نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 571785
ڈاؤنلوڈ: 13389

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 571785 / ڈاؤنلوڈ: 13389
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

الإِمَّةِ ومُعْلِنِهَا - لَا يَقَعُ اسْمُ الْهِجْرَةِ عَلَى أَحَدٍ - إِلَّا بِمَعْرِفَةِ الْحُجَّةِ فِي الأَرْضِ - فَمَنْ عَرَفَهَا وأَقَرَّ بِهَا فَهُوَ مُهَاجِرٌ - ولَا يَقَعُ اسْمُ الِاسْتِضْعَافِ عَلَى مَنْ بَلَغَتْه الْحُجَّةُ - فَسَمِعَتْهَا أُذُنُه ووَعَاهَا قَلْبُه.

صوبة الإيمان

إِنَّ أَمْرَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ لَا يَحْمِلُه إِلَّا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ - امْتَحَنَ اللَّه قَلْبَه لِلإِيمَانِ - ولَا يَعِي حَدِيثَنَا إِلَّا صُدُورٌ أَمِينَةٌ وأَحْلَامٌ رَزِينَةٌ.

علم الوصي

أَيُّهَا النَّاسُ سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي - فَلأَنَا بِطُرُقِ السَّمَاءِ أَعْلَمُ مِنِّي بِطُرُقِ الأَرْضِ - قَبْلَ أَنْ تَشْغَرَ بِرِجْلِهَا فِتْنَةٌ تَطَأُ فِي خِطَامِهَا - وتَذْهَبُ بِأَحْلَامِ قَوْمِهَا.

(۱۹۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه ويثني على نبيه ويعظ بالتقوى

حمد اللَّه

پر مومن رہے یا علی اعلان ایمان کا اظہار کرے ہجرت کا اطلاق ہجرت خدا کی معرفت کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے لہٰذا جو شخص اس کی معرفت حاصل کرکے اس کا اقرار کرلے وہی مہاجرہے۔اسی طرح متضعف اسے نہیں کہا جاتا ہے جس تک خدائی دلیل پہنچ جائے اور وہ اسے سن بھی لے اور دل میں جگہ بھی دیدے۔

ہمارا معاملہ(۱) نہایت درجہ سخت اور دشوار گذار ہے۔اس کا تحمل صرف وہ بندہ ٔ مومن کر سکتا ہے جس کے دل کا امتحان ایمان کے لئے لیا جا چکا ہو۔ہماری باتیں صرف انہیں سینوں میں رہ سکتی ہیں جو امانت دار ہوں اور انہیں عقلوں میں سما سکتی ہیں جو ٹھوس اور مستحکم ہوں۔

لوگو!جوچاہو مجھ سے دریافت کرلو قبل اس کے کہ مجھے نہ پائو ۔میں آسمان کے راستوں کو زمین کی راہوں سے بہتر جانتا ہوں۔مجھ سے دریافت کرلو قبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیر اٹھالے جو اپنی مہار کو بھی پیروں تلے روند نے والا ہے اورجس سے قوم کی عقلوں کے زوال کا اندیشہ ہے ۔

(۱۹۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حمد خدا ۔ثنائے رسول (ص) اورنصیحت تقویٰ کا ذکر کیا گیا ہے )

(۱)بعض حضرا ت کا خیال ہے کہ اہل بیت کے معاملہ سے مراد دین و ایمان اور عقیدہ و کردار ہے کہ اس کا ہر حال میں برقرار رکھنا اور اس سے کسی بھی حال میں دست بردار نہ ہونا ہرش خص کے بس کی بات نہیں ہے ورنہ لوگ ادنیٰ مصیبت میں بھی دین سے دست بردار ہو جاتے ہیں اور جان بچانے کی پناہ گا ہیں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔اور بعض حضرات کاخیال ہے کہاس سے مراد اہل بیت کی روحانی عظمت اور ان کی نورانی منزل ہے جس کا ادراک ہر انسان کے بس کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عظیم ظرف درکار ہے لیکن بہر حال اس تصور میں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کو بھی شامل کرنا پڑھے گا۔ورنہ صرف عقیدہ قائم کرنے کے لئے امتحان شدہ اور آزمائے ہوئے دل کی ضرورت نہیں ہے۔

۳۶۱

أَحْمَدُه شُكْراً لإِنْعَامِه - وأَسْتَعِينُه عَلَى وَظَائِفِ حُقُوقِه - عَزِيزَ الْجُنْدِ عَظِيمَ الْمَجْدِ.

الثناء على النبي

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - دَعَا إِلَى طَاعَتِه وقَاهَرَ أَعْدَاءَه جِهَاداً عَنْ دِينِه - لَا يَثْنِيه عَنْ ذَلِكَ اجْتِمَاعٌ عَلَى تَكْذِيبِه - والْتِمَاسٌ لإِطْفَاءِ نُورِه.

العظة بالتقوى

فَاعْتَصِمُوا بِتَقْوَى اللَّه فَإِنَّ لَهَا حَبْلًا وَثِيقاً عُرْوَتُه - ومَعْقِلًا مَنِيعاً ذِرْوَتُه - وبَادِرُوا الْمَوْتَ وغَمَرَاتِه وامْهَدُوا لَه قَبْلَ حُلُولِه - وأَعِدُّوا لَه قَبْلَ نُزُولِه فَإِنَّ الْغَايَةَ الْقِيَامَةُ - وكَفَى بِذَلِكَ وَاعِظاً لِمَنْ عَقَلَ ومُعْتَبَراً لِمَنْ جَهِلَ - وقَبْلَ بُلُوغِ الْغَايَةِ مَا تَعْلَمُونَ مِنْ ضِيقِ الأَرْمَاسِ - وشِدَّةِ الإِبْلَاسِ وهَوْلِ الْمُطَّلَعِ - ورَوْعَاتِ الْفَزَعِ واخْتِلَافِ الأَضْلَاعِ - واسْتِكَاكِ الأَسْمَاعِ وظُلْمَةِ اللَّحْدِ - وخِيفَةِ الْوَعْدِ وغَمِّ الضَّرِيحِ ورَدْمِ الصَّفِيحِ

میں اس کی حمد کرتا ہوں اس کے انعام کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اور اس سے مدد چاہتا ہوں اس کے حقوق سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ۔اس کا لشکر غالب ے اور بزرگی عظیم ہے۔

میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ محمد (ص) اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔انہوں نے اس کی اطاعت کیدعوتدی ہے اور اس کے دشمنوں پرغلبہ حاصل کیا ہے اس کے دین میں جہاد کے ذریعہ۔انہیں اس بات سے نہ ظالموں کا ان کے جھٹلانے پراجتماع روک سکا ہے اور نہ ان کی نور ہدایت کو خاموش کرنے کی خواہش منع کرسکی ہے۔

تم لوگ تقویٰ الٰہی سے وابستہ ہو جائو کہ اس کی ریسمان کے بندھن مضبوط اور اس کی پناہ کی چوٹی ہرجہت سے محفوظ ہے۔موت اور اس کی سختیوں کے سامنے آنے سے پہلے اس کی طرف سبقت کرو اور اس کے آنے سے پہلے زمین کو ہموار کرلو۔اس کے نزول سے پہلے تیاری مکمل کرلو کہ انجام کار بہر حال قیامت ہے۔اور یہ بات ہر اس شخص کی نصیحت کے لئے کافی ہے جو صاحب عقل ہو اور اس میں جاہل کے لئے بھی عبرت کا سامان ہے اورتمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس انجام تک پہنچنے سے پہلے تنگی لحد اور شدت برزخ کا بھی سامنا ہے جہاں برزخ کی ہولناکی۔خوف کی دہشت ۔پسلیوں کا ادھر سے ادھر ہو جانا۔کانوں کا بہر ہو جانا۔قبر کی تاریکیاں ۔عذاب کی دھمکیاں۔قبر کے شگاف کا بند کیا جانا اور پتھر کی سلوں سے پاٹ دیا جانابھی ہے۔

۳۶۲

فَاللَّه اللَّه عِبَادَ اللَّه - فَإِنَّ الدُّنْيَا مَاضِيَةٌ بِكُمْ عَلَى سَنَنٍ - وأَنْتُمْ والسَّاعَةُ فِي قَرَنٍ - وكَأَنَّهَا قَدْ جَاءَتْ بِأَشْرَاطِهَا وأَزِفَتْ بِأَفْرَاطِهَا - ووَقَفَتْ بِكُمْ عَلَى صِرَاطِهَا وكَأَنَّهَا قَدْ أَشْرَفَتْ بِزَلَازِلِهَا - وأَنَاخَتْ بِكَلَاكِلِهَا وانْصَرَمَتِ الدُّنْيَا بِأَهْلِهَا - وأَخْرَجَتْهُمْ مِنْ حِضْنِهَا - فَكَانَتْ كَيَوْمٍ مَضَى أَوْ شَهْرٍ انْقَضَى – وصَارَ جَدِيدُهَا رَثّاً وسَمِينُهَا غَثّاً - فِي مَوْقِفٍ ضَنْكِ الْمَقَامِ وأُمُورٍ مُشْتَبِهَةٍ عِظَامٍ - ونَارٍ شَدِيدٍ كَلَبُهَا عَالٍ لَجَبُهَا - سَاطِعٍ لَهَبُهَا مُتَغَيِّظٍ زَفِيرُهَا - مُتَأَجِّجٍ سَعِيرُهَا بَعِيدٍ خُمُودُهَا - ذَاكٍ وُقُودُهَا مَخُوفٍ وَعِيدُهَا - عَمٍ قَرَارُهَا مُظْلِمَةٍ أَقْطَارُهَا - حَامِيَةٍ قُدُورُهَا فَظِيعَةٍ أُمُورُهَا -( وسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً ) - قَدْ أُمِنَ الْعَذَابُ وانْقَطَعَ الْعِتَابُ - وزُحْزِحُوا عَنِ النَّارِ واطْمَأَنَّتْ بِهِمُ الدَّارُ - ورَضُوا الْمَثْوَى والْقَرَارَ

بندگان خدا! اللہ کو یادرکھو کہ دنیا تمہارے لئے ایک ہی راستہ پر چل رہی ہے اور تم قیامت کے ساتھ ایک ہی رسی میں بندھے ہوئے ہو اورگویا کہ اس نے اپنے علامات کو نمایاں کردیا ہے اور اس کے جھنڈے قریب آچکے ہیں۔اورتمہیں اپنے راستہ پرکھڑا کردیا ہے اورگویا کہ وہ اپنے زلزلوں سمیت نمودار ہوگئی ہے اور اپنے سینے ٹیک دئیے ہیں اور دنیا نے اپنے اہل سے منہ موڑ لیا ہے ۔اور انہیں اپنی گود سے الگ کردیا ہے۔گویا کہ یہ ایک دن تھا جو گزر گیا یا ایک مہینہ تھاجو بیت گیا۔اور اس کا جدید کہنہ ہوگیا اور اس کا تندرست لاغر ہوگیا۔اس موقف میں جس کی جگہ تنگ ہے اور جس کے امور مشتبہ اور عظیم ہیں۔وہ آگ ہے جس کا زخم کاری ہے اور جس کے شعلے بلند ہیں۔اس کی بھڑک نمایاں ہے اور بھڑکنے کی آوازیں غضب ناک ہیں۔اس کی لپیٹیں تیز ہیں اور بجھنے کے امکانات بعید ہیں۔اس کا بھڑکنا تیز ہے اور اس کے خطرات دہشت ناک ہیں۔اس کا گڑھا تاریک ہے اور اس کے اطراف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔اس کی دیگیں کھولتی ہوئی ہیں اور اس کی امور دہشت ناک ہیں۔اس وقت صرف خدا رکھنے والوں کو گروہ گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا جہاں عذاب سے محفوظ ہوں گے اور عتاب کا سلسلہ ختم ہو چکا ہوگا جہنم سے الگ کر دئیے جائیں گے اور اپنے گھرمیں اطمینان سے رہیں گے۔جہاں اپنی منزل اور اپنے مستقر سے خوش ہوں گے

۳۶۳

الَّذِينَ كَانَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا زَاكِيَةً - وأَعْيُنُهُمْ بَاكِيَةً - وكَانَ لَيْلُهُمْ فِي دُنْيَاهُمْ نَهَاراً تَخَشُّعاً واسْتِغْفَارًا - وكَانَ نَهَارُهُمْ لَيْلًا تَوَحُّشاً وانْقِطَاعاً - فَجَعَلَ اللَّه لَهُمُ الْجَنَّةَ مَآباً والْجَزَاءَ ثَوَاباً -( وكانُوا أَحَقَّ بِها وأَهْلَها ) - فِي مُلْكٍ دَائِمٍ ونَعِيمٍ قَائِمٍ.

فَارْعَوْا عِبَادَ اللَّه مَا بِرِعَايَتِه يَفُوزُ فَائِزُكُمْ - وبِإِضَاعَتِه يَخْسَرُ مُبْطِلُكُمْ - وبَادِرُوا آجَالَكُمْ بِأَعْمَالِكُمْ - فَإِنَّكُمْ مُرْتَهَنُونَ بِمَا أَسْلَفْتُمْ - ومَدِينُونَ بِمَا قَدَّمْتُمْ - وكَأَنْ قَدْ نَزَلَ بِكُمُ الْمَخُوفُ - فَلَا رَجْعَةً تَنَالُونَ ولَا عَثْرَةً تُقَالُونَ - اسْتَعْمَلَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ بِطَاعَتِه وطَاعَةِ رَسُولِه - وعَفَا عَنَّا وعَنْكُمْ بِفَضْلِ رَحْمَتِه.

الْزَمُوا الأَرْضَ واصْبِرُوا عَلَى الْبَلَاءِ - ولَا تُحَرِّكُوا بِأَيْدِيكُمْ وسُيُوفِكُمْ فِي هَوَى أَلْسِنَتِكُمْ

۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں پاکیزہ تھے اور جن کی آنکھیں خوف خدا سے گریاں تھیں ۔ان کی راتیں خشوع اور استغفار کی بناپ ردن جیسی تھیں اور ان کے دن وحشت اورگوشہ نشینی کی بنا پر رات جیسے تھے۔اللہ نے جنت کو ان کی بازگشت کی منزل بنا دیا ہے اور جزاء آخرت کو ان کا ثواب ''یہ حقیقتاً اسی انعام کے حقدار اور اہل تھے '' جو ملک دائم اور نعیم ابدی میں رہنے والے ہیں۔ بندگان خدا! ان باتوں کا خیال رکھو جن کے ذریعہ سے کامیابی حاصل کرنے والا کامیاب ہوتا ہے اور جن کو ضائع کردینے سے باطل والوں کا گھاٹا ہوتا ہے ۔ اپنی موت کی طرف اعمال کے ساتھ سبقت کرو کہ تم گذشتہ اعمال کے گروی ہو اور پہلے والے اعمال کے مقروض ہو اور اب گویا کہ خوفناک امر نازل ہو چکا ہے جس سے نہ واپسی کا امکان ہے اور نہ گناہوں کی معافی مانگنے کی گنجائش ہے۔اللہ ہمیں اور تمہیں اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کی توفیق دے اوراپنے فضل و رحمت سے ہم دونوں سے در گزر فرمائے ۔ زمین سے چمٹے رہو اور بلائوں(۱) پر صبر کرتے رہو۔اپنے ہاتھ اور اپنی تلواروں کو زبان کی خواہشات کا تابع نہ بنانا

(۱)حالات اس قدر سنگین تھے کہ امام کے مخلص اصحاب منافقین اورمعاندین کی روشن کو برداشت نہ کرسکتے تھے اور ہر ایک کی فطری خواہش تھی کہ تلوار اٹھانے کی اجازت مل جائے اور دشمن کا خاتمہ کردیا جائے جو ہر دور کے جذباتی انسان کی تمنا اورآرزو ہوتی ہے۔لیکن حضرت یہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی کام مرضی الٰہی اور مصلحت اسلام کے خلاف ہو اورمیرے مخلصین بھی جذبات و خواہشات کے تابع ہو جائیں لہٰذا پہلے آپ نے صبرو سکون کی تلقین کی اور اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ اسلام خواہشات کا تابع نہیں ہوتا ہے۔اسلام کی شان یہ ہے کہ خواہشات اس کا اتباع کریں اور اس کے شارہ پر چلیں ۔اس کے بعد مخلصین کے اس نیک جذبہ کی طرف توجہ فرمائی کہ یہ شوق شہادت و قربانی رکھتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے حوصلے پست ہو جائیں۔اور یہ مایوسی کا شکار ہو جائیں ۔لہٰذا اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ شہادت کا دارو مدار تلوارچلانے پر نہیں ہے۔شہادت کا دارو مدار اخلاص نیت کے ساتھ جذبہ قربانی پر ہے لہٰذا اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ شہادت کا دارو مدار تلوار چلانے پرنہیں ہے۔شہادت کا دارو مدار اخلاص نیت کے ساتھ جذبہ قربانی پر ہے لہٰذا تم اس جذبہ کے ساتھ بستر پر بھی مرگئے تو تمہارا شمار شہدا اورصالحین میں ہو جائے گا تمہیں اس سلسلہ میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

۳۶۴

ولَا تَسْتَعْجِلُوا بِمَا لَمْ يُعَجِّلْه اللَّه لَكُمْ. فَإِنَّه مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ عَلَى فِرَاشِه - وهُوَ عَلَى مَعْرِفَةِ حَقِّ رَبِّه - وحَقِّ رَسُولِه وأَهْلِ بَيْتِه مَاتَ شَهِيداً - و( وَقَعَ أَجْرُه عَلَى الله ) - واسْتَوْجَبَ ثَوَابَ مَا نَوَى مِنْ صَالِحِ عَمَلِه - وقَامَتِ النِّيَّةُ مَقَامَ إِصْلَاتِه لِسَيْفِه - فَإِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ مُدَّةً وأَجَلًا.

(۱۹۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه ويثني على نبيه ويوصي بالزهد والتقوى

الْحَمْدُ لِلَّه الْفَاشِي فِي الْخَلْقِ حَمْدُه - والْغَالِبِ جُنْدُه والْمُتَعَالِي جَدُّه - أَحْمَدُه عَلَى نِعَمِه التُّؤَامِ وآلَائِه الْعِظَامِ - الَّذِي عَظُمَ حِلْمُه فَعَفَا وعَدَلَ فِي كُلِّ مَا قَضَى - وعَلِمَ مَا يَمْضِي ومَا مَضَى - مُبْتَدِعِ الْخَلَائِقِ بِعِلْمِه ومُنْشِئِهِمْ بِحُكْمِه - بِلَا اقْتِدَاءٍ ولَا تَعْلِيمٍ - ولَا احْتِذَاءٍ لِمِثَالِ صَانِعٍ حَكِيمٍ - ولَا إِصَابَةِ خَطَإٍ ولَا حَضْرَةِ مَلإٍ.

اور جس چیز میں خدا نے عجلت نہیں رکھی اس کی جلدی نہ کرنا کہ اگر کوئی شخص خدا و رسول (ص) و اہل بیت کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے بستر پر مرجائے تو وہ بھی شہید ہی مرتا ہے اور اس کا اجر بھی خدا ہی کے ذمہ ہوتا ہے اور وہ اپنی نیت کے مطابق نیک اعمال کا ثواب بھی حاصل کر لیتا ہے کہ خود نیت بھی تلوار کھینچنے کے قائم مقام ہو جاتی ہے اور ہر شے کی ایک مدت ہوتی ہے اور اس کا ایک وقت معین ہوتا ہے۔

(۱۹۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں حمد خدا۔ثنائے رسول (ص) اور وصیت زہد و تقویٰ کا تذکرہ کیا گیا ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی حمد ہمہ گیراورجس کا لشکرغالب ہے اور جس کی عظمت بلند و بالا ہے۔میں اس کی مسلسل نعمتوں اور عظیم ترین مہربانیوں پراس کی حمد کرتا ہوں کہ اس کا حلم اس قدر عظیم ہے کہ وہ ہر ایک کو معاف کرتا ہے اورپھر ہر فیصلہ میں انصاف سے بھی کام لیتا ہے اور جو کچھ گزر گیا اور گزر رہا ہے سب کا جاننے والا بھی ہے۔وہ مخلوقات کو صرف اپنے علم سے پیدا کرنے والا ہے اور اپنے حکم سے ایجاد کرنے والا ہے۔نہ کسی کی اقتدا کی ہے اور نہ کسی سے تعلیم لی ہے۔نہ کسی صانع حکیم کی مثال کی پیروی کی ہے اور نہ کسی غلطی کا شکار ہوا ہے اورنہ مشیروں کی موجودگی میں کام انجام دیا ہے۔

۳۶۵

الرسول الأعظم

وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - ابْتَعَثَه والنَّاسُ يَضْرِبُونَ فِي غَمْرَةٍ - ويَمُوجُونَ فِي حَيْرَةٍ قَدْ قَادَتْهُمْ أَزِمَّةُ الْحَيْنِ - واسْتَغْلَقَتْ عَلَى أَفْئِدَتِهِمْ أَقْفَالُ الرَّيْنِ !

الوصية بالزهد والتقوى

عِبَادَ اللَّه أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا حَقُّ اللَّه عَلَيْكُمْ - والْمُوجِبَةُ عَلَى اللَّه حَقَّكُمْ وأَنْ تَسْتَعِينُوا عَلَيْهَا بِاللَّه - وتَسْتَعِينُوا بِهَا عَلَى اللَّه - فَإِنَّ التَّقْوَى فِي الْيَوْمِ الْحِرْزُ والْجُنَّةُ - وفِي غَدٍ الطَّرِيقُ إِلَى الْجَنَّةِ - مَسْلَكُهَا وَاضِحٌ وسَالِكُهَا رَابِحٌ ومُسْتَوْدَعُهَا حَافِظٌ - لَمْ تَبْرَحْ عَارِضَةً نَفْسَهَا عَلَى الأُمَمِ الْمَاضِينَ مِنْكُمْ - والْغَابِرِينَ

اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص)اس کے بندہ اور رسول ہیں۔انہیں اس وقت بھیجاہے جب لوگ گمراہیوں میں چکر کاٹ رہے تھے اورحیرانیوں میں غلطاں و پیچاں تھے۔ہلاکت کی مہاریں انہیں کھینچ رہی تھیں اور کدورت و زنگ کے تالے ان کے دلوں پر پڑے ہوئے تھے۔

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تمہارے اوپر اللہ کا حق ہے اور اس سے تمہارا(۱) حق پروردگار پیدا ہوتا ہے۔اس کے لئے الہ سے مدد مانگو اور اس کے ذریعہ اسی سے مدد طلب کرو کہ یہ تقویٰ آج دنیا میں سپر اورحفاظت کاذریعہ اور کل جنت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔اس کا مسلک واضح اور اس کا راہر و فائدہ حاصل کرنے والا ہے۔اور اس کا امانت دار حفاظت کرنے والا ہے۔یہ تقویٰ اپنے کو ان پر بھی پیش کرتا رہا ے جو گزرگئے اور ان پر بھی پیش کر رہا ہے جو باقی رہ گئے

(۱) کھلی ہوئی بات ہے کہ بندہ کسی قیمت پر پروردگار پرحق پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا ہے۔اس کا ہر عمل کرم پروردگار اورفضل الٰہی کانتیجہ ہے۔لہٰذا اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اطاعت الٰہی انجام دے کر اس کے مقابلہ میں صاحب حق ہو جائے اوراس پر اسی طرح حق پیدا کرلے جس طرح اس کا حق عبادت و اطاعت ہر بندہ پرہے۔

اس حق سے مراد بھی پروردگار کا یہ فضل و کرم ہے کہ اس نے بندوں سے انعام اورجزا کا وعدہ کرلیا ہے اور اپنے بارے میں یہ اعلان کردیا ہے کہ میں اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ہوں جس کے بعد ہر بندہ کو یہ حق پیدا ہوگیا ہے کہ وہ مالک سے اپنے اعمال کی جزا اور اس کے انعام کا مطالبہ کرے نہ اس لئے کہ اس نے اپنے پاس سے اور اپنی طاقت سے کوئی عمل انجام دیا ہے کہ یہ بات غیر ممکن ہے۔بلکہ اس لئے کہ مالک نے اس سے ثواب کاوعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدہ کو وفا کرنے کا ذمہ دار ہے اور اس سے ذرہ برابر انحراف نہیں کر سکتا ہے۔روایات میں حق محمد (ص) و آل محمد (ص) کامفہوم یہی ہے کہ انہوں نے اپنی عبادات کے ذریعہ وعدہ الٰہی کی وفا کا اتنا حق پیدا کرلیا ہے کہ ان کے وسیلہ سے دیگر افراد بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔بشرطیکہ وہ بھی انہیں کے نقش قدم پر چلیں اور انہیں کی طرح اطاعت و عبادت انجام دینے کی کوشش کریں ۔

۳۶۶

لِحَاجَتِهِمْ إِلَيْهَا غَداً - إِذَا أَعَادَ اللَّه مَا أَبْدَى - وأَخَذَ مَا أَعْطَى وسَأَلَ عَمَّا أَسْدَى - فَمَا أَقَلَّ مَنْ قَبِلَهَا وحَمَلَهَا حَقَّ حَمْلِهَا - أُولَئِكَ الأَقَلُّونَ عَدَداً - وهُمْ أَهْلُ صِفَةِ اللَّه سُبْحَانَه إِذْ يَقُولُ -( وقَلِيلٌ مِنْ عِبادِيَ الشَّكُورُ ) - فَأَهْطِعُوا بِأَسْمَاعِكُمْ إِلَيْهَا وأَلِظُّوا بِجِدِّكُمْ عَلَيْهَا - واعْتَاضُوهَا مِنْ كُلِّ سَلَفٍ خَلَفاً - ومِنْ كُلِّ مُخَالِفٍ مُوَافِقاً - أَيْقِظُوا بِهَا نَوْمَكُمْ واقْطَعُوا بِهَا يَوْمَكُمْ - وأَشْعِرُوهَا قُلُوبَكُمْ وارْحَضُوا بِهَا ذُنُوبَكُمْ - ودَاوُوا بِهَا الأَسْقَامَ وبَادِرُوا بِهَا الْحِمَامَ - واعْتَبِرُوا بِمَنْ أَضَاعَهَا ولَا يَعْتَبِرَنَّ بِكُمْ مَنْ أَطَاعَهَا - أَلَا فَصُونُوهَا وتَصَوَّنُوا بِهَا - وكُونُوا عَنِ الدُّنْيَا نُزَّاهاً - وإِلَى الآخِرَةِ وُلَّاهاً - ولَا تَضَعُوا مَنْ رَفَعَتْه التَّقْوَى - ولَا تَرْفَعُوا مَنْ رَفَعَتْه الدُّنْيَا -

ہیں کہ سب کو کل اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ جب پروردگار اپنی مخلوقات کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو کچھ عطا کیا ہے اسے واپس لیلے گا اور جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا سوال کرے گا۔کس قدر کم ہیں وہ افراد جنہوں نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کا واقعی حق اداکیا ہے۔یہ لوگ عدد میں بہت کم ہیں لیکن پروردگار کی اس توصیف کے حقدار ہیں کہ'' میرے شکر گزر بندے بہت کم ہیں ''۔ اب اپنے کانوںکو اس کی طرف مصروف کرو اورسعی و کوشش سے اس کی پابندی کرو اوراسے گزرتی ہوئی کوتاہیوں کا بدل قرار دو۔اور ہر مخالف کے مقابلہ میں موافق بنائو۔اس کے ذریعہ اپنی نیند کو بیداری میں تبدیل کرواور اپنے دن گزار دو۔اسے اپنے دلوں کا شعار بنائو اور اسی کے ذریعہ اپنے گناہوں کودھوڈالو۔اپنے امراض کا علاج کرو اپنی موت کی طرف سبقت کرو۔ان سے عبرت حاصل کرو جنہوں نے اس کو ضائع کردیا ہے اور خبردار وہ تم سے عبرت نہ حاصل کرنے پائیں جنہوں نے اس کا راستہ اختیار کیا ہے۔اس کی حفاظت کرو اور اس کے ذریعہ سے اپنی حفاظت کرودنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے عاشق بن جائو۔جسے تقویٰ بلند کردے اسے پست مت بنائو اور جسے دنیا اونچا بنادے اسے بلند مت سمجھو۔اس دنیا کے

۳۶۷

ولَا تَشِيمُوا بَارِقَهَا ولَا تَسْمَعُوا نَاطِقَهَا - ولَا تُجِيبُوا نَاعِقَهَا ولَا تَسْتَضِيئُوا بِإِشْرَاقِهَا - ولَا تُفْتَنُوا بِأَعْلَاقِهَا - فَإِنَّ بَرْقَهَا خَالِبٌ ونُطْقَهَا كَاذِبٌ - وأَمْوَالَهَا مَحْرُوبَةٌ وأَعْلَاقَهَا مَسْلُوبَةٌ - أَلَا وهِيَ الْمُتَصَدِّيَةُ الْعَنُونُ والْجَامِحَةُ الْحَرُونُ - والْمَائِنَةُ الْخَئُونُ والْجَحُودُ الْكَنُودُ - والْعَنُودُ الصَّدُودُ والْحَيُودُ الْمَيُودُ - حَالُهَا انْتِقَالٌ ووَطْأَتُهَا زِلْزَالٌ - وعِزُّهَا ذُلٌّ وجِدُّهَا هَزْلٌ وعُلْوُهَا سُفْلٌ - دَارُ حَرَبٍ وسَلَبٍ ونَهْبٍ وعَطَبٍ - أَهْلُهَا عَلَى سَاقٍ وسِيَاقٍ ولَحَاقٍ وفِرَاقٍ - قَدْ تَحَيَّرَتْ مَذَاهِبُهَا وأَعْجَزَتْ مَهَارِبُهَا -

چمکنے والے بادل(۱) پرنظر نہ کرو اور اس کے ترجمان کی بات مت سنو اس کے آوازدینے والے کی آواز پرلبیک مت کہو اور اس کی چمک دمک سے روشنی مت حاصل کرو اور اس کی قیمتی چیزوں پر جان مت دو۔اس لئے کہ اس کی بجلی فقط چمک دمک ہے اور اس کی باتیں سراسر غلط ہیں۔اس کے اموال لٹنے والے ہیں اور اس کا سامان چھننے والا ہے۔ آگاہ ہو جائو کہ یہ دنیا جھلک دکھا کر منہ موڑ لینے والی چنڈال ' منہ زور اڑیل' جھوٹی' خائن' ہٹ دھرم' نا شکری کرنے والی ' سیدھی راہ سے منحرف اورمنہ پھیرنے والی اور کجرو پیچ و تاب کھانے والی ہے۔اس کا طریقہ انتاقل ہے اوراس کا ہر قدم زلزلہ انگیز ہے۔اس کی عزت بھی ذلت ہے اوراس کی واقعیت بھی مذاق ہے۔اس کی بلندی پستی ہے اور یہ جنگ و جدل ۔حرب و ضرب ' لوٹ مار' ہلاکت و تباہی کا گھر ہے۔اس کے رہنے والے پابہ رکاب ہیں اور چل چلائو کے لئے تیار ہیں۔ان کی کیفیت و صل و فراق کی کشمکش کی ہے۔جہاں راستے گم ہوگئے ہیں اور گریز کی راہیں مشکل ہوگئی ہیں اور منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔محفوظ گھاٹیوں نے انہیں مشکلات کے حوالہ

(۱)خدا جانتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی حال قابلاعتبار نہیں ہے اور اس کی کسی کیفیت میں سکون و قرار نہیں ہے۔اس کا پہلا عیب تو یہ ہے کہ اس کے حالات میں قرار نہیں ہے۔صبح کا سویرا تھوڑی دیر میں دوپہربن جاتا ہے اور آفتاب کا شباب تھوڑی دیرمیں غروب ہوجاتا ہے۔انسان بچپنے کی آزادیوں سے مستفید نہیں ہونے پاتا ہے کہ جوانی کی دھوپ آجاتی ہے اور جوانی کی رعنائیوں سے لذت اندوز نہیں ہونے پاتا ہے کہ صنعتی کی کمزوریاں حملہ آور ہو جاتی ہیں غرض کوئی حالت ایسی نہیں ہے جس پر اعتبار کیا جا سکے اور جسے کسی حد تک پر سکون کہا جاسکے۔ اوردوسرا عیب یہ ہے کہ الگ الگ کوئی دور بھی قابل اطمینان نہیں ہے دولت مند دولت کو رو رہے ہیں اور غریب غربت کو۔بیمار بیماریوں کا مثیہ پڑھ رہے ہیں اورصحت مند صحت کے تقاضوں سے عاجز ہیں۔بے اولاد اولاد کے طلب گارہیں اور اولاد والے اولاد کی خاطر پریشان ۔

ایسی صورت حال میںتقاضائے عقل یہی ہے کہ دنیا کو ہدف اور مقصد تصور نہ کیا جائے اور اسے صرف آخرت کے وسیلہ کے طور پر استعمال کیاجائے اس کی نعمتوں میں سے اتنا ہی لے لیا جائے جتنا آخرت میں کام آنے والا ہے اور باقی کو اس کے اہل کے لئے چھوڑ دیا جائے ۔

۳۶۸

وخَابَتْ مَطَالِبُهَا فَأَسْلَمَتْهُمُ الْمَعَاقِلُ - ولَفَظَتْهُمُ الْمَنَازِلُ وأَعْيَتْهُمُ الْمَحَاوِلُ - فَمِنْ نَاجٍ مَعْقُورٍ ولَحْمٍ مَجْزُورٍ - وشِلْوٍ مَذْبُوحٍ ودَمٍ مَسْفُوحٍ - وعَاضٍّ عَلَى يَدَيْه وصَافِقٍ بِكَفَّيْه - ومُرْتَفِقٍ بِخَدَّيْه وزَارٍ عَلَى رَأْيِه - ورَاجِعٍ عَنْ عَزْمِه - وقَدْ أَدْبَرَتِ الْحِيلَةُ وأَقْبَلَتِ الْغِيلَةُ - ولَاتَ حِينَ مَنَاصٍ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ - قَدْ فَاتَ مَا فَاتَ وذَهَبَ مَا ذَهَبَ - ومَضَتِ الدُّنْيَا لِحَالِ بَالِهَا -( فَما بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّماءُ والأَرْضُ وما كانُوا مُنْظَرِينَ ) .

کردیا ہے اور منزلوں نے انہیں دور پھینک دیا ہے۔دانشمندیوں نے بھی انہیں درماندہ کردیا ہے۔اب جو بنچ گئے ہیں ان میں کچھ کی کونچیں کٹی ہوئی ہیں۔کچھ گوشت کے لوتھڑے ہیں جن کی کھال اتار لی گئی ہے۔کچھ کٹے ہوئے جسم اور بہتے ہوئے خون جیسے ہیں۔کچھ اپنے ہاتھ کاٹنے والے ہیں اور کچھ کف افسوس ملنے والے۔کچھ فکرو تردد میں کہنیاں رخساروں پر رکھے ہوئے اور کچھ اپنی فکر سے بیزار اور اپنے ارادہ سے رجوع کرنے والے ہیں۔حیلوں نے منہ پھیر لیا ہے اور ہلاکت سامنے آگئی ہے مگر چھٹکارے کا وقت نکل چکا ہے۔یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے جو چیز گزر گئی وہ گزر گئی اورجو وقت چلا گیاوہ چلا گیا اور دنیا اپنے حال میں من مانی کرتی ہوئی گزر گئی۔نہ ان پر آسمان رویا اور نہزمین اور نہ انہیں مہلت ہی دی گئی۔

۳۶۹

(۱۹۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

تسمى القاصعة

وهي تتضمن ذم إبليس لعنه اللَّه، على استكباره وتركه السجود لآدمعليه‌السلام ، وأنه أول من أظهر العصبية وتبع الحمية، وتحذير الناس من سلوك طريقته.

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَبِسَ الْعِزَّ والْكِبْرِيَاءَ - واخْتَارَهُمَا لِنَفْسِه دُونَ خَلْقِه - وجَعَلَهُمَا حِمًى وحَرَماً عَلَى غَيْرِه - واصْطَفَاهُمَا لِجَلَالِه.

رأس العصيان

وجَعَلَ اللَّعْنَةَ عَلَى مَنْ نَازَعَه فِيهِمَا مِنْ عِبَادِه - ثُمَّ اخْتَبَرَ بِذَلِكَ مَلَائِكَتَه الْمُقَرَّبِينَ - لِيَمِيزَ الْمُتَوَاضِعِينَ مِنْهُمْ مِنَ الْمُسْتَكْبِرِينَ

(۱۹۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(خطبہ قاصعہ)

(اس خطبہ میں ابلیس کے تکبر کی مذمت کی گئی ہے اور اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تعصب اور غرور کا راستہ اسی نے اختیار کیاہے لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کا لباس عزت اور کبریائی ہے اور اس نے اس کمال میں کسی کو شریک نہیں بنایا ہے۔اس نے ان دونوں صفتوں کو ہر ایک کے لئے حرام اور ممنوع قرار دے کر صر ف اپنی عزت و جلال کے لئے منتخب کرلیا ہے

اورجس نے بھی ان دونوں صفتوں میں اس سے مقابلہ کرنا چاہا ہے سے ملعون قرار دے دیا ہے۔اس کے بعد اسی رخ سے ملائکہ مقربین(۱) کا امتحان لیا ہے تاکہ تواضع کرنے والوں اور غرور رکھنے والوں میں امتیاز قائم ہو جائے اور اسی بنیاد پر

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملائکہ کی عصمت بشرجیسی اختیاری نہیں ہے جہاں انسان سارے جذبات و خواہشات سے ٹکرا کرعصمت کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ملائکہ بالکل جمادات و نباتات جیسے نہیں ہیں کہ انہیں کسی طرح کا اختیار حاصل نہ ہو۔ ورنہاگر ایسا ہوتاتو نہ تکلیف کے کوئی معنی ہوت اور نہ امتحان کا کوئی مقصد ہوتا۔ان میں جذبات و احساسات ہیں لیکن بشر جیسے نہیں ہیں۔انہیں فعل و ترک کا اختیار حاصل ہے لیکن بالکل انسانوں جیسا نہیں ہے۔اسی بنا پر ان کا امتحان لیا گیا اور امتحان صرف جذبہ حب ذات اور انانیت سے متعلق تھا کہ یہ جذبہ ملک کے اندر بھی بظاہر پایا جاتا ہے۔اور اسی جذبہ کی آزمائش کے لئے آدم کو بظاہر '' پست ترین عنصر '' سے پیداکیا گیا جسے عام طور سے پیروں سے روند دیا جاتا ہے لیکناسی پیکر خاکی میں روح کمال کو پھونک کر اتنا بلند بنا دیا کہ ملائکہ کے مسجود بننے کے لائق ہوگئے اور قدرت نے انسانوں کو بھی متوجہ کردیا کہ تمہارا کمال تمہاری اصل سے نہیں ہے۔تمہارا کمال ہمارے رابطہ اور تعلق سے ہے۔لہٰذا جب تک یہ رابطہ بر قرار رہے گا تم صاحب کمال رہوگے اور جس دن یہ رابطہ ٹوٹ جائے گا تم خاک کاڈھیر ہو جائوگے اور بس۔!

۳۷۰

فَقَالَ سُبْحَانَه وهُوَ الْعَالِمُ بِمُضْمَرَاتِ الْقُلُوبِ - ومَحْجُوبَاتِ الْغُيُوبِ( إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ - فَإِذا سَوَّيْتُه ونَفَخْتُ فِيه مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَه ساجِدِينَ - فَسَجَدَ الْمَلائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ ) - اعْتَرَضَتْه الْحَمِيَّةُ فَافْتَخَرَ عَلَى آدَمَ بِخَلْقِه - وتَعَصَّبَ عَلَيْه لأَصْلِه - فَعَدُوُّ اللَّه إِمَامُ الْمُتَعَصِّبِينَ وسَلَفُ الْمُسْتَكْبِرِينَ - الَّذِي وَضَعَ أَسَاسَ الْعَصَبِيَّةِ ونَازَعَ اللَّه رِدَاءَ الْجَبْرِيَّةِ - وادَّرَعَ لِبَاسَ التَّعَزُّزِ وخَلَعَ قِنَاعَ التَّذَلُّلِ.

أَلَا تَرَوْنَ كَيْفَ صَغَّرَه اللَّه بِتَكَبُّرِه - ووَضَعَه بِتَرَفُّعِه فَجَعَلَه فِي الدُّنْيَا مَدْحُوراً - وأَعَدَّ لَه فِي الآخِرَةِ سَعِيراً؟!

ابتلاء اللَّه لخلقه

ولَوْ أَرَادَ اللَّه أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ مِنْ نُورٍ - يَخْطَفُ الأَبْصَارَ ضِيَاؤُه ويَبْهَرُ الْعُقُولَ رُوَاؤُه - وطِيبٍ يَأْخُذُ الأَنْفَاسَ عَرْفُه لَفَعَلَ - ولَوْ فَعَلَ لَظَلَّتْ لَه الأَعْنَاقُ خَاضِعَةً - ولَخَفَّتِ الْبَلْوَى فِيه عَلَى الْمَلَائِكَةِ. ولَكِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَبْتَلِي خَلْقَه بِبَعْضِ مَا يَجْهَلُونَ أَصْلَه

اس دلوں کے راز اور غیب کے اسرار سے با خبر پروردگار نے یہ اعلان کردیا کہ '' میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں اور جب اس کا پیکر تیار ہو جائے اورمیں اس میںروح کمال پھونک دوں تو تم سب سجدہ میں گر پڑتا '' جس کے بعد تمام ملائکہ نے سجدہ کرلیا۔صرف ابلیس نے انکار کردیا '' کہ اسے تعصب لاحق ہوگیا اور اس نے اپنی تخلیق کے مادہ سے آدم پر فخر کیا اور اپنی اصل کی بنا پراستکبار کا شکار ہوگیا جس کے بعد یہ دشمن خدا تمام متعصب افراد کا پیشوا اور تمام متکبر لوگوں کا مورث اعلیٰ بن گیا۔اسی نے عصبیت کی بنیاد قائم کی اور اسی نے پروردگارسے جبروت کی رداء میں مقابلہ کیا اور اپنے خیال میں عزت و جلال کا لباس زیب تن کر لیا اور تواضع کا نقاب اتار کر پھینک دیا۔

اب کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ پروردگار نے کس طرح اسے تکبر کی بنا پرچھوٹا بنادیا ہے اور بلندی کے اظہار کے بنیاد پر پست کردیا ہے۔دنیا میں اسے ملعون قرار دے دیا ہے اور آخرت میں اس کے لئے آتش جہنم کا انتظام کردیا ہے۔

اگر پروردگار یہ چاہتا کہ آدم کو ایک ایسے نورس ے خلق کرے جس کی ضیاء آنکھوں کو چکا چوند کردے اورجس کی رونق عقلوں کو مبہوت کردے یا ایسی خوشبو سے بنائے جس مہک سانسوں کو جکڑلے تو یقینا کر سکتا تھا اور اگر ایسا کر دیتا تو یقینا گردنیں ان کے سمنے جھک جاتیں اور ملائکہ کا امتحان آسان ہو جاتا لیکن وہ ان چیزوں سے امتحان لینا چاہتا تھا جن کی اصل معلوم نہ ہوتاکہ اسی

۳۷۱

تَمْيِيزاً بِالِاخْتِبَارِ لَهُمْ ونَفْياً لِلِاسْتِكْبَارِ عَنْهُمْ - وإِبْعَاداً لِلْخُيَلَاءِ مِنْهُمْ.

طلب العبرة

فَاعْتَبِرُوا بِمَا كَانَ مِنْ فِعْلِ اللَّه بِإِبْلِيسَ - إِذْ أَحْبَطَ عَمَلَه الطَّوِيلَ وجَهْدَه الْجَهِيدَ - وكَانَ قَدْ عَبَدَ اللَّه سِتَّةَ آلَافِ سَنَةٍ - لَا يُدْرَى أَمِنْ سِنِي الدُّنْيَا أَمْ مِنْ سِنِي الآخِرَةِ - عَنْ كِبْرِ سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ - فَمَنْ ذَا بَعْدَ إِبْلِيسَ يَسْلَمُ عَلَى اللَّه بِمِثْلِ مَعْصِيَتِه - كَلَّا مَا كَانَ اللَّه سُبْحَانَه لِيُدْخِلَ الْجَنَّةَ بَشَراً - بِأَمْرٍ أَخْرَجَ بِه مِنْهَا مَلَكاً - إِنَّ حُكْمَه فِي أَهْلِ السَّمَاءِ وأَهْلِ الأَرْضِ لَوَاحِدٌ - ومَا بَيْنَ اللَّه وبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ خَلْقِه هَوَادَةٌ - فِي إِبَاحَةِ حِمًى حَرَّمَه عَلَى الْعَالَمِينَ.

امتحان سے ان کا امتیاز قائم ہو سکے ۔اور ان کے استکبار کا علاج کیا جا سکے اور انہیں غرور سے ور رکھا جا سکے۔

تو اب تم سب پروردگار کے ابلیس کے ساتھ برتائو سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جدو جہد کو تباہ کردیا جب کہ وہ چھ ہزار سال عبادت کر چکا تھا۔ جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ دنیا کے سال تھے یاآخرت کے مگر ایک ساعت کے تکبر نے سب کو ملیا میٹ کردیا تو اب اس کے بعد کون ایسی معصیت کرکے عذاب الٰہی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ جس جرم کی بنا پر ملک(۱) کو نکال باہر کیا اس کے ساتھ بشر کو داخل جنت کردے جب کہ خدا کا قانون زمین و آسمان کے لئے ایک ہی جیسا ہے اور اللہ اور کسی خاص بندہ کے درمیان کوئی ایسا خاص تعلق نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے اس چیز کو حلال کردے جو سارے عالمین کے لئے حرام قرار دی ہے۔

(۱)اس مقام پر یہ سوال ضرور پیداہوتا ہے کہ سورۂ کہف کی آیت ۵۰ میں ابلیس کو جنات میں قراردیا گیا ہے تو اس مقام پر اسے ملک کے لفظ سے کس طرح تعبیر کیا گیا ہے ۔لیکن اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ مقام تکلیف میں ہمیشہ ظاہر کو دیکھا جاتا ہے اور مقام جزا میں حقیقت پر نگاہ کی جاتی ہے۔ایمان کے احکام ان تمام افراد کے لئے ہیں جن کا ظاہر ایمان ہے لیکن ایمان کی جزا اور اس کا انعام صرف ان افراد کے لئے ہے جو واقعی صاحبان ایمان ہیں۔

یہی حال ملائکہ اور جنات کا ہے کہ ملائکہ کے احکام میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو اپنے ملک ہونے کے دعویدار ہیں چاہے واقعاً قوم جن سے تعلق رکھتے ہو اور ملائکہ کی عظمت و شرافت صرف ان فراد کے لئے ہے جو واقعاً ملک ہیں اور اس کا قوم جن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۳۷۲

التحذير من الشيطان

فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه عَدُوَّ اللَّه أَنْ يُعْدِيَكُمْ بِدَائِه - وأَنْ يَسْتَفِزَّكُمْ بِنِدَائِه وأَنْ يُجْلِبَ عَلَيْكُمْ بِخَيْلِه ورَجِلِه - فَلَعَمْرِي لَقَدْ فَوَّقَ لَكُمْ سَهْمَ الْوَعِيدِ - وأَغْرَقَ إِلَيْكُمْ بِالنَّزْعِ الشَّدِيدِ - ورَمَاكُمْ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ - فَقَالَ( رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ - ولأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ) - قَذْفاً بِغَيْبٍ بَعِيدٍ ورَجْماً بِظَنٍّ غَيْرِ مُصِيبٍ - صَدَّقَه بِه أَبْنَاءُ الْحَمِيَّةِ وإِخْوَانُ الْعَصَبِيَّةِ - وفُرْسَانُ الْكِبْرِ

والْجَاهِلِيَّةِ - حَتَّى إِذَا انْقَادَتْ لَه الْجَامِحَةُ مِنْكُمْ - واسْتَحْكَمَتِ الطَّمَاعِيَّةُ مِنْه فِيكُمْ - فَنَجَمَتِ الْحَالُ مِنَ السِّرِّ الْخَفِيِّ إِلَى الأَمْرِ الْجَلِيِّ - اسْتَفْحَلَ سُلْطَانُه عَلَيْكُمْ - ودَلَفَ بِجُنُودِه نَحْوَكُمْ - فَأَقْحَمُوكُمْ وَلَجَاتِ الذُّلِّ - وأَحَلُّوكُمْ وَرَطَاتِ الْقَتْلِ - وأَوْطَئُوكُمْ إِثْخَانَ الْجِرَاحَةِ طَعْناً فِي عُيُونِكُمْ - وحَزّاً فِي حُلُوقِكُمْ

بندگان خدا ! اس دشمن خدا سے ہوشیار رہو۔کہیں تمہیں بھی اپنے مرض میں مبتلا نہ کردے اور کہیں اپنی آواز پرکھینچ نہ لے اور تم پر اپنے سوار اور پیادہ لشکر سے حملہ نہ کردے۔اس لئے کہ میری جان کی قسم اس نے تمہارے لئے شر انگیزی کے تیر کو چلئہ کمان میں جوڑ لیا ہے اور کمان کو زور سے کھینچ لیا ہے اورتمہیں بہت نزدیک سے نشانہ بنانا چاہتا ہے۔اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ '' پروردگار جس طرح تونے مجھے بہکا دیا ہے اب میںبھی ان کے لئے گناہوں کو آراستہ کردوں گا اور ان سب کو گمراہ کردوں گا '' حالانکہ یہ بات بالکل اٹکل پچو سے کہی تھی اور بالکل غلط اندازہ کی بنا پر زبان سے نکالی تھی لیکن غرور کی اولاد ' تعصب کی برادری اورتکبر و جاہلیت کے شہسواروں نے اس کی بات کی تصدیق کردی۔یہاں تک کہ جب تم میں سے منہ زوری کرنے والے اس کے مطیع ہوگئے اور اس کی طمع تم میں مستحکم ہوگئی تو بات پردۂ رازسے نکل کرمنظر عام آگئی۔اس نے اپنے اقتدار کو تم پر قائم کرلیا اور اپنے لشکروں کا رخ تمہاری طرف موڑ دیا۔انہوں نے تمہیں ذلت کے غاروں میں ڈھکیل دیا اور تمہیں قتل و خون کے بھنور میں پھنسا دیا اور مسلسل زخمی کرکے پامال کر دیا۔تمہاری آنکھوں نے تمہیں ذلت کے غاروں میں ڈھکیل دیا اور تمہیں قتل و خون کے بھنور میں پھنسا دیا اور مسلسل زخمی کرکے پامال کر دیا تمہاری آنکھوں میں نیزے چبھودئیے تمہارے حلق میں خنجر چلا

۳۷۳

ودَقّاً لِمَنَاخِرِكُمْ - وقَصْداً لِمَقَاتِلِكُمْ وسَوْقاً بِخَزَائِمِ الْقَهْرِ - إِلَى النَّارِ الْمُعَدَّةِ لَكُمْ - فَأَصْبَحَ أَعْظَمَ فِي دِينِكُمْ حَرْجاً - وأَوْرَى فِي دُنْيَاكُمْ قَدْحاً - مِنَ الَّذِينَ أَصْبَحْتُمْ لَهُمْ مُنَاصِبِينَ وعَلَيْهِمْ مُتَأَلِّبِينَ - فَاجْعَلُوا عَلَيْه حَدَّكُمْ ولَه جِدَّكُمْ - فَلَعَمْرُ اللَّه لَقَدْ فَخَرَ عَلَى أَصْلِكُمْ - ووَقَعَ فِي حَسَبِكُمْ ودَفَعَ فِي نَسَبِكُمْ - وأَجْلَبَ بِخَيْلِه عَلَيْكُمْ وقَصَدَ بِرَجِلِه سَبِيلَكُمْ - يَقْتَنِصُونَكُمْ بِكُلِّ مَكَانٍ ويَضْرِبُونَ مِنْكُمْ كُلَّ بَنَانٍ - لَا تَمْتَنِعُونَ بِحِيلَةٍ ولَا تَدْفَعُونَ بِعَزِيمَةٍ - فِي حَوْمَةِ ذُلٍّ وحَلْقَةِ ضِيقٍ - وعَرْصَةِ مَوْتٍ وجَوْلَةِ بَلَاءٍ - فَأَطْفِئُوا مَا كَمَنَ فِي قُلُوبِكُمْ - مِنْ نِيرَانِ الْعَصَبِيَّةِ وأَحْقَادِ الْجَاهِلِيَّةِ - فَإِنَّمَا تِلْكَ الْحَمِيَّةُ تَكُونُ فِي الْمُسْلِمِ - مِنْ خَطَرَاتِ الشَّيْطَانِ ونَخَوَاتِه ونَزَغَاتِه ونَفَثَاتِه - واعْتَمِدُوا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلَى رُءُوسِكُمْ - وإِلْقَاءَ التَّعَزُّزِ تَحْتَ أَقْدَامِكُمْ - وخَلْعَ التَّكَبُّرِ مِنْ أَعْنَاقِكُمْ

دئیے اورتمہاری ناک کورگڑ دیا ۔تمہارے جوڑ بند کو توڑ دیا اورتمہاری ناک میں قہرو غلبہ کی نکیل ڈال کر تمہیں اس آگ کی طرف کھینچ لیا جو تمہارے ہی واسطے مہیا کی گئی ہے۔وہ تمہارے دین کو ا ن سب سے زیادہ مجروح کرنے والا اور تمہاری دنیا میں ان سب سے زیادہ فتنہ وفساد کی آگ بھڑکانے والا ہے جن س مقابلہ کی تم ن تیاری کر رکھی ہے اور جن کے خلاف تم نے لشکر جمع کئے ہیں۔لہٰذا اب اپنے غیظ و غضب کا مرکز اسی کو قرار دو اور ساری کوشش اسی ک خلاف صرف کرو۔خدا کی قسم اس نے تمہاری اصل پر اپنی برتری کا اظہر کیا ہے اور تمہارے حسب میں عیب نکالا ہے اور تمہارے نسب پر طعنہ دیا ہے اورتمہارے خلاف لشکر جمع کیا ہے اور تمہارے راستہ کو اپنے پیادوں سے روند نے کا ارادہ کیا ہے۔جو ہر جگہ تمہارا شکار کرناچاہتے ہیں اور ہر مقام پر تمہارے ایک ایک انگلی کے پور پر ضرب لگانا چاہتے ہیں اورتم نہ کسی حیلہ سے اپنا بچائو کرتے ہو اور نہ کسی عزم و ارادہ سے اپنا دفاع کرتے ہو درانحالیکہ تم ذلت کے بھنور' تنگی کے دائرہ' موت کے میدان اور بلائوں کی جولانگاہ میں ہو۔اب تمہارا فرض ہے کہ تمہارے دلوںمیں جو عصبیت اور جاہلیت کے کینوں کی آگ بھڑک رہی ہے اسے بجھا دو کہ یہ غرور ایک مسلمان کے اندر شیطانی وسوسوں ' نخوتوں ' فتنہ انگیزیوں اور فسوں کا ریوں کا نتیجہ ہے۔ اپنے سرپر تواضع کا تاج رکھنے کا عزم کرو اور تکبر کو اپنے پیروں تلے رکھ کر کچل دو۔غرور کے طوق کو اپنی گردنوں سے اتار کرپھینک دواور

۳۷۴

واتَّخِذُوا التَّوَاضُعَ - مَسْلَحَةً بَيْنَكُمْ وبَيْنَ عَدُوِّكُمْ إِبْلِيسَ وجُنُودِه - فَإِنَّ لَه مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ جُنُوداً وأَعْوَاناً - ورَجِلًا وفُرْسَاناً - ولَا تَكُونُوا كَالْمُتَكَبِّرِ عَلَى ابْنِ أُمِّه - مِنْ غَيْرِ مَا فَضْلٍ جَعَلَه اللَّه فِيه - سِوَى مَا أَلْحَقَتِ الْعَظَمَةُ بِنَفْسِه مِنْ عَدَاوَةِ الْحَسَدِ - وقَدَحَتِ الْحَمِيَّةُ فِي قَلْبِه مِنْ نَارِ الْغَضَبِ - ونَفَخَ الشَّيْطَانُ فِي أَنْفِه مِنْ رِيحِ الْكِبْرِ - الَّذِي أَعْقَبَه اللَّه بِه النَّدَامَةَ - وأَلْزَمَه آثَامَ الْقَاتِلِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

التحذير من الكبر

أَلَا وقَدْ أَمْعَنْتُمْ فِي الْبَغْيِ وأَفْسَدْتُمْ فِي الأَرْضِ - مُصَارَحَةً لِلَّه بِالْمُنَاصَبَةِ - ومُبَارَزَةً لِلْمُؤْمِنِينَ بِالْمُحَارَبَةِ - فَاللَّه اللَّه فِي كِبْرِ الْحَمِيَّةِ وفَخْرِ الْجَاهِلِيَّةِ - فَإِنَّه مَلَاقِحُ الشَّنَئَانِ ومَنَافِخُ الشَّيْطَانِ - الَّتِي خَدَعَ بِهَا الأُمَمَ الْمَاضِيَةَ والْقُرُونَ الْخَالِيَةَ - حَتَّى أَعْنَقُوا فِي حَنَادِسِ جَهَالَتِه ومَهَاوِي ضَلَالَتِه - ذُلُلًا عَنْ سِيَاقِه سُلُساً فِي قِيَادِه - أَمْراً تَشَابَهَتِ الْقُلُوبُ فِيه

اپنے اور اپنے دشمن ابلیس اور اس کے لشکروں کے درمیان تواضع و انکسار کا مورچہ قائم کرلو کہ اس نے ہر قوم میں سے اپنے لشکر ' مدد گار' پیادہ ' سوار سب کاانتظام کرلیا ہے اور خبردار اس شخص کے جیسے نہ ہو جائو جس نے اپنے مانجائے(۱) کے مقابلہ میں غرور کیا بغیر اس کے کہ اللہ نے اسے کوئی فضیلت عطا کی ہو علاوہ اس کے حسد کی عداوت نے اس کے نفس میں عظمت کا احساسا پیدا کردا دیا اور بیجا غیرت نے اس کے دل میں غضب کی آگ بھڑکا دی شیطان نے اس کی ناک میں تکبر کی ہوا پھونک دی اور انجام کارندامت ہی ہاتھ آئی اور قیامت تک کے تمام قاتلوں کا گناہ اس کے ذمہ آگیا کہ اس نے قتل کی بنیاد قائم کی ہے۔

یاد رکھو تم نے اللہ سے کھلم کھلا دشمنی اور صاحبان ایمان سے جنگ کا اعلان کرکے ظلم کی انتہا کردی ہے اور زمین میں فساد برپا کردیا ہے۔خدارا خدا سے ڈرو۔تکبر کے غرور اور جاہلیت کے تفاخرکے سلسلہ میں کہ یہ عداوتوں کے پیدا ہونے کی جگہ اور شیطان کی فسوں کاری کی منزل ہے۔اسی کے ذریعہ اس نے گذشتہ قوموں اور اگلی نسلوں کودھوکہ دیا ہے ۔یہاں تک کہ وہ لوگ جہالت کے اندھیروں اور ضلالت کے گڑھوں میں گر پڑے ۔وہ اپنے ہنکانے والے کے مکمل تابع اور کھینچنے والے کے سراپا اطاعت تھے۔یہی وہ امر ہے جس میں قلوب سب

(۱) ہابیل اور قابیل کی طرف اشارہ ہے جہاں قابیل نے صرف حسد اور تعصب کی بنیاد پر اپنے حقیقی بھائی کا خون کردیا اور اللہ کی پاکیزہ زمین کو خون نا حق سے رنگین کردیا اور اس طرح دنیا میں قتل و خون کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے ہر جرم میں قابیل کا ایک حصہ بہر حال رہے گا۔

۳۷۵

وتَتَابَعَتِ الْقُرُونُ عَلَيْه - وكِبْراً تَضَايَقَتِ الصُّدُورُ بِه.

التحذير من طاعة الكبراء

أَلَا فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ مِنْ طَاعَةِ سَادَاتِكُمْ وكُبَرَائِكُمْ - الَّذِينَ تَكَبَّرُوا عَنْ حَسَبِهِمْ وتَرَفَّعُوا فَوْقَ نَسَبِهِمْ - وأَلْقَوُا الْهَجِينَةَ عَلَى رَبِّهِمْ، وجَاحَدُوا اللَّه عَلَى مَا صَنَعَ بِهِمْ - مُكَابَرَةً لِقَضَائِه ومُغَالَبَةً لِآلَائِه - فَإِنَّهُمْ قَوَاعِدُ أَسَاسِ الْعَصَبِيَّةِ - ودَعَائِمُ أَرْكَانِ الْفِتْنَةِ وسُيُوفُ اعْتِزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ - فَاتَّقُوا اللَّه ولَا تَكُونُوا لِنِعَمِه عَلَيْكُمْ أَضْدَاداً - ولَا لِفَضْلِه عِنْدَكُمْ حُسَّاداً - ولَا تُطِيعُوا الأَدْعِيَاءَ الَّذِينَ شَرِبْتُمْ بِصَفْوِكُمْ كَدَرَهُمْ - وخَلَطْتُمْ بِصِحَّتِكُمْ مَرَضَهُمْ وأَدْخَلْتُمْ فِي حَقِّكُمْ بَاطِلَهُمْ - وهُمْ أَسَاسُ الْفُسُوقِ وأَحْلَاسُ الْعُقُوقِ -

اتَّخَذَهُمْ إِبْلِيسُ مَطَايَا ضَلَالٍ - وجُنْداً بِهِمْ يَصُولُ عَلَى النَّاسِ - وتَرَاجِمَةً يَنْطِقُ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ -

ایک جیسے ہیں اور نسلیں اسی راہ پر چلتی رہی ہیں اور یہی وہ تکبر ہے جس کی پردہ پوشی سے سینے تنگ ہیں۔

آگاہ ہو جائو ۔اپنے ان بزرگوں(۱) اور سرداروں کی اطاعت سے محتاط رہو جنہوں نے اپنے حسب پر غرور کیا اور اپنے نسب کی بنیاد پر اونچے بن گئے۔بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیا اوراس کے احسانات کا صریحی انکار کردیا۔انہوںنے اس کے فیصلہ سے مقابلہ کیا ہے اور اس کی نعمتوں پرغلبہ حاصل کرنا چاہا ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو عصبیت کی بنیاد۔فتنہ کے ستون۔اور جاہلیت کے غرورکی تلواریں ہیں۔

اللہ سے ڈرو اور خبر دار اس کی نعمتوں کے دشمن اور اس کے دئیے ہوئے فضاء کے حاسد نہ بنو۔ان جھوٹے مدعیان اسلام کا اتباع نہ کروجن کے گندہ پانی کو اپنے صاف پانی میں ملا کر پی رہے ہو اور جن کی بیماریوں کو تم نے اپنی صحت کے ساتھ مخلوط کردیا ہے اور جن کے باطل کو اپنے حق میں شامل کرلیا ہے۔یہ لوگ فسق وفجور کی بنیاد ہیں اور نا فرمانیوں کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں

ابلیس نے انہیں گمراہی کی سواری بنالیا ہے اور ایسا لشکر قرار دے لیا ہے جس کے ذریعہ لوگوں پر حملہ کرتا ہے اور یہی اس کے ترجمان ہیں جن کی زبان سے وہ بولتا ہے

(۱)قوم کی تباہی اور بربادی میں سب سے بڑا ہاتھ ان رئیسوں اور سرداروں کا ہوتا ہے جن کی حیثیت کچھ نہیں ہوتی ہے لیکن اپنے کو اس قدر عظیم بنا کر پیش کرتے ہیںجس کا ندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ان کے پاس تعصب عناد غرور اور تکبر کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے اور غریب بندگان خدا کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ نے ہم کو بلند بنایا ہے اور اسی نے تمہیںپست قرار دیا ہے لہٰذا اب تمہارا فرض ہے کہ اس کے فیصلہ پر راضی رہو اور ہماری اطاعت کی راہ پر چلتے رہو بغاوت کا ارادہ مت کرو کہ یہ قضا و قدر الٰہی سے بغاوت ہے اور یہ شان اسلام کے خلاف ہے۔

۳۷۶

اسْتِرَاقاً لِعُقُولِكُمْ ودُخُولًا فِي عُيُونِكُمْ - ونَفْثاً فِي أَسْمَاعِكُمْ - فَجَعَلَكُمْ مَرْمَى نَبْلِه ومَوْطِئَ قَدَمِه ومَأْخَذَ يَدِه.

العبرة بالماضين

فَاعْتَبِرُوا بِمَا أَصَابَ الأُمَمَ الْمُسْتَكْبِرِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ - مِنْ بَأْسِ اللَّه وصَوْلَاتِه ووَقَائِعِه ومَثُلَاتِه - واتَّعِظُوا بِمَثَاوِي خُدُودِهِمْ ومَصَارِعِ جُنُوبِهِمْ - واسْتَعِيذُوا بِاللَّه مِنْ لَوَاقِحِ الْكِبْرِ - كَمَا تَسْتَعِيذُونَه مِنْ طَوَارِقِ الدَّهْرِ فَلَوْ رَخَّصَ اللَّه فِي الْكِبْرِ لأَحَدٍ مِنْ عِبَادِه - لَرَخَّصَ فِيه لِخَاصَّةِ أَنْبِيَائِه - وأَوْلِيَائِه ولَكِنَّه سُبْحَانَه كَرَّه إِلَيْهِمُ التَّكَابُرَ - ورَضِيَ لَهُمُ التَّوَاضُعَ - فَأَلْصَقُوا بِالأَرْضِ خُدُودَهُمْ - وعَفَّرُوا فِي التُّرَابِ وُجُوهَهُمْ - وخَفَضُوا أَجْنِحَتَهُمْ لِلْمُؤْمِنِينَ - وكَانُوا قَوْماً مُسْتَضْعَفِينَ - قَدِ اخْتَبَرَهُمُ اللَّه بِالْمَخْمَصَةِ وابْتَلَاهُمْ بِالْمَجْهَدَةِ - وامْتَحَنَهُمْ بِالْمَخَاوِفِ ومَخَضَهُمْ بِالْمَكَارِه - فَلَا تَعْتَبِرُوا الرِّضَى والسُّخْطَ بِالْمَالِ والْوَلَدِ - جَهْلًا بِمَوَاقِعِ الْفِتْنَةِ - والِاخْتِبَارِ فِي مَوْضِعِ الْغِنَى والِاقْتِدَارِ - فَقَدْ قَالَ سُبْحَانَه وتَعَالَى -

تمہاری عقلوں کو چھیننے کے لئے اور تمہاری آنکھوں میں سما جانے کے لئے اور تمہارے کانوں میں اپنی باتوں کو پھونکنے کے لئے اس نے تمہیںاپنے تیروں کا نشانہ اور اپنے قدموں کی جولانگاہ اور اپنے ہاتھ کا کھولنا بنالیا ہے۔

دیکھو تم سے پہلے استکبار کرنے والی قوموں پر جوخداکا عذاب ۔حملہ۔قہر اور عتاب نازل ہوا ہے اس سے عبرت حاصل کرو۔ان کے رخساروں کے بھل لیٹنے اور پہلوئوں کے بھل گرنے سے نصیحت حاصل کرو۔اللہ کی بارگاہ میں تکبر کی پیداوار کی منزلوں سے اس طرح پناہ مانگو جس طرح زمانہ کے حوادث سے پناہ مانگتے ہو۔اگر پروردگار تکبر کی اجازت کسی بندہ کو دے سکتا تو سب سے پہلے اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء کو اجازت دیتا لیکن اس بے نیاز نے ان کے لئے بھی تکبر کو نا پسند قراردیا ہے اور ان کی بھی تواضع ہی سے خوش ہوا ہے۔انہوں نے اپنے رخساروں کو زمین سے چپکادیا تھا اور اپنے چہروں کوخاک پر رکھ دیا تھا اور اپنے شانوں کو مومنین کے لئے جھکا دیا تھا۔

یہ سب سماج کے وہ کمزور بنادئیے جانے والے افراد تھے جن کا خدا نے بھوک سے امتحان لیا۔مصائب سے آزمایا۔خوفناک مراحل سے اختیارکیا اور ناخوشگوار حالات میں انہیں تہ و بالا کرکے دیکھ لیا۔خبردار خدا کی خوشنودی اور ناراضگی کا معیار مال اور اولاد کو قرارنہ دینا کہ تم فتنہ کی منزلوں کو نہیں پہچانتے ہو اور تمہیں نہیں معلوم ہے کہ خدا مالداری اور اقتدار سے کس طرح امتحان لیتا ہے۔اس نے صاف اعلان کردیا ہے'' کیا ان لوگوں

۳۷۷

( أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِه مِنْ مالٍ وبَنِينَ - نُسارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْراتِ بَلْ لا يَشْعُرُونَ ) فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَخْتَبِرُ عِبَادَه الْمُسْتَكْبِرِينَ فِي أَنْفُسِهِمْ - بِأَوْلِيَائِه الْمُسْتَضْعَفِينَ فِي أَعْيُنِهِمْ –

تواضع الأنبياء

ولَقَدْ دَخَلَ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ ومَعَه أَخُوه هَارُونُعليه‌السلام - عَلَى فِرْعَوْنَ وعَلَيْهِمَا مَدَارِعُ الصُّوفِ - وبِأَيْدِيهِمَا الْعِصِيُّ فَشَرَطَا لَه إِنْ أَسْلَمَ - بَقَاءَ مُلْكِه ودَوَامَ عِزِّه - فَقَالَ أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هَذَيْنِ يَشْرِطَانِ لِي دَوَامَ الْعِزِّ - وبَقَاءَ الْمُلْكِ - وهُمَا بِمَا تَرَوْنَ مِنْ حَالِ الْفَقْرِ والذُّلِّ - فَهَلَّا أُلْقِيَ عَلَيْهِمَا أَسَاوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ - إِعْظَاماً لِلذَّهَبِ وجَمْعِه - واحْتِقَاراً لِلصُّوفِ ولُبْسِه - ولَوْ أَرَادَ اللَّه سُبْحَانَه لأَنْبِيَائِه - حَيْثُ بَعَثَهُمْ

کا خیال یہ ہے کہ ہم انہیں مال و اولاد کی فراوانی عطا کرکے ان کی نیکیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انہیں کوئی شعورنہیں ہے۔

اللہ اپنے کو اونچا سمجھنے والوں کا امتحان اپنے کمزور قرار دئیے جانے والے اولیاء کے ذریعہ لیا کرتا ہے۔

دیکھو موسیٰ بن عمران(۱) اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے دربار میں اس شان سے داخل ہوئے کہ ان کے بدن پرائون کا پیراہن تھا اور ان کے ہاتھ میں ایک عصا تھا۔ان حضرات نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر اسلام قبول کرلے گا تو اس کے ملک اور اس کی عزت کودوام و بقا عطا کردیں گے۔تو اس نے لوگوں سے کہا '' کیا تم لوگ ان دونوں کے حال پر تعجب نہیں کر رہے ہو جو اس فقرو فاقہ کی حالت میں میرے پاس آئے ہیں اور میرے ملک کو دوام کی ضمانت دے رہے ہیں۔اگر یہ ایسے ہی اونچے ہیں تو ان پر سونے کے کنگن کیوں نہیں نازل ہوئے ؟'' اس کی نظر میںسونا اور اس کی جمع آوری ایک عظیم کارنامہ تھا اور اون کا لباس پہننا ذلت کی علامت تھا۔حالانکہ اگر پروردگار چاہتا تو انبیاء کرام کی بعثت کے ساتھ ہی ان کے لئے سونے

(۱)واقعاً کیاعجیب و غریب منظر رہا ہوگا جب اللہ کے دو مخلص بندے معمولی لباس پہنے ہوئے فرعون کے دربار میں کھڑے ہوں گے اوراسے دین حق کی دعوت دے رہے ہوں گے اور اس سے جزا و انعام کا وعدہ کر رہے ہوں گے اوروہ مسکرا کر درباریوں کی طرف دیکھ رہا ہوگا۔ذرا ان دونوں کی جرأت تودیکھو خدائے وقت کیدعوت بندگی دے رہے ہیں۔ اور پھر حوصلے تو دیکھو۔بوسیدہ لباس کے باوجود انعامات کا وعدہ کر رہے ہیں اور معمولی حیثیت کے ساتھ عذاب الیم سے ڈرا رہے ہیں۔

لیکن جناب موسیٰ نے ان حالات کی کوئی پرواہ نہیں کی اورنہایت سکون و وقار کے ساتھ اپنا پیغام سناتے رہے کہ اللہ والے سلطنت و جبروت سے مرعوب نہیں ہوتے ہیں اور بہترین جہاد یہی ہے کہ سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کردیا جائے اور حق کی آواز کو دبنے نہ دیا جائے ۔

۳۷۸

أَنْ يَفْتَحَ لَهُمْ كُنُوزَ الذِّهْبَانِ - ومَعَادِنَ الْعِقْيَانِ ومَغَارِسَ الْجِنَانِ - وأَنْ يَحْشُرَ مَعَهُمْ طُيُورَ السَّمَاءِ ووُحُوشَ الأَرَضِينَ - لَفَعَلَ - ولَوْ فَعَلَ لَسَقَطَ الْبَلَاءُ وبَطَلَ الْجَزَاءُ،واضْمَحَلَّتِ الأَنْبَاءُ ولَمَا وَجَبَ لِلْقَابِلِينَ أُجُورُ الْمُبْتَلَيْنَ - ولَا اسْتَحَقَّ الْمُؤْمِنُونَ ثَوَابَ الْمُحْسِنِينَ - ولَا لَزِمَتِ الأَسْمَاءُ مَعَانِيَهَا - ولَكِنَّ اللَّه سُبْحَانَه جَعَلَ رُسُلَه أُولِي قُوَّةٍ فِي عَزَائِمِهِمْ - وضَعَفَةً فِيمَا تَرَى الأَعْيُنُ مِنْ حَالَاتِهِمْ - مَعَ قَنَاعَةٍ تَمْلأُ الْقُلُوبَ والْعُيُونَ غِنًى - وخَصَاصَةٍ تَمْلأُ الأَبْصَارَ والأَسْمَاعَ أَذًى

ولَوْ كَانَتِ الأَنْبِيَاءُ أَهْلَ قُوَّةٍ لَا تُرَامُ وعِزَّةٍ لَا تُضَامُ - ومُلْكٍ تُمَدُّ نَحْوَه أَعْنَاقُ الرِّجَالِ وتُشَدُّ إِلَيْه عُقَدُ الرِّحَالِ - لَكَانَ ذَلِكَ أَهْوَنَ عَلَى الْخَلْقِ فِي الِاعْتِبَارِ - وأَبْعَدَ لَهُمْ فِي الِاسْتِكْبَارِ - ولَآمَنُوا عَنْ رَهْبَةٍ قَاهِرَةٍ لَهُمْ أَوْ رَغْبَةٍ مَائِلَةٍ بِهِمْ - فَكَانَتِ النِّيَّاتُ مُشْتَرَكَةً والْحَسَنَاتُ مُقْتَسَمَةً - ولَكِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَرَادَ أَنْ يَكُونَ الِاتِّبَاعُ لِرُسُلِه - والتَّصْدِيقُ بِكُتُبِه

کے خزانے ' طلائے خالص کے معادن ' باغات کے کشت زاروں کے ذروازے کھول دیتا اور ان کے ساتھ فضا میں پرواز کرنے والے پرندے اور زمین کے چوپایوں کو ان کا تابع فرمان بنادیتا۔لیکن ایسا کردیتا تو آزمائش ختم ہو جاتی اور انعامات کا سلسلہ بھی بند ہو جاتا۔اورآسمانی خبریں بھی بیکار و برباد ہو جاتیں۔نہ مصائب کو قبول کرنے والوں کو امتحان دینے والے کا اجر ملتا اورنہ صاحبان ایمان کو نیک کرداروں جیسا انعام ملتا اور نہ الفاظ معانی کا ساتھ دیتے۔

البتہ پروردگار نے اپنے مرسلین کو ارادوں کے اعتبارسے انتہائی صاحب قوت قرار دیا ہے اگرچہ دیکھنے میں حالات کے اعتبار سے بہت کمزور ہیں ان کے پاس وہ قناعت ہے جس نے لوگوں کے دل و نگاہ کو ان کے بے نیازی سے معمور کردیا ہے اور وہ غربت ہے جس کی بنا پر لوگوں کی آنکھوں اور کانوں کو اذیت ہوتی ہے۔

اگر انبیاء کرام ایسی قوت کے مالک ہوتے جس کا ارادہ بھی نہ کیا جا سکے اورایسی عزت کے دارا ہوتے جس کو ذلیل نہ کیا جا سکے اور ایسی سلطنت کے حامل ہوتے جس کی طرف گردنیں اٹھتی ہوں اور سواریوں کے پالان کسے جاتے ہوں تو یہ بات لوگوں کی عبرت حاصل کرنے کے لئے آسان ہوتی اور انہیں استکبار سے بآسانی دور کر سکتی اور سب کے سب قہرآمیز خوف اور لذت آمیز رغبت کی بنا پر ایمان لے آتے۔سب کی نیتیں ایک جیسی ہوتیں اور سب کے درمیان نیکیاں تقسیم ہو جاتیں لیکن اس نے یہ چاہا ہے کہ اس کے رسولوں کا اتباع اور اس کی کتابوں کی

۳۷۹

والْخُشُوعُ لِوَجْهِه - والِاسْتِكَانَةُ لأَمْرِه والِاسْتِسْلَامُ لِطَاعَتِه - أُمُوراً لَه خَاصَّةً لَا تَشُوبُهَا مِنْ غَيْرِهَا شَائِبَةٌ وكُلَّمَا كَانَتِ الْبَلْوَى والِاخْتِبَارُ أَعْظَمَ - كَانَتِ الْمَثُوبَةُ والْجَزَاءُ أَجْزَلَ –

الكعبة المقدسة

أَلَا تَرَوْنَ أَنَّ اللَّه سُبْحَانَه اخْتَبَرَ - الأَوَّلِينَ مِنْ لَدُنْ آدَمَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِلَى الآخِرِينَ مِنْ هَذَا الْعَالَمِ - بِأَحْجَارٍ لَا تَضُرُّ ولَا تَنْفَعُ ولَا تُبْصِرُ ولَا تَسْمَعُ - فَجَعَلَهَا بَيْتَه الْحَرَامَ الَّذِي جَعَلَه لِلنَّاسِ قِيَاماً – ثُمَّ وَضَعَه بِأَوْعَرِ بِقَاعِ الأَرْضِ حَجَراً - وأَقَلِّ نَتَائِقِ الدُّنْيَا مَدَراً - وأَضْيَقِ بُطُونِ الأَوْدِيَةِ قُطْراً - بَيْنَ جِبَالٍ خَشِنَةٍ ورِمَالٍ دَمِثَةٍ - وعُيُونٍ وَشِلَةٍ وقُرًى مُنْقَطِعَةٍ - لَا يَزْكُو بِهَا خُفٌّ ولَا حَافِرٌ ولَا ظِلْفٌ - ثُمَّ أَمَرَ آدَمَعليه‌السلام ووَلَدَه أَنْ يَثْنُوا أَعْطَافَهُمْ نَحْوَه -

تصدیق اور اس کی بارگاہ میں خضوع اوراس کے اوامرکے سامنے فروتنی ۔سب اس کی ذات اقدس سے مخصوص رہیں اور اس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ہونے پائے اور ظاہر ہے کہ جس قدرآزمائش اور امتحان میں شدت ہوگی اس قدراجر و ثواب بھی زیاد ہوگا۔

کیا تم یہ نہیں دیکھتے ہو کہ پروردگار عالم نے آدم کے دور سےآج تک اولین و آخرین سب کا امتحان لیا ہے۔ان پتھروں(۱) کے ذریعہ جن کا بظاہر نہ کوئی نفع ہے اور نہ نقصان ۔نہ ان کے پاس بصارت ہے اور نہ سماعت۔لیکن انہیں سے اپناوہ محترم مکان بنوادیا ہے جسے لوگوں کے قیام کا ذریعہ قراردے دیاہے اور پھر اسے ایسی جگہ قراردیا ہے جو روئے زمین پر انتہائی پتھریلی و بلند زمینوں میں انتہائی مٹی والی۔وادیوں میں اطراف کے اعتبارسے انتہائی تنگ ہے۔اس کے اطراف سخت قسم کے پہاڑ ' نرم قسم کے ریتلے میدان ' کہ پانی والے چشمے اور منتشر قسم کی بستیاں ہیں جہاں نہ اونٹ پرورش پا سکتے ہیں اور نہ گائے اور نہ بکریاں۔

اس کے بعد اس نے آدم اوران کی اولاد کو حکم دے دیا کہ اپنے کاندھوں کو اس کی طرف موڑ دیں اور

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ تعمیر خانہ کعبہ کا تعلق جناب ابراہیم سے نہیں ہے بلکہ جناب آدم سے ہے۔سب سے پہلے انہوں نے حکم خدا سے اس کا گھر بنایا اور اس کا طواف کیا اور پھر اپنی اولاد کو طواف کا حکم دیا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ طوفان نوح کے موقع پر اس تعمیر کو بلند کرلیا گیا اور اس کے بعد جناب ابراہیم نے اپنے دور میں اس کی دیواروں کو بلند کرکے ایک مکان کی حیثیت دے دی جس کا سلسلہ آج تک قائم ہے ۔اور ساری دنیا سے مسلمان اس گھر کا طواف کرنے کے لئے آرہے ہیں جب کہ اس کی تعمیری حیثیت لاکھوں مکانوں سے کمتر ہے ۔لیکن مسئلہ اس کی مادی حیثیت کا نہیں ہے مسئلہ اس کی نسبت کا ے جو پروردگار نے اپنی طرف دے دی ہے اور اسے مرجع خلائق بنادیا ہے جس طرح کہ سرکار دوعالم (ص) نے خودمولائے کائنات کو ''انت بمنزلة الکعبة '' کہہ کر مرجع عوام وخواص بنادیا ہے کہ اس سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔

۳۸۰