نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657132 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تھا ممکن ہے کہ وہ پہلے امیرالمومنین ؑ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہوں،اس امید پر کہ شاید اس کے بدلے میں امیرالمومنین ؑ انہیں معاف کردیں لیکن سابقہ روایت میں گذرچکا(کہ امیرالمومنین ؑ نے معاف کرنے کی ٹیڑھی شرط رکھ دی)تو جب عمر امیرالمومنین ؑ سے مایوس ہوگئے تو ان کے دل میں بدخیالی آئی(اور وہ جنت کے خواب دیکھنے لگے)انہوں نے امیرالمومنین ؑ کو اس جماعت میں قرار دیا جو دنیا کے بندے تھے اور خدا پر جسارت کرنےوالے تھے پھر ایسی کہ امیرالمومنین ؑ کی خلافت کے ہر راستے کو مسدود کردیا گیا اور کچھ ایسی تدبیر کی خلافت پھر عثمان ہی کے خاندان میں رہے اس خاندان میں جو حکومت کے لئےکچھ بھی کرسکتا تھا اور دنیا حاصل کرنے ے لئے کسی گناہ سے پرہیز نہیں کرتا تھا عمر کی تدبیر کا یہ منشا بھی یہی تھا کہ خلافت مولا علی ؑ اور آپ ک اہل بیت ؑ تک کبھی پہنچ ہی نہ سکے ۔

عمر نے یہ حرکت یا تو عثمان کی محبت میں کی تھی یا امیرالمومنین علیہ السلام کے اعراض کرنے کے لئے کہ ان کے دل میں آپ کی طرف سے بہت پرانا کینہ تھا یا اس لئے کہ آپ نے انہیں معاف نہیں کیا تھا یا اس لئے کہ وہ ڈ ر رہے تھے کہ حکومت اگر علی ؑ اور ان کے اہلبیت ؑ تک پہنچ گئی تو ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائےگی اور ان کی ناانصافی جو انہوں نے اہلبیت ؑ کے ساتھ کی تھی تا کہ حکومت ان تک نہ پہنچے تو ظاہر ہوجائےگی اور لوگ اہل بیت ؑ کی بات سننے لگیں گے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ روایت سچی ہو یا جھوٹی ایک بات تو سمجھ میں آرہی ہے کہ امیرالمومنین ؑ کو اہمیت دیکے خلافت کے معاملات سے خودبخود پردہ اٹھایا جارہا ہے اور یہ کہ لوگوں کے سامنے حکم الٰہی بالکل ظاہر تھا(اور سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مولا علی ؑ خلافت کے مستحق ہیں)اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں اور یہی باتیں امیرالمومنین ؑ کے لئے قوی تر مانع ہیں جو آپ کو اور اہل بیت ؑ کو غیروں کی خلافت کے اقرار سے روکتی ہیں اور خلیفہ غاصب کی شرعیت سے انکار کرتی ہیں کاش کہ انہیں اقرار کا حق ملا ہوتا ۔

۱۲۱

اسلام کی اعلی ظرفی اجازت نہیں دیتی کہ شریعت الٰہیہ کی پیروی قہر و غلبہ اور بزور کروائی جائے

ثانیاً ۔ اسلام کی اعلیٰ مزاجی اس کے پیغام کی بلندی اور مثالی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ شریع الٰہیہ کی پیروی قوت کے ذریعہ کرائی جائے اور نہ اس کی اجازت دیتی ہے کہ حقدار اپنا حق زبردستی حاصل کرے جب کہ شریعت اسلامی میں خلافت الٰہیہ کا مقام بہت بلند اور بےپناہ قدامت و عظمت کا حامل ہے بخصوص قہر و غلبہ اور زور و زبردستی کی بدولت اپنے حق پر تسلط،حسد و غیرہ کی طرح نفسانی خواہشات کی پیروی اور پسندیدہ صفات اخلاقی کے منافی ہے جس کا تذکرہ دوسرے سوال کے جواب میں بھی کچھ حد تک کیا جاچکا ہے ۔

(اسلام کے بارے میں تو کم از کم یہ بات نہیں کہی جاسکتی)البتہ اسلام ہی کے معاصر اس وقت عرب میں دودین تھے یہودی اور نصرانی،ان کے بیان کے مطابق شریعت مقدسہ کی پابندی قہر و غلبہ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور دینی مناصب قوت کے ذریعہ حاصل کرنا جائز ہے لیکن یہ جواز بھی ان خرافاتی قصّوں کی بنیاد پر تھا جنہیں دین میں تحریف و تاویل کرکے بنایا گیا تھا اور انھیں باتوں کو وہ دونوں قومیں دین سمجھتی تھیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ہی دین چونکہ آسمانی تھے اس لئے حقیقت میں ان فضول باتوں سے پاک تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دین اسلام جیسا عظیم دین جو تمام ادیان کا خاتم ہے اور اپنی تشریع میں مثالیت اور ہر کمال کا جامع ہےس کے اندر یہ غلط بات جائز ہوجائے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ طے ہوگیا کہ ائمہ اہل بیت ؑ ہی امامت کے حق دار ہیں اور ان کے حق پر خدا کی طرف سے نص ہے جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو پھر ان حضرات کی طرف سے دونوں خلیفہ کی خلافت کے اقرار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور شریعت کی جانب داری کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں باتیں نص الٰہی کے منافی ہیں اور دونوں ہی باتیں اسلامی شریعت کے تقدس اور اس کی اعلی ظرفی اور مثالی کردار کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔

۱۲۲

خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کے کاروبار کو چلانے کے لئے اپنا نائب بنائے

ہاں خلیفہ شرعی کو اس بات کا حق حاصل ہے یہ کہ وہ امت کے امور کی دیکھ ریکھ کے لئے خاص خاص شہروں میں یا خاص حالات کے تحت کسی کو اپنا نائب بنادے اسی طرح کہ یہ شخص اس کا نائب ہو اس کی زیرنگرانی ہو اور اس کا ماتحت ہو،لیکن خلیفہ وہی(مصوص من اللہ)رہےگا،یہ نیابت خلافت کا بدل ہرگز نہیں ہوگی کہ خلیفہ اس کے حق میں دست بردار ہوگیا ہو یا اس کو ہبہ کردیا ہو یا اس کے ہاتھوں خلافت کو بیج دیا ہو ۔

سب کو معلوم ہے کہ مذکورہ بالا معنی میں نیابت ان دونوں خلفا کو بہرحال حاصل نہیں تھی نہ کسی دوسرے خلیفہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی وہ لوگ تو بس خود ہی حکومت کے ولی بن بیٹھے تھے خود کو حاکم اور خلیفہ اور ائمہ اہل بیت ؑ کو اپنی رعایا اور محکوم سمجھتے تھے ۔

شیعہ اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردا رنہیں ہوئے

شیعوں کو اس بات کی کامل بصیرت ہے کہ ائمہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردار نہٰں ہوئے تھے بلکہ ان حضرات نے ہر دور میں اس بات کی شکایت کی ہے کہ ان کا حق غصب کرلیا گیا ہے اور ان پر ظلم کیا گیا ہے،ہر عہد میں وہ ظالموں کا انکار کرتے رہے،ان سے اظہار برائت کرتے رہے اور ان کی مخالفت میں بولتے رہے وہ لوگ اس اظہار برائت اور انکار کو دین واجب التُّمسُّک کا تتمّہ مانتے تھے اور نجات کو اس پر موقوف سمجھتے تھے اس بات کی تائید میں شیعوں نے اپنے اماموں سے بیشمار حدیثیں روایت کی ہیں جو استفاضہ کی حد اور تواتر کے مرتبے کو پہنچی ہوئی ہیں،نتیجے میں صورت

۱۲۳

حال یہ ہوگئی کہ یہ عقیدہ ان کے ضروریات دین میں شامل ہوگیا وہ اس میں نہ اختلاف کرتے ہیں نہ ہی اس عقیدے کو چھوڑنے پر تیار ہیں ۔

یہ دعویٰ کرنا کہ شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کہاںتک حقیقت پر مبنی ہے؟

ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ شیعہ اپنے اماموں کی طرف جھوٹے افعال کی نسبت دیتے ہیں اس معاملے میں شیعہ خطاکار ہیں اور اماموں پر بہتان باندھتے ہیں یہ دعویٰ خاص طور سے ان لوگوں کا ہے جو شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے اوپر بڑے بڑے گناہوں کی تہمت رکھتے ہیں لگتا ہے وہ لوگ دین اور حق کو پہچانتے ہی نہیں اور انہوں نے اپنے دینی عقیدے اور مسلک کی بنیاد محض افترا پردازی،گمراہی،بدعت اور خرافات پر رکھی ہے ۔

مذکورہ دعوی کی تردید اور شیعوں کی صداقت کے شواہد

حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ دعویٰ اس لئے ہے کہ شیعہ حق پر ہیں اور ان کی دلیلوں کی کوئی کاٹ دشمن کے پاس موجود نہیں ہے شیعوں نے اپنی دلیلوں کو ڈ ھال بناکے ان دشمنوں کی خُصومت برداشت کی اور ان کے تمام راستے بند کردیئے،مجبور ہو کے دشمنوں نے ہٹ دھرمی اور بہتان کا سہارا لیا تا کہ شیعوں کے لئے نفرت پیدا کرسکیں اور اتنی نفرت پیدا کردیں کہ ان کا دعویٰ اور ان کی دلیلوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دے ورنہ اگر ذوق جستجو رکھنےوالا انسان اپنے مسلمات و جذبات سے الگ ہو کے از نگاہ انصاف دیکھے اور دلائل و شواہد کا مطالعہ کرے تو شیعوں کی صداقت اس پر مشکوک نہیں رہےگی وہ سمجھ لےگا کہ شیعوں نے اپنے

۱۲۴

اماموں کی طرف کوئی جھوٹ نہیں منسوب کیا ہے اس لئے کہ شیعہ اماموں سے بہت محبت رکھتے ہیں بڑی عقیدت رکھتے ہیں ان کی سیرت کو مقام استدلال میں پیش کرتے ہیں اور ان کی سیرت سے سبق لےکے اسی پر زندگی گذراتے ہیں ۔

جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ شیعہ انھیں عقیدوں کی وجہ سے ہمیشہ بلاؤں کا سامنا کرتے رہے

1 ۔ اگر یہ باتیں ان کے اماموں سے صادر نہیں ہوتیں تو شیعہ ان باتوں کو محض افترا کے طور پر ان کی طرف منسوب نہیں کرتے،نہ انھیں دین سمجھ کے مانتے،نہ ان پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے اس لئے کہ محض جھوٹ اور افترا کے لئے بلائیں جھیلنے اور مصیبتیں اٹھانے پر کوئی تیار نہیں ہوتا ہے،شیعہ صرف انہیں عقائد کی وجہ سے شروع ہی سے دنیا بھر کی سختیاں جھیلتے رہے اور مصیبتیں اٹھاتے رہے ہیں ۔

پھر یہ سوچیئے کہ عقائد اور معلومات میں غلطی کب ہوتی ہے جب انسان مرکز سے دور ہو مثلاً انبیائے کرام ؐ کے بارے میں یا ان کی تعلیمات کے بارے میں غلطی کا امکان اس لئے ہے کہ انبیاء ؐ اور امت کے درمیان ہزاروں صدیوں کے پردے حائل ہیں صاحب دعوت اور مبشرین اور ان کی سیرت کے ناقلین کے درمیان ایک بُعد زمانی پایا جاتا ہے،لیکن شیعہ اور سنیوں کے اماموں کے درمیان اس بُعد زمانی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ یہ عقائد تو شیعوں کے یہاں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے دور ہی میں جانے پہچانے جاچکے تھے جیسا کہ ابھی پیش کئے جائیں گے ان عقیدوں کی مزید وضاحت شہادت حسین ؑ کے بعد ہوگئی اس لئے کہ ہمارے اماموں نے یہ سمجھ لیا کہ ابھی ہمیں سلطنت کا مطالبہ نہیں کرنا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت ہمیں نہیں ملنےوالی ہے تو آپ حضرات نے شیعہ ثقافت کی تہذیب و تربیت پر بھرپور توجہ دی اور اپنے علوم و معارف کو شیعوں کے درمیان پھیلانا شروع کیا تا کہ شیعوں کا ایک ماحول اور شیعہ طرز زندگی کا ایک خاکہ لوگوں کے سامنے آجائے شیعہ عقائد

۱۲۵

ایسے دور میں سامنے آرہے تھے جس وقت شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ رہ رہے تھے انہیں یکے بعد دیگر اپنے ائمہ ؑ سے دوسو سال تک اختصاص حاصل رہا بلکہ غیبت صغریٰ کے زمانے کو بھی اس سے ملا لیا جائے تو یہ مدت اور بڑھ جاتی ہے جس میں شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ وقت گذارتے رہے اور بلاواسطہ ان سے مستفید ہوت رہے پھر ملاوٹ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،میں نے غیبت صغریٰ سے نواب اربعہ کے توسط سے بہرحال لگاؤ بنا ہوا تھا دوسوستر( 270) سال تک شیعہ اپنے اماموں سے ملتے جلتے رہے پھر ممکن نہیں ہے کہ ہر امام کی کوئی رائے یا کوئی نظریہ ان کے شیعوں سے پوشیدہ رہا یا کوئی اختلاف پیدا ہوا ہو ۔

اگر شیعہ مفتری ہوتے تو ان کے امام ان سے الگ ہوجاتے

اگر شیعوں کے پاس ان کے معصوم اماموں کا بنایا ہوا مذہب نہ ہوتا بلکہ ان کا خود ساختہ مذہب ہوتا تو اماموں پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کا انکار کردیتے اور اگر شیعہ اپنے افترا اور بہتان پر اصرار کررہے ہوتے تو معصوم امام پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کو چھوڑ دیتے انھیں خود سے دور کردیتے ان سے الگ ہوجاتے اور ان کے ساتھ مل جل کے ہرگز نہ رہتے جب کہ غلط کاروں کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی سلوک کیا،مثلاً امیرالمومنین علیہ السلام نے انھیں چھوڑ دیا جو آپ کی ذات میں غلو کرتے تھے،امام صادق علیہ السلام ابوالخطاب اور اس کی جماعت سے الگ ہوگئے بعد کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے بھی ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جو اماموں کے طریقوں سے الگ ہو کے اپنا راستہ بنارہے تھے اور معصوموں کی ذات کو ملوث کررہے تھے لیکن شیعوں کے ساتھ ان حضرات کا لگاؤ ہمیشہ بنارہا،آپ حضرات اپنے شیعوں کے ماحول میں پائے جاتے تھے شیعہ فرقہ ان سے طاقت حاصل کرتا رہا،ان کی محبت شیعوں کی پہیچان بن گئی،شیعہ انھیں کی طرف متوجہ رہے،ان کی خوشی میں خوش اور ان کے غم سے رنجیدہ،ان کی سیرت کے جویا اور ان کے طرز زندگی سے واقف ہونے کے لئے کوشاں،ان کے فقہ

۱۲۶

احادیث اور تعلیمات پر عمل پیراں رہے اور ان گرانقدر چیزوں کے اپنے مکتوبات اور کتابوں میں محافظ رہے،ان کی حدیث اور سیرت کا تذکرہ اپنی مجلسوں میں کرتے رہے،انہیں پر بھروسہ کرتے رہے اور ان کو اپنے لئے عزت کا سبب سمجھتے رہے بلکہ انھیں آثار و معالم کے ذریعہ دشمن پہ حملہ کرتے رہے۔

دنیا کا طریقہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے امام کی رائے اور خیالات کا علم اس امام کے اصحاب کے واسطے سے اور اس کے خاص لوگوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے پھر ائمہ اہل بیتؑ کے مذہب کا علم ان حضرات کے شیعوں کے واسطے سے کیوں نہیں ہوگا؟جب کہ یہ شیعہ ان حضرات کے آس پاس ہمیشہ موجود رہے،ان کے مخصوص افراد بنتے رہے اور ان کے افعال میں مدد کرتے رہے،یہ سلسلہ طویل مدت تک چلتا رہا اور سب کے سامنے یہ عمل ہوتا رہا جب کہ اس دور کے رئیسوں اور بادشاہوں سے شیعہ اتنے قریب نہیں تھے جتنا اپنے اماموں سے تھے۔

ائمہ اہل بیتؑ کی میراث کا تحفظ شیعوں ہی نے کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شیعہ ان حضرات سے مخصوص تھے

اس کے باوجود اگر کوئی ہٹ دھرم اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شیعہ اہل بیت ؑ کے اماموں سے مخصوص نہیں تھے اور ان سے مذہبی معاملات میں ہدایتیں نہیں لیتے تھے اور یہ کہ شیعوں نے اہل بیت ؑ سے جھوٹی حدیثیں منسوب کی ہیں تو میں اس سے کہوں گا کہ پھر ان دعاؤں(1) اور زیارتوں(2) کا کیا کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)جیسے دعائے کمیل،صباح،عشرات،نیز وہ دعائیں جو حضرت امیرالمومنینؑ سے مروی ہیں اور عرفہ کے دن امام حسینؑ کی دعا،صحیفہ سجادیہ کی دعائیں،دعائے افتتاح،ابوحمزہ ثمالی جو رمضان میں پڑھی جاتی ہے نیز باقی ماہ رمضان کے روز و شب اور سحر کی دعائیں اور رجب و شعبان کی دعائیں،شب جمعہ کی دعائیں نیز اس کے علاوہ بےشمار دعائیں،مضامین عالیہ جو اللہ کی تمجید سے متعلق ہے اور اس کی تقدیس اور ثناء سے متعلق ہے۔

(2)جیسے حضرت امیرالمومنینؑ کی زیارت جو(امین اللہ)کے نام سے معروف ہے اور آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں،زیارت وارثہ،نصب شعبان کی شب میں امام حسینؑ کے لئے نیز آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں تمام ائمہؑ کے لئے زیارت جامعہ کبیرہ اور باقی معصومینؑ کی زیارتیں جو بلند و بالا مضامین کا دفتر ہے۔

۱۲۷

گے جو صرف شیعوں کے پاس ہیں اور ان کے اماموں سے مروی ہیں دعاؤں اور زیارتوں کی ایک بڑی مقدار ہے جو مختلف مواقع پر مختلف الفاظ میں ائمہ اہل بیت ؑ سے وارد ہوئی ہے وہ دعائیں اور زیارتیں حکمت،موعظہ،خطابت اور دوسرے مضامین عالیہ پر مشتمل ہیں جن کو پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ہیں جو ائمہ اہل بیت ؑ کو حاصل تھیں اور علم الٰہی کے یہ خزانے صرف شیعوں کے پاس ہیں جو شیعوں کو دوسرے فرقوں سے ممتاز کرتے ہیں اس لئے کہ ان دعاؤں اور زیارتوں کی زبان اور ان کے مضامین پکار پکار کے کہہ رہے ہیں کہ یہ مضامین صرف وہی وارد کرسکتا ہے جس کو ادھر سے علم ملا ہے اور یہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ نگاہ انصاف سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے شیعوں کو جو دعائیں ودیعت کیں یا جو زیارتیں وارد فرمائیں اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ شیعہ ان سے مخصوص تھے شیعوں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دینا ضروری سمجھا اور شیعہ ان کی رضا کے طالب اور ان کے پسندیدہ افراد تھے ۔

ورنہ یہ دعائیں اور زیارتیں سینوں کے پاس کیوں نہیں ہیں؟انہوں نے کیوں نہیں نقل کیا یا اگر نقل کیا تھا تو کیوں نہیں حفاظت سے رکھا اور اس کےحق کی رعایت کیوں نہیں کی؟(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)ہمعصر دینی مرجع سید شہاب الدین مرعشیؒ صحیفہ سجادیہ کے مقدمہ میں اپنی استدراک جو1361سنہ میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے اور ہم1353سنہگذار رہے ہیں میں نے اس کا ایک نسخہ علامہ معاصر شیخ جوہری طنطاوی کی خدمت میں ارسال کیا جو صاحب التفسیر بھی ہیں جس کی شہرت مفتی اسکندریہ کے نام سے ہوئی ہے تا کہ وہ مطالعہ کریں پھر انھوں نے صحیفہ پہنچنے کی قاہرہ سے مجھے اطلاع دی اور میرا اس گرانقدر ہدیہ پر شکریہ ادا کیا اور اس کی مدح و ثنا میں رطب اللسان ہوگئے یہاں تک کہ آپ نے کہا:اس وقت ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم اس اثر جاوید تک رسائی نہیں رکھتے جو نبوت اور اہل بیتؑ کی میراث کا ایک جزء ہے اور میں نے جتنا غور و خوض کیا اسے مخلوق کے کلام سے بالا اور خالق کے کلام کے بعد ہی پایا،پھر مجھے سے اس کے بارے میں سوال کیا کہ آیا علماء اسلام میں سے کسی نے اس کی شرح کی ہے پھر میں نے شارحین کے اسماء درج کئے جسے میں بھی جانتا تھا پھر میں نے ریاض السالکین سید علی خان کی خدمت پیش کیا تو انھوں نے بھی اس کے پہنچنے کی خبر دی،اور لکھا کہ میں عزم مصمم رکھتا ہوں کہ اس گرانقدر صحیفہ کی شرح کروں،اگر شیخ جوہری طنطاوی اپنی کثیر معلومات اور کثیر اطلاع کے باوجود اس صحیفہ سجادیہ سے بےخبر رہے جب کہ اس کی شہرت اور اس کا چرچا،مکتب خیال کے الگ ہونے کے باوجود شیعوں کے درمیان تھی تو پھر جو کم اطلاع رکھتے ہیں ان کے لئے کیسے ممکن ہے پھر ان کا کیا حال ہوگا جو صحیفہ سجادیہ سے کم رتبہ اور اہمیت کتاب رکھتے ہوں گے۔

۱۲۸

یہ بات ماننی پڑےگی کہ جس طرح قرآن مجید صداقت نبوت کی گواہی دیتا ہے اسی طرح یہ اور وضائف اس بات کی گوہی دیتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ؑ کو یہ نبی ؐ کی طرف سے میراث میں ملے ہیں اور شیعوں کو یہ علم ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف سے درحقیقت نبی ؐ کی ہدایت سے ملا ہے ۔ ائمہ اہل بیت ؑ کی واردہ کردہ دعاؤں اور زیارتوں کو دیکھئے پھر غور کیجئے کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی عظیم المرتبہ دعائیں اور اتنی معنی خیز زیارتیں شیعہ یا کوئی انسان اپنی طرف سے بنالے اور پھر اس کو اہل بیت ؑ کی طرف منسوب کردے،عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً ان دعاؤں کا صدور ائمہ اہل بیت ؑ کے علاوہ کسی سے بھی ناممکن ہے اس لئے کہ اہل بیت ؑ نبی کریم ؐ کے وارث ہیں اور انھوں نے سرکار سے علم لیا ہے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اطہار گفتگو کے بادشاہ تھے(1) اور انہیں کے پاس حکمت اور فصل خطاب تھا ۔(2) ایک طرف تو یہ علمی ذخیرہ شیعوں کی صداقت کا گواہ ہے اس لئے کہ شیعہ اس خزانے کے تنہا وارث ہیں اس خزانے کی معرفت شیعوں کو ہے اور اسی خزانے کی وجہ سے وہ عالم اسلام میں قابل عزت ہیں دوسری طرف یہ علمی خزانہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ شیعوں اپنے اماموں کی طرف جو نسبت دی ہے وہ سب کی سب صحیح ہے اور شیعہ اپنے اماموں سے مخصوص ہیں ان کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں،ان کے علوم و معارف کے حامل ہیں اور اماموں کی خاص عنایت کے مستحق ہیں شیعوں کو ان کے اماموں نے اپنے مقدس مبارک اور شریف علوم سے فیضیاب کیا ہے ۔

شیعوں کے کردار میں اماموں کے اخلاق کی جھلک

خیال وہ ہے جو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں امیرالمومنینؑ کی سوانح حیات میں لکھا ہے،وہ لکھتے ہیں جہاں تک وسعت اخلاق خندہ پیشانی،زندہ دلی،اور تبسم کا سوال ہے تو مولائے کائنات کی ان صفات میں مثال دی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ کے دشمن ان صفات حسنہ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:266 (2)بحارالانوارج:9ص:209،ج:28ص:53

۱۲۹

عیب کہہ کے پیش کرتے تھے،عمروعاص نے اہل شما سے کہا علی ؑ بہت زیادہ پر مذاق آدمی ہیں(ہنسنے ہنسانےوالا)حلانکہ عمروعاص کا یہ جملہ بھی اس کا نہیں ہے بلکہ اس کا نہیں ہے بلکہ اس نے یہ جملہ عمر بن خطاب سے لیا ہے،جب عمر نے مولا علی ؑ کو خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ خدا تمہارے باپ کو بخشے اگر تم پر مذاق نہ ہوتے تو عمر تم ہی پر اقتصار کرتا عمروعاص نے اس میں کچھ اضافہ کیا ہے اور مقام مذمت میں وارد کیا ہے صعصعہ ابن صوحان اور آپ کے دوسرے شیعہ اور اصحاب آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ ؑ ہمارے درمیان ہم ہی جیسے بن کے رہتے تھے،نرم دل منکسر مزاج اور سہل القیادۃ تھے،پھر بھی ہم پر آپ کی ہیبت اس طرح طاری رہتی تھی جیسے ایک قطار میں بندھے ہوئے قیدیوں پر ان کے سامنے کوئی تلوار لےکے کھڑا ہو ۔

یہ اخلاق حسنہ آپ کے اولیا اور آپ کے چاہنےوالوں میں میراث کے طور پر منتقل ہوئے اور اب تک ان کے اندر باقی ہیں جس طرح آپ کے دشمنوں کو جفا بدروی اور بداخلاقی ان کے بزرگوں سے میراث میں ملی ہے اور اب تک باقی ہے جو اخلاقیات میں سطحی نظر بھی رکھتا ہے وہ اس فرق کو ضرر محسوس کرلےگا ۔(1)

ظاہر ہے کہ جب ائمہ اہل بیت ؑ کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ اپنے شیعوں کو اپنے اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈ ھال سکتے تھے اور ان کے اندر اپنے اخلاق عالیہ کو منتقل کرسکتے تھے جیسے نرم دلی،وسعت اخلاق و غیرہ تو پھر ان کے اندر یہ صلاحیت بھی ماننی پڑےگی کہ وہ شیعوں کو امامت و خلافت کے بارے میں اپنے مذہب سے باخبر رکھتے اور انہیں حکم دیتے کہ وہ امامت کے معاملے میں ان کے مذہب کی پیروی کریں اور چونکہ شیعہ ذاتی طور پر ان حضرات سے متاثر تھے اور اخلاق میں ان کے نقش قدم پر چلتے تھے تو وہ بہرحال عقیدہ امامت و خلافت میں بھی ان کی پیروی کرتے تھے اور ان کے مزہب سے الگ نہیں تھے اس لئے کہ یہ تو ایک علمی مسئلہ تھا اور اس کا جان لینا اور مان لینا تو اخلاق و سیرت کی عملی پیروی سے زیادہ آسان ہے شیعہ ایک زمانے سے سنی بھائیوں کی بےرحمی ظلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:25۔26،علیؑ کے ایک قول اور ان کے فضائل کا ذکر۔

۱۳۰

اور زیادتی جھیلتے چلے آرہے ہیں اس کے باوجود ان کے اندر اخلاقی وسعت طبیعت کی نرمی اور خوش خلقی پائی جاتی ہے ورنہ حالات کا تو تقاضا یہ تھا کہ وہ سنیوں کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ان کی طرف سے دل میں کینہ رکھتے اور ان سے بداخلاقی سے پیش آتے یہ صرف ائمہ اہل بیت ؑ کی سیرت کا اثر ہے کہ شیعہ دشمنی کینہ اور حسد جھیل رہے ہیں لیکن اپنے اماموں کی سیرت چھوڑنے پر تیار نہیں ۔

اہل سنت کی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے کنارہ کشی

حالات کا نگاہ انصاف سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلےگا کہ جمہور اہل سنت نے اپنے عقائد و ثقافت میں ائمہ اہل بیت ؑ سے کچھ نہیں لیا ہے اور ہمیشہ ان حضرات کو معزول سمجھا ہے،ہر دور میں سنی سماج چاہے عوام ہوں یا خواص،چاہے فقہا ہوں یا روات،سب کے سب اہل بیت سے ہمیشہ الگ رہے خاص طور سے متاخر،ائمہ ؑ کو سنیوں نے بالکل ہی نظرانداز کردیا جن کے دور میں شیعہ امامیہ کے عقائد اور معالم نکھر کر سامنے آئے اور شیعوں کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت ملی حالانکہ سنی حضرات اس تاریخی حقیقت سے انکار کی کوشش کرتے بہرحال اہل بیت ؑ کا احترام تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ انکار قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اصول دین میں یہ لوگ اشاعرہ،ماتریدی اور معتزلی فرقہ کی پیروی کرتے ہیں،جب کہ فروع میں مذہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے عقائد و فقہ میں سے کسی بات کو ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف منسوب نہیں کرتے حلانکہ اہل بیت ؑ کی طرف سے فقہ و اصول اور اقوال جو بھی وارد ہوئے ہیں ان میں سے اکثر مذکورہ بالا فرقوں کے نظریہ سے بالکل ہی الگ ہیں ائمہ اہل بیت ؑ کی باتوں پر صرف ائمہ اہل بیت ؑ کے شیعہ عامل ہیں،سنی ان کو سرے سے نہیں مانتے ۔

شیعیان اہل بیت ع اور دشمنان اہل بیت ع کے بارے میں سنیوں کا نظریہ

جمہور اہل سنت کے ان لوگوں سے خوب دوستی کرتے ہیں جنہوں نے اہل بیت ع سے جنگ کی یا ان کو برا بھلا کہا ایسے افراد کا یہ لوگ بہت احترام کرتے ہیں ، ان کی غلط حرکتوں سے تجاہل برتتے ہوئے انہیں کی

۱۳۱

روایتوں سے احتجاج کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غلطیوں کی یا تو توجیہ کریں یا ان کی صفائی پیش کرکے ان کی طرف سے معذرت کرلیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اہل بیت ؑ کے شیعہ ایسے لوگوں سے ہمیشہ الگ رہے اور شروع ہی سے ان کی سخت مخالفت کی اور کڑا رویہ اپنایا(لیکن دشمنان اہل بیت ؑ کی حمایت)یہ حضرات صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کبھی اہل بیت ؑ کی پیروی نہیں کی ان سے کوئی سروکار نہیں رکھا اور اہل بیت ؑ کے نقش قدم پر اس طرح نہیں چلے جس طرح وہ اوّلین یعنی عمر،ابوبکر کے نقش قدم پر چلتے آئے اور انہوں نے اہل بیت ؑ سے ویسی محبت بھی کبھی نہیں کی جیسی ان دونوں سے وہ محبت کرتے رہے ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو اہل سنت کے خواص و عوام کے دل میں اہل بیت ؑ کی طرف سے جو کینہ ہے وہ ان کی تحریروں میں ظاہر بھی ہوگیا ہے،افسوس کی بات یہ ہے کہ جوش و جذبہ کے عالم میں انہوں نے اپنے دل کے حالات کھول کے بیان کردئے اور چھپانے کی کوشش کی مگر چھپا نہیں سکے ۔

ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں علما اہل سنت کے کچھ نظریے

1 ۔ علامہ ذہبی سُنّی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں،ابوجعفر محمد بن علی امام بھی تھے اور مجتہد بھی یعنی کتاب خدا کی تلاوت کرنےوالے،شان میں بڑے تھے،لیکن علم قرآن میں ان کا درجہ ابن کثیر اور ان کے جیسے علما تک نہیں پہنچتا تھا،فقہ میں وہ ابوزنا اور ربیعہ سے کم تھے اور سنت نبوی کی معرفت اور اس کا تحفظ ابن شہاب اور قتادہ سے کم درجہ پر تھا ۔(1)

افسوس!ذرا دنیا کی زبوں حالی اور پستی دیکھئے یہ لوگ کس سے مقابلہ کررہے ہیں حد ہوگئی کہ ایسے(نچلے طبقے کے)لوگ محمد باقر علیہ السلام سے افضل بتائے جارہے ہیں حالانکہ امام محمد باقر ؑ کے لئے آپ کے جد کی سیرت میں نمونہ عمل ہے امیرالمومنین ؑ فرمایا کرتے تھے کہ((میری ذات اوّل ہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سیرہ اعلام النبلاءج:4ص:402ترجمہ ابی جعفر باقر

۱۳۲

کے مقابلے میں مقام شک میں کب تھی کہ مجھے ایسے لوگوں کا مقارن بنایا جارہا ہے ۔(1)

2 ۔ اور سنیوں کے امام الحدیث بخاری،انہوں نے کبھی امام جعفر صادق علیہ السلام کی کسی حدیث سے احتجاج نہیں کیا اپنی صحیح میں آپ سے کوئی روایت بھی نہیں لی(2) حالانکہ مروان بن حکم(3) ( ملعون پیغمبر ؐ )اور عمران بن حطان(4) خارجی(جس نے مولیٰ امیرالمومنین علی ؑ کے قاتل ابن مجلم کی بڑی تعریف کی ہے اور ابن ملجم کو متقی پرہیزگار اور عنداللہ ماجور قرار دیا ہے)تک سے روایتیں لی ہیں ۔

امام بخاری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن اسود نے ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ:اگر جعفر ابن محمد کا معاملہ یہ ہے کہ اگر تم ان سے معافی مانگوگے تو وہ کوئی ہرج نہیں محسوس کریں گےاور اگر تم ان پر محمول کروگے تو وہ خود پر محمول کرلیں گے ۔(5)

3 ۔ یحییٰ بن سعید کہتا ہے کہ جعفر ابن محمد نے مجھے ایک لمبی حدیث لکھوائی وہ حدیث حج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:35

(2)تذکرۃ الحفاظ،ج:1ص:167،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،سیر اعلام النبلاءج:6ص:269

میزان الاعتدال،ج:2ص:144،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،المگنی فی الضعفاء،ص:134،تہذیب التہذیب ج:2ص:90امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں۔

(3)صحیح بخاری ج:1ص:265،کتاب صفۃ الصلاۃ،باب مغرب میں قرات کا بیان ج:2ص:567،کتاب الحج،حج تمتع افراد قرآن اور نسخ حج کے بیان میں اگر قربانی ہمراہ نہ ہو،ج:2ص:810،کتاب الوکالۃ باب اگر وکیل کو کوئی چیز ہبہ کردے یا قوم کے شفیع کو تو نبیؐ کے بقول جائز ہے جو آپ نے ہوازن گروہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ انھوں غنیمتوں کے بارے میں سوال کیا تھا اس پر رسولؐ نے کہا میرا حصہ تمہارے لئے ہےج:3ص:1042،کتاب الجہاد و السیر،ج:3ص:1362،کتاب فضائل الصحابۃ،ج:4ص:1532،کتاب المغازی،غزوہ حدیبیہ کے باب میں ج:4ص:1677،کتاب التفسیر باب جنگ میں جانےوالوں راہ خدا میں جہاد کرنےوالوں کے برابر نہیں ہیں ج:5ص:2039،کتاب طلاق

(4)صحیح بخاری ج:5ص:کتاب اللباس ص:2194،ریشمی لباس کے باب ص:2220،باب نقص صور

(5)تاریخ کبیرج:2ص:198حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

۱۳۳

کے بارے میں تھی لیکن ان کی لکھوائی ہوئی حدیث کے خلاف میرے دل میں پھانس ہے میرے نزدیک مجالدان سے زیادہ پیارا ہے ۔(1)

4 ۔ ابوحاتم محمد بن حبان تمیمی نے امام صادق علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کا ان روایتوں سے احتجاج کیا جاسکتا ہے جو ان کی اولاد کے علاوہ لوگوں نے نقل کی ہیں،اس لئے کہ ان کی اولاد سے جو حدیثیں آئی ہیں ان میں تو بہت سے مناکیر(قابل انکار)باتیں ہیں،ہمارے اماموں میں سے جن لگوں نے ان کی اولاد کی حدیث دیکھی ہے وہی لوگ ان کے اقوال کو کمزور بتاتے ہیں(2)

حالانکہ آپ کی اولاد مسلمانوں میں سادات کا درجہ رکھتی ہے اور انہیں اولاد میں ائمہ اہل بیت ؑ بھی ہیں ۔

5 ۔ مصعب بن عبداللہ زبیری کہتے ہیں کہ مالک ابن انس جعفر بن محمد ؑ سے روایت لیتے تو تھے لیکن جب بلند مرتبہ راویوں کی حدیثیں لکھ لیتے تھے تو سب سے آخر میں امام جعفر صادق ؑ حدیث رکھتے تھے ۔(4)

6 ۔ احمد بن حنبل سے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے ان سے یحییٰ نے روایت کی ہے لیکن انہیں کمزور بتایا ہے ۔(5)

7 ۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں،امام صادق علیہ السلام قابل اعتبار تھے،صاحب عقل تھے صاحب حکمت،بڑے پرہیزگار اور فاضل تھے،جعفری فقہ انھیں کی طرف منسوب ہے اور شیعہ امامیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2)سیر اعلام النبلاءج:6ص:256،جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الکامل فی ضعفاءالرجال،ج:2ص:131۔132۔133،جعفر بن محمد صادقؑ کی سوانح حیات میں،اور کتاب نصب الرایۃ،ج:2ص:413،اور تہذیب التہذیب ج:2ص:88،

(4)تھذیب الکمال ج:5ص:76،حالات جعفر بن محمد الصادق،الکامل فی ضعفاءالرجال ج:2ص:131،حالات جعفر بن محمد الصادقؑ۔

(5)العلل و معرفۃ الرجال ص:52بحرم الدم ص:97

۱۳۴

انھیں کی فقہ پر عمل کرتے ہیں،لیکن شیعوں نے ان کے بارے میں بہت سے جھوٹ منسوب کر رکھے ہیں مجھے تو یاد نہیں ہے ابن عینیہ نے کہا ہے ان جھوٹی باتوں میں سے اس کے پاس کچھ محفوظ ہیں۔(1)

8۔ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صادقؑ کے بارے میں سعد نے کہا ہے کہ آپ کثیرالحدیث تو ہیں لیکن آپ کی روایتوں سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ وہ ضعیف راوی ہیں،ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا آپ نے یہ حدیثیں اپنے والد سے لی ہیں تو بولے ہاں پھر دوسری بار پوچھا گیا تو کہنے لگے میں نے اپنے والد کے مخطوطات میں دیکھا ہے۔(2)

9۔ابوحاتم نے حضرت امام ابوالحسن علی رضا علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے واجب ہے کہ ان کی حدیثوں کا اعتبار کیا جائے لیکن صرف ان حدیثوں کا جن کو ان کی اولاد یا ان کے شیعوں نے روایت نہیں کیا ہو،خاص طور سے ابوصلت نے۔(3)

حالانکہ امام رضا علیہ السلام کے صرف ایک ہی بیٹے تھے یعنی ابوجعفر محمد الجوادؑ۔

ابوحاتم کہتا ہے کہ ان کے صاحبزادے ان کے حوالے سے عجیب و غریب روایتیں بیان کرتے تھے اباصلت و غیرہ بھی عجائب کے راوی تھے لگتا ہے ان کو وہم ہوتا تھا یا غلطی کرتے تھے(4)

10۔ابن طاہر کہتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام اپنے آبا و اجداد کے حوالے سے عجائب بیان کیا کرتے تھے۔(5)

11۔نباتی نے امام رضا علیہ السلام کی طرف منسوب حدیث کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)التمھید،ابن عبدالبرج ج:2ص:66،حالات جعفر بن محمد بن علیؑ،

(2)تھذیب التہذیب ج:2ص:88حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

(3)الثقات ج:8ص:456حالات علی بن موسی رضاؑ

(4)المجروحین ج:2ص:106حالات علی بن موسی الرضاؑ،تھذیب التھذیب ج:7ص:339حالات علی بن موسی الرضا،سیرہ اعلام نبلاءج:9ص:389حالات علی الرضاؑ

(5)المغنی فی الضعفاء،ج:2ص:456،میزان الاعتدال ج:5ص:192حالات علی بن موسی الرضاؑ

۱۳۵

کہ جو ایسی حدیثوں کی روایت کرتا ہے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے اور ان سے بچا جائے۔(1)

12۔اور ابن خلدون نے بہت سخت باتیں لکھی ہیں،لکھتا ہے کہ اہل بیت کا مذہب بالکل اکیلا ہے جس کو انہوں نے بدعۃً ایجاد کیا ہے،ان کی فقہ منفرد ہے،ان کے مذہب کی بنیاد قدح صحابہ اور اپنے اماموں کی عصمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اماموں میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ سارے اصول بالکل واہیات ہیں اس طرح کی شاذ باتیں خوارج بھی کیا کرتے ہیں،ہمارے علما جمہور کا اس مذہب اور ایسے عقائد میں کوئی رول نہیں ہے بلکہ ہمارے علما نے ان عقائد سے شدت سے انکار کیا ہے اور بڑے پیمانے پر مخالفت کی ہے ہم ان کے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ ان سے کوئی روایت لیتے ہیں اسلامی ملکوں میں ان کے آثار بھی نہین پائے جاتے مگر ان کے وطن میں ملتے ہیں،شیعہ کتابیں ان کے ہی شہروں میں ملیں گی جہاں ان کو حکومت چل رہی ہے۔(2)

مذکورہ بالا بیان ابن خلدون کے قلم سے اگر چہ اہل بیتؑ کی دشمنی اور ان کے بغض میں ڈوب کے نکلا ہے بلکہ خود حضرت نبیؐ کی دشمنی میں ڈوبا ہوا ہے اس لئے کہ آپؐ نے ہی اہلبیتؑ کو اپنی امت کا مرجع قرار دیا تھا جو انہیں گمراہی اور ہلاکت سے بچانے کے ذمہ دار تھے لیکن ایک بات اس بیان سے بہرحال صاف ہوگئی وہ یہ کہ علما جمہور بلکہ جمہور اہل سنت کو اہل بیتؑ سے کوئی مطلب نہیں ہے یہ لوگ اہل بیتؑ سے ہمیشہ کنارہ کشی کرتے رہے۔

مذکورہ بالا بیان اس بات کی بھی شہادت دیتا ہے کہ شیعہ ہمیشہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے رہے انہیں اپنا امام سمجھتے رہے اور ان کی پیروی کرتے رہے جب کہ سنی ان پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ لوگ خواہ مخواہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے ہیں اور جھوٹ باتیں منسوب کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تہذیب التہذیب ج:7ص:339،حالات علی بن موسی الرضّا

(2)مقدمہ ابن خلدون ج:1ص:446ساتویں فصل،علم فقہ اور اس کی اتباع و فرائض

۱۳۶

کاش میں سمجھ سکتا کہ جب یہ بڑے بڑے علما اہل بیتؑ کے لوگوں کو علم میں کمتر،حدیث میں ضعیف اور شاذ و غیرہ بتارہے ہیں تو وہ کون سے اہل بیتؑ تھے جنھیں نبیؐ نے(حدیث عترت و اہل بیت میں)گمراہی سے بچنے کا ذریعہ اور ہلاکت سے نجات کا وسیلہ بتایا تھا۔(1)

کسی بھی صاحب عقل کے لئے میرا یہ سوال قابل غور ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس سوال کے جواب سے انسان اطمینان بخش نتیجہ تک پہنچ سکے اور خدا کے سامنے عذر پیش کرنے کے لائق بن سکے اس دن جب وہ خدا کے سامنے کھڑا ہوگا،((یوم لا یغنی مولی عن مولی شیئاً ولا ہم ینصرون))(2)

ترجمہ آیت:((جس دن کوئی بھی دوست اپنے دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکےگا اور نہ ان کی مدد کی جائےگی))۔

ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں عام سنیوں کے کچھ نظریئے

عام اہل سنت بھی اہل بیتؑ کے بارے میں اپنے علما کی پیروی کرتے ہیں کبھی اپنے علما کا دفاع بھی کرتے ہیں اور کبھی عجیب و غریب انداز میں صفائیاں پیش کرتے ہیں لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے یعنی جب اہل بیتؑ کا معاملہ آتا ہے تو وہ بالکل الگ ہوجاتے ہیں اور شدت سے اہل بیتؑ سے کنارہ کشی کرتے ہیں،تاریخ کے واقعات اور مسلمان ملکوں کے حالات میرے مذکورہ بالا بیان پر شاہد ہیں۔

میں نمونے کے طور پر کچھ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

1۔ابن اثیر363سنہکے بغداد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ابوتغلب بغداد کا کوتوال تھا کہ سرکشی کرنےوالے اور شرپسند عناصر نے بغداد کے مغربی علاقے میں فساد برپا کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)جیسا کہ حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ و غیرہ میں آیا ہے

(2)سورہ دخان آیت:41

۱۳۷

سنی شیعہ فساد شہر میں بہت تیزی سے پھوٹ پڑا،سوق طعام کے کچھ اہل سنت نے ایک عورت کو ناقہ پر بٹھا دیا اور اس کا نام عائشہ رکھا خود ان کے مردوں میں کسی کا نام طلحہ اور کسی کا نام زبیر رکھا گیا اور پھر دوسرے فرقے سے انہوں نے قتال شروع کیا اور کہنے لگے ہم علی بن ابی طالبؑ سے لڑرہے ہیں اسی طرح کی شرانگیز باتیں کرنے لگے۔(1)

ابن کثیر لکھتا ہے کہ عاشور کے دن بغداد میں رافضیوں کی طرح بہت سی شنیع(غلیظ)بدعتوں پر عمل کیا گیا اہل سنت اور رافضیوں کے درمیان ایک بڑا فتنہ ہوا دونوں ہی عقل سے کورے یا کم عقل تھے ان پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا فتنہ یہ تھا کہ اہل سنت نے ایک عورت کو اونٹ پر بٹھایا اور اس کا نام عائشہ رکھا مردوں میں کسی نے اپنا نام طلحہ رکھا تو کسی نے زبیر اور کہنے لگے ہم علیؑ کیا صحاب سے جنگ کررہے ہیں نتیجہ میں بغداد کی گلیوں میں بہت خون بہا اور دونوں فرقوں میں سے بہت سے لوگ مارے گئے۔(2)

2۔جب جمہور اہل سنت نے دیکھا کہ وہ عزائے حسینؑ کو روکنے سے عاجز ہیں اور شیعوں کو حسین شہید پر ماتم کرنے سے نیہں روکا جاسکتا نہ آپ کی زیارت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے تو انہوں نے غم حسینؑ کی ضد میں ایسے طریقے قائم کئے جن سے ان کے رجحان فکر کا پتہ چلتا ہے،کاش کسی کی سمجھ میں یہ بات آجاتی کہ وہ شیعوں سے کہتے ہیں کہ ہم تم سے زیادہ حسینؑ اور اہل بیتؑ پر حق رکھتے ہیں پھر وہ اپنے طریقے پر عزائے مولا اور زیارت حسینؑ کا دستور بناتے اور اس طرح زیارت کرتے جو ان کے عقیدے کے مطابق ہوتا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے مقابلہ میں دشمنان اہل بیتؑ کی عزاداری قائم کی اور ان کی بزرگی کا اعلان کیا وہ مصعب ابن زبیر کا ماتم ٹھیک شیعوں کی طرح کرنے لگے اور جس طرح شیعہ حسینؑ مظلوم کی زیارت کرتے ہیں اسی طرح وہ مصعب ابن زبیر کی زیارت کرنے لگے یہ سلسلہ ان میں برسوں چلتا رہا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکامل فی التاریخ ج:7ص:363،340سنہکے حادثات۔

(2)البدایہ و النھایہ ج:11ص:363،275سنہکے حادثات۔

(3)البدایہ و النھایہ ج:11ص:363،323،326سنہکے حادثات،الکامل فی التاریخ ج:8ص:363،10سنہکے حادثات

۱۳۸

ظاہر ہے کہ مصعب ابن زبیر کوئی ایسی شخصیت تو ہے نہیں کہ جس کا احترام کیا جائے نہ اس کی اندر ایسی کوئی صفت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھا جائے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے مصعب ابن زبیر کا غم عزاداری کے لئے کیوں منتخب کیا،ایک بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ اور اس کے مسلک کے لوگ جو زبیریوں کے نام سے جانے جاتے ہیں اہل بیتؑ سے کھلی ہوئی دشمنی رکھتے تھے جمہور اہل سنت کے دل میں اہل بیتؑ سے جو کینہ اور بغض بھرا ہوا ہے اس کا مظاہرہ اسی طرح ہوسکتا تھا کہ کسی دشمن اہل بیتؑ کی عزاداری کا اہتمام کیا جائے اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے دل کینہ کا اظہار اس وسلیہ سے کیا۔

3۔ابن اثیر کے حوالہ سے عرض کرتا ہوں کہ شیعہ کے خلاف بغداد میں جو فتنہ اٹھا تھا وہ بھی اہل بیتؑ سے دشمنی کا ایک مظاہرہ تھا جو اہل سنت کی طرف سے کیا جارہا تھا اس فتنہ کا سبب یہ تھا کہ اہل کرخ(شیعوں)نے باب سماکین کو قلائین نے باب مسعود کی باقی ماندہ عمارت کو تعمیر کیا اور اس میں بہت سے گنبد بنائے ان گنبدوں پر سونے کے پانی سے ایک کتبہ لکھا کتبہ کا مضمون تھا(محمد و علی خیرالبشر)اہل سنت نے کہا یہ تحریر غلط ہے انہوں نے کہا کہ ان گنبدوں پر لکھا ہوا ہے:(محمد و علی خیر البشر فمن رضی فقد شکر و من ابیٰ فقد کفَرَ)یعنی محمد و علی خیر بشر ہیں جو اس پر راضی ہے اس نے شکر ادا کیا اور جو اس کا منکر ہے وہ کافر ہے،اہل کرخ(شیعہ)نے کہا ہم نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے ہم اپنی مسجدوں پر یہی لکھتے چلے آئے ہیں بات خلیفہ تک پہنچ گئی اس دور میں خلیفہ عباسی قائم بامراللہ تھا اس نے عباسیوں کے نقیب ابوتمام اور علویین کے نقیب عدنان بن رضی کو دریافت حال کے لئے بھیجا اور فتنہ کو روکنے کی بھی ہدایت کی یہ دونوں آئے حالات کا جائزہ لیا اور دونون نے شیعوں کے عمل کو صحیح قرار دیا اور ان کی تصدیق کی،خلیفہ نے حکم دیا اور نواب رحیم نے بھی کہ جنگ و جدال بند کردی جائے لیکن اہل سنت نے نہیں مانا،قاضی ابن مذہب زہری اور دوسرے حنبلیوں نے لکھا ہے ان میں عبدالصمد کے اصحاب بھی شامل ہیں کہ اہل سنت نے بہت طوفان مچایا اور

۱۳۹

شہر کے رئیس الرؤسا نے شیعوں پر بہت تشدد کیا آخر شیعوں نے اس کتبے سے خیرالبشر ہٹا کر وہاں علیہما السلام لکھ دیا لیکن سنی اس پر بھی راضی نہین ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ ہم وہ تختی ہی اکھیڑ دیں گے جس پر محمدؐ و علیؑ لکھا ہوا ہے اور یہ کہ شیعہ اذان میں(حی علیٰ خیر العمل)نہ پکاریں شیعوں نے یہ مطالبہ رد کردیا جس کی وجہ سے فتنہ بڑھتا رہا اور تین ربیع الاول تک آپس میں قتل و غارت اور حربیہ اور باب بصرہ کے علاوہ تمام سنی محلوں میں گھوم کر لوگوں کو اس کے خون کا بدلہ لینے پر ابھارتے رہے جب دفن کرکے واپس پلٹے تو مشہد کے باب سوم پر حملہ کردیا(کاظمین پر حملہ کردیا)لوگوں نے اس کا دروازہ بند کردیا تو انہوں نے دیوار میں نقب لگانی شروع کردی اور دربانوں کو ڈرایا،دھمکایا ان غریبوں نے مارے ڈر کے دروازے کھول دیئے یہ لوگ مشہد میں درّانہ گھسے اور تمام قندیلیں لوغ لیں،محرابوں میں جو کچھ سونا چاندی تھا سب کو لوٹ لیا،سارے پردے لوٹ لئے،تربت اور دیواروں پر جو قیمتی سامان تھے وہ بھی لوٹ لیا یہاں تک کہ راہ ہوگئی تو یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس ہوئے،دوسرے دن پہلے سے زیادہ(بڑا)مجمع آیا اور مشہد(کاظمین)میں آگ لگادی گئی سارے کمروں میں اور برامدوں کو جلا ڈالا،موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی علیہما السلام کی ضریح میں آگ لگادی اور ان دونوں قبوں میں بھی آگ لگادی جو ان کی ضریح کے اوپر بنائے گئے تھے پھر اس ضریح کے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا دیا اور اتنے گندم کام کئے کہ اس سے پہلے دنیا میں ایسے کام نہیں ہوئے تھے۔

(ربیع الاوّل)مہینہ کی پانچویں تاریخ کو وہ لوگ پھر آئے اور دونوں مظلوم اماموں(یعنی موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی رضا علیہما السلام)کی قبر کھودنی شروع کی تا کہ دونوں حضرات کے جسم اطہر کو حنبلیوں کے قبرستان میں لے جائیں لیکن ملبہ بہت تا اس لئے نشان قبر نہیں پاسکے تو پھر آس پاس میں نقب لگا کے قبر تک پہنچنا چاہا عباسیوں کے نقیب ابوتمام نے جب یہ حرکت دیکھی اور دوسرے ہاشمیوں اور کچھ سنیوں کو یہ خبر ملی تو وہ لوگ آئے اور اپنے لوگوں کو اس فعل قبیح سے روکا۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکام فی التاریخ ج:8ص:301۔302بغداد میں جو جھگڑا ہوا اور مشہد کو جلایا یہ حادثہ سال443سنہمیں ہوا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

والزَّالُّونَ الْمُزِلُّونَ - يَتَلَوَّنُونَ أَلْوَاناً ويَفْتَنُّونَ افْتِنَاناً - ويَعْمِدُونَكُمْ بِكُلِّ عِمَادٍ ويَرْصُدُونَكُمْ بِكُلِّ مِرْصَادٍ - قُلُوبُهُمْ دَوِيَّةٌ وصِفَاحُهُمْ نَقِيَّةٌ - يَمْشُونَ الْخَفَاءَ ويَدِبُّونَ الضَّرَاءَ - وَصْفُهُمْ دَوَاءٌ وقَوْلُهُمْ شِفَاءٌ وفِعْلُهُمُ الدَّاءُ الْعَيَاءُ - حَسَدَةُ الرَّخَاءِ ومُؤَكِّدُو الْبَلَاءِ ومُقْنِطُو الرَّجَاءِ - لَهُمْ بِكُلِّ طَرِيقٍ صَرِيعٌ - وإِلَى كُلِّ قَلْبٍ شَفِيعٌ ولِكُلِّ شَجْوٍ دُمُوعٌ - يَتَقَارَضُونَ الثَّنَاءَ ويَتَرَاقَبُونَ الْجَزَاءَ - إِنْ سَأَلُوا أَلْحَفُوا وإِنْ عَذَلُوا كَشَفُوا، وإِنْ حَكَمُوا أَسْرَفُوا - قَدْ أَعَدُّوا لِكُلِّ حَقٍّ بَاطِلًا ولِكُلِّ قَائِمٍ مَائِلًا - ولِكُلِّ حَيٍّ قَاتِلًا ولِكُلِّ بَابٍ مِفْتَاحاً -

اورمنرف سازبھی یہ مسلسل رنگ بدلتے رہتے ہیں اور طرح طرح کے فتنے اٹھاتے رہتے ہیں۔ہرمکرو فریب کے ذریعہ تمہارا ہی قصدکرتے ہیں اور ہر گھات میں تمہاری ہی تاک میں بیٹھتے ہیں۔انکے دل بیمار ہیں اور ان کے چہرے پاک و صاف ۔اندر ہیاندر چال چلتے ہیں اور نقصانات کی خاطر رینگتے ہوئے قدم بڑھاتے ہیں۔ان کا طریقہ دوا جیسا اور ان کا کلام شفا جیسا ہے لیکن ان کا کردار نا قابل علاج مرض ہے ۔یہ راحتوں میں حسد کرنے والے مصیبتوں میں مبتلا کردینے والے اور امیدوں کو نا امید بنا دینے والے ہیں۔جس راہ پر دیکھو ان کامارا ہوا پڑا ہے۔اور جس دل کو دیکھو وہاں تک پہنچنے کا ایک سفارشی ڈھونڈ رکھا ہے۔ اور ہر رنج و غم کے لئے آنسو(۱) تیاررکھے ہوئے ہیں۔ایک دوسرے کی تعریف میں حصہ لیتے ہیں اور اس کے بدلہ کے منتظر رہتے ہیں سوال کرتے ہیں تو چپک جاتے ہیں اور برائی کرتے ہیں تو رسوا کرکے ہی چھوڑتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں تو حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ہر حق کے لئے ایک باطل تیار کر رکھا ہے اور ہر سیدھے کے لئے ایک کجی کا انتظام کر رکھا ہے۔ہر زندہ کے لئے ایک قاتل موجود ہے اور ہر دروازہ کیلئے ایک کنجی بنا رکھی ہے

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ منافقین کا کوئی عمل قابل اعتبار نہیں ہوتا ہے اور ان کی زندگی سراپا غلط بیانی ہوتی ہے۔تعریف کرنے پر آجاتے ہیں تو زمین وآسمان کو قلابے ملادیتے ہیں اوربرائی کرنے پر تل جاتے ہیں توآدمی کو عالمی سطح پرذلیل کرکے چھوڑتے ہیں۔اس لئے کہان کا نہ کوئی ضمیر ہوتاہے اور نہ کوئی معیار۔انہیں صرف موقع پرستی سے کام لینا ہے اور اسی کے اعتبار سیزبان کھولنا ہے۔خطبہ کے عنوان سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہی ہ سماج کے چند افراد کا ایک گروہ ہے جس کے کردار کو واضح کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ اس کردار سے ہوشیار ہیں اور اپنی زندگی کو نفاق سے بچا کر ایمان اور تقویٰ کے راستہ پر لگا دیں۔لیکن تفصیلات ک دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ یہ پورے سماج کا نقشہ ہے اور ساراعالم انسانیت اسی رنگ پر رنگا ہوا ہے۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نفاق کی حکمرانی نہ ہو اور انسان کے کردار کا کوئی رخ ایسا نہیں ہے جسے میں واقعیت اورحقیقت پائی جاتی ہو اورجس نفاق سے پاک و پاکیزہ قرار دیاجاسکے۔

۴۰۱

ولِكُلِّ لَيْلٍ مِصْبَاحاً - يَتَوَصَّلُونَ إِلَى الطَّمَعِ بِالْيَأْسِ لِيُقِيمُوا بِه أَسْوَاقَهُمْ - ويُنْفِقُوا بِه أَعْلَاقَهُمْ يَقُولُونَ فَيُشَبِّهُونَ - ويَصِفُونَ فَيُمَوِّهُونَ قَدْ هَوَّنُوا الطَّرِيقَ - وأَضْلَعُوا الْمَضِيقَ فَهُمْ لُمَةُ الشَّيْطَانِ وحُمَةُ النِّيرَانِ -( أُولئِكَ حِزْبُ الشَّيْطانِ - أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَ ) .

(۱۹۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه ويثني على نبيه ويعظ

حمد اللَّه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي أَظْهَرَ مِنْ آثَارِ سُلْطَانِه وجَلَالِ كِبْرِيَائِه - مَا حَيَّرَ مُقَلَ الْعُقُولِ مِنْ عَجَائِبِ قُدْرَتِه - ورَدَعَ خَطَرَاتِ هَمَاهِمِ النُّفُوسِ عَنْ عِرْفَانِ كُنْه صِفَتِه -

الشهادتان

وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه - شَهَادَةَ إِيمَانٍ وإِيقَانٍ وإِخْلَاصٍ وإِذْعَانٍ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - أَرْسَلَه وأَعْلَامُ الْهُدَى دَارِسَةٌ - ومَنَاهِجُ الدِّينِ طَامِسَةٌ فَصَدَعَ بِالْحَقِّ - ونَصَحَ لِلْخَلْقِ، وهَدَى إِلَى الرُّشْدِ

اور ہر رات کے لئے ایک چراغ مہیا کر رکھا ہے۔طع کے لئے ناموس کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ اپنے بازار کو رواج دے سکیں اور اپنے مال کو رائج کر سکیں۔جب بات کرتے ہیں تو مشتبہ قسم کی اور جب تعریف کرتے ہیں تو باطل کو حق کا رنگ دے کر۔انہوں نے اپنے لئے راستہ کو آسان بنالیا ہے اور دوسروں کے لئے تنگی پیدا کردی ہے۔یہ شیطان کے گروہ ہیں اور جہنم کے شعلے ' یہی حزب الشیطان کے مصداق ہیں اور حزب الشیطان کا مقدر سوائے خسارہ کے کچھ نہیں ہے ۔

(۱۹۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی سلطنت کے آثار اور کبریائی کے جلال کو اس طرح نمایاں کیا ہے کہ عقلوں کی نگاہیں عجائب قدرت سے حیران ہوگئی ہیں اورنفوس کے تصورات و افکار اس کے صفات کی حقیقت کے عرفان سے رک گئے ہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور یہ گواہی صرف ایمان و یقین ۔اخلاص و اعتقاد کی بناپر ہے اور پھر میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔اس نے انہیں اس وقت بھیجا ہے جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے۔اور دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے۔انہوں نے حق کاواشگاف انداز سے اظہار کیا۔

۴۰۲

وأَمَرَ بِالْقَصْدِ -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم -

العظة

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يُرْسِلْكُمْ هَمَلًا - عَلِمَ مَبْلَغَ نِعَمِه عَلَيْكُمْ وأَحْصَى إِحْسَانَه إِلَيْكُمْ - فَاسْتَفْتِحُوه واسْتَنْجِحُوه واطْلُبُوا إِلَيْه واسْتَمْنِحُوه - فَمَا قَطَعَكُمْ عَنْه حِجَابٌ ولَا أُغْلِقَ عَنْكُمْ دُونَه بَابٌ - وإِنَّه لَبِكُلِّ مَكَانٍ وفِي كُلِّ حِينٍ وأَوَانٍ - ومَعَ كُلِّ إِنْسٍ وجَانٍّ - لَا يَثْلِمُه الْعَطَاءُ ولَا يَنْقُصُه الْحِبَاءُ - ولَا يَسْتَنْفِدُه سَائِلٌ ولَا يَسْتَقْصِيه نَائِلٌ - ولَا يَلْوِيه شَخْصٌ عَنْ شَخْصٍ ولَا يُلْهِيه صَوْتٌ عَنْ صَوْتٍ - ولَا تَحْجُزُه هِبَةٌ عَنْ سَلْبٍ ولَا يَشْغَلُه غَضَبٌ عَنْ رَحْمَةٍ - ولَا تُولِهُه رَحْمَةٌ عَنْ عِقَابٍ

لوگوں کو ہدایت دی اورسیدھے راستہ پر لگا کرمیانہ روی کا قانون بتادیا۔ بند گان خدا ! یاد رکھو پروردگار نے تم کو بیکارنہیں پیداکیا ہے اور نہ تم کو بے لگا چھوڑ دیا ہے۔وہ تم کو دی جانے والی نعمتوںکے حدود کو جانتا ہے اورتم پر کئے جانے والے احسانات کا شمار رکھتا ہے لہٰذا اس سے کامرانی اور کامیابی کا تقاضا کرو۔اس کی طرف دست طلب بڑھائو اور اس سے عطایا کا مطالبہ کرو۔کوئی حجاب تمہیں اس سے جدا نہیں کر سکتا ہے اور کوئی دروازہ اس کا تم پر بند نہیں ہو سکتا ہے۔وہ ہرجگہ اور ہر آن موجود ہے۔ہر انسان اور ہرجن کے ساتھ ہے۔نہ عطاء اس کے کرم میں رخنہ ڈال سکتی ہے اور نہ ہدایا اس کے خزانہ میں کمی پیدا کر سکتے ہیں۔ کوئی سائل اس کے خزانہ کو خالی نہیں کر سکتا ہے اور کوئی عطیہ اس کے کرم کی انتہا ء کو نہیں پہنچ سکتا ہے۔ایک شخص کی طرف توجہ دوسرے کی طرف سے رخ موڑ نہیں سکتی ہے اورایک آوازدوسری آوازسے غافل نہیں بنا سکتی ہے۔اس کاعطیہ(۱) چھین لینے سے مانع نہیں ہوتا ہے اور اس کا غضب رحمت سے مغشول نہیں کرتا ہے۔رحمت عتاب سے غفلت میں نہیں ڈال دیتی ہے

(۱) جن لوگوں کے صفات و کمالات پر مزاج یا عادات کی حکمرانی ہوتی ہے۔ان کے کمالات میں اس طرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے کہ مہربان ہو تے ہیں تو مہربان ہی ہوتے ہیں اور غصہ ور ہوتے ہیں تو غصہ ور ہی ہوتے ہیں۔لیکن مالک کائنات کے اوصاف و کمالات اس سے بالکل مختلف ہیں اس کے اوصاف و کمالات کا سرچشمہ اس کا مزاج یا اس کی طبیعت نہیں ہے۔بلکہ ان کا واقعی سر چشمہ اس کی حکمت اور مصلحت ہے۔لہٰذا اس کے بارے میں عین ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں مہربان بھی ہو اورغضب ناک بھی نعمتیں عطا بھی کر رہا ہواور سلب بھی کر رہا ہو۔اس کے کمال کا ظہور بھی ہو اور پردہ بھی۔وہ دور بھی نظرآئے اور قریب بھی۔اس لئے کہ مصالح کا تقاضا ہمیشہ افراد کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ایک شخص کاکردار رحمت چاہتا ہے اور دوسرے کا غضب ایک کے حق میں مصلحت عطا کر دینا ہے اوردوسرے کے حق میں چھین لیا۔ایک جزا و انعام کا سزاوار ہے اوردوسرا سزا واعتاب کا حقدار ۔تو حکیم علی الاطلاق کا فرض ہے کہ ایک ہی وقت میں ہرشخص کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرے جس کا وہ اہل ہے اورایک برتائو اسے دورسے برتائو سے غافل نہ بناسکے۔

۴۰۳

ولَا يُجِنُّه الْبُطُونُ عَنِ الظُّهُورِ - ولَا يَقْطَعُه الظُّهُورُ عَنِ الْبُطُونِ - قَرُبَ فَنَأَى وعَلَا فَدَنَا وظَهَرَ فَبَطَنَ - وبَطَنَ فَعَلَنَ ودَانَ ولَمْ يُدَنْ - لَمْ يَذْرَأِ الْخَلْقَ بِاحْتِيَالٍ ولَا اسْتَعَانَ بِهِمْ لِكَلَالٍ.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا الزِّمَامُ والْقِوَامُ فَتَمَسَّكُوا بِوَثَائِقِهَا - واعْتَصِمُوا بِحَقَائِقِهَا تَؤُلْ بِكُمْ إِلَى أَكْنَانِ الدَّعَةِ - وأَوْطَانِ السَّعَةِ ومَعَاقِلِ الْحِرْزِ ومَنَازِلِ الْعِزِّ فِي يَوْمٍ تَشْخَصُ فِيه الأَبْصَارُ وتُظْلِمُ لَه الأَقْطَارُ - وتُعَطَّلُ فِيه صُرُومُ الْعِشَارِ ويُنْفَخُ فِي الصُّورِ - فَتَزْهَقُ كُلُّ مُهْجَةٍ وتَبْكَمُ كُلُّ لَهْجَةٍ - وتَذِلُّ الشُّمُّ الشَّوَامِخُ والصُّمُّ الرَّوَاسِخُ - فَيَصِيرُ صَلْدُهَا سَرَاباً رَقْرَقاً ومَعْهَدُهَا قَاعاً سَمْلَقاً - فَلَا شَفِيعٌ يَشْفَعُ ولَا حَمِيمٌ يَنْفَعُ ولَا مَعْذِرَةٌ تَدْفَعُ

اور ہستی کا پوشیدہ ہونا ظہور سے مانع نہیں ہوتا ہے اورآثار کا ظہور ہستی کی پردہ داری کو نہیں روک سکتا ہے۔وہ قریب ہوکر بھی دور ہے اور بلندہوکربھی نزدیک ہے۔وہ ظاہر ہوکر بھی پوشیدہ ہے اور پوشیدہ ہو کربھی ظاہر ہے وہ جزا دیتا ہے لیکن اسے جزا نہیں دی جاتی ہے۔اس نے مخلوقات کو سوچ بچار کرکے نہیں بنایا ہے اور نہ خستگی کی بنا پر ان سے مدد لی ہے۔

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں کہ یہی ہر خیر کی زمام اور ہر نیکی کی بنیاد ہے۔اس کے بندنوں سے وابستہ رہو اور اس کے حقائق سے متمسک رہو۔یہ تم کو راحت کی محفوظ منزلوں اور وسعت کے بہترین علاقوں تک پہنچا دے گا۔تمہارے لئے محفوظ مقامات ہوں گے اور باعزت منازل۔اس دن جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اوراطراف اندھیرا چھا جائے گا اونٹنیاں معطل کردی جائیں گی اور صور پھونک دیا جائے گا۔اس وقت سب کادم نکل جائے گا اور ہر زبان گونگی ہو جائے گی بلند ترین پہاڑ اورمضبوط ترین چٹانیں ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔پتھروں کی چٹانیں چمکدار سراب کی شکل میں تبدیل ہو جائیں گی اوہر ان کی منزل ایک صاف چٹیل میدان ہو جائے گی۔نہ کوئی شفیع شفاعت کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی دوست کام آنے والا ہوگا۔اور نہ کوئی معذرت دفاع کرنے والی ہوگی۔

۴۰۴

(۱۹۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعثة النبي

بَعَثَه حِينَ لَا عَلَمٌ قَائِمٌ - ولَا مَنَارٌ سَاطِعٌ ولَا مَنْهَجٌ وَاضِحٌ –

العظة بالزهد

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - وأُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا دَارُ شُخُوصٍ - ومَحَلَّةُ تَنْغِيصٍ سَاكِنُهَا ظَاعِنٌ وقَاطِنُهَا بَائِنٌ - تَمِيدُ بِأَهْلِهَا مَيَدَانَ السَّفِينَةِ - تَقْصِفُهَا الْعَوَاصِفُ فِي لُجَجِ الْبِحَارِ - فَمِنْهُمُ الْغَرِقُ الْوَبِقُ ومِنْهُمُ النَّاجِي عَلَى بُطُونِ الأَمْوَاجِ - تَحْفِزُه الرِّيَاحُ بِأَذْيَالِهَا وتَحْمِلُه عَلَى أَهْوَالِهَا - فَمَا غَرِقَ مِنْهَا فَلَيْسَ بِمُسْتَدْرَكٍ ومَا نَجَا مِنْهَا فَإِلَى مَهْلَكٍ!

عِبَادَ اللَّه الآنَ فَاعْلَمُوا والأَلْسُنُ مُطْلَقَةٌ - والأَبْدَانُ صَحِيحَةٌ والأَعْضَاءُ لَدْنَةٌ - والْمُنْقَلَبُ فَسِيحٌ والْمَجَالُ عَرِيضٌ - قَبْلَ إِرْهَاقِ الْفَوْتِ وحُلُولِ الْمَوْتِ - فَحَقِّقُوا عَلَيْكُمْ نُزُولَه ولَا تَنْتَظِرُوا قُدُومَه

(۱۹۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسمیں سرکار دو عالم (ص) کی مدح کی گئی ہے )

(پروردگارنے آپ کو اس وقت مبعوث کیا جب نہ کوئی نشان ہدایت قائم رہ گیا تھا نہ کوئی منارۂ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا)

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں اور دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کا گھر اوربد مزگی کا علاقہ ہے۔اس کا باشندہ بہر حال سفر کرنے والا ہے اور اس کا مقیم بہرحال جدا ہونے والا ہے۔یہ اپنے اہل کو لے کر اس طرح لرزتی ہے جس طرح گہرے سمندر میں تندو تیز ہوائوں کی زد پر کشتیاں ۔کچھ لوگ غرق اور ہلاک ہو جاتے ہیں اور کچھ موجوں کے سہارے پر باقی رہ جاتے ہیں کہ ہوائیں انہیں اپنے دامن میں لئے پھرتی رہتی ہیں اور اپنی ہولناک منزلوں کی طرف لے جاتی رہتی ہیں۔جو غرق ہو گیا وہ دوبارہ نکالا نہیں جا سکتا اور جو بچ گیا ہے اس کا راستہ ہلاکت ہی کی طرف جا رہا ہے۔

بندگان خدا!ابھی بات کو سمجھ لو جب کہ زبانیں آزاد ہیں اور بدن صحیح و سالم ہیں۔اعضاء میں لچک باقی ہے اورآنے جانے کی جگہ وسیع اور کام کا میدان طویل و عریض ہے ۔قبل اس کے کہ موت نازل ہو جائے اور اجل کاپھندہ گلے میں پڑ جائے ۔اپنے لئے موت کی آمد کو یقینی سمجھ لو اور اس کے آنے کا انتظار نہ کرو ۔

۴۰۵

(۱۹۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

ينبه فيه على فضيلته لقبول قوله وأمره ونهيه

ولَقَدْ عَلِمَ الْمُسْتَحْفَظُونَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أَنِّي لَمْ أَرُدَّ عَلَى اللَّه ولَا عَلَى رَسُولِه سَاعَةً قَطُّ ولَقَدْ وَاسَيْتُه بِنَفْسِي فِي الْمَوَاطِنِ - الَّتِي تَنْكُصُ فِيهَا الأَبْطَالُ - وتَتَأَخَّرُ فِيهَا الأَقْدَامُ نَجْدَةً أَكْرَمَنِي اللَّه بِهَا.

ولَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وإِنَّ رَأْسَه لَعَلَى صَدْرِي - ولَقَدْ سَالَتْ نَفْسُه فِي كَفِّي فَأَمْرَرْتُهَا عَلَى وَجْهِي - ولَقَدْ وُلِّيتُ غُسْلَهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم والْمَلَائِكَةُ أَعْوَانِي - فَضَجَّتِ الدَّارُ والأَفْنِيَةُ - مَلأٌ يَهْبِطُ ومَلأٌ يَعْرُجُ - ومَا فَارَقَتْ سَمْعِي هَيْنَمَةٌ مِنْهُمْ - يُصَلُّونَ عَلَيْه حَتَّى وَارَيْنَاه فِي ضَرِيحِه -

(۱۹۷)

آپ کا ارشادگرامی

(جس میں پیغمبر اسلام (ص) کے امرونہی اورتعلیمات کوقبول کرنے کے ذیل میں فضیلت کاذکر کیا گیا ہے)

اصحاب پیغمبر (ص) میں شریعت کے امانتدار افراد اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا اور رسول (ص) کی بات کو رد نہیں کیا اورمیں نے پیغمبر اکرم(ص) پر اپنی(۱) جان ان مقامات پر قربان کی ہے جہاں بڑے بڑے بہادر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔صرف اس بہادری کی بنیاد پرجس سے پروردگارنے مجھے سرفراز فرمایا تھا۔

رسول اکرم(ص) اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جب ان کا سر میرے سینہ پرتھا اور ان کی روح اقدس میرے ہاتھوں پر جدا ہوئی ہے تو میں نے اپنے ہاتھوں کو چہرہ پرمل لیا۔میں نے ہی آپ کو غسل دیاہے جب ملائکہ میری امداد کر رہے تھے اور گھر کے اندر اورباہر ایک کہرام برپا تھا۔ایک گروہ نازل ہو رہا تھا اورایک واپس جا رہا تھا۔سب نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں مسلسل ان کی آوازیں سن رہا تھا۔

(۱)مولائے کائنات کی پوری حیات اس ارشاد گرامی کا بہترین مرقع ہے جہاں ہجرت کی رات سے لے کر فتح مکہ تک اور اس کے بعد تبلیغ برائت تک کوئی موقع ایسا نہیں تھا جہاں آپ نے سرکار دوعالم (ص) اور ان کے مقصد کی خاطر اپنی جان کو خطرہ میں نہ ڈال دیا ہو اور اس وحدت ذات و صفات کا ثبوت نہ دیا ہوجس کی طرف خود حضرت نے میدان احد میں اشارہ کیا تھا جب جبرائیل امین نے عر ض کی حضور علی کی مواساة کودیکھ رہے ہیں ؟ تو آپنے فرمایا کہ اس میں حیرت کی بات کیا ہے '' علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ''۔اس کے بعد انتقال سے لے کردفن کے آخری مرحلہ تک ہر قدم پر حضور کے امورکے ذمہ دار رہے جب کہ مورخین کے بیان کی بنا پر بڑے بڑے صحابہ کرام دفن میں شرکت کی سعادت حاصل نہ کر سکے اورخلافت سازی کی مہم میں مصروف رہ گئے۔

۴۰۶

فَمَنْ ذَا أَحَقُّ بِه مِنِّي حَيّاً ومَيِّتاً - فَانْفُذُوا عَلَى بَصَائِرِكُمْ - ولْتَصْدُقْ نِيَّاتُكُمْ فِي جِهَادِ عَدُوِّكُمْ - فَوَالَّذِي لَا إِلَه إِلَّا هُوَ إِنِّي لَعَلَى جَادَّةِ الْحَقِّ - وإِنَّهُمْ لَعَلَى مَزَلَّةِ الْبَاطِلِ - أَقُولُ مَا تَسْمَعُونَ وأَسْتَغْفِرُ اللَّه لِي ولَكُمْ!

(۱۹۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ينبه على إحاطة علم اللَّه بالجزئيات، ثم يحث على التقوى،

ويبين فضل الإسلام والقرآن

يَعْلَمُ عَجِيجَ الْوُحُوشِ فِي الْفَلَوَاتِ ومَعَاصِيَ الْعِبَادِ فِي الْخَلَوَاتِ - واخْتِلَافَ النِّينَانِ فِي الْبِحَارِ الْغَامِرَاتِ - وتَلَاطُمَ الْمَاءِ بِالرِّيَاحِ الْعَاصِفَاتِ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُ اللَّه - وسَفِيرُ وَحْيِه ورَسُولُ رَحْمَتِه –

الوصية بالتقوى

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنِّي أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي ابْتَدَأَ خَلْقَكُمْ - وإِلَيْه يَكُونُ مَعَادُكُمْ وبِه نَجَاحُ طَلِبَتِكُمْ - وإِلَيْه مُنْتَهَى رَغْبَتِكُمْ ونَحْوَه قَصْدُ سَبِيلِكُمْ -

یہاں تک کہ میں نے ہی حضرت کو سپرد لحد کیا ہے۔تو اب بتائو کہ زندگی اورموت میں مجھ سے زیادہ ان سے قریب تر کون ہے ؟ اپنی بصیر توں کے ساتھ اور صدق نیت کے اعتماد پر آگے بڑھو۔اور اپنے دشمن سے جہاد کرو قسم ہے اس پروردگار کی جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے کہ میں حق کے راستہ پر ہوں اور وہ لوگ باطل کی لغزشوں کی منزل میں ہیں۔میں جو کہہ رہا ہوں وہ تم سن رہے ہو اورمیں اپنے اور تمہارے دونوں کے لئے خدا کی بارگاہ میں استغفار کر رہا ہوں۔

(۱۹۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں خداکی عالم جزئیات ہونے پر تاکید کی گئی ہے اور پھر تقویٰ پرآمادہ کیا گیا ہے )

وہ پروردگار صحرائوں میں جانوروں کی فریاد کو بھی جانتا ہے اور تنہائیوں میں بندوں کے گناہوں کو بھی۔وہ گہرے سمندروں میں مچھلیوں کی رفت و آمد سے بھی با خبر ہے اور تیز و تند ہوائوں سے پیدا ہونے والے تلاطم سے بھی۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) خدا کے منتخب بندہ۔اس کی وحی کے سفیر اور اس کی رحمت کے رسول ہیں۔

اما بعد! میں تم سب کو اسی خدا سے ڈرنے کی نصیحت کر رہا ہوں جس نے تمہاری خلقت کی ابتداء کی ہے اور اسی کی بارگاہ میں تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔اسیکے ذریع تمہارے مقاصد کو کامیابی ہے اوراسی کی طرف تمہارے رغبتوں کی انتہاء ہے۔اسی کی سمت تمہارا سیدھا راستہ ہے

۴۰۷

وإِلَيْه مَرَامِي مَفْزَعِكُمْ -

فَإِنَّ تَقْوَى اللَّه دَوَاءُ دَاءِ قُلُوبِكُمْ - وبَصَرُ عَمَى أَفْئِدَتِكُمْ وشِفَاءُ مَرَضِ أَجْسَادِكُمْ - وصَلَاحُ فَسَادِ صُدُورِكُمْ - وطُهُورُ دَنَسِ أَنْفُسِكُمْ وجِلَاءُ عَشَا أَبْصَارِكُمْ،وأَمْنُ فَزَعِ جَأْشِكُمْ وضِيَاءُ سَوَادِ ظُلْمَتِكُمْ فَاجْعَلُوا طَاعَةَ اللَّه شِعَاراً دُونَ دِثَارِكُمْ - ودَخِيلًا دُونَ شِعَارِكُمْ ولَطِيفاً بَيْنَ أَضْلَاعِكُمْ - وأَمِيراً فَوْقَ أُمُورِكُمْ ومَنْهَلًا لِحِينِ وُرُودِكُمْ - وشَفِيعاً لِدَرَكِ طَلِبَتِكُمْ وجُنَّةً لِيَوْمِ فَزَعِكُمْ - ومَصَابِيحَ لِبُطُونِ قُبُورِكُمْ - وسَكَناً لِطُولِ وَحْشَتِكُمْ ونَفَساً لِكَرْبِ مَوَاطِنِكُمْ - فَإِنَّ طَاعَةَ اللَّه حِرْزٌ مِنْ مَتَالِفَ مُكْتَنِفَةٍ - ومَخَاوِفَ مُتَوَقَّعَةٍ وأُوَارِ نِيرَانٍ مُوقَدَةٍ - فَمَنْ أَخَذَ بِالتَّقْوَى

اور اسی کی طرف تمہاری فریادوں کا نشانہ ہے ۔

یہ تقویٰ الٰہی تمہارے دلوں کی بیماری کی دوا ہے اور تمہارے قلوب کے اندھے پن کی بصارت۔یہ تمہارے جسموں کی بیماری کی شفا کا سامان ہے اور تمہارے سینوں کے فساد کی اصلاح۔یہی تمہارے نفوس کی گندگی کی طہارت ہے اور یہی تمہاری آنکھوں کے چندھیانے کی جلاء اسی میں تمہارے دل کے اضطراب کا سکون ہے اور یہی زندگی کی تاریکیوں کی ضیاء ہے۔اطاعت خدا کو اندر کا شعاربنائو صرف باہر کا نہیں اور اسے باطن میں داخل کرو صرف ظاہر میں نہیں۔اپنی پسلیوں کے درمیان سمولو اور اپنے جملہ امور کا حاکم قرار دے دو۔تشنگی میں ورود کے لئے چشمہ تصور کرو اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے وسیلہ قرار دو۔اپنے روز قزع کے لئے سپر بنائو اور اپنی تاریک قبروں کے لئے چراغ۔اپنی طولانی وحشت قبر کے لئے مونس بنائو اور اپنے رنج و غم کے مراحل کے لئے سہارا۔اطاعت الٰہی تمام گھیرنے والے بربادی کے اسباب آنے والے خوفناک مراحل اور بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے لئے حرزجان ہے۔جس نے تقویٰ(۱) کواختیار کرلیا

(۱)اس مقام پر مولائے کائنا ت نے اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا چاہا ہے کہ تقویٰ کاف ائدہ صرف آخرت تک محود نہیں ہے کہ تم یہاں گناہوں سے پرہیز کرو۔مالک وہاں تمہیں آتش جہنم سے محفوظ کردے گا بلکہ یہ تقویٰ آخرت کے ساتھ دنیا کے مرحلہ پرکامآنے والا ہے اور کسی مرحلہ پر انسان کو نظرانداز کرنے والا نہیں ہے ۔مشکلات سے نجات اسی تقویٰ کا کارنامہ ہے اور طوفانوں کا مقابلہ اسی تقویٰ کی طاقت سے ہوتا ہے۔رحمت کے چشمے اسی سے جاری ہوتے ہیں اورفضل و کرم کے بادل اسی کی برکت سے برستے ہیں اور شاید یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ انسانی زندگی کی ساری پریشانیاں اس کے اعمال کی کمزوریوں سے پیدا ہوتی ہیں' جب انسان تقویٰ کے ذریعہ کردار کومضبوط کرلے گا تو ہر پریشانی سے مقابلہ آسان ہو جائے گا۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ متقین کی زندگی میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے اور وہ چین اور سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ایسا ہوتا تو صبر کا کوئی مفہوم نہ ہوتا اورمتقین کا سلسلہ صابرین سے الگ ہو جاتا۔بلکہ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ تقویٰ صبرکاحوصلہ پیداکرتا ہے اور تقویٰ کے ذریعہ مصائب سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی برکت سے رحمتوں کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔

۴۰۸

عَزَبَتْ عَنْه الشَّدَائِدُ بَعْدَ دُنُوِّهَا - واحْلَوْلَتْ لَه الأُمُورُ بَعْدَ مَرَارَتِهَا - وانْفَرَجَتْ عَنْه الأَمْوَاجُ بَعْدَ تَرَاكُمِهَا - وأَسْهَلَتْ لَه الصِّعَابُ بَعْدَ إِنْصَابِهَا - وهَطَلَتْ عَلَيْه الْكَرَامَةُ بَعْدَ قُحُوطِهَا -. وتَحَدَّبَتْ عَلَيْه الرَّحْمَةُ بَعْدَ نُفُورِهَا - وتَفَجَّرَتْ عَلَيْه النِّعَمُ بَعْدَ نُضُوبِهَا - ووَبَلَتْ عَلَيْه الْبَرَكَةُ بَعْدَ إِرْذَاذِهَا

فَاتَّقُوا اللَّه الَّذِي نَفَعَكُمْ بِمَوْعِظَتِه - ووَعَظَكُمْ بِرِسَالَتِه وامْتَنَّ عَلَيْكُمْ بِنِعْمَتِه - فَعَبِّدُوا أَنْفُسَكُمْ لِعِبَادَتِه - واخْرُجُوا إِلَيْه مِنْ حَقِّ طَاعَتِه.

فضل الإسلام

ثُمَّ إِنَّ هَذَا الإِسْلَامَ دِينُ اللَّه الَّذِي اصْطَفَاه لِنَفْسِه - واصْطَنَعَه عَلَى عَيْنِه وأَصْفَاه خِيَرَةَ خَلْقِه - وأَقَامَ دَعَائِمَه عَلَى مَحَبَّتِه - أَذَلَّ الأَدْيَانَ بِعِزَّتِه

اس کے لئے سختیاں قریب آکر دور چلی جاتی ہیں اور امور زندگی تلخیوں کے بعد شیریں ہو جاتے ہیں۔موجیں تہ بہ تہ ہو جانے کے بعد بھی ہٹ جاتی ہیں اوردشواریاں مشقتوں میں مبتلا کر دینے کے بعد بھی آسان ہوجاتی ہیں ۔ قحط کے بعد کرامتوں کی بارش شروع ہو جاتی ہے اور سحاب رحمت ہٹ جانے کے بعد پھر برسنے لگتا ہے اور نعمتوں کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔اور پھوار کی کمی کے بعد برکت کی برسات شروع ہو جاتی ہے۔

اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں نصیحت سے فائدہ پہنچایا ہے اور اپنے پیغام کے ذریعہ نصیحت کی ہے اور اپنی نعمت سے تم پر احسان کیا ہے ۔اپنے نفس کو اس کی عبادت کے لئے ہموار کرواور اس کے حق کی اطاعت سے عہدہ برآہونے کی کوشش کرو۔

اس کے بعد یاد رکھو کہ یہ اسلام وہ دین(۱) ہے جسے مالک نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور اپنی نگاہوں میں اس کی دیکھ بھال کی ہے اور اسے بہترین خلاق کے حوالہ کیا ہے اوراپنی محبت پراس کے ستونوں کو قائم کیا ہے۔اس کی عزت کے ذریعہ ادیان کو سرنگوں کیا ہے اور

(۱) دین اسلام کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کے قوانین خالق کائنات نے بنائے ہیں اور ہر قانون کی فطرت بشر سے ہم آہنگ بنایا ہے۔اس نے مسئلہ تشریع میں اپنے محبوب ترین بندہ کو بھی دخیل نہیں کیا ہے اورنہ کسی کو اس کے قوانین میں ترمیم کرنے کا حق دیا ہے۔ظاہر ہے کہ جو قانون خالق و مالک کے علم و کمال کے نتیجہ میں منظر عام پرآئے گا اس کی بقا کی ضمانت اس کے دفعات کے اندر ہی ہوگی اور جب تک یہ کائنات باقی رہے گی اس کے دفعات میں تغیر و تبدیل کی ضرورت نہ ہوگی۔

اسلام کے دین پسندیدہ ہونے ہی کا اثر ہے کہ اس کے سامنے تمام ادیان عالم حقیر اور اس کے مقابلہ میں تمام دشمنان مذہب ذلیل ہیں۔مالک نے اس کی بنیاد محبت پر رکھی ہے اور اس کی اساس رحمت اور ربوبیت کو قراردیا ہے۔اس کا تسلسل نا قابل اختتام ہے اوراس کے حلقے نا قابل انصفام ۔

اسی میں انسانیت کی پیاس بجھا نے کاسامان ہے اور اسی میں طالبان ہدایت کے لئے بہترین وسیلہ رہنمائی ہے۔رضائے الٰہی کا سامان یہی ہے اور بندگی پروردگار کا بہترین مرقع یہی دین و مذہب ہے۔اس کے بغیر ہدایت کا تصور مہمل ہے اور اس کے علاوہ ہر دین نا قابل قبول ہے۔

۴۰۹

ووَضَعَ الْمِلَلَ بِرَفْعِه- وأَهَانَ أَعْدَاءَه بِكَرَامَتِه وخَذَلَ مُحَادِّيه بِنَصْرِه - وهَدَمَ أَرْكَانَ الضَّلَالَةِ بِرُكْنِه - وسَقَى مَنْ عَطِشَ مِنْ حِيَاضِه - وأَتْأَقَ الْحِيَاضَ بِمَوَاتِحِه - ثُمَّ جَعَلَه لَا انْفِصَامَ لِعُرْوَتِه ولَا فَكَّ لِحَلْقَتِه - ولَا انْهِدَامَ لأَسَاسِه ولَا زَوَالَ لِدَعَائِمِه - ولَا انْقِلَاعَ لِشَجَرَتِه ولَا انْقِطَاعَ لِمُدَّتِه - ولَا عَفَاءَ لِشَرَائِعِه ولَا جَذَّ لِفُرُوعِه ولَا ضَنْكَ لِطُرُقِه - ولَا وُعُوثَةَ لِسُهُولَتِه ولَا سَوَادَ لِوَضَحِه - ولَا عِوَجَ لِانْتِصَابِه ولَا عَصَلَ فِي عُودِه - ولَا وَعَثَ لِفَجِّه ولَا انْطِفَاءَ لِمَصَابِيحِه - ولَا مَرَارَةَ لِحَلَاوَتِه - فَهُوَ دَعَائِمُ أَسَاخَ فِي الْحَقِّ أَسْنَاخَهَا - وثَبَّتَ لَهَا آسَاسَهَا ويَنَابِيعُ غَزُرَتْ عُيُونُهَا - ومَصَابِيحُ شَبَّتْ نِيرَانُهَا - ومَنَارٌ اقْتَدَى بِهَا سُفَّارُهَا وأَعْلَامٌ قُصِدَ بِهَا فِجَاجُهَا - ومَنَاهِلُ رَوِيَ بِهَا وُرَّادُهَا جَعَلَ اللَّه فِيه مُنْتَهَى رِضْوَانِه - وذِرْوَةَ دَعَائِمِه وسَنَامَ طَاعَتِه.

اس کی بلندی کے ذریعہ ملتوں کی پستی کا اظہار کیا ہے اس کے دشمنوں کو اس کی کرامت کے ذریعہ ذلیل کیا ہے اوراس سے مقابلہ کرنے والوں کو اس کی نصرت کے ذریعہ رسوا کیا ہے۔اس کے رکن کے ذریعہ ضلالت کے ارکان کو منہدم کیا ہے اور اس کے حوض سے پیاسوں کو سیراب کیا ہے اور پھر پانی الچنے والوں کے ذریعہ ان حوضوں کو بھردیا ہے۔ اس کے بعد اس دین کو ایسا بنادیا ہے کہ اس کے بندھن ٹوٹ نہیں سکتے ہیں۔اس کی کڑیاں کھل نہیں سکتی ہیں ۔اس کی بنیاد منہدم نہیں ہو سکتی ہے۔اس کے ستون گر نہیں سکتے ہیں۔اس کا درخت اکھڑ نہیں سکتا ہے۔اس کی مدت تمام نہیں ہو سکتی ہے۔اس کے آثار مٹ نہیں سکتے ہیں۔اس کی شاخیں کٹ نہیں سکتی ہیں۔اس کے راستے تنگ نہیں ہو سکتے ہیں۔اس کی آسانیاں دشوار نہیں ہوسکتی ہیں۔اس کی سفیدی میں سیاہی نہیں ہے اور اس کی استقامت میں کجی نہیں ہے۔اس کی لکڑی ٹیڑھی نہیں ہے اور اس کی وسعت میں دشواری نہیں ہے۔اس کا چراغ بجھ نہیں سکتا ہے اور اس کی حلاوت میں تلخی نہیں آسکتی ہے۔اس کے ستون ایسے ہیں جن کے پائے حق کی زمین میں نصب کئے گئے ہیں اور پھر اس کی اساس کو پائیدار بنایا گیا ہے۔اس کے چشموں کا پانی کم نہیں ہوسکتا ہے اور اس کے چراغوں کی لو مدھم نہیں ہوسکتی ے۔اس کے مناروں سے راہ گیر ہدایت پاتے ہیں اور اس کے نشانات کو راہوں میں منزل اپنے بلندترین ارکان اور اپنی اطاعت کاعروج قرار دیا

۴۱۰

- فَهُوَ عِنْدَ اللَّه وَثِيقُ الأَرْكَانِ رَفِيعُ الْبُنْيَانِ - مُنِيرُ الْبُرْهَانِ مُضِيءُ النِّيرَانِ - عَزِيزُ السُّلْطَانِ مُشْرِفُ الْمَنَارِ مُعْوِذُ الْمَثَارِ - فَشَرِّفُوه واتَّبِعُوه وأَدُّوا إِلَيْه حَقَّه وضَعُوه مَوَاضِعَه.

الرسول الأعظم

ثُمَّ إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِالْحَقِّ حِينَ دَنَا مِنَ الدُّنْيَا الِانْقِطَاعُ وأَقْبَلَ مِنَ الآخِرَةِ الِاطِّلَاعُ - وأَظْلَمَتْ بَهْجَتُهَا بَعْدَ إِشْرَاقٍ وقَامَتْ بِأَهْلِهَا عَلَى سَاقٍ - وخَشُنَ مِنْهَا مِهَادٌ وأَزِفَ مِنْهَا قِيَادٌ - فِي انْقِطَاعٍ مِنْ مُدَّتِهَا واقْتِرَابٍ مِنْ أَشْرَاطِهَا وتَصَرُّمٍ مِنْ أَهْلِهَا

ہے۔یہ دین اس کے نزدیک مستحکم ارکان والا ' بلند ترین بنیادوں والا واضح دلائل والا۔روشن ضیائوں والا۔غالب سلطنت والا۔بلند مینار والا اورنا ممکن تباہی والا ہے۔اس کے شرف کا تحفظ کرو۔اس کے احکام کا اتباع کرو۔اس کے حق کو ادا کرو اوراسے اس کی واقعی منزل پر قرار دو۔

اس کے بعد مالک نے حضرت محمد (ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اورآخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروںمیں تبدیل ہونے لگا اوروہ اپنے چاہنے والوں کے لئے ایک مصیبت بن کر کھڑی ہوگئی۔اس کا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہار دینے کے لئے تیار ہوگئی ۔ اس طرح کہ اس کی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی۔ اس کی فنا کے آثار قریب آگئے ۔اس کے اہل ختم ہونے

(۱) کتنا حسین دور تھا جب انبیاء کرام کا سلسلہ قائم تھا ۔کتابیں اور صحیفے نازل ہو رہے تھے۔مبلغین دین و مذہب اپنے کردار سے انسانیت کی رہنمائی کر رہے تھے اور زمین و آسمان کے رشتے جڑے ہوئے تھے پھر یکبارگی قرت کا زمانہ آگیا اوری ہ سارے سلسلے ٹوٹ گئے ۔دنیا پر جاہلیت کا اندھیرا چھا گیا اور انسانیت نے اپنی زمام قیادت جہل و جہالیت کے حوالہ کردی۔

ایسے حالات میں اگر سرکار دوعالم (ص) کا ورود نہ ہوتا تو یہ دنیا گھٹا ٹوپ اندھیروں کی نذر ہو جاتی اور انسانیت کو کوئی راستہ نظرنہ آتا لیکن یہ مالک کا کرم تھا کہ اس نے رحمةالعالمین کوبھیج دیا اور اندھیری دنیا کو پھر دوبارہ نور رسالت سے منور کردیا ہے۔اور آپ کے ساتھ ایک نور اور نازل کردیا جس کا نام قرآن مبین تھا اور جس کی روشنی ناقابل اختتام تھی۔یہ بیک وقت دستور بھی تھا اوراعجاز بھی ۔سمندر بھی تھا اورچراغ بھی۔حق و باطل کاف رقان بھی تھا اوردین و ایمان کا برہان بھی۔اس میں ہر مرض کا علاج بھی تھا اور ہر بیماری کا مداوا بھی۔

اسے مالک نے سیرابی کا ذریعہ بھی بنایا تھا اور دلوں کی بہار بھی ۔نشان راہبھی قرار دیات ھا اورمنزل مقصود بھی۔جوشخص جس نقطہ نگاہ سے دیکھے اس کی تسکین کا سامان قرآن حکیم میں موجود ہے اور ایک کتاب ساری کائنات جن و انس کی ہدایت کے لئے کافی ہے بشر طیکہ اس کے مطالب ان لوگوں سے اخذ کئے جائیں جنہیں راسخون فی العلم بنایا گیا ہے اور جن کے علم قرآن کی ذمہ داری مالک کائنات نے لی ہے۔

۴۱۱

وانْفِصَامٍ مِنْ حَلْقَتِهَا - وانْتِشَارٍ مِنْ سَبَبِهَا وعَفَاءٍ مِنْ أَعْلَامِهَا - وتَكَشُّفٍ مِنْ عَوْرَاتِهَا وقِصَرٍ مِنْ طُولِهَا.

جَعَلَه اللَّه بَلَاغاً لِرِسَالَتِه وكَرَامَةً لأُمَّتِه - ورَبِيعاً لأَهْلِ زَمَانِه ورِفْعَةً لأَعْوَانِه وشَرَفاً لأَنْصَارِه.

القرآن الكريم

ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْه الْكِتَابَ نُوراً لَا تُطْفَأُ مَصَابِيحُه - وسِرَاجاً لَا يَخْبُو تَوَقُّدُه وبَحْراً لَا يُدْرَكُ قَعْرُه - ومِنْهَاجاً لَا يُضِلُّ نَهْجُه وشُعَاعاً لَا يُظْلِمُ ضَوْءُه - وفُرْقَاناً لَا يُخْمَدُ بُرْهَانُه وتِبْيَاناً لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُه - وشِفَاءً لَا تُخْشَى أَسْقَامُه - وعِزّاً لَا تُهْزَمُ أَنْصَارُه وحَقّاً لَا تُخْذَلُ أَعْوَانُه –

فَهُوَ مَعْدِنُ الإِيمَانِ وبُحْبُوحَتُه ويَنَابِيعُ الْعِلْمِ وبُحُورُه - ورِيَاضُ الْعَدْلِ وغُدْرَانُه وأَثَافِيُّ الإِسْلَامِ وبُنْيَانُه - وأَوْدِيَةُ الْحَقِّ وغِيطَانُه وبَحْرٌ لَا يَنْزِفُه الْمُسْتَنْزِفُونَ - وعُيُونٌ لَا يُنْضِبُهَا الْمَاتِحُونَ - ومَنَاهِلُ لَا يَغِيضُهَا الْوَارِدُونَ - ومَنَازِلُ لَا يَضِلُّ نَهْجَهَا الْمُسَافِرُونَ -

لگے۔اس کے حلقے ٹوٹنے لگے۔اس کے اسباب منتشر ہونے لگے۔اس کے نشانات مٹنے لگے' اس کے عیب کھلنے لگے اوراس کے دامن سمٹنے لگے۔

اللہ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ۔امت کی کرامت۔اہل زمانہ کی بہار' اعوان و انصارکی بلندی کا ذریعہ اور یارومددگار افراد کی شرافت کا واسطہ قرار دیا ہے۔

اس کے بعد ان پر اس کتاب کو ناز ل کیا جس کی قندیل بجھ نہیں سکتی ہے اور جس کے چراغ کی لو مدھم نہیں پڑ سکتی ہے وہ ایسا سمندر ہے جسے کی تھا ہ مل نہیں سکتی ہے اور ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بھٹک نہیں سکتا ہے۔ایسی شعاع جس کی ضوتاریک نہیں ہو سکتی ہے اور ایسا حق و باطل کا امتیاز جس کا برہان کمزورنہیں ہوسکتا ہے۔ایسی وضاحت جس کے ارکان منہدم نہیں ہو سکتے ہیں اور ایسی شفا جس میں بیماری کا کوئی خوف نہیں ہے۔ایسی عزت جس کے انصار پسپا نہیں ہوسکتے ہیں اور ایسا حق جس کے اعوان بے یارو مدد گارنہیں چھوڑے جا سکتے ہیں۔

یہ ایمان کا معدن ومرکز۔علم کا چشمہ اور سمندر' عدالت کا باغ اور حوض ' اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس ' حق کی وادی اور اس کاہموار میدان ہے۔یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہیں کر سکتے ہیں اور وہ چشمہ ہے جسے الچنے والے خشک نہیں کرس کتے ہیں۔وہ گھاٹ ہے جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہیں کر سکتے ہیں اور وہ منزل ہے جس کی راہ پر چلنے والے مسافر

۴۱۲

وأَعْلَامٌ لَا يَعْمَى عَنْهَا السَّائِرُونَ - وآكَامٌ لَا يَجُوزُ عَنْهَا الْقَاصِدُونَ جَعَلَه اللَّه رِيّاً لِعَطَشِ الْعُلَمَاءِ ورَبِيعاً لِقُلُوبِ الْفُقَهَاءِ - ومَحَاجَّ لِطُرُقِ الصُّلَحَاءِ ودَوَاءً لَيْسَ بَعْدَه دَاءٌ - ونُوراً لَيْسَ مَعَه ظُلْمَةٌ وحَبْلًا وَثِيقاً عُرْوَتُه - ومَعْقِلًا مَنِيعاً ذِرْوَتُه وعِزّاً لِمَنْ تَوَلَّاه - وسِلْماً لِمَنْ دَخَلَه وهُدًى لِمَنِ ائْتَمَّ بِه - وعُذْراً لِمَنِ انْتَحَلَه وبُرْهَاناً لِمَنْ تَكَلَّمَ بِه - وشَاهِداً لِمَنْ خَاصَمَ بِه وفَلْجاً لِمَنْ حَاجَّ بِه - وحَامِلًا لِمَنْ حَمَلَه ومَطِيَّةً لِمَنْ أَعْمَلَه - وآيَةً لِمَنْ تَوَسَّمَ وجُنَّةً لِمَنِ اسْتَلأَمَ - وعِلْماً لِمَنْ وَعَى وحَدِيثاً لِمَنْ رَوَى وحُكْماً لِمَنْ قَضَى

(۱۹۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كان يوصي به أصحابه

تَعَاهَدُوا أَمْرَ الصَّلَاةِ وحَافِظُوا عَلَيْهَا - واسْتَكْثِرُوا مِنْهَا وتَقَرَّبُوا بِهَا

بھٹک نہیں سکتے ہیں۔وہ نشان منزل ہے جو راہ گیروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا ہے اوروہ ٹیلہ ہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہیں جا سکتے ہیں۔

پروردگارنے اسے علماء کی سیرابی کا ذریعہ۔ فقہاء کے دلوں کی بہارصلحاء کے راستوں کے لئے شاہراہ قرار دیا ہے۔یہ وہ دواہے جس کے بعد کوئی مرض نہیں رہ سکتا اوروہنور ہے جس کے بعد کسی ظلمت کا امکان نہیں ہے۔وہ ریسمان ہے جس کے حلقے مستحکم ہیں۔اور پناہ گاہ ہے جس کی بلندی محفوظ ہے۔چاہنے والوں کے لئے عزت ' داخل ہونے والوں کے لئے سلامتی ۔اقتداء کرنے والوں کے لئیہدایت ' نسبت حاصل کرنے والوں کے لئے حجت ' بولنے والوں کے لئے برہان اور مناظرہ کرنے والوں کے لئے شاہد ہے۔بحث کرنے والوں کی کامیابی کاذریعہ اٹھانے والوں کے لئے بوجھ بٹانے والا عمل کرنے والوں کے لئے بہترین سواری ' حقیقت شاناسوں کے لئے بہترین نشانی اوراسلحہ سجنے والوں کے لئے بہترین سپر ہے۔فکرکرنے والوں کے لئے علم اور روایت کرنے والوں کے لئے حدیث اور قضاوت کرنے والوں کے لئے قطعی حکم اور فیصلہ ہے۔

(۱۹۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کی اصحاب کو وصیت فرمایا کرتے تھے )

دیکھو نمازکی پابندی اوراس کی نگہداشت کرو۔زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھو اور اسے تقرب الٰہی کاذریعہ قراردوکہ

۴۱۳

فَإِنَّهَا( كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً ) - أَلَا تَسْمَعُونَ إِلَى جَوَابِ أَهْلِ النَّارِ حِينَ سُئِلُوا -( ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ - قالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ) - وإِنَّهَا لَتَحُتُّ الذُّنُوبَ حَتَّ الْوَرَقِ - وتُطْلِقُهَا إِطْلَاقَ الرِّبَقِ - وشَبَّهَهَا رَسُولُ اللَّه - صلى الله عليه وآله وسلم -بِالْحَمَّةِ تَكُونُ عَلَى بَابِ الرَّجُلِ - فَهُوَ يَغْتَسِلُ مِنْهَا فِي الْيَوْمِ واللَّيْلَةِ خَمْسَ مَرَّاتٍ - فَمَا عَسَى أَنْ يَبْقَى عَلَيْه مِنَ الدَّرَنِ وقَدْ عَرَفَ حَقَّهَا رِجَالٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ –

الَّذِينَ لَا تَشْغَلُهُمْ عَنْهَا زِينَةُ مَتَاعٍ ولَا قُرَّةُ عَيْنٍ - مِنْ وَلَدٍ ولَا مَالٍ - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه -( رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ ولا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله - وإِقامِ الصَّلاةِ وإِيتاءِ الزَّكاةِ ) - وكَانَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَصِباً بِالصَّلَاةِ - بَعْدَ التَّبْشِيرِ لَه بِالْجَنَّةِ - لِقَوْلِ اللَّه سُبْحَانَه( وأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ واصْطَبِرْ عَلَيْها ) - فَكَانَ يَأْمُرُ بِهَا أَهْلَه ويَصْبِرُ عَلَيْهَا نَفْسَه.

یہ صاحبان ایمان کے لئے وقت کی پابندی کے ساتھ واجب کی گئی ہے۔کیا تم نے اہل جہنم کا جواب نہیں سنا کہ جب ان سے سوال کیا جائے گا کہ تمہیں کس چیزنے جہنم تک پہنچادیا ہے تو کہیں گے کہ ہم نمازی تھے ۔یہ نماز گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دیتی ہے جس طرح درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں اوراسی طرح گناہوں سے آزادی دلا دیتی ہے جس طرح جانورآزاد کئے جاتے ہیں۔رسول اکرم (ص) نے اسے اس گرم چشمہ سے تشبیہ دی ہے جوانسان کے دروازہ پر ہو اوروہاس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرے۔ظاہر ہے کہ اس پر کسی کثافت کے باقی رہ جانے کا امکان نہیں رہ جاتا ہے۔

اس کے حق کو واقعاً ان صاحبان ایمان نے پہچانا ہے جنہیں زینت متاع دنیا یا تجارت اورکاروبار کوئی شے بھی یاد خدا اور نماز و زکوٰة سے غافل نہیں بناسکی ہے۔رسول اکرم (ص) اس نمازکے لئے اپنے کو زحمت میں ڈالتے تھے حالانکہ انہیں جنت کی بشارت دی جاچکی تھی اس لئے کہ پروردگار نے فرمادیا تھا کہ اپنے اہل کونماز کا حکم دو اورخودبھی اس کی پابندی کرو تو آپ اپنے اہل کوحکم بھی دیتے تھے اورخود زحمت(۱) بھی برداشت کرتے تھے۔

(۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سرکار دو عالم (ص) نے نمازقائم کرنے کی راہمیں بے پناہ زحمتوں کاسامنا کیاہے۔ رات رات بھر مصلیٰ پرقایم کیا ہے اور طرح طرح کی دشمنوں کی اذیتیوں کو برداشت کیا ہے لیکن مالک کائنات نے اس کا اجر بھی بے حساب عنایت کیا ہے کہ نماز سرکار کی یاد کاب ہترین ذریعہ بنگئی ہے اوراس کے ذریعہ سرکار کی شخصیت اور رسالتکو ابدی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔نمازی اذان و اقامت ہی سے سرکار کا کلمہ پڑھنا شروع کردیتا ہے اور پھر تشہد و سلام تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس طرح تمام امتوں کا رشتہ ان کے پیغبمروں سے ٹوٹ چکا ہے لیکن امت اسلامیہ کا رشتہ سرکار دوعالم (ص) سے نہیں ٹوٹ سکتا ہے اور یہ نماز برابر آپ کی یاد کو زندہ رکھے گی اور مسلمانوں کو حسن کردار کی دعوت دیتی رہے گی۔

۴۱۴

الزكاة

ثُمَّ إِنَّ الزَّكَاةَ جُعِلَتْ مَعَ الصَّلَاةِ قُرْبَاناً لأَهْلِ الإِسْلَامِ - فَمَنْ أَعْطَاهَا طَيِّبَ النَّفْسِ بِهَا - فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَه كَفَّارَةً ومِنَ النَّارِ حِجَازاً ووِقَايَةً - فَلَا يُتْبِعَنَّهَا أَحَدٌ نَفْسَه ولَا يُكْثِرَنَّ عَلَيْهَا لَهَفَه - فَإِنَّ مَنْ أَعْطَاهَا غَيْرَ طَيِّبِ النَّفْسِ بِهَا - يَرْجُو بِهَا مَا هُوَ أَفْضَلُ مِنْهَا فَهُوَ جَاهِلٌ بِالسُّنَّةِ - مَغْبُونُ الأَجْرِ ضَالُّ الْعَمَلِ - طَوِيلُ النَّدَمِ.

الأمانة

ثُمَّ أَدَاءَ الأَمَانَةِ - فَقَدْ خَابَ مَنْ لَيْسَ مِنْ أَهْلِهَا - إِنَّهَا عُرِضَتْ عَلَى السَّمَاوَاتِ الْمَبْنِيَّةِ - والأَرَضِينَ الْمَدْحُوَّةِ والْجِبَالِ ذَاتِ الطُّولِ الْمَنْصُوبَةِ - فَلَا أَطْوَلَ ولَا أَعْرَضَ ولَا أَعْلَى ولَا أَعْظَمَ مِنْهَا - ولَوِ امْتَنَعَ شَيْءٌ بِطُولٍ أَوْ عَرْضٍ - أَوْ قُوَّةٍ أَوْ عِزٍّ لَامْتَنَعْنَ - ولَكِنْ أَشْفَقْنَ مِنَ الْعُقُوبَةِ - وعَقَلْنَ مَا جَهِلَ مَنْ هُوَ أَضْعَفُ مِنْهُنَّ وهُوَ الإِنْسَانُ -( إِنَّه كانَ ظَلُوماً جَهُولًا )

علم اللَّه تعالى

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى لَا يَخْفَى عَلَيْه - مَا الْعِبَادُ مُقْتَرِفُونَ فِي لَيْلِهِمْ ونَهَارِهِمْ - لَطُفَ بِه خُبْراً

اس کے بعد زکوٰة کو نماز کے(۱) ساتھ مسلمانوں کے لئے وسیلہ تقرب قرار دیاگیا ہے۔جو اسے طیب خاطر سے ادا کردے گا اس کے گناہوں کے لئے یہ کفارہ بن جائے گی اور اسے جہنم سے بچالے گی۔خبردار کوئی شخص اسے ادا کرنے کے بعد اس کے بارے میں فکرنہ کرے اور نہ اس کا افسوس کرے کہ طیب نفس کے بغیر ادا کرنے والا اور پھر اس سے بہتر اجرو ثواب کی امید کرنے والا سنت سے بے خبر اور اجرو ثواب کے اعتبار سے خسارہ میں ہے' اس کاعمل برباد اور اس کی ندامت دائمی ہے۔

اس کے بعد امانتوں کی ادائیگی کا خیال رکھو کہ امانت داری نہ کرنیوالا ناکام ہوتا ہے۔امانت کو بلند ترین آسمانوں ' فرش شدہ زینتوں اور بلند و بالا پہاڑوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے جن سے بظاہر طویل و عریض اور اعلیٰ و ارفع کوئی شے نہیں ہے اور اگر کوئی شے اپنے طول و عرض یا قوت و طاقت کی بناپ راپنے کو بچا سکتی ہے تو یہی چیزیں ہیں۔لیکن یہ سب خیانت کے عذاب سے خوف زدہ ہوگئے اوراس نکتہ کو سمجھ لیا جس کو ان سے ضعیف تر انسان نے نہیں پہچانا کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اور نا واقف تھا۔

پروردگار پر بندوں کے دن و رات کے اعمال میں سے کوئی شے مخفی نہیں ہے۔وہ لطافت کی بنا پرخبر رکھتا

(۱) زکوٰة کو نماز کے ساتھ بیان کرنے کا ظاہری فلسفہ یہ ہے کہ نماز عبدو معبود کے درمیان کا رشتہ ہے اور زکوٰة بندوں اور بندوں کے درمیان کا تعلق ہے اوراس طرح اسلام کا نصاب مکمل ہو جاتا ہے کہ مسلمان اپنے مالک کیاطاعت بھی کرتا ہے اوراپنے بنی نوع کے کمزور افراد کا خیال بھی رکھتا ہے اور ان کی شرکت کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتا ہے۔

۴۱۵

وأَحَاطَ بِه عِلْماً أَعْضَاؤُكُمْ شُهُودُه - وجَوَارِحُكُمْ جُنُودُه وضَمَائِرُكُمْ عُيُونُه وخَلَوَاتُكُمْ عِيَانُه

(۲۰۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معاوية

واللَّه مَا مُعَاوِيَةُ بِأَدْهَى مِنِّي ولَكِنَّه يَغْدِرُ ويَفْجُرُ - ولَوْ لَا كَرَاهِيَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ أَدْهَى النَّاسِ - ولَكِنْ كُلُّ غُدَرَةٍ فُجَرَةٌ وكُلُّ فُجَرَةٍ كُفَرَةٌ - ولِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يُعْرَفُ بِه يَوْمَ الْقِيَامَةِ».

واللَّه مَا أُسْتَغْفَلُ بِالْمَكِيدَةِ ولَا أُسْتَغْمَزُ بِالشَّدِيدَةِ

ہے اور علم کے اعتبار سے احاطہ رکھتا ے۔تمہارے اعضاء ہی اس کے گواہ ہیں اور تمہارے ہاتھ پائوں ہی اس کے لشکر ہیں۔تمہارے ضمیر اس کے جاسوس ہیں اور تمہار ی تنہائیاں بھی اس کی نگاہ کے سامنے ہیں۔

(۲۰۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(معاویہ کے بارے میں )

خداکی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار(۱) نہیں ہے لیکن کیاکروں کہ وہ مکرو فریب اور فسق و فجوربھی کر لیتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے نا پسند نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ ہوشیار کوئی نہ ہوتا لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ ہر مکرو فریب گناہ ہے اور ہر گناہ پروردگار کے احکام کی نا فرمانی ہے ہر غدارکے ہاتھ میں قیامت کے دن ایک جھنڈا دے دیا جائے گا جس سے اسے عرصہ محشر میں پہچان لیا جائے گا۔

خدا کی قسم مجھے نہ ان مکاریوں سے غفلت میں ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ان سختیوں سے دبایا جا سکتا ہے۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ جسے پروردگار نے نفس رسول (ص) قراردیا ہو اورخود سرکار دو عالم (ص) نے باب مدینہ علم قرار دیاہو اس سے زیادہ ہوشیار ہوشمند اور صاحب علم و ہنر کون ہوسکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود بعض نادان افراد کا خیال ہے کہ معایہ زیادہ ہوشیار اور زیرک تھا اور اسی لئے اس کی سیاست زیادہ کامیاب تھی۔حالانکہ اس کا راز ہوشیاری اورہوش مندی نہیں ہے۔بلکہ اس کا راز مکاری اور غداری ہے کہ معاویہ مقصد کے حصول کے لئے ہر وسیلہ کو جائز قرار دیتا تھا اور اس کا مقصد بھی صرف حصول اقتدار اورتحت حکومت تھا اور مولائے کائنات کی نگاہ میں نہمقصد وسیلہ کے جوازکا ذریعہ تھا اور نہ آپ کامقصد اقتدار دنی کا حصول تھا۔ آپ کا مقصد دین خدا کا قیام تھا اور اس راہمیں انسان کو ہر قدم پھونک پھونک کراٹھا ناپڑتا ہے اورہرسانس میں مرضی پر وردگار کاخیال رکھنا پڑتا ہے۔

۴۱۶

(۲۰۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يعظ بسلوك الطريق الواضح

أَيُّهَا النَّاسُ - لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِه - فَإِنَّ النَّاسَ قَدِ اجْتَمَعُوا عَلَى مَائِدَةٍ شِبَعُهَا قَصِيرٌ - وجُوعُهَا طَوِيلٌ.

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا يَجْمَعُ النَّاسَ الرِّضَا والسُّخْطُ - وإِنَّمَا عَقَرَ نَاقَةَ ثَمُودَ رَجُلٌ وَاحِدٌ - فَعَمَّهُمُ اللَّه بِالْعَذَابِ لَمَّا عَمُّوه بِالرِّضَا - فَقَالَ سُبْحَانَه( فَعَقَرُوها فَأَصْبَحُوا نادِمِينَ ) - فَمَا كَانَ إِلَّا أَنْ خَارَتْ أَرْضُهُمْ بِالْخَسْفَةِ - خُوَارَ السِّكَّةِ الْمُحْمَاةِ فِي الأَرْضِ الْخَوَّارَةِ

أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوَاضِحَ وَرَدَ الْمَاءَ - ومَنْ خَالَفَ وَقَعَ فِي التِّيه!

(۲۰۲)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

روِيَ عَنْه أَنَّه قَالَه عِنْدَ دَفْنِ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ فَاطِمَةَعليه‌السلام كَالْمُنَاجِي بِه رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عِنْدَ قَبْرِه.

(۲۰۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں واضح راستوں پرچلنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے )

ایہا الناس ! دیکھو ہدایت کے راستہ پرچلنے والوں کی قلت کی بنا پرچلنے سے مت گھبرائو کہ لوگوں نے ایک ایسے دستر خوان پر اجتماع کرلیا ہے جس میں سیر ہونے کی مدت بہت کم ہے اوربھوک کی مدت بہت طویل ہے۔

لوگو! یاد رکھو کہ رضا مندی اورناراضگی ہی سارے انسانوں کو ایک نقطہ پر جمع کر دیتی ہے۔ناقہ صالح کے پیرایک ہی انسان نے کاٹے تھے لیکن اللہ نے عذاب سب پر نازل کردیا کہ باقی لوگ اس کے عمل سے راضی تھے ۔اورفرمادیا کہ ان لوگوں نے ناقہ کے پیر کاٹ ڈالے اور آخر میں ندامت کا شکار ہوگئے۔ان کا عذاب یہ تھا کہ زمین جھٹکے سے گھڑگھڑانے لگی جس طرح کہ نرم زمین میں لوہے کی تپتی ہوئی پھالی چلائی جاتی ہے۔

لوگو!دیکھو جو روشن راستہ پرچلتا ہے وہ سر چشمہ تک پہنچ جاتا ہےاورجو اس کے خلاف کرتا ہےوہگمراہی میں پڑ جاتا ہے۔

(۲۰۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(کہا جاتا ہے کہ یہ کلمات سیدة النساء فاطمہ زہراء کے دفن کے موقع پر پیغمبراسلام (ص) سے راز دارانہ گفتگو کے اندازسے کہے گئے ہیں ۔

۴۱۷

السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّه عَنِّي - وعَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِي جِوَارِكَ - والسَّرِيعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ - قَلَّ يَا رَسُولَ اللَّه عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي ورَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِي - إِلَّا أَنَّ فِي التَّأَسِّي لِي بِعَظِيمِ فُرْقَتِكَ - وفَادِحِ مُصِيبَتِكَ مَوْضِعَ تَعَزٍّ - فَلَقَدْ وَسَّدْتُكَ فِي مَلْحُودَةِ قَبْرِكَ - وفَاضَتْ بَيْنَ نَحْرِي وصَدْرِي نَفْسُكَ - فَ( إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِيعَةُ وأُخِذَتِ الرَّهِينَةُ - أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ وأَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ - إِلَى أَنْ يَخْتَارَ اللَّه لِي دَارَكَ الَّتِي أَنْتَ بِهَا مُقِيمٌ - وسَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ أُمَّتِكَ عَلَى هَضْمِهَا - فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ واسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ - هَذَا ولَمْ يَطُلِ الْعَهْدُ ولَمْ يَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ - والسَّلَامُ عَلَيْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ لَا قَالٍ ولَا سَئِمٍ - فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ - وإِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ

سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول (ص) ! میری طرف سے اور آپ کی اس دختر کی طرف سے جوآپ کے جوار میں نازل ہو رہی ہے اوربہت جلدی آپ سے ملحق ہو رہی ہے۔ یا رسول اللہ (ص) ! میری قوت صبر آپ کی منتخب روز گار دختر کے بارے میں ختم ہوئی جا رہی ہے اور میری ہمت ساتھ چھوڑے دے رہی ہے صرف سہارا یہ ہے کہ میں نے آپ کے فراق کے عظیم صدمہ اورجانکاہ حادثہ پر صبر کرلیا ہے تواب بھی صبر کروں گا کہ میں نے ہی آپ کو قبر میں اتارا تھا اور میرے ہی سینہ پر سر رکھ کر آپ نے انتقال فرمایا تھا بہر حال میں اللہ ہی کے لئے ہوں اور مجھے بھی اس کی بارگاہ میں واپس جانا ہے۔آج امانت واپس چلی گئی اور جوچیز میری تحویل میں تھی وہ مجھ سے چھڑالی گئی۔اب میرا رنج و غم دائمی ہے اورمیرے راتیں نذر بیداری ہیں جب تک مجھے بھی پروردگار اس گھرتک نہ پہنچا دے جہاں آپ کا قیام ہے۔عنقریب آپ کی دختر نیک اختران حالات کی اطالع دے گی کہ کس طرح آپ کی امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کرلیا تھا آپ اس سے مفصل سوال فرمائیں اورجملہ حالات دریافت کریں۔

افسوس کہ یہ سب اس وقت ہوا ہے جب آپ کا زمانہ گزرے دیر نہیں ہوئی ہے اور ابھی آپ کاتذکرہ باقی ہے۔

میرا سلام ہو آپ دونوں پر۔اس شخص کا سلام جو رخصت کرنے والا ہے اور دل تنگ و ملول نہیں ہے ۔ میں اگراس قبر سے واپس چلا جائوں تو یہ کسی دل تنگی کا نتیجہ نہیں ہے اور اگر یہیں ٹھہر جائوں تو یہ اس وعدہ کی ہے اعتبار ہ ی

۴۱۸

بِمَا وَعَدَ اللَّه الصَّابِرِينَ.

(۲۰۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التزهيد من الدنيا والترغيب في الآخرة

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الدُّنْيَا دَارُ مَجَازٍ والآخِرَةُ دَارُ قَرَارٍ - فَخُذُوا مِنْ مَمَرِّكُمْ لِمَقَرِّكُمْ - ولَا تَهْتِكُوا أَسْتَارَكُمْ عِنْدَ مَنْ يَعْلَمُ أَسْرَارَكُمْ - وأَخْرِجُوا مِنَ الدُّنْيَا قُلُوبَكُمْ - مِنْ قَبْلِ أَنْ تَخْرُجَ مِنْهَا أَبْدَانُكُمْ - فَفِيهَا اخْتُبِرْتُمْ ولِغَيْرِهَا خُلِقْتُمْ - إِنَّ الْمَرْءَ إِذَا هَلَكَ قَالَ النَّاسُ مَا تَرَكَ؟ وقَالَتِ الْمَلَائِكَةُ مَا قَدَّمَ - لِلَّه آبَاؤُكُمْ فَقَدِّمُوا بَعْضاً يَكُنْ لَكُمْ قَرْضاً - ولَا تُخْلِفُوا كُلاًّ فَيَكُونَ فَرْضاً عَلَيْكُمْ.

(۲۰۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كان كثيرا ما ينادي به أصحابه

تَجَهَّزُوا رَحِمَكُمُ اللَّه فَقَدْ نُودِيَ فِيكُمْ بِالرَّحِيلِ وأَقِلُّوا الْعُرْجَةَ عَلَى الدُّنْيَا

نہیں ہے جو پروردگار نے صبرکرنے والوں سے کیا ہے۔

(۲۰۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(دنیا سے پرہیزاورآخرت کی ترغیب کے بارےمیں)

لوگو! یہ دنیا ایک گذر گاہ ہے ۔قرار کی منزل آخرت ہی ہے لہٰذا اس گزر گاہ سے وہاں کا سامان لے کرآگے بڑھو اور اس کے سامنے اپنے پردہ ٔ راز کو چاک مت کرو جو تمہارے اسرار سے با خبر ہے۔دنیا سے اپنے دلوں(۱) کو باہر نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدنکو یہاں سے نکالا جائے۔یہاں صرف تمہارا امتحان لیا جا رہا ہے ورنہ تمہاری خلقت کسی اور جگہ کے لئے ہے۔کوئی بھی شخص جب مرتا ہے تو ادھر والے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا چھوڑ کر گیا ہے اورادھرکے فرشتے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا لے کرآیا ہے ؟ اللہ تمہارا بھلاکرے کچھ وہاں بھیج دو جو مالک کے پاس تمہارے قرضہ کے طورپ ر رہے گا۔اور سب یہیں چھوڑ کرمت جائو کہ تمہارے ذمہ ایک بوجھ بن جائے ۔

(۲۰۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کے ذریعہ اپنے اصحاب کوآوازدیاکرتے تھے )

خدا تم پر رحم کرے تیار ہوجائو کہ تمہیں کوچ کرنےکے لئے پکارا جا چکا ہے اور خبر دار دنیا کی طرف زیادہ

(۱)اسلام کا مدعا ترک دنیا تمہیں ہے اور نہ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان رہبانیت کی زندگی گزارے۔اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا انسان کی زندگی کا وسیلہ رہے اور اس کے دل کا مکین نہ بننے پائے۔ورنہ حب دنیا انسان کو زندگی کے ہر خطرہ سے دوچار کرسکتی ہے اور اسے کسی بھی گڑھے میں گرا سکتی ہے۔

۴۱۹

- - وانْقَلِبُوا بِصَالِحِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ مِنَ الزَّادِ - فَإِنَّ أَمَامَكُمْ عَقَبَةً كَئُوداً ومَنَازِلَ مَخُوفَةً مَهُولَةً - لَا بُدَّ مِنَ الْوُرُودِ عَلَيْهَا والْوُقُوفِ عِنْدَهَا -. واعْلَمُوا أَنَّ مَلَاحِظَ الْمَنِيَّةِ نَحْوَكُمْ دَانِيَةٌ - وكَأَنَّكُمْ بِمَخَالِبِهَا وقَدْ نَشِبَتْ فِيكُمْ - وقَدْ دَهَمَتْكُمْ فِيهَا مُفْظِعَاتُ الأُمُورِ ومُعْضِلَاتُ الْمَحْذُورِ -. فَقَطِّعُوا عَلَائِقَ الدُّنْيَا واسْتَظْهِرُوا بِزَادِ التَّقْوَى.

وقد مضى شيء من هذا الكلام فيما تقدم - بخلاف هذه الرواية

(۲۰۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به طلحة والزبير - بعد بيعته بالخلافة وقد عتبا عليه من ترك مشورتهما،

والاستعانة في الأمور بهما

لَقَدْ نَقَمْتُمَا يَسِيراً وأَرْجَأْتُمَا كَثِيراً - أَلَا تُخْبِرَانِي أَيُّ شَيْءٍ كَانَ لَكُمَا فِيه حَقٌّ دَفَعْتُكُمَا عَنْه

توجہ مت کرو ۔جو بہترین زاد راہ تمہارے سامنے ہے اسے لے کر مالک کی بارگاہ کی طف پلٹ جائو کہ تمہارے سامنے ایک بڑی دشوار گزار گھاٹی ہے۔اورچند خطرنک اورخوفناک منزلیں ہیں جن پر بہر حال وارد ہونا ہے اور وہیں ٹھہرنا بھی ہے۔اوریہ یاد رکھو کہموت کی نگاہیں تم سے قریب تر ہوچکی ہیں اورتم اس کے پنجوں میں آچکے ہو جو تمہارے اندر گڑا ئے جا چکے ہیں۔موت کے شدید ترین مسائلاوردشوار ترین مشکلات تم پر چھا چکے ہیں ۔اب دنیا کے تعلقات کوختم کرو اورآخرت کے زاد راہ تقویکے ذریعہ اپنی طاقت کا انتظام کرو۔(واضح رہےکہ اس سے پہلے بھی اسی قسم کاایک کلام دوسری روایت کے مطابق گزر چکا ہے)

(۲۰۵)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں طلحہ و زبیر کو مخاطب بنایا گیا ہے جب ان دونوں نے بیعت کے باوجود مشورہ کرنے اورمدد نہ مانگنے پر آپ سے ناراضگی کا ظہار کیا )

تم نے معمولی سی بات پرتو غصہ کا اظہار کردیا لیکن بڑی باتوں کو پس پشت ڈال دیا۔کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ تمہارا کون ساحق(۱) ایسا ہے جس سے میں نے تم کو محروم

(۱)امیر المومنین نے ان تمام پہلوئوں کاتذکرہ اس لئے کیا ہے تاکہ طلحہ اور زبیر کی نیتوں کا محاسبہ کیا جاسکے اور ان کے عزائم کی حقیقتوں کوب ے نقاب کیا جاسکے کہ مجھ سے پہلے زمانوںمیں یہ تمام نقائص موجود تھے کبھی حقوق کی پامالی ہو رہی تھی ۔کبھی اسلامی سرمایہ کو اپنے گھرانے پر تقسیم کیا جا رہا تھا کبھی مقدمات میں فیصلہ سے عاجزی کا اعتراف تھا اور کبھی صریحی طور پر غلط فیصلہ کیا جارہا تھا۔لیکن اس کے باوجود تم لوگوں کی رگ حمیت و غیرت کو کوئی جنبش نہیں ہو ئی۔اورآج جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے تو تم بغاوت پر آمادہ ہوگئے ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا تعلق دین اور مذہب سے نہیں ہے۔تمہیں صرف اپنے مفادات سے تعلق ہے۔جب تک یہ مفادات محفوظ تھے 'تم نے ہر غلطی پر سکوتاختیار کیا اور آج جب مفادات خطرہ میں پڑ گئے ہیں تو شورش اورہنگامہ پرآمادہ ہوگئے ہو۔

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863