نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656983 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

(۲۱۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما مر بطلحة بن عبد الله وعبد الرحمن بن عتاب بن أسيد - وهما قتيلان يوم الجمل:

لَقَدْ أَصْبَحَ أَبُو مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْمَكَانِ غَرِيباً - أَمَا واللَّه لَقَدْ كُنْتُ أَكْرَه أَنْ تَكُونَ قُرَيْشٌ قَتْلَى - تَحْتَ بُطُونِ الْكَوَاكِبِ - أَدْرَكْتُ وَتْرِي مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ - وأَفْلَتَتْنِي أَعْيَانُ بَنِي جُمَحَ - لَقَدْ أَتْلَعُوا أَعْنَاقَهُمْ إِلَى أَمْرٍ - لَمْ يَكُونُوا أَهْلَه فَوُقِصُوا دُونَه.

(۲۲۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وصف السالك الطريق إلى اللَّه سبحانه

قَدْ أَحْيَا عَقْلَه وأَمَاتَ نَفْسَه حَتَّى دَقَّ جَلِيلُه - ولَطُفَ غَلِيظُه وبَرَقَ لَه لَامِعٌ كَثِيرُ الْبَرْقِ - فَأَبَانَ لَه الطَّرِيقَ وسَلَكَ بِه السَّبِيلَ - وتَدَافَعَتْه الأَبْوَابُ إِلَى بَابِ السَّلَامَةِ ودَارِ الإِقَامَةِ - وثَبَتَتْ رِجْلَاه بِطُمَأْنِينَةِ بَدَنِه فِي قَرَارِ الأَمْنِ والرَّاحَةِ - بِمَا اسْتَعْمَلَ قَلْبَه وأَرْضَى رَبَّه.

(۲۱۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب روزجمل طلحہ بن عبداللہ اورعبدالرحمن بن عتاب بن اسید کی لاشوں کے قریب سے گزر ہوا )

ابومحمد (طلحہ) نے اس میدان میں عالم غربت میں صبح کی ہے۔خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات ہر گز پسند نہیں تھی کہ قریش کے لاشے ستاروں کے نیچے زیرآسمان پڑے رہیں لیکن کیا کروں۔بہر حال میں نے عبد مناف کی اولاد سے ان کے کئے کا بدلہ لیلیا مگرافسوس کہ بنی جمج بچ کر نکل گئے ان سب نے اپنی گردنیں اس امر کی طرف اٹھائی تھیں جس کے یہ ہرگز اہل نہیں تھے۔اس لئے اس تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی گردنیں توڑ دی گئیں۔

(۲۲۰)

آپ کا ارشاد گرامی

( خدا کی راہ میں چلنے والے انسانوں کےبارے میں)

ایسےشخص نےاپنی عقل کوزندہ رکھا ہے اوراپنے نفس کو مردہ بنا دیا ہےاس کاجسم باریک ہوگیا ہےاوراس کا بھاری بھرکم جسد ہلکا ہوگیا ہے اس کےلئے بہترین ضوپاش نور ہدایت چمک اٹھا ہےاوراس نےراستہ کوواضح کرکے اسی پرچلا دیا ہے۔تمام دروازوں نے اسے سلامتی کے دروازرہ اورہمیشگی کے گھرتک پہنچا دیا ہے اوراس کےقدم طمانیت بدن کے ساتھ امن وراحت کی منزل میں ثابت ہوگئے ہیں کہ اس نےاپنےدل کواستعمال کیا ہے اوراپنے رب کو راضی کرلیا ہے

۴۴۱

(۲۲۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله بعد تلاوته( أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ )

يَا لَه مَرَاماً مَا أَبْعَدَه وزَوْراً مَا أَغْفَلَه - وخَطَراً مَا أَفْظَعَه - لَقَدِ اسْتَخْلَوْا مِنْهُمْ أَيَّ مُدَّكِرٍ وتَنَاوَشُوهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ - أَفَبِمَصَارِعِ آبَائِهِمْ يَفْخَرُونَ - أَمْ بِعَدِيدِ الْهَلْكَى يَتَكَاثَرُونَ يَرْتَجِعُونَ مِنْهُمْ أَجْسَاداً خَوَتْ وحَرَكَاتٍ سَكَنَتْ - ولأَنْ يَكُونُوا عِبَراً أَحَقُّ مِنْ أَنْ يَكُونُوا مُفْتَخَراً - ولأَنْ يَهْبِطُوا بِهِمْ جَنَابَ ذِلَّةٍ - أَحْجَى مِنْ أَنْ يَقُومُوا بِهِمْ مَقَامَ عِزَّةٍ - لَقَدْ نَظَرُوا إِلَيْهِمْ بِأَبْصَارِ الْعَشْوَةِ - وضَرَبُوا مِنْهُمْ فِي غَمْرَةِ جَهَالَةٍ - ولَوِ اسْتَنْطَقُوا عَنْهُمْ عَرَصَاتِ تِلْكَ الدِّيَارِ الْخَاوِيَةِ - والرُّبُوعِ الْخَالِيَةِ لَقَالَتْ - ذَهَبُوا فِي الأَرْضِ ضُلَّالًا

(۲۲۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے الھکم التکاثرکی تلاوت کے موقع پر ارشاد فرمایا)

ذرا دیکھو تو ان آباء و اجداد پر فخر کرنے والوں کا مقصد کس قدربعیداز عقل ہے اور یہ زیارت کرنے والے کس قدر غافل ہیں اورخطرہ بھی کس قدر عظیم ہے۔یہ لوگ تمام عبرتوں سے خالی ہوگئے ہیں اور انہوںنے مردوں کو بہت دورسے لے لیا ہے۔آخر یہ کیا اپنے آباء واجداد کے لاشوں(۱) پر فخر کر رہے ہیں؟یا مردوں کی تعداد سے اپنی کثرت میں اضافہ کر رہے ہیں؟ یا ان جسموں کو واپس لانا چاہتے ہیںجو روحوں سے خالی ہو چکے ہیں بجائے ذلت کی منزل میں اترنا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ان لوگوں نے ان مردوں کو چندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور ان کی طرف سے جہالت کے گڑھے میں گر گئے ہیں۔ اور گمان کے بارے میں گرے پڑے مکانوں اور خالی گھروں سے دریافت کیا جائے تو یہی جواب ملے گا کہ لوگ گمراہی کے عالم میں زیر زمین چلے گئے اورتم جہالت

(۱)یہ سلسلہ تفاخر ہر دور میں رہا ہے اور آج بھی برقرار ہے کہ انسان سامان عبرت کو وجہ فضیلت قرار دے رہا ہے اور اس طرح مسلسلوادی غفلت میں منزل دور تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔کاش اسے اس قدر شعور ہوتا کہ آباء واجاد کی بوسیدہ لاشیں یا قبریں باعث افتخار نہیں ہیں۔بعث افتخار انسان کا اپنا کردار ہے اور درحقیقت کردار بھی اس قابل نہیں ہے کہ اسے سرمایہ افتخار قرار دیا جا سکے۔انسان کے لئے وجہ افتخار صرف ایک چیز ہے کہ اس کامالک پروردگار ہے جو ساری کائنات سے بالا تر ہے جیسا کہ خود مولائے کائنات نے اپنی مناجات میں اشارہ کیا ہے کہ ''خدایا! میری عزت کے لئے یہ کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اورمیرے فخر کے لئے یہ کافی ہے کہ تو میرا رب ہے۔اب اس کے بعد میرے لئے کسی شے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔صرف التجا یہہے کہ جس طرح تو میری مرضی کا خدا ہے۔اسی طرح مجھے اپنی مرضی کاب ندہ بنالے۔

۴۴۲

وذَهَبْتُمْ فِي أَعْقَابِهِمْ جُهَّالًا - تَطَئُونَ فِي هَامِهِمْ وتَسْتَنْبِتُونَ فِي أَجْسَادِهِمْ - وتَرْتَعُونَ فِيمَا لَفَظُوا وتَسْكُنُونَ فِيمَا خَرَّبُوا - وإِنَّمَا الأَيَّامُ بَيْنَكُمْ وبَيْنَهُمْ بَوَاكٍ ونَوَائِحُ عَلَيْكُمْ.

أُولَئِكُمْ سَلَفُ غَايَتِكُمْ وفُرَّاطُ مَنَاهِلِكُمْ - الَّذِينَ كَانَتْ لَهُمْ مَقَاوِمُ الْعِزِّ - وحَلَبَاتُ الْفَخْرِ مُلُوكاً وسُوَقاً سَلَكُوا فِي بُطُونِ الْبَرْزَخِ سَبِيلًا سُلِّطَتِ الأَرْضُ عَلَيْهِمْ فِيه - فَأَكَلَتْ مِنْ لُحُومِهِمْ وشَرِبَتْ مِنْ دِمَائِهِمْ - فَأَصْبَحُوا فِي فَجَوَاتِ قُبُورِهِمْ جَمَاداً لَا يَنْمُونَ - وضِمَاراً لَا يُوجَدُونَ - لَا يُفْزِعُهُمْ وُرُودُ الأَهْوَالِ - ولَا يَحْزُنُهُمْ تَنَكُّرُ الأَحْوَالِ - ولَا يَحْفِلُونَ بِالرَّوَاجِفِ ولَا يَأْذَنُونَ لِلْقَوَاصِفِ - غُيَّباً

کے عالم میں ان کے پیچھے جا رہے ہو۔ان کی کھوپڑیوں کو روند رہے ہو۔اور ان کے جسموں پرعمارتیں کھڑی کر رہے ہو ۔جووہ چھوڑ گئے ہیں اسی کو چر رہے ہو اور جو وہ برباد کرگئے ہیں اسی میں سکونت پذیر ہو۔تہارے ور ان کے درمیان کے دن تمہارے حال پر رو رہے ہیں اور تمہاری بربادی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔

یہ ہیں تمہاری منزل پر پہلے پہنچ جانے والے اور تمہارے چشموں پر پہلے وارد ہو جانے والے۔جن کے لئے عزت کی منزلیں تھیں اور فخرو مباہات کی فراوانیاں تھیں۔کچھ سلاطین وقت تھے اورکچھ دوسرے درجہ کے منصب دار۔لیکن سب برزخ کی گہرائیوں میں راہ پیمانی کر رہے ہیں ۔زمین ان کے اوپر مسلط کردی گئی ہے۔اس نے ان کا گوشت کھالیا ہے اورخون پی لیا ہے۔اب وہقبر کی گہرائیوں میں ایسے جماد ہوگئے ہیں جنمیں نمو نہیں ہے اور ایسے گم ہوگئے ہیں کہ ڈھونڈے نہیں مل رہے ہیں۔نہ ہولناک مصائب(۱) کا ورود انہیں خوف زدہ بنا سکتا ہے اور نہ بدلتے حالات انہیں رنجیدہ کر سکتے ہیں نہ انہیں زلزلوں کی پرواہ ہے اورنہ گرج اور کڑک کی اطلاع۔ایسے

(۱)یہ صورت حال کسی سکون اور اطمینان کا اشارہ نہیں ہے بلکہ دراصل انسان کی مد ہوشی اور بد حواسی کا اظہار ہے کہ صاحب عقل و شعور بھ جمادات کی شکل اختیار کر گیا ہے اور صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ادھر کے جملہ حالات سے بے خبر ہوگیا ہے لیکن ادھر کے حالات سے بے خیر نہیں ہے۔صبح و شام ارواح کے سامنے جہنم پیش نظر کیا جاتا ہے اور بے عمل اور بد کردار انسان ایک نئی مصیبت سے دوچار ہو جاتا ہے۔

درحقیقت مولائے کائنات نے ان فقرات میں مرنے والوں کے حالات کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ زندہ افراد کو اس صورت حال سے بچانے کا انتظام کیا ہے کہ انسان اس انجام سے با خبر رہے اور چند روزہ دنیا کے بجائے ابدی عاقبت اورآخرت کا انتظام کرے جس سے بہرحال دو چار ہونا ہے اور اس سے فرار کا کوئی امکان نہیں ہے۔

۴۴۳

لَا يُنْتَظَرُونَ وشُهُوداً لَا يَحْضُرُونَ - وإِنَّمَا كَانُوا جَمِيعاً فَتَشَتَّتُوا وآلَافاً فَافْتَرَقُوا - ومَا عَنْ طُولِ عَهْدِهِمْ ولَا بُعْدِ مَحَلِّهِمْ - عَمِيَتْ أَخْبَارُهُمْ وصَمَّتْ دِيَارُهُمْ - ولَكِنَّهُمْ سُقُوا كَأْساً بَدَّلَتْهُمْ بِالنُّطْقِ خَرَساً - وبِالسَّمْعِ صَمَماً وبِالْحَرَكَاتِ سُكُوناً - فَكَأَنَّهُمْ فِي ارْتِجَالِ الصِّفَةِ صَرْعَى سُبَاتٍ - جِيرَانٌ لَا يَتَأَنَّسُونَ وأَحِبَّاءُ لَا يَتَزَاوَرُونَ - بَلِيَتْ بَيْنَهُمْ عُرَا التَّعَارُفِ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمْ أَسْبَابُ الإِخَاءِ - فَكُلُّهُمْ وَحِيدٌ وهُمْ جَمِيعٌ - وبِجَانِبِ الْهَجْرِ وهُمْ أَخِلَّاءُ - لَا يَتَعَارَفُونَ لِلَيْلٍ صَبَاحاً ولَا لِنَهَارٍ مَسَاءً. أَيُّ الْجَدِيدَيْنِ ظَعَنُوا فِيه كَانَ عَلَيْهِمْ سَرْمَداً - شَاهَدُوا مِنْ أَخْطَارِ دَارِهِمْ أَفْظَعَ مِمَّا خَافُوا - ورَأَوْا مِنْ آيَاتِهَا أَعْظَمَ مِمَّا قَدَّرُوا - فَكِلْتَا الْغَايَتَيْنِ مُدَّتْ لَهُمْ - إِلَى مَبَاءَةٍ فَاتَتْ مَبَالِغَ الْخَوْفِ والرَّجَاءِ - فَلَوْ كَانُوا يَنْطِقُونَ بِهَا - لَعَيُّوا بِصِفَةِ

غائب ہوئے ہیں کہ ان کا انتظار نہیں کیا جا رہا ہے اور ایسے حاضر ہیں کہ سامنے نہیں آتے ہیں۔کل سب یکجا تھے اب منتشر ہوگئے ہیں اور سب ایک دوسرے کے قریب تھے اور اب جدا ہوگئے ہیں۔ان کے حالات کے بے خبری اور ان کے دیار کی خاموشی طول زمان اور بعد مکان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ انہیں موت کا وہ جام پلادیا گیا ہے جس نے ان کی گویائی کو گونگے پن میں اور ان کی سماعت کو بہرے پن میں اور ان کی حرکات کو سکون میں تبدیل کردیا ہے۔ان کی سرسری تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ جیسے نیند میں بے خبر پڑے ہوں کہ ہمسائے ہیں لیکن ایک دوسرے سے مانوس نہیں ہیں اور احباب ہیں لیکن ملاقات نہیں کرتے ہیں۔ان کے درمیان باہمی تعارف کے رشتے بوسیدہ ہوگئے ہیں اوربرادری کے اسباب منقطع ہوگئے ہیں۔اب سب مجتمع ہونے کے باوجود اکیلے ہیں اور دوست ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو چھوڑے ہوئے ہیں۔نہ کسی رات کو صبح سے آشنا ہیں اورنہ کسی صبح کی شام پہچانتے ہیں۔

دن و رات میں جس ساعت میں بھی دنیا سے گئے ہیں وہی ان کی ابدی ساعت ہے اوردار آخرت کے خطرات کو اس سے زیادہ دیکھ لیا ہے۔جس کا اس دنیا میں اندیشہ تھا اوراس کی نشانیوں کو اس سے زیادہ مشاہدہ کرلیا ہے جس کا انداہ کیا تھا۔اب اچھے برے دونوں طرح کے انجام کو کھینچ کرآخری منزل تک پہنچا دیا گیا ہے جہاں آخر درجہ کاخف بھی ہے اورویسی ہی امید بھی ہے۔یہ لوگ اگر بولنے کے لائق بھی ہوتے تو ان حالات کی توصیف

۴۴۴

مَا شَاهَدُوا ومَا عَايَنُوا.ولَئِنْ عَمِيَتْ آثَارُهُمْ وانْقَطَعَتْ أَخْبَارُهُمْ - لَقَدْ رَجَعَتْ فِيهِمْ أَبْصَارُ الْعِبَرِ - وسَمِعَتْ عَنْهُمْ آذَانُ الْعُقُولِ - وتَكَلَّمُوا مِنْ غَيْرِ جِهَاتِ النُّطْقِ - فَقَالُوا كَلَحَتِ الْوُجُوه النَّوَاضِرُ وخَوَتِ الأَجْسَامُ النَّوَاعِمُ - ولَبِسْنَا أَهْدَامَ الْبِلَى وتَكَاءَدَنَا ضِيقُ الْمَضْجَعِ - وتَوَارَثْنَا الْوَحْشَةَ وتَهَكَّمَتْ عَلَيْنَا الرُّبُوعُ الصُّمُوتُ - فَانْمَحَتْ مَحَاسِنُ أَجْسَادِنَا وتَنَكَّرَتْ مَعَارِفُ صُوَرِنَا - وطَالَتْ فِي مَسَاكِنِ الْوَحْشَةِ إِقَامَتُنَا - ولَمْ نَجِدْ مِنْ كَرْبٍ فَرَجاً ولَا مِنْ ضِيقٍ مُتَّسَعاً - فَلَوْ مَثَّلْتَهُمْ بِعَقْلِكَ - أَوْ كُشِفَ عَنْهُمْ مَحْجُوبُ الْغِطَاءِ لَكَ - وقَدِ ارْتَسَخَتْ أَسْمَاعُهُمْ بِالْهَوَامِّ فَاسْتَكَّتْ - واكْتَحَلَتْ أَبْصَارُهُمْ بِالتُّرَاب فَخَسَفَتْ - وتَقَطَّعَتِ الأَلْسِنَةُ فِي أَفْوَاهِهِمْ بَعْدَ ذَلَاقَتِهَا - وهَمَدَتِ الْقُلُوبُ فِي صُدُورِهِمْ بَعْدَ يَقَظَتِهَا - وعَاثَ فِي كُلِّ جَارِحَةٍ مِنْهُمْ جَدِيدُ بِلًى سَمَّجَهَا - وسَهَّلَ طُرُقَ الآفَةِ إِلَيْهَا -

نہیں کر سکتے تھے جن کا مشاہدہ کرلیا ہے اوراپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اب اگران کے آثار گم بھی ہو گئے ہیں اور ان کی خبریں منقطع بھی ہوگئی ہیں تو عبرت کی نگاہیں بہر حال انہیں دیکھ رہی ہیں اور عقل کے کان بہرحال ان کی داستان غم سن رہے ہیں اور وہ زبان کے بغیر بھی بول رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ شاداب چہرے سیاہ ہو چکے ہیں اور نرم و نازک اجسام مٹی میں مل گئے ہیں۔بوسیدگی کا لباس زیب تن ہے اورتنگی مرقد نے تھکاڈالا ہے ۔وحشت ایک دوسرے کی وراثت ہے اور خاموش منزلیں ویران ہوچکی ہیں۔جسم کے محاسن محو ہو چکے ہیں ۔اور جانی پہچانی صورت بھی انجان ہوگئی ہے۔منزل وحشت میں قیام طویل ہوگیا ہے اور کسی کرب سے راحت کی امید نہیں ہے اور نہ کسی تنگی میں وسعت کا کوئی امکان ہے۔

اب اگر تم اپنی عقلوں سے ان کی تصویر کشی کرو یا تم سے غیب کے پردے اٹھا دئیے جائیں اور تم انہیں اس عالم میں دیکھ لو کہ کیڑوں(۱) کی وجہ سے ان کی قوت سماعت ختم ہ چکی ہے اور وہ بہرے ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھوں میں مٹی کا سرمہ لگا دیا گیا ہے اور وہ ہنس چکی ہیں اور زبانیں دہن کے اندر روانی کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہیں اور دل سینوں کے اندر بیداری کے بعد سوچکے ہیں اور ہر عضو کوایک نئی بوسیدگی نے تباہ کرکے بدہئیت بنادیا ہے اورآفتوں کے راستوں

(۱)امیر المومنین کی تصویر کشی پر ایک لفظ کے بھی اضافہ کی گنجائش نہیں ہے اورابو تراب سے بہتر زیر زمین کا نقشہ کون کھینچ سکتا ہے۔بات صرف یہ ہے کہ انسان اس سنگین صورت حال کا اندازہ کرے اور اس تصویر کو اپنی نگاہ عقل و بصیرت میں مجسم بنائے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ اس دنیا کی حیثیت اوراوقات کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔

۴۴۵

مُسْتَسْلِمَاتٍ فَلَا أَيْدٍ تَدْفَعُ ولَا قُلُوبٌ تَجْزَعُ - لَرَأَيْتَ أَشْجَانَ قُلُوبٍ وأَقْذَاءَ عُيُونٍ - لَهُمْ فِي كُلِّ فَظَاعَةٍ صِفَةُ حَالٍ لَا تَنْتَقِلُ - وغَمْرَةٌ لَا تَنْجَلِي - فَكَمْ أَكَلَتِ الأَرْضُ مِنْ عَزِيزِ جَسَدٍ وأَنِيقِ لَوْنٍ - كَانَ فِي الدُّنْيَا غَذِيَّ تَرَفٍ ورَبِيبَ شَرَفٍ - يَتَعَلَّلُ بِالسُّرُورِ فِي سَاعَةِ حُزْنِه - ويَفْزَعُ إِلَى السَّلْوَةِ إِنْ مُصِيبَةٌ نَزَلَتْ بِه - ضَنّاً بِغَضَارَةِ عَيْشِه، وشَحَاحَةً بِلَهْوِه ولَعِبِه فَبَيْنَا هُوَ يَضْحَكُ إِلَى الدُّنْيَا وتَضْحَكُ إِلَيْه - فِي ظِلِّ عَيْشٍ غَفُولٍ إِذْ وَطِئَ الدَّهْرُ بِه حَسَكَه - ونَقَضَتِ الأَيَّامُ قُوَاه - ونَظَرَتْ إِلَيْه الْحُتُوفُ مِنْ كَثَبٍ - فَخَالَطَه بَثٌّ لَا يَعْرِفُه ونَجِيُّ هَمٍّ مَا كَانَ يَجِدُه - وتَوَلَّدَتْ فِيه فَتَرَاتُ عِلَلٍ آنَسَ مَا كَانَ بِصِحَّتِه - فَفَزِعَ إِلَى.

کو ہموار کردیا ہے کہ اب سب مصائب کے لئے سراپا تسلیم ہیں نہ کوئی ہاتھ دفاع کرنے واا ہے اور نہ کوئی دل بے چین ہونے والا ہے۔تو یقینا وہمناظر دیکھوگے جو دل کو رنجیدہ بنادیں گے اورآنکھوں میں خس و خاشاک ڈال دیں گے۔ان غریبوں کے لئے مصیبت میں وہ کیفیت ہے جو بدلتی نہیں ہے اور وہ سختی ہے جو ختم نہیں ہوتی ہے۔

اف یہ زمین کتنے عزیز ترین(۱) بدن اور حسین ترین رنگ کھا گئی جن کو دولت و راحت کی غذا مل رہی تھی اور جنہیں شرف کی آغوش میں پالا گیا تھا۔جو حزن کے اوقات میں بھی مسرت کا سامان کرلیا کرتے تھے اور اگر کوئی مصیبت آن پڑتی تھی تو اپنے عیش کی تازگیوںپر للچائے رہنے اور اپنے لہو و لعب پر فریفتہ ہونے کی بنا پر تسلی کا سامان فراہم کرلیا کرتے تھے ۔یہ ابھی غفلت میں ڈال دینے والے عیش کے زیر سایہ دنیا کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور دنیا انہیں دیکھ کر ہنس رہی تھی کہ اچانک زمانے نے انہیں کانٹوں کی طرح روند دیا اور روز گار نے ان کا سارا زور توڑ دیا۔موت کی نظریں قریب سے ان پر پڑنے لگیں اورانہیں ایسے رنج میں مبتلا کردیا جس کا اندازہ بھی نہ تھا اور ایسے قلق کا شکار ہوگئے جس کا کوئی سابقہ بھی نہ تھا ابھی وہ صحت سے مانوس تھے کہ ان میں مرض کی کمزوریاں پیدا ہوگئی اور انہوں نے ان اسباب کی پناہ ڈھونڈنا شروع کردی

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ زیر زمین خاک کاڈھیر بن جانے والے کیسی کیسی زندگیاں گذار گئے ہیں اور کس کس طر کی راحت پسندیوں سے گزر چک ہیں لیکن آج موت ان کی حیثیت کا اقرار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اور قبر ان کے کسی احترام کی قائل نہیں ہے۔یہ توصرف ایمان و کردار یا صاحب قبر و بارگاہ کے جوار کا اثر ہے کہ انسان فشار قبر اور بوسیدگی جسم سے محفوظ رہ جائے۔ورنہ زمین اپنے ٹکڑوں کو اصل سے ملادینے میں کسی طرح کے تکلف سے کام نہیں لیتی ہے۔

۴۴۶

مَا كَانَ عَوَّدَه الأَطِبَّاءُ - مِنْ تَسْكِينِ الْحَارِّ بِالْقَارِّ وتَحْرِيكِ الْبَارِدِ بِالْحَارِّ - فَلَمْ يُطْفِئْ بِبَارِدٍ إِلَّا ثَوَّرَ حَرَارَةً - ولَا حَرَّكَ بِحَارٍّ إِلَّا هَيَّجَ بُرُودَةً - ولَا اعْتَدَلَ بِمُمَازِجٍ لِتِلْكَ الطَّبَائِعِ - إِلَّا أَمَدَّ مِنْهَا كُلَّ ذَاتِ دَاءٍ - حَتَّى فَتَرَ مُعَلِّلُه وذَهَلَ مُمَرِّضُه - وتَعَايَا أَهْلُه بِصِفَةِ دَائِه - وخَرِسُوا عَنْ جَوَابِ السَّاِئِلينَ عَنْه - وتَنَازَعُوا دُونَه شَجِيَّ خَبَرٍ يَكْتُمُونَه - فَقَائِلٌ يَقُولُ هُوَ لِمَا بِه ومُمَنٍّ لَهُمْ إِيَابَ عَافِيَتِه - ومُصَبِّرٌ لَهُمْ عَلَى فَقْدِه - يُذَكِّرُهُمْ أُسَى الْمَاضِينَ مِنْ قَبْلِه - فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ عَلَى جَنَاحٍ مِنْ فِرَاقِ الدُّنْيَا - وتَرْكِ الأَحِبَّةِ - إِذْ عَرَضَ لَه عَارِضٌ مِنْ غُصَصِه - فَتَحَيَّرَتْ نَوَافِذُ فِطْنَتِه ويَبِسَتْ رُطُوبَةُ لِسَانِه - فَكَمْ مِنْ مُهِمٍّ مِنْ جَوَابِه عَرَفَه فَعَيَّ عَنْ رَدِّه - ودُعَاءٍ مُؤْلِمٍ بِقَلْبِه سَمِعَه فَتَصَامَّ عَنْه - مِنْ كَبِيرٍ

جن کا اطباء نے عادی بنادیا تھا کہ گرم کا سرد سے علاج کریں اورسردی میں گرم دوا کی تحریک پیداکریں لیکن سرد دوائوں نے حرارت کو اوربھڑکا دیا اور گرم دوانے حرکت کے بجائے برودت میں اور ہیجان پیدا کردیا اور کسی مناسب طبیعت دواسے اعتدال نہیں پیدا ہو ا بلکہ اس نے مرض کو اور طاقت بخش دی۔یہاں تک کہ تیمار دار سست ہوگئے اور علاج کرنے والے غفلت برتنے لگے۔گھروالے مرض کی حالت بیان کرنے سے عاجزآگئے اور مزاج پرسی کرنے والوں کے جواب سے خاموشی اختیارکرلی اور درد ناک خبرکو چھپانے کے لئے آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ایک کہنے لگا کر جو ہے وہ ہے۔دوسرے نے امید دلائی کہ صحت پلٹ آئے گی۔تیسرے نے موت پر صبر کی تلقین شروع کردی اورگذشتہ لوگوں کے مصائب یاد دلانے لگا۔

ابھی وہ اسی عالم میں دنیا کے فراق اوراحباب کی جدائی کے لئے پر تول رہا تھا کہ اس کے گلے میں ایک پھندہ پڑ گیا(۱) جس سے اس کی ذہانت و ہوشیاری پریشانی کاش کار ہوگئی اور زبان کی رطوبت خشکی میں تبدیل ہوگئی ۔کتنے ہی مبہم سوالات تھے جن کے جوابات اسے معلوم تھے لیکن بیان سے عاجز تھا اور کتنی ہی درد ناک آوازیں ان کے کان سے ٹکرا رہی تھی جن کے سننے سے بہرہ ہوگیا تھا وہ آوازیں کسی بزرگ کی تھیں

(۱)ہائے وہ بے کسی کاعالم کہ نہ مرنے والا درد دل کی ترجمانی کر سکتا ہے اور نہ رہ جانے والے اس کے کسی درد کا علاج کرسکتے ہیں۔جب کہ دونوں آمنے سامنے زندہ موجود ہیں تو اسی کے بعد کسی سے کیا توقع رکھی جائے جب ایک موت کی آغوش میں سو جائے گا اوردوسرا کنج لحد کے حالات سے بھی بے خبر ہو جائے گا اوراسے مرنے والے کے حالات کی بھی اطلاع نہ ہوگی۔ کیا یہ صورت حال اس امرکی دعوت نہیں دیتی ہے کہ انسان اس دنیا سے عبرت حاصل کرے اوراہل دنیا پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنے ایمان کردار اور اولیاء الٰہی کی نصرت وحمایت حاصل کرنے پر توجہ دے کہ اس کے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے۔

۴۴۷

كَانَ يُعَظِّمُه أَوْ صَغِيرٍ كَانَ يَرْحَمُه - وإِنَّ لِلْمَوْتِ لَغَمَرَاتٍ هِيَ أَفْظَعُ مِنْ أَنْ تُسْتَغْرَقَ بِصِفَةٍ - أَوْ تَعْتَدِلَ عَلَى عُقُولِ أَهْلِ الدُّنْيَا

(۲۲۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله عند تلاوته:( يُسَبِّحُ لَه فِيها بِالْغُدُوِّ والآصالِ رِجالٌ - لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ ولا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله).

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى جَعَلَ الذِّكْرَ جِلاءً لِلْقُلُوبِ - تَسْمَعُ بِه بَعْدَ الْوَقْرَةِ وتُبْصِرُ بِه بَعْدَ الْعَشْوَةِ - وتَنْقَادُ بِه بَعْدَ الْمُعَانَدَةِ - ومَا بَرِحَ لِلَّه عَزَّتْ آلَاؤُه فِي الْبُرْهَةِ بَعْدَ الْبُرْهَةِ - وفِي أَزْمَانِ الْفَتَرَاتِ عِبَادٌ نَاجَاهُمْ فِي فِكْرِهِمْ - وكَلَّمَهُمْ فِي ذَاتِ عُقُولِهِمْ - فَاسْتَصْبَحُوا بِنُورِ يَقَظَةٍ فِي الأَبْصَارِ والأَسْمَاعِ والأَفْئِدَةِ - يُذَكِّرُونَ بِأَيَّامِ اللَّه ويُخَوِّفُونَ مَقَامَه - بِمَنْزِلَةِ الأَدِلَّةِ فِي الْفَلَوَاتِ

جنکا احترام کیا کرتا تھا یا ان بچوں کی تھیں جن پر رحم کیا کرتا تھا۔لیکن موت کی سختیاں ایسی ہی ہیں جو اپنی شدت میں بیان کی حدوں میں نہیں آسکتی ہیں اور اہل دنیا کی عقلوں کے اندازوں پرپوری نہیں اتر سکتی ہیں۔

(۲۲۲)

آپ کا اشاد گرامی

(جسے آیت کریمہ '' یسبح لہ فیھا بالغدوو الاصال رجال'' ان گھروں میں صبح و شام تسبیح پروردگار کرنے والے وہ افراد ہیں جنہیں تجارت اورکاروبار یاد خداس ے غافل نہیں بنا سکتا ہے۔کی تلاوت کے موقع پر ارشاد فرمایا :)

پروردگار نے اپنے ذکر کو دلوں کے لئے صیقل قراردیا ہے جس کی بنا پر وہ بہرے پن کے بعد سننے لگتے ہیں اور اندھے پن کے بعد دیکھنے لگتے ہیں اور رعنا و اور ضد کے بعد مطیع و فرمانبردار ہو جاتے ہیں اور خدائے عزوجل ( جس کی نعمتیں عظیم و جلیل ہیں ) کے لئے ہردور میں اور ہر عہد فترت میں ایسے بندے رہے ہیں جن سے اس نے ان کا افکار کے ذریعہ راز دارانہ گفتگو کی ہے اور ان کی عقلوں کے وسیلہ سے ان سے کلام کیا ے اور انہوں نے اپنی بصارت ' سماعت اورفکر کی بیداری کے نور سے روشنی حاصل کی ہے۔انہیں اللہ کے مخصوص دنوں کی یاد عطا کی گئی ہے اور وہ اس کی عظمت سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ان کی مثال بیابانوں کے راہنمائوں جیسی ہے

۴۴۸

مَنْ أَخَذَ الْقَصْدَ حَمِدُوا إِلَيْه طَرِيقَه وبَشَّرُوه بِالنَّجَاةِ ومَنْ أَخَذَ يَمِيناً وشِمَالًا ذَمُّوا إِلَيْه الطَّرِيقَ - وحَذَّرُوه مِنَ الْهَلَكَةِ - وكَانُوا كَذَلِكَ مَصَابِيحَ تِلْكَ الظُّلُمَاتِ - وأَدِلَّةَ تِلْكَ الشُّبُهَاتِ - وإِنَّ لِلذِّكْرِ لأَهْلًا أَخَذُوه مِنَ الدُّنْيَا بَدَلًا - فَلَمْ تَشْغَلْهُمْ تِجَارَةٌ ولَا بَيْعٌ عَنْه - يَقْطَعُونَ بِه أَيَّامَ الْحَيَاةِ - ويَهْتِفُونَ بِالزَّوَاجِرِ عَنْ مَحَارِمِ اللَّه فِي أَسْمَاعِ الْغَافِلِينَ - ويَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ ويَأْتَمِرُونَ بِه - ويَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ويَتَنَاهَوْنَ عَنْه - فَكَأَنَّمَا قَطَعُوا الدُّنْيَا إِلَى الآخِرَةِ وهُمْ فِيهَا - فَشَاهَدُوا مَا وَرَاءَ ذَلِكَ - فَكَأَنَّمَا اطَّلَعُوا غُيُوبَ أَهْلِ الْبَرْزَخِ فِي طُولِ الإِقَامَةِ فِيه - وحَقَّقَتِ الْقِيَامَةُ عَلَيْهِمْ عِدَاتِهَا - فَكَشَفُوا غِطَاءَ ذَلِكَ لأَهْلِ الدُّنْيَا - حَتَّى كَأَنَّهُمْ يَرَوْنَ مَا لَا يَرَى النَّاسُ ويَسْمَعُونَ مَا لَا يَسْمَعُونَ - فَلَوْ مَثَّلْتَهُمْ لِعَقْلِكَ  

کہ جو صحیح راستہ پر چلتا ہے اس کی روش کی تعریف کرتے ہیں اوراسے نجات کی بشارت دیتے ہیں اور جوداہنے بائیں چلا جاتا ہے اس کے راستہ کی مذمت کرتے ہیں اور اسے ہلاکت سے ڈراتے ہیں اور اسی اندازس ے یہ ظلمتوں کے چراغ اور شبہات کے رہنما ہیں۔

بیشک ذکرخدا کے بھی کچھ اہل ہیں جنہوں نے اسے ساری دنیا کا بدل قراردیا ہے اور اب انہیں تجارت یا خریدو فروخت اس ذکر سے غافل نہیں کرسکتی ہے ۔ یہ اس کے سہارے زندگی کے دن کاٹتے ہیں اور غافلوں کے کانوں میں محرمات کے روکنے والی آوازیں داخل کر دیتے ہیں۔لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔برائیوں سے روکتے ہیں اور خودبھی باز رہتے ہیں۔گویا انہوں نے دنیا میں رہ کرآخرت تک کا فاصلہ طے کرلیا ہے اور پس پردۂ دنیا جو کچھ ہے سب دیکھ لیا ہے اور گویاکہ انہوں نے برزخ کے طویل و عریض زمانہ کے مخفی حالات پر اطلاع حاصل کرلی ہے اورگویا کہ قیامت نے ان کے لئے اپنے وعدوں کو پورا کردیا ہے اور انہوں نے اہل دنیا کے لئے اس پردہ(۱) کواٹھا دیا ہے۔کہ اب وہ ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں جنہیں عام لوگن ہیں دیکھ سکتے ہیں اور ان آوازوں کو سن رہے ہیں جنہیں دوسرے لوگ نہیں سن سکتے ہیں اگر تم اپنی عقل سے ان کی اس تصویر کو تیار کرو

(۱)ان حقائق کا صحیح اظہر وہی انسان کر سکتا ہے جو یقین کی اس آخری منزل پر فائز ہو جس کے بعد خود یہ اعلان کرتا ہو کہ اب اگر پردے ہٹا بھی دئیے جائیں تو یقین میں کسی طرح کا اضافہ نہیں ہو سکتا ہے۔اور حقیقت امر یہ ہے کہ اسلام میں اہل ذکر صرف صاحبان علم و فضل کا نام نہیں ہے بلکہ ذکر الٰہی کا اہل ان افراد کو قرا دیا گیا ہے جو تقویٰ اور پرہیز گاری کی آخری منزل پر ہوں اورآخرت کو اپنی نگاہوں سے دیکھ کر ساری دنیا کو راہ و وچاہ سے آگاہ کر رہے ہوں ملائکہ مقربین ان کے گرد گھیرے ڈالے ہوں لیکن اس کیب عد بھی عظمت جلال الٰہی کے تصورس ے اپنے اعمال کو بے قیمت سمجھ کر لرز رہے ہوں اور مسلسل اپنی کوتاہیوں کا اقرار کر رہے ہوں۔

۴۴۹

فِي مَقَاوِمِهِمُ الْمَحْمُودَةِ - ومَجَالِسِهِمُ الْمَشْهُودَةِ - وقَدْ نَشَرُوا دَوَاوِينَ أَعْمَالِهِمْ - وفَرَغُوا لِمُحَاسَبَةِ أَنْفُسِهِمْ عَلَى كُلِّ صَغِيرَةٍ وكَبِيرَةٍ - أُمِرُوا بِهَا فَقَصَّرُوا عَنْهَا أَوْ نُهُوا عَنْهَا فَفَرَّطُوا فيهَا - وحَمَّلُوا ثِقَلَ أَوْزَاِرِهمْ ظُهُورَهُمْ - فَضَعُفُوا عَنِ الِاسْتِقْلَالِ بِهَا - فَنَشَجُوا نَشِيجاً وتَجَاوَبُوا نَحِيباً - يَعِجُّونَ إِلَى رَبِّهِمْ مِنْ مَقَامِ نَدَمٍ واعْتِرَافٍ - لَرَأَيْتَ أَعْلَامَ هُدًى ومَصَابِيحَ دُجًى - قَدْ حَفَّتْ بِهِمُ الْمَلَائِكَةُ - وتَنَزَّلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ - وفُتِحَتْ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وأُعِدَّتْ لَهُمْ مَقَاعِدُ الْكَرَامَاتِ - فِي مَقْعَدٍ اطَّلَعَ اللَّه عَلَيْهِمْ فِيه - فَرَضِيَ سَعْيَهُمْ وحَمِدَ مَقَامَهُمْ - يَتَنَسَّمُونَ بِدُعَائِه رَوْحَ التَّجَاوُزِ - رَهَائِنُ فَاقَةٍ إِلَى فَضْلِه وأُسَارَى ذِلَّةٍ لِعَظَمَتِه - جَرَحَ طُولُ الأَسَى قُلُوبَهُمْ وطُولُ الْبُكَاءِ عُيُونَهُمْ - لِكُلِّ بَابِ رَغْبَةٍ إِلَى اللَّه مِنْهُمْ يَدٌ قَارِعَةٌ - يَسْأَلُونَ مَنْ لَا تَضِيقُ لَدَيْه الْمَنَادِحُ -

جو ان کے قابل تعریف مقامات اور قابل حضور مجالس کی ہے۔جہاں انہوں نے اپنے اعمال کے دفتر پھیلائے ہوئے ہیں اور اپنے ہرچھوٹے بڑے عمل کاحساب دینے کے لئے تیار ہیں جن کا حکمدیا گیا تھا اور ان میں کوتاہی ہوگئی ہے یا جن سے روکا گیاتھا اور تفصیر ہوگئی ہے اور اپنی پشت پر تمام اعمال کابوجھ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن اٹھانے کے قابل نہیں ہیں اور اب روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی ہیں اور ایک دوسرے کو رو رو کر اس کے سوال کا جوابدے رہے ہیں اور ندامت اوراعتراف گناہ کے ساتھ پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کر رہے ہیں۔تو وہ تمہیں ہدایت کے نشان اور تاریکی کے چراغ نظر آئیں گے جن کے گرد ملائکہ کا گھیرا ہوگا اور ان پر پروردگار کی طرف سے سکون و اطمینان کا مسلسل نزول ہوگا اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے ہوں گے اورکرامتوں کی منزلیں مہیا کردی گئی ہوں گی۔ایسے مقام پرجہاں مالک کی نگاہ کرم ان کی طرف ہو اور وہ ان کی سعی سے راضی ہو اور ان کی منزل کی تعریف کر رہا ہو۔ وہ مالک کو پکارنے کی فرحت سے بخشش کی ہوائوں میں سانس لیتے ہوں۔اس کے فضل و کرم کی احتیاج کے ہاتھوں رہن ہوں اوراس کی عظمت کے سامنے ذلت کے اسیر ہوں۔غم و اندوہ کے طول زمان نے ان کے دلوں کومجروح کردیا ہو اور مسلسل گریہ نے ان کی آنکھوں کو زخمی کردیا ہو۔مالک کی طرف رغبت کے ہر دروازہ کو کھٹکھٹارہے ہوں اور اس سے سوال کر رہے ہوں جس کے جودو کرم کی وسعتوں میں تنگی نہیں آتی ہے اور جس کی

۴۵۰

ولَا يَخِيبُ عَلَيْه الرَّاغِبُونَ. فَحَاسِبْ نَفْسَكَ لِنَفْسِكَ فَإِنَّ غَيْرَهَا مِنَ الأَنْفُسِ لَهَا حَسِيبٌ غَيْرُكَ.

(۲۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله عند تلاوته:( يا أَيُّهَا الإِنْسانُ ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ ) .

أَدْحَضُ مَسْئُولٍ حُجَّةً وأَقْطَعُ مُغْتَرٍّ مَعْذِرَةً - لَقَدْ أَبْرَحَ جَهَالَةً بِنَفْسِه.

يَا أَيُّهَا الإِنْسَانُ مَا جَرَّأَكَ عَلَى ذَنْبِكَ - ومَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ ومَا أَنَّسَكَ بِهَلَكَةِ نَفْسِكَ - أَمَا مِنْ دَائِكَ بُلُولٌ أَمْ لَيْسَ مِنْ نَوْمَتِكَ يَقَظَةٌ - أَمَا تَرْحَمُ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَرْحَمُ مِنْ غَيْرِكَ - فَلَرُبَّمَا تَرَى الضَّاحِيَ مِنْ حَرِّ الشَّمْسِ فَتُظِلُّه

طرف رغبت کرنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے ہیں دیکھو اپنی بھلائی کے لئے خود اپنے نفس کا حساب کرو کہ دوسروں کے نفس کاحساب کرنے والا کوئی اور ہے۔

(۲۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے آیت شریفہ'' ما غرک بربک الکریم' ' (اے انسان تجھے خدائے کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکہ میں ڈال دیا ہے ؟)کے ذیل میں ارشاد فرمایا ہے :)

دیکھو یہ انسان جس سے یہ سوال کیا گیا ہے وہ اپنی دلیل کے اعتبار سے کس قدر کمزور ہے اور اپنے فریب خوردہ ہونے کے اعتبار سے کس قدرناقص معذرت کا حامل ہے ۔یقینا اس نے اپنے نفس کو جہالت کی سختیوں میں مبتلا کردیا ہے۔ اے انسان! سچ بتا۔تجھے کس شے نے گناہوں کی جرأت دلائی ہے اور کس چیزنے پروردگار کے بارے میں دھوکہ میں رکھا ہے اور کس امرنے نفس کی ہلاکت پر بھی مطمئن بنادیا ہے۔کیا تیرے اس مرض کا کوی علاج اور تیرے اس خواب کی کوئی بیداری نہیں ہے اور کیا انپے نفس(۱) پر اتنا بھی رحم نہیں کرتا ہے جتنا دوسروں پرکرتا ہے کہ جب کبھی آفتاب کی حرارت میں کسی کو تپتا دیکھتا ہے تو سایہ کردیتا ہے

(۱)حقیقت امری ہ ہے کہ انسان آخرت کی طرف سے بالکل غفلت کا مجسمہ بن گیا ہے کہ دنیا میں کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ پاتا ہے اوراس کی داد رسی کے لئے تیار ہو جاتا ہے اورآخرت میں پیش آنے والے خود اپنے مصائب کی طرف سے بھی یکسر غافل ے اورایک لمحہ کے لئے بھی آفتاب محشر کے سایہ اور گرمی قیامت کی خشکی کا انتظام نہیں کرتا ہے۔بلکہ بعض اوقات اس کا مذاق بھی اڑاتا ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون

۴۵۱

أَوْ تَرَى الْمُبْتَلَى بِأَلَمٍ يُمِضُّ جَسَدَه فَتَبْكِي رَحْمَةً لَه - فَمَا صَبَّرَكَ عَلَى دَائِكَ وجَلَّدَكَ عَلَى مُصَابِكَ - وعَزَّاكَ عَنِ الْبُكَاءِ عَلَى نَفْسِكَ - وهِيَ أَعَزُّ الأَنْفُسِ عَلَيْكَ - وكَيْفَ لَا يُوقِظُكَ خَوْفُ بَيَاتِ نِقْمَةٍ - وقَدْ تَوَرَّطْتَ بِمَعَاصِيه مَدَارِجَ سَطَوَاتِه - فَتَدَاوَ مِنْ دَاءِ الْفَتْرَةِ فِي قَلْبِكَ بِعَزِيمَةٍ - ومِنْ كَرَى الْغَفْلَةِ فِي نَاظِرِكَ بِيَقَظَةٍ - وكُنْ لِلَّه مُطِيعاً وبِذِكْرِه آنِساً - وتَمَثَّلْ فِي حَالِ تَوَلِّيكَ عَنْه - إِقْبَالَه عَلَيْكَ يَدْعُوكَ إِلَى عَفْوِه - ويَتَغَمَّدُكَ بِفَضْلِه وأَنْتَ مُتَوَلٍّ عَنْه إِلَى غَيْرِه فَتَعَالَى مِنْ قَوِيٍّ مَا أَكْرَمَه - وتَوَاضَعْتَ مِنْ ضَعِيفٍ مَا أَجْرَأَكَ عَلَى مَعْصِيَتِه - وأَنْتَ فِي كَنَفِ سِتْرِه مُقِيمٌ - وفِي سَعَةِ فَضْلِه مُتَقَلِّبٌ - فَلَمْ يَمْنَعْكَ فَضْلَه ولَمْ يَهْتِكْ عَنْكَ سِتْرَه - بَلْ لَمْ تَخْلُ مِنْ لُطْفِه مَطْرَفَ عَيْنٍ - فِي نِعْمَةٍ يُحْدِثُهَا لَكَ أَوْ سَيِّئَةٍ يَسْتُرُهَا عَلَيْكَ - أَوْ بَلِيَّةٍ يَصْرِفُهَا عَنْكَ فَمَا

یا کسی کو درد و رنج میں مبتلا دیکھتا ہے تو اس کے حال پررونے لگتا ہے توخرکس شے نے تجھے خود اپنے مرض پر صبر دلادیا ہے اور اپنی مصیبت پرسامان سکون فراہم کردیا ہے اوراپنے نفس پر رونے سے روک دیا ہے جب کہ وہ تجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔اور کیوں راتوں رات عذاب الٰہی کے نازل ہو جانے کا تصور تجھے بیدار نہیں رکھتا ہے جب کہ تو اس کی نا فرمانیوں کی بنا پر اس کے قہرو غلبہ کی راہ میں پڑا ہوا ہے۔ ابھی غنیمت ہے کہ اپنے دل کی سستی کاعزمراسخ سے علاج کرلے اور اپنی آنکھوں میں غفلت کی نیند کابیدردی سے مداوا کرلے اللہ کی اطاعت گذار بن جا۔اس کی یاد سے انس حاصل کراور اس امر کاتصور کرکہ کس طرح وہ تیرے دوسروں کی طرف منہ موڑ لینے کے باوجود وہ تیری طرف متوجہ رہتا ہے۔تجھے معافی کی دعوت دیتاہے۔اپنے فضل و کرم میں ڈھانپ لیتا ہے حالانکہ تو دوسروں کی طرف رخ کئے ہوئے ہے۔بلند وبالا ہے وہ صاحب قوت جو اس قدر کرم کرتا ہے اور ضعیف و ناتواں ہے تو انسان جو اس کی معصیت کی اس قدر جرأت رکھتا ہے جب کہ اسی کے عیب پوشی کے ہمسایہ میں مقیم ہے اور اسی کے فضل و کرم کی وسعتوں میں کروٹیں بدل رہا ہے وہ نہ اپنے فضل وکرم کوتجھ سے روکتا ہے اورنہ تیرے پردہ ٔ راز کوفاش کرتا ہے۔بلکہ تو پلک جھپکنے کے برابر بھی اس کی مہربانیوں سے خالی نہیں ہے۔کبھی نئی نئی نعمتیںعطا کرتا ہے۔کبھی برائیوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور کبھی بلائوں کو رد کردیتا ہے جب کہ تو اس کی

۴۵۲

ظَنُّكَ بِه لَوْ أَطَعْتَه - وايْمُ اللَّه لَوْ أَنَّ هَذِه الصِّفَةَ كَانَتْ فِي مُتَّفِقَيْنِ فِي الْقُوَّةِ - مُتَوَازِيَيْنِ فِي الْقُدْرَةِ - لَكُنْتَ أَوَّلَ حَاكِمٍ عَلَى نَفْسِكَ بِذَمِيمِ الأَخْلَاقِ - ومَسَاوِئِ الأَعْمَالِ - وحَقّاً أَقُولُ مَا الدُّنْيَا غَرَّتْكَ ولَكِنْ بِهَا اغْتَرَرْتَ - ولَقَدْ كَاشَفَتْكَ الْعِظَاتِ وآذَنَتْكَ عَلَى سَوَاءٍ - ولَهِيَ بِمَا تَعِدُكَ مِنْ نُزُولِ الْبَلَاءِ بِجِسْمِكَ - والنَّقْصِ فِي قُوَّتِكَ أَصْدَقُ وأَوْفَى مِنْ أَنْ تَكْذِبَكَ أَوْ تَغُرَّكَ - ولَرُبَّ نَاصِحٍ لَهَا عِنْدَكَ مُتَّهَمٌ - وصَادِقٍ مِنْ خَبَرِهَا مُكَذَّبٌ - ولَئِنْ تَعَرَّفْتَهَا فِي الدِّيَارِ الْخَاوِيَةِ والرُّبُوعِ الْخَالِيَةِ - لَتَجِدَنَّهَا مِنْ حُسْنِ تَذْكِيرِكَ - وبَلَاغِ مَوْعِظَتِكَ - بِمَحَلَّةِ الشَّفِيقِ عَلَيْكَ والشَّحِيحِ بِكَ - ولَنِعْمَ دَارُ مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَا دَاراً - ومَحَلُّ مَنْ لَمْ يُوَطِّنْهَا مَحَلاًّ - وإِنَّ السُّعَدَاءَ بِالدُّنْيَا غَداً هُمُ الْهَارِبُونَ مِنْهَا الْيَوْمَ. إِذَا رَجَفَتِ الرَّاجِفَةُ

معصیت کر رہا ہے تو سوچ اگر تو اطاعت کرتا تو کیا ہوتا ؟

خدا گواہ ہے کہ اگریہ برتائو دو برابر کی قوتو قدرت والوں کے درمیان ہوتا اور تو دوسرے کے ساتھ ایسا ہی برتائو کرتا تو تو خود ہی سب سے پہلے اپنے نفس کے بد اخلاق اور بد عمل ہونے کا فیصلہ کردیتا ہے لیکن افسوس۔

میں سچ کہتا ہوں کہ دنیا نے تجھے دھوکہ نہیں دیا ہے تونے دنیا سے دھوکہ کھایا ہے۔اس نے تو نصیحتوں کوکھول کر سامنے رکھ دیا ہے اور تجھے ہر چیز سے برابر سے آگاہ کیا ہے۔اس نے جسم پر جن نازل ہونے والی بلائوں کا وعدہ کیا ہے اور قوت میں جس کمزوری کی خبردی ہے۔اس میں وہ بالکل سچی اور وفائے عہد کرنے والی ہے۔نہ جھوٹ بولنے والی ہے اور نہ دھکہ دینے والی۔بلکہ بہت سے اس کے بارے میں نصیحت کرنے والے ہیں جو تیرے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں اورسچ سچ بولنے والے ہیں جو تیریر نگاہ میں جھوٹے ہیں۔

اگر تونے اسے گرے پڑے مکانات اور غیر آباد منزلوں میں پہچان لیا ہوتا تو دیکھتا کہ وہ اپنی یاد دہانی اوربلیغ ترین نصیحت میں تجھ پر کس قدر مہربان ہے اور تیری تباہی کے بارے میں کس قدر بخل سے کام لیتی ہے۔

یہ دنیا اس کے لئے بہترین گھر ہے جو اسکو گھر بنانے سے راضی نہ ہو۔اور اس کے لئے بہترین وطن ہے جو اسے وطن بنانے پرآمادہ نہ ہو۔اس دنیا کے رہنے والوں میں کل کے دن نیک بخت وہی ہوں گے جوآج اس سے گریز کرنے پرآمادہ ہوں۔ دیکھو جب زمین کو زلزلہ آجائے گا

۴۵۳

وحَقَّتْ بِجَلَائِلِهَا الْقِيَامَةُ - ولَحِقَ بِكُلِّ مَنْسَكٍ أَهْلُه وبِكُلِّ مَعْبُودٍ عَبَدَتُه - وبِكُلِّ مُطَاعٍ أَهْلُ طَاعَتِه - فَلَمْ يُجْزَ فِي عَدْلِه وقِسْطِه يَوْمَئِذٍ خَرْقُ بَصَرٍ فِي الْهَوَاءِ - ولَا هَمْسُ قَدَمٍ فِي الأَرْضِ إِلَّا بِحَقِّه - فَكَمْ حُجَّةٍ يَوْمَ ذَاكَ دَاحِضَةٌ - وعَلَائِقِ عُذْرٍ مُنْقَطِعَةٌ! فَتَحَرَّ مِنْ أَمْرِكَ مَا يَقُومُ بِه عُذْرُكَ وتَثْبُتُ بِه حُجَّتُكَ - وخُذْ مَا يَبْقَى لَكَ مِمَّا لَا تَبْقَى لَه - وتَيَسَّرْ لِسَفَرِكَ وشِمْ بَرْقَ النَّجَاةِ وارْحَلْ مَطَايَا التَّشْمِيرِ

(۲۲۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يتبرأ من الظلم

واللَّه لأَنْ أَبِيتَ عَلَى حَسَكِ السَّعْدَانِ مُسَهَّداً - أَوْ أُجَرَّ فِي الأَغْلَالِ مُصَفَّداً - أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَلْقَى اللَّه ورَسُولَه يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظَالِماً - لِبَعْضِ الْعِبَادِ وغَاصِباً لِشَيْءٍ مِنَ الْحُطَامِ - وكَيْفَ أَظْلِمُ أَحَداً

اور قیامت اپنی عظیم مصیبتوں کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی اور ہر عبادت گاہ کے ساتھ اس کے عبادت گزار ۔ہر معبود کے ساتھ اس کے بندے اور ہر قابل اطاعت کے ساتھ اس کے مطیع و فرمانبردار ملحق کردئیے جائیں گے تو کوئی ہوا میں شگاف کرنے والی نگاہ اور زمین پر پڑنے والے قدم کی آہٹ ایسی نہ ہوگی جس کا عدل و انصاف کے ساتھ پورا بدلہ نہ دے دیا جائے۔اس دن کتنی ہی دلیلیں ہوں گی جو بیکار ہو جائیں گی اور کتنے ہی معذرت کے رشتے ہوں گے جو کٹ کے رہ جائیں گے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ ابھی سے ان چیزوں کو تلاش کرلو جن سے عذر قائم ہو سکے اور دلیل ثابت ہو سکے جن دنیا میں تم کونہیں رہنا ہے اس میں سے وہ لے لو جس کو تمہارے ساتھ رہنا ہے۔سفر کے لئے آمادہ ہو جائو۔نجات کی روشنی کی چمک دیکھ لو اور آمادگی کی سواریوں پر سامان بار کرلو۔

(۲۲۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں ظلم سے برائت و بیزاری کا اظہار فرمایا گیا ہے)

خدا گواہ ہے کہ میرے لئے سعد ان کی خار دار جھاڑی پر جگ کر رات گزارلینایا زنجیروں میں قید ہو کر کھینچا جانا اس امر سے زیادہ عزیز ہے۔کہ میں روز قیامت پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کروں کہ کسی بندہ پر ظلم کرچکا ہوں یا دنیاکے کسی معمولی مال کو غصب کیا ہو بھلا میں کسی شخص پر بھی اس نفس کے لئے کس طرح ظلم

۴۵۴

لِنَفْسٍ يُسْرِعُ إِلَى الْبِلَى قُفُولُهَا ويَطُولُ فِي الثَّرَى حُلُولُهَا؟!

واللَّه لَقَدْ رَأَيْتُ عَقِيلًا وقَدْ أَمْلَقَ - حَتَّى اسْتَمَاحَنِي مِنْ بُرِّكُمْ صَاعاً - ورَأَيْتُ صِبْيَانَه شُعْثَ الشُّعُورِ غُبْرَ الأَلْوَانِ مِنْ فَقْرِهِمْ - كَأَنَّمَا سُوِّدَتْ وُجُوهُهُمْ بِالْعِظْلِمِ - وعَاوَدَنِي مُؤَكِّداً وكَرَّرَ عَلَيَّ الْقَوْلَ مُرَدِّداً - فَأَصْغَيْتُ إِلَيْه سَمْعِي فَظَنَّ أَنِّي أَبِيعُه دِينِي - وأَتَّبِعُ قِيَادَه مُفَارِقاً طَرِيقَتِي – فَأَحْمَيْتُ لَه حَدِيدَةً ثُمَّ أَدْنَيْتُهَا مِنْ جِسْمِه لِيَعْتَبِرَ بِهَا - فَضَجَّ ضَجِيجَ ذِي دَنَفٍ مِنْ أَلَمِهَا - وكَادَ أَنْ يَحْتَرِقَ مِنْ مِيسَمِهَا - فَقُلْتُ لَه ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ يَا عَقِيلُ - أَتَئِنُّ مِنْ حَدِيدَةٍ أَحْمَاهَا إِنْسَانُهَا لِلَعِبِه - وتَجُرُّنِي إِلَى نَارٍ سَجَرَهَا جَبَّارُهَا لِغَضَبِه - أَتَئِنُّ مِنَ الأَذَى ولَا أَئِنُّ مِنْ لَظَى

کروں گا جو فنا کی طرف بہت جلد پلٹنے والا ہے اورزمین کے اندر بہت دنوں رہنے والا ہے۔

خداکی قسم میں نے عقیل(۱) کوخود دیکھا ہے کہ انہوں نے فقر وفاقہ کی بنا پر تمہارے حصہ گندم میں سے تین کیلو کامطالبہ کیا تھا جب کہ ان کے بچغوں کے بال غربت کی بناپر پراگندہ ہو چکے تھے اور ان کے چہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑ ک کر سیاہ بنایا گیا ہوا اورانہوںنے مجھ سے باربارتقاضا کیا اور مکرر اپنے مطالبہ کودہرایا تو میں نے ان کی طرف کان دھردئیے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید میں دین بیچنے اور اپنے راستہ کو چھوڑ کران کے مطالبہ پرچلنے کے لئے تیار ہوگیا ہوں۔لیکن میں نے ان کے لئے لوہا گرم کرایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں۔انہوںنے لوہا دیکھ کری وں فریاد شروع کردی جیسے کوئی بیمار اپنے درد و الم سے فریاد کرتا ہو اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس کے داغ دینے سے جل جائے۔تو میں نے کہا رونے والیاں آپ کے غم میں روئیں اپنے عقیل ! آپ اس لوہے سے فریاد کر رہے ہیں جس ایک انسان نے فقط ہنسی مذاق میں تپایا ہے اور مجھے اسآگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جسے خدائے جبارنے اپنے غضب کی بنیاد پربھڑکایا ہے۔آپ اذیت سے فریاد کریں اور میں جہنم سے فریاد نہ کروں۔

(۱) جناب عقیل آپ کے بڑے بھائی او حقیقی بھائی تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے یہ عادلانہ برتائو کرکے واضح کردیا کہ دین الٰہی میں رشت و قرابت کا گذر نہیں ہے۔دین کا ذمہ دار وہی شخص ہو سکتا ہے جو مال خدا کو مال خدا تصور کرے اور اس مسئلہمیں کسی طرح کی رشتہ داری اور تعلق کو شامل نہ کرے۔یہ امیر المومنین کے کردار کا وہ نمایاں امتیاز ہے جس کا اندازہ دوست اوردشمن دونوں کو تھا اور کوئی بھی اس معرفت سے بیگانہ نہ تھا۔

۴۵۵

وأَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ طَارِقٌ طَرَقَنَا بِمَلْفُوفَةٍ فِي وِعَائِهَا - ومَعْجُونَةٍ شَنِئْتُهَا - كَأَنَّمَا عُجِنَتْ بِرِيقِ حَيَّةٍ أَوْ قَيْئِهَا - فَقُلْتُ أَصِلَةٌ أَمْ زَكَاةٌ أَمْ صَدَقَةٌ - فَذَلِكَ مُحَرَّمٌ عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ - فَقَالَ لَا ذَا ولَا ذَاكَ ولَكِنَّهَا هَدِيَّةٌ - فَقُلْتُ هَبِلَتْكَ الْهَبُولُ أَعَنْ دِينِ اللَّه أَتَيْتَنِي لِتَخْدَعَنِي - أَمُخْتَبِطٌ أَنْتَ أَمْ ذُو جِنَّةٍ أَمْ تَهْجُرُ -

واللَّه لَوْ أُعْطِيتُ الأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا - عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّه فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُه - وإِنَّ دُنْيَاكُمْ عِنْدِي لأَهْوَنُ مِنْ وَرَقَةٍ فِي فَمِ جَرَادَةٍ تَقْضَمُهَا - مَا لِعَلِيٍّ ولِنَعِيمٍ يَفْنَى ولَذَّةٍ لَا تَبْقَى - نَعُوذُ بِاللَّه مِنْ سُبَاتِ الْعَقْلِ وقُبْحِ الزَّلَلِ وبِه نَسْتَعِينُ.

اس سے زیادہ تعجب خیز باتیہ ہے کہ ایک رات ایک شخص (اشعث بن قیس) میرے پاس شہد میں گندھا ہوا حلوہ برتن میں رکھ کر لایا جو مجھے اس قدر ناگوارتھا جیسے سانپ کے تھوک یا قے سے گوندھا ہو۔میں نے پوچھا کہ یہ کوئی انعام ہے یا زکوٰة یا صدقہ جو ہم اہل بیت پر حرام ہے ؟ اس نے کہاکہ یہ کچھ نہیں ہے۔یہ فقط ایک ہدیہ ہے ! میں نے کہاکہ پسر مردہ عورتیں تجھ کو روئیں ۔تو دین خداکے راستہ سے آکر مجھے دھوکہ دینا چاہتا ہے تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے یا تو پاگل ہوگیا ہے یا ہذیان بک رہا ہے۔ آخر ہے کیا ؟

خدا گواہ ہے کہ اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت تمام زیر آسمان دولتوں کے ساتھ دے دی جائے اور مجھ سے یہ مطالبہ کیاجائے کہ میں کسی چیونٹی پر صرف اس قدر ظلم کروں کہ اس کے منہ سے اس چھلکے کو چھین لوں جو وہ چبا رہی ہے تو ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہوں۔یہ تمہاری دنیا میری نظر میں اس پتی سے زیادہ بے قیمت ہے جو کسی ٹڈی کے منہ میں ہواور وہ اسے چبا رہی ہو۔

بھلا علی کو ان نعمتوں سے کیاواسطہ جو فنا ہو جانے والی ہیں اور اس لذت سے کیا تعلق جوب اقی رہنے والی ہیں ہے۔میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے اورلغزشوں کی برائیوں سے اوراسی سے مدد کا طلب گار ہوں۔

۴۵۶

( ۲۲۵ )

ومن دعاء لهعليه‌السلام

يلتجئ إلى اللَّه أن يغنيه

اللَّهُمَّ صُنْ وَجْهِي بِالْيَسَارِ ولَا تَبْذُلْ جَاهِيَ

بِالإِقْتَارِ - فَأَسْتَرْزِقَ طَالِبِي رِزْقِكَ وأَسْتَعْطِفَ شِرَارَ خَلْقِكَ - وأُبْتَلَى بِحَمْدِ مَنْ أَعْطَانِي وأُفْتَتَنَ بِذَمِّ مَنْ مَنَعَنِي - وأَنْتَ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ كُلِّه وَلِيُّ الإِعْطَاءِ والْمَنْعِ -( إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) .

(۲۲۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التنفير من الدنيا

دَارٌ بِالْبَلَاءِ مَحْفُوفَةٌ وبِالْغَدْرِ مَعْرُوفَةٌ - لَا تَدُومُ أَحْوَالُهَا ولَا يَسْلَمُ نُزَّالُهَا

أَحْوَالٌ مُخْتَلِفَةٌ وتَارَاتٌ مُتَصَرِّفَةٌ

(۲۲۵)

آپ کی دعا کا ایک حصہ

(جس میں پروردگار سے ے نیازی کا مطالبہ کیا گیا ہے )

خدایا! میری آبرو(۱) کومالداری کے ذریعہ محفوظ فرما اورمیری منزلت کو غربت کی بنا پر نگاہوں سے نہ گرنے دینا کہ مجھے تجھ سے روزی مانگنے والوں سے مانگنا پڑے یا تیری بد ترین مخلوقات سے رحم کی درخواست کرنا پڑے اوراس کے بعد میں ہر عطا کرنے والے کی تعریف کروں اور ہرانکار کرنے والے کی مذمت میں مبتلا ہو جائوںجب کہان سب کے پس پردہ عطاء و انکار دونوں کا اختیار تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پرقدرت رکھنے والا ہے۔

(۲۲۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا سے نفرت دلائی گئی ہے )

یہ ایک ایسا گھرہے جو بلائوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے۔نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے۔

اس کے حالات مختلف اوراس کے اطوار بدلنے

(۱) یہ فقرات بعینہ اسی طرح امام زین العابدین کی مکارم اخلاق میں بھی پائے جاتے ہیں جواس بات کی علامت ہے کہ اہل بیت کاکردار اور ان کا بیان ہمیشہ ایک انداز کا ہوتا ہے اوراسمیں کسی طرح کا اختلاف و انتشار نہیں ہوتا ہے۔

۲۔ اس خطبہ میں دنیا کے حسب ذیل خصوصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔۱۔یہ مکان بلائوں میں گھرا ہواہے۔۲۔اس کی غداری معروف ہے ۔۳۔اس کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں ۔۴۔اس کی زندگی کا انجام موت ہے۔۵۔اس کی زندگی قابل مذمت ہے ۔۶۔اس میں امن و امان نہیں ہے۔۷۔اس کے باشندے بلائوں اورمصیبتوں کا ہدف ہیں۔

۴۵۷

الْعَيْشُ فِيهَا مَذْمُومٌ والأَمَانُ مِنْهَا مَعْدُومٌ - وإِنَّمَا أَهْلُهَا فِيهَا أَغْرَاضٌ مُسْتَهْدَفَةٌ - تَرْمِيهِمْ بِسِهَامِهَا وتُفْنِيهِمْ بِحِمَامِهَا

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّكُمْ ومَا أَنْتُمْ فِيه مِنْ هَذِه الدُّنْيَا - عَلَى سَبِيلِ مَنْ قَدْ مَضَى قَبْلَكُمْ - مِمَّنْ كَانَ أَطْوَلَ مِنْكُمْ أَعْمَاراً وأَعْمَرَ دِيَاراً وأَبْعَدَ آثَاراً - أَصْبَحَتْ أَصْوَاتُهُمْ هَامِدَةً ورِيَاحُهُمْ رَاكِدَةً - وأَجْسَادُهُمْ بَالِيَةً ودِيَارُهُمْ خَالِيَةً وآثَارُهُمْ عَافِيَةً - فَاسْتَبْدَلُوا بِالْقُصُورِ الْمَشَيَّدَةِ والنَّمَارِقِ الْمُمَهَّدَةِ - الصُّخُورَ والأَحْجَارَ الْمُسَنَّدَةَ والْقُبُورَ اللَّاطِئَةَ الْمُلْحَدَةَ - الَّتِي قَدْ بُنِيَ عَلَى الْخَرَابِ فِنَاؤُهَا - وشُيِّدَ بِالتُّرَابِ بِنَاؤُهَا فَمَحَلُّهَا مُقْتَرِبٌ وسَاكِنُهَا مُغْتَرِبٌ - بَيْنَ أَهْلِ مَحَلَّةٍ مُوحِشِينَ وأَهْلِ فَرَاغٍ مُتَشَاغِلِينَ - لَا يَسْتَأْنِسُونَ بِالأَوْطَانِ ولَا يَتَوَاصَلُونَ تَوَاصُلَ الْجِيرَانِ - عَلَى مَا بَيْنَهُمْ مِنْ قُرْبِ الْجِوَارِ ودُنُوِّ الدَّارِ - وكَيْفَ يَكُونُ بَيْنَهُمْ تَزَاوُرٌ وقَدْ طَحَنَهُمْ بِكَلْكَلِه الْبِلَى

والے ہیں۔اس میں پرکیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن و امان کا دور دورہ پتہ نہیں ہے۔اس کے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انہیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے۔

بندگان خدا! یادرکھو اس دنیا میں تم اورجو کچھ تمہارے پاس ہے سب کا وہی راستہ ہے جس پرپہلے والے چل چکے ہیں جن کی عمریں تم سے زیادہ طویل اور جن کے علاقے تم سے زیادہ آباد تھے ۔ان کے آثار بھی دور دورتک پھیلے ہوئے تھے ۔لیکن اب ان کی آوازیں دب گئی ہیں ان کی ہوائیں اکھڑ گئی ہیں۔ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ہیں۔ان کے مکانات خالی ہوگئے ہیں اور ان کے آثارمٹ چکے ہیں ۔وہ مستحکم قلعوں اور بچھی ہوئی مسندوں کو پتھروں اورچنی ہوئی سلوں اور زمین کے اندرلحد والی قبروں میں تبدیل کر چکے ہیں جن کے صحتوں کی بنیاد تباہی پر قائم ہے اورجن کی عمارت مٹی سے مضبوط کی گئی ہے۔ان قبروں کی جگہیں تو قریب قریب ہیں لیکن ان کے رہنے والے سب ایک دوسرے سے غریب اور اجنبی ہیں۔ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو بوکھلائے ہوئے ہیں اور یہاں کے کاموں سے فارغ ہو کر وہاں کی فکر میں مشغول ہوگئے ہیں۔نہ اپنے وطن سے کوئی انس رکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایوں سے کوئی ربط رکھتے ہیں۔حالانکہ بالکل قرب وجوار اورنزدیک ترین دیار میں ہیں۔اور ظاہر ہے کہ اب ملاقات کا کیا امکان ہے جب کہ بوسیدگی نے انہیں اپنے سینہ سے دباکر پیش ڈالا ہے اور پتھروں اورمٹی نے انہیں

۴۵۸

وأَكَلَتْهُمُ الْجَنَادِلُ والثَّرَى !وكَأَنْ قَدْ صِرْتُمْ إِلَى مَا صَارُوا إِلَيْه - وارْتَهَنَكُمْ ذَلِكَ الْمَضْجَعُ وضَمَّكُمْ ذَلِكَ الْمُسْتَوْدَعُ - فَكَيْفَ بِكُمْ لَوْ تَنَاهَتْ بِكُمُ الأُمُورُ - وبُعْثِرَتِ الْقُبُورُ :( هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ - ورُدُّوا إِلَى الله مَوْلاهُمُ الْحَقِّ - وضَلَّ عَنْهُمْ ما كانُوا يَفْتَرُونَ ) .

(۲۲۷)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

يلجأ فيه إلى اللَّه ليهديه إلى الرشاد

اللَّهُمَّ إِنَّكَ آنَسُ الآنِسِينَ لأَوْلِيَائِكَ - وأَحْضَرُهُمْ بِالْكِفَايَةِ لِلْمُتَوَكِّلِينَ عَلَيْكَ - تُشَاهِدُهُمْ فِي سَرَائِرِهِمْ وتَطَّلِعُ عَلَيْهِمْ فِي ضَمَائِرِهِمْ - وتَعْلَمُ مَبْلَغَ بَصَائِرِهِمْ - فَأَسْرَارُهُمْ لَكَ مَكْشُوفَةٌ وقُلُوبُهُمْ إِلَيْكَ مَلْهُوفَةٌ - إِنْ أَوْحَشَتْهُمُ الْغُرْبَةُ آنَسَهُمْ ذِكْرُكَ - وإِنْ صُبَّتْ عَلَيْهِمُ الْمَصَائِبُ لَجَئُوا إِلَى الِاسْتِجَارَةِ بِكَ - عِلْماً بِأَنَّ أَزِمَّةَ الأُمُورِ بِيَدِكَ - ومَصَادِرَهَا عَنْ قَضَائِكَ.

اللَّهُمَّ إِنْ فَهِهْتُ عَنْ مَسْأَلَتِي

کھا کر برابر کر دیا ہے اورگویا کہ اب تم بھی وہیں پہنچ گئے ہوجہاں وہ پہنچ چکے ہیں اور تمہیں بھی اسی قبر نے گرو رکھ لیا ہے اور اسی امانت گاہ نے جکڑ لیا ہے۔

سوچو اس وقت کیا ہوگا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد کو پہنچ جائیں گے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا اس وقت ہرنفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب کو مالک برحق کی طرف پلٹا دیاجائے گا اور کسی کی کوئی افتر پردازی کام آنے والی نہ ہوگی

(۲۲۷)

آپ کی دعا کا ایک حصہ

(جس میں نیک راستہ کی ہدایت کا مطالبہ کیاگیا ہے)

پروردگار تو اپنے دوستوں کے لئے تمام انس فراہم کرنے والوں سے زیادہ سبب انس اور تمام اپنے اوپر بھروسہ کرنے والوں کے لئے سب سے زیادہ حاجت روائی کے لئے حاضر ہے۔توان کے پوشیدہ امور پر نگاہ رکھتا ہے۔ان کے اسرار پر اطلاع رکھتا ہے اور ان کی بصیرتوں کی آخری حدوں کوبھی جانتا ہے۔ان کے اسرار تیرے لئے روشن اور ان کے قلوب تیری بارگاہ میں فریادی ہیں۔جب غربت انہیں متوحش کرتی ہے تو تیری یاد انس کا سامان فراہم کر دیتی ہے اور جب مصائب ان پر انڈیل دئیے جاتے ہیں تو وہ تیریر پناہ تلاش کرلیتے ہیں اس لئے کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ تمام معاملات کی زمام تیرے ہاتھ میں ہے اور تمام امور کا فیصلہ تیری ذات سے صادر ہوتا ہے۔

خدایا ! اگرمیں اپنے سوالات کو پیش کرنے

۴۵۹

أَوْ عَمِيتُ عَنْ طِلْبَتِي - فَدُلَّنِي عَلَى مَصَالِحِي - وخُذْ بِقَلْبِي إِلَى مَرَاشِدِي - فَلَيْسَ ذَلِكَ بِنُكْرٍ مِنْ هِدَايَاتِكَ - ولَا بِبِدْعٍ مِنْ كِفَايَاتِكَ

اللَّهُمَّ احْمِلْنِي عَلَى عَفْوِكَ ولَا تَحْمِلْنِي عَلَى عَدْلِكَ.

(۲۲۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يريد به بعض أصحابه

لِلَّه بَلَاءُ فُلَانٍ فَلَقَدْ قَوَّمَ الأَوَدَ ودَاوَى الْعَمَدَ - وأَقَامَ السُّنَّةَ وخَلَّفَ الْفِتْنَةَ - ذَهَبَ نَقِيَّ الثَّوْبِ قَلِيلَ الْعَيْبِ - أَصَابَ خَيْرَهَا وسَبَقَ شَرَّهَا - أَدَّى إِلَى اللَّه طَاعَتَه واتَّقَاه بِحَقِّه - رَحَلَ وتَرَكَهُمْ فِي طُرُقٍ مُتَشَعِّبَةٍ - لَا يَهْتَدِي بِهَا الضَّالُّ ولَا يَسْتَيْقِنُ الْمُهْتَدِي.

سے عاجز ہوں اور مجھے اپنے مطالبات کی راہ نظرنہیں آتی ہے تو تو میرے مصالح کی رہنمائی فرما اورمیرے دل کو ہدایت کی منزلوں تک پہنچا دے کہ یہ بات تیری ہدایتوں کے لئے کوئی انوکھی نہیں ہے اور تیریر حاجت روائیوں کے سلسلہ میں کوئی نرالی نہیں ہے۔

خدایا میرے معاملات کواپنے عفوو کرم پر محمول کرنا اورعدل و انصاف پر محمول نہ کرنا۔

(۲۲۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنے بعض اصحاب کا تذکرہ فرمایاہے )

اللہ فلاں شخص(۱) کا بھلا کرے کہ اس نے کجی کو سیدھا کیا اور مرض کا علاج کیا۔سنت کوقائم کیا اور فتنوں کو چھوڑ کر چلا گیا۔دنیا سے اس عالم میںگیا کہ اس کا لباس حیات پاکیزہ تھا اور اس کے عیب بہت کم تھے ۔ اس نے دنیا کے خیر کو حاصل کرلیا اور اس کے شر سے آگے بڑھ گیا۔اللہ کی اطاعت کاحق ادا کردیا اوراس سے مکمل طور پر خوفزدہ رہا۔وہ دنیا سے اس عالم میں رخصت ہوا کہ لوگ متفرق راستوں پرتھے جہاں نہ گمراہ ہدایت پا سکتا تھا اورنہ ہدایت یافتہ منزل یقین تک جا سکتا تھا۔

(۱)ابن ابی الحدید نے ساتویں صدی ہجری میں یہ انکشاف کیا کہ ان فقرات میں فلاں سے مراد حضرت عمر ہیں اور پھر اس کی وضاحت میں ۸۷ صفحے سیاہ کر ڈالے حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ سید رضی کے دور کے نسخوں میں اس کاکوئی تذکرہ ہے اور پھر اسلامی دنیا کے سر براہ کی تعریف کے لئے لفظ فلاں کے کوئی معنی نہیں ہیں خطبہ شقشقیہ میں لفظ فلاں کا امکان ہے لیکن مدح میں لفظ فلاں عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے۔اس لفظ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ایسے صحابی کا تذکرہ ہے جسے عام لوگ بردات نہیں کرس کتے ہیں اور امیرالمومنین اس کی تعریف ضروری تصور فرماتے ہیں۔

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

۲۴۴ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلَّه فِي كُلِّ نِعْمَةٍ حَقّاً - فَمَنْ أَدَّاه زَادَه مِنْهَا - ومَنْ قَصَّرَ فِيه خَاطَرَ بِزَوَالِ نِعْمَتِه.

۲۴۵ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَثُرَتِ الْمَقْدِرَةُ قَلَّتِ الشَّهْوَةُ.

۲۴۶ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرُوا نِفَارَ النِّعَمِ فَمَا كُلُّ شَارِدٍ بِمَرْدُودٍ.

۲۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الْكَرَمُ أَعْطَفُ مِنَ الرَّحِمِ

۲۴۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْراً فَصَدِّقْ ظَنَّه.

(۲۴۴)

اللہ کا ہر نعمت میں ایک حق ہے۔جو اسے ادا کردے گا۔اللہ اس کی نعمت کو بڑھادے گا اور جو کوتاہی کرے گا وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا۔

(۲۴۵)

جب طاقت زیادہ(۱) ہو جاتی ہے توخواہش کم ہو جاتی ہے۔

(۲۴۶)

نعمتوں کے زوال سے ڈرتے رہو کہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز واپس نہیں آیا کرتی ہے۔

(۲۴۷)

جذبہ کرم قرابت داری سے زیادہ مہربانی کا باعث ہوتا ہے۔

(۲۴۸)

جو تمہارے بارے میں اچھا خیال(۲) رکھتا ہو اس کے خیال کو سچا کرکے دکھلا دو۔

(۱)جب فطرت کا یہ نظام ہے کہ کمزور آدمی میں خواہش زیادہ ہوتی ہے اور طاقتور اس قدرخواہشات کاحامل نہیں ہوتا ہے تو سیاسی دنیا میں بھی انسان کا طرزعمل ویسا ہی ہونا چاہیے کہ جس قدر طاقت و قوت میںاضافہ ہوتا ہے اپنے کوخواہشات دنیا سے بے نیاز بناتا جائے اور اپنے کردار سے یہ ثابت کردے کہ اس کی زندگی نظام فطرت سے الگ اور جدا گانہ نہیں ہے۔

(۲)یہ انسانی زندگی کا انتہائی حساس نکتہ ہے کہ انسان عام طور سے لوگوں کو حسن ظن میں مبتلا پا کراس سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اوراسے یہ خیال پیداہو جاتا ہے کہ جب لوگ شراب خانہمیں دیکھ کر بھی یہی تصور کریںگے کہ تبلیغ مذہب کے لئے گئے تھے تو شراب خانہ سے فائدہ اٹھالینا چاہیے حالانکہ تقاضئاے عقل ودانش اورمقتضائے شرافت وانسانیت یہ ہے کہ لوگ جس قدر شریف تصورکرتے ہیں۔اتنی شرافت کا اثبات کرے اور ان کے حسن ظن کو سوظن میں تبدیل نہ ہونے دے ۔

۷۰۱

۲۴۹ - وقَالَعليه‌السلام أَفْضَلُ الأَعْمَالِ مَا أَكْرَهْتَ نَفْسَكَ عَلَيْه.

۲۵۰ - وقَالَعليه‌السلام عَرَفْتُ اللَّه سُبْحَانَه بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ - وحَلِّ الْعُقُودِ ونَقْضِ الْهِمَمِ.

۲۵۱ - وقَالَعليه‌السلام مَرَارَةُ الدُّنْيَا حَلَاوَةُ الآخِرَةِ - وحَلَاوَةُ الدُّنْيَا مَرَارَةُ الآخِرَةِ.

۲۵۲ - وقَالَعليه‌السلام فَرَضَ اللَّه الإِيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ - والصَّلَاةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ - والزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ - والصِّيَامَ ابْتِلَاءً لإِخْلَاصِ الْخَلْقِ - والْحَجَّ تَقْرِبَةً لِلدِّينِ - والْجِهَادَ عِزّاً لِلإِسْلَامِ - والأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَوَامِّ - والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعاً لِلسُّفَهَاءِ - وصِلَةَ الرَّحِمِ مَنْمَاةً لِلْعَدَدِ - والْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ - وإِقَامَةَ الْحُدُودِ إِعْظَاماً لِلْمَحَارِمِ

(۲۴۹)

بہترین عمل وہ ہے جس پر تمہیں(۱) اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے ۔

(۲۵۰)

میں نے پروردگار کو ارادوں کے ٹوٹ جانے ' نیتوں کے بدل جانے اورہمتوں کے پست ہو جانے سے پہچانا ہے۔

(۲۵۱)

دنیا کی تلخی آخرت کی شیرینی ہے اور دنیا کی شیرینی آخرت کی تلخی ۔

(۲۵۲)

اللہ نے ایمان کو لازم قراردیا ہے شرک سے پاک کرنے کے لئے۔اور نماز کو واجب کیا ہے غرور سے باز رکھنے کے لئے۔زکوٰة کو رزق کا وسیلہ قرار دیاہے اور روزہ کوآزمائش اخلاص کاوسیلہ ۔جہاد کواسلام کی عزت کے لئے رکھا ہے اور امر بالمعروف کو عوام کی مصلحت کے لئے۔نہی عن المنکر کو بیوقوفوں کو برائیوں سے روکنے کے لئے واجب کیا ہے اور صلہ رحم عدد میں اضافہ کے لئے ۔قصاص خون کے تحفظ کا وسیلہ ہے اور حدود کا قیام محرمات کی اہمیت کے سمجھانے کا

(۱)انسان تمام اعمال کونفسکی خواہش کے مطابق انجام دے گا تو ایک دن نفس کاغلام ہو کر رہ جائے گا لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسے اعمال انجام دیتا رہے جہاں نفس پر جبر کرنا پڑے اوراسے اس کی اوقات سے آشنا بناتا رہے تاکہ اس کے حوصلے اس قدربلند نہ ہوجائیںکہ انسان کو مکمل طور پراپنی گرفت میں لیلے اور پھرنجات کاکوئی راستہ نہ رہ جائے ۔

۷۰۲

وتَرْكَ شُرْبِ الْخَمْرِ تَحْصِيناً لِلْعَقْلِ - ومُجَانَبَةَ السَّرِقَةِ إِيجَاباً لِلْعِفَّةِ - وتَرْكَ الزِّنَى تَحْصِيناً لِلنَّسَبِ - وتَرْكَ اللِّوَاطِ تَكْثِيراً لِلنَّسْلِ - والشَّهَادَاتِ اسْتِظْهَاراً عَلَى الْمُجَاحَدَاتِ - وتَرْكَ الْكَذِبِ تَشْرِيفاً لِلصِّدْقِ - والسَّلَامَ أَمَاناً مِنَ الْمَخَاوِفِ - والأَمَانَةَ نِظَاماً لِلأُمَّةِ - والطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلإِمَامَةِ.

۲۵۳ - وكَانَعليه‌السلام يَقُولُ: أَحْلِفُوا الظَّالِمَ إِذَا أَرَدْتُمْ يَمِينَه - بِأَنَّه بَرِيءٌ

ذریعہ۔شراب خواری کو عقل کی حفاظت کے لئے حرام قراردیا ہے اورچوری سے اجتناب کو عفت کی حفاظت کے لئے لازم قرار دیا ہے۔ترک زنا کا لزوم نسب کی حفاظت کے لئے ہے اور ترک لواط(۱) کی ضرورت نسل کی بقا کے لئے ہے۔گواہیوں کو انکارکے مقابلہ میں ثبوت کا ذریعہ قراردیا گیا ہے اور ترک کذب کو صدق کی شرافت کا وسیلہ ٹھہرادیا گیا ہے۔قیام امن کو خطروں سے تحفظ کے لئے رکھا گیا ہے اور امامت کو ملت کی تنظیم کاوسیلہ قراردیا گیا ہے اور پھر اطاعت کو عظمت امامت کی نشانی قراردیا گیا ہے۔

(۲۵۳)

کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس طح قسم لو کہ وہ پروردگار کی طاقت اور قوت سے بیزار ہے اگر اس کا

(۱)یہ اسلام کا عالم انسانیت پر عمومی احسان ہے کہ اس نے اپنے قوانین کے ذریعہ انسانی آبادی کو بڑھانے کا انتظام کیا ہے اور پھرحرام زادوں کی درآمد کو روک دیا ہے تاکہ عالم انسانیت میں شریف افراد پیداہوں اور یہ عالم ہر قسم کی بربادی اور تباہکاری سے محفوظ رہے۔اس کے بعد اس کا صنف نسواں پر خصوصی احسان یہ ہے کہ اس نے عورت کے علاوہ جنسی تسکین کے ہر راستہ کوبند کردیا ہے۔کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان میں جب جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے تو اسے عورت کی ضرورت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور کسی بھی طرقہ سے جب وہ ہیجانی مادہنکل جاتا ہے تو کسی مقدار میں سکون حاصل ہو جاتا ہے اور جذبات کا طوفان ک جاتا ہے۔اہل دنیا نے اس مادہ کے اخراج کے مختلف طریقے ایجاد کئے ہیں۔اپنی جنس کاکوئی مل جاتا ہے تو ہم جنسی سے تسکین حاصل کر لیتے ہیں اور اگر کوئی نہیں ملتا ہے تو خود کاری کا عمل انجام دے لیتے ہیں اور اس طرح عورت کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج آزاد معاشروں میں عورت عضو معطل ہوکر رہ گئی ہے اور ہزار وسائل اختیارکرنے کے بعد بھی اس کے طلب گاروں کی فہرست کم سے کمتر ہوتی جارہی ہے۔اسلام نے اس خطرناک صورت حال کامقابلہ کرنے کے لئے مجامعت کے علاوہ ہر وسیلہ تسکین کو حرام کردیا تاکہ مرد عورت کے وجودسے بے نیاز نہ ہونے پائے اورعورت کاوجود معاشرہ میں غیر ضروری نہ قرار پا جائے ۔

افسوس کہ اس آزادی اور عیاشی کی ماری ہوئی دنیامیں اس پاکیزہ تصورکا قدردان کوئی نہیں ہے اور سب اسلام پر عورت کی ناقدری ہی کا الزام لگاتے ہیں ۔گویا ان کی نظر میں اسے کھولنا بنالینا اور کھیلنے کے بعد پھینک دینا ہی سب سے بڑی قدردانی ہے۔

۷۰۳

مِنْ حَوْلِ اللَّه وقُوَّتِه فَإِنَّه إِذَا حَلَفَ بِهَا كَاذِباً عُوجِلَ - الْعُقُوبَةَ وإِذَا حَلَفَ بِاللَّه الَّذِي لَا إِلَه إِلَّا هُوَ لَمْ يُعَاجَلْ - لأَنَّه قَدْ وَحَّدَ اللَّه تَعَالَى.

۲۵۴ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ كُنْ وَصِيَّ نَفْسِكَ - فِي مَالِكَ واعْمَلْ فِيه مَا تُؤْثِرُ أَنْ يُعْمَلَ فِيه مِنْ بَعْدِكَ.

۲۵۵ - وقَالَعليه‌السلام الْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِنَ الْجُنُونِ - لأَنَّ صَاحِبَهَا يَنْدَمُ - فَإِنْ لَمْ يَنْدَمْ فَجُنُونُه مُسْتَحْكِمٌ.

۲۵۶ - وقَالَعليه‌السلام صِحَّةُ الْجَسَدِ مِنْ قِلَّةِ الْحَسَدِ.

۲۵۷ - وقَالَعليه‌السلام لِكُمَيْلِ بْنِ زِيَادٍ النَّخَعِيِّ - يَا كُمَيْلُ مُرْ أَهْلَكَ أَنْ يَرُوحُوا فِي كَسْبِ الْمَكَارِمِ - ويُدْلِجُوا فِي حَاجَةِ مَنْ هُوَ نَائِمٌ - فَوَالَّذِي وَسِعَ سَمْعُه الأَصْوَاتَ -

بیان صحیح نہ ہو۔کہ اگ اس طرح جھوٹی قسم کھائے گا تو فوراً مبتلائے عذاب ہو جائے گا اور اگر خدائے وحدہ لا شریک کے نام کی قسم کھائی تو عذاب میں عجلت نہ ہوگی کہ بہرحال تو حید پروردگار کا اقرار کرلیا ہے۔

(۲۵۴)

فرزند آدم ! اپنے مال میں اپناوصی خود بن اور وہ کام خود انجام دے جس کے بارے میں امید رکھتا ہے کہ لوگ تیرے بعدانجام دے دیں گے ۔

(۲۵۵)

غصہ جنون کی ایک قسم ہے کہ غصہ ورکو بعد میں پشیمان ہونا پڑتا ہے اور پشیمان نہ ہو تو واقعاً اس کا جنون مستحکم ہے۔

(۲۵۶)

بدن کی صحت کا ایک ذریعہ حسد کی قلت بھی ہے۔

(۲۵۷)

اے کمیل! اپنے گھر والوں کو حکم دو کہ اچھی خصلتوں کو تلاش کرنے کے لئے دن میں نکلیں اور سوجانے والوں کی حاجت روائی کے لئے رات میں قیام کریں۔قسم ہے اس ذات کی جو ہر آواز کی سننے والی ہے کہ

۷۰۴

مَا مِنْ أَحَدٍ أَوْدَعَ قَلْباً سُرُوراً - إِلَّا وخَلَقَ اللَّه لَه مِنْ ذَلِكَ السُّرُورِ لُطْفاً - فَإِذَا نَزَلَتْ بِه نَائِبَةٌ جَرَى إِلَيْهَا كَالْمَاءِ فِي انْحِدَارِه - حَتَّى يَطْرُدَهَا عَنْه كَمَا تُطْرَدُ غَرِيبَةُ الإِبِلِ.

۲۵۸ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَمْلَقْتُمْ فَتَاجِرُوا اللَّه بِالصَّدَقَةِ.

۲۵۹ - وقَالَعليه‌السلام الْوَفَاءُ لأَهْلِ الْغَدْرِ غَدْرٌ عِنْدَ اللَّه - والْغَدْرُ بِأَهْلِ الْغَدْرِ وَفَاءٌ عِنْدَ اللَّه.

کوئی شخص کسی دل میں سرور وارد نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ پروردگار اس کے لئے اس سرور سے ایک لطف پیداکر دیتا ہے۔کہ اس کے بعد اگر اس پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے ۔تو وہ لطف(۱) اس کی طرف نشیب کی جانب بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھتا ہے اور اس مصیبت کو یوں ہنکا دیتا ہے جس طرح اجنبی اونٹ ہنکائے جاتے ہیں۔

(۲۵۸)

جب غربت کا شکار ہوجائو تو اللہ سے صدقہ کے ذریعہ تجارت(۲) کرلو(صدقہ صرف دولت مندوں کے لئے نہیں ہے )

(۲۵۹)

غداروں سے وفاداری بھی اللہ کے نزدیک ایک قسم کی غداری ہے اور غداروں سے بیوفائی ایک طرح کی وفاداری ہے۔

(۱)لطف پروردگار کا بہترین وسیلہ مومنین کے دلوں میں سرور کا داخل کرنا ہے اور ادخال سرور کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کی جاجت برآری کے لئے اس وقت کا انتخاب کیا جائے جب ساری دنیا خواب غفلت میں ہو کہ اس طرح کا رخیر کرنے والے کے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے اور غریب وفقر انسان کی عزت وآبرو کاتحفظ ہوتا ہے اوراسے اس کارخیرسے فرحت بھی زیادہ حاصل ہوتی ہے کہ وہ دن بھر کی تگ و دو سے عاجز اور مایوس ہوکر بستر خواب کی طرف آیا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ایسے اوقات میں کار خیرکی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔

(۲)عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صدقہ اورکارخیر صرف بڑے لوگوں کے لئے ہے اورغریبوں کاکام صرف صدقات و خیرات کا گزارا کرنا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔دنیا میں جس طرح ہر امیر سے بڑا امیر پڑا ہوا ہے اسی طرح ہر فقیر سے بڑا فقیر بھی پایا جاتا ہے۔لہٰذا کوئی بھی انسان اگر کسی امیر کے اعتبارسے فقیر اورمحتاج خیرات ہے تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے فقیر کے اعتبارسے دولت مند اور مطمئن تصور کیاجاتا ہولہٰذا اس کا فرض ہے کہ اپنے سے کمتر افراد پر رحم کرے تاکہ پروردگار اس کی غربت پر مزیدرحم کرے کہ غربت کے عالم میں کارخیر دولت مندوں کے کارخیر سے یقینا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

۷۰۵

۲۶۰ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه - ومَغْرُورٍ بِالسَّتْرِ عَلَيْه - ومَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه - ومَا ابْتَلَى اللَّه سُبْحَانَه أَحَداً بِمِثْلِ الإِمْلَاءِ لَه.

قال الرضي - وقد مضى هذا الكلام فيما تقدم - إلا أن فيه هاهنا زيادة جيدة مفيدة

(۲۶۰)

کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں احسان کے ذریعہ عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور وہ پردہ پوشی(۱) کی بنا پر دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں اورلوگوں کے اچھے الفاظ سن کرف ریب خوردہ ہوگئے ہیں۔اللہ نے کسی بھی شخص کا امتحان مہلت سے زیادہ بہتر کسی ذریعہ سے نہیں لیا ہے ۔

سید رضی : یہ بات پہلے گذر چکی تھی لیکن اس میں قدرے مفید اضافہ تھا اس لئے دوبارہ نقل کردی گئی ہے۔

(۱)خدا جانتا ہے کہ مالک کائنات اگرجبر کے ذریعہ انسان کو راہ راست پرلانا چاہتا تواسے طاقت استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور کسی کے سر پر جلادوں کے مسلط کرنے کا کوئی کام نہیں تھا۔وہ صرف عیوب کی پردہ پوشی کا سلسلہ ختم کردیتا اور ایک نظام بنادیتا کہ جو انسان بھی خلوت اور تنہائی میں کوئی غلط کام انجام دے گا یا اپنے دل و دماغ میں کسی غلط تصور کوجگہ دے گا۔اس کے اس عیب کا فوری اعلان کردیا جائے گا۔اور اسے اس کی پیشانی پر لکھ دیا جائے گا۔تو سارے انسان ایک لمحہ میں شریف ہو جاتے ہیں اور نہ کسی میں غداری اورمکاری کی ہمت ہوتی اورنہ کوئی منافقت اور ریاکاری سے کام لینے کی جرأت کرتا۔ہر انسان شریف ہوتا اور معاشرہ پاکیزہ کرداروں کا معاشرہ ہوتا لیکن وہ کسی طرح کے جبرو اکراہ کو استعمال نہیں کرنا چاہتا ہے اور انسان سے اسی کی شرافت کے راستہ سے کام لینا چاہتا ہے۔ورنہ جبرو اکراہ کو استعمال کرنا ہوتا تو شیطان سے بھی سجدہ کرایا جاتا تھا اور اسے اس قدر مہلت دینے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

۷۰۶

فصل

نذكر فيه شيئا من غريب كلامه المحتاج إلى التفسير

۱ - وفي حديثهعليه‌السلام

فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ ضَرَبَ يَعْسُوبُ الدِّينِ بِذَنَبِه - فَيَجْتَمِعُونَ إِلَيْه كَمَا يَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ.

قال الرضي - يعسوب الدين اليعسوب - السيد العظيم المالك لأمور الناس يومئذ - والقزع قطع الغيم التي لا ماء فيها.

۲ - وفي حديثهعليه‌السلام

هَذَا الْخَطِيبُ الشَّحْشَحُ.

يريد الماهر بالخطبة الماضي فيها - وكل ماض في كلام أو سير فهو شحشح - والشحشح في غير هذا الموضع البخيل الممسك

۳ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ لِلْخُصُومَةِ قُحَماً.

يريد بالقحم المهالك -

فصل

اس فصل میں حضرت کے ان کلمات کو نقل کیا گیا ہے جو محتاج تفسیر تھے اور پھر ان کی تفسیر و توضیح بھی نقل کیا گیا ہے۔

(۱)

جب وہ وقت آئے گا تو دین کا یعسوب اپنی جگہ پر قرار پائے گا اور لوگ اس کے پاس اس طرح جمع ہوں گے جس طرح موسم خریف کے قزع۔

سید رضی : یعسوب اس سردار کو کہا جاتا ہے جوت مام امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اور قزع بادلوں کے ان ٹکڑوں کا نام ہے جن میں پانی نہ ہو۔

(۲)

یہ خطیب شحشح ( صعصعہ بن صوحان عبدی)

شحشح اس خطیب کو کہتے ہیں جوخطابت میں ماہر ہوتا ہے اور زبان آوری یا رفتار میں تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر شحشح بخیل اور کنجوس کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

(۳)

لڑائی جھگڑے کے نتیجہ میں قحم ہوتے ہیں۔

قحم سے مراد تباہیاں ہیں۔کہ یہ لوگوں کی

۷۰۷

لأنها تقحم أصحابها في المهالك والمتالف في الأكثر - فمن ذلك قحمة الأعراب - وهو أن تصيبهم السنة فتتعرق أموالهم - فذلك تقحمها فيهم - وقيل فيه وجه آخر وهو أنها تقحمهم بلاد الريف - أي تحوجهم إلى دخول الحضر عند محول البدو.

۴ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِذَا بَلَغَ النِّسَاءُ نَصَّ الْحِقَاقِ فَالْعَصَبَةُ أَوْلَى.

والنص منتهى الأشياء ومبلغ أقصاها - كالنص في السير لأنه أقصى ما تقدر عليه الدابة - وتقول نصصت الرجل عن الأمر - إذا استقصيت مسألته عنه لتستخرج ما عنده فيه - فنص الحقاق يريد به الإدراك لأنه منتهى الصغر - والوقت الذي يخرج منه الصغير إلى حد الكبير - وهو من أفصح الكنايات عن هذا الأمر وأغربها - يقول فإذا بلغ النساء ذلك - فالعصبة أولى بالمرأة من أمها - إذا كانوا محرما مثل الإخوة والأعمام - وبتزويجها إن أرادوا ذلك -. والحقاق محاقة الأم للعصبة في المرأة - وهو الجدال والخصومة - وقول كل واحد منهما للآخر أنا أحق منك بهذا - يقال منه حاققته حقاقا مثل جادلته جدالا –

وقد قيل إن نص الحقاق بلوغ العقل وهو الإدراك - لأنهعليه‌السلام إنما أراد منتهى الأمر - الذي تجب فيه الحقوق والأحكام

ہلاکتوں میں گرادیتی ہیں اور اسی سے لفظ '' قحمتہ الاعراب '' نکلا ہے جب ایسا قحط پڑ جاتا ہے کہ جانور صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہجاتے ہیں اور گویا یہاس بلا میں ڈھکیل دئیے جاتے ہیں ۔یادوسرے اعتبارسے قحط سالی ان کی صحرائوں سے نکال کر شہروں کی طرف ڈھکیل دیتی ہے۔

(۴)

جب لڑکیاں نص الحقاق تکپ ہنچ جائیں تو ددھیالی قرابتدار زیادہ اولویت رکھتے ہیں۔

نص : آخری منزل کو کہا جاتا ہے۔

نصصت الرجل: یعنی جہاں تک ممکن تھا اس سے سوال کرلیا۔نص الحقاق سے مراد منزل ادراک ہے جو بچپنے کی آخری حد ہے اور یہاس سلسلہ کا بہترین کنایہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جب لڑکیاں حد بلوغ تک پہنچ جاتیں ہیں تو ددھیالی رشتہ دار جو محرم بھی ہوں جیسے بھائی اورچچا وغیرہ وہ اس کا رشتہ کرنے کے لئے ماں کے مقابلہ میں زیادہ اولویت رکھتے ہیں۔اور حقاق سے ماں کا ان رشتہ داروں سے جھگڑا کرنا اور ہرایک کا اپنے کو زیادہ حقدار ثابت کرنا مراد ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے '' حاققتہ حقاقا'' جادلتہ جدالا''

اوربعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نص الحقاق کمال عقل ہے جب لڑکی ادراک کی اس منزل پر ہوتی ہے جہاں اس کے ذمہ فرائض واحکام ثابت ہو جاتے ہیں اور

۷۰۸

ومن رواه نص الحقائق - فإنما أراد جمع حقيقة.

هذا معنى ما ذكره أبو عبيد القاسم بن سلام -. والذي عندي أن المراد بنص الحقاق هاهنا - بلوغ المرأة إلى الحد الذي يجوز فيه تزويجها - وتصرفها في حقوقها - تشبيها بالحقاق من الإبل وهي جمع حقة وحق - وهو الذي استكمل ثلاث سنين ودخل في الرابعة - وعند ذلك يبلغ إلى الحد الذي يتمكن فيه - من ركوب ظهره ونصه في السير - والحقائق أيضا جمع حقة - فالروايتان جميعا ترجعان إلى معنى واحد - وهذا أشبه بطريقة العرب من المعنى المذكور أولا.

۵ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ الإِيمَانَ يَبْدُو لُمْظَةً فِي الْقَلْبِ - كُلَّمَا ازْدَادَ الإِيمَانُ ازْدَادَتِ اللُّمْظَةُ.

واللمظة مثل النكتة أو نحوها من البياض - ومنه قيل فرس ألمظ - إذا كان بجحفلته شيء من البياض. 

جن لوگوں نے نص الحقائق نقل کیا ہے۔ان کے یہاں حقائق حقیقت کی جمع ہے۔یہ ساری باتیں ابو عبیدہ القاسم بن سلام نے بیان کی ہیں لیکن میرے نزدیک عورت کا قابل شادی اور قابل تصرف ہو جانا مراد ہے کہ حقاق حقہ کی جمع ہے اورحقہ وہ اونٹنی ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو جائے اور اس وت سواری کے قابل ہو جاتی ہے ۔اور حقائق بھی حقہ ہی کے جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہ مفہوم عرب کے اسلوب سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔

(۵)

ایمان ایک لمظہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر ایمان کے ساتھ یہ لمظہ بھی بڑھتا رہتا ہے ( لمظہ سفید نقطہ ہوتا ہے جو گھوڑے کے ہونٹ پر ظاہر ہوتا ہے )

۷۰۹

۶ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا كَانَ لَه الدَّيْنُ الظَّنُونُ - يَجِبُ عَلَيْه أَنْ يُزَكِّيَه لِمَا مَضَى إِذَا قَبَضَه.

فالظنون الذي لا يعلم صاحبه - أيقبضه من الذي هو عليه أم لا - فكأنه الذي يظن به - فمرة يرجوه ومرة لا يرجوه - وهذا من أفصح الكلام - وكذلك كل أمر تطلبه - ولا تدري على أي شيء أنت منه فهو ظنون - وعلى ذلك قول الأعشى:

ما يجعل الجد الظنون الذي

جنب صوب اللجب الماطر

مثل الفراتي إذا ما طما

يقذف بالبوصي والماهر

والجد البئر العادية في الصحراء - والظنون التي لا يعلم هل فيها ماء أم لا.

۷ - وفي حديثهعليه‌السلام

أنَّه شَيَّعَ جَيْشاً بِغَزْيَةٍ فَقَالَ - اعْذِبُوا عَنِ النِّسَاءِ مَا اسْتَطَعْتُمْ.

(۶)

جب کسی شخص کو دین ظنون مل جائے تو جتنے سال گزرے گئے ہوں ان کی زکوٰة واجب ہے۔

ظنون اس قرض کا نام ہے جس کے قرضدار کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ وصول بھی ہو سکے گا یا نہیں اور اس طرح ' طرح طرح کے خیالات پیدا ہو تے رہتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہر ایسے امر کو ظنون کہا جاتا ہے 'جیسا کہ اعشیٰ نے کہا ہے۔

''وہ جدظنون جو گرج کربرسنے والے ابر کی بارش سے بھی محروم ہو۔اسے دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جا سکتا ے جب کہ وہ ٹھاٹھیں مار رہا ہو اور کشتی اور تیراک دونوں کوڈھکیل کر باہر پھینک رہا ہو۔''

جد۔صحراکے پرانے کنویں کوکہاجاتا ہے اور ظنون اس کوکہا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ نہ معلوم ہو کہ اس میں پانی ہے یا نہیں ۔

(۷)

آپ نے ایک لشکر کومیدان جنگ میں بھیجتے ہوئے فرمایا : جہاں تک ممکن ہو عورتوں سے عاذبرہو یعنی ان کی یاد سے دور رہو

۷۱۰

ومعناه اصدفوا عن ذكر النساء وشغل القلب بهن - وامتنعوا من المقاربة لهن - لأن ذلك يفت في عضد الحمية - ويقدح في معاقد العزيمة ويكسر عن العدو - ويلفت عن الإبعاد في الغزو - فكل من امتنع من شيء فقد عذب عنه - والعاذب والعذوب الممتنع من الأكل والشرب.

۸ - وفي حديثهعليه‌السلام

كَالْيَاسِرِ الْفَالِجِ يَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزَةٍ مِنْ قِدَاحِه. الياسرون - هم الذين يتضاربون بالقداح على الجزور - والفالج القاهر والغالب - يقال فلج عليهم وفلجهم - وقال الراجز.

لما رأيت فالجا قد فلجا

۹ - وفي حديثهعليه‌السلام

كُنَّا إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنَّا أَقْرَبَ إِلَى الْعَدُوِّ مِنْه.

۔ان میں دل مت لگائو اور ان سے مقاربت مت کرو کہ یہ طریقہ کار بازوئے حمیت میں کمزوری اور عزم کی پختگی میں سستی پیدا کردیتا ہے اور دشمن کے مقابلہ میں کمزور بنا دیتا ہے اور جنگ میں کوشش و سعی سے رو گردان کر دیتا ہے اورجوان تمام چیزوں سے الگ رہتا ہے اسے عاذب کہا جاتا ہے۔عاذب یا عذوب کھانے پینے سے دور رہنے والے کوبھی کہا جاتا ہے۔

(۸)

وہ اس یاسر فالج کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ہی مرحلہ پر کامیابی کی امید لگا لیتا ہے '' یا سرون '' وہ لوگ ہیں جونحرکی ہوئی اونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ہیں اورفالج ان میں کامیاب ہو جانے والے کو کہا جاتا ہے '' فلج علیھم '' یا '' فلجھم'' اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب کوئی غالب آجاتا ہے 'جیسا کہ رجز خواں شاعر نے کہا ہے :

'' جب میں نے کسی فالج کو دیکھا کہ وہ کامیاب ہوگیا''

(۹)

جب احمرار باس ہوتا تھا تو ہم لوگ رسول اکرم(ص) کی(۱) پناہ میں رہا کرتے تھے اور کوئی شخص بھی آپ سے زیادہ دشمن سے قریب نہیں ہوتا تھا ''

(۱)پیغمبر اسلام (ص) کاکمال احترام ہے کہ حضرت علی جسے اشجع عرب نے آپ کے بارے میں یہ بیان دیا ہے اورآپ کی عظمت و ہیبت وشجاعت کااعلان کیا ہے ۔دوسراکوئی ہوتا تو اس کے برعکس بیان کرتا کہ میدان جنگ میں سرکار ہماری پناہ میں رہا کرتے تھے اورہم نہ ہوتے توآپ کاخاتمہ ہو جاتا لیکن امیرالمومنین جیسا صاحب کرداراس انداز کا بیان نہیں دے سکتا ہے اور نہ یہ سوچ سکتا ہے ۔آپ کی نظرمیں انسان کتنا ہی بلند کردار اورصاحب طاقت و ہمت کیوں نہ ہو جائے سرکار دو عالم (ص) کا امتی ہی شمار ہوگا اور امتی کا مرتبہ پیغمبر (ص) سے بلند تر نہیں ہو سکتا ہے۔

۷۱۱

ومعنى ذلك أنه إذا عظم الخوف من العدو - واشتد عضاض الحرب - فزع المسلمون إلى قتال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنفسه - فينزل الله عليهم النصر به - ويأمنون مما كانوا يخافونه بمكانه.

وقوله إذا احمر البأس - كناية عن اشتداد الأمر - وقد قيل في ذلك أقوال - أحسنها أنه شبه حمي الحرب - بالنار التي تجمع الحرارة والحمرة بفعلها ولونها - ومما يقوي ذلك - قول رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وقد رأى مجتلد الناس - يوم حنين وهي حرب هوازن - الآن حمي الوطيس - فالوطيس مستوقد النار - فشبه رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ما استحر من جلاد القوم - باحتدام النار وشدة التهابها.

انقضى هذا الفصل ورجعنا إلى سنن الغرض الأول في هذا الباب.

۲۶۱ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا بَلَغَه إِغَارَةُ أَصْحَابِ مُعَاوِيَةَ عَلَى الأَنْبَارِ - فَخَرَجَ بِنَفْسِه مَاشِياً حَتَّى أَتَى النُّخَيْلَةَ - وأَدْرَكَه النَّاسُ

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دشمن کاخطرہ بڑھ جاتا تھا اور جنگ کی کاٹ شدید ہو جاتی تھی تو مسلمان میدان میں رسول اکرم (ص) کی پناہ تلاش کیا کرتے تھے اور آپ پر نصرت الٰہی کا نزول ہو جاتا تھا اور مسلمانوں کو امن و امان حاصل ہوجاتا تھا۔

احمر الباس درحقیقت سختی کا کنایہ ہے۔جس کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں اور سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جنگ کی تیزی اور گرمی کو آگیس تشبیہ دی گئی ہے جس میں گرمی اور سرخی دونوں ہوتی ہیں اوراس کا موید سرکار دو عالم (ص) کا یہ ارشاد ہے کہ آپ نے حنین کے دن قبیلہ بنی ہوازن کی جنگ میں لوگوں کوجنگ کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اب وطیس گرم ہوگیا ہے یعنی آپ نے میدان کا رزار کی گرم بازاری کو آگ کے بھڑکنے اور اس کے شعلوں سے تشبیہ دی ہے۔کہ وطیس اس جگہ کوکہتے ہیں جہاں آگ بھڑکائی جاتی ہے۔

یہ فصل تمام ہوگئی اورپھر گذشتہ باب کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے ۔

(۲۶۱)

جب آپ کو اطلاع دی گئی کہ معاویہ کے اصحاب نے انبار پر حملہ کردیا ہے تو آپ بہ نفس نفیس نکل کر نخیلہ تک تشریف لے گئے اور کچھ لوگ بھی آپ کے

۷۱۲

وقَالُوا - يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ نَحْنُ نَكْفِيكَهُمْ - فَقَالَ:

مَا تَكْفُونَنِي أَنْفُسَكُمْ - فَكَيْفَ تَكْفُونَنِي غَيْرَكُمْ - إِنْ كَانَتِ الرَّعَايَا قَبْلِي لَتَشْكُو حَيْفَ رُعَاتِهَا - وإِنَّنِي الْيَوْمَ لأَشْكُو حَيْفَ رَعِيَّتِي - كَأَنَّنِي الْمَقُودُ وهُمُ الْقَادَةُ - أَوِ الْمَوْزُوعُ وهُمُ الْوَزَعَةُ !

فلما قالعليه‌السلام هذا القول في كلام طويل - قد ذكرنا مختاره في جملة الخطب - تقدم إليه رجلان من أصحابه - فقال أحدهما إني لا أملك إلا نفسي وأخي - فمر بأمرك يا أمير المؤمنين ننقد له - فقالعليه‌السلام

وأَيْنَ تَقَعَانِ مِمَّا أُرِيدُ

۲۶۲ - وقِيلَ إِنَّ الْحَارِثَ بْنَ حَوْطٍ أَتَاه فَقَالَ - أَتَرَانِي أَظُنُّ أَصْحَابَ الْجَمَلِ كَانُوا عَلَى ضَلَالَةٍ ؟

فَقَالَعليه‌السلام يَا حَارِثُ إِنَّكَ نَظَرْتَ تَحْتَكَ ولَمْ تَنْظُرْ فَوْقَكَ

ساتھ پہنچ گئے اورکہنے لگے کہ آپ تشریف رکھیں۔ہم لوگ ان دشمنوں کے لئے کافی ہیں ۔تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے لئے کافی نہیں ہو تو دشمن کے لئے کیا کافی ہو سکتے ہو۔تم سے پہلے رعایا حکام کے ظلم سے فریادی تھی اورآج میں رعایا کے ظلم سے فریاد کر رہا ہوں۔جیسے کہ یہی لوگ قائد ہیں اور میں رعیت ہوں۔میں حلقہ بگوش ہوں اوریہ فرمانروا۔

جس وقت آپ نے یہ کلام ارشاد فرمایا جس کا ایک حصہ خطبوں کے ذیل میں نقل کیا جا چکا ہے تو آپکے اصحاب میں سے دو افراد آگے بڑھے جن میں سے ایک نے کہا کہ میں اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں۔آپ حکم دیں ہم تعمیل کے لئے تیار ہیں آپ نے فرمایا کہ میں جو کچھ چاہتا ہوں تمہارا اس سے کیا تعلق ہے۔

(۲۶۲)

کہا جاتا ہے کہ حارث بن جوط نے آپ کے پاس آکر یہ کہا کہ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ میں اصحاب جمل کو گمراہ مان لوں گا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اے حارث! تم نے اپنے نیچے(۱) کی طرف دیکھاہے اوراوپر نہیں دیکھا ہے

(۱)یہ بات اس شخص سے کہی جاتی ہے جس کی نگاہ انتہائی محدود ہوتی ہے اورانپے زیر قدم اشیاء سے زیادہ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ورنہ انسان کی نگاہ بلندہو جائے تو بہت سے حقاق کا ادراک کر سکتی ہے۔حارث کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس نے صرف ام المومنین کی زوجیت پر نگاہ کی ہے اور طلحہ و زبیر کی صحابیت پر۔اورایسی محدود نگاہ رکھنے والا انسان حقاق کا ادراک نہیں کر سکتا ہے۔حقائق کا معیار قرآن و سنت ہے جس میں زوجہ کو گھرمیں بیٹھنے کی تلقین کی گئی ہے اور انسان کو بیعت شکنی سے منع کیا گیا ہے۔حقائق کامعیار کسی کی زوجیت یا صحابیت نہیں ہے ' ورنہ زوجہ نوح اور زوجہ لوط کو قابل مذمت نہ قراردیا جاتا اور اصحاب موسیٰ کی صریحی مذمت نہ کی جاتی ۔

۷۱۳

فَحِرْتَ - إِنَّكَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاه ولَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاه.

فَقَالَ الْحَارِثُ فَإِنِّي أَعْتَزِلُ مَعَ سَعِيدِ بْنِ مَالِكٍ وعَبْدِ اللَّه بْنِ عُمَرَ - فَقَالَعليه‌السلام

إِنَّ سَعِيداً وعَبْدَ اللَّه بْنَ عُمَرَ لَمْ يَنْصُرَا الْحَقَّ - ولَمْ يَخْذُلَا الْبَاطِلَ.

۲۶۳ - وقَالَ عليهلسلام صَاحِبُ السُّلْطَانِ كَرَاكِبِ الأَسَدِ - يُغْبَطُ بِمَوْقِعِه وهُوَ أَعْلَمُ بِمَوْضِعِه.

۲۶۴ - وقَالَعليه‌السلام أَحْسِنُوا فِي عَقِبِ غَيْرِكُمْ تُحْفَظُوا فِي عَقِبِكُمْ

۲۶۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ كَلَامَ الْحُكَمَاءِ إِذَا كَانَ صَوَاباً كَانَ دَوَاءً - وإِذَا كَانَ خَطَأً كَانَ دَاءً.

۲۶۶ - وسَأَلَه رَجُلٌ أَنْ يُعَرِّفَه الإِيمَانَ

اسی لئے حیران ہوگئے ہو۔تم حق ہی کو نہیں پہچانتے ہو تو کیا جانو کہ حقدار کون ہے اور باطل ہی کو نہیں جانتے ہو تو کیا جانو کہ باطل پرست کون ہے ۔

حارث نے کہا کہ میں سعید بن مالک اورعبداللہ بن عمر کے ساتھ گوشہ نشین ہوجائوں گا توآپنے فرمایاکہ سعید اورعبداللہ بن عمرنے نہ حق کی مدد کی ہے اورنہ ابطل کو نظر انداز کیا ہے (نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے )

(۲۶۳)

بادشاہ کا مصاحب(۱) شیرکاسوار ہوتا ہے کہ لوگ اس کے حالات پر رشک کرتے ہیں اور وہ خود اپنی حالت کو بہتر پہچانتا ہے۔

(۲۶۴)

دوسروں کے پسماندگان سے اچھا برتائو کرو تاکہ لوگ تمہارے پسماندگان کے ساتھ بھی اچھا برتائو کریں ۔

(۲۶۵)

حکماء کا کلام درست ہوتا ہے تو دوا بن جاتا ہے اور غلط ہوتا ہے تو بیماری بن جاتا ہے ۔

(۲۶۶)

ایک شخص نے آپ سے مطالبہ کیا کہ ایمان کی تعریف فرمائیں

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ مصاحبتکی زندگی دیکھنے میں انتہائی حسین دکھائی دیتی ہے کہ سارا امرو نہی کا نظام بظاہرمصاحب کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن اسکاواقعی حیثیت کیا ہوتی ہے یہ اسی کادل جانتا ہے کہ نہ صاحب اقتدار کے مزاج کا کوئی بھروسہ ہوتاہے اور نہ مصاحبت کے عہدہ اقتدارکا۔

رب کریم ہر انسان کوایسی بلائوں سے محفوظ رکھے جن کا ظاہر انتہائی حسین ہوتا ہے اور واقع انتہائی سنگین اور خطر ناک۔

۷۱۴

فَقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَ الْغَدُ - فَأْتِنِي حَتَّى أُخْبِرَكَ عَلَى أَسْمَاعِ النَّاسِ - فَإِنْ نَسِيتَ مَقَالَتِي حَفِظَهَا عَلَيْكَ غَيْرُكَ - فَإِنَّ الْكَلَامَ كَالشَّارِدَةِ يَنْقُفُهَا هَذَا ويُخْطِئُهَا هَذَا.

وقد ذكرنا ما أجابه به - فيما تقدم من هذا الباب وهو قوله - الإيمان على أربع شعب.

۲۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ لَا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذِي لَمْ يَأْتِكَ - عَلَى يَوْمِكَ الَّذِي قَدْ أَتَاكَ - فَإِنَّه إِنْ يَكُ مِنْ عُمُرِكَ يَأْتِ اللَّه فِيه بِرِزْقِكَ.

۲۶۸ - وقَالَعليه‌السلام أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْناً مَا - عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْماً مَا - وأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْناً مَا - عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْماً مَا.

توفرمایا کہ کل آنا تومیں مجمع عام میں بیان کروں گا تاکہ تم بھول جائو تو دوسرے لوگ محفوظ رکھ سکیں۔ اس لئے کہ کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتا ہے کہ ایک پکڑ لیتا ہے اورایک کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ( مفصل جواب اس سے پہلے ایمان کے شعبوں کے ذیل میں نقل کیا جا چکا ہے )

(۲۶۷)

فرزند آدم ! اس دن کاغم جو ابھی نہیں آیا ہے اس دن پر مٹ ڈالو جوآچکا ہے۔کہ اگر وہ تمہاری عمرمیں شامل ہوگا تو اس کا رزق بھی اس کے ساتھ ہی آئے گا۔

(۲۶۸)

اپنے دوست سے ایک محدود حد تک دوستی کرو کہیں ایسا(۱) نہ کہ ایک دن دشمن ہو جائے اوردشمن سے بھی ایک حد تک دشمنی کرو شائد ایک دن دوست بن جائے ( تو شرمندگی نہ ہو)

(۱)یہ ایک انتہائی عظیم معاشرتی نکتہ ہے جس کا اندازہ ہراس انسان کو ہے جس نے معاشرہ میں آنکھ کھول کر زندگی گذاری ہے اوراندھوں جیسی زندگی نہیں گذاری ہے۔اس دنیاکے سردو گرم کا تقاضا یہی ہے کہ یہاں افراد سے ملنا بھی پڑتا ہے اور کبھی الگ بھی ہونا پڑتا ہے۔لہٰذا تقاضائے عقل مندی یہی ہے کہ زندگی میں ایسا اعتدال رکھے کہاگر الگ ہونا پڑے تو سارے اسرار دوسرے کے قبضہ میں نہ ہوں کہ اس کا غلام بن کر رہ جائے اوراگرملنا پڑے تو ایسے حالات نہ ہوں کہ شرمندگی کے علاوہ اورکچھ ہاتھ نہ آئے ۔

۷۱۵

۲۶۹ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ فِي الدُّنْيَا عَامِلَانِ - عَامِلٌ عَمِلَ فِي الدُّنْيَا لِلدُّنْيَا - قَدْ شَغَلَتْه دُنْيَاه عَنْ آخِرَتِه - يَخْشَى عَلَى مَنْ يَخْلُفُه الْفَقْرَ ويَأْمَنُه عَلَى نَفْسِه - فَيُفْنِي عُمُرَه فِي مَنْفَعَةِ غَيْرِه - وعَامِلٌ عَمِلَ فِي الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا - فَجَاءَه الَّذِي لَه مِنَ الدُّنْيَا بِغَيْرِ عَمَلٍ - فَأَحْرَزَ الْحَظَّيْنِ مَعاً ومَلَكَ الدَّارَيْنِ جَمِيعاً - فَأَصْبَحَ وَجِيهاً عِنْدَ اللَّه - لَا يَسْأَلُ اللَّه حَاجَةً فَيَمْنَعُه.

۲۷۰ - ورُوِيَ أَنَّه ذُكِرَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي أَيَّامِه - حَلْيُ الْكَعْبَةِ وكَثْرَتُه فَقَالَ قَوْمٌ:لَوْ أَخَذْتَه فَجَهَّزْتَ بِه جُيُوشَ الْمُسْلِمِينَ - كَانَ أَعْظَمَ لِلأَجْرِ ومَا تَصْنَعُ الْكَعْبَةُ بِالْحَلْيِ - فَهَمَّ عُمَرُ بِذَلِكَ وسَأَلَ عَنْه أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - فَقَالَعليه‌السلام :

(۲۶۹)

دنیا میں دو طرح کے عمل کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ایک وہ ہے جو دنیا میں دنیا ہی کے لئے کام کرتا ہے اوراسے دنیا نے آخرت سے غافل بنادیا ہے وہ اپنے بعد والوں(۱) کے فقرسے خوفزدہ رہتا ہے اور اپنے بارے میں بالکل مطمئن رہتا ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری زندگی دوسروں کے فائدہ کے لئے فنا کر دیتا ہے۔اور ایک شخص وہ ہوتا ہے جو دنیا میں اس کے بعد کے لئے عمل کرتا ہے اوراسے دنیا بغیر عمل کے مل جاتی ہے۔وہ دنیا و آخرت دونوں کو پالیتا ہے اوردونوں گھروں کامالک ہو جاتا ہے ۔ خدا کی بارگاہ میں سر خرو ہوجاتا ہے اور کسی بھی حاجت کاسوال کرتا ہ تو پروردگار اسے پورا کردیتا ہے۔

(۲۷۰)

روایت میں وارد ہوا ہے کہ عمر بن الخطاب کے سامنے ان کے دور حکومت میں خانۂ کعبہ کے زیورات اوران کی کثرت کا ذکر کیا گیا اور ایک قوم نے یہ تقاضا کیا کہ اگر آپ ان زیورات کو مسلمانوں کے لشکر پرصرف کردیں تو بہت بڑا اجرو ثواب ملے گا،کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے؟تو انہوں نے اس رائے کو پسند کرتے ہوئے حضرت امیر سے دریافت کرلیا۔آپ نے فرمایا

(۱)دور قدیم میں اس کا نام دور اندیشی رکھا جاتاتھا جہاں انسان صبح و شام محنت کرنے کے باوجود نہ مال اپنی دنیا پر صرف کرتا تھا اور نہ آخرت پر۔بلکہ اپنے وارثوں کے لئے ذخیرہ بنا کر چلا جاتا تھا اس غریب کو یہ احساس بھی نہیں تھاکہ جب اسے خود اپنی عاقبت بنانے کی فکر نہیں ہے تو ورثاء کو اس کی عاقبت سے کیادلچسپی ہوسکتی ہے۔وہ تو ای کمال غنیمت کے مالک ہوگئے ہیں اور جس طرح چاہیں گے اسی طرح صرف کریں گے ۔

۷۱۶

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - والأَمْوَالُ أَرْبَعَةٌ أَمْوَالُ الْمُسْلِمِينَ - فَقَسَّمَهَا بَيْنَ الْوَرَثَةِ فِي الْفَرَائِضِ - والْفَيْءُ فَقَسَّمَه عَلَى مُسْتَحِقِّيه - والْخُمُسُ فَوَضَعَه اللَّه حَيْثُ وَضَعَه - والصَّدَقَاتُ فَجَعَلَهَا اللَّه حَيْثُ جَعَلَهَا - وكَانَ حَلْيُ الْكَعْبَةِ فِيهَا يَوْمَئِذٍ - فَتَرَكَه اللَّه عَلَى حَالِه - ولَمْ يَتْرُكْه نِسْيَاناً ولَمْ يَخْفَ عَلَيْه مَكَاناً - فَأَقِرَّه حَيْثُ أَقَرَّه اللَّه ورَسُولُه - فَقَالَ لَه عُمَرُ لَوْلَاكَ لَافْتَضَحْنَا - وتَرَكَ الْحَلْيَ بِحَالِه.

۲۷۱ - رُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام رُفِعَ إِلَيْه رَجُلَانِ سَرَقَا مِنْ مَالِ اللَّه - أَحَدُهُمَا عَبْدٌ مِنْ مَالِ اللَّه - والآخَرُ مِنْ عُرُوضِ النَّاسِ.

فَقَالَعليه‌السلام أَمَّا هَذَا فَهُوَ مِنْ مَالِ اللَّه ولَا حَدَّ عَلَيْه - مَالُ اللَّه أَكَلَ بَعْضُه بَعْضاً -

کہ یہ قرآن پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہواہے اور آپ کے دورمیں اموال کی چار قسمیں تھیں۔ایک مسلمان کاذاتی مال تھا جسے حسب فرائض و رثاء میں تقسیم کردیا کرتے تھے ۔ایک بیت المال کامال تھاجسے مستحقین میں تقسیم کرتے تھے ۔ایک خمس تھا جسے اس کے حقداروں کے حوالہ کردیتے تھے ۔اور کچھ صدقات تھے جنہیں انہیں کے محل پر صرف کیاکرتے تھے ۔کعبہ کے زیورات اس وقت بھی موجود تھے اورپروردگار نے انہیں اسی حالت میں چھوڑ رکھا تھا۔نہ رسول اکرم (ص) انہیں بھولے تھے اور نہان کا وجود آپ سے پوشیدہ تھا۔لہٰذا انہیں اسی حالت پر رہنے دیں جس حالت پرخدا(۱) اور رسول(ص) نے رکھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ عمر نے کہا آج اگر آپ نہ ہوتے تو میں رسوا ہوگیا ہوتا اور یہ کہہ کر زیورات کو ان کی جگہ چھوڑ دیا۔

(۲۷۱)

کہا جاتا ہے کہ آپ کے سامنے دو آدمیوں کوپیش کیا گیا جنہوں نے بیت المال سے مال چرایا تھا ایک ان میں سے غلام اور بیت المال کی ملکیت تھا اور دوسرا لوگوں میں سے کسی کی ملکیت تھا۔آپ نے فرمایا کہ جو بیت المال کی ملکیت ہے اس پر کوئی حد نہیں ہے کہ مال خداکے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھالیا ہے۔ لیکن

(۱)یہ صورت حال بظاہر خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مقدس مقامات کایہی حال ہے کہ ان کے زینت و آرائش کے اسباب اگرضروری ہیں توان کا تحفظ بھی ضروری ہے۔لیکن اگر ان کی کوئی افادیت نہیں ہے توان کے بارے میں ذمہ دار ان شریعت سے رجوع کرکے صحیح مصرف میں لگا دینا چاہیے۔بقول شخصے بجلی کے دورمیں موم بتی اورخوشبو کے دورمیں اگر بتی کے تحفظ کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہی پیسہ اسی مقدس مقام کے دیگر ضرورت پر صرف کیا جا سکتا ہے۔

۷۱۷

وأَمَّا الآخَرُ فَعَلَيْه الْحَدُّ الشَّدِيدُ فَقَطَعَ يَدَه.

۲۷۲ - وقَالَ عليهلامي لَوْ قَدِ اسْتَوَتْ قَدَمَايَ مِنْ هَذِه الْمَدَاحِضِ لَغَيَّرْتُ أَشْيَاءَ.

۲۷۳ - وقَالَعليه‌السلام اعْلَمُوا عِلْماً يَقِيناً أَنَّ اللَّه لَمْ يَجْعَلْ لِلْعَبْدِ - وإِنْ عَظُمَتْ حِيلَتُه واشْتَدَّتْ طَلِبَتُه - وقَوِيَتْ مَكِيدَتُه – أَكْثَرَ مِمَّا سُمِّيَ لَه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - ولَمْ يَحُلْ بَيْنَ الْعَبْدِ فِي ضَعْفِه وقِلَّةِ حِيلَتِه - وبَيْنَ أَنْ يَبْلُغَ مَا سُمِّيَ لَه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - والْعَارِفُ لِهَذَا الْعَامِلُ بِه - أَعْظَمُ النَّاسِ رَاحَةً فِي مَنْفَعَةٍ - والتَّارِكُ لَه الشَّاكُّ فِيه - أَعْظَمُ النَّاسِ شُغُلًا فِي مَضَرَّةٍ - ورُبَّ مُنْعَمٍ عَلَيْه مُسْتَدْرَجٌ بِالنُّعْمَى - ورُبَّ مُبْتَلًى مَصْنُوعٌ لَه بِالْبَلْوَى - فَزِدْ أَيُّهَا الْمُسْتَنْفِعُ فِي شُكْرِكَ -

دوسرے پر شدید حد جاری کی جائے گی۔جس کے بعد اس کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے۔

(۲۷۲)

اگر ان پھسلنے والی جگہوں پر میرے قدم جم گئے تو میں بہت سی چیزوں کو بدل دوں گا(جنہیں پیشر و خلفاء نے ایجاد کیا ہے اور جن کا سنت پیغمبر (ص) سے کوئی تعلق نہیں ہے )

(۲۷۳)

یہ بات یقین کے ساتھ جان لو کہ پروردگار نے کسی بندہ کے لئے اس سے زیادہ نہیں قرار دیا ہے جتنا کتاب حکیم میں بیان کردیا گیا ہے چاہے اس کی تدبیر کتنی ہی عظیم ' اس کی جستجو کتنی ہی شدید اور اس کی ترکیبیں کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔اور اسی طرح وہ بندہ تک اس کامقسوم پہنچنے کی راہمیں کبھی حائل نہیں ہوتا ہے چاہے وہ کتنا ہی کمزور اور بیچارہ کیوں نہ ہو۔جو اس حقیقت کو جانتا ہے اوراس کے مطابق عمل کرتا ہے وہی سب سے زیادہ راحت اور فائدہ میں رہتا ہے اورجواس حقیقت کو نظرانداز کر دیتا ہے اور اس میں شک کرتا ہے ' وہی سب سے زیادہ نقصان میں مبتلا ہوتا ہے۔کتنے ہی افراد ہیں جنہیں نعمتیں دی جاتی ہیں اور انہیں کے ذریعہ عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے۔اور کتنے ہی افراد ہیں جومبتلائے مصیبت ہوتے ہیں لیکن یہی ابتلاء ان کے حق میں باعث برکت بن جاتی ہے ۔لہٰذا اے فائدہ کے طلب گارو! اپنے لشکر میں اضافہ کرو

۷۱۸

وقَصِّرْ مِنْ عَجَلَتِكَ - وقِفْ عِنْدَ مُنْتَهَى رِزْقِكَ.

۲۷۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَجْعَلُوا عِلْمَكُمْ جَهْلًا ويَقِينَكُمْ شَكَّاً - إِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا وإِذَا تَيَقَّنْتُمْ فَأَقْدِمُوا.

اور اپنی جلدی کم کردو اور اپنے رزق کی حدوں پر ٹھہر جائو

(۲۷۴)

خبردار! اپنے علم کو جہل نہ بنائو اور اپنے یقین کو شک نہ قرار دو۔

جب جان لو تو عمل(۱) کرو اور جب یقین ہوجائے تو قدم آگے بڑھائو۔

(۱)امام علیہ السلام کی نظرمیں علم اور یقین کے ایک مخصوص معنی ہیں جن کااظہار انسان کے کردار سے ہوتا ہے ۔آپ کی نگاہ میں علم صرف جاننے کا نام نہیں ہے اور نہ یقین صرف اطمینان قلب کا نام ہے بلکہ دونوں کے وجود کا ایک فطری تقاضا ہے جس سے ان کی واقعیت اور اصالت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسان واقعاً جب علم ہے تو باعمل بھی ہوگا اور واقعاً صاحب یقین ہے تو قدم بھی آگے بڑھائے گا۔ایسا نہ ہوتو علم جہل کہے جانے کے قابل ہے اور یقین شک سے بالا تر نہیں ہے۔

۷۱۹

۲۷۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الطَّمَعَ مُورِدٌ غَيْرُ مُصْدِرٍ وضَامِنٌ غَيْرُ وَفِيٍّ - ورُبَّمَا شَرِقَ شَارِبُ الْمَاءِ قَبْلَ رِيِّه - وكُلَّمَا عَظُمَ قَدْرُ الشَّيْءِ الْمُتَنَافَسِ فِيه - عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ لِفَقْدِه - والأَمَانِيُّ تُعْمِي أَعْيُنَ الْبَصَائِرِ - والْحَظُّ يَأْتِي مَنْ لَا يَأْتِيه.

۲۷۶ - وقَالَعليه‌السلام اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ - مِنْ أَنْ تُحَسِّنَ فِي لَامِعَةِ الْعُيُونِ عَلَانِيَتِي - وتُقَبِّحَ فِيمَا أُبْطِنُ لَكَ سَرِيرَتِي - مُحَافِظاً عَلَى رِثَاءِ النَّاسِ مِنْ نَفْسِي - بِجَمِيعِ مَا أَنْتَ مُطَّلِعٌ عَلَيْه مِنِّي - فَأُبْدِيَ لِلنَّاسِ حُسْنَ ظَاهِرِي - وأُفْضِيَ إِلَيْكَ بِسُوءِ عَمَلِي - تَقَرُّباً إِلَى عِبَادِكَ وتَبَاعُداً مِنْ مَرْضَاتِكَ.

(۲۷۵)

لالچ جہاں وارد کردیتی ہے وہاں سے نکلنے نہیں دیتی ہے اور یہ ایک ایسی ضمانت(۱) دار ہے جو وفادار نہیں ہے۔کہ کبھی کبھی تو پانی پینے والے کو سیرابی سے پہلے ہی اچھو لگ جاتا ہے اورجس قدر کسی مرغوب چیزکی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اس کے کھوجانے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔آرزوئیں دیدہ بصیرت کو اندھا بنا دیتی ہیں اور جوکچھ نصیب میں ہوتا ہے وہ بغیر کوشش کے بھی مل جاتا ہے۔

(۲۷۶)

خدایا(۲) میں اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ لوگوں کی ظاہری نگاہ میں میرا ظاہرحسین ہو اور جو باطن تیرے لئے چھپائے ہوئے ہوں وہ قبیح ہو۔میں لوگوں کے دکھاوے کے لئے ان چیزوں کی نگہداشت کروں جن پر تو اطلاع رکھتا ہے کہ لوگوں پر حسن ظاہر کا مظاہرہ کروں اورتیری بارگاہ میں بدترین عمل کے ساتھ حاضری دوں۔تیرے بندوں سے قربت اختیار کروں اور تیری مرضی سے دورہو جائوں۔

(۱)لالچ انسان کو ہزاروں چیزوں کا یقین دلا دیتی ہے اور اس سے وعدہ بھی کرلیتی ہے لیکن وقت پر وفا نہیں کرتی ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سیراب ہونے سے پہلے ہی اچھو لگ جاتا ہے اور سیراب ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ انسان لالچ سے اجتناب کرے اور بقدر ضرورت پر اکتفا کرے جو بہرحال اسے حاصل ہونے والا ہے۔

(۲)عام طور سے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کے سامنے آنے کے لئے اپنے ظاہر کو پاک و پاکیزہ اورحسین و جمیل بنا لیتے ہیں اور یہ خیال ہی نہیں رہ جاتا ہے کہ ایک دن اس کابھی سامنا کرنا ہے جو ظاہر کونہیں دیکھتا ہے بلکہ باطن پر نگاہ رکھتا ہے اور اسرار کابھی حساب کرنے والا ہے ۔

مولائے کائنات نے عالم انسانیت کواسی کمزوری کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس دعاکا لہجہ اختیار کیا ہے جہاں دوسروں پر براہ راست تنقید بھی نہ ہو اور اپنا پیغام بھی تمام افراد تک پہنچ جائے شائد انسانوں کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ عوام الناس کا سامناکرنے سے زیادہ اہمیت مالک کے سامنے جانے کی ہے اور اس کے لئے باطل کا پاک و صاف رکھنا بے حد ضروری ہے۔

۷۲۰

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863