نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656828 / ڈاؤنلوڈ: 15924
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ظَاهِرُه أَنِيقٌ وبَاطِنُه عَمِيقٌ

لَا تَفْنَى عَجَائِبُه ولَا تَنْقَضِي غَرَائِبُه ولَا تُكْشَفُ الظُّلُمَاتُ إِلَّا بِه.

(۱۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للأشعث بن قيس وهو على منبر الكوفة يخطب، فمضى في بعض كلامه شيء اعترضه الأشعث فيه، فقال: يا أمير المؤمنين، هذه عليك لا لك، فخفضعليه‌السلام إليه بصره ثم قال:

مَا يُدْرِيكَ مَا عَلَيَّ مِمَّا لِي عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّه ولَعْنَةُ اللَّاعِنِينَ حَائِكٌ ابْنُ حَائِكٍ مُنَافِقٌ ابْنُ كَافِرٍ واللَّه لَقَدْ أَسَرَكَ الْكُفْرُ مَرَّةً والإِسْلَامُ

أُخْرَى فَمَا فَدَاكَ مِنْ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مَالُكَ ولَا حَسَبُكَ وإِنَّ امْرَأً دَلَّ عَلَى قَوْمِه السَّيْفَ وسَاقَ إِلَيْهِمُ الْحَتْفَ لَحَرِيٌّ أَنْ يَمْقُتَه الأَقْرَبُ ولَا يَأْمَنَه الأَبْعَدُ!

قال السيد الشريف يريدعليه‌السلام أنه أسر في الكفر مرة وفي الإسلام مرة. وأما قولهعليه‌السلام دل على قومه السيف فأراد به حديثا كان للأشعث مع خالد بن الوليد باليمامة غر فيه قومه ومكر بهم حتى أوقع بهم خالد وكان قومه بعد ذلك يسمونه عرف النار وهو اسم للغادر عندهم.

جس کا ظاہرخوبصورت اورب اطن عمیق اور گہرا ہے اس کے عجائب فنا ہونے والے نہیں ہیں اور تاریکیوں کاخاتمہ اس کےعلاوہ اور کسی کلام سے نہیں ہو سکتا ہے۔

(۱۹)

آپ کا ارشاد گرامی

جسے اس وقت فرمایا جب منبر کوفہ پر خطبہ دے رہے تھے اوراشعث بن قیس نے ٹوک دیا کہ یہ بیان آپ خود اپنے خلاف دے رہے ہیں۔ آپ نے پہلے نگاہوں کونیچا کرکے سکوت فرمایا اور پھرپر جلال انداز سے فرمایا:

تجھے کیاخبرکہ کون سی بات میرےموافق ہے اور کون سی میرے خلاف ہےتجھ پرخدا اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت۔تو سخن باف اور تانے بانے درست کرنے والے کافرزند ہےتو منافق ہے اورتیرا باپ کھلا ہوا کافر تھا۔خدا کی قسم توایک مرتبہ کفر کا قیدی بنا اوردوسری مرتبہ اسلام کا لیکن نہ تیرا مال کامآیا نہ حسب۔اورجوشخص بھی اپنی قوم کی طرف تلوار کو راستہ بتائے گا اور موت کو کھینچ کرلائے گا وہ اس بات کاحقدار ہےکہ قریب والےاس سے نفرت کریں اوردوروالےاس پربھروسہ نہ کریں۔

(سیدرضی:امام کامقصدیہ ہے کہ اشعث بن قیس ایک مرتبہ دور کفرمیں قیدی بنا تھااور دوسری مرتبہ اسلام لانےکے بعد!۔تلوارکی رہنمائی کا مقصدیہ ہےکہ جب یمامہ میں خالد بن ولیدنےچڑھائی کی تواس نےاپنی قوم سے غداری کی اورسب کوخالدکی تلوارکےحوالہ کردیا جس کے بعدسے اس کالقب''عرف النار''ہوگیاجواس دورمیں ہرغدارکالقب ہواکرتا تھا)۔

۴۱

(۲۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه ينفر من الغفلة وينبه إلى الفرار للَّه

فَإِنَّكُمْ لَوْ قَدْ عَايَنْتُمْ مَا قَدْ عَايَنَ مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ - لَجَزِعْتُمْ ووَهِلْتُمْ وسَمِعْتُمْ وأَطَعْتُمْ - ولَكِنْ مَحْجُوبٌ عَنْكُمْ مَا قَدْ عَايَنُوا - وقَرِيبٌ مَا يُطْرَحُ الْحِجَابُ - ولَقَدْ بُصِّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ وأُسْمِعْتُمْ إِنْ سَمِعْتُمْ - وهُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ - وبِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ لَقَدْ جَاهَرَتْكُمُ الْعِبَرُ وزُجِرْتُمْ بِمَا فِيه مُزْدَجَرٌ - ومَا يُبَلِّغُ عَنِ اللَّه بَعْدَ رُسُلِ السَّمَاءِ إِلَّا الْبَشَرُ.

(۲۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي كلمة جامعة للعظة والحكمة

فَإِنَّ الْغَايَةَ أَمَامَكُمْ وإِنَّ وَرَاءَكُمُ السَّاعَةَ تَحْدُوكُمْ

(۲۰)

آپ کا ارشاد گرامی

جس میں غفلت سے بیدار کیا گیا ہے اور خدا کی طرف دوڑ کرآنے کی دعوت دی گئی ہے

یقینا جن حالات کو تم سے پہلے مرنے والوں نے دیکھ لیا ہے اگر تم بھی دیکھ لیتے تو پریشان و مضطرب ہو جاتے اور بات سننے اور اطاعت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابھی وہ چیزیں تمہارے لئے پس حجاب ہیں اور عنقریب یہ پردہ اٹھنے والا ہے۔بیشک تمہیں سب کچھ دکھایا جا چکا ہے اگر تم نگاہ بینا رکھتے ہو اور سب کچھ سنایا جا چکا ہے اگرتم گوش شنوار رکھتے ہو اور تمہیں ہدایت دی جا چکی ہے اگرتم ہدایت حاصل کرنا چاہو اور میں بالکل برحق کہہ رہا ہوں کہ عبرتیں تمہارے سامنے کھل کر آچکی ہیں اورتمہیں اس قدر ڈرایا جا چکا ہے جو بقدر کافی ہے اور ظاہر ہے کہ آسمانی فرشتوں کے بعد الٰہی پیغام کو انسان ہی پہنچانے والا ہے۔

(۲۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

بیشک منزل مقصود تمہارے سامنے ہے اور ساعت موت تمہارے تعاقب میں ہے اور تمہیں اپنے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔

۴۲

تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

قال السيد الشريف أقول إن هذا الكلام لو وزن بعد كلام الله سبحانه وبعد كلام رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله بكل كلام لمال به راجحا وبرز عليه سابقا. فأما قولهعليه‌السلام تخففوا تلحقوا فما سمع كلام أقل منه مسموعا ولا أكثر منه محصولا وما أبعد غورها من كلمة وأنقع نطفتها من حكمة وقد نبهنا في كتاب الخصائص على عظم قدرها وشرف جوهرها.

(۲۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حين بلغه خبر الناكثين ببيعته وفيها يذم عملهم ويلزمهم دم عثمان ويتهددهم بالحرب

اپنا بوجھ(۱) ہلکا کر لو تاکہ پہلے والوں سے ملحق ہو جائو کہ ابھی تمہارے سابقین سے تمہارا انتظار کرایا جا رہا ہے۔

سید رضی: اس کلام کو کلام خدا و رسول (ص) کے بعد کسی کلام کے ساتھ رکھ دیا جائے تو اس کا پلہ بھاری ہی رہے گا اور یہ سب سے آگے نکل جائے گا۔'' تحففوا لحقوا'' سے زیادہ مختصر اوربلیغ کلام تو کبھی دیکھا اور سنا ہی نہیں گیا ہے۔اسی کلمہ میں کس قدر گہرائی پائی جاتی ہے اور اس حکمت کا چشمہ کس قدرشفاف ہے۔ہم نے کتاب خصائص میں اس کی قدرو قیمت اور عظمت و شرافت پر مکمل تبصر ہ کیا ہے۔

(۲۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت توڑدی ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہ انسانی زندگی کے لئے ایک بوجھ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی بوجھ ہے جو انسان کوآگے نہیں بڑھنے دیتا ہے اور وہ اسی دنیا داری میں مبتلا رہ جاتا ہے ورنہ انسان کا بوجھ ہلکا ہو جائے تو تیز قدم بڑھا کر ان سابقین سے ملحق ہو سکتا ہے جو نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہوئے بلند ترین منزلوں تک پہنچ گئے ہیں۔

امیر المومنین کی دی ہوئی یہ مثال وہ ہے جس کا تجربہ ہر انسان کی زندگی میں برابر سامنے آتا رہتا ہے کہ قافلہ میں جس کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے اور جس کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔صری مشکل یہ ہے کہ انسان کو گناہوں کے پوجھ ہونے کا احساس نہیں ہے۔شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

چلنے نہ دیا بار گنہ نے پیدل

تابوت میں کاندھوں پر سوارآیا ہوں

۴۳

ذم الناكثين

أَلَا وإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ ذَمَّرَ حِزْبَه واسْتَجْلَبَ جَلَبَه لِيَعُودَ الْجَوْرُ إِلَى أَوْطَانِه ويَرْجِعَ الْبَاطِلُ إِلَى نِصَابِه واللَّه مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً - ولَا جَعَلُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ نَصِفاً.

دم عثمان

وإِنَّهُمْ لَيَطْلُبُونَ حَقّاً هُمْ تَرَكُوه ودَماً هُمْ سَفَكُوه - فَلَئِنْ كُنْتُ شَرِيكَهُمْ فِيه فَإِنَّ لَهُمْ لَنَصِيبَهُمْ مِنْه - ولَئِنْ كَانُوا وَلُوه دُونِي فَمَا التَّبِعَةُ إِلَّا عِنْدَهُمْ - وإِنَّ أَعْظَمَ حُجَّتِهِمْ لَعَلَى أَنْفُسِهِمْ - يَرْتَضِعُونَ أُمّاً قَدْ فَطَمَتْ ويُحْيُونَ بِدْعَةً قَدْ أُمِيتَتْ - يَا خَيْبَةَ الدَّاعِي مَنْ دَعَا وإِلَامَ أُجِيبَ - وإِنِّي لَرَاضٍ بِحُجَّةِ اللَّه عَلَيْهِمْ وعِلْمِه فِيهِمْ.

آگاہ ہو جائو کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کردیا ہے اور فوج کوجمع کرلیا ہے تاکہ ظلم اپنی منزل پر پلٹ آئے اور باطل اپنے مرکز کی طرف واپس آجائے۔خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ مجھ پر کوئی سچا الزام لگایا ہے اور نہ میرے اور اپنے درمیان کوئی انصاف کیا ہے۔

یہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جو خود انہوں نے نظر انداز کیا ہے اور اس خون کا تقاضا کر رہے ہیں جوخود انہوں نے بہایا ہے۔پھر اگر میں ان کے ساتھ شریک تھا تو ان کا بھی تو ایک حصہ تھا اور وہ تنہا مجرم تھے تو ذمہ داری بھی انہیں پر ہے۔بیشک ان کی عظیم ترین دلیل بھی انہیں کے خلاف ہے۔یہ اس ماں سے دود ھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ ختم ہو چکا ہے اور اس بدعت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جو مر چکی(۱) ہے۔ ہائے کس قدر نا مراد یہ جنگ کا داعی(۲) ہے۔کون پکا ر رہا ہے ؟ اور کس مقصد کے لئے اس کی بات سنی جا رہی ہے ؟ میں اس بات سے خوش ہوں کہ پروردگار کی حجت ان پر تمام ہو چکی ہے اور وہ ان کے حالات سے با خبر ہے۔

(۱)تاریخ کا مسلمہ ہے کہ عثمان نے اپنے دور حکومت میں اپنے پیشر و تمام حکام کے خلاف اقربا پرستی اوربیت المال کی بے بنیاد تقسیم کا بازار گرم کر دیا تھا اور یہی بات ان کے قتل کا بنیادی سبب بن گئی۔ظاہر ہے کہ ان کے قتل کے بعد یہ بدعت بھی مردہ ہوچکی تھی لیکن طلحہ نے امیر المومنین سے بصرہ کی گورنری اور زبیر نے کوفہ کی گورنری کا مطالبہ کرکے پھر اس بدعت کو زندہ کرنا چاہا جو ایک امام معصوم کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا ہے چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔

(۲)ابن ابی الحدید کے نزدیک داعی سے مراد طلحہ'زبیر اور عائشہ ہیں جنہوں نے آپ کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی تھی لیکن انجام کار سب کو ناکام اور نا مراد ہونا پڑا اور کوئی نتیجہ ہاتھ نہ آیا جس کی طرف آپ نے تحقیر آمیز لہجہ میں اشارہ کیاہے اور صاف واضح کردیا ہے کہ میں جنگ سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔تلوار میرا تکیہ ہے اور یقین میرا سہارا۔اس کے بعد مجھے کس چیز سے خوفزدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۴

التهديد بالحرب

فَإِنْ أَبَوْا أَعْطَيْتُهُمْ حَدَّ السَّيْفِ - وكَفَى بِه شَافِياً مِنَ الْبَاطِلِ ونَاصِراً لِلْحَقِّ - ومِنَ الْعَجَبِ بَعْثُهُمْ إِلَيَّ أَنْ أَبْرُزَ لِلطِّعَانِ وأَنْ أَصْبِرَ لِلْجِلَادِ - هَبِلَتْهُمُ الْهَبُولُ لَقَدْ كُنْتُ ومَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ ولَا أُرْهَبُ بِالضَّرْبِ وإِنِّي لَعَلَى يَقِينٍ مِنْ رَبِّي وغَيْرِ شُبْهَةٍ مِنْ دِينِي

(۲۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وتشتمل على تهذيب الفقراء بالزهد وتأديب الأغنياء بالشفقة

تهذيب الفقراء

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الأَمْرَ يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ كَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ إِلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ فَإِنْ رَأَى أَحَدُكُمْ لأَخِيه غَفِيرَةً فِي أَهْلٍ أَوْ مَالٍ أَوْ نَفْسٍ فَلَا تَكُونَنَّ لَه فِتْنَةً فَإِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ مَا لَمْ يَغْشَ دَنَاءَةً تَظْهَرُ فَيَخْشَعُ لَهَا إِذَا ذُكِرَتْ ويُغْرَى بِهَا لِئَامُ النَّاسِ كَانَ كَالْفَالِجِ الْيَاسِرِ الَّذِي يَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزَةٍ مِنْ قِدَاحِه تُوجِبُ لَه الْمَغْنَمَ ويُرْفَعُ بِهَا عَنْه الْمَغْرَمُ

اب اگر ان لوگوں نے حق کا انکار کیا ہے تو میں انہیں تلوار کی باڑھ عطا کروں گا کہ وہی باطل کی بیماری سے شفا دینے والی اور حق کی واقعی مددگار ہے۔حیرت انگیز بات ہے کہ یہ لوگ مجھے نیزہ بازی کے میدان میں نکلنے اور تلوار کی جنگ سہنے کی دعوت دے رہے ہیں۔رونے والیاں ان کے غم میں روئیں۔مجھے تو کبھی بھی جنگ سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ میں شمشیر زنی سے مرعوب ہوا ہوں میں تو اپنے پروردگار کی طرف سے منزل یقین پر ہوں اور مجھے دین کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے۔

(۲۳)

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ

یہ خطبہ فقراء کی تہذیب اور ثروت مندوں کی شفقت پر مشتمل ہے

امام بعد! انسان کے مقسوم میں کم یا زیادہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا امرآسمان سے زمین کی طرف بارش کے قطرات کی طرح نازل ہوتا ہے۔لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے بھائی کے پاس اہل و مال یا نفس کی فراوانی دیکھے تو اس کے لئے فتنہ نہ بنے۔کہ مرد مسلم کے کردار میں اگر ایسی پستی نہیں ہے جس کے ظاہر ہو جانے کے بعد جب بھی اس کاذکر کیا جائے اس کی نگاہ شرم سے جھک جائے اور پست لوگو کے حوصلے اس سے بلند ہو جائیں تو اس کی مثال اس کامیاب جواری کی ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک

کر پہلے ہی مرحلہ میں کامیابی کا انتظار کرتا ہے جس سے فائدہ حاصل ہو اور گذشتہ فساد کی تلافی ہو جائے۔

۴۵

وكَذَلِكَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ الْبَرِيءُ مِنَ الْخِيَانَةِ يَنْتَظِرُ مِنَ اللَّه إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ إِمَّا دَاعِيَ اللَّه فَمَا عِنْدَ اللَّه خَيْرٌ لَه وإِمَّا رِزْقَ اللَّه فَإِذَا هُوَ ذُو أَهْلٍ ومَالٍ ومَعَه دِينُه وحَسَبُه وإِنَّ الْمَالَ والْبَنِينَ حَرْثُ الدُّنْيَا والْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الآخِرَةِ - وقَدْ يَجْمَعُهُمَا اللَّه تَعَالَى لأَقْوَامٍ - فَاحْذَرُوا مِنَ اللَّه مَا حَذَّرَكُمْ

مِنْ نَفْسِه - واخْشَوْه خَشْيَةً لَيْسَتْ بِتَعْذِيرٍ واعْمَلُوا فِي غَيْرِ رِيَاءٍ ولَا سُمْعَةٍ - فَإِنَّه مَنْ يَعْمَلْ لِغَيْرِ اللَّه يَكِلْه اللَّه لِمَنْ عَمِلَ لَه نَسْأَلُ اللَّه مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ ومُعَايَشَةَ السُّعَدَاءِ - ومُرَافَقَةَ الأَنْبِيَاءِ.

تأديب الأغنياء

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّه لَا يَسْتَغْنِي الرَّجُلُ - وإِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ - عِتْرَتِه ودِفَاعِهِمْ عَنْه بِأَيْدِيهِمْ وأَلْسِنَتِهِمْ - وهُمْ أَعْظَمُ النَّاسِ حَيْطَةً مِنْ وَرَائِه وأَلَمُّهُمْ لِشَعَثِه وأَعْطَفُهُمْ عَلَيْه عِنْدَ نَازِلَةٍ إِذَا نَزَلَتْ بِه - ولِسَانُ الصِّدْقِ يَجْعَلُه اللَّه لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ - خَيْرٌ لَه مِنَ الْمَالِ يَرِثُه غَيْرُه.

.

یہی حال اس مرد مسلمان کا ہے جس کا دامن خیانت سے پاک ہو کہ وہ ہمیشہ پروردگار سے دو میں سے ایک نیکی کا امید وار رہتا ہے یا داعی اجل آجائے تو جو کچھ اس کی بارگاہ میں ہے وہ اس دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے یا رزق خدا حاصل ہو جائے تو وہ صاحب اہل و مال بھی ہوگا اور اس کا دین اور وقار بھی بر قرار رہے گا۔یاد رکھو مال اور اولاد دنیا کی کھیتی ہے اور عمل صالح آخرت کی کھیتی ہے اور کبھی کبھی پروردگار بعض اقوام کے لئے دونوں کوجمع کردیتا ہے لہٰذا خدا سے اس طرح ڈرو جس طرح اس نے ڈرنے کا حکم دیا ہے اور اس کا خوف اس طرح پیدا کرو کہ پھر معذرت نہ کرنا پڑے۔عمل کرو۔ تو دکھانے سنانے سے الگ رکھو کہ جو شخص بھی غیر خدا کے واسطے عمل کرتاہے خدا اسے اسی شخص کے حوالے کردیتا ہے۔میںپروردگار سے شہیدوں کی منزل۔نیک بندوں کی صحبت اور انبیاء کرام کی رفاقت کی دعاکرتا ہوں۔

ایہا الناس! یاد رکھو کہ کوئی شخص کسی قدر بھی صاحب مال کیوں نہ ہو جائے اپنے قبیلہ اور ان لوگوں کے ہاتھ اور زبان کے ذریعہ دفاع کرنے سے بے نیاز نہی ہو سکتا ہے۔یہ لوگ انسان کے بہترین محافظ ہوتے ہیں اس کی پراگندگی کے دور کرنے والے اورمصیبت کے نزول کے وقت اس کے حال پر مہربان ہوتے ہیں۔پروردگار بندہ کے لئے جوذکرخیر لوگوں کے درمیان قرار دیتا ہے وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے جس کے وارث دوسرے افراد ہو جاتے ہیں۔

۴۶

ومنها أَلَا لَا يَعْدِلَنَّ أَحَدُكُمْ عَنِ الْقَرَابَةِ يَرَى بِهَا الْخَصَاصَةَ أَنْ يَسُدَّهَا بِالَّذِي لَا يَزِيدُه إِنْ أَمْسَكَه - ولَا يَنْقُصُه إِنْ أَهْلَكَه ومَنْ يَقْبِضْ يَدَه عَنْ عَشِيرَتِه - فَإِنَّمَا تُقْبَضُ مِنْه عَنْهُمْ يَدٌ وَاحِدَةٌ - وتُقْبَضُ مِنْهُمْ عَنْه أَيْدٍ كَثِيرَةٌ - ومَنْ تَلِنْ حَاشِيَتُه يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِه الْمَوَدَّةَ.

قال السيد الشريف أقول الغفيرة هاهنا الزيادة والكثرة من قولهم للجمع الكثير الجم الغفير والجماء الغفير - ويروى عفوة من أهل أو مال - والعفوة الخيار من الشيء يقال أكلت عفوة الطعام أي خياره. وما أحسن المعنى الذي أرادهعليه‌السلام بقوله ومن يقبض يده عن عشيرته... إلى تمام الكلام - فإن الممسك خيره عن عشيرته إنما يمسك نفع يد واحدة - فإذا احتاج إلى نصرتهم واضطر إلى مرافدتهم قعدوا عن نصره وتثاقلوا عن صوته - فمنع ترافد الأيدي الكثيرة وتناهض الأقدام الجمة

آگاہ ہو جائو کہ تم سے کوئی شخص بھی اپنے اقربا(۱) کومحتاج دیکھ کر اس مال سے حاجت برآری کرنے سے گریز نہ کرے جو باقی رہ جائے تو بڑھ نہیں جائے گا اورخرچ کردیا جائے تو کم نہیں ہو جائے گا۔اس لئے کہ جو شخص بھی اپنے عشیرہ اورقبیلہ سے اپنا ہاتھ روک لیتا ہے تو اس قبیلہ سے ایک ہاتھ رک جاتا ہے اور خود اس کے لئے بیشمار ہاتھ رک جاتے ہیں۔اور جس کے مزاج میں نرمی ہوتی ہے وہ قوم کی محبت کو ہمیشہ کے لئے حاصل کر لیتا ہے۔

سید رضی: اس مقام پر غفیرہ کثرت کے معنی میں ہے جس طرح جمع کثیر کو جمع کثری کہا جاتا ہے۔بعض روایات میں غفیرہ کے بجائے عفوہ ہے جو منتخب اور پسندیدہ شے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے'' عفوہ الطعام'' پسندیدہ کھانے کوکہا جاتا ہے اور امام علیہ نے اس مقام پر بہترین نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کسی نے اپنا ہاتھ عشیرہ سے کھینچ لیا تو گویا کہ ایک ہاتھ کم ہوگیا۔لیکن جب اسے ان کی نصرت اور امداد کی ضرورت ہوگی اوروہ ہاتھ کھینچ لیں گے اور اس کی آواز پر لبیک نہیں کہیں گے تو بہتے سے بڑھنے والے ہاتھوں اور اٹھنے والے قدموں سے محروم ہو جائے گا۔

(۱)اگرچہ اسلام نے بظاہر فقیر کو غنی کے مال میں یا رشتہ دار کو رشتہ دارکے مال میں شریک نہیں بنایا ہے لیکن اس کا یہ فلسفہ کہ تمام املاک دنیا کا مالک حقیقی پروردگار ہے اور اس کے اعتبارسے تمام بندے ایک جیسے ہیں۔سب اس کے بندے ہیں اور سب کے رزق کی ذمہ داری اسی کی ذات اقدس پر ہے۔اس امرکی علامت ہے کہ اس نے ہر غنی کے مال میں ایک حصہ فقیروں اورمحتاجوں کا ضرور قرار دیا ہے اوراسے جبراً واپس نہیں لیا ہے بلکہ خود غنی کو انفاق کا حکم دیا ہے تاکہ مال اس کے اختیار سے فقیر تک جائے۔اس طرح وہ آخرت میں اجرو ثواب کا حقدار ہو جائے گا اور دنای میں فقیر کے دل میں اس کی جگہ ن جائے گی جو صاحبان ایمان کاش رف ہے کہ پروردگار لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت قرار دے دیتا ہے۔ پھر اس انفاق میں کسی طرح کا نقصان بھی نہیں ہے۔مال یوں ہی باقی رہ گیا تو بھی دوسروں ہی کے کام آئے گا تو کیوں نہ ایسا ہو کہ اسی کے کام آجائے جس کے زور بازو نے جمع کیا ہے اور پھروہ جماعت بھی ہاتھ آجائے جو کسی وقت بھی کام آسکتی ہے۔جگر جگر ہوتا ہے اور دگردگر ہوتا ہے۔

۴۷

(۲۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي كلمة جامعة له، فيها تسويغ قتال المخالف، والدعوة إلى طاعة اللَّه،

والترقي فيها لضمان الفوز

ولَعَمْرِي مَا عَلَيَّ مِنْ قِتَالِ مَنْ خَالَفَ الْحَقَّ وخَابَطَ الْغَيَّ مِنْ إِدْهَانٍ ولَا إِيهَانٍ فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وفِرُّوا إِلَى اللَّه مِنَ اللَّه - وامْضُوا فِي الَّذِي نَهَجَه لَكُمْ وقُومُوا بِمَا عَصَبَه بِكُمْ فَعَلِيٌّ ضَامِنٌ لِفَلْجِكُمْ آجِلًا إِنْ لَمْ تُمْنَحُوه عَاجِلًا.

(۲۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وقد تواترت عليه الأخبارباستيلاء أصحاب معاوية على البلاد وقدم عليه عاملاه على اليمن وهما عبيد الله بن عباس وسعيد بن نمران لما غلب عليهما بسر بن أبي أرطاة

(۲۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں اطاعت خداکی دعوت دی گئی ہے

میری جان کی قسم! میں حق کی مخالفت کرنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جہاد کرنے میں نہ کوئی نرمی کر سکتا ہوں اور نہ سستی اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس کے غضب سے فرار کرکے اس کی رحمت میں پناہ لو۔اس راستہ پر چلو جو اس نے بنادیا ہے۔اوران احکام پرعمل کروجنہیں تم سے مربوط کردیا گیا ہے۔اس کے بعد علی تمہاری کامیابی کا آخرت میں بہر حال ذمہ دار ہے چاہے دنیا میں حاصل نہ ہوسکے

(۲۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب آپ کو مسلسل(۱) خبردی گئی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے اور آپ کے دو عامل یمن عبید اللہ بن عباس اورسعید بن نمران بسر بن ابی ارطاة کے مظالم سے پریشان ہو کرآپ کی خدمت میں آگئے۔

(۱)امیر المومنین کی خلافت کا جائزہ لیا جائے تو مصائب و مشکلات میں سرکار دوعالم (ص) کے دور رسالت سے کچھ کم نہیں ہے۔آپ نے تیرہ سال مکہ میں مصیبتیں برداشت کی اور دس سال مدینہ میں جنگوں کا مقابلہ کرتے رہے اور یہی حال مولائے کائنات کا رہا۔ذی الحجہ ۳۵ھ میں خلافت ملی اور ماہ مبارک ۴۰ھ میں شہید ہوگئے۔کل دور حکومت ۴ سال ۹ ماہ ۲ دن رہا اوراس میں بھی تین بڑ ے بڑے معرکے ہوئے اور چھوٹی چھوٹی جھڑپیں مسلسل ہوتی رہیں۔جہاں علاقوں پر قبضہ کیا جا رہا تھا اور چاہتے والوں کو اذیت دی جا رہی تھی۔معاویہ نے عمرو عاص کے مشورہ سے بسر بن ابی ارطاة کو تلاش کرلیا تھا اوراس جلاد کو مطلق العنان بنا کرچھوڑ دیا تھا۔ظاہر ہے کہ'' پاگل کتے '' کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو شہر والوں کا کیا حال ہوگا اور علاقہ کے امن و امان میں کیا باقی رہ جائے گا۔

۴۸

فقامعليه‌السلام على المنبر ضجرا بتثاقل أصحابه عن الجهاد ومخالفتهم له في الرأي فقال:

مَا هِيَ إِلَّا الْكُوفَةُ أَقْبِضُهَا وأَبْسُطُهَا إِنْ لَمْ تَكُونِي إِلَّا أَنْتِ تَهُبُّ أَعَاصِيرُكِ فَقَبَّحَكِ اللَّه!

وتَمَثَّلَ بِقَوْلِ الشَّاعِرِ

لَعَمْرُ أَبِيكَ الْخَيْرِ يَا عَمْرُو إِنَّنِي

عَلَى وَضَرٍ مِنْ ذَا الإِنَاءِ قَلِيلِ

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام

أُنْبِئْتُ بُسْراً قَدِ اطَّلَعَ الْيَمَنَ وإِنِّي واللَّه لأَظُنُّ أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ سَيُدَالُونَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلَى بَاطِلِهِمْ وتَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ - وبِمَعْصِيَتِكُمْ إِمَامَكُمْ فِي الْحَقِّ وطَاعَتِهِمْ إِمَامَهُمْ فِي الْبَاطِلِ وبِأَدَائِهِمُ الأَمَانَةَ إِلَى صَاحِبِهِمْ وخِيَانَتِكُمْ وبِصَلَاحِهِمْ فِي بِلَادِهِمْ وفَسَادِكُمْ فَلَوِ ائْتَمَنْتُ أَحَدَكُمْ عَلَى قَعْبٍ لَخَشِيتُ أَنْ يَذْهَبَ بِعِلَاقَتِه

اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ ومَلُّونِي وسَئِمْتُهُمْ وسَئِمُونِي

تو آپ نے اصحاب کی کوتاہی جہاد سے بد دل ہو کر منبر پر کھڑے ہو کریہ خطبہ ارشاد فرمایا: اب یہی کوفہ ہے جس کا بست و کشاد میرے ہاتھ میں ہے۔اے کوفہ اگر توایسا ہی رہا اور یونہی تیری آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تیرا برا کرے گا۔

( اس کے بعد شاعرکے اس شعر کی تمثیل بیان فرمائی) اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم' مجھے تو اس برتن کی تہ میں لگی ہوئی چکنائی ہی ملی ہے۔

اس کے بعد فرمایا: مجھے خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن تک آگیا ہے اور خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار کو چھین لیں گے۔اس لئے کہ یہ اپنے باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ہو۔یہ اپنے پیشوا کی باطل میں(۱) اطاعت کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی حق میں بھی نا فرمانی کرتے ہو۔یہ اپنے مالک کی امانت اس کے حوالے کر دیتے ہیں اور تم خیانت کرتے ہو۔یہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اورتم اپنے شہر میں بھی فساد کرتے ہو۔میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالہ کا بھی امین بنائوں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے کر بھاگ جائے گا خدایامیں ان سے تنگ آگیا ہوں اور یہ مجھ سے تنگ آگئے ہیں۔میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں

(۱)ذرا جا حظ کی قابلیت ملاحظہ فرمائیے۔ فرماتے ہیں کہ کوفہ والے اس لئے نہیں اطاعت کرتے تھے کہ ان کی نگاہ تنقیدی اوربصیرت آمیز تھی اور شام والے احمق اورجاہل تھے اس لئے اطاعت کر لیتے تھے۔ان قابلیت مآب سے کون دریافت کرے کہ کوفہ والوں نے مولائے کائنات کے کس عیب کی بناپر اطاعت چھوڑ دی تھی اور کس تنقیدی نظر سے آپ کی زندگی کو دیکھ لیا تھا۔حقیقت امریہ ہے کہ کوفہ و شام دونوں ضمیر فروش تھے۔شام والوں کو خریدار مل گیا تھا اور کوفہ میں حضرت علی نے یہ طریقہ کار اختیار کرلیا تھا کہ منہ مانگی قیمت نہیں عطا کی تھی لہٰذا بغاوت کا ہونا ناگزیر تھا اوریہ کوئی حیرت انگیز امرنہیں ہے۔

۴۹

فَأَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيْراً مِنْهُمْ وأَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي - اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ - أَمَا واللَّه لَوَدِدْتُ أَنَّ لِي بِكُمْ أَلْفَ فَارِسٍ - مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْمٍ.

هُنَالِكَ لَوْ دَعَوْتَ أَتَاكَ مِنْهُمْ

فَوَارِسُ مِثْلُ أَرْمِيَةِ الْحَمِيمِ

ثُمَّ نَزَلَعليه‌السلام مِنَ الْمِنْبَرِ

قال السيد الشريف - أقول الأرمية جمع رميّ وهو السحاب - والحميم هاهنا وقت الصيف - وإنما خص الشاعر سحاب الصيف بالذكر - لأنه أشد جفولا وأسرع خفوفا لأنه لا ماء فيه - وإنما يكون السحاب ثقيل السير لامتلائه بالماء - وذلك لا يكون في الأكثر إلا زمان الشتاء - وإنما أراد الشاعر وصفهم بالسرعة إذا دعوا - والإغاثة إذا استغيثوا - والدليل على ذلك قوله:

هنالك لو دعوت أتاك منهم

لہٰذا مجھے ان سے بہتر قوم عنایت(۱) کردے اور انہیں مجھ سے ''بدتر'' حاکم دیدے اور ان کے دلوں کو یوں پگھلا دے جس طرح پانی میں نمک گھولا جاتا ہے۔خدا کی قسم میں یہ پسند کرتا ہوں کہ ان سب کے بدلے مجھے بنی فراس بن غنم کے صرف ایک ہزار سپاہی مل جائیں۔جن کے بارے میں ان کے شاعرنے کہا تھا:

''اس وقت میں اگر تو انہیں آواز دے گا تو ایسے شہسوار سامنے آئیں گے جن کی تیز رفتاری گرمیوں کے بالدوں سے زیادہ سریع تر ہوگی''

سید رضی : ارمیہ رمیی کی جمع ہے جس کے معنی بادل کے ہیں اورحمیم گرمی کے زمانہ کے معنی میں ہے۔شعرنے گرمی کے بادلوں کاذکر اس لئے کیا ہے کہ ان کی رفتارتیز تر اورسبک ترہوتی ہے اس لئے کہ ان میں پانی نہیں ہوتا ہے۔بادل کی رفتار اس وقت سست ہو جاتی ہے جب اس میں پانی بھرجاتا ہے اوریہ عام طور پر سردی کے زمانہ میں ہوتا ہے۔شاعرنے اپنی قوم کی آواز پر لبیک کہنے اور مظلوم کی فریاد رسی میں سبک رفتاری کا ذکر کیا ہے جس کی دلیل '' لودعوت '' ہے

(۲)کسی قوم کے لئے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ اس کا معصوم رہنما اس سے اس قدرعاجزآجائے کہ اس کے حق میں درپردہ بد دعا کرنے کے لئے تیار ہوجائے اور اسے دشمن کے ہاتھ فروخت کردینے پرآمادہ ہوجائے۔ اہل کوفہ کی بد بختی کی آخری منزل تھی کہ وہ اپنے معصوم رہنما کو بھی تحفظ فراہم نہ کر سکے اور ان کے درمیان ان کا ارہنما عین حالت سجدہ میں شہید کردیا گیا۔کوفہ کا قیاس مدینہ کے حالات پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔مدینہنے اپنے حاکم کا ساتھ نہیں دیا اس لئے کہ وہ خود اس کے حرکات سے عاجز تھے اور مسلسل احتجاج کر چکے تھے لیکن کوفہمیں ایسا کچھ نہیں تھا یا واضح لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے۔کہ مدینہ کے حکام کے قاتل اپنے عملپر مطمئن تھے اور انہیں کسی طرح کی شرمندگی کا احسان نہیں تھا لیکن کوفہ میں جب امیر المومنین نے اپنے قاتل سے دریافت کیا کہ کیا میں تیرا کوئی برا امام تھا؟تو اس نے برجستہ یہی جواب دیا کہ کہ آپ کسی جہنم میں جانے والے کو روک نہیں سکتے ہیں۔گویا مدینہ سے کوفہ تک کے حالات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مدینہ کے مقتول اپنے ظلم کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور کوفہ کا شہید اپنے عدل و انصاف کی بنیاد پر شہید ہوا ہے اورایسے ہی شہید کو یہ کہنے کا حق ہے کہ '' فزت و رب الکعبة '' ( پروردگار کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا)۔

۵۰

(۲۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف العرب قبل البعثة ثم يصف حاله قبل البيعة له

العرب قبل البعثة

إِنَّ اللَّه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَذِيراً لِلْعَالَمِينَ - وأَمِيناً عَلَى التَّنْزِيلِ - وأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِينٍ وفِي شَرِّ دَارٍ - مُنِيخُونَ بَيْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وحَيَّاتٍ صُمٍّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وتَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وتَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وتَقْطَعُونَ أَرْحَامَكُمْ - الأَصْنَامُ فِيكُمْ مَنْصُوبَةٌ والآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ

ومنها صفته قبل البيعة له

فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي مُعِينٌ إِلَّا أَهْلُ بَيْتِي - فَضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ - وأَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى وشَرِبْتُ عَلَى الشَّجَا وصَبَرْتُ عَلَى أَخْذِ الْكَظَمِوعَلَى أَمَرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ.

ومنها:

ولَمْ يُبَايِعْ حَتَّى شَرَطَ أَنْ يُؤْتِيَه عَلَى الْبَيْعَةِ ثَمَناً

(۲۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں بعثت سے پہلے عرب کی حالت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اپنی بیعت سے پہلے کیے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے)

یقینا اللہ نے حضرت محمد (ص) کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اورتنزیل کا امانت دار بنا کر اس وقت بھیجا ہے جب تم گروہ عرب بد ترین دین کے مالک اور بد ترین علاقہ کے رہنے والے تھے۔نا ہموار پتھروں او زہریلے سانپوں کے درمیان بود باش رکھتے تھے۔گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے۔آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے۔بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے

(بیعت کے ہنگام)

میں نے دیکھا کہ سوائے میرے گھر والوں کے کوئی میرا مدد گار نہی ہے تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا اور اس حال میں چشم پوشی کی کہ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا۔میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پئے اور گلو گرفتگی اورخنطل سے زیادہ تلخ حالات پرصبر کیا۔

یاد رکھو ! عمرو عاص نے معاویہ کی بیعت اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ بیعت کی قیمت نہیں طے کرلی۔

۵۱

فَلَا ظَفِرَتْ يَدُ الْبَائِعِ وخَزِيَتْ أَمَانَةُ الْمُبْتَاعِ فَخُذُوا لِلْحَرْبِ أُهْبَتَهَا وأَعِدُّوا لَهَا عُدَّتَهَا - فَقَدْ شَبَّ لَظَاهَا وعَلَا سَنَاهَا واسْتَشْعِرُوا الصَّبْرَ فَإِنَّه أَدْعَى إِلَى النَّصْرِ.

(۲۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وقد قالها يستنهض بها الناس حين ورد خبر غزو الأنبار بجيش معاوية فلم ينهضوا. وفيها يذكر فضل الجهاد، ويستنهض الناس، ويذكر علمه بالحرب،ويلقي عليهم التبعة لعدم طاعته

خدا نے چاہا تو بیعت کرنے والے کا سودا کامیاب نہ ہوگا اور بیعت لینے والے کوبھی صرف رسوائی ہی نصیب ہوگی۔ لہٰذا اب جنگ کا سامان سنبھال لو اوراس کے اسباب مہیا کر لو کہ اس کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اورلپیٹیں بلندڈ ہو چکی ہیں اور دیکھوصبر کو اپنا شعاربنالو کہ یہ نصرت و کامرانی کا بہترین ذریعہ ہے۔

(۲۷)

(جو اس وقت ارشد فرمایا جب آپ کو خبر ملی کہ

معاویہ(۱) کے لشکرنے انبار پر حملہ کردیا ہے ۔اس خطبہ میں جہاد کی فضیلت کا ذکر کرکے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کیا گیا ہے اوراپنی جنگی مہارت کا تذکرہ کرکے نا فرمانی کی ذمہ داری لشکر والوں پر ڈالی گئی ہے)

(۱)معاویہ نے امیر المومنین کی خلافت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے پہلے صفین کا میدان کا رزار گرم کیا۔اس کے بعد ہر علاقہ میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑکائی تاکہ آپ کو ایک لمحہ کے لئے سکون نصیب نہ ہو سکے۔اور آپ اپنے نظام عدل و انصاف کو سکون کے ساتھ رائج نہ کرسکیں۔معاویہ کے انہیں حرکات میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ بنی غامد کے ایک شخص سفیان بن عوف کو چھ ہزار کا لشکردے کر روانہ کردیا کہ عراق کے مختلف علاقوں پر غارت کا کام شروع کرے۔چنانچہ اس نے انبار پر حملہ کردیا جہاں حضرت کا مختصر سا سرحدی حفاظتی دستہ تھا اور وہ اس لشکر سے مقابلہ نہ کرسکا صرف چند افراد ثابت قدم رہے۔باقی سب بھاگ کھڑے ہوئے اور اس کے بعد سفیان کا لشکر آبادی میں داخل ہوگیا اور بیحد لوٹ مچائی۔جس کی خبرنے حضرت کو بے چین کردیا اور آپ نے منبر پر آکر قوم کو غیرت دلائی لیکن کوئی لشکرتیارنہ ہو سکا جس کے بعد آپ خود روانہ ہوگئے اور اس صورت حال کو دیکھ کر چند افراد کو غیرت آگئی اور ایک لشکر سفیان کے مقابلہ کے لئے سعید بن قیس کی قیادت میں روانہ ہوگیا مگر اتفاق سے اس وقت سفیان کا لشکر واپس جا چکا تھا اوریہ لشکر جنگ کے بغیر واپس آگیا اور آپ نے ناسازی مزاج کے باوجود یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔بعض حضرت کا خیال ہے کہ یہ خطبہ کوفہ واپس آنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ مقابلہ نخیلہ ہی پر ارشاد فرمایا تھا بہر حال صورت واقعہ انتہائی افسوس ناک اور درد ناک تھی اور اسلام میں اس کی بیشمار مثالیں پائی جاتی ہیں۔

۵۲

فضل الجهاد

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ - فَتَحَه اللَّه لِخَاصَّةِ أَوْلِيَائِه وهُوَ لِبَاسُ التَّقْوَى - ودِرْعُ اللَّه الْحَصِينَةُ وجُنَّتُه الْوَثِيقَةُ - فَمَنْ تَرَكَه رَغْبَةً عَنْه أَلْبَسَه اللَّه ثَوْبَ الذُّلِّ وشَمِلَه الْبَلَاءُ - ودُيِّثَ بِالصَّغَارِ والْقَمَاءَةِ وضُرِبَ عَلَى قَلْبِه بِالإِسْهَابِ وأُدِيلَ الْحَقُّ مِنْه بِتَضْيِيعِ الْجِهَادِ - وسِيمَ الْخَسْفَ ومُنِعَ النَّصَفَ

استنهاض الناس

أَلَا وإِنِّي قَدْ دَعَوْتُكُمْ إِلَى قِتَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ - لَيْلًا ونَهَاراً وسِرّاً وإِعْلَاناً - وقُلْتُ لَكُمُ اغْزُوهُمْ قَبْلَ أَنْ يَغْزُوكُمْ - فَوَاللَّه مَا غُزِيَ قَوْمٌ قَطُّ فِي عُقْرِ دَارِهِمْ إِلَّا ذَلُّوا - فَتَوَاكَلْتُمْ وتَخَاذَلْتُمْ - حَتَّى شُنَّتْ عَلَيْكُمُ الْغَارَاتُ ومُلِكَتْ عَلَيْكُمُ الأَوْطَانُ - وهَذَا أَخُو غَامِدٍ [و] قَدْ وَرَدَتْ خَيْلُه الأَنْبَارَ وقَدْ قَتَلَ حَسَّانَ بْنَ حَسَّانَ الْبَكْرِيَّ - وأَزَالَ خَيْلَكُمْ عَنْ مَسَالِحِهَا

اما بعد! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے پروردگارنے اپنے مخصوص اولیاء کے لئے کھولا ہے۔یہ تقویٰ کا لباس اور اللہ کی محفوظ و مستحکم زرہ اور مضبوط سپرہے۔جس نے اعراض کرتے ہوئے نظر انداز کردیا اسے اللہ ذلت کا لباس پہنا دے گا اور اس پر مصیبت حاوی ہو جائے گی اور اسے ذلت و خواری کے ساتھ ٹھکرا دیا جائے گا اوراس کے دل پر غفلت کا پردہ ڈال دیا جائے گا اور جہاد کو ضائع کرنے کی بنا پر حق اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اسے ذلت برداشت کرناپڑے گی اور وہ انصاف سے محروم ہو جائے گا

آگاہ ہو جائو کہ میں نے تم لوگوں کواس قوم سے جہاد کرنے کے لئے دن میں پکارا اور رات میں آواز دی۔خفیہ طریقہ سے دعوت دی اور علی الاعلان آمادہ کیا اور برابر سمجھایاکہ ان کے حملہ کرنے سے پہلے تم میدان میں نکل آئو کہ خدا کی قسم جس قوم سے اس کے گھر کے اندر جنگ کی جاتی ہے اس کا حصہ ذلت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن تم نے ٹال مٹول کیا اورسستی کا مظاہرہ کیا۔یہاں تک کہ تم پر مسلسل حملے شروع ہوگئے اور تمہارے علاقوں پر قبضہ کرلیا گیا۔( دیکھو یہ بنی غامد کے آدمی ( سفیان بن عوف) کی فوج انبار میں داخل ہوگئی ہے اوراس نے حسان بن حسان بکری کو قتل کردیا ہے اور تمہارے سپاہیوں کوان کے مراکز سے نکال باہر کردیا ہے

۵۳

ولَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ كَانَ يَدْخُلُ - عَلَى الْمَرْأَةِ الْمُسْلِمَةِ والأُخْرَى الْمُعَاهِدَةِ فَيَنْتَزِعُ حِجْلَهَا وقُلُبَهَا وقَلَائِدَهَا ورُعُثَهَا مَا تَمْتَنِعُ مِنْه إِلَّا بِالِاسْتِرْجَاعِ والِاسْتِرْحَامِ ثُمَّ انْصَرَفُوا وَافِرِينَ مَا نَالَ رَجُلًا مِنْهُمْ كَلْمٌ ولَا أُرِيقَ لَهُمْ دَمٌ - فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً - مَا كَانَ بِه مَلُوماً بَلْ كَانَ بِه عِنْدِي جَدِيراً - فَيَا عَجَباً عَجَباً واللَّه يُمِيتُ الْقَلْبَ ويَجْلِبُ الْهَمَّ - مِنَ اجْتِمَاعِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عَلَى بَاطِلِهِمْ - وتَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ - فَقُبْحاً لَكُمْ وتَرَحاً حِينَ صِرْتُمْ غَرَضاً يُرْمَى - يُغَارُ عَلَيْكُمْ ولَا تُغِيرُونَ - وتُغْزَوْنَ ولَا تَغْزُونَ ويُعْصَى اللَّه وتَرْضَوْنَ - فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالسَّيْرِ إِلَيْهِمْ فِي أَيَّامِ الْحَرِّ - قُلْتُمْ هَذِه حَمَارَّةُ الْقَيْظِ أَمْهِلْنَا يُسَبَّخْ عَنَّا الْحَرُّ وإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالسَّيْرِ إِلَيْهِمْ فِي الشِّتَاءِ - قُلْتُمْ هَذِه صَبَارَّةُ الْقُرِّ أَمْهِلْنَا يَنْسَلِخْ عَنَّا الْبَرْدُ - كُلُّ هَذَا فِرَاراً مِنَ الْحَرِّ والْقُرِّ - فَإِذَا كُنْتُمْ مِنَ الْحَرِّ والْقُرِّ تَفِرُّونَ - فَأَنْتُمْ واللَّه مِنَ السَّيْفِ أَفَرُّ!

اورمجھے تو یہاں تک خبر ملی ہے کہ دشمن کا ایک ایک سپاہی مسلمان یا مسلمانوں کے معاہدہ میں رہنے والی عورت کے پاس وارد ہوتا تھااوراس کے پیروں کےکڑے ' ہاتھ کے کنگن 'گلے کے گلو بند اور کان کے گوشوارے اتار لیتا تھا اور وہ سوائے انا للہ پڑھنے اور رحم و کرم کی درخواست کرنے کے کچھ نہیں کر سکتی تھی اور وہ سارا سازو سامان لے کر چلا جاتاتھا نہ کوئی زخز کھاتا تھا اور نہ کسی طرح کا خون بہتا تھا۔اس صورت حال کے بعداگر کوئی مرد مسلمان صدمہ سے مربھی جائے توقابل ملامت نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک حق بجانب ہے کس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز صورت حال ہے۔خدا کی قسم یہ بات دل کوہ مردہ بنا دینے والی اور ہم و غم کو سیمٹنے والی ہے کہ یہ لوگ اپنے باطل پرمجتمع اورمتحد ہیں اور تم اپنے حق پر بھی متحد نہیں ہو۔تمہارا برا ہو کیا افسوسناک حال ہے تمہارا۔کہ تم تیر اندازوں کا مستقل نشانہ بن گئے ہو۔تم پر حملہ کیا جارہا ہے اور تم حملہ نہیں کرتے ہوتم سے جنگ کی جا رہی ہے اور تم باہرنہیں نکلتے ہو۔لوگ خدا کی نا فرمانی کر رہے ہیں اورتم اس صورت حال سے خوش ہو۔میں تمہیں گرمی میں جہاد کے لئے نکلنے کی دعوت دیتا ہ وں تو کہتے ہو کہ شدیدگرمی ہے۔تھوڑی مہلت دیجئے کہ گرمی گزرجائے۔اس کے بعد سردی میں بلاتا ہوں تو کہتے ہو سخت جاڑا پڑ رہا ہے ذراٹھہر جائیےکہ سردی ختم ہوجائے حالانکہ یہ سب جنگ سےفرارکرنے کے بہانے ہیں ورنہ جو قوم سردی اورگرمی سےفرارکرتی ہووہ تلواروں سےکس قدر فرار کرے گی۔

۵۴

البرم بالناس

يَا أَشْبَاه الرِّجَالِ ولَا رِجَالَ - حُلُومُ الأَطْفَالِ وعُقُولُ رَبَّاتِ الْحِجَالِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَرَكُمْ ولَمْ أَعْرِفْكُمْ مَعْرِفَةً - واللَّه جَرَّتْ نَدَماً وأَعْقَبَتْ سَدَماً

قَاتَلَكُمُ اللَّه لَقَدْ مَلأْتُمْ قَلْبِي قَيْحاً وشَحَنْتُمْ صَدْرِي غَيْظاً - وجَرَّعْتُمُونِي نُغَبَ التَّهْمَامِ أَنْفَاساً وأَفْسَدْتُمْ عَلَيَّ رَأْيِي بِالْعِصْيَانِ والْخِذْلَانِ - حَتَّى لَقَدْ قَالَتْ قُرَيْشٌ إِنَّ ابْنَ أَبِيطَالِبٍ رَجُلٌ شُجَاعٌ ولَكِنْ لَا عِلْمَ لَه بِالْحَرْبِ.

لِلَّه أَبُوهُمْ - وهَلْ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَشَدُّ لَهَا مِرَاساً وأَقْدَمُ فِيهَا مَقَاماً مِنِّي - لَقَدْ نَهَضْتُ فِيهَا ومَا بَلَغْتُ الْعِشْرِينَ - وهَا أَنَا ذَا قَدْ ذَرَّفْتُ عَلَى السِّتِّينَ ولَكِنْ لَا رَأْيَ لِمَنْ لَا يُطَاعُ!

اے مردوں کی شکل و صورت والواور واقعا نا مردو! تمہاری فکریں بچوں جیسی اور عقلیں حجلہ نشین عورتوں جیسی ہیں۔میری دلی خواہش تھی کہ کاش میں تمہیں نہ دیکھتا(۱) اورتم سے متعارف نہ ہوتا۔جس کا نتیجہ صرف ندامت اور رنج و افسوس ہے۔ اللہ تمہیں غارت کردے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینہ کورنج و غم سے چھلکا دیا ہے۔تم نے ہرسانس میں ہم و غم کے گھونٹ پلائے ہیں اور اپنی نا فرمانی اور سرکشی سے میری رائے کوبھی بیکار وبے اثر بنادیا ہے یہاں تک کہ اب قریش والے یہ کہنے لگے ہیں کہ فرزند ابو طالب بہادرتو ہیں لیکن انہیں فنون جنگ کا علم نہیں ہے۔

اللہ ان کا بھلا کرے۔کیا ان میں کوئی بھی ایسا ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہو اور مجھ سے پہلے سے کوئی مقام رکھتا ہو۔میں نے جہاد کے لئے اس وقت قیام کیا ہے جب میری عمر۲۰ سال بھی نہیں تھی اور اب تو۶۰ سے زیادہ ہو چکی ہے۔لیکن کیا کیا جائے۔جس کی اطاعت نہیں کی جاتی ہے اس کی رائے کوئی رائے نہیں ہوتی ہے۔

(۱) کسی قوم کی ذلت و رسوائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا سز براہ حضرت علی بن ابی طالب جیسا انسان ہو اور وہ ان سے اس قدر بد دل ہو کہ ان کی شکلوں کو دیکھنابھی گوارہ نہ کرتا ہو۔ایسی قوم دنیا میں زندہ رہنے کے قابل نہیں ہے اورآخرت میں بھی اس کا انجام جہنم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس مقام پر مولائے کائنات نے ایک اورنکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ تمہاری ناف رمانی اور سر کشی نے میری رائے کوبھی برباد کردیا ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ راہنما اور سر براہ کسی قدر بھی ذکی اور عبقری کیوں نہ ہو اگر قوم اس کی اطاعت سے انکار کردے تو نافہم انسان یہی خیال کرتا ہے کہ شاید یہ رائے اورحکم قابل اطاعت نہ تھا اسی لئے قوم نے اسے نظر انداز کردیا ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر کام ہی اجتماعی ہو تو اجتماع کا انحراف کام کوبھی معطل کر دیتا ہے اور اس کے نتائج بہر حال نا مناسب اورغلط ہوتے ہیں جس کاتجربہ مولائے کائنات کے سامنے آیا کہ قوم نے آپ کے حکم کے مطابق جہاد کرنے سے انکار کردیا اور گرمی و سردی کے بہانے بنانا شروع کردئیے اور اس کے نتیجہ میں دشمنوں ے یہ کہنا شروع کردیا کہ علی فنون جنگ سے با خبر نہیں ہیں حالانکہ علی سے زیادہ اسلام میں کوئی ماہر جنگ و جہاد نہیں تھا جس نے اپنی ساری زندگی اسلامی مجاہدات کے میدانوں میں گزاری تھی اور مسلسل تیغ آزمائی کا ثبوت دیا تھا اور جس کی طرف خود آپ نے بھی اشارہ فرمایا ہے اور اپنی تاریخ حیات کو اس کا گواہ قرار دیا ہے۔

۵۵

(۲۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهو فصل من الخطبة التي أولها «الحمد للَّه غير مقنوط من رحمته» وفيه أحد عشر تنبيها

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا أَدْبَرَتْ وآذَنَتْ بِوَدَاعٍ - وإِنَّ الآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ وأَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ أَلَا وإِنَّ الْيَوْمَ الْمِضْمَارَ وغَداً السِّبَاقَ - والسَّبَقَةُ الْجَنَّةُ والْغَايَةُ النَّارُ - أَفَلَا تَائِبٌ مِنْ خَطِيئَتِه قَبْلَ مَنِيَّتِه أَلَا عَامِلٌ لِنَفْسِه قَبْلَ يَوْمِ بُؤْسِه أَلَا وإِنَّكُمْ فِي أَيَّامِ أَمَلٍ مِنْ وَرَائِه أَجَلٌ - فَمَنْ عَمِلَ فِي أَيَّامِ أَمَلِه قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِه - فَقَدْ نَفَعَه عَمَلُه ولَمْ يَضْرُرْه أَجَلُه - ومَنْ قَصَّرَ فِي أَيَّامِ أَمَلِه قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِه - فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُه وضَرَّه أَجَلُه –

أَلَا فَاعْمَلُوا فِي الرَّغْبَةِ كَمَا تَعْمَلُونَ فِي الرَّهْبَةِ

(۲۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو اس خطبہ کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کاآغاز'' الحمد للہ غیر مقنوط من رحمة '' سے ہوا ہے اور اس میں گیارہ تنبیہات ہیں)

اما بعد!یہ دنیا پیٹھ پھیر چکی ہے اور اس نے اپنے وداع کا اعلان کردیا ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے اور اس کے آثارنمایاں ہوگئے ہیں۔یاد رکھو کہ آج میدان عمل ہے اور کل مقابلہ ہوگا جہاں سبقت کرنے والے کا انعام جنت ہوگا اوربدعمل کا انجام جہنم ہوگا۔کیا اب بھی کوئی ایسا نہیں ہے جو موت سے پہلے خطائوں سے توبہ کرلے اور سختی کے دن سے پہلے اپنے نفس کے لئے عمل کرلے۔یاد رکھو کہ تم آج امیدوں کے دنوں میں ہو جس کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے تو جس شخص نے امید کے دنوں میں موت آنے سے پہلے عمل کرلیا اسے اس کا عمل یقینا فائدہ پہنچائے گا اور موت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی لیکن جس نے موت سے پہلے امید کے دنوں میں عمل نہیں کیا اس نے عمل کی منزل میں گھاٹا اٹھایا اور اس کی موت بھی نقصان دہ ہوگی۔

آگاہ ہو جائو۔تم لوگ راحت کے حالات میں اسی طرح عمل کرو جس طرح خوف کے عالم میں کرتے ہو

۵۶

أَلَا وإِنِّي لَمْ أَرَ كَالْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا ولَا كَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا - أَلَا وإِنَّه مَنْ لَا يَنْفَعُه الْحَقُّ يَضُرُّه الْبَاطِلُ - ومَنْ لَا يَسْتَقِيمُ بِه الْهُدَى يَجُرُّ بِه الضَّلَالُ إِلَى الرَّدَى - أَلَا وإِنَّكُمْ قَدْ أُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ ودُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ - وإِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَتَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وطُولُ الأَمَلِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً.

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه وأقول إنه لو كان كلام يأخذ بالأعناق - إلى الزهد في الدنيا - ويضطر إلى عمل الآخرة - لكان هذا الكلام - وكفى به قاطعا لعلائق الآمال - وقادحا زناد الاتعاظ والازدجار -

کہ میں(۱) نے جنت جیسا کوئی مطلوب نہیں دیکھا ہے جس کے طلب گار سب سو رہے ہیں اور جہنم جیسا کوئی خطرہ نہیں دیکھا جس سے بھاگنے والے سب خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔یاد رکھو کہ جسے حق فائدہ پہنچا سکے گا اسے باطل ضرور نقصان پہنچائے گا اور جسے ہدایت سیدھے راستہ پر نہ لا سکے گی اسے گمراہی بہر حال کھینچ کر ہلاکت تک پہنچادے گی۔ آگاہ ہو جائو کہ تمہیں کوچ کا حکم مل چکا ہے اور تمہیں زاد سفر بھی بتایا جا چکا ہے اور تمہارے لئے سب سے بڑا خوفناک خطرہ دو چیزوں کا ہے۔خواہشات کا اتباع اور امیدوں کا طولانی ہونا۔لہٰذا جب تک دنیا میں ہواس دنیا سے وہ زاد راہ حاصل کرلو جس کے ذریعہ کل اپنے نفس کا تحفظ کرسکو۔

سید رضی : اگر کوئی ایسا کلام ہو سکتا ہے جو انسان کی گردن پکڑ کر اسے زہد کی منزل تک پہنچا دے اور اسے عمل آخرت پر مجبور کردے تو وہ یہی کلام ہے۔یہ کلام دنیا کی امیدوں کے قطع کرنے اوروعظ و نصیحت قبول کرنے کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے کافی ہوتا ۔

(۱)زمانہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ شائد اس دنیا کی اس سے بڑی کوئی حقیقت اورصداقت نہیں ہے۔جس شخص سے پوچھئے وہ جنت کا مشتاق ہے اور جس شخص کو دیکھئے وہ جہنم کے نام سے پناہ مانگتا ہے۔لیکن منزل عمل میں دونوں اس طرح سو رہے ہیں جیسے کہ یہ معشوق از خودگھر آنے والا ہے اور یہ خطرہ از خودٹل جانے والاہے۔نہ جنت کے عاشق جنت کے لئے کوئی عمل کر رہے ہیں اور نہ جہنم سے خوفزدہ اس سے بچنے کا انتظام کر رہے ہیں بلکہ دونوں کاخیال یہ ہے کہ مذہب میں کچھ افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس بات کا ٹھیکہ لے لیا ہے کہ وہ جنت کا انتظام بھی کریں گے اور جہنم سے بچانے کا بندوبست بھی کریں گے اور اس سلسلہ میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔حالانکہ دنیا کے چند روز معشوق کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہیں۔یہاں کوئی دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتا ہے۔دولت کے لئے سب خود دوڑتے ہیں۔شہرت کے لئے سب خود مرتے ہیں۔عورت کے لئے سب خود دیوانے بنتے ہیں۔عہدہ کے لئے سب خود راتوں کی نیند حرام کرتے ہیں۔خدا جانے یہ ابدی معشوق جنت جیسا محبوب ہے جس کا معاملہ دوسروں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا جاتا ہے اور انسان غفلت کی نیند سو جاتا ہے۔کاش یہ انسان واقعاً مشتاق اور خوفزدہ ہوتا تو یقینا اس کا یہ کردار نہ ہوتا۔''فاعتبروا یا اولی الا بصار''

۵۷

ومن أعجبه قولهعليه‌السلام - ألا وإن اليوم المضمار وغدا السباق - والسبقة الجنة والغاية النار - فإن فيه مع فخامة اللفظ وعظم قدر المعنى - وصادق التمثيل وواقع التشبيه - سرا عجيبا ومعنى لطيفا - وهو قولهعليه‌السلام والسبقة الجنة والغاية النار - فخالف بين اللفظين لاختلاف المعنيين - ولم يقل السبقة النار - كما قال السبقة الجنة - لأن الاستباق إنما يكون إلى أمر محبوب - وغرض مطلوب - وهذه صفة الجنة - وليس هذا المعنى موجودا في النار - نعوذ بالله منها فلم يجز أن يقول - والسبقة النار بل قال والغاية النار - لأن الغاية قد ينتهي إليها من لا يسره الانتهاء إليها - ومن يسره ذلك فصلح أن يعبر بها عن الأمرين معا - فهي في هذا الموضع كالمصير والمآل - قال الله تعالى:( قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ ) - ولا يجوز في هذا الموضع أن يقال - سبْقتكم بسكون الباء إلى النار - فتأمل ذلك فباطنه عجيب وغوره بعيد لطيف - وكذلك أكثر كلامهعليه‌السلام - وفي بعض النسخ - وقد جاء في رواية أخرى والسُّبْقة الجنة بضم السين - والسبقة عندهم اسم لما يجعل للسابق -

خصوصیت کے ساتھ حضرت کا یہ ارشاد کہ''آج میدان عمل ہے اور کل مقابلہ۔اس کے بعد منزل مقصود جنت ہے اور انجام جہنم۔اس میں الفاظ کی عظمت ' معانی کی قدر و منزلت تمثیل کی صداقت اور تشبیہ کی واقعیت کے ساتھ وہ عجیب و غریب رازنجات اورلطافت مفہوم ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔پھر حضرت نے جنت و جہنم کے بارے میں ''سبقہ'' اور ''غایتہ'' کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں صرف لفظی اختلاف نہیں ہے بلکہ واقعاً معنوی افتراق وامتیاز پایا جاتا ہے کہ نہ جہنم کو سبقہ ( منزل) کہاجا سکتا ہے اور نہ جنت کو غایة (انجام) جہاں تک انسان خود بخودپہنچ جائے گا بلکہ جنت کے لئے دوڑ دھوپ کرنا ہوگی جس کے بعد انعام ملنے والا ہے اور جہنم بدعملی کے نتیجہ میں خودبخود سامنے آجائے گا۔اس کے لئے کسی اشتیاق اورمحنت کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر آپ نے جہنم کو غایتہ قرار دیا ہے جس طرح کہ قرآن مجید نے اسے ''مصیر '' سے تعبیر کیا ہے۔ ''فان مصیر کم الی النار ''حقیقتاً اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا باطن انتہائی عجیب و غریب اور اس کی گہرائی انتہائی لطیف ہے اوریہ تنہا اس کلام کی بات نہیں ہے۔حضرت کے کلمات میں عام طور سے یہی بلاغت پائی جاتی ہے اور اس کے معانی میں اسی طرح کی لطافت اور گہرائی نظر آتی ہے۔بعض روایات میں جنت کے لئے سبقتہ کے بجائے سبقتہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی انعام کے ہیں

۵۸

إذا سبق من مال أو عرض - والمعنيان متقاربان - لأن ذلك لا يكون جزاء على فعل الأمر المذموم - وإنما يكون جزاء على فعل الأمر المحمود.

(۲۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد غارة الضحاك بن قيس صاحب معاوية على الحاجّ بعد قصة الحكمين

وفيها يستنهض أصحابه لما حدث في الأطراف

أَيُّهَا النَّاسُ الْمُجْتَمِعَةُ أَبْدَانُهُمْ - الْمُخْتَلِفَةُ أَهْوَاؤُهُمْ كَلَامُكُمْ يُوهِي الصُّمَّ الصِّلَابَ وفِعْلُكُمْ يُطْمِعُ فِيكُمُ الأَعْدَاءَ – تَقُولُونَ فِي الْمَجَالِسِ كَيْتَ وكَيْتَ فَإِذَا جَاءَ الْقِتَالُ قُلْتُمْ حِيدِي حَيَادِ مَا عَزَّتْ دَعْوَةُ مَنْ دَعَاكُمْ - ولَا اسْتَرَاحَ قَلْبُ مَنْ قَاسَاكُمْ - أَعَالِيلُ بِأَضَالِيلَ وسَأَلْتُمُونِي التَّطْوِيلَ دِفَاعَ ذِي الدَّيْنِ الْمَطُولِ لَا يَمْنَعُ الضَّيْمَ الذَّلِيلُ - ولَا يُدْرَكُ الْحَقُّ إِلَّا بِالْجِدِّ

اور کھلی ہوئی بات ہے کہ انعام بھی کسی مذموم عمل پر نہیں ملتا ہے بلکہ اس کا تعلق بھی قابل تعریف اعمال ہی سے ہوتا ہے لہٰذا عمل بہر حال ضروری ہے اور عمل کا قابل تعریف ہونا بھی لازمی ہے۔

(۲۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب تحکیم کے بعد معاویہ (۱) کے سپاہی ضحاک بن قیس نے حجاج کے قابلہ پر حملہ کردیا اور حضرت کواس کی خبر دی گئی تو آپ نے لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

اے وہ لوگو!جن کے جسم ایک جگہ پر ہیں اور خواہشات الگ الگ ہیں۔تمہارا کلام تو سخت ترین پتھر کوبھی نرم کر سکتا ہے لیکن تمہارے حرکات دشمنوں کوبھی تمہارے بارے میں پرامید بنا دیتے ہیں۔تم محفلوں میں بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہو کہ خدا کی پناہ لیکن جب جنگ کا نقشہ کرے گا اس کے دل کوکبھی سکون نہ ملے گا۔تمہارے پاس صرف بہانے ہیں اور غلط سلط حوالے اورپھر مجھ سے تاخیر جنگ کی فرمائش جیسے کوئی نا دہندہ قرض کوٹالنا چاہتا ہے۔یاد رکھو ذلیل آدمی ذلت کو نہیں روک سکتا ہے اورحق محنت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتاہے۔

(۱)معاویہ کا ایک مستقل مقصد یہ بھی تھا کہ امیر المومنین کسی آن چین سے نہ بیٹھنے پائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ واقعی اسلام قوم کے سامنے پیش کردیں اور اموی افکار کا جنازہ نکل جائے۔اس لئے وہ مسلسل ریشہ دوانیوں میں لگا رہتا تھا۔آخر ایک مرتبہ ضحاک بن قیس کوچارہزار کالشکر دے کر روانہ کردیا اور اس نے سارے علاقہ میں کشت و خون شروع کردیا۔آپ نے منبرپرآکرقوم کو غیرت دلائی لیکن کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔اور لوگ جنگ سے کنارہ کشی کرتے رہے۔یہاں تک کہ حجربن عدی چار ہزار سپاہیوں کو لے کرنکل پڑے اور مقام تدمر پردونوں کا سامنا ہوگیا لیکن معاویہ کا لشکربھاگ کھڑا ہوا اورصرف ۱۹ افراد معاویہ کے کام آئے جب کہ حجر کے سپاہیوں میں دو افراد نے جام شہادت نوش فرمایا۔

۵۹

أَيَّ دَارٍ بَعْدَ دَارِكُمْ تَمْنَعُونَ - ومَعَ أَيِّ إِمَامٍ بَعْدِي تُقَاتِلُونَ - الْمَغْرُورُ واللَّه مَنْ غَرَرْتُمُوه - ومَنْ فَازَ بِكُمْ فَقَدْ فَازَ واللَّه بِالسَّهْمِ الأَخْيَبِ ومَنْ رَمَى بِكُمْ فَقَدْ رَمَى بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ أَصْبَحْتُ واللَّه لَا أُصَدِّقُ قَوْلَكُمْ - ولَا أَطْمَعُ فِي نَصْرِكُمْ - ولَا أُوعِدُ الْعَدُوَّ بِكُمْ - مَا بَالُكُمْ مَا دَوَاؤُكُمْ مَا طِبُّكُمْ - الْقَوْمُ رِجَالٌ أَمْثَالُكُمْ - أَقَوْلًا بِغَيْرِ عِلْمٍ - وغَفْلةً مِنْ غَيْرِ وَرَعٍ - وطَمَعاً فِي غَيْرِ حَقٍّ!؟

(۳۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى قتل عثمان

وهو حكم له على عثمان وعليه وعلى الناس بما فعلوا وبراءة له من دمه

لَوْ أَمَرْتُ بِه لَكُنْتُ قَاتِلًا

تم جب اپنے گھر کا دفاع نہ کر سکوگے تو کس کے گھر کا دفاع کروگے اور جب میرے ساتھ جہاد نہ کروگے تو کس کے ساتھ جہاد کروگے۔خدا کی قسم وہ فریب خوردہ ہے جو تمہارے دھوکہ میں آجائے اور جو تمہارے سہارے کامیابی چاہے گا اسے صرف نا کامی کا تیر ہاتھ آئے گا۔اور جس نے تمہارے ذریعہ تیر پھینکا اس نے وہ تیر پھینکا جس کا پیکان ٹوٹ چکا ہے اور سو فار ختم ہو چکا ہے۔خدا کی قسم میں ان حالات میں نہ تمہارے قول کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی امیدرکھتا ہوں اور نہ تمہارے ذریعہ کسی دشمن کو تہدید کر سکتا ہوں۔آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تمہاری دوا کیا ہے؟ تمہارا علاج کیا ہے؟ آخر وہ لوگ بھی تو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں ۔یہ بغیر علم کی باتیں کب تک اوریہ بغیر تقویٰ کی غفلت تابکے اوربغیر حق کے بلندی کی خواہش کہاں تک؟

(۳۰)

آپ کا ارشاد گرامی

قتل عثمان کی حقیقت کے بارے میں

یاد رکھواگر میں نے اس قتل(۱) کاحکم دیا ہوتا تو یقینا میں قاتل ہوتا

(۱)یہ تاریخ کا مسلمہ ہے کہ عثمان نے سارے ملک پر بنی امیہ کا اقتدار قائم کردیا تھا اوربیت المال کو بے تحاشہ اپنے خاندان والوں کے حوالے کردیا تھا جس کی فریاد پورے عالم اسلام میں شروع ہوگئی تھی اور کوفہ اور مصر تک کے لوگ فریاد لے کر آگئے تھے۔امیر المومنین نے درمیان میں پڑ کر مصالحت کرائی اوریہ طے ہوگیا کہ مدینہ کے حالات کی ضروری اصلاح کی جائے اور مصر کا حاکم محمدبن ابی بکر کو بنادیا جائے ۔لیکن مخالفین کے جانے کے بعد عثمان نے ہر بات کا انکار کردیا اور والی مصر کے نام محمدبن ابی بکر کے قتل کا فرمان بھیج دیا۔خط راستہ میں پکڑ لیا گیا اور اب جو لوگوں نے واپس آکر مدینہ والوں کو حالات سے آگاہ کیا تو توبہ کا امکان بھی ختم ہوگیا اورچاروں طرف سے محاصرہ ہوگیا۔اب امیر المومنین کی مداخلت کے امکانات بھی ختم ہوگئے تھے۔اوربالآخر عثمان کو اپنے اعمال اور بنی امیہ کی اقرباء نوازی کی سزا برداشت کرنا پڑی اور پھر کوئی مروان یا معاویہ کام نہیں آیا۔

۶۰

أَوْ نَهَيْتُ عَنْه لَكُنْتُ نَاصِراً - غَيْرَ أَنَّ مَنْ نَصَرَه لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ خَذَلَه مَنْ أَنَا خَيْرٌ مِنْه - ومَنْ خَذَلَه لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ نَصَرَه مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي وأَنَا جَامِعٌ لَكُمْ أَمْرَه اسْتَأْثَرَ فَأَسَاءَ الأَثَرَةَ وجَزِعْتُمْ فَأَسَأْتُمُ الْجَزَعَ ولِلَّه حُكْمٌ وَاقِعٌ فِي الْمُسْتَأْثِرِ والْجَازِعِ

(۳۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما أنفذ عبد الله بن عباس - إلى الزبير يستفيئه إلى طاعته قبل حرب الجمل

لَا تَلْقَيَنَّ طَلْحَةَ - فَإِنَّكَ إِنْ تَلْقَه تَجِدْه كَالثَّوْرِ عَاقِصاً قَرْنَه يَرْكَبُ الصَّعْبَ ويَقُولُ هُوَ الذَّلُولُ - ولَكِنِ الْقَ الزُّبَيْرَ فَإِنَّه أَلْيَنُ عَرِيكَةً فَقُلْ لَه يَقُولُ لَكَ ابْنُ خَالِكَ - عَرَفْتَنِي بِالْحِجَازِ وأَنْكَرْتَنِي بِالْعِرَاقِ - فَمَا عَدَا مِمَّا بَدَا.

قال السيد الشريف وهوعليه‌السلام أول من سمعت منه هذه الكلمة - أعني فما عدا مما بدا.

اور اگر میں نے منع کیا ہوتا تو یقینا میں مدد گار قرار پاتا۔لیکن بہر حال یہ بات طے شدہ ہے کہ جن بنی امیہ نے مدد کی ہے وہ اپنے کو ان سے بہتر نہیں کہہ سکتے ہیں جنہوں نے نظر انداز کردیا ہے اور جن لوگوں نے نظرانداز کردیا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس نے مدد کی ہے وہ ہم سے بہتر تھا۔اب میں اس قتل کا خلاصہ بتائے دیتا ہوں' ''عثمان نے خلافت کو اختیار کیا تو بد ترین طریقہ سے اختیار کیا اورتم گھبرا گئے تو بری طرح سے گھبرا گئے اوراب اللہ دونوں کے بارے میں فیصلہ کرنے والا ہے ''۔

(۳۱)

آپ کا ارشاد گرامی

جب آپ نے عبداللہ بن عباس کو زبیر کے پاس بھیجا کہ اسے جنگ سے پہلے اطاعت امام کی طرف واپس لے آئیں۔

خبردار طلحہ سے ملاقات نہ کرناکہ اس سے ملاقات کروگے تواسےاس بیل جیساپائوگےجس کے سینگ مڑے ہوئے ہوں۔وہ سرکش سواری پرسوار ہوتا ہے اوراسے رام کیا ہوا کہتا ہے۔تم صرف زبیر سے ملاقات کرنا کہ اس کی طبیعت قدرے نرم ہےاس سے کہناکہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے فرمایا ہےکہ تم نے حجاز میں مجھے پہچانا تھا اور عراق میں آکربالکل بھول گئے ہوآخر یہ نیا سانحہ کیا ہوگیا ہے۔

سید رضی : ما عدا ما بدا '' یہ فقرہ پہلے پہل تاریخ عربیت میں امیر المومنین ہی سے سنا گیا ہے۔

۶۱

(۳۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف زمانه بالجور، ويقسم الناس فيه خمسة أصناف، ثم يزهد في الدنيا

معنى جور الزمان

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّا قَدْ أَصْبَحْنَا فِي دَهْرٍ عَنُودٍ وزَمَنٍ كَنُودٍ يُعَدُّ فِيه الْمُحْسِنُ مُسِيئاً - ويَزْدَادُ الظَّالِمُ فِيه عُتُوّاً لَا نَنْتَفِعُ بِمَا عَلِمْنَا ولَا نَسْأَلُ عَمَّا جَهِلْنَا - ولَا نَتَخَوَّفُ قَارِعَةً حَتَّى تَحُلَّ بِنَا.

أصناف المسيئين

والنَّاسُ عَلَى أَرْبَعَةِ أَصْنَافٍ

مِنْهُمْ مَنْ لَا يَمْنَعُه الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ - إِلَّا مَهَانَةُ نَفْسِه وكَلَالَةُ حَدِّه ونَضِيضُ وَفْرِه ومِنْهُمْ الْمُصْلِتُ لِسَيْفِه والْمُعْلِنُ بِشَرِّه - والْمُجْلِبُ بِخَيْلِه ورَجِلِه قَدْ أَشْرَطَ نَفْسَه وأَوْبَقَ دِينَه لِحُطَامٍ يَنْتَهِزُه أَوْ مِقْنَبٍ يَقُودُه أَوْ مِنْبَرٍ يَفْرَعُه - ولَبِئْسَ الْمَتْجَرُ أَنْ تَرَى الدُّنْيَا لِنَفْسِكَ ثَمَناً - ومِمَّا لَكَ عِنْدَ اللَّه عِوَضاً –

ومِنْهُمْ مَنْ يَطْلُبُ الدُّنْيَا بِعَمَلِ الآخِرَةِ ولَا يَطْلُبُ الآخِرَةَ بِعَمَلِ الدُّنْيَا - قَدْ طَامَنَ مِنْ شَخْصِه - وقَارَبَ مِنْ خَطْوِه وشَمَّرَ مِنْ ثَوْبِه - وزَخْرَفَ مِنْ نَفْسِه لِلأَمَانَةِ - واتَّخَذَ سِتْرَ اللَّه ذَرِيعَةً إِلَى الْمَعْصِيَةِ -

(۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں زمانہ کے ظلم کاتذکرہ ہے اورلوگوں کی پانچ قسموں کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد زہد کی دعوت دی گئی ہے۔

ایہا الناس! ہم ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں جو سرکش اور نا شکرا ہے یہاں نیک کردار برا سمجھا جاتا ہے اورظالم اپنے ظلم میں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔نہ ہم علم سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ جن چیزوں سے نا واقف ہیں ان کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور نہ کسی مصیبت کا اس وقت تک احساس کرتے ہیں جب تک وہ نازل نہ ہو جائے۔بعض وہ ہیں جو تلوارکھینچے ہوئے اپنے شرکا اعلان کر رہے ہیں اور اپنے سوار و پیادہ کو جمع کر رہے ہیں۔اپنے نفس کو مال دنیا کے حصول اور لشکرکی قیادت یا منبر کی بلندی پر عروج کے لئے وقف کردیا ہے اور اپنے دین کو برباد کر دیا ہے اوریہ بد ترین تجارت ہے کہ تم دنیا کواپنے نفس کی قیمت بنا دو یا اجرآخرت کا بدل قراردے دو۔بعض وہ ہیں جو دنیا کو آخرت کے اعمال کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اورآخرت کو دنیا کے ذریعہ نہیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے نگاہوں کونیچا بنالیا ہے۔قدم ناپ ناپ کر رکھتے ہیں۔دامن کو سمیٹ لیا ہے اوراپنے نفس کوگویا امانتداری کے لئے آراستہ کرلیا ہے اور پروردگار کی پردہ داری کومعصیت کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔

۶۲

ومِنْهُمْ مَنْ أَبْعَدَه عَنْ طَلَبِ الْمُلْكِ ضُئُولَةُ نَفْسِه وانْقِطَاعُ سَبَبِه فَقَصَرَتْه الْحَالُ عَلَى حَالِه - فَتَحَلَّى بِاسْمِ الْقَنَاعَةِ - وتَزَيَّنَ بِلِبَاسِ أَهْلِ الزَّهَادَةِ - ولَيْسَ مِنْ ذَلِكَ فِي مَرَاحٍ ولَا مَغْدًى

الراغبون في اللَّه

وبَقِيَ رِجَالٌ غَضَّ أَبْصَارَهُمْ ذِكْرُ الْمَرْجِعِ - وأَرَاقَ دُمُوعَهُمْ خَوْفُ الْمَحْشَرِ - فَهُمْ بَيْنَ شَرِيدٍ نَادٍّ وخَائِفٍ مَقْمُوعٍ وسَاكِتٍ مَكْعُومٍ ودَاعٍ مُخْلِصٍ وثَكْلَانَ مُوجَعٍ - قَدْ أَخْمَلَتْهُمُ التَّقِيَّةُ وشَمِلَتْهُمُ الذِّلَّةُ - فَهُمْ فِي بَحْرٍ أُجَاجٍ أَفْوَاهُهُمْ ضَامِزَةٌ وقُلُوبُهُمْ قَرِحَةٌ قَدْ وَعَظُوا حَتَّى مَلُّوا وقُهِرُوا حَتَّى ذَلُّوا وقُتِلُوا حَتَّى قَلُّوا.

التزهيد في الدنيا

فَلْتَكُنِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِكُمْ - أَصْغَرَ مِنْ حُثَالَةِ الْقَرَظِ وقُرَاضَةِ الْجَلَمِ واتَّعِظُوا بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - قَبْلَ أَنْ يَتَّعِظَ بِكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ - وارْفُضُوهَا ذَمِيمَةً فَإِنَّهَا قَدْ رَفَضَتْ مَنْ كَانَ أَشْغَفَ بِهَا مِنْكُمْ.

بعض وہ ہیں جنہیں حصول اقتدارسے نفس کی کمزوری اوراسباب کی نابودی نے دور رکھا ہے اور جب حالات نے ساز گاری کا سہارا نہیں دیا تواس کا نام قناعت رکھ لیا ہے۔یہ لوگ اہل زہد کالباس زیب تن کئے ہوئے ہیں جب کہ نہ ان کی شام زاہدانہ ہے اورنہ صبح۔

(پانچویں قسم)

اس کے بعد کچھ لوگ باقی رہ گئے ہیں جن کی نگاہوں کو بازگشت کی یاد نے جھکا دیا ہے اوران کے آنسوئوں کو خوف محشر نے جاری کردیا ہے۔ان میں بعض آوارہ وطن اور دور افتادہ ہیں اور بعض خوفزدہ اورگوشہ نشین ہیں۔بعض کی زبانوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور بعض اخلاص کے ساتھ محو دعا ہیں اور درد رسیدہ کی طرح رنجیدہ ہیں۔انہیں خوف حکام نے گمنامی کی منزل تک پہنچادیا ہے۔

اوربے چارگی نے انہیں گھیر لیا ہے۔گویا وہ ایک کھارے سمندر کے اندر زندگی گزار رہے ہیں جہاں منہ بند ہیں اور دل زخمی ہیں۔انہوں نے اس قدر موعظہ کیا ہے کہ تھک گئے ہیں اور وہ اسقدر دبائے گئے ہیں کہ بالآخر دب گئے ہیں اوراس قدر مارے گئے ہیں کہ ان کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے

لہٰذا اب دنیا کو تمہاری نگاہوں میں کیکر کے چھلوں اور اون کے ریزوں سے بھی زیادہ پست ہونا چاہیے اور اپنے پہلے والوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے قبل اس کے کہ بعد والے تمہارے انجام سے عبرت حاصل کریں۔اس دنیا کو نظرانداز کردو۔یہ بہت ذلیل ہے یہ ان کے کام نہیں آئی ہے جو تم سے زیادہ اس سے دل لگانے والے تھے۔

۶۳

قال الشريفرضي‌الله‌عنه أقول وهذه الخطبة ربما نسبها من لا علم له إلى معاوية - وهي من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام الذي لا يشك فيه - وأين الذهب من الرغام وأين العذب من الأجاج - وقد دل على ذلك الدليل الخريت ونقده الناقد البصير - عمرو بن بحر الجاحظ - فإنه ذكر هذه الخطبة في كتاب البيان والتبيين - وذكر من نسبها إلى معاوية - ثم تكلم من بعدها بكلام في معناها - جملته أنه قال وهذا الكلام بكلام عليعليه‌السلام أشبه - وبمذهبه في تصنيف الناس - وفي الإخبار عما هم عليه من القهر والإذلال - ومن التقية والخوف أليق - قال ومتى وجدنا معاوية في حال من الأحوال - يسلك في كلامه مسلك الزهاد ومذاهب العباد!

(۳۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند خروجه لقتال أهل البصرة، وفيها حكمة مبعث الرسل،

ثم يذكر فضله ويذم الخارجين

قَالَ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَبَّاسِرضي‌الله‌عنه - دَخَلْتُ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام بِذِي قَارٍ وهُوَ يَخْصِفُ نَعْلَه فَقَالَ لِي مَا قِيمَةُ هَذَا النَّعْلِ

سید رضی : بعض جاہلوں نے اس خطبہ کو معاویہ کی طرف منسوب کردیا ہے جب کہ بلا شک یہ امیرالمومنین کا کلام ہے اوربھلا کیاربطہ ہے سونے اورمٹی میں اور شیریں اور شور میں؟ اس حقیقت کی نشاندہی فن بلاغت کے ماہر اوربا بصیرت تنقیدی نظر رکھنے والے عالم عمرو بن بحر الجاحظ نے بھی کی ہے جب اس خطبہ کو'' البیان والتبیین'' میں نقل کرنے کے بعد یہ تبصرہ کیا ہے کہ بعض لوگوں نے اسے معاویہ کی طرف منسوب کردیا ہے حالانکہ یہ حضرت علی علیہ السلام کے انداز بیان سے زیادہ ملتا جلتا ہے کہ آپ ہی اس طرح لوگوں کے اقسام ' مذاہب اورقہر و ذلت اورتقیہ و خوف کا تذکر ہ کیا کرتے تھے ورنہ معاویہ کو کب اپنی گفتگومیں زاہدوں کا اندازیا عابدوں کا طریقہ اختیار کرتے دیکھا گیا ہے۔

(۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل بصرہ سے جہاد کے لئے نکلتے وقت جس میں آپ نے رسولوں کی بعثت کی حکمت اورپھر اپنی فضیلت اورخوارج کی رذیلت کاذکر کیا ہے)

عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ میں مقام ذی قار میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ اپنی نعلین کی مرمت کر رہے تھے۔آپ نے فرمایا:ابن عباس !ان جوتیوں کی کیا قیمت ہے '؟

۶۴

فَقُلْتُ لَا قِيمَةَ لَهَا - فَقَالَعليه‌السلام واللَّه لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ إِمْرَتِكُمْ - إِلَّا أَنْ أُقِيمَ حَقّاً أَوْ أَدْفَعَ بَاطِلًا - ثُمَّ خَرَجَ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ:

حكمة بعثة النبي

إِنَّ اللَّه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ولَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ يَقْرَأُ كِتَاباً ولَا يَدَّعِي نُبُوَّةً - فَسَاقَ النَّاسَ حَتَّى بَوَّأَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ وبَلَّغَهُمْ مَنْجَاتَهُمْ فَاسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ واطْمَأَنَّتْ صَفَاتُهُمْ

فضل علي

أَمَا واللَّه إِنْ كُنْتُ لَفِي سَاقَتِهَاحَتَّى تَوَلَّتْ بِحَذَافِيرِهَا مَا عَجَزْتُ ولَا جَبُنْتُ وإِنَّ مَسِيرِي هَذَا لِمِثْلِهَا - فَلأَنْقُبَنَّ الْبَاطِلَ حَتَّى يَخْرُجَ الْحَقُّ مِنْ جَنْبِه.

میں نے عرض کی کچھ نہیں! فرمایاکہ خدا کی قسم یہ مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز(۱) ہیں مگریہ کہ حکومت کے ذریعہ میں کسی حق کو قائم کر سکوں یا کسی باطل کو دفع کرسکوں۔اس کے بعد لوگوں کے درمیان آکر یہ خطبہ ارشاد فرمایا:۔

اللہ نے حضرت محمد (ص) کواس وقت مبعوث کیا جب عربوں میں کوئی نہ آسمانی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت کا دعویدار تھا۔آپ نے لوگوں کو کھینچ کران کے مقام تک پہنچایا اور انہیں منزل نجات سے آشنا بنادیا یہاں تک کہ ان کی کجی درست ہوگئی اوران کے حالات استوار ہوگئے۔

آگاہ ہو جائو کہ بخدا قسم میں اس صورت حال کے تبدیل کرنے والوں میں شامل تھا یہاں تک کہ حالات مکمل طور پرتبدیل ہوگئے اورمیں نہ کمزور ہوا اور نہ خوفزدہ ہوا اورآج بھی میرا یہ سفر ویسے ہی مقاصد کے لئے ہے۔میں باطل کے شکم کو چاک کرکے اس کے پہلو سے وہ حق نکال لوں گا جسے اس نے مظالم کی تہوں میں چھپادیا ہے۔

(۱)اس مقام پر یہ خیال نہ کیا جائے کہ ایسے انداز گفتگو سے عوام الناس میں مزید نخوت پیداہو جاتی ہے اور ان میں کام کرنے کا جذبہ بالکل مردہ ہو جاتا ہے۔اوراگر واقعاً امام علیہ السلام اسی قدر عاجزآگئے تھے تو پھر بارباردہرانے کی کیا ضرورت تھی۔انہیں ان کے حال پر چھوڑدیا ہوتا۔جو انجام ہونے والا تھا ہو جاتا اوربالآخر لوگ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتے ؟

اس لئے کہ یہ ایک جذباتی مشورہ تو ہوسکتا ہے منطقی گفتگو نہیں ہو سکتی ہے۔اکتاہٹ اورناراضگی ایک فطری ردعمل ہے جوامربالمعروف کی منزل میں فریضہ بھی بن جاتا ہے۔لیکن اس کے بعد بھی اتمام حجت کا فریضہ بحرحال باقی رہ جاتاہے۔پھرامام کی نگاہیں اس مستقبل کوبھی دیکھ رہی تھیں جہاں مسلسل ہدایات کے پیش نظر چند افراد ضرورپیداہو جاتے ہیں اوراس وقت بھی پیدا ہو گئے تھے۔یہ اوربات ہے کہ قضا و قدر نے ساتھ نہیں دیا اور جہاد مکمل نہیں ہوسکا۔

اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اگر امیر المومنین نے سکوت اختیار کرلیا ہوتا تو دشمن اسے رضا مندی اور بیعت کی علامت بنا لیتے اور مخلصین اپنی کوتاہی عمل کا بہانہ قرار دے لیتے اوراسلام کی روح عمل اورتحریک دینداری مردہوکر رہ جاتی۔

۶۵

توبيخ الخارجين عليه

مَا لِي ولِقُرَيْشٍ - واللَّه لَقَدْ قَاتَلْتُهُمْ كَافِرِينَ - ولأُقَاتِلَنَّهُمْ مَفْتُونِينَ - وإِنِّي لَصَاحِبُهُمْ بِالأَمْسِ كَمَا أَنَا صَاحِبُهُمُ الْيَوْمَ - واللَّه مَا تَنْقِمُ مِنَّا قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّ اللَّه اخْتَارَنَا عَلَيْهِمْ - فَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي حَيِّزِنَا - فَكَانُوا كَمَا قَالَ الأَوَّلُ:

أَدَمْتَ لَعَمْرِي شُرْبَكَ الْمَحْضَ صَابِحاً

وأَكْلَكَ بِالزُّبْدِ الْمُقَشَّرَةَ الْبُجْرَا

ونَحْنُ وَهَبْنَاكَ الْعَلَاءَ ولَمْ تَكُنْ

عَلِيّاً وحُطْنَا حَوْلَكَ الْجُرْدَ والسُّمْرَا

( ۳۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في استنفار الناس إلى أهل الشام بعد فراغه من أمر الخوارج وفيها يتأفف بالناس، وينصح لهم بطريق السداد

أُفٍّ لَكُمْ لَقَدْ سَئِمْتُ عِتَابَكُمْ -

میرا قریش سے کیا تعلق ہے۔میں نے کل ان سے کفرکی بناپرجہاد کیا تھا اورآج فتنہ اور گمراہی کی بنا پر جہاد کروںگا۔میں ان کا پرانا مد مقابل ہوں اور آج بھی ان کے مقابلہ پرتیارہوں۔خدا کی قسم قریش کو ہم سے کوئی عداوت نہیں ہے مگر یہ کہ پروردگارنے ہمیں منتخب قراردیا ہے اور ہم نے ان کو اپنی جماعت میں داخل کرنا چاہا تو وہ ان اشعارکے مصداق ہوگئے:(ہماری جان کی قسم یہ شراب ناب صباح- یہ چرب چرب غذائیں ہمارا صدقہ ہیں)(ہمیں نے تم کو یہ ساری بلندیاں دی ہیں-وگرنہ تیغ و سناں بس ہمارا حصہ ہیں)

(۳۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں خوارج کےقصہ کےبعد لوگوں کو اہل شام سےجہادکےلئےآمادہ کیاگیا ہےاور انکے حالات پرافسوس کا اظہار کرتےہوئےانہیں نصیحت کی گئی ہے)

حیف ہےتمہارے حال پر۔میں تمہیں ملامت کرتے(۱) کرتے تھک گیا

(۱)اس مقام پر یہ خیال نہ کیا جائے کہ ایسے انداز گفتگو سے عوام الناس میں مزید نخوت پیدا ہو جاتی ہے اور ان میں کام کرنے کا جذبہ بالکل مردہ ہوجاتے ہے۔اوراگر واقعاً امام علیہ السلام اسی قدر عاجز آگئے تھے تو پھر بار بار دہرانے کی کیا ضرورت تھی۔انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہوتا۔جوانجام ہونے والا تھا ہو جاتا اور بالآخر لوگ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتے ؟اس لئے کہ یہ ایک جذباتی مشورہ تو ہو سکتا ہے منطقی گفتگو نہیں ہو سکتی ہے۔اکتاہٹ اور ناراضگی ایک فطری رد عمل ہے جو امر بالمعروف کی منز ل میں فریضہ بھی بن جاتا ہے۔لیکن اس کے بعد بھی اتمام حجت کا فریضہ بہر حال باقی رہ جاتا ہے۔پھر امام کی نگاہیں اس مستقبل کو بھی دیکھ رہی تھیں جہاں مسلسل ہدایات کے پیش نظر چند افراد ضرور پیدا ہو جاتے ہیں اور اس وقت بھی پیداہوگئے تھے یہ اوربات ہے کہ قضا وق در نے ساتھ نہیں دیا اور جہاد مکمل نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اگر امیرالمومنین نے سکتو اختیارکرلیا ہوتا تو دشمن اسے رضامندی اوربیعت کی علامت بنالیتے اور مخلصین اپنی کوتاہی عمل کا بہانہ قراردے لیتے اور اسلام کی روح عمل اور تحریک دینداری مردہ ہو کر رہ جاتی ہے۔

۶۶

( أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الآخِرَةِ ) عِوَضاً - وبِالذُّلِّ مِنَ الْعِزِّ خَلَفاً - إِذَا دَعَوْتُكُمْ إِلَى جِهَادِ عَدُوِّكُمْ دَارَتْ أَعْيُنُكُمْ كَأَنَّكُمْ مِنَ الْمَوْتِ فِي غَمْرَةٍ ومِنَ الذُّهُولِ فِي سَكْرَةٍ - يُرْتَجُ عَلَيْكُمْ حَوَارِي فَتَعْمَهُونَ وكَأَنَّ قُلُوبَكُمْ مَأْلُوسَةٌ فَأَنْتُمْ لَا تَعْقِلُونَ - مَا أَنْتُمْ لِي بِثِقَةٍ سَجِيسَ اللَّيَالِي ومَا أَنْتُمْ بِرُكْنٍ يُمَالُ بِكُمْ - ولَا زَوَافِرُ عِزٍّ يُفْتَقَرُ إِلَيْكُمْ - مَا أَنْتُمْ إِلَّا كَإِبِلٍ ضَلَّ رُعَاتُهَا - فَكُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ انْتَشَرَتْ مِنْ آخَرَ –

لَبِئْسَ لَعَمْرُ اللَّه سُعْرُ نَارِ الْحَرْبِ أَنْتُمْ - تُكَادُونَ ولَا تَكِيدُونَ - وتُنْتَقَصُ أَطْرَافُكُمْ فَلَا تَمْتَعِضُونَ لَا يُنَامُ عَنْكُمْ وأَنْتُمْ فِي غَفْلَةٍ سَاهُونَ - غُلِبَ واللَّه الْمُتَخَاذِلُونَ - وايْمُ اللَّه - إِنِّي لأَظُنُّ بِكُمْ أَنْ لَوْ حَمِسَ الْوَغَى واسْتَحَرَّ الْمَوْتُ قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ انْفِرَاجَ الرَّأْسِ

کیا تم لوگ واقعا آخرت کے عوض زندگانی دنیا پر راضی ہوگئے ہو اورتم نے ذلت کوعزت کا بدل سمجھ لیا ہے ؟ کہ جب میں تمہیں دشمن سے جہاد کی دعوت دیتا ہوں تو تم آنکھیں پھرانے لگتے ہو جیسے موت کی بے ہوشی طاری ہو اور غفلت کے نشہ میں مبتلا ہو۔تم پر جیسے میری گفتگو کے دروازے بند ہوگئے ہیں کہ تم گمراہ ہوتے جا رہے ہو اورتمہارے دلوں پردیوانگی کا اثر ہوگیا ہے کہ تمہاری سمجھ ہی میں کچھ نہیں آرہا ہے۔تم کبھی میرے لئے قابل اعتماد نہیں ہوسکتے ہو اور نہ ایسا ستون ہو جس پر بھروسہ کیا جا سکے اور نہ عزت کے وسائل ہو جس کی ضرورت محسوس کی جا سکے تو تو ان اونٹوں جیسے ہو جن کے چرواہے گم ہو جائیں کہ جب ایک طرف سے جمع کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف سے بھڑک جاتے ہیں۔

خداکی قسم۔تم بد ترین افراد ہوجن کے ذریعہ آتش جنگ کو بھڑکا یا جا سکے۔تمہارے ساتھ مکر کیا جاتا ہے اور تم کوئی تدبیر بھی نہیں کرتے ہو۔تمہارے علاقے کم ہو تے جا رہے ہیں اورتمہیں غصہ بھی نہیں آتا ہے۔دشمن تمہاری طرف سے غافل نہیں ہے مگر تم غفلت کی نیند سو رہے ہو۔خدا کی قسم سستی برتنے والے ہمیشہ مغلوب ہو جاتے ہیں اور بخدا میں تمہارے بارے میں یہی خیال رکھتا ہوں کہ اگرجنگ نے زور پکڑ لیا اور موت کا بازار گرم ہوگیا تو تم فرزند ابو طالب سے یوں ہی الگ ہو جائو گے جس طرح جسم سے سر الگ ہو جاتا ہے

۶۷

واللَّه إِنَّ امْرَأً يُمَكِّنُ عَدُوَّه مِنْ نَفْسِه - يَعْرُقُ لَحْمَه ويَهْشِمُ عَظْمَه - ويَفْرِي جِلْدَه لَعَظِيمٌ عَجْزُه - ضَعِيفٌ مَا ضُمَّتْ عَلَيْه جَوَانِحُ صَدْرِه أَنْتَ فَكُنْ ذَاكَ إِنْ شِئْتَ - فَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّه دُونَ أَنْ أُعْطِيَ ذَلِكَ ضَرْبٌ بِالْمَشْرَفِيَّةِ تَطِيرُ مِنْه فَرَاشُ الْهَامِ وتَطِيحُ السَّوَاعِدُ والأَقْدَامُ -( ويَفْعَلُ الله ) بَعْدَ ذَلِكَ( مِمَّا يَشاءُ )

طريق السداد

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً ولَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ - وتَوْفِيرُ فَيْئِكُمْ عَلَيْكُمْ - وتَعْلِيمُكُمْ كَيْلَا تَجْهَلُوا وتَأْدِيبُكُمْ كَيْمَا تَعْلَمُوا - وأَمَّا حَقِّي عَلَيْكُمْ فَالْوَفَاءُ بِالْبَيْعَةِ - والنَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ والْمَغِيبِ - والإِجَابَةُ حِينَ أَدْعُوكُمْ والطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُمْ

خدا کی قسم اگر کوئی شخص اپنے دشمن کو قابو دے دیتا ہے کہ وہ اس کا گوشت اتارے اور ہڈی توڑ ڈالے اور کھال کے ٹکڑے ٹکڑے کردے تو ایسا شخص عاجزی کی آخری سرحد پر ہے اور اس کا وہ دل انتہائی کمزور ہے جو اس کے پہلوؤں کے درمیان ہے تم چاہو تو ایسے ہی ہوجاؤ لیکن خدا گواہ ہے کہ اس نوبت کے آنے سے پہلے تلوار چلاؤں گا کہ کھوپڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اڑتی دکھائی دیں گے اور ہاتھ پیر کٹ کر گرتے نظرآئیں گے ۔ اس کے بعد خدا جو
چاہے گا وہ کرے گا ۔

ایہا الناس !یقینا ایک حق میرا تمہارے(۱) ذمہ ہے اورایک حق تمہارا میرے ذمہ ہے۔تمہارا حق میرے ذمہ یہ ہے کہ میں تمہیں نصیحت کروں اوربیت المال کا مال تمہارے حوالے کردوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہ جائو اورادب سکھائوں تاکہ با عمل ہو جائو۔اور میرا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ بیعت کا حق ادا کرو اور حاضر و غائب ہر حال میں خیر خواہ رہو۔جب پکاروں تو لبیک کہو اور جب حکم دوں تو اطاعت کرو۔

(۱)یہ دیانتداری اور ایمانداری کی عظیم ترین مثال ہے کہ کائنات کا امیر۔مسلمانوں کا حاکم۔اسلام کا ذمہ دار قوم کے سامنے کھڑے ہو کر اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ جس طرح میرا حق تمہارے ذمہ ہے اسی طرح تمہارا حق میرے ذمہ بھی ہے۔اسلام میں حاکم حقوق العباد سے بلند ترنہیں ہوتا ہے اور نہ اسے قانون الٰہی کے مقابلہ میں مطلق العنان قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد دوسری احتیاط یہ ہے کہ پہلے عوام کے حقوق کوادا کرنے کا ذکرکیا۔اس کے بعد اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اورحقوق کے بیان میں بھی عوام کے حقوق کو اپنے حق کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دی۔اپناحق صری یہ ہے کہ قوم مخلص رہے اور بیعت کا حق ادا کرتی رہے اور احکام کی اطاعت کرتی رہے جب کہ یہ کسی حاکم کے امتیازی حقوق نہیں ہیں بلکہ مذہب کے بنیادی فرائض ہیں۔اخلاص و نصیحت ہرشخص کابنیادی فریضہ ہے۔بیعت کی پابندی معاہدہ کی پابندی اورتقاضائے انسانیت ہے۔احکام کی اطاعت احکام الہیہ کی اطاعت ہے اوریہی عین تقاضائے اسلام ہے۔

اس کے برخلاف اپنے اوپر جن حقوق کاذکر کیا گیا ہے وہ اسلام کے بنیادی فرائض میں شامل نہیں ہیں بلکہ ایک حاکم کی ذمہ داری کے شعبہ ہیں کہ وہ لوگوں کو تعلیم دے کر ان کی جہالت کا علاج کریاور انہیں مہذب بنا کر عمل کیدعوت دے اورپھر برابرنصیحت کرتا رہے اور کسی آن بھی ان کے مصالح و منافع سے غافل نہ ہونے پائے۔

۶۸

(۳۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد التحكيم وما بلغه من أمر الحكمين

وفيها حمد اللَّه على بلائه، ثم بيان سبب البلوى

الحمد على البلاء

الْحَمْدُ لِلَّه وإِنْ أَتَى الدَّهْرُ بِالْخَطْبِ الْفَادِحِ والْحَدَثِ الْجَلِيلِوأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه لَا شَرِيكَ لَه لَيْسَ مَعَه إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

سبب البلوى

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مَعْصِيَةَ النَّاصِحِ الشَّفِيقِ الْعَالِمِ الْمُجَرِّبِ - تُورِثُ الْحَسْرَةَ وتُعْقِبُ النَّدَامَةَ - وقَدْ كُنْتُ أَمَرْتُكُمْ فِي هَذِه الْحُكُومَةِ أَمْرِي،

ونَخَلْتُ لَكُمْ مَخْزُونَ رَأْيِي لَوْ كَانَ يُطَاعُ لِقَصِيرٍ أَمْرٌ - فَأَبَيْتُمْ عَلَيَّ إِبَاءَ الْمُخَالِفِينَ الْجُفَاةِ والْمُنَابِذِينَ الْعُصَاةِ - حَتَّى ارْتَابَ النَّاصِحُ بِنُصْحِه وضَنَّ الزَّنْدُ بِقَدْحِه فَكُنْتُ أَنَا وإِيَّاكُمْ كَمَا قَالَ أَخُو هَوَازِنَ

أَمَرْتُكُمْ أَمْرِي بِمُنْعَرَجِ اللِّوَى

فَلَمْ تَسْتَبِينُوا النُّصْحَ إِلَّا ضُحَى الْغَدِ

(۳۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب تحکیم کے بعد اس کے نتیجہ کی اطلاع دی گئی تو آپ نے حمدو ثنائے الٰہی کے بعد اس بلا کا سبب بیان فرمایا)

ہر حال میں خدا کاشکر ہے چاہے زمانہ کوئی بڑی مصیبت کیوں نہ لے آئے اورحادثات کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہو جائیں ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے اور حضرت محمد(ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں ۔ (خدا کی رحمت ان پر اور ان کی آل پر)

اما بعد(یاد رکھو) کہ ناصح شفیق اور عالم تجربہ کار کی نا فرمانی ہمیشہ باعث حسرت اور موجب ندامت ہوا کرتی ہے۔میں نے تمہیں تحکیم کے بارے میں اپنی رائے سے با خبر کردیا تھا اور اپنی قیمتی رائے کا نچوڑ بیان کردیا تھا لیکن اے کاش ''قصیر''کے حاکم کی اطاعت کی جاتی۔تم نے تو میری اس طرح مخالفت کی جس طرح بد ترین مخالف اور عہد شکن نافرمان کیا کرتے ہیں یہاں تک کہ نصیحت کرنے والا خودبھی شبہ میں پڑ جائے کہ کس کو نصیحت کردی اور چقماق نے شعلہ بھڑکا نا بند کردئیے۔اب ہمارا اورتمہارا وہی حال ہوا ہے جو بنی ہوازن

کے شاعر نے کہا تھا:-" میں نے تم کو اپنی بات مقام منعرج اللوی میں بتادی تھی لیکن تم نے اس کی حقیقت کو دوسرے دن کی صبح ہی کو پہچانا"

۶۹

(۳۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في تخويف أهل النهروان

فَأَنَا نَذِيرٌ لَكُمْ أَنْ تُصْبِحُوا صَرْعَى بِأَثْنَاءِ هَذَا النَّهَرِ - وبِأَهْضَامِ هَذَا الْغَائِطِ عَلَى غَيْرِ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ - ولَا سُلْطَانٍ مُبِينٍ مَعَكُمْ - قَدْ طَوَّحَتْ بِكُمُ الدَّارُ واحْتَبَلَكُمُ الْمِقْدَارُ وقَدْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ هَذِه الْحُكُومَةِ - فَأَبَيْتُمْ عَلَيَّ إِبَاءَ الْمُنَابِذِينَ - حَتَّى صَرَفْتُ رَأْيِي إِلَى هَوَاكُمْ - وأَنْتُمْ مَعَاشِرُ أَخِفَّاءُ الْهَامِ سُفَهَاءُ الأَحْلَامِ ولَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً ولَا أَرَدْتُ لَكُمْ ضُرّاً.

(۳۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل نہروان کو انجام کارسے ڈرانےکے سلسلہ میں)

میں تمہیں با خبر(۱) دیتا ہوںکہ اس نہر کے موڑوں پر اور اس نشیب کی ہموار زمینوں پر پڑ ے دکھائی دوگے اور تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے کوئی واضح دلیل اور روشن حجت نہ ہوگی۔تمہارے گھروں نے تمہیں نکال باہر کردیا اورقضا وقدرنے تمہیں گرفتار کرلیا ۔ میں تمہیں اس تحکیم سے منع کر رہا تھا لیکن تم نے عہد شکن دشمنوں کی طرح میری مخالفت کی یہاں تک کہ میں نے اپنی رائے کو چھوڑ کر مجبوراً تمہاری بات کو تسلیم کرلیا مگر تم دماغ کے ہلکے اور عقل کے احمق نکلے۔خدا تمہارا برا کرے۔میں نے تمہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈالا ہے اور تمہارے لئے کوئی نقصان نہیں چاہاہے۔

(۱)صورت حال یہ ہے کہ جنگ صفین کے اختتام کے قریب جب عمرو عاص کے مشورہ سے معاویہ نے نیزوں پر قرآن بلند کردئیے اورقوم نے جنگ روکنے کا ارادہ کرلیا تو حضرت نے متنبہ کیا کہ یہ صرف مکاری ہے۔اس قوم کاقرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن قوم نے اس حد تک اصرار کیا کہ اگر آپ قرآن کے فیصلہ کو نہ مانیں گے تو ہم آپ کو قتل کردیں گے یا گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کردیں گے۔ظاہر ہے کہ اس کے نتائج انتہائی بدتر اورسنگین تھے لہٰذا آپ نے اپنی رائے سے قطع نظر کرکے اس بات کو تسلیم کرلیا مگر شرط یہی رکھی کہ فیصلہ کتاب و سنت ہی کے ذریعہ ہوگا۔

معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن فیصلہ کے وقت معاویہ کے نمائندہ عمروعاص نے حضرت علی کی طرف کے نمائندہ ابو موسیٰ اشعری کودھوکہ دیدیا اور اسنے حضرت علی کے معزول کرنے کا اعلان کردیا جس کے بعد عمروعاص نے معاویہ کو نا مزد کردیا اور اس کی حکومت مسلم ہوگئی۔

حضرت علی کے نام نہاد اصحاب کو اب اپنی حماقت کا اندازہ ہوا اور شرمندگی کو مٹانے کے لئے الٹا الزام لگانا شروع کردیا کہ آپ نے اس تحکیم کو کیوں منظور کیا تھا اور خدا کے علاوہ کسی کوحکم کیوں تسلیم کیاتھا۔آپ کافر ہوگئے ہیں اور آپ سے جنگ واجب ہے اور یہ کہہ کر مقام حر وراء پر لشکر جمع کرنا شروع کردیا۔ادھر حضرت شام کے مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے لیکن جب ان ظالموں کی شرارت حد سے آگے بڑھ گئی تو آپ نے ابو ایوب انصاری کو فہمائش کے لئے بھیجا۔ان کی تقریر کا یہ اثر ہوا کہ بارہ ہزار میں سے اکثریت کوفہ چلی گئی یاغیر جانب دار ہوگئی یا حضرت کے ساتھ آگئی اور صرف دو تین ہزار خوارج رہ گئے جن سے مقابلہ ہوا تو اس قیامت کا ہوا کہ صرف نو آدمی بچے۔باقی سب فی النار ہوگئے اور حضرت کے لشکر سے صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔یہ واقعہ ۹ صفر ۳۸ھ کو پیش آیا۔

۷۰

(۳۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يجري مجرى الخطبة وفيه يذكر فضائلهعليه‌السلام قاله بعد وقعة النهروان

فَقُمْتُ بِالأَمْرِ حِينَ فَشِلُوا وتَطَلَّعْتُ حِينَ تَقَبَّعُوا ونَطَقْتُ حِينَ تَعْتَعُوا ومَضَيْتُ بِنُورِ اللَّه حِينَ وَقَفُوا وكُنْتُ أَخْفَضَهُمْ صَوْتاً وأَعْلَاهُمْ فَوْتاً فَطِرْتُ بِعِنَانِهَا واسْتَبْدَدْتُ بِرِهَانِهَا كَالْجَبَلِ لَا تُحَرِّكُه الْقَوَاصِفُ - ولَا تُزِيلُه الْعَوَاصِفُ - لَمْ يَكُنْ لأَحَدٍ فِيَّ مَهْمَزٌ ولَا لِقَائِلٍ فِيَّ مَغْمَزٌ الذَّلِيلُ عِنْدِي عَزِيزٌ حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ لَه - والْقَوِيُّ عِنْدِي ضَعِيفٌ حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ مِنْه - رَضِينَا عَنِ اللَّه قَضَاءَه وسَلَّمْنَا لِلَّه أَمْرَه - أَتَرَانِي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واللَّه لأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَه - فَلَا أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ كَذَبَ عَلَيْه - فَنَظَرْتُ فِي أَمْرِي - فَإِذَا طَاعَتِي قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَتِي - وإِذَا الْمِيثَاقُ فِي عُنُقِي لِغَيْرِي.

(۳۷)

آپ کا ارشاد گرامی(جو بمنزلہ' خطبہ ہے اور اس میں نہر وان کے واقعہ کےبعدآپ نےاپنے فضائل اورکارناموں کا تذکرہ کیا ہے)

میں نےاس وقت اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ قیام کیا جب سب ناکام ہوگئے تھےاور اس وقت سراٹھایاجب سب گوشوں میں چھپےہوئےتھے اوراس وقت بولاجب سب گونگے ہوگئے تھےاوراس وقت نورخداکےسہارےآگے بڑھاجب سب ٹھہرےہوئے تھےمیری آوازسب سے دھیمی تھی میں نے جب عنان حکومت سنبھالی تو اس میں قوت پرواز پیدا ہوگئی اور میں تنہااس میدان میں بازی لے گیامیرااثبات پہاڑوں جیسا تھا جنہیں نہ تیزہوائیں ہلا سکتی تھیں اورنہ آندھیاں ہٹا سکتی تھیں۔نہ کسی کے لئے میرےکردارمیں طعن و طنز کی گنجائش تھی اورنہ کوئی عیب لگا سکتاتھا۔یادرکھوکہ تمہارا ذلیل میری نگاہ میں عزیزہےیہاں تک کہ اس کا حق دلوادوں اور تمہارا عزیز میری نگاہ میں ذلیل ہےیہاں تک کہ اس سے حق لے لوں۔میں قضا الٰہی پر راضی ہوں اور اس کےحکم کےسامنے سراپا تسلیم ہوں۔کیا تمہارا خیال ہے کہ میں رسول اکرم (ص) کے بارے میں کوئی غلط بیانی کر سکتا ہوں جب کہ سب سےپہلے میں نےآپ کی تصدیق کی ہےتو اب سب سے پہلےجھوٹ بولنے والا نہیں ہوسکتا ہوں۔میں نے اپنےمعاملہ میں غورکیا تومیرے لئےاطاعت رسول (ص) کامرحلہ بیعت پرمقدم تھا اورمیری گردن میں حضرت کے عہد کا طوق پہلے سے پڑا ہوا تھا۔

۷۱

(۳۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيها علة تسمية الشبهة شبهة ثم بيان حال الناس فيها

وإِنَّمَا سُمِّيَتِ الشُّبْهَةُ شُبْهَةً لأَنَّهَا تُشْبِه الْحَقَّ - فَأَمَّا أَوْلِيَاءُ اللَّه فَضِيَاؤُهُمْ فِيهَا الْيَقِينُ - ودَلِيلُهُمْ سَمْتُ الْهُدَى وأَمَّا أَعْدَاءُ اللَّه فَدُعَاؤُهُمْ فِيهَا الضَّلَالُ - ودَلِيلُهُمُ الْعَمَى - فَمَا يَنْجُو مِنَ الْمَوْتِ مَنْ خَافَه ولَا يُعْطَى الْبَقَاءَ مَنْ أَحَبَّه.

(۳۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها عند علمه بغزوة النعمان بن بشير صاحب معاوية لعين التمر،وفيها يبدي عذره، ويستنهض الناس لنصرته

(۳۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں شبہ کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اور لوگوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے)

یقینا شبہ کو شبہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے مشابہ ہوتا ہے۔اس موقع پر اولیاء اللہ کے لئے یقین کی روشنی ہوتی ہے اور سمت ہدایت کی رہنمائی لیکن دشمنان خدا کی دعوت گمراہی اور رہنما بے بصیرتی ہوتی ہے۔یاد رکھو کہ موت سے ڈرنے والا موت سے بچ نہیں سکتا ہے اوربقاء کا طلب گار بقائے دوام پا نہیں سکتا ہے۔

(۳۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو معاویہ کے سردار لشکر نعمان بن(۱) بشیرکے عین التمر پرحملہ کے وقت ارشاد فرمایا اور لوگوں کو اپنی نصرت پرآمادہ کیا )

(۱)معاویہ کی مفسدانہ کاروائیوں میں سے ایک عمل یہ بھی تھا کہ اس نے نعمان بن بشیر کی سر کردگی میں دو ہزار کالشکر عین التمر پرحملہ کرنے کے لئے بھیج دیا تھا جب کہ اس وقت امیر المومنین کی طرف سے مالک بن کعب ایک ہزار افراد کے ساتھ علاقہ کی نگرانی کر رہے تھے لیکن وہ سب موجود نہ تھے۔مالک نے حضرت کے پاس پیغام بھیجا۔آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا لیکن خاطر خواہ اثرنہ ہوا۔صرف عدی بن حاتم اپنے قبیلہ کے ساتھ تیار ہوئے لیکن آپ نے دوسرے قبائل کوبھی شامل کرنا چاہا اور جیسے ہی مخنف بن سلیم نے عبدالرحمن بن مخنف کے ہمراہ پچاس آدمی روانہ کردئیے لشکر معاویہ آتی ہوئی کمک کودیکھ فرار کرگیا لیکن قوم کے دامن پر نا فرمانی کادھبہ رہ گیا کہ عام افراد نے حضرت کے کلام پر کوئی توجہ نہیں دی۔

۷۲

مُنِيتُ بِمَنْ لَا يُطِيعُ إِذَا أَمَرْتُ ولَا يُجِيبُ إِذَا دَعَوْتُ لَا أَبَا لَكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ رَبَّكُمْ - أَمَا دِينٌ يَجْمَعُكُمْ ولَا حَمِيَّةَ تُحْمِشُكُمْ أَقُومُ فِيكُمْ مُسْتَصْرِخاً وأُنَادِيكُمْ مُتَغَوِّثاً فَلَا تَسْمَعُونَ لِي قَوْلًا ولَا تُطِيعُونَ لِي أَمْراً - حَتَّى تَكَشَّفَ الأُمُورُ عَنْ عَوَاقِبِ الْمَسَاءَةِ - فَمَا يُدْرَكُ بِكُمْ ثَارٌ ولَا يُبْلَغُ بِكُمْ مَرَامٌ - دَعَوْتُكُمْ إِلَى نَصْرِ إِخْوَانِكُمْ - فَجَرْجَرْتُمْ جَرْجَرَةَ الْجَمَلِ الأَسَرِّ وتَثَاقَلْتُمْ تَثَاقُلَ النِّضْوِ الأَدْبَرِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ مِنْكُمْ جُنَيْدٌ مُتَذَائِبٌ ضَعِيفٌ –( كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وهُمْ يَنْظُرُونَ ) .

قال السيد الشريف - أقول قولهعليه‌السلام متذائب أي مضطرب - من قولهم تذاءبت الريح أي اضطرب هبوبها - ومنه سمي الذئب ذئبا لاضطراب مشيته.

میں ایسے افراد میں مبتلا ہوگیا ہوں جنہیں حکم دیتا ہوں تو اطاعت نہیں کرتے ہیں اور بلاتا ہوں تو لبیک نہیں کہتے ہیں۔خدا تمہارا برا کرے ' اپنے پروردگار کی مدد کرنے میں کس چیز کا انتظار کر رہے ہو۔کیا تمہیں جمع کرنے والا دین نہیں ہے اور کیا جوش دلانے والی غیرت نہیں ہے۔میں تم میں کھڑا ہو کر آواز دیتا ہوں اور تمہیں فریاد کے لئے بلاتا ہوں لیکن نہ میری بات سنتے ہو اور نہ میرے حکم کی اطاعت کرتے ہو۔یہاں تک کہ حالات کے بد ترین نتائج سامنے آجائیں ۔سچی بات یہ ہے کہ تمہارے ذریعہ نہ کسی خون نا حق کا بدلہ لیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔میں نے تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کے لئے پکارا مگر تم اس اونٹ کی طرح بلبلا نے لگے جس کی ناف میں درد ہو اور اس کمزور شتر کی طرح سست پڑ گئے جس کی پشت زخمی ہو۔اس کے بعد تم سے ایک مختصر سی کمزور' پریشان حال سپاہ برآمد ہوئی اس طرح جیسے انہیں موت کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہو اور یہ بے کسی سے موت دیکھ رہے ہوں۔

سیدرضی: حضرت کے کلام میں متذائب مضطرب کے معنی میں ہے کہ عرب اس لفظ کو اس ہوا کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جس کا رخ معین نہیں ہوتا ہے اوربھیڑئیے کوبھی ذئب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی چال بے ہنگم ہو تی ہے۔

۷۳

(۴۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الخوارج لما سمع قولهم «لا حكم إلا لله»

قَالَعليه‌السلام : كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ - نَعَمْ إِنَّه لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّه - ولَكِنَّ هَؤُلَاءِ يَقُولُونَ لَا إِمْرَةَ إِلَّا لِلَّه وإِنَّه لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِيرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ - يَعْمَلُ فِي إِمْرَتِه الْمُؤْمِنُ - ويَسْتَمْتِعُ فِيهَا الْكَافِرُ - ويُبَلِّغُ اللَّه فِيهَا الأَجَلَ ويُجْمَعُ بِه الْفَيْءُ - ويُقَاتَلُ بِه الْعَدُوُّ وتَأْمَنُ بِه السُّبُلُ - ويُؤْخَذُ بِه لِلضَّعِيفِ مِنَ الْقَوِيِّ - حَتَّى يَسْتَرِيحَ بَرٌّ ويُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ.

وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى أَنَّهعليه‌السلام لَمَّا سَمِعَ تَحْكِيمَهُمْ قَالَ:

حُكْمَ اللَّه أَنْتَظِرُ فِيكُمْ.

.

(۴۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(خوارج کے بارے میں ان کا یہ مقولہ سن کر کہ'' حکم اللہ کے علاوہ کسی کے لئے نہیں ہے)

یہ ایک کلمہ حق ہے جس سے باطل معنی مراد لئے گئے ہیں۔بیشک حکم صرف اللہ کے لئے ہے۔لیکن ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور امارت(۱) بھی صرف اللہ کے لئے ہے حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نظام انسانیت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہر حال ضروری ہے چاہے نیک کردار ہو یا فاسق کہ حکومت کے زیرسایہ ہی مومن کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے اور کافر بھی مزے اڑا سکتا ہے اور اللہ ہرچیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے اور مال غنیمت و خراج وغیرہ جمع کیا جاتا ہے اور دشمنوں سے جنگ کی جاتی ہے اور راستوں کا تحفظ کیا جاتا ہے اور طاقتور سے کمزور کا حق لیا جاتا ہے تاکہ نیک کردار انسان کو راحت ملے اوربد کردار انسان سے راحت ملے۔

(ایک روایت میں ہے کہ جب آپ کو تحکیم کی اطلاع ملی توفرمایا)'' میں تمہارے بارے میں حکم خدا کا انتظار کر رہا ہوں ''

(۱)سترہویں صدی میں ایک فلسفہ ایسا بھی پیداہوا تھا جس کا مقصد مزاج کی حمایت تھا اوراس کا دعوی یہ تھا کہ حکومت کا وجود سماج میں حاکم و محکوم کا امتیاز پیدا کرتا ہے۔حکومت سے ایک طبقہ کو اچھی اچھی تنخواہیں مل جاتی ہیں اور دوسرا محروم رہ جاتا ہے۔ایک طبقہ کو طاقت استعمال کرنے کا حق ہوتا ہے۔اوردوسرے کو یہ حق نہیں ہوتا ہے اور یہ ساری باتیں مزاج انسانیت کے خلاف ہیں لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ یہ بیان لفظوں میں انتہائی حسین ہے اور حقیقت کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے اوربیان کردہ مفاسد کا علاج یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ کو معصوم اورعام حکام کو عدالت کا پابند تسلیم کرلیا جائے۔سارے فسادات کاخودبخود علاج ہو جائے گا۔

مذکورہ بالا فلسفہ کے خلاف فطرت کی روش بھی وہ تھی جس نے ۱۹۲۰ئ میں اس کا جنازہ نکال دیا اور پھر کوئی ایسا احمق فلسفی نہیں پیدا ہوا۔

۷۴

وقَالَ أَمَّا الإِمْرَةُ الْبَرَّةُ فَيَعْمَلُ فِيهَا التَّقِيُّ - وأَمَّا الإِمْرَةُ الْفَاجِرَةُ فَيَتَمَتَّعُ فِيهَا الشَّقِيُّ - إِلَى أَنْ تَنْقَطِعَ مُدَّتُه وتُدْرِكَه مَنِيَّتُه

(۴۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها ينهى عن الغدر ويحذر منه

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الْوَفَاءَ تَوْأَمُ الصِّدْقِ ولَا أَعْلَمُ جُنَّةً أَوْقَى مِنْه - ومَا يَغْدِرُ مَنْ عَلِمَ كَيْفَ الْمَرْجِعُ - ولَقَدْ أَصْبَحْنَا فِي زَمَانٍ قَدِ اتَّخَذَ أَكْثَرُ أَهْلِه الْغَدْرَ كَيْساً ونَسَبَهُمْ أَهْلُ الْجَهْلِ فِيه إِلَى حُسْنِ الْحِيلَةِ - مَا لَهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّه - قَدْ يَرَى الْحُوَّلُ الْقُلَّبُ وَجْه الْحِيلَةِ ودُونَهَا مَانِعٌ - مِنْ أَمْرِ اللَّه ونَهْيِه - فَيَدَعُهَا رَأْيَ عَيْنٍ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهَا - ويَنْتَهِزُ فُرْصَتَهَا مَنْ لَا حَرِيجَةَ لَه فِي الدِّينِ.

پھر فرمایا:حکومت نیک ہوتی ہے تو متقی کو کام کرنے کا موقع ملتا ہے اورحاکم فاسق و فاجر ہوتا ہے تو بد بختوں کو مزہ اڑانے کا موقع ملتا ہے یہاں تک کہ اس کی مدت تمام ہو جائے اور موت اسے اپنی گرفت میں لے لے

(۴۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں غداری سے روکا گیا ہے اور اس کے نتائج سے ڈرایا گیا ہے)

ایہا الناس!یاد رکھو وفا ہمیشہ صداقت کے ساتھ رہتی ہے اور میں اس سے بہتر محافظ کوئی سپرنہیں جانتا ہوں اور جسے باز گشت کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے وہ غداری نہیں کرتا ہے۔ہم ایک ایسے دورمیں واقع ہوئے ہیں جس کی اکثریت نے غداری اور مکاری کا نام ہوشیاری رکھ لیا ہے۔اور اہل جہالت نے اس کا نام حسن تدبیر رکھ لیا ہے۔آخر انہیں کیا ہوگیا ہے۔خدا انہیں غارت کرے۔وہ انسان جو حالات کے الٹ پھیر کو دیکھ چکا ہے وہ بھی حیلہ کے رخ کو جانتا ہے لیکن امرو نہی الٰہی اس کا راستہ روک لیتے ہیں اور وہ امکان رکھنے کے باوجود اس راستہ کو ترک کر دیتا ہے اور وہ شخص اس موقع سے فائدہ اٹھالیتا ہے جس کے لئے دین سد راہ نہیں ہوتا ہے۔

۷۵

(۴۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يحذر من اتباع الهوى وطول الأمل في الدنيا

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ - اثْنَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وطُولُ الأَمَلِ فَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ - وأَمَّا طُولُ الأَمَلِ

فَيُنْسِي الآخِرَةَ - أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ وَلَّتْ حَذَّاءَ فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الإِنَاءِ - اصْطَبَّهَا صَابُّهَا أَلَا وإِنَّ الآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ ولِكُلٍّ مِنْهُمَا بَنُونَ - فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الآخِرَةِ ولَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا - فَإِنَّ كُلَّ وَلَدٍ سَيُلْحَقُ بِأَبِيه يَوْمَ الْقِيَامَةِ - وإِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ ولَا حِسَابَ وغَداً حِسَابٌ ولَا عَمَلَ.

قال الشريف - أقول الحذاء السريعة - ومن الناس من يرويه جذاء.

(۴۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اتباع خواہشات اور طول امل سے ڈرایا گیا ہے)

ایہاالناس! میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کا خوف رکھتا ہوں۔اتباع خواہشات اور درازی امید کہ اتباع خواہشات انسان کو راہ حق سے روک دیتا ہے اور طول امل آخرت کو بھلا دیتا ہے۔یاد رکھو دنیا منہ پھیر کر جا رہی ہے اور اس میں سے کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے مگر اتنا جتنا برتن سے چیز کوانڈیل دینے کے بعد تہ میں باقی رہ جاتا ہے اور آخرت اب سامنے آرہی ہے۔

دنیا وآخرت دونوں کی اپنی اولاد ہیں۔لہٰذا تم آخرت کے فرزندوں میں شامل ہو جائو اور خبردار فرزندان دنیا میں شمار ہونا اس لئے کہ عنقریب ہر فرزند کو اس کے ماں کے(۱) ساتھ ملادیا جائے گا۔آج عمل کی منزل ہے اور کوئی حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہے اور کوئی عمل کی گنجائش نہیں ہے۔

سید رضی شریف نے فرمایا " میں کہتا ہوں کہ (الحذاء) یعنی جلدی اور بعض لوگوں نے جذاء بھی روایت کی ہے

(۱)انسان کی عاقبت کا دارومدارحقائق اورواقعات پر ہے اور وہاں ہرشخص کواس کی ماں کے نام سے پکارا جائے گا کہ ماں ہی ایک ثابت حقیقت ہے باپ کی تشخیص میں تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ماں کی تشخیص میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا ہے۔امام علیہ السلام کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں آخرت کی گود میں پرورش پائو تاکہ قیامت کے دن اسی سے ملادئیے جائو ورنہ ابناء دنیا اس دن وہیتیم ہوں گے جن کا کوئی باپ نہ ہوگا اور ماں کو بھی پیچھے چھوڑ کرآئے ہوں گے۔ایسا بے سہارا بننے سے بہتر یہ ہے کہ یہیں سے سہارے کا انتظام کرلو اور پورے انتظام کے ساتھ آخرت کا سفراختیار کرو۔

۷۶

(۴۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد أشار عليه أصحابه بالاستعداد لحرب أهل الشام بعد إرساله جرير بن عبد الله

البجلي إلى معاوية ولم ينزل معاوية على بيعته

إِنَّ اسْتِعْدَادِي لِحَرْبِ أَهْلِ الشَّامِ وجَرِيرٌ عِنْدَهُمْ - إِغْلَاقٌ لِلشَّامِ وصَرْفٌ لأَهْلِه عَنْ خَيْرٍ إِنْ أَرَادُوه - ولَكِنْ قَدْ وَقَّتُّ لِجَرِيرٍ وَقْتاً لَا يُقِيمُ بَعْدَه - إِلَّا مَخْدُوعاً أَوْ عَاصِياً - والرَّأْيُ عِنْدِي مَعَ الأَنَاةِ فَأَرْوِدُوا ولَا أَكْرَه لَكُمُ الإِعْدَادَ

ولَقَدْ ضَرَبْتُ أَنْفَ هَذَا الأَمْرِ وعَيْنَه وقَلَّبْتُ ظَهْرَه وبَطْنَه - فَلَمْ أَرَ لِي فِيه إِلَّا الْقِتَالَ أَوِ الْكُفْرَ - بِمَا جَاءَ مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - إِنَّه قَدْ كَانَ عَلَى الأُمَّةِ وَالٍ أَحْدَثَ أَحْدَاثاً - وأَوْجَدَ النَّاسَ مَقَالًا فَقَالُوا ثُمَّ نَقَمُوا فَغَيَّرُوا.

(۴۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب جریربن عبداللہ البجلی کو معاویہ کے پاس بھیجنے اور معاویہ کے انکار بیعت کے بعد اصحاب کو اہل شام سے جنگ پرآمادہ کرنا چاہا )

اس وقت میری اہل شام سے جنگ کی تیاری جب کہ جریر وہاں موجود ہیں شام پر تمام دروازے بند کردینا ہے اور انہیں خیرکے راستہ سے روک دینا ہے اگروہ خیر کا ارادہ بھی کرنا چاہیں۔میں نے جریر کے لئے ایک وقت مقرر کردیا ہے۔اس کے بعدوہ وہاں یا کسی دھوکہ کی بنا پر رک سکتے ہیں یا نا فرمانی کی بنا پر۔اور دونوں صورتوں میں میری رائے یہی ہے کہ انتظار کیا جائے لہٰذا ابھی پیشقدمی نہ کرو اور میں منع بھی نہیں کرتا ہوں اگر اندراندر تیاری(۱) کرتے رہو۔

میں نے اس مسئلہ پر مکمل غور و فکرکرلیا ہے اوراس کے ظاہر و باطن کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے۔اب میر ے سامنے دو ہی راستے ہیں یا جنگ کروں یا بیانات پیغمبر السلام (ص) کا انکار کردوں۔مجھ سے پہلے اس قوم کا ایک حکمران تھا۔اس نے اسلام میں بدعتیں ایجاد کیں اور لوگوں کوبولنے کا موقع دیا تو لوگوں نے زبان کھولی۔پھراپنی ناراضگی کااظہار کیا اورآخر میں سماج کا ڈھانچہ بدل دیا۔

(۱) یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عملی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ دشمن کو کوئی بہانہ فراہم نہ کرو اور واقعی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مکرو فریب سے ہوشیار رہو اورہر وقت مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہو۔

۷۷

(۴۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما هرب مصقلة بن هبيرة الشيباني إلى معاوية، وكان قد ابتاع سبي بني ناجية من عامل أمير المؤمنينعليه‌السلام وأعتقهم، فلما طالبه بالمال خاس به وهرب إلى الشام

قَبَّحَ اللَّه مَصْقَلَةَ - فَعَلَ فِعْلَ السَّادَةِ وفَرَّ فِرَارَ الْعَبِيدِ - فَمَا أَنْطَقَ مَادِحَه حَتَّى أَسْكَتَه - ولَا صَدَّقَ وَاصِفَه حَتَّى بَكَّتَه ولَوْ أَقَامَ لأَخَذْنَا مَيْسُورَه وانْتَظَرْنَا بِمَالِه وُفُورَه

(۴۴)

حضرت کا ارشاد گرامی

(اس موقع پر جب مصقلہ(۱) بن ہیرہ شیبانی نے آپ کے عامل سبے بنی ناجیہ کے اسیرکو خرید کر آزاد کردیا اور جب حضرت نے اس سے قیمت کامطالبہ کیا تو بد دیانتی کرتے ہوئے شام کی طرف فرار کر گیا)

خدا برے کرے مصقلہ کاکہ اس نے کام شریفوں جیسا کیا لیکن فرار غلاموں کی طرح کیا۔ابھی اس کے مداح نے زبان کھولی بھی نہیں تھی کہ اسنے خود ہی خاموش کردیا اور اس کی تعریف میں کچھ کہنے والا کچھ کہنے بھی نہ پایا تھا کہ اس نے منہ بند کردیا۔اگر وہیں ٹھہرا رہتا تو میں جس قدر ممکن ہوتا اس سے لے لیتا اورباقی کے لئے اس کے مال کی زیادتی کا انتظار کرتا۔

(۱) اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحکیم کے بعد خوارج نے جن شورشوں کاآغاز کیا تھا ان میں ایک بنی ناجیہ کے ایک شخص خریت بن راشد کا اقدام تھا جس کودبانے کے لئے حضرت نے زیادہ بن حفصہ کو روانہ کیا تھا اور انہوں نے اس شورش کودبا دیا تھا لیکن خریت دوسرے علاقوں میں فتنے برپا کرنے لگا تو حضرت معقل بن قیس ریاحی کو دو ہزار کا لشکردے کر روانہ کردیا اور ادھر ابن عباس نے بصرہ کے لئے کمک بھیج دی اوربالآخر حضرت کے لشکر نے فتنہ کو دبا دیا اور بہت سے افراد کو قیدی بنالیا۔قیدیوں کو لے کر جا رہے تھے کہ راستہ میں مصقلہ کے شہر سے گزر ہوا۔اس نے قیدیوں کی فریاد پر انہیں خرید کرآزاد کردیا اور قیمت کی صرف ایک قسط ادا کردی۔اس کے بعد خاموش بیٹھ گیا۔حضرت نے بار ارمطالبہ کیا۔آخر میں کوفہ آکردو لاکھ درہم دےدئیے اور جان بچانے کے لئے شام بھاگ گیا۔حضرت نے فرمایا کہ کام شریفوں کا کیاتھا لیکن واقعاً ذلیل ہی ثابت ہوا۔

کاش اسے اسلام کے اس قانون کی اطلاع ہوتی کہ قرض کی ادائیگی میں جبر نہیں کیا جاتا ہے بلکہ حالات کا انتظار کیا جاتا ہے اورجب مقروض کے پاس امکانات فراہم ہو جاتے ہیں تب قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔!

۷۸

(۴۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهو بعض خطبة طويلة خطبها يوم الفطر وفيها يحمد الله ويذم الدنيا

حمد الله

الْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَقْنُوطٍ مِنْ رَحْمَتِه - ولَا مَخْلُوٍّ مِنْ نِعْمَتِه - ولَا مَأْيُوسٍ مِنْ مَغْفِرَتِه - ولَا مُسْتَنْكَفٍ عَنْ عِبَادَتِه - الَّذِي لَا تَبْرَحُ مِنْه رَحْمَةٌ - ولَا تُفْقَدُ لَه نِعْمَةٌ.

ذم الدنيا

والدُّنْيَا دَارٌ مُنِيَ لَهَا الْفَنَاءُ - ولأَهْلِهَا مِنْهَا الْجَلَاءُ وهِيَ حُلْوَةٌ خَضْرَاءُ - وقَدْ عَجِلَتْ لِلطَّالِبِ - والْتَبَسَتْ بِقَلْبِ النَّاظِرِ - فَارْتَحِلُوا مِنْهَا بِأَحْسَنِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ مِنَ الزَّادِ - ولَا تَسْأَلُوا فِيهَا فَوْقَ الْكَفَافِ ولَا تَطْلُبُوا مِنْهَا أَكْثَرَ مِنَ الْبَلَاغِ

(۴۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

عند عزمه على المسير إلى الشام

وهو دعاء دعا به ربه عند وضع رجله في الركاب

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ

(۴۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(یہ عید الفطر کے موقع پرآپ کے طویل خطبہ کا ایک جز ہے جس میں حمد خدا اور مذمت دنیا کا ذکر کیا گیا ہے)

تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی رحمت سے مایوس نہیں ہوا جاتا اور جس کی نعمت سے کسی کا دامن خالی نہیں ہے۔نہ کوئی شخص اس کی مغرفت سے مایوس ہو سکتا ہے اور نہ کسی میں اس کی عبادت سے اکڑنے کا امکان ہے۔نہ اس کی رحمت تمام ہوتی ہے اور نہ اس کی نعمت کا سلسلہ رکتا ہے۔

یہ دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کے لئے فنا اور اس کے باشندوں کے لئے جلا وطنی مقدر ہے۔یہ دیکھنے میں شیریں اور سر سبز ہے جو اپنے طلب گار کی طرف تیزی سے بڑھتی ہے اور اس کے دل میں سما جاتی ہے۔لہٰذا خبردار اس سے کوچ کی تیاری کرو اور بہترین زاد راہ لے کر چلو۔اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال نہ کرنا اور جتنے سے کام چل جائے اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرنا۔

(۴۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب شام کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور اس دعا کو رکاب میں پائوں رکھتے ہوئے درد زبان فرمایا)

خدایا:میں سفر کی مشقت اور واپسی کے اندوہ و غم

۷۹

وكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وسُوءِ الْمَنْظَرِ - فِي الأَهْلِ والْمَالِ والْوَلَدِ - اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ - وأَنْتَ الْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ - ولَا يَجْمَعُهُمَا غَيْرُكَ - لأَنَّ الْمُسْتَخْلَفَ لَا يَكُونُ مُسْتَصْحَباً - والْمُسْتَصْحَبُ لَا يَكُونُ مُسْتَخْلَفاً.

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - وابتداء هذا الكلام مروي عن رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وقد قفاه أمير المؤمنينعليه‌السلام بأبلغ كلام وتممه بأحسن تمام - من قوله ولا يجمعهما غيرك - إلى آخر الفصل.

(۴۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذكر الكوفة

كَأَنِّي بِكِ يَا كُوفَةُ تُمَدِّينَ مَدَّ الأَدِيمِ الْعُكَاظِيِّ تُعْرَكِينَ بِالنَّوَازِلِ وتُرْكَبِينَ بِالزَّلَازِلِ - وإِنِّي لأَعْلَمُ أَنَّه مَا أَرَادَ بِكِ جَبَّارٌ سُوءاً - إِلَّا ابْتَلَاه اللَّه بِشَاغِلٍ ورَمَاه بِقَاتِلٍ!

اور اہل و مال و اولاد کی بد حالی سے تیرے پناہ چاہتا ہوں۔تو ہی سفرکا ساتھی ہے اور گھر کا نگراں ہے کہ یہ دونوں کام تیرے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا کہ جسے گھر میں چھوڑ دیا جائے وہ سفرمیں کام نہیں آتا ہے اور جسے سفرمیں ساتھ لے لیاجائے گا وہ گھر کی نگرانی نہیں کر سکتا ہے۔

سید رضی : اس دعا کا ابتدائی حصہ سرکار دوعالم (ص) سے نقل کیا گیا ہے اور آخری حصہ مولائے کائنات کی تضمین کا ہے جو سرکار (ص) کے کلمات کی بہترین توضیح اور تکمیل ہے ۔'' لا یجمعهما غیرک ''

(۴۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(کوفہ کے بارے میں )

اے کوفہ! جیسے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے بازار عکاظ کے چمڑے کی طرح کھینچا جا رہا ہے۔تجھ پرحوادث کے حملے ہو رہے ہیں اور تجھے زلزلوں کا مرکب بنادیا گیا ہے اور مجھے یہ معلوم ہے کہ جو ظالم و جابر بھی تیرے ساتھ کوئی برائی کرنا چاہے گا پروردگار اسے کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردے گا اور اسے کسی قاتل کی زد پر لے آئے گا۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863