نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656959 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

أَمْ أَيُّ قَسْمٍ اسْتَأْثَرْتُ عَلَيْكُمَا بِه - أَمْ أَيُّ حَقٍّ رَفَعَه إِلَيَّ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ضَعُفْتُ عَنْه أَمْ جَهِلْتُه أَمْ أَخْطَأْتُ بَابَه!

واللَّه مَا كَانَتْ لِي فِي الْخِلَافَةِ رَغْبَةٌ - ولَا فِي الْوِلَايَةِ إِرْبَةٌ - ولَكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُونِي إِلَيْهَا وحَمَلْتُمُونِي عَلَيْهَا - فَلَمَّا أَفْضَتْ إِلَيَّ نَظَرْتُ إِلَى كِتَابِ اللَّه ومَا وَضَعَ لَنَا - وأَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِه فَاتَّبَعْتُه - ومَا اسْتَنَّ النَّبِيُّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَاقْتَدَيْتُه - فَلَمْ أَحْتَجْ فِي ذَلِكَ إِلَى رَأْيِكُمَا ولَا رَأْيِ غَيْرِكُمَا - ولَا وَقَعَ حُكْمٌ جَهِلْتُه فَأَسْتَشِيرَكُمَا وإِخْوَانِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ولَوْ كَانَ ذَلِكَ لَمْ أَرْغَبْ عَنْكُمَا ولَا عَنْ غَيْرِكُمَا -. وأَمَّا مَا ذَكَرْتُمَا مِنْ أَمْرِ الأُسْوَةِ - فَإِنَّ ذَلِكَ أَمْرٌ لَمْ أَحْكُمْ أَنَا فِيه بِرَأْيِي - ولَا وَلِيتُه هَوًى مِنِّي - بَلْ وَجَدْتُ أَنَا وأَنْتُمَا مَا جَاءَ بِه رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قَدْ فُرِغَ مِنْه - فَلَمْ أَحْتَجْ إِلَيْكُمَا فِيمَا قَدْ فَرَغَ اللَّه مِنْ قَسْمِه - وأَمْضَى فِيه حُكْمَه - فَلَيْسَ لَكُمَا واللَّه عِنْدِي ولَا لِغَيْرِكُمَا فِي هَذَا عُتْبَى -. أَخَذَ اللَّه بِقُلُوبِنَا وقُلُوبِكُمْ إِلَى الْحَقِّ - وأَلْهَمَنَا وإِيَّاكُمُ الصَّبْرَ.

کردیا ہے ؟ یا کونسا حصہ ایسا ہے جس پر میں نے قبضہ کرلیا ہے ؟ یا کسی مسلمان نے کوئی مقدمہ پیش کیا ہو اور میں اس کا فیصلہ نہ کر سکا ہوں یا اس سے ناواقف رہا ہوں یا اس میں کسی غلطی کا شکار ہوگیا ہوں۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے نہ خلافت کی خواہش تھی اور نہ حکومت کی احتیاج۔تمہیں لوگوں نے مجھے اس امر کی دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔اس کے بعد جب یہ میرے ہاتھ میں آگئی تو میں نے اس سلسلہ میں کتاب خدا اور اس کے دستور پر نگاہ کی اور جو اس نے حکم دیا تھا اس کا اتباع کیا اور اس طرح رسول اکرم (ص) کی سنت کی اقتدا کی۔جس کے بعد نہ مجھے تمہاری رائے کی کوئی ضرورت تھی اور نہ تمہارے علاوہ کسی کی رائے کی اور نہمیں کسی حکم سے جاہل تھا کہ تم سے مشورہ کرتا یا تمہارے علاوہ دیگر برادران اسلام سے۔اور اگر ایی کوئی ضرورت ہوتی تو میں نہ تمہیں نظر انداز کرتا اورنہ دیگر مسلمانوں کو۔رہ گیا یہ مسئلہ کہ میں نے بیت المال کی تقسیم میں برابری سے کاملیا ہے تو یہ نہمیری ذاتی رائے ہے اور نہاس پر میری خواہش کی حکمرانی ہے بلکہ میں نے دیکھا کہ اس سلسلہ میں رسول اکرم (ص) کی طرف سے ہم سے پہلے فیصلہ ہوچکا ہے تو خدا کے معین کئے ہوئے حق اور اس کے جاری کئے ہوئے حکم کے بعد کسی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ خدا شاہد ہے کہ اس سلسلہ میں نہ تمہیں شکایت کا کوئی حق ہے اور نہ تمہارے علاوہ کسی اور کو۔اللہ ہم سب کے دلوں کو حق کی راہ پر لگا دے اور سب کو صبر و شکیبائی کی توفیق عطا فرمائے ۔

۴۲۱

ثم قالعليه‌السلام - رَحِمَ اللَّه رَجُلًا رَأَى حَقّاً فَأَعَانَ عَلَيْه - أَوْ رَأَى جَوْراً فَرَدَّه - وكَانَ عَوْناً بِالْحَقِّ عَلَى صَاحِبِه.

(۲۰۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين

إِنِّي أَكْرَه لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ - ولَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ - كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وأَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ - وقُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ - اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا ودِمَاءَهُمْ - وأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وبَيْنِهِمْ واهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ - حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَه - ويَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ والْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِه

(۲۰۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في بعض أيام صفين - وقد رأى الحسن ابنهعليه‌السلام يتسرع إلى الحرب

امْلِكُوا عَنِّي هَذَا الْغُلَامَ لَا يَهُدَّنِي - فَإِنَّنِي أَنْفَسُ بِهَذَيْنِ يَعْنِي الْحَسَنَ والْحُسَيْنَعليه‌السلام - عَلَى الْمَوْتِ

خدا اس شخص پر رحمت نازل کرے جو حق کو دیکھ لے تو اس پرعمل کرے یا ظلم کو دیکھ لے تو اسے ٹھکرا دے اورصاحب حق میں اس کا ساتھ دے ۔

(۲۰۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے جنگ صفین کے زمانہ میں اپنے بعض اصحاب کے بارے میں سنا کہ وہ اہل شام کو برا بھلا کہہ رہے ہیں )

میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ خدایا! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کیراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگحق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں۔

(۲۰۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(جنگ صفین کے دورا ن جب امام حسن کو میدان جنگ کی طرف سبقت کرتے ہوئے دیکھ لیا)

دیکھو! اس فرزند کو روک لو کہیں اس کاصدمہ مجھے بے حال نہکردے ۔میں ان دونوں ( حسن و حسین ) کو موت کے مقابلہ میں زیادہ عزیز رکھتا ہوں

۴۲۲

لِئَلَّا يَنْقَطِعَ بِهِمَا نَسْلُ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

قال السيد الشريف - قولهعليه‌السلام املكوا عني هذا الغلام - من أعلى الكلام وأفصحه.

(۲۰۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لما اضطرب عليه أصحابه في أمر الحكومة

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّه لَمْ يَزَلْ أَمْرِي مَعَكُمْ عَلَى مَا أُحِبُّ - حَتَّى نَهِكَتْكُمُ الْحَرْبُ - وقَدْ واللَّه أَخَذَتْ مِنْكُمْ وتَرَكَتْ - وهِيَ لِعَدُوِّكُمْ أَنْهَكُ.

لَقَدْ كُنْتُ أَمْسِ أَمِيراً فَأَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَأْمُوراً - وكُنْتُ أَمْسِ نَاهِياً فَأَصْبَحْتُ الْيَوْمَ مَنْهِيّاً - وقَدْ أَحْبَبْتُمُ الْبَقَاءَ ولَيْسَ لِي أَنْ أَحْمِلَكُمْ عَلَى مَا تَكْرَهُونَ!

(۲۰۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بالبصرة - وقد دخل على العلاء بن زياد الحارثي وهو من أصحابه

يعوده، فلما رأى سعة داره قال:

کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے مرجانے سے نسل رسول (ص) منقطع ہو جائے۔

سید رضی : املکوا عنی ھذا الغلام:عرب کا بلند ترین کلام اور فصیح ترین محاورہ ہے۔

(۲۰۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو اس وقت ارشاد فرمایا جب آپ کے اصحاب میں تحکیم کے بارے میں اختلاف ہوگیا تھا)

لوگو! یاد رکھو کہ میرے معاملات تمہارے ساتھ بالکل صحیح چل رہے تھے جب تک جنگ نے تمہیں خستہ حال نہیں کردیا تھا۔اس کے بعد معاملات بگڑ گئے حالانکہ خداگواہ ہے کہاگر جنگ نے تم سے کچھ کولے لیا اورکچھ کوچھوڑ دیا تو اس کی زد تمہارے دشمن پر زیادہ ہی پڑی ہے۔ افسو س کہ میں کل تمہارا حاکم تھا اور آج محکوم بنایا جا رہا ہوں۔کل تمہیں میں روکا کرتا تھااور آج تم مجھے روک رہے ہو۔بات صرف یہ ہے کہ تمہیں زندگی زیادہ پیاری ہے اورمیں تمہیں کسی ایسی چیز پرآمادہ نہیں کرسکتا ہوں جوتمہیں ناگوار اور ناپسند ہو۔

(۲۰۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب بصرہ میں اپنے صحابی علاء بن زیاد حارثی کے گھر عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کے گھر کی وسعت کا مشاہدہ فرمایا )

۴۲۳

مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِسِعَةِ هَذِه الدَّارِ فِي الدُّنْيَا - وأَنْتَ إِلَيْهَا فِي الآخِرَةِ كُنْتَ أَحْوَجَ - وبَلَى إِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ - تَقْرِي فِيهَا الضَّيْفَ وتَصِلُ فِيهَا الرَّحِمَ - وتُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوقَ مَطَالِعَهَا - فَإِذاً أَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الآخِرَةَ.

فَقَالَ لَه الْعَلَاءُ - يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَشْكُو إِلَيْكَ أَخِي عَاصِمَ بْنَ زِيَادٍ - قَالَ ومَا لَه - قَالَ لَبِسَ الْعَبَاءَةَ وتَخَلَّى عَنِ الدُّنْيَا - قَالَ عَلَيَّ بِه فَلَمَّا جَاءَ قَالَ: يَا عُدَيَّ نَفْسِه لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكَ الْخَبِيثُ - أَمَا رَحِمْتَ أَهْلَكَ ووَلَدَكَ - أَتَرَى اللَّه أَحَلَّ لَكَ الطَّيِّبَاتِ وهُوَ يَكْرَه أَنْ تَأْخُذَهَا - أَنْتَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّه مِنْ ذَلِكَ

قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - هَذَا أَنْتَ فِي خُشُونَةِ مَلْبَسِكَ وجُشُوبَةِ مَأْكَلِكَ!

قَالَ وَيْحَكَ إِنِّي لَسْتُ كَأَنْتَ - إِنَّ اللَّه تَعَالَى فَرَضَ عَلَى أَئِمَّةِ - الْعَدْلِ أَنْ يُقَدِّرُوا أَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ - كَيْلَا يَتَبَيَّغَ بِالْفَقِيرِ فَقْرُه!

تم اس دنیا میں اس قدر وسیع مکان(۱) کو لے کر کیا کروگے جب کہ آخرت میں اس کی احتیاج زیادہ ہے۔تم اگرچاہو تو اس کے ذریعہ آخرت کا سامان کرسکتے ہو کہ اس میں مہمانوں کی ضیافت کرو۔قرابتداروں سے صلہ رحم کرو اورموقع و محل کے مطابق حقوق کوادا کرو کہ اس طرح آخرت کوحاصل کرسکتے ہو۔

یہ سن کرعلاء بن زیاد نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین میں اپنے بھائی عاصم بن زیاد کی شکایت کرناچاہتا ہوں۔فرمایا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ عرض کی کہ انہوں نے ایک عبا اوڑھ لی ہے اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہے۔فرمایا انہیں بلائو ۔عاصم حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ:

اے دشمن جان! تجھے شیطان خبیث نے گرویدہ بنا لیا ہے۔تجھے اپنے اہل و عیال پر کیوں رحم نہیں آتا ہے۔کیا تیراخیال یہ ہے کہ خدانے پاکیزہ چیزوں کو حلال تو کیا ہے لیکن وہ ان کے استعمال کو نا پسند کرتا ہے۔تو خدا کی بارگاہ میں اس سے زیادہ پست ہے۔

عاصم نے عرض کی کہ یا امیرالمومنین ! آپ بھی تو کھردرا لباس اور معمولی کھانے پر گذارا کر رہے ہیں۔

فرمایا : تم پر حیف ہے کہ تم نے میراقیاس اپنے اوپر کرلیا ہے جب کہ پروردگارنے ائمہ حق پرفرض کردیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین انسانوں کو قراردیںتاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا پر کسی پیچ و تاب کا شکار ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مکان کی وسعت ذاتی اغراض کے لئے ہو تو اس کا نام دنیا داری ہے۔لیکن اگر اس کامقصد مہمان نوازی صلہ ارحام ادائیگی حقوق حفظ آبرو۔اظہار عظمت علم و مذہب ہوتو اس کاکوئی تعلق دنیداری سے نہیں ہے اور یہ دین و مذہب ہی کا ایک شعبہ ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ یہ فیصلہ نیتوں سے ہوگا اورنتیوں کا جاننے والا صرف پروردگار ہے کوئی دوسرا نہیں ہے۔

۴۲۴

(۲۱۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سأله سائل عن أحاديث البدع - وعما في أيدي الناس من اختلاف الخبر فقالعليه‌السلام :

إِنَّ فِي أَيْدِي النَّاسِ حَقّاً وبَاطِلًا - وصِدْقاً وكَذِباً ونَاسِخاً ومَنْسُوخاً - وعَامّاً وخَاصّاً - ومُحْكَماً ومُتَشَابِهاً وحِفْظاً ووَهْماً - ولَقَدْ كُذِبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَلَى عَهْدِه - حَتَّى قَامَ خَطِيباً فَقَالَ - مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَه مِنَ النَّارِ».

وإِنَّمَا أَتَاكَ بِالْحَدِيثِ أَرْبَعَةُ رِجَالٍ لَيْسَ لَهُمْ خَامِسٌ:

المنافقون

رَجُلٌ مُنَافِقٌ مُظْهِرٌ لِلإِيمَانِ مُتَصَنِّعٌ بِالإِسْلَامِ - لَا يَتَأَثَّمُ ولَا يَتَحَرَّجُ - يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مُتَعَمِّداً - فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ أَنَّه مُنَافِقٌ كَاذِبٌ لَمْ يَقْبَلُوا مِنْه - ولَمْ يُصَدِّقُوا قَوْلَه - ولَكِنَّهُمْ

(۲۱۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب کسی شخص نے آپ سے بدعتی احادیث اورمتضاد روایات کے بارے میں سوال کیا )

لوگوں کے ہاتھوں میں حق و باطل(۱) صدق و کذب ' ناسخ ومنسوخ، عام وخاص ' محکم و متشابہ اور حقیقت و وہم سب کچھ ہے اور کذب و افترا کا سلسلہ رسول اکرم (ص) کی زندگی ہی سے شروع ہوگیا تھا جس کے بعد آپ نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ '' جس شخص نے بھی میری طرف سے غلط بات بیان کی اسے اپنی جگہ جہنم میں بنا لینا چاہیے ۔''

یاد رکھو کہ حدیث کے بیان والے چار طرح کے افراد ہوتے ہیں جن کی پانچویں کوئی قسم نہیں ہے:

ایک وہ منافق ہے جو ایمان کا اظہار کرتا ہے۔اسلام کی وضع قطع اختیار کرتا ہے لیکن گناہ کرنے اور افتراء میں پڑنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے اور رسول اکرم (ص) کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ہے۔ کہ اگر لوگوں کومعلوم ہو جائے کہ یہ منافق اورجھوٹا تو یقینا اس کے بیان کی تصدیق نہ کریں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ

(۱)واضح رہے کہ اسلامی علوم میں علم رجال اور علم ورایت کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سارا عالم اسلام اس نقطہ پر متفق ہے کہ روایات قابل قبول بھی ہیں اورنا قابل قبول بھی۔اور راوی حضرات ثقہ اورمعتبر بھی ہیں اور غیر ثقہ اورغیر معتبر بھی۔اس کے بعد عدالت صحابہ اور اعتبار تمام علماء کا عقیدہ۔ایک مضحکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۴۲۵

قَالُوا صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - رَآه وسَمِعَ مِنْه ولَقِفَ عَنْه فَيَأْخُذُونَ بِقَوْلِه - وقَدْ أَخْبَرَكَ اللَّه عَنِ الْمُنَافِقِينَ بِمَا أَخْبَرَكَ - ووَصَفَهُمْ بِمَا وَصَفَهُمْ بِه لَكَ ثُمَّ بَقُوا بَعْدَه - فَتَقَرَّبُوا إِلَى أَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ - والدُّعَاةِ إِلَى النَّارِ بِالزُّورِ والْبُهْتَانِ - فَوَلَّوْهُمُ الأَعْمَالَ وجَعَلُوهُمْ حُكَّاماً عَلَى رِقَابِ النَّاسِ - فَأَكَلُوا بِهِمُ الدُّنْيَا وإِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوكِ والدُّنْيَا - إِلَّا مَنْ عَصَمَ اللَّه فَهَذَا أَحَدُ الأَرْبَعَةِ.

الخاطئون

ورَجُلٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّه شَيْئاً لَمْ يَحْفَظْه عَلَى وَجْهِه - فَوَهِمَ فِيه ولَمْ يَتَعَمَّدْ كَذِباً فَهُوَ فِي يَدَيْه - ويَرْوِيه ويَعْمَلُ بِه - ويَقُولُ أَنَا سَمِعْتُه مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ أَنَّه وَهِمَ فِيه لَمْ يَقْبَلُوه مِنْه - ولَوْ عَلِمَ هُوَ أَنَّه كَذَلِكَ لَرَفَضَه!

وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحابی ہے۔اس نے حضور کودیکھا ہے ۔ان کے ارشاد کو سنا ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اور اس طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ہیں جب کہخود پروردگار بھی منافقین کے بارے میں خبر دے چکا ہے اور ان کے اوصاف کاتذکرہ کرچکا ہے اور یہ رسول اکرم (ص) کے بعد بھی باقی رہ گئے تھے اور گمراہی کے پیشوائوں(۱) اور جہنم کے داعیوں کی طرف اسی غلط بیانی اور افترا پردازی سے تقرب حاصل کرتے تھے ۔وہ انہیں عہدے دیتے رہے اور لوگوں کی گردنوں پر حکمراں بناتے رہے اور انہیں کے ذریعہ دنیا کو کھاتے رہے اور لوگ تو بہر حال بادشاہوں اوردنیا داروں ہی کے ساتھ رہتے ہیں۔علاوہ ان کے جنہیں اللہ اس شر سے محفوظ کرلے۔یہ چار میں سے ایک قسم ہے۔

دوسرا شخص وہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) سے کوئی بات سنی ہے لیکن اسے صحیح طریقہ سے محفوظ نہیں کرس کا ہے اوراس میں غلطی کا شکار ہوگیا ہے۔جان بوجھ کرجھوٹ نہیں بولتا ہے۔جوکچھ اس کے ہاتھ میں ہے اسی کی روایت کرتا ہے اوراسی پرعمل کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ میں نے رسول اکرم (ص) سے سنا ہے حالانکہ اگر مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے تو ہرگز اس کی بات قبول نہ کریں گے بلکہ اگر اسے خودبھی معلوم ہوجائے کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے تو ترک کردے گا اور نقل نہیں کرے گا۔

(۱)حضرت نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ منافقین کا کاروبار ہمیشہ حکام کی نالائقی سے چلتا ہے ورنہ حکام دیانتدار ہوں اورایسی روایات کے خریدار نہ بنیں تو منافقین کا کاروبار ایک دن میں ختم ہو سکتا ہے۔

۴۲۶

أهل الشبهة

ورَجُلٌ ثَالِثٌ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شَيْئاً - يَأْمُرُ بِه ثُمَّ إِنَّه نَهَى عَنْه وهُوَ لَا يَعْلَمُ - أَوْ سَمِعَه يَنْهَى عَنْ شَيْءٍ ثُمَّ أَمَرَ بِه وهُوَ لَا يَعْلَمُ - فَحَفِظَ الْمَنْسُوخَ ولَمْ يَحْفَظِ النَّاسِخَ - فَلَوْ عَلِمَ أَنَّه مَنْسُوخٌ لَرَفَضَه - ولَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُونَ إِذْ سَمِعُوه مِنْه أَنَّه مَنْسُوخٌ لَرَفَضُوه –

الصادقون الحافظون

وآخَرُ رَابِعٌ - لَمْ يَكْذِبْ عَلَى اللَّه ولَا عَلَى رَسُولِه - مُبْغِضٌ لِلْكَذِبِ خَوْفاً مِنَ اللَّه وتَعْظِيماً لِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ولَمْ يَهِمْ بَلْ حَفِظَ مَا سَمِعَ عَلَى وَجْهِه - فَجَاءَ بِه عَلَى مَا سَمِعَه - لَمْ يَزِدْ فِيه ولَمْ يَنْقُصْ مِنْه - فَهُوَ حَفِظَ النَّاسِخَ فَعَمِلَ بِه - وحَفِظَ الْمَنْسُوخَ فَجَنَّبَ عَنْه - وعَرَفَ الْخَاصَّ والْعَامَّ والْمُحْكَمَ والْمُتَشَابِه - فَوَضَعَ كُلَّ شَيْءٍ مَوْضِعَه.

وقَدْ كَانَ يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الْكَلَامُ - لَه وَجْهَانِ فَكَلَامٌ  

يَسْمَعُوا - وكَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُه عَنْه وحَفِظْتُه - فَهَذِه وُجُوه مَا عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلَافِهِمْ وعِلَلِهِمْ فِي رِوَايَاتِهِمْ.

تیسری قسم اس شخص کی ہے جس نے رسول اکرم (ص) کو حکم دیتے سنا ہے لیکن حضرت نے جب منع کیا تو اسے اطلاع نہیں ہو سکی یا حضرت کو منع کرتے دیکھا ہے پھر جب آپ نے دوبارہ حکم دیا تو اطلاع نہ ہو سکی' اس شخص نے منسوخ کو محفوظ کرلیا ہے اور ناسخ کو محفوظ نہیں کر سکا ہے کہاگر اسے معلوم ہو جائے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے تو اسے ترک کردے گا اور اگرمسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ اس نے منسوخ کی روایت کی ہے تو وہ بھی اسے نظر اندازکردیں گے۔

چوتھی قسم اس شخص کی ہے جس نے خدا اور رسول (ص) کے خلاف غلط بیانی سے کام نہیں لیا ہے اور وہ خوف خدا اورتعظیم رسول خدا کی بنیاد پر جھوٹ کا دشمن بھی ہے اور اس سے بھول چوک بھی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے ویسے ہی محفوظ کر رکھا ہے نہ اس میں کسی طرح کااضافہ کیا ہے اور نہ کمی کی ہے۔ناسخ ہی کو محفوظ کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور منسوخ کو یاد رکھا ہے۔لیکن اس سے اجتناب کیا ہے ۔خاص و عام اورمحکم و متشابہ کوبھی پہچانتا ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہےلیکن مشکل یہ ہےکہ کبھی کبھی رسول اکرم (ص) کے ارشادات کے دورخ(۱) ہوتے تھے ۔بعض کا تعلق

(۱)جس طرح ایک انسان کی زندگی کے مختلف رخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک رخ دوسرے سے بالکل اجنبی ہوتا ہے کہ بے خبر انسان اسے دو زندگیوں پر محمول کردیتا ہے۔اسی طرح معاشرہ اور روایات کے بھی مختلف رخ ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک رخ دوسرے سے بالکل اجنبی اور بیگانہ ہوتا ہے اور ہر رخ کے لئے الگ مفہوم ہوتا ہے اورہر رخ کے الگ احکام ہوتے ہیں۔اب اگر کوئی شخص اس حقیقت سے باخبر نہیں ہوتا ہے تو وہ ایک ہی رخ یا ایک ہی روایت کو لے اڑتا ہے اور وثوق و اعتبارکے ساتھ یہ بین کرتا ہے کہ میں نے خود رسول اکرم (ص) سے سنا ہے اوراسے یہ خبر نہیں ہوتی ہے کہ زندگی کا کوئی دوسرا رخ بھی ہے۔یا اس بیان کا کوئی اور بھی پہلو ہے جو قبل یا بعد دوسرے مناسب موقع پر بیان ہوچکا ہے یا بیان ہونے والا ہے اور اس طرح اشتباہات کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اورحقیقت روایات میں گم ہو جاتی ہے حالانکہ دیدہ و دانستہ کوئی گناہ یا اشتباہ نہیں ہوتا ہے ۔

۴۲۷

خَاصٌّ وكَلَامٌ عَامٌّ - فَيَسْمَعُه مَنْ لَا يَعْرِفُ مَا عَنَى اللَّه سُبْحَانَه بِه - ولَا مَا عَنَى رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَيَحْمِلُه السَّامِعُ ويُوَجِّهُه عَلَى غَيْرِ مَعْرِفَةٍ بِمَعْنَاه - ومَا قُصِدَ بِه ومَا خَرَجَ مِنْ أَجْلِه - ولَيْسَ كُلُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنْ كَانَ يَسْأَلُه ويَسْتَفْهِمُه - حَتَّى إِنْ كَانُوا لَيُحِبُّونَ أَنْ يَجِيءَ الأَعْرَابِيُّ والطَّارِئُ - فَيَسْأَلَهعليه‌السلام حَتَّى

فَيَسْأَلَه عليه السلام حَتَّى يَسْمَعُوا - وكَانَ لَا يَمُرُّ بِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ إِلَّا سَأَلْتُه عَنْه وحَفِظْتُه - فَهَذِه وُجُوه مَا عَلَيْه النَّاسُ فِي اخْتِلَافِهِمْ وعِلَلِهِمْ فِي رِوَايَاتِهِمْ

(۲۱۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في عجيب صنعة الكون

وكَانَ مِنِ اقْتِدَارِ جَبَرُوتِه - وبَدِيعِ لَطَائِفِ صَنْعَتِه - أَنْ جَعَلَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ الزَّاخِرِ - الْمُتَرَاكِمِ الْمُتَقَاصِفِ يَبَساً جَامِداً

خاص افراد سے ہوتاتھا اور بعض کلمات عام ہوتے تھے اور ان کلمات کو وہشخص بھی سن لیتا تھا جسے یہ نہیں معلوم تھا کہ خدا و رسول کا مقصد کیا ہے اور اسے سن کر اس کی ایک توجیہ کرلیتا تھا بغیر اس نکتہ کا ادراک کئے ہوئے۔کہ اس کلام کا مفہوم اور مقصد کیا ہے اوریہ کس بنیاد پر صادر ہوا ہے۔اور تمام اصحاب رسول اکرم (ص) میں یہ ہمت بھی نہیں تھی کہ آپ سے سوال کرسکیں اورباقاعدہ تحقیق کرسکیں بلکہ اس بات کا انتظار کیا کرتے تھے کہ کوئی صحرائی یا پردیسی آکر آپ سے سوال کرے تو وہ بھی سن لیں ۔یہ صرف میں تھا کہ میرے سامنے سے کوئی ایسی بات نہیں گزرتی تھی مگر یہ کہ میں دریافت بھی کرلیتا تھا اور محفوظ بھی کرلیتا تھا۔

یہ ہیں لوگوں کے درمیان اختلافات کے اسباب اور روایات میں تضاد کے عوامل و محرکات۔

(۲۱۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(حیرت انگیز تخلیق کائنات کے بارے میں )

یہ پروردگار کے اقتدار کی طاقت اور اس کی صناعی کی حیرت انگیز لطافت ہے کہ اس نے گہرے اور متلاطم سمندر(۱) میں ایک خشک اور ٹھوس زمین کو پیدا

(۱) کتنا حسین نظام کائنات ہے کہ متلاطم پانی پر زمین قائم ہے اور زمین کے اپور ہوا کا دبائو قائم ہے اور انسان اس تین منزلہ عمارت میں درمیانی طبقہ پر اس طرح سکونت پذیر ہے کہ اس کے زیر قدم زمین اور پانی ہے اوراس کے بالائے سر فضا اور ہوا ہے۔ہوا اس کی زندگی کے لئے سانسیں فراہم کر رہی ہے اور زمین اس کے سکون و قرار کا انتظام کرکے اسے باقی رکھے ہوئے ہیں۔پانی اس کی زندگی کا قوام ہے اور سمندراس کی تازگی کا ذریعہ کوئی ذرۂ کائنات اس کی خدمت سے غافل نہیں ہے اورکوئی عنصراپنے سے اشرف مخلوق کی اطاعت سے منحرف نہیں ہے۔تاکہ وہ بھی اپنی اشرفیت کی آبرو کاتحفظ کرے اور ساری کائنات سے بالاتر خالق ومالک کی اطاعت و عبادت میں ہمہ تن مصروف رہے۔

۴۲۸

ثُمَّ فَطَرَ مِنْه أَطْبَاقاً - فَفَتَقَهَا سَبْعَ سَمَاوَاتٍ بَعْدَ ارْتِتَاقِهَا فَاسْتَمْسَكَتْ بِأَمْرِه - وقَامَتْ عَلَى حَدِّه وأَرْسَى أَرْضاً يَحْمِلُهَا الأَخْضَرُ الْمُثْعَنْجِرُ - والْقَمْقَامُ الْمُسَخَّرُ - قَدْ ذَلَّ لأَمْرِه وأَذْعَنَ لِهَيْبَتِه - ووَقَفَ الْجَارِي مِنْه لِخَشْيَتِه - وجَبَلَ جَلَامِيدَهَا ونُشُوزَ مُتُونِهَا وأَطْوَادِهَا - فَأَرْسَاهَا فِي مَرَاسِيهَا - وأَلْزَمَهَا قَرَارَاتِهَا - فَمَضَتْ رُءُوسُهَا فِي الْهَوَاءِ - ورَسَتْ أُصُولُهَا فِي الْمَاءِ - فَأَنْهَدَ جِبَالَهَا عَنْ سُهُولِهَا - وأَسَاخَ قَوَاعِدَهَا فِي مُتُونِ أَقْطَارِهَا ومَوَاضِعِ أَنْصَابِهَا - فَأَشْهَقَ قِلَالَهَا وأَطَالَ أَنْشَازَهَا - وجَعَلَهَا لِلأَرْضِ عِمَاداً وأَرَّزَهَا فِيهَا أَوْتَاداً - فَسَكَنَتْ عَلَى حَرَكَتِهَا مِنْ أَنْ تَمِيدَ بِأَهْلِهَا أَوْ تَسِيخَ بِحِمْلِهَا أَوْ تَزُولَ عَنْ مَوَاضِعِهَا - فَسُبْحَانَ مَنْ أَمْسَكَهَا بَعْدَ مَوَجَانِ مِيَاهِهَا - وأَجْمَدَهَا بَعْدَ رُطُوبَةِ أَكْنَافِهَا - فَجَعَلَهَا لِخَلْقِه مِهَاداً - وبَسَطَهَا لَهُمْ فِرَاشاً - فَوْقَ بَحْرٍ لُجِّيٍّ رَاكِدٍ

کردیا۔ اور پھربخارات کے طبقات بنا کر انہیں شگافتہ کرکے سات آسمانوں کی شکل دے دی جواس کے امر سے ٹھہرے ہوئے ہیں اوراپنی حدوں پرقائم ہیں ۔پھر زمین کو یوں گاڑ دیا کہ اسے سبز رنگ کا گہرا سمندر اٹھائے ہوئے ہے جو قانون الٰہی کے آگے مسخر ہے۔اس کے امر کا تابع ہے اور اس کی ہیبت کے سامنے سر نگوں ہے اور اس کے خوف سے اس کا بہائو تھما ہوا ہے۔

پھر پتھروں۔ٹیلوں اورپہاڑوں کو خلق کرکے انہیں ان کی جگہوں پر گاڑ دیا اور ان کی منزلوں پر مستقر کردیا کہ اب ان کی بلندیاں فضائوں سے گزرگئی ہیں اور ان کی جڑیں پانی کے اندر راسخ ہیں۔ان کے پہاڑوں کو ہموار زمینوں سے اونچا کیا اور ان کے ستونوں کواطراف کے پھیلائو اورمراکز کے ٹھہرائو میں نصب کردیا۔اب ان کی چوٹیاں بلند ہیں اور ان کی بلندیاں طویل ترین ہیں۔انہیں پہاڑوں کو زمین کا ستون قرار دیا ہے اور انہیں کو کیل بنا کر گاڑ دیا ہے جن کی وجہس ے زمین حرکت کے بعد ساکن ہوگئی اور نہ اہل زمین کو لے کر کسی رف جھک سکی اور نہ ان کے بوجھ سے دھنس سکی اورنہ اپنی جگہ سے ہٹ سکی۔

پاک و بے نیاز ہے وہ مالک جس نے پانی کے تموج کے باوجود اسے روک رکھا ہے اور اطراف کی تری کے باوجود اسے خشک بنا رکھا ہے اور پھر اسے اپنی مخلوقات کے لئے گہوارہ اور فرش کی حیثیت دے دی ہے۔اس گہرے سمندر کے اوپر جوٹھہرا ہوا ہے اور بہتا نہیں ہے اور

۴۲۹

لَا يَجْرِي وقَائِمٍ لَا يَسْرِي - تُكَرْكِرُه الرِّيَاحُ الْعَوَاصِفُ - وتَمْخُضُه الْغَمَامُ الذَّوَارِفُ -( إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشى ) .

(۲۱۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

كان يستنهض بها أصحابه إلى جهاد أهل الشام في زمانه

اللَّهُمَّ أَيُّمَا عَبْدٍ مِنْ عِبَادِكَ - سَمِعَ مَقَالَتَنَا الْعَادِلَةَ غَيْرَ الْجَائِرَةِ - والْمُصْلِحَةَ غَيْرَ الْمُفْسِدَةِ فِي الدِّينِ والدُّنْيَا - فَأَبَى بَعْدَ سَمْعِه لَهَا إِلَّا النُّكُوصَ عَنْ نُصْرَتِكَ - والإِبْطَاءَ عَنْ إِعْزَازِ دِينِكَ - فَإِنَّا نَسْتَشْهِدُكَ عَلَيْه يَا أَكْبَرَ الشَّاهِدِينَ شَهَادَةً - ونَسْتَشْهِدُ عَلَيْه جَمِيعَ مَا أَسْكَنْتَه أَرْضَكَ وسمَاوَاتِكَ - ثُمَّ أَنْتَ بَعْدُ الْمُغْنِي عَنْ نَصْرِه - والآخِذُ لَه بِذَنْبِه.

(۲۱۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في تمجيد اللَّه وتعظيمه

الْحَمْدُ لِلَّه الْعَلِيِّ عَنْ شَبَه الْمَخْلُوقِينَ - الْغَالِبِ لِمَقَالِ الْوَاصِفِينَ -

ایک مقام پر قائم ہے کسی طرف جاتا نہیں ہے حالانکہ اسے تیز و تند ہوائیں حرکت دے رہی ہیں اور برسنے والے بادل اسے متھ کراس سے پانی کھینچتے رہتے ہیں۔ ''ان تمام باتوں میں عبرت کا سامان ہے ان لوگوں کے لے جن کا اندر خوف خدا پایا جاتا ہے ۔''

(۲۱۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں اپنے اصحاب کو اہل شام سے جہاد کرنے پر آمادہ کیا ہے )

خدایا تیرے جس بندہ نے بھی میری عادلانہ گفتگو (جس میں کسی طرح کا ظلم نہیں ہے ) اورمصلحانہ نصیحت (جس میں کسی طرح کافساد نہیں ہے ) کو سننے کے بعد بھی تیرے دین کی نصرت سے انحراف کیا اور تیرے دین کے اعزاز میں کوتاہی کی ہے۔میں اس کے خلاف تجھے گواہ قرار دے رہا ہوں کہ تجھ سے بالاترکوئی گواہ نہیں ہے اور پھرتیرے تمام سکان ارض و سما کو گواہ قراردے رہا ہوں۔اس کے بعد تو ہر ایک کی مدد سے بے نیاز بھی ہے اور ہر ایک کے گناہ کا مواخذہ کرنے والا بھی ہے۔

(۲۱۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(پروردگار کی تمجید اوراس کی تعظیم کے بارے میں)

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو مخلوقات کی مشابہت سے بلند تر اور توصیف کرنے والوں کی

۴۳۰

الظَّاهِرِ بِعَجَائِبِ تَدْبِيرِه لِلنَّاظِرِينَ - والْبَاطِنِ بِجَلَالِ عِزَّتِه عَنْ فِكْرِ الْمُتَوَهِّمِينَ - الْعَالِمِ بِلَا اكْتِسَابٍ ولَا ازْدِيَادٍ - ولَا عِلْمٍ مُسْتَفَادٍ - الْمُقَدِّرِ لِجَمِيعِ الأُمُورِ بِلَا رَوِيَّةٍ ولَا ضَمِيرٍ - الَّذِي لَا تَغْشَاه الظُّلَمُ ولَا يَسْتَضِيءُ بِالأَنْوَارِ - ولَا يَرْهَقُه لَيْلٌ ولَا يَجْرِي عَلَيْه نَهَارٌ - لَيْسَ إِدْرَاكُه بِالإِبْصَارِ ولَا عِلْمُه بِالإِخْبَارِ.

ومنها في ذكر النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

أَرْسَلَه بِالضِّيَاءِ وقَدَّمَه فِي الِاصْطِفَاءِ - فَرَتَقَ بِه الْمَفَاتِقَ وسَاوَرَ بِه الْمُغَالِبَ - وذَلَّلَ بِه الصُّعُوبَةَ وسَهَّلَ بِه الْحُزُونَةَ - حَتَّى سَرَّحَ الضَّلَالَ عَنْ يَمِينٍ وشِمَالٍ.

(۲۱۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يصف جوهر الرسول، ويصف العلماء، ويعظ بالتقوى

وأَشْهَدُ أَنَّه عَدْلٌ عَدَلَ وحَكَمٌ فَصَلَ - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً

گفتگو سے بالاتر ہے وہ اپنی تدبیر کے عجائب کے ذریعہ دیکھنے والوں کے سامنے بھی ہے اور اپنے جلال و عزت کی بناپر مفکرین کی فکر سے پوشیدہ بھی ہے بغیر کسی تحصیل اور اضافہ کے عالم ہے اور اس کاعلم کسی استفادہ کا نتیجہ بھی نہیں ہے۔تمام امور کاتقدیر ساز ہے اور اس سلسلہ میں کسی فکر اورسوچ بچار کامحتاج بھی نہیں ہے۔تاریکیاں اسے ڈھانپ نہیں سکتی ہیں اور روشنیوں سے وہ کسی طرح کا کسب نور نہیں کرتا ہے۔نہ رات اس پر غالب آسکتی ہے اور نہ دن اس کے اوپر سے گزر سکتا ہے ۔اس کا ادراک آنکھوں کا محتاج نہیں ہے اور اس کاعلم اطلاعات کا نتیجہ نہیں ہے۔

اس نے پیغمبر (ص) کوایک نوردے کربھیجا ہے اورانہیں سب سے پہلے منتخب قرار دیا ہے۔ان کے ذریعہ پراگندیوں کو جمع کیا ہے اور غلبہ حاصل کرنے والوں کو قابو میں رکھا ہے۔دشواریوں کوآسان کیا ہے اورنا ہمواریوں کو ہموار بنایا ہے۔یہاں تک کہ گمراہیوں کو داہنے بائیں ہر طرف سے دور کردیا ہے۔

(۲۱۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

( جس میں رسول اکرم (ص) کی تعریف علماء کی توصیف اور تقویٰ کی نصیحت کا ذکر کیا گیا ہے )

میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ پروردگار ایسا عادل ہے جو عدل ہی سے کام لیتا ہے۔اور ایساحاکم ہے جو حق و باطل کو جدا کر دیتا ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد (ص)

۴۳۱

عَبْدُه ورَسُولُه وسَيِّدُ عِبَادِه - كُلَّمَا نَسَخَ اللَّه الْخَلْقَ فِرْقَتَيْنِ جَعَلَه فِي خَيْرِهِمَا - لَمْ يُسْهِمْ فِيه عَاهِرٌ ولَا ضَرَبَ فِيه فَاجِرٌ.

أَلَا وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدْ جَعَلَ لِلْخَيْرِ أَهْلًا - ولِلْحَقِّ دَعَائِمَ ولِلطَّاعَةِ - عِصَماً - وإِنَّ لَكُمْ عِنْدَ كُلِّ طَاعَةٍ عَوْناً مِنَ اللَّه سُبْحَانَه – يَقُولُ عَلَى الأَلْسِنَةِ ويُثَبِّتُ الأَفْئِدَةَ - فِيه كِفَاءٌ لِمُكْتَفٍ وشِفَاءٌ لِمُشْتَفٍ –

صفة العلماء

واعْلَمُوا أَنَّ عِبَادَ اللَّه الْمُسْتَحْفَظِينَ عِلْمَه - يَصُونُونَ مَصُونَه ويُفَجِّرُونَ عُيُونَه - يَتَوَاصَلُونَ بِالْوِلَايَةِ - ويَتَلَاقَوْنَ بِالْمَحَبَّةِ ويَتَسَاقَوْنَ بِكَأْسٍ رَوِيَّةٍ - ويَصْدُرُونَ بِرِيَّةٍ

اس کے بندہ اور رسول ہیں اور پھر تمام بندوں کے سرداربھی ہیں۔جب بھی پروردگار نے مخلوقات کا دو حصوں میں تقسیم کیا ہے انہیں(۱) بہترین حصہ ہی میں رکھا ہے۔ان کی تخلیق میں نہ کسی بد کار کا کوئی حصہ ہے اور نہ کسی فاسق و فاجر کا کوئی دخل ہے ۔

یاد رکھو کہ پروردگار نے ہ خیر کے لئے اہل قرار دئیے ہیں اور ہر حق کے لئے ستون اور ہر اطاعت کے لئے وسیلہ حفاظت قرار دیا ہے اور تمہاے لئے ہر اطاعت کے موقع پر خدا کی طرف سے ایک مدد گار کا انتظام رہتا ہے جو زبانوں پر بولتا ہے اوردلوں کو ثبا ت عنایت کرتا ہے۔اس کے وجود میں ہر اکتفا کرنے والے کے لئے کفایت ہے اور ہر طلب گار صحت کے لئے شفا و عافیت ہے۔

یاد رکھو اللہ کے وہ بندہ(۲) جنہیں اس نے اپنے عل کا محافظ بنایا ہے وہ اس کا تحفظ بھی کرتے ہیں اور اس کے چشموں کو جاری بھی کرتے رہتے ہیں۔آپس میں محبت سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور چاہت کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں۔سیراب کرنے والے جاموں سے مل کر سیراب ہوتے ہیں اور پھر سیرو سیراب ہو کر ہی نکلتے

(۱)صحیح مسلم کتاب الفضائل میں سرکار دو عالم (ص) کا یہ ارشاد درج ہے کہ اللہ نے اولاد اسماعیل میں کنانہ کا انتخاب کی ہے اور پھر کنانہ میں قریش کو منتخب قراردیا ہے۔قریش میں بنی ہاشم منتخب ہیں اوربنی ہاشم میں میں ۔لہٰذا دنیاکی کسی شخصیت کا سرکار دوعالم (ص) اوراہل بیت پر قیاس نہیں کیاجاسکتا ہے۔

(۲)دنیا میں صاحبان علم و فضل بے شمار ہیں لیکن وہ اہل علم جنہیں مالک نے اپنے علم اور اپنے دین کامحافظ بنایا ہے وہ محدود ہی ہیں جن کی صفت یہ ہے کہ علم کاتحفظ بھی کرتے ہیں اوردوسروں کو سیراب بھی کرتے رہتے ہیں ۔خودبھی سیراب رہتے ہیں اور دوسروں کی تشنگی کابھی علاج کرتے رہتے ہیں ۔ان کے علم میں جہالت اور ''لاادری '' کا گزر نہیں ہے اور وہ کسی سائل کومحروم نہیں کرتے ہیں۔

۴۳۲

لَا تَشُوبُهُمُ الرِّيبَةُ - ولَا تُسْرِعُ فِيهِمُ الْغِيبَةُ - عَلَى ذَلِكَ عَقَدَ خَلْقَهُمْ وأَخْلَاقَهُمْ - فَعَلَيْه يَتَحَابُّونَ وبِه يَتَوَاصَلُونَ - فَكَانُوا كَتَفَاضُلِ الْبَذْرِ يُنْتَقَى فَيُؤْخَذُ مِنْه ويُلْقَى - قَدْ مَيَّزَه التَّخْلِيصُ وهَذَّبَه التَّمْحِيصُ -

العظة بالتقوى

فَلْيَقْبَلِ امْرُؤٌ كَرَامَةً بِقَبُولِهَا - ولْيَحْذَرْ قَارِعَةً قَبْلَ حُلُولِهَا - ولْيَنْظُرِ امْرُؤٌ فِي قَصِيرِ أَيَّامِه وقَلِيلِ مُقَامِه فِي مَنْزِلٍ - حَتَّى يَسْتَبْدِلَ بِه مَنْزِلًا - فَلْيَصْنَعْ لِمُتَحَوَّلِه ومَعَارِفِ مُنْتَقَلِه - فَطُوبَى لِذِي قَلْبٍ سَلِيمٍ - أَطَاعَ مَنْ يَهْدِيه وتَجَنَّبَ مَنْ يُرْدِيه - وأَصَابَ سَبِيلَ السَّلَامَةِ بِبَصَرِ مَنْ بَصَّرَه - وطَاعَةِ هَادٍ أَمَرَه وبَادَرَ الْهُدَى قَبْلَ أَنْ تُغْلَقَ أَبْوَابُه - وتُقْطَعَ أَسْبَابُه واسْتَفْتَحَ التَّوْبَةَ وأَمَاطَ الْحَوْبَةَ - فَقَدْ أُقِيمَ عَلَى الطَّرِيقِ وهُدِيَ نَهْجَ السَّبِيلِ.

ہیں۔ان کے اعمال میں ریب کی آمیزش نہیں ہے اور ان کے معاشرہ میں غیبت کا گزر نہیں ہے۔اسی انداز سے مالک نے ان کی تخلیق کی ہے اور ان کے اخلاق اقرار دئیے ہیں اور اسی بنیاد پر دہآپس میں محبت بھی کرتے ہیں اورملتے بھی رہتے ہیں۔ان کی مثال ان دانوں کی ہے جن کو اس طرح چنا جاتا ہے کہ اچھے دانوں کو لے لیا جاتا ہے اورخراب کو پھینک دیا جاتا ہے۔انہیں اسی صفائی نے ممتاز بنادیا ہے اور انہیں اسی پر کھ نے صاف ستھراقرار دے دیا ہے۔

اب ہر شخص کو چاہیے کہ انہیں صفات کوقبول کرکے کرامت کو قبول کرے اور قیامت کے آنے سے پہلے ہوشیار ہوجائے۔اپنے مختصر سے دنوں اورتھوڑے سے قیام کے بارے میں غور کرے کہ اس منزل کو دوسری منزل میں بہرحال بدل جانا ہے۔اب اس کا فرض ہے کہ منزل اور جانی پہچانی جائے باز گشت کے بارے میں عمل کرے۔

خوشا بحال ان قلب سلیم والوں کے لئے جو رہنمائی کی اطاعت کریں اور ہلاک ہونے والوں سے پرہیز کریں۔کوئی راستہ دکھادے تو دیکھ لیں اور واقعی راہنما امر کرے تو اس کی اطاعت کریں۔ہدایت کی طرف سبقت کریں قبل اس کے کہ اس کے دروازے بند ہو جائیں۔اور اس کے اسباب منقطع ہو جائیں۔توبہ کا دروازہ کھول لیں اور گناہوں کے داغوں کودھو ڈالیں یہی و ہ لوگ ہیں جنہیں سیدھے راستہ پر کھڑا کردیا گیا ہے اور انہیں واضح راستہ کی ہدایت مل گئی۔

۴۳۳

(۲۱۵)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

كان يدعو به كثيرا

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي لَمْ يُصْبِحْ بِي مَيِّتاً ولَا سَقِيماً - ولَا مَضْرُوباً عَلَى عُرُوقِي بِسُوءٍ - ولَا مَأْخُوذاً بِأَسْوَإِ عَمَلِي ولَا مَقْطُوعاً دَابِرِي - ولَا مُرْتَدّاً عَنْ دِينِي ولَا مُنْكِراً لِرَبِّي - ولَا مُسْتَوْحِشاً مِنْ إِيمَانِي ولَا مُلْتَبِساً عَقْلِي - ولَا مُعَذَّباً بِعَذَابِ الأُمَمِ مِنْ قَبْلِي - أَصْبَحْتُ عَبْداً مَمْلُوكاً ظَالِماً لِنَفْسِي - لَكَ الْحُجَّةُ عَلَيَّ ولَا حُجَّةَ لِي - ولَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ إِلَّا مَا أَعْطَيْتَنِي - ولَا أَتَّقِيَ إِلَّا مَا وَقَيْتَنِي!

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَفْتَقِرَ فِي غِنَاكَ - أَوْ أَضِلَّ فِي هُدَاكَ أَوْ أُضَامَ فِي سُلْطَانِكَ - أَوْ أُضْطَهَدَ والأَمْرُ لَكَ!

اللَّهُمَّ اجْعَلْ نَفْسِي أَوَّلَ كَرِيمَةٍ تَنْتَزِعُهَا مِنْ كَرَائِمِي - وأَوَّلَ وَدِيعَةٍ تَرْتَجِعُهَا مِنْ وَدَائِعِ نِعَمِكَ عِنْدِي!

اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ أَنْ نَذْهَبَ عَنْ قَوْلِكَ -

(۲۱۵)

آپ کی دعا کا ایک حصہ

( جس کی برابر تکرار فرمایا کرتے تھے )

خدا شکر ہے کہ اسنے صبح کے ہنگام نہ مردہ بنایا ہے اورنہ بیمار ۔نہ کسی رگ پرمرض کاحملہ ہوا ہے اورنہ کسی بد عملی کا مواخذہ کیا گیا ہے۔نہ میری نسل کو منقطع کیا گیا ہے اور نہ اپنے دین میں ارتداد کاشکار ہوا ہوں۔نہ اپنے دین سے مرتد ہوں اور نہ اپنے رب کامنکر۔نہ اپنے ایمان سے متوحش اور نہ اپنی عقل کا مخبوط اور نہ مجھ پر گذشتہ امتوں جیسا کوء عذاب ہوا ہے۔میں نے اس عالم میں صبح کی ہے کہ میں ایک بندۂ مملوک ہوں جس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔خدایا! تیری حجت مجھ پر تمام ہے اور میری کوئی حجت نہیں ہے۔تو جو دیدے اس سے زیادہ لے نہیں سکتا اور جس چیز سے تونہ بچائے اس سے بچ نہیں سکتا ۔

خدا یا! میں اس امر سے پناہ چاہتا ہوں کہ تیریر دولت میں رہ کر فقیر ہوجائوں یا تیری ہدایت کے باوجود گمراہ ہو جائوں یا تیریر سلطنت کے باوجود ستایا جائوں یا تیرے ہاتھ میں سارے اختیارات ہونے کے باوجود مجھ پر دبائو ڈالا جائے ۔

خدایا! میری جن نفیس چیزوں کو مجھ سے واپس لینا اور اپنی جن امانتوں کو مجھ سے پلٹانا۔ان میں سب سے پہلی چیز میری روح کو قرار دینا۔

خدایا! میں اس امرسے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں تیرے ارشادات سے بہک جائوں یا تیرے دین میں

۴۳۴

أَوْ أَنْ نُفْتَتَنَ عَنْ دِينِكَ - أَوْ تَتَابَعَ بِنَا أَهْوَاؤُنَا دُونَ الْهُدَى الَّذِي جَاءَ مِنْ عِنْدِكَ!

(۲۱۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها بصفين

أَمَّا بَعْدُ - فَقَدْ جَعَلَ اللَّه سُبْحَانَه لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً بِوِلَايَةِ أَمْرِكُمْ - ولَكُمْ عَلَيَّ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي لِي عَلَيْكُمْ - فَالْحَقُّ أَوْسَعُ الأَشْيَاءِ فِي التَّوَاصُفِ - وأَضْيَقُهَا فِي التَّنَاصُفِ - لَا يَجْرِي لأَحَدٍ إِلَّا جَرَى عَلَيْه - ولَا يَجْرِي عَلَيْه إِلَّا جَرَى لَه - ولَوْ كَانَ لأَحَدٍ أَنْ يَجْرِيَ لَه ولَا يَجْرِيَ عَلَيْه - لَكَانَ ذَلِكَ خَالِصاً لِلَّه سُبْحَانَه دُونَ خَلْقِه - لِقُدْرَتِه عَلَى عِبَادِه - ولِعَدْلِه فِي كُلِّ مَا جَرَتْ عَلَيْه صُرُوفُ قَضَائِه - ولَكِنَّه سُبْحَانَه جَعَلَ حَقَّه عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يُطِيعُوه - وجَعَلَ جَزَاءَهُمْ عَلَيْه مُضَاعَفَةَ الثَّوَابِ - تَفَضُّلًا مِنْه وتَوَسُّعاً بِمَا هُوَ مِنَ الْمَزِيدِ أَهْلُه.

حق الوالي وحق الرعية

ثُمَّ جَعَلَ سُبْحَانَه مِنْ حُقُوقِه حُقُوقاً - افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلَى بَعْضٍ - فَجَعَلَهَا تَتَكَافَأُ فِي وُجُوهِهَا - ويُوجِبُ بَعْضُهَا بَعْضاً - ولَا يُسْتَوْجَبُ بَعْضُهَا إِلَّا بِبَعْضٍ -.

کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائوں یا تیریر آئی ہوئی ہدایتوں کے مقابلہ میں مجھ پرخواہشات کا غلبہ ہو جائے ۔

(۲۱۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسے مقام صفین میں ارشاد فرمایا)

اما بعد ! پروردگار نے ولی امر ہونے کی بنا پر تم پر میرا ایک حق قرار دیا ہے اور تمہارا بھی میرے اوپر ایک طرح کا حق ہے اور حق مدح سرائی کے اعتبار سے تو بہت وسعت رکھتا ہے لیکن انصاف کے اعتبار سے بہت تنگ ہے۔یہ کسی کا اس وقت تک ساتھ نہیں دیتا ہے جب تک اس کے ذمہ کوئی حق ثابت نہ کردے اورکسی کے خلاف فیصلہ نہیں کرتا ہے جب تک اسے کوئی حق نہ دلوادے۔اگر کوئی ہستی ایسی ممکن ہے جس کا دوسروں پر حق ہو اوراس پر کسی کا حق نہ ہو تو وہ صرف پروردگار کی ہستی ہے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اوراس کے تمام فیصلے عدل و انصاف پرمبنی ہیں لیکن اس نے بھی جب بندوں پر اپنا حق اطاعت قراردیا ہے تو اپنے فضل و کرم اوراپنے اس احسان کی وسعت کی بنا پر جس کا وہ اہل ہے ان کا یہ حق قرار دے دیا ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ ثواب دے دیا جا ئے۔

پروردگار کے مقرر کئے ہوئے حقوق میں سے وہ تمام حقوق ہیں جو اس نے ایک دوسرے پر قرار دئیے ہیں اور ان میں مساوات بھی قراردیہے کہ ایک حق سے دوسرا حق پیدا ہوتا ہے اور ایک حق نہیں پیدا ہوتا ہے جب تک دوسرا حق نہ پیدا ہو جائے ۔

۴۳۵

وأَعْظَمُ مَا افْتَرَضَ سُبْحَانَه مِنْ تِلْكَ الْحُقُوقِ - حَقُّ الْوَالِي عَلَى الرَّعِيَّةِ وحَقُّ الرَّعِيَّةِ عَلَى الْوَالِي - فَرِيضَةٌ فَرَضَهَا اللَّه سُبْحَانَه لِكُلٍّ عَلَى كُلٍّ - فَجَعَلَهَا نِظَاماً لأُلْفَتِهِمْ وعِزّاً لِدِينِهِمْ - فَلَيْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ - ولَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ إِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِيَّةِ - فَإِذَا أَدَّتْ الرَّعِيَّةُ إِلَى الْوَالِي حَقَّه - وأَدَّى الْوَالِي إِلَيْهَا حَقَّهَا - عَزَّ الْحَقُّ بَيْنَهُمْ وقَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّينِ - واعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ وجَرَتْ عَلَى أَذْلَالِهَا السُّنَنُ - فَصَلَحَ بِذَلِكَ الزَّمَانُ - وطُمِعَ فِي بَقَاءِ الدَّوْلَةِ ويَئِسَتْ مَطَامِعُ الأَعْدَاءِ -. وإِذَا غَلَبَتِ الرَّعِيَّةُ وَالِيَهَا - أَوْ أَجْحَفَ الْوَالِي بِرَعِيَّتِه - اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ - وظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ وكَثُرَ الإِدْغَالُ فِي الدِّينِ - وتُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ فَعُمِلَ بِالْهَوَى - وعُطِّلَتِ الأَحْكَامُ وكَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوسِ - فَلَا يُسْتَوْحَشُ لِعَظِيمِ حَقٍّ عُطِّلَ - ولَا لِعَظِيمِ بَاطِلٍ فُعِلَ - فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الأَبْرَارُ وتَعِزُّ الأَشْرَارُ - وتَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللَّه سُبْحَانَه عِنْدَ الْعِبَادِ -. فَعَلَيْكُمْ بِالتَّنَاصُحِ فِي ذَلِكَ وحُسْنِ التَّعَاوُنِ عَلَيْه - فَلَيْسَ أَحَدٌ وإِنِ اشْتَدَّ عَلَى رِضَا اللَّه حِرْصُه - وطَالَ فِي الْعَمَلِ اجْتِهَادُه  

اوران تمام حقوق میں سب سے عظیم ترین حق رعایا پروالی کا حق اور والی پر رعایا کا حق ہے جسے پروردگار نے ایک کو دوسرے کے لئے قراردیا ہے اور اسی سے ان کی باہمی الفتوں کو منظم کیاہے اور ان کے دین کو عزت دی ہے ۔رعایا کی اصلاح ممکن نہیں ہے جب تک والی صالح نہ ہو اور والی صالح نہیںرہ سکتے ہیں جب تک رعایا صالح نہ ہو۔اب اگر رعایا نے والی کو اس کا حق انصاف کے نشانات بر قرار رہیں گے اور پیغمبر اسلام (ص) کی سنتیں اپنے ڈھرے پرچل پڑیں گی اور زمانہ ایسا صالح ہو جائے گا کہ بقاء حکومت کی امید بھی کی جائے گی اور دشمنوں کی تمنائیںبھی ناکام ہو جائیں گی۔لیکن اگر رعایا حاکم پر غالب آگئی یا حاکم نے رعایا پر زیادتی کی تو کلمات میں اختلاف ہو جائے گا، ظلم کے نشانات ظاہر ہو جائیں گے۔دین میں مکاری بڑھ جائے گی۔سنتوں کے راستے نظر انداز ہو جائیں گے۔خواہشات پر عمل ہوگا۔احکام معطل ہو جائیں گے اور نفوس کی بیماریاں بڑھ جائیں گی۔نہ بڑے سے بڑے حق کے معطل ہوجانے سے کوئی وحشت ہوگی اور نہ بڑے سے بڑے باطل پر عملدرآمدسے کوئی پریشانی ہوگی۔

ایسے موقع پر نیک لوگ ذلیل کردئیے جائیں گے اورشریر لوگوں کی عزت ہوگی اورب ندوں پر خدا کی عقوبتیں عظیم تر ہو جائیں گی لہٰذا خدارا آپس میں ایک دوسرے سے مخلص رہو اور ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اس لئے کہ تم میں کوئی شخص بھی کتنا ہی رضائے خدا کی طمع رکھتا ہواور کسی قدر بھی زحمت عمل برداشت کرے

۴۳۶

- بِبَالِغٍ حَقِيقَةَ مَا اللَّه سُبْحَانَه أَهْلُه مِنَ الطَّاعَةِ لَه - ولَكِنْ مِنْ وَاجِبِ حُقُوقِ اللَّه عَلَى عِبَادِه - النَّصِيحَةُ بِمَبْلَغِ جُهْدِهِمْ - والتَّعَاوُنُ عَلَى إِقَامَةِ الْحَقِّ بَيْنَهُمْ - ولَيْسَ امْرُؤٌ وإِنْ عَظُمَتْ فِي الْحَقِّ مَنْزِلَتُه - وتَقَدَّمَتْ فِي الدِّينِ فَضِيلَتُه - بِفَوْقِ أَنْ يُعَانَ عَلَى مَا حَمَّلَه اللَّه مِنْ حَقِّه - ولَا امْرُؤٌ وإِنْ صَغَّرَتْه النُّفُوسُ - واقْتَحَمَتْه الْعُيُونُ - بِدُونِ أَنْ يُعِينَ عَلَى ذَلِكَ أَوْ يُعَانَ عَلَيْه.

فَأَجَابَهعليه‌السلام رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِه - بِكَلَامٍ طَوِيلٍ يُكْثِرُ فِيه الثَّنَاءَ عَلَيْه - ويَذْكُرُ سَمْعَه وطَاعَتَه لَه فَقَالَعليه‌السلام

إِنَّ مِنْ حَقِّ مَنْ عَظُمَ جَلَالُ اللَّه سُبْحَانَه فِي نَفْسِه - وجَلَّ مَوْضِعُه مِنْ قَلْبِه - أَنْ يَصْغُرَ عِنْدَه لِعِظَمِ ذَلِكَ كُلُّ مَا سِوَاه - وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ كَانَ كَذَلِكَ لَمَنْ عَظُمَتْ نِعْمَةُ اللَّه عَلَيْه - ولَطُفَ إِحْسَانُه إِلَيْه فَإِنَّه لَمْ تَعْظُمْ نِعْمَةُ اللَّه عَلَى أَحَدٍ - إِلَّا ازْدَادَ حَقُّ اللَّه عَلَيْه عِظَماً - وإِنَّ مِنْ أَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ - أَنْ يُظَنَّ

اطاعت خدا کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہے جس کا وہ اہل ہے لیکن پھربھی مالک کا یہحق واجب اس کے بندوں کے ذمہ ہے کہ انپے امکان بھر نصیحت کرتے رہیں اور حق کے قیام میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں اس لئے کہ کوئی شخص بھی حق کی ذمہ داری ادا کرنے میں دوسرے کی امداد سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے چاہے حق میں اس کی منزلت کسی قدر عظیم کیوں نہ ہو اور دین میں اس کی فضیلت کو کسی قدر تقدم کیوں نہ حاصل ہو اور نہ کوئی شخص مدد کرنے یا مدد لینے کی ذمہ داری سے کمتر ہو سکتا ہے چاہے لوگوں کی نظر میں کسی قدر چھوٹا کیوں نہ ہو اور چاہے ان کی نگاہوں سے کسی قدر کیوں نہ گر جائے ۔ (اس گفتگو کے بعد آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے ایک طویل تقریرکی جس میں آپ کی مدح و ثنا کے ساتھ اطاعت کا وعدہ بھی کیا تو آپ نے فرمایا کہ )

یاد رکھو کہ جس کے دل میں جلال الٰہی کی عظمت اور جس کے نفس میں اس کے مقام الوہیت کی بلندی ہے اس کا حق یہ ہے کہ تمام کائنات اس کی نظرمیں چھوٹی ہوجائے اور ایسے لوگوں میں اس حقیقت کا سب سے بڑا اہل وہ ہے جس پر اس کی نعمتیں عظیم اور اس کے احسانات لطیف ہوں ۔اس لئے کہ کسی شخص پر اللہ کی نعمتیں عظیم نہیں ہوتیں مگر یہ کہ اس کا حق بھی عظیم تر ہو جاتا ہے اور احکام کے حالات میں اور مجھے یہ بات سخت نا گوار ہے کہ تم میں سے کسی کو یہ گمان پیدا ہو

۴۳۷

بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ - ويُوضَعَ أَمْرُهُمْ عَلَى الْكِبْرِ - وقَدْ كَرِهْتُ أَنْ يَكُونَ جَالَ فِي ظَنِّكُمْ أَنِّي أُحِبُّ الإِطْرَاءَ - واسْتِمَاعَ الثَّنَاءِ ولَسْتُ بِحَمْدِ اللَّه كَذَلِكَ - ولَوْ كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ يُقَالَ ذَلِكَ - لَتَرَكْتُه انْحِطَاطاً لِلَّه سُبْحَانَه - عَنْ تَنَاوُلِ مَا هُوَ أَحَقُّ بِه مِنَ الْعَظَمَةِ والْكِبْرِيَاءِ - ورُبَّمَا اسْتَحْلَى النَّاسُ الثَّنَاءَ بَعْدَ الْبَلَاءِ - فَلَا تُثْنُوا عَلَيَّ بِجَمِيلِ ثَنَاءٍ - لإِخْرَاجِي نَفْسِي إِلَى اللَّه سُبْحَانَه وإِلَيْكُمْ مِنَ التَّقِيَّةِ - فِي حُقُوقٍ لَمْ أَفْرُغْ مِنْ أَدَائِهَا وفَرَائِضَ لَا بُدَّ مِنْ إِمْضَائِهَا - فَلَا تُكَلِّمُونِي بِمَا تُكَلَّمُ بِه الْجَبَابِرَةُ - ولَا تَتَحَفَّظُوا مِنِّي بِمَا يُتَحَفَّظُ بِه عِنْدَ أَهْلِ الْبَادِرَةِ - ولَا تُخَالِطُونِي بِالْمُصَانَعَةِ ولَا تَظُنُّوا بِي اسْتِثْقَالًا فِي حَقٍّ قِيلَ لِي - ولَا الْتِمَاسَ إِعْظَامٍ لِنَفْسِي - فَإِنَّه مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ أَنْ يُقَالَ لَه - أَوِ الْعَدْلَ أَنْ يُعْرَضَ عَلَيْه كَانَ الْعَمَلُ بِهِمَا أَثْقَلَ عَلَيْه - فَلَا تَكُفُّوا عَنْ مَقَالَةٍ بِحَقٍّ أَوْ مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ - فَإِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ - ولَا آمَنُ ذَلِكَ مِنْ فِعْلِي - إِلَّا أَنْ يَكْفِيَ اللَّه مِنْ نَفْسِي مَا هُوَ أَمْلَكُ بِه مِنِّي -

جائے کہ میں روساء کو دوست رکھتا ہوں یا اپنی تعریف سننا چاہتا ہوں اور بحمد اللہ میں ایسا نہیں ہوں اور اگر میں ایی باتیں پسند بھی کرتا ہوتا تو بھی اسے نظرانداز کر دیتا کہ میں اپنے کواس سے کمتر سمجھتا ہوں کہ اس عظمت و کبریائی کا اہل بن جائوں جس کا پرودگار حقدار ہے۔یقینا بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اچھی کار کردگی پرتعریف کو دوست رکھتے ہیں لیکن خبردار تم لوگ میری اس بات پرتعریف نہ کرنا کہ میں نے تمہارے حقوق ادا کردئیے ہیں کہ ابھی بہت سے ایسے حقوق کاخوف باقی ہے جو ادا نہیں ہو سکے ہیں اوربہت سے فرائض ہیں جنہیں بہر حال نافذ کرنا ہے دیکھو مجھ سے اس لہجہ میں بات نہ کرنا جس لہجہ میں جابر بادشاہوں سے بات کی جاتی ہے اور نہ مجھ سے اس طرح بچنے کی کوشش کرنا جس طرح طیش میں آنے والوں سے بچا جاتا ہے۔نہ مجھ سے خوشامد کے ساتھ تعلقات رکھنا اور نہ میرے بارے میں یہ تصور کرنا کہ مجھے حرف حق گراں گزرے گا اور نہ میں اپنی تعظیم کا طلب گار ہوں۔اس لئے کہ جوشخص بھی حرف حق کہنے کو گراں سمجھتا ہے یا عدل کی پیشکش کو ناپسند کرتا ہے وہ حق و عدل پرعمل کو یقینا مشکل تر ہی تصور کرے گا۔لہٰذا خبردار حرف حق کہنے میں تکلف نہ کرنا اور منصفانہ مشورہ دینے سے گریز نہ کرنا۔ اس لء کہ میں ذاتی طور پر اپنے کو غلطی سے بالاتر نہیں تصور کرتا ہوں اورنہ اپنے افعال کو اس خطرہ سے محفوظ سمجھتا ہوں مگر یہ کہ میرا پروردگار میرے نفس کوب چالے کہ وہ اس کا مجھ سے زیادہ

۴۳۸

فَإِنَّمَا أَنَا وأَنْتُمْ عَبِيدٌ مَمْلُوكُونَ لِرَبٍّ لَا رَبَّ غَيْرُه - يَمْلِكُ مِنَّا مَا لَا نَمْلِكُ مِنْ أَنْفُسِنَا - وأَخْرَجَنَا مِمَّا كُنَّا فِيه إِلَى مَا صَلَحْنَا عَلَيْه - فَأَبْدَلَنَا بَعْدَ الضَّلَالَةِ بِالْهُدَى وأَعْطَانَا الْبَصِيرَةَ بَعْدَ الْعَمَى.

(۲۱۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في التظلم والتشكي من قريش

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَعْدِيكَ عَلَى قُرَيْشٍ ومَنْ أَعَانَهُمْ - فَإِنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوا رَحِمِي وأَكْفَئُوا إِنَائِي - وأَجْمَعُوا عَلَى مُنَازَعَتِي حَقّاً كُنْتُ أَوْلَى بِه مِنْ غَيْرِي - وقَالُوا أَلَا إِنَّ فِي الْحَقِّ أَنْ تَأْخُذَه - وفِي الْحَقِّ أَنْ تُمْنَعَه فَاصْبِرْ مَغْمُوماً أَوْ مُتْ مُتَأَسِّفاً - فَنَظَرْتُ فَإِذَا لَيْسَ لِي رَافِدٌ ولَا ذَابٌّ ولَا مُسَاعِدٌ - إِلَّا أَهْلَ بَيْتِي فَضَنَنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَنِيَّةِ - فَأَغْضَيْتُ عَلَى الْقَذَى

صاحب اختیار ہے۔دیکھو ہم سب ایک خدا کے بندے اوراس کے مملوک ہیں اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔وہ ہمارے نفوس کااتنا اختیار رکھتا ہے جتنا خود ہمیں بھی حاصل نہیں ہے اور اسی نے ہمیں سابقہ حالات سے نکال کراس اصلاح کے راستہ پر لگایا ہے کہ اب گمراہی ہدایت میں تبدیل ہوگئی ہے اور اندھے پن کے بعد بصیرت حاصل ہوگئی ہے۔

(۲۱۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(قریش سے شکایت اورف ریاد کرتے ہوئے )

خدایا! میں قریش سے اور ان کے مدد گاروں سے تیری مدد چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے میری قرابت داری کاخیال نہیں کیا اور میرے ظرف عظمت کو الٹ دیا ہے اور مجھ سے اس حق کے بارے میں جھگڑا کرنے پر اتحاد کرلیا ہے جس کا میں سب سے زیادہ حقدار تھا اور پھر یہ کہنے لگے ہیں کہ آپ اس حق کو لے لیں تو یہ بھی صحیح ہے اور آپ کو اس سے روک دیا جائے تو یہ بھی صحیح ہے۔اب چاہیں ہم وغم کے ساتھ صبر کریں یا رنج والم کے ساتھ مرجائیں۔ ایسے حالات میں میں نے دیکھا کہ میرے پاس نہ کوئی مدد گار ہے اور نہ دفاع کرنے والا سوائے میرے گھر والوں کے تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے گریز کیا اوربالآخر آنکھوں میں خس و خاشاک کے ہوتے ہوئے چشم پوشی کی اور گلے میں پھندہ کے ہوتے ہوئے

۴۳۹

وجَرِعْتُ رِيقِي عَلَى الشَّجَا - وصَبَرْتُ مِنْ كَظْمِ الْغَيْظِ عَلَى أَمَرَّ مِنَ الْعَلْقَمِ - وآلَمَ لِلْقَلْبِ مِنْ وَخْزِ الشِّفَارِ

قال الشريفرضي‌الله‌عنه - وقد مضى هذا الكلام في أثناء خطبة متقدمة - إلا أني ذكرته هاهنا لاختلاف الروايتين.

(۲۱۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذكر السائرين إلى البصرة لحربهعليه‌السلام

فَقَدِمُوا عَلَى عُمَّالِي وخُزَّانِ بَيْتِ الْمُسْلِمِينَ الَّذِي فِي يَدَيَّ - وعَلَى أَهْلِ مِصْرٍ كُلُّهُمْ فِي طَاعَتِي وعَلَى بَيْعَتِي - فَشَتَّتُوا كَلِمَتَهُمْ وأَفْسَدُوا عَلَيَّ جَمَاعَتَهُمْ - ووَثَبُوا عَلَى شِيعَتِي فَقَتَلُوا طَاِئفَةً منْهُمْ غَدْراً - وطَاِئفَةٌ عَضُّوا عَلَى أَسْيَافِهِمْ - فَضَارَبُوا بِهَا حَتَّى لَقُوا اللَّه صَادِقِينَ.

لعاب دہن نگل لیا اور غصہ کو پینے میں خنظل سے زیادہ تلخ ذائقہ پر صبر کیااورچھریوں کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ حالات پر خاموشی اختیار کرلی۔

(سید رضی : گذشتہ خطبہ میں یہ مضمون گذر چکا ہے لیکن روایتیں مختلف تھیں لہٰذا میں نے دوبارہ اسے نقل کردیا )

(۲۱۸)

آپ کا ارشادگرامی

(بصرہ کی طرف آپ سے جنگ کرنے کے لئے جانے والوں کے بارے میں

یہ لوگ میرے عاملوں ۔میرے زیر دست بیت المال کے خزانہ داروں اورتمام اہل شہر جو میری اطاعت و بیعت میں تھے سب کی طرف وارد ہوئے۔ان کے کلمات میں(۱) افتراق پیدا کیا۔ان کے اجتماع کو برباد کیا اورمیرے چاہنے والوں پرحملہ کردیا اور ان میں سے ایک جماعت کودھوکہ سے قتل بھی کردیا لیکن دوسری جماعت نے تلواریں اٹھا کر دانت بھنچ لئے اور باقاعدہ مقابلہ کیا یہاں تک کہ حق و صداقت کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔

(۱) حیرت انگیز بات ہے کہ مسلمان ابھی تک ان دو گروہوں کے بارے میں حق و باطل کا فیصلہ نہیں کرسکا ہے جن میں ایک طرف نفس رسول (ص) علی بن ابی طالب جیسا انسان تھا جو اپنی تعریف کوبھی گوارا نہیں کرتا تھا اور ہر لمحہعظمت خالق کے پیش نظرانے اعمال کو حقیر و معمولی ہی تصور کرتا تھا اور ایک طرف طلحہ و زبیر جیسے وہدنیا پرست تھے جن کاکام فتنہ پردازی ۔ شرانگیزی ۔تفرقہ اندازی اورقتل وغارت کے علاوہ کچھ نہتھا اورجو دولت و اقتدار کی خاطر دنیا کی ہر برائی کر سکتے تھے اور ہر جرم کا ارتکاب کرسکتے تھے ۔

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863