نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 564651
ڈاؤنلوڈ: 13184

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 564651 / ڈاؤنلوڈ: 13184
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فَصَارَ مَثَابَةً لِمُنْتَجَعِ أَسْفَارِهِمْ وغَايَةً لِمُلْقَى رِحَالِهِمْ - تَهْوِي إِلَيْه ثِمَارُ الأَفْئِدَةِ مِنْ مَفَاوِزِ قِفَارٍ سَحِيقَةٍ - ومَهَاوِي فِجَاجٍ عَمِيقَةٍ وجَزَائِرِ بِحَارٍ مُنْقَطِعَةٍ - حَتَّى يَهُزُّوا مَنَاكِبَهُمْ ذُلُلًا - يُهَلِّلُونَ لِلَّه حَوْلَه ويَرْمُلُونَ عَلَى أَقْدَامِهِمْ - شُعْثاً غُبْراً لَه قَدْ نَبَذُوا السَّرَابِيلَ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ - وشَوَّهُوا بِإِعْفَاءِ الشُّعُورِ مَحَاسِنَ خَلْقِهِمُ - ابْتِلَاءً عَظِيماً وامْتِحَاناً شَدِيداً - واخْتِبَاراً مُبِيناً وتَمْحِيصاً بَلِيغاً - جَعَلَه اللَّه سَبَباً لِرَحْمَتِه ووُصْلَةً إِلَى جَنَّتِه - ولَوْ أَرَادَ سُبْحَانَه - أَنْ يَضَعَ بَيْتَه الْحَرَامَ ومَشَاعِرَه الْعِظَامَ - بَيْنَ جَنَّاتٍ وأَنْهَارٍ وسَهْلٍ وقَرَارٍ - جَمَّ الأَشْجَارِ دَانِيَ الثِّمَارِ - مُلْتَفَّ الْبُنَى مُتَّصِلَ الْقُرَى - بَيْنَ بُرَّةٍ سَمْرَاءَ ورَوْضَةٍ خَضْرَاءَ - وأَرْيَافٍ مُحْدِقَةٍ وعِرَاصٍ مُغْدِقَةٍ - ورِيَاضٍ نَاضِرَةٍ وطُرُقٍ عَامِرَةٍ - لَكَانَ قَدْ صَغُرَ قَدْرُ الْجَزَاءِ عَلَى حَسَبِ ضَعْفِ الْبَلَاءِ - ولَوْ كَانَ الإِسَاسُ الْمَحْمُولُ عَلَيْهَا - والأَحْجَارُ الْمَرْفُوعُ بِهَا - بَيْنَ زُمُرُّدَةٍ خَضْرَاءَ ويَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ ونُورٍ وضِيَاءٍ،

اس طرح اسے سفروں سے فائدہ اٹھانے کی منزل اور پالانوں کے اتارنے کی جگہ بنادیا جس کی طرف لوگ دور افتادہ بے آب وگیاہ بیابانو ۔دور دراز گھاٹیوں کے نشیبی راستوں ۔زمین سے کٹے ہوئے دریائوں کے جزیروں سے دل و جان سے متوجہ ہوتے ہیں تاکہ ذلت کے ساتھ اپنے کاندھوں کو حرکت دیں اوراس کے گرداپنے پروردگار کی الوہیت کا اعلان کریں اور پیدل اس عالم میں دوڑتے رہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوں اور سر پر خاک پڑی ہوئی ہو۔اپنے پیراہنوں کو اتر کرپھینک دیں۔اور بال بڑھا کراپنے حسن و جمال کو بد نما بنالیں۔یہ ایک عظیم ابتلاء ۔شدید امتحان اور واضح اختیار ہے جس کے ذریعہ عدبیت کی مکمل آزمائش ہو رہی ہے ۔ پروردگارنے اس مکان کو رحمت کا ذریعہ اور جنت کا وسیلہ بنادیا ہے۔وہ اگر چاہتا تو اس گھر کو اور اس کے تمام مشاعر کو باغات اور نہرون کے درمیان نرم و ہموار زمین پر بنا دیتا جہاں گھنے درخت ہوتے اور قریب قریب پھل ۔عمارتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوتیں اورآبادیاں ایک دوسرے سے متصل ۔کہیں سرخی مائل گندم کے پودے ہوتے اور کہیں س سر سبز باغات ۔کہیںچمن زار ہوتا اور کہیں پانی میں ڈوبے ہوئے میدان کہیں سر سبز و شاداب کشت زار ہوتے اور کہیں آباد گزر گاہیں لیکن اس طرح آزمائش کی سہولت کے ساتھ جزاکی مقدار بھی گھٹ جاتی ہے۔

اور اگر جس بنیاد پر اس مکان کو کھڑا کیا گیا ہے وہ سبز زمرد اور سرخ یاقوت جیسے پتھروں اورنور و ضیا کی

۳۸۱

لَخَفَّفَ ذَلِكَ مُصَارَعَةَ الشَّكِّ فِي الصُّدُورِ - ولَوَضَعَ مُجَاهَدَةَ إِبْلِيسَ عَنِ الْقُلُوبِ - ولَنَفَى مُعْتَلَجَ الرَّيْبِ مِنَ النَّاسِ - ولَكِنَّ اللَّه يَخْتَبِرُ عِبَادَه بِأَنْوَاعِ الشَّدَائِدِ - ويَتَعَبَّدُهُمْ بِأَنْوَاعِ الْمَجَاهِدِ - ويَبْتَلِيهِمْ بِضُرُوبِ الْمَكَارِه - إِخْرَاجاً لِلتَّكَبُّرِ مِنْ قُلُوبِهِمْ - وإِسْكَاناً لِلتَّذَلُّلِ فِي نُفُوسِهِمْ - ولِيَجْعَلَ ذَلِكَ أَبْوَاباً فُتُحاً إِلَى فَضْلِه - وأَسْبَاباً ذُلُلًا لِعَفْوِه.

عود إلى التحذير

فَاللَّه اللَّه فِي عَاجِلِ الْبَغْيِ - وآجِلِ وَخَامَةِ الظُّلْمِ وسُوءِ عَاقِبَةِ الْكِبْرِ - فَإِنَّهَا مَصْيَدَةُ إِبْلِيسَ الْعُظْمَى ومَكِيدَتُه الْكُبْرَى - الَّتِي تُسَاوِرُ قُلُوبَ الرِّجَالِ مُسَاوَرَةَ السُّمُومِ الْقَاتِلَةِ - فَمَا تُكْدِي أَبَداً ولَا تُشْوِي أَحَداً - لَا عَالِماً لِعِلْمِه ولَا مُقِلاًّ فِي طِمْرِه - وعَنْ ذَلِكَ مَا حَرَسَ اللَّه عِبَادَه الْمُؤْمِنِينَ - بِالصَّلَوَاتِ والزَّكَوَاتِ - ومُجَاهَدَةِ الصِّيَامِ فِي الأَيَّامِ الْمَفْرُوضَاتِ

تابانیوں سے عبارت ہوتی تو سینوں پر شکوک کے حملے کم ہو جاتے اور دلوں سے ابلیس کی محنتوں کا اثر ختم ہو جاتا اور لوگوں کے خلجان قلب کا سلسلہ تمام ہو جاتا۔لیکن پروردگار اپنے بندوں کو سخت ترین حالات سے آزمانا چاہتا ہے۔اور ان سے سنگین ترین مشقتوں کے ذریعہ بندگی کرانا چاہتا ہے اور انہیں طرح طرح کے ناخوشگوار حالات سے آزمانا چاہتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تکبر نکل جائے اور ان کے نفوس میں تواضع اور فروتنی کو جگہ مل جائے اور اسی بات کو فضل و کرم کے کھلے ہوئے دروازوں اور عفو و مغفرت کے آسان ترین و سائل میں قراردیدے۔

دیکھو دنیا میں سر کشی کے انجام' آخرت میں ظلم کے عذاب اور تکبر کے بد ترین نتیجہ کے بارے میں خدا سے ڈرو کہ یہ کتبر شیطان کا عظیم ترین جال اوربزرگ ترین مکر ہے جو دلوں میں اس طرح اتر جاتا ہے جیسے زہر قاتل کہ نہ اس کا اثرزائل ہوتا ہے اور نہ اس کا وار خطا کرتا ہے۔نہ کسی عالم کے علم کی بنا پر اور نہ کسی نادار پر اس کے پھٹے کپڑوں کی بنا پر۔

اور اسی مصیبت(۱) سے پروردگارنے اپنے صاحبان ایمان بندوں کونماز اور زکوٰة اور مخصوص دونوں میں روزہ کی مشقت کے ذریعہ بچایا ہے کہ ان کے اعضاء

(۱) انسان کی سب سے بڑی مصیبت شیطان کا اتباع ہے اور شیطان کا سب سے بڑا حربہ فساد اور استکبار ہے۔اس لئے پروردگارنے انسان کواس حملہ سے بچانے کے لئے نماز' روزہ اور زکوٰة کو واجب کردیا کہ نماز کے ذریعہ خضوع و خشوع کا اظہار ہوگا۔روہ کے ذریعہ مشقت برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا اور زکوٰة کے ذریعہ اپنی محنت کے نتائج میں فقر اور مساکین کو مقدم کرنے کاخیال پیدا ہوگا اور اس طرح وہ غرور نکل جائے گا جو استکبار کی بنیاد بنتا ہے اور جس کی بنا پر انسان شیطنت سے قریب تر ہو جاتا ہے۔

۳۸۲

تَسْكِيناً لأَطْرَافِهِمْ وتَخْشِيعاً لأَبْصَارِهِمْ - وتَذْلِيلًا لِنُفُوسِهِمْ وتَخْفِيضاً لِقُلُوبِهِمْ - وإِذْهَاباً لِلْخُيَلَاءِ عَنْهُمْ - ولِمَا فِي ذَلِكَ مِنْ تَعْفِيرِ عِتَاقِ الْوُجُوه بِالتُّرَابِ تَوَاضُعاً - والْتِصَاقِ كَرَائِمِ الْجَوَارِحِ بِالأَرْضِ تَصَاغُراً - ولُحُوقِ الْبُطُونِ بِالْمُتُونِ مِنَ الصِّيَامِ تَذَلُّلًا - مَعَ مَا فِي الزَّكَاةِ مِنْ صَرْفِ ثَمَرَاتِ الأَرْضِ - وغَيْرِ ذَلِكَ إِلَى أَهْلِ الْمَسْكَنَةِ والْفَقْرِ.

فضائل الفرائض

انْظُرُوا إِلَى مَا فِي هَذِه الأَفْعَالِ - مِنْ قَمْعِ نَوَاجِمِ الْفَخْرِ وقَدْعِ طَوَالِعِ الْكِبْرِ ولَقَدْ نَظَرْتُ فَمَا وَجَدْتُ أَحَداً مِنَ الْعَالَمِينَ - يَتَعَصَّبُ لِشَيْءٍ مِنَ الأَشْيَاءِ إِلَّا عَنْ عِلَّةٍ - تَحْتَمِلُ تَمْوِيه الْجُهَلَاءِ - أَوْ حُجَّةٍ تَلِيطُ بِعُقُولِ السُّفَهَاءِ غَيْرَكُمْ - فَإِنَّكُمْ تَتَعَصَّبُونَ لأَمْرٍ مَا يُعْرَفُ لَه سَبَبٌ ولَا عِلَّةٌ - أَمَّا إِبْلِيسُ فَتَعَصَّبَ عَلَى آدَمَ لأَصْلِه - وطَعَنَ عَلَيْه فِي خِلْقَتِه - فَقَالَ أَنَا نَارِيٌّ وأَنْتَ طِينِيٌّ.

عصبية المال

وأَمَّا الأَغْنِيَاءُ مِنْ مُتْرَفَةِ الأُمَمِ - فَتَعَصَّبُوا لِآثَارِ مَوَاقِعِ النِّعَمِ -

و جوارح کو سکون مل جائے ۔نگاہوں میں خشوع پیدا ہو جائے۔نفس میں احساس ذلت پیدا ہو' دل بارگاہ الٰہی میں جھک جائیں اور ان سے غرور نکل جائے اور اس بنیاد پر کہ نماز میں نازک چہرے تواضع کے ساتھ خاک آلود کیے جاتے ہیں اور محترم اعضاء و جوارح کو ذلت کے ساتھ زمین سے ملا دیا جاتا ہے۔اور روزہ میں احساس عاجزی کے ساتھ پیٹ پیٹھ سے مل جاتے ہیں اور زکوٰة میںزمین کے بہترین نتائج کو فقر اور مساکین کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ذرا دیکھو ان اعمال میں کس طرح تفاخر کے آثار کو جڑ سے اکھاڑ کرپھینک دیا جاتا ہے اور تکبر کے نمایاں ہونے والے آثارکودبادیا جاتا ہے۔

میں نے تمام عالمین کو پرکھ کر دیکھ لیا ہے ۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس میں کسی شے کا تعصب پایا جاتا ہو اور اس کے پیچھے کوئی ایسی علت نہ ہو جس سے جاہل دھوکہ کھا جائیں یا ایسی دلیل نہ ہو جو احمقوںکی عقل سے چپک جائے۔علاوہ تم لوگو کے کہ تم ایسی چیز کا تعصب رکھتے ہو جس کی کوئی علت اور جس کا کوئی سبب نہیں ہے۔دیکھو ابلیس نے آدم کے مقابلہ میں عصبیت کا اظہار کیا تو اپنی اصل کی بنیاد پر اور ان کی تخلیق پر طنز کیا اور یہ کہہ دیا کہ میں آگسے بنا ہوں اورت مخاک سے بنے ہو۔

اسی طرح کا امتوں کے دولت مندوں نے اپنی نعمتوں کے آثار کی بنا پر غرورکا مظاہرہ کیا اوریہ اعلان کردیا

۳۸۳

فَ( قالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوالًا وأَوْلاداً - وما نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ) - فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ - فَلْيَكُنْ تَعَصُّبُكُمْ لِمَكَارِمِ الْخِصَالِ - ومَحَامِدِ الأَفْعَالِ ومَحَاسِنِ الأُمُورِ - الَّتِي تَفَاضَلَتْ فِيهَا الْمُجَدَاءُ والنُّجَدَاءُ - مِنْ بُيُوتَاتِ الْعَرَبِ ويَعَاسِيبِ القَبَائِلِ - بِالأَخْلَاقِ الرَّغِيبَةِ والأَحْلَامِ الْعَظِيمَةِ - والأَخْطَارِ الْجَلِيلَةِ والآثَارِ الْمَحْمُودَةِ - فَتَعَصَّبُوا لِخِلَالِ الْحَمْدِ مِنَ الْحِفْظِ لِلْجِوَارِ - والْوَفَاءِ بِالذِّمَامِ والطَّاعَةِ لِلْبِرِّ - والْمَعْصِيَةِ لِلْكِبْرِ والأَخْذِ بِالْفَضْلِ - والْكَفِّ عَنِ الْبَغْيِ والإِعْظَامِ لِلْقَتْلِ - والإِنْصَافِ لِلْخَلْقِ والْكَظْمِ لِلْغَيْظِ.

واجْتِنَابِ الْفَسَادِ فِي الأَرْضِ واحْذَرُوا مَا نَزَلَ بِالأُمَمِ قَبْلَكُمْ - مِنَ الْمَثُلَاتِ بِسُوءِ الأَفْعَالِ وذَمِيمِ الأَعْمَالِ - فَتَذَكَّرُوا فِي الْخَيْرِ والشَّرِّ أَحْوَالَهُمْ - واحْذَرُوا أَنْ تَكُونُوا أَمْثَالَهُمْ.

فَإِذَا تَفَكَّرْتُمْ فِي تَفَاوُتِ حَالَيْهِمْ - فَالْزَمُوا كُلَّ أَمْرٍ لَزِمَتِ الْعِزَّةُ بِه شَأْنَهُمْ - وزَاحَتِ الأَعْدَاءُ لَه عَنْهُمْ -

کہ '' ہم زیادہ مال و اولاد والے ہیں لہٰذا ہم پر عذاب نہیں ہو سکتا ہے '' لیکن تمہارے پاس تو ایسی کوئی بنیاد بھی نہیں ہے۔لہٰذا اگر فخر ہی کرنا ہے تو بہترین عادات ' قابل تحسین اعمال اورحسین ترین خصائل کی بنا پر کرو جس کے بارے میں عرب کے خاندانوں۔قبائل کیس رداروں کے بزرگ اور شریف لوگ کیا کرتے تھے۔یعنی پسندیدہ اخلاق ' عظیم دانائی ' اعلیٰ مراتب اورقابل تعریف کارنامے۔

تم بھی انہیں قابل ستائش اعمال پر فخر کرو۔ہمسایوں کا تحفظ کرو۔عہدو پیمان کو پورا کرو۔نیک لوگوں کی اطاعت کرو سر کشوں کی مخالفت کرو۔فضل و کرم کواختیار کرو۔ظلم و سرکشی سے پرہیز کرو۔خون ریزی سے پناہمانگو۔خلق خدا کی ساتھ انصاف کرو۔غصہ کو پی جائو ۔فسد فی الارض سے اجتناب کرو کہ یہی صفات و کمالات قابل فخر و مباہات ہیں۔

بد ترین اعمال کی بنا پر گذشتہ امتوں پرنازل ہونے والے عذاب سے اپنے کومحفوظ رکھو۔خیرو شر ہر حال میں ان لوگوں کو یاد رکھو اور خبر دار ان کے جیسے بد کردار نہ ہوجانا۔

اگر تم نے ان کے اچھے برے حالات(۱) پر غورکرلیا ہے تو اب ایسے امورکو اختیار کرو جن کی بنا پر عزت ہمیشہ ان کے ساتھ رہی۔دشمن ان سے دور دور

(۱) تاریخ کردار سازی کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سے استفادہ کرنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان دونوں طرح کی قوموں کے حالات کا جائزہ لے۔ان قوموں کوبھی دیکھے جنہوںنے سر فرازی اور بلندی حاصل کی ہے۔اور ان قوموں کے حالات کا بھی مطالعہ کرے جنہوں نے ذلت اور رسوائی کاس امنا کیا ہے۔تاکہ ان اقوام کے کردار کواپنائے جنہوں نے اپنے وجود کو سرمایہ تاریخ بنا دیا ہے اور ان لوگوں کے کردار سے پرہیز کرے جنہوں نے اپنے کو ذلت کے غارمیں دھکیل دیا ہے

۳۸۴

ومُدَّتِ الْعَافِيَةُ بِه عَلَيْهِمْ - وانْقَادَتِ النِّعْمَةُ لَه مَعَهُمْ ووَصَلَتِ الْكَرَامَةُ عَلَيْه حَبْلَهُمْ - مِنَ الِاجْتِنَابِ لِلْفُرْقَةِ واللُّزُومِ لِلأُلْفَةِ - والتَّحَاضِّ عَلَيْهَا والتَّوَاصِي بِهَا - واجْتَنِبُوا كُلَّ أَمْرٍ كَسَرَ فِقْرَتَهُمْ وأَوْهَنَ مُنَّتَهُمْ - مِنْ تَضَاغُنِ الْقُلُوبِ وتَشَاحُنِ الصُّدُورِ - وتَدَابُرِ النُّفُوسِ وتَخَاذُلِ الأَيْدِي وتَدَبَّرُوا أَحْوَالَ الْمَاضِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ قَبْلَكُمْ - كَيْفَ كَانُوا فِي حَالِ التَّمْحِيصِ والْبَلَاءِ - أَلَمْ يَكُونُوا أَثْقَلَ الْخَلَائِقِ أَعْبَاءً - وأَجْهَدَ الْعِبَادِ بَلَاءً وأَضْيَقَ أَهْلِ الدُّنْيَا حَالًا - اتَّخَذَتْهُمُ الْفَرَاعِنَةُ عَبِيداً فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ - و - جَرَّعُوهُمُ الْمُرَارَ فَلَمْ تَبْرَحِ الْحَالُ بِهِمْ فِي ذُلِّ الْهَلَكَةِ وقَهْرِ الْغَلَبَةِ - لَا يَجِدُونَ حِيلَةً فِي امْتِنَاعٍ ولَا سَبِيلًا إِلَى دِفَاعٍ –

حَتَّى إِذَا رَأَى اللَّه سُبْحَانَه - جِدَّ الصَّبْرِ مِنْهُمْ عَلَى الأَذَى فِي مَحَبَّتِه - والِاحْتِمَالَ لِلْمَكْرُوه مِنْ خَوْفِه - جَعَلَ لَهُمْ مِنْ مَضَايِقِ الْبَلَاءِ فَرَجاً - فَأَبْدَلَهُمُ الْعِزَّ مَكَانَ الذُّلِّ والأَمْنَ

رہے۔عافیت کا دامن ان کی طرف پھیلا دیا گیا نعمتیں ان کے سامنے سر نگوں ہوگئیں اور کرامت و شرافت نے ان سے اپنا رشتہ جوڑ لیا کہ وہ افتراق سے بچے ۔محبت کے ساتھ اس پر دوسروں کو آمادہ کرتے رہے اور اس کی آپس میں وصیت اور نصیحت کرتے رہے۔

اور دیکھو ہر اس چیز سے پرہیز کرو جس نے ان کی کمر کو توڑ دیا۔ان کی طاقت کو کمزور کردیا۔یعنی آپس کا کینہ۔دلوں کی عداوت ' نفسوس کا ایک دوسرے سے منہ پھیر لینا اور ہاتھوں کا ایک دوسرے کی امداد سے رک جانا۔

ذرا اپنے پہلے والے صاحبان ایمان کے حالات پر بھی غور کرو کہ وہ کس طرح بلاء اورآزمائش کی منزلوں میں تھے۔کیا وہ تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ بوجھ کے متحمل اور تمام بندوں میں سب سے زیادہ مصائب میں مبتلا نہیں تھے۔اور تمام اہل دنیامیں سب سے زیادہ تنگی میں بسر نہیں کررہے تھے۔فراعنہ نے انہیں غلام بنا لیا تھا اور طرح طرح کے بد ترین عذاب میں مبتلا کر رہے تھے۔انہیں تلخ گھونٹ پلا رہے تھے اوروہ انہیں حالات میں زندگی گزار رہے تھے کہ ہلاکت کی ذلت بھی تھی اور تغلب کی قہر سامانی بھی نہ بچائو کا کوئی راستہ تھا اورنہ دفاع کی کوئی سبیل۔

یہاں تک کہ جب پروردگار نے یہ دیکھ لیا کہ انہوں نے اس کی محبت میں طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرلی ہیں اور اس کے خوف سے ہر ناگوار حالت کا سامنا کرلیا ہے تو ان کے لئے ان تنگیوں میں وسعت کا سامان فراہم کردیا اور ان کی ذلت کو عزت میں تبدیل کردیا

۳۸۵

مَكَانَ الْخَوْفِ - فَصَارُوا مُلُوكاً حُكَّاماً وأَئِمَّةً أَعْلَاماً - وقَدْ بَلَغَتِ الْكَرَامَةُ مِنَ اللَّه لَهُمْ

مَا لَمْ تَذْهَبِ الآمَالُ إِلَيْه بِهِمْ.

فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانُوا حَيْثُ كَانَتِ الأَمْلَاءُ مُجْتَمِعَةً - والأَهْوَاءُ مُؤْتَلِفَةً والْقُلُوبُ مُعْتَدِلَةً - والأَيْدِي مُتَرَادِفَةً والسُّيُوفُ مُتَنَاصِرَةً - والْبَصَائِرُ نَافِذَةً والْعَزَائِمُ وَاحِدَةً - أَلَمْ يَكُونُوا أَرْبَاباً فِي أَقْطَارِ الأَرَضِينَ - ومُلُوكاً عَلَى رِقَابِ الْعَالَمِينَ - فَانْظُرُوا إِلَى مَا صَارُوا إِلَيْه فِي آخِرِ أُمُورِهِمْ - حِينَ وَقَعَتِ الْفُرْقَةُ وتَشَتَّتَتِ الأُلْفَةُ - واخْتَلَفَتِ الْكَلِمَةُ والأَفْئِدَةُ - وتَشَعَّبُوا مُخْتَلِفِينَ وتَفَرَّقُوا مُتَحَارِبِينَ - وقَدْ خَلَعَ اللَّه عَنْهُمْ لِبَاسَ كَرَامَتِه - وسَلَبَهُمْ غَضَارَةَ نِعْمَتِه - وبَقِيَ قَصَصُ أَخْبَارِهِمْ فِيكُمْ - عِبَراً لِلْمُعْتَبِرِينَ.

الاعتبار بالأمم

فَاعْتَبِرُوا بِحَالِ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ - وبَنِي إِسْحَاقَ

خوف کے بدلے امن و امان عطا فرمادیا اور وہ زمین کے حاکم اور بادشاہ ۔قائد اور نمایاں افراد بن گئے ۔الٰہی کرامت نے انہیں ان منزلوں تک پہنچا دیا جہاں تک جانے کا انہوں نے تصوربھی نہیں کیا تھا۔

دیکھو جب تک ان کے اجتماعات یکجا رہے۔ان کے خواہشات میں اتفاق رہا۔ان کے دل معتدل رہے۔ان کے ہاتھ ایک دوسرے کی امداد کرتے رہے۔ان کی تلواریں ایک دوسرے کے کام آتی رہیں۔ان کی بصیرتیں نافذ رہیں اور ان کے عزائم میں اتحاد رہا۔وہ کس طرح با عزت رہے۔کیاوہ تمام اطراف زمین کے ارباب اور تمام لوگوں کی گردنوں کے حکام نہیں تھے۔

لیکن پھرآخر کاران کا انجام کیا ہوا جب ان کے درمیان افتراق پیدا ہوگیا اور محبتوں میں انتشار پیدا ہوگیا۔ باتوں اوردلوں میں اختلاف پیدا ہوگیا اور سب مختلف جماعتوں اور متحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔تو پروردگار نے ان کے بدن سے کرامت کا لباس اتارلیا اور ان سے نعمتوں کی شادابی کو سلب کرلیا اور اب ان کے قصے صرف عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے سامان عبرت بن کر رہ گئے ہیں۔

لہٰذا اب تم اولاد اسمٰعیل(۱) اوراولاد اسحاق و

(۱) عالم اسلام کو بنی اسرائیل کے حالات سے عبرت حاصل کرناچاہیے کہ انہیں قیصر و کسریٰ اور دیگرسلاطین زمانے نے کس قدر ذلیل کیا اور کیسے کیسے بد ترین حالات سے دو چار کیا۔صرف اس لئے کہ ان کے درمیان اتحاد نہیں تھا۔اور وہ خود بھی برائیوں میں مبتلا تھے اوردوسروں کو بھی برائیوں سے روکنے کاخیال نہیں رکھتے تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ پروردگارنے انہیں اس عذاب میں مبتلا کردیا اور ان کا یہ تصور مہمل ہو کر رہ گیا کہ ہم اللہ کے منتخب بندے اور اس کے اولاد کا مرتبہ رکھتے ہیں۔دورحاضر میں مسلمانوں کا یہی عالم ہے کہ صرف امت وسط کے نام پر جھوم رہے ہیں۔اس کے علاوہ ان کیکردار میں کسی طرف سے اعتدال کی کوئی جھلک نہیں ہے۔ہر طرف انحراف ہی انحراف اور کجی ہی کجی نظرآتی ہے۔نہ کہیں وحدت کلمہ ہے اور نہ کہیں اتحاد کلام اختلافات کا زور رہے اور دشمن کی حکمرانی۔آپس کا جھگڑا ہے اور غیروں کی غلامی۔انا للہ وانا الیہ راجعون

۳۸۶

بَنِي إِسْرَائِيلَعليه‌السلام - فَمَا أَشَدَّ اعْتِدَالَ الأَحْوَالِ وأَقْرَبَ اشْتِبَاه الأَمْثَالِ

تَأَمَّلُوا أَمْرَهُمْ فِي حَالِ تَشَتُّتِهِمْ وتَفَرُّقِهِمْ - لَيَالِيَ كَانَتِ الأَكَاسِرَةُ والْقَيَاصِرَةُ أَرْبَاباً لَهُمْ - يَحْتَازُونَهُمْ عَنْ رِيفِ الآفَاقِ وبَحْرِ الْعِرَاقِ - وخُضْرَةِ الدُّنْيَا إِلَى مَنَابِتِ الشِّيحِ - ومَهَافِي الرِّيحِ ونَكَدِ الْمَعَاشِ - فَتَرَكُوهُمْ عَالَةً مَسَاكِينَ إِخْوَانَ دَبَرٍ ووَبَرٍ - أَذَلَّ الأُمَمِ دَاراً وأَجْدَبَهُمْ قَرَاراً - لَا يَأْوُونَ إِلَى جَنَاحِ دَعْوَةٍ يَعْتَصِمُونَ بِهَا - ولَا إِلَى ظِلِّ أُلْفَةٍ يَعْتَمِدُونَ عَلَى عِزِّهَا - فَالأَحْوَالُ مُضْطَرِبَةٌ والأَيْدِي مُخْتَلِفَةٌ - والْكَثْرَةُ مُتَفَرِّقَةٌ - فِي بَلَاءِ أَزْلٍ وأَطْبَاقِ جَهْلٍ - مِنْ بَنَاتٍ مَوْءُودَةٍ وأَصْنَامٍ مَعْبُودَةٍ - وأَرْحَامٍ مَقْطُوعَةٍ وغَارَاتٍ مَشْنُونَةٍ

النعمة برسول اللَّه

فَانْظُرُوا إِلَى مَوَاقِعِ نِعَمِ اللَّه عَلَيْهِمْ - حِينَ بَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولًا - فَعَقَدَ بِمِلَّتِه طَاعَتَهُمْ وجَمَعَ عَلَى دَعْوَتِه أُلْفَتَهُمْ - كَيْفَ نَشَرَتِ النِّعْمَةُ عَلَيْهِمْ جَنَاحَ كَرَامَتِهَا - وأَسَالَتْ لَهُمْ جَدَاوِلَ نَعِيمِهَا - والْتَفَّتِ الْمِلَّةُ بِهِمْ فِي عَوَائِدِ بَرَكَتِهَا

اسرائیل (یعقوب) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کس قدر ملتے ہوئے اور کیفیات کس قدر یکساں ہیں۔دیکھو ان کے انتشار و افتراق کے دور میں ان کا کیا عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ ان کے ارباب بن گئے تھے۔اور انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں ۔عراق کے دریائوں اور دنیا کی شادابیوں سے نکال کرخار دار جھاڑیوں اورآندھیوں کے بے روک گزر گاہوں اور معیشت کی دشوار گزار منزلوں تک پہنچا کراس عالم میں چھوڑ دیا تھا۔ کہ وہ فقیر و نادار۔اونٹوں کی پشت پر چلنے والے اوربالوں کے خیموں میں قیام کرنے والے ہوگئے تھے۔گھر بار کے اعتبارسے تمام قوموں سے زیادہ ذلیل اور جگہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ خشک سالیوں کا شکار تھے نہ ان کی آواز تھی جن کی پناہ لے کر اپنا تحفظ کرسکیں اور نہ کوئی الفت کا سایہ تھا جس کی طاقت پر بھروسہ کر سکیں۔حالات مضطرب ' طاقتیں منتشر' کثرت میں انتشار ۔بلائیں ستخ ۔ جہالت تہ بہ تہ۔زندہ در گور بیٹیاں پتھر پرستش کے قابل' رشتہ داریاں ٹوٹ ہوئی اورچاروں طرف سے حملوں کی یلغار۔

اس کے بعد دیکھو کہ پروردگار نے ان پرکس قدراحسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا۔جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنایا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا اور اس کے نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال و پر پھیلا دئیے اور راحتوں کے دریا بہا دئیے شریعت نے انہیں اپنی برکتوں کے بیش

۳۸۷

فَأَصْبَحُوا فِي نِعْمَتِهَا غَرِقِينَ - وفِي خُضْرَةِ عَيْشِهَا فَكِهِينَ - قَدْ تَرَبَّعَتِ الأُمُورُ بِهِمْ فِي ظِلِّ سُلْطَانٍ قَاهِرٍ - وآوَتْهُمُ الْحَالُ إِلَى كَنَفِ عِزٍّ غَالِبٍ - وتَعَطَّفَتِ الأُمُورُ عَلَيْهِمْ فِي ذُرَى مُلْكٍ ثَابِتٍ - فَهُمْ حُكَّامٌ عَلَى الْعَالَمِينَ - ومُلُوكٌ فِي أَطْرَافِ الأَرَضِينَ - يَمْلِكُونَ الأُمُورَ عَلَى مَنْ كَانَ يَمْلِكُهَا عَلَيْهِمْ - ويُمْضُونَ الأَحْكَامَ فِيمَنْ كَانَ يُمْضِيهَا فِيهِمْ - لَا تُغْمَزُ لَهُمْ قَنَاةٌ ولَا تُقْرَعُ لَهُمْ صَفَاةٌ !

لوم العصاة

أَلَا وإِنَّكُمْ قَدْ نَفَضْتُمْ أَيْدِيَكُمْ مِنْ حَبْلِ الطَّاعَةِ - وثَلَمْتُمْ حِصْنَ اللَّه الْمَضْرُوبَ عَلَيْكُمْ بِأَحْكَامِ الْجَاهِلِيَّةِ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدِ امْتَنَّ عَلَى جَمَاعَةِ هَذِه الأُمَّةِ - فِيمَا عَقَدَ بَيْنَهُمْ مِنْ حَبْلِ هَذِه الأُلْفَةِ - الَّتِي يَنْتَقِلُونَ فِي ظِلِّهَا ويَأْوُونَ إِلَى كَنَفِهَا - بِنِعْمَةٍ لَا يَعْرِفُ أَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ لَهَا قِيمَةً - لأَنَّهَا أَرْجَحُ مِنْ كُلِّ ثَمَنٍ وأَجَلُّ مِنْ كُلِّ خَطَرٍ.

واعْلَمُوا أَنَّكُمْ صِرْتُمْ بَعْدَ الْهِجْرَةِ أَعْرَاباً - وبَعْدَ الْمُوَالَاةِ أَحْزَاباً -

قیمت فوائد میں لپیٹ لیا۔وہ نعمتوں میں غرق ہوگئے اور زندگی کی شادابیوں میں مزے اڑانے لگے۔ایک مضبوط حاکم نے زیر سایہ حالات ساز گار ہوگئے اورحالات نے غلبہ وبزرگی کے پہلومیں جگہ دلوادی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پردنیا ودین کی سعادتیں ان کی طرف جھک پڑیں۔وہ عالمین کے حکام ہوگئے اور اطراف زمین کے بادشاہ شمار ہونے لگے جو کل ان کے امور کے مالک تھے آج وہ ان کے امور کے مالک ہوگئے اور اپنے احکام ان پر نافذ کرنے لگے جو کل اپنے احکام ان پرنافذ کر رہے تھے کہ اب نہ ان کا دم خم نکالا جا سکتا تھا اور نہان کا زور ہی توڑ اجا سکتا تھا۔

دیکھو تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت بندھنوں سے جھاڑ لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھینچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کردیا ہے۔اللہ نے اس امت کے اجتماع پر یہ احسان کیا ہے کہ انہیں الفت کی ایسی بندشوں میں گرفتار کردیا ہے کہ اسی کے زیر سایہ سفر کرتے ہیں اور اسی کے پہلو میں پناہ لیتے ہیں اور یہ وہ نعمت ہے جس کی قدروقیمت کو کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا ہے اس لئے کہ یہ ہر قیمت سے بڑی قیمت اور ہرشرف و کرامت سے بالا تر کرامت ہے۔

اور یاد رکھو کہ تم ہجرت کے بعد پھر(۱) صحرائی بدو ہوگئے ہو اور باہمی دوستی کے بعد پھر گروہو میں تقسیم

(۱) افسوس جس قوم نے چار دن پہلے عزت کے دن دیکھے ہوں۔اپنے اتحاد و اتفاق اور اپنی اطاعت شعاری کے اثرات کامشاہدہ کیا ہو۔وہ یکبارگی اس طرح منقلب ہو جائے اور راحت پسندی اسے دوبارہ ڈھکیل کر ماضی کے گڑھے میں ڈال دے اور ذلتو رسوائی اس کا مقدر بن جائے ۔

۳۸۸

مَا تَتَعَلَّقُونَ مِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا بِاسْمِه - ولَا تَعْرِفُونَ مِنَ الإِيمَانِ إِلَّا رَسْمَه.

تَقُولُونَ النَّارَ ولَا الْعَارَ - كَأَنَّكُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُكْفِئُوا الإِسْلَامَ عَلَى وَجْهِه - انْتِهَاكاً لِحَرِيمِه ونَقْضاً لِمِيثَاقِه الَّذِي وَضَعَه اللَّه لَكُمْ - حَرَماً فِي أَرْضِه وأَمْناً بَيْنَ خَلْقِه - وإِنَّكُمْ إِنْ لَجَأْتُمْ إِلَى غَيْرِه حَارَبَكُمْ أَهْلُ الْكُفْرِ - ثُمَّ لَا جَبْرَائِيلُ ولَا مِيكَائِيلُ - ولَا مُهَاجِرُونَ ولَا أَنْصَارٌ يَنْصُرُونَكُمْ - إِلَّا الْمُقَارَعَةَ بِالسَّيْفِ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّه بَيْنَكُمْ.

وإِنَّ عِنْدَكُمُ الأَمْثَالَ مِنْ بَأْسِ اللَّه وقَوَارِعِه - وأَيَّامِه ووَقَائِعِه - فَلَا تَسْتَبْطِئُوا وَعِيدَه جَهْلًا بِأَخْذِه - وتَهَاوُناً بِبَطْشِه ويَأْساً مِنْ بَأْسِه - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَلْعَنِ الْقَرْنَ الْمَاضِيَ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ -

ہوگئے ہو۔تمہارا اسلام سے رابطہ صرف نام کارہ گیا ہے اورتم ایمان میں سے صرف علامتوں کو پہچانتے ہو اور روح مذہب سے بالکل بے خبر ہو۔

تمہارا کہنا ہے کہ آگ برداشت کرلیں گے مگر ذلت نہیں برداشت کریں گے ۔گویا کہ اسلام کے حدود کو توڑ کر اور اس کے اس عہدو پیمان کو پارہ پارہ کرکے جسے اللہ نے زمین میں پناہ اور مخلوقات میں امن قرار دیا ہے۔اسلام کو الٹ دینا چاہتے ہو۔حالانکہ اگرتم نے اسلام کے علاوہ کسی اور طرف رخ بھی کیا تو اہل کفر تم سے باقاعدہ جنگ کریں گے اور اس وقت نہ جبرئیل آئیں گے نہ میکائیل ۔نہ مہاجر تمہاری امداد کریں گے اورنہانصار۔صرف تلواریں کھڑ کھڑاتی رہیں گی یہاں تک کہ پروردگار اپنا آخری فیصلہ نافذ کردے۔

تمہارے پاس توخدائی عتاب وعذاب اور حوادث و ہلاکت کے نمونے موجود ہیں لہٰذا خبردار اس کی گرفت سے غافل ہوکر اسے دور نہ سمجھو اور اس کے حملہ کوآسان سمجھ کر اور اس کی سختی سے غافل ہوکر اپنے کو مطمئن نہ بنالو۔

دیکھو پروردگارنے تم سے پہلے گزر جانے والی قوموں(۱) پرصرف اسی لئے لعنت کی ہے کہ انہوں نے امر

(۱) یہ نکتہ ہر دور کے ئے قابل توجہ ہے کہ دین خدا میںلعنت کا استحقاق صرف جہالت اورب د عملی ہی سے نہیں پیداہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات اس کے حقدار اہل علم اور دیندار حضرات بھی بن جاتے ہیں۔جب ان کے کردار میں انانیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ دوسروں کی طرف سے یکسر غافل ہوجاتے ہیں۔نہ نیکیوں کاحکم دیتے ہیں اور نہ برائیوں سے روکتے ہیں۔دین خداکی بربادی کی طرف سے اس طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں جیسے کسی غریب کا سرمایہ لٹ رہا ہے اور ہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں جب کہ دین اسلام ہر مسلمان کا سرمایہ حیات ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری ہر صاحب ایمان پر عائد ہوتی ہے۔

۳۸۹

إِلَّا لِتَرْكِهِمُ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - فَلَعَنَ اللَّه السُّفَهَاءَ لِرُكُوبِ الْمَعَاصِي والْحُلَمَاءَ لِتَرْكِ التَّنَاهِي!

أَلَا وقَدْ قَطَعْتُمْ قَيْدَ الإِسْلَامِ - وعَطَّلْتُمْ حُدُودَه وأَمَتُّمْ أَحْكَامَه - أَلَا وقَدْ أَمَرَنِيَ اللَّه - بِقِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ والنَّكْثِ والْفَسَادِ فِي الأَرْضِ، فَأَمَّا النَّاكِثُونَ فَقَدْ قَاتَلْتُ - وأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَقَدْ جَاهَدْتُ - وأَمَّا الْمَارِقَةُ فَقَدْ دَوَّخْتُ - وأَمَّا شَيْطَانُ الرَّدْهَةِ فَقَدْ كُفِيتُه - بِصَعْقَةٍ سُمِعَتْ لَهَا وَجْبَةُ قَلْبِه ورَجَّةُ صَدْرِه - وبَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنْ أَهْلِ الْبَغْيِ - ولَئِنْ أَذِنَ اللَّه فِي الْكَرَّةِ عَلَيْهِمْ - لأُدِيلَنَّ مِنْهُمْ إِلَّا مَا يَتَشَذَّرُ فِي أَطْرَافِ الْبِلَادِ تَشَذُّراً!

فضل الوحي

أَنَا وَضَعْتُ فِي الصِّغَرِ بِكَلَاكِلِ الْعَرَبِ - وكَسَرْتُ نَوَاجِمَ قُرُونِ رَبِيعَةَ ومُضَرَ - وقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِالْقَرَابَةِ الْقَرِيبَةِ والْمَنْزِلَةِ الْخَصِيصَةِ - وَضَعَنِي فِي حِجْرِه وأَنَا وَلَدٌ يَضُمُّنِي إِلَى صَدْرِه -

بالمعروف اورنہی عن المنکر کو ترک کردیا تھا جس کے نتیجہ میں جہلاء پرمعاصی کے ارتکاب کی بناپ ر لعنت ہوئی اوردانش مندوں پرانہیں نہ منع کرنے کی بنا پر ۔

آگاہ ہو جائو کہ تم نے اسلام کی پابندیوں کو توڑ دیا ہے ۔اس کے حدود کو معطل کردیا ہے اوراس کے احکام کو مردہ بنادیا ہے۔اور پروردگارنے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بغاوت کرنے والے ' عہد شکن اورمفسدین سے جہاد کروں۔عہدو پیمان توڑنے والوں سے جہاد کر چکانافرمانوں سے مقابلہ کر چکا اور بے دین خوارج کو مکمل طریقہ سے ذلیل کرچکا۔رہ گیا گڑھے میں گرنے والا شیطان تو اس کا مسئلہ اس چنگھاڑ سے حل ہوگیا جس کے دل کی دھڑکن اور سینہ کی تھڑ تھڑاہٹ کی آواز میرے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔اب صرف باغیوں میں تھوڑے سے افراد باقی رہ گئے ہیں کہ اگر پروردگار ان پرحملہ کرنے کی اجازت دید ے تو انہیں بھی تباہ کرکے حکومت کا رخ دوسری طرف موڑ دوں گا اور پھروہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو مختلف شہروں میں بکھرے پڑے ہیں۔

(مجھے پہچانو) میں نے کمسنی ہی میں عرب کے سینوں کو زمین سے ملا دیا تھا اور ربیعہ و مضر کی سینگوں کو توڑ دیا تھا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم (ص) سے مجھے کس قدر قریبی قرابت اور مخصوص منزلت حاصل ہے۔انہوں نے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں اس طرح جگہ دی ہے کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے۔اپنے بستر پر جگہ دیتے تھے ۔اپنے کلیجہ سے لگا کر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی

۳۹۰

ويَكْنُفُنِي فِي فِرَاشِه ويُمِسُّنِي جَسَدَه - ويُشِمُّنِي عَرْفَه - وكَانَ يَمْضَغُ الشَّيْءَ ثُمَّ يُلْقِمُنِيه - ومَا وَجَدَ لِي كَذْبَةً فِي قَوْلٍ ولَا خَطْلَةً فِي فِعْلٍ - ولَقَدْ قَرَنَ اللَّه بِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - مِنْ لَدُنْ أَنْ كَانَ فَطِيماً أَعْظَمَ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَتِه - يَسْلُكُ بِه طَرِيقَ الْمَكَارِمِ - ومَحَاسِنَ أَخْلَاقِ الْعَالَمِ لَيْلَه ونَهَارَه - ولَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُه اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّه - يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ أَخْلَاقِه عَلَماً - ويَأْمُرُنِي بِالِاقْتِدَاءِ بِه - ولَقَدْ كَانَ يُجَاوِرُ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِحِرَاءَ - فَأَرَاه ولَا يَرَاه غَيْرِي - ولَمْ يَجْمَعْ بَيْتٌ وَاحِدٌ يَوْمَئِذٍ فِي الإِسْلَامِ - غَيْرَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وخَدِيجَةَ وأَنَا ثَالِثُهُمَا - أَرَى نُورَ الْوَحْيِ والرِّسَالَةِ وأَشُمُّ رِيحَ النُّبُوَّةِ.

ولَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّيْطَانِ حِينَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَيْهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه مَا هَذِه الرَّنَّةُ - فَقَالَ هَذَا الشَّيْطَانُ قَدْ أَيِسَ مِنْ عِبَادَتِه - إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وتَرَى مَا أَرَى - إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ ولَكِنَّكَ لَوَزِيرٌ -

خوشبو سے سر فراز فرمایا کرتے تھے اورغذاکو اپنے دانتوں سے چبا کرمجھے کھلاتے تھے۔نہ انہوںنے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایا اورنہ میرے کسی عمل میں غلطی دیکھی۔

اور اللہ نے دودھ بڑھائی کے دور ہی سے ان کے ساتھ ایک عظیم ترین ملک کو کردیا تھا جو ان کے ساتھ بزرگیوں کے راست اور بہترین اخلاق کے طور طریقہ پر چلتا رہتا تھا اورشب و روز یہی سلسلہ رہا کرتا تھا۔اور میں بھی ان کے ساتھ اسی طرح چلتا تھا جس طرح بچہ ناقہ اپنی ماں کے ہمراہ چلتا ہے۔وہ روزانہ میرے سامنے اپنے اخلاق کا ایک نشانہ پیش کرتے تھے اور پھر مجھے اس کی اقتداء کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔

وہ سال میں ایک زمانہ غار حرا میں گزارا کرتے تھے جہاں صرف میں انہیں دیکھتا تھا اور کوئی دوسرا نہ ہوتا تھا۔اس وقت رسول اکرم (ص) اورخدیجہ کے علاوہ کسی گھر میں اسلام کا گزرنہ ہوا تھا اور ان میں کا تیسرا میں تھا۔میں نور وحی رسالت کامشاہدہ کیا کرتا تھا اورخوشبوئے رسالت سے دماغ کومعطر رکھتا تھا۔

میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کی آوازسنی تھی اورعرض کی تھی یارسول اللہ ! یہ چیخ کیسی ہے ؟ تو فرمایا کہ یہ شیطان ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہوگیا ہے۔تم وہ سب دیکھ رہے ہو جومیں دیکھ رہا ہوں اور وہ سب سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں۔صرف فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو۔لیکن تم میرے وزیر بھی ہواورمنزل خیر پر بھی ہو۔

۳۹۱

وإِنَّكَ لَعَلَى خَيْرٍ ولَقَدْ كُنْتُ مَعَهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لَمَّا أَتَاه الْمَلأُ مِنْ قُرَيْشٍ - فَقَالُوا لَه يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ قَدِ ادَّعَيْتَ عَظِيماً - لَمْ يَدَّعِه آبَاؤُكَ ولَا أَحَدٌ مِنْ بَيْتِكَ - ونَحْنُ نَسْأَلُكَ أَمْراً إِنْ أَنْتَ أَجَبْتَنَا إِلَيْه وأَرَيْتَنَاه - عَلِمْنَا أَنَّكَ نَبِيٌّ ورَسُولٌ - وإِنْ لَمْ تَفْعَلْ عَلِمْنَا أَنَّكَ سَاحِرٌ كَذَّابٌ - فَقَالَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ومَا تَسْأَلُونَ قَالُوا - تَدْعُو لَنَا هَذِه الشَّجَرَةَ حَتَّى تَنْقَلِعَ بِعُرُوقِهَا - وتَقِفَ بَيْنَ يَدَيْكَ فَقَالَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم -( إِنَّ الله عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) - فَإِنْ فَعَلَ اللَّه لَكُمْ ذَلِكَ أَتُؤْمِنُونَ وتَشْهَدُونَ بِالْحَقِّ - قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَإِنِّي سَأُرِيكُمْ مَا تَطْلُبُونَ - وإِنِّي لأَعْلَمُ أَنَّكُمْ لَا تَفِيئُونَ إِلَى خَيْرٍ - وإِنَّ فِيكُمْ مَنْ يُطْرَحُ فِي الْقَلِيبِ ومَنْ يُحَزِّبُ الأَحْزَابَ - ثُمَّ قَالَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَا أَيَّتُهَا الشَّجَرَةُ - إِنْ كُنْتِ تُؤْمِنِينَ بِاللَّه والْيَوْمِ الآخِرِ - وتَعْلَمِينَ أَنِّي رَسُولُ اللَّه فَانْقَلِعِي بِعُرُوقِكِ - حَتَّى تَقِفِي بَيْنَ يَدَيَّ بِإِذْنِ اللَّه - فَوَالَّذِي بَعَثَه بِالْحَقِّ لَانْقَلَعَتْ بِعُرُوقِهَا - وجَاءَتْ ولَهَا دَوِيٌّ شَدِيدٌ - وقَصْفٌ

میں اس وقت بھی حضرت کے ساتھ تھا جب قریش کے سرداروں نے آکر کہا تھا کہ محمد (ص) ! تم نے بہت بڑی بات کا دعویٰ کیا ہے جو تمہارے گھر والوں میں کسی نے نہیں کیا تھا۔اب ہم تم سے ایک بات کا سوال کر رہے ہیں۔اگر تم نے صحیح جواب دے دیا اورہمیں ہمارے مدعا کو دکھلا دیا توہم سمجھ لیں گے کہ تم نبی خدا اور رسول خدا ہو ورنہ اگر ایسا نہ کر سکے تو ہمیں یقین ہو جائے گا کہ تم جادو گر اور جھوٹے ہو۔تو آپ نے فرمایا تھا۔کہ تمہارا سوال کیا ہے ؟ ان لوگوں نے کہا کہ آپ اس درخت کو دعوت دیں کہ وہ جڑ سے اکھڑ کرآجائے اور آپ کے سامنے کھڑا ہو جائے ؟ آ پ نے فرمایا کہ پروردگار ہر شے پر قادر ہے۔اگر اس نے ایسا کردیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آئوگے ؟ اورحق کی گواہی دے دوگے ! ان لوگوں نے کہا ۔ بیشک آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب یہ منظر دکھلا دوں گا لیکن مجھے معلوم ہے کہ تم کبھی خیر کی طرف پلٹ کرآنے والے نہیں ہو۔تم میں وہ شخص بھی موجود ہے جو کنویں میں پھینکا جائے گا اور وہ بھی ہے جو احزاب قائم کرے گا۔یہ کہہ کر آپ نے درخت کوآوازدی کہ اگر تیرا ایمان الہ اور روز آخرت پر ہے اور تجھے یقین ہے کہمیں اللہ کا رسول ہوں تو جڑ سے اکھڑ کر میرے سامنے آجا اور اذن خدا سے کھڑا ہو جا۔قسم ہے اس ذات کی جس نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ درخت جڑ سے اکھڑ گیا اور اس عالم میں حضورکے سامنے آگیا کہ اس میں سخت کھڑ کھڑاہٹ تھی اور پرندوں کے پروں کی آوازوں جیسی

۳۹۲

كَقَصْفِ أَجْنِحَةِ الطَّيْرِ - حَتَّى وَقَفَتْ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مُرَفْرِفَةً - وأَلْقَتْ بِغُصْنِهَا الأَعْلَى عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وبِبَعْضِ أَغْصَانِهَا عَلَى مَنْكِبِي وكُنْتُ عَنْ يَمِينِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَلَمَّا نَظَرَ الْقَوْمُ إِلَى ذَلِكَ قَالُوا عُلُوّاً واسْتِكْبَاراً - فَمُرْهَا فَلْيَأْتِكَ نِصْفُهَا ويَبْقَى نِصْفُهَا - فَأَمَرَهَا بِذَلِكَ فَأَقْبَلَ إِلَيْه نِصْفُهَا - كَأَعْجَبِ إِقْبَالٍ وأَشَدِّه دَوِيّاً - فَكَادَتْ تَلْتَفُّ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَقَالُوا كُفْراً وعُتُوّاً فَمُرْ هَذَا النِّصْفَ - فَلْيَرْجِعْ إِلَى نِصْفِه كَمَا كَانَ - فَأَمَرَهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَرَجَعَ - فَقُلْتُ أَنَا لَا إِلَه إِلَّا اللَّه إِنِّي أَوَّلُ مُؤْمِنٍ بِكَ يَا رَسُولَ اللَّه - وأَوَّلُ مَنْ أَقَرَّ بِأَنَّ الشَّجَرَةَ فَعَلَتْ مَا فَعَلَتْ بِأَمْرِ اللَّه تَعَالَى - تَصْدِيقاً بِنُبُوَّتِكَ وإِجْلَالًا لِكَلِمَتِكَ - فَقَالَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ بَلْ( ساحِرٌ كَذَّابٌ ) - عَجِيبُ السِّحْرِ خَفِيفٌ فِيه - وهَلْ يُصَدِّقُكَ فِي أَمْرِكَ إِلَّا -

پھڑپھڑاہٹ بھی تھی۔اس نے ایک شاخ سرکار کے سر پر سایہ فگن کردی اور ایک میرے کاندھے پر۔جب کہ میں آپ کے داہنے پہلو میں تھا۔

ان لوگوں نے جیسے ہی یہ منظردیکھا نہایت درجہ سر کشی اور غرور کے ساتھ کہنے لگے کہ اچھا اب حکم دیجئے کہ آدھا حصہ آپ کے پاس آجائے اورآدھا رک جائے۔آپ نے یہ بھی کردیا اورآدھا حصہ نہایت درجہ حیرت کے ساتھ اور سخت ترین کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ آگیا اور آپ کا حصار کرلیا۔ان لوگوں نے پھر بر بنائے کفو سر کشی یہ مطالبہ کیا کہ اچھا اب اس سے کئے کہ واپس جا کر دوسرے نصف حصہ سے مل جائے۔آپ نے یہ بھی کرکے دکھلا دیا تو میں نے آوازدی کہ میں توحید الٰہی کا پہلا اقرار کرنے والا اور اس حقیقت کا پہلا اعتراف کرنے والا ہوں کہ درخت نے امر الٰہی سے آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ کے کلام کی بلندی کے لے آپ کے حکم کی مکمل اطاعت کردی۔

لیکن ساری قوم نے آپ کو جھوٹا اور جادوگر قراردے دیاکہ ان کا جادو عجیب بھی ہے اورباریک بھی ے اورایسی باتوں کی تصدیق ایسے ہی افراد(۱) کرسکتے ہیں ہم

(۱) اگرچہ کفار مشرکین نے یہ بات بطور تمسخر و استہزاء کہی تھی لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ ایسے حقائق کا اقرار ایسے ہی افراد کر سکتے ہیں اور ایمان کی دولت سے سر فراز ہونا ہر ایک کے بسکی بات نہیں ہے۔اس دولت سے محروم آج کے وہ دانشور بھی ہیں جن کی سمجھ میں معجزہ ہی نہیں آتا ہے اور وہ ہر معجزہ کو خلاف قانون طبعت قراردے کر ٹھکرا دیتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ قانون صاحب قانون پر بھی حکومت کر رہا ہے اور صاحب قانون کوبھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بندہ کے منصب کی تصدیق کے لئے اپنے قانون میں تبدیلی کردئیے جب کہ اس کی ہزاروں مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔اور وہ جہلا ء اور متعصب افراد بھی ہیں جن کی سمجھ میں شق القمر اور رد شمس جیسا روشن معجزہ نہیں آتا ہے تو قرآن مجید کی باریکیوں اوردیگر کرامات کی نزاکتوں کو کیا سمجھیں گے اور کس طرح ایمان لا سکیں گے۔

۳۹۳

مِثْلُ هَذَا يَعْنُونَنِي

وإِنِّي لَمِنْ قَوْمٍ لَا تَأْخُذُهُمْ فِي اللَّه لَوْمَةُ لَائِمٍ - سِيمَاهُمْ سِيمَا الصِّدِّيقِينَ وكَلَامُهُمْ كَلَامُ الأَبْرَارِ - عُمَّارُ اللَّيْلِ ومَنَارُ النَّهَارِ - مُتَمَسِّكُونَ بِحَبْلِ الْقُرْآنِ يُحْيُونَ سُنَنَ اللَّه وسُنَنَ رَسُولِه - لَا يَسْتَكْبِرُونَ ولَا يَعْلُونَ ولَا يَغُلُّونَ ولَا يُفْسِدُونَ - قُلُوبُهُمْ فِي الْجِنَانِ وأَجْسَادُهُمْ فِي الْعَمَلِ!

(۱۹۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يصف فيها المتقين

رُوِيَ أَنَّ صَاحِباً لأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام يُقَالُ لَه هَمَّامٌ - كَانَ رَجُلًا عَابِداً فَقَالَ لَه يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - صِفْ لِيَ الْمُتَّقِينَ حَتَّى كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ - فَتَثَاقَلَعليه‌السلام عَنْ جَوَابِه - ثُمَّ قَالَ يَا هَمَّامُ اتَّقِ اللَّه وأَحْسِنْ - فَ( إِنَّ الله مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا والَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ ) - فَلَمْ يَقْنَعْ هَمَّامٌ بِهَذَا الْقَوْلِ حَتَّى عَزَمَ عَلَيْه - فَحَمِدَ اللَّه وأَثْنَى عَلَيْه وصَلَّى عَلَى النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم -

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام :

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى خَلَقَ الْخَلْقَ حِينَ خَلَقَهُمْ - غَنِيّاً عَنْ طَاعَتِهِمْ آمِناً مِنْ مَعْصِيَتِهِمْ - لأَنَّه لَا تَضُرُّه مَعْصِيَةُ مَنْ عَصَاه

لوگ نہیں کر سکتے ہیں۔لیکن میں بہر حال اس قوم میں شمار ہوتا ہوں جنہیں خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔جن کی نشانیاں صدیقین جیسی ہیں اور جنکا کلام نیک کردار افراد جیسا۔یہ راتوں کو آباد رکھنے والے اور دونوں کے منارے ہیں۔قرآن کی رسی سے متمسک ہیں اور خدا اور رسول کی سنت کو زندہ رکھنے والے ہیں۔ان کے یہاں نہ غرور ہے اور نہ سر کشی ' نہ خیانت ہے اور نہ فساد۔ان کے دل جنت میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے جسم عمل میں مصروف ہیں۔

(۱۹۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں صاحبان تقویٰ کی تعریف کی گئی ہے)

کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین کے کے ایک عابد و زاہد صحابی جن کا نام ہمام تھا ایک دن حضرت سے عرض کرنے لگے کہ حضور مجھ سے متقین کے صفات کچھ اس طرح بیان فرمائیں کہ گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں۔آپ نے جواب سے گریز کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمام اللہ سے ڈرو اورنیک عمل کرو کہ اللہ تقویٰ اور جس عمل والوں کودوست رکھتا ہے۔ ہمام اس مختصر بیان سے مطمئن نہ ہئے تو حضرت نے حمدوثنائے پروردگار اور صلوات و سلام کے بعد ارشاد فرمایا:امابعد! پروردگار نے تمام مخلوقات کواس عالم میں پیدا کیا ہے کہ وہ ان کی اطاعت سے مستغنی اور ان کی نا فرمانی سے محفوظ تھا ۔نہ اسے کسی نا فرمان کی معصیت

۳۹۴

ولَا تَنْفَعُه طَاعَةُ مَنْ أَطَاعَه فَقَسَمَ بَيْنَهُمْ مَعَايِشَهُمْ - ووَضَعَهُمْ مِنَ الدُّنْيَا مَوَاضِعَهُمْ - فَالْمُتَّقُونَ فِيهَا هُمْ أَهْلُ الْفَضَائِلِ - مَنْطِقُهُمُ الصَّوَابُ ومَلْبَسُهُمُ الِاقْتِصَادُ ومَشْيُهُمُ التَّوَاضُعُ - غَضُّوا أَبْصَارَهُمْ عَمَّا حَرَّمَ اللَّه عَلَيْهِمْ - ووَقَفُوا أَسْمَاعَهُمْ عَلَى الْعِلْمِ النَّافِعِ لَهُمْ - نُزِّلَتْ أَنْفُسُهُمْ مِنْهُمْ فِي الْبَلَاءِ - كَالَّتِي نُزِّلَتْ فِي الرَّخَاءِ - ولَوْ لَا الأَجَلُ الَّذِي كَتَبَ اللَّه عَلَيْهِمْ - لَمْ تَسْتَقِرَّ أَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ طَرْفَةَ عَيْنٍ - شَوْقاً إِلَى الثَّوَابِ وخَوْفاً مِنَ الْعِقَابِ - عَظُمَ الْخَالِقُ فِي أَنْفُسِهِمْ فَصَغُرَ مَا دُونَه فِي أَعْيُنِهِمْ - فَهُمْ والْجَنَّةُ كَمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِيهَا مُنَعَّمُونَ - وهُمْ والنَّارُ كَمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِيهَا مُعَذَّبُونَ - قُلُوبُهُمْ مَحْزُونَةٌ وشُرُورُهُمْ مَأْمُونَةٌ - وأَجْسَادُهُمْ نَحِيفَةٌ وحَاجَاتُهُمْ خَفِيفَةٌ وأَنْفُسُهُمْ عَفِيفَةٌ - صَبَرُوا أَيَّاماً قَصِيرَةً أَعْقَبَتْهُمْ رَاحَةً طَوِيلَةً - تِجَارَةٌ مُرْبِحَةٌ يَسَّرَهَا لَهُمْ رَبُّهُمْ

نقصان پہنچاسکتی تھی اور نہ کسی اطاعت گزار کی اطاعت فائدہ دے سکتی تھی۔

اس نے سب کی معیشت کو تقسیم کردیا۔اور سب کی دنیا میں ایک منزل قرار دے دی۔اس دنیا میں متقی افراد وہ ہیں جو صاحبان فضائل و کمالات ہوتے ہیں کہ ان کی گفتگو حق و صواب ' ان کا لباس معتدل ' ان کی رفتار متواضع ہوتی ہے۔جن چیزوں کو پروردگارنے حرام قرار دے دیا ہے ان سے نظروں کو نیچا رکھتے ہیں اور اپنے کانوں کو ان علوم کے لئے وقف رکھتے ہیں جوف ائدہ پہنچانے والے ہیں ان کے نفسو بلاء و آزمائش میں ایسے ہی رہتے ہیں جیسے راحت وآرام میں۔اگر پروردگار نے ہر شخص کی حیات کی مدت مقرر نہ کردی ہوتی تو ان کی روحید ان کے جسم میں پلک جھپکنے کے برابر بھی ٹھہر نہیں سکتی تھی کہانہیں ثواب کا شوق ہے اور عذاب کاخوف ۔خالق ان کی نگاہ میں اس قدر عظیم ہے کہ ساری دنیا نگاہوں سے گر گئی ہے۔جنت ان کی نگاہ کے سامنے اس طرح ہے جیسے اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں اورجہنم کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے اس کے عذاب کو محسوس کر رہے ہوں۔ان کے دل نیکیوں کیخزانے ہیں اور ان سے شرکا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ان کے جسم نحیف اور لاغر ہیں اور ان کے ضروریات نہایت درجہ مختصر اور ان کے نفوس بھی طیب و طاہر ہیں۔انہوں نے دنیامیں چند دن تکلیف اٹھا کر ابدی راحت کا انتظام کرلیا ہے اور ایسی فائدہ بخش تجارت کی ہے جس کا انتظام ان کے پروردگار نے کردیا تھا

۳۹۵

أَرَادَتْهُمُ الدُّنْيَا فَلَمْ يُرِيدُوهَا - وأَسَرَتْهُمْ فَفَدَوْا أَنْفُسَهُمْ مِنْهَا - أَمَّا اللَّيْلَ فَصَافُّونَ أَقْدَامَهُمْ - تَالِينَ لأَجْزَاءِ الْقُرْآنِ يُرَتِّلُونَهَا تَرْتِيلًا - يُحَزِّنُونَ بِه أَنْفُسَهُمْ ويَسْتَثِيرُونَ بِه دَوَاءَ دَائِهِمْ - فَإِذَا مَرُّوا بِآيَةٍ فِيهَا تَشْوِيقٌ رَكَنُوا إِلَيْهَا طَمَعاً - وتَطَلَّعَتْ نُفُوسُهُمْ إِلَيْهَا شَوْقاً وظَنُّوا أَنَّهَا نُصْبَ أَعْيُنِهِمْ - وإِذَا مَرُّوا بِآيَةٍ فِيهَا تَخْوِيفٌ - أَصْغَوْا إِلَيْهَا مَسَامِعَ قُلُوبِهِمْ - وظَنُّوا أَنَّ زَفِيرَ جَهَنَّمَ وشَهِيقَهَا فِي أُصُولِ آذَانِهِمْ - فَهُمْ حَانُونَ عَلَى أَوْسَاطِهِمْ - مُفْتَرِشُونَ لِجِبَاهِهِمْ وأَكُفِّهِمْ ورُكَبِهِمْ وأَطْرَافِ أَقْدَامِهِمْ - يَطْلُبُونَ إِلَى اللَّه تَعَالَى فِي فَكَاكِ رِقَابِهِمْ -

وأَمَّا النَّهَارَ فَحُلَمَاءُ عُلَمَاءُ أَبْرَارٌ أَتْقِيَاءُ - قَدْ بَرَاهُمُ الْخَوْفُ بَرْيَ الْقِدَاحِ - يَنْظُرُ إِلَيْهِمُ النَّاظِرُ فَيَحْسَبُهُمْ مَرْضَى - ومَا بِالْقَوْمِ مِنْ مَرَضٍ ويَقُولُ لَقَدْ خُولِطُوا! ولَقَدْ خَالَطَهُمْ أَمْرٌ عَظِيمٌ -

دنیا نے انہیں بہت چاہا لیکن انہوں نے اسے نہیں چاہا اور اس نے انہیں بہت گرفتارکرنا چاہا لیکن انہوں نے فدیہ دے کر اپنے کوچھڑا لیا۔

راتوں کے وقت مصلیٰ پرکھڑے رہتے ہیں خوش الحانی کے ساتھ تلاوت(۱) قرآن کرتے رہتے ہیں۔اپنے نفس کومحزون رکھتے ہیں اور اسی طرح سے گزرتے ہیں تو دل کے کانوں کو اس کی طرف یوں مصروف کردیتے ہیں جیسے جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ پکار مسلسل ان کے کانوں تک پہنچ رہی ہو۔یہ رکوع میں کمرخمیدہ اور سجدہ میں پیشانی ،ہتھیلی ، انگوٹھوں اور گھٹنوں کو فرش خاک کئے رہتے ہیں۔

پروردگار سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ان کی گردنوں کو آتش جہنم سے آزاد کردے۔

اس کے بعد دن کے وقت یہ علماء اور دانش مند نیک کردار اور پرہیز گار ہوتے ہیں جیسے انہیں تیر انداز کے تیر کی طرح خوف خدا نے تراشا ہو۔دیکھنے والا انہیں دیکھ کر بیمار تصور کرتا ہے حالانکہ یہ بیمارنہیں ہیں اور ان کی باتوں کو سن کر کہتا ہے کہ ان کی عقلوں میں فتور ہے حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے۔بات صرف یہ ہے کہ انہیں ایک بہت بڑی بات نے مد ہوش بنا رکھا ہے

(۱)یوں تو تلاوت قرآن کا سلسلہ گھروں سے لے کرمسجدوں تک اورگلدستہ اذان سے لے کر ٹووی اسٹیشن تک ہر جگہ حاوی ہے اور حسن قرأت کے مقابلوں میں '' اللہ اللہ '' کی آوازبھی سنائی دیتی ہے لیکن کہاں ہیں وہ تلاوت کرنے والے جن کی شان مولائے کائنات نے بیان کی ہے کہ ہر آیت ان کے کردار کا ایک حصہ بن جائے اور ہر فقرہ درد زندگی کے ایک علاج کی حیثیت پیدا کرلے۔آیت نعمت پڑھیں تو جنت کا نقشہ نگاہوں میں کھینچ جائے اور تمنائے موت میں بے قرار ہو جائیں اور آیت غضب کی تلاوت کریں تو جہنم کے شعلوں کی آواز کانوں میں گونجنے لگے اورسارا وجود تھرتھرا جائے۔ در حقیقت یہ امیرالمومنین ہی کی زندگی کا نقشہ ہے جسے حضرت نے متقین کے نام سے بیان کیا ہے ورنہ دیدہتاریخ ایسے متقین کی زیارت کے لئے سراپا اشتیاق ہے۔

۳۹۶

لَا يَرْضَوْنَ مِنْ أَعْمَالِهِمُ الْقَلِيلَ - ولَا يَسْتَكْثِرُونَ الْكَثِيرَ - فَهُمْ لأَنْفُسِهِمْ مُتَّهِمُونَ ومِنْ أَعْمَالِهِمْ مُشْفِقُونَ - إِذَا زُكِّيَ أَحَدٌ مِنْهُمْ خَافَ مِمَّا يُقَالُ لَه فَيَقُولُ - أَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْ غَيْرِي ورَبِّي أَعْلَمُ بِي مِنِّي بِنَفْسِي

اللَّهُمَّ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا يَقُولُونَ - واجْعَلْنِي أَفْضَلَ مِمَّا يَظُنُّونَ واغْفِرْ لِي مَا لَا يَعْلَمُونَ.

فَمِنْ عَلَامَةِ أَحَدِهِمْ أَنَّكَ تَرَى لَه قُوَّةً فِي دِينٍ - وحَزْماً فِي لِينٍ وإِيمَاناً فِي يَقِينٍ وحِرْصاً فِي عِلْمٍ - وعِلْماً فِي حِلْمٍ وقَصْداً فِي غِنًى وخُشُوعاً فِي عِبَادَةٍ - وتَجَمُّلًا فِي فَاقَةٍ وصَبْراً فِي شِدَّةٍ وطَلَباً فِي حَلَالٍ - ونَشَاطاً فِي هُدًى وتَحَرُّجاً عَنْ طَمَعٍ - يَعْمَلُ الأَعْمَالَ الصَّالِحَةَ وهُوَ عَلَى وَجَلٍ - يُمْسِي وهَمُّه الشُّكْرُ ويُصْبِحُ وهَمُّه الذِّكْرُ - يَبِيتُ حَذِراً ويُصْبِحُ فَرِحاً - حَذِراً لِمَا حُذِّرَ مِنَ الْغَفْلَةِ - وفَرِحاً بِمَا أَصَابَ مِنَ الْفَضْلِ والرَّحْمَةِ - إِنِ اسْتَصْعَبَتْ عَلَيْه نَفْسُه فِيمَا تَكْرَه - لَمْ يُعْطِهَا سُؤْلَهَا فِيمَا تُحِبُّ - قُرَّةُ عَيْنِه فِيمَا لَا يَزُولُ

کہ یہ نہ قلیل عمل سے راضی ہوتے ہیں اور نہ کثیر عمل کو کثیر سمجھتے ہیں ۔ ہمیشہ اپنے نفس ہی کو متہم کرتے رہتے ہیں اور اپنے اعمال ہی سے خوف زدہ رہتے ہیں جب ان کی تعریف کی جاتی ہے تواس سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں خود اپنے نفس کو دوسروں سے بہتر پہنچانتا ہوں اور میرا پروردگار تو مجھ سے بھی بہتر جانتا ہے ۔ خدایا! مجھ سے ان کے اقوال کا محاسبہ نہ کرنا اور مجھے ان کے حسن ظن سے بھی بہتر قرار دے دینا اور پھر ان گناہوں کو معاف بھی کردینا جنہیں یہ سب نہیں جانتے ہیں۔ ان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ان کے پاس دین میں قوت ' نرمی میں شدت احتیاط، یقین میں ایمان ' علم کے بارے میں طمع ' حلم کی منزل میں علم ' مالداری میں میانہ روی ' عبادت میں خشوع قلب ' فاقہ میں خود داری ' سختیوں میں صبر ' حلال کی طلب ' ہدایت میں نشاط' لالچ سے پرہیز جیسی تمام باتیں پائی جاتی ہیں۔وہ نیک اعمال بھی انجام دیتے ہیں تو لرزتے ہوئے انجام دیتے ہیں۔شام کے وقت ان کی فکر شکر پروردگار ہوتی ہے اور صبح کے وقت ذکر الٰہی ۔ خوف زدہ عالم میں رات کرتے ہیں اور فرح و سرور میں صبح۔جس غفلت سے ڈرایا گیا ہے اس سے محتاط رہتے ہیں اور جس فضل و رحمت کا وعدہ کیا گیا ہے اس سے خوش رہتے ہیں۔اگر نفس ناگوار ام کے لئے سختی بھی کرے تواس کے مطالبہ کو پورا نہیں کرتے ہیں۔ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک لازوال نعمتوں میں ہے اور ان کا پرہیز فانی اشیاء کے بارے میں

۳۹۷

وزَهَادَتُه فِيمَا لَا يَبْقَى - يَمْزُجُ الْحِلْمَ بِالْعِلْمِ والْقَوْلَ بِالْعَمَلِ - تَرَاه قَرِيباً أَمَلُه قَلِيلًا زَلَلُه خَاشِعاً قَلْبُه - قَانِعَةً نَفْسُه مَنْزُوراً أَكْلُه سَهْلًا أَمْرُه - حَرِيزاً دِينُه مَيِّتَةً شَهْوَتُه مَكْظُوماً غَيْظُه - الْخَيْرُ مِنْه مَأْمُولٌ والشَّرُّ مِنْه مَأْمُونٌ - إِنْ كَانَ فِي الْغَافِلِينَ كُتِبَ فِي الذَّاكِرِينَ - وإِنْ كَانَ فِي الذَّاكِرِينَ لَمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِينَ - يَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَه ويُعْطِي مَنْ حَرَمَه - ويَصِلُ مَنْ قَطَعَه بَعِيداً فُحْشُه - لَيِّناً قَوْلُه غَائِباً مُنْكَرُه حَاضِراً مَعْرُوفُه، مُقْبِلًا خَيْرُه مُدْبِراً شَرُّه - فِي الزَّلَازِلِ وَقُورٌ وفِي الْمَكَارِه صَبُورٌ - وفِي الرَّخَاءِ شَكُورٌ لَا يَحِيفُ عَلَى مَنْ يُبْغِضُ - ولَا يَأْثَمُ فِيمَنْ يُحِبُّ - يَعْتَرِفُ بِالْحَقِّ قَبْلَ أَنْ يُشْهَدَ عَلَيْه - لَا يُضِيعُ مَا اسْتُحْفِظَ ولَا يَنْسَى مَا ذُكِّرَ - ولَا يُنَابِزُ بِالأَلْقَابِ ولَا يُضَارُّ بِالْجَارِ -

ہے یہ حلم کو علم سے اورقول کو عمل سے ملائے ہوئے ہیں۔تم ہمیشہ ان کی امیدوں کومختصر ' دل کو خاشع ' نفس کو قانع ' کھانے کو معمولی ' معاملات کوآسان ' دین کو محفوظ ' خواہشات کو مردہ اور غصہ کو پیا ہوا دیکھو گے۔

ان سے ہمیشہ نیکیوں کی امید(۱) رہتی ہے اورانسان ان کے شر کی طرف سے محفوظ رہتا ہے۔یہ غافلوں میں نظر آئیں تو بھی یاد خدا کرنے والوں میں کہے جاتے ہیں اور یاد کرنے والوں میں نظر آئیں تو بھی غافلوں میں شمار نہیں ہوتے ہیں۔ظلم کرنے والے کو معاف کر دیتے ہیں۔مجروم رکھنے والے کو عطا کردیتے ہیں۔قطع رحم کرنے والوں سے تعلقات رکھتے ہیں۔لغویات سے دور۔نرم کلام منکرات غائب نیکیاں حاضر۔خیر آتا ہوا شیر جاتا ہوا۔زلزلوں میں باوقار۔دشواریوں میں صابر۔آسانیوں میں شکر گزار ۔دشمن پر ظلم نہیں کرتے ہیں چاہنے والوں کی خاطر گناہ نہیں کرتے ہیں۔گواہی طلب کئے جانے سے پہلے حق کا اتعراف کرتے ہیں۔امانتوں کو ضائع نہیں کرتے ہیں۔جو بات یاددلادی جائے اسے بھولتے نہیں ہیں اور القاب کے ذریعہ ایک دوسرے کو چڑھاتے نہیں ہیں اور ہمسایہ کونقصان نہیں

(۱)خدا گواہ ہے کہ ایک ایک لفظ آب زد سے لکھنے کے قابل ہے اور انسانی زنندگی میں انقلاب پیداکرنے کے لئے کافی ہے۔صاحبان تقویٰ کی واقعی شان یہی ہے کہ ان سے ہر خیر کی امید کی جائے اور ان کے بارے میں کسی شر کا تصور نہ کیا جائے۔وہ غافلوں کے درمیان بھی رہیں توذکرخدا میں مغشول رہیں اوربے ایمانوں کی بستی میں بھیآباد ہوں تو ایمان و کردار میں فرق نہآئے ۔نفس اتنا پاکیزہ ہو کہ ہر برائی کا جواب نیکی سے دیں اورہر غلطی کو معاف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔گفتگو اعمال رفتار کردار ہر اعتبارسے طیب و طاہر ہوں اور کوئی ایک لمحہ بھی خوف خدا سے خالی نہ ہو۔

تلاش کیجئے آج کے دور کے صاحبان تقویٰ اور مدیعان پرہیز گاری کی بستی میں ۔کوئی ایک شخص بھی ایساجامع الصفات نظرآتا ہے اور کسی انسان کے کردارمیں بھی مولائے کائنات کے ارشاد کی جھلک نظر آتی ہے۔اور اگر ایسا نہیں ہے تو سمجھئے کہ ہم خیالات کی دنیا میں آباد ہیں اور ہمارا واقعیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۳۹۸

ولَا يَشْمَتُ بِالْمَصَائِبِ ولَا يَدْخُلُ فِي الْبَاطِلِ - ولَا يَخْرُجُ مِنَ الْحَقِّ - إِنْ صَمَتَ لَمْ يَغُمَّه صَمْتُه وإِنْ ضَحِكَ لَمْ يَعْلُ صَوْتُه - وإِنْ بُغِيَ عَلَيْه صَبَرَ حَتَّى يَكُونَ اللَّه هُوَ الَّذِي يَنْتَقِمُ لَه - نَفْسُه مِنْه فِي عَنَاءٍ والنَّاسُ مِنْه فِي رَاحَةٍ - أَتْعَبَ نَفْسَه لِآخِرَتِه وأَرَاحَ النَّاسَ مِنْ نَفْسِه - بُعْدُه عَمَّنْ تَبَاعَدَ عَنْه زُهْدٌ ونَزَاهَةٌ - ودُنُوُّه مِمَّنْ دَنَا مِنْه لِينٌ ورَحْمَةٌ - لَيْسَ تَبَاعُدُه بِكِبْرٍ وعَظَمَةٍ ولَا دُنُوُّه بِمَكْرٍ وخَدِيعَةٍ.

قَالَ فَصَعِقَ هَمَّامٌ صَعْقَةً كَانَتْ نَفْسُه فِيهَا.

فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام أَمَا واللَّه لَقَدْ كُنْتُ أَخَافُهَا عَلَيْه - ثُمَّ قَالَ أَهَكَذَا تَصْنَعُ الْمَوَاعِظُ الْبَالِغَةُ بِأَهْلِهَا؟

فَقَالَ لَه قَائِلٌ فَمَا بَالُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟

فَقَالَعليه‌السلام وَيْحَكَ إِنَّ لِكُلِّ أَجَلٍ وَقْتاً لَا يَعْدُوه - وسَبَباً لَا يَتَجَاوَزُه فَمَهْلًا لَا تَعُدْ لِمِثْلِهَا - فَإِنَّمَا نَفَثَ الشَّيْطَانُ عَلَى لِسَانِكَ!

پہنچاتے ہیں۔مصائب میں کسی کو طعنے نہیں دیتے ہیں۔ حرف باطل میں داخل نہیں ہوتے ہیں اور کلمہ حق سے باہر نہیں آتے ہیں۔یہ چپ رہیں تو ان کی خموشی ہم و غم کی بنا پر نہیں ہے اور یہ ہنستے ہیں توآواز بلند نہیں کرتے ہیں۔ان پر ظلم کیاجائے تو صبر کر لیتے ہیں تاکہخدا اس کا انتقام لے۔ان کا اپنا نفس ہمیشہ رنج میں رہتا ہے اور لوگ ان کی طرف سے ہمیشہ مطمئن رہتے ہیں۔انہوں نے اپنے نفس کوآخرت کے لئے تھکاڈالا ہے اورلوگ ان کے نفس کی طرف سے آزاد ہوگئے ہیں۔دور رہنے والوں سے ان کی دوری زہد اورپاکیزگی کی بنا پر ہے اور قریب رہنے والوں سے ان کی قربت نرمی اومرحمت کی بناپ ر ہے۔نہ دوری تکبر و برتری کا نتیجہ ہے اور نہ قربت مکرو فریب کا نتیجہ ۔

راوی کہتا ہے کہ یہ سن کر ہمام نے ایک چیخ ماری اوردنیاسے رخصت ہوگئے ۔

تو امیرالمومنین نے فرمایا کہ میں اسی وقت سے ڈر رہا تھا کہمیں جانتا تھا کہ صاحبان تقویٰ کے دلوں پر نصیحت کا اثر اسی طرح ہوا کرتا ہے۔یہ سننا تھا کہ ایک شخص بول پڑا کہ پھر آپ پر ایسا اثر کیوں ہیں ہوا۔

تو آپ نے فرمایا کہ خدا تیراب را کرے۔ہر اجل کے لئے ایک وقت عین ہے جس سے آگے بڑھنا نا ممکن ہے اور ہرشے کے لئے ایک سبب ہے جس سے تجاوز کرنا نا ممکن ہے۔خبردار اب ایسی گفتگو نہ کرنا۔یہ شیطان نے تیری زبان پر اپنا جادو پھونک دیا ہے۔

۳۹۹

( ۱۹۴ )

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يصف فيها المنافقين

نَحْمَدُه عَلَى مَا وَفَّقَ لَه مِنَ الطَّاعَةِ - وذَادَ عَنْه مِنَ الْمَعْصِيَةِ ونَسْأَلُه لِمِنَّتِه تَمَاماً - وبِحَبْلِه اعْتِصَاماً - ونَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - خَاضَ إِلَى رِضْوَانِ اللَّه كُلَّ غَمْرَةٍ وتَجَرَّعَ فِيه كُلَّ غُصَّةٍ - وقَدْ تَلَوَّنَ لَه الأَدْنَوْنَ وتَأَلَّبَ عَلَيْه الأَقْصَوْنَ - وخَلَعَتْ إِلَيْه الْعَرَبُ أَعِنَّتَهَا - وضَرَبَتْ إِلَى مُحَارَبَتِه بُطُونَ رَوَاحِلِهَا - حَتَّى أَنْزَلَتْ بِسَاحَتِه عَدَاوَتَهَا مِنْ أَبْعَدِ الدَّارِ وأَسْحَقِ الْمَزَارِ.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه وأُحَذِّرُكُمْ أَهْلَ النِّفَاقِ - فَإِنَّهُمُ الضَّالُّونَ الْمُضِلُّونَ

(۱۹۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں منافقین کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں)

ہم اس پروردگار کا شکرادا کرتے ہیں کہ اس نے اطاعت کی توفیق عطا فرمائی اورمعصیت سے دور رکھا اور پھراس سے احسانات کے مکمل کرنے اوراس کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہنے کی ددعا بھی کرتے ہیں۔ اور اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ محمد (ص) اس کے بندہ ور رسول ہیں۔انہوںنے اسکی رضا کی خاطر ہر مصیبت میں اپنے کو ڈال دیا اور ہغصہ کے گھونٹ کو پی لیا۔قریب والوں نے ان کے سامنے رنگبدل دیا اور دور والوں نے ان پر لشکرکشی کردی۔عربوں نے اپنی زمام کا رخ ان کی طرف موڑ دیا اور اپنی سواریوں کو ان سے جنگ کرنے کے لئے مہمیز کردیا یہاں تک کہ اپنی عورتوں کو دور دراز علاقوں اور دور افتادہ سرحدوں سے لا کر ان کے صحن میں اتاردیا۔

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں اورتمہیں منافقین سے ہوشیار کر رہاہوں کہ یہ گمراہ(۱) بھی ہیں۔اور گمراہ کن بھی منحرف بھی ہیں

(۱) اگر ساری دنیا کے جرائم کی فہرست یار کی جائے تو اس میں سر فہرست نفاق ہی کا نام ہوگا جس میں ہر طرح کی برائی اور ہر طرح کا عیب پایا جاتا ہے ۔نفاق اندر سے کفروشرک کی خباثت رکھتا ہے اور باہرسے جھوٹ اور غلط بیانی کی کثابت رکھتا ہے اور ان دونوں سے بد تر دنیا کا کوئی جرم اور کوئی عیب نہیں ہے۔

دور حاضر کا دقیق ترین جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس دورمیں عالمی سطح پر نفاق کے علاوہ کچھ نہیں رہ گیا ۔ہر شخص جو کچھ کر رہا ہے اس کا باطن اس کے خلاف ہے اور ہر حکومت جس بات کا دعوی ٰ کر رہی ہے اس کی کوئی واقعیت نہیں ہے۔تہذیب کے نام پر فساد ۔مواصلات کے نام پر تباہ کاری ۔امن کے عالم کے نام پر اسلحوں کی دوڑ ۔تعلیم کے نام پر بد اخلاقی اور مذہب کے نام پر لامذہبیت ہی اس دورکا طرہ ٔ امتیاز ہے اور اسی کو زبان شریعت میں نفاق کہا جاتا ہے۔

۴۰۰