نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657054 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کے خاتمے پر مذہب شیعہ کی حقیقت اس پر ظاہر اور روشن ہوگئی اور اس نے مذہب حقہ امامیہ اختیار کر لیا۔ اور تمام بلاد ایران میں شیعہ مذہب کی آزادی کا اعلان نافذ کردیا ۔ اور اسی وقت سے سارے حکام اور ولایتوں کے گورنروں کو اطلاع دے دی کہ ساری مسجدوں اور مجمعوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نام کا خطبہ پڑھیں اور حکم دیا کہ دیناروں پر تین متوازی سطروں میں کلمہ طیبہ" لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ" کو سکہ نقش کیا جائے۔

جناب علامہ حلی کو جنہیں ایک اختلافی مسئلہ حل کرنے کے لیے جلہ سے بلوایا تھا ( اور اسی کی بنا پر اس جلسے میں مناظرہ کا دروازہ کھل گیا ۔ اور تشیع کی حقیقت ظاہر ہوئی) اپنے پاس ٹھہرا لیا آپ کے لیے مدرسہ سیارہ تعمیر کرایا اور طالبان علوم آپ کے گرد جمع ہوگئے چونکہ آپ بلا تقیہ اور کھلم کھلا حقائق کو بیان فرماتے تھے لہذا بے خبر لوگوں نے بھی طریقہ حقہ امامیہ کا پتہ لگا لیا، ولایت کا آفتاب درخشان ابر خفا سے باہر آگیا اور اسی زمانے سے مذہب حقہ، شیعہ کی روشنی جہالت و نادانی کا پردہ چاک کر کے ظاہر اور نمایاں ہوئی۔

تقریبا سات سو سال کے بعد با اقتدار صفوی بادشاہوں کی حمایت اور اس زمانے کی مکمل تبلیغات کے اثر سے باطل تیرہ و تار بادل بالکل چھٹ گئے اور ولایت و امامت کا آفتاب عالمگیر ضیا پاشی کرنے لگا۔

چنانچہ ایرانی اگر چہ ایک روز مجوسی اور دو خداؤں ( یزادن و اہرمن) کے معتقد تھے لیکن جس وقت سے انہوں نے اہل اسلام کے عقلی دلائل و براہین کو سنا ان کو دل و جان سے قبول کیا اور اب تک پورے خلوص کے ساتھ اپنے اسلامی عقیدے پر ثابت قدم ہیں۔

اگر ایرانیوں میں چند افراد ایسے پیدا ہوجائیں جو مجوسی ہوں یا کسی طریقے کے پابند نہ ہوں یا غلات کے سلسلے میں شامل ہوکر حضرت علی(ع) کو ان کی منزل سے بلند کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیں اور ان کو بندوں کا خالق و رازق سمجھنے لگیں ۔، حلول و اتحاد اور وحدت وجود کے قائل ہوں تو اس کو پاک نفس ایرانیوں کی اصل جماعت اور اکثریت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس طرح کے غیر مناسب اور بے عقل و خرد افراد ہر قوم و ملت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شریف و عقلمند ایرانی قوم کی اکثریت وحدانیت حق تعالی اور نبوت خاتم الانبیاء پر مضبوط عقیدے سے اور ایمان کی حامل ہے۔ اور رسول اﷲ(ص) کے حسب الحکم سب امیرالمومنین علیہ السلام اور ان حضرت کے گیارہ فرزندوں کے پیرو ہیں۔

حافظ : آپ کے ایسے حجازی ، مکی اور مدنی بزرگ سے تعجب ہے کہ چند روز کے لیے ایران میں قیام کر لیا تو ایرانیوں کی اس قدر طرفداری کررہے ہیں۔ اور ان کو علی کرم اﷲ وجہ ، کا پیرو سمجھتے ہیں باوجودیکہ علی (ع) خود خدائے تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے لیکن ایرانی شیعہ سب کےسب آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور

۴۱

خدا سے جدا نہیں جانتے اور اپنے اشعار میں آپ کو بمنزلہ حق بلکہ عین حق قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ان کے دلوں اور مکتوبات میں ا س طرح کی کفریات واضح طور پر موجود ہیں کیا ۔ اس قسم کے اشعار ایرانی شیعہ عارفین سے وارد نہیں ہیں جنہیں علی کرم اﷲ وجہ کی زبان سے نقل کرتے ہیں ۔ ( حالانکہ علی(ع) قطعا اس قسم کے عقیدے سے بیزار ہیں۔)

من طلسم عیب و کنز لاستم چون بہ کنیز لارسی الاستم

یعنی از اﷲ ولا بالا ستم نقطہ ام بار بار گویا ستم

کثرت تاترات پندارت کند

مظہر کل عجائب کیست من مظہر سرِ غرائب کیست من

صاحب عون نواسب کیست من در حقیقت ذاب واجب کیست من

ایک دوسرے شخص نے کہا ہے۔

در مذہب عارفان آگاہ ( گمراہ) اﷲ علی، علی است اﷲ

خیر طلب : آپ سے تعجب ہے کہ بغیر تحقیق کے قوم ایرانی شیعوں کو غالی اور علی پرست سمجھتے ہیں اور اس قسم کی باتوں سے بے خبر سنی بھائیوں کے سامنے معاملے کو شبہ کر کے برادر کشی کا دروازہ کھولتے ہیں ، چنانچہ افغانستان ، ہندوستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ میں اس قدر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کہ خون کے دھارے بہہ گئے۔

ازبکستان اور ترکستان کے مسلمان اپنے علماء کے بھڑکانے سے کہتے تھے کہ شیعہ علی پرست مشرک اور کافر ہیں اور ان کا قتل واجب ہے ان سبھوں نے ایرانی مسلمانوں کا اس کثرت سے خون بہایا کہ تاریخ کے صفحات کو داغدار بنا دیا۔

بے چارے سنی عوام آپ کے ایسے بزرگ علماء کی رہنمائی میں ایرانی مسلمانوں کو نگاہ کینہ بلکہ کفر و شرک اور ارتداد کے خیالی سے دیکھتے ہیں۔

گذشتہ زبانوں میں ترکمان لوگ خراسان کے راستے میں سر راہ ایرانی قافلوں کو گرفتار کر کے قتل و غارت میں مشغول ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص سات عدد رافضیوں ( شیعوں ) کو قتل کردے اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔

قطعی طور پر جان لیجئے کہ اس طرح کے افعال اور قتل عام کی جواب دہی آپ ہی جیسے حضرات کے ذمے ہے جو ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شیعہ علی(ع) پرست مشرک اور کافر ہیں اور بے خبر عقیدت مند سنی عوام

۴۲

اس کو قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ لہذا بقصد ثواب اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا

پہلے میں آپ کے جملہ اول کا جواب عرض کرتا ہوں تاکہ ہم لوگ اصل مطلب تک پہنچیں۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ تم حجازی ، مکی اور مدنی ہو کر ایرانی بھائیوں کی طرفداری کس لیے کرتے ہو؟ تو یہ بدیہی بات ہے کہ مجھ کو اپنے مکی مدنی اور محمدی ہونے پر فخر ہے لیکن نسلی تعصب جو جہالت اور نادانی کے آثار میں سے ہے میں اپنے دل مین نہیں رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ میرے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے باوجودیکہ ہر ملت کی قومیت اور وطنیت کی حفاظت ملحوظ رکھی ہے۔ اور جملہ حب الوطن من الایمان کے ساتھ ہر قوم و ملت کو محب وطن کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن آں حضرت (ص) نے النافوں کے اتحاد اور ہر فرد بشر کے دل سے ہر طرح کے بیہودہ خیالات دور کرنے کے لیے جو بڑے قدم اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کو کلی طور پر جڑ سے کاٹ دیا اور ایک بلند اور موثر آواز کے ساتھ دنیا والوں کو اپنے اس اعلان کی طرف متوجہ فرمایا کہ

"لافخر للعرب علی العجم ولا للعجم علی العرب ولا للابيض علی الاسود ولا للاسود علی الابيض الا بالعلم و التقی ۔" (1)

اور نیز اس لیے کہ عالم اور متقی اشخاص کو اشتباہ نہ پیدا ہوجائے کہ آں حضرت (ص) کے ارشاد سے سند لے کر تواضع اور خاکساری سے ہٹ جائیں اور دوسروں پر کبر و خودی کا اظہار کرنے لگیں فرمایا ۔

" انا من العرب ولا فخروا فاسيد ولد الآدم ولا فخر ۔ " (2)

نتیجہ کلام یہ کہ میں باوجودیکہ عرب اور سید آدم ہوں لیکن اس نسل اور منزلت سے دوسروں پر کوئی فخر و مباہات نہیں کرتا۔

پیغمبر(ص) کا فخر صرف اس بات پر تھا کہ پروردگار کے اطاعت گذار بندے ہیں۔ آں حضرت(ص) مقام مناجات میں عرض کرتے تھے۔

" کفی بی فخرا ان اکون لک عبدا " یعنی میرے لیے یہی فخر ومباہات کافی ہے کہ تجھ ایسے پروردگار کا بندہ ہوں۔

خدا تعالی سورہ نمبر49 ( حجرات) آیت نمبر13 میں ارشاد فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر ، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فخر و مباہات نہیں ہے سوا علم و تقوی کے۔

2 ـ میں قوم عرب سے ہوں لیکن ان پر فخر نہیں کرتا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ لیکن اس پر فخر نہیں کرتا ہوں۔

۴۳

" يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ " (الحجرات، 13) (1)

اس نے فضل و شرف اور بزرگی تقوی میں قرار دی ہے۔ نیز اسی سورے کے آیت نمبر 10 میں فرمایا ہے:

" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "( الحجرات ، 10)

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا ہمیشہ اپنے ایمانی بھائیوں کے درمیان اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو صلح کرا دیا کرو ) چنانچہ ایشائی ، افریقی، یورپی اور امریکی سفید و سیاہ ، سرخ و زرد شہرستانی اور کوہستانی نسلوں کے جملہ افراد لوائے اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے ماتحت آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی فخر و مباہات نہیں رکھتے۔

اسلام کے عظیم المرتب قائد حضرت خاتم الانبیاء نے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے عجم سے سلمان فارسی کو روم سے صہیب رومی کو اور حبش سے بلال سیاہ کو اپنے آغوش محبت میں قبول فرمایا لیکن اپنے شریف النسل چچا ابولہب کو جو عرب کی بہترین نسل سے تھا اپنے سے دور فرمادیا اور اس کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا جس میں صریح طور پر ارشاد ہے ۔ تبت یدا ابی لھب۔ ( یعنی ابولہب کے ددنوں ہاتھ قطع ہوجائیں ( جو رسول اﷲ(ص) کے درپے آزار تھے۔)

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں

انسانوں کے تمام فتنہ و فساد اور جنگ و جدال انہیں نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کی بنا پر ہیں۔ جرمنی کے باشندے کہتے ہیں کہ آرین اور جرمنی نسلی سب سے بلند ہے ۔ جاپانی کہتے ہیں کہ سرداری کا حق ان کی زرد نسل کو حاصل ہے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ سفید فام لوگ حاکم اور سب کے اوپر افسر ہیں۔ امریکہ کے متمدن ممالک میں اب تک سیاہ فام لوگ اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ۔ یہاں تک کہ سفید فاموں کے کیفے ، سینما اور مہمان خانوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے اور سیاہ فام عیسائی کو سفید فاموں کے کلیساء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ عبادت گاہ میں بھی ایک دوسرے کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں ، سیاہ کھال کے علماء اور افاضل اگر سفید کھال کے دانشمندوں کے جلسوں میں جاتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ جوتے اتارنے کی جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اے انسانو ! ہم نے سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ۔ اور ان میں مختلف شاخیں اور قبیلے قرار دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو( اور سمجھ لو کہ اصل ونسب اور نسلی سرمایہ افتخار نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

۴۴

بیٹھیں ، ان کو سفید فاموں کے سامنے علم و ہنر کا اظہار نہ کرنا چاہئیے ایک بوڑھے سیاہ فام عالم کو چاہیئے کہ سفید فام جوان کے سامنے تعظیم بجالائے اور مطیع و فرمانبردار رہے۔ سفید فام اساتذہ سیاہ فاموں کو اپنے مدرسوں میں داخل نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اگر کوئی سیاہ فام چھوٹ گیا ہو تو ان کو سفید فاموں کے مسافر خانوں میں گھسنے کا اختیار نہیں۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ باوجود ان کوششوں کے جو ان لوگوں کی آزادی کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں) حیوانات میں شمار ہوتے ہیں اور سفید فاموں کی طرح وسائل تمدن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (1)

لیکن مقدس دین اسلام نے سارے بیہودہ اور موہوم عقائد کو تیرہ سو سال پہلے ہی درمیان سے اٹھادیا تھا، اس کا اعلان ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے جس نسل اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یورپ ، ایشا، امریکہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت کا آغوش کھلا رکھیں اور دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں، ہمیشہ ایک دوسرے کے یار و غمگسار رہیں۔ اسلام حجازی، مکی اور مدنی مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے مسلمین میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ چنانچہ اگر میری نسل حجازی ، قریشی ، ہاشمی اور محمدی ہے تو جائز نہیں ہے کہ سچی بات کو چھپاؤں اور مہمل خیالات کی بنا پر حق کو پس پشت ڈال دوں ۔ میں قطعی طور پر حجازی گمراہوں سے متنفر اور ایرانی شیعوں کا دوستدار ہوں۔

مادروں را بنگریم و حال را نے درون را بنگریم و قال را

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایرانی غالیوں کو بغیر کسی مناسبت اور دلیل و برہان کے پاک باز موحد اور خالص شیعوں کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ سب کے سب حق تعالےٰ کے خالص بندے ہیں۔ خدا اور اس کے بندے و رسول محمد(ص) کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ نہ اور کچھ کہتے ہیں نہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم لوگ حضرت علی(ع) کو پروردگار کا عبد صالح اور رسول اﷲ(ص) کا وصی اور خلیفہ مںصوص سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے مردود اور اپنے سے الگ جانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اٹلی کے قائد اور پیشوا مسولینی نے حکم دیا تھا کہ اس کا نمائندہ ادارہ مجلس اقوام سے نکل آئے۔ اس کا عذر یہ تھا کہ میرے لیے باعث ننگ ہے کہ میرا نمائندہ ایسے مجمع میں بیٹھے جہاں حبشی سیاہ فاموں کا نمائیندہ بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن اسلام کے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) نے چودہ سو برس پہلے) بلال سیاہ و حبشی کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا بلال ! یعنی اے بلال میرے سامنے قرآن پڑھو اور مجھ کو شاد و مسرور کرو ۔ اب ناظرین محترم انصاف کریں اور دیکھیں کہ تفاوت راہ کہاں تک ہے۔

۴۵

جیسے مسلمانوں میں سے غلات از قبیل سائیبہ ، خطابیہ، غرابیہ، علیادیہ مخمہ وبزیفیہ اور انہیں کے امثال جیسے نصیریہ جو ایران کے بعض شہروں اور قریوں اور دوسرے بلاد میں مثل موصل اور شام کے اہل حق کے نام سے متفرق طور پر آباد ہیں۔

شیعہ بالعموم ان سے علیحدہ اور ان کو کافر و مرتد اور نجس سمجھتے ہیں ۔ فقہ کی ساری کتابوں اور عملیہ رسالوں میں فقہائے امامیہ نے غلات کو کافروں میں شمار کیا ہے کیونکہ وہ لوگ بے شمار فاسد عقیدوں کے حامل ہیں جن میں سے کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ جسم کے قالب میں روح کا ظہور محال نہیں ہے ۔ جیسے کہ جبرائیل وحبہ کلبی کی صورت میں پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر ہوتے تھے۔لہذا خدا کی حکیمانہ مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ذات اقدس انسانی قالب میں ظاہر ہو چنانچہ علی(ع) کی صورت اور جسم میں نمایاں ہوا، اسی سبب سے علی(ع) کی منزل کو رسول اﷲ(ص) کی مقدس منزل سے بلند تر سمجھتے ہیں اور خود انہیں حضرت کے زمانے میں شیاطین جن و انس کے بہکانے سے ایک جماعت اس عقیدے کی قائل تھی۔ ہند اور سوڈان کے باشندون کی ایک جماعت آئی اور اس نے آپ کی الوہیت کا اقرار کیا۔ حضرت نے ہر چند ان لوگوں کو نصیحت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار جس طریقے سے کہ کتب اخبار میں درج ہے آپ کے حکم سے دھویں کے کنووں میں ہلاک کردئیے گئے۔ چنانچہ اس قبیلے کی مفصل تشریح علامہ جلیل ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیف بحار الانوار جلد ہفتم میں لکھی ہوئی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین سلام اﷲ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مثلا جو ہماری معتبر کتابوں میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ کہ فرمایا :

" اللَّهُمَّ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنَ الْغُلَاةِ كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنَ النَّصَارَى اللَّهُمَّ اخْذُلْهُمْ أَبَداًوَ لَا تَنْصُرْ مِنْهُمْ أَحَداً."

یعنی خداوندا میں گروہ غلات سے بری ہوں ۔ جیسے عیسی بن مریم نصاری سے بیزار تھے ۔ خداوندا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار رکھ۔ اور ان میں سے کسی کی مدد نہ فرما۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِمَّنْ يَغْلُو فِينَا وَ يَرْفَعُنَا فَوْقَ حَدِّنَا كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع مِنَ النَّصَارَى "

یعنی میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوتے ہیں اورمیرے ذمے کوئی گناہ نہیں ہے (یعنی چونکہ میں ان کے عمل سے راضی نہیں لہذا گنہگار نہیں ہوں) ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو میری محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بلا سبب مجھ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں یقینا میں ان لوگوں سے خدا کی طرف بیزاری اختیار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ہم کو ہماری حد سے بڑھاتے ہیں جس طرح سے عیسی بن مریم(ع) نے ںصاری سے بیزاری اختیار کی۔

۴۶

نیز فرمایا ہے۔" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ. " ( یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، ایک ایسے دوست جو محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ دشمن جو مجھ کو میری منزل سے گھٹاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ہر اس شخص سے بیزاری اختیار کرتے ہیں جو نظم و نثر میں امیرالمومنین (ع) اور ان کے اہل بیت اطہار (ع) کے لیے غلو کرے اور مقام تعریف میں ان کو منزل سے بلند قرار دے جو خدا و رسول(ص) نے ان کے لیے معین فرمائی ہے اور بندگی سے خدائی پر پہنچا دے جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ غالی اور ملعون ہیں۔ آپ اثنا عشریہ شیعہ امامیہ جماعت کا معاملہ ان سے الگ سمجھئے کیونکہ غالی فرقوں کے کفر و نجاست پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے اور اگر آپ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں جیسے جواہر الکلام اور مسالک وغیرہ اور عملیہ رسالوں جیسے مرحوم آیتہ اﷲ یزدی قدس سرہ کی عروة الوثقی اور آیتہ اﷲ اصفہانی اعلی اﷲ مقامہ کی وسیلہ النجات کے باب طہارت باب زکوة ، باب ازدواج اور باب ارث کی طرف رجوع کریں تو ہمارے فقہاء کے فتوے ان لوگوں کے کفر ونجاست پر ملیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سب نے یہی فتوی دیا ہے کہ ان کے غسل و دفن میں شرکت جائز نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ( باوجودیکہ متعہ کی صورت سے اہل کتاب کیساتھ تزویج کو جائز جانتے ہیں۔) اور مسلمانوں کا حق وراثت ان کو نہیں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو صدقات و زکوة کادینا بھی ممنوع ہے۔

فرقہ ناجیہ شیعہ کی فن کلام اور عقائد کی کتابوں میں تفصیل اور استدلالی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرقہ فاسد اور کافر ہے ہر مسلمان پر اور خاص طور سے خالص العقیدہ شیعوں پر ان سے تبرا اور بیزاری واجب و لازم ہے۔

غلات کی مخالفت اور رد میں آیات و اخبار سے کافی مضبوط اور مکمل دلیلیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے ۔ سورہ نمبر5( مائدہ) آیت نمبر81 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَ أَضَلُّوا كَثيراً وَ ضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبيلِ "( المائدة ، 77 )

یعنی کہہ دو( اے رسول(ص)) کہ اے اہل کتاب غلو مت کرو اپنے دین میں کہ وہ حق نہیں ہے اور اس قوم کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے بہتوں کو گمراہ کردیا اور راہ راست سے دور جا پڑے۔

مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار جلد سوم میں ( جو شیعہ امامیہ فرقے کا دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ، ان کی مذمت اور ان لوگوں کے مدعا سے خاندان رسالت کے دور ہونے میں بہت سی روائتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ فرمایا :

" و ما نحن الا عبيد الذي خلقنا و اصطفانا، ما لنا على اللّه من حجة، و لا معنا من اللّه براءة، و انا لميتون، و موقوفون، و

۴۷

مسئولون، من احب الغلاة فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبنا الغلاة كفّار و المفوضة مشركون، لعن اﷲ الغلاة ۔۔۔۔۔۔ "

( خلاصہ مطلب یہ کہ ہم اس خدا کے بندے ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا اور مخلوقات میں سے منتخب کیا۔ در حقیقت غالیوں کو دوست رکھے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو شخص ان کو دشمن رکھے وہ ہمارا دوست ہے غلات کافر اور ملفوضہ مشرک ہیں۔ خدا کی لعنت ہو غلات پر)

نیز انہیں حضرت سے شیعوں کے ایک بڑے پیشوا نے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" لعن اللّه عبد اللّه بن سبأ إنه ادّعى الربوبية في أمير المؤمنين و كان و اللّه أمير المؤمنين عبدا للّه طائعا، الويل لمن كذب علينا، و إن قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ إلى اللّه منهم نبرأ إلى اللّه منهم "

(یعنی لعنت خدا کی، عبداﷲ بن سبا پر جس نے امیرالمومنین (ع) کےلیے ربوبیت اور خدائی کا دعوی کیا ۔ خدا کی قسم وہ حضرت خدا کے مطیع بندے تھے ، وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے ہم پر افترا کیا، ایک گروہ ہمارے بارےمیں وہ باتیں کہتا ہے جو ہم خود اپنے بارےمیں نہیں کہتے ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ، ان سے خدا کی طرف ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ان سے خدا کی طرف۔

صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی قدس سرہ نے جو جلیل القدر فقہائے امامیہ میں سے ہیں کتاب عقائد میں ایک روایت زرارہ بن اعین سے جو موثق شیعہ راوی ، حافظ علم اہل بیت(ع) اور حضرت باقر العلوم و صادق آل محمد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداﷲ بن سبا کی اولاد میں سے ایک شخص تفویض کا قائل ہے ۔ فرمایا تفویض کیا؟ میں نے عرض کیا وہ کہتا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ عَلِيّاً- عَلَيْهِ السَّلَامُ- ثُمَّ فَوَّضَ الْأَمْرَ إِلَيْهِمَا، فَخَلَقَا، وَ رَزَقَا، وَ أَحْيَيَا، وَ أَمَاتَا."

( یعنی خدائے عزوجل نے محمد (ص) و علی(ع) کو پیدا کیا پھر بندوں کے امور ان کے سپرد کردئیے چنانچہ وہی خالق ہیں وہی رازق ہیں وہی زندہ کرتے ہیں ۔ وہی مارتے ہیں ) حضرت نے فرمایا کذب واﷲ جھوٹ بولتا ہے دشمن خدا جب تم پلٹ کر اس کے پاس جاؤ تو سورہ رعد کی یہ آیت پڑھو :

"أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ " ( الرعد ،16)

“ یعنی کیا مشرکین نے خدائے تعالیٰ کے کچھ شریک قرار دیئے کہ خدا کا پیدا کیا ہوا کون اور ان شرکاء کا پیدا کیا ہوا کون ہے۔ کہدو (اے محمد(ص)) کہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ صرف خدائے تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی الوہیت میں یکتا ہے جس کا ارادہ ساری کائنات پر غالب ہے۔”

یہ آیت خود توحید باری تعالی کی تصریح کر رہی ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں اس کے پاس گیا اور یہ آیت حسبِ

۴۸

ارشاد امام(ع) میں نے اس کے سامنے پڑھی تو گویا میں نے اس کے منہ پر پتھر مار دیا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا۔

اس طرح کی روایتیں ہماری معتبر کتابوں میں آئمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم اجمعین اور شیعوں کے برحق پیشواؤں کی طرف سے گروہ غلات کے لیے لعن و طعن اور بر کہنے میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس طرح ہم آپ کے علماء کی کتابیں پڑھتے ہیں آپ بھی علمائے شیعہ کی معتبر کتابیں پڑھا کیجئے تاکہ ایسے الفاظ زبان سے نہ نکالیے جو بے چارے عوام کو بہکانے والے ہوں۔ اور آپ بھی خدا کے دربار عدالت میں گرفتار ہوں۔

حضرات محترم! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں ۔ آیا ایسی صورت میں جب کہ ہمارے ائمہ نے اپنے شیعوں کی رہنمائی کے لیے ایسے بیانات ارشاد فرمائے ہیں اور سچے شیعہ علی (ع) واولاد علی(ع) کے پیرو اپنے مقتداؤں سے ان روایتوں کے سنے ہوئے ہیں اس کے بعد بھی ان کو خدا یا خدائی کی جگہ پر قرار دیں گے؟ غالیوں کا گروہ ہم سے بالکل الگ اور ہم ان لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہیں۔ چاہے وہ بظاہر تشیع کا دعوی کریں۔ لیکن خدا اور رسول(ص) علی و اولا علی علیہم السلام سب کےسب ان سے بیزار اور سارے شیعہ بھی ان سے بیزار اورالگ ہیں۔

چنانچہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے رئیس غلات عبداﷲ بن سبا ملعون کو تین روز تک مقید رکھا اور توبہ کا حکم دیا جب اس نے قبول نہ کیا تو مجبورا اس کو آگ میں جلوا دیا۔ آپ کو خدا کے سامنے اس سے شرم آنا چاہئیے کہ آپ کے علماء تعصب و عادت اور اسلاف کی پیروی میں یہ لکھیں کہ تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا یہی عبداﷲ ملعون تھا جو حضرت علی(ع) کے حکم سے جلا دیا گیا۔ حالانکہ علمائے شیعہ نے ساری متعلقہ کتابوں میں اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے عبداﷲ بن سبا کو ملعون بتایا ہے۔ لہذا عبداﷲ کے پیرو بھی ملعون ہیں کیونکہ وہ غلات میں سے ہیں نہ کہ آل محمد(ص) اور عترت طاہرہ پیغمبر(ص) کے محبت خالص شیعوں مین سے اس لیے کہ وہ س خداندان جلیل کے بارے میں غلو کی وہ سے دور اور مطرود ہیں۔

اگر تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا عبداﷲ ملعون ہوتا اور شیعہ اس کے پیرو ہوتے جیسا کہ آپ کے متعصب علماء نے لکھا ہے اور دوسرے ان کی اندھی تقلید کر کے جلسوں میں اس کو نقل کرتے ہیں تو کم سے کم شیعوں کی کسی ایک ہی کتاب میں اس کی کچھ تعریف درج ہونا چاہئیے تھی۔ اگر آپ علماء شیعہ امامیہ کی کسی ایک ایسی کتاب کا پتہ دے دیجئے جس میں عبداﷲ ملعون کی کوئی تعریف کی گئی ہو تو میں آپ کی ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہوں اور اگر یہ پتہ نہ دیں ( اور ہرگز نہیں دے سکتے ہیں) تو روز حساب اور محکمہ عدل الہی سے ڈرئیے ، پاک و موحد شیعوں کو عبداﷲ ملعون کا پیرو نہ کہیئے اور حقیقت کو بیخبر عوام کی نگاہوں میں مشتبہ نہ بنائیے۔

اس کے علاوہ میں آپ سے برادرانہ التماس کرتا ہوں کہ آپ چونکہ اہل علم ہیں لہذا ہمیشہ قاعدہ علم و منطق اور حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائیں اور خلاف عقل و حقیقت باتوں اور بے بنیاد شہرتوں کا سہارا نہ لیں۔

۴۹

جن کو دشمنوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے شیعوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

حافظ : آپ کی برادرانہ نصیحتیں ہر عقلمند کے لیے قابل قبول و توجہ ہیں لیکن اجازت دیجئیے کہ میں بھی فرمائش کے طور پر چند جملے عرض کروں۔

خیر طلب : میں بہت ممنوں ہوں گا فرمائیے!

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود و ملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جارہے ہیں کہ آپ ہی کے بیان کیئے ہوئے قواعد کی روسے وہ حضرات اس قسم امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں۔

خیر طلب : میں خشک و تنگ نظر اور متعصب و جاہل انسان نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا کہ اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش پائی جاتی ہو تو اس کی یاد دہانی فرما دیجئیے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتوں میں جوکچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوکہ ائمہ ہدی علیہم السلام کے خلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرمائیے۔

حافظ : میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کا نام لیتے ہین تو بجائے اس کے کہ رضی اﷲ عنہم کہیں ، سلام اﷲ علیہم اور صلوات اﷲ علیہم کہا ہے در آںحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے :

" إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً" ( الاحزاب، 56 )

یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر کی روح پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو ( اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو) آیت نمبر56 سورہ نمبر133 ( احزاب) سلام اور صلوة صرف رسول خدا(ص) سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانات میں اماموں کے لیے بھی صلوات و سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی ںص صریح کے خلاف ہے۔

آپ کے اوپر جو اعتراض کئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں۔

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ

خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہ رگز کوئ ی عمل نص کے خلاف ن ہ ک یا ہے ن ہ کرت ے ہیں ۔ ہ وا یہ کہ گذشت ہ

۵۰

صد یوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پ یرووں نے ح یلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہ ل بدعت نام زد کرنے ک یلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے ب ڑے ش یعہ علماء نے مکمل جواب د یا اور ثابت کیا ہے ک ہ ہ م ا ہ ل بد عت ن ہیں ہیں ۔ چونک ہ دشمن ک ے ہ ات ھ و ں م یں قلم ہے ل ہ ذا تن ہ ا قاض ی بن کر جو چاہ ت ے ہیں لکھ ت ے ہیں ۔ اس موضوع پر ب ھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔ ل یکن چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے ۔ ل ہ ذا تفص یلی جواب سے قظع نظر کرتا ہ و ں محض اس لئ ے ک ی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے ن ہ ر ہ جائ ے اور حضرات ا ہ ل جلس ہ اور م یرے برادران عزیز کے سامن ے حق یقت امر مشتبہ ن ہ ر ہے مختصر طور س ے عرض کرتا ہ و ں ، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات ب ھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فقط حکم د یا جاتا ہے ک ہ مسلمانو ں کو لازم ہے ک ہ آ ں حضرت (ص) پر صلوات ب ھیجیں ۔

دوسرے جس خدائے بر تر ن ے یہ آیت نازل فرمائی ہے و ہی سورہ 37 (صافات)آ یت 130میں فرماتا ہے ۔ سلام عل ی آل یاسین (یعنی سلام ہ و یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہ م خصوص یات میں سے ا یک یہ بھی ہے ک ہ قرآن مج ید میں ہ رجگ ہ مخصوص طور پر انب یائے کرام پر سلام ہے و ہ ف رماتا ہے ۔ "سلام عل ی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھ ارون" (سور ہ صافات ) ل یکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے ل یئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانب یاء کے جن ک ے لئ ے ارشاد ال ہی ہے ، سلام عل ی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے

آپ کو معلوم ہے ک ہ قرآن مج ید میں پیغمبر(ص)کے بار ہ نامو ں م یں سے پانچ نام امت ک ی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئ ے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبدالل ہ ، نون اور یاسین ہیں ۔ سور ہ نمبر 36 ک ے شروع م یں فرماتا ہے " یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہ ر ی وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔

نواب:- اس کا کیا سبب ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟

خیر طلب :- میں نے عرض ک یا کہ آنحضرت(ص) ک ے عالم معنو ی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ ک یونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پ ہ نچا ہ وا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا

۵۱

ظا ہ ر وباطن یکساں ہ و اور یہ مرتبہ آ ں حضرت (ص) ک ے وجود مق دس کو حاصل تھ ا ،ل ہ ذا حرف "س" ک ے سات ھ اس ح یثیت کا اظہار فرمایا ۔

عام عقلوں س ے قر یب تر بیان یہ ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی کے درم یان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظا ہ ر وباطن برابر ہے اس معن ی سے ک ہ ا ٹھ ائ یس حرفوں م یں سے ہ ر ا یک کے لئ ے علمائ ے علم اعداد ک ے نزد یک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف ک ے زبر و ب یّنہ کا تطابق کرنے م یں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہ وتا ہے یا بیّنہ ۔

نواب :- قبلہ معاف فرمائ یے گا میں جسارت کر رہ ا ہ و ں ۔ چونک ہ م یں گہ ر ے مضام ین کو سمجھ ن ے س ے معذور ہ و ں ل ہ ذا استدعا ہے ک ہ ان راتو ں م یں مطالب کو سادہ اور واضح طر یقے سے ب یان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئ ے لائق توج ہ اور قابل قبول ہ و ں چونک ہ ہ م لوگو ں ن ے زبر وب یّنہ ک ے معن ی نہیں سمجھے ،ل ہ ذا م یں متمنی ہ و ں ک ہ ساد ہ ب یان کے سات ھ وضاحت فرمائ یے تاکہ یہ معمّا حل ہ و جائ ے ۔

خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف ک ی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لک ھی جاتی ہے ا ور بیّنہ سے و ہ ز یادتی ہے جو بولن ے ک ے وقت ظا ہ ر ہ وت ی ہے "س" کاغذ ک ے اوپر ا یک حرف ہے ل یکن تلفظ کے وقت ت ین حرف ہ وجات ے ہیں ۔ س ۔ی ۔ ن ۔ بولن ے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہ وجاتا ہے ۔ اورا ٹھ ائ یس حروف تہ ج ی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے ک ہ حساب ک ی مطابقت کرنے م یں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہ تا ہے "س" ک ے عدد سا ٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے " ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے " ی" کے (10)اور"ن"ک ے (50)مل کر سا ٹھ ہ وئ ے اس ی وجہ سے قرآن مج ید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظا ہ ر و باطن ک ی طرف اشارہ کرت ے ہ وئ ے " یس"کہہ کر مخاطب ک یا ۔یعنی اے و ہ شخص جو ظا ہ ر وباطن دونو ں ح یثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں

اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے ل ہ ذا اس آ یہ مبارکہ م یں فرماتا ہے "سلام عل ی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔

حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو ب یانی سے ثابت کرنا ہ ت ے ہیں ورنہ علماء ک ے درم یان اس کا ذکر نہیں آیا ہے ک ہ آل یا سین پر سلام ہ و ۔

۵۲

خیر طلب :- میں متمنی ہ و ں ک ہ انکار ک ے مواقع پر قطع ی طور سے کوئ ی بات نہ ک ہہ د یا کیجیئے بلکہ ترد ید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب ک ے وقت آپ کو پچ ھ تان ے ک ی ضرورت نہ ہ و ۔ اگر آپ اپن ے علماء ک ی کتابو ں س ے ب ے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے ک ے خلاف سمج ھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں س ے باخبر ہ و ں اور حق س ے من ہ ب ھی نہیں موڑ تا ہ و ں ۔

آپ کے ب ڑے ب ڑے علماء ک ی کتابوں م یں کثرت سے اس معن ی کی طرف اشارہ ک یا گیا ہے ،منجمل ہ ان ک ے متعصب ابن حجر ن ے صواعق محرق ہ ک ے اندر جو آ یات فضائل اہ ل ب یت علیھ م السلام میں نقل کی ہے ان م یں سے ت یسری آیت کے ذ یل میں لکھ ا ہے ک ہ مفسّر ین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خ یر امّت ابن عباس سے نقل ک یا ہے ک ہ "المراد بذالک سلام عل ی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہ ذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لک ھ ت ے ہیں کہ اما م فخر الد ین رازی نے ذکر ک یا ہے ۔ ان اهل بیته صلّی الله علیه وآله وسلّم یساوونه فی خمسة اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایها النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواة علیه علیهم فی التشهد وفی الطهارة قال الله تعالی "طه یا طاهر "وقال " یطهرکم تطهیرا "،و فی تحریم الصدقة ،وفی المحبة قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعونی یحببکم الله وقال قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"

(یعنی رسول کے ا ہ ل ب یت علیھ م السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔ )دوسر ے صلوات م یں تشہ د نماز م یں۔ ت یسرے طہ ارت م یں خدائے تعال ی نے فرمایا ہے ط ہ یعنی اے طا ہ ر اور ان حضرات ک ے بار ے م یں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔ چوت ھے تحر یم صدقہ م یں کیونکہ پیغمبر اور ان کے ا ہ ل ب یت پر صدقہ حرام ہے ،پانچو یں محبت میں ،ک یوں کہ خدائ ے تعال ی نے فرما یا (محمدص) کہہ دو(امت س ے )م یں تم سے کوئ ی اجر اور مزدوری نہیں چاہ تا ہ و ں سوا م یرے ذوی القربی اور اہ لب یت سے محبت ک ے ) ۔

سید ابو بکر بن شہ اب الد ین علوی کتاب "شفتہ الصاد ی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھ اد ی(مطبوعہ مطبع ہ اعلام یہ مصر سنہ 1303 ھ ک ے باب اول صفح ہ 24 پر مفسر ین کی ایک جماعت سے بروا یت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب 2 صفح ہ 42 پر نقل ک یا ہے ک ہ آ یت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفس یر کبیر جلد ہ فتم صفح ہ 163 م یں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آ یت کے معن ی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم م یں کہ ا ہے ک ہ ال یا سین سے مراد آل محمد سلام الل ہ عل یھ م اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرق ہ م یں ذکر کیا ہے ک ہ مفسر ین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل ک یا ہے ، ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "سلام عل ی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔

۵۳

لیکن اہ ل ب یت علیھ م السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فر یقین کے درم یان مسلم ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پ یغمبر نے فرما یا میرے اور میرے اہ ل ب یت علیھ م السلام کے دوم یان صلواۃ میں جدائی نہ ڈ الو ۔

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے

مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق م یں اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء کعب بن عجز ہ س ے نقل کرت ے ہیں کہ جب آ یت "انّ اللہ و ملائکت ہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب 43) ہ وئ ی تو ہ م لوگو ں ن ے عرض ک یا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرن ے کا طر یقہ تو ہ م کو معلوم ہ وا ل یکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت ن ے فرما یا صلوات اس طریقے سے ب ھیجو" اللھ م صلّ عل ی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے ک ہ "کما صلّ یت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 797 م یں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) س ے لوگو ں ن ے سوال ک یا کہ ہ م آپ پر کس طرح س ے صلوا ۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرما یا کہ و " اللهم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراهیم وعلی آل ابرا هیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انّک حمید مجید.

اور ابن حجر نے ت ھ و ڑے س ے لفظ ی اختلاف کے سات ھ یہی روایت حاکم سے نقل ک ی ہے اس ک ے بعد اپن ے عق یدے اوررائے کا اظ ہ ار کرت ے ہ و ے ک ہ ت ے ہیں ۔ "وف یہ دلیل ظاھ ر عل ی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھ ل ی ہ وئ ی دلیل ہے ک ہ پ یغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئ ے ہے ۔ ن یز روایت کی ہے ک ہ فرما یا "لا تصلّوا علیّ الصلواة البتراء" یعنی مجھ پر بترا اور دم بر یدہ صلوات نہ ب ھیجو لوگوں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ صلوا ۃ بتراء کون ہے ؟ فرما یا اگر کہ و "اللھ م صلّ عل ی محمد "لہ ذا یوں کہ و"الل ھ م صلّ عل ی محمدو علی آل محمد۔

اس کے علاو ہ د یلمی نے نقل ک یا ہے ک ہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حت ی یصلی علی محمد وآلہ " ۔ دعا پرد ے م یں رہ ت ی ہے (اور قبول ن ہیں ہ وت ی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ ب ھیجیں ۔ اور اما م شافع ی سے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا :

۵۴

یا اهل بیت رسول الله حبکم ----- فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم ----- من لم یصل علیکم لا صلواة له

(یعنی اے ا ہ ل ب یت رسول اللہ (ص) تم ہ ار ی دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تم ہ ار ی بزرگی ،منزلت اور مرتبے ک یلئے یہی کافی ہے ک ہ جو شخص تم پر صلوا ۃ نہ ب ھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہ وت ی ، شافعی کی مراد تشہ د نماز م یں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کرد یں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)

رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد ک ے پ یش نظر کہ "الصلواة عمود الدین ان قبلت قبل ما سواها وان ردّت ردّ ما سواها "( یعنی نماز دین کا نگہ بان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہ وجائ ے تو اس ک ے علاو ہ دوسر ے تمام اعمال ب ھی قبول ہ وجات ے ہیں ، اور اگر نماز رد ہ وجائ ے تو دوسر ے اع مال بھی رد ہ وجات ے ہیں ۔ تمام اعمال ک ی قبولیت نماز سے وابست ہ ہے اور جو روا یتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہ وئ ے نماز ک ی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے ج یسا کہ شافع ی نے خود اقرار ک یا ہے ۔

سید ابو بکر شہ اب الد ین نے کتاب "شفت ہ الصاد ی من بحر فضائل بنی النبی الہ اد ی"باب 2 میں صفحہ 29-35 تک محمد وآل محمد پر صلوات ب ھیجنے کے وجوب م یں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائ ی سے دارقطن ی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوس ی سے ان ہ و ں ن ے ابو اسحاق مروزی اور سمہ ود ی سے ، نوو ی نے تنق یح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل ک یا ہے ک ہ نماز ک ے تش ہ د م یں محمد صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم ک ے نام مبارک ک ے بعد آل محمد پر صلوات ب ھیجنا واجب ہے ۔

چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ل ہ ذا مفصل ب یان سے قطع نظر کرتا ہ و ں اور ف یصلہ آپ حضرات کے پاک ضم یر پر چھ و ڑ تا ہ و ں ۔

چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ ا ہ ل ب یت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ا یسی عبادت ہے جس ک ے لئ ے خود رسول (ص) ک ی تاکید ہے اور اس ک ی حقیقت سے کوئ ی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھ م الل ہ )ک ے جن ہ و ں ن ے اصل ی بات کو برادران اہ ل سنت ک ی نگاہ و ں پر مشتب ہ بنا د یا ہے اور بنات ے ر ہ ت ے ہیں ۔

یہ بدیہی بات ہے ک ہ جو ہ ست یاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قر یب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر ق یاس کرنا اور دوسروں کو ان ک ے اوپر ترج یح دینا سوا سفاہ ت اور ج ہ الت یا تعصب کے وب ے خبر ی کے اور ک یا ہے ؟

اس موقع پر چونکہ آدھی رات گزرچکی تھی۔ اور بعض حاضرین جلسہ کے چہروں پر کسل مندی کے

۵۵

آثار ظاہر تھے ۔ لہذا ہم لوگوں نے نشست کو ختم کردیا اور چائے نوشی اور اس اقرار کے بعد کہ کل شب میں ذرا سویرے تشریف لائینگے سب حضرات متفرق ہوگئے -

تیسری نشست

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ

ہم لوگ نماز مغرب سے فارغ ہوچکے تو مولوی صاحبان تشریف لے آئے اور معمولی صاحب سلامت کے بعد چاء نوش میں مشغول ہوئے میں بھی نماز عشاء ختم کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ ان حضرات کی گفتگو سننے کے لیے حاضر ہوا۔

حافظ : قبلہ صاحب کا شب میں جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے تو میں نے اپنے کو بہت ملامت کی کہ ہم دوسری قوموں کے عقائد میں اس لیے زیادہ غور فکر نہیں کرتے اور (بقول آپ کے) صرف بعض متعصب لوگوں کی کتابوں پر اکتفا کر لیتے ہیں جس سے حقیقت ہم پر ظاہر نہیں ہوتی۔

خیر طلب : جیسا کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر5( انعام ) ، آیت ص150 میں ارشاد فرمایا ہے کہ قل ﷲ الحجة البالغہ ۔ (1) کل شب کی نشست بھی خدائی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ حضرات ابتدائے صحبت ہی میں کسی قدر اپنی عادت سے ہٹ کے اور دیدہ انصاف و علم و عقل کے ساتھ میری گزارش پر توجہ کر کے یہ جان لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں وہ علم عقل اور منطق و حقیقت کی میزان پر تلا ہوا ہے۔اور جو

باتیں پہلے سے آپ حضرات کے سمع مبارک میں پہنچائی گئی ہیں، اور جنہوں نے آپ کے ذہن کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے اور خود غرض متعصب لوگوں کے عناد اور ضد کا نتیجہ ہیں۔

میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ ان جلسوں میں میرا نظر یہ قطعی طور پر یہ نہیں ہے ۔ کہ گفتگو میں خود غالب رہوں اور آپ حضرات کو مغلوب کروں بلکہ ہمیشہ کی طرح میرا مقصد اور نقطہ نظر حریم تشیع کی طرف سے دفاع اورحق و حقیقت کو نمایاں کرنا ہے۔

حافظ : کل شب کے بیانات میں آپ کے فقرات سے ظاہر ہوا کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں، تو آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ کہدو اے پیغمبر کہ خدا کے لیے کامل حجت ہے۔

۵۶

شیعوں کے کس طبقے کو برحق اور ان کے اقوال و عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر ممکن ہوتو مطلب واضح ہونے کے کیے ان طبقات کو بیان فرمائیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کس گروہ کے بارے میں ہم کو بحث کرنا چاہیے۔

خیرطلب : میں نے گذشتہ شب میں یہ تو عرض نہیں کیا ہے کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں بلکہ شیعہ کی جس معنی کے ساتھ میں نے تشریح کی ہے یعنی خدا و رسول(ص) کے فرمانبردار بندے اورآں حضرت(ص) کے حکم سے خاندان رسالت کے پیرور دہ ایک طبقے سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ چند شعبدہ باز فرقوں نے تشیع کے نام پر اپنی نمائش کر کے بے خبر جاہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ مقدس شیعہ نام سے غلط فائدہ اٹھایا اور باطل عقائد بلکہ کفر و بے دینی کو اس نام سے لوگوں کے درمیان رائج کیا لہذا نا واقف اشخاص نے جو حقائق کی تشخیص نہٰیں کرتے ہیں تاریخ میں لفظ شیعہ سے ان کو موسوم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے بنیادی طبقے چار ہیں جن میں صرف دو باقی رہ گئے ہیں اور دو بالکل فنا ہوچکے ہیں۔ اور ان کے ہر طبقے سے اور دوسرے فرقے پیدا ہوئے ان چار فرقوں سے مراد ہیں زیدیہ ، کیسانیہ، قداحیہ اور غلات۔

عقائد زیدیہ

پہلا فرقہ زیدیہ ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو زید ابن علی ابن الحسین علیہما السلام کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد زید کو امام مانتے ہیں ، زیدیہ فرقے والے فی الحال یمن اور اس کے اطراف میں کثرت سے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو علوی اور فاطمی شخص عالم و زاہد اور شجاع ہو ، اس کے علاوہ تلوار کے ساتھ خروج کرے اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے وہ امام ہے اور چونکہ جناب زید نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے زمانہ خلافت میں بنی امیہ کے ظلم اور چیرہ دستی کی وجہ سے کوفہ میں خروج کیا اور شربت شہادت نوش فرمایا۔ جیسا کہ پرسوں کی شب میں میں نے ایک موقع پر ان بزرگواروں کی مفصل کیفیت عرض کی ہے۔ لہذا ان کو امام سمجھ کر ان کی پیروی اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ جناب زید کی منزل اس سے کہیں الگ ہے کہ ان کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ جناب زید بنی ہاشم کے بزرگ سادات میں سے تھے۔ زہد، علم، فضل ، فہم، دینداری، پرہیزگاری، عبادت ، شجاعت اور سخاوت میں قوم کے اندر نمایاں اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔

رسول اکرم(ص) آں جناب کی خبر شہادت دے چکے تھے جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

" وضع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يده على صلبي فقال: يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يقتل شهيدا إذا كان يوم القيامة يتخطّى هو و أصحابه رقاب الناس، فيدخلون الجنة "

( یعنی رسول اﷲ(ص) نے اپنا دست مبارک میری پشت پر رکھا اور فرمایا کہ اے حسین(ع)

۵۷

عنقریب تمہاری صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا۔ جس کا نام زید ہوگا وہ شہید قتل ہوگا۔ اور جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اور اس کے اصحاب لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت میں داخل ہوں گے۔)

( اور یہ بدیہی بات ہے کہ اصحاب سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خروج کے موقع پر ظلم بنی امیہ کے مقابلے میں ان جناب کے ہمراہ مقاومت کی لیکن خود جناب زید نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔ اور یہ ایک تہمت ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ورنہ وہ خود اپنے کو اپنے برادر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا تابع اور مطیع سمجھتے تھے۔ البتہ ان جناب کے بعد چند شعبدہ باز اس اصول کے قائل ہوگئے کہ:

"ليس الامام من جلس في بيته و أرخى عليه ستره، بل الامام كل فاطمي عالم صالح ذي رأي يخرج بالسيف."

( یعنی وہ شخص اور امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ رہے اور اپنے کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے بلکہ ہر وہ عالم، صالح اور صاحب رائے فاطمی امام ہے۔جو خروج بہ شمشیر کرے۔)

لوگوں کو آپ کی امامت کی طرف دعوت دی اور نئی نئی شکلیں ایجاد کر کے اپنے مقاصد حل کرنے کے لیے ایک وکان کھول دی یہ لوگ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ۔ مغیریہ ، جارودیہ، ذکریہ، خشییہ اور خلقیہ۔

عقائد کیسانیہ

دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے یہ لوگ کیسان غلام و آزاد کردہ علی ابن ابی طالب کے اصحاب شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ حسنین علیہما السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند محمد ابن حنفیہ کی امت کے قائل تھے ۔ لیکن جناب محمدخود ایسا دعوی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کو سید لتابعین کہا جاتا تھا اور علم زہد ورع و تقوی اور امر مولیٰ کی اطاعت میں مشہور تھے بعض بازی گروہ نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مخالفتوں کے قضیہ کو حیلہ بنایا اور آپ کے دعوی امامت کی دلیل قرار دیا ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ نہیں تھی کہ آپ امامت کے مدعی تھے بلکہ ان مخالفتوں سے جناب محمد کا مقصود امام چہارم حضرت سید سجاد علیہ السلام کی منزل ظاہر کرتا تھا تاکہ اس طریقہ سے اپنے جاہل مریدین اور سادہ لوح معتقدین کو متوجہ فرما دیں کہ میں اس منصب پر فائز نہیں ہوں چنانچہ اسی مسجد الحرام کے اندر حجر اسود کے سامنے ثبوت حق اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حجر اسود کے اقرار کے بعد جیسا کہ کتب اخبار و تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابو خالد کابلی نے ان جناب کے معتقدین کا راس و رئیس تھا محمد حنیفہ کو امام ماننے والوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان جناب کی پیروی کرتے ہوئے امامت حضرت سید سجاد علیہ السلام کا اعتراف کیا، لیکن چند مکاروں نے بے عقل اور بے خبر عوام کے ایک گروہ کو اسی عقیدے پر باقی رکھا۔ اور

۵۸

بہانہ یہ بنایا کہ جناب محمد نے انکسار سے کام لیا ہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں سیاست کا یہی تقاضا بھی تھا ورنہ ان کی امامت مسلم ہے آپ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ اس پر جمے رہے اور کہا کہ جناب محمد مرے نہیں بلکہ جبل رضوی کے غار میں پوشیدہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و داد سے بھر دیں گے ۔ ان کے چار فرقے تھے۔ مختاریہ، کربیہ، اسحاقیہ اور حربیہ، لیکن آج اس عقیدے پر کوئی شخص باقی نہیں ہے۔

عقائد قداحیہ

تیسرا گروہ قداحیہ ہے ان لوگوں کے مذہب کی بنیاد بظاہر تشیع مگر باطنا محض کفر ہے۔ اس مذہب کی اصل تشکیلات میمون ابن سالم یا ( ویصان) معروف بہ قداح اور عیسی جہار لختان کے ہاتھوں مصر میں شروع ہوئیں اور انہوں نے قرآن مجید و اخبار میں اپنی خواہش کے مطابق تاویلات کا دروازہ کھولا ۔ شریعت کے لیے ایک ظاہر اور ایک باطن قرار دیا اور کیا کہ باطن شریعت کی خدا نے پیغمبر کو پیغمبر نے علی(ع) کو انہوں نے اپنے فرزندوں کو اور خالص شیعوں کو تعلیم دی۔ ان کا قول ہے کہ جن لوگوں نے باطن شریعت کو سمجھ لیا وہ ظاہری طاعت و عبادت ی قید سے آزاد اوربے فکر ہوگئے۔

انہوں نے مذہب کی بنیاد سات ستونوں پر قائم کی۔ سات پیغمبروں کے معتقد ہیں۔ سات امام مانتے ہیں اور ساتویں امام کا غائب جانتے ہیں۔ اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ یہ دو جماعتوں پر متقسم تھے۔

ناصریہ : مذہب خسرو علوی کے اصحاب جنہوں نے اپنے اشعار و گفتار اور کتابوں میں شیعہ کے نام پر بہت سے لوگوں کو کفر و الحاد کی طرف کھینچ لیا اور طبرستان میں کافی پھیلے ہوئے تھے۔

صباحیہ : یہ دوسری جماعت حسن صباح کے اصحاب تھے جو در اصل معرکا باشندہ تھا لیکن ایران میں آکر قزوین کے اندر واقعہ اسفناک اور الموت کا فتنہ عظیم پرپا کیا اور بکثرت قتل و خونریزی کا باعث بنا جس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے لیکن اس مختصر مجلس میں اس کے مفصل تاریخی حالات بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔

عقائد غلات

چوتھی جماعت غالیہ ہے جو تمام قوموں اور فرقوں سے زیادہ پست ہے یہ لوگ تشیع کے نام سے مشہور ہوگئے لیکن یہ سب کےسب کافر نجس اور فاسد و مفسد ہیں ان کے اصلی فرقے سات میں سبائیہ، منصوریہ، غرابیہ،

۵۹

بزیعینہ، یعقوبیہ، اسماعیلیہ، اور ازدریہ، ان کے حالات اور پیدائش کی تشریح کل کی شب میں مقتضائے مجلس کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کرچکا ہوں ۔ ہم شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی پوری ملت بلکہ دنیا کے سارے مسلمان ان سے اور ان کے عقائد سے بیزار ہیں ہم ان کو ہر نجس سے زیادہ نجس کافر ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں۔

کفر والحاد کے قاعدے پر جو عقیدہ بھی صراحتہ یا کنایة شیعوں کے نام سے زبانوں پر مشہور اور بعض کتابوں میں عمدا یا سہوا درج ہوا ہے، وہ زیادہ تراسی گروہ سے ہے جو اپنے کو شیعہ علی کہتا ہے لیکن جماعت شیعہ امامیہ اثنا عشریہ جو دنیا میں اسی کروڑ سے زیادہ تعداد کے مالک ہے ان فاسد عقائد سے دور ہے بلکہ اصلی دین، پاکیزہ مذہب اور شریعت کا لب لباب جو باب علم رسول امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے حاصل ہوا ہے انہیں لوگوں کے پاس ملتا ہے۔

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ

پانچواں گروہ شیعہ امامیہ اور فرقہ فقہ اثناعشریہ ہے جو عقل و نقل کے مطابق شریعت کے لب و لباب کا حامل ہے اور در اصل حقیقی شیعہ یہی لوگ ہیں اور وہ چار فرقے فرضی شیعہ ہیں۔

ان میں حقیقی شیعوں کے اعتقاد کا خلاصہ فہرست کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ بعد کو ان کی طرف غلط باتیں منسوب نہ کیجئے۔

شیعہ امامیہ کی پوری جماعت ذات واجب الوجود خداوند جل و علا کا اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ ایسا واحد یکتا ہے جو اپنا شبیہ و عدیل اور نظیر نہیں رکھتا نہ جسم ہے نہ صورت نہ جوہر ہے نہ عرض ، جملہ صفات مکانیہ سے مبرا و معرا ہے بلکہ سارے اعراض و جواہر کا خالق ہے اور خلق موجودات اور ان پر فیوض نازل کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بعض عارفین نے پروردگار کی صفات سلبیہ کو شعر میں اس طرح نظم کیا ہے۔

نہ مرکب بود نہ جسم نہ جوہر نہ عرضبے شریک است و معانی تو غنی داں خالق

چونکہ ذات واجب الوجود ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ دیکھا جا سکے اور دوسری طرف مخلوق کی ہدایت و رہنمائی بھی ضروری تھی۔ لہذا قوم انسانی سے معیار کے لحاظ سے کامل انبیاء و مرسلین منتخب کر کے ہر زمانہ والوں کے حالات و ضروریات کے مطابق دلائل و براہین ، معجزات ، بینات اور کافی ہدیات سپرد کر کےبھیجے ۔ جن کی تعداد بہت اور بے شمار ہے یہ سب کے سب ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں کے احکام کے ماتحت

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

أَمْ أَيُّ قَسْمٍ اسْتَأْثَرْتُ عَلَيْكُمَا بِه - أَمْ أَيُّ حَقٍّ رَفَعَه إِلَيَّ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ضَعُفْتُ عَنْه أَمْ جَهِلْتُه أَمْ أَخْطَأْتُ بَابَه!

واللَّه مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلَافَةِ رَغْبَةٌ - ولَا فِي الْوِلَايَةِ إِرْبَةٌ - ولَكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا وحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا - فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللَّه ومَا وَضَعَ لَنَا - وأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِه فَاتَّبَعْتُه - ومَا اسْتَنَّ النَّبِيُّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَاقْتَدَيْتُه - فَلَمْ أَحْتَجْ فِي ذَلِكَ إِلَى رَأْيِكُمَا ولَا رَأْيِ غَيْرِكُمَا - ولَا وَقَعَ حُكْمٌ جَهِلْتُه فَأَسْتَشِيرَكُمَا وإِخْوَانِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ولَوْ كَانَ ذَلِكَ لَمْ أَرْغَبْ عَنْكُمَا ولَا عَنْ غَيْرِكُمَا -. وأَمَّا مَا ذَكَرْتُمَا مِنْ أَمْرِ الأُسْوَةِ - فَإِنَّ ذَلِكَ أَمْرٌ لَمْ أَحْكُمْ أَنَا فِيه بِرَأْيِي - ولَا وَلِيتُه هَوًى مِنِّي - بَلْ وَجَدْتُ أَنَا وأَنْتُمَا مَا جَاءَ بِه رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قَدْ فُرِغَ مِنْه - فَلَمْ أَحْتَجْ إِلَيْكُمَا فِيمَا قَدْ فَرَغَ اللَّه مِنْ قَسْمِه - وأَمْضَى فِيه حُكْمَه - فَلَيْسَ لَكُمَا واللَّه عِنْدِي ولَا لِغَيْرِكُمَا فِي هَذَا عُتْبَى -. أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ.

کردیا ہے ؟ یا کونسا حصہ ایسا ہے جس پر میں نے قبضہ کرلیا ہے ؟ یا کسی مسلمان نے کوئی مقدمہ پیش کیا ہو اور میں اس کا فیصلہ نہ کر سکا ہوں یا اس سے ناواقف رہا ہوں یا اس میں کسی غلطی کا شکار ہوگیا ہوں۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے نہ خلافت کی خواہش تھی اور نہ حکومت کی احتیاج۔تمہیں لوگوں نے مجھے اس امر کی دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔اس کے بعد جب یہ میرے ہاتھ میں آگئی تو میں نے اس سلسلہ میں کتاب خدا اور اس کے دستور پر نگاہ کی اور جو اس نے حکم دیا تھا اس کا اتباع کیا اور اس طرح رسول اکرم (ص) کی سنت کی اقتدا کی۔جس کے بعد نہ مجھے تمہاری رائے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ تمہارے علاوہ کسی کی رائے کی اور نہمیں کسی حکم سے جاہل تھا کہ تم سے مشورہ کرتا یا تمہارے علاوہ دیگر برادران اسلام سے۔اور اگر ایی کوئی ضرورت ہوتی تو میں نہ تمہیں نظر انداز کرتا اورنہ دیگر مسلمانوں کو۔رہ گیا یہ مسئلہ کہ میں نے بیت المال کی تقسیم میں برابری سے کاملیا ہے تو یہ نہمیری ذاتی رائے ہے اور نہاس پر میری خواہش کی حکمرانی ہے بلکہ میں نے دیکھا کہ اس سلسلہ میں رسول اکرم (ص) کی طرف سے ہم سے پہلے فیصلہ ہوچکا ہے تو خدا کے معین کئے ہوئے حق اور اس کے جاری کئے ہوئے حکم کے بعد کسی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ خدا شاہد ہے کہ اس سلسلہ میں نہ تمہیں شکایت کا کوئی حق ہے اور نہ تمہارے علاوہ کسی اور کو۔اللہ ہم سب کے دلوں کو حق کی راہ پر لگا دے اور سب کو صبر و شکیبائی کی توفیق عطا فرمائے ۔

۴۲۱

ثم قالعليه‌السلام - رَحِمَ اللَّه رَجُلًا رَأَى حَقّاً فَأَعَانَ عَلَيْه - أَوْ رَأَى جَوْراً فَرَدَّه - وكَانَ عَوْناً بِالْحَقِّ عَلَى صَاحِبِه.

(۲۰۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين

إِنِّي أَكْرَه لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ - ولَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ - كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وأَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ - وقُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ - اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا ودِمَاءَهُمْ - وأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وبَيْنِهِمْ واهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ - حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَه - ويَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ والْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِه

(۲۰۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في بعض أيام صفين - وقد رأى الحسن ابنهعليه‌السلام يتسرع إلى الحرب

امْلِكُوا عَنِّي هَذَا الْغُلَامَ لَا يَهُدَّنِي - فَإِنَّنِي أَنْفَسُ بِهَذَيْنِ يَعْنِي الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام - عَلَى الْمَوْتِ

خدا اس شخص پر رحمت نازل کرے جو حق کو دیکھ لے تو اس پرعمل کرے یا ظلم کو دیکھ لے تو اسے ٹھکرا دے اورصاحب حق میں اس کا ساتھ دے ۔

(۲۰۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے جنگ صفین کے زمانہ میں اپنے بعض اصحاب کے بارے میں سنا کہ وہ اہل شام کو برا بھلا کہہ رہے ہیں )

میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ خدایا! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کیراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگحق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں۔

(۲۰۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جنگ صفین کے دورا ن جب امام حسن کو میدان جنگ کی طرف سبقت کرتے ہوئے دیکھ لیا)

دیکھو! اس فرزند کو روک لو کہیں اس کاصدمہ مجھے بے حال نہکردے ۔میں ان دونوں ( حسن و حسین ) کو موت کے مقابلہ میں زیادہ عزیز رکھتا ہوں

۴۲۲

لِئَلَّا يَنْقَطِعَ بِهِمَا نَسْلُ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

قال السيد الشريف - قولهعليه‌السلام املكوا عني هذا الغلام - من أعلى الكلام وأفصحه.

(۲۰۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لما اضطرب عليه أصحابه في أمر الحكومة

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّه لَمْ يَزَلْ أَمْرِي مَعَكُمْ عَلَى مَا أُحِبُّ - حَتَّى نَهِكَتْكُمُ الْحَرْبُ - وقَدْ واللَّه أَخَذَتْ مِنْكُمْ وتَرَكَتْ - وهِيَ لِعَدُوِّكُمْ أَنْهَكُ.

لَقَدْ كُنْتُ أَمْسِ أَمِيراً فَأَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَأْمُوراً - وكُنْتُ أَمْسِ نَاهِياً فَأَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَنْهِيّاً - وقَدْ أَحْبَبْتُمُ الْبَقَاءَ ولَيْسَ لِي أَنْ أَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكْرَهُونَ!

(۲۰۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بالبصرة - وقد دخل على العلاء بن زياد الحارثي وهو من أصحابه

يعوده، فلما رأى سعة داره قال:

کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے مرجانے سے نسل رسول (ص) منقطع ہو جائے۔

سید رضی : املکوا عنی ھذا الغلام:عرب کا بلند ترین کلام اور فصیح ترین محاورہ ہے۔

(۲۰۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو اس وقت ارشاد فرمایا جب آپ کے اصحاب میں تحکیم کے بارے میں اختلاف ہوگیا تھا)

لوگو! یاد رکھو کہ میرے معاملات تمہارے ساتھ بالکل صحیح چل رہے تھے جب تک جنگ نے تمہیں خستہ حال نہیں کردیا تھا۔اس کے بعد معاملات بگڑ گئے حالانکہ خداگواہ ہے کہاگر جنگ نے تم سے کچھ کولے لیا اورکچھ کوچھوڑ دیا تو اس کی زد تمہارے دشمن پر زیادہ ہی پڑی ہے۔ افسو س کہ میں کل تمہارا حاکم تھا اور آج محکوم بنایا جا رہا ہوں۔کل تمہیں میں روکا کرتا تھااور آج تم مجھے روک رہے ہو۔بات صرف یہ ہے کہ تمہیں زندگی زیادہ پیاری ہے اورمیں تمہیں کسی ایسی چیز پرآمادہ نہیں کرسکتا ہوں جوتمہیں ناگوار اور ناپسند ہو۔

(۲۰۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بصرہ میں اپنے صحابی علاء بن زیاد حارثی کے گھر عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کے گھر کی وسعت کا مشاہدہ فرمایا )

۴۲۳

مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِسِعَةِ هَذِه الدَّارِ فِي الدُّنْيَا - وأَنْتَ إِلَيْهَا فِي الآخِرَةِ كُنْتَ أَحْوَجَ - وبَلَى إِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ - تَقْرِي فِيهَا الضَّيْفَ وتَصِلُ فِيهَا الرَّحِمَ - وتُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوقَ مَطَالِعَهَا - فَإِذاً أَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ.

فَقَالَ لَه الْعَلَاءُ - يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَشْكُو إِلَيْكَ أَخِي عَاصِمَ بْنَ زِيَادٍ - قَالَ ومَا لَه - قَالَ لَبِسَ الْعَبَاءَةَ وتَخَلَّى عَنِ الدُّنْيَا - قَالَ عَلَيَّ بِه فَلَمَّا جَاءَ قَالَ: يَا عُدَيَّ نَفْسِه لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكَ الْخَبِيثُ - أَمَا رَحِمْتَ أَهْلَكَ ووَلَدَكَ - أَتَرَى اللَّه أَحَلَّ لَكَ الطَّيِّبَاتِ وهُوَ يَكْرَه أَنْ تَأْخُذَهَا - أَنْتَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّه مِنْ ذَلِكَ

قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - هَذَا أَنْتَ فِي خُشُونَةِ مَلْبَسِكَ وجُشُوبَةِ مَأْكَلِكَ!

قَالَ وَيْحَكَ إِنِّي لَسْتُ كَأَنْتَ - إِنَّ اللَّه تَعَالَى فَرَضَ عَلَى أَئِمَّةِ - الْعَدْلِ أَنْ يُقَدِّرُوا أَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ - كَيْلَا يَتَبَيَّغَ بِالْفَقِيرِ فَقْرُه!

تم اس دنیا میں اس قدر وسیع مکان(۱) کو لے کر کیا کروگے جب کہ آخرت میں اس کی احتیاج زیادہ ہے۔تم اگرچاہو تو اس کے ذریعہ آخرت کا سامان کرسکتے ہو کہ اس میں مہمانوں کی ضیافت کرو۔قرابتداروں سے صلہ رحم کرو اورموقع و محل کے مطابق حقوق کوادا کرو کہ اس طرح آخرت کوحاصل کرسکتے ہو۔

یہ سن کرعلاء بن زیاد نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین میں اپنے بھائی عاصم بن زیاد کی شکایت کرناچاہتا ہوں۔فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ عرض کی کہ انہوں نے ایک عبا اوڑھ لی ہے اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہے۔فرمایا انہیں بلائو ۔عاصم حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ:

اے دشمن جان! تجھے شیطان خبیث نے گرویدہ بنا لیا ہے۔تجھے اپنے اہل و عیال پر کیوں رحم نہیں آتا ہے۔کیا تیراخیال یہ ہے کہ خدانے پاکیزہ چیزوں کو حلال تو کیا ہے لیکن وہ ان کے استعمال کو نا پسند کرتا ہے۔تو خدا کی بارگاہ میں اس سے زیادہ پست ہے۔

عاصم نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! آپ بھی تو کھردرا لباس اور معمولی کھانے پر گذارا کر رہے ہیں۔

فرمایا : تم پر حیف ہے کہ تم نے میراقیاس اپنے اوپر کرلیا ہے جب کہ پروردگارنے ائمہ حق پرفرض کردیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین انسانوں کو قراردیںتاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا پر کسی پیچ و تاب کا شکار ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مکان کی وسعت ذاتی اغراض کے لئے ہو تو اس کا نام دنیا داری ہے۔لیکن اگر اس کامقصد مہمان نوازی صلہ ارحام ادائیگی حقوق حفظ آبرو۔اظہار عظمت علم و مذہب ہوتو اس کاکوئی تعلق دنیداری سے نہیں ہے اور یہ دین و مذہب ہی کا ایک شعبہ ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ یہ فیصلہ نیتوں سے ہوگا اورنتیوں کا جاننے والا صرف پروردگار ہے کوئی دوسرا نہیں ہے۔

۴۲۴

(۲۱۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سأله سائل عن أحاديث البدع - وعما في أيدي الناس من اختلاف الخبر فقالعليه‌السلام :

إِنَّ فِي أَيْدِي النَّاسِ حَقّاً وبَاطِلًا - وصِدْقاً وكَذِباً ونَاسِخاً ومَنْسُوخاً - وعَامّاً وخَاصّاً - ومُحْكَماً ومُتَشَابِهاً وحِفْظاً ووَهْماً - ولَقَدْ كُذِبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَى عَهْدِه - حَتَّى قَامَ خَطِيباً فَقَالَ - مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَه مِنَ النَّارِ».

وإِنَّمَا أَتَاكَ بِالْحَدِيثِ أَرْبَعَةُ رِجَالٍ لَيْسَ لَهُمْ خَامِسٌ:

المنافقون

رَجُلٌ مُنَافِقٌ مُظْهِرٌ لِلإِيمَانِ مُتَصَنِّعٌ بِالإِسْلَامِ - لَا يَتَأَثَّمُ ولَا يَتَحَرَّجُ - يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مُتَعَمِّداً - فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ أَنَّه مُنَافِقٌ كَاذِبٌ لَمْ يَقْبَلُوا مِنْه - ولَمْ يُصَدِّقُوا قَوْلَه - ولَكِنَّهُمْ

(۲۱۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب کسی شخص نے آپ سے بدعتی احادیث اورمتضاد روایات کے بارے میں سوال کیا )

لوگوں کے ہاتھوں میں حق و باطل(۱) صدق و کذب ' ناسخ ومنسوخ، عام وخاص ' محکم و متشابہ اور حقیقت و وہم سب کچھ ہے اور کذب و افترا کا سلسلہ رسول اکرم (ص) کی زندگی ہی سے شروع ہوگیا تھا جس کے بعد آپ نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ '' جس شخص نے بھی میری طرف سے غلط بات بیان کی اسے اپنی جگہ جہنم میں بنا لینا چاہیے ۔''

یاد رکھو کہ حدیث کے بیان والے چار طرح کے افراد ہوتے ہیں جن کی پانچویں کوئی قسم نہیں ہے:

ایک وہ منافق ہے جو ایمان کا اظہار کرتا ہے۔اسلام کی وضع قطع اختیار کرتا ہے لیکن گناہ کرنے اور افتراء میں پڑنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے اور رسول اکرم (ص) کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ہے۔ کہ اگر لوگوں کومعلوم ہو جائے کہ یہ منافق اورجھوٹا تو یقینا اس کے بیان کی تصدیق نہ کریں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ

(۱)واضح رہے کہ اسلامی علوم میں علم رجال اور علم ورایت کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سارا عالم اسلام اس نقطہ پر متفق ہے کہ روایات قابل قبول بھی ہیں اورنا قابل قبول بھی۔اور راوی حضرات ثقہ اورمعتبر بھی ہیں اور غیر ثقہ اورغیر معتبر بھی۔اس کے بعد عدالت صحابہ اور اعتبار تمام علماء کا عقیدہ۔ایک مضحکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۴۲۵

قَالُوا صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - رَآه وسَمِعَ مِنْه ولَقِفَ عَنْه فَيَأْخُذُونَ بِقَوْلِه - وقَدْ أَخْبَرَكَ اللَّه عَنِ الْمُنَافِقِينَ بِمَا أَخْبَرَكَ - ووَصَفَهُمْ بِمَا وَصَفَهُمْ بِه لَكَ ثُمَّ بَقُوا بَعْدَه - فَتَقَرَّبُوا إِلَى أَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ - والدُّعَاةِ إِلَى النَّارِ بِالزُّورِ والْبُهْتَانِ - فَوَلَّوْهُمُ الأَعْمَالَ وجَعَلُوهُمْ حُكَّاماً عَلَى رِقَابِ النَّاسِ - فَأَكَلُوا بِهِمُ الدُّنْيَا وإِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوكِ والدُّنْيَا - إِلَّا مَنْ عَصَمَ اللَّه فَهَذَا أَحَدُ الأَرْبَعَةِ.

الخاطئون

ورَجُلٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّه شَيْئاً لَمْ يَحْفَظْه عَلَى وَجْهِه - فَوَهِمَ فِيه ولَمْ يَتَعَمَّدْ كَذِباً فَهُوَ فِي يَدَيْه - ويَرْوِيه ويَعْمَلُ بِه - ويَقُولُ أَنَا سَمِعْتُه مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّه وَهِمَ فِيه لَمْ يَقْبَلُوه مِنْه - ولَوْ عَلِمَ هُوَ أَنَّه كَذَلِكَ لَرَفَضَه!

وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحابی ہے۔اس نے حضور کودیکھا ہے ۔ان کے ارشاد کو سنا ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اور اس طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ہیں جب کہخود پروردگار بھی منافقین کے بارے میں خبر دے چکا ہے اور ان کے اوصاف کاتذکرہ کرچکا ہے اور یہ رسول اکرم (ص) کے بعد بھی باقی رہ گئے تھے اور گمراہی کے پیشوائوں(۱) اور جہنم کے داعیوں کی طرف اسی غلط بیانی اور افترا پردازی سے تقرب حاصل کرتے تھے ۔وہ انہیں عہدے دیتے رہے اور لوگوں کی گردنوں پر حکمراں بناتے رہے اور انہیں کے ذریعہ دنیا کو کھاتے رہے اور لوگ تو بہر حال بادشاہوں اوردنیا داروں ہی کے ساتھ رہتے ہیں۔علاوہ ان کے جنہیں اللہ اس شر سے محفوظ کرلے۔یہ چار میں سے ایک قسم ہے۔

دوسرا شخص وہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) سے کوئی بات سنی ہے لیکن اسے صحیح طریقہ سے محفوظ نہیں کرس کا ہے اوراس میں غلطی کا شکار ہوگیا ہے۔جان بوجھ کرجھوٹ نہیں بولتا ہے۔جوکچھ اس کے ہاتھ میں ہے اسی کی روایت کرتا ہے اوراسی پرعمل کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ میں نے رسول اکرم (ص) سے سنا ہے حالانکہ اگر مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے تو ہرگز اس کی بات قبول نہ کریں گے بلکہ اگر اسے خودبھی معلوم ہوجائے کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے تو ترک کردے گا اور نقل نہیں کرے گا۔

(۱)حضرت نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ منافقین کا کاروبار ہمیشہ حکام کی نالائقی سے چلتا ہے ورنہ حکام دیانتدار ہوں اورایسی روایات کے خریدار نہ بنیں تو منافقین کا کاروبار ایک دن میں ختم ہو سکتا ہے۔

۴۲۶

أهل الشبهة

ورَجُلٌ ثَالِثٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شَيْئاً - يَأْمُرُ بِه ثُمَّ إِنَّه نَهَى عَنْه وهُوَ لَا يَعْلَمُ - أَوْ سَمِعَه يَنْهَى عَنْ شَيْءٍ ثُمَّ أَمَرَ بِه وهُوَ لَا يَعْلَمُ - فَحَفِظَ الْمَنْسُوخَ ولَمْ يَحْفَظِ النَّاسِخَ - فَلَوْ عَلِمَ أَنَّه مَنْسُوخٌ لَرَفَضَه - ولَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ إِذْ سَمِعُوه مِنْه أَنَّه مَنْسُوخٌ لَرَفَضُوه –

الصادقون الحافظون

وآخَرُ رَابِعٌ - لَمْ يَكْذِبْ عَلَى اللَّه ولَا عَلَى رَسُولِه - مُبْغِضٌ لِلْكَذِبِ خَوْفاً مِنَ اللَّه وتَعْظِيماً لِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ولَمْ يَهِمْ بَلْ حَفِظَ مَا سَمِعَ عَلَى وَجْهِه - فَجَاءَ بِه عَلَى مَا سَمِعَه - لَمْ يَزِدْ فِيه ولَمْ يَنْقُصْ مِنْه - فَهُوَ حَفِظَ النَّاسِخَ فَعَمِلَ بِه - وحَفِظَ الْمَنْسُوخَ فَجَنَّبَ عَنْه - وعَرَفَ الْخَاصَّ والْعَامَّ والْمُحْكَمَ والْمُتَشَابِه - فَوَضَعَ كُلَّ شَيْءٍ مَوْضِعَه.

وقَدْ كَانَ يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الْكَلَامُ - لَه وَجْهَانِ فَكَلَامٌ  

يَسْمَعُوا - وكَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُه عَنْه وحَفِظْتُه - فَهَذِه وُجُوه مَا عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلَافِهِمْ وعِلَلِهِمْ فِي رِوَايَاتِهِمْ.

تیسری قسم اس شخص کی ہے جس نے رسول اکرم (ص) کو حکم دیتے سنا ہے لیکن حضرت نے جب منع کیا تو اسے اطلاع نہیں ہو سکی یا حضرت کو منع کرتے دیکھا ہے پھر جب آپ نے دوبارہ حکم دیا تو اطلاع نہ ہو سکی' اس شخص نے منسوخ کو محفوظ کرلیا ہے اور ناسخ کو محفوظ نہیں کر سکا ہے کہاگر اسے معلوم ہو جائے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے تو اسے ترک کردے گا اور اگرمسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ اس نے منسوخ کی روایت کی ہے تو وہ بھی اسے نظر اندازکردیں گے۔

چوتھی قسم اس شخص کی ہے جس نے خدا اور رسول (ص) کے خلاف غلط بیانی سے کام نہیں لیا ہے اور وہ خوف خدا اورتعظیم رسول خدا کی بنیاد پر جھوٹ کا دشمن بھی ہے اور اس سے بھول چوک بھی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے ویسے ہی محفوظ کر رکھا ہے نہ اس میں کسی طرح کااضافہ کیا ہے اور نہ کمی کی ہے۔ناسخ ہی کو محفوظ کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور منسوخ کو یاد رکھا ہے۔لیکن اس سے اجتناب کیا ہے ۔خاص و عام اورمحکم و متشابہ کوبھی پہچانتا ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہےلیکن مشکل یہ ہےکہ کبھی کبھی رسول اکرم (ص) کے ارشادات کے دورخ(۱) ہوتے تھے ۔بعض کا تعلق

(۱)جس طرح ایک انسان کی زندگی کے مختلف رخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک رخ دوسرے سے بالکل اجنبی ہوتا ہے کہ بے خبر انسان اسے دو زندگیوں پر محمول کردیتا ہے۔اسی طرح معاشرہ اور روایات کے بھی مختلف رخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک رخ دوسرے سے بالکل اجنبی اور بیگانہ ہوتا ہے اور ہر رخ کے لئے الگ مفہوم ہوتا ہے اورہر رخ کے الگ احکام ہوتے ہیں۔اب اگر کوئی شخص اس حقیقت سے باخبر نہیں ہوتا ہے تو وہ ایک ہی رخ یا ایک ہی روایت کو لے اڑتا ہے اور وثوق و اعتبارکے ساتھ یہ بین کرتا ہے کہ میں نے خود رسول اکرم (ص) سے سنا ہے اوراسے یہ خبر نہیں ہوتی ہے کہ زندگی کا کوئی دوسرا رخ بھی ہے۔یا اس بیان کا کوئی اور بھی پہلو ہے جو قبل یا بعد دوسرے مناسب موقع پر بیان ہوچکا ہے یا بیان ہونے والا ہے اور اس طرح اشتباہات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اورحقیقت روایات میں گم ہو جاتی ہے حالانکہ دیدہ و دانستہ کوئی گناہ یا اشتباہ نہیں ہوتا ہے ۔

۴۲۷

خَاصٌّ وكَلَامٌ عَامٌّ - فَيَسْمَعُه مَنْ لَا يَعْرِفُ مَا عَنَى اللَّه سُبْحَانَه بِه - ولَا مَا عَنَى رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَيَحْمِلُه السَّامِعُ ويُوَجِّهُه عَلَى غَيْرِ مَعْرِفَةٍ بِمَعْنَاه - ومَا قُصِدَ بِه ومَا خَرَجَ مِنْ أَجْلِه - ولَيْسَ كُلُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنْ كَانَ يَسْأَلُه ويَسْتَفْهِمُه - حَتَّى إِنْ كَانُوا لَيُحِبُّونَ أَنْ يَجِيءَ الأَعْرَابِيُّ والطَّارِئُ - فَيَسْأَلَهعليه‌السلام حَتَّى

فَيَسْأَلَه عليه السلام حَتَّى يَسْمَعُوا - وكَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُه عَنْه وحَفِظْتُه - فَهَذِه وُجُوه مَا عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلَافِهِمْ وعِلَلِهِمْ فِي رِوَايَاتِهِمْ

(۲۱۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في عجيب صنعة الكون

وكَانَ مِنِ اقْتِدَارِ جَبَرُوتِه - وبَدِيعِ لَطَائِفِ صَنْعَتِه - أَنْ جَعَلَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ الزَّاخِرِ - الْمُتَرَاكِمِ الْمُتَقَاصِفِ يَبَساً جَامِداً

خاص افراد سے ہوتاتھا اور بعض کلمات عام ہوتے تھے اور ان کلمات کو وہشخص بھی سن لیتا تھا جسے یہ نہیں معلوم تھا کہ خدا و رسول کا مقصد کیا ہے اور اسے سن کر اس کی ایک توجیہ کرلیتا تھا بغیر اس نکتہ کا ادراک کئے ہوئے۔کہ اس کلام کا مفہوم اور مقصد کیا ہے اوریہ کس بنیاد پر صادر ہوا ہے۔اور تمام اصحاب رسول اکرم (ص) میں یہ ہمت بھی نہیں تھی کہ آپ سے سوال کرسکیں اورباقاعدہ تحقیق کرسکیں بلکہ اس بات کا انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی صحرائی یا پردیسی آکر آپ سے سوال کرے تو وہ بھی سن لیں ۔یہ صرف میں تھا کہ میرے سامنے سے کوئی ایسی بات نہیں گزرتی تھی مگر یہ کہ میں دریافت بھی کرلیتا تھا اور محفوظ بھی کرلیتا تھا۔

یہ ہیں لوگوں کے درمیان اختلافات کے اسباب اور روایات میں تضاد کے عوامل و محرکات۔

(۲۱۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حیرت انگیز تخلیق کائنات کے بارے میں )

یہ پروردگار کے اقتدار کی طاقت اور اس کی صناعی کی حیرت انگیز لطافت ہے کہ اس نے گہرے اور متلاطم سمندر(۱) میں ایک خشک اور ٹھوس زمین کو پیدا

(۱) کتنا حسین نظام کائنات ہے کہ متلاطم پانی پر زمین قائم ہے اور زمین کے اپور ہوا کا دبائو قائم ہے اور انسان اس تین منزلہ عمارت میں درمیانی طبقہ پر اس طرح سکونت پذیر ہے کہ اس کے زیر قدم زمین اور پانی ہے اوراس کے بالائے سر فضا اور ہوا ہے۔ہوا اس کی زندگی کے لئے سانسیں فراہم کر رہی ہے اور زمین اس کے سکون و قرار کا انتظام کرکے اسے باقی رکھے ہوئے ہیں۔پانی اس کی زندگی کا قوام ہے اور سمندراس کی تازگی کا ذریعہ کوئی ذرۂ کائنات اس کی خدمت سے غافل نہیں ہے اورکوئی عنصراپنے سے اشرف مخلوق کی اطاعت سے منحرف نہیں ہے۔تاکہ وہ بھی اپنی اشرفیت کی آبرو کاتحفظ کرے اور ساری کائنات سے بالاتر خالق ومالک کی اطاعت و عبادت میں ہمہ تن مصروف رہے۔

۴۲۸

ثُمَّ فَطَرَ مِنْه أَطْبَاقاً - فَفَتَقَهَا سَبْعَ سَمَاوَاتٍ بَعْدَ ارْتِتَاقِهَا فَاسْتَمْسَكَتْ بِأَمْرِه - وقَامَتْ عَلَى حَدِّه وأَرْسَى أَرْضاً يَحْمِلُهَا الأَخْضَرُ الْمُثْعَنْجِرُ - والْقَمْقَامُ الْمُسَخَّرُ - قَدْ ذَلَّ لأَمْرِه وأَذْعَنَ لِهَيْبَتِه - ووَقَفَ الْجَارِي مِنْه لِخَشْيَتِه - وجَبَلَ جَلَامِيدَهَا ونُشُوزَ مُتُونِهَا وأَطْوَادِهَا - فَأَرْسَاهَا فِي مَرَاسِيهَا - وأَلْزَمَهَا قَرَارَاتِهَا - فَمَضَتْ رُءُوسُهَا فِي الْهَوَاءِ - ورَسَتْ أُصُولُهَا فِي الْمَاءِ - فَأَنْهَدَ جِبَالَهَا عَنْ سُهُولِهَا - وأَسَاخَ قَوَاعِدَهَا فِي مُتُونِ أَقْطَارِهَا ومَوَاضِعِ أَنْصَابِهَا - فَأَشْهَقَ قِلَالَهَا وأَطَالَ أَنْشَازَهَا - وجَعَلَهَا لِلأَرْضِ عِمَاداً وأَرَّزَهَا فِيهَا أَوْتَاداً - فَسَكَنَتْ عَلَى حَرَكَتِهَا مِنْ أَنْ تَمِيدَ بِأَهْلِهَا أَوْ تَسِيخَ بِحِمْلِهَا أَوْ تَزُولَ عَنْ مَوَاضِعِهَا - فَسُبْحَانَ مَنْ أَمْسَكَهَا بَعْدَ مَوَجَانِ مِيَاهِهَا - وأَجْمَدَهَا بَعْدَ رُطُوبَةِ أَكْنَافِهَا - فَجَعَلَهَا لِخَلْقِه مِهَاداً - وبَسَطَهَا لَهُمْ فِرَاشاً - فَوْقَ بَحْرٍ لُجِّيٍّ رَاكِدٍ

کردیا۔ اور پھربخارات کے طبقات بنا کر انہیں شگافتہ کرکے سات آسمانوں کی شکل دے دی جواس کے امر سے ٹھہرے ہوئے ہیں اوراپنی حدوں پرقائم ہیں ۔پھر زمین کو یوں گاڑ دیا کہ اسے سبز رنگ کا گہرا سمندر اٹھائے ہوئے ہے جو قانون الٰہی کے آگے مسخر ہے۔اس کے امر کا تابع ہے اور اس کی ہیبت کے سامنے سر نگوں ہے اور اس کے خوف سے اس کا بہائو تھما ہوا ہے۔

پھر پتھروں۔ٹیلوں اورپہاڑوں کو خلق کرکے انہیں ان کی جگہوں پر گاڑ دیا اور ان کی منزلوں پر مستقر کردیا کہ اب ان کی بلندیاں فضائوں سے گزرگئی ہیں اور ان کی جڑیں پانی کے اندر راسخ ہیں۔ان کے پہاڑوں کو ہموار زمینوں سے اونچا کیا اور ان کے ستونوں کواطراف کے پھیلائو اورمراکز کے ٹھہرائو میں نصب کردیا۔اب ان کی چوٹیاں بلند ہیں اور ان کی بلندیاں طویل ترین ہیں۔انہیں پہاڑوں کو زمین کا ستون قرار دیا ہے اور انہیں کو کیل بنا کر گاڑ دیا ہے جن کی وجہس ے زمین حرکت کے بعد ساکن ہوگئی اور نہ اہل زمین کو لے کر کسی رف جھک سکی اور نہ ان کے بوجھ سے دھنس سکی اورنہ اپنی جگہ سے ہٹ سکی۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے پانی کے تموج کے باوجود اسے روک رکھا ہے اور اطراف کی تری کے باوجود اسے خشک بنا رکھا ہے اور پھر اسے اپنی مخلوقات کے لئے گہوارہ اور فرش کی حیثیت دے دی ہے۔اس گہرے سمندر کے اوپر جوٹھہرا ہوا ہے اور بہتا نہیں ہے اور

۴۲۹

لَا يَجْرِي وقَائِمٍ لَا يَسْرِي - تُكَرْكِرُه الرِّيَاحُ الْعَوَاصِفُ - وتَمْخُضُه الْغَمَامُ الذَّوَارِفُ -( إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشى ) .

(۲۱۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

كان يستنهض بها أصحابه إلى جهاد أهل الشام في زمانه

اللَّهُمَّ أَيُّمَا عَبْدٍ مِنْ عِبَادِكَ - سَمِعَ مَقَالَتَنَا الْعَادِلَةَ غَيْرَ الْجَائِرَةِ - والْمُصْلِحَةَ غَيْرَ الْمُفْسِدَةِ فِي الدِّينِ والدُّنْيَا - فَأَبَى بَعْدَ سَمْعِه لَهَا إِلَّا النُّكُوصَ عَنْ نُصْرَتِكَ - والإِبْطَاءَ عَنْ إِعْزَازِ دِينِكَ - فَإِنَّا نَسْتَشْهِدُكَ عَلَيْه يَا أَكْبَرَ الشَّاهِدِينَ شَهَادَةً - ونَسْتَشْهِدُ عَلَيْه جَمِيعَ مَا أَسْكَنْتَه أَرْضَكَ وسمَاوَاتِكَ - ثُمَّ أَنْتَ بَعْدُ الْمُغْنِي عَنْ نَصْرِه - والآخِذُ لَه بِذَنْبِه.

(۲۱۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في تمجيد اللَّه وتعظيمه

الْحَمْدُ لِلَّه الْعَلِيِّ عَنْ شَبَه الْمَخْلُوقِينَ - الْغَالِبِ لِمَقَالِ الْوَاصِفِينَ -

ایک مقام پر قائم ہے کسی طرف جاتا نہیں ہے حالانکہ اسے تیز و تند ہوائیں حرکت دے رہی ہیں اور برسنے والے بادل اسے متھ کراس سے پانی کھینچتے رہتے ہیں۔ ''ان تمام باتوں میں عبرت کا سامان ہے ان لوگوں کے لے جن کا اندر خوف خدا پایا جاتا ہے ۔''

(۲۱۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب کو اہل شام سے جہاد کرنے پر آمادہ کیا ہے )

خدایا تیرے جس بندہ نے بھی میری عادلانہ گفتگو (جس میں کسی طرح کا ظلم نہیں ہے ) اورمصلحانہ نصیحت (جس میں کسی طرح کافساد نہیں ہے ) کو سننے کے بعد بھی تیرے دین کی نصرت سے انحراف کیا اور تیرے دین کے اعزاز میں کوتاہی کی ہے۔میں اس کے خلاف تجھے گواہ قرار دے رہا ہوں کہ تجھ سے بالاترکوئی گواہ نہیں ہے اور پھرتیرے تمام سکان ارض و سما کو گواہ قراردے رہا ہوں۔اس کے بعد تو ہر ایک کی مدد سے بے نیاز بھی ہے اور ہر ایک کے گناہ کا مواخذہ کرنے والا بھی ہے۔

(۲۱۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(پروردگار کی تمجید اوراس کی تعظیم کے بارے میں)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو مخلوقات کی مشابہت سے بلند تر اور توصیف کرنے والوں کی

۴۳۰

الظَّاهِرِ بِعَجَائِبِ تَدْبِيرِه لِلنَّاظِرِينَ - والْبَاطِنِ بِجَلَالِ عِزَّتِه عَنْ فِكْرِ الْمُتَوَهِّمِينَ - الْعَالِمِ بِلَا اكْتِسَابٍ ولَا ازْدِيَادٍ - ولَا عِلْمٍ مُسْتَفَادٍ - الْمُقَدِّرِ لِجَمِيعِ الأُمُورِ بِلَا رَوِيَّةٍ ولَا ضَمِيرٍ - الَّذِي لَا تَغْشَاه الظُّلَمُ ولَا يَسْتَضِيءُ بِالأَنْوَارِ - ولَا يَرْهَقُه لَيْلٌ ولَا يَجْرِي عَلَيْه نَهَارٌ - لَيْسَ إِدْرَاكُه بِالإِبْصَارِ ولَا عِلْمُه بِالإِخْبَارِ.

ومنها في ذكر النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

أَرْسَلَه بِالضِّيَاءِ وقَدَّمَه فِي الِاصْطِفَاءِ - فَرَتَقَ بِه الْمَفَاتِقَ وسَاوَرَ بِه الْمُغَالِبَ - وذَلَّلَ بِه الصُّعُوبَةَ وسَهَّلَ بِه الْحُزُونَةَ - حَتَّى سَرَّحَ الضَّلَالَ عَنْ يَمِينٍ وشِمَالٍ.

(۲۱۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يصف جوهر الرسول، ويصف العلماء، ويعظ بالتقوى

وأَشْهَدُ أَنَّه عَدْلٌ عَدَلَ وحَكَمٌ فَصَلَ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً

گفتگو سے بالاتر ہے وہ اپنی تدبیر کے عجائب کے ذریعہ دیکھنے والوں کے سامنے بھی ہے اور اپنے جلال و عزت کی بناپر مفکرین کی فکر سے پوشیدہ بھی ہے بغیر کسی تحصیل اور اضافہ کے عالم ہے اور اس کاعلم کسی استفادہ کا نتیجہ بھی نہیں ہے۔تمام امور کاتقدیر ساز ہے اور اس سلسلہ میں کسی فکر اورسوچ بچار کامحتاج بھی نہیں ہے۔تاریکیاں اسے ڈھانپ نہیں سکتی ہیں اور روشنیوں سے وہ کسی طرح کا کسب نور نہیں کرتا ہے۔نہ رات اس پر غالب آسکتی ہے اور نہ دن اس کے اوپر سے گزر سکتا ہے ۔اس کا ادراک آنکھوں کا محتاج نہیں ہے اور اس کاعلم اطلاعات کا نتیجہ نہیں ہے۔

اس نے پیغمبر (ص) کوایک نوردے کربھیجا ہے اورانہیں سب سے پہلے منتخب قرار دیا ہے۔ان کے ذریعہ پراگندیوں کو جمع کیا ہے اور غلبہ حاصل کرنے والوں کو قابو میں رکھا ہے۔دشواریوں کوآسان کیا ہے اورنا ہمواریوں کو ہموار بنایا ہے۔یہاں تک کہ گمراہیوں کو داہنے بائیں ہر طرف سے دور کردیا ہے۔

(۲۱۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں رسول اکرم (ص) کی تعریف علماء کی توصیف اور تقویٰ کی نصیحت کا ذکر کیا گیا ہے )

میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ پروردگار ایسا عادل ہے جو عدل ہی سے کام لیتا ہے۔اور ایساحاکم ہے جو حق و باطل کو جدا کر دیتا ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد (ص)

۴۳۱

عَبْدُه ورَسُولُه وسَيِّدُ عِبَادِه - كُلَّمَا نَسَخَ اللَّه الْخَلْقَ فِرْقَتَيْنِ جَعَلَه فِي خَيْرِهِمَا - لَمْ يُسْهِمْ فِيه عَاهِرٌ ولَا ضَرَبَ فِيه فَاجِرٌ.

أَلَا وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدْ جَعَلَ لِلْخَيْرِ أَهْلًا - ولِلْحَقِّ دَعَائِمَ ولِلطَّاعَةِ - عِصَماً - وإِنَّ لَكُمْ عِنْدَ كُلِّ طَاعَةٍ عَوْناً مِنَ اللَّه سُبْحَانَه – يَقُولُ عَلَى الأَلْسِنَةِ ويُثَبِّتُ الأَفْئِدَةَ - فِيه كِفَاءٌ لِمُكْتَفٍ وشِفَاءٌ لِمُشْتَفٍ –

صفة العلماء

واعْلَمُوا أَنَّ عِبَادَ اللَّه الْمُسْتَحْفَظِينَ عِلْمَه - يَصُونُونَ مَصُونَه ويُفَجِّرُونَ عُيُونَه - يَتَوَاصَلُونَ بِالْوِلَايَةِ - ويَتَلَاقَوْنَ بِالْمَحَبَّةِ ويَتَسَاقَوْنَ بِكَأْسٍ رَوِيَّةٍ - ويَصْدُرُونَ بِرِيَّةٍ

اس کے بندہ اور رسول ہیں اور پھر تمام بندوں کے سرداربھی ہیں۔جب بھی پروردگار نے مخلوقات کا دو حصوں میں تقسیم کیا ہے انہیں(۱) بہترین حصہ ہی میں رکھا ہے۔ان کی تخلیق میں نہ کسی بد کار کا کوئی حصہ ہے اور نہ کسی فاسق و فاجر کا کوئی دخل ہے ۔

یاد رکھو کہ پروردگار نے ہ خیر کے لئے اہل قرار دئیے ہیں اور ہر حق کے لئے ستون اور ہر اطاعت کے لئے وسیلہ حفاظت قرار دیا ہے اور تمہاے لئے ہر اطاعت کے موقع پر خدا کی طرف سے ایک مدد گار کا انتظام رہتا ہے جو زبانوں پر بولتا ہے اوردلوں کو ثبا ت عنایت کرتا ہے۔اس کے وجود میں ہر اکتفا کرنے والے کے لئے کفایت ہے اور ہر طلب گار صحت کے لئے شفا و عافیت ہے۔

یاد رکھو اللہ کے وہ بندہ(۲) جنہیں اس نے اپنے عل کا محافظ بنایا ہے وہ اس کا تحفظ بھی کرتے ہیں اور اس کے چشموں کو جاری بھی کرتے رہتے ہیں۔آپس میں محبت سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور چاہت کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں۔سیراب کرنے والے جاموں سے مل کر سیراب ہوتے ہیں اور پھر سیرو سیراب ہو کر ہی نکلتے

(۱)صحیح مسلم کتاب الفضائل میں سرکار دو عالم (ص) کا یہ ارشاد درج ہے کہ اللہ نے اولاد اسماعیل میں کنانہ کا انتخاب کی ہے اور پھر کنانہ میں قریش کو منتخب قراردیا ہے۔قریش میں بنی ہاشم منتخب ہیں اوربنی ہاشم میں میں ۔لہٰذا دنیاکی کسی شخصیت کا سرکار دوعالم (ص) اوراہل بیت پر قیاس نہیں کیاجاسکتا ہے۔

(۲)دنیا میں صاحبان علم و فضل بے شمار ہیں لیکن وہ اہل علم جنہیں مالک نے اپنے علم اور اپنے دین کامحافظ بنایا ہے وہ محدود ہی ہیں جن کی صفت یہ ہے کہ علم کاتحفظ بھی کرتے ہیں اوردوسروں کو سیراب بھی کرتے رہتے ہیں ۔خودبھی سیراب رہتے ہیں اور دوسروں کی تشنگی کابھی علاج کرتے رہتے ہیں ۔ان کے علم میں جہالت اور ''لاادری '' کا گزر نہیں ہے اور وہ کسی سائل کومحروم نہیں کرتے ہیں۔

۴۳۲

لَا تَشُوبُهُمُ الرِّيبَةُ - ولَا تُسْرِعُ فِيهِمُ الْغِيبَةُ - عَلَى ذَلِكَ عَقَدَ خَلْقَهُمْ وأَخْلَاقَهُمْ - فَعَلَيْه يَتَحَابُّونَ وبِه يَتَوَاصَلُونَ - فَكَانُوا كَتَفَاضُلِ الْبَذْرِ يُنْتَقَى فَيُؤْخَذُ مِنْه ويُلْقَى - قَدْ مَيَّزَه التَّخْلِيصُ وهَذَّبَه التَّمْحِيصُ -

العظة بالتقوى

فَلْيَقْبَلِ امْرُؤٌ كَرَامَةً بِقَبُولِهَا - ولْيَحْذَرْ قَارِعَةً قَبْلَ حُلُولِهَا - ولْيَنْظُرِ امْرُؤٌ فِي قَصِيرِ أَيَّامِه وقَلِيلِ مُقَامِه فِي مَنْزِلٍ - حَتَّى يَسْتَبْدِلَ بِه مَنْزِلًا - فَلْيَصْنَعْ لِمُتَحَوَّلِه ومَعَارِفِ مُنْتَقَلِه - فَطُوبَى لِذِي قَلْبٍ سَلِيمٍ - أَطَاعَ مَنْ يَهْدِيه وتَجَنَّبَ مَنْ يُرْدِيه - وأَصَابَ سَبِيلَ السَّلَامَةِ بِبَصَرِ مَنْ بَصَّرَه - وطَاعَةِ هَادٍ أَمَرَه وبَادَرَ الْهُدَى قَبْلَ أَنْ تُغْلَقَ أَبْوَابُه - وتُقْطَعَ أَسْبَابُه واسْتَفْتَحَ التَّوْبَةَ وأَمَاطَ الْحَوْبَةَ - فَقَدْ أُقِيمَ عَلَى الطَّرِيقِ وهُدِيَ نَهْجَ السَّبِيلِ.

ہیں۔ان کے اعمال میں ریب کی آمیزش نہیں ہے اور ان کے معاشرہ میں غیبت کا گزر نہیں ہے۔اسی انداز سے مالک نے ان کی تخلیق کی ہے اور ان کے اخلاق اقرار دئیے ہیں اور اسی بنیاد پر دہآپس میں محبت بھی کرتے ہیں اورملتے بھی رہتے ہیں۔ان کی مثال ان دانوں کی ہے جن کو اس طرح چنا جاتا ہے کہ اچھے دانوں کو لے لیا جاتا ہے اورخراب کو پھینک دیا جاتا ہے۔انہیں اسی صفائی نے ممتاز بنادیا ہے اور انہیں اسی پر کھ نے صاف ستھراقرار دے دیا ہے۔

اب ہر شخص کو چاہیے کہ انہیں صفات کوقبول کرکے کرامت کو قبول کرے اور قیامت کے آنے سے پہلے ہوشیار ہوجائے۔اپنے مختصر سے دنوں اورتھوڑے سے قیام کے بارے میں غور کرے کہ اس منزل کو دوسری منزل میں بہرحال بدل جانا ہے۔اب اس کا فرض ہے کہ منزل اور جانی پہچانی جائے باز گشت کے بارے میں عمل کرے۔

خوشا بحال ان قلب سلیم والوں کے لئے جو رہنمائی کی اطاعت کریں اور ہلاک ہونے والوں سے پرہیز کریں۔کوئی راستہ دکھادے تو دیکھ لیں اور واقعی راہنما امر کرے تو اس کی اطاعت کریں۔ہدایت کی طرف سبقت کریں قبل اس کے کہ اس کے دروازے بند ہو جائیں۔اور اس کے اسباب منقطع ہو جائیں۔توبہ کا دروازہ کھول لیں اور گناہوں کے داغوں کودھو ڈالیں یہی و ہ لوگ ہیں جنہیں سیدھے راستہ پر کھڑا کردیا گیا ہے اور انہیں واضح راستہ کی ہدایت مل گئی۔

۴۳۳

(۲۱۵)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

كان يدعو به كثيرا

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ يُصْبِحْ بِي مَيِّتاً ولَا سَقِيماً - ولَا مَضْرُوباً عَلَى عُرُوقِي بِسُوءٍ - ولَا مَأْخُوذاً بِأَسْوَإِ عَمَلِي ولَا مَقْطُوعاً دَابِرِي - ولَا مُرْتَدّاً عَنْ دِينِي ولَا مُنْكِراً لِرَبِّي - ولَا مُسْتَوْحِشاً مِنْ إِيمَانِي ولَا مُلْتَبِساً عَقْلِي - ولَا مُعَذَّباً بِعَذَابِ الأُمَمِ مِنْ قَبْلِي - أَصْبَحْتُ عَبْداً مَمْلُوكاً ظَالِماً لِنَفْسِي - لَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ ولَا حُجَّةَ لِي - ولَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ إِلَّا مَا أَعْطَيْتَنِي - ولَا أَتَّقِيَ إِلَّا مَا وَقَيْتَنِي!

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَفْتَقِرَ فِي غِنَاكَ - أَوْ أَضِلَّ فِي هُدَاكَ أَوْ أُضَامَ فِي سُلْطَانِكَ - أَوْ أُضْطَهَدَ والأَمْرُ لَكَ!

اللَّهُمَّ اجْعَلْ نَفْسِي أَوَّلَ كَرِيمَةٍ تَنْتَزِعُهَا مِنْ كَرَائِمِي - وأَوَّلَ وَدِيعَةٍ تَرْتَجِعُهَا مِنْ وَدَائِعِ نِعَمِكَ عِنْدِي!

اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذْهَبَ عَنْ قَوْلِكَ -

(۲۱۵)

آپ کی دعا کا ایک حصہ

( جس کی برابر تکرار فرمایا کرتے تھے )

خدا شکر ہے کہ اسنے صبح کے ہنگام نہ مردہ بنایا ہے اورنہ بیمار ۔نہ کسی رگ پرمرض کاحملہ ہوا ہے اورنہ کسی بد عملی کا مواخذہ کیا گیا ہے۔نہ میری نسل کو منقطع کیا گیا ہے اور نہ اپنے دین میں ارتداد کاشکار ہوا ہوں۔نہ اپنے دین سے مرتد ہوں اور نہ اپنے رب کامنکر۔نہ اپنے ایمان سے متوحش اور نہ اپنی عقل کا مخبوط اور نہ مجھ پر گذشتہ امتوں جیسا کوء عذاب ہوا ہے۔میں نے اس عالم میں صبح کی ہے کہ میں ایک بندۂ مملوک ہوں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔خدایا! تیری حجت مجھ پر تمام ہے اور میری کوئی حجت نہیں ہے۔تو جو دیدے اس سے زیادہ لے نہیں سکتا اور جس چیز سے تونہ بچائے اس سے بچ نہیں سکتا ۔

خدا یا! میں اس امر سے پناہ چاہتا ہوں کہ تیریر دولت میں رہ کر فقیر ہوجائوں یا تیری ہدایت کے باوجود گمراہ ہو جائوں یا تیریر سلطنت کے باوجود ستایا جائوں یا تیرے ہاتھ میں سارے اختیارات ہونے کے باوجود مجھ پر دبائو ڈالا جائے ۔

خدایا! میری جن نفیس چیزوں کو مجھ سے واپس لینا اور اپنی جن امانتوں کو مجھ سے پلٹانا۔ان میں سب سے پہلی چیز میری روح کو قرار دینا۔

خدایا! میں اس امرسے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں تیرے ارشادات سے بہک جائوں یا تیرے دین میں

۴۳۴

أَوْ أَنْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِكَ - أَوْ تَتَابَعَ بِنَا أَهْوَاؤُنَا دُونَ الْهُدَى الَّذِي جَاءَ مِنْ عِنْدِكَ!

(۲۱۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها بصفين

أَمَّا بَعْدُ - فَقَدْ جَعَلَ اللَّه سُبْحَانَه لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً بِوِلَايَةِ أَمْرِكُمْ - ولَكُمْ عَلَيَّ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي لِي عَلَيْكُمْ - فَالْحَقُّ أَوْسَعُ الأَشْيَاءِ فِي التَّوَاصُفِ - وأَضْيَقُهَا فِي التَّنَاصُفِ - لَا يَجْرِي لأَحَدٍ إِلَّا جَرَى عَلَيْه - ولَا يَجْرِي عَلَيْه إِلَّا جَرَى لَه - ولَوْ كَانَ لأَحَدٍ أَنْ يَجْرِيَ لَه ولَا يَجْرِيَ عَلَيْه - لَكَانَ ذَلِكَ خَالِصاً لِلَّه سُبْحَانَه دُونَ خَلْقِه - لِقُدْرَتِه عَلَى عِبَادِه - ولِعَدْلِه فِي كُلِّ مَا جَرَتْ عَلَيْه صُرُوفُ قَضَائِه - ولَكِنَّه سُبْحَانَه جَعَلَ حَقَّه عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يُطِيعُوه - وجَعَلَ جَزَاءَهُمْ عَلَيْه مُضَاعَفَةَ الثَّوَابِ - تَفَضُّلًا مِنْه وتَوَسُّعاً بِمَا هُوَ مِنَ الْمَزِيدِ أَهْلُه.

حق الوالي وحق الرعية

ثُمَّ جَعَلَ سُبْحَانَه مِنْ حُقُوقِه حُقُوقاً - افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلَى بَعْضٍ - فَجَعَلَهَا تَتَكَافَأُ فِي وُجُوهِهَا - ويُوجِبُ بَعْضُهَا بَعْضاً - ولَا يُسْتَوْجَبُ بَعْضُهَا إِلَّا بِبَعْضٍ -.

کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائوں یا تیریر آئی ہوئی ہدایتوں کے مقابلہ میں مجھ پرخواہشات کا غلبہ ہو جائے ۔

(۲۱۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسے مقام صفین میں ارشاد فرمایا)

اما بعد ! پروردگار نے ولی امر ہونے کی بنا پر تم پر میرا ایک حق قرار دیا ہے اور تمہارا بھی میرے اوپر ایک طرح کا حق ہے اور حق مدح سرائی کے اعتبار سے تو بہت وسعت رکھتا ہے لیکن انصاف کے اعتبار سے بہت تنگ ہے۔یہ کسی کا اس وقت تک ساتھ نہیں دیتا ہے جب تک اس کے ذمہ کوئی حق ثابت نہ کردے اورکسی کے خلاف فیصلہ نہیں کرتا ہے جب تک اسے کوئی حق نہ دلوادے۔اگر کوئی ہستی ایسی ممکن ہے جس کا دوسروں پر حق ہو اوراس پر کسی کا حق نہ ہو تو وہ صرف پروردگار کی ہستی ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اوراس کے تمام فیصلے عدل و انصاف پرمبنی ہیں لیکن اس نے بھی جب بندوں پر اپنا حق اطاعت قراردیا ہے تو اپنے فضل و کرم اوراپنے اس احسان کی وسعت کی بنا پر جس کا وہ اہل ہے ان کا یہ حق قرار دے دیا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ ثواب دے دیا جا ئے۔

پروردگار کے مقرر کئے ہوئے حقوق میں سے وہ تمام حقوق ہیں جو اس نے ایک دوسرے پر قرار دئیے ہیں اور ان میں مساوات بھی قراردیہے کہ ایک حق سے دوسرا حق پیدا ہوتا ہے اور ایک حق نہیں پیدا ہوتا ہے جب تک دوسرا حق نہ پیدا ہو جائے ۔

۴۳۵

وأَعْظَمُ مَا افْتَرَضَ سُبْحَانَه مِنْ تِلْكَ الْحُقُوقِ - حَقُّ الْوَالِي عَلَى الرَّعِيَّةِ وحَقُّ الرَّعِيَّةِ عَلَى الْوَالِي - فَرِيضَةٌ فَرَضَهَا اللَّه سُبْحَانَه لِكُلٍّ عَلَى كُلٍّ - فَجَعَلَهَا نِظَاماً لأُلْفَتِهِمْ وعِزّاً لِدِينِهِمْ - فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ - ولَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ إِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِيَّةِ - فَإِذَا أَدَّتْ الرَّعِيَّةُ إِلَى الْوَالِي حَقَّه - وأَدَّى الْوَالِي إِلَيْهَا حَقَّهَا - عَزَّ الْحَقُّ بَيْنَهُمْ وقَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّينِ - واعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ وجَرَتْ عَلَى أَذْلَالِهَا السُّنَنُ - فَصَلَحَ بِذَلِكَ الزَّمَانُ - وطُمِعَ فِي بَقَاءِ الدَّوْلَةِ ويَئِسَتْ مَطَامِعُ الأَعْدَاءِ -. وإِذَا غَلَبَتِ الرَّعِيَّةُ وَالِيَهَا - أَوْ أَجْحَفَ الْوَالِي بِرَعِيَّتِه - اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ - وظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ وكَثُرَ الإِدْغَالُ فِي الدِّينِ - وتُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ فَعُمِلَ بِالْهَوَى - وعُطِّلَتِ الأَحْكَامُ وكَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوسِ - فَلَا يُسْتَوْحَشُ لِعَظِيمِ حَقٍّ عُطِّلَ - ولَا لِعَظِيمِ بَاطِلٍ فُعِلَ - فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الأَبْرَارُ وتَعِزُّ الأَشْرَارُ - وتَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللَّه سُبْحَانَه عِنْدَ الْعِبَادِ -. فَعَلَيْكُمْ بِالتَّنَاصُحِ فِي ذَلِكَ وحُسْنِ التَّعَاوُنِ عَلَيْه - فَلَيْسَ أَحَدٌ وإِنِ اشْتَدَّ عَلَى رِضَا اللَّه حِرْصُه - وطَالَ فِي الْعَمَلِ اجْتِهَادُه  

اوران تمام حقوق میں سب سے عظیم ترین حق رعایا پروالی کا حق اور والی پر رعایا کا حق ہے جسے پروردگار نے ایک کو دوسرے کے لئے قراردیا ہے اور اسی سے ان کی باہمی الفتوں کو منظم کیاہے اور ان کے دین کو عزت دی ہے ۔رعایا کی اصلاح ممکن نہیں ہے جب تک والی صالح نہ ہو اور والی صالح نہیںرہ سکتے ہیں جب تک رعایا صالح نہ ہو۔اب اگر رعایا نے والی کو اس کا حق انصاف کے نشانات بر قرار رہیں گے اور پیغمبر اسلام (ص) کی سنتیں اپنے ڈھرے پرچل پڑیں گی اور زمانہ ایسا صالح ہو جائے گا کہ بقاء حکومت کی امید بھی کی جائے گی اور دشمنوں کی تمنائیںبھی ناکام ہو جائیں گی۔لیکن اگر رعایا حاکم پر غالب آگئی یا حاکم نے رعایا پر زیادتی کی تو کلمات میں اختلاف ہو جائے گا، ظلم کے نشانات ظاہر ہو جائیں گے۔دین میں مکاری بڑھ جائے گی۔سنتوں کے راستے نظر انداز ہو جائیں گے۔خواہشات پر عمل ہوگا۔احکام معطل ہو جائیں گے اور نفوس کی بیماریاں بڑھ جائیں گی۔نہ بڑے سے بڑے حق کے معطل ہوجانے سے کوئی وحشت ہوگی اور نہ بڑے سے بڑے باطل پر عملدرآمدسے کوئی پریشانی ہوگی۔

ایسے موقع پر نیک لوگ ذلیل کردئیے جائیں گے اورشریر لوگوں کی عزت ہوگی اورب ندوں پر خدا کی عقوبتیں عظیم تر ہو جائیں گی لہٰذا خدارا آپس میں ایک دوسرے سے مخلص رہو اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اس لئے کہ تم میں کوئی شخص بھی کتنا ہی رضائے خدا کی طمع رکھتا ہواور کسی قدر بھی زحمت عمل برداشت کرے

۴۳۶

- بِبَالِغٍ حَقِيقَةَ مَا اللَّه سُبْحَانَه أَهْلُه مِنَ الطَّاعَةِ لَه - ولَكِنْ مِنْ وَاجِبِ حُقُوقِ اللَّه عَلَى عِبَادِه - النَّصِيحَةُ بِمَبْلَغِ جُهْدِهِمْ - والتَّعَاوُنُ عَلَى إِقَامَةِ الْحَقِّ بَيْنَهُمْ - ولَيْسَ امْرُؤٌ وإِنْ عَظُمَتْ فِي الْحَقِّ مَنْزِلَتُه - وتَقَدَّمَتْ فِي الدِّينِ فَضِيلَتُه - بِفَوْقِ أَنْ يُعَانَ عَلَى مَا حَمَّلَه اللَّه مِنْ حَقِّه - ولَا امْرُؤٌ وإِنْ صَغَّرَتْه النُّفُوسُ - واقْتَحَمَتْه الْعُيُونُ - بِدُونِ أَنْ يُعِينَ عَلَى ذَلِكَ أَوْ يُعَانَ عَلَيْه.

فَأَجَابَهعليه‌السلام رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِه - بِكَلَامٍ طَوِيلٍ يُكْثِرُ فِيه الثَّنَاءَ عَلَيْه - ويَذْكُرُ سَمْعَه وطَاعَتَه لَه فَقَالَعليه‌السلام

إِنَّ مِنْ حَقِّ مَنْ عَظُمَ جَلَالُ اللَّه سُبْحَانَه فِي نَفْسِه - وجَلَّ مَوْضِعُه مِنْ قَلْبِه - أَنْ يَصْغُرَ عِنْدَه لِعِظَمِ ذَلِكَ كُلُّ مَا سِوَاه - وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ كَانَ كَذَلِكَ لَمَنْ عَظُمَتْ نِعْمَةُ اللَّه عَلَيْه - ولَطُفَ إِحْسَانُه إِلَيْه فَإِنَّه لَمْ تَعْظُمْ نِعْمَةُ اللَّه عَلَى أَحَدٍ - إِلَّا ازْدَادَ حَقُّ اللَّه عَلَيْه عِظَماً - وإِنَّ مِنْ أَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ - أَنْ يُظَنَّ

اطاعت خدا کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہے جس کا وہ اہل ہے لیکن پھربھی مالک کا یہحق واجب اس کے بندوں کے ذمہ ہے کہ انپے امکان بھر نصیحت کرتے رہیں اور حق کے قیام میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں اس لئے کہ کوئی شخص بھی حق کی ذمہ داری ادا کرنے میں دوسرے کی امداد سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے چاہے حق میں اس کی منزلت کسی قدر عظیم کیوں نہ ہو اور دین میں اس کی فضیلت کو کسی قدر تقدم کیوں نہ حاصل ہو اور نہ کوئی شخص مدد کرنے یا مدد لینے کی ذمہ داری سے کمتر ہو سکتا ہے چاہے لوگوں کی نظر میں کسی قدر چھوٹا کیوں نہ ہو اور چاہے ان کی نگاہوں سے کسی قدر کیوں نہ گر جائے ۔ (اس گفتگو کے بعد آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے ایک طویل تقریرکی جس میں آپ کی مدح و ثنا کے ساتھ اطاعت کا وعدہ بھی کیا تو آپ نے فرمایا کہ )

یاد رکھو کہ جس کے دل میں جلال الٰہی کی عظمت اور جس کے نفس میں اس کے مقام الوہیت کی بلندی ہے اس کا حق یہ ہے کہ تمام کائنات اس کی نظرمیں چھوٹی ہوجائے اور ایسے لوگوں میں اس حقیقت کا سب سے بڑا اہل وہ ہے جس پر اس کی نعمتیں عظیم اور اس کے احسانات لطیف ہوں ۔اس لئے کہ کسی شخص پر اللہ کی نعمتیں عظیم نہیں ہوتیں مگر یہ کہ اس کا حق بھی عظیم تر ہو جاتا ہے اور احکام کے حالات میں اور مجھے یہ بات سخت نا گوار ہے کہ تم میں سے کسی کو یہ گمان پیدا ہو

۴۳۷

بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ - ويُوضَعَ أَمْرُهُمْ عَلَى الْكِبْرِ - وقَدْ كَرِهْتُ أَنْ يَكُونَ جَالَ فِي ظَنِّكُمْ أَنِّي أُحِبُّ الإِطْرَاءَ - واسْتِمَاعَ الثَّنَاءِ ولَسْتُ بِحَمْدِ اللَّه كَذَلِكَ - ولَوْ كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ يُقَالَ ذَلِكَ - لَتَرَكْتُه انْحِطَاطاً لِلَّه سُبْحَانَه - عَنْ تَنَاوُلِ مَا هُوَ أَحَقُّ بِه مِنَ الْعَظَمَةِ والْكِبْرِيَاءِ - ورُبَّمَا اسْتَحْلَى النَّاسُ الثَّنَاءَ بَعْدَ الْبَلَاءِ - فَلَا تُثْنُوا عَلَيَّ بِجَمِيلِ ثَنَاءٍ - لإِخْرَاجِي نَفْسِي إِلَى اللَّه سُبْحَانَه وإِلَيْكُمْ مِنَ التَّقِيَّةِ - فِي حُقُوقٍ لَمْ أَفْرُغْ مِنْ أَدَائِهَا وفَرَائِضَ لَا بُدَّ مِنْ إِمْضَائِهَا - فَلَا تُكَلِّمُونِي بِمَا تُكَلَّمُ بِه الْجَبَابِرَةُ - ولَا تَتَحَفَّظُوا مِنِّي بِمَا يُتَحَفَّظُ بِه عِنْدَ أَهْلِ الْبَادِرَةِ - ولَا تُخَالِطُونِي بِالْمُصَانَعَةِ ولَا تَظُنُّوا بِي اسْتِثْقَالًا فِي حَقٍّ قِيلَ لِي - ولَا الْتِمَاسَ إِعْظَامٍ لِنَفْسِي - فَإِنَّه مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ أَنْ يُقَالَ لَه - أَوِ الْعَدْلَ أَنْ يُعْرَضَ عَلَيْه كَانَ الْعَمَلُ بِهِمَا أَثْقَلَ عَلَيْه - فَلَا تَكُفُّوا عَنْ مَقَالَةٍ بِحَقٍّ أَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ - فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ - ولَا آمَنُ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِي - إِلَّا أَنْ يَكْفِيَ اللَّه مِنْ نَفْسِي مَا هُوَ أَمْلَكُ بِه مِنِّي -

جائے کہ میں روساء کو دوست رکھتا ہوں یا اپنی تعریف سننا چاہتا ہوں اور بحمد اللہ میں ایسا نہیں ہوں اور اگر میں ایی باتیں پسند بھی کرتا ہوتا تو بھی اسے نظرانداز کر دیتا کہ میں اپنے کواس سے کمتر سمجھتا ہوں کہ اس عظمت و کبریائی کا اہل بن جائوں جس کا پرودگار حقدار ہے۔یقینا بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اچھی کار کردگی پرتعریف کو دوست رکھتے ہیں لیکن خبردار تم لوگ میری اس بات پرتعریف نہ کرنا کہ میں نے تمہارے حقوق ادا کردئیے ہیں کہ ابھی بہت سے ایسے حقوق کاخوف باقی ہے جو ادا نہیں ہو سکے ہیں اوربہت سے فرائض ہیں جنہیں بہر حال نافذ کرنا ہے دیکھو مجھ سے اس لہجہ میں بات نہ کرنا جس لہجہ میں جابر بادشاہوں سے بات کی جاتی ہے اور نہ مجھ سے اس طرح بچنے کی کوشش کرنا جس طرح طیش میں آنے والوں سے بچا جاتا ہے۔نہ مجھ سے خوشامد کے ساتھ تعلقات رکھنا اور نہ میرے بارے میں یہ تصور کرنا کہ مجھے حرف حق گراں گزرے گا اور نہ میں اپنی تعظیم کا طلب گار ہوں۔اس لئے کہ جوشخص بھی حرف حق کہنے کو گراں سمجھتا ہے یا عدل کی پیشکش کو ناپسند کرتا ہے وہ حق و عدل پرعمل کو یقینا مشکل تر ہی تصور کرے گا۔لہٰذا خبردار حرف حق کہنے میں تکلف نہ کرنا اور منصفانہ مشورہ دینے سے گریز نہ کرنا۔ اس لء کہ میں ذاتی طور پر اپنے کو غلطی سے بالاتر نہیں تصور کرتا ہوں اورنہ اپنے افعال کو اس خطرہ سے محفوظ سمجھتا ہوں مگر یہ کہ میرا پروردگار میرے نفس کوب چالے کہ وہ اس کا مجھ سے زیادہ

۴۳۸

فَإِنَّمَا أَنَا وأَنْتُمْ عَبِيدٌ مَمْلُوكُونَ لِرَبٍّ لَا رَبَّ غَيْرُه - يَمْلِكُ مِنَّا مَا لَا نَمْلِكُ مِنْ أَنْفُسِنَا - وأَخْرَجَنَا مِمَّا كُنَّا فِيه إِلَى مَا صَلَحْنَا عَلَيْه - فَأَبْدَلَنَا بَعْدَ الضَّلَالَةِ بِالْهُدَى وأَعْطَانَا الْبَصِيرَةَ بَعْدَ الْعَمَى.

(۲۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التظلم والتشكي من قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوا رَحِمِي وأَكْفَئُوا إِنَائِي - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي حَقّاً كُنْتُ أَوْلَى بِه مِنْ غَيْرِي - وقَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه - وفِي الْحَقِّ أَنْ تُمْنَعَه فَاصْبِرْ مَغْمُوماً أَوْ مُتْ مُتَأَسِّفاً - فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي رَافِدٌ ولَا ذَابٌّ ولَا مُسَاعِدٌ - إِلَّا أَهْلَ بَيْتِي فَضَنَنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَنِيَّةِ - فَأَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى

صاحب اختیار ہے۔دیکھو ہم سب ایک خدا کے بندے اوراس کے مملوک ہیں اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔وہ ہمارے نفوس کااتنا اختیار رکھتا ہے جتنا خود ہمیں بھی حاصل نہیں ہے اور اسی نے ہمیں سابقہ حالات سے نکال کراس اصلاح کے راستہ پر لگایا ہے کہ اب گمراہی ہدایت میں تبدیل ہوگئی ہے اور اندھے پن کے بعد بصیرت حاصل ہوگئی ہے۔

(۲۱۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(قریش سے شکایت اورف ریاد کرتے ہوئے )

خدایا! میں قریش سے اور ان کے مدد گاروں سے تیری مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت داری کاخیال نہیں کیا اور میرے ظرف عظمت کو الٹ دیا ہے اور مجھ سے اس حق کے بارے میں جھگڑا کرنے پر اتحاد کرلیا ہے جس کا میں سب سے زیادہ حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے ہیں کہ آپ اس حق کو لے لیں تو یہ بھی صحیح ہے اور آپ کو اس سے روک دیا جائے تو یہ بھی صحیح ہے۔اب چاہیں ہم وغم کے ساتھ صبر کریں یا رنج والم کے ساتھ مرجائیں۔ ایسے حالات میں میں نے دیکھا کہ میرے پاس نہ کوئی مدد گار ہے اور نہ دفاع کرنے والا سوائے میرے گھر والوں کے تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا اوربالآخر آنکھوں میں خس و خاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی کی اور گلے میں پھندہ کے ہوتے ہوئے

۴۳۹

وجَرِعْتُ رِيقِي عَلَى الشَّجَا - وصَبَرْتُ مِنْ كَظْمِ الْغَيْظِ عَلَى أَمَرَّ مِنَ الْعَلْقَمِ - وآلَمَ لِلْقَلْبِ مِنْ وَخْزِ الشِّفَارِ

قال الشريفرضي‌الله‌عنه - وقد مضى هذا الكلام في أثناء خطبة متقدمة - إلا أني ذكرته هاهنا لاختلاف الروايتين.

(۲۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذكر السائرين إلى البصرة لحربهعليه‌السلام

فَقَدِمُوا عَلَى عُمَّالِي وخُزَّانِ بَيْتِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِي فِي يَدَيَّ - وعَلَى أَهْلِ مِصْرٍ كُلُّهُمْ فِي طَاعَتِي وعَلَى بَيْعَتِي - فَشَتَّتُوا كَلِمَتَهُمْ وأَفْسَدُوا عَلَيَّ جَمَاعَتَهُمْ - ووَثَبُوا عَلَى شِيعَتِي فَقَتَلُوا طَاِئفَةً منْهُمْ غَدْراً - وطَاِئفَةٌ عَضُّوا عَلَى أَسْيَافِهِمْ - فَضَارَبُوا بِهَا حَتَّى لَقُوا اللَّه صَادِقِينَ.

لعاب دہن نگل لیا اور غصہ کو پینے میں خنظل سے زیادہ تلخ ذائقہ پر صبر کیااورچھریوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ حالات پر خاموشی اختیار کرلی۔

(سید رضی : گذشتہ خطبہ میں یہ مضمون گذر چکا ہے لیکن روایتیں مختلف تھیں لہٰذا میں نے دوبارہ اسے نقل کردیا )

(۲۱۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کی طرف آپ سے جنگ کرنے کے لئے جانے والوں کے بارے میں

یہ لوگ میرے عاملوں ۔میرے زیر دست بیت المال کے خزانہ داروں اورتمام اہل شہر جو میری اطاعت و بیعت میں تھے سب کی طرف وارد ہوئے۔ان کے کلمات میں(۱) افتراق پیدا کیا۔ان کے اجتماع کو برباد کیا اورمیرے چاہنے والوں پرحملہ کردیا اور ان میں سے ایک جماعت کودھوکہ سے قتل بھی کردیا لیکن دوسری جماعت نے تلواریں اٹھا کر دانت بھنچ لئے اور باقاعدہ مقابلہ کیا یہاں تک کہ حق و صداقت کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔

(۱) حیرت انگیز بات ہے کہ مسلمان ابھی تک ان دو گروہوں کے بارے میں حق و باطل کا فیصلہ نہیں کرسکا ہے جن میں ایک طرف نفس رسول (ص) علی بن ابی طالب جیسا انسان تھا جو اپنی تعریف کوبھی گوارا نہیں کرتا تھا اور ہر لمحہعظمت خالق کے پیش نظرانے اعمال کو حقیر و معمولی ہی تصور کرتا تھا اور ایک طرف طلحہ و زبیر جیسے وہدنیا پرست تھے جن کاکام فتنہ پردازی ۔ شرانگیزی ۔تفرقہ اندازی اورقتل وغارت کے علاوہ کچھ نہتھا اورجو دولت و اقتدار کی خاطر دنیا کی ہر برائی کر سکتے تھے اور ہر جرم کا ارتکاب کرسکتے تھے ۔

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863