جب لوگ گمراہیوں میں چکر کاٹ رہے تھے اورحیرانیوں میں غلطاں و پیچاں تھے۔ہلاکت کی مہاریں انہیں کھینچ رہی تھیں اور کدورت و زنگ کے تالے ان کے دلوں پر پڑے ہوئے تھے۔

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تمہارے اوپر اللہ کا حق ہے اور اس سے تمہارا(۱) حق پروردگار پیدا ہوتا ہے۔اس کے لئے الہ سے مدد مانگو اور اس کے ذریعہ اسی سے مدد طلب کرو کہ یہ تقویٰ آج دنیا میں سپر اورحفاظت کاذریعہ اور کل جنت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔اس کا مسلک واضح اور اس کا راہر و فائدہ حاصل کرنے والا ہے۔اور اس کا امانت دار حفاظت کرنے والا ہے۔یہ تقویٰ اپنے کو ان پر بھی پیش کرتا رہا ے جو گزرگئے اور ان پر بھی پیش کر رہا ہے جو باقی رہ گئے

(۱) کھلی ہوئی بات ہے کہ بندہ کسی قیمت پر پروردگار پرحق پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا ہے۔اس کا ہر عمل کرم پروردگار اورفضل الٰہی کانتیجہ ہے۔لہٰذا اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اطاعت الٰہی انجام دے کر اس کے مقابلہ میں صاحب حق ہو جائے اوراس پر اسی طرح حق پیدا کرلے جس طرح اس کا حق عبادت و اطاعت ہر بندہ پرہے۔

اس حق سے مراد بھی پروردگار کا یہ فضل و کرم ہے کہ اس نے بندوں سے انعام اورجزا کا وعدہ کرلیا ہے اور اپنے بارے میں یہ اعلان کردیا ہے کہ میں اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ہوں جس کے بعد ہر بندہ کو یہ حق پیدا ہوگیا ہے کہ وہ مالک سے اپنے اعمال کی جزا اور اس کے انعام کا مطالبہ کرے نہ اس لئے کہ اس نے اپنے پاس سے اور اپنی طاقت سے کوئی عمل انجام دیا ہے کہ یہ بات غیر ممکن ہے۔بلکہ اس لئے کہ مالک نے اس سے ثواب کاوعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدہ کو وفا کرنے کا ذمہ دار ہے اور اس سے ذرہ برابر انحراف نہیں کر سکتا ہے۔روایات میں حق محمد (ص) و آل محمد (ص) کامفہوم یہی ہے کہ انہوں نے اپنی عبادات کے ذریعہ وعدہ الٰہی کی وفا کا اتنا حق پیدا کرلیا ہے کہ ان کے وسیلہ سے دیگر افراد بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔بشرطیکہ وہ بھی انہیں کے نقش قدم پر چلیں اور انہیں کی طرح اطاعت و عبادت انجام دینے کی کوشش کریں ۔

۳۶۶

لِحَاجَتِهِمْ إِلَيْهَا غَداً - إِذَا أَعَادَ اللَّه مَا أَبْدَى - وأَخَذَ مَا أَعْطَى وسَأَلَ عَمَّا أَسْدَى - فَمَا أَقَلَّ مَنْ قَبِلَهَا وحَمَلَهَا حَقَّ حَمْلِهَا - أُولَئِكَ الأَقَلُّونَ عَدَداً - وهُمْ أَهْلُ صِفَةِ اللَّه سُبْحَانَه إِذْ يَقُولُ -( وقَلِيلٌ مِنْ عِبادِيَ الشَّكُورُ ) - فَأَهْطِعُوا بِأَسْمَاعِكُمْ إِلَيْهَا وأَلِظُّوا بِجِدِّكُمْ عَلَيْهَا - واعْتَاضُوهَا مِنْ كُلِّ سَلَفٍ خَلَفاً - ومِنْ كُلِّ مُخَالِفٍ مُوَافِقاً - أَيْقِظُوا بِهَا نَوْمَكُمْ واقْطَعُوا بِهَا يَوْمَكُمْ - وأَشْعِرُوهَا قُلُوبَكُمْ وارْحَضُوا بِهَا ذُنُوبَكُمْ - ودَاوُوا بِهَا الأَسْقَامَ وبَادِرُوا بِهَا الْحِمَامَ - واعْتَبِرُوا بِمَنْ أَضَاعَهَا ولَا يَعْتَبِرَنَّ بِكُمْ مَنْ أَطَاعَهَا - أَلَا فَصُونُوهَا وتَصَوَّنُوا بِهَا - وكُونُوا عَنِ الدُّنْيَا نُزَّاهاً - وإِلَى الآخِرَةِ وُلَّاهاً - ولَا تَضَعُوا مَنْ رَفَعَتْه التَّقْوَى - ولَا تَرْفَعُوا مَنْ رَفَعَتْه الدُّنْيَا -

ہیں کہ سب کو کل اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ جب پروردگار اپنی مخلوقات کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو کچھ عطا کیا ہے اسے واپس لیلے گا اور جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا سوال کرے گا۔کس قدر کم ہیں وہ افراد جنہوں نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کا واقعی حق اداکیا ہے۔یہ لوگ عدد میں بہت کم ہیں لیکن پروردگار کی اس توصیف کے حقدار ہیں کہ'' میرے شکر گزر بندے بہت کم ہیں ''۔ اب اپنے کانوںکو اس کی طرف مصروف کرو اورسعی و کوشش سے اس کی پابندی کرو اوراسے گزرتی ہوئی کوتاہیوں کا بدل قرار دو۔اور ہر مخالف کے مقابلہ میں موافق بنائو۔اس کے ذریعہ اپنی نیند کو بیداری میں تبدیل کرواور اپنے دن گزار دو۔اسے اپنے دلوں کا شعار بنائو اور اسی کے ذریعہ اپنے گناہوں کودھوڈالو۔اپنے امراض کا علاج کرو اپنی موت کی طرف سبقت کرو۔ان سے عبرت حاصل کرو جنہوں نے اس کو ضائع کردیا ہے اور خبردار وہ تم سے عبرت نہ حاصل کرنے پائیں جنہوں نے اس کا راستہ اختیار کیا ہے۔اس کی حفاظت کرو اور اس کے ذریعہ سے اپنی حفاظت کرودنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے عاشق بن جائو۔جسے تقویٰ بلند کردے اسے پست مت بنائو اور جسے دنیا اونچا بنادے اسے بلند مت سمجھو۔اس دنیا کے

۳۶۷

ولَا تَشِيمُوا بَارِقَهَا ولَا تَسْمَعُوا نَاطِقَهَا - ولَا تُجِيبُوا نَاعِقَهَا ولَا تَسْتَضِيئُوا بِإِشْرَاقِهَا - ولَا تُفْتَنُوا بِأَعْلَاقِهَا - فَإِنَّ بَرْقَهَا خَالِبٌ ونُطْقَهَا كَاذِبٌ - وأَمْوَالَهَا مَحْرُوبَةٌ وأَعْلَاقَهَا مَسْلُوبَةٌ - أَلَا وهِيَ الْمُتَصَدِّيَةُ الْعَنُونُ والْجَامِحَةُ الْحَرُونُ - والْمَائِنَةُ الْخَئُونُ والْجَحُودُ الْكَنُودُ - والْعَنُودُ الصَّدُودُ والْحَيُودُ الْمَيُودُ - حَالُهَا انْتِقَالٌ ووَطْأَتُهَا زِلْزَالٌ - وعِزُّهَا ذُلٌّ وجِدُّهَا هَزْلٌ وعُلْوُهَا سُفْلٌ - دَارُ حَرَبٍ وسَلَبٍ ونَهْبٍ وعَطَبٍ - أَهْلُهَا عَلَى سَاقٍ وسِيَاقٍ ولَحَاقٍ وفِرَاقٍ - قَدْ تَحَيَّرَتْ مَذَاهِبُهَا وأَعْجَزَتْ مَهَارِبُهَا -

چمکنے والے بادل(۱) پرنظر نہ کرو اور اس کے ترجمان کی بات مت سنو اس کے آوازدینے والے کی آواز پرلبیک مت کہو اور اس کی چمک دمک سے روشنی مت حاصل کرو اور اس کی قیمتی چیزوں پر جان مت دو۔اس لئے کہ اس کی بجلی فقط چمک دمک ہے اور اس کی باتیں سراسر غلط ہیں۔اس کے اموال لٹنے والے ہیں اور اس کا سامان چھننے والا ہے۔ آگاہ ہو جائو کہ یہ دنیا جھلک دکھا کر منہ موڑ لینے والی چنڈال ' منہ زور اڑیل' جھوٹی' خائن' ہٹ دھرم' نا شکری کرنے والی ' سیدھی راہ سے منحرف اورمنہ پھیرنے والی اور کجرو پیچ و تاب کھانے والی ہے۔اس کا طریقہ انتاقل ہے اوراس کا ہر قدم زلزلہ انگیز ہے۔اس کی عزت بھی ذلت ہے اوراس کی واقعیت بھی مذاق ہے۔اس کی بلندی پستی ہے اور یہ جنگ و جدل ۔حرب و ضرب ' لوٹ مار' ہلاکت و تباہی کا گھر ہے۔اس کے رہنے والے پابہ رکاب ہیں اور چل چلائو کے لئے تیار ہیں۔ان کی کیفیت و صل و فراق کی کشمکش کی ہے۔جہاں راستے گم ہوگئے ہیں اور گریز کی راہیں مشکل ہوگئی ہیں اور منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔محفوظ گھاٹیوں نے انہیں مشکلات کے حوالہ

(۱)خدا جانتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی حال قابلاعتبار نہیں ہے اور اس کی کسی کیفیت میں سکون و قرار نہیں ہے۔اس کا پہلا عیب تو یہ ہے کہ اس کے حالات میں قرار نہیں ہے۔صبح کا سویرا تھوڑی دیر میں دوپہربن جاتا ہے اور آفتاب کا شباب تھوڑی دیرمیں غروب ہوجاتا ہے۔انسان بچپنے کی آزادیوں سے مستفید نہیں ہونے پاتا ہے کہ جوانی کی دھوپ آجاتی ہے اور جوانی کی رعنائیوں سے لذت اندوز نہیں ہونے پاتا ہے کہ صنعتی کی کمزوریاں حملہ آور ہو جاتی ہیں غرض کوئی حالت ایسی نہیں ہے جس پر اعتبار کیا جا سکے اور جسے کسی حد تک پر سکون کہا جاسکے۔ اوردوسرا عیب یہ ہے کہ الگ الگ کوئی دور بھی قابل اطمینان نہیں ہے دولت مند دولت کو رو رہے ہیں اور غریب غربت کو۔بیمار بیماریوں کا مثیہ پڑھ رہے ہیں اورصحت مند صحت کے تقاضوں سے عاجز ہیں۔بے اولاد اولاد کے طلب گارہیں اور اولاد والے اولاد کی خاطر پریشان ۔

ایسی صورت حال میںتقاضائے عقل یہی ہے کہ دنیا کو ہدف اور مقصد تصور نہ کیا جائے اور اسے صرف آخرت کے وسیلہ کے طور پر استعمال کیاجائے اس کی نعمتوں میں سے اتنا ہی لے لیا جائے جتنا آخرت میں کام آنے والا ہے اور باقی کو اس کے اہل کے لئے چھوڑ دیا جائے ۔

۳۶۸

وخَابَتْ مَطَالِبُهَا فَأَسْلَمَتْهُمُ الْمَعَاقِلُ - ولَفَظَتْهُمُ الْمَنَازِلُ وأَعْيَتْهُمُ الْمَحَاوِلُ - فَمِنْ نَاجٍ مَعْقُورٍ ولَحْمٍ مَجْزُورٍ - وشِلْوٍ مَذْبُوحٍ ودَمٍ مَسْفُوحٍ - وعَاضٍّ عَلَى يَدَيْه وصَافِقٍ بِكَفَّيْه - ومُرْتَفِقٍ بِخَدَّيْه وزَارٍ عَلَى رَأْيِه - ورَاجِعٍ عَنْ عَزْمِه - وقَدْ أَدْبَرَتِ الْحِيلَةُ وأَقْبَلَتِ الْغِيلَةُ - ولَاتَ حِينَ مَنَاصٍ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ - قَدْ فَاتَ مَا فَاتَ وذَهَبَ مَا ذَهَبَ - ومَضَتِ الدُّنْيَا لِحَالِ بَالِهَا -( فَما بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّماءُ والأَرْضُ وما كانُوا مُنْظَرِينَ ) .

کردیا ہے اور منزلوں نے انہیں دور پھینک دیا ہے۔دانشمندیوں نے بھی انہیں درماندہ کردیا ہے۔اب جو بنچ گئے ہیں ان میں کچھ کی کونچیں کٹی ہوئی ہیں۔کچھ گوشت کے لوتھڑے ہیں جن کی کھال اتار لی گئی ہے۔کچھ کٹے ہوئے جسم اور بہتے ہوئے خون جیسے ہیں۔کچھ اپنے ہاتھ کاٹنے والے ہیں اور کچھ کف افسوس ملنے والے۔کچھ فکرو تردد میں کہنیاں رخساروں پر رکھے ہوئے اور کچھ اپنی فکر سے بیزار اور اپنے ارادہ سے رجوع کرنے والے ہیں۔حیلوں نے منہ پھیر لیا ہے اور ہلاکت سامنے آگئی ہے مگر چھٹکارے کا وقت نکل چکا ہے۔یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے جو چیز گزر گئی وہ گزر گئی اورجو وقت چلا گیاوہ چلا گیا اور دنیا اپنے حال میں من مانی کرتی ہوئی گزر گئی۔نہ ان پر آسمان رویا اور نہزمین اور نہ انہیں مہلت ہی دی گئی۔

۳۶۹

(۱۹۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

تسمى القاصعة

وهي تتضمن ذم إبليس لعنه اللَّه، على استكباره وتركه السجود لآدمعليه‌السلام ، وأنه أول من أظهر العصبية وتبع الحمية، وتحذير الناس من سلوك طريقته.

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَبِسَ الْعِزَّ والْكِبْرِيَاءَ - واخْتَارَهُمَا لِنَفْسِه دُونَ خَلْقِه - وجَعَلَهُمَا حِمًى وحَرَماً عَلَى غَيْرِه - واصْطَفَاهُمَا لِجَلَالِه.

رأس العصيان

وجَعَلَ اللَّعْنَةَ عَلَى مَنْ نَازَعَه فِيهِمَا مِنْ عِبَادِه - ثُمَّ اخْتَبَرَ بِذَلِكَ مَلَائِكَتَه الْمُقَرَّبِينَ - لِيَمِيزَ الْمُتَوَاضِعِينَ مِنْهُمْ مِنَ الْمُسْتَكْبِرِينَ

(۱۹۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(خطبہ قاصعہ)

(اس خطبہ میں ابلیس کے تکبر کی مذمت کی گئی ہے اور اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تعصب اور غرور کا راستہ اسی نے اختیار کیاہے لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کا لباس عزت اور کبریائی ہے اور اس نے اس کمال میں کسی کو شریک نہیں بنایا ہے۔اس نے ان دونوں صفتوں کو ہر ایک کے لئے حرام اور ممنوع قرار دے کر صر ف اپنی عزت و جلال کے لئے منتخب کرلیا ہے

اورجس نے بھی ان دونوں صفتوں میں اس سے مقابلہ کرنا چاہا ہے سے ملعون قرار دے دیا ہے۔اس کے بعد اسی رخ سے ملائکہ مقربین(۱) کا امتحان لیا ہے تاکہ تواضع کرنے والوں اور غرور رکھنے والوں میں امتیاز قائم ہو جائے اور اسی بنیاد پر

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملائکہ کی عصمت بشرجیسی اختیاری نہیں ہے جہاں انسان سارے جذبات و خواہشات سے ٹکرا کرعصمت کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ملائکہ بالکل جمادات و نباتات جیسے نہیں ہیں کہ انہیں کسی طرح کا اختیار حاصل نہ ہو۔ ورنہاگر ایسا ہوتاتو نہ تکلیف کے کوئی معنی ہوت اور نہ امتحان کا کوئی مقصد ہوتا۔ان میں جذبات و احساسات ہیں لیکن بشر جیسے نہیں ہیں۔انہیں فعل و ترک کا اختیار حاصل ہے لیکن بالکل انسانوں جیسا نہیں ہے۔اسی بنا پر ان کا امتحان لیا گیا اور امتحان صرف جذبہ حب ذات اور انانیت سے متعلق تھا کہ یہ جذبہ ملک کے اندر بھی بظاہر پایا جاتا ہے۔اور اسی جذبہ کی آزمائش کے لئے آدم کو بظاہر '' پست ترین عنصر '' سے پیداکیا گیا جسے عام طور سے پیروں سے روند دیا جاتا ہے لیکناسی پیکر خاکی میں روح کمال کو پھونک کر اتنا بلند بنا دیا کہ ملائکہ کے مسجود بننے کے لائق ہوگئے اور قدرت نے انسانوں کو بھی متوجہ کردیا کہ تمہارا کمال تمہاری اصل سے نہیں ہے۔تمہارا کمال ہمارے رابطہ اور تعلق سے ہے۔لہٰذا جب تک یہ رابطہ بر قرار رہے گا تم صاحب کمال رہوگے اور جس دن یہ رابطہ ٹوٹ جائے گا تم خاک کاڈھیر ہو جائوگے اور بس۔!

۳۷۰

فَقَالَ سُبْحَانَه وهُوَ الْعَالِمُ بِمُضْمَرَاتِ الْقُلُوبِ - ومَحْجُوبَاتِ الْغُيُوبِ( إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ - فَإِذا سَوَّيْتُه ونَفَخْتُ فِيه مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَه ساجِدِينَ - فَسَجَدَ الْمَلائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ ) - اعْتَرَضَتْه الْحَمِيَّةُ فَافْتَخَرَ عَلَى آدَمَ بِخَلْقِه - وتَعَصَّبَ عَلَيْه لأَصْلِه - فَعَدُوُّ اللَّه إِمَامُ الْمُتَعَصِّبِينَ وسَلَفُ الْمُسْتَكْبِرِينَ - الَّذِي وَضَعَ أَسَاسَ الْعَصَبِيَّةِ ونَازَعَ اللَّه رِدَاءَ الْجَبْرِيَّةِ - وادَّرَعَ لِبَاسَ التَّعَزُّزِ وخَلَعَ قِنَاعَ التَّذَلُّلِ.

أَلَا تَرَوْنَ كَيْفَ صَغَّرَه اللَّه بِتَكَبُّرِه - ووَضَعَه بِتَرَفُّعِه فَجَعَلَه فِي الدُّنْيَا مَدْحُوراً - وأَعَدَّ لَه فِي الآخِرَةِ سَعِيراً؟!

ابتلاء اللَّه لخلقه

ولَوْ أَرَادَ اللَّه أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ مِنْ نُورٍ - يَخْطَفُ الأَبْصَارَ ضِيَاؤُه ويَبْهَرُ الْعُقُولَ رُوَاؤُه - وطِيبٍ يَأْخُذُ الأَنْفَاسَ عَرْفُه لَفَعَلَ - ولَوْ فَعَلَ لَظَلَّتْ لَه الأَعْنَاقُ خَاضِعَةً - ولَخَفَّتِ الْبَلْوَى فِيه عَلَى الْمَلَائِكَةِ. ولَكِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَبْتَلِي خَلْقَه بِبَعْضِ مَا يَجْهَلُونَ أَصْلَه

اس دلوں کے راز اور غیب کے اسرار سے با خبر پروردگار نے یہ اعلان کردیا کہ '' میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں اور جب اس کا پیکر تیار ہو جائے اورمیں اس میںروح کمال پھونک دوں تو تم سب سجدہ میں گر پڑتا '' جس کے بعد تمام ملائکہ نے سجدہ کرلیا۔صرف ابلیس نے انکار کردیا '' کہ اسے تعصب لاحق ہوگیا اور اس نے اپنی تخلیق کے مادہ سے آدم پر فخر کیا اور اپنی اصل کی بنا پراستکبار کا شکار ہوگیا جس کے بعد یہ دشمن خدا تمام متعصب افراد کا پیشوا اور تمام متکبر لوگوں کا مورث اعلیٰ بن گیا۔اسی نے عصبیت کی بنیاد قائم کی اور اسی نے پروردگارسے جبروت کی رداء میں مقابلہ کیا اور اپنے خیال میں عزت و جلال کا لباس زیب تن کر لیا اور تواضع کا نقاب اتار کر پھینک دیا۔

اب کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ پروردگار نے کس طرح اسے تکبر کی بنا پرچھوٹا بنادیا ہے اور بلندی کے اظہار کے بنیاد پر پست کردیا ہے۔دنیا میں اسے ملعون قرار دے دیا ہے اور آخرت میں اس کے لئے آتش جہنم کا انتظام کردیا ہے۔

اگر پروردگار یہ چاہتا کہ آدم کو ایک ایسے نورس ے خلق کرے جس کی ضیاء آنکھوں کو چکا چوند کردے اورجس کی رونق عقلوں کو مبہوت کردے یا ایسی خوشبو سے بنائے جس مہک سانسوں کو جکڑلے تو یقینا کر سکتا تھا اور اگر ایسا کر دیتا تو یقینا گردنیں ان کے سمنے جھک جاتیں اور ملائکہ کا امتحان آسان ہو جاتا لیکن وہ ان چیزوں سے امتحان لینا چاہتا تھا جن کی اصل معلوم نہ ہوتاکہ اسی

۳۷۱

تَمْيِيزاً بِالِاخْتِبَارِ لَهُمْ ونَفْياً لِلِاسْتِكْبَارِ عَنْهُمْ - وإِبْعَاداً لِلْخُيَلَاءِ مِنْهُمْ.

طلب العبرة

فَاعْتَبِرُوا بِمَا كَانَ مِنْ فِعْلِ اللَّه بِإِبْلِيسَ - إِذْ أَحْبَطَ عَمَلَه الطَّوِيلَ وجَهْدَه الْجَهِيدَ - وكَانَ قَدْ عَبَدَ اللَّه سِتَّةَ آلَافِ سَنَةٍ - لَا يُدْرَى أَمِنْ سِنِي الدُّنْيَا أَمْ مِنْ سِنِي الآخِرَةِ - عَنْ كِبْرِ سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ - فَمَنْ ذَا بَعْدَ إِبْلِيسَ يَسْلَمُ عَلَى اللَّه بِمِثْلِ مَعْصِيَتِه - كَلَّا مَا كَانَ اللَّه سُبْحَانَه لِيُدْخِلَ الْجَنَّةَ بَشَراً - بِأَمْرٍ أَخْرَجَ بِه مِنْهَا مَلَكاً - إِنَّ حُكْمَه فِي أَهْلِ السَّمَاءِ وأَهْلِ الأَرْضِ لَوَاحِدٌ - ومَا بَيْنَ اللَّه وبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ خَلْقِه هَوَادَةٌ - فِي إِبَاحَةِ حِمًى حَرَّمَه عَلَى الْعَالَمِينَ.

امتحان سے ان کا امتیاز قائم ہو سکے ۔اور ان کے استکبار کا علاج کیا جا سکے اور انہیں غرور سے ور رکھا جا سکے۔

تو اب تم سب پروردگار کے ابلیس کے ساتھ برتائو سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جدو جہد کو تباہ کردیا جب کہ وہ چھ ہزار سال عبادت کر چکا تھا۔ جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ دنیا کے سال تھے یاآخرت کے مگر ایک ساعت کے تکبر نے سب کو ملیا میٹ کردیا تو اب اس کے بعد کون ایسی معصیت کرکے عذاب الٰہی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ جس جرم کی بنا پر ملک(۱) کو نکال باہر کیا اس کے ساتھ بشر کو داخل جنت کردے جب کہ خدا کا قانون زمین و آسمان کے لئے ایک ہی جیسا ہے اور اللہ اور کسی خاص بندہ کے درمیان کوئی ایسا خاص تعلق نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے اس چیز کو حلال کردے جو سارے عالمین کے لئے حرام قرار دی ہے۔

(۱)اس مقام پر یہ سوال ضرور پیداہوتا ہے کہ سورۂ کہف کی آیت ۵۰ میں ابلیس کو جنات میں قراردیا گیا ہے تو اس مقام پر اسے ملک کے لفظ سے کس طرح تعبیر کیا گیا ہے ۔لیکن اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ مقام تکلیف میں ہمیشہ ظاہر کو دیکھا جاتا ہے اور مقام جزا میں حقیقت پر نگاہ کی جاتی ہے۔ایمان کے احکام ان تمام افراد کے لئے ہیں جن کا ظاہر ایمان ہے لیکن ایمان کی جزا اور اس کا انعام صرف ان افراد کے لئے ہے جو واقعی صاحبان ایمان ہیں۔

یہی حال ملائکہ اور جنات کا ہے کہ ملائکہ کے احکام میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو اپنے ملک ہونے کے دعویدار ہیں چاہے واقعاً قوم جن سے تعلق رکھتے ہو اور ملائکہ کی عظمت و شرافت صرف ان فراد کے لئے ہے جو واقعاً ملک ہیں اور اس کا قوم جن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۳۷۲

التحذير من الشيطان

فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه عَدُوَّ اللَّه أَنْ يُعْدِيَكُمْ بِدَائِه - وأَنْ يَسْتَفِزَّكُمْ بِنِدَائِه وأَنْ يُجْلِبَ عَلَيْكُمْ بِخَيْلِه ورَجِلِه - فَلَعَمْرِي لَقَدْ فَوَّقَ لَكُمْ سَهْمَ الْوَعِيدِ - وأَغْرَقَ إِلَيْكُمْ بِالنَّزْعِ الشَّدِيدِ - ورَمَاكُمْ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ - فَقَالَ( رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ - ولأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ) - قَذْفاً بِغَيْبٍ بَعِيدٍ ورَجْماً بِظَنٍّ غَيْرِ مُصِيبٍ - صَدَّقَه بِه أَبْنَاءُ الْحَمِيَّةِ وإِخْوَانُ الْعَصَبِيَّةِ - وفُرْسَانُ الْكِبْرِ

والْجَاهِلِيَّةِ - حَتَّى إِذَا انْقَادَتْ لَه الْجَامِحَةُ مِنْكُمْ - واسْتَحْكَمَتِ الطَّمَاعِيَّةُ مِنْه فِيكُمْ - فَنَجَمَتِ الْحَالُ مِنَ السِّرِّ الْخَفِيِّ إِلَى الأَمْرِ الْجَلِيِّ - اسْتَفْحَلَ سُلْطَانُه عَلَيْكُمْ - ودَلَفَ بِجُنُودِه نَحْوَكُمْ - فَأَقْحَمُوكُمْ وَلَجَاتِ الذُّلِّ - وأَحَلُّوكُمْ وَرَطَاتِ الْقَتْلِ - وأَوْطَئُوكُمْ إِثْخَانَ الْجِرَاحَةِ طَعْناً فِي عُيُونِكُمْ - وحَزّاً فِي حُلُوقِكُمْ

بندگان خدا ! اس دشمن خدا سے ہوشیار رہو۔کہیں تمہیں بھی اپنے مرض میں مبتلا نہ کردے اور کہیں اپنی آواز پرکھینچ نہ لے اور تم پر اپنے سوار اور پیادہ لشکر سے حملہ نہ کردے۔اس لئے کہ میری جان کی قسم اس نے تمہارے لئے شر انگیزی کے تیر کو چلئہ کمان میں جوڑ لیا ہے اور کمان کو زور سے کھینچ لیا ہے اورتمہیں بہت نزدیک سے نشانہ بنانا چاہتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ '' پروردگار جس طرح تونے مجھے بہکا دیا ہے اب میںبھی ان کے لئے گناہوں کو آراستہ کردوں گا اور ان سب کو گمراہ کردوں گا '' حالانکہ یہ بات بالکل اٹکل پچو سے کہی تھی اور بالکل غلط اندازہ کی بنا پر زبان سے نکالی تھی لیکن غرور کی اولاد ' تعصب کی برادری اورتکبر و جاہلیت کے شہسواروں نے اس کی بات کی تصدیق کردی۔یہاں تک کہ جب تم میں سے منہ زوری کرنے والے اس کے مطیع ہوگئے اور اس کی طمع تم میں مستحکم ہوگئی تو بات پردۂ رازسے نکل کرمنظر عام آگئی۔اس نے اپنے اقتدار کو تم پر قائم کرلیا اور اپنے لشکروں کا رخ تمہاری طرف موڑ دیا۔انہوں نے تمہیں ذلت کے غاروں میں ڈھکیل دیا اور تمہیں قتل و خون کے بھنور میں پھنسا دیا اور مسلسل زخمی کرکے پامال کر دیا۔تمہاری آنکھوں نے تمہیں ذلت کے غاروں میں ڈھکیل دیا اور تمہیں قتل و خون کے بھنور میں پھنسا دیا اور مسلسل زخمی کرکے پامال کر دیا تمہاری آنکھوں میں نیزے چبھودئیے تمہارے حلق میں خنجر چلا

۳۷۳

ودَقّاً لِمَنَاخِرِكُمْ - وقَصْداً لِمَقَاتِلِكُمْ وسَوْقاً بِخَزَائِمِ الْقَهْرِ - إِلَى النَّارِ الْمُعَدَّةِ لَكُمْ - فَأَصْبَحَ أَعْظَمَ فِي دِينِكُمْ حَرْجاً - وأَوْرَى فِي دُنْيَاكُمْ قَدْحاً - مِنَ الَّذِينَ أَصْبَحْتُمْ لَهُمْ مُنَاصِبِينَ وعَلَيْهِمْ مُتَأَلِّبِينَ - فَاجْعَلُوا عَلَيْه حَدَّكُمْ ولَه جِدَّكُمْ - فَلَعَمْرُ اللَّه لَقَدْ فَخَرَ عَلَى أَصْلِكُمْ - ووَقَعَ فِي حَسَبِكُمْ ودَفَعَ فِي نَسَبِكُمْ - وأَجْلَبَ بِخَيْلِه عَلَيْكُمْ وقَصَدَ بِرَجِلِه سَبِيلَكُمْ - يَقْتَنِصُونَكُمْ بِكُلِّ مَكَانٍ ويَضْرِبُونَ مِنْكُمْ كُلَّ بَنَانٍ - لَا تَمْتَنِعُونَ بِحِيلَةٍ ولَا تَدْفَعُونَ بِعَزِيمَةٍ - فِي حَوْمَةِ ذُلٍّ وحَلْقَةِ ضِيقٍ - وعَرْصَةِ مَوْتٍ وجَوْلَةِ بَلَاءٍ - فَأَطْفِئُوا مَا كَمَنَ فِي قُلُوبِكُمْ - مِنْ نِيرَانِ الْعَصَبِيَّةِ وأَحْقَادِ الْجَاهِلِيَّةِ - فَإِنَّمَا تِلْكَ الْحَمِيَّةُ تَكُونُ فِي الْمُسْلِمِ - مِنْ خَطَرَاتِ الشَّيْطَانِ ونَخَوَاتِه ونَزَغَاتِه ونَفَثَاتِه - واعْتَمِدُوا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلَى رُءُوسِكُمْ - وإِلْقَاءَ التَّعَزُّزِ تَحْتَ أَقْدَامِكُمْ - وخَلْعَ التَّكَبُّرِ مِنْ أَعْنَاقِكُمْ

دئیے اورتمہاری ناک کورگڑ دیا ۔تمہارے جوڑ بند کو توڑ دیا اورتمہاری ناک میں قہرو غلبہ کی نکیل ڈال کر تمہیں اس آگ کی طرف کھینچ لیا جو تمہارے ہی واسطے مہیا کی گئی ہے۔وہ تمہارے دین کو ا ن سب سے زیادہ مجروح کرنے والا اور تمہاری دنیا میں ان سب سے زیادہ فتنہ وفساد کی آگ بھڑکانے والا ہے جن س مقابلہ کی تم ن تیاری کر رکھی ہے اور جن کے خلاف تم نے لشکر جمع کئے ہیں۔لہٰذا اب اپنے غیظ و غضب کا مرکز اسی کو قرار دو اور ساری کوشش اسی ک خلاف صرف کرو۔خدا کی قسم اس نے تمہاری اصل پر اپنی برتری کا اظہر کیا ہے اور تمہارے حسب میں عیب نکالا ہے اور تمہارے نسب پر طعنہ دیا ہے اورتمہارے خلاف لشکر جمع کیا ہے اور تمہارے راستہ کو اپنے پیادوں سے روند نے کا ارادہ کیا ہے۔جو ہر جگہ تمہارا شکار کرناچاہتے ہیں اور ہر مقام پر تمہارے ایک ایک انگلی کے پور پر ضرب لگانا چاہتے ہیں اورتم نہ کسی حیلہ سے اپنا بچائو کرتے ہو اور نہ کسی عزم و ارادہ سے اپنا دفاع کرتے ہو درانحالیکہ تم ذلت کے بھنور' تنگی کے دائرہ' موت کے میدان اور بلائوں کی جولانگاہ میں ہو۔اب تمہارا فرض ہے کہ تمہارے دلوںمیں جو عصبیت اور جاہلیت کے کینوں کی آگ بھڑک رہی ہے اسے بجھا دو کہ یہ غرور ایک مسلمان کے اندر شیطانی وسوسوں ' نخوتوں ' فتنہ انگیزیوں اور فسوں کا ریوں کا نتیجہ ہے۔ اپنے سرپر تواضع کا تاج رکھنے کا عزم کرو اور تکبر کو اپنے پیروں تلے رکھ کر کچل دو۔غرور کے طوق کو اپنی گردنوں سے اتار کرپھینک دواور

۳۷۴

واتَّخِذُوا التَّوَاضُعَ - مَسْلَحَةً بَيْنَكُمْ وبَيْنَ عَدُوِّكُمْ إِبْلِيسَ وجُنُودِه - فَإِنَّ لَه مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ جُنُوداً وأَعْوَاناً - ورَجِلًا وفُرْسَاناً - ولَا تَكُونُوا كَالْمُتَكَبِّرِ عَلَى ابْنِ أُمِّه - مِنْ غَيْرِ مَا فَضْلٍ جَعَلَه اللَّه فِيه - سِوَى مَا أَلْحَقَتِ الْعَظَمَةُ بِنَفْسِه مِنْ عَدَاوَةِ الْحَسَدِ - وقَدَحَتِ الْحَمِيَّةُ فِي قَلْبِه مِنْ نَارِ الْغَضَبِ - ونَفَخَ الشَّيْطَانُ فِي أَنْفِه مِنْ رِيحِ الْكِبْرِ - الَّذِي أَعْقَبَه اللَّه بِه النَّدَامَةَ - وأَلْزَمَه آثَامَ الْقَاتِلِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

التحذير من الكبر

أَلَا وقَدْ أَمْعَنْتُمْ فِي الْبَغْيِ وأَفْسَدْتُمْ فِي الأَرْضِ - مُصَارَحَةً لِلَّه بِالْمُنَاصَبَةِ - ومُبَارَزَةً لِلْمُؤْمِنِينَ بِالْمُحَارَبَةِ - فَاللَّه اللَّه فِي كِبْرِ الْحَمِيَّةِ وفَخْرِ الْجَاهِلِيَّةِ - فَإِنَّه مَلَاقِحُ الشَّنَئَانِ ومَنَافِخُ الشَّيْطَانِ - الَّتِي خَدَعَ بِهَا الأُمَمَ الْمَاضِيَةَ والْقُرُونَ الْخَالِيَةَ - حَتَّى أَعْنَقُوا فِي حَنَادِسِ جَهَالَتِه ومَهَاوِي ضَلَالَتِه - ذُلُلًا عَنْ سِيَاقِه سُلُساً فِي قِيَادِه - أَمْراً تَشَابَهَتِ الْقُلُوبُ فِيه

اپنے اور اپنے دشمن ابلیس اور اس کے لشکروں کے درمیان تواضع و انکسار کا مورچہ قائم کرلو کہ اس نے ہر قوم میں سے اپنے لشکر ' مدد گار' پیادہ ' سوار سب کاانتظام کرلیا ہے اور خبردار اس شخص کے جیسے نہ ہو جائو جس نے اپنے مانجائے(۱) کے مقابلہ میں غرور کیا بغیر اس کے کہ اللہ نے اسے کوئی فضیلت عطا کی ہو علاوہ اس کے حسد کی عداوت نے اس کے نفس میں عظمت کا احساسا پیدا کردا دیا اور بیجا غیرت نے اس کے دل میں غضب کی آگ بھڑکا دی شیطان نے اس کی ناک میں تکبر کی ہوا پھونک دی اور انجام کارندامت ہی ہاتھ آئی اور قیامت تک کے تمام قاتلوں کا گناہ اس کے ذمہ آگیا کہ اس نے قتل کی بنیاد قائم کی ہے۔

یاد رکھو تم نے اللہ سے کھلم کھلا دشمنی اور صاحبان ایمان سے جنگ کا اعلان کرکے ظلم کی انتہا کردی ہے اور زمین میں فساد برپا کردیا ہے۔خدارا خدا سے ڈرو۔تکبر کے غرور اور جاہلیت کے تفاخرکے سلسلہ میں کہ یہ عداوتوں کے پیدا ہونے کی جگہ اور شیطان کی فسوں کاری کی منزل ہے۔اسی کے ذریعہ اس نے گذشتہ قوموں اور اگلی نسلوں کودھوکہ دیا ہے ۔یہاں تک کہ وہ لوگ جہالت کے اندھیروں اور ضلالت کے گڑھوں میں گر پڑے ۔وہ اپنے ہنکانے والے کے مکمل تابع اور کھینچنے والے کے سراپا اطاعت تھے۔یہی وہ امر ہے جس میں قلوب سب

(۱) ہابیل اور قابیل کی طرف اشارہ ہے جہاں قابیل نے صرف حسد اور تعصب کی بنیاد پر اپنے حقیقی بھائی کا خون کردیا اور اللہ کی پاکیزہ زمین کو خون نا حق سے رنگین کردیا اور اس طرح دنیا میں قتل و خون کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے ہر جرم میں قابیل کا ایک حصہ بہر حال رہے گا۔

۳۷۵

وتَتَابَعَتِ الْقُرُونُ عَلَيْه - وكِبْراً تَضَايَقَتِ الصُّدُورُ بِه.

التحذير من طاعة الكبراء

أَلَا فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ مِنْ طَاعَةِ سَادَاتِكُمْ وكُبَرَائِكُمْ - الَّذِينَ تَكَبَّرُوا عَنْ حَسَبِهِمْ وتَرَفَّعُوا فَوْقَ نَسَبِهِمْ - وأَلْقَوُا الْهَجِينَةَ عَلَى رَبِّهِمْ، وجَاحَدُوا اللَّه عَلَى مَا صَنَعَ بِهِمْ - مُكَابَرَةً لِقَضَائِه ومُغَالَبَةً لِآلَائِه - فَإِنَّهُمْ قَوَاعِدُ أَسَاسِ الْعَصَبِيَّةِ - ودَعَائِمُ أَرْكَانِ الْفِتْنَةِ وسُيُوفُ اعْتِزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ - فَاتَّقُوا اللَّه ولَا تَكُونُوا لِنِعَمِه عَلَيْكُمْ أَضْدَاداً - ولَا لِفَضْلِه عِنْدَكُمْ حُسَّاداً - ولَا تُطِيعُوا الأَدْعِيَاءَ الَّذِينَ شَرِبْتُمْ بِصَفْوِكُمْ كَدَرَهُمْ - وخَلَطْتُمْ بِصِحَّتِكُمْ مَرَضَهُمْ وأَدْخَلْتُمْ فِي حَقِّكُمْ بَاطِلَهُمْ - وهُمْ أَسَاسُ الْفُسُوقِ وأَحْلَاسُ الْعُقُوقِ -

اتَّخَذَهُمْ إِبْلِيسُ مَطَايَا ضَلَالٍ - وجُنْداً بِهِمْ يَصُولُ عَلَى النَّاسِ - وتَرَاجِمَةً يَنْطِقُ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ -

ایک جیسے ہیں اور نسلیں اسی راہ پر چلتی رہی ہیں اور یہی وہ تکبر ہے جس کی پردہ پوشی سے سینے تنگ ہیں۔

آگاہ ہو جائو ۔اپنے ان بزرگوں(۱) اور سرداروں کی اطاعت سے محتاط رہو جنہوں نے اپنے حسب پر غرور کیا اور اپنے نسب کی بنیاد پر اونچے بن گئے۔بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیا اوراس کے احسانات کا صریحی انکار کردیا۔انہوںنے اس کے فیصلہ سے مقابلہ کیا ہے اور اس کی نعمتوں پرغلبہ حاصل کرنا چاہا ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو عصبیت کی بنیاد۔فتنہ کے ستون۔اور جاہلیت کے غرورکی تلواریں ہیں۔

اللہ سے ڈرو اور خبر دار اس کی نعمتوں کے دشمن اور اس کے دئیے ہوئے فضاء کے حاسد نہ بنو۔ان جھوٹے مدعیان اسلام کا اتباع نہ کروجن کے گندہ پانی کو اپنے صاف پانی میں ملا کر پی رہے ہو اور جن کی بیماریوں کو تم نے اپنی صحت کے ساتھ مخلوط کردیا ہے اور جن کے باطل کو اپنے حق میں شامل کرلیا ہے۔یہ لوگ فسق وفجور کی بنیاد ہیں اور نا فرمانیوں کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں

ابلیس نے انہیں گمراہی کی سواری بنالیا ہے اور ایسا لشکر قرار دے لیا ہے جس کے ذریعہ لوگوں پر حملہ کرتا ہے اور یہی اس کے ترجمان ہیں جن کی زبان سے وہ بولتا ہے

(۱)قوم کی تباہی اور بربادی میں سب سے بڑا ہاتھ ان رئیسوں اور سرداروں کا ہوتا ہے جن کی حیثیت کچھ نہیں ہوتی ہے لیکن اپنے کو اس قدر عظیم بنا کر پیش کرتے ہیںجس کا ندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ان کے پاس تعصب عناد غرور اور تکبر کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے اور غریب بندگان خدا کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ نے ہم کو بلند بنایا ہے اور اسی نے تمہیںپست قرار دیا ہے لہٰذا اب تمہارا فرض ہے کہ اس کے فیصلہ پر راضی رہو اور ہماری اطاعت کی راہ پر چلتے رہو بغاوت کا ارادہ مت کرو کہ یہ قضا و قدر الٰہی سے بغاوت ہے اور یہ شان اسلام کے خلاف ہے۔

۳۷۶

اسْتِرَاقاً لِعُقُولِكُمْ ودُخُولًا فِي عُيُونِكُمْ - ونَفْثاً فِي أَسْمَاعِكُمْ - فَجَعَلَكُمْ مَرْمَى نَبْلِه ومَوْطِئَ قَدَمِه ومَأْخَذَ يَدِه.

العبرة بالماضين

فَاعْتَبِرُوا بِمَا أَصَابَ الأُمَمَ الْمُسْتَكْبِرِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ - مِنْ بَأْسِ اللَّه وصَوْلَاتِه ووَقَائِعِه ومَثُلَاتِه - واتَّعِظُوا بِمَثَاوِي خُدُودِهِمْ ومَصَارِعِ جُنُوبِهِمْ - واسْتَعِيذُوا بِاللَّه مِنْ لَوَاقِحِ الْكِبْرِ - كَمَا تَسْتَعِيذُونَه مِنْ طَوَارِقِ الدَّهْرِ فَلَوْ رَخَّصَ اللَّه فِي الْكِبْرِ لأَحَدٍ مِنْ عِبَادِه - لَرَخَّصَ فِيه لِخَاصَّةِ أَنْبِيَائِه - وأَوْلِيَائِه ولَكِنَّه سُبْحَانَه كَرَّه إِلَيْهِمُ التَّكَابُرَ - ورَضِيَ لَهُمُ التَّوَاضُعَ - فَأَلْصَقُوا بِالأَرْضِ خُدُودَهُمْ - وعَفَّرُوا فِي التُّرَابِ وُجُوهَهُمْ - وخَفَضُوا أَجْنِحَتَهُمْ لِلْمُؤْمِنِينَ - وكَانُوا قَوْماً مُسْتَضْعَفِينَ - قَدِ اخْتَبَرَهُمُ اللَّه بِالْمَخْمَصَةِ وابْتَلَاهُمْ بِالْمَجْهَدَةِ - وامْتَحَنَهُمْ بِالْمَخَاوِفِ ومَخَضَهُمْ بِالْمَكَارِه - فَلَا تَعْتَبِرُوا الرِّضَى والسُّخْطَ بِالْمَالِ والْوَلَدِ - جَهْلًا بِمَوَاقِعِ الْفِتْنَةِ - والِاخْتِبَارِ فِي مَوْضِعِ الْغِنَى والِاقْتِدَارِ - فَقَدْ قَالَ سُبْحَانَه وتَعَالَى -

تمہاری عقلوں کو چھیننے کے لئے اور تمہاری آنکھوں میں سما جانے کے لئے اور تمہارے کانوں میں اپنی باتوں کو پھونکنے کے لئے اس نے تمہیںاپنے تیروں کا نشانہ اور اپنے قدموں کی جولانگاہ اور اپنے ہاتھ کا کھولنا بنالیا ہے۔

دیکھو تم سے پہلے استکبار کرنے والی قوموں پر جوخداکا عذاب ۔حملہ۔قہر اور عتاب نازل ہوا ہے اس سے عبرت حاصل کرو۔ان کے رخساروں کے بھل لیٹنے اور پہلوئوں کے بھل گرنے سے نصیحت حاصل کرو۔اللہ کی بارگاہ میں تکبر کی پیداوار کی منزلوں سے اس طرح پناہ مانگو جس طرح زمانہ کے حوادث سے پناہ مانگتے ہو۔اگر پروردگار تکبر کی اجازت کسی بندہ کو دے سکتا تو سب سے پہلے اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا لیکن اس بے نیاز نے ان کے لئے بھی تکبر کو نا پسند قراردیا ہے اور ان کی بھی تواضع ہی سے خوش ہوا ہے۔انہوں نے اپنے رخساروں کو زمین سے چپکادیا تھا اور اپنے چہروں کوخاک پر رکھ دیا تھا اور اپنے شانوں کو مومنین کے لئے جھکا دیا تھا۔

یہ سب سماج کے وہ کمزور بنادئیے جانے والے افراد تھے جن کا خدا نے بھوک سے امتحان لیا۔مصائب سے آزمایا۔خوفناک مراحل سے اختیارکیا اور ناخوشگوار حالات میں انہیں تہ و بالا کرکے دیکھ لیا۔خبردار خدا کی خوشنودی اور ناراضگی کا معیار مال اور اولاد کو قرارنہ دینا کہ تم فتنہ کی منزلوں کو نہیں پہچانتے ہو اور تمہیں نہیں معلوم ہے کہ خدا مالداری اور اقتدار سے کس طرح امتحان لیتا ہے۔اس نے صاف اعلان کردیا ہے'' کیا ان لوگوں

۳۷۷

( أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِه مِنْ مالٍ وبَنِينَ - نُسارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْراتِ بَلْ لا يَشْعُرُونَ ) فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَخْتَبِرُ عِبَادَه الْمُسْتَكْبِرِينَ فِي أَنْفُسِهِمْ - بِأَوْلِيَائِه الْمُسْتَضْعَفِينَ فِي أَعْيُنِهِمْ –

تواضع الأنبياء

ولَقَدْ دَخَلَ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ ومَعَه أَخُوه هَارُونُعليه‌السلام - عَلَى فِرْعَوْنَ وعَلَيْهِمَا مَدَارِعُ الصُّوفِ - وبِأَيْدِيهِمَا الْعِصِيُّ فَشَرَطَا لَه إِنْ أَسْلَمَ - بَقَاءَ مُلْكِه ودَوَامَ عِزِّه - فَقَالَ أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هَذَيْنِ يَشْرِطَانِ لِي دَوَامَ الْعِزِّ - وبَقَاءَ الْمُلْكِ - وهُمَا بِمَا تَرَوْنَ مِنْ حَالِ الْفَقْرِ والذُّلِّ - فَهَلَّا أُلْقِيَ عَلَيْهِمَا أَسَاوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ - إِعْظَاماً لِلذَّهَبِ وجَمْعِه - واحْتِقَاراً لِلصُّوفِ ولُبْسِه - ولَوْ أَرَادَ اللَّه سُبْحَانَه لأَنْبِيَائِه - حَيْثُ بَعَثَهُمْ

کا خیال یہ ہے کہ ہم انہیں مال و اولاد کی فراوانی عطا کرکے ان کی نیکیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انہیں کوئی شعورنہیں ہے۔

اللہ اپنے کو اونچا سمجھنے والوں کا امتحان اپنے کمزور قرار دئیے جانے والے اولیاء کے ذریعہ لیا کرتا ہے۔

دیکھو موسیٰ بن عمران(۱) اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے دربار میں اس شان سے داخل ہوئے کہ ان کے بدن پرائون کا پیراہن تھا اور ان کے ہاتھ میں ایک عصا تھا۔ان حضرات نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر اسلام قبول کرلے گا تو اس کے ملک اور اس کی عزت کودوام و بقا عطا کردیں گے۔تو اس نے لوگوں سے کہا '' کیا تم لوگ ان دونوں کے حال پر تعجب نہیں کر رہے ہو جو اس فقرو فاقہ کی حالت میں میرے پاس آئے ہیں اور میرے ملک کو دوام کی ضمانت دے رہے ہیں۔اگر یہ ایسے ہی اونچے ہیں تو ان پر سونے کے کنگن کیوں نہیں نازل ہوئے ؟'' اس کی نظر میںسونا اور اس کی جمع آوری ایک عظیم کارنامہ تھا اور اون کا لباس پہننا ذلت کی علامت تھا۔حالانکہ اگر پروردگار چاہتا تو انبیاء کرام کی بعثت کے ساتھ ہی ان کے لئے سونے

(۱)واقعاً کیاعجیب و غریب منظر رہا ہوگا جب اللہ کے دو مخلص بندے معمولی لباس پہنے ہوئے فرعون کے دربار میں کھڑے ہوں گے اوراسے دین حق کی دعوت دے رہے ہوں گے اور اس سے جزا و انعام کا وعدہ کر رہے ہوں گے اوروہ مسکرا کر درباریوں کی طرف دیکھ رہا ہوگا۔ذرا ان دونوں کی جرأت تودیکھو خدائے وقت کیدعوت بندگی دے رہے ہیں۔ اور پھر حوصلے تو دیکھو۔بوسیدہ لباس کے باوجود انعامات کا وعدہ کر رہے ہیں اور معمولی حیثیت کے ساتھ عذاب الیم سے ڈرا رہے ہیں۔

لیکن جناب موسیٰ نے ان حالات کی کوئی پرواہ نہیں کی اورنہایت سکون و وقار کے ساتھ اپنا پیغام سناتے رہے کہ اللہ والے سلطنت و جبروت سے مرعوب نہیں ہوتے ہیں اور بہترین جہاد یہی ہے کہ سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کردیا جائے اور حق کی آواز کو دبنے نہ دیا جائے ۔

۳۷۸

أَنْ يَفْتَحَ لَهُمْ كُنُوزَ الذِّهْبَانِ - ومَعَادِنَ الْعِقْيَانِ ومَغَارِسَ الْجِنَانِ - وأَنْ يَحْشُرَ مَعَهُمْ طُيُورَ السَّمَاءِ ووُحُوشَ الأَرَضِينَ - لَفَعَلَ - ولَوْ فَعَلَ لَسَقَطَ الْبَلَاءُ وبَطَلَ الْجَزَاءُ،واضْمَحَلَّتِ الأَنْبَاءُ ولَمَا وَجَبَ لِلْقَابِلِينَ أُجُورُ الْمُبْتَلَيْنَ - ولَا اسْتَحَقَّ الْمُؤْمِنُونَ ثَوَابَ الْمُحْسِنِينَ - ولَا لَزِمَتِ الأَسْمَاءُ مَعَانِيَهَا - ولَكِنَّ اللَّه سُبْحَانَه جَعَلَ رُسُلَه أُولِي قُوَّةٍ فِي عَزَائِمِهِمْ - وضَعَفَةً فِيمَا تَرَى الأَعْيُنُ مِنْ حَالَاتِهِمْ - مَعَ قَنَاعَةٍ تَمْلأُ الْقُلُوبَ والْعُيُونَ غِنًى - وخَصَاصَةٍ تَمْلأُ الأَبْصَارَ والأَسْمَاعَ أَذًى

ولَوْ كَانَتِ الأَنْبِيَاءُ أَهْلَ قُوَّةٍ لَا تُرَامُ وعِزَّةٍ لَا تُضَامُ - ومُلْكٍ تُمَدُّ نَحْوَه أَعْنَاقُ الرِّجَالِ وتُشَدُّ إِلَيْه عُقَدُ الرِّحَالِ - لَكَانَ ذَلِكَ أَهْوَنَ عَلَى الْخَلْقِ فِي الِاعْتِبَارِ - وأَبْعَدَ لَهُمْ فِي الِاسْتِكْبَارِ - ولَآمَنُوا عَنْ رَهْبَةٍ قَاهِرَةٍ لَهُمْ أَوْ رَغْبَةٍ مَائِلَةٍ بِهِمْ - فَكَانَتِ النِّيَّاتُ مُشْتَرَكَةً والْحَسَنَاتُ مُقْتَسَمَةً - ولَكِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَرَادَ أَنْ يَكُونَ الِاتِّبَاعُ لِرُسُلِه - والتَّصْدِيقُ بِكُتُبِه

کے خزانے ' طلائے خالص کے معادن ' باغات کے کشت زاروں کے ذروازے کھول دیتا اور ان کے ساتھ فضا میں پرواز کرنے والے پرندے اور زمین کے چوپایوں کو ان کا تابع فرمان بنادیتا۔لیکن ایسا کردیتا تو آزمائش ختم ہو جاتی اور انعامات کا سلسلہ بھی بند ہو جاتا۔اورآسمانی خبریں بھی بیکار و برباد ہو جاتیں۔نہ مصائب کو قبول کرنے والوں کو امتحان دینے والے کا اجر ملتا اورنہ صاحبان ایمان کو نیک کرداروں جیسا انعام ملتا اور نہ الفاظ معانی کا ساتھ دیتے۔

البتہ پروردگار نے اپنے مرسلین کو ارادوں کے اعتبارسے انتہائی صاحب قوت قرار دیا ہے اگرچہ دیکھنے میں حالات کے اعتبار سے بہت کمزور ہیں ان کے پاس وہ قناعت ہے جس نے لوگوں کے دل و نگاہ کو ان کے بے نیازی سے معمور کردیا ہے اور وہ غربت ہے جس کی بنا پر لوگوں کی آنکھوں اور کانوں کو اذیت ہوتی ہے۔

اگر انبیاء کرام ایسی قوت کے مالک ہوتے جس کا ارادہ بھی نہ کیا جا سکے اورایسی عزت کے دارا ہوتے جس کو ذلیل نہ کیا جا سکے اور ایسی سلطنت کے حامل ہوتے جس کی طرف گردنیں اٹھتی ہوں اور سواریوں کے پالان کسے جاتے ہوں تو یہ بات لوگوں کی عبرت حاصل کرنے کے لئے آسان ہوتی اور انہیں استکبار سے بآسانی دور کر سکتی اور سب کے سب قہرآمیز خوف اور لذت آمیز رغبت کی بنا پر ایمان لے آتے۔سب کی نیتیں ایک جیسی ہوتیں اور سب کے درمیان نیکیاں تقسیم ہو جاتیں لیکن اس نے یہ چاہا ہے کہ اس کے رسولوں کا اتباع اور اس کی کتابوں کی

۳۷۹

والْخُشُوعُ لِوَجْهِه - والِاسْتِكَانَةُ لأَمْرِه والِاسْتِسْلَامُ لِطَاعَتِه - أُمُوراً لَه خَاصَّةً لَا تَشُوبُهَا مِنْ غَيْرِهَا شَائِبَةٌ وكُلَّمَا كَانَتِ الْبَلْوَى والِاخْتِبَارُ أَعْظَمَ - كَانَتِ الْمَثُوبَةُ والْجَزَاءُ أَجْزَلَ –

الكعبة المقدسة

أَلَا تَرَوْنَ أَنَّ اللَّه سُبْحَانَه اخْتَبَرَ - الأَوَّلِينَ مِنْ لَدُنْ آدَمَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِلَى الآخِرِينَ مِنْ هَذَا الْعَالَمِ - بِأَحْجَارٍ لَا تَضُرُّ ولَا تَنْفَعُ ولَا تُبْصِرُ ولَا تَسْمَعُ - فَجَعَلَهَا بَيْتَه الْحَرَامَ الَّذِي جَعَلَه لِلنَّاسِ قِيَاماً – ثُمَّ وَضَعَه بِأَوْعَرِ بِقَاعِ الأَرْضِ حَجَراً - وأَقَلِّ نَتَائِقِ الدُّنْيَا مَدَراً - وأَضْيَقِ بُطُونِ الأَوْدِيَةِ قُطْراً - بَيْنَ جِبَالٍ خَشِنَةٍ ورِمَالٍ دَمِثَةٍ - وعُيُونٍ وَشِلَةٍ وقُرًى مُنْقَطِعَةٍ - لَا يَزْكُو بِهَا خُفٌّ ولَا حَافِرٌ ولَا ظِلْفٌ - ثُمَّ أَمَرَ آدَمَعليه‌السلام ووَلَدَه أَنْ يَثْنُوا أَعْطَافَهُمْ نَحْوَه -

تصدیق اور اس کی بارگاہ میں خضوع اوراس کے اوامرکے سامنے فروتنی ۔سب اس کی ذات اقدس سے مخصوص رہیں اور اس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ہونے پائے اور ظاہر ہے کہ جس قدرآزمائش اور امتحان میں شدت ہوگی اس قدراجر و ثواب بھی زیاد ہوگا۔

کیا تم یہ نہیں دیکھتے ہو کہ پروردگار عالم نے آدم کے دور سےآج تک اولین و آخرین سب کا امتحان لیا ہے۔ان پتھروں(۱) کے ذریعہ جن کا بظاہر نہ کوئی نفع ہے اور نہ نقصان ۔نہ ان کے پاس بصارت ہے اور نہ سماعت۔لیکن انہیں سے اپناوہ محترم مکان بنوادیا ہے جسے لوگوں کے قیام کا ذریعہ قراردے دیاہے اور پھر اسے ایسی جگہ قراردیا ہے جو روئے زمین پر انتہائی پتھریلی و بلند زمینوں میں انتہائی مٹی والی۔وادیوں میں اطراف کے اعتبارسے انتہائی تنگ ہے۔اس کے اطراف سخت قسم کے پہاڑ ' نرم قسم کے ریتلے میدان ' کہ پانی والے چشمے اور منتشر قسم کی بستیاں ہیں جہاں نہ اونٹ پرورش پا سکتے ہیں اور نہ گائے اور نہ بکریاں۔

اس کے بعد اس نے آدم اوران کی اولاد کو حکم دے دیا کہ اپنے کاندھوں کو اس کی طرف موڑ دیں اور

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تعمیر خانہ کعبہ کا تعلق جناب ابراہیم سے نہیں ہے بلکہ جناب آدم سے ہے۔سب سے پہلے انہوں نے حکم خدا سے اس کا گھر بنایا اور اس کا طواف کیا اور پھر اپنی اولاد کو طواف کا حکم دیا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ طوفان نوح کے موقع پر اس تعمیر کو بلند کرلیا گیا اور اس کے بعد جناب ابراہیم نے اپنے دور میں اس کی دیواروں کو بلند کرکے ایک مکان کی حیثیت دے دی جس کا سلسلہ آج تک قائم ہے ۔اور ساری دنیا سے مسلمان اس گھر کا طواف کرنے کے لئے آرہے ہیں جب کہ اس کی تعمیری حیثیت لاکھوں مکانوں سے کمتر ہے ۔لیکن مسئلہ اس کی مادی حیثیت کا نہیں ہے مسئلہ اس کی نسبت کا ے جو پروردگار نے اپنی طرف دے دی ہے اور اسے مرجع خلائق بنادیا ہے جس طرح کہ سرکار دوعالم (ص) نے خودمولائے کائنات کو ''انت بمنزلة الکعبة '' کہہ کر مرجع عوام وخواص بنادیا ہے کہ اس سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

ولْيَعْدِلْ بَيْنَ صَوَاحِبَاتِهَا فِي ذَلِكَ وبَيْنَهَا - ولْيُرَفِّه عَلَى اللَّاغِبِ - ولْيَسْتَأْنِ بِالنَّقِبِ والظَّالِعِ - ولْيُورِدْهَا مَا تَمُرُّ بِه مِنَ الْغُدُرِ - ولَا يَعْدِلْ بِهَا عَنْ نَبْتِ الأَرْضِ إِلَى جَوَادِّ الطُّرُقِ - ولْيُرَوِّحْهَا فِي السَّاعَاتِ - ولْيُمْهِلْهَا عِنْدَ النِّطَافِ والأَعْشَابِ - حَتَّى تَأْتِيَنَا بِإِذْنِ اللَّه بُدَّناً مُنْقِيَاتٍ - غَيْرَ مُتْعَبَاتٍ ولَا مَجْهُودَاتٍ - لِنَقْسِمَهَا عَلَى كِتَابِ اللَّه وسُنَّةِ نَبِيِّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَإِنَّ ذَلِكَ أَعْظَمُ لأَجْرِكَ - وأَقْرَبُ لِرُشْدِكَ إِنْ شَاءَ اللَّه

(۲۶)

ومن عهد لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله - وقد بعثه على الصدقة

أَمَرَه بِتَقْوَى اللَّه فِي سَرَائِرِ أَمْرِه وخَفِيَّاتِ عَمَلِه - حَيْثُ لَا شَهِيدَ غَيْرُه ولَا وَكِيلَ دُونَه - وأَمَرَه أَلَّا يَعْمَلَ بِشَيْءٍ مِنْ طَاعَةِ اللَّه فِيمَا ظَهَرَ - فَيُخَالِفَ إِلَى غَيْرِه فِيمَا أَسَرَّ - ومَنْ لَمْ يَخْتَلِفْ سِرُّه وعَلَانِيَتُه وفِعْلُه ومَقَالَتُه - فَقَدْ أَدَّى الأَمَانَةَ وأَخْلَصَ الْعِبَادَةَ.

میں بھی شدت سے کام نہ لے اور اس کے اوردوسری اونٹنیوں کے درمیان عدل و مساوات سے کام لے۔تھکے ماندے اونٹ کو دم لینے کاموقع دے اورجس کے کھر گھس گئے ہوں یا پائوں شکستہ ہوں ان کے ساتھ نرمی کا برتائو کرے۔راستے میں تالاب پڑیں تو انہیں پانی پینے کے لئے لے جائے اور سر سبز راستوں کو چھوڑ کربے آب و گیاہ راستوں پر نہ لے جائے وقتا ً فوقتاً آرام دیتا رہے اور پانی اورسبزہ کے مقامات پر ٹھہرنے کی مہلت دے یہاں تک کہ ہمارے پاس اس عالم میں پہنچیں توحکم خدا سے تندرست و تگڑے ہوں۔تھکے ماندے اوردرماندہ نہ ہوں تاکہ ہم کتاب خدا اورسنت رسول (ص) کے مطابق انہیں تقسیم کرسکیں کہ یہ بات تمہارے لئے بھی اجر عظیم کا باعث اور ہدایت سے قریب تر ہے ۔انشاء اللہ

(۲۶)

آپ کا عہد نامہ

(بعض عمال کے لئے جنہیں صدقات کی جمع آوری کے لئے روانہ فرمایا تھا )

میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ اپنے پوشیدہ اموراورمخفی اعمال میں بھی اللہ سے ڈرتے رہیں جہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا گواہ اورنگراں نہیں وتا ہے اورخبردار ایسا نہ ہو کہ ظاہری معاملات میں خدا کی اطاعت کریں اورمخفی مسائل میں اس کی مخالفت کریں۔اس لئے کہ جس کے ظاہر وباطن اور فعل و قول میں اختلاف نہیں ہوتا ہے وہی امانت الٰہی کا ادا کرنے والا اورعبادت الٰہی میں مخلص ہوتا ہے۔

۵۰۱

وأَمَرَه أَلَّا يَجْبَهَهُمْ ولَا يَعْضَهَهُمْ - ولَا يَرْغَبَ عَنْهُمْ تَفَضُّلًا بِالإِمَارَةِ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّهُمُ الإِخْوَانُ فِي الدِّينِ - والأَعْوَانُ عَلَى اسْتِخْرَاجِ الْحُقُوقِ.

وإِنَّ لَكَ فِي هَذِه الصَّدَقَةِ نَصِيباً مَفْرُوضاً وحَقّاً مَعْلُوماً - وشُرَكَاءَ أَهْلَ مَسْكَنَةٍ وضُعَفَاءَ ذَوِي فَاقَةٍ - وإِنَّا مُوَفُّوكَ حَقَّكَ فَوَفِّهِمْ حُقُوقَهُمْ - وإِلَّا تَفْعَلْ فَإِنَّكَ مِنْ أَكْثَرِ النَّاسِ خُصُوماً يَوْمَ الْقِيَامَةِ،وبُؤْسَى لِمَنْ خَصْمُه عِنْدَ اللَّه الْفُقَرَاءُ والْمَسَاكِينُ - والسَّائِلُونَ والْمَدْفُوعُونَ والْغَارِمُونَ وابْنُ السَّبِيلِ - ومَنِ اسْتَهَانَ بِالأَمَانَةِ ورَتَعَ فِي الْخِيَانَةِ - ولَمْ يُنَزِّه نَفْسَه ودِينَه عَنْهَا - فَقَدْ أَحَلَّ بِنَفْسِه الذُّلَّ والْخِزْيَ فِي الدُّنْيَا - وهُوَ فِي الآخِرَةِ أَذَلُّ وأَخْزَى - وإِنَّ أَعْظَمَ الْخِيَانَةِ خِيَانَةُ الأُمَّةِ - وأَفْظَعَ الْغِشِّ غِشُّ الأَئِمَّةِ والسَّلَامُ.

اور پھر حکم دیتا ہوں کہ خبر دار لوگوں سے برے طریقہ سے پیش نہ آئیں۔اور انہیں پریشان نہ کریں اور نہ ان سے اظہار اقتدار کے لئے کنارہ کشی کریں کہ بہرحال یہ سب بھی دینی بھائی ہیں اورحقوق کی ادائیگی میں مدد کرنے والے ہیں۔

دیکھو ان صدقات میں تمہارا حصہ معین ہے اور تمہارا حق معلوم ہے ۔لیکن فقراء و مساکین اورفاقہ کش افراد بھی اس حق میںتمہارے شریک ہیں۔ہم تمہیں تمہارا پورا حق دینے والے ہیں ۔لہٰذا تمہیں بھی ان کا پورا حق دینا ہوگا کہ اگر ایسا نہیں کروگے تو قیامت کے دن سب سے زیادہ دشمن تمہارے ہوں گے اور سب سے زیادہ بد بختی اسی کے لئے ہے جس کے دشمن بارگاہ الٰہی میں فقرار مساکین(۱) ، سائلین،محرو مین، مقروض اور غربت زدہ مسافر ہوں اور جس شخص نے بھی امانت کو معمولی تصور کیا اورخیانت کی چراگاہ میں داخل ہوگیا اوراپنے نفس اور دین کی خیانت کاری سے نہیں بچایا۔اس نے دنیا میں بھی اپنے کوذلت اور رسوائی کی منزل میں اتار دیا اورآخرت میں تو ذلت و رسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اور یاد رکھو کہ بد ترین خیانت امت کےساتھ خیانت ہے اوربد ترین فریب کاری سربراہ دین کے ساتھ فریب کاری کا برتائو ہے۔

(۱)کاش دنیا کے تمام حکام کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ فقراء و مساکین اس دنیا میں بے آسرا اوربے سہارا ہیں لیکن آخرت میں ان کا بھی والی و وارث موجود ہے اور وہاں کسی صاحب اقتدار کا اقتدار کامآنے والا نہیں ہے۔عدالت الہیہ میں شخصیات کا کوئی اثر نہیں ہے ہر شخص کو اپنے اعمال کاحساب دینا ہوگا اوراس کے مواخذہ اور محاسب کا سامنا کرنا ہوگا۔وہاں نہ کسی کی کرسی کام آسکتی ہے اور نہ کسی کا تخت وتاج۔ افراد کے ساتھ خیانت تو برداشت بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ انفرادی معاملہ ہوتا ہے اور اسے افراد معاف کر سکتے ہیں لیکن قوم و ملت کے ساتھ خیانت ناقابل برداشت ہے کہ اس کی مدعی تمام امت ہوگی اوراتنے بڑے مقدمہ کاسامنا کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں ہے ۔

۵۰۲

(۲۷)

ومن عهد لهعليه‌السلام

إلى محمد بن أبي بكررضي‌الله‌عنه - حين قلده مصر

فَاخْفِضْ لَهُمْ جَنَاحَكَ وأَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ - وابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ وآسِ بَيْنَهُمْ فِي اللَّحْظَةِ والنَّظْرَةِ - حَتَّى لَا يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيْفِكَ لَهُمْ - ولَا يَيْأَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى يُسَائِلُكُمْ مَعْشَرَ عِبَادِه - عَنِ الصَّغِيرَةِ مِنْ أَعْمَالِكُمْ والْكَبِيرَةِ والظَّاهِرَةِ والْمَسْتُورَةِ - فَإِنْ يُعَذِّبْ فَأَنْتُمْ أَظْلَمُ وإِنْ يَعْفُ فَهُوَ أَكْرَمُ.

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ الْمُتَّقِينَ ذَهَبُوا بِعَاجِلِ الدُّنْيَا وآجِلِ الآخِرَةِ - فَشَارَكُوا أَهْلَ الدُّنْيَا فِي دُنْيَاهُمْ - ولَمْ يُشَارِكُوا أَهْلَ الدُّنْيَا فِي آخِرَتِهِمْ - سَكَنُوا الدُّنْيَا بِأَفْضَلِ مَا سُكِنَتْ وأَكَلُوهَا بِأَفْضَلِ مَا أُكِلَتْ - فَحَظُوا مِنَ الدُّنْيَا بِمَا حَظِيَ بِه الْمُتْرَفُونَ - وأَخَذُوا مِنْهَا مَا أَخَذَه الْجَبَابِرَةُ

(۲۷)

آپ کا عہد نامہ

(محمد بن ابی بکرکے نام ۔جب انہیں مصر کا حاکم بنایا گیا )

لوگوں کے سامنے اپنیشانوں کو جھکا دینا اور اپنے برتائوکونرم رکھنا۔کشادہ روئی سے پیش آنا اور نگاہ وہ نظر میں بھی سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا تاکہ بڑے آدمیوں کو یہ خیال نہ پیدا ہو جائے کہ تم ان کے مفاد میں ظلم کر سکتے ہو اور کمزوروں کو تمہارے انصاف کی طرف سے مایوسی نہ ہو جائے ۔پروردگار روز قیامت تمام بندوں سے ان کے تمام چھوٹے اور بڑے ظاہر اورمخفی اعمال کے بارے میں محاسبہ کرے گا۔اس کے بعد اگروہ عذاب کرے گا تو تمہارے ظلم کانتیجہ ہوگا اور اگر معاف کردے گا تو اس کے کرم کا نتیجہ ہوگا۔

بندگان خدا! یادرکھو کہ پرہیز گار افراد دنیا اورآخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہو سکے ۔وہ دنیا میں بہترین انداز(۱) سے زندگی گزارتے رہے۔جو سب نے کھایا اس سے اچھا پاکیزہ کھاناکھایا اور وہتمام لذتیں حاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اوروہ سب کچھ پالیا جو جابر

(۱)بہترین زندگی سے مراد قصر شاہی میں قیام اورلذیذ ترین غذائیں نہیں ہیں ۔بہترین زندگی سے مراد وہ تمام اسباب ہیں جن سے زندگی گزر جائے اور انسان کسی حرام اورناجائز کام میں مبتلا نہ ہو۔

۵۰۳

الْمُتَكَبِّرُونَ - ثُمَّ انْقَلَبُوا عَنْهَا بِالزَّادِ الْمُبَلِّغِ والْمَتْجَرِ الرَّابِحِ - أَصَابُوا لَذَّةَ زُهْدِ الدُّنْيَا فِي دُنْيَاهُمْ - وتَيَقَّنُوا أَنَّهُمْ جِيرَانُ اللَّه غَداً فِي آخِرَتِهِمْ - لَا تُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَةٌ ولَا يَنْقُصُ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنْ لَذَّةٍ - فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه الْمَوْتَ وقُرْبَه - وأَعِدُّوا لَه عُدَّتَه - فَإِنَّه يَأْتِي بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وخَطْبٍ جَلِيلٍ - بِخَيْرٍ لَا يَكُونُ مَعَه شَرٌّ أَبَداً - أَوْ شَرٍّ لَا يَكُونُ مَعَه خَيْرٌ أَبَداً - فَمَنْ أَقْرَبُ إِلَى الْجَنَّةِ مِنْ عَامِلِهَا - ومَنْ أَقْرَبُ إِلَى النَّارِ مِنْ عَامِلِهَا - وأَنْتُمْ طُرَدَاءُ الْمَوْتِ - إِنْ أَقَمْتُمْ لَه أَخَذَكُمْ وإِنْ فَرَرْتُمْ مِنْه أَدْرَكَكُمْ - وهُوَ أَلْزَمُ لَكُمْ مِنْ ظِلِّكُمْ - الْمَوْتُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِيكُمْ والدُّنْيَا تُطْوَى مِنْ خَلْفِكُمْ - فَاحْذَرُوا نَاراً قَعْرُهَا بَعِيدٌ وحَرُّهَا شَدِيدٌ وعَذَابُهَا جَدِيدٌ -

اورمتکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے اس کے بعد وہ زاد راہ لے کر گئے جو منزل تک پہنچا دے اور وہ تجارتکرکے گئے جس میں فائدہ ہی فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اوریہ یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے ۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی۔ بندگان خدا! موت اوراس کے قریب سے ڈرو اور اس کے لئے سرو سامان مہیا کرلو۔کہ وہ ایک عظیم امر اوربڑے حادثہ کے ساتھ آنے والی ہے ۔ایسے خیر کے ساتھ جس میں کوئی شر(۱) نہ ہویا ایسے شر کے ساتھ جس میں کوئی خیر نہ ہو۔جنت یا جہنم کی طرف ان کے لئے عمل کرنے والوں سے زیادہ قریب تر کون ہو سکتا ہے۔تم وہ ہو جس کا موت مسلسل پیچھا کئے ہوئے ہیں۔تم ٹھہرجائو گے تب بھی تمہیں پکڑ لے گی اور فرار کرو گے تب بھی اپنی گرفت میں لے لے گی ۔وہ تمہارے ساتھ تمہارے سایہ سے زیادہ چپکی ہوئی ہے۔اسے تمہاری پیشانیوں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے اور دنیا تمہارے پیچھے سے برابر لپیٹی جارہی ہے۔اس جہنم سے ڈرو جس کی گہرائی بہت دور تک ہے اوراس کی گرمی بے حد شدید ہے اور اس کا عذاب بھی برابر تازہ بہ تازہ ہوتا رہے گا۔

(۱)اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ آخرتمیں یا صرف خیر ہے یا صرف شراور مخلوط اعمال والوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔مقصد صرف یہ ہے کہ آخرت کے ثواب و عذاب کا فلسفہ یہی ہے کہ اس میں کسی طرح کا اختلاط و امتزاج نہیں ہے۔دنیا کے ہر آرام میں تکلیف شامل ہے اور ہر تکلیف میں آرام کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہے لیکن آخرت میں عذاب کا ایک لمحہ بھی وہ ہے جس میں کسی راحت کا تصور نہیں ہے اور ثواب کا ایک لمحہ بھی وہ ہے جس میں کسی تکلیف کا کوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس عذاب سے ڈرے اوراس ثواب کا انتظام کرے ۔

۵۰۴

دَارٌ لَيْسَ فِيهَا رَحْمَةٌ - ولَا تُسْمَعُ فِيهَا دَعْوَةٌ ولَا تُفَرَّجُ فِيهَا كُرْبَةٌ - وإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ يَشْتَدَّ خَوْفُكُمْ مِنَ اللَّه - وأَنْ يَحْسُنَ ظَنُّكُمْ بِه فَاجْمَعُوا بَيْنَهُمَا - فَإِنَّ الْعَبْدَ إِنَّمَا يَكُونُ حُسْنُ ظَنِّه بِرَبِّه - عَلَى قَدْرِ خَوْفِه مِنْ رَبِّه - وإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ ظَنّاً بِاللَّه أَشَدُّهُمْ خَوْفاً لِلَّه.

واعْلَمْ يَا مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ - أَنِّي قَدْ وَلَّيْتُكَ أَعْظَمَ أَجْنَادِي فِي نَفْسِي أَهْلَ مِصْرَ - فَأَنْتَ مَحْقُوقٌ أَنْ تُخَالِفَ عَلَى نَفْسِكَ - وأَنْ تُنَافِحَ عَنْ دِينِكَ - ولَوْ لَمْ يَكُنْ لَكَ إِلَّا سَاعَةٌ مِنَ الدَّهْرِ - ولَا تُسْخِطِ اللَّه بِرِضَا أَحَدٍ مِنْ خَلْقِه - فَإِنَّ فِي اللَّه خَلَفاً مِنْ غَيْرِه - ولَيْسَ مِنَ اللَّه خَلَفٌ فِي غَيْرِه.

صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا الْمُؤَقَّتِ لَهَا - ولَا تُعَجِّلْ وَقْتَهَا لِفَرَاغٍ - ولَاتُؤَخِّرْهَا عَنْ وَقْتِهَا لِاشْتِغَالٍ - واعْلَمْ أَنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ عَمَلِكَ تَبَعٌ لِصَلَاتِكَ.

ومِنْه - فَإِنَّه لَا سَوَاءَ إِمَامُ الْهُدَى وإِمَامُ الرَّدَى - ووَلِيُّ النَّبِيِّ وعَدُوُّ النَّبِيِّ - ولَقَدْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِنِّي لَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي مُؤْمِناً

وہ گھر ایسا ہے جہاں نہ رحمت کا گذر ہے اور نہ وہاں کوئی فریاد سنی جاتی ہے اور نہ کسی رنج و غم کی کشائش کا کوئی امکان ہے اگر تم لوگ یہ کرس کتے ہو کہ تمہارے دل میں خوف خدا شدید ہو جائے اورتمہیں اس سے حسن ظن حاصل ہو جائے تو ان دونوں کوجمع کرلو کہ بندہ کا حسن ظن اتنا ہی ہوتا ہے جتناخوف خدا ہوتاہے اوربہترین حسن ظن رکھنے والا وہی ہے جس کے دل میں شدید ترین خوف خدا پایا جاتا ہو ۔

محمد بن ابی بکر ! یاد رکھو کہ میں نے تم کو اپنے بہترین لشکر۔اہل مصر پر حاکم قراردیاہے ۔اب تم سے مطالبہ یہ ہے کہ اپنے نفس کی مخالفت کرنااور اپنے دین کی حفاظت کرنا چاہے تمہارے لئے دنیا میں صرف ایک ہی ساعت باقی رہ جائے اور کسی مخلوق کو خوش کرکے خالق کوناراض نہ کرنا کہ خدا ہر ایک کے بدلے کام آسکتا ہے لیکن اس کے بدلے کوئی کام نہیں آسکتا ہے۔

نماز اس کے مقررہ اوقات میں ادا کرنا۔نہ ایسا ہو کہ فرصت حاصل کرنے کے لئے پہلے ادا کرلو اور نہ ایسا ہو کہ مشغولیت کی بنا پر تاخیر کردو۔یاد رکھو کہ تمہارے ہر عمل کو نماز کا پابند ہونا چاہیے ۔

یاد رکھو کہ امام ہدایت اور پیشوا ئے ہلاکت ایک جیسے نہیں ہو سکتے ہیں۔نبی کا دوست اور دشمن یکساں نہیں ہوتا ہے۔رسول اکرم (ص) نے خود مجھ سے فرمایا ہے کہ ''میں اپنی امت کے بارے میں نہ کسی مومن سے خوفزدہ

۵۰۵

ولَا مُشْرِكاً - أَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَمْنَعُه اللَّه بِإِيمَانِه - وأَمَّا الْمُشْرِكُ فَيَقْمَعُه اللَّه بِشِرْكِه - ولَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ كُلَّ مُنَافِقِ الْجَنَانِ - عَالِمِ اللِّسَانِ - يَقُولُ مَا تَعْرِفُونَ ويَفْعَلُ مَا تُنْكِرُونَ.

(۲۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية جوابا قال الشريف: وهو من محاسن الكتب

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَانِي كِتَابُكَ - تَذْكُرُ فِيه اصْطِفَاءَ اللَّه مُحَمَّداً صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لِدِينِه - وتَأْيِيدَه إِيَّاه لِمَنْ أَيَّدَه مِنْ أَصْحَابِه - فَلَقَدْ خَبَّأَ لَنَا الدَّهْرُ مِنْكَ عَجَباً - إِذْ طَفِقْتَ تُخْبِرُنَا بِبَلَاءِ اللَّه تَعَالَى عِنْدَنَا - ونِعْمَتِه عَلَيْنَا فِي نَبِيِّنَا - فَكُنْتَ فِي ذَلِكَ كَنَاقِلِ التَّمْرِ إِلَى هَجَرَ - أَوْ دَاعِي مُسَدِّدِه إِلَى النِّضَالِ - وزَعَمْتَ أَنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ فِي الإِسْلَامِ فُلَانٌ وفُلَانٌ -

ہوں اورنہ مشرک سے۔مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اورمشرک کو اس کے شرک کی بنا پرمغلوب کردے گا سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم ہوں اوردل کے منافق کہتے وہی ہیں جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہ ہیں جسے تم برا سمجھتے ہو۔

(۲۸)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے خط کے جواب میں جو بقول سید رضی آپ کا بہترین خط)

امابعد!میرے پاس تمہارا خطآیا ہےجدجسےتم نےرسولاکرم کے دین خداکےلئےمنتخب ہونےاورآپکے پروردگارکی طرفسے اصحاب کےذریعہ مویدہونےکاذکرکیاہےلیکن یہ توایک بڑی عجیب و غریب بات ہےجو زمانےنےتمہارےطرف چھپا کررکھی تھی کہ تم ہم کو ان احسانات کی اطلاع دے رہے ہو جو پروردگارنےہمارےہی ساتھ کئے ہیں اوراس نعمت کی خبردےرہےہوجو ہمارےہی پیغمبر(ص) کوملی ہےگویاکہ تم مقام ہجرکی طرف خرمےبھیج رہےہویا استادکو تیراندازی کی دعوت دےرہےہواسکےبعدتمہاراخیال ہےکہ فلاں(۱)

(۱)معاویہ نے یہ خط ابو امامہ باہلی کے ذریعہ بھیجا تھا اور اس میں متعدد مسائل کی طرف اشارہ کیا تھا۔سب سے بڑا مسئلہ حضرات شیخین کے فضائل کا تھا کہ حضرت علی کے ساتھ اکثریت انہیں افراد کی تھی جو آپ کو سلسلہ سے چوتھا خلیفہ تسلیم کرتے تھے۔اب اگر آپ ان کے باے میں اپنی صحیح رائے کا اظہار کردیں تو قوم بد ظن ہو جائے گی اور معاشرہ میں ایک نیا فتنہ کھڑا ہو جائے گا اوراگر ان کے فضائل کا اقرار کرلیں تو گویا ان تمام کلمات کی تکذیب کردی جو کل تک اپنی فضیلت یا مظلومیت کے بارے میں بیان کرتے تھے حضرت نے اس حساس صورت حالکا بخوبی اندازہ کرلیا اورواضح جواب دینے کے بجائے معاویہ کو اس مسئلہ سے الگ رہنے کی تلقین فرمائی اور سے اس کی اوقات سے بھی با خبر کردیا کہ یہ مسئلہ صدر اسلام کا ہے اور اس وقت تو تمہارا باپ بھی مسلمان نہیں تھا تمہارا کیا ذکر ہے؟ لہٰذا ایسے مسائل میں تمہیں رائے دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔البتہ یہ بہر حال ثابت ہو جاتا ہے کہ ان فضائل میں تمہارے خاندان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

۵۰۶

فَذَكَرْتَ أَمْراً إِنْ تَمَّ اعْتَزَلَكَ كُلُّه - وإِنْ نَقَصَ لَمْ يَلْحَقْكَ ثَلْمُه - ومَا أَنْتَ والْفَاضِلَ والْمَفْضُولَ والسَّائِسَ والْمَسُوسَ - ومَا لِلطُّلَقَاءِ وأَبْنَاءِ الطُّلَقَاءِ - والتَّمْيِيزَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ - وتَرْتِيبَ دَرَجَاتِهِمْ وتَعْرِيفَ طَبَقَاتِهِمْ - هَيْهَاتَ لَقَدْ حَنَّ قِدْحٌ لَيْسَ مِنْهَا - وطَفِقَ يَحْكُمُ فِيهَا مَنْ عَلَيْه الْحُكْمُ لَهَا - أَلَا تَرْبَعُ أَيُّهَا الإِنْسَانُ عَلَى ظَلْعِكَ - وتَعْرِفُ قُصُورَ ذَرْعِكَ - وتَتَأَخَّرُ حَيْثُ أَخَّرَكَ الْقَدَرُ - فَمَا عَلَيْكَ غَلَبَةُ الْمَغْلُوبِ ولَا ظَفَرُ الظَّافِرِ.

وإِنَّكَ لَذَهَّابٌ فِي التِّيه رَوَّاغٌ عَنِ الْقَصْدِ - أَلَا تَرَى غَيْرَ مُخْبِرٍ لَكَ - ولَكِنْ بِنِعْمَةِ اللَّه أُحَدِّثُ - أَنَّ قَوْماً اسْتُشْهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّه تَعَالَى مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - ولِكُلٍّ فَضْلٌ - حَتَّى إِذَا اسْتُشْهِدَ شَهِيدُنَا قِيلَ سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ - وخَصَّه رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِسَبْعِينَ تَكْبِيرَةً عِنْدَ صَلَاتِه عَلَيْه - أَولَا تَرَى أَنَّ قَوْماً قُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّه - ولِكُلٍّ

اورفلاں افراد سے بہتر تھے تو یہ تو ایسی بات ہے کہ اگر ایسی بات ہے کہ اگر صیح بھی ہو تو اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر غلط بھی ہو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔تمہارا اس فاضل و مفضول، حاکم و رعایا کے مسئلہ سے کیاتعلق ہے۔بھلا آزاد کردہ اور ان کی اولاد کومہاجرین اولین کے درمیان امتیاز قائم کرنے۔ان کے درجات کا تعین کرنے اور ان کے طبقات کے پہنچوانے کا حق کیا ہے(یہ تو اس وقت مسلمان بھی نہیں تھے ) افسوس کہ جوئے کے تیروں کے ساتھ باہر کے تیر بھی آواز نکالنے لگے اور مسائل میں و لوگ بھی کرنے لگے جن کے خلاف خود ہی فیصلہ ہونے والا ہے۔اے شخص تو اپنے لنگڑے پن کو دیکھ کر اپنی حد پرٹھہرتاکیوں نہیں ہے اور اپنی کوتاہ دستی کو سمجھتا کیوں نہیں ہے اور جہاں قضا و قدر نے تجھے رکھ دیا ہے وہیں پیچھے ہٹ کرجاتا کیوں نہیں ہے۔تجھے کسی مغلوب کی شکست یا غالب کی فتح سے کیا تعلق ہے۔

تو تو ہمیشہ گمراہیوں میں ہاتھ پائوں مارنے والا اوردرمیانی راہسے انحراف کرنے والا ہے۔میں تجھے با خبر نہیں کررہا ہوں بلکہ نعمتخدا کا تذکرہ کر رہا ہوں ورنہ کیا تجھے نہیں معلوم ہے کہ مہاجرین وانصار کی ایک بڑی جماعت نے راہ خدا میں جانیں دی ہیں اور سب صاحبان فضل ہیں لیکن جب ہمارا کوئی شہید ہوا ہے تو اسے سید الشہدا کہا گیا ہے اور رسول اکرم (ص) نے اس کے جنازہ کی نمازمیں ستر تکبیریں کہی ہیں۔اسی طرح تجھے معلوم ہے کہ راہ خدا میں بہت سوں کے ہاتھ کٹے ہیں اورصاحبان

۵۰۷

فَضْلٌ - حَتَّى إِذَا فُعِلَ بِوَاحِدِنَا مَا فُعِلَ بِوَاحِدِهِمْ - قِيلَ الطَّيَّارُ فِي الْجَنَّةِ وذُو الْجَنَاحَيْنِ - ولَوْ لَا مَا نَهَى اللَّه عَنْه مِنْ تَزْكِيَةِ الْمَرْءِ نَفْسَه - لَذَكَرَ ذَاكِرٌ فَضَائِلَ جَمَّةً تَعْرِفُهَا قُلُوبُ الْمُؤْمِنِينَ - ولَا تَمُجُّهَا آذَانُ السَّامِعِينَ - فَدَعْ عَنْكَ مَنْ مَالَتْ بِه الرَّمِيَّةُ - فَإِنَّا صَنَائِعُ رَبِّنَا والنَّاسُ بَعْدُ صَنَائِعُ لَنَا - لَمْ يَمْنَعْنَا قَدِيمُ عِزِّنَا - ولَا عَادِيُّ طَوْلِنَا عَلَى قَوْمِكَ أَنْ خَلَطْنَاكُمْ بِأَنْفُسِنَا - فَنَكَحْنَا وأَنْكَحْنَا - فِعْلَ الأَكْفَاءِ ولَسْتُمْ هُنَاكَ - وأَنَّى يَكُونُ ذَلِكَ ومِنَّا النَّبِيُّ ومِنْكُمُ الْمُكَذِّبُ - ومِنَّا أَسَدُ اللَّه ومِنْكُمْ أَسَدُ الأَحْلَافِ - ومِنَّا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ومِنْكُمْ صِبْيَةُ النَّارِ - ومِنَّا خَيْرُ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ومِنْكُمْ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ - فِي كَثِيرٍ مِمَّا لَنَا وعَلَيْكُمْ.

فَإِسْلَامُنَا قَدْ سُمِعَ وجَاهِلِيَّتُنَا لَا تُدْفَعُ - وكِتَابُ اللَّه يَجْمَعُ لَنَا مَا شَذَّ عَنَّا -

شرف ہیں لیکن جب ہمارے آدمی کے ہاتھ کاٹے گئے تواسے جنت میں طیار اورذوالجناحین بنادیا گیا اور اگر پروردگار نے اپنے منہ سے اپنی تعریف سے منع نہ کیا ہو تو بیان کرنے والا بے شمار فضائل بیان کرتا جنہیں صاحبان ایمان کے دل پہچانتے ہیں اور سننے والوں کے کان بھی الگ نہیں کرنا چاہتے چھوڑو ان کاذکر جن کا تیرنشانہسے خطا کرنے والا ہے۔ہمیں دیکھو جو پروردگار کے براہ راست ساختہ پر داختہ ہیں اورباقی لوگ ہمارے احسانات کا نتیجہ ہیں ہماری قدیمی عزت اور تمہاری قوم پر برتری ہمارے لئے اس امر سے مانع نہیں ہوئی کہ ہم نے تم کو اپنے ساتھ شامل کرلیا تو تم سے رشتے(۱) لئے اور تمہیں رشتے دئیے جو عام سے برابر کے لوگوں میں کیا جاتا ہے اور تم ہمارے برابر کے نہیں ہو اور ہو بھی کس طرح سکتے ہو جب کہ ہم میں سے رسول اکرم (ص) ہیں اور تم میں سے ان کی تکذیب کرنے والا۔ہم میں اسد اللہ ہیں اور تم میں اسد الاحلاف۔ہم میں سرداران جوانان جنت ہیں اورتم میں جہنمی لڑکے۔ہم میں سیدة نساء العالمین ہیں اور تم میں حمالتہ الحطب اور ایسی بے شمار چیزیں ہی جوہمارے حق میں ہیں اور تمہارے خلاف۔ ہمارا اسلام بھی مشہور ہے اور ہمارا قبل اسلام کاشرف بھی نا قابل انکار ہے اور کتاب خدا نے ہمارے منتشر اوصاف کو جمع کردیا ہے۔یہ کہہ کر کہ

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اپنے ہاتھ کی پروردہ لڑکیوں کا عقد بنی امیہ میں کردیا اور ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے خود عقد کرلیا حالانکہ عام طور سے لوگ رشتوں کے لئے برابری تلاش کرتے ہیں۔مگر چونکہ اسلام نے ظاہری کلمہ کو کافی قراردیا ہے لہٰذا ہم نے بھی رشتہ داری قائم کرلی او ر تمہاری اوقات کا خیال نہیں کیا تاکہ مذہب سماج پر حاکم رہے اور سماج مذہب پرحکومت نہ کرنے پائے ۔

۵۰۸

وهُوَ قَوْلُه سُبْحَانَه وتَعَالَى -( وأُولُوا الأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ الله ) - وقَوْلُه تَعَالَى:( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوه - وهذَا النَّبِيُّ والَّذِينَ آمَنُوا - والله وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ) - فَنَحْنُ مَرَّةً أَوْلَى بِالْقَرَابَةِ وتَارَةً أَوْلَى بِالطَّاعَةِ - ولَمَّا احْتَجَّ الْمُهَاجِرُونَ عَلَى الأَنْصَارِ - يَوْمَ السَّقِيفَةِ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَجُوا عَلَيْهِمْ - فَإِنْ يَكُنِ الْفَلَجُ بِه فَالْحَقُّ لَنَا دُونَكُمْ - وإِنْ يَكُنْ بِغَيْرِه فَالأَنْصَارُ عَلَى دَعْوَاهُمْ. وزَعَمْتَ أَنِّي لِكُلِّ الْخُلَفَاءِ حَسَدْتُ وعَلَى كُلِّهِمْ بَغَيْتُ - فَإِنْ يَكُنْ ذَلِكَ كَذَلِكَ فَلَيْسَتِ الْجِنَايَةُ عَلَيْكَ - فَيَكُونَ الْعُذْرُ إِلَيْكَ. وتِلْكَ شَكَاةٌ ظَاهِرٌ عَنْكَ عَارُهَا

وقُلْتَ إِنِّي كُنْتُ أُقَادُ - كَمَا يُقَادُ الْجَمَلُ الْمَخْشُوشُ حَتَّى أُبَايِعَ؛ ولَعَمْرُ اللَّه لَقَدْ أَرَدْتَ أَنْ تَذُمَّ فَمَدَحْتَ - وأَنْ تَفْضَحَ فَافْتَضَحْتَ - ومَا عَلَى الْمُسْلِمِ مِنْ غَضَاضَةٍ فِي أَنْ يَكُونَ مَظْلُوماً - مَا لَمْ يَكُنْ شَاكَّاً فِي دِينِه

''قرابت دار بعض بعض کے لئے اولیٰ ہیں '' اور یہ کہہ کر کہ '' ابراہیم کے لئے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا اتباع کیا ہے اور پیغمبر (ص) اور صاحبان ایمان اور اللہ صاحبان ایمان کاولی ہے '' یعنی ہم قرابت کے اعتبارسے بھی اولیٰ ہیں اوراطاعت و اتباع کے اعتبار سے بھی اس کے بعد جب مہاجرین نے انصار کے خلاف روز سقیفہ قرابت پیغمبر(ص) سے استدلال کیا اور کامیاب بھی ہوگئے ۔تواگر کامیابی کا راز یہی ہے تو حق ہمارے ساتھ ہے نہ کہ تمہارے ساتھ اوراگر کوئی اور دلیل ہے تو انصار کا دعویٰ باقی ہے۔

تمہارا خیال ہے کہ میں تمام خلفاء سے حسد رکھتا ہوں اورمیں نے سب کے خلاف بغاوت کی ہے تو اگر یہ صحیح بھی ہے تو اس کاظلم تم پر نہیں ہے کہ تم سے معذرت کی جائے ( یہ وہ غلطی ہے جس سے تم پر کوئی حرف نہیں آتا) بقول شاعر

اورتمہارا یہ کہنا کہ میں اس طرح کھینچا جا رہا تھا جس طرح نکیل ڈال کر اونٹ کو کھینچا جاتا ہے تاکہ مجھ سے بیعت لی جائے تو خدا کی قس تم نے میری مذمت کرنا چاہی اور نا دانستہ طور پر تعریف کر بیٹھے اور مجھے رسوا کرنا چاہا تھا مگرخودرسوا ہوگئے ۔

مسلمان کے لئے اس بات میں کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ مظلوم ہو جائے جب تک کہ وہ دین کے معاملہ میں شک میں مبتلا نہ ہو اور اس کا یقین شبہ میں نہ پڑ

۵۰۹

ولَا مُرْتَاباً بِيَقِينِه - وهَذِه حُجَّتِي إِلَى غَيْرِكَ قَصْدُهَا - ولَكِنِّي أَطْلَقْتُ لَكَ مِنْهَا بِقَدْرِ مَا سَنَحَ مِنْ ذِكْرِهَا.

ثُمَّ ذَكَرْتَ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِي وأَمْرِ عُثْمَانَ - فَلَكَ أَنْ تُجَابَ عَنْ هَذِه لِرَحِمِكَ مِنْه - فَأَيُّنَا كَانَ أَعْدَى لَه وأَهْدَى إِلَى مَقَاتِلِه أَمَنْ بَذَلَ لَه نُصْرَتَه فَاسْتَقْعَدَه واسْتَكَفَّه - أَمْ مَنِ اسْتَنْصَرَه فَتَرَاخَى عَنْه وبَثَّ الْمَنُونَ إِلَيْه - حَتَّى أَتَى قَدَرُه عَلَيْه - كَلَّا واللَّه لَاَّه( قَدْ يَعْلَمُ الله الْمُعَوِّقِينَ مِنْكُمْ - والْقائِلِينَ لإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا - ولا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا ) -.

ومَا كُنْتُ لأَعْتَذِرَ مِنْ أَنِّي كُنْتُ أَنْقِمُ عَلَيْه أَحْدَاثاً - فَإِنْ كَانَ الذَّنْبُ إِلَيْه إِرْشَادِي وهِدَايَتِي لَه - فَرُبَّ مَلُومٍ لَا ذَنْبَ لَه -

وقَدْ يَسْتَفِيدُ الظِّنَّةَ الْمُتَنَصِّحُ

ومَا أَرَدْتُ( إِلَّا الإِصْلاحَ مَا اسْتَطَعْتُ - وما تَوْفِيقِي إِلَّا بِالله عَلَيْه تَوَكَّلْتُ وإِلَيْه أُنِيبُ )

وذَكَرْتَ أَنَّه لَيْسَ لِي ولأَصْحَابِي عِنْدَكَ

جائے۔میری دلیل اصل میں دوسروں کے مقابلہ میں ہے لیکن جس قدر مناسب تھا میں نے تم سے بھی بیان کردیا۔

اس کے بعد تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ذکرکیا ہے تو اس میں تمہارا حق ہے کہ تمہیں جواب دیا جائے اس لئے کہ تم ان کے قرابت دار ہو لیکن یہ سچ سچ بتائو کہ ہم دونوں میں ان کا زیادہ دشمن کون تھا اورکس نے ان کے قتل کا سامان فراہم کیا تھا۔اسنے جس نے نصرت کی پیشکش کی اوراسے بٹھا دیا گیا اور روکدیا گیا یا اسنے جس سے نصرت کا مطالبہ کیاگیا اور اس نے سستی برتی اورموت کا رخ ان کی طرف موڑ دیا۔یہاں تک کہ قضا و قدرنے اپنا کام پورا کردیا۔خدا کی قسم میں ہرگز اس کا مجرم نہیں ہوں اور اللہ ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو روکنے والے تھے اور اپنے بھائیوں سے کہہ رہے تھے کہ ہماری طرف چلے آئو اور جنگ میں بہت کم حصہ لینے والے تھے۔

میں اس بات کی معذرت نہیں کر سکتا کہ میں ان کی بدعتوں پر برابر اعتراض کر رہا تھا کہ اگر یہ ارشاد اور ہدایت بھی کوئی گناہ تھا تو بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی بے گناہ بھی ملامت کی جاتی ہے اور ''کبھی کبھی واقعی نصیحت کرنے والے بھی بد نام ہو جاتے ہیں ' ' میں نے اپنے امکان بھر اصلاح کی کوشش کی اور میری توفیق صرف اللہ کے سہارے ہے۔اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میری توجہ ہے ''

تم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تمہارے پاس

۵۱۰

إِلَّا السَّيْفُ - فَلَقَدْ أَضْحَكْتَ بَعْدَ اسْتِعْبَارٍ مَتَى أَلْفَيْتَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنِ الأَعْدَاءِ نَاكِلِينَ - وبِالسَّيْفِ مُخَوَّفِينَ؟! فَلَبِّثْ قَلِيلًا يَلْحَقِ الْهَيْجَا حَمَلْ

فَسَيَطْلُبُكَ مَنْ تَطْلُبُ - ويَقْرُبُ مِنْكَ مَا تَسْتَبْعِدُ - وأَنَا مُرْقِلٌ نَحْوَكَ فِي جَحْفَلٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - والتَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ - شَدِيدٍ زِحَامُهُمْ سَاطِعٍ قَتَامُهُمْ - مُتَسَرْبِلِينَ سَرَابِيلَ الْمَوْتِ - أَحَبُّ اللِّقَاءِ إِلَيْهِمْ لِقَاءُ رَبِّهِمْ - وقَدْ صَحِبَتْهُمْ ذُرِّيَّةٌ بَدْرِيَّةٌ وسُيُوفٌ هَاشِمِيَّةٌ - قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نِصَالِهَا - فِي أَخِيكَ وخَالِكَ وجَدِّكَ وأَهْلِكَ -( وما هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ )

(۲۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل البصرة

میرے اور میرے اصحاب کے لئے(۱) تلوار کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو یہ کہہ کر تم نے روتے کو ہنسا دیا ہے بھلا تم نے اولاد عبدالمطلب کو کب دشمنوں سے پیچھے ہٹتے یا تلوار سے خوفزدہ ہوتے دیکھا ہے ؟

''ذرا ٹھہر جائو کہ حمل میدان جنگ تک پہنچ جائے ''

عنقریب جسے تم ڈھونڈ رہے ہو وہ تمہیں خود ہی تلاش کرلے گا اور جس چیز کو بعید خیال کر رہے ہو اسے قریب کردے گا۔اب میں تمہاری طرف مہاجرین و انصار کے لشکر کے ساتھ بہت جلد آرہا ہوں اور میرے ساتھ وہ بھی ہیں جو ان کے نقش قدم پر ٹھیک طریقہ سے چلنے والے ہیں۔ان کا حملہ شدید ہوگااور غبار جنگ ساری فضا میں منتشر ہوگا۔یہ موت کا لباس پہنے ہوں گے اور ان کی نظر میں بہترین ملاقات پروردگار کی ملاقات ہوگی۔ان کے ساتھ اصحاب بدر کی ذریت اوربنی ہاشم کی تلواریں ہوں گی۔تم نے ان کی تلواروں کی کاٹ اپنے بھائی ماموں ،نانا اور خاندان والوں میں دیکھ لی ہے اور وہ ظالموں سے اب بھی دور نہیں ہے ''

(۲۹)

آپ کا مکتوب گرامی

(اہل بصرہ کے نام)

(۱)قیامت کی بات ہے کہ معاویہ تلوار کی دھمکی صاحب ذوالفقار کو دے رہا ہے جب کہ اسے معلوم ہے کہ علی اس بہادر کا نام ہے جس نے دس برس کی عمرمیں تمام کفارو مشرکین سے رسول اکرم (ص) کو بچانے کاوعدہ کیاتھا اور ہجرت کی رات تلوار کی چھائوں میں نہایت سکون و اطمینان سے سویا ہے اور بدرکے میدان میں تمام روسا ء کفار و مشرکین اور زعماء بنی امیہ کا تن تنہاخاتمہ کردیا ہے۔ایں چہ بوالعجی است

۵۱۱

وقَدْ كَانَ مِنِ انْتِشَارِ حَبْلِكُمْ وشِقَاقِكُمْ - مَا لَمْ تَغْبَوْا عَنْه - فَعَفَوْتُ عَنْ مُجْرِمِكُمْ ورَفَعْتُ السَّيْفَ عَنْ مُدْبِرِكُمْ - وقَبِلْتُ مِنْ مُقْبِلِكُمْ - فَإِنْ خَطَتْ بِكُمُ الأُمُورُ الْمُرْدِيَةُ - وسَفَه الآرَاءِ الْجَائِرَةِ إِلَى مُنَابَذَتِي وخِلَافِي - فَهَا أَنَا ذَا قَدْ قَرَّبْتُ جِيَادِي ورَحَلْتُ رِكَابِي - ولَئِنْ أَلْجَأْتُمُونِي إِلَى الْمَسِيرِ إِلَيْكُمْ - لأُوقِعَنَّ بِكُمْ وَقْعَةً - لَا يَكُونُ يَوْمُ الْجَمَلِ إِلَيْهَا إِلَّا كَلَعْقَةِ لَاعِقٍ - مَعَ أَنِّي عَارِفٌ لِذِي الطَّاعَةِ مِنْكُمْ فَضْلَه - ولِذِي النَّصِيحَةِ حَقَّه - غَيْرُ مُتَجَاوِزٍ مُتَّهَماً إِلَى بَرِيٍّ ولَا نَاكِثاً إِلَى وَفِيٍّ.

(۳۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَاتَّقِ اللَّه فِيمَا لَدَيْكَ - وانْظُرْ فِي حَقِّه عَلَيْكَ - وارْجِعْ إِلَى مَعْرِفَةِ مَا

تمہاری تفرقہ(۲) پردازی اورمخالفت کا جو عالم تھا وہ تم سے مخفی نہیں ہے لیکن میں نے تمہارے مجرموں کو معاف کردیا۔بھاگنے والوں سے تلوار اٹھالی۔آنے والوں کو بڑھ کرگلے لگالیا۔اب اس کے بعد بھی اگر تمہاری تباہ کن راء اور تمہارے ظالمانہ افکار کی حماقت تمہیں میری مخالفت اورعہد شکنی پر آمادہ کر رہی ہے تو یاد رکھو کہمیں نے گھوڑوں کو قریب کرلیا ہے۔اونٹوں پر سامان بار کرلیا ہے اوراگر تم نے گھرسے نکلنے پر مجبور کردیا تو ایسی معرکہ آرائی کروں گا کہ جنگ جمل فقط زبان کی چاٹ رہ جائے گی۔

میں تمہارے اطاعت گذاروں کے شرف کو پہچانتا ہوں اورمخلصین کے حق کو جانتا ہوں ۔میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ مجرم سے آگے بڑھ کربے خطا پر حملہ کردوں یا عہد شکن سے تجاوز کرکے وفادار سے بھی تعرض کروں۔

(۳۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

جو کچھ سازو سامان تمہارے پاس ہے اس میں اللہ سے ڈرو اور جواس کاحق تمہارے اوپر ہے اس پر نگاہ رکھو۔ اس حق کی معرفت کی طرف پلٹ آئو جس سے نا

(۱) پہلے اہل بصرہنے وفاداری کا اعلان کیا تو حضرت نے عثمان بن حنیف کو عامل بنا کربھیج دیا ۔اس کے بعد عائشہ وارد ہوئیں تواکثریت منحرف ہوگئی اور جنگ جمل کی نوبت آگئی لیکن آپ نے عام طور سے سب کو معاف کردیا اور عائشہ بھی مدینہ واپس چلی گئیں۔لیکن معاویہ نے پھر دوبارہ ورغلانا شروع کردیا تو آپ نے یہ تنبیہی خط روانہ فرمایا کہ جنگ جمل تو صرف مزہ چکھانے کے لئے تھی جنگ تو اب ہونے والی ہے۔لہٰذا ہوش میںآجائو اورمعاویہ کے بہکانے پر راہ حق سے انحراف نہ کرو۔

۵۱۲

لَا تُعْذَرُ بِجَهَالَتِه - فَإِنَّ لِلطَّاعَةِ أَعْلَاماً وَاضِحَةً - وسُبُلًا نَيِّرَةً ومَحَجَّةً نَهْجَةً وغَايَةً مُطَّلَبَةً - يَرِدُهَا الأَكْيَاسُ ويُخَالِفُهَا الأَنْكَاسُ - مَنْ نَكَبَ عَنْهَا جَارَ عَنِ الْحَقِّ وخَبَطَ فِي التِّيه - وغَيَّرَ اللَّه نِعْمَتَه وأَحَلَّ بِه نِقْمَتَه - فَنَفْسَكَ نَفْسَكَ فَقَدْ بَيَّنَ اللَّه لَكَ سَبِيلَكَ - وحَيْثُ تَنَاهَتْ بِكَ أُمُورُكَ - فَقَدْ أَجْرَيْتَ إِلَى غَايَةِ خُسْرٍ ومَحَلَّةِ كُفْرٍ - فَإِنَّ نَفْسَكَ قَدْ أَوْلَجَتْكَ شَرّاً وأَقْحَمَتْكَ غَيّاً - وأَوْرَدَتْكَ الْمَهَالِكَ وأَوْعَرَتْ عَلَيْكَ الْمَسَالِكَ.

(۳۱)

ومن وصية لهعليه‌السلام

للحسن بن عليعليه‌السلام - كتبها إليه بحاضرين عند انصرافه من صفين:

مِنَ الْوَالِدِ الْفَانِ الْمُقِرِّ لِلزَّمَانِ الْمُدْبِرِ الْعُمُرِ - الْمُسْتَسْلِمِ لِلدُّنْيَا

واقفیت قابل معافی نہیں ہے۔دیکھو اطاعت کے نشانات واضح، راستے روشن ، شاہراہیں سیدھی ہیں اور منزل مقصود سامنے ہے جس پر تمام عقل والے وارد ہوتے ہیں۔اور پست فطرت اس کی مخالفت کرتے ہیں۔جو اس ہدف سے منحرف ہوگیا وہ راہ حق سے ہٹ گیا اور گمراہی میںٹھوکر کھانے لگا۔اللہ نے اس کی نعمتوں کو سلب کرلیا اور اپناعذاب اس پروارد کردیا۔لہٰذا اپنے نفس کاخیال رکھو اوراسے ہلاکت سے بچائو کہ پروردگار نے تمہارے لئے راستہ کو واضح کردیا ہے اور وہ منزل بتادی ہے جہاں تک امور کو جانا ہے۔تم نہایت تیزی سے بدترین خسارہ اور کفر کی منزل کی طرف بھاگے جا رہے ہو۔تمہارے نفس نے تمہیں بدبختی میں ڈال دیا ہے اور گمراہی میں جھونک دیا ہے۔ہلاکت کی منزلوں میں وارد کردیا ہے اور صحیح راستوں کودشوار گزار بنادیاہے۔

(۳۱)

آپ کا وصیت نامہ

( جسے امام حسن کے نام صفین سے واپسی پر مقام حاضرین میں تحریر فرمایا ہے )

یہ وصیت ایک ایسے باپ(۱) کی ہے۔جو فنا ہونے والا اور زمانہ کے تصرفات کا اقرار کرنے والا ہے۔جس کی عمرخاتمہ کے قریب ہے اور وہ دنیا کے مصائب کے سامنے

(۱)بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ وصیت نامہ جناب محمد حنیفہ کے نام ہے اور سید رضی علیہ الرحمہ نے اسے امام حسن کے نام بتایا ہے۔بہرحال یہ ایک عام وصیت نامہ ہے جس سے ہر باپ کو استفادہ کرنا چاہیے اور اپنی اولاد کو انہیں خطوط پر وصیت و نصیحت کرنا چاہیے ورنہ اس کا مکمل مضمون مولائے کائنات پرمنطبق ہوتا ہے اور نہ امام حسن پر۔ اورنہ ایسے وصیت نامے کسی ایک فرد سے مخصوص ہواکرتے ہیں۔یہ انسانیت کا عظیم ترین منشور ہے جس میں عظیم ترین باپ نے عظیم ترین بیٹے کو مخاطب قرار دیا ہے تاکہ دیگر افراد ملت اس سے استفادہ کریں بلکہ عبرت حاصل کریں ۔

۵۱۳

السَّاكِنِ مَسَاكِنَ الْمَوْتَى والظَّاعِنِ عَنْهَا غَداً - إِلَى الْمَوْلُودِ الْمُؤَمِّلِ مَا لَا يُدْرِكُ - السَّالِكِ سَبِيلَ مَنْ قَدْ هَلَكَ - غَرَضِ الأَسْقَامِ ورَهِينَةِ الأَيَّامِ - ورَمِيَّةِ الْمَصَائِبِ وعَبْدِ الدُّنْيَا وتَاجِرِ الْغُرُورِ - وغَرِيمِ الْمَنَايَا وأَسِيرِ الْمَوْتِ - وحَلِيفِ الْهُمُومِ وقَرِينِ الأَحْزَانِ - ونُصُبِ الآفَاتِ وصَرِيعِ الشَّهَوَاتِ وخَلِيفَةِ الأَمْوَاتِ.

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ فِيمَا تَبَيَّنْتُ مِنْ إِدْبَارِ الدُّنْيَا عَنِّي - وجُمُوحِ الدَّهْرِ عَلَيَّ وإِقْبَالِ الآخِرَةِ إِلَيَّ - مَا يَزَعُنِي عَنْ ذِكْرِ مَنْ سِوَايَ - والِاهْتِمَامِ بِمَا وَرَائِي - غَيْرَ أَنِّي حَيْثُ تَفَرَّدَ بِي دُونَ هُمُومِ النَّاسِ هَمُّ نَفْسِي - فَصَدَفَنِي رَأْيِي وصَرَفَنِي عَنْ هَوَايَ - وصَرَّحَ لِي مَحْضُ أَمْرِي - فَأَفْضَى بِي إِلَى جِدٍّ لَا يَكُونُ فِيه لَعِبٌ - وصِدْقٍ لَا يَشُوبُه كَذِبٌ ووَجَدْتُكَ بَعْضِي - بَلْ وَجَدْتُكَ كُلِّي - حَتَّى كَأَنَّ شَيْئاً لَوْ أَصَابَكَ أَصَابَنِي - وكَأَنَّ الْمَوْتَ لَوْ أَتَاكَ أَتَانِي – فَعَنَانِي مِنْ أَمْرِكَ مَا يَعْنِينِي مِنْ أَمْرِ نَفْسِي - فَكَتَبْتُ إِلَيْكَ كِتَابِي - مُسْتَظْهِراً بِه

سپرانداختہ ہے۔مرنے والوں کی بستی میں مقیم ہے اور کل یہاں سے کوچ کرنے والا ہے ۔ اس فرزند کے نام جو دنیا میں وہ امیدیں رکھے ہوئے ہے جو حاصل ہونے والی نہیں ہیں اورہلاک ہوجانے والوں کے راستے پر گامزن ہے ' بیماریوں کا نشانہ اور روز گار کے ہاتھوں گوی ہے۔مصائب زمانہ کا ہدف اور دنیا کا پابند ہے۔اس کا فریب کاریوں کا تاجر اوروت کا قرضدار ہے۔اجل کا قیدی اور رنج و غم کا ساتھی مصیبتوں کاہمنشیں ہے اورآفتوں کا نشانہ ' خواہشات کامارا ہوا ہے اورمرنے والوں کا جانشین۔

اما بعد! میرے لئے دنیا کے منہ پھیر لینے ۔زمانہ کے ظلم و زیادتی کرنے اورآخرت کے میری طرف آنے کی وجہ سے جن باتوں کا انکشاف ہوگیا ہے انہوں نے مجھے دوسروں کے ذکر اوراغیار کے اندیشہ سے روک دیا ہے۔مگر جب میں تمام لوگوں کی فکرسے الگ ہو کر اپنی فکر میں پڑا تو میریرائے نے مجھے خواہشات سے روک دیا اور مجھ پرواقعی حقیقت منکشف ہوگئی جس نے مجھے اس محنت و مشقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کا کیل نہیں ہے اور اس صداقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کی غلط بیانی نہیں ہے۔میں نے تم کو اپنا ہی ایک حصہ پایا بلکہ تم کو اپنا سراپا وجود سمجھا کہ تمہاری تکلیف میری تکلیف ہے اور تمہاری موت میری موت ہے اس لئے مجھے تمہارے معاملات کی اتنی ہی فکر ہے جتنی اپنے معاملات کی ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے یہ تحریر لکھی دی ہے جس کے ذریعہ تمہاری امداد کرنا چاہتا ہوں

۵۱۴

إِنْ أَنَا بَقِيتُ لَكَ أَوْ فَنِيتُ.

فَإِنِّي أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّه أَيْ بُنَيَّ ولُزُومِ أَمْرِه - وعِمَارَةِ قَلْبِكَ بِذِكْرِه والِاعْتِصَامِ بِحَبْلِه - وأَيُّ سَبَبٍ أَوْثَقُ مِنْ سَبَبٍ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه - إِنْ أَنْتَ أَخَذْتَ بِه.

أَحْيِ قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ وأَمِتْه بِالزَّهَادَةِ - وقَوِّه بِالْيَقِينِ ونَوِّرْه بِالْحِكْمَةِ - وذَلِّلْه بِذِكْرِ الْمَوْتِ وقَرِّرْه بِالْفَنَاءِ - وبَصِّرْه فَجَائِعَ الدُّنْيَا - وحَذِّرْه صَوْلَةَ الدَّهْرِ وفُحْشَ تَقَلُّبِ اللَّيَالِي والأَيَّامِ - واعْرِضْ عَلَيْه أَخْبَارَ الْمَاضِينَ - وذَكِّرْه بِمَا أَصَابَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ مِنَ الأَوَّلِينَ - وسِرْ فِي دِيَارِهِمْ وآثَارِهِمْ - فَانْظُرْ فِيمَا فَعَلُوا وعَمَّا انْتَقَلُوا وأَيْنَ حَلُّوا ونَزَلُوا - فَإِنَّكَ تَجِدُهُمْ قَدِ انْتَقَلُوا عَنِ الأَحِبَّةِ - وحَلُّوا دِيَارَ الْغُرْبَةِ - وكَأَنَّكَ عَنْ قَلِيلٍ قَدْ صِرْتَ كَأَحَدِهِمْ - فَأَصْلِحْ مَثْوَاكَ ولَا تَبِعْ آخِرَتَكَ بِدُنْيَاكَ - ودَعِ الْقَوْلَ فِيمَا لَا تَعْرِفُ والْخِطَابَ فِيمَا لَمْ تُكَلَّفْ - وأَمْسِكْ عَنْ طَرِيقٍ إِذَا خِفْتَ ضَلَالَتَه - فَإِنَّ الْكَفَّ عِنْدَ حَيْرَةِ الضَّلَالِ خَيْرٌ مِنْ رُكُوبِ الأَهْوَالِ وأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ تَكُنْ

چاہیے میں زندہ رہوں یا مرجائوں۔

فرزند! میں تم کو خوف خدا اور اس کے احکام کی پابندی کی وصیت کرتا ہوں۔اپنے دل کواس کی یاد سے آباد رکھنا اوراس کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہنا کہ اس سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ تمہارے اور خداا کے درمیان نہیں ہے۔

اپنے دل کو موعظہ سے زندہ رکھنا اور اس کے خواہشات کو زہد سے مردہ بنادینا۔اسے یقین کے ذریعہ قوی رکھنا اورحکمت کے ذریعہ نورانی رکھنا۔ذکر موت کے ذریعہ رام کرنااورفناکے ذریعہ قابو میں رکھنا۔دنیا کے حوادث سے آگاہ رکھنا اور زمانہ کے حملہ اور لیل ونہار کے تصرفات سے ہوشیار رکھنا۔اس پر گذشتہ لوگوں کے اخبار کو پیش کرتے رہنا اور پہلے والوں پر پڑنے والے مصائبکویاد دلاتے رہنا۔ان کے دیار و آثار میں سر گرم سفر رہنا اور دیکھتے رہنا کہ انہوں نے کیا کیا ہے اور کہاں سے کہاں چل گئے ہیں۔کہاں واردہوئے ہیں اورکہاں ڈیرہ ڈالا ہے۔پھر تم دیکھو گے کہ وہ احباب کی دنیا سے منتقل ہوگئے ہیں اور دیار غربت میں وارد ہوگئے ہیں اور گویا کہ عنقریت تم بھی انہیں میں شامل ہو جائو گے لہٰذا اپنی منزل کو ٹھیک کرلو اورخبردارآخرت کو دنیا کے عوض فروخت نہ کرنا ۔جن باتوں کو نہیں جانتے ہو ان کے بارے میں بات نہ کرنا اور جن کے مکلف نہیں ہوان کے بارے میں گفتگو نہکرنا جس راستہ میں گمراہی کا خوف ہو ادھر قدم آگینہ بڑھانا کہ گمراہی کے تحیر سے پہلے ٹھہر جانا ہولناک مرحلوں میں وارد ہو جانے سے بہترہے۔نیکیوں کا حکم دیتے رہنا تاکہ اس کے

۵۱۵

مِنْ أَهْلِه - وأَنْكِرِ الْمُنْكَرَ بِيَدِكَ ولِسَانِكَ - وبَايِنْ مَنْ فَعَلَه بِجُهْدِكَ - وجَاهِدْ فِي اللَّه حَقَّ جِهَادِه - ولَا تَأْخُذْكَ فِي اللَّه لَوْمَةُ لَائِمٍ - وخُضِ الْغَمَرَاتِ لِلْحَقِّ حَيْثُ كَانَ وتَفَقَّه فِي الدِّينِ - وعَوِّدْ نَفْسَكَ التَّصَبُّرَ عَلَى الْمَكْرُوه - ونِعْمَ الْخُلُقُ التَّصَبُرُ فِي الْحَقِّ - وأَلْجِئْ نَفْسَكَ فِي أُمُورِكَ كُلِّهَا إِلَى إِلَهِكَ - فَإِنَّكَ تُلْجِئُهَا إِلَى كَهْفٍ حَرِيزٍ ومَانِعٍ عَزِيزٍ - وأَخْلِصْ فِي الْمَسْأَلَةِ لِرَبِّكَ - فَإِنَّ بِيَدِه الْعَطَاءَ والْحِرْمَانَ - وأَكْثِرِ الِاسْتِخَارَةَ وتَفَهَّمْ وَصِيَّتِي - ولَا تَذْهَبَنَّ عَنْكَ صَفْحاً - فَإِنَّ خَيْرَ الْقَوْلِ مَا نَفَعَ - واعْلَمْ أَنَّه لَا خَيْرَ فِي عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ - ولَا يُنْتَفَعُ بِعِلْمٍ لَا يَحِقُّ تَعَلُّمُه.

أَيْ بُنَيَّ إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُنِي قَدْ بَلَغْتُ سِنّاً - ورَأَيْتُنِي أَزْدَادُ وَهْناً - بَادَرْتُ بِوَصِيَّتِي إِلَيْكَ - وأَوْرَدْتُ خِصَالًا مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَعْجَلَ بِي أَجَلِي - دُونَ أَنْ أُفْضِيَ إِلَيْكَ بِمَا فِي نَفْسِي - أَوْ أَنْ أُنْقَصَ فِي رَأْيِي كَمَا نُقِصْتُ فِي جِسْمِي - أَوْ يَسْبِقَنِي إِلَيْكَ بَعْضُ غَلَبَاتِ الْهَوَى وفِتَنِ الدُّنْيَا - فَتَكُونَ

اہل میں شمار ہو اور برائیوں سے اپنے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے منع کرتے رہنا اور برائی کرنے والوں سے اپنے امکان بھر دور رہنا۔راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کردینا اور خبردار اس راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔حق کی خاطر جہاد بھی ہو سختیوں میں کود پڑنا۔اور دین کا علم حاصل کرنا اپنے نفس کو نا خوشگوار حالات میں صبر کا عادی بادینا اوریاد رکھنا کہ بہترین اخلاق حق کی راہ میں صبر کرنا ہے۔اپنے تمام امورمیں پروردگار کی طرف رجوع کرنا کہ اس طرح ایک محفوظ ترین پناہ گاہ کاسہارا لو گے اور بہترین محافظ کی پناہ میں رہوگے۔پروردگار سے سوال کرنے میں مخلص رہنا کہ عطا کرنا اور محروم کردینا اسی کے ہاتھ میں ہے مالک سے مسلسل طلب خیرکرتے رہنا اور میری وصیت پر غور کرتے رہنا۔اس سے پہلو بچا کر گذر نہ جانا کہ بہترین کلام وہی ہے جو فائدہ مند ہواور یاد رکھو کہ جس علم میں فائدہ نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور جو علم سیکھنے کے لائق نہ ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

فرزند! میں نے دیکھا کہ اب میرا سن بہت زیادہ ہو چکا ہے اور مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہوں لہٰذا میں نے فوراً یہ وصیت لکھ دی اور ان مضامین کو درج کردیا کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی بات تمہارے حوالہ کرنے سے پہلے مجھے موت آجائے یا جسم کے نقص کی طرح رائے کو کمزور تصور کیا جانے لگے یا وصیت سے پہلے ہی خواہشات کے غلبے اوردنیا کے فتنے تم تک نہ پہنچ جائیں۔ اور تمہارا حال

۵۱۶

كَالصَّعْبِ النَّفُورِ - وإِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كَالأَرْضِ الْخَالِيَةِ - مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْءٍ قَبِلَتْه - فَبَادَرْتُكَ بِالأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ - ويَشْتَغِلَ لُبُّكَ لِتَسْتَقْبِلَ بِجِدِّ رَأْيِكَ مِنَ الأَمْرِ - مَا قَدْ كَفَاكَ أَهْلُ التَّجَارِبِ بُغْيَتَه وتَجْرِبَتَه - فَتَكُونَ قَدْ كُفِيتَ مَئُونَةَ الطَّلَبِ - وعُوفِيتَ مِنْ عِلَاجِ التَّجْرِبَةِ - فَأَتَاكَ مِنْ ذَلِكَ مَا قَدْ كُنَّا نَأْتِيه - واسْتَبَانَ لَكَ مَا رُبَّمَا أَظْلَمَ عَلَيْنَا مِنْه أَيْ بُنَيَّ إِنِّي وإِنْ لَمْ أَكُنْ عُمِّرْتُ عُمُرَ مَنْ كَانَ قَبْلِي - فَقَدْ نَظَرْتُ فِي أَعْمَالِهِمْ وفَكَّرْتُ فِي أَخْبَارِهِمْ - وسِرْتُ فِي آثَارِهِمْ حَتَّى عُدْتُ كَأَحَدِهِمْ - بَلْ كَأَنِّي بِمَا انْتَهَى إِلَيَّ مِنْ أُمُورِهِمْ - قَدْ عُمِّرْتُ مَعَ أَوَّلِهِمْ إِلَى آخِرِهِمْ - فَعَرَفْتُ صَفْوَ ذَلِكَ مِنْ كَدَرِه ونَفْعَه مِنْ ضَرَرِه - فَاسْتَخْلَصْتُ لَكَ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ نَخِيلَه - وتَوَخَّيْتُ لَكَ جَمِيلَه وصَرَفْتُ عَنْكَ مَجْهُولَه - ورَأَيْتُ حَيْثُ عَنَانِي مِنْ أَمْرِكَ مَا يَعْنِي الْوَالِدَ الشَّفِيقَ -

بھڑک اٹھنے والے اونٹ جیسا ہو جائے۔ یقینا نوجوان کادل ایک خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ جو چیز اس میں ڈال دی جائے اسے قبول کرلیتا ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ تمہیں دل کے سخت ہونے اور عقل کے مشغول ہو جانے سے پہلے وصیت کردوں تاکہ تم سنجیدہ فکر کے ساتھ اس امر کو قبول کرلو جس کی تلاش اور جس کے تجربہ کی زحمت سے تمہیں تجربہ کار لوگوں نے بچا لیا ہے۔اب تمہاری طلب کی زحمت ختم ہوچکی ہے اورتمہیں تجربہ کی مشکل سے نجات مل چکی ہے۔تمہارے پاس وہ حقائق ازخود آگئے ہیں جن کو ہم تلاش کیا کرتے تھے اور تمہارے لئے وہ تمام باتیں واضح ہوچکی ہیں جو ہمارے لئے مبہم تھیں۔

فرزند! اگرچہ میں نے اتنی عمرنہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہواکرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور کیا ہے اور ان کے اخبارمیں فکر کی ہے اور ان کے آثار میںسیرو سیاحت کی ہے اور میں صاف اور گندہ کی خوب پہچانتا ہوں۔نفع و ضرر میں امتیاز رکھتا ہوں۔میں نے ہر امر کی چھان پھٹک کر اس کا خالص نکال لیا ہے۔اور بہترین تلاش کرلیا ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کردیا ہے اوری ہ چاہا ہے کہ تمہیں اسی وقت ادب کی تعلیم دے دوں جب کہ تم عمر کے ابتدائی حصہ میں ہو اور زمانہ کے حالات کا سامنا کر رہے ہو۔تمہاری نیت سالم ہے اورنفس صاف و پاکیزہ ہے اس لئے کہ مجھے تمہارے بارے میں اتنی ہی فکر ہے جتنی ایک مہربان باپ کو اپنی اولاد کی ہوتی ہے۔

۵۱۷

وأَجْمَعْتُ عَلَيْه مِنْ أَدَبِكَ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ - وأَنْتَ مُقْبِلُ الْعُمُرِ ومُقْتَبَلُ الدَّهْرِ - ذُو نِيَّةٍ سَلِيمَةٍ ونَفْسٍ صَافِيَةٍ - وأَنْ أَبْتَدِئَكَ بِتَعْلِيمِ كِتَابِ اللَّه عَزَّ وجَلَّ - وتَأْوِيلِه وشَرَائِعِ الإِسْلَامِ وأَحْكَامِه وحَلَالِه وحَرَامِه - لَا أُجَاوِزُ ذَلِكَ بِكَ إِلَى غَيْرِه - ثُمَّ أَشْفَقْتُ أَنْ يَلْتَبِسَ عَلَيْكَ - مَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فِيه مِنْ أَهْوَائِهِمْ وآرَائِهِمْ - مِثْلَ الَّذِي الْتَبَسَ عَلَيْهِمْ - فَكَانَ إِحْكَامُ ذَلِكَ عَلَى مَا كَرِهْتُ مِنْ تَنْبِيهِكَ لَه أَحَبَّ إِلَيَّ - مِنْ إِسْلَامِكَ إِلَى أَمْرٍ لَا آمَنُ عَلَيْكَ بِه الْهَلَكَةَ - ورَجَوْتُ أَنْ يُوَفِّقَكَ اللَّه فِيه لِرُشْدِكَ - وأَنْ يَهْدِيَكَ لِقَصْدِكَ فَعَهِدْتُ إِلَيْكَ وَصِيَّتِي هَذِه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّ أَحَبَّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِه إِلَيَّ مِنْ وَصِيَّتِي تَقْوَى اللَّه - والِاقْتِصَارُ عَلَى مَا فَرَضَه اللَّه عَلَيْكَ - والأَخْذُ بِمَا مَضَى عَلَيْه الأَوَّلُونَ مِنْ آبَائِكَ - والصَّالِحُونَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ - فَإِنَّهُمْ لَمْ يَدَعُوا أَنْ نَظَرُوا لأَنْفُسِهِمْ كَمَا أَنْتَ نَاظِرٌ - وفَكَّرُوا كَمَا أَنْتَ مُفَكِّرٌ - ثُمَّ رَدَّهُمْ آخِرُ ذَلِكَ إِلَى الأَخْذِ بِمَا عَرَفُوا - والإِمْسَاكِ عَمَّا لَمْ يُكَلَّفُوا - فَإِنْ أَبَتْ نَفْسُكَ أَنْ تَقْبَلَ ذَلِكَ دُونَ أَنْ تَعْلَمَ كَمَا عَلِمُوا - فَلْيَكُنْ طَلَبُكَ ذَلِكَ بِتَفَهُّمٍ وتَعَلُّمٍ - لَا بِتَوَرُّطِ الشُّبُهَاتِ

اب میں اپنی تربیت کا آغاز کتاب خدا اور اس کی تاویل ۔قوانین اسلام اور اس کے احکام حلال و حرام سے کر رہا ہوں اور تمہیں چھوڑ کردوسرے کی طرف نہیں جانا۔پھر مجھے یہخوف بھی ہے کہ کہیں لوگوں کے عقائد و افکار و خواہشات کااختلاف تمہارے لئے اسی طرح مشتبہ نہ ہو جائے جس طرح ان لوگوں کے لئے ہوگیا ہے لہٰذا ان کا مستحکم کردینا میری نظرمیں ا سے زیادہ محبوب ہے کہ تمہیں ایسے حالات کے حوالے کردوں جن میں ہلاکت سے محفوظ رہنے کا اطمینان نہیں ہے۔اگرچہ مجھے یہ تعلیم دیتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔لیکن مجھے امید ہے کہ پروردگار تمہیں نیکی کی توفیق دے گا اور سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرے گا۔اسی بنیاد پر یہ وصیت نامہ لکھ دیا ہے۔

فرزند! یاد رکھو کہ میری بہترین وصیت جسے تمہیں اخذ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اس کے فرائض پر اکتفا کرو اوروہ تمام طریقے جن پر تمہارے باپ دادا اور تمہارے گھرانے کے نیکج کردار افراد چلتے رہے ہیں انہیں پر چلتے رہو کہ انہوں نے اپنے بارے میں کسی ایسی فکر کونظرانداز نہیںکیا جو تمہاری نظر میں ہے اور کسی خیال کو فرو گذاشت نہیں کیا ہے اور اسی فکرونظر نے ہی انہیں اس نتیجہ تک پہنچا یا ہے کہ معروف چیزوں کوحاصل کرلیں اور لا یعنی چیزوں سے پرہیز کریں۔اب اگر تمہارا نفس ان چیزوں کو بغیر جانے پہچانے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اس کی تحقیق باقاعدہ علم و فہم کے ساتھ ہونی چاہیے اور شبہات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے

۵۱۸

وعُلَقِ الْخُصُومَاتِ - وابْدَأْ قَبْلَ نَظَرِكَ فِي ذَلِكَ بِالِاسْتِعَانَةِ بِإِلَهِكَ - والرَّغْبَةِ إِلَيْه فِي تَوْفِيقِكَ - وتَرْكِ كُلِّ شَائِبَةٍ أَوْلَجَتْكَ فِي شُبْهَةٍ أَوْ أَسْلَمَتْكَ إِلَى ضَلَالَةٍ - فَإِنْ أَيْقَنْتَ أَنْ قَدْ صَفَا قَلْبُكَ فَخَشَعَ - وتَمَّ رَأْيُكَ فَاجْتَمَعَ - وكَانَ هَمُّكَ فِي ذَلِكَ هَمّاً وَاحِداً - فَانْظُرْ فِيمَا فَسَّرْتُ لَكَ - وإِنْ لَمْ يَجْتَمِعْ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْ نَفْسِكَ - وفَرَاغِ نَظَرِكَ وفِكْرِكَ - فَاعْلَمْ أَنَّكَ إِنَّمَا تَخْبِطُ الْعَشْوَاءَ وتَتَوَرَّطُ الظَّلْمَاءَ - ولَيْسَ طَالِبُ الدِّينِ مَنْ خَبَطَ أَوْ خَلَطَ - والإِمْسَاكُ عَنْ ذَلِكَ أَمْثَلُ

فَتَفَهَّمْ يَا بُنَيَّ وَصِيَّتِي - واعْلَمْ أَنَّ مَالِكَ الْمَوْتِ هُوَ مَالِكُ الْحَيَاةِ - وأَنَّ الْخَالِقَ هُوَ الْمُمِيتُ - وأَنَّ الْمُفْنِيَ هُوَ الْمُعِيدُ وأَنَّ الْمُبْتَلِيَ هُوَ الْمُعَافِي - وأَنَّ الدُّنْيَا لَمْ تَكُنْ لِتَسْتَقِرَّ - إِلَّا عَلَى مَا جَعَلَهَا اللَّه عَلَيْه مِنَ النَّعْمَاءِ والِابْتِلَاءِ - والْجَزَاءِ فِي الْمَعَادِ - أَوْ مَا شَاءَ مِمَّا لَا تَعْلَمُ - فَإِنْ أَشْكَلَ عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ فَاحْمِلْه عَلَى جَهَالَتِكَ - فَإِنَّكَ أَوَّلُ مَا خُلِقْتَ بِه جَاهِلًا ثُمَّ عُلِّمْتَ - ومَا أَكْثَرَ مَا تَجْهَلُ

اورنہ جھگڑوں کا شکار ہونا چاہیے اور ان مسائل میں نظر کرنے سے پہلے اپنے پروردگار سے مدد طلب کرو اور توفیق کے ئے اس کی طرف توجہ کرو اور ہر اس شائبہ کو چھوڑ دو جو کسی شبہ میں ڈال دے یا کسی گمراہی کے حوالے کردے ۔پھر اگر تمہیں اطمینان ہو جائے کہ تمہارا دل صاف اور خاشع ہوگیا ہے اور تمہاری رائے تام دکامل ہوگئی ہے اور تمہارے پاس صرف یہی ایک فکر رہ گئی ہے تو جن باتوں کو میں نے واضح کیا ہے ان میں غورو فکر کرنا ورنہ اگر حسب منشاء فکرونظر کا فراغ حاصل نہیں ہوا ہے تو یاد رکھو کہ اس طرف صرف شبکور اونٹنی کی طرح ہاتھ پیر مارتے رہو گے اور اندھیرے میں بھٹکتے رہوگے اور دین کا طلب گار وہ نہیں ہے جواندھیروں میں ہاتھ پائوں مارے اورباتوں کومخلوط کردے۔اس سے تو ٹھہرجانا ہی بہتر ہے۔

فرزند! میری وصیت کو سمجھو اور یہ جان لو کہ جو موت کا مالک ہے وہی زندگی کا مالک ہے اور جو خالق ہے وہی موت دینے والا ہے اور جوفناکرنے والا ے وہی دوبارہ واپس لانے والا ہے اور جو مبتلا کرنے والا ہے وہی عافیت دینے والا ہے اور یہ دنیا اسی حالت میں مستقررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قراردیا ہے یعنی نعمت، آزمائش ، آخرت کی جزا یا وہ بات جو تم نہیں جانتے ہو۔اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس اپنی جہالت پر محمول کرنا کہ تم ابتدا میں جب پیدا ہو ئے ہو تو جاہل ہی پیداہوئے ہو بعد میں علم حاصل کیا ہے اور اسی بنا پر مجہولات

۵۱۹

مِنَ الأَمْرِ ويَتَحَيَّرُ فِيه رَأْيُكَ - ويَضِلُّ فِيه بَصَرُكَ ثُمَّ تُبْصِرُه بَعْدَ ذَلِكَ فَاعْتَصِمْ بِالَّذِي خَلَقَكَ ورَزَقَكَ وسَوَّاكَ - ولْيَكُنْ لَه تَعَبُّدُكَ - وإِلَيْه رَغْبَتُكَ ومِنْه شَفَقَتُكَ

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّ أَحَداً لَمْ يُنْبِئْ عَنِ اللَّه سُبْحَانَه - كَمَا أَنْبَأَ عَنْه الرَّسُولُصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَارْضَ بِه رَائِداً وإِلَى النَّجَاةِ قَائِداً - فَإِنِّي لَمْ آلُكَ نَصِيحَةً - وإِنَّكَ لَنْ تَبْلُغَ فِي النَّظَرِ لِنَفْسِكَ - وإِنِ اجْتَهَدْتَ مَبْلَغَ نَظَرِي لَكَ.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّه لَوْ كَانَ لِرَبِّكَ شَرِيكٌ لأَتَتْكَ رُسُلُه - ولَرَأَيْتَ آثَارَ مُلْكِه وسُلْطَانِه - ولَعَرَفْتَ أَفْعَالَه وصِفَاتِه - ولَكِنَّه إِلَه وَاحِدٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَه - لَا يُضَادُّه فِي مُلْكِه أَحَدٌ ولَا يَزُولُ أَبَداً ولَمْ يَزَلْ - أَوَّلٌ قَبْلَ الأَشْيَاءِ بِلَا أَوَّلِيَّةٍ - وآخِرٌ بَعْدَ الأَشْيَاءِ بِلَا نِهَايَةٍ - عَظُمَ عَنْ أَنْ تَثْبُتَ رُبُوبِيَّتُه بِإِحَاطَةِ قَلْبٍ أَوْ بَصَرٍ - فَإِذَا عَرَفْتَ ذَلِكَ فَافْعَلْ - كَمَا يَنْبَغِي لِمِثْلِكَ أَنْ يَفْعَلَه فِي صِغَرِ خَطَرِه - وقِلَّةِ مَقْدِرَتِه وكَثْرَةِ عَجْزِه - وعَظِيمِ حَاجَتِه إِلَى رَبِّه فِي طَلَبِ طَاعَتِه - والْخَشْيَةِ مِنْ عُقُوبَتِه -

کی تعداد کثیر ہے جس میں انسانی رائے متحیر رہ جاتی ہے اورنگاہ بہک جاتی ہے اوربعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے۔لہٰذا اس مالک سے وابستہ رہو جس نے پیدا کیا ہے۔روزی دی ہے اورمعتدل بنایا ہے۔اسی کی عبادت کرو' اسی کی طرف توجہ کرو اور اسی سے ڈرتے رہو۔

بیٹا! یہ یاد رکھو کہ تمہیں خدا ے بارے میں اس طرح کی خبریں کوئی نہیں دے سکتا ہے جس طرح رسول اکرم (ص) نے دی ہیں لہٰذا ان کو بخوشی اپنا پیشوا اور راہ نجات کا قائد تسلیم کرو۔میں نے تمہاری نصیحت میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور نہ تم کوشش کے باوجود اپنے بارے میں اتنا سوچ سکتے ہو جتنا میں نے دیکھ لیا ہے۔

فرزند ! یاد رکھو اگر خدا کے لئے کوئی شریک بھی ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے اور اس کی سلطنت اورحکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اس کے افعال وصفات کاب ھی کچھ پتہ ہوتا۔لیکن ایسا کچھ نہں ہے لہٰذا خدا ایک ہے جیسا کہاس نے خود بیان کیا ہے۔اس کے ملک میں اس سے کوئی ٹکرانے والا نہیں ہے اور نہاس کے لئے کسی طرح کا زوال ہے۔وہ اولیت کی حدوں کے بغیر سب سے اول ہے اور کسی انتہا کے بغیر سب سے آخرتک رہنے والا ہے وہ اس بات سے عظیم تر ہے کہ اس کی ربوبیت کا اثبات فکرو نظر کے احاطہ سے کیاجائے اگرتم نے اس حقیقت کو پہچان لیا ہے تو اس طرح عمل کرو جس طرحتم جیسے معمولی حیثیت ' قلیل طاقت ' کثیر عاجزی اور پروردگار کی طرف اطاعت کی طلب' عتاب

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863