نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 564749
ڈاؤنلوڈ: 13185

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 564749 / ڈاؤنلوڈ: 13185
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

والزَّالُّونَ الْمُزِلُّونَ - يَتَلَوَّنُونَ أَلْوَاناً ويَفْتَنُّونَ افْتِنَاناً - ويَعْمِدُونَكُمْ بِكُلِّ عِمَادٍ ويَرْصُدُونَكُمْ بِكُلِّ مِرْصَادٍ - قُلُوبُهُمْ دَوِيَّةٌ وصِفَاحُهُمْ نَقِيَّةٌ - يَمْشُونَ الْخَفَاءَ ويَدِبُّونَ الضَّرَاءَ - وَصْفُهُمْ دَوَاءٌ وقَوْلُهُمْ شِفَاءٌ وفِعْلُهُمُ الدَّاءُ الْعَيَاءُ - حَسَدَةُ الرَّخَاءِ ومُؤَكِّدُو الْبَلَاءِ ومُقْنِطُو الرَّجَاءِ - لَهُمْ بِكُلِّ طَرِيقٍ صَرِيعٌ - وإِلَى كُلِّ قَلْبٍ شَفِيعٌ ولِكُلِّ شَجْوٍ دُمُوعٌ - يَتَقَارَضُونَ الثَّنَاءَ ويَتَرَاقَبُونَ الْجَزَاءَ - إِنْ سَأَلُوا أَلْحَفُوا وإِنْ عَذَلُوا كَشَفُوا، وإِنْ حَكَمُوا أَسْرَفُوا - قَدْ أَعَدُّوا لِكُلِّ حَقٍّ بَاطِلًا ولِكُلِّ قَائِمٍ مَائِلًا - ولِكُلِّ حَيٍّ قَاتِلًا ولِكُلِّ بَابٍ مِفْتَاحاً -

اورمنرف سازبھی یہ مسلسل رنگ بدلتے رہتے ہیں اور طرح طرح کے فتنے اٹھاتے رہتے ہیں۔ہرمکرو فریب کے ذریعہ تمہارا ہی قصدکرتے ہیں اور ہر گھات میں تمہاری ہی تاک میں بیٹھتے ہیں۔انکے دل بیمار ہیں اور ان کے چہرے پاک و صاف ۔اندر ہیاندر چال چلتے ہیں اور نقصانات کی خاطر رینگتے ہوئے قدم بڑھاتے ہیں۔ان کا طریقہ دوا جیسا اور ان کا کلام شفا جیسا ہے لیکن ان کا کردار نا قابل علاج مرض ہے ۔یہ راحتوں میں حسد کرنے والے مصیبتوں میں مبتلا کردینے والے اور امیدوں کو نا امید بنا دینے والے ہیں۔جس راہ پر دیکھو ان کامارا ہوا پڑا ہے۔اور جس دل کو دیکھو وہاں تک پہنچنے کا ایک سفارشی ڈھونڈ رکھا ہے۔ اور ہر رنج و غم کے لئے آنسو(۱) تیاررکھے ہوئے ہیں۔ایک دوسرے کی تعریف میں حصہ لیتے ہیں اور اس کے بدلہ کے منتظر رہتے ہیں سوال کرتے ہیں تو چپک جاتے ہیں اور برائی کرتے ہیں تو رسوا کرکے ہی چھوڑتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں تو حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ہر حق کے لئے ایک باطل تیار کر رکھا ہے اور ہر سیدھے کے لئے ایک کجی کا انتظام کر رکھا ہے۔ہر زندہ کے لئے ایک قاتل موجود ہے اور ہر دروازہ کیلئے ایک کنجی بنا رکھی ہے

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ منافقین کا کوئی عمل قابل اعتبار نہیں ہوتا ہے اور ان کی زندگی سراپا غلط بیانی ہوتی ہے۔تعریف کرنے پر آجاتے ہیں تو زمین وآسمان کو قلابے ملادیتے ہیں اوربرائی کرنے پر تل جاتے ہیں توآدمی کو عالمی سطح پرذلیل کرکے چھوڑتے ہیں۔اس لئے کہان کا نہ کوئی ضمیر ہوتاہے اور نہ کوئی معیار۔انہیں صرف موقع پرستی سے کام لینا ہے اور اسی کے اعتبار سیزبان کھولنا ہے۔خطبہ کے عنوان سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہی ہ سماج کے چند افراد کا ایک گروہ ہے جس کے کردار کو واضح کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ اس کردار سے ہوشیار ہیں اور اپنی زندگی کو نفاق سے بچا کر ایمان اور تقویٰ کے راستہ پر لگا دیں۔لیکن تفصیلات ک دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ یہ پورے سماج کا نقشہ ہے اور ساراعالم انسانیت اسی رنگ پر رنگا ہوا ہے۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نفاق کی حکمرانی نہ ہو اور انسان کے کردار کا کوئی رخ ایسا نہیں ہے جسے میں واقعیت اورحقیقت پائی جاتی ہو اورجس نفاق سے پاک و پاکیزہ قرار دیاجاسکے۔

۴۰۱

ولِكُلِّ لَيْلٍ مِصْبَاحاً - يَتَوَصَّلُونَ إِلَى الطَّمَعِ بِالْيَأْسِ لِيُقِيمُوا بِه أَسْوَاقَهُمْ - ويُنْفِقُوا بِه أَعْلَاقَهُمْ يَقُولُونَ فَيُشَبِّهُونَ - ويَصِفُونَ فَيُمَوِّهُونَ قَدْ هَوَّنُوا الطَّرِيقَ - وأَضْلَعُوا الْمَضِيقَ فَهُمْ لُمَةُ الشَّيْطَانِ وحُمَةُ النِّيرَانِ -( أُولئِكَ حِزْبُ الشَّيْطانِ - أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَ ) .

(۱۹۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه ويثني على نبيه ويعظ

حمد اللَّه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي أَظْهَرَ مِنْ آثَارِ سُلْطَانِه وجَلَالِ كِبْرِيَائِه - مَا حَيَّرَ مُقَلَ الْعُقُولِ مِنْ عَجَائِبِ قُدْرَتِه - ورَدَعَ خَطَرَاتِ هَمَاهِمِ النُّفُوسِ عَنْ عِرْفَانِ كُنْه صِفَتِه -

الشهادتان

وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه - شَهَادَةَ إِيمَانٍ وإِيقَانٍ وإِخْلَاصٍ وإِذْعَانٍ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - أَرْسَلَه وأَعْلَامُ الْهُدَى دَارِسَةٌ - ومَنَاهِجُ الدِّينِ طَامِسَةٌ فَصَدَعَ بِالْحَقِّ - ونَصَحَ لِلْخَلْقِ، وهَدَى إِلَى الرُّشْدِ

اور ہر رات کے لئے ایک چراغ مہیا کر رکھا ہے۔طع کے لئے ناموس کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ اپنے بازار کو رواج دے سکیں اور اپنے مال کو رائج کر سکیں۔جب بات کرتے ہیں تو مشتبہ قسم کی اور جب تعریف کرتے ہیں تو باطل کو حق کا رنگ دے کر۔انہوں نے اپنے لئے راستہ کو آسان بنالیا ہے اور دوسروں کے لئے تنگی پیدا کردی ہے۔یہ شیطان کے گروہ ہیں اور جہنم کے شعلے ' یہی حزب الشیطان کے مصداق ہیں اور حزب الشیطان کا مقدر سوائے خسارہ کے کچھ نہیں ہے ۔

(۱۹۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی سلطنت کے آثار اور کبریائی کے جلال کو اس طرح نمایاں کیا ہے کہ عقلوں کی نگاہیں عجائب قدرت سے حیران ہوگئی ہیں اورنفوس کے تصورات و افکار اس کے صفات کی حقیقت کے عرفان سے رک گئے ہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور یہ گواہی صرف ایمان و یقین ۔اخلاص و اعتقاد کی بناپر ہے اور پھر میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔اس نے انہیں اس وقت بھیجا ہے جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے۔اور دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے۔انہوں نے حق کاواشگاف انداز سے اظہار کیا۔

۴۰۲

وأَمَرَ بِالْقَصْدِ -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم -

العظة

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يُرْسِلْكُمْ هَمَلًا - عَلِمَ مَبْلَغَ نِعَمِه عَلَيْكُمْ وأَحْصَى إِحْسَانَه إِلَيْكُمْ - فَاسْتَفْتِحُوه واسْتَنْجِحُوه واطْلُبُوا إِلَيْه واسْتَمْنِحُوه - فَمَا قَطَعَكُمْ عَنْه حِجَابٌ ولَا أُغْلِقَ عَنْكُمْ دُونَه بَابٌ - وإِنَّه لَبِكُلِّ مَكَانٍ وفِي كُلِّ حِينٍ وأَوَانٍ - ومَعَ كُلِّ إِنْسٍ وجَانٍّ - لَا يَثْلِمُه الْعَطَاءُ ولَا يَنْقُصُه الْحِبَاءُ - ولَا يَسْتَنْفِدُه سَائِلٌ ولَا يَسْتَقْصِيه نَائِلٌ - ولَا يَلْوِيه شَخْصٌ عَنْ شَخْصٍ ولَا يُلْهِيه صَوْتٌ عَنْ صَوْتٍ - ولَا تَحْجُزُه هِبَةٌ عَنْ سَلْبٍ ولَا يَشْغَلُه غَضَبٌ عَنْ رَحْمَةٍ - ولَا تُولِهُه رَحْمَةٌ عَنْ عِقَابٍ

لوگوں کو ہدایت دی اورسیدھے راستہ پر لگا کرمیانہ روی کا قانون بتادیا۔ بند گان خدا ! یاد رکھو پروردگار نے تم کو بیکارنہیں پیداکیا ہے اور نہ تم کو بے لگا چھوڑ دیا ہے۔وہ تم کو دی جانے والی نعمتوںکے حدود کو جانتا ہے اورتم پر کئے جانے والے احسانات کا شمار رکھتا ہے لہٰذا اس سے کامرانی اور کامیابی کا تقاضا کرو۔اس کی طرف دست طلب بڑھائو اور اس سے عطایا کا مطالبہ کرو۔کوئی حجاب تمہیں اس سے جدا نہیں کر سکتا ہے اور کوئی دروازہ اس کا تم پر بند نہیں ہو سکتا ہے۔وہ ہرجگہ اور ہر آن موجود ہے۔ہر انسان اور ہرجن کے ساتھ ہے۔نہ عطاء اس کے کرم میں رخنہ ڈال سکتی ہے اور نہ ہدایا اس کے خزانہ میں کمی پیدا کر سکتے ہیں۔ کوئی سائل اس کے خزانہ کو خالی نہیں کر سکتا ہے اور کوئی عطیہ اس کے کرم کی انتہا ء کو نہیں پہنچ سکتا ہے۔ایک شخص کی طرف توجہ دوسرے کی طرف سے رخ موڑ نہیں سکتی ہے اورایک آوازدوسری آوازسے غافل نہیں بنا سکتی ہے۔اس کاعطیہ(۱) چھین لینے سے مانع نہیں ہوتا ہے اور اس کا غضب رحمت سے مغشول نہیں کرتا ہے۔رحمت عتاب سے غفلت میں نہیں ڈال دیتی ہے

(۱) جن لوگوں کے صفات و کمالات پر مزاج یا عادات کی حکمرانی ہوتی ہے۔ان کے کمالات میں اس طرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے کہ مہربان ہو تے ہیں تو مہربان ہی ہوتے ہیں اور غصہ ور ہوتے ہیں تو غصہ ور ہی ہوتے ہیں۔لیکن مالک کائنات کے اوصاف و کمالات اس سے بالکل مختلف ہیں اس کے اوصاف و کمالات کا سرچشمہ اس کا مزاج یا اس کی طبیعت نہیں ہے۔بلکہ ان کا واقعی سر چشمہ اس کی حکمت اور مصلحت ہے۔لہٰذا اس کے بارے میں عین ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں مہربان بھی ہو اورغضب ناک بھی نعمتیں عطا بھی کر رہا ہواور سلب بھی کر رہا ہو۔اس کے کمال کا ظہور بھی ہو اور پردہ بھی۔وہ دور بھی نظرآئے اور قریب بھی۔اس لئے کہ مصالح کا تقاضا ہمیشہ افراد کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ایک شخص کاکردار رحمت چاہتا ہے اور دوسرے کا غضب ایک کے حق میں مصلحت عطا کر دینا ہے اوردوسرے کے حق میں چھین لیا۔ایک جزا و انعام کا سزاوار ہے اوردوسرا سزا واعتاب کا حقدار ۔تو حکیم علی الاطلاق کا فرض ہے کہ ایک ہی وقت میں ہرشخص کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرے جس کا وہ اہل ہے اورایک برتائو اسے دورسے برتائو سے غافل نہ بناسکے۔

۴۰۳

ولَا يُجِنُّه الْبُطُونُ عَنِ الظُّهُورِ - ولَا يَقْطَعُه الظُّهُورُ عَنِ الْبُطُونِ - قَرُبَ فَنَأَى وعَلَا فَدَنَا وظَهَرَ فَبَطَنَ - وبَطَنَ فَعَلَنَ ودَانَ ولَمْ يُدَنْ - لَمْ يَذْرَأِ الْخَلْقَ بِاحْتِيَالٍ ولَا اسْتَعَانَ بِهِمْ لِكَلَالٍ.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا الزِّمَامُ والْقِوَامُ فَتَمَسَّكُوا بِوَثَائِقِهَا - واعْتَصِمُوا بِحَقَائِقِهَا تَؤُلْ بِكُمْ إِلَى أَكْنَانِ الدَّعَةِ - وأَوْطَانِ السَّعَةِ ومَعَاقِلِ الْحِرْزِ ومَنَازِلِ الْعِزِّ فِي يَوْمٍ تَشْخَصُ فِيه الأَبْصَارُ وتُظْلِمُ لَه الأَقْطَارُ - وتُعَطَّلُ فِيه صُرُومُ الْعِشَارِ ويُنْفَخُ فِي الصُّورِ - فَتَزْهَقُ كُلُّ مُهْجَةٍ وتَبْكَمُ كُلُّ لَهْجَةٍ - وتَذِلُّ الشُّمُّ الشَّوَامِخُ والصُّمُّ الرَّوَاسِخُ - فَيَصِيرُ صَلْدُهَا سَرَاباً رَقْرَقاً ومَعْهَدُهَا قَاعاً سَمْلَقاً - فَلَا شَفِيعٌ يَشْفَعُ ولَا حَمِيمٌ يَنْفَعُ ولَا مَعْذِرَةٌ تَدْفَعُ

اور ہستی کا پوشیدہ ہونا ظہور سے مانع نہیں ہوتا ہے اورآثار کا ظہور ہستی کی پردہ داری کو نہیں روک سکتا ہے۔وہ قریب ہوکر بھی دور ہے اور بلندہوکربھی نزدیک ہے۔وہ ظاہر ہوکر بھی پوشیدہ ہے اور پوشیدہ ہو کربھی ظاہر ہے وہ جزا دیتا ہے لیکن اسے جزا نہیں دی جاتی ہے۔اس نے مخلوقات کو سوچ بچار کرکے نہیں بنایا ہے اور نہ خستگی کی بنا پر ان سے مدد لی ہے۔

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں کہ یہی ہر خیر کی زمام اور ہر نیکی کی بنیاد ہے۔اس کے بندنوں سے وابستہ رہو اور اس کے حقائق سے متمسک رہو۔یہ تم کو راحت کی محفوظ منزلوں اور وسعت کے بہترین علاقوں تک پہنچا دے گا۔تمہارے لئے محفوظ مقامات ہوں گے اور باعزت منازل۔اس دن جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اوراطراف اندھیرا چھا جائے گا اونٹنیاں معطل کردی جائیں گی اور صور پھونک دیا جائے گا۔اس وقت سب کادم نکل جائے گا اور ہر زبان گونگی ہو جائے گی بلند ترین پہاڑ اورمضبوط ترین چٹانیں ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔پتھروں کی چٹانیں چمکدار سراب کی شکل میں تبدیل ہو جائیں گی اوہر ان کی منزل ایک صاف چٹیل میدان ہو جائے گی۔نہ کوئی شفیع شفاعت کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی دوست کام آنے والا ہوگا۔اور نہ کوئی معذرت دفاع کرنے والی ہوگی۔

۴۰۴

(۱۹۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعثة النبي

بَعَثَه حِينَ لَا عَلَمٌ قَائِمٌ - ولَا مَنَارٌ سَاطِعٌ ولَا مَنْهَجٌ وَاضِحٌ –

العظة بالزهد

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - وأُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا دَارُ شُخُوصٍ - ومَحَلَّةُ تَنْغِيصٍ سَاكِنُهَا ظَاعِنٌ وقَاطِنُهَا بَائِنٌ - تَمِيدُ بِأَهْلِهَا مَيَدَانَ السَّفِينَةِ - تَقْصِفُهَا الْعَوَاصِفُ فِي لُجَجِ الْبِحَارِ - فَمِنْهُمُ الْغَرِقُ الْوَبِقُ ومِنْهُمُ النَّاجِي عَلَى بُطُونِ الأَمْوَاجِ - تَحْفِزُه الرِّيَاحُ بِأَذْيَالِهَا وتَحْمِلُه عَلَى أَهْوَالِهَا - فَمَا غَرِقَ مِنْهَا فَلَيْسَ بِمُسْتَدْرَكٍ ومَا نَجَا مِنْهَا فَإِلَى مَهْلَكٍ!

عِبَادَ اللَّه الآنَ فَاعْلَمُوا والأَلْسُنُ مُطْلَقَةٌ - والأَبْدَانُ صَحِيحَةٌ والأَعْضَاءُ لَدْنَةٌ - والْمُنْقَلَبُ فَسِيحٌ والْمَجَالُ عَرِيضٌ - قَبْلَ إِرْهَاقِ الْفَوْتِ وحُلُولِ الْمَوْتِ - فَحَقِّقُوا عَلَيْكُمْ نُزُولَه ولَا تَنْتَظِرُوا قُدُومَه

(۱۹۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسمیں سرکار دو عالم (ص) کی مدح کی گئی ہے )

(پروردگارنے آپ کو اس وقت مبعوث کیا جب نہ کوئی نشان ہدایت قائم رہ گیا تھا نہ کوئی منارۂ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا)

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں اور دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کا گھر اوربد مزگی کا علاقہ ہے۔اس کا باشندہ بہر حال سفر کرنے والا ہے اور اس کا مقیم بہرحال جدا ہونے والا ہے۔یہ اپنے اہل کو لے کر اس طرح لرزتی ہے جس طرح گہرے سمندر میں تندو تیز ہوائوں کی زد پر کشتیاں ۔کچھ لوگ غرق اور ہلاک ہو جاتے ہیں اور کچھ موجوں کے سہارے پر باقی رہ جاتے ہیں کہ ہوائیں انہیں اپنے دامن میں لئے پھرتی رہتی ہیں اور اپنی ہولناک منزلوں کی طرف لے جاتی رہتی ہیں۔جو غرق ہو گیا وہ دوبارہ نکالا نہیں جا سکتا اور جو بچ گیا ہے اس کا راستہ ہلاکت ہی کی طرف جا رہا ہے۔

بندگان خدا!ابھی بات کو سمجھ لو جب کہ زبانیں آزاد ہیں اور بدن صحیح و سالم ہیں۔اعضاء میں لچک باقی ہے اورآنے جانے کی جگہ وسیع اور کام کا میدان طویل و عریض ہے ۔قبل اس کے کہ موت نازل ہو جائے اور اجل کاپھندہ گلے میں پڑ جائے ۔اپنے لئے موت کی آمد کو یقینی سمجھ لو اور اس کے آنے کا انتظار نہ کرو ۔

۴۰۵

(۱۹۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

ينبه فيه على فضيلته لقبول قوله وأمره ونهيه

ولَقَدْ عَلِمَ الْمُسْتَحْفَظُونَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أَنِّي لَمْ أَرُدَّ عَلَى اللَّه ولَا عَلَى رَسُولِه سَاعَةً قَطُّ ولَقَدْ وَاسَيْتُه بِنَفْسِي فِي الْمَوَاطِنِ - الَّتِي تَنْكُصُ فِيهَا الأَبْطَالُ - وتَتَأَخَّرُ فِيهَا الأَقْدَامُ نَجْدَةً أَكْرَمَنِي اللَّه بِهَا.

ولَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وإِنَّ رَأْسَه لَعَلَى صَدْرِي - ولَقَدْ سَالَتْ نَفْسُه فِي كَفِّي فَأَمْرَرْتُهَا عَلَى وَجْهِي - ولَقَدْ وُلِّيتُ غُسْلَهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم والْمَلَائِكَةُ أَعْوَانِي - فَضَجَّتِ الدَّارُ والأَفْنِيَةُ - مَلأٌ يَهْبِطُ ومَلأٌ يَعْرُجُ - ومَا فَارَقَتْ سَمْعِي هَيْنَمَةٌ مِنْهُمْ - يُصَلُّونَ عَلَيْه حَتَّى وَارَيْنَاه فِي ضَرِيحِه -

(۱۹۷)

آپ کا ارشادگرامی

(جس میں پیغمبر اسلام (ص) کے امرونہی اورتعلیمات کوقبول کرنے کے ذیل میں فضیلت کاذکر کیا گیا ہے)

اصحاب پیغمبر (ص) میں شریعت کے امانتدار افراد اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا اور رسول (ص) کی بات کو رد نہیں کیا اورمیں نے پیغمبر اکرم(ص) پر اپنی(۱) جان ان مقامات پر قربان کی ہے جہاں بڑے بڑے بہادر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔صرف اس بہادری کی بنیاد پرجس سے پروردگارنے مجھے سرفراز فرمایا تھا۔

رسول اکرم(ص) اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جب ان کا سر میرے سینہ پرتھا اور ان کی روح اقدس میرے ہاتھوں پر جدا ہوئی ہے تو میں نے اپنے ہاتھوں کو چہرہ پرمل لیا۔میں نے ہی آپ کو غسل دیاہے جب ملائکہ میری امداد کر رہے تھے اور گھر کے اندر اورباہر ایک کہرام برپا تھا۔ایک گروہ نازل ہو رہا تھا اورایک واپس جا رہا تھا۔سب نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں مسلسل ان کی آوازیں سن رہا تھا۔

(۱)مولائے کائنات کی پوری حیات اس ارشاد گرامی کا بہترین مرقع ہے جہاں ہجرت کی رات سے لے کر فتح مکہ تک اور اس کے بعد تبلیغ برائت تک کوئی موقع ایسا نہیں تھا جہاں آپ نے سرکار دوعالم (ص) اور ان کے مقصد کی خاطر اپنی جان کو خطرہ میں نہ ڈال دیا ہو اور اس وحدت ذات و صفات کا ثبوت نہ دیا ہوجس کی طرف خود حضرت نے میدان احد میں اشارہ کیا تھا جب جبرائیل امین نے عر ض کی حضور علی کی مواساة کودیکھ رہے ہیں ؟ تو آپنے فرمایا کہ اس میں حیرت کی بات کیا ہے '' علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ''۔اس کے بعد انتقال سے لے کردفن کے آخری مرحلہ تک ہر قدم پر حضور کے امورکے ذمہ دار رہے جب کہ مورخین کے بیان کی بنا پر بڑے بڑے صحابہ کرام دفن میں شرکت کی سعادت حاصل نہ کر سکے اورخلافت سازی کی مہم میں مصروف رہ گئے۔

۴۰۶

فَمَنْ ذَا أَحَقُّ بِه مِنِّي حَيّاً ومَيِّتاً - فَانْفُذُوا عَلَى بَصَائِرِكُمْ - ولْتَصْدُقْ نِيَّاتُكُمْ فِي جِهَادِ عَدُوِّكُمْ - فَوَالَّذِي لَا إِلَه إِلَّا هُوَ إِنِّي لَعَلَى جَادَّةِ الْحَقِّ - وإِنَّهُمْ لَعَلَى مَزَلَّةِ الْبَاطِلِ - أَقُولُ مَا تَسْمَعُونَ وأَسْتَغْفِرُ اللَّه لِي ولَكُمْ!

(۱۹۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ينبه على إحاطة علم اللَّه بالجزئيات، ثم يحث على التقوى،

ويبين فضل الإسلام والقرآن

يَعْلَمُ عَجِيجَ الْوُحُوشِ فِي الْفَلَوَاتِ ومَعَاصِيَ الْعِبَادِ فِي الْخَلَوَاتِ - واخْتِلَافَ النِّينَانِ فِي الْبِحَارِ الْغَامِرَاتِ - وتَلَاطُمَ الْمَاءِ بِالرِّيَاحِ الْعَاصِفَاتِ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُ اللَّه - وسَفِيرُ وَحْيِه ورَسُولُ رَحْمَتِه –

الوصية بالتقوى

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنِّي أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي ابْتَدَأَ خَلْقَكُمْ - وإِلَيْه يَكُونُ مَعَادُكُمْ وبِه نَجَاحُ طَلِبَتِكُمْ - وإِلَيْه مُنْتَهَى رَغْبَتِكُمْ ونَحْوَه قَصْدُ سَبِيلِكُمْ -

یہاں تک کہ میں نے ہی حضرت کو سپرد لحد کیا ہے۔تو اب بتائو کہ زندگی اورموت میں مجھ سے زیادہ ان سے قریب تر کون ہے ؟ اپنی بصیر توں کے ساتھ اور صدق نیت کے اعتماد پر آگے بڑھو۔اور اپنے دشمن سے جہاد کرو قسم ہے اس پروردگار کی جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے کہ میں حق کے راستہ پر ہوں اور وہ لوگ باطل کی لغزشوں کی منزل میں ہیں۔میں جو کہہ رہا ہوں وہ تم سن رہے ہو اورمیں اپنے اور تمہارے دونوں کے لئے خدا کی بارگاہ میں استغفار کر رہا ہوں۔

(۱۹۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں خداکی عالم جزئیات ہونے پر تاکید کی گئی ہے اور پھر تقویٰ پرآمادہ کیا گیا ہے )

وہ پروردگار صحرائوں میں جانوروں کی فریاد کو بھی جانتا ہے اور تنہائیوں میں بندوں کے گناہوں کو بھی۔وہ گہرے سمندروں میں مچھلیوں کی رفت و آمد سے بھی با خبر ہے اور تیز و تند ہوائوں سے پیدا ہونے والے تلاطم سے بھی۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) خدا کے منتخب بندہ۔اس کی وحی کے سفیر اور اس کی رحمت کے رسول ہیں۔

اما بعد! میں تم سب کو اسی خدا سے ڈرنے کی نصیحت کر رہا ہوں جس نے تمہاری خلقت کی ابتداء کی ہے اور اسی کی بارگاہ میں تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔اسیکے ذریع تمہارے مقاصد کو کامیابی ہے اوراسی کی طرف تمہارے رغبتوں کی انتہاء ہے۔اسی کی سمت تمہارا سیدھا راستہ ہے

۴۰۷

وإِلَيْه مَرَامِي مَفْزَعِكُمْ -

فَإِنَّ تَقْوَى اللَّه دَوَاءُ دَاءِ قُلُوبِكُمْ - وبَصَرُ عَمَى أَفْئِدَتِكُمْ وشِفَاءُ مَرَضِ أَجْسَادِكُمْ - وصَلَاحُ فَسَادِ صُدُورِكُمْ - وطُهُورُ دَنَسِ أَنْفُسِكُمْ وجِلَاءُ عَشَا أَبْصَارِكُمْ،وأَمْنُ فَزَعِ جَأْشِكُمْ وضِيَاءُ سَوَادِ ظُلْمَتِكُمْ فَاجْعَلُوا طَاعَةَ اللَّه شِعَاراً دُونَ دِثَارِكُمْ - ودَخِيلًا دُونَ شِعَارِكُمْ ولَطِيفاً بَيْنَ أَضْلَاعِكُمْ - وأَمِيراً فَوْقَ أُمُورِكُمْ ومَنْهَلًا لِحِينِ وُرُودِكُمْ - وشَفِيعاً لِدَرَكِ طَلِبَتِكُمْ وجُنَّةً لِيَوْمِ فَزَعِكُمْ - ومَصَابِيحَ لِبُطُونِ قُبُورِكُمْ - وسَكَناً لِطُولِ وَحْشَتِكُمْ ونَفَساً لِكَرْبِ مَوَاطِنِكُمْ - فَإِنَّ طَاعَةَ اللَّه حِرْزٌ مِنْ مَتَالِفَ مُكْتَنِفَةٍ - ومَخَاوِفَ مُتَوَقَّعَةٍ وأُوَارِ نِيرَانٍ مُوقَدَةٍ - فَمَنْ أَخَذَ بِالتَّقْوَى

اور اسی کی طرف تمہاری فریادوں کا نشانہ ہے ۔

یہ تقویٰ الٰہی تمہارے دلوں کی بیماری کی دوا ہے اور تمہارے قلوب کے اندھے پن کی بصارت۔یہ تمہارے جسموں کی بیماری کی شفا کا سامان ہے اور تمہارے سینوں کے فساد کی اصلاح۔یہی تمہارے نفوس کی گندگی کی طہارت ہے اور یہی تمہاری آنکھوں کے چندھیانے کی جلاء اسی میں تمہارے دل کے اضطراب کا سکون ہے اور یہی زندگی کی تاریکیوں کی ضیاء ہے۔اطاعت خدا کو اندر کا شعاربنائو صرف باہر کا نہیں اور اسے باطن میں داخل کرو صرف ظاہر میں نہیں۔اپنی پسلیوں کے درمیان سمولو اور اپنے جملہ امور کا حاکم قرار دے دو۔تشنگی میں ورود کے لئے چشمہ تصور کرو اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے وسیلہ قرار دو۔اپنے روز قزع کے لئے سپر بنائو اور اپنی تاریک قبروں کے لئے چراغ۔اپنی طولانی وحشت قبر کے لئے مونس بنائو اور اپنے رنج و غم کے مراحل کے لئے سہارا۔اطاعت الٰہی تمام گھیرنے والے بربادی کے اسباب آنے والے خوفناک مراحل اور بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے لئے حرزجان ہے۔جس نے تقویٰ(۱) کواختیار کرلیا

(۱)اس مقام پر مولائے کائنا ت نے اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا چاہا ہے کہ تقویٰ کاف ائدہ صرف آخرت تک محود نہیں ہے کہ تم یہاں گناہوں سے پرہیز کرو۔مالک وہاں تمہیں آتش جہنم سے محفوظ کردے گا بلکہ یہ تقویٰ آخرت کے ساتھ دنیا کے مرحلہ پرکامآنے والا ہے اور کسی مرحلہ پر انسان کو نظرانداز کرنے والا نہیں ہے ۔مشکلات سے نجات اسی تقویٰ کا کارنامہ ہے اور طوفانوں کا مقابلہ اسی تقویٰ کی طاقت سے ہوتا ہے۔رحمت کے چشمے اسی سے جاری ہوتے ہیں اورفضل و کرم کے بادل اسی کی برکت سے برستے ہیں اور شاید یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ انسانی زندگی کی ساری پریشانیاں اس کے اعمال کی کمزوریوں سے پیدا ہوتی ہیں' جب انسان تقویٰ کے ذریعہ کردار کومضبوط کرلے گا تو ہر پریشانی سے مقابلہ آسان ہو جائے گا۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ متقین کی زندگی میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے اور وہ چین اور سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ایسا ہوتا تو صبر کا کوئی مفہوم نہ ہوتا اورمتقین کا سلسلہ صابرین سے الگ ہو جاتا۔بلکہ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ تقویٰ صبرکاحوصلہ پیداکرتا ہے اور تقویٰ کے ذریعہ مصائب سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی برکت سے رحمتوں کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔

۴۰۸

عَزَبَتْ عَنْه الشَّدَائِدُ بَعْدَ دُنُوِّهَا - واحْلَوْلَتْ لَه الأُمُورُ بَعْدَ مَرَارَتِهَا - وانْفَرَجَتْ عَنْه الأَمْوَاجُ بَعْدَ تَرَاكُمِهَا - وأَسْهَلَتْ لَه الصِّعَابُ بَعْدَ إِنْصَابِهَا - وهَطَلَتْ عَلَيْه الْكَرَامَةُ بَعْدَ قُحُوطِهَا -. وتَحَدَّبَتْ عَلَيْه الرَّحْمَةُ بَعْدَ نُفُورِهَا - وتَفَجَّرَتْ عَلَيْه النِّعَمُ بَعْدَ نُضُوبِهَا - ووَبَلَتْ عَلَيْه الْبَرَكَةُ بَعْدَ إِرْذَاذِهَا

فَاتَّقُوا اللَّه الَّذِي نَفَعَكُمْ بِمَوْعِظَتِه - ووَعَظَكُمْ بِرِسَالَتِه وامْتَنَّ عَلَيْكُمْ بِنِعْمَتِه - فَعَبِّدُوا أَنْفُسَكُمْ لِعِبَادَتِه - واخْرُجُوا إِلَيْه مِنْ حَقِّ طَاعَتِه.

فضل الإسلام

ثُمَّ إِنَّ هَذَا الإِسْلَامَ دِينُ اللَّه الَّذِي اصْطَفَاه لِنَفْسِه - واصْطَنَعَه عَلَى عَيْنِه وأَصْفَاه خِيَرَةَ خَلْقِه - وأَقَامَ دَعَائِمَه عَلَى مَحَبَّتِه - أَذَلَّ الأَدْيَانَ بِعِزَّتِه

اس کے لئے سختیاں قریب آکر دور چلی جاتی ہیں اور امور زندگی تلخیوں کے بعد شیریں ہو جاتے ہیں۔موجیں تہ بہ تہ ہو جانے کے بعد بھی ہٹ جاتی ہیں اوردشواریاں مشقتوں میں مبتلا کر دینے کے بعد بھی آسان ہوجاتی ہیں ۔ قحط کے بعد کرامتوں کی بارش شروع ہو جاتی ہے اور سحاب رحمت ہٹ جانے کے بعد پھر برسنے لگتا ہے اور نعمتوں کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔اور پھوار کی کمی کے بعد برکت کی برسات شروع ہو جاتی ہے۔

اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں نصیحت سے فائدہ پہنچایا ہے اور اپنے پیغام کے ذریعہ نصیحت کی ہے اور اپنی نعمت سے تم پر احسان کیا ہے ۔اپنے نفس کو اس کی عبادت کے لئے ہموار کرواور اس کے حق کی اطاعت سے عہدہ برآہونے کی کوشش کرو۔

اس کے بعد یاد رکھو کہ یہ اسلام وہ دین(۱) ہے جسے مالک نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور اپنی نگاہوں میں اس کی دیکھ بھال کی ہے اور اسے بہترین خلاق کے حوالہ کیا ہے اوراپنی محبت پراس کے ستونوں کو قائم کیا ہے۔اس کی عزت کے ذریعہ ادیان کو سرنگوں کیا ہے اور

(۱) دین اسلام کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کے قوانین خالق کائنات نے بنائے ہیں اور ہر قانون کی فطرت بشر سے ہم آہنگ بنایا ہے۔اس نے مسئلہ تشریع میں اپنے محبوب ترین بندہ کو بھی دخیل نہیں کیا ہے اورنہ کسی کو اس کے قوانین میں ترمیم کرنے کا حق دیا ہے۔ظاہر ہے کہ جو قانون خالق و مالک کے علم و کمال کے نتیجہ میں منظر عام پرآئے گا اس کی بقا کی ضمانت اس کے دفعات کے اندر ہی ہوگی اور جب تک یہ کائنات باقی رہے گی اس کے دفعات میں تغیر و تبدیل کی ضرورت نہ ہوگی۔

اسلام کے دین پسندیدہ ہونے ہی کا اثر ہے کہ اس کے سامنے تمام ادیان عالم حقیر اور اس کے مقابلہ میں تمام دشمنان مذہب ذلیل ہیں۔مالک نے اس کی بنیاد محبت پر رکھی ہے اور اس کی اساس رحمت اور ربوبیت کو قراردیا ہے۔اس کا تسلسل نا قابل اختتام ہے اوراس کے حلقے نا قابل انصفام ۔

اسی میں انسانیت کی پیاس بجھا نے کاسامان ہے اور اسی میں طالبان ہدایت کے لئے بہترین وسیلہ رہنمائی ہے۔رضائے الٰہی کا سامان یہی ہے اور بندگی پروردگار کا بہترین مرقع یہی دین و مذہب ہے۔اس کے بغیر ہدایت کا تصور مہمل ہے اور اس کے علاوہ ہر دین نا قابل قبول ہے۔

۴۰۹

ووَضَعَ الْمِلَلَ بِرَفْعِه- وأَهَانَ أَعْدَاءَه بِكَرَامَتِه وخَذَلَ مُحَادِّيه بِنَصْرِه - وهَدَمَ أَرْكَانَ الضَّلَالَةِ بِرُكْنِه - وسَقَى مَنْ عَطِشَ مِنْ حِيَاضِه - وأَتْأَقَ الْحِيَاضَ بِمَوَاتِحِه - ثُمَّ جَعَلَه لَا انْفِصَامَ لِعُرْوَتِه ولَا فَكَّ لِحَلْقَتِه - ولَا انْهِدَامَ لأَسَاسِه ولَا زَوَالَ لِدَعَائِمِه - ولَا انْقِلَاعَ لِشَجَرَتِه ولَا انْقِطَاعَ لِمُدَّتِه - ولَا عَفَاءَ لِشَرَائِعِه ولَا جَذَّ لِفُرُوعِه ولَا ضَنْكَ لِطُرُقِه - ولَا وُعُوثَةَ لِسُهُولَتِه ولَا سَوَادَ لِوَضَحِه - ولَا عِوَجَ لِانْتِصَابِه ولَا عَصَلَ فِي عُودِه - ولَا وَعَثَ لِفَجِّه ولَا انْطِفَاءَ لِمَصَابِيحِه - ولَا مَرَارَةَ لِحَلَاوَتِه - فَهُوَ دَعَائِمُ أَسَاخَ فِي الْحَقِّ أَسْنَاخَهَا - وثَبَّتَ لَهَا آسَاسَهَا ويَنَابِيعُ غَزُرَتْ عُيُونُهَا - ومَصَابِيحُ شَبَّتْ نِيرَانُهَا - ومَنَارٌ اقْتَدَى بِهَا سُفَّارُهَا وأَعْلَامٌ قُصِدَ بِهَا فِجَاجُهَا - ومَنَاهِلُ رَوِيَ بِهَا وُرَّادُهَا جَعَلَ اللَّه فِيه مُنْتَهَى رِضْوَانِه - وذِرْوَةَ دَعَائِمِه وسَنَامَ طَاعَتِه.

اس کی بلندی کے ذریعہ ملتوں کی پستی کا اظہار کیا ہے اس کے دشمنوں کو اس کی کرامت کے ذریعہ ذلیل کیا ہے اوراس سے مقابلہ کرنے والوں کو اس کی نصرت کے ذریعہ رسوا کیا ہے۔اس کے رکن کے ذریعہ ضلالت کے ارکان کو منہدم کیا ہے اور اس کے حوض سے پیاسوں کو سیراب کیا ہے اور پھر پانی الچنے والوں کے ذریعہ ان حوضوں کو بھردیا ہے۔ اس کے بعد اس دین کو ایسا بنادیا ہے کہ اس کے بندھن ٹوٹ نہیں سکتے ہیں۔اس کی کڑیاں کھل نہیں سکتی ہیں ۔اس کی بنیاد منہدم نہیں ہو سکتی ہے۔اس کے ستون گر نہیں سکتے ہیں۔اس کا درخت اکھڑ نہیں سکتا ہے۔اس کی مدت تمام نہیں ہو سکتی ہے۔اس کے آثار مٹ نہیں سکتے ہیں۔اس کی شاخیں کٹ نہیں سکتی ہیں۔اس کے راستے تنگ نہیں ہو سکتے ہیں۔اس کی آسانیاں دشوار نہیں ہوسکتی ہیں۔اس کی سفیدی میں سیاہی نہیں ہے اور اس کی استقامت میں کجی نہیں ہے۔اس کی لکڑی ٹیڑھی نہیں ہے اور اس کی وسعت میں دشواری نہیں ہے۔اس کا چراغ بجھ نہیں سکتا ہے اور اس کی حلاوت میں تلخی نہیں آسکتی ہے۔اس کے ستون ایسے ہیں جن کے پائے حق کی زمین میں نصب کئے گئے ہیں اور پھر اس کی اساس کو پائیدار بنایا گیا ہے۔اس کے چشموں کا پانی کم نہیں ہوسکتا ہے اور اس کے چراغوں کی لو مدھم نہیں ہوسکتی ے۔اس کے مناروں سے راہ گیر ہدایت پاتے ہیں اور اس کے نشانات کو راہوں میں منزل اپنے بلندترین ارکان اور اپنی اطاعت کاعروج قرار دیا

۴۱۰

- فَهُوَ عِنْدَ اللَّه وَثِيقُ الأَرْكَانِ رَفِيعُ الْبُنْيَانِ - مُنِيرُ الْبُرْهَانِ مُضِيءُ النِّيرَانِ - عَزِيزُ السُّلْطَانِ مُشْرِفُ الْمَنَارِ مُعْوِذُ الْمَثَارِ - فَشَرِّفُوه واتَّبِعُوه وأَدُّوا إِلَيْه حَقَّه وضَعُوه مَوَاضِعَه.

الرسول الأعظم

ثُمَّ إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِالْحَقِّ حِينَ دَنَا مِنَ الدُّنْيَا الِانْقِطَاعُ وأَقْبَلَ مِنَ الآخِرَةِ الِاطِّلَاعُ - وأَظْلَمَتْ بَهْجَتُهَا بَعْدَ إِشْرَاقٍ وقَامَتْ بِأَهْلِهَا عَلَى سَاقٍ - وخَشُنَ مِنْهَا مِهَادٌ وأَزِفَ مِنْهَا قِيَادٌ - فِي انْقِطَاعٍ مِنْ مُدَّتِهَا واقْتِرَابٍ مِنْ أَشْرَاطِهَا وتَصَرُّمٍ مِنْ أَهْلِهَا

ہے۔یہ دین اس کے نزدیک مستحکم ارکان والا ' بلند ترین بنیادوں والا واضح دلائل والا۔روشن ضیائوں والا۔غالب سلطنت والا۔بلند مینار والا اورنا ممکن تباہی والا ہے۔اس کے شرف کا تحفظ کرو۔اس کے احکام کا اتباع کرو۔اس کے حق کو ادا کرو اوراسے اس کی واقعی منزل پر قرار دو۔

اس کے بعد مالک نے حضرت محمد (ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اورآخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروںمیں تبدیل ہونے لگا اوروہ اپنے چاہنے والوں کے لئے ایک مصیبت بن کر کھڑی ہوگئی۔اس کا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہار دینے کے لئے تیار ہوگئی ۔ اس طرح کہ اس کی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی۔ اس کی فنا کے آثار قریب آگئے ۔اس کے اہل ختم ہونے

(۱) کتنا حسین دور تھا جب انبیاء کرام کا سلسلہ قائم تھا ۔کتابیں اور صحیفے نازل ہو رہے تھے۔مبلغین دین و مذہب اپنے کردار سے انسانیت کی رہنمائی کر رہے تھے اور زمین و آسمان کے رشتے جڑے ہوئے تھے پھر یکبارگی قرت کا زمانہ آگیا اوری ہ سارے سلسلے ٹوٹ گئے ۔دنیا پر جاہلیت کا اندھیرا چھا گیا اور انسانیت نے اپنی زمام قیادت جہل و جہالیت کے حوالہ کردی۔

ایسے حالات میں اگر سرکار دوعالم (ص) کا ورود نہ ہوتا تو یہ دنیا گھٹا ٹوپ اندھیروں کی نذر ہو جاتی اور انسانیت کو کوئی راستہ نظرنہ آتا لیکن یہ مالک کا کرم تھا کہ اس نے رحمةالعالمین کوبھیج دیا اور اندھیری دنیا کو پھر دوبارہ نور رسالت سے منور کردیا ہے۔اور آپ کے ساتھ ایک نور اور نازل کردیا جس کا نام قرآن مبین تھا اور جس کی روشنی ناقابل اختتام تھی۔یہ بیک وقت دستور بھی تھا اوراعجاز بھی ۔سمندر بھی تھا اورچراغ بھی۔حق و باطل کاف رقان بھی تھا اوردین و ایمان کا برہان بھی۔اس میں ہر مرض کا علاج بھی تھا اور ہر بیماری کا مداوا بھی۔

اسے مالک نے سیرابی کا ذریعہ بھی بنایا تھا اور دلوں کی بہار بھی ۔نشان راہبھی قرار دیات ھا اورمنزل مقصود بھی۔جوشخص جس نقطہ نگاہ سے دیکھے اس کی تسکین کا سامان قرآن حکیم میں موجود ہے اور ایک کتاب ساری کائنات جن و انس کی ہدایت کے لئے کافی ہے بشر طیکہ اس کے مطالب ان لوگوں سے اخذ کئے جائیں جنہیں راسخون فی العلم بنایا گیا ہے اور جن کے علم قرآن کی ذمہ داری مالک کائنات نے لی ہے۔

۴۱۱

وانْفِصَامٍ مِنْ حَلْقَتِهَا - وانْتِشَارٍ مِنْ سَبَبِهَا وعَفَاءٍ مِنْ أَعْلَامِهَا - وتَكَشُّفٍ مِنْ عَوْرَاتِهَا وقِصَرٍ مِنْ طُولِهَا.

جَعَلَه اللَّه بَلَاغاً لِرِسَالَتِه وكَرَامَةً لأُمَّتِه - ورَبِيعاً لأَهْلِ زَمَانِه ورِفْعَةً لأَعْوَانِه وشَرَفاً لأَنْصَارِه.

القرآن الكريم

ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْه الْكِتَابَ نُوراً لَا تُطْفَأُ مَصَابِيحُه - وسِرَاجاً لَا يَخْبُو تَوَقُّدُه وبَحْراً لَا يُدْرَكُ قَعْرُه - ومِنْهَاجاً لَا يُضِلُّ نَهْجُه وشُعَاعاً لَا يُظْلِمُ ضَوْءُه - وفُرْقَاناً لَا يُخْمَدُ بُرْهَانُه وتِبْيَاناً لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُه - وشِفَاءً لَا تُخْشَى أَسْقَامُه - وعِزّاً لَا تُهْزَمُ أَنْصَارُه وحَقّاً لَا تُخْذَلُ أَعْوَانُه –

فَهُوَ مَعْدِنُ الإِيمَانِ وبُحْبُوحَتُه ويَنَابِيعُ الْعِلْمِ وبُحُورُه - ورِيَاضُ الْعَدْلِ وغُدْرَانُه وأَثَافِيُّ الإِسْلَامِ وبُنْيَانُه - وأَوْدِيَةُ الْحَقِّ وغِيطَانُه وبَحْرٌ لَا يَنْزِفُه الْمُسْتَنْزِفُونَ - وعُيُونٌ لَا يُنْضِبُهَا الْمَاتِحُونَ - ومَنَاهِلُ لَا يَغِيضُهَا الْوَارِدُونَ - ومَنَازِلُ لَا يَضِلُّ نَهْجَهَا الْمُسَافِرُونَ -

لگے۔اس کے حلقے ٹوٹنے لگے۔اس کے اسباب منتشر ہونے لگے۔اس کے نشانات مٹنے لگے' اس کے عیب کھلنے لگے اوراس کے دامن سمٹنے لگے۔

اللہ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ۔امت کی کرامت۔اہل زمانہ کی بہار' اعوان و انصارکی بلندی کا ذریعہ اور یارومددگار افراد کی شرافت کا واسطہ قرار دیا ہے۔

اس کے بعد ان پر اس کتاب کو ناز ل کیا جس کی قندیل بجھ نہیں سکتی ہے اور جس کے چراغ کی لو مدھم نہیں پڑ سکتی ہے وہ ایسا سمندر ہے جسے کی تھا ہ مل نہیں سکتی ہے اور ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بھٹک نہیں سکتا ہے۔ایسی شعاع جس کی ضوتاریک نہیں ہو سکتی ہے اور ایسا حق و باطل کا امتیاز جس کا برہان کمزورنہیں ہوسکتا ہے۔ایسی وضاحت جس کے ارکان منہدم نہیں ہو سکتے ہیں اور ایسی شفا جس میں بیماری کا کوئی خوف نہیں ہے۔ایسی عزت جس کے انصار پسپا نہیں ہوسکتے ہیں اور ایسا حق جس کے اعوان بے یارو مدد گارنہیں چھوڑے جا سکتے ہیں۔

یہ ایمان کا معدن ومرکز۔علم کا چشمہ اور سمندر' عدالت کا باغ اور حوض ' اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس ' حق کی وادی اور اس کاہموار میدان ہے۔یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہیں کر سکتے ہیں اور وہ چشمہ ہے جسے الچنے والے خشک نہیں کرس کتے ہیں۔وہ گھاٹ ہے جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہیں کر سکتے ہیں اور وہ منزل ہے جس کی راہ پر چلنے والے مسافر

۴۱۲

وأَعْلَامٌ لَا يَعْمَى عَنْهَا السَّائِرُونَ - وآكَامٌ لَا يَجُوزُ عَنْهَا الْقَاصِدُونَ جَعَلَه اللَّه رِيّاً لِعَطَشِ الْعُلَمَاءِ ورَبِيعاً لِقُلُوبِ الْفُقَهَاءِ - ومَحَاجَّ لِطُرُقِ الصُّلَحَاءِ ودَوَاءً لَيْسَ بَعْدَه دَاءٌ - ونُوراً لَيْسَ مَعَه ظُلْمَةٌ وحَبْلًا وَثِيقاً عُرْوَتُه - ومَعْقِلًا مَنِيعاً ذِرْوَتُه وعِزّاً لِمَنْ تَوَلَّاه - وسِلْماً لِمَنْ دَخَلَه وهُدًى لِمَنِ ائْتَمَّ بِه - وعُذْراً لِمَنِ انْتَحَلَه وبُرْهَاناً لِمَنْ تَكَلَّمَ بِه - وشَاهِداً لِمَنْ خَاصَمَ بِه وفَلْجاً لِمَنْ حَاجَّ بِه - وحَامِلًا لِمَنْ حَمَلَه ومَطِيَّةً لِمَنْ أَعْمَلَه - وآيَةً لِمَنْ تَوَسَّمَ وجُنَّةً لِمَنِ اسْتَلأَمَ - وعِلْماً لِمَنْ وَعَى وحَدِيثاً لِمَنْ رَوَى وحُكْماً لِمَنْ قَضَى

(۱۹۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كان يوصي به أصحابه

تَعَاهَدُوا أَمْرَ الصَّلَاةِ وحَافِظُوا عَلَيْهَا - واسْتَكْثِرُوا مِنْهَا وتَقَرَّبُوا بِهَا

بھٹک نہیں سکتے ہیں۔وہ نشان منزل ہے جو راہ گیروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا ہے اوروہ ٹیلہ ہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہیں جا سکتے ہیں۔

پروردگارنے اسے علماء کی سیرابی کا ذریعہ۔ فقہاء کے دلوں کی بہارصلحاء کے راستوں کے لئے شاہراہ قرار دیا ہے۔یہ وہ دواہے جس کے بعد کوئی مرض نہیں رہ سکتا اوروہنور ہے جس کے بعد کسی ظلمت کا امکان نہیں ہے۔وہ ریسمان ہے جس کے حلقے مستحکم ہیں۔اور پناہ گاہ ہے جس کی بلندی محفوظ ہے۔چاہنے والوں کے لئے عزت ' داخل ہونے والوں کے لئے سلامتی ۔اقتداء کرنے والوں کے لئیہدایت ' نسبت حاصل کرنے والوں کے لئے حجت ' بولنے والوں کے لئے برہان اور مناظرہ کرنے والوں کے لئے شاہد ہے۔بحث کرنے والوں کی کامیابی کاذریعہ اٹھانے والوں کے لئے بوجھ بٹانے والا عمل کرنے والوں کے لئے بہترین سواری ' حقیقت شاناسوں کے لئے بہترین نشانی اوراسلحہ سجنے والوں کے لئے بہترین سپر ہے۔فکرکرنے والوں کے لئے علم اور روایت کرنے والوں کے لئے حدیث اور قضاوت کرنے والوں کے لئے قطعی حکم اور فیصلہ ہے۔

(۱۹۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کی اصحاب کو وصیت فرمایا کرتے تھے )

دیکھو نمازکی پابندی اوراس کی نگہداشت کرو۔زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھو اور اسے تقرب الٰہی کاذریعہ قراردوکہ

۴۱۳

فَإِنَّهَا( كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً ) - أَلَا تَسْمَعُونَ إِلَى جَوَابِ أَهْلِ النَّارِ حِينَ سُئِلُوا -( ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ - قالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ) - وإِنَّهَا لَتَحُتُّ الذُّنُوبَ حَتَّ الْوَرَقِ - وتُطْلِقُهَا إِطْلَاقَ الرِّبَقِ - وشَبَّهَهَا رَسُولُ اللَّه - صلى الله عليه وآله وسلم -بِالْحَمَّةِ تَكُونُ عَلَى بَابِ الرَّجُلِ - فَهُوَ يَغْتَسِلُ مِنْهَا فِي الْيَوْمِ واللَّيْلَةِ خَمْسَ مَرَّاتٍ - فَمَا عَسَى أَنْ يَبْقَى عَلَيْه مِنَ الدَّرَنِ وقَدْ عَرَفَ حَقَّهَا رِجَالٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ –

الَّذِينَ لَا تَشْغَلُهُمْ عَنْهَا زِينَةُ مَتَاعٍ ولَا قُرَّةُ عَيْنٍ - مِنْ وَلَدٍ ولَا مَالٍ - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه -( رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ ولا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله - وإِقامِ الصَّلاةِ وإِيتاءِ الزَّكاةِ ) - وكَانَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَصِباً بِالصَّلَاةِ - بَعْدَ التَّبْشِيرِ لَه بِالْجَنَّةِ - لِقَوْلِ اللَّه سُبْحَانَه( وأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ واصْطَبِرْ عَلَيْها ) - فَكَانَ يَأْمُرُ بِهَا أَهْلَه ويَصْبِرُ عَلَيْهَا نَفْسَه.

یہ صاحبان ایمان کے لئے وقت کی پابندی کے ساتھ واجب کی گئی ہے۔کیا تم نے اہل جہنم کا جواب نہیں سنا کہ جب ان سے سوال کیا جائے گا کہ تمہیں کس چیزنے جہنم تک پہنچادیا ہے تو کہیں گے کہ ہم نمازی تھے ۔یہ نماز گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دیتی ہے جس طرح درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں اوراسی طرح گناہوں سے آزادی دلا دیتی ہے جس طرح جانورآزاد کئے جاتے ہیں۔رسول اکرم (ص) نے اسے اس گرم چشمہ سے تشبیہ دی ہے جوانسان کے دروازہ پر ہو اوروہاس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرے۔ظاہر ہے کہ اس پر کسی کثافت کے باقی رہ جانے کا امکان نہیں رہ جاتا ہے۔

اس کے حق کو واقعاً ان صاحبان ایمان نے پہچانا ہے جنہیں زینت متاع دنیا یا تجارت اورکاروبار کوئی شے بھی یاد خدا اور نماز و زکوٰة سے غافل نہیں بناسکی ہے۔رسول اکرم (ص) اس نمازکے لئے اپنے کو زحمت میں ڈالتے تھے حالانکہ انہیں جنت کی بشارت دی جاچکی تھی اس لئے کہ پروردگار نے فرمادیا تھا کہ اپنے اہل کونماز کا حکم دو اورخودبھی اس کی پابندی کرو تو آپ اپنے اہل کوحکم بھی دیتے تھے اورخود زحمت(۱) بھی برداشت کرتے تھے۔

(۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سرکار دو عالم (ص) نے نمازقائم کرنے کی راہمیں بے پناہ زحمتوں کاسامنا کیاہے۔ رات رات بھر مصلیٰ پرقایم کیا ہے اور طرح طرح کی دشمنوں کی اذیتیوں کو برداشت کیا ہے لیکن مالک کائنات نے اس کا اجر بھی بے حساب عنایت کیا ہے کہ نماز سرکار کی یاد کاب ہترین ذریعہ بنگئی ہے اوراس کے ذریعہ سرکار کی شخصیت اور رسالتکو ابدی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔نمازی اذان و اقامت ہی سے سرکار کا کلمہ پڑھنا شروع کردیتا ہے اور پھر تشہد و سلام تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس طرح تمام امتوں کا رشتہ ان کے پیغبمروں سے ٹوٹ چکا ہے لیکن امت اسلامیہ کا رشتہ سرکار دوعالم (ص) سے نہیں ٹوٹ سکتا ہے اور یہ نماز برابر آپ کی یاد کو زندہ رکھے گی اور مسلمانوں کو حسن کردار کی دعوت دیتی رہے گی۔

۴۱۴

الزكاة

ثُمَّ إِنَّ الزَّكَاةَ جُعِلَتْ مَعَ الصَّلَاةِ قُرْبَاناً لأَهْلِ الإِسْلَامِ - فَمَنْ أَعْطَاهَا طَيِّبَ النَّفْسِ بِهَا - فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَه كَفَّارَةً ومِنَ النَّارِ حِجَازاً ووِقَايَةً - فَلَا يُتْبِعَنَّهَا أَحَدٌ نَفْسَه ولَا يُكْثِرَنَّ عَلَيْهَا لَهَفَه - فَإِنَّ مَنْ أَعْطَاهَا غَيْرَ طَيِّبِ النَّفْسِ بِهَا - يَرْجُو بِهَا مَا هُوَ أَفْضَلُ مِنْهَا فَهُوَ جَاهِلٌ بِالسُّنَّةِ - مَغْبُونُ الأَجْرِ ضَالُّ الْعَمَلِ - طَوِيلُ النَّدَمِ.

الأمانة

ثُمَّ أَدَاءَ الأَمَانَةِ - فَقَدْ خَابَ مَنْ لَيْسَ مِنْ أَهْلِهَا - إِنَّهَا عُرِضَتْ عَلَى السَّمَاوَاتِ الْمَبْنِيَّةِ - والأَرَضِينَ الْمَدْحُوَّةِ والْجِبَالِ ذَاتِ الطُّولِ الْمَنْصُوبَةِ - فَلَا أَطْوَلَ ولَا أَعْرَضَ ولَا أَعْلَى ولَا أَعْظَمَ مِنْهَا - ولَوِ امْتَنَعَ شَيْءٌ بِطُولٍ أَوْ عَرْضٍ - أَوْ قُوَّةٍ أَوْ عِزٍّ لَامْتَنَعْنَ - ولَكِنْ أَشْفَقْنَ مِنَ الْعُقُوبَةِ - وعَقَلْنَ مَا جَهِلَ مَنْ هُوَ أَضْعَفُ مِنْهُنَّ وهُوَ الإِنْسَانُ -( إِنَّه كانَ ظَلُوماً جَهُولًا )

علم اللَّه تعالى

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى لَا يَخْفَى عَلَيْه - مَا الْعِبَادُ مُقْتَرِفُونَ فِي لَيْلِهِمْ ونَهَارِهِمْ - لَطُفَ بِه خُبْراً

اس کے بعد زکوٰة کو نماز کے(۱) ساتھ مسلمانوں کے لئے وسیلہ تقرب قرار دیاگیا ہے۔جو اسے طیب خاطر سے ادا کردے گا اس کے گناہوں کے لئے یہ کفارہ بن جائے گی اور اسے جہنم سے بچالے گی۔خبردار کوئی شخص اسے ادا کرنے کے بعد اس کے بارے میں فکرنہ کرے اور نہ اس کا افسوس کرے کہ طیب نفس کے بغیر ادا کرنے والا اور پھر اس سے بہتر اجرو ثواب کی امید کرنے والا سنت سے بے خبر اور اجرو ثواب کے اعتبار سے خسارہ میں ہے' اس کاعمل برباد اور اس کی ندامت دائمی ہے۔

اس کے بعد امانتوں کی ادائیگی کا خیال رکھو کہ امانت داری نہ کرنیوالا ناکام ہوتا ہے۔امانت کو بلند ترین آسمانوں ' فرش شدہ زینتوں اور بلند و بالا پہاڑوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے جن سے بظاہر طویل و عریض اور اعلیٰ و ارفع کوئی شے نہیں ہے اور اگر کوئی شے اپنے طول و عرض یا قوت و طاقت کی بناپ راپنے کو بچا سکتی ہے تو یہی چیزیں ہیں۔لیکن یہ سب خیانت کے عذاب سے خوف زدہ ہوگئے اوراس نکتہ کو سمجھ لیا جس کو ان سے ضعیف تر انسان نے نہیں پہچانا کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اور نا واقف تھا۔

پروردگار پر بندوں کے دن و رات کے اعمال میں سے کوئی شے مخفی نہیں ہے۔وہ لطافت کی بنا پرخبر رکھتا

(۱) زکوٰة کو نماز کے ساتھ بیان کرنے کا ظاہری فلسفہ یہ ہے کہ نماز عبدو معبود کے درمیان کا رشتہ ہے اور زکوٰة بندوں اور بندوں کے درمیان کا تعلق ہے اوراس طرح اسلام کا نصاب مکمل ہو جاتا ہے کہ مسلمان اپنے مالک کیاطاعت بھی کرتا ہے اوراپنے بنی نوع کے کمزور افراد کا خیال بھی رکھتا ہے اور ان کی شرکت کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتا ہے۔

۴۱۵

وأَحَاطَ بِه عِلْماً أَعْضَاؤُكُمْ شُهُودُه - وجَوَارِحُكُمْ جُنُودُه وضَمَائِرُكُمْ عُيُونُه وخَلَوَاتُكُمْ عِيَانُه

(۲۰۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معاوية

واللَّه مَا مُعَاوِيَةُ بِأَدْهَى مِنِّي ولَكِنَّه يَغْدِرُ ويَفْجُرُ - ولَوْ لَا كَرَاهِيَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ أَدْهَى النَّاسِ - ولَكِنْ كُلُّ غُدَرَةٍ فُجَرَةٌ وكُلُّ فُجَرَةٍ كُفَرَةٌ - ولِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يُعْرَفُ بِه يَوْمَ الْقِيَامَةِ».

واللَّه مَا أُسْتَغْفَلُ بِالْمَكِيدَةِ ولَا أُسْتَغْمَزُ بِالشَّدِيدَةِ

ہے اور علم کے اعتبار سے احاطہ رکھتا ے۔تمہارے اعضاء ہی اس کے گواہ ہیں اور تمہارے ہاتھ پائوں ہی اس کے لشکر ہیں۔تمہارے ضمیر اس کے جاسوس ہیں اور تمہار ی تنہائیاں بھی اس کی نگاہ کے سامنے ہیں۔

(۲۰۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(معاویہ کے بارے میں )

خداکی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار(۱) نہیں ہے لیکن کیاکروں کہ وہ مکرو فریب اور فسق و فجوربھی کر لیتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے نا پسند نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ ہوشیار کوئی نہ ہوتا لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ ہر مکرو فریب گناہ ہے اور ہر گناہ پروردگار کے احکام کی نا فرمانی ہے ہر غدارکے ہاتھ میں قیامت کے دن ایک جھنڈا دے دیا جائے گا جس سے اسے عرصہ محشر میں پہچان لیا جائے گا۔

خدا کی قسم مجھے نہ ان مکاریوں سے غفلت میں ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ان سختیوں سے دبایا جا سکتا ہے۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ جسے پروردگار نے نفس رسول (ص) قراردیا ہو اورخود سرکار دو عالم (ص) نے باب مدینہ علم قرار دیاہو اس سے زیادہ ہوشیار ہوشمند اور صاحب علم و ہنر کون ہوسکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود بعض نادان افراد کا خیال ہے کہ معایہ زیادہ ہوشیار اور زیرک تھا اور اسی لئے اس کی سیاست زیادہ کامیاب تھی۔حالانکہ اس کا راز ہوشیاری اورہوش مندی نہیں ہے۔بلکہ اس کا راز مکاری اور غداری ہے کہ معاویہ مقصد کے حصول کے لئے ہر وسیلہ کو جائز قرار دیتا تھا اور اس کا مقصد بھی صرف حصول اقتدار اورتحت حکومت تھا اور مولائے کائنات کی نگاہ میں نہمقصد وسیلہ کے جوازکا ذریعہ تھا اور نہ آپ کامقصد اقتدار دنی کا حصول تھا۔ آپ کا مقصد دین خدا کا قیام تھا اور اس راہمیں انسان کو ہر قدم پھونک پھونک کراٹھا ناپڑتا ہے اورہرسانس میں مرضی پر وردگار کاخیال رکھنا پڑتا ہے۔

۴۱۶

(۲۰۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يعظ بسلوك الطريق الواضح

أَيُّهَا النَّاسُ - لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِه - فَإِنَّ النَّاسَ قَدِ اجْتَمَعُوا عَلَى مَائِدَةٍ شِبَعُهَا قَصِيرٌ - وجُوعُهَا طَوِيلٌ.

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا يَجْمَعُ النَّاسَ الرِّضَا والسُّخْطُ - وإِنَّمَا عَقَرَ نَاقَةَ ثَمُودَ رَجُلٌ وَاحِدٌ - فَعَمَّهُمُ اللَّه بِالْعَذَابِ لَمَّا عَمُّوه بِالرِّضَا - فَقَالَ سُبْحَانَه( فَعَقَرُوها فَأَصْبَحُوا نادِمِينَ ) - فَمَا كَانَ إِلَّا أَنْ خَارَتْ أَرْضُهُمْ بِالْخَسْفَةِ - خُوَارَ السِّكَّةِ الْمُحْمَاةِ فِي الأَرْضِ الْخَوَّارَةِ

أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوَاضِحَ وَرَدَ الْمَاءَ - ومَنْ خَالَفَ وَقَعَ فِي التِّيه!

(۲۰۲)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

روِيَ عَنْه أَنَّه قَالَه عِنْدَ دَفْنِ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ فَاطِمَةَعليه‌السلام كَالْمُنَاجِي بِه رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عِنْدَ قَبْرِه.

(۲۰۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں واضح راستوں پرچلنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے )

ایہا الناس ! دیکھو ہدایت کے راستہ پرچلنے والوں کی قلت کی بنا پرچلنے سے مت گھبرائو کہ لوگوں نے ایک ایسے دستر خوان پر اجتماع کرلیا ہے جس میں سیر ہونے کی مدت بہت کم ہے اوربھوک کی مدت بہت طویل ہے۔

لوگو! یاد رکھو کہ رضا مندی اورناراضگی ہی سارے انسانوں کو ایک نقطہ پر جمع کر دیتی ہے۔ناقہ صالح کے پیرایک ہی انسان نے کاٹے تھے لیکن اللہ نے عذاب سب پر نازل کردیا کہ باقی لوگ اس کے عمل سے راضی تھے ۔اورفرمادیا کہ ان لوگوں نے ناقہ کے پیر کاٹ ڈالے اور آخر میں ندامت کا شکار ہوگئے۔ان کا عذاب یہ تھا کہ زمین جھٹکے سے گھڑگھڑانے لگی جس طرح کہ نرم زمین میں لوہے کی تپتی ہوئی پھالی چلائی جاتی ہے۔

لوگو!دیکھو جو روشن راستہ پرچلتا ہے وہ سر چشمہ تک پہنچ جاتا ہےاورجو اس کے خلاف کرتا ہےوہگمراہی میں پڑ جاتا ہے۔

(۲۰۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(کہا جاتا ہے کہ یہ کلمات سیدة النساء فاطمہ زہراء کے دفن کے موقع پر پیغمبراسلام (ص) سے راز دارانہ گفتگو کے اندازسے کہے گئے ہیں ۔

۴۱۷

السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّه عَنِّي - وعَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِي جِوَارِكَ - والسَّرِيعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ - قَلَّ يَا رَسُولَ اللَّه عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي ورَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِي - إِلَّا أَنَّ فِي التَّأَسِّي لِي بِعَظِيمِ فُرْقَتِكَ - وفَادِحِ مُصِيبَتِكَ مَوْضِعَ تَعَزٍّ - فَلَقَدْ وَسَّدْتُكَ فِي مَلْحُودَةِ قَبْرِكَ - وفَاضَتْ بَيْنَ نَحْرِي وصَدْرِي نَفْسُكَ - فَ( إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِيعَةُ وأُخِذَتِ الرَّهِينَةُ - أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ وأَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ - إِلَى أَنْ يَخْتَارَ اللَّه لِي دَارَكَ الَّتِي أَنْتَ بِهَا مُقِيمٌ - وسَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ أُمَّتِكَ عَلَى هَضْمِهَا - فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ واسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ - هَذَا ولَمْ يَطُلِ الْعَهْدُ ولَمْ يَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ - والسَّلَامُ عَلَيْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ لَا قَالٍ ولَا سَئِمٍ - فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ - وإِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ

سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول (ص) ! میری طرف سے اور آپ کی اس دختر کی طرف سے جوآپ کے جوار میں نازل ہو رہی ہے اوربہت جلدی آپ سے ملحق ہو رہی ہے۔ یا رسول اللہ (ص) ! میری قوت صبر آپ کی منتخب روز گار دختر کے بارے میں ختم ہوئی جا رہی ہے اور میری ہمت ساتھ چھوڑے دے رہی ہے صرف سہارا یہ ہے کہ میں نے آپ کے فراق کے عظیم صدمہ اورجانکاہ حادثہ پر صبر کرلیا ہے تواب بھی صبر کروں گا کہ میں نے ہی آپ کو قبر میں اتارا تھا اور میرے ہی سینہ پر سر رکھ کر آپ نے انتقال فرمایا تھا بہر حال میں اللہ ہی کے لئے ہوں اور مجھے بھی اس کی بارگاہ میں واپس جانا ہے۔آج امانت واپس چلی گئی اور جوچیز میری تحویل میں تھی وہ مجھ سے چھڑالی گئی۔اب میرا رنج و غم دائمی ہے اورمیرے راتیں نذر بیداری ہیں جب تک مجھے بھی پروردگار اس گھرتک نہ پہنچا دے جہاں آپ کا قیام ہے۔عنقریب آپ کی دختر نیک اختران حالات کی اطالع دے گی کہ کس طرح آپ کی امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کرلیا تھا آپ اس سے مفصل سوال فرمائیں اورجملہ حالات دریافت کریں۔

افسوس کہ یہ سب اس وقت ہوا ہے جب آپ کا زمانہ گزرے دیر نہیں ہوئی ہے اور ابھی آپ کاتذکرہ باقی ہے۔

میرا سلام ہو آپ دونوں پر۔اس شخص کا سلام جو رخصت کرنے والا ہے اور دل تنگ و ملول نہیں ہے ۔ میں اگراس قبر سے واپس چلا جائوں تو یہ کسی دل تنگی کا نتیجہ نہیں ہے اور اگر یہیں ٹھہر جائوں تو یہ اس وعدہ کی ہے اعتبار ہ ی

۴۱۸

بِمَا وَعَدَ اللَّه الصَّابِرِينَ.

(۲۰۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التزهيد من الدنيا والترغيب في الآخرة

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الدُّنْيَا دَارُ مَجَازٍ والآخِرَةُ دَارُ قَرَارٍ - فَخُذُوا مِنْ مَمَرِّكُمْ لِمَقَرِّكُمْ - ولَا تَهْتِكُوا أَسْتَارَكُمْ عِنْدَ مَنْ يَعْلَمُ أَسْرَارَكُمْ - وأَخْرِجُوا مِنَ الدُّنْيَا قُلُوبَكُمْ - مِنْ قَبْلِ أَنْ تَخْرُجَ مِنْهَا أَبْدَانُكُمْ - فَفِيهَا اخْتُبِرْتُمْ ولِغَيْرِهَا خُلِقْتُمْ - إِنَّ الْمَرْءَ إِذَا هَلَكَ قَالَ النَّاسُ مَا تَرَكَ؟ وقَالَتِ الْمَلَائِكَةُ مَا قَدَّمَ - لِلَّه آبَاؤُكُمْ فَقَدِّمُوا بَعْضاً يَكُنْ لَكُمْ قَرْضاً - ولَا تُخْلِفُوا كُلاًّ فَيَكُونَ فَرْضاً عَلَيْكُمْ.

(۲۰۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كان كثيرا ما ينادي به أصحابه

تَجَهَّزُوا رَحِمَكُمُ اللَّه فَقَدْ نُودِيَ فِيكُمْ بِالرَّحِيلِ وأَقِلُّوا الْعُرْجَةَ عَلَى الدُّنْيَا

نہیں ہے جو پروردگار نے صبرکرنے والوں سے کیا ہے۔

(۲۰۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(دنیا سے پرہیزاورآخرت کی ترغیب کے بارےمیں)

لوگو! یہ دنیا ایک گذر گاہ ہے ۔قرار کی منزل آخرت ہی ہے لہٰذا اس گزر گاہ سے وہاں کا سامان لے کرآگے بڑھو اور اس کے سامنے اپنے پردہ ٔ راز کو چاک مت کرو جو تمہارے اسرار سے با خبر ہے۔دنیا سے اپنے دلوں(۱) کو باہر نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدنکو یہاں سے نکالا جائے۔یہاں صرف تمہارا امتحان لیا جا رہا ہے ورنہ تمہاری خلقت کسی اور جگہ کے لئے ہے۔کوئی بھی شخص جب مرتا ہے تو ادھر والے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا چھوڑ کر گیا ہے اورادھرکے فرشتے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا لے کرآیا ہے ؟ اللہ تمہارا بھلاکرے کچھ وہاں بھیج دو جو مالک کے پاس تمہارے قرضہ کے طورپ ر رہے گا۔اور سب یہیں چھوڑ کرمت جائو کہ تمہارے ذمہ ایک بوجھ بن جائے ۔

(۲۰۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کے ذریعہ اپنے اصحاب کوآوازدیاکرتے تھے )

خدا تم پر رحم کرے تیار ہوجائو کہ تمہیں کوچ کرنےکے لئے پکارا جا چکا ہے اور خبر دار دنیا کی طرف زیادہ

(۱)اسلام کا مدعا ترک دنیا تمہیں ہے اور نہ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان رہبانیت کی زندگی گزارے۔اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا انسان کی زندگی کا وسیلہ رہے اور اس کے دل کا مکین نہ بننے پائے۔ورنہ حب دنیا انسان کو زندگی کے ہر خطرہ سے دوچار کرسکتی ہے اور اسے کسی بھی گڑھے میں گرا سکتی ہے۔

۴۱۹

- - وانْقَلِبُوا بِصَالِحِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ مِنَ الزَّادِ - فَإِنَّ أَمَامَكُمْ عَقَبَةً كَئُوداً ومَنَازِلَ مَخُوفَةً مَهُولَةً - لَا بُدَّ مِنَ الْوُرُودِ عَلَيْهَا والْوُقُوفِ عِنْدَهَا -. واعْلَمُوا أَنَّ مَلَاحِظَ الْمَنِيَّةِ نَحْوَكُمْ دَانِيَةٌ - وكَأَنَّكُمْ بِمَخَالِبِهَا وقَدْ نَشِبَتْ فِيكُمْ - وقَدْ دَهَمَتْكُمْ فِيهَا مُفْظِعَاتُ الأُمُورِ ومُعْضِلَاتُ الْمَحْذُورِ -. فَقَطِّعُوا عَلَائِقَ الدُّنْيَا واسْتَظْهِرُوا بِزَادِ التَّقْوَى.

وقد مضى شيء من هذا الكلام فيما تقدم - بخلاف هذه الرواية

(۲۰۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به طلحة والزبير - بعد بيعته بالخلافة وقد عتبا عليه من ترك مشورتهما،

والاستعانة في الأمور بهما

لَقَدْ نَقَمْتُمَا يَسِيراً وأَرْجَأْتُمَا كَثِيراً - أَلَا تُخْبِرَانِي أَيُّ شَيْءٍ كَانَ لَكُمَا فِيه حَقٌّ دَفَعْتُكُمَا عَنْه

توجہ مت کرو ۔جو بہترین زاد راہ تمہارے سامنے ہے اسے لے کر مالک کی بارگاہ کی طف پلٹ جائو کہ تمہارے سامنے ایک بڑی دشوار گزار گھاٹی ہے۔اورچند خطرنک اورخوفناک منزلیں ہیں جن پر بہر حال وارد ہونا ہے اور وہیں ٹھہرنا بھی ہے۔اوریہ یاد رکھو کہموت کی نگاہیں تم سے قریب تر ہوچکی ہیں اورتم اس کے پنجوں میں آچکے ہو جو تمہارے اندر گڑا ئے جا چکے ہیں۔موت کے شدید ترین مسائلاوردشوار ترین مشکلات تم پر چھا چکے ہیں ۔اب دنیا کے تعلقات کوختم کرو اورآخرت کے زاد راہ تقویکے ذریعہ اپنی طاقت کا انتظام کرو۔(واضح رہےکہ اس سے پہلے بھی اسی قسم کاایک کلام دوسری روایت کے مطابق گزر چکا ہے)

(۲۰۵)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں طلحہ و زبیر کو مخاطب بنایا گیا ہے جب ان دونوں نے بیعت کے باوجود مشورہ کرنے اورمدد نہ مانگنے پر آپ سے ناراضگی کا ظہار کیا )

تم نے معمولی سی بات پرتو غصہ کا اظہار کردیا لیکن بڑی باتوں کو پس پشت ڈال دیا۔کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ تمہارا کون ساحق(۱) ایسا ہے جس سے میں نے تم کو محروم

(۱)امیر المومنین نے ان تمام پہلوئوں کاتذکرہ اس لئے کیا ہے تاکہ طلحہ اور زبیر کی نیتوں کا محاسبہ کیا جاسکے اور ان کے عزائم کی حقیقتوں کوب ے نقاب کیا جاسکے کہ مجھ سے پہلے زمانوںمیں یہ تمام نقائص موجود تھے کبھی حقوق کی پامالی ہو رہی تھی ۔کبھی اسلامی سرمایہ کو اپنے گھرانے پر تقسیم کیا جا رہا تھا کبھی مقدمات میں فیصلہ سے عاجزی کا اعتراف تھا اور کبھی صریحی طور پر غلط فیصلہ کیا جارہا تھا۔لیکن اس کے باوجود تم لوگوں کی رگ حمیت و غیرت کو کوئی جنبش نہیں ہو ئی۔اورآج جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے تو تم بغاوت پر آمادہ ہوگئے ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا تعلق دین اور مذہب سے نہیں ہے۔تمہیں صرف اپنے مفادات سے تعلق ہے۔جب تک یہ مفادات محفوظ تھے 'تم نے ہر غلطی پر سکوتاختیار کیا اور آج جب مفادات خطرہ میں پڑ گئے ہیں تو شورش اورہنگامہ پرآمادہ ہوگئے ہو۔

۴۲۰