نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656882 / ڈاؤنلوڈ: 15924
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

والزَّالُّونَ الْمُزِلُّونَ - يَتَلَوَّنُونَ أَلْوَاناً ويَفْتَنُّونَ افْتِنَاناً - ويَعْمِدُونَكُمْ بِكُلِّ عِمَادٍ ويَرْصُدُونَكُمْ بِكُلِّ مِرْصَادٍ - قُلُوبُهُمْ دَوِيَّةٌ وصِفَاحُهُمْ نَقِيَّةٌ - يَمْشُونَ الْخَفَاءَ ويَدِبُّونَ الضَّرَاءَ - وَصْفُهُمْ دَوَاءٌ وقَوْلُهُمْ شِفَاءٌ وفِعْلُهُمُ الدَّاءُ الْعَيَاءُ - حَسَدَةُ الرَّخَاءِ ومُؤَكِّدُو الْبَلَاءِ ومُقْنِطُو الرَّجَاءِ - لَهُمْ بِكُلِّ طَرِيقٍ صَرِيعٌ - وإِلَى كُلِّ قَلْبٍ شَفِيعٌ ولِكُلِّ شَجْوٍ دُمُوعٌ - يَتَقَارَضُونَ الثَّنَاءَ ويَتَرَاقَبُونَ الْجَزَاءَ - إِنْ سَأَلُوا أَلْحَفُوا وإِنْ عَذَلُوا كَشَفُوا، وإِنْ حَكَمُوا أَسْرَفُوا - قَدْ أَعَدُّوا لِكُلِّ حَقٍّ بَاطِلًا ولِكُلِّ قَائِمٍ مَائِلًا - ولِكُلِّ حَيٍّ قَاتِلًا ولِكُلِّ بَابٍ مِفْتَاحاً -

اورمنرف سازبھی یہ مسلسل رنگ بدلتے رہتے ہیں اور طرح طرح کے فتنے اٹھاتے رہتے ہیں۔ہرمکرو فریب کے ذریعہ تمہارا ہی قصدکرتے ہیں اور ہر گھات میں تمہاری ہی تاک میں بیٹھتے ہیں۔انکے دل بیمار ہیں اور ان کے چہرے پاک و صاف ۔اندر ہیاندر چال چلتے ہیں اور نقصانات کی خاطر رینگتے ہوئے قدم بڑھاتے ہیں۔ان کا طریقہ دوا جیسا اور ان کا کلام شفا جیسا ہے لیکن ان کا کردار نا قابل علاج مرض ہے ۔یہ راحتوں میں حسد کرنے والے مصیبتوں میں مبتلا کردینے والے اور امیدوں کو نا امید بنا دینے والے ہیں۔جس راہ پر دیکھو ان کامارا ہوا پڑا ہے۔اور جس دل کو دیکھو وہاں تک پہنچنے کا ایک سفارشی ڈھونڈ رکھا ہے۔ اور ہر رنج و غم کے لئے آنسو(۱) تیاررکھے ہوئے ہیں۔ایک دوسرے کی تعریف میں حصہ لیتے ہیں اور اس کے بدلہ کے منتظر رہتے ہیں سوال کرتے ہیں تو چپک جاتے ہیں اور برائی کرتے ہیں تو رسوا کرکے ہی چھوڑتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں تو حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ہر حق کے لئے ایک باطل تیار کر رکھا ہے اور ہر سیدھے کے لئے ایک کجی کا انتظام کر رکھا ہے۔ہر زندہ کے لئے ایک قاتل موجود ہے اور ہر دروازہ کیلئے ایک کنجی بنا رکھی ہے

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ منافقین کا کوئی عمل قابل اعتبار نہیں ہوتا ہے اور ان کی زندگی سراپا غلط بیانی ہوتی ہے۔تعریف کرنے پر آجاتے ہیں تو زمین وآسمان کو قلابے ملادیتے ہیں اوربرائی کرنے پر تل جاتے ہیں توآدمی کو عالمی سطح پرذلیل کرکے چھوڑتے ہیں۔اس لئے کہان کا نہ کوئی ضمیر ہوتاہے اور نہ کوئی معیار۔انہیں صرف موقع پرستی سے کام لینا ہے اور اسی کے اعتبار سیزبان کھولنا ہے۔خطبہ کے عنوان سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہی ہ سماج کے چند افراد کا ایک گروہ ہے جس کے کردار کو واضح کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ اس کردار سے ہوشیار ہیں اور اپنی زندگی کو نفاق سے بچا کر ایمان اور تقویٰ کے راستہ پر لگا دیں۔لیکن تفصیلات ک دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ یہ پورے سماج کا نقشہ ہے اور ساراعالم انسانیت اسی رنگ پر رنگا ہوا ہے۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نفاق کی حکمرانی نہ ہو اور انسان کے کردار کا کوئی رخ ایسا نہیں ہے جسے میں واقعیت اورحقیقت پائی جاتی ہو اورجس نفاق سے پاک و پاکیزہ قرار دیاجاسکے۔

۴۰۱

ولِكُلِّ لَيْلٍ مِصْبَاحاً - يَتَوَصَّلُونَ إِلَى الطَّمَعِ بِالْيَأْسِ لِيُقِيمُوا بِه أَسْوَاقَهُمْ - ويُنْفِقُوا بِه أَعْلَاقَهُمْ يَقُولُونَ فَيُشَبِّهُونَ - ويَصِفُونَ فَيُمَوِّهُونَ قَدْ هَوَّنُوا الطَّرِيقَ - وأَضْلَعُوا الْمَضِيقَ فَهُمْ لُمَةُ الشَّيْطَانِ وحُمَةُ النِّيرَانِ -( أُولئِكَ حِزْبُ الشَّيْطانِ - أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطانِ هُمُ الْخاسِرُونَ ) .

(۱۹۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يحمد اللَّه ويثني على نبيه ويعظ

حمد اللَّه

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي أَظْهَرَ مِنْ آثَارِ سُلْطَانِه وجَلَالِ كِبْرِيَائِه - مَا حَيَّرَ مُقَلَ الْعُقُولِ مِنْ عَجَائِبِ قُدْرَتِه - ورَدَعَ خَطَرَاتِ هَمَاهِمِ النُّفُوسِ عَنْ عِرْفَانِ كُنْه صِفَتِه -

الشهادتان

وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه - شَهَادَةَ إِيمَانٍ وإِيقَانٍ وإِخْلَاصٍ وإِذْعَانٍ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه - أَرْسَلَه وأَعْلَامُ الْهُدَى دَارِسَةٌ - ومَنَاهِجُ الدِّينِ طَامِسَةٌ فَصَدَعَ بِالْحَقِّ - ونَصَحَ لِلْخَلْقِ، وهَدَى إِلَى الرُّشْدِ

اور ہر رات کے لئے ایک چراغ مہیا کر رکھا ہے۔طع کے لئے ناموس کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ اپنے بازار کو رواج دے سکیں اور اپنے مال کو رائج کر سکیں۔جب بات کرتے ہیں تو مشتبہ قسم کی اور جب تعریف کرتے ہیں تو باطل کو حق کا رنگ دے کر۔انہوں نے اپنے لئے راستہ کو آسان بنالیا ہے اور دوسروں کے لئے تنگی پیدا کردی ہے۔یہ شیطان کے گروہ ہیں اور جہنم کے شعلے ' یہی حزب الشیطان کے مصداق ہیں اور حزب الشیطان کا مقدر سوائے خسارہ کے کچھ نہیں ہے ۔

(۱۹۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی سلطنت کے آثار اور کبریائی کے جلال کو اس طرح نمایاں کیا ہے کہ عقلوں کی نگاہیں عجائب قدرت سے حیران ہوگئی ہیں اورنفوس کے تصورات و افکار اس کے صفات کی حقیقت کے عرفان سے رک گئے ہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور یہ گواہی صرف ایمان و یقین ۔اخلاص و اعتقاد کی بناپر ہے اور پھر میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں۔اس نے انہیں اس وقت بھیجا ہے جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے۔اور دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے۔انہوں نے حق کاواشگاف انداز سے اظہار کیا۔

۴۰۲

وأَمَرَ بِالْقَصْدِ -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم -

العظة

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّه لَمْ يَخْلُقْكُمْ عَبَثاً ولَمْ يُرْسِلْكُمْ هَمَلًا - عَلِمَ مَبْلَغَ نِعَمِه عَلَيْكُمْ وأَحْصَى إِحْسَانَه إِلَيْكُمْ - فَاسْتَفْتِحُوه واسْتَنْجِحُوه واطْلُبُوا إِلَيْه واسْتَمْنِحُوه - فَمَا قَطَعَكُمْ عَنْه حِجَابٌ ولَا أُغْلِقَ عَنْكُمْ دُونَه بَابٌ - وإِنَّه لَبِكُلِّ مَكَانٍ وفِي كُلِّ حِينٍ وأَوَانٍ - ومَعَ كُلِّ إِنْسٍ وجَانٍّ - لَا يَثْلِمُه الْعَطَاءُ ولَا يَنْقُصُه الْحِبَاءُ - ولَا يَسْتَنْفِدُه سَائِلٌ ولَا يَسْتَقْصِيه نَائِلٌ - ولَا يَلْوِيه شَخْصٌ عَنْ شَخْصٍ ولَا يُلْهِيه صَوْتٌ عَنْ صَوْتٍ - ولَا تَحْجُزُه هِبَةٌ عَنْ سَلْبٍ ولَا يَشْغَلُه غَضَبٌ عَنْ رَحْمَةٍ - ولَا تُولِهُه رَحْمَةٌ عَنْ عِقَابٍ

لوگوں کو ہدایت دی اورسیدھے راستہ پر لگا کرمیانہ روی کا قانون بتادیا۔ بند گان خدا ! یاد رکھو پروردگار نے تم کو بیکارنہیں پیداکیا ہے اور نہ تم کو بے لگا چھوڑ دیا ہے۔وہ تم کو دی جانے والی نعمتوںکے حدود کو جانتا ہے اورتم پر کئے جانے والے احسانات کا شمار رکھتا ہے لہٰذا اس سے کامرانی اور کامیابی کا تقاضا کرو۔اس کی طرف دست طلب بڑھائو اور اس سے عطایا کا مطالبہ کرو۔کوئی حجاب تمہیں اس سے جدا نہیں کر سکتا ہے اور کوئی دروازہ اس کا تم پر بند نہیں ہو سکتا ہے۔وہ ہرجگہ اور ہر آن موجود ہے۔ہر انسان اور ہرجن کے ساتھ ہے۔نہ عطاء اس کے کرم میں رخنہ ڈال سکتی ہے اور نہ ہدایا اس کے خزانہ میں کمی پیدا کر سکتے ہیں۔ کوئی سائل اس کے خزانہ کو خالی نہیں کر سکتا ہے اور کوئی عطیہ اس کے کرم کی انتہا ء کو نہیں پہنچ سکتا ہے۔ایک شخص کی طرف توجہ دوسرے کی طرف سے رخ موڑ نہیں سکتی ہے اورایک آوازدوسری آوازسے غافل نہیں بنا سکتی ہے۔اس کاعطیہ(۱) چھین لینے سے مانع نہیں ہوتا ہے اور اس کا غضب رحمت سے مغشول نہیں کرتا ہے۔رحمت عتاب سے غفلت میں نہیں ڈال دیتی ہے

(۱) جن لوگوں کے صفات و کمالات پر مزاج یا عادات کی حکمرانی ہوتی ہے۔ان کے کمالات میں اس طرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے کہ مہربان ہو تے ہیں تو مہربان ہی ہوتے ہیں اور غصہ ور ہوتے ہیں تو غصہ ور ہی ہوتے ہیں۔لیکن مالک کائنات کے اوصاف و کمالات اس سے بالکل مختلف ہیں اس کے اوصاف و کمالات کا سرچشمہ اس کا مزاج یا اس کی طبیعت نہیں ہے۔بلکہ ان کا واقعی سر چشمہ اس کی حکمت اور مصلحت ہے۔لہٰذا اس کے بارے میں عین ممکن ہے کہ ایک ہی وقت میں مہربان بھی ہو اورغضب ناک بھی نعمتیں عطا بھی کر رہا ہواور سلب بھی کر رہا ہو۔اس کے کمال کا ظہور بھی ہو اور پردہ بھی۔وہ دور بھی نظرآئے اور قریب بھی۔اس لئے کہ مصالح کا تقاضا ہمیشہ افراد کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ایک شخص کاکردار رحمت چاہتا ہے اور دوسرے کا غضب ایک کے حق میں مصلحت عطا کر دینا ہے اوردوسرے کے حق میں چھین لیا۔ایک جزا و انعام کا سزاوار ہے اوردوسرا سزا واعتاب کا حقدار ۔تو حکیم علی الاطلاق کا فرض ہے کہ ایک ہی وقت میں ہرشخص کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرے جس کا وہ اہل ہے اورایک برتائو اسے دورسے برتائو سے غافل نہ بناسکے۔

۴۰۳

ولَا يُجِنُّه الْبُطُونُ عَنِ الظُّهُورِ - ولَا يَقْطَعُه الظُّهُورُ عَنِ الْبُطُونِ - قَرُبَ فَنَأَى وعَلَا فَدَنَا وظَهَرَ فَبَطَنَ - وبَطَنَ فَعَلَنَ ودَانَ ولَمْ يُدَنْ - لَمْ يَذْرَأِ الْخَلْقَ بِاحْتِيَالٍ ولَا اسْتَعَانَ بِهِمْ لِكَلَالٍ.

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - فَإِنَّهَا الزِّمَامُ والْقِوَامُ فَتَمَسَّكُوا بِوَثَائِقِهَا - واعْتَصِمُوا بِحَقَائِقِهَا تَؤُلْ بِكُمْ إِلَى أَكْنَانِ الدَّعَةِ - وأَوْطَانِ السَّعَةِ ومَعَاقِلِ الْحِرْزِ ومَنَازِلِ الْعِزِّ فِي يَوْمٍ تَشْخَصُ فِيه الأَبْصَارُ وتُظْلِمُ لَه الأَقْطَارُ - وتُعَطَّلُ فِيه صُرُومُ الْعِشَارِ ويُنْفَخُ فِي الصُّورِ - فَتَزْهَقُ كُلُّ مُهْجَةٍ وتَبْكَمُ كُلُّ لَهْجَةٍ - وتَذِلُّ الشُّمُّ الشَّوَامِخُ والصُّمُّ الرَّوَاسِخُ - فَيَصِيرُ صَلْدُهَا سَرَاباً رَقْرَقاً ومَعْهَدُهَا قَاعاً سَمْلَقاً - فَلَا شَفِيعٌ يَشْفَعُ ولَا حَمِيمٌ يَنْفَعُ ولَا مَعْذِرَةٌ تَدْفَعُ

اور ہستی کا پوشیدہ ہونا ظہور سے مانع نہیں ہوتا ہے اورآثار کا ظہور ہستی کی پردہ داری کو نہیں روک سکتا ہے۔وہ قریب ہوکر بھی دور ہے اور بلندہوکربھی نزدیک ہے۔وہ ظاہر ہوکر بھی پوشیدہ ہے اور پوشیدہ ہو کربھی ظاہر ہے وہ جزا دیتا ہے لیکن اسے جزا نہیں دی جاتی ہے۔اس نے مخلوقات کو سوچ بچار کرکے نہیں بنایا ہے اور نہ خستگی کی بنا پر ان سے مدد لی ہے۔

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں کہ یہی ہر خیر کی زمام اور ہر نیکی کی بنیاد ہے۔اس کے بندنوں سے وابستہ رہو اور اس کے حقائق سے متمسک رہو۔یہ تم کو راحت کی محفوظ منزلوں اور وسعت کے بہترین علاقوں تک پہنچا دے گا۔تمہارے لئے محفوظ مقامات ہوں گے اور باعزت منازل۔اس دن جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اوراطراف اندھیرا چھا جائے گا اونٹنیاں معطل کردی جائیں گی اور صور پھونک دیا جائے گا۔اس وقت سب کادم نکل جائے گا اور ہر زبان گونگی ہو جائے گی بلند ترین پہاڑ اورمضبوط ترین چٹانیں ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔پتھروں کی چٹانیں چمکدار سراب کی شکل میں تبدیل ہو جائیں گی اوہر ان کی منزل ایک صاف چٹیل میدان ہو جائے گی۔نہ کوئی شفیع شفاعت کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی دوست کام آنے والا ہوگا۔اور نہ کوئی معذرت دفاع کرنے والی ہوگی۔

۴۰۴

(۱۹۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعثة النبي

بَعَثَه حِينَ لَا عَلَمٌ قَائِمٌ - ولَا مَنَارٌ سَاطِعٌ ولَا مَنْهَجٌ وَاضِحٌ –

العظة بالزهد

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - وأُحَذِّرُكُمُ الدُّنْيَا فَإِنَّهَا دَارُ شُخُوصٍ - ومَحَلَّةُ تَنْغِيصٍ سَاكِنُهَا ظَاعِنٌ وقَاطِنُهَا بَائِنٌ - تَمِيدُ بِأَهْلِهَا مَيَدَانَ السَّفِينَةِ - تَقْصِفُهَا الْعَوَاصِفُ فِي لُجَجِ الْبِحَارِ - فَمِنْهُمُ الْغَرِقُ الْوَبِقُ ومِنْهُمُ النَّاجِي عَلَى بُطُونِ الأَمْوَاجِ - تَحْفِزُه الرِّيَاحُ بِأَذْيَالِهَا وتَحْمِلُه عَلَى أَهْوَالِهَا - فَمَا غَرِقَ مِنْهَا فَلَيْسَ بِمُسْتَدْرَكٍ ومَا نَجَا مِنْهَا فَإِلَى مَهْلَكٍ!

عِبَادَ اللَّه الآنَ فَاعْلَمُوا والأَلْسُنُ مُطْلَقَةٌ - والأَبْدَانُ صَحِيحَةٌ والأَعْضَاءُ لَدْنَةٌ - والْمُنْقَلَبُ فَسِيحٌ والْمَجَالُ عَرِيضٌ - قَبْلَ إِرْهَاقِ الْفَوْتِ وحُلُولِ الْمَوْتِ - فَحَقِّقُوا عَلَيْكُمْ نُزُولَه ولَا تَنْتَظِرُوا قُدُومَه

(۱۹۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسمیں سرکار دو عالم (ص) کی مدح کی گئی ہے )

(پروردگارنے آپ کو اس وقت مبعوث کیا جب نہ کوئی نشان ہدایت قائم رہ گیا تھا نہ کوئی منارۂ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا)

بندگان خدا! میں تمہیں تقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں اور دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کا گھر اوربد مزگی کا علاقہ ہے۔اس کا باشندہ بہر حال سفر کرنے والا ہے اور اس کا مقیم بہرحال جدا ہونے والا ہے۔یہ اپنے اہل کو لے کر اس طرح لرزتی ہے جس طرح گہرے سمندر میں تندو تیز ہوائوں کی زد پر کشتیاں ۔کچھ لوگ غرق اور ہلاک ہو جاتے ہیں اور کچھ موجوں کے سہارے پر باقی رہ جاتے ہیں کہ ہوائیں انہیں اپنے دامن میں لئے پھرتی رہتی ہیں اور اپنی ہولناک منزلوں کی طرف لے جاتی رہتی ہیں۔جو غرق ہو گیا وہ دوبارہ نکالا نہیں جا سکتا اور جو بچ گیا ہے اس کا راستہ ہلاکت ہی کی طرف جا رہا ہے۔

بندگان خدا!ابھی بات کو سمجھ لو جب کہ زبانیں آزاد ہیں اور بدن صحیح و سالم ہیں۔اعضاء میں لچک باقی ہے اورآنے جانے کی جگہ وسیع اور کام کا میدان طویل و عریض ہے ۔قبل اس کے کہ موت نازل ہو جائے اور اجل کاپھندہ گلے میں پڑ جائے ۔اپنے لئے موت کی آمد کو یقینی سمجھ لو اور اس کے آنے کا انتظار نہ کرو ۔

۴۰۵

(۱۹۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

ينبه فيه على فضيلته لقبول قوله وأمره ونهيه

ولَقَدْ عَلِمَ الْمُسْتَحْفَظُونَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أَنِّي لَمْ أَرُدَّ عَلَى اللَّه ولَا عَلَى رَسُولِه سَاعَةً قَطُّ ولَقَدْ وَاسَيْتُه بِنَفْسِي فِي الْمَوَاطِنِ - الَّتِي تَنْكُصُ فِيهَا الأَبْطَالُ - وتَتَأَخَّرُ فِيهَا الأَقْدَامُ نَجْدَةً أَكْرَمَنِي اللَّه بِهَا.

ولَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وإِنَّ رَأْسَه لَعَلَى صَدْرِي - ولَقَدْ سَالَتْ نَفْسُه فِي كَفِّي فَأَمْرَرْتُهَا عَلَى وَجْهِي - ولَقَدْ وُلِّيتُ غُسْلَهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم والْمَلَائِكَةُ أَعْوَانِي - فَضَجَّتِ الدَّارُ والأَفْنِيَةُ - مَلأٌ يَهْبِطُ ومَلأٌ يَعْرُجُ - ومَا فَارَقَتْ سَمْعِي هَيْنَمَةٌ مِنْهُمْ - يُصَلُّونَ عَلَيْه حَتَّى وَارَيْنَاه فِي ضَرِيحِه -

(۱۹۷)

آپ کا ارشادگرامی

(جس میں پیغمبر اسلام (ص) کے امرونہی اورتعلیمات کوقبول کرنے کے ذیل میں فضیلت کاذکر کیا گیا ہے)

اصحاب پیغمبر (ص) میں شریعت کے امانتدار افراد اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا اور رسول (ص) کی بات کو رد نہیں کیا اورمیں نے پیغمبر اکرم(ص) پر اپنی(۱) جان ان مقامات پر قربان کی ہے جہاں بڑے بڑے بہادر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔صرف اس بہادری کی بنیاد پرجس سے پروردگارنے مجھے سرفراز فرمایا تھا۔

رسول اکرم(ص) اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جب ان کا سر میرے سینہ پرتھا اور ان کی روح اقدس میرے ہاتھوں پر جدا ہوئی ہے تو میں نے اپنے ہاتھوں کو چہرہ پرمل لیا۔میں نے ہی آپ کو غسل دیاہے جب ملائکہ میری امداد کر رہے تھے اور گھر کے اندر اورباہر ایک کہرام برپا تھا۔ایک گروہ نازل ہو رہا تھا اورایک واپس جا رہا تھا۔سب نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں مسلسل ان کی آوازیں سن رہا تھا۔

(۱)مولائے کائنات کی پوری حیات اس ارشاد گرامی کا بہترین مرقع ہے جہاں ہجرت کی رات سے لے کر فتح مکہ تک اور اس کے بعد تبلیغ برائت تک کوئی موقع ایسا نہیں تھا جہاں آپ نے سرکار دوعالم (ص) اور ان کے مقصد کی خاطر اپنی جان کو خطرہ میں نہ ڈال دیا ہو اور اس وحدت ذات و صفات کا ثبوت نہ دیا ہوجس کی طرف خود حضرت نے میدان احد میں اشارہ کیا تھا جب جبرائیل امین نے عر ض کی حضور علی کی مواساة کودیکھ رہے ہیں ؟ تو آپنے فرمایا کہ اس میں حیرت کی بات کیا ہے '' علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ''۔اس کے بعد انتقال سے لے کردفن کے آخری مرحلہ تک ہر قدم پر حضور کے امورکے ذمہ دار رہے جب کہ مورخین کے بیان کی بنا پر بڑے بڑے صحابہ کرام دفن میں شرکت کی سعادت حاصل نہ کر سکے اورخلافت سازی کی مہم میں مصروف رہ گئے۔

۴۰۶

فَمَنْ ذَا أَحَقُّ بِه مِنِّي حَيّاً ومَيِّتاً - فَانْفُذُوا عَلَى بَصَائِرِكُمْ - ولْتَصْدُقْ نِيَّاتُكُمْ فِي جِهَادِ عَدُوِّكُمْ - فَوَالَّذِي لَا إِلَه إِلَّا هُوَ إِنِّي لَعَلَى جَادَّةِ الْحَقِّ - وإِنَّهُمْ لَعَلَى مَزَلَّةِ الْبَاطِلِ - أَقُولُ مَا تَسْمَعُونَ وأَسْتَغْفِرُ اللَّه لِي ولَكُمْ!

(۱۹۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

ينبه على إحاطة علم اللَّه بالجزئيات، ثم يحث على التقوى،

ويبين فضل الإسلام والقرآن

يَعْلَمُ عَجِيجَ الْوُحُوشِ فِي الْفَلَوَاتِ ومَعَاصِيَ الْعِبَادِ فِي الْخَلَوَاتِ - واخْتِلَافَ النِّينَانِ فِي الْبِحَارِ الْغَامِرَاتِ - وتَلَاطُمَ الْمَاءِ بِالرِّيَاحِ الْعَاصِفَاتِ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً نَجِيبُ اللَّه - وسَفِيرُ وَحْيِه ورَسُولُ رَحْمَتِه –

الوصية بالتقوى

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنِّي أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّه الَّذِي ابْتَدَأَ خَلْقَكُمْ - وإِلَيْه يَكُونُ مَعَادُكُمْ وبِه نَجَاحُ طَلِبَتِكُمْ - وإِلَيْه مُنْتَهَى رَغْبَتِكُمْ ونَحْوَه قَصْدُ سَبِيلِكُمْ -

یہاں تک کہ میں نے ہی حضرت کو سپرد لحد کیا ہے۔تو اب بتائو کہ زندگی اورموت میں مجھ سے زیادہ ان سے قریب تر کون ہے ؟ اپنی بصیر توں کے ساتھ اور صدق نیت کے اعتماد پر آگے بڑھو۔اور اپنے دشمن سے جہاد کرو قسم ہے اس پروردگار کی جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے کہ میں حق کے راستہ پر ہوں اور وہ لوگ باطل کی لغزشوں کی منزل میں ہیں۔میں جو کہہ رہا ہوں وہ تم سن رہے ہو اورمیں اپنے اور تمہارے دونوں کے لئے خدا کی بارگاہ میں استغفار کر رہا ہوں۔

(۱۹۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں خداکی عالم جزئیات ہونے پر تاکید کی گئی ہے اور پھر تقویٰ پرآمادہ کیا گیا ہے )

وہ پروردگار صحرائوں میں جانوروں کی فریاد کو بھی جانتا ہے اور تنہائیوں میں بندوں کے گناہوں کو بھی۔وہ گہرے سمندروں میں مچھلیوں کی رفت و آمد سے بھی با خبر ہے اور تیز و تند ہوائوں سے پیدا ہونے والے تلاطم سے بھی۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) خدا کے منتخب بندہ۔اس کی وحی کے سفیر اور اس کی رحمت کے رسول ہیں۔

اما بعد! میں تم سب کو اسی خدا سے ڈرنے کی نصیحت کر رہا ہوں جس نے تمہاری خلقت کی ابتداء کی ہے اور اسی کی بارگاہ میں تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔اسیکے ذریع تمہارے مقاصد کو کامیابی ہے اوراسی کی طرف تمہارے رغبتوں کی انتہاء ہے۔اسی کی سمت تمہارا سیدھا راستہ ہے

۴۰۷

وإِلَيْه مَرَامِي مَفْزَعِكُمْ -

فَإِنَّ تَقْوَى اللَّه دَوَاءُ دَاءِ قُلُوبِكُمْ - وبَصَرُ عَمَى أَفْئِدَتِكُمْ وشِفَاءُ مَرَضِ أَجْسَادِكُمْ - وصَلَاحُ فَسَادِ صُدُورِكُمْ - وطُهُورُ دَنَسِ أَنْفُسِكُمْ وجِلَاءُ عَشَا أَبْصَارِكُمْ،وأَمْنُ فَزَعِ جَأْشِكُمْ وضِيَاءُ سَوَادِ ظُلْمَتِكُمْ فَاجْعَلُوا طَاعَةَ اللَّه شِعَاراً دُونَ دِثَارِكُمْ - ودَخِيلًا دُونَ شِعَارِكُمْ ولَطِيفاً بَيْنَ أَضْلَاعِكُمْ - وأَمِيراً فَوْقَ أُمُورِكُمْ ومَنْهَلًا لِحِينِ وُرُودِكُمْ - وشَفِيعاً لِدَرَكِ طَلِبَتِكُمْ وجُنَّةً لِيَوْمِ فَزَعِكُمْ - ومَصَابِيحَ لِبُطُونِ قُبُورِكُمْ - وسَكَناً لِطُولِ وَحْشَتِكُمْ ونَفَساً لِكَرْبِ مَوَاطِنِكُمْ - فَإِنَّ طَاعَةَ اللَّه حِرْزٌ مِنْ مَتَالِفَ مُكْتَنِفَةٍ - ومَخَاوِفَ مُتَوَقَّعَةٍ وأُوَارِ نِيرَانٍ مُوقَدَةٍ - فَمَنْ أَخَذَ بِالتَّقْوَى

اور اسی کی طرف تمہاری فریادوں کا نشانہ ہے ۔

یہ تقویٰ الٰہی تمہارے دلوں کی بیماری کی دوا ہے اور تمہارے قلوب کے اندھے پن کی بصارت۔یہ تمہارے جسموں کی بیماری کی شفا کا سامان ہے اور تمہارے سینوں کے فساد کی اصلاح۔یہی تمہارے نفوس کی گندگی کی طہارت ہے اور یہی تمہاری آنکھوں کے چندھیانے کی جلاء اسی میں تمہارے دل کے اضطراب کا سکون ہے اور یہی زندگی کی تاریکیوں کی ضیاء ہے۔اطاعت خدا کو اندر کا شعاربنائو صرف باہر کا نہیں اور اسے باطن میں داخل کرو صرف ظاہر میں نہیں۔اپنی پسلیوں کے درمیان سمولو اور اپنے جملہ امور کا حاکم قرار دے دو۔تشنگی میں ورود کے لئے چشمہ تصور کرو اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے وسیلہ قرار دو۔اپنے روز قزع کے لئے سپر بنائو اور اپنی تاریک قبروں کے لئے چراغ۔اپنی طولانی وحشت قبر کے لئے مونس بنائو اور اپنے رنج و غم کے مراحل کے لئے سہارا۔اطاعت الٰہی تمام گھیرنے والے بربادی کے اسباب آنے والے خوفناک مراحل اور بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے لئے حرزجان ہے۔جس نے تقویٰ(۱) کواختیار کرلیا

(۱)اس مقام پر مولائے کائنا ت نے اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا چاہا ہے کہ تقویٰ کاف ائدہ صرف آخرت تک محود نہیں ہے کہ تم یہاں گناہوں سے پرہیز کرو۔مالک وہاں تمہیں آتش جہنم سے محفوظ کردے گا بلکہ یہ تقویٰ آخرت کے ساتھ دنیا کے مرحلہ پرکامآنے والا ہے اور کسی مرحلہ پر انسان کو نظرانداز کرنے والا نہیں ہے ۔مشکلات سے نجات اسی تقویٰ کا کارنامہ ہے اور طوفانوں کا مقابلہ اسی تقویٰ کی طاقت سے ہوتا ہے۔رحمت کے چشمے اسی سے جاری ہوتے ہیں اورفضل و کرم کے بادل اسی کی برکت سے برستے ہیں اور شاید یہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ انسانی زندگی کی ساری پریشانیاں اس کے اعمال کی کمزوریوں سے پیدا ہوتی ہیں' جب انسان تقویٰ کے ذریعہ کردار کومضبوط کرلے گا تو ہر پریشانی سے مقابلہ آسان ہو جائے گا۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ متقین کی زندگی میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے اور وہ چین اور سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ایسا ہوتا تو صبر کا کوئی مفہوم نہ ہوتا اورمتقین کا سلسلہ صابرین سے الگ ہو جاتا۔بلکہ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ تقویٰ صبرکاحوصلہ پیداکرتا ہے اور تقویٰ کے ذریعہ مصائب سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی برکت سے رحمتوں کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔

۴۰۸

عَزَبَتْ عَنْه الشَّدَائِدُ بَعْدَ دُنُوِّهَا - واحْلَوْلَتْ لَه الأُمُورُ بَعْدَ مَرَارَتِهَا - وانْفَرَجَتْ عَنْه الأَمْوَاجُ بَعْدَ تَرَاكُمِهَا - وأَسْهَلَتْ لَه الصِّعَابُ بَعْدَ إِنْصَابِهَا - وهَطَلَتْ عَلَيْه الْكَرَامَةُ بَعْدَ قُحُوطِهَا -. وتَحَدَّبَتْ عَلَيْه الرَّحْمَةُ بَعْدَ نُفُورِهَا - وتَفَجَّرَتْ عَلَيْه النِّعَمُ بَعْدَ نُضُوبِهَا - ووَبَلَتْ عَلَيْه الْبَرَكَةُ بَعْدَ إِرْذَاذِهَا

فَاتَّقُوا اللَّه الَّذِي نَفَعَكُمْ بِمَوْعِظَتِه - ووَعَظَكُمْ بِرِسَالَتِه وامْتَنَّ عَلَيْكُمْ بِنِعْمَتِه - فَعَبِّدُوا أَنْفُسَكُمْ لِعِبَادَتِه - واخْرُجُوا إِلَيْه مِنْ حَقِّ طَاعَتِه.

فضل الإسلام

ثُمَّ إِنَّ هَذَا الإِسْلَامَ دِينُ اللَّه الَّذِي اصْطَفَاه لِنَفْسِه - واصْطَنَعَه عَلَى عَيْنِه وأَصْفَاه خِيَرَةَ خَلْقِه - وأَقَامَ دَعَائِمَه عَلَى مَحَبَّتِه - أَذَلَّ الأَدْيَانَ بِعِزَّتِه

اس کے لئے سختیاں قریب آکر دور چلی جاتی ہیں اور امور زندگی تلخیوں کے بعد شیریں ہو جاتے ہیں۔موجیں تہ بہ تہ ہو جانے کے بعد بھی ہٹ جاتی ہیں اوردشواریاں مشقتوں میں مبتلا کر دینے کے بعد بھی آسان ہوجاتی ہیں ۔ قحط کے بعد کرامتوں کی بارش شروع ہو جاتی ہے اور سحاب رحمت ہٹ جانے کے بعد پھر برسنے لگتا ہے اور نعمتوں کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔اور پھوار کی کمی کے بعد برکت کی برسات شروع ہو جاتی ہے۔

اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں نصیحت سے فائدہ پہنچایا ہے اور اپنے پیغام کے ذریعہ نصیحت کی ہے اور اپنی نعمت سے تم پر احسان کیا ہے ۔اپنے نفس کو اس کی عبادت کے لئے ہموار کرواور اس کے حق کی اطاعت سے عہدہ برآہونے کی کوشش کرو۔

اس کے بعد یاد رکھو کہ یہ اسلام وہ دین(۱) ہے جسے مالک نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے اور اپنی نگاہوں میں اس کی دیکھ بھال کی ہے اور اسے بہترین خلاق کے حوالہ کیا ہے اوراپنی محبت پراس کے ستونوں کو قائم کیا ہے۔اس کی عزت کے ذریعہ ادیان کو سرنگوں کیا ہے اور

(۱) دین اسلام کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کے قوانین خالق کائنات نے بنائے ہیں اور ہر قانون کی فطرت بشر سے ہم آہنگ بنایا ہے۔اس نے مسئلہ تشریع میں اپنے محبوب ترین بندہ کو بھی دخیل نہیں کیا ہے اورنہ کسی کو اس کے قوانین میں ترمیم کرنے کا حق دیا ہے۔ظاہر ہے کہ جو قانون خالق و مالک کے علم و کمال کے نتیجہ میں منظر عام پرآئے گا اس کی بقا کی ضمانت اس کے دفعات کے اندر ہی ہوگی اور جب تک یہ کائنات باقی رہے گی اس کے دفعات میں تغیر و تبدیل کی ضرورت نہ ہوگی۔

اسلام کے دین پسندیدہ ہونے ہی کا اثر ہے کہ اس کے سامنے تمام ادیان عالم حقیر اور اس کے مقابلہ میں تمام دشمنان مذہب ذلیل ہیں۔مالک نے اس کی بنیاد محبت پر رکھی ہے اور اس کی اساس رحمت اور ربوبیت کو قراردیا ہے۔اس کا تسلسل نا قابل اختتام ہے اوراس کے حلقے نا قابل انصفام ۔

اسی میں انسانیت کی پیاس بجھا نے کاسامان ہے اور اسی میں طالبان ہدایت کے لئے بہترین وسیلہ رہنمائی ہے۔رضائے الٰہی کا سامان یہی ہے اور بندگی پروردگار کا بہترین مرقع یہی دین و مذہب ہے۔اس کے بغیر ہدایت کا تصور مہمل ہے اور اس کے علاوہ ہر دین نا قابل قبول ہے۔

۴۰۹

ووَضَعَ الْمِلَلَ بِرَفْعِه- وأَهَانَ أَعْدَاءَه بِكَرَامَتِه وخَذَلَ مُحَادِّيه بِنَصْرِه - وهَدَمَ أَرْكَانَ الضَّلَالَةِ بِرُكْنِه - وسَقَى مَنْ عَطِشَ مِنْ حِيَاضِه - وأَتْأَقَ الْحِيَاضَ بِمَوَاتِحِه - ثُمَّ جَعَلَه لَا انْفِصَامَ لِعُرْوَتِه ولَا فَكَّ لِحَلْقَتِه - ولَا انْهِدَامَ لأَسَاسِه ولَا زَوَالَ لِدَعَائِمِه - ولَا انْقِلَاعَ لِشَجَرَتِه ولَا انْقِطَاعَ لِمُدَّتِه - ولَا عَفَاءَ لِشَرَائِعِه ولَا جَذَّ لِفُرُوعِه ولَا ضَنْكَ لِطُرُقِه - ولَا وُعُوثَةَ لِسُهُولَتِه ولَا سَوَادَ لِوَضَحِه - ولَا عِوَجَ لِانْتِصَابِه ولَا عَصَلَ فِي عُودِه - ولَا وَعَثَ لِفَجِّه ولَا انْطِفَاءَ لِمَصَابِيحِه - ولَا مَرَارَةَ لِحَلَاوَتِه - فَهُوَ دَعَائِمُ أَسَاخَ فِي الْحَقِّ أَسْنَاخَهَا - وثَبَّتَ لَهَا آسَاسَهَا ويَنَابِيعُ غَزُرَتْ عُيُونُهَا - ومَصَابِيحُ شَبَّتْ نِيرَانُهَا - ومَنَارٌ اقْتَدَى بِهَا سُفَّارُهَا وأَعْلَامٌ قُصِدَ بِهَا فِجَاجُهَا - ومَنَاهِلُ رَوِيَ بِهَا وُرَّادُهَا جَعَلَ اللَّه فِيه مُنْتَهَى رِضْوَانِه - وذِرْوَةَ دَعَائِمِه وسَنَامَ طَاعَتِه.

اس کی بلندی کے ذریعہ ملتوں کی پستی کا اظہار کیا ہے اس کے دشمنوں کو اس کی کرامت کے ذریعہ ذلیل کیا ہے اوراس سے مقابلہ کرنے والوں کو اس کی نصرت کے ذریعہ رسوا کیا ہے۔اس کے رکن کے ذریعہ ضلالت کے ارکان کو منہدم کیا ہے اور اس کے حوض سے پیاسوں کو سیراب کیا ہے اور پھر پانی الچنے والوں کے ذریعہ ان حوضوں کو بھردیا ہے۔ اس کے بعد اس دین کو ایسا بنادیا ہے کہ اس کے بندھن ٹوٹ نہیں سکتے ہیں۔اس کی کڑیاں کھل نہیں سکتی ہیں ۔اس کی بنیاد منہدم نہیں ہو سکتی ہے۔اس کے ستون گر نہیں سکتے ہیں۔اس کا درخت اکھڑ نہیں سکتا ہے۔اس کی مدت تمام نہیں ہو سکتی ہے۔اس کے آثار مٹ نہیں سکتے ہیں۔اس کی شاخیں کٹ نہیں سکتی ہیں۔اس کے راستے تنگ نہیں ہو سکتے ہیں۔اس کی آسانیاں دشوار نہیں ہوسکتی ہیں۔اس کی سفیدی میں سیاہی نہیں ہے اور اس کی استقامت میں کجی نہیں ہے۔اس کی لکڑی ٹیڑھی نہیں ہے اور اس کی وسعت میں دشواری نہیں ہے۔اس کا چراغ بجھ نہیں سکتا ہے اور اس کی حلاوت میں تلخی نہیں آسکتی ہے۔اس کے ستون ایسے ہیں جن کے پائے حق کی زمین میں نصب کئے گئے ہیں اور پھر اس کی اساس کو پائیدار بنایا گیا ہے۔اس کے چشموں کا پانی کم نہیں ہوسکتا ہے اور اس کے چراغوں کی لو مدھم نہیں ہوسکتی ے۔اس کے مناروں سے راہ گیر ہدایت پاتے ہیں اور اس کے نشانات کو راہوں میں منزل اپنے بلندترین ارکان اور اپنی اطاعت کاعروج قرار دیا

۴۱۰

- فَهُوَ عِنْدَ اللَّه وَثِيقُ الأَرْكَانِ رَفِيعُ الْبُنْيَانِ - مُنِيرُ الْبُرْهَانِ مُضِيءُ النِّيرَانِ - عَزِيزُ السُّلْطَانِ مُشْرِفُ الْمَنَارِ مُعْوِذُ الْمَثَارِ - فَشَرِّفُوه واتَّبِعُوه وأَدُّوا إِلَيْه حَقَّه وضَعُوه مَوَاضِعَه.

الرسول الأعظم

ثُمَّ إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِالْحَقِّ حِينَ دَنَا مِنَ الدُّنْيَا الِانْقِطَاعُ وأَقْبَلَ مِنَ الآخِرَةِ الِاطِّلَاعُ - وأَظْلَمَتْ بَهْجَتُهَا بَعْدَ إِشْرَاقٍ وقَامَتْ بِأَهْلِهَا عَلَى سَاقٍ - وخَشُنَ مِنْهَا مِهَادٌ وأَزِفَ مِنْهَا قِيَادٌ - فِي انْقِطَاعٍ مِنْ مُدَّتِهَا واقْتِرَابٍ مِنْ أَشْرَاطِهَا وتَصَرُّمٍ مِنْ أَهْلِهَا

ہے۔یہ دین اس کے نزدیک مستحکم ارکان والا ' بلند ترین بنیادوں والا واضح دلائل والا۔روشن ضیائوں والا۔غالب سلطنت والا۔بلند مینار والا اورنا ممکن تباہی والا ہے۔اس کے شرف کا تحفظ کرو۔اس کے احکام کا اتباع کرو۔اس کے حق کو ادا کرو اوراسے اس کی واقعی منزل پر قرار دو۔

اس کے بعد مالک نے حضرت محمد (ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اورآخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروںمیں تبدیل ہونے لگا اوروہ اپنے چاہنے والوں کے لئے ایک مصیبت بن کر کھڑی ہوگئی۔اس کا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہار دینے کے لئے تیار ہوگئی ۔ اس طرح کہ اس کی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی۔ اس کی فنا کے آثار قریب آگئے ۔اس کے اہل ختم ہونے

(۱) کتنا حسین دور تھا جب انبیاء کرام کا سلسلہ قائم تھا ۔کتابیں اور صحیفے نازل ہو رہے تھے۔مبلغین دین و مذہب اپنے کردار سے انسانیت کی رہنمائی کر رہے تھے اور زمین و آسمان کے رشتے جڑے ہوئے تھے پھر یکبارگی قرت کا زمانہ آگیا اوری ہ سارے سلسلے ٹوٹ گئے ۔دنیا پر جاہلیت کا اندھیرا چھا گیا اور انسانیت نے اپنی زمام قیادت جہل و جہالیت کے حوالہ کردی۔

ایسے حالات میں اگر سرکار دوعالم (ص) کا ورود نہ ہوتا تو یہ دنیا گھٹا ٹوپ اندھیروں کی نذر ہو جاتی اور انسانیت کو کوئی راستہ نظرنہ آتا لیکن یہ مالک کا کرم تھا کہ اس نے رحمةالعالمین کوبھیج دیا اور اندھیری دنیا کو پھر دوبارہ نور رسالت سے منور کردیا ہے۔اور آپ کے ساتھ ایک نور اور نازل کردیا جس کا نام قرآن مبین تھا اور جس کی روشنی ناقابل اختتام تھی۔یہ بیک وقت دستور بھی تھا اوراعجاز بھی ۔سمندر بھی تھا اورچراغ بھی۔حق و باطل کاف رقان بھی تھا اوردین و ایمان کا برہان بھی۔اس میں ہر مرض کا علاج بھی تھا اور ہر بیماری کا مداوا بھی۔

اسے مالک نے سیرابی کا ذریعہ بھی بنایا تھا اور دلوں کی بہار بھی ۔نشان راہبھی قرار دیات ھا اورمنزل مقصود بھی۔جوشخص جس نقطہ نگاہ سے دیکھے اس کی تسکین کا سامان قرآن حکیم میں موجود ہے اور ایک کتاب ساری کائنات جن و انس کی ہدایت کے لئے کافی ہے بشر طیکہ اس کے مطالب ان لوگوں سے اخذ کئے جائیں جنہیں راسخون فی العلم بنایا گیا ہے اور جن کے علم قرآن کی ذمہ داری مالک کائنات نے لی ہے۔

۴۱۱

وانْفِصَامٍ مِنْ حَلْقَتِهَا - وانْتِشَارٍ مِنْ سَبَبِهَا وعَفَاءٍ مِنْ أَعْلَامِهَا - وتَكَشُّفٍ مِنْ عَوْرَاتِهَا وقِصَرٍ مِنْ طُولِهَا.

جَعَلَه اللَّه بَلَاغاً لِرِسَالَتِه وكَرَامَةً لأُمَّتِه - ورَبِيعاً لأَهْلِ زَمَانِه ورِفْعَةً لأَعْوَانِه وشَرَفاً لأَنْصَارِه.

القرآن الكريم

ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْه الْكِتَابَ نُوراً لَا تُطْفَأُ مَصَابِيحُه - وسِرَاجاً لَا يَخْبُو تَوَقُّدُه وبَحْراً لَا يُدْرَكُ قَعْرُه - ومِنْهَاجاً لَا يُضِلُّ نَهْجُه وشُعَاعاً لَا يُظْلِمُ ضَوْءُه - وفُرْقَاناً لَا يُخْمَدُ بُرْهَانُه وتِبْيَاناً لَا تُهْدَمُ أَرْكَانُه - وشِفَاءً لَا تُخْشَى أَسْقَامُه - وعِزّاً لَا تُهْزَمُ أَنْصَارُه وحَقّاً لَا تُخْذَلُ أَعْوَانُه –

فَهُوَ مَعْدِنُ الإِيمَانِ وبُحْبُوحَتُه ويَنَابِيعُ الْعِلْمِ وبُحُورُه - ورِيَاضُ الْعَدْلِ وغُدْرَانُه وأَثَافِيُّ الإِسْلَامِ وبُنْيَانُه - وأَوْدِيَةُ الْحَقِّ وغِيطَانُه وبَحْرٌ لَا يَنْزِفُه الْمُسْتَنْزِفُونَ - وعُيُونٌ لَا يُنْضِبُهَا الْمَاتِحُونَ - ومَنَاهِلُ لَا يَغِيضُهَا الْوَارِدُونَ - ومَنَازِلُ لَا يَضِلُّ نَهْجَهَا الْمُسَافِرُونَ -

لگے۔اس کے حلقے ٹوٹنے لگے۔اس کے اسباب منتشر ہونے لگے۔اس کے نشانات مٹنے لگے' اس کے عیب کھلنے لگے اوراس کے دامن سمٹنے لگے۔

اللہ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ۔امت کی کرامت۔اہل زمانہ کی بہار' اعوان و انصارکی بلندی کا ذریعہ اور یارومددگار افراد کی شرافت کا واسطہ قرار دیا ہے۔

اس کے بعد ان پر اس کتاب کو ناز ل کیا جس کی قندیل بجھ نہیں سکتی ہے اور جس کے چراغ کی لو مدھم نہیں پڑ سکتی ہے وہ ایسا سمندر ہے جسے کی تھا ہ مل نہیں سکتی ہے اور ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بھٹک نہیں سکتا ہے۔ایسی شعاع جس کی ضوتاریک نہیں ہو سکتی ہے اور ایسا حق و باطل کا امتیاز جس کا برہان کمزورنہیں ہوسکتا ہے۔ایسی وضاحت جس کے ارکان منہدم نہیں ہو سکتے ہیں اور ایسی شفا جس میں بیماری کا کوئی خوف نہیں ہے۔ایسی عزت جس کے انصار پسپا نہیں ہوسکتے ہیں اور ایسا حق جس کے اعوان بے یارو مدد گارنہیں چھوڑے جا سکتے ہیں۔

یہ ایمان کا معدن ومرکز۔علم کا چشمہ اور سمندر' عدالت کا باغ اور حوض ' اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس ' حق کی وادی اور اس کاہموار میدان ہے۔یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہیں کر سکتے ہیں اور وہ چشمہ ہے جسے الچنے والے خشک نہیں کرس کتے ہیں۔وہ گھاٹ ہے جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہیں کر سکتے ہیں اور وہ منزل ہے جس کی راہ پر چلنے والے مسافر

۴۱۲

وأَعْلَامٌ لَا يَعْمَى عَنْهَا السَّائِرُونَ - وآكَامٌ لَا يَجُوزُ عَنْهَا الْقَاصِدُونَ جَعَلَه اللَّه رِيّاً لِعَطَشِ الْعُلَمَاءِ ورَبِيعاً لِقُلُوبِ الْفُقَهَاءِ - ومَحَاجَّ لِطُرُقِ الصُّلَحَاءِ ودَوَاءً لَيْسَ بَعْدَه دَاءٌ - ونُوراً لَيْسَ مَعَه ظُلْمَةٌ وحَبْلًا وَثِيقاً عُرْوَتُه - ومَعْقِلًا مَنِيعاً ذِرْوَتُه وعِزّاً لِمَنْ تَوَلَّاه - وسِلْماً لِمَنْ دَخَلَه وهُدًى لِمَنِ ائْتَمَّ بِه - وعُذْراً لِمَنِ انْتَحَلَه وبُرْهَاناً لِمَنْ تَكَلَّمَ بِه - وشَاهِداً لِمَنْ خَاصَمَ بِه وفَلْجاً لِمَنْ حَاجَّ بِه - وحَامِلًا لِمَنْ حَمَلَه ومَطِيَّةً لِمَنْ أَعْمَلَه - وآيَةً لِمَنْ تَوَسَّمَ وجُنَّةً لِمَنِ اسْتَلأَمَ - وعِلْماً لِمَنْ وَعَى وحَدِيثاً لِمَنْ رَوَى وحُكْماً لِمَنْ قَضَى

(۱۹۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كان يوصي به أصحابه

تَعَاهَدُوا أَمْرَ الصَّلَاةِ وحَافِظُوا عَلَيْهَا - واسْتَكْثِرُوا مِنْهَا وتَقَرَّبُوا بِهَا

بھٹک نہیں سکتے ہیں۔وہ نشان منزل ہے جو راہ گیروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا ہے اوروہ ٹیلہ ہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہیں جا سکتے ہیں۔

پروردگارنے اسے علماء کی سیرابی کا ذریعہ۔ فقہاء کے دلوں کی بہارصلحاء کے راستوں کے لئے شاہراہ قرار دیا ہے۔یہ وہ دواہے جس کے بعد کوئی مرض نہیں رہ سکتا اوروہنور ہے جس کے بعد کسی ظلمت کا امکان نہیں ہے۔وہ ریسمان ہے جس کے حلقے مستحکم ہیں۔اور پناہ گاہ ہے جس کی بلندی محفوظ ہے۔چاہنے والوں کے لئے عزت ' داخل ہونے والوں کے لئے سلامتی ۔اقتداء کرنے والوں کے لئیہدایت ' نسبت حاصل کرنے والوں کے لئے حجت ' بولنے والوں کے لئے برہان اور مناظرہ کرنے والوں کے لئے شاہد ہے۔بحث کرنے والوں کی کامیابی کاذریعہ اٹھانے والوں کے لئے بوجھ بٹانے والا عمل کرنے والوں کے لئے بہترین سواری ' حقیقت شاناسوں کے لئے بہترین نشانی اوراسلحہ سجنے والوں کے لئے بہترین سپر ہے۔فکرکرنے والوں کے لئے علم اور روایت کرنے والوں کے لئے حدیث اور قضاوت کرنے والوں کے لئے قطعی حکم اور فیصلہ ہے۔

(۱۹۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کی اصحاب کو وصیت فرمایا کرتے تھے )

دیکھو نمازکی پابندی اوراس کی نگہداشت کرو۔زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھو اور اسے تقرب الٰہی کاذریعہ قراردوکہ

۴۱۳

فَإِنَّهَا( كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً ) - أَلَا تَسْمَعُونَ إِلَى جَوَابِ أَهْلِ النَّارِ حِينَ سُئِلُوا -( ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ - قالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ) - وإِنَّهَا لَتَحُتُّ الذُّنُوبَ حَتَّ الْوَرَقِ - وتُطْلِقُهَا إِطْلَاقَ الرِّبَقِ - وشَبَّهَهَا رَسُولُ اللَّه - صلى الله عليه وآله وسلم -بِالْحَمَّةِ تَكُونُ عَلَى بَابِ الرَّجُلِ - فَهُوَ يَغْتَسِلُ مِنْهَا فِي الْيَوْمِ واللَّيْلَةِ خَمْسَ مَرَّاتٍ - فَمَا عَسَى أَنْ يَبْقَى عَلَيْه مِنَ الدَّرَنِ وقَدْ عَرَفَ حَقَّهَا رِجَالٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ –

الَّذِينَ لَا تَشْغَلُهُمْ عَنْهَا زِينَةُ مَتَاعٍ ولَا قُرَّةُ عَيْنٍ - مِنْ وَلَدٍ ولَا مَالٍ - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه -( رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ ولا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله - وإِقامِ الصَّلاةِ وإِيتاءِ الزَّكاةِ ) - وكَانَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَصِباً بِالصَّلَاةِ - بَعْدَ التَّبْشِيرِ لَه بِالْجَنَّةِ - لِقَوْلِ اللَّه سُبْحَانَه( وأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلاةِ واصْطَبِرْ عَلَيْها ) - فَكَانَ يَأْمُرُ بِهَا أَهْلَه ويَصْبِرُ عَلَيْهَا نَفْسَه.

یہ صاحبان ایمان کے لئے وقت کی پابندی کے ساتھ واجب کی گئی ہے۔کیا تم نے اہل جہنم کا جواب نہیں سنا کہ جب ان سے سوال کیا جائے گا کہ تمہیں کس چیزنے جہنم تک پہنچادیا ہے تو کہیں گے کہ ہم نمازی تھے ۔یہ نماز گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دیتی ہے جس طرح درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں اوراسی طرح گناہوں سے آزادی دلا دیتی ہے جس طرح جانورآزاد کئے جاتے ہیں۔رسول اکرم (ص) نے اسے اس گرم چشمہ سے تشبیہ دی ہے جوانسان کے دروازہ پر ہو اوروہاس میں روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرے۔ظاہر ہے کہ اس پر کسی کثافت کے باقی رہ جانے کا امکان نہیں رہ جاتا ہے۔

اس کے حق کو واقعاً ان صاحبان ایمان نے پہچانا ہے جنہیں زینت متاع دنیا یا تجارت اورکاروبار کوئی شے بھی یاد خدا اور نماز و زکوٰة سے غافل نہیں بناسکی ہے۔رسول اکرم (ص) اس نمازکے لئے اپنے کو زحمت میں ڈالتے تھے حالانکہ انہیں جنت کی بشارت دی جاچکی تھی اس لئے کہ پروردگار نے فرمادیا تھا کہ اپنے اہل کونماز کا حکم دو اورخودبھی اس کی پابندی کرو تو آپ اپنے اہل کوحکم بھی دیتے تھے اورخود زحمت(۱) بھی برداشت کرتے تھے۔

(۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سرکار دو عالم (ص) نے نمازقائم کرنے کی راہمیں بے پناہ زحمتوں کاسامنا کیاہے۔ رات رات بھر مصلیٰ پرقایم کیا ہے اور طرح طرح کی دشمنوں کی اذیتیوں کو برداشت کیا ہے لیکن مالک کائنات نے اس کا اجر بھی بے حساب عنایت کیا ہے کہ نماز سرکار کی یاد کاب ہترین ذریعہ بنگئی ہے اوراس کے ذریعہ سرکار کی شخصیت اور رسالتکو ابدی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔نمازی اذان و اقامت ہی سے سرکار کا کلمہ پڑھنا شروع کردیتا ہے اور پھر تشہد و سلام تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس طرح تمام امتوں کا رشتہ ان کے پیغبمروں سے ٹوٹ چکا ہے لیکن امت اسلامیہ کا رشتہ سرکار دوعالم (ص) سے نہیں ٹوٹ سکتا ہے اور یہ نماز برابر آپ کی یاد کو زندہ رکھے گی اور مسلمانوں کو حسن کردار کی دعوت دیتی رہے گی۔

۴۱۴

الزكاة

ثُمَّ إِنَّ الزَّكَاةَ جُعِلَتْ مَعَ الصَّلَاةِ قُرْبَاناً لأَهْلِ الإِسْلَامِ - فَمَنْ أَعْطَاهَا طَيِّبَ النَّفْسِ بِهَا - فَإِنَّهَا تُجْعَلُ لَه كَفَّارَةً ومِنَ النَّارِ حِجَازاً ووِقَايَةً - فَلَا يُتْبِعَنَّهَا أَحَدٌ نَفْسَه ولَا يُكْثِرَنَّ عَلَيْهَا لَهَفَه - فَإِنَّ مَنْ أَعْطَاهَا غَيْرَ طَيِّبِ النَّفْسِ بِهَا - يَرْجُو بِهَا مَا هُوَ أَفْضَلُ مِنْهَا فَهُوَ جَاهِلٌ بِالسُّنَّةِ - مَغْبُونُ الأَجْرِ ضَالُّ الْعَمَلِ - طَوِيلُ النَّدَمِ.

الأمانة

ثُمَّ أَدَاءَ الأَمَانَةِ - فَقَدْ خَابَ مَنْ لَيْسَ مِنْ أَهْلِهَا - إِنَّهَا عُرِضَتْ عَلَى السَّمَاوَاتِ الْمَبْنِيَّةِ - والأَرَضِينَ الْمَدْحُوَّةِ والْجِبَالِ ذَاتِ الطُّولِ الْمَنْصُوبَةِ - فَلَا أَطْوَلَ ولَا أَعْرَضَ ولَا أَعْلَى ولَا أَعْظَمَ مِنْهَا - ولَوِ امْتَنَعَ شَيْءٌ بِطُولٍ أَوْ عَرْضٍ - أَوْ قُوَّةٍ أَوْ عِزٍّ لَامْتَنَعْنَ - ولَكِنْ أَشْفَقْنَ مِنَ الْعُقُوبَةِ - وعَقَلْنَ مَا جَهِلَ مَنْ هُوَ أَضْعَفُ مِنْهُنَّ وهُوَ الإِنْسَانُ -( إِنَّه كانَ ظَلُوماً جَهُولًا )

علم اللَّه تعالى

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى لَا يَخْفَى عَلَيْه - مَا الْعِبَادُ مُقْتَرِفُونَ فِي لَيْلِهِمْ ونَهَارِهِمْ - لَطُفَ بِه خُبْراً

اس کے بعد زکوٰة کو نماز کے(۱) ساتھ مسلمانوں کے لئے وسیلہ تقرب قرار دیاگیا ہے۔جو اسے طیب خاطر سے ادا کردے گا اس کے گناہوں کے لئے یہ کفارہ بن جائے گی اور اسے جہنم سے بچالے گی۔خبردار کوئی شخص اسے ادا کرنے کے بعد اس کے بارے میں فکرنہ کرے اور نہ اس کا افسوس کرے کہ طیب نفس کے بغیر ادا کرنے والا اور پھر اس سے بہتر اجرو ثواب کی امید کرنے والا سنت سے بے خبر اور اجرو ثواب کے اعتبار سے خسارہ میں ہے' اس کاعمل برباد اور اس کی ندامت دائمی ہے۔

اس کے بعد امانتوں کی ادائیگی کا خیال رکھو کہ امانت داری نہ کرنیوالا ناکام ہوتا ہے۔امانت کو بلند ترین آسمانوں ' فرش شدہ زینتوں اور بلند و بالا پہاڑوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے جن سے بظاہر طویل و عریض اور اعلیٰ و ارفع کوئی شے نہیں ہے اور اگر کوئی شے اپنے طول و عرض یا قوت و طاقت کی بناپ راپنے کو بچا سکتی ہے تو یہی چیزیں ہیں۔لیکن یہ سب خیانت کے عذاب سے خوف زدہ ہوگئے اوراس نکتہ کو سمجھ لیا جس کو ان سے ضعیف تر انسان نے نہیں پہچانا کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اور نا واقف تھا۔

پروردگار پر بندوں کے دن و رات کے اعمال میں سے کوئی شے مخفی نہیں ہے۔وہ لطافت کی بنا پرخبر رکھتا

(۱) زکوٰة کو نماز کے ساتھ بیان کرنے کا ظاہری فلسفہ یہ ہے کہ نماز عبدو معبود کے درمیان کا رشتہ ہے اور زکوٰة بندوں اور بندوں کے درمیان کا تعلق ہے اوراس طرح اسلام کا نصاب مکمل ہو جاتا ہے کہ مسلمان اپنے مالک کیاطاعت بھی کرتا ہے اوراپنے بنی نوع کے کمزور افراد کا خیال بھی رکھتا ہے اور ان کی شرکت کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتا ہے۔

۴۱۵

وأَحَاطَ بِه عِلْماً أَعْضَاؤُكُمْ شُهُودُه - وجَوَارِحُكُمْ جُنُودُه وضَمَائِرُكُمْ عُيُونُه وخَلَوَاتُكُمْ عِيَانُه

(۲۰۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معاوية

واللَّه مَا مُعَاوِيَةُ بِأَدْهَى مِنِّي ولَكِنَّه يَغْدِرُ ويَفْجُرُ - ولَوْ لَا كَرَاهِيَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ أَدْهَى النَّاسِ - ولَكِنْ كُلُّ غُدَرَةٍ فُجَرَةٌ وكُلُّ فُجَرَةٍ كُفَرَةٌ - ولِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يُعْرَفُ بِه يَوْمَ الْقِيَامَةِ».

واللَّه مَا أُسْتَغْفَلُ بِالْمَكِيدَةِ ولَا أُسْتَغْمَزُ بِالشَّدِيدَةِ

ہے اور علم کے اعتبار سے احاطہ رکھتا ے۔تمہارے اعضاء ہی اس کے گواہ ہیں اور تمہارے ہاتھ پائوں ہی اس کے لشکر ہیں۔تمہارے ضمیر اس کے جاسوس ہیں اور تمہار ی تنہائیاں بھی اس کی نگاہ کے سامنے ہیں۔

(۲۰۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(معاویہ کے بارے میں )

خداکی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار(۱) نہیں ہے لیکن کیاکروں کہ وہ مکرو فریب اور فسق و فجوربھی کر لیتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے نا پسند نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ ہوشیار کوئی نہ ہوتا لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ ہر مکرو فریب گناہ ہے اور ہر گناہ پروردگار کے احکام کی نا فرمانی ہے ہر غدارکے ہاتھ میں قیامت کے دن ایک جھنڈا دے دیا جائے گا جس سے اسے عرصہ محشر میں پہچان لیا جائے گا۔

خدا کی قسم مجھے نہ ان مکاریوں سے غفلت میں ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ان سختیوں سے دبایا جا سکتا ہے۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ جسے پروردگار نے نفس رسول (ص) قراردیا ہو اورخود سرکار دو عالم (ص) نے باب مدینہ علم قرار دیاہو اس سے زیادہ ہوشیار ہوشمند اور صاحب علم و ہنر کون ہوسکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود بعض نادان افراد کا خیال ہے کہ معایہ زیادہ ہوشیار اور زیرک تھا اور اسی لئے اس کی سیاست زیادہ کامیاب تھی۔حالانکہ اس کا راز ہوشیاری اورہوش مندی نہیں ہے۔بلکہ اس کا راز مکاری اور غداری ہے کہ معاویہ مقصد کے حصول کے لئے ہر وسیلہ کو جائز قرار دیتا تھا اور اس کا مقصد بھی صرف حصول اقتدار اورتحت حکومت تھا اور مولائے کائنات کی نگاہ میں نہمقصد وسیلہ کے جوازکا ذریعہ تھا اور نہ آپ کامقصد اقتدار دنی کا حصول تھا۔ آپ کا مقصد دین خدا کا قیام تھا اور اس راہمیں انسان کو ہر قدم پھونک پھونک کراٹھا ناپڑتا ہے اورہرسانس میں مرضی پر وردگار کاخیال رکھنا پڑتا ہے۔

۴۱۶

(۲۰۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يعظ بسلوك الطريق الواضح

أَيُّهَا النَّاسُ - لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِه - فَإِنَّ النَّاسَ قَدِ اجْتَمَعُوا عَلَى مَائِدَةٍ شِبَعُهَا قَصِيرٌ - وجُوعُهَا طَوِيلٌ.

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا يَجْمَعُ النَّاسَ الرِّضَا والسُّخْطُ - وإِنَّمَا عَقَرَ نَاقَةَ ثَمُودَ رَجُلٌ وَاحِدٌ - فَعَمَّهُمُ اللَّه بِالْعَذَابِ لَمَّا عَمُّوه بِالرِّضَا - فَقَالَ سُبْحَانَه( فَعَقَرُوها فَأَصْبَحُوا نادِمِينَ ) - فَمَا كَانَ إِلَّا أَنْ خَارَتْ أَرْضُهُمْ بِالْخَسْفَةِ - خُوَارَ السِّكَّةِ الْمُحْمَاةِ فِي الأَرْضِ الْخَوَّارَةِ

أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوَاضِحَ وَرَدَ الْمَاءَ - ومَنْ خَالَفَ وَقَعَ فِي التِّيه!

(۲۰۲)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

روِيَ عَنْه أَنَّه قَالَه عِنْدَ دَفْنِ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ فَاطِمَةَعليه‌السلام كَالْمُنَاجِي بِه رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عِنْدَ قَبْرِه.

(۲۰۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں واضح راستوں پرچلنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے )

ایہا الناس ! دیکھو ہدایت کے راستہ پرچلنے والوں کی قلت کی بنا پرچلنے سے مت گھبرائو کہ لوگوں نے ایک ایسے دستر خوان پر اجتماع کرلیا ہے جس میں سیر ہونے کی مدت بہت کم ہے اوربھوک کی مدت بہت طویل ہے۔

لوگو! یاد رکھو کہ رضا مندی اورناراضگی ہی سارے انسانوں کو ایک نقطہ پر جمع کر دیتی ہے۔ناقہ صالح کے پیرایک ہی انسان نے کاٹے تھے لیکن اللہ نے عذاب سب پر نازل کردیا کہ باقی لوگ اس کے عمل سے راضی تھے ۔اورفرمادیا کہ ان لوگوں نے ناقہ کے پیر کاٹ ڈالے اور آخر میں ندامت کا شکار ہوگئے۔ان کا عذاب یہ تھا کہ زمین جھٹکے سے گھڑگھڑانے لگی جس طرح کہ نرم زمین میں لوہے کی تپتی ہوئی پھالی چلائی جاتی ہے۔

لوگو!دیکھو جو روشن راستہ پرچلتا ہے وہ سر چشمہ تک پہنچ جاتا ہےاورجو اس کے خلاف کرتا ہےوہگمراہی میں پڑ جاتا ہے۔

(۲۰۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(کہا جاتا ہے کہ یہ کلمات سیدة النساء فاطمہ زہراء کے دفن کے موقع پر پیغمبراسلام (ص) سے راز دارانہ گفتگو کے اندازسے کہے گئے ہیں ۔

۴۱۷

السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّه عَنِّي - وعَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِي جِوَارِكَ - والسَّرِيعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ - قَلَّ يَا رَسُولَ اللَّه عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي ورَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِي - إِلَّا أَنَّ فِي التَّأَسِّي لِي بِعَظِيمِ فُرْقَتِكَ - وفَادِحِ مُصِيبَتِكَ مَوْضِعَ تَعَزٍّ - فَلَقَدْ وَسَّدْتُكَ فِي مَلْحُودَةِ قَبْرِكَ - وفَاضَتْ بَيْنَ نَحْرِي وصَدْرِي نَفْسُكَ - فَ( إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِيعَةُ وأُخِذَتِ الرَّهِينَةُ - أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ وأَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ - إِلَى أَنْ يَخْتَارَ اللَّه لِي دَارَكَ الَّتِي أَنْتَ بِهَا مُقِيمٌ - وسَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ أُمَّتِكَ عَلَى هَضْمِهَا - فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ واسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ - هَذَا ولَمْ يَطُلِ الْعَهْدُ ولَمْ يَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ - والسَّلَامُ عَلَيْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ لَا قَالٍ ولَا سَئِمٍ - فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ - وإِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ

سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول (ص) ! میری طرف سے اور آپ کی اس دختر کی طرف سے جوآپ کے جوار میں نازل ہو رہی ہے اوربہت جلدی آپ سے ملحق ہو رہی ہے۔ یا رسول اللہ (ص) ! میری قوت صبر آپ کی منتخب روز گار دختر کے بارے میں ختم ہوئی جا رہی ہے اور میری ہمت ساتھ چھوڑے دے رہی ہے صرف سہارا یہ ہے کہ میں نے آپ کے فراق کے عظیم صدمہ اورجانکاہ حادثہ پر صبر کرلیا ہے تواب بھی صبر کروں گا کہ میں نے ہی آپ کو قبر میں اتارا تھا اور میرے ہی سینہ پر سر رکھ کر آپ نے انتقال فرمایا تھا بہر حال میں اللہ ہی کے لئے ہوں اور مجھے بھی اس کی بارگاہ میں واپس جانا ہے۔آج امانت واپس چلی گئی اور جوچیز میری تحویل میں تھی وہ مجھ سے چھڑالی گئی۔اب میرا رنج و غم دائمی ہے اورمیرے راتیں نذر بیداری ہیں جب تک مجھے بھی پروردگار اس گھرتک نہ پہنچا دے جہاں آپ کا قیام ہے۔عنقریب آپ کی دختر نیک اختران حالات کی اطالع دے گی کہ کس طرح آپ کی امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کرلیا تھا آپ اس سے مفصل سوال فرمائیں اورجملہ حالات دریافت کریں۔

افسوس کہ یہ سب اس وقت ہوا ہے جب آپ کا زمانہ گزرے دیر نہیں ہوئی ہے اور ابھی آپ کاتذکرہ باقی ہے۔

میرا سلام ہو آپ دونوں پر۔اس شخص کا سلام جو رخصت کرنے والا ہے اور دل تنگ و ملول نہیں ہے ۔ میں اگراس قبر سے واپس چلا جائوں تو یہ کسی دل تنگی کا نتیجہ نہیں ہے اور اگر یہیں ٹھہر جائوں تو یہ اس وعدہ کی ہے اعتبار ہ ی

۴۱۸

بِمَا وَعَدَ اللَّه الصَّابِرِينَ.

(۲۰۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التزهيد من الدنيا والترغيب في الآخرة

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الدُّنْيَا دَارُ مَجَازٍ والآخِرَةُ دَارُ قَرَارٍ - فَخُذُوا مِنْ مَمَرِّكُمْ لِمَقَرِّكُمْ - ولَا تَهْتِكُوا أَسْتَارَكُمْ عِنْدَ مَنْ يَعْلَمُ أَسْرَارَكُمْ - وأَخْرِجُوا مِنَ الدُّنْيَا قُلُوبَكُمْ - مِنْ قَبْلِ أَنْ تَخْرُجَ مِنْهَا أَبْدَانُكُمْ - فَفِيهَا اخْتُبِرْتُمْ ولِغَيْرِهَا خُلِقْتُمْ - إِنَّ الْمَرْءَ إِذَا هَلَكَ قَالَ النَّاسُ مَا تَرَكَ؟ وقَالَتِ الْمَلَائِكَةُ مَا قَدَّمَ - لِلَّه آبَاؤُكُمْ فَقَدِّمُوا بَعْضاً يَكُنْ لَكُمْ قَرْضاً - ولَا تُخْلِفُوا كُلاًّ فَيَكُونَ فَرْضاً عَلَيْكُمْ.

(۲۰۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كان كثيرا ما ينادي به أصحابه

تَجَهَّزُوا رَحِمَكُمُ اللَّه فَقَدْ نُودِيَ فِيكُمْ بِالرَّحِيلِ وأَقِلُّوا الْعُرْجَةَ عَلَى الدُّنْيَا

نہیں ہے جو پروردگار نے صبرکرنے والوں سے کیا ہے۔

(۲۰۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(دنیا سے پرہیزاورآخرت کی ترغیب کے بارےمیں)

لوگو! یہ دنیا ایک گذر گاہ ہے ۔قرار کی منزل آخرت ہی ہے لہٰذا اس گزر گاہ سے وہاں کا سامان لے کرآگے بڑھو اور اس کے سامنے اپنے پردہ ٔ راز کو چاک مت کرو جو تمہارے اسرار سے با خبر ہے۔دنیا سے اپنے دلوں(۱) کو باہر نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدنکو یہاں سے نکالا جائے۔یہاں صرف تمہارا امتحان لیا جا رہا ہے ورنہ تمہاری خلقت کسی اور جگہ کے لئے ہے۔کوئی بھی شخص جب مرتا ہے تو ادھر والے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا چھوڑ کر گیا ہے اورادھرکے فرشتے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا لے کرآیا ہے ؟ اللہ تمہارا بھلاکرے کچھ وہاں بھیج دو جو مالک کے پاس تمہارے قرضہ کے طورپ ر رہے گا۔اور سب یہیں چھوڑ کرمت جائو کہ تمہارے ذمہ ایک بوجھ بن جائے ۔

(۲۰۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کے ذریعہ اپنے اصحاب کوآوازدیاکرتے تھے )

خدا تم پر رحم کرے تیار ہوجائو کہ تمہیں کوچ کرنےکے لئے پکارا جا چکا ہے اور خبر دار دنیا کی طرف زیادہ

(۱)اسلام کا مدعا ترک دنیا تمہیں ہے اور نہ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان رہبانیت کی زندگی گزارے۔اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا انسان کی زندگی کا وسیلہ رہے اور اس کے دل کا مکین نہ بننے پائے۔ورنہ حب دنیا انسان کو زندگی کے ہر خطرہ سے دوچار کرسکتی ہے اور اسے کسی بھی گڑھے میں گرا سکتی ہے۔

۴۱۹

- - وانْقَلِبُوا بِصَالِحِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ مِنَ الزَّادِ - فَإِنَّ أَمَامَكُمْ عَقَبَةً كَئُوداً ومَنَازِلَ مَخُوفَةً مَهُولَةً - لَا بُدَّ مِنَ الْوُرُودِ عَلَيْهَا والْوُقُوفِ عِنْدَهَا -. واعْلَمُوا أَنَّ مَلَاحِظَ الْمَنِيَّةِ نَحْوَكُمْ دَانِيَةٌ - وكَأَنَّكُمْ بِمَخَالِبِهَا وقَدْ نَشِبَتْ فِيكُمْ - وقَدْ دَهَمَتْكُمْ فِيهَا مُفْظِعَاتُ الأُمُورِ ومُعْضِلَاتُ الْمَحْذُورِ -. فَقَطِّعُوا عَلَائِقَ الدُّنْيَا واسْتَظْهِرُوا بِزَادِ التَّقْوَى.

وقد مضى شيء من هذا الكلام فيما تقدم - بخلاف هذه الرواية

(۲۰۵)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به طلحة والزبير - بعد بيعته بالخلافة وقد عتبا عليه من ترك مشورتهما،

والاستعانة في الأمور بهما

لَقَدْ نَقَمْتُمَا يَسِيراً وأَرْجَأْتُمَا كَثِيراً - أَلَا تُخْبِرَانِي أَيُّ شَيْءٍ كَانَ لَكُمَا فِيه حَقٌّ دَفَعْتُكُمَا عَنْه

توجہ مت کرو ۔جو بہترین زاد راہ تمہارے سامنے ہے اسے لے کر مالک کی بارگاہ کی طف پلٹ جائو کہ تمہارے سامنے ایک بڑی دشوار گزار گھاٹی ہے۔اورچند خطرنک اورخوفناک منزلیں ہیں جن پر بہر حال وارد ہونا ہے اور وہیں ٹھہرنا بھی ہے۔اوریہ یاد رکھو کہموت کی نگاہیں تم سے قریب تر ہوچکی ہیں اورتم اس کے پنجوں میں آچکے ہو جو تمہارے اندر گڑا ئے جا چکے ہیں۔موت کے شدید ترین مسائلاوردشوار ترین مشکلات تم پر چھا چکے ہیں ۔اب دنیا کے تعلقات کوختم کرو اورآخرت کے زاد راہ تقویکے ذریعہ اپنی طاقت کا انتظام کرو۔(واضح رہےکہ اس سے پہلے بھی اسی قسم کاایک کلام دوسری روایت کے مطابق گزر چکا ہے)

(۲۰۵)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں طلحہ و زبیر کو مخاطب بنایا گیا ہے جب ان دونوں نے بیعت کے باوجود مشورہ کرنے اورمدد نہ مانگنے پر آپ سے ناراضگی کا ظہار کیا )

تم نے معمولی سی بات پرتو غصہ کا اظہار کردیا لیکن بڑی باتوں کو پس پشت ڈال دیا۔کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ تمہارا کون ساحق(۱) ایسا ہے جس سے میں نے تم کو محروم

(۱)امیر المومنین نے ان تمام پہلوئوں کاتذکرہ اس لئے کیا ہے تاکہ طلحہ اور زبیر کی نیتوں کا محاسبہ کیا جاسکے اور ان کے عزائم کی حقیقتوں کوب ے نقاب کیا جاسکے کہ مجھ سے پہلے زمانوںمیں یہ تمام نقائص موجود تھے کبھی حقوق کی پامالی ہو رہی تھی ۔کبھی اسلامی سرمایہ کو اپنے گھرانے پر تقسیم کیا جا رہا تھا کبھی مقدمات میں فیصلہ سے عاجزی کا اعتراف تھا اور کبھی صریحی طور پر غلط فیصلہ کیا جارہا تھا۔لیکن اس کے باوجود تم لوگوں کی رگ حمیت و غیرت کو کوئی جنبش نہیں ہو ئی۔اورآج جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے تو تم بغاوت پر آمادہ ہوگئے ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا تعلق دین اور مذہب سے نہیں ہے۔تمہیں صرف اپنے مفادات سے تعلق ہے۔جب تک یہ مفادات محفوظ تھے 'تم نے ہر غلطی پر سکوتاختیار کیا اور آج جب مفادات خطرہ میں پڑ گئے ہیں تو شورش اورہنگامہ پرآمادہ ہوگئے ہو۔

۴۲۰

أَمْ أَيُّ قَسْمٍ اسْتَأْثَرْتُ عَلَيْكُمَا بِه - أَمْ أَيُّ حَقٍّ رَفَعَه إِلَيَّ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ضَعُفْتُ عَنْه أَمْ جَهِلْتُه أَمْ أَخْطَأْتُ بَابَه!

واللَّه مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلَافَةِ رَغْبَةٌ - ولَا فِي الْوِلَايَةِ إِرْبَةٌ - ولَكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا وحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا - فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللَّه ومَا وَضَعَ لَنَا - وأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِه فَاتَّبَعْتُه - ومَا اسْتَنَّ النَّبِيُّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَاقْتَدَيْتُه - فَلَمْ أَحْتَجْ فِي ذَلِكَ إِلَى رَأْيِكُمَا ولَا رَأْيِ غَيْرِكُمَا - ولَا وَقَعَ حُكْمٌ جَهِلْتُه فَأَسْتَشِيرَكُمَا وإِخْوَانِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ولَوْ كَانَ ذَلِكَ لَمْ أَرْغَبْ عَنْكُمَا ولَا عَنْ غَيْرِكُمَا -. وأَمَّا مَا ذَكَرْتُمَا مِنْ أَمْرِ الأُسْوَةِ - فَإِنَّ ذَلِكَ أَمْرٌ لَمْ أَحْكُمْ أَنَا فِيه بِرَأْيِي - ولَا وَلِيتُه هَوًى مِنِّي - بَلْ وَجَدْتُ أَنَا وأَنْتُمَا مَا جَاءَ بِه رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قَدْ فُرِغَ مِنْه - فَلَمْ أَحْتَجْ إِلَيْكُمَا فِيمَا قَدْ فَرَغَ اللَّه مِنْ قَسْمِه - وأَمْضَى فِيه حُكْمَه - فَلَيْسَ لَكُمَا واللَّه عِنْدِي ولَا لِغَيْرِكُمَا فِي هَذَا عُتْبَى -. أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ.

کردیا ہے ؟ یا کونسا حصہ ایسا ہے جس پر میں نے قبضہ کرلیا ہے ؟ یا کسی مسلمان نے کوئی مقدمہ پیش کیا ہو اور میں اس کا فیصلہ نہ کر سکا ہوں یا اس سے ناواقف رہا ہوں یا اس میں کسی غلطی کا شکار ہوگیا ہوں۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے نہ خلافت کی خواہش تھی اور نہ حکومت کی احتیاج۔تمہیں لوگوں نے مجھے اس امر کی دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔اس کے بعد جب یہ میرے ہاتھ میں آگئی تو میں نے اس سلسلہ میں کتاب خدا اور اس کے دستور پر نگاہ کی اور جو اس نے حکم دیا تھا اس کا اتباع کیا اور اس طرح رسول اکرم (ص) کی سنت کی اقتدا کی۔جس کے بعد نہ مجھے تمہاری رائے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ تمہارے علاوہ کسی کی رائے کی اور نہمیں کسی حکم سے جاہل تھا کہ تم سے مشورہ کرتا یا تمہارے علاوہ دیگر برادران اسلام سے۔اور اگر ایی کوئی ضرورت ہوتی تو میں نہ تمہیں نظر انداز کرتا اورنہ دیگر مسلمانوں کو۔رہ گیا یہ مسئلہ کہ میں نے بیت المال کی تقسیم میں برابری سے کاملیا ہے تو یہ نہمیری ذاتی رائے ہے اور نہاس پر میری خواہش کی حکمرانی ہے بلکہ میں نے دیکھا کہ اس سلسلہ میں رسول اکرم (ص) کی طرف سے ہم سے پہلے فیصلہ ہوچکا ہے تو خدا کے معین کئے ہوئے حق اور اس کے جاری کئے ہوئے حکم کے بعد کسی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ خدا شاہد ہے کہ اس سلسلہ میں نہ تمہیں شکایت کا کوئی حق ہے اور نہ تمہارے علاوہ کسی اور کو۔اللہ ہم سب کے دلوں کو حق کی راہ پر لگا دے اور سب کو صبر و شکیبائی کی توفیق عطا فرمائے ۔

۴۲۱

ثم قالعليه‌السلام - رَحِمَ اللَّه رَجُلًا رَأَى حَقّاً فَأَعَانَ عَلَيْه - أَوْ رَأَى جَوْراً فَرَدَّه - وكَانَ عَوْناً بِالْحَقِّ عَلَى صَاحِبِه.

(۲۰۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين

إِنِّي أَكْرَه لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ - ولَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ - كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وأَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ - وقُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ - اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا ودِمَاءَهُمْ - وأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وبَيْنِهِمْ واهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ - حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَه - ويَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ والْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِه

(۲۰۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في بعض أيام صفين - وقد رأى الحسن ابنهعليه‌السلام يتسرع إلى الحرب

امْلِكُوا عَنِّي هَذَا الْغُلَامَ لَا يَهُدَّنِي - فَإِنَّنِي أَنْفَسُ بِهَذَيْنِ يَعْنِي الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام - عَلَى الْمَوْتِ

خدا اس شخص پر رحمت نازل کرے جو حق کو دیکھ لے تو اس پرعمل کرے یا ظلم کو دیکھ لے تو اسے ٹھکرا دے اورصاحب حق میں اس کا ساتھ دے ۔

(۲۰۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے جنگ صفین کے زمانہ میں اپنے بعض اصحاب کے بارے میں سنا کہ وہ اہل شام کو برا بھلا کہہ رہے ہیں )

میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ خدایا! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کیراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگحق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں۔

(۲۰۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جنگ صفین کے دورا ن جب امام حسن کو میدان جنگ کی طرف سبقت کرتے ہوئے دیکھ لیا)

دیکھو! اس فرزند کو روک لو کہیں اس کاصدمہ مجھے بے حال نہکردے ۔میں ان دونوں ( حسن و حسین ) کو موت کے مقابلہ میں زیادہ عزیز رکھتا ہوں

۴۲۲

لِئَلَّا يَنْقَطِعَ بِهِمَا نَسْلُ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

قال السيد الشريف - قولهعليه‌السلام املكوا عني هذا الغلام - من أعلى الكلام وأفصحه.

(۲۰۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لما اضطرب عليه أصحابه في أمر الحكومة

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّه لَمْ يَزَلْ أَمْرِي مَعَكُمْ عَلَى مَا أُحِبُّ - حَتَّى نَهِكَتْكُمُ الْحَرْبُ - وقَدْ واللَّه أَخَذَتْ مِنْكُمْ وتَرَكَتْ - وهِيَ لِعَدُوِّكُمْ أَنْهَكُ.

لَقَدْ كُنْتُ أَمْسِ أَمِيراً فَأَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَأْمُوراً - وكُنْتُ أَمْسِ نَاهِياً فَأَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَنْهِيّاً - وقَدْ أَحْبَبْتُمُ الْبَقَاءَ ولَيْسَ لِي أَنْ أَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكْرَهُونَ!

(۲۰۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بالبصرة - وقد دخل على العلاء بن زياد الحارثي وهو من أصحابه

يعوده، فلما رأى سعة داره قال:

کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے مرجانے سے نسل رسول (ص) منقطع ہو جائے۔

سید رضی : املکوا عنی ھذا الغلام:عرب کا بلند ترین کلام اور فصیح ترین محاورہ ہے۔

(۲۰۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو اس وقت ارشاد فرمایا جب آپ کے اصحاب میں تحکیم کے بارے میں اختلاف ہوگیا تھا)

لوگو! یاد رکھو کہ میرے معاملات تمہارے ساتھ بالکل صحیح چل رہے تھے جب تک جنگ نے تمہیں خستہ حال نہیں کردیا تھا۔اس کے بعد معاملات بگڑ گئے حالانکہ خداگواہ ہے کہاگر جنگ نے تم سے کچھ کولے لیا اورکچھ کوچھوڑ دیا تو اس کی زد تمہارے دشمن پر زیادہ ہی پڑی ہے۔ افسو س کہ میں کل تمہارا حاکم تھا اور آج محکوم بنایا جا رہا ہوں۔کل تمہیں میں روکا کرتا تھااور آج تم مجھے روک رہے ہو۔بات صرف یہ ہے کہ تمہیں زندگی زیادہ پیاری ہے اورمیں تمہیں کسی ایسی چیز پرآمادہ نہیں کرسکتا ہوں جوتمہیں ناگوار اور ناپسند ہو۔

(۲۰۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بصرہ میں اپنے صحابی علاء بن زیاد حارثی کے گھر عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کے گھر کی وسعت کا مشاہدہ فرمایا )

۴۲۳

مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِسِعَةِ هَذِه الدَّارِ فِي الدُّنْيَا - وأَنْتَ إِلَيْهَا فِي الآخِرَةِ كُنْتَ أَحْوَجَ - وبَلَى إِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ - تَقْرِي فِيهَا الضَّيْفَ وتَصِلُ فِيهَا الرَّحِمَ - وتُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوقَ مَطَالِعَهَا - فَإِذاً أَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ.

فَقَالَ لَه الْعَلَاءُ - يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَشْكُو إِلَيْكَ أَخِي عَاصِمَ بْنَ زِيَادٍ - قَالَ ومَا لَه - قَالَ لَبِسَ الْعَبَاءَةَ وتَخَلَّى عَنِ الدُّنْيَا - قَالَ عَلَيَّ بِه فَلَمَّا جَاءَ قَالَ: يَا عُدَيَّ نَفْسِه لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكَ الْخَبِيثُ - أَمَا رَحِمْتَ أَهْلَكَ ووَلَدَكَ - أَتَرَى اللَّه أَحَلَّ لَكَ الطَّيِّبَاتِ وهُوَ يَكْرَه أَنْ تَأْخُذَهَا - أَنْتَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّه مِنْ ذَلِكَ

قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - هَذَا أَنْتَ فِي خُشُونَةِ مَلْبَسِكَ وجُشُوبَةِ مَأْكَلِكَ!

قَالَ وَيْحَكَ إِنِّي لَسْتُ كَأَنْتَ - إِنَّ اللَّه تَعَالَى فَرَضَ عَلَى أَئِمَّةِ - الْعَدْلِ أَنْ يُقَدِّرُوا أَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ - كَيْلَا يَتَبَيَّغَ بِالْفَقِيرِ فَقْرُه!

تم اس دنیا میں اس قدر وسیع مکان(۱) کو لے کر کیا کروگے جب کہ آخرت میں اس کی احتیاج زیادہ ہے۔تم اگرچاہو تو اس کے ذریعہ آخرت کا سامان کرسکتے ہو کہ اس میں مہمانوں کی ضیافت کرو۔قرابتداروں سے صلہ رحم کرو اورموقع و محل کے مطابق حقوق کوادا کرو کہ اس طرح آخرت کوحاصل کرسکتے ہو۔

یہ سن کرعلاء بن زیاد نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین میں اپنے بھائی عاصم بن زیاد کی شکایت کرناچاہتا ہوں۔فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ عرض کی کہ انہوں نے ایک عبا اوڑھ لی ہے اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہے۔فرمایا انہیں بلائو ۔عاصم حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ:

اے دشمن جان! تجھے شیطان خبیث نے گرویدہ بنا لیا ہے۔تجھے اپنے اہل و عیال پر کیوں رحم نہیں آتا ہے۔کیا تیراخیال یہ ہے کہ خدانے پاکیزہ چیزوں کو حلال تو کیا ہے لیکن وہ ان کے استعمال کو نا پسند کرتا ہے۔تو خدا کی بارگاہ میں اس سے زیادہ پست ہے۔

عاصم نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! آپ بھی تو کھردرا لباس اور معمولی کھانے پر گذارا کر رہے ہیں۔

فرمایا : تم پر حیف ہے کہ تم نے میراقیاس اپنے اوپر کرلیا ہے جب کہ پروردگارنے ائمہ حق پرفرض کردیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین انسانوں کو قراردیںتاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا پر کسی پیچ و تاب کا شکار ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مکان کی وسعت ذاتی اغراض کے لئے ہو تو اس کا نام دنیا داری ہے۔لیکن اگر اس کامقصد مہمان نوازی صلہ ارحام ادائیگی حقوق حفظ آبرو۔اظہار عظمت علم و مذہب ہوتو اس کاکوئی تعلق دنیداری سے نہیں ہے اور یہ دین و مذہب ہی کا ایک شعبہ ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ یہ فیصلہ نیتوں سے ہوگا اورنتیوں کا جاننے والا صرف پروردگار ہے کوئی دوسرا نہیں ہے۔

۴۲۴

(۲۱۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سأله سائل عن أحاديث البدع - وعما في أيدي الناس من اختلاف الخبر فقالعليه‌السلام :

إِنَّ فِي أَيْدِي النَّاسِ حَقّاً وبَاطِلًا - وصِدْقاً وكَذِباً ونَاسِخاً ومَنْسُوخاً - وعَامّاً وخَاصّاً - ومُحْكَماً ومُتَشَابِهاً وحِفْظاً ووَهْماً - ولَقَدْ كُذِبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَى عَهْدِه - حَتَّى قَامَ خَطِيباً فَقَالَ - مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَه مِنَ النَّارِ».

وإِنَّمَا أَتَاكَ بِالْحَدِيثِ أَرْبَعَةُ رِجَالٍ لَيْسَ لَهُمْ خَامِسٌ:

المنافقون

رَجُلٌ مُنَافِقٌ مُظْهِرٌ لِلإِيمَانِ مُتَصَنِّعٌ بِالإِسْلَامِ - لَا يَتَأَثَّمُ ولَا يَتَحَرَّجُ - يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مُتَعَمِّداً - فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ أَنَّه مُنَافِقٌ كَاذِبٌ لَمْ يَقْبَلُوا مِنْه - ولَمْ يُصَدِّقُوا قَوْلَه - ولَكِنَّهُمْ

(۲۱۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب کسی شخص نے آپ سے بدعتی احادیث اورمتضاد روایات کے بارے میں سوال کیا )

لوگوں کے ہاتھوں میں حق و باطل(۱) صدق و کذب ' ناسخ ومنسوخ، عام وخاص ' محکم و متشابہ اور حقیقت و وہم سب کچھ ہے اور کذب و افترا کا سلسلہ رسول اکرم (ص) کی زندگی ہی سے شروع ہوگیا تھا جس کے بعد آپ نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ '' جس شخص نے بھی میری طرف سے غلط بات بیان کی اسے اپنی جگہ جہنم میں بنا لینا چاہیے ۔''

یاد رکھو کہ حدیث کے بیان والے چار طرح کے افراد ہوتے ہیں جن کی پانچویں کوئی قسم نہیں ہے:

ایک وہ منافق ہے جو ایمان کا اظہار کرتا ہے۔اسلام کی وضع قطع اختیار کرتا ہے لیکن گناہ کرنے اور افتراء میں پڑنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے اور رسول اکرم (ص) کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ہے۔ کہ اگر لوگوں کومعلوم ہو جائے کہ یہ منافق اورجھوٹا تو یقینا اس کے بیان کی تصدیق نہ کریں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ

(۱)واضح رہے کہ اسلامی علوم میں علم رجال اور علم ورایت کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سارا عالم اسلام اس نقطہ پر متفق ہے کہ روایات قابل قبول بھی ہیں اورنا قابل قبول بھی۔اور راوی حضرات ثقہ اورمعتبر بھی ہیں اور غیر ثقہ اورغیر معتبر بھی۔اس کے بعد عدالت صحابہ اور اعتبار تمام علماء کا عقیدہ۔ایک مضحکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۴۲۵

قَالُوا صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - رَآه وسَمِعَ مِنْه ولَقِفَ عَنْه فَيَأْخُذُونَ بِقَوْلِه - وقَدْ أَخْبَرَكَ اللَّه عَنِ الْمُنَافِقِينَ بِمَا أَخْبَرَكَ - ووَصَفَهُمْ بِمَا وَصَفَهُمْ بِه لَكَ ثُمَّ بَقُوا بَعْدَه - فَتَقَرَّبُوا إِلَى أَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ - والدُّعَاةِ إِلَى النَّارِ بِالزُّورِ والْبُهْتَانِ - فَوَلَّوْهُمُ الأَعْمَالَ وجَعَلُوهُمْ حُكَّاماً عَلَى رِقَابِ النَّاسِ - فَأَكَلُوا بِهِمُ الدُّنْيَا وإِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوكِ والدُّنْيَا - إِلَّا مَنْ عَصَمَ اللَّه فَهَذَا أَحَدُ الأَرْبَعَةِ.

الخاطئون

ورَجُلٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّه شَيْئاً لَمْ يَحْفَظْه عَلَى وَجْهِه - فَوَهِمَ فِيه ولَمْ يَتَعَمَّدْ كَذِباً فَهُوَ فِي يَدَيْه - ويَرْوِيه ويَعْمَلُ بِه - ويَقُولُ أَنَا سَمِعْتُه مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّه وَهِمَ فِيه لَمْ يَقْبَلُوه مِنْه - ولَوْ عَلِمَ هُوَ أَنَّه كَذَلِكَ لَرَفَضَه!

وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحابی ہے۔اس نے حضور کودیکھا ہے ۔ان کے ارشاد کو سنا ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اور اس طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ہیں جب کہخود پروردگار بھی منافقین کے بارے میں خبر دے چکا ہے اور ان کے اوصاف کاتذکرہ کرچکا ہے اور یہ رسول اکرم (ص) کے بعد بھی باقی رہ گئے تھے اور گمراہی کے پیشوائوں(۱) اور جہنم کے داعیوں کی طرف اسی غلط بیانی اور افترا پردازی سے تقرب حاصل کرتے تھے ۔وہ انہیں عہدے دیتے رہے اور لوگوں کی گردنوں پر حکمراں بناتے رہے اور انہیں کے ذریعہ دنیا کو کھاتے رہے اور لوگ تو بہر حال بادشاہوں اوردنیا داروں ہی کے ساتھ رہتے ہیں۔علاوہ ان کے جنہیں اللہ اس شر سے محفوظ کرلے۔یہ چار میں سے ایک قسم ہے۔

دوسرا شخص وہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) سے کوئی بات سنی ہے لیکن اسے صحیح طریقہ سے محفوظ نہیں کرس کا ہے اوراس میں غلطی کا شکار ہوگیا ہے۔جان بوجھ کرجھوٹ نہیں بولتا ہے۔جوکچھ اس کے ہاتھ میں ہے اسی کی روایت کرتا ہے اوراسی پرعمل کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ میں نے رسول اکرم (ص) سے سنا ہے حالانکہ اگر مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے تو ہرگز اس کی بات قبول نہ کریں گے بلکہ اگر اسے خودبھی معلوم ہوجائے کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے تو ترک کردے گا اور نقل نہیں کرے گا۔

(۱)حضرت نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ منافقین کا کاروبار ہمیشہ حکام کی نالائقی سے چلتا ہے ورنہ حکام دیانتدار ہوں اورایسی روایات کے خریدار نہ بنیں تو منافقین کا کاروبار ایک دن میں ختم ہو سکتا ہے۔

۴۲۶

أهل الشبهة

ورَجُلٌ ثَالِثٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شَيْئاً - يَأْمُرُ بِه ثُمَّ إِنَّه نَهَى عَنْه وهُوَ لَا يَعْلَمُ - أَوْ سَمِعَه يَنْهَى عَنْ شَيْءٍ ثُمَّ أَمَرَ بِه وهُوَ لَا يَعْلَمُ - فَحَفِظَ الْمَنْسُوخَ ولَمْ يَحْفَظِ النَّاسِخَ - فَلَوْ عَلِمَ أَنَّه مَنْسُوخٌ لَرَفَضَه - ولَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ إِذْ سَمِعُوه مِنْه أَنَّه مَنْسُوخٌ لَرَفَضُوه –

الصادقون الحافظون

وآخَرُ رَابِعٌ - لَمْ يَكْذِبْ عَلَى اللَّه ولَا عَلَى رَسُولِه - مُبْغِضٌ لِلْكَذِبِ خَوْفاً مِنَ اللَّه وتَعْظِيماً لِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ولَمْ يَهِمْ بَلْ حَفِظَ مَا سَمِعَ عَلَى وَجْهِه - فَجَاءَ بِه عَلَى مَا سَمِعَه - لَمْ يَزِدْ فِيه ولَمْ يَنْقُصْ مِنْه - فَهُوَ حَفِظَ النَّاسِخَ فَعَمِلَ بِه - وحَفِظَ الْمَنْسُوخَ فَجَنَّبَ عَنْه - وعَرَفَ الْخَاصَّ والْعَامَّ والْمُحْكَمَ والْمُتَشَابِه - فَوَضَعَ كُلَّ شَيْءٍ مَوْضِعَه.

وقَدْ كَانَ يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الْكَلَامُ - لَه وَجْهَانِ فَكَلَامٌ  

يَسْمَعُوا - وكَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُه عَنْه وحَفِظْتُه - فَهَذِه وُجُوه مَا عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلَافِهِمْ وعِلَلِهِمْ فِي رِوَايَاتِهِمْ.

تیسری قسم اس شخص کی ہے جس نے رسول اکرم (ص) کو حکم دیتے سنا ہے لیکن حضرت نے جب منع کیا تو اسے اطلاع نہیں ہو سکی یا حضرت کو منع کرتے دیکھا ہے پھر جب آپ نے دوبارہ حکم دیا تو اطلاع نہ ہو سکی' اس شخص نے منسوخ کو محفوظ کرلیا ہے اور ناسخ کو محفوظ نہیں کر سکا ہے کہاگر اسے معلوم ہو جائے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے تو اسے ترک کردے گا اور اگرمسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ اس نے منسوخ کی روایت کی ہے تو وہ بھی اسے نظر اندازکردیں گے۔

چوتھی قسم اس شخص کی ہے جس نے خدا اور رسول (ص) کے خلاف غلط بیانی سے کام نہیں لیا ہے اور وہ خوف خدا اورتعظیم رسول خدا کی بنیاد پر جھوٹ کا دشمن بھی ہے اور اس سے بھول چوک بھی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے ویسے ہی محفوظ کر رکھا ہے نہ اس میں کسی طرح کااضافہ کیا ہے اور نہ کمی کی ہے۔ناسخ ہی کو محفوظ کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور منسوخ کو یاد رکھا ہے۔لیکن اس سے اجتناب کیا ہے ۔خاص و عام اورمحکم و متشابہ کوبھی پہچانتا ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہےلیکن مشکل یہ ہےکہ کبھی کبھی رسول اکرم (ص) کے ارشادات کے دورخ(۱) ہوتے تھے ۔بعض کا تعلق

(۱)جس طرح ایک انسان کی زندگی کے مختلف رخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک رخ دوسرے سے بالکل اجنبی ہوتا ہے کہ بے خبر انسان اسے دو زندگیوں پر محمول کردیتا ہے۔اسی طرح معاشرہ اور روایات کے بھی مختلف رخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک رخ دوسرے سے بالکل اجنبی اور بیگانہ ہوتا ہے اور ہر رخ کے لئے الگ مفہوم ہوتا ہے اورہر رخ کے الگ احکام ہوتے ہیں۔اب اگر کوئی شخص اس حقیقت سے باخبر نہیں ہوتا ہے تو وہ ایک ہی رخ یا ایک ہی روایت کو لے اڑتا ہے اور وثوق و اعتبارکے ساتھ یہ بین کرتا ہے کہ میں نے خود رسول اکرم (ص) سے سنا ہے اوراسے یہ خبر نہیں ہوتی ہے کہ زندگی کا کوئی دوسرا رخ بھی ہے۔یا اس بیان کا کوئی اور بھی پہلو ہے جو قبل یا بعد دوسرے مناسب موقع پر بیان ہوچکا ہے یا بیان ہونے والا ہے اور اس طرح اشتباہات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اورحقیقت روایات میں گم ہو جاتی ہے حالانکہ دیدہ و دانستہ کوئی گناہ یا اشتباہ نہیں ہوتا ہے ۔

۴۲۷

خَاصٌّ وكَلَامٌ عَامٌّ - فَيَسْمَعُه مَنْ لَا يَعْرِفُ مَا عَنَى اللَّه سُبْحَانَه بِه - ولَا مَا عَنَى رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَيَحْمِلُه السَّامِعُ ويُوَجِّهُه عَلَى غَيْرِ مَعْرِفَةٍ بِمَعْنَاه - ومَا قُصِدَ بِه ومَا خَرَجَ مِنْ أَجْلِه - ولَيْسَ كُلُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنْ كَانَ يَسْأَلُه ويَسْتَفْهِمُه - حَتَّى إِنْ كَانُوا لَيُحِبُّونَ أَنْ يَجِيءَ الأَعْرَابِيُّ والطَّارِئُ - فَيَسْأَلَهعليه‌السلام حَتَّى

فَيَسْأَلَه عليه السلام حَتَّى يَسْمَعُوا - وكَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُه عَنْه وحَفِظْتُه - فَهَذِه وُجُوه مَا عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلَافِهِمْ وعِلَلِهِمْ فِي رِوَايَاتِهِمْ

(۲۱۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في عجيب صنعة الكون

وكَانَ مِنِ اقْتِدَارِ جَبَرُوتِه - وبَدِيعِ لَطَائِفِ صَنْعَتِه - أَنْ جَعَلَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ الزَّاخِرِ - الْمُتَرَاكِمِ الْمُتَقَاصِفِ يَبَساً جَامِداً

خاص افراد سے ہوتاتھا اور بعض کلمات عام ہوتے تھے اور ان کلمات کو وہشخص بھی سن لیتا تھا جسے یہ نہیں معلوم تھا کہ خدا و رسول کا مقصد کیا ہے اور اسے سن کر اس کی ایک توجیہ کرلیتا تھا بغیر اس نکتہ کا ادراک کئے ہوئے۔کہ اس کلام کا مفہوم اور مقصد کیا ہے اوریہ کس بنیاد پر صادر ہوا ہے۔اور تمام اصحاب رسول اکرم (ص) میں یہ ہمت بھی نہیں تھی کہ آپ سے سوال کرسکیں اورباقاعدہ تحقیق کرسکیں بلکہ اس بات کا انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی صحرائی یا پردیسی آکر آپ سے سوال کرے تو وہ بھی سن لیں ۔یہ صرف میں تھا کہ میرے سامنے سے کوئی ایسی بات نہیں گزرتی تھی مگر یہ کہ میں دریافت بھی کرلیتا تھا اور محفوظ بھی کرلیتا تھا۔

یہ ہیں لوگوں کے درمیان اختلافات کے اسباب اور روایات میں تضاد کے عوامل و محرکات۔

(۲۱۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حیرت انگیز تخلیق کائنات کے بارے میں )

یہ پروردگار کے اقتدار کی طاقت اور اس کی صناعی کی حیرت انگیز لطافت ہے کہ اس نے گہرے اور متلاطم سمندر(۱) میں ایک خشک اور ٹھوس زمین کو پیدا

(۱) کتنا حسین نظام کائنات ہے کہ متلاطم پانی پر زمین قائم ہے اور زمین کے اپور ہوا کا دبائو قائم ہے اور انسان اس تین منزلہ عمارت میں درمیانی طبقہ پر اس طرح سکونت پذیر ہے کہ اس کے زیر قدم زمین اور پانی ہے اوراس کے بالائے سر فضا اور ہوا ہے۔ہوا اس کی زندگی کے لئے سانسیں فراہم کر رہی ہے اور زمین اس کے سکون و قرار کا انتظام کرکے اسے باقی رکھے ہوئے ہیں۔پانی اس کی زندگی کا قوام ہے اور سمندراس کی تازگی کا ذریعہ کوئی ذرۂ کائنات اس کی خدمت سے غافل نہیں ہے اورکوئی عنصراپنے سے اشرف مخلوق کی اطاعت سے منحرف نہیں ہے۔تاکہ وہ بھی اپنی اشرفیت کی آبرو کاتحفظ کرے اور ساری کائنات سے بالاتر خالق ومالک کی اطاعت و عبادت میں ہمہ تن مصروف رہے۔

۴۲۸

ثُمَّ فَطَرَ مِنْه أَطْبَاقاً - فَفَتَقَهَا سَبْعَ سَمَاوَاتٍ بَعْدَ ارْتِتَاقِهَا فَاسْتَمْسَكَتْ بِأَمْرِه - وقَامَتْ عَلَى حَدِّه وأَرْسَى أَرْضاً يَحْمِلُهَا الأَخْضَرُ الْمُثْعَنْجِرُ - والْقَمْقَامُ الْمُسَخَّرُ - قَدْ ذَلَّ لأَمْرِه وأَذْعَنَ لِهَيْبَتِه - ووَقَفَ الْجَارِي مِنْه لِخَشْيَتِه - وجَبَلَ جَلَامِيدَهَا ونُشُوزَ مُتُونِهَا وأَطْوَادِهَا - فَأَرْسَاهَا فِي مَرَاسِيهَا - وأَلْزَمَهَا قَرَارَاتِهَا - فَمَضَتْ رُءُوسُهَا فِي الْهَوَاءِ - ورَسَتْ أُصُولُهَا فِي الْمَاءِ - فَأَنْهَدَ جِبَالَهَا عَنْ سُهُولِهَا - وأَسَاخَ قَوَاعِدَهَا فِي مُتُونِ أَقْطَارِهَا ومَوَاضِعِ أَنْصَابِهَا - فَأَشْهَقَ قِلَالَهَا وأَطَالَ أَنْشَازَهَا - وجَعَلَهَا لِلأَرْضِ عِمَاداً وأَرَّزَهَا فِيهَا أَوْتَاداً - فَسَكَنَتْ عَلَى حَرَكَتِهَا مِنْ أَنْ تَمِيدَ بِأَهْلِهَا أَوْ تَسِيخَ بِحِمْلِهَا أَوْ تَزُولَ عَنْ مَوَاضِعِهَا - فَسُبْحَانَ مَنْ أَمْسَكَهَا بَعْدَ مَوَجَانِ مِيَاهِهَا - وأَجْمَدَهَا بَعْدَ رُطُوبَةِ أَكْنَافِهَا - فَجَعَلَهَا لِخَلْقِه مِهَاداً - وبَسَطَهَا لَهُمْ فِرَاشاً - فَوْقَ بَحْرٍ لُجِّيٍّ رَاكِدٍ

کردیا۔ اور پھربخارات کے طبقات بنا کر انہیں شگافتہ کرکے سات آسمانوں کی شکل دے دی جواس کے امر سے ٹھہرے ہوئے ہیں اوراپنی حدوں پرقائم ہیں ۔پھر زمین کو یوں گاڑ دیا کہ اسے سبز رنگ کا گہرا سمندر اٹھائے ہوئے ہے جو قانون الٰہی کے آگے مسخر ہے۔اس کے امر کا تابع ہے اور اس کی ہیبت کے سامنے سر نگوں ہے اور اس کے خوف سے اس کا بہائو تھما ہوا ہے۔

پھر پتھروں۔ٹیلوں اورپہاڑوں کو خلق کرکے انہیں ان کی جگہوں پر گاڑ دیا اور ان کی منزلوں پر مستقر کردیا کہ اب ان کی بلندیاں فضائوں سے گزرگئی ہیں اور ان کی جڑیں پانی کے اندر راسخ ہیں۔ان کے پہاڑوں کو ہموار زمینوں سے اونچا کیا اور ان کے ستونوں کواطراف کے پھیلائو اورمراکز کے ٹھہرائو میں نصب کردیا۔اب ان کی چوٹیاں بلند ہیں اور ان کی بلندیاں طویل ترین ہیں۔انہیں پہاڑوں کو زمین کا ستون قرار دیا ہے اور انہیں کو کیل بنا کر گاڑ دیا ہے جن کی وجہس ے زمین حرکت کے بعد ساکن ہوگئی اور نہ اہل زمین کو لے کر کسی رف جھک سکی اور نہ ان کے بوجھ سے دھنس سکی اورنہ اپنی جگہ سے ہٹ سکی۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے پانی کے تموج کے باوجود اسے روک رکھا ہے اور اطراف کی تری کے باوجود اسے خشک بنا رکھا ہے اور پھر اسے اپنی مخلوقات کے لئے گہوارہ اور فرش کی حیثیت دے دی ہے۔اس گہرے سمندر کے اوپر جوٹھہرا ہوا ہے اور بہتا نہیں ہے اور

۴۲۹

لَا يَجْرِي وقَائِمٍ لَا يَسْرِي - تُكَرْكِرُه الرِّيَاحُ الْعَوَاصِفُ - وتَمْخُضُه الْغَمَامُ الذَّوَارِفُ -( إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشى ) .

(۲۱۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

كان يستنهض بها أصحابه إلى جهاد أهل الشام في زمانه

اللَّهُمَّ أَيُّمَا عَبْدٍ مِنْ عِبَادِكَ - سَمِعَ مَقَالَتَنَا الْعَادِلَةَ غَيْرَ الْجَائِرَةِ - والْمُصْلِحَةَ غَيْرَ الْمُفْسِدَةِ فِي الدِّينِ والدُّنْيَا - فَأَبَى بَعْدَ سَمْعِه لَهَا إِلَّا النُّكُوصَ عَنْ نُصْرَتِكَ - والإِبْطَاءَ عَنْ إِعْزَازِ دِينِكَ - فَإِنَّا نَسْتَشْهِدُكَ عَلَيْه يَا أَكْبَرَ الشَّاهِدِينَ شَهَادَةً - ونَسْتَشْهِدُ عَلَيْه جَمِيعَ مَا أَسْكَنْتَه أَرْضَكَ وسمَاوَاتِكَ - ثُمَّ أَنْتَ بَعْدُ الْمُغْنِي عَنْ نَصْرِه - والآخِذُ لَه بِذَنْبِه.

(۲۱۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في تمجيد اللَّه وتعظيمه

الْحَمْدُ لِلَّه الْعَلِيِّ عَنْ شَبَه الْمَخْلُوقِينَ - الْغَالِبِ لِمَقَالِ الْوَاصِفِينَ -

ایک مقام پر قائم ہے کسی طرف جاتا نہیں ہے حالانکہ اسے تیز و تند ہوائیں حرکت دے رہی ہیں اور برسنے والے بادل اسے متھ کراس سے پانی کھینچتے رہتے ہیں۔ ''ان تمام باتوں میں عبرت کا سامان ہے ان لوگوں کے لے جن کا اندر خوف خدا پایا جاتا ہے ۔''

(۲۱۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب کو اہل شام سے جہاد کرنے پر آمادہ کیا ہے )

خدایا تیرے جس بندہ نے بھی میری عادلانہ گفتگو (جس میں کسی طرح کا ظلم نہیں ہے ) اورمصلحانہ نصیحت (جس میں کسی طرح کافساد نہیں ہے ) کو سننے کے بعد بھی تیرے دین کی نصرت سے انحراف کیا اور تیرے دین کے اعزاز میں کوتاہی کی ہے۔میں اس کے خلاف تجھے گواہ قرار دے رہا ہوں کہ تجھ سے بالاترکوئی گواہ نہیں ہے اور پھرتیرے تمام سکان ارض و سما کو گواہ قراردے رہا ہوں۔اس کے بعد تو ہر ایک کی مدد سے بے نیاز بھی ہے اور ہر ایک کے گناہ کا مواخذہ کرنے والا بھی ہے۔

(۲۱۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(پروردگار کی تمجید اوراس کی تعظیم کے بارے میں)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو مخلوقات کی مشابہت سے بلند تر اور توصیف کرنے والوں کی

۴۳۰

الظَّاهِرِ بِعَجَائِبِ تَدْبِيرِه لِلنَّاظِرِينَ - والْبَاطِنِ بِجَلَالِ عِزَّتِه عَنْ فِكْرِ الْمُتَوَهِّمِينَ - الْعَالِمِ بِلَا اكْتِسَابٍ ولَا ازْدِيَادٍ - ولَا عِلْمٍ مُسْتَفَادٍ - الْمُقَدِّرِ لِجَمِيعِ الأُمُورِ بِلَا رَوِيَّةٍ ولَا ضَمِيرٍ - الَّذِي لَا تَغْشَاه الظُّلَمُ ولَا يَسْتَضِيءُ بِالأَنْوَارِ - ولَا يَرْهَقُه لَيْلٌ ولَا يَجْرِي عَلَيْه نَهَارٌ - لَيْسَ إِدْرَاكُه بِالإِبْصَارِ ولَا عِلْمُه بِالإِخْبَارِ.

ومنها في ذكر النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

أَرْسَلَه بِالضِّيَاءِ وقَدَّمَه فِي الِاصْطِفَاءِ - فَرَتَقَ بِه الْمَفَاتِقَ وسَاوَرَ بِه الْمُغَالِبَ - وذَلَّلَ بِه الصُّعُوبَةَ وسَهَّلَ بِه الْحُزُونَةَ - حَتَّى سَرَّحَ الضَّلَالَ عَنْ يَمِينٍ وشِمَالٍ.

(۲۱۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يصف جوهر الرسول، ويصف العلماء، ويعظ بالتقوى

وأَشْهَدُ أَنَّه عَدْلٌ عَدَلَ وحَكَمٌ فَصَلَ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً

گفتگو سے بالاتر ہے وہ اپنی تدبیر کے عجائب کے ذریعہ دیکھنے والوں کے سامنے بھی ہے اور اپنے جلال و عزت کی بناپر مفکرین کی فکر سے پوشیدہ بھی ہے بغیر کسی تحصیل اور اضافہ کے عالم ہے اور اس کاعلم کسی استفادہ کا نتیجہ بھی نہیں ہے۔تمام امور کاتقدیر ساز ہے اور اس سلسلہ میں کسی فکر اورسوچ بچار کامحتاج بھی نہیں ہے۔تاریکیاں اسے ڈھانپ نہیں سکتی ہیں اور روشنیوں سے وہ کسی طرح کا کسب نور نہیں کرتا ہے۔نہ رات اس پر غالب آسکتی ہے اور نہ دن اس کے اوپر سے گزر سکتا ہے ۔اس کا ادراک آنکھوں کا محتاج نہیں ہے اور اس کاعلم اطلاعات کا نتیجہ نہیں ہے۔

اس نے پیغمبر (ص) کوایک نوردے کربھیجا ہے اورانہیں سب سے پہلے منتخب قرار دیا ہے۔ان کے ذریعہ پراگندیوں کو جمع کیا ہے اور غلبہ حاصل کرنے والوں کو قابو میں رکھا ہے۔دشواریوں کوآسان کیا ہے اورنا ہمواریوں کو ہموار بنایا ہے۔یہاں تک کہ گمراہیوں کو داہنے بائیں ہر طرف سے دور کردیا ہے۔

(۲۱۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں رسول اکرم (ص) کی تعریف علماء کی توصیف اور تقویٰ کی نصیحت کا ذکر کیا گیا ہے )

میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ پروردگار ایسا عادل ہے جو عدل ہی سے کام لیتا ہے۔اور ایساحاکم ہے جو حق و باطل کو جدا کر دیتا ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد (ص)

۴۳۱

عَبْدُه ورَسُولُه وسَيِّدُ عِبَادِه - كُلَّمَا نَسَخَ اللَّه الْخَلْقَ فِرْقَتَيْنِ جَعَلَه فِي خَيْرِهِمَا - لَمْ يُسْهِمْ فِيه عَاهِرٌ ولَا ضَرَبَ فِيه فَاجِرٌ.

أَلَا وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدْ جَعَلَ لِلْخَيْرِ أَهْلًا - ولِلْحَقِّ دَعَائِمَ ولِلطَّاعَةِ - عِصَماً - وإِنَّ لَكُمْ عِنْدَ كُلِّ طَاعَةٍ عَوْناً مِنَ اللَّه سُبْحَانَه – يَقُولُ عَلَى الأَلْسِنَةِ ويُثَبِّتُ الأَفْئِدَةَ - فِيه كِفَاءٌ لِمُكْتَفٍ وشِفَاءٌ لِمُشْتَفٍ –

صفة العلماء

واعْلَمُوا أَنَّ عِبَادَ اللَّه الْمُسْتَحْفَظِينَ عِلْمَه - يَصُونُونَ مَصُونَه ويُفَجِّرُونَ عُيُونَه - يَتَوَاصَلُونَ بِالْوِلَايَةِ - ويَتَلَاقَوْنَ بِالْمَحَبَّةِ ويَتَسَاقَوْنَ بِكَأْسٍ رَوِيَّةٍ - ويَصْدُرُونَ بِرِيَّةٍ

اس کے بندہ اور رسول ہیں اور پھر تمام بندوں کے سرداربھی ہیں۔جب بھی پروردگار نے مخلوقات کا دو حصوں میں تقسیم کیا ہے انہیں(۱) بہترین حصہ ہی میں رکھا ہے۔ان کی تخلیق میں نہ کسی بد کار کا کوئی حصہ ہے اور نہ کسی فاسق و فاجر کا کوئی دخل ہے ۔

یاد رکھو کہ پروردگار نے ہ خیر کے لئے اہل قرار دئیے ہیں اور ہر حق کے لئے ستون اور ہر اطاعت کے لئے وسیلہ حفاظت قرار دیا ہے اور تمہاے لئے ہر اطاعت کے موقع پر خدا کی طرف سے ایک مدد گار کا انتظام رہتا ہے جو زبانوں پر بولتا ہے اوردلوں کو ثبا ت عنایت کرتا ہے۔اس کے وجود میں ہر اکتفا کرنے والے کے لئے کفایت ہے اور ہر طلب گار صحت کے لئے شفا و عافیت ہے۔

یاد رکھو اللہ کے وہ بندہ(۲) جنہیں اس نے اپنے عل کا محافظ بنایا ہے وہ اس کا تحفظ بھی کرتے ہیں اور اس کے چشموں کو جاری بھی کرتے رہتے ہیں۔آپس میں محبت سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور چاہت کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں۔سیراب کرنے والے جاموں سے مل کر سیراب ہوتے ہیں اور پھر سیرو سیراب ہو کر ہی نکلتے

(۱)صحیح مسلم کتاب الفضائل میں سرکار دو عالم (ص) کا یہ ارشاد درج ہے کہ اللہ نے اولاد اسماعیل میں کنانہ کا انتخاب کی ہے اور پھر کنانہ میں قریش کو منتخب قراردیا ہے۔قریش میں بنی ہاشم منتخب ہیں اوربنی ہاشم میں میں ۔لہٰذا دنیاکی کسی شخصیت کا سرکار دوعالم (ص) اوراہل بیت پر قیاس نہیں کیاجاسکتا ہے۔

(۲)دنیا میں صاحبان علم و فضل بے شمار ہیں لیکن وہ اہل علم جنہیں مالک نے اپنے علم اور اپنے دین کامحافظ بنایا ہے وہ محدود ہی ہیں جن کی صفت یہ ہے کہ علم کاتحفظ بھی کرتے ہیں اوردوسروں کو سیراب بھی کرتے رہتے ہیں ۔خودبھی سیراب رہتے ہیں اور دوسروں کی تشنگی کابھی علاج کرتے رہتے ہیں ۔ان کے علم میں جہالت اور ''لاادری '' کا گزر نہیں ہے اور وہ کسی سائل کومحروم نہیں کرتے ہیں۔

۴۳۲

لَا تَشُوبُهُمُ الرِّيبَةُ - ولَا تُسْرِعُ فِيهِمُ الْغِيبَةُ - عَلَى ذَلِكَ عَقَدَ خَلْقَهُمْ وأَخْلَاقَهُمْ - فَعَلَيْه يَتَحَابُّونَ وبِه يَتَوَاصَلُونَ - فَكَانُوا كَتَفَاضُلِ الْبَذْرِ يُنْتَقَى فَيُؤْخَذُ مِنْه ويُلْقَى - قَدْ مَيَّزَه التَّخْلِيصُ وهَذَّبَه التَّمْحِيصُ -

العظة بالتقوى

فَلْيَقْبَلِ امْرُؤٌ كَرَامَةً بِقَبُولِهَا - ولْيَحْذَرْ قَارِعَةً قَبْلَ حُلُولِهَا - ولْيَنْظُرِ امْرُؤٌ فِي قَصِيرِ أَيَّامِه وقَلِيلِ مُقَامِه فِي مَنْزِلٍ - حَتَّى يَسْتَبْدِلَ بِه مَنْزِلًا - فَلْيَصْنَعْ لِمُتَحَوَّلِه ومَعَارِفِ مُنْتَقَلِه - فَطُوبَى لِذِي قَلْبٍ سَلِيمٍ - أَطَاعَ مَنْ يَهْدِيه وتَجَنَّبَ مَنْ يُرْدِيه - وأَصَابَ سَبِيلَ السَّلَامَةِ بِبَصَرِ مَنْ بَصَّرَه - وطَاعَةِ هَادٍ أَمَرَه وبَادَرَ الْهُدَى قَبْلَ أَنْ تُغْلَقَ أَبْوَابُه - وتُقْطَعَ أَسْبَابُه واسْتَفْتَحَ التَّوْبَةَ وأَمَاطَ الْحَوْبَةَ - فَقَدْ أُقِيمَ عَلَى الطَّرِيقِ وهُدِيَ نَهْجَ السَّبِيلِ.

ہیں۔ان کے اعمال میں ریب کی آمیزش نہیں ہے اور ان کے معاشرہ میں غیبت کا گزر نہیں ہے۔اسی انداز سے مالک نے ان کی تخلیق کی ہے اور ان کے اخلاق اقرار دئیے ہیں اور اسی بنیاد پر دہآپس میں محبت بھی کرتے ہیں اورملتے بھی رہتے ہیں۔ان کی مثال ان دانوں کی ہے جن کو اس طرح چنا جاتا ہے کہ اچھے دانوں کو لے لیا جاتا ہے اورخراب کو پھینک دیا جاتا ہے۔انہیں اسی صفائی نے ممتاز بنادیا ہے اور انہیں اسی پر کھ نے صاف ستھراقرار دے دیا ہے۔

اب ہر شخص کو چاہیے کہ انہیں صفات کوقبول کرکے کرامت کو قبول کرے اور قیامت کے آنے سے پہلے ہوشیار ہوجائے۔اپنے مختصر سے دنوں اورتھوڑے سے قیام کے بارے میں غور کرے کہ اس منزل کو دوسری منزل میں بہرحال بدل جانا ہے۔اب اس کا فرض ہے کہ منزل اور جانی پہچانی جائے باز گشت کے بارے میں عمل کرے۔

خوشا بحال ان قلب سلیم والوں کے لئے جو رہنمائی کی اطاعت کریں اور ہلاک ہونے والوں سے پرہیز کریں۔کوئی راستہ دکھادے تو دیکھ لیں اور واقعی راہنما امر کرے تو اس کی اطاعت کریں۔ہدایت کی طرف سبقت کریں قبل اس کے کہ اس کے دروازے بند ہو جائیں۔اور اس کے اسباب منقطع ہو جائیں۔توبہ کا دروازہ کھول لیں اور گناہوں کے داغوں کودھو ڈالیں یہی و ہ لوگ ہیں جنہیں سیدھے راستہ پر کھڑا کردیا گیا ہے اور انہیں واضح راستہ کی ہدایت مل گئی۔

۴۳۳

(۲۱۵)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

كان يدعو به كثيرا

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ يُصْبِحْ بِي مَيِّتاً ولَا سَقِيماً - ولَا مَضْرُوباً عَلَى عُرُوقِي بِسُوءٍ - ولَا مَأْخُوذاً بِأَسْوَإِ عَمَلِي ولَا مَقْطُوعاً دَابِرِي - ولَا مُرْتَدّاً عَنْ دِينِي ولَا مُنْكِراً لِرَبِّي - ولَا مُسْتَوْحِشاً مِنْ إِيمَانِي ولَا مُلْتَبِساً عَقْلِي - ولَا مُعَذَّباً بِعَذَابِ الأُمَمِ مِنْ قَبْلِي - أَصْبَحْتُ عَبْداً مَمْلُوكاً ظَالِماً لِنَفْسِي - لَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ ولَا حُجَّةَ لِي - ولَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ إِلَّا مَا أَعْطَيْتَنِي - ولَا أَتَّقِيَ إِلَّا مَا وَقَيْتَنِي!

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَفْتَقِرَ فِي غِنَاكَ - أَوْ أَضِلَّ فِي هُدَاكَ أَوْ أُضَامَ فِي سُلْطَانِكَ - أَوْ أُضْطَهَدَ والأَمْرُ لَكَ!

اللَّهُمَّ اجْعَلْ نَفْسِي أَوَّلَ كَرِيمَةٍ تَنْتَزِعُهَا مِنْ كَرَائِمِي - وأَوَّلَ وَدِيعَةٍ تَرْتَجِعُهَا مِنْ وَدَائِعِ نِعَمِكَ عِنْدِي!

اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذْهَبَ عَنْ قَوْلِكَ -

(۲۱۵)

آپ کی دعا کا ایک حصہ

( جس کی برابر تکرار فرمایا کرتے تھے )

خدا شکر ہے کہ اسنے صبح کے ہنگام نہ مردہ بنایا ہے اورنہ بیمار ۔نہ کسی رگ پرمرض کاحملہ ہوا ہے اورنہ کسی بد عملی کا مواخذہ کیا گیا ہے۔نہ میری نسل کو منقطع کیا گیا ہے اور نہ اپنے دین میں ارتداد کاشکار ہوا ہوں۔نہ اپنے دین سے مرتد ہوں اور نہ اپنے رب کامنکر۔نہ اپنے ایمان سے متوحش اور نہ اپنی عقل کا مخبوط اور نہ مجھ پر گذشتہ امتوں جیسا کوء عذاب ہوا ہے۔میں نے اس عالم میں صبح کی ہے کہ میں ایک بندۂ مملوک ہوں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔خدایا! تیری حجت مجھ پر تمام ہے اور میری کوئی حجت نہیں ہے۔تو جو دیدے اس سے زیادہ لے نہیں سکتا اور جس چیز سے تونہ بچائے اس سے بچ نہیں سکتا ۔

خدا یا! میں اس امر سے پناہ چاہتا ہوں کہ تیریر دولت میں رہ کر فقیر ہوجائوں یا تیری ہدایت کے باوجود گمراہ ہو جائوں یا تیریر سلطنت کے باوجود ستایا جائوں یا تیرے ہاتھ میں سارے اختیارات ہونے کے باوجود مجھ پر دبائو ڈالا جائے ۔

خدایا! میری جن نفیس چیزوں کو مجھ سے واپس لینا اور اپنی جن امانتوں کو مجھ سے پلٹانا۔ان میں سب سے پہلی چیز میری روح کو قرار دینا۔

خدایا! میں اس امرسے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں تیرے ارشادات سے بہک جائوں یا تیرے دین میں

۴۳۴

أَوْ أَنْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِكَ - أَوْ تَتَابَعَ بِنَا أَهْوَاؤُنَا دُونَ الْهُدَى الَّذِي جَاءَ مِنْ عِنْدِكَ!

(۲۱۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها بصفين

أَمَّا بَعْدُ - فَقَدْ جَعَلَ اللَّه سُبْحَانَه لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً بِوِلَايَةِ أَمْرِكُمْ - ولَكُمْ عَلَيَّ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي لِي عَلَيْكُمْ - فَالْحَقُّ أَوْسَعُ الأَشْيَاءِ فِي التَّوَاصُفِ - وأَضْيَقُهَا فِي التَّنَاصُفِ - لَا يَجْرِي لأَحَدٍ إِلَّا جَرَى عَلَيْه - ولَا يَجْرِي عَلَيْه إِلَّا جَرَى لَه - ولَوْ كَانَ لأَحَدٍ أَنْ يَجْرِيَ لَه ولَا يَجْرِيَ عَلَيْه - لَكَانَ ذَلِكَ خَالِصاً لِلَّه سُبْحَانَه دُونَ خَلْقِه - لِقُدْرَتِه عَلَى عِبَادِه - ولِعَدْلِه فِي كُلِّ مَا جَرَتْ عَلَيْه صُرُوفُ قَضَائِه - ولَكِنَّه سُبْحَانَه جَعَلَ حَقَّه عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يُطِيعُوه - وجَعَلَ جَزَاءَهُمْ عَلَيْه مُضَاعَفَةَ الثَّوَابِ - تَفَضُّلًا مِنْه وتَوَسُّعاً بِمَا هُوَ مِنَ الْمَزِيدِ أَهْلُه.

حق الوالي وحق الرعية

ثُمَّ جَعَلَ سُبْحَانَه مِنْ حُقُوقِه حُقُوقاً - افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلَى بَعْضٍ - فَجَعَلَهَا تَتَكَافَأُ فِي وُجُوهِهَا - ويُوجِبُ بَعْضُهَا بَعْضاً - ولَا يُسْتَوْجَبُ بَعْضُهَا إِلَّا بِبَعْضٍ -.

کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائوں یا تیریر آئی ہوئی ہدایتوں کے مقابلہ میں مجھ پرخواہشات کا غلبہ ہو جائے ۔

(۲۱۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسے مقام صفین میں ارشاد فرمایا)

اما بعد ! پروردگار نے ولی امر ہونے کی بنا پر تم پر میرا ایک حق قرار دیا ہے اور تمہارا بھی میرے اوپر ایک طرح کا حق ہے اور حق مدح سرائی کے اعتبار سے تو بہت وسعت رکھتا ہے لیکن انصاف کے اعتبار سے بہت تنگ ہے۔یہ کسی کا اس وقت تک ساتھ نہیں دیتا ہے جب تک اس کے ذمہ کوئی حق ثابت نہ کردے اورکسی کے خلاف فیصلہ نہیں کرتا ہے جب تک اسے کوئی حق نہ دلوادے۔اگر کوئی ہستی ایسی ممکن ہے جس کا دوسروں پر حق ہو اوراس پر کسی کا حق نہ ہو تو وہ صرف پروردگار کی ہستی ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اوراس کے تمام فیصلے عدل و انصاف پرمبنی ہیں لیکن اس نے بھی جب بندوں پر اپنا حق اطاعت قراردیا ہے تو اپنے فضل و کرم اوراپنے اس احسان کی وسعت کی بنا پر جس کا وہ اہل ہے ان کا یہ حق قرار دے دیا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ ثواب دے دیا جا ئے۔

پروردگار کے مقرر کئے ہوئے حقوق میں سے وہ تمام حقوق ہیں جو اس نے ایک دوسرے پر قرار دئیے ہیں اور ان میں مساوات بھی قراردیہے کہ ایک حق سے دوسرا حق پیدا ہوتا ہے اور ایک حق نہیں پیدا ہوتا ہے جب تک دوسرا حق نہ پیدا ہو جائے ۔

۴۳۵

وأَعْظَمُ مَا افْتَرَضَ سُبْحَانَه مِنْ تِلْكَ الْحُقُوقِ - حَقُّ الْوَالِي عَلَى الرَّعِيَّةِ وحَقُّ الرَّعِيَّةِ عَلَى الْوَالِي - فَرِيضَةٌ فَرَضَهَا اللَّه سُبْحَانَه لِكُلٍّ عَلَى كُلٍّ - فَجَعَلَهَا نِظَاماً لأُلْفَتِهِمْ وعِزّاً لِدِينِهِمْ - فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ - ولَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ إِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِيَّةِ - فَإِذَا أَدَّتْ الرَّعِيَّةُ إِلَى الْوَالِي حَقَّه - وأَدَّى الْوَالِي إِلَيْهَا حَقَّهَا - عَزَّ الْحَقُّ بَيْنَهُمْ وقَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّينِ - واعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ وجَرَتْ عَلَى أَذْلَالِهَا السُّنَنُ - فَصَلَحَ بِذَلِكَ الزَّمَانُ - وطُمِعَ فِي بَقَاءِ الدَّوْلَةِ ويَئِسَتْ مَطَامِعُ الأَعْدَاءِ -. وإِذَا غَلَبَتِ الرَّعِيَّةُ وَالِيَهَا - أَوْ أَجْحَفَ الْوَالِي بِرَعِيَّتِه - اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ - وظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ وكَثُرَ الإِدْغَالُ فِي الدِّينِ - وتُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ فَعُمِلَ بِالْهَوَى - وعُطِّلَتِ الأَحْكَامُ وكَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوسِ - فَلَا يُسْتَوْحَشُ لِعَظِيمِ حَقٍّ عُطِّلَ - ولَا لِعَظِيمِ بَاطِلٍ فُعِلَ - فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الأَبْرَارُ وتَعِزُّ الأَشْرَارُ - وتَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللَّه سُبْحَانَه عِنْدَ الْعِبَادِ -. فَعَلَيْكُمْ بِالتَّنَاصُحِ فِي ذَلِكَ وحُسْنِ التَّعَاوُنِ عَلَيْه - فَلَيْسَ أَحَدٌ وإِنِ اشْتَدَّ عَلَى رِضَا اللَّه حِرْصُه - وطَالَ فِي الْعَمَلِ اجْتِهَادُه  

اوران تمام حقوق میں سب سے عظیم ترین حق رعایا پروالی کا حق اور والی پر رعایا کا حق ہے جسے پروردگار نے ایک کو دوسرے کے لئے قراردیا ہے اور اسی سے ان کی باہمی الفتوں کو منظم کیاہے اور ان کے دین کو عزت دی ہے ۔رعایا کی اصلاح ممکن نہیں ہے جب تک والی صالح نہ ہو اور والی صالح نہیںرہ سکتے ہیں جب تک رعایا صالح نہ ہو۔اب اگر رعایا نے والی کو اس کا حق انصاف کے نشانات بر قرار رہیں گے اور پیغمبر اسلام (ص) کی سنتیں اپنے ڈھرے پرچل پڑیں گی اور زمانہ ایسا صالح ہو جائے گا کہ بقاء حکومت کی امید بھی کی جائے گی اور دشمنوں کی تمنائیںبھی ناکام ہو جائیں گی۔لیکن اگر رعایا حاکم پر غالب آگئی یا حاکم نے رعایا پر زیادتی کی تو کلمات میں اختلاف ہو جائے گا، ظلم کے نشانات ظاہر ہو جائیں گے۔دین میں مکاری بڑھ جائے گی۔سنتوں کے راستے نظر انداز ہو جائیں گے۔خواہشات پر عمل ہوگا۔احکام معطل ہو جائیں گے اور نفوس کی بیماریاں بڑھ جائیں گی۔نہ بڑے سے بڑے حق کے معطل ہوجانے سے کوئی وحشت ہوگی اور نہ بڑے سے بڑے باطل پر عملدرآمدسے کوئی پریشانی ہوگی۔

ایسے موقع پر نیک لوگ ذلیل کردئیے جائیں گے اورشریر لوگوں کی عزت ہوگی اورب ندوں پر خدا کی عقوبتیں عظیم تر ہو جائیں گی لہٰذا خدارا آپس میں ایک دوسرے سے مخلص رہو اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اس لئے کہ تم میں کوئی شخص بھی کتنا ہی رضائے خدا کی طمع رکھتا ہواور کسی قدر بھی زحمت عمل برداشت کرے

۴۳۶

- بِبَالِغٍ حَقِيقَةَ مَا اللَّه سُبْحَانَه أَهْلُه مِنَ الطَّاعَةِ لَه - ولَكِنْ مِنْ وَاجِبِ حُقُوقِ اللَّه عَلَى عِبَادِه - النَّصِيحَةُ بِمَبْلَغِ جُهْدِهِمْ - والتَّعَاوُنُ عَلَى إِقَامَةِ الْحَقِّ بَيْنَهُمْ - ولَيْسَ امْرُؤٌ وإِنْ عَظُمَتْ فِي الْحَقِّ مَنْزِلَتُه - وتَقَدَّمَتْ فِي الدِّينِ فَضِيلَتُه - بِفَوْقِ أَنْ يُعَانَ عَلَى مَا حَمَّلَه اللَّه مِنْ حَقِّه - ولَا امْرُؤٌ وإِنْ صَغَّرَتْه النُّفُوسُ - واقْتَحَمَتْه الْعُيُونُ - بِدُونِ أَنْ يُعِينَ عَلَى ذَلِكَ أَوْ يُعَانَ عَلَيْه.

فَأَجَابَهعليه‌السلام رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِه - بِكَلَامٍ طَوِيلٍ يُكْثِرُ فِيه الثَّنَاءَ عَلَيْه - ويَذْكُرُ سَمْعَه وطَاعَتَه لَه فَقَالَعليه‌السلام

إِنَّ مِنْ حَقِّ مَنْ عَظُمَ جَلَالُ اللَّه سُبْحَانَه فِي نَفْسِه - وجَلَّ مَوْضِعُه مِنْ قَلْبِه - أَنْ يَصْغُرَ عِنْدَه لِعِظَمِ ذَلِكَ كُلُّ مَا سِوَاه - وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ كَانَ كَذَلِكَ لَمَنْ عَظُمَتْ نِعْمَةُ اللَّه عَلَيْه - ولَطُفَ إِحْسَانُه إِلَيْه فَإِنَّه لَمْ تَعْظُمْ نِعْمَةُ اللَّه عَلَى أَحَدٍ - إِلَّا ازْدَادَ حَقُّ اللَّه عَلَيْه عِظَماً - وإِنَّ مِنْ أَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ - أَنْ يُظَنَّ

اطاعت خدا کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہے جس کا وہ اہل ہے لیکن پھربھی مالک کا یہحق واجب اس کے بندوں کے ذمہ ہے کہ انپے امکان بھر نصیحت کرتے رہیں اور حق کے قیام میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں اس لئے کہ کوئی شخص بھی حق کی ذمہ داری ادا کرنے میں دوسرے کی امداد سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے چاہے حق میں اس کی منزلت کسی قدر عظیم کیوں نہ ہو اور دین میں اس کی فضیلت کو کسی قدر تقدم کیوں نہ حاصل ہو اور نہ کوئی شخص مدد کرنے یا مدد لینے کی ذمہ داری سے کمتر ہو سکتا ہے چاہے لوگوں کی نظر میں کسی قدر چھوٹا کیوں نہ ہو اور چاہے ان کی نگاہوں سے کسی قدر کیوں نہ گر جائے ۔ (اس گفتگو کے بعد آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے ایک طویل تقریرکی جس میں آپ کی مدح و ثنا کے ساتھ اطاعت کا وعدہ بھی کیا تو آپ نے فرمایا کہ )

یاد رکھو کہ جس کے دل میں جلال الٰہی کی عظمت اور جس کے نفس میں اس کے مقام الوہیت کی بلندی ہے اس کا حق یہ ہے کہ تمام کائنات اس کی نظرمیں چھوٹی ہوجائے اور ایسے لوگوں میں اس حقیقت کا سب سے بڑا اہل وہ ہے جس پر اس کی نعمتیں عظیم اور اس کے احسانات لطیف ہوں ۔اس لئے کہ کسی شخص پر اللہ کی نعمتیں عظیم نہیں ہوتیں مگر یہ کہ اس کا حق بھی عظیم تر ہو جاتا ہے اور احکام کے حالات میں اور مجھے یہ بات سخت نا گوار ہے کہ تم میں سے کسی کو یہ گمان پیدا ہو

۴۳۷

بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ - ويُوضَعَ أَمْرُهُمْ عَلَى الْكِبْرِ - وقَدْ كَرِهْتُ أَنْ يَكُونَ جَالَ فِي ظَنِّكُمْ أَنِّي أُحِبُّ الإِطْرَاءَ - واسْتِمَاعَ الثَّنَاءِ ولَسْتُ بِحَمْدِ اللَّه كَذَلِكَ - ولَوْ كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ يُقَالَ ذَلِكَ - لَتَرَكْتُه انْحِطَاطاً لِلَّه سُبْحَانَه - عَنْ تَنَاوُلِ مَا هُوَ أَحَقُّ بِه مِنَ الْعَظَمَةِ والْكِبْرِيَاءِ - ورُبَّمَا اسْتَحْلَى النَّاسُ الثَّنَاءَ بَعْدَ الْبَلَاءِ - فَلَا تُثْنُوا عَلَيَّ بِجَمِيلِ ثَنَاءٍ - لإِخْرَاجِي نَفْسِي إِلَى اللَّه سُبْحَانَه وإِلَيْكُمْ مِنَ التَّقِيَّةِ - فِي حُقُوقٍ لَمْ أَفْرُغْ مِنْ أَدَائِهَا وفَرَائِضَ لَا بُدَّ مِنْ إِمْضَائِهَا - فَلَا تُكَلِّمُونِي بِمَا تُكَلَّمُ بِه الْجَبَابِرَةُ - ولَا تَتَحَفَّظُوا مِنِّي بِمَا يُتَحَفَّظُ بِه عِنْدَ أَهْلِ الْبَادِرَةِ - ولَا تُخَالِطُونِي بِالْمُصَانَعَةِ ولَا تَظُنُّوا بِي اسْتِثْقَالًا فِي حَقٍّ قِيلَ لِي - ولَا الْتِمَاسَ إِعْظَامٍ لِنَفْسِي - فَإِنَّه مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ أَنْ يُقَالَ لَه - أَوِ الْعَدْلَ أَنْ يُعْرَضَ عَلَيْه كَانَ الْعَمَلُ بِهِمَا أَثْقَلَ عَلَيْه - فَلَا تَكُفُّوا عَنْ مَقَالَةٍ بِحَقٍّ أَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ - فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ - ولَا آمَنُ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِي - إِلَّا أَنْ يَكْفِيَ اللَّه مِنْ نَفْسِي مَا هُوَ أَمْلَكُ بِه مِنِّي -

جائے کہ میں روساء کو دوست رکھتا ہوں یا اپنی تعریف سننا چاہتا ہوں اور بحمد اللہ میں ایسا نہیں ہوں اور اگر میں ایی باتیں پسند بھی کرتا ہوتا تو بھی اسے نظرانداز کر دیتا کہ میں اپنے کواس سے کمتر سمجھتا ہوں کہ اس عظمت و کبریائی کا اہل بن جائوں جس کا پرودگار حقدار ہے۔یقینا بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اچھی کار کردگی پرتعریف کو دوست رکھتے ہیں لیکن خبردار تم لوگ میری اس بات پرتعریف نہ کرنا کہ میں نے تمہارے حقوق ادا کردئیے ہیں کہ ابھی بہت سے ایسے حقوق کاخوف باقی ہے جو ادا نہیں ہو سکے ہیں اوربہت سے فرائض ہیں جنہیں بہر حال نافذ کرنا ہے دیکھو مجھ سے اس لہجہ میں بات نہ کرنا جس لہجہ میں جابر بادشاہوں سے بات کی جاتی ہے اور نہ مجھ سے اس طرح بچنے کی کوشش کرنا جس طرح طیش میں آنے والوں سے بچا جاتا ہے۔نہ مجھ سے خوشامد کے ساتھ تعلقات رکھنا اور نہ میرے بارے میں یہ تصور کرنا کہ مجھے حرف حق گراں گزرے گا اور نہ میں اپنی تعظیم کا طلب گار ہوں۔اس لئے کہ جوشخص بھی حرف حق کہنے کو گراں سمجھتا ہے یا عدل کی پیشکش کو ناپسند کرتا ہے وہ حق و عدل پرعمل کو یقینا مشکل تر ہی تصور کرے گا۔لہٰذا خبردار حرف حق کہنے میں تکلف نہ کرنا اور منصفانہ مشورہ دینے سے گریز نہ کرنا۔ اس لء کہ میں ذاتی طور پر اپنے کو غلطی سے بالاتر نہیں تصور کرتا ہوں اورنہ اپنے افعال کو اس خطرہ سے محفوظ سمجھتا ہوں مگر یہ کہ میرا پروردگار میرے نفس کوب چالے کہ وہ اس کا مجھ سے زیادہ

۴۳۸

فَإِنَّمَا أَنَا وأَنْتُمْ عَبِيدٌ مَمْلُوكُونَ لِرَبٍّ لَا رَبَّ غَيْرُه - يَمْلِكُ مِنَّا مَا لَا نَمْلِكُ مِنْ أَنْفُسِنَا - وأَخْرَجَنَا مِمَّا كُنَّا فِيه إِلَى مَا صَلَحْنَا عَلَيْه - فَأَبْدَلَنَا بَعْدَ الضَّلَالَةِ بِالْهُدَى وأَعْطَانَا الْبَصِيرَةَ بَعْدَ الْعَمَى.

(۲۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التظلم والتشكي من قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوا رَحِمِي وأَكْفَئُوا إِنَائِي - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي حَقّاً كُنْتُ أَوْلَى بِه مِنْ غَيْرِي - وقَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه - وفِي الْحَقِّ أَنْ تُمْنَعَه فَاصْبِرْ مَغْمُوماً أَوْ مُتْ مُتَأَسِّفاً - فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي رَافِدٌ ولَا ذَابٌّ ولَا مُسَاعِدٌ - إِلَّا أَهْلَ بَيْتِي فَضَنَنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَنِيَّةِ - فَأَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى

صاحب اختیار ہے۔دیکھو ہم سب ایک خدا کے بندے اوراس کے مملوک ہیں اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔وہ ہمارے نفوس کااتنا اختیار رکھتا ہے جتنا خود ہمیں بھی حاصل نہیں ہے اور اسی نے ہمیں سابقہ حالات سے نکال کراس اصلاح کے راستہ پر لگایا ہے کہ اب گمراہی ہدایت میں تبدیل ہوگئی ہے اور اندھے پن کے بعد بصیرت حاصل ہوگئی ہے۔

(۲۱۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(قریش سے شکایت اورف ریاد کرتے ہوئے )

خدایا! میں قریش سے اور ان کے مدد گاروں سے تیری مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت داری کاخیال نہیں کیا اور میرے ظرف عظمت کو الٹ دیا ہے اور مجھ سے اس حق کے بارے میں جھگڑا کرنے پر اتحاد کرلیا ہے جس کا میں سب سے زیادہ حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے ہیں کہ آپ اس حق کو لے لیں تو یہ بھی صحیح ہے اور آپ کو اس سے روک دیا جائے تو یہ بھی صحیح ہے۔اب چاہیں ہم وغم کے ساتھ صبر کریں یا رنج والم کے ساتھ مرجائیں۔ ایسے حالات میں میں نے دیکھا کہ میرے پاس نہ کوئی مدد گار ہے اور نہ دفاع کرنے والا سوائے میرے گھر والوں کے تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا اوربالآخر آنکھوں میں خس و خاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی کی اور گلے میں پھندہ کے ہوتے ہوئے

۴۳۹

وجَرِعْتُ رِيقِي عَلَى الشَّجَا - وصَبَرْتُ مِنْ كَظْمِ الْغَيْظِ عَلَى أَمَرَّ مِنَ الْعَلْقَمِ - وآلَمَ لِلْقَلْبِ مِنْ وَخْزِ الشِّفَارِ

قال الشريفرضي‌الله‌عنه - وقد مضى هذا الكلام في أثناء خطبة متقدمة - إلا أني ذكرته هاهنا لاختلاف الروايتين.

(۲۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذكر السائرين إلى البصرة لحربهعليه‌السلام

فَقَدِمُوا عَلَى عُمَّالِي وخُزَّانِ بَيْتِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِي فِي يَدَيَّ - وعَلَى أَهْلِ مِصْرٍ كُلُّهُمْ فِي طَاعَتِي وعَلَى بَيْعَتِي - فَشَتَّتُوا كَلِمَتَهُمْ وأَفْسَدُوا عَلَيَّ جَمَاعَتَهُمْ - ووَثَبُوا عَلَى شِيعَتِي فَقَتَلُوا طَاِئفَةً منْهُمْ غَدْراً - وطَاِئفَةٌ عَضُّوا عَلَى أَسْيَافِهِمْ - فَضَارَبُوا بِهَا حَتَّى لَقُوا اللَّه صَادِقِينَ.

لعاب دہن نگل لیا اور غصہ کو پینے میں خنظل سے زیادہ تلخ ذائقہ پر صبر کیااورچھریوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ حالات پر خاموشی اختیار کرلی۔

(سید رضی : گذشتہ خطبہ میں یہ مضمون گذر چکا ہے لیکن روایتیں مختلف تھیں لہٰذا میں نے دوبارہ اسے نقل کردیا )

(۲۱۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کی طرف آپ سے جنگ کرنے کے لئے جانے والوں کے بارے میں

یہ لوگ میرے عاملوں ۔میرے زیر دست بیت المال کے خزانہ داروں اورتمام اہل شہر جو میری اطاعت و بیعت میں تھے سب کی طرف وارد ہوئے۔ان کے کلمات میں(۱) افتراق پیدا کیا۔ان کے اجتماع کو برباد کیا اورمیرے چاہنے والوں پرحملہ کردیا اور ان میں سے ایک جماعت کودھوکہ سے قتل بھی کردیا لیکن دوسری جماعت نے تلواریں اٹھا کر دانت بھنچ لئے اور باقاعدہ مقابلہ کیا یہاں تک کہ حق و صداقت کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔

(۱) حیرت انگیز بات ہے کہ مسلمان ابھی تک ان دو گروہوں کے بارے میں حق و باطل کا فیصلہ نہیں کرسکا ہے جن میں ایک طرف نفس رسول (ص) علی بن ابی طالب جیسا انسان تھا جو اپنی تعریف کوبھی گوارا نہیں کرتا تھا اور ہر لمحہعظمت خالق کے پیش نظرانے اعمال کو حقیر و معمولی ہی تصور کرتا تھا اور ایک طرف طلحہ و زبیر جیسے وہدنیا پرست تھے جن کاکام فتنہ پردازی ۔ شرانگیزی ۔تفرقہ اندازی اورقتل وغارت کے علاوہ کچھ نہتھا اورجو دولت و اقتدار کی خاطر دنیا کی ہر برائی کر سکتے تھے اور ہر جرم کا ارتکاب کرسکتے تھے ۔

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863