نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630100
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630100 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ظَاهِرُه أَنِيقٌ وبَاطِنُه عَمِيقٌ

لَا تَفْنَى عَجَائِبُه ولَا تَنْقَضِي غَرَائِبُه ولَا تُكْشَفُ الظُّلُمَاتُ إِلَّا بِه.

(۱۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله للأشعث بن قيس وهو على منبر الكوفة يخطب، فمضى في بعض كلامه شيء اعترضه الأشعث فيه، فقال: يا أمير المؤمنين، هذه عليك لا لك، فخفضعليه‌السلام إليه بصره ثم قال:

مَا يُدْرِيكَ مَا عَلَيَّ مِمَّا لِي عَلَيْكَ لَعْنَةُ اللَّه ولَعْنَةُ اللَّاعِنِينَ حَائِكٌ ابْنُ حَائِكٍ مُنَافِقٌ ابْنُ كَافِرٍ واللَّه لَقَدْ أَسَرَكَ الْكُفْرُ مَرَّةً والإِسْلَامُ

أُخْرَى فَمَا فَدَاكَ مِنْ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مَالُكَ ولَا حَسَبُكَ وإِنَّ امْرَأً دَلَّ عَلَى قَوْمِه السَّيْفَ وسَاقَ إِلَيْهِمُ الْحَتْفَ لَحَرِيٌّ أَنْ يَمْقُتَه الأَقْرَبُ ولَا يَأْمَنَه الأَبْعَدُ!

قال السيد الشريف يريدعليه‌السلام أنه أسر في الكفر مرة وفي الإسلام مرة. وأما قولهعليه‌السلام دل على قومه السيف فأراد به حديثا كان للأشعث مع خالد بن الوليد باليمامة غر فيه قومه ومكر بهم حتى أوقع بهم خالد وكان قومه بعد ذلك يسمونه عرف النار وهو اسم للغادر عندهم.

جس کا ظاہرخوبصورت اورب اطن عمیق اور گہرا ہے اس کے عجائب فنا ہونے والے نہیں ہیں اور تاریکیوں کاخاتمہ اس کےعلاوہ اور کسی کلام سے نہیں ہو سکتا ہے۔

(۱۹)

آپ کا ارشاد گرامی

جسے اس وقت فرمایا جب منبر کوفہ پر خطبہ دے رہے تھے اوراشعث بن قیس نے ٹوک دیا کہ یہ بیان آپ خود اپنے خلاف دے رہے ہیں۔ آپ نے پہلے نگاہوں کونیچا کرکے سکوت فرمایا اور پھرپر جلال انداز سے فرمایا:

تجھے کیاخبرکہ کون سی بات میرےموافق ہے اور کون سی میرے خلاف ہےتجھ پرخدا اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت۔تو سخن باف اور تانے بانے درست کرنے والے کافرزند ہےتو منافق ہے اورتیرا باپ کھلا ہوا کافر تھا۔خدا کی قسم توایک مرتبہ کفر کا قیدی بنا اوردوسری مرتبہ اسلام کا لیکن نہ تیرا مال کامآیا نہ حسب۔اورجوشخص بھی اپنی قوم کی طرف تلوار کو راستہ بتائے گا اور موت کو کھینچ کرلائے گا وہ اس بات کاحقدار ہےکہ قریب والےاس سے نفرت کریں اوردوروالےاس پربھروسہ نہ کریں۔

(سیدرضی:امام کامقصدیہ ہے کہ اشعث بن قیس ایک مرتبہ دور کفرمیں قیدی بنا تھااور دوسری مرتبہ اسلام لانےکے بعد!۔تلوارکی رہنمائی کا مقصدیہ ہےکہ جب یمامہ میں خالد بن ولیدنےچڑھائی کی تواس نےاپنی قوم سے غداری کی اورسب کوخالدکی تلوارکےحوالہ کردیا جس کے بعدسے اس کالقب''عرف النار''ہوگیاجواس دورمیں ہرغدارکالقب ہواکرتا تھا)۔

۴۱

(۲۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه ينفر من الغفلة وينبه إلى الفرار للَّه

فَإِنَّكُمْ لَوْ قَدْ عَايَنْتُمْ مَا قَدْ عَايَنَ مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ - لَجَزِعْتُمْ ووَهِلْتُمْ وسَمِعْتُمْ وأَطَعْتُمْ - ولَكِنْ مَحْجُوبٌ عَنْكُمْ مَا قَدْ عَايَنُوا - وقَرِيبٌ مَا يُطْرَحُ الْحِجَابُ - ولَقَدْ بُصِّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ وأُسْمِعْتُمْ إِنْ سَمِعْتُمْ - وهُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ - وبِحَقٍّ أَقُولُ لَكُمْ لَقَدْ جَاهَرَتْكُمُ الْعِبَرُ وزُجِرْتُمْ بِمَا فِيه مُزْدَجَرٌ - ومَا يُبَلِّغُ عَنِ اللَّه بَعْدَ رُسُلِ السَّمَاءِ إِلَّا الْبَشَرُ.

(۲۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي كلمة جامعة للعظة والحكمة

فَإِنَّ الْغَايَةَ أَمَامَكُمْ وإِنَّ وَرَاءَكُمُ السَّاعَةَ تَحْدُوكُمْ

(۲۰)

آپ کا ارشاد گرامی

جس میں غفلت سے بیدار کیا گیا ہے اور خدا کی طرف دوڑ کرآنے کی دعوت دی گئی ہے

یقینا جن حالات کو تم سے پہلے مرنے والوں نے دیکھ لیا ہے اگر تم بھی دیکھ لیتے تو پریشان و مضطرب ہو جاتے اور بات سننے اور اطاعت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابھی وہ چیزیں تمہارے لئے پس حجاب ہیں اور عنقریب یہ پردہ اٹھنے والا ہے۔بیشک تمہیں سب کچھ دکھایا جا چکا ہے اگر تم نگاہ بینا رکھتے ہو اور سب کچھ سنایا جا چکا ہے اگرتم گوش شنوار رکھتے ہو اور تمہیں ہدایت دی جا چکی ہے اگرتم ہدایت حاصل کرنا چاہو اور میں بالکل برحق کہہ رہا ہوں کہ عبرتیں تمہارے سامنے کھل کر آچکی ہیں اورتمہیں اس قدر ڈرایا جا چکا ہے جو بقدر کافی ہے اور ظاہر ہے کہ آسمانی فرشتوں کے بعد الٰہی پیغام کو انسان ہی پہنچانے والا ہے۔

(۲۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

بیشک منزل مقصود تمہارے سامنے ہے اور ساعت موت تمہارے تعاقب میں ہے اور تمہیں اپنے ساتھ لے کر چل رہی ہے۔

۴۲

تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

قال السيد الشريف أقول إن هذا الكلام لو وزن بعد كلام الله سبحانه وبعد كلام رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله بكل كلام لمال به راجحا وبرز عليه سابقا. فأما قولهعليه‌السلام تخففوا تلحقوا فما سمع كلام أقل منه مسموعا ولا أكثر منه محصولا وما أبعد غورها من كلمة وأنقع نطفتها من حكمة وقد نبهنا في كتاب الخصائص على عظم قدرها وشرف جوهرها.

(۲۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حين بلغه خبر الناكثين ببيعته وفيها يذم عملهم ويلزمهم دم عثمان ويتهددهم بالحرب

اپنا بوجھ(۱) ہلکا کر لو تاکہ پہلے والوں سے ملحق ہو جائو کہ ابھی تمہارے سابقین سے تمہارا انتظار کرایا جا رہا ہے۔

سید رضی: اس کلام کو کلام خدا و رسول (ص) کے بعد کسی کلام کے ساتھ رکھ دیا جائے تو اس کا پلہ بھاری ہی رہے گا اور یہ سب سے آگے نکل جائے گا۔'' تحففوا لحقوا'' سے زیادہ مختصر اوربلیغ کلام تو کبھی دیکھا اور سنا ہی نہیں گیا ہے۔اسی کلمہ میں کس قدر گہرائی پائی جاتی ہے اور اس حکمت کا چشمہ کس قدرشفاف ہے۔ہم نے کتاب خصائص میں اس کی قدرو قیمت اور عظمت و شرافت پر مکمل تبصر ہ کیا ہے۔

(۲۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت توڑدی ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہ انسانی زندگی کے لئے ایک بوجھ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی بوجھ ہے جو انسان کوآگے نہیں بڑھنے دیتا ہے اور وہ اسی دنیا داری میں مبتلا رہ جاتا ہے ورنہ انسان کا بوجھ ہلکا ہو جائے تو تیز قدم بڑھا کر ان سابقین سے ملحق ہو سکتا ہے جو نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہوئے بلند ترین منزلوں تک پہنچ گئے ہیں۔

امیر المومنین کی دی ہوئی یہ مثال وہ ہے جس کا تجربہ ہر انسان کی زندگی میں برابر سامنے آتا رہتا ہے کہ قافلہ میں جس کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے اور جس کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔صری مشکل یہ ہے کہ انسان کو گناہوں کے پوجھ ہونے کا احساس نہیں ہے۔شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

چلنے نہ دیا بار گنہ نے پیدل

تابوت میں کاندھوں پر سوارآیا ہوں

۴۳

ذم الناكثين

أَلَا وإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ ذَمَّرَ حِزْبَه واسْتَجْلَبَ جَلَبَه لِيَعُودَ الْجَوْرُ إِلَى أَوْطَانِه ويَرْجِعَ الْبَاطِلُ إِلَى نِصَابِه واللَّه مَا أَنْكَرُوا عَلَيَّ مُنْكَراً - ولَا جَعَلُوا بَيْنِي وبَيْنَهُمْ نَصِفاً.

دم عثمان

وإِنَّهُمْ لَيَطْلُبُونَ حَقّاً هُمْ تَرَكُوه ودَماً هُمْ سَفَكُوه - فَلَئِنْ كُنْتُ شَرِيكَهُمْ فِيه فَإِنَّ لَهُمْ لَنَصِيبَهُمْ مِنْه - ولَئِنْ كَانُوا وَلُوه دُونِي فَمَا التَّبِعَةُ إِلَّا عِنْدَهُمْ - وإِنَّ أَعْظَمَ حُجَّتِهِمْ لَعَلَى أَنْفُسِهِمْ - يَرْتَضِعُونَ أُمّاً قَدْ فَطَمَتْ ويُحْيُونَ بِدْعَةً قَدْ أُمِيتَتْ - يَا خَيْبَةَ الدَّاعِي مَنْ دَعَا وإِلَامَ أُجِيبَ - وإِنِّي لَرَاضٍ بِحُجَّةِ اللَّه عَلَيْهِمْ وعِلْمِه فِيهِمْ.

آگاہ ہو جائو کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کردیا ہے اور فوج کوجمع کرلیا ہے تاکہ ظلم اپنی منزل پر پلٹ آئے اور باطل اپنے مرکز کی طرف واپس آجائے۔خدا کی قسم ان لوگوں نے نہ مجھ پر کوئی سچا الزام لگایا ہے اور نہ میرے اور اپنے درمیان کوئی انصاف کیا ہے۔

یہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں جو خود انہوں نے نظر انداز کیا ہے اور اس خون کا تقاضا کر رہے ہیں جوخود انہوں نے بہایا ہے۔پھر اگر میں ان کے ساتھ شریک تھا تو ان کا بھی تو ایک حصہ تھا اور وہ تنہا مجرم تھے تو ذمہ داری بھی انہیں پر ہے۔بیشک ان کی عظیم ترین دلیل بھی انہیں کے خلاف ہے۔یہ اس ماں سے دود ھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ ختم ہو چکا ہے اور اس بدعت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جو مر چکی(۱) ہے۔ ہائے کس قدر نا مراد یہ جنگ کا داعی(۲) ہے۔کون پکا ر رہا ہے ؟ اور کس مقصد کے لئے اس کی بات سنی جا رہی ہے ؟ میں اس بات سے خوش ہوں کہ پروردگار کی حجت ان پر تمام ہو چکی ہے اور وہ ان کے حالات سے با خبر ہے۔

(۱)تاریخ کا مسلمہ ہے کہ عثمان نے اپنے دور حکومت میں اپنے پیشر و تمام حکام کے خلاف اقربا پرستی اوربیت المال کی بے بنیاد تقسیم کا بازار گرم کر دیا تھا اور یہی بات ان کے قتل کا بنیادی سبب بن گئی۔ظاہر ہے کہ ان کے قتل کے بعد یہ بدعت بھی مردہ ہوچکی تھی لیکن طلحہ نے امیر المومنین سے بصرہ کی گورنری اور زبیر نے کوفہ کی گورنری کا مطالبہ کرکے پھر اس بدعت کو زندہ کرنا چاہا جو ایک امام معصوم کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا ہے چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔

(۲)ابن ابی الحدید کے نزدیک داعی سے مراد طلحہ'زبیر اور عائشہ ہیں جنہوں نے آپ کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکائی تھی لیکن انجام کار سب کو ناکام اور نا مراد ہونا پڑا اور کوئی نتیجہ ہاتھ نہ آیا جس کی طرف آپ نے تحقیر آمیز لہجہ میں اشارہ کیاہے اور صاف واضح کردیا ہے کہ میں جنگ سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔تلوار میرا تکیہ ہے اور یقین میرا سہارا۔اس کے بعد مجھے کس چیز سے خوفزدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۴

التهديد بالحرب

فَإِنْ أَبَوْا أَعْطَيْتُهُمْ حَدَّ السَّيْفِ - وكَفَى بِه شَافِياً مِنَ الْبَاطِلِ ونَاصِراً لِلْحَقِّ - ومِنَ الْعَجَبِ بَعْثُهُمْ إِلَيَّ أَنْ أَبْرُزَ لِلطِّعَانِ وأَنْ أَصْبِرَ لِلْجِلَادِ - هَبِلَتْهُمُ الْهَبُولُ لَقَدْ كُنْتُ ومَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ ولَا أُرْهَبُ بِالضَّرْبِ وإِنِّي لَعَلَى يَقِينٍ مِنْ رَبِّي وغَيْرِ شُبْهَةٍ مِنْ دِينِي

(۲۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وتشتمل على تهذيب الفقراء بالزهد وتأديب الأغنياء بالشفقة

تهذيب الفقراء

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الأَمْرَ يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ كَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ إِلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَانٍ فَإِنْ رَأَى أَحَدُكُمْ لأَخِيه غَفِيرَةً فِي أَهْلٍ أَوْ مَالٍ أَوْ نَفْسٍ فَلَا تَكُونَنَّ لَه فِتْنَةً فَإِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ مَا لَمْ يَغْشَ دَنَاءَةً تَظْهَرُ فَيَخْشَعُ لَهَا إِذَا ذُكِرَتْ ويُغْرَى بِهَا لِئَامُ النَّاسِ كَانَ كَالْفَالِجِ الْيَاسِرِ الَّذِي يَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزَةٍ مِنْ قِدَاحِه تُوجِبُ لَه الْمَغْنَمَ ويُرْفَعُ بِهَا عَنْه الْمَغْرَمُ

اب اگر ان لوگوں نے حق کا انکار کیا ہے تو میں انہیں تلوار کی باڑھ عطا کروں گا کہ وہی باطل کی بیماری سے شفا دینے والی اور حق کی واقعی مددگار ہے۔حیرت انگیز بات ہے کہ یہ لوگ مجھے نیزہ بازی کے میدان میں نکلنے اور تلوار کی جنگ سہنے کی دعوت دے رہے ہیں۔رونے والیاں ان کے غم میں روئیں۔مجھے تو کبھی بھی جنگ سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ میں شمشیر زنی سے مرعوب ہوا ہوں میں تو اپنے پروردگار کی طرف سے منزل یقین پر ہوں اور مجھے دین کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے۔

(۲۳)

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ

یہ خطبہ فقراء کی تہذیب اور ثروت مندوں کی شفقت پر مشتمل ہے

امام بعد! انسان کے مقسوم میں کم یا زیادہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا امرآسمان سے زمین کی طرف بارش کے قطرات کی طرح نازل ہوتا ہے۔لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے بھائی کے پاس اہل و مال یا نفس کی فراوانی دیکھے تو اس کے لئے فتنہ نہ بنے۔کہ مرد مسلم کے کردار میں اگر ایسی پستی نہیں ہے جس کے ظاہر ہو جانے کے بعد جب بھی اس کاذکر کیا جائے اس کی نگاہ شرم سے جھک جائے اور پست لوگو کے حوصلے اس سے بلند ہو جائیں تو اس کی مثال اس کامیاب جواری کی ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک

کر پہلے ہی مرحلہ میں کامیابی کا انتظار کرتا ہے جس سے فائدہ حاصل ہو اور گذشتہ فساد کی تلافی ہو جائے۔

۴۵

وكَذَلِكَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ الْبَرِيءُ مِنَ الْخِيَانَةِ يَنْتَظِرُ مِنَ اللَّه إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ إِمَّا دَاعِيَ اللَّه فَمَا عِنْدَ اللَّه خَيْرٌ لَه وإِمَّا رِزْقَ اللَّه فَإِذَا هُوَ ذُو أَهْلٍ ومَالٍ ومَعَه دِينُه وحَسَبُه وإِنَّ الْمَالَ والْبَنِينَ حَرْثُ الدُّنْيَا والْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الآخِرَةِ - وقَدْ يَجْمَعُهُمَا اللَّه تَعَالَى لأَقْوَامٍ - فَاحْذَرُوا مِنَ اللَّه مَا حَذَّرَكُمْ

مِنْ نَفْسِه - واخْشَوْه خَشْيَةً لَيْسَتْ بِتَعْذِيرٍ واعْمَلُوا فِي غَيْرِ رِيَاءٍ ولَا سُمْعَةٍ - فَإِنَّه مَنْ يَعْمَلْ لِغَيْرِ اللَّه يَكِلْه اللَّه لِمَنْ عَمِلَ لَه نَسْأَلُ اللَّه مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ ومُعَايَشَةَ السُّعَدَاءِ - ومُرَافَقَةَ الأَنْبِيَاءِ.

تأديب الأغنياء

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّه لَا يَسْتَغْنِي الرَّجُلُ - وإِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ - عِتْرَتِه ودِفَاعِهِمْ عَنْه بِأَيْدِيهِمْ وأَلْسِنَتِهِمْ - وهُمْ أَعْظَمُ النَّاسِ حَيْطَةً مِنْ وَرَائِه وأَلَمُّهُمْ لِشَعَثِه وأَعْطَفُهُمْ عَلَيْه عِنْدَ نَازِلَةٍ إِذَا نَزَلَتْ بِه - ولِسَانُ الصِّدْقِ يَجْعَلُه اللَّه لِلْمَرْءِ فِي النَّاسِ - خَيْرٌ لَه مِنَ الْمَالِ يَرِثُه غَيْرُه.

.

یہی حال اس مرد مسلمان کا ہے جس کا دامن خیانت سے پاک ہو کہ وہ ہمیشہ پروردگار سے دو میں سے ایک نیکی کا امید وار رہتا ہے یا داعی اجل آجائے تو جو کچھ اس کی بارگاہ میں ہے وہ اس دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے یا رزق خدا حاصل ہو جائے تو وہ صاحب اہل و مال بھی ہوگا اور اس کا دین اور وقار بھی بر قرار رہے گا۔یاد رکھو مال اور اولاد دنیا کی کھیتی ہے اور عمل صالح آخرت کی کھیتی ہے اور کبھی کبھی پروردگار بعض اقوام کے لئے دونوں کوجمع کردیتا ہے لہٰذا خدا سے اس طرح ڈرو جس طرح اس نے ڈرنے کا حکم دیا ہے اور اس کا خوف اس طرح پیدا کرو کہ پھر معذرت نہ کرنا پڑے۔عمل کرو۔ تو دکھانے سنانے سے الگ رکھو کہ جو شخص بھی غیر خدا کے واسطے عمل کرتاہے خدا اسے اسی شخص کے حوالے کردیتا ہے۔میںپروردگار سے شہیدوں کی منزل۔نیک بندوں کی صحبت اور انبیاء کرام کی رفاقت کی دعاکرتا ہوں۔

ایہا الناس! یاد رکھو کہ کوئی شخص کسی قدر بھی صاحب مال کیوں نہ ہو جائے اپنے قبیلہ اور ان لوگوں کے ہاتھ اور زبان کے ذریعہ دفاع کرنے سے بے نیاز نہی ہو سکتا ہے۔یہ لوگ انسان کے بہترین محافظ ہوتے ہیں اس کی پراگندگی کے دور کرنے والے اورمصیبت کے نزول کے وقت اس کے حال پر مہربان ہوتے ہیں۔پروردگار بندہ کے لئے جوذکرخیر لوگوں کے درمیان قرار دیتا ہے وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے جس کے وارث دوسرے افراد ہو جاتے ہیں۔

۴۶

ومنها أَلَا لَا يَعْدِلَنَّ أَحَدُكُمْ عَنِ الْقَرَابَةِ يَرَى بِهَا الْخَصَاصَةَ أَنْ يَسُدَّهَا بِالَّذِي لَا يَزِيدُه إِنْ أَمْسَكَه - ولَا يَنْقُصُه إِنْ أَهْلَكَه ومَنْ يَقْبِضْ يَدَه عَنْ عَشِيرَتِه - فَإِنَّمَا تُقْبَضُ مِنْه عَنْهُمْ يَدٌ وَاحِدَةٌ - وتُقْبَضُ مِنْهُمْ عَنْه أَيْدٍ كَثِيرَةٌ - ومَنْ تَلِنْ حَاشِيَتُه يَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِه الْمَوَدَّةَ.

قال السيد الشريف أقول الغفيرة هاهنا الزيادة والكثرة من قولهم للجمع الكثير الجم الغفير والجماء الغفير - ويروى عفوة من أهل أو مال - والعفوة الخيار من الشيء يقال أكلت عفوة الطعام أي خياره. وما أحسن المعنى الذي أرادهعليه‌السلام بقوله ومن يقبض يده عن عشيرته... إلى تمام الكلام - فإن الممسك خيره عن عشيرته إنما يمسك نفع يد واحدة - فإذا احتاج إلى نصرتهم واضطر إلى مرافدتهم قعدوا عن نصره وتثاقلوا عن صوته - فمنع ترافد الأيدي الكثيرة وتناهض الأقدام الجمة

آگاہ ہو جائو کہ تم سے کوئی شخص بھی اپنے اقربا(۱) کومحتاج دیکھ کر اس مال سے حاجت برآری کرنے سے گریز نہ کرے جو باقی رہ جائے تو بڑھ نہیں جائے گا اورخرچ کردیا جائے تو کم نہیں ہو جائے گا۔اس لئے کہ جو شخص بھی اپنے عشیرہ اورقبیلہ سے اپنا ہاتھ روک لیتا ہے تو اس قبیلہ سے ایک ہاتھ رک جاتا ہے اور خود اس کے لئے بیشمار ہاتھ رک جاتے ہیں۔اور جس کے مزاج میں نرمی ہوتی ہے وہ قوم کی محبت کو ہمیشہ کے لئے حاصل کر لیتا ہے۔

سید رضی: اس مقام پر غفیرہ کثرت کے معنی میں ہے جس طرح جمع کثیر کو جمع کثری کہا جاتا ہے۔بعض روایات میں غفیرہ کے بجائے عفوہ ہے جو منتخب اور پسندیدہ شے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے'' عفوہ الطعام'' پسندیدہ کھانے کوکہا جاتا ہے اور امام علیہ نے اس مقام پر بہترین نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کسی نے اپنا ہاتھ عشیرہ سے کھینچ لیا تو گویا کہ ایک ہاتھ کم ہوگیا۔لیکن جب اسے ان کی نصرت اور امداد کی ضرورت ہوگی اوروہ ہاتھ کھینچ لیں گے اور اس کی آواز پر لبیک نہیں کہیں گے تو بہتے سے بڑھنے والے ہاتھوں اور اٹھنے والے قدموں سے محروم ہو جائے گا۔

(۱)اگرچہ اسلام نے بظاہر فقیر کو غنی کے مال میں یا رشتہ دار کو رشتہ دارکے مال میں شریک نہیں بنایا ہے لیکن اس کا یہ فلسفہ کہ تمام املاک دنیا کا مالک حقیقی پروردگار ہے اور اس کے اعتبارسے تمام بندے ایک جیسے ہیں۔سب اس کے بندے ہیں اور سب کے رزق کی ذمہ داری اسی کی ذات اقدس پر ہے۔اس امرکی علامت ہے کہ اس نے ہر غنی کے مال میں ایک حصہ فقیروں اورمحتاجوں کا ضرور قرار دیا ہے اوراسے جبراً واپس نہیں لیا ہے بلکہ خود غنی کو انفاق کا حکم دیا ہے تاکہ مال اس کے اختیار سے فقیر تک جائے۔اس طرح وہ آخرت میں اجرو ثواب کا حقدار ہو جائے گا اور دنای میں فقیر کے دل میں اس کی جگہ ن جائے گی جو صاحبان ایمان کاش رف ہے کہ پروردگار لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت قرار دے دیتا ہے۔ پھر اس انفاق میں کسی طرح کا نقصان بھی نہیں ہے۔مال یوں ہی باقی رہ گیا تو بھی دوسروں ہی کے کام آئے گا تو کیوں نہ ایسا ہو کہ اسی کے کام آجائے جس کے زور بازو نے جمع کیا ہے اور پھروہ جماعت بھی ہاتھ آجائے جو کسی وقت بھی کام آسکتی ہے۔جگر جگر ہوتا ہے اور دگردگر ہوتا ہے۔

۴۷

(۲۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهي كلمة جامعة له، فيها تسويغ قتال المخالف، والدعوة إلى طاعة اللَّه،

والترقي فيها لضمان الفوز

ولَعَمْرِي مَا عَلَيَّ مِنْ قِتَالِ مَنْ خَالَفَ الْحَقَّ وخَابَطَ الْغَيَّ مِنْ إِدْهَانٍ ولَا إِيهَانٍ فَاتَّقُوا اللَّه عِبَادَ اللَّه وفِرُّوا إِلَى اللَّه مِنَ اللَّه - وامْضُوا فِي الَّذِي نَهَجَه لَكُمْ وقُومُوا بِمَا عَصَبَه بِكُمْ فَعَلِيٌّ ضَامِنٌ لِفَلْجِكُمْ آجِلًا إِنْ لَمْ تُمْنَحُوه عَاجِلًا.

(۲۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وقد تواترت عليه الأخبارباستيلاء أصحاب معاوية على البلاد وقدم عليه عاملاه على اليمن وهما عبيد الله بن عباس وسعيد بن نمران لما غلب عليهما بسر بن أبي أرطاة

(۲۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں اطاعت خداکی دعوت دی گئی ہے

میری جان کی قسم! میں حق کی مخالفت کرنے والوں اور گمراہی میں بھٹکنے والوں سے جہاد کرنے میں نہ کوئی نرمی کر سکتا ہوں اور نہ سستی اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس کے غضب سے فرار کرکے اس کی رحمت میں پناہ لو۔اس راستہ پر چلو جو اس نے بنادیا ہے۔اوران احکام پرعمل کروجنہیں تم سے مربوط کردیا گیا ہے۔اس کے بعد علی تمہاری کامیابی کا آخرت میں بہر حال ذمہ دار ہے چاہے دنیا میں حاصل نہ ہوسکے

(۲۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب آپ کو مسلسل(۱) خبردی گئی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے اور آپ کے دو عامل یمن عبید اللہ بن عباس اورسعید بن نمران بسر بن ابی ارطاة کے مظالم سے پریشان ہو کرآپ کی خدمت میں آگئے۔

(۱)امیر المومنین کی خلافت کا جائزہ لیا جائے تو مصائب و مشکلات میں سرکار دوعالم (ص) کے دور رسالت سے کچھ کم نہیں ہے۔آپ نے تیرہ سال مکہ میں مصیبتیں برداشت کی اور دس سال مدینہ میں جنگوں کا مقابلہ کرتے رہے اور یہی حال مولائے کائنات کا رہا۔ذی الحجہ ۳۵ھ میں خلافت ملی اور ماہ مبارک ۴۰ھ میں شہید ہوگئے۔کل دور حکومت ۴ سال ۹ ماہ ۲ دن رہا اوراس میں بھی تین بڑ ے بڑے معرکے ہوئے اور چھوٹی چھوٹی جھڑپیں مسلسل ہوتی رہیں۔جہاں علاقوں پر قبضہ کیا جا رہا تھا اور چاہتے والوں کو اذیت دی جا رہی تھی۔معاویہ نے عمرو عاص کے مشورہ سے بسر بن ابی ارطاة کو تلاش کرلیا تھا اوراس جلاد کو مطلق العنان بنا کرچھوڑ دیا تھا۔ظاہر ہے کہ'' پاگل کتے '' کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو شہر والوں کا کیا حال ہوگا اور علاقہ کے امن و امان میں کیا باقی رہ جائے گا۔

۴۸

فقامعليه‌السلام على المنبر ضجرا بتثاقل أصحابه عن الجهاد ومخالفتهم له في الرأي فقال:

مَا هِيَ إِلَّا الْكُوفَةُ أَقْبِضُهَا وأَبْسُطُهَا إِنْ لَمْ تَكُونِي إِلَّا أَنْتِ تَهُبُّ أَعَاصِيرُكِ فَقَبَّحَكِ اللَّه!

وتَمَثَّلَ بِقَوْلِ الشَّاعِرِ

لَعَمْرُ أَبِيكَ الْخَيْرِ يَا عَمْرُو إِنَّنِي

عَلَى وَضَرٍ مِنْ ذَا الإِنَاءِ قَلِيلِ

ثُمَّ قَالَعليه‌السلام

أُنْبِئْتُ بُسْراً قَدِ اطَّلَعَ الْيَمَنَ وإِنِّي واللَّه لأَظُنُّ أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ سَيُدَالُونَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلَى بَاطِلِهِمْ وتَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ - وبِمَعْصِيَتِكُمْ إِمَامَكُمْ فِي الْحَقِّ وطَاعَتِهِمْ إِمَامَهُمْ فِي الْبَاطِلِ وبِأَدَائِهِمُ الأَمَانَةَ إِلَى صَاحِبِهِمْ وخِيَانَتِكُمْ وبِصَلَاحِهِمْ فِي بِلَادِهِمْ وفَسَادِكُمْ فَلَوِ ائْتَمَنْتُ أَحَدَكُمْ عَلَى قَعْبٍ لَخَشِيتُ أَنْ يَذْهَبَ بِعِلَاقَتِه

اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ ومَلُّونِي وسَئِمْتُهُمْ وسَئِمُونِي

تو آپ نے اصحاب کی کوتاہی جہاد سے بد دل ہو کر منبر پر کھڑے ہو کریہ خطبہ ارشاد فرمایا: اب یہی کوفہ ہے جس کا بست و کشاد میرے ہاتھ میں ہے۔اے کوفہ اگر توایسا ہی رہا اور یونہی تیری آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تیرا برا کرے گا۔

( اس کے بعد شاعرکے اس شعر کی تمثیل بیان فرمائی) اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم' مجھے تو اس برتن کی تہ میں لگی ہوئی چکنائی ہی ملی ہے۔

اس کے بعد فرمایا: مجھے خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن تک آگیا ہے اور خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار کو چھین لیں گے۔اس لئے کہ یہ اپنے باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ہو۔یہ اپنے پیشوا کی باطل میں(۱) اطاعت کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی حق میں بھی نا فرمانی کرتے ہو۔یہ اپنے مالک کی امانت اس کے حوالے کر دیتے ہیں اور تم خیانت کرتے ہو۔یہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اورتم اپنے شہر میں بھی فساد کرتے ہو۔میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالہ کا بھی امین بنائوں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے کر بھاگ جائے گا خدایامیں ان سے تنگ آگیا ہوں اور یہ مجھ سے تنگ آگئے ہیں۔میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں

(۱)ذرا جا حظ کی قابلیت ملاحظہ فرمائیے۔ فرماتے ہیں کہ کوفہ والے اس لئے نہیں اطاعت کرتے تھے کہ ان کی نگاہ تنقیدی اوربصیرت آمیز تھی اور شام والے احمق اورجاہل تھے اس لئے اطاعت کر لیتے تھے۔ان قابلیت مآب سے کون دریافت کرے کہ کوفہ والوں نے مولائے کائنات کے کس عیب کی بناپر اطاعت چھوڑ دی تھی اور کس تنقیدی نظر سے آپ کی زندگی کو دیکھ لیا تھا۔حقیقت امریہ ہے کہ کوفہ و شام دونوں ضمیر فروش تھے۔شام والوں کو خریدار مل گیا تھا اور کوفہ میں حضرت علی نے یہ طریقہ کار اختیار کرلیا تھا کہ منہ مانگی قیمت نہیں عطا کی تھی لہٰذا بغاوت کا ہونا ناگزیر تھا اوریہ کوئی حیرت انگیز امرنہیں ہے۔

۴۹

فَأَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيْراً مِنْهُمْ وأَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي - اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ - أَمَا واللَّه لَوَدِدْتُ أَنَّ لِي بِكُمْ أَلْفَ فَارِسٍ - مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْمٍ.

هُنَالِكَ لَوْ دَعَوْتَ أَتَاكَ مِنْهُمْ

فَوَارِسُ مِثْلُ أَرْمِيَةِ الْحَمِيمِ

ثُمَّ نَزَلَعليه‌السلام مِنَ الْمِنْبَرِ

قال السيد الشريف - أقول الأرمية جمع رميّ وهو السحاب - والحميم هاهنا وقت الصيف - وإنما خص الشاعر سحاب الصيف بالذكر - لأنه أشد جفولا وأسرع خفوفا لأنه لا ماء فيه - وإنما يكون السحاب ثقيل السير لامتلائه بالماء - وذلك لا يكون في الأكثر إلا زمان الشتاء - وإنما أراد الشاعر وصفهم بالسرعة إذا دعوا - والإغاثة إذا استغيثوا - والدليل على ذلك قوله:

هنالك لو دعوت أتاك منهم

لہٰذا مجھے ان سے بہتر قوم عنایت(۱) کردے اور انہیں مجھ سے ''بدتر'' حاکم دیدے اور ان کے دلوں کو یوں پگھلا دے جس طرح پانی میں نمک گھولا جاتا ہے۔خدا کی قسم میں یہ پسند کرتا ہوں کہ ان سب کے بدلے مجھے بنی فراس بن غنم کے صرف ایک ہزار سپاہی مل جائیں۔جن کے بارے میں ان کے شاعرنے کہا تھا:

''اس وقت میں اگر تو انہیں آواز دے گا تو ایسے شہسوار سامنے آئیں گے جن کی تیز رفتاری گرمیوں کے بالدوں سے زیادہ سریع تر ہوگی''

سید رضی : ارمیہ رمیی کی جمع ہے جس کے معنی بادل کے ہیں اورحمیم گرمی کے زمانہ کے معنی میں ہے۔شعرنے گرمی کے بادلوں کاذکر اس لئے کیا ہے کہ ان کی رفتارتیز تر اورسبک ترہوتی ہے اس لئے کہ ان میں پانی نہیں ہوتا ہے۔بادل کی رفتار اس وقت سست ہو جاتی ہے جب اس میں پانی بھرجاتا ہے اوریہ عام طور پر سردی کے زمانہ میں ہوتا ہے۔شاعرنے اپنی قوم کی آواز پر لبیک کہنے اور مظلوم کی فریاد رسی میں سبک رفتاری کا ذکر کیا ہے جس کی دلیل '' لودعوت '' ہے

(۲)کسی قوم کے لئے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ اس کا معصوم رہنما اس سے اس قدرعاجزآجائے کہ اس کے حق میں درپردہ بد دعا کرنے کے لئے تیار ہوجائے اور اسے دشمن کے ہاتھ فروخت کردینے پرآمادہ ہوجائے۔ اہل کوفہ کی بد بختی کی آخری منزل تھی کہ وہ اپنے معصوم رہنما کو بھی تحفظ فراہم نہ کر سکے اور ان کے درمیان ان کا ارہنما عین حالت سجدہ میں شہید کردیا گیا۔کوفہ کا قیاس مدینہ کے حالات پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔مدینہنے اپنے حاکم کا ساتھ نہیں دیا اس لئے کہ وہ خود اس کے حرکات سے عاجز تھے اور مسلسل احتجاج کر چکے تھے لیکن کوفہمیں ایسا کچھ نہیں تھا یا واضح لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے۔کہ مدینہ کے حکام کے قاتل اپنے عملپر مطمئن تھے اور انہیں کسی طرح کی شرمندگی کا احسان نہیں تھا لیکن کوفہ میں جب امیر المومنین نے اپنے قاتل سے دریافت کیا کہ کیا میں تیرا کوئی برا امام تھا؟تو اس نے برجستہ یہی جواب دیا کہ کہ آپ کسی جہنم میں جانے والے کو روک نہیں سکتے ہیں۔گویا مدینہ سے کوفہ تک کے حالات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مدینہ کے مقتول اپنے ظلم کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور کوفہ کا شہید اپنے عدل و انصاف کی بنیاد پر شہید ہوا ہے اورایسے ہی شہید کو یہ کہنے کا حق ہے کہ '' فزت و رب الکعبة '' ( پروردگار کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا)۔

۵۰

(۲۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف العرب قبل البعثة ثم يصف حاله قبل البيعة له

العرب قبل البعثة

إِنَّ اللَّه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نَذِيراً لِلْعَالَمِينَ - وأَمِيناً عَلَى التَّنْزِيلِ - وأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلَى شَرِّ دِينٍ وفِي شَرِّ دَارٍ - مُنِيخُونَ بَيْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وحَيَّاتٍ صُمٍّ تَشْرَبُونَ الْكَدِرَ وتَأْكُلُونَ الْجَشِبَ وتَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وتَقْطَعُونَ أَرْحَامَكُمْ - الأَصْنَامُ فِيكُمْ مَنْصُوبَةٌ والآثَامُ بِكُمْ مَعْصُوبَةٌ

ومنها صفته قبل البيعة له

فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي مُعِينٌ إِلَّا أَهْلُ بَيْتِي - فَضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ - وأَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى وشَرِبْتُ عَلَى الشَّجَا وصَبَرْتُ عَلَى أَخْذِ الْكَظَمِوعَلَى أَمَرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ.

ومنها:

ولَمْ يُبَايِعْ حَتَّى شَرَطَ أَنْ يُؤْتِيَه عَلَى الْبَيْعَةِ ثَمَناً

(۲۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں بعثت سے پہلے عرب کی حالت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اپنی بیعت سے پہلے کیے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے)

یقینا اللہ نے حضرت محمد (ص) کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اورتنزیل کا امانت دار بنا کر اس وقت بھیجا ہے جب تم گروہ عرب بد ترین دین کے مالک اور بد ترین علاقہ کے رہنے والے تھے۔نا ہموار پتھروں او زہریلے سانپوں کے درمیان بود باش رکھتے تھے۔گندہ پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کرتے تھے۔آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے۔بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے

(بیعت کے ہنگام)

میں نے دیکھا کہ سوائے میرے گھر والوں کے کوئی میرا مدد گار نہی ہے تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا اور اس حال میں چشم پوشی کی کہ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا۔میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پئے اور گلو گرفتگی اورخنطل سے زیادہ تلخ حالات پرصبر کیا۔

یاد رکھو ! عمرو عاص نے معاویہ کی بیعت اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ بیعت کی قیمت نہیں طے کرلی۔

۵۱

فَلَا ظَفِرَتْ يَدُ الْبَائِعِ وخَزِيَتْ أَمَانَةُ الْمُبْتَاعِ فَخُذُوا لِلْحَرْبِ أُهْبَتَهَا وأَعِدُّوا لَهَا عُدَّتَهَا - فَقَدْ شَبَّ لَظَاهَا وعَلَا سَنَاهَا واسْتَشْعِرُوا الصَّبْرَ فَإِنَّه أَدْعَى إِلَى النَّصْرِ.

(۲۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وقد قالها يستنهض بها الناس حين ورد خبر غزو الأنبار بجيش معاوية فلم ينهضوا. وفيها يذكر فضل الجهاد، ويستنهض الناس، ويذكر علمه بالحرب،ويلقي عليهم التبعة لعدم طاعته

خدا نے چاہا تو بیعت کرنے والے کا سودا کامیاب نہ ہوگا اور بیعت لینے والے کوبھی صرف رسوائی ہی نصیب ہوگی۔ لہٰذا اب جنگ کا سامان سنبھال لو اوراس کے اسباب مہیا کر لو کہ اس کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اورلپیٹیں بلندڈ ہو چکی ہیں اور دیکھوصبر کو اپنا شعاربنالو کہ یہ نصرت و کامرانی کا بہترین ذریعہ ہے۔

(۲۷)

(جو اس وقت ارشد فرمایا جب آپ کو خبر ملی کہ

معاویہ(۱) کے لشکرنے انبار پر حملہ کردیا ہے ۔اس خطبہ میں جہاد کی فضیلت کا ذکر کرکے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کیا گیا ہے اوراپنی جنگی مہارت کا تذکرہ کرکے نا فرمانی کی ذمہ داری لشکر والوں پر ڈالی گئی ہے)

(۱)معاویہ نے امیر المومنین کی خلافت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے پہلے صفین کا میدان کا رزار گرم کیا۔اس کے بعد ہر علاقہ میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑکائی تاکہ آپ کو ایک لمحہ کے لئے سکون نصیب نہ ہو سکے۔اور آپ اپنے نظام عدل و انصاف کو سکون کے ساتھ رائج نہ کرسکیں۔معاویہ کے انہیں حرکات میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ بنی غامد کے ایک شخص سفیان بن عوف کو چھ ہزار کا لشکردے کر روانہ کردیا کہ عراق کے مختلف علاقوں پر غارت کا کام شروع کرے۔چنانچہ اس نے انبار پر حملہ کردیا جہاں حضرت کا مختصر سا سرحدی حفاظتی دستہ تھا اور وہ اس لشکر سے مقابلہ نہ کرسکا صرف چند افراد ثابت قدم رہے۔باقی سب بھاگ کھڑے ہوئے اور اس کے بعد سفیان کا لشکر آبادی میں داخل ہوگیا اور بیحد لوٹ مچائی۔جس کی خبرنے حضرت کو بے چین کردیا اور آپ نے منبر پر آکر قوم کو غیرت دلائی لیکن کوئی لشکرتیارنہ ہو سکا جس کے بعد آپ خود روانہ ہوگئے اور اس صورت حال کو دیکھ کر چند افراد کو غیرت آگئی اور ایک لشکر سفیان کے مقابلہ کے لئے سعید بن قیس کی قیادت میں روانہ ہوگیا مگر اتفاق سے اس وقت سفیان کا لشکر واپس جا چکا تھا اوریہ لشکر جنگ کے بغیر واپس آگیا اور آپ نے ناسازی مزاج کے باوجود یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔بعض حضرت کا خیال ہے کہ یہ خطبہ کوفہ واپس آنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ مقابلہ نخیلہ ہی پر ارشاد فرمایا تھا بہر حال صورت واقعہ انتہائی افسوس ناک اور درد ناک تھی اور اسلام میں اس کی بیشمار مثالیں پائی جاتی ہیں۔

۵۲

فضل الجهاد

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ - فَتَحَه اللَّه لِخَاصَّةِ أَوْلِيَائِه وهُوَ لِبَاسُ التَّقْوَى - ودِرْعُ اللَّه الْحَصِينَةُ وجُنَّتُه الْوَثِيقَةُ - فَمَنْ تَرَكَه رَغْبَةً عَنْه أَلْبَسَه اللَّه ثَوْبَ الذُّلِّ وشَمِلَه الْبَلَاءُ - ودُيِّثَ بِالصَّغَارِ والْقَمَاءَةِ وضُرِبَ عَلَى قَلْبِه بِالإِسْهَابِ وأُدِيلَ الْحَقُّ مِنْه بِتَضْيِيعِ الْجِهَادِ - وسِيمَ الْخَسْفَ ومُنِعَ النَّصَفَ

استنهاض الناس

أَلَا وإِنِّي قَدْ دَعَوْتُكُمْ إِلَى قِتَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ - لَيْلًا ونَهَاراً وسِرّاً وإِعْلَاناً - وقُلْتُ لَكُمُ اغْزُوهُمْ قَبْلَ أَنْ يَغْزُوكُمْ - فَوَاللَّه مَا غُزِيَ قَوْمٌ قَطُّ فِي عُقْرِ دَارِهِمْ إِلَّا ذَلُّوا - فَتَوَاكَلْتُمْ وتَخَاذَلْتُمْ - حَتَّى شُنَّتْ عَلَيْكُمُ الْغَارَاتُ ومُلِكَتْ عَلَيْكُمُ الأَوْطَانُ - وهَذَا أَخُو غَامِدٍ [و] قَدْ وَرَدَتْ خَيْلُه الأَنْبَارَ وقَدْ قَتَلَ حَسَّانَ بْنَ حَسَّانَ الْبَكْرِيَّ - وأَزَالَ خَيْلَكُمْ عَنْ مَسَالِحِهَا

اما بعد! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے پروردگارنے اپنے مخصوص اولیاء کے لئے کھولا ہے۔یہ تقویٰ کا لباس اور اللہ کی محفوظ و مستحکم زرہ اور مضبوط سپرہے۔جس نے اعراض کرتے ہوئے نظر انداز کردیا اسے اللہ ذلت کا لباس پہنا دے گا اور اس پر مصیبت حاوی ہو جائے گی اور اسے ذلت و خواری کے ساتھ ٹھکرا دیا جائے گا اوراس کے دل پر غفلت کا پردہ ڈال دیا جائے گا اور جہاد کو ضائع کرنے کی بنا پر حق اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اسے ذلت برداشت کرناپڑے گی اور وہ انصاف سے محروم ہو جائے گا

آگاہ ہو جائو کہ میں نے تم لوگوں کواس قوم سے جہاد کرنے کے لئے دن میں پکارا اور رات میں آواز دی۔خفیہ طریقہ سے دعوت دی اور علی الاعلان آمادہ کیا اور برابر سمجھایاکہ ان کے حملہ کرنے سے پہلے تم میدان میں نکل آئو کہ خدا کی قسم جس قوم سے اس کے گھر کے اندر جنگ کی جاتی ہے اس کا حصہ ذلت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن تم نے ٹال مٹول کیا اورسستی کا مظاہرہ کیا۔یہاں تک کہ تم پر مسلسل حملے شروع ہوگئے اور تمہارے علاقوں پر قبضہ کرلیا گیا۔( دیکھو یہ بنی غامد کے آدمی ( سفیان بن عوف) کی فوج انبار میں داخل ہوگئی ہے اوراس نے حسان بن حسان بکری کو قتل کردیا ہے اور تمہارے سپاہیوں کوان کے مراکز سے نکال باہر کردیا ہے

۵۳

ولَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ كَانَ يَدْخُلُ - عَلَى الْمَرْأَةِ الْمُسْلِمَةِ والأُخْرَى الْمُعَاهِدَةِ فَيَنْتَزِعُ حِجْلَهَا وقُلُبَهَا وقَلَائِدَهَا ورُعُثَهَا مَا تَمْتَنِعُ مِنْه إِلَّا بِالِاسْتِرْجَاعِ والِاسْتِرْحَامِ ثُمَّ انْصَرَفُوا وَافِرِينَ مَا نَالَ رَجُلًا مِنْهُمْ كَلْمٌ ولَا أُرِيقَ لَهُمْ دَمٌ - فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً - مَا كَانَ بِه مَلُوماً بَلْ كَانَ بِه عِنْدِي جَدِيراً - فَيَا عَجَباً عَجَباً واللَّه يُمِيتُ الْقَلْبَ ويَجْلِبُ الْهَمَّ - مِنَ اجْتِمَاعِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عَلَى بَاطِلِهِمْ - وتَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ - فَقُبْحاً لَكُمْ وتَرَحاً حِينَ صِرْتُمْ غَرَضاً يُرْمَى - يُغَارُ عَلَيْكُمْ ولَا تُغِيرُونَ - وتُغْزَوْنَ ولَا تَغْزُونَ ويُعْصَى اللَّه وتَرْضَوْنَ - فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالسَّيْرِ إِلَيْهِمْ فِي أَيَّامِ الْحَرِّ - قُلْتُمْ هَذِه حَمَارَّةُ الْقَيْظِ أَمْهِلْنَا يُسَبَّخْ عَنَّا الْحَرُّ وإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِالسَّيْرِ إِلَيْهِمْ فِي الشِّتَاءِ - قُلْتُمْ هَذِه صَبَارَّةُ الْقُرِّ أَمْهِلْنَا يَنْسَلِخْ عَنَّا الْبَرْدُ - كُلُّ هَذَا فِرَاراً مِنَ الْحَرِّ والْقُرِّ - فَإِذَا كُنْتُمْ مِنَ الْحَرِّ والْقُرِّ تَفِرُّونَ - فَأَنْتُمْ واللَّه مِنَ السَّيْفِ أَفَرُّ!

اورمجھے تو یہاں تک خبر ملی ہے کہ دشمن کا ایک ایک سپاہی مسلمان یا مسلمانوں کے معاہدہ میں رہنے والی عورت کے پاس وارد ہوتا تھااوراس کے پیروں کےکڑے ' ہاتھ کے کنگن 'گلے کے گلو بند اور کان کے گوشوارے اتار لیتا تھا اور وہ سوائے انا للہ پڑھنے اور رحم و کرم کی درخواست کرنے کے کچھ نہیں کر سکتی تھی اور وہ سارا سازو سامان لے کر چلا جاتاتھا نہ کوئی زخز کھاتا تھا اور نہ کسی طرح کا خون بہتا تھا۔اس صورت حال کے بعداگر کوئی مرد مسلمان صدمہ سے مربھی جائے توقابل ملامت نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک حق بجانب ہے کس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز صورت حال ہے۔خدا کی قسم یہ بات دل کوہ مردہ بنا دینے والی اور ہم و غم کو سیمٹنے والی ہے کہ یہ لوگ اپنے باطل پرمجتمع اورمتحد ہیں اور تم اپنے حق پر بھی متحد نہیں ہو۔تمہارا برا ہو کیا افسوسناک حال ہے تمہارا۔کہ تم تیر اندازوں کا مستقل نشانہ بن گئے ہو۔تم پر حملہ کیا جارہا ہے اور تم حملہ نہیں کرتے ہوتم سے جنگ کی جا رہی ہے اور تم باہرنہیں نکلتے ہو۔لوگ خدا کی نا فرمانی کر رہے ہیں اورتم اس صورت حال سے خوش ہو۔میں تمہیں گرمی میں جہاد کے لئے نکلنے کی دعوت دیتا ہ وں تو کہتے ہو کہ شدیدگرمی ہے۔تھوڑی مہلت دیجئے کہ گرمی گزرجائے۔اس کے بعد سردی میں بلاتا ہوں تو کہتے ہو سخت جاڑا پڑ رہا ہے ذراٹھہر جائیےکہ سردی ختم ہوجائے حالانکہ یہ سب جنگ سےفرارکرنے کے بہانے ہیں ورنہ جو قوم سردی اورگرمی سےفرارکرتی ہووہ تلواروں سےکس قدر فرار کرے گی۔

۵۴

البرم بالناس

يَا أَشْبَاه الرِّجَالِ ولَا رِجَالَ - حُلُومُ الأَطْفَالِ وعُقُولُ رَبَّاتِ الْحِجَالِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَرَكُمْ ولَمْ أَعْرِفْكُمْ مَعْرِفَةً - واللَّه جَرَّتْ نَدَماً وأَعْقَبَتْ سَدَماً

قَاتَلَكُمُ اللَّه لَقَدْ مَلأْتُمْ قَلْبِي قَيْحاً وشَحَنْتُمْ صَدْرِي غَيْظاً - وجَرَّعْتُمُونِي نُغَبَ التَّهْمَامِ أَنْفَاساً وأَفْسَدْتُمْ عَلَيَّ رَأْيِي بِالْعِصْيَانِ والْخِذْلَانِ - حَتَّى لَقَدْ قَالَتْ قُرَيْشٌ إِنَّ ابْنَ أَبِيطَالِبٍ رَجُلٌ شُجَاعٌ ولَكِنْ لَا عِلْمَ لَه بِالْحَرْبِ.

لِلَّه أَبُوهُمْ - وهَلْ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَشَدُّ لَهَا مِرَاساً وأَقْدَمُ فِيهَا مَقَاماً مِنِّي - لَقَدْ نَهَضْتُ فِيهَا ومَا بَلَغْتُ الْعِشْرِينَ - وهَا أَنَا ذَا قَدْ ذَرَّفْتُ عَلَى السِّتِّينَ ولَكِنْ لَا رَأْيَ لِمَنْ لَا يُطَاعُ!

اے مردوں کی شکل و صورت والواور واقعا نا مردو! تمہاری فکریں بچوں جیسی اور عقلیں حجلہ نشین عورتوں جیسی ہیں۔میری دلی خواہش تھی کہ کاش میں تمہیں نہ دیکھتا(۱) اورتم سے متعارف نہ ہوتا۔جس کا نتیجہ صرف ندامت اور رنج و افسوس ہے۔ اللہ تمہیں غارت کردے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینہ کورنج و غم سے چھلکا دیا ہے۔تم نے ہرسانس میں ہم و غم کے گھونٹ پلائے ہیں اور اپنی نا فرمانی اور سرکشی سے میری رائے کوبھی بیکار وبے اثر بنادیا ہے یہاں تک کہ اب قریش والے یہ کہنے لگے ہیں کہ فرزند ابو طالب بہادرتو ہیں لیکن انہیں فنون جنگ کا علم نہیں ہے۔

اللہ ان کا بھلا کرے۔کیا ان میں کوئی بھی ایسا ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہو اور مجھ سے پہلے سے کوئی مقام رکھتا ہو۔میں نے جہاد کے لئے اس وقت قیام کیا ہے جب میری عمر۲۰ سال بھی نہیں تھی اور اب تو۶۰ سے زیادہ ہو چکی ہے۔لیکن کیا کیا جائے۔جس کی اطاعت نہیں کی جاتی ہے اس کی رائے کوئی رائے نہیں ہوتی ہے۔

(۱) کسی قوم کی ذلت و رسوائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا سز براہ حضرت علی بن ابی طالب جیسا انسان ہو اور وہ ان سے اس قدر بد دل ہو کہ ان کی شکلوں کو دیکھنابھی گوارہ نہ کرتا ہو۔ایسی قوم دنیا میں زندہ رہنے کے قابل نہیں ہے اورآخرت میں بھی اس کا انجام جہنم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس مقام پر مولائے کائنات نے ایک اورنکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ تمہاری ناف رمانی اور سر کشی نے میری رائے کوبھی برباد کردیا ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ راہنما اور سر براہ کسی قدر بھی ذکی اور عبقری کیوں نہ ہو اگر قوم اس کی اطاعت سے انکار کردے تو نافہم انسان یہی خیال کرتا ہے کہ شاید یہ رائے اورحکم قابل اطاعت نہ تھا اسی لئے قوم نے اسے نظر انداز کردیا ہے۔خصوصیت کے ساتھ اگر کام ہی اجتماعی ہو تو اجتماع کا انحراف کام کوبھی معطل کر دیتا ہے اور اس کے نتائج بہر حال نا مناسب اورغلط ہوتے ہیں جس کاتجربہ مولائے کائنات کے سامنے آیا کہ قوم نے آپ کے حکم کے مطابق جہاد کرنے سے انکار کردیا اور گرمی و سردی کے بہانے بنانا شروع کردئیے اور اس کے نتیجہ میں دشمنوں ے یہ کہنا شروع کردیا کہ علی فنون جنگ سے با خبر نہیں ہیں حالانکہ علی سے زیادہ اسلام میں کوئی ماہر جنگ و جہاد نہیں تھا جس نے اپنی ساری زندگی اسلامی مجاہدات کے میدانوں میں گزاری تھی اور مسلسل تیغ آزمائی کا ثبوت دیا تھا اور جس کی طرف خود آپ نے بھی اشارہ فرمایا ہے اور اپنی تاریخ حیات کو اس کا گواہ قرار دیا ہے۔

۵۵

(۲۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهو فصل من الخطبة التي أولها «الحمد للَّه غير مقنوط من رحمته» وفيه أحد عشر تنبيها

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا أَدْبَرَتْ وآذَنَتْ بِوَدَاعٍ - وإِنَّ الآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ وأَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ أَلَا وإِنَّ الْيَوْمَ الْمِضْمَارَ وغَداً السِّبَاقَ - والسَّبَقَةُ الْجَنَّةُ والْغَايَةُ النَّارُ - أَفَلَا تَائِبٌ مِنْ خَطِيئَتِه قَبْلَ مَنِيَّتِه أَلَا عَامِلٌ لِنَفْسِه قَبْلَ يَوْمِ بُؤْسِه أَلَا وإِنَّكُمْ فِي أَيَّامِ أَمَلٍ مِنْ وَرَائِه أَجَلٌ - فَمَنْ عَمِلَ فِي أَيَّامِ أَمَلِه قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِه - فَقَدْ نَفَعَه عَمَلُه ولَمْ يَضْرُرْه أَجَلُه - ومَنْ قَصَّرَ فِي أَيَّامِ أَمَلِه قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِه - فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُه وضَرَّه أَجَلُه –

أَلَا فَاعْمَلُوا فِي الرَّغْبَةِ كَمَا تَعْمَلُونَ فِي الرَّهْبَةِ

(۲۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو اس خطبہ کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کاآغاز'' الحمد للہ غیر مقنوط من رحمة '' سے ہوا ہے اور اس میں گیارہ تنبیہات ہیں)

اما بعد!یہ دنیا پیٹھ پھیر چکی ہے اور اس نے اپنے وداع کا اعلان کردیا ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے اور اس کے آثارنمایاں ہوگئے ہیں۔یاد رکھو کہ آج میدان عمل ہے اور کل مقابلہ ہوگا جہاں سبقت کرنے والے کا انعام جنت ہوگا اوربدعمل کا انجام جہنم ہوگا۔کیا اب بھی کوئی ایسا نہیں ہے جو موت سے پہلے خطائوں سے توبہ کرلے اور سختی کے دن سے پہلے اپنے نفس کے لئے عمل کرلے۔یاد رکھو کہ تم آج امیدوں کے دنوں میں ہو جس کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے تو جس شخص نے امید کے دنوں میں موت آنے سے پہلے عمل کرلیا اسے اس کا عمل یقینا فائدہ پہنچائے گا اور موت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی لیکن جس نے موت سے پہلے امید کے دنوں میں عمل نہیں کیا اس نے عمل کی منزل میں گھاٹا اٹھایا اور اس کی موت بھی نقصان دہ ہوگی۔

آگاہ ہو جائو۔تم لوگ راحت کے حالات میں اسی طرح عمل کرو جس طرح خوف کے عالم میں کرتے ہو

۵۶

أَلَا وإِنِّي لَمْ أَرَ كَالْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا ولَا كَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا - أَلَا وإِنَّه مَنْ لَا يَنْفَعُه الْحَقُّ يَضُرُّه الْبَاطِلُ - ومَنْ لَا يَسْتَقِيمُ بِه الْهُدَى يَجُرُّ بِه الضَّلَالُ إِلَى الرَّدَى - أَلَا وإِنَّكُمْ قَدْ أُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ ودُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ - وإِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَتَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وطُولُ الأَمَلِ - فَتَزَوَّدُوا فِي الدُّنْيَا مِنَ الدُّنْيَا - مَا تَحْرُزُونَ بِه أَنْفُسَكُمْ غَداً.

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه وأقول إنه لو كان كلام يأخذ بالأعناق - إلى الزهد في الدنيا - ويضطر إلى عمل الآخرة - لكان هذا الكلام - وكفى به قاطعا لعلائق الآمال - وقادحا زناد الاتعاظ والازدجار -

کہ میں(۱) نے جنت جیسا کوئی مطلوب نہیں دیکھا ہے جس کے طلب گار سب سو رہے ہیں اور جہنم جیسا کوئی خطرہ نہیں دیکھا جس سے بھاگنے والے سب خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔یاد رکھو کہ جسے حق فائدہ پہنچا سکے گا اسے باطل ضرور نقصان پہنچائے گا اور جسے ہدایت سیدھے راستہ پر نہ لا سکے گی اسے گمراہی بہر حال کھینچ کر ہلاکت تک پہنچادے گی۔ آگاہ ہو جائو کہ تمہیں کوچ کا حکم مل چکا ہے اور تمہیں زاد سفر بھی بتایا جا چکا ہے اور تمہارے لئے سب سے بڑا خوفناک خطرہ دو چیزوں کا ہے۔خواہشات کا اتباع اور امیدوں کا طولانی ہونا۔لہٰذا جب تک دنیا میں ہواس دنیا سے وہ زاد راہ حاصل کرلو جس کے ذریعہ کل اپنے نفس کا تحفظ کرسکو۔

سید رضی : اگر کوئی ایسا کلام ہو سکتا ہے جو انسان کی گردن پکڑ کر اسے زہد کی منزل تک پہنچا دے اور اسے عمل آخرت پر مجبور کردے تو وہ یہی کلام ہے۔یہ کلام دنیا کی امیدوں کے قطع کرنے اوروعظ و نصیحت قبول کرنے کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے کافی ہوتا ۔

(۱)زمانہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ شائد اس دنیا کی اس سے بڑی کوئی حقیقت اورصداقت نہیں ہے۔جس شخص سے پوچھئے وہ جنت کا مشتاق ہے اور جس شخص کو دیکھئے وہ جہنم کے نام سے پناہ مانگتا ہے۔لیکن منزل عمل میں دونوں اس طرح سو رہے ہیں جیسے کہ یہ معشوق از خودگھر آنے والا ہے اور یہ خطرہ از خودٹل جانے والاہے۔نہ جنت کے عاشق جنت کے لئے کوئی عمل کر رہے ہیں اور نہ جہنم سے خوفزدہ اس سے بچنے کا انتظام کر رہے ہیں بلکہ دونوں کاخیال یہ ہے کہ مذہب میں کچھ افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس بات کا ٹھیکہ لے لیا ہے کہ وہ جنت کا انتظام بھی کریں گے اور جہنم سے بچانے کا بندوبست بھی کریں گے اور اس سلسلہ میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔حالانکہ دنیا کے چند روز معشوق کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہیں۔یہاں کوئی دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتا ہے۔دولت کے لئے سب خود دوڑتے ہیں۔شہرت کے لئے سب خود مرتے ہیں۔عورت کے لئے سب خود دیوانے بنتے ہیں۔عہدہ کے لئے سب خود راتوں کی نیند حرام کرتے ہیں۔خدا جانے یہ ابدی معشوق جنت جیسا محبوب ہے جس کا معاملہ دوسروں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا جاتا ہے اور انسان غفلت کی نیند سو جاتا ہے۔کاش یہ انسان واقعاً مشتاق اور خوفزدہ ہوتا تو یقینا اس کا یہ کردار نہ ہوتا۔''فاعتبروا یا اولی الا بصار''

۵۷

ومن أعجبه قولهعليه‌السلام - ألا وإن اليوم المضمار وغدا السباق - والسبقة الجنة والغاية النار - فإن فيه مع فخامة اللفظ وعظم قدر المعنى - وصادق التمثيل وواقع التشبيه - سرا عجيبا ومعنى لطيفا - وهو قولهعليه‌السلام والسبقة الجنة والغاية النار - فخالف بين اللفظين لاختلاف المعنيين - ولم يقل السبقة النار - كما قال السبقة الجنة - لأن الاستباق إنما يكون إلى أمر محبوب - وغرض مطلوب - وهذه صفة الجنة - وليس هذا المعنى موجودا في النار - نعوذ بالله منها فلم يجز أن يقول - والسبقة النار بل قال والغاية النار - لأن الغاية قد ينتهي إليها من لا يسره الانتهاء إليها - ومن يسره ذلك فصلح أن يعبر بها عن الأمرين معا - فهي في هذا الموضع كالمصير والمآل - قال الله تعالى:( قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ ) - ولا يجوز في هذا الموضع أن يقال - سبْقتكم بسكون الباء إلى النار - فتأمل ذلك فباطنه عجيب وغوره بعيد لطيف - وكذلك أكثر كلامهعليه‌السلام - وفي بعض النسخ - وقد جاء في رواية أخرى والسُّبْقة الجنة بضم السين - والسبقة عندهم اسم لما يجعل للسابق -

خصوصیت کے ساتھ حضرت کا یہ ارشاد کہ''آج میدان عمل ہے اور کل مقابلہ۔اس کے بعد منزل مقصود جنت ہے اور انجام جہنم۔اس میں الفاظ کی عظمت ' معانی کی قدر و منزلت تمثیل کی صداقت اور تشبیہ کی واقعیت کے ساتھ وہ عجیب و غریب رازنجات اورلطافت مفہوم ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ۔پھر حضرت نے جنت و جہنم کے بارے میں ''سبقہ'' اور ''غایتہ'' کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں صرف لفظی اختلاف نہیں ہے بلکہ واقعاً معنوی افتراق وامتیاز پایا جاتا ہے کہ نہ جہنم کو سبقہ ( منزل) کہاجا سکتا ہے اور نہ جنت کو غایة (انجام) جہاں تک انسان خود بخودپہنچ جائے گا بلکہ جنت کے لئے دوڑ دھوپ کرنا ہوگی جس کے بعد انعام ملنے والا ہے اور جہنم بدعملی کے نتیجہ میں خودبخود سامنے آجائے گا۔اس کے لئے کسی اشتیاق اورمحنت کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر آپ نے جہنم کو غایتہ قرار دیا ہے جس طرح کہ قرآن مجید نے اسے ''مصیر '' سے تعبیر کیا ہے۔ ''فان مصیر کم الی النار ''حقیقتاً اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا باطن انتہائی عجیب و غریب اور اس کی گہرائی انتہائی لطیف ہے اوریہ تنہا اس کلام کی بات نہیں ہے۔حضرت کے کلمات میں عام طور سے یہی بلاغت پائی جاتی ہے اور اس کے معانی میں اسی طرح کی لطافت اور گہرائی نظر آتی ہے۔بعض روایات میں جنت کے لئے سبقتہ کے بجائے سبقتہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی انعام کے ہیں

۵۸

إذا سبق من مال أو عرض - والمعنيان متقاربان - لأن ذلك لا يكون جزاء على فعل الأمر المذموم - وإنما يكون جزاء على فعل الأمر المحمود.

(۲۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد غارة الضحاك بن قيس صاحب معاوية على الحاجّ بعد قصة الحكمين

وفيها يستنهض أصحابه لما حدث في الأطراف

أَيُّهَا النَّاسُ الْمُجْتَمِعَةُ أَبْدَانُهُمْ - الْمُخْتَلِفَةُ أَهْوَاؤُهُمْ كَلَامُكُمْ يُوهِي الصُّمَّ الصِّلَابَ وفِعْلُكُمْ يُطْمِعُ فِيكُمُ الأَعْدَاءَ – تَقُولُونَ فِي الْمَجَالِسِ كَيْتَ وكَيْتَ فَإِذَا جَاءَ الْقِتَالُ قُلْتُمْ حِيدِي حَيَادِ مَا عَزَّتْ دَعْوَةُ مَنْ دَعَاكُمْ - ولَا اسْتَرَاحَ قَلْبُ مَنْ قَاسَاكُمْ - أَعَالِيلُ بِأَضَالِيلَ وسَأَلْتُمُونِي التَّطْوِيلَ دِفَاعَ ذِي الدَّيْنِ الْمَطُولِ لَا يَمْنَعُ الضَّيْمَ الذَّلِيلُ - ولَا يُدْرَكُ الْحَقُّ إِلَّا بِالْجِدِّ

اور کھلی ہوئی بات ہے کہ انعام بھی کسی مذموم عمل پر نہیں ملتا ہے بلکہ اس کا تعلق بھی قابل تعریف اعمال ہی سے ہوتا ہے لہٰذا عمل بہر حال ضروری ہے اور عمل کا قابل تعریف ہونا بھی لازمی ہے۔

(۲۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب تحکیم کے بعد معاویہ (۱) کے سپاہی ضحاک بن قیس نے حجاج کے قابلہ پر حملہ کردیا اور حضرت کواس کی خبر دی گئی تو آپ نے لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

اے وہ لوگو!جن کے جسم ایک جگہ پر ہیں اور خواہشات الگ الگ ہیں۔تمہارا کلام تو سخت ترین پتھر کوبھی نرم کر سکتا ہے لیکن تمہارے حرکات دشمنوں کوبھی تمہارے بارے میں پرامید بنا دیتے ہیں۔تم محفلوں میں بیٹھ کر ایسی ایسی باتیں کرتے ہو کہ خدا کی پناہ لیکن جب جنگ کا نقشہ کرے گا اس کے دل کوکبھی سکون نہ ملے گا۔تمہارے پاس صرف بہانے ہیں اور غلط سلط حوالے اورپھر مجھ سے تاخیر جنگ کی فرمائش جیسے کوئی نا دہندہ قرض کوٹالنا چاہتا ہے۔یاد رکھو ذلیل آدمی ذلت کو نہیں روک سکتا ہے اورحق محنت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتاہے۔

(۱)معاویہ کا ایک مستقل مقصد یہ بھی تھا کہ امیر المومنین کسی آن چین سے نہ بیٹھنے پائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ واقعی اسلام قوم کے سامنے پیش کردیں اور اموی افکار کا جنازہ نکل جائے۔اس لئے وہ مسلسل ریشہ دوانیوں میں لگا رہتا تھا۔آخر ایک مرتبہ ضحاک بن قیس کوچارہزار کالشکر دے کر روانہ کردیا اور اس نے سارے علاقہ میں کشت و خون شروع کردیا۔آپ نے منبرپرآکرقوم کو غیرت دلائی لیکن کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔اور لوگ جنگ سے کنارہ کشی کرتے رہے۔یہاں تک کہ حجربن عدی چار ہزار سپاہیوں کو لے کرنکل پڑے اور مقام تدمر پردونوں کا سامنا ہوگیا لیکن معاویہ کا لشکربھاگ کھڑا ہوا اورصرف ۱۹ افراد معاویہ کے کام آئے جب کہ حجر کے سپاہیوں میں دو افراد نے جام شہادت نوش فرمایا۔

۵۹

أَيَّ دَارٍ بَعْدَ دَارِكُمْ تَمْنَعُونَ - ومَعَ أَيِّ إِمَامٍ بَعْدِي تُقَاتِلُونَ - الْمَغْرُورُ واللَّه مَنْ غَرَرْتُمُوه - ومَنْ فَازَ بِكُمْ فَقَدْ فَازَ واللَّه بِالسَّهْمِ الأَخْيَبِ ومَنْ رَمَى بِكُمْ فَقَدْ رَمَى بِأَفْوَقَ نَاصِلٍ أَصْبَحْتُ واللَّه لَا أُصَدِّقُ قَوْلَكُمْ - ولَا أَطْمَعُ فِي نَصْرِكُمْ - ولَا أُوعِدُ الْعَدُوَّ بِكُمْ - مَا بَالُكُمْ مَا دَوَاؤُكُمْ مَا طِبُّكُمْ - الْقَوْمُ رِجَالٌ أَمْثَالُكُمْ - أَقَوْلًا بِغَيْرِ عِلْمٍ - وغَفْلةً مِنْ غَيْرِ وَرَعٍ - وطَمَعاً فِي غَيْرِ حَقٍّ!؟

(۳۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى قتل عثمان

وهو حكم له على عثمان وعليه وعلى الناس بما فعلوا وبراءة له من دمه

لَوْ أَمَرْتُ بِه لَكُنْتُ قَاتِلًا

تم جب اپنے گھر کا دفاع نہ کر سکوگے تو کس کے گھر کا دفاع کروگے اور جب میرے ساتھ جہاد نہ کروگے تو کس کے ساتھ جہاد کروگے۔خدا کی قسم وہ فریب خوردہ ہے جو تمہارے دھوکہ میں آجائے اور جو تمہارے سہارے کامیابی چاہے گا اسے صرف نا کامی کا تیر ہاتھ آئے گا۔اور جس نے تمہارے ذریعہ تیر پھینکا اس نے وہ تیر پھینکا جس کا پیکان ٹوٹ چکا ہے اور سو فار ختم ہو چکا ہے۔خدا کی قسم میں ان حالات میں نہ تمہارے قول کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی امیدرکھتا ہوں اور نہ تمہارے ذریعہ کسی دشمن کو تہدید کر سکتا ہوں۔آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تمہاری دوا کیا ہے؟ تمہارا علاج کیا ہے؟ آخر وہ لوگ بھی تو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں ۔یہ بغیر علم کی باتیں کب تک اوریہ بغیر تقویٰ کی غفلت تابکے اوربغیر حق کے بلندی کی خواہش کہاں تک؟

(۳۰)

آپ کا ارشاد گرامی

قتل عثمان کی حقیقت کے بارے میں

یاد رکھواگر میں نے اس قتل(۱) کاحکم دیا ہوتا تو یقینا میں قاتل ہوتا

(۱)یہ تاریخ کا مسلمہ ہے کہ عثمان نے سارے ملک پر بنی امیہ کا اقتدار قائم کردیا تھا اوربیت المال کو بے تحاشہ اپنے خاندان والوں کے حوالے کردیا تھا جس کی فریاد پورے عالم اسلام میں شروع ہوگئی تھی اور کوفہ اور مصر تک کے لوگ فریاد لے کر آگئے تھے۔امیر المومنین نے درمیان میں پڑ کر مصالحت کرائی اوریہ طے ہوگیا کہ مدینہ کے حالات کی ضروری اصلاح کی جائے اور مصر کا حاکم محمدبن ابی بکر کو بنادیا جائے ۔لیکن مخالفین کے جانے کے بعد عثمان نے ہر بات کا انکار کردیا اور والی مصر کے نام محمدبن ابی بکر کے قتل کا فرمان بھیج دیا۔خط راستہ میں پکڑ لیا گیا اور اب جو لوگوں نے واپس آکر مدینہ والوں کو حالات سے آگاہ کیا تو توبہ کا امکان بھی ختم ہوگیا اورچاروں طرف سے محاصرہ ہوگیا۔اب امیر المومنین کی مداخلت کے امکانات بھی ختم ہوگئے تھے۔اوربالآخر عثمان کو اپنے اعمال اور بنی امیہ کی اقرباء نوازی کی سزا برداشت کرنا پڑی اور پھر کوئی مروان یا معاویہ کام نہیں آیا۔

۶۰