نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630007
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630007 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(۲۱۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما مر بطلحة بن عبد الله وعبد الرحمن بن عتاب بن أسيد - وهما قتيلان يوم الجمل:

لَقَدْ أَصْبَحَ أَبُو مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْمَكَانِ غَرِيباً - أَمَا واللَّه لَقَدْ كُنْتُ أَكْرَه أَنْ تَكُونَ قُرَيْشٌ قَتْلَى - تَحْتَ بُطُونِ الْكَوَاكِبِ - أَدْرَكْتُ وَتْرِي مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ - وأَفْلَتَتْنِي أَعْيَانُ بَنِي جُمَحَ - لَقَدْ أَتْلَعُوا أَعْنَاقَهُمْ إِلَى أَمْرٍ - لَمْ يَكُونُوا أَهْلَه فَوُقِصُوا دُونَه.

(۲۲۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وصف السالك الطريق إلى اللَّه سبحانه

قَدْ أَحْيَا عَقْلَه وأَمَاتَ نَفْسَه حَتَّى دَقَّ جَلِيلُه - ولَطُفَ غَلِيظُه وبَرَقَ لَه لَامِعٌ كَثِيرُ الْبَرْقِ - فَأَبَانَ لَه الطَّرِيقَ وسَلَكَ بِه السَّبِيلَ - وتَدَافَعَتْه الأَبْوَابُ إِلَى بَابِ السَّلَامَةِ ودَارِ الإِقَامَةِ - وثَبَتَتْ رِجْلَاه بِطُمَأْنِينَةِ بَدَنِه فِي قَرَارِ الأَمْنِ والرَّاحَةِ - بِمَا اسْتَعْمَلَ قَلْبَه وأَرْضَى رَبَّه.

(۲۱۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب روزجمل طلحہ بن عبداللہ اورعبدالرحمن بن عتاب بن اسید کی لاشوں کے قریب سے گزر ہوا )

ابومحمد (طلحہ) نے اس میدان میں عالم غربت میں صبح کی ہے۔خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات ہر گز پسند نہیں تھی کہ قریش کے لاشے ستاروں کے نیچے زیرآسمان پڑے رہیں لیکن کیا کروں۔بہر حال میں نے عبد مناف کی اولاد سے ان کے کئے کا بدلہ لیلیا مگرافسوس کہ بنی جمج بچ کر نکل گئے ان سب نے اپنی گردنیں اس امر کی طرف اٹھائی تھیں جس کے یہ ہرگز اہل نہیں تھے۔اس لئے اس تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی گردنیں توڑ دی گئیں۔

(۲۲۰)

آپ کا ارشاد گرامی

( خدا کی راہ میں چلنے والے انسانوں کےبارے میں)

ایسےشخص نےاپنی عقل کوزندہ رکھا ہے اوراپنے نفس کو مردہ بنا دیا ہےاس کاجسم باریک ہوگیا ہےاوراس کا بھاری بھرکم جسد ہلکا ہوگیا ہے اس کےلئے بہترین ضوپاش نور ہدایت چمک اٹھا ہےاوراس نےراستہ کوواضح کرکے اسی پرچلا دیا ہے۔تمام دروازوں نے اسے سلامتی کے دروازرہ اورہمیشگی کے گھرتک پہنچا دیا ہے اوراس کےقدم طمانیت بدن کے ساتھ امن وراحت کی منزل میں ثابت ہوگئے ہیں کہ اس نےاپنےدل کواستعمال کیا ہے اوراپنے رب کو راضی کرلیا ہے

۴۴۱

(۲۲۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله بعد تلاوته( أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ )

يَا لَه مَرَاماً مَا أَبْعَدَه وزَوْراً مَا أَغْفَلَه - وخَطَراً مَا أَفْظَعَه - لَقَدِ اسْتَخْلَوْا مِنْهُمْ أَيَّ مُدَّكِرٍ وتَنَاوَشُوهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ - أَفَبِمَصَارِعِ آبَائِهِمْ يَفْخَرُونَ - أَمْ بِعَدِيدِ الْهَلْكَى يَتَكَاثَرُونَ يَرْتَجِعُونَ مِنْهُمْ أَجْسَاداً خَوَتْ وحَرَكَاتٍ سَكَنَتْ - ولأَنْ يَكُونُوا عِبَراً أَحَقُّ مِنْ أَنْ يَكُونُوا مُفْتَخَراً - ولأَنْ يَهْبِطُوا بِهِمْ جَنَابَ ذِلَّةٍ - أَحْجَى مِنْ أَنْ يَقُومُوا بِهِمْ مَقَامَ عِزَّةٍ - لَقَدْ نَظَرُوا إِلَيْهِمْ بِأَبْصَارِ الْعَشْوَةِ - وضَرَبُوا مِنْهُمْ فِي غَمْرَةِ جَهَالَةٍ - ولَوِ اسْتَنْطَقُوا عَنْهُمْ عَرَصَاتِ تِلْكَ الدِّيَارِ الْخَاوِيَةِ - والرُّبُوعِ الْخَالِيَةِ لَقَالَتْ - ذَهَبُوا فِي الأَرْضِ ضُلَّالًا

(۲۲۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے الھکم التکاثرکی تلاوت کے موقع پر ارشاد فرمایا)

ذرا دیکھو تو ان آباء و اجداد پر فخر کرنے والوں کا مقصد کس قدربعیداز عقل ہے اور یہ زیارت کرنے والے کس قدر غافل ہیں اورخطرہ بھی کس قدر عظیم ہے۔یہ لوگ تمام عبرتوں سے خالی ہوگئے ہیں اور انہوںنے مردوں کو بہت دورسے لے لیا ہے۔آخر یہ کیا اپنے آباء واجداد کے لاشوں(۱) پر فخر کر رہے ہیں؟یا مردوں کی تعداد سے اپنی کثرت میں اضافہ کر رہے ہیں؟ یا ان جسموں کو واپس لانا چاہتے ہیںجو روحوں سے خالی ہو چکے ہیں بجائے ذلت کی منزل میں اترنا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ان لوگوں نے ان مردوں کو چندھیائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور ان کی طرف سے جہالت کے گڑھے میں گر گئے ہیں۔ اور گمان کے بارے میں گرے پڑے مکانوں اور خالی گھروں سے دریافت کیا جائے تو یہی جواب ملے گا کہ لوگ گمراہی کے عالم میں زیر زمین چلے گئے اورتم جہالت

(۱)یہ سلسلہ تفاخر ہر دور میں رہا ہے اور آج بھی برقرار ہے کہ انسان سامان عبرت کو وجہ فضیلت قرار دے رہا ہے اور اس طرح مسلسلوادی غفلت میں منزل دور تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔کاش اسے اس قدر شعور ہوتا کہ آباء واجاد کی بوسیدہ لاشیں یا قبریں باعث افتخار نہیں ہیں۔بعث افتخار انسان کا اپنا کردار ہے اور درحقیقت کردار بھی اس قابل نہیں ہے کہ اسے سرمایہ افتخار قرار دیا جا سکے۔انسان کے لئے وجہ افتخار صرف ایک چیز ہے کہ اس کامالک پروردگار ہے جو ساری کائنات سے بالا تر ہے جیسا کہ خود مولائے کائنات نے اپنی مناجات میں اشارہ کیا ہے کہ ''خدایا! میری عزت کے لئے یہ کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اورمیرے فخر کے لئے یہ کافی ہے کہ تو میرا رب ہے۔اب اس کے بعد میرے لئے کسی شے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔صرف التجا یہہے کہ جس طرح تو میری مرضی کا خدا ہے۔اسی طرح مجھے اپنی مرضی کاب ندہ بنالے۔

۴۴۲

وذَهَبْتُمْ فِي أَعْقَابِهِمْ جُهَّالًا - تَطَئُونَ فِي هَامِهِمْ وتَسْتَنْبِتُونَ فِي أَجْسَادِهِمْ - وتَرْتَعُونَ فِيمَا لَفَظُوا وتَسْكُنُونَ فِيمَا خَرَّبُوا - وإِنَّمَا الأَيَّامُ بَيْنَكُمْ وبَيْنَهُمْ بَوَاكٍ ونَوَائِحُ عَلَيْكُمْ.

أُولَئِكُمْ سَلَفُ غَايَتِكُمْ وفُرَّاطُ مَنَاهِلِكُمْ - الَّذِينَ كَانَتْ لَهُمْ مَقَاوِمُ الْعِزِّ - وحَلَبَاتُ الْفَخْرِ مُلُوكاً وسُوَقاً سَلَكُوا فِي بُطُونِ الْبَرْزَخِ سَبِيلًا سُلِّطَتِ الأَرْضُ عَلَيْهِمْ فِيه - فَأَكَلَتْ مِنْ لُحُومِهِمْ وشَرِبَتْ مِنْ دِمَائِهِمْ - فَأَصْبَحُوا فِي فَجَوَاتِ قُبُورِهِمْ جَمَاداً لَا يَنْمُونَ - وضِمَاراً لَا يُوجَدُونَ - لَا يُفْزِعُهُمْ وُرُودُ الأَهْوَالِ - ولَا يَحْزُنُهُمْ تَنَكُّرُ الأَحْوَالِ - ولَا يَحْفِلُونَ بِالرَّوَاجِفِ ولَا يَأْذَنُونَ لِلْقَوَاصِفِ - غُيَّباً

کے عالم میں ان کے پیچھے جا رہے ہو۔ان کی کھوپڑیوں کو روند رہے ہو۔اور ان کے جسموں پرعمارتیں کھڑی کر رہے ہو ۔جووہ چھوڑ گئے ہیں اسی کو چر رہے ہو اور جو وہ برباد کرگئے ہیں اسی میں سکونت پذیر ہو۔تہارے ور ان کے درمیان کے دن تمہارے حال پر رو رہے ہیں اور تمہاری بربادی کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔

یہ ہیں تمہاری منزل پر پہلے پہنچ جانے والے اور تمہارے چشموں پر پہلے وارد ہو جانے والے۔جن کے لئے عزت کی منزلیں تھیں اور فخرو مباہات کی فراوانیاں تھیں۔کچھ سلاطین وقت تھے اورکچھ دوسرے درجہ کے منصب دار۔لیکن سب برزخ کی گہرائیوں میں راہ پیمانی کر رہے ہیں ۔زمین ان کے اوپر مسلط کردی گئی ہے۔اس نے ان کا گوشت کھالیا ہے اورخون پی لیا ہے۔اب وہقبر کی گہرائیوں میں ایسے جماد ہوگئے ہیں جنمیں نمو نہیں ہے اور ایسے گم ہوگئے ہیں کہ ڈھونڈے نہیں مل رہے ہیں۔نہ ہولناک مصائب(۱) کا ورود انہیں خوف زدہ بنا سکتا ہے اور نہ بدلتے حالات انہیں رنجیدہ کر سکتے ہیں نہ انہیں زلزلوں کی پرواہ ہے اورنہ گرج اور کڑک کی اطلاع۔ایسے

(۱)یہ صورت حال کسی سکون اور اطمینان کا اشارہ نہیں ہے بلکہ دراصل انسان کی مد ہوشی اور بد حواسی کا اظہار ہے کہ صاحب عقل و شعور بھ جمادات کی شکل اختیار کر گیا ہے اور صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ادھر کے جملہ حالات سے بے خبر ہوگیا ہے لیکن ادھر کے حالات سے بے خیر نہیں ہے۔صبح و شام ارواح کے سامنے جہنم پیش نظر کیا جاتا ہے اور بے عمل اور بد کردار انسان ایک نئی مصیبت سے دوچار ہو جاتا ہے۔

درحقیقت مولائے کائنات نے ان فقرات میں مرنے والوں کے حالات کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ زندہ افراد کو اس صورت حال سے بچانے کا انتظام کیا ہے کہ انسان اس انجام سے با خبر رہے اور چند روزہ دنیا کے بجائے ابدی عاقبت اورآخرت کا انتظام کرے جس سے بہرحال دو چار ہونا ہے اور اس سے فرار کا کوئی امکان نہیں ہے۔

۴۴۳

لَا يُنْتَظَرُونَ وشُهُوداً لَا يَحْضُرُونَ - وإِنَّمَا كَانُوا جَمِيعاً فَتَشَتَّتُوا وآلَافاً فَافْتَرَقُوا - ومَا عَنْ طُولِ عَهْدِهِمْ ولَا بُعْدِ مَحَلِّهِمْ - عَمِيَتْ أَخْبَارُهُمْ وصَمَّتْ دِيَارُهُمْ - ولَكِنَّهُمْ سُقُوا كَأْساً بَدَّلَتْهُمْ بِالنُّطْقِ خَرَساً - وبِالسَّمْعِ صَمَماً وبِالْحَرَكَاتِ سُكُوناً - فَكَأَنَّهُمْ فِي ارْتِجَالِ الصِّفَةِ صَرْعَى سُبَاتٍ - جِيرَانٌ لَا يَتَأَنَّسُونَ وأَحِبَّاءُ لَا يَتَزَاوَرُونَ - بَلِيَتْ بَيْنَهُمْ عُرَا التَّعَارُفِ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمْ أَسْبَابُ الإِخَاءِ - فَكُلُّهُمْ وَحِيدٌ وهُمْ جَمِيعٌ - وبِجَانِبِ الْهَجْرِ وهُمْ أَخِلَّاءُ - لَا يَتَعَارَفُونَ لِلَيْلٍ صَبَاحاً ولَا لِنَهَارٍ مَسَاءً. أَيُّ الْجَدِيدَيْنِ ظَعَنُوا فِيه كَانَ عَلَيْهِمْ سَرْمَداً - شَاهَدُوا مِنْ أَخْطَارِ دَارِهِمْ أَفْظَعَ مِمَّا خَافُوا - ورَأَوْا مِنْ آيَاتِهَا أَعْظَمَ مِمَّا قَدَّرُوا - فَكِلْتَا الْغَايَتَيْنِ مُدَّتْ لَهُمْ - إِلَى مَبَاءَةٍ فَاتَتْ مَبَالِغَ الْخَوْفِ والرَّجَاءِ - فَلَوْ كَانُوا يَنْطِقُونَ بِهَا - لَعَيُّوا بِصِفَةِ

غائب ہوئے ہیں کہ ان کا انتظار نہیں کیا جا رہا ہے اور ایسے حاضر ہیں کہ سامنے نہیں آتے ہیں۔کل سب یکجا تھے اب منتشر ہوگئے ہیں اور سب ایک دوسرے کے قریب تھے اور اب جدا ہوگئے ہیں۔ان کے حالات کے بے خبری اور ان کے دیار کی خاموشی طول زمان اور بعد مکان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ انہیں موت کا وہ جام پلادیا گیا ہے جس نے ان کی گویائی کو گونگے پن میں اور ان کی سماعت کو بہرے پن میں اور ان کی حرکات کو سکون میں تبدیل کردیا ہے۔ان کی سرسری تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ جیسے نیند میں بے خبر پڑے ہوں کہ ہمسائے ہیں لیکن ایک دوسرے سے مانوس نہیں ہیں اور احباب ہیں لیکن ملاقات نہیں کرتے ہیں۔ان کے درمیان باہمی تعارف کے رشتے بوسیدہ ہوگئے ہیں اوربرادری کے اسباب منقطع ہوگئے ہیں۔اب سب مجتمع ہونے کے باوجود اکیلے ہیں اور دوست ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو چھوڑے ہوئے ہیں۔نہ کسی رات کو صبح سے آشنا ہیں اورنہ کسی صبح کی شام پہچانتے ہیں۔

دن و رات میں جس ساعت میں بھی دنیا سے گئے ہیں وہی ان کی ابدی ساعت ہے اوردار آخرت کے خطرات کو اس سے زیادہ دیکھ لیا ہے۔جس کا اس دنیا میں اندیشہ تھا اوراس کی نشانیوں کو اس سے زیادہ مشاہدہ کرلیا ہے جس کا انداہ کیا تھا۔اب اچھے برے دونوں طرح کے انجام کو کھینچ کرآخری منزل تک پہنچا دیا گیا ہے جہاں آخر درجہ کاخف بھی ہے اورویسی ہی امید بھی ہے۔یہ لوگ اگر بولنے کے لائق بھی ہوتے تو ان حالات کی توصیف

۴۴۴

مَا شَاهَدُوا ومَا عَايَنُوا.ولَئِنْ عَمِيَتْ آثَارُهُمْ وانْقَطَعَتْ أَخْبَارُهُمْ - لَقَدْ رَجَعَتْ فِيهِمْ أَبْصَارُ الْعِبَرِ - وسَمِعَتْ عَنْهُمْ آذَانُ الْعُقُولِ - وتَكَلَّمُوا مِنْ غَيْرِ جِهَاتِ النُّطْقِ - فَقَالُوا كَلَحَتِ الْوُجُوه النَّوَاضِرُ وخَوَتِ الأَجْسَامُ النَّوَاعِمُ - ولَبِسْنَا أَهْدَامَ الْبِلَى وتَكَاءَدَنَا ضِيقُ الْمَضْجَعِ - وتَوَارَثْنَا الْوَحْشَةَ وتَهَكَّمَتْ عَلَيْنَا الرُّبُوعُ الصُّمُوتُ - فَانْمَحَتْ مَحَاسِنُ أَجْسَادِنَا وتَنَكَّرَتْ مَعَارِفُ صُوَرِنَا - وطَالَتْ فِي مَسَاكِنِ الْوَحْشَةِ إِقَامَتُنَا - ولَمْ نَجِدْ مِنْ كَرْبٍ فَرَجاً ولَا مِنْ ضِيقٍ مُتَّسَعاً - فَلَوْ مَثَّلْتَهُمْ بِعَقْلِكَ - أَوْ كُشِفَ عَنْهُمْ مَحْجُوبُ الْغِطَاءِ لَكَ - وقَدِ ارْتَسَخَتْ أَسْمَاعُهُمْ بِالْهَوَامِّ فَاسْتَكَّتْ - واكْتَحَلَتْ أَبْصَارُهُمْ بِالتُّرَاب فَخَسَفَتْ - وتَقَطَّعَتِ الأَلْسِنَةُ فِي أَفْوَاهِهِمْ بَعْدَ ذَلَاقَتِهَا - وهَمَدَتِ الْقُلُوبُ فِي صُدُورِهِمْ بَعْدَ يَقَظَتِهَا - وعَاثَ فِي كُلِّ جَارِحَةٍ مِنْهُمْ جَدِيدُ بِلًى سَمَّجَهَا - وسَهَّلَ طُرُقَ الآفَةِ إِلَيْهَا -

نہیں کر سکتے تھے جن کا مشاہدہ کرلیا ہے اوراپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اب اگران کے آثار گم بھی ہو گئے ہیں اور ان کی خبریں منقطع بھی ہوگئی ہیں تو عبرت کی نگاہیں بہر حال انہیں دیکھ رہی ہیں اور عقل کے کان بہرحال ان کی داستان غم سن رہے ہیں اور وہ زبان کے بغیر بھی بول رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ شاداب چہرے سیاہ ہو چکے ہیں اور نرم و نازک اجسام مٹی میں مل گئے ہیں۔بوسیدگی کا لباس زیب تن ہے اورتنگی مرقد نے تھکاڈالا ہے ۔وحشت ایک دوسرے کی وراثت ہے اور خاموش منزلیں ویران ہوچکی ہیں۔جسم کے محاسن محو ہو چکے ہیں ۔اور جانی پہچانی صورت بھی انجان ہوگئی ہے۔منزل وحشت میں قیام طویل ہوگیا ہے اور کسی کرب سے راحت کی امید نہیں ہے اور نہ کسی تنگی میں وسعت کا کوئی امکان ہے۔

اب اگر تم اپنی عقلوں سے ان کی تصویر کشی کرو یا تم سے غیب کے پردے اٹھا دئیے جائیں اور تم انہیں اس عالم میں دیکھ لو کہ کیڑوں(۱) کی وجہ سے ان کی قوت سماعت ختم ہ چکی ہے اور وہ بہرے ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھوں میں مٹی کا سرمہ لگا دیا گیا ہے اور وہ ہنس چکی ہیں اور زبانیں دہن کے اندر روانی کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہیں اور دل سینوں کے اندر بیداری کے بعد سوچکے ہیں اور ہر عضو کوایک نئی بوسیدگی نے تباہ کرکے بدہئیت بنادیا ہے اورآفتوں کے راستوں

(۱)امیر المومنین کی تصویر کشی پر ایک لفظ کے بھی اضافہ کی گنجائش نہیں ہے اورابو تراب سے بہتر زیر زمین کا نقشہ کون کھینچ سکتا ہے۔بات صرف یہ ہے کہ انسان اس سنگین صورت حال کا اندازہ کرے اور اس تصویر کو اپنی نگاہ عقل و بصیرت میں مجسم بنائے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ اس دنیا کی حیثیت اوراوقات کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔

۴۴۵

مُسْتَسْلِمَاتٍ فَلَا أَيْدٍ تَدْفَعُ ولَا قُلُوبٌ تَجْزَعُ - لَرَأَيْتَ أَشْجَانَ قُلُوبٍ وأَقْذَاءَ عُيُونٍ - لَهُمْ فِي كُلِّ فَظَاعَةٍ صِفَةُ حَالٍ لَا تَنْتَقِلُ - وغَمْرَةٌ لَا تَنْجَلِي - فَكَمْ أَكَلَتِ الأَرْضُ مِنْ عَزِيزِ جَسَدٍ وأَنِيقِ لَوْنٍ - كَانَ فِي الدُّنْيَا غَذِيَّ تَرَفٍ ورَبِيبَ شَرَفٍ - يَتَعَلَّلُ بِالسُّرُورِ فِي سَاعَةِ حُزْنِه - ويَفْزَعُ إِلَى السَّلْوَةِ إِنْ مُصِيبَةٌ نَزَلَتْ بِه - ضَنّاً بِغَضَارَةِ عَيْشِه، وشَحَاحَةً بِلَهْوِه ولَعِبِه فَبَيْنَا هُوَ يَضْحَكُ إِلَى الدُّنْيَا وتَضْحَكُ إِلَيْه - فِي ظِلِّ عَيْشٍ غَفُولٍ إِذْ وَطِئَ الدَّهْرُ بِه حَسَكَه - ونَقَضَتِ الأَيَّامُ قُوَاه - ونَظَرَتْ إِلَيْه الْحُتُوفُ مِنْ كَثَبٍ - فَخَالَطَه بَثٌّ لَا يَعْرِفُه ونَجِيُّ هَمٍّ مَا كَانَ يَجِدُه - وتَوَلَّدَتْ فِيه فَتَرَاتُ عِلَلٍ آنَسَ مَا كَانَ بِصِحَّتِه - فَفَزِعَ إِلَى.

کو ہموار کردیا ہے کہ اب سب مصائب کے لئے سراپا تسلیم ہیں نہ کوئی ہاتھ دفاع کرنے واا ہے اور نہ کوئی دل بے چین ہونے والا ہے۔تو یقینا وہمناظر دیکھوگے جو دل کو رنجیدہ بنادیں گے اورآنکھوں میں خس و خاشاک ڈال دیں گے۔ان غریبوں کے لئے مصیبت میں وہ کیفیت ہے جو بدلتی نہیں ہے اور وہ سختی ہے جو ختم نہیں ہوتی ہے۔

اف یہ زمین کتنے عزیز ترین(۱) بدن اور حسین ترین رنگ کھا گئی جن کو دولت و راحت کی غذا مل رہی تھی اور جنہیں شرف کی آغوش میں پالا گیا تھا۔جو حزن کے اوقات میں بھی مسرت کا سامان کرلیا کرتے تھے اور اگر کوئی مصیبت آن پڑتی تھی تو اپنے عیش کی تازگیوںپر للچائے رہنے اور اپنے لہو و لعب پر فریفتہ ہونے کی بنا پر تسلی کا سامان فراہم کرلیا کرتے تھے ۔یہ ابھی غفلت میں ڈال دینے والے عیش کے زیر سایہ دنیا کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور دنیا انہیں دیکھ کر ہنس رہی تھی کہ اچانک زمانے نے انہیں کانٹوں کی طرح روند دیا اور روز گار نے ان کا سارا زور توڑ دیا۔موت کی نظریں قریب سے ان پر پڑنے لگیں اورانہیں ایسے رنج میں مبتلا کردیا جس کا اندازہ بھی نہ تھا اور ایسے قلق کا شکار ہوگئے جس کا کوئی سابقہ بھی نہ تھا ابھی وہ صحت سے مانوس تھے کہ ان میں مرض کی کمزوریاں پیدا ہوگئی اور انہوں نے ان اسباب کی پناہ ڈھونڈنا شروع کردی

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ زیر زمین خاک کاڈھیر بن جانے والے کیسی کیسی زندگیاں گذار گئے ہیں اور کس کس طر کی راحت پسندیوں سے گزر چک ہیں لیکن آج موت ان کی حیثیت کا اقرار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اور قبر ان کے کسی احترام کی قائل نہیں ہے۔یہ توصرف ایمان و کردار یا صاحب قبر و بارگاہ کے جوار کا اثر ہے کہ انسان فشار قبر اور بوسیدگی جسم سے محفوظ رہ جائے۔ورنہ زمین اپنے ٹکڑوں کو اصل سے ملادینے میں کسی طرح کے تکلف سے کام نہیں لیتی ہے۔

۴۴۶

مَا كَانَ عَوَّدَه الأَطِبَّاءُ - مِنْ تَسْكِينِ الْحَارِّ بِالْقَارِّ وتَحْرِيكِ الْبَارِدِ بِالْحَارِّ - فَلَمْ يُطْفِئْ بِبَارِدٍ إِلَّا ثَوَّرَ حَرَارَةً - ولَا حَرَّكَ بِحَارٍّ إِلَّا هَيَّجَ بُرُودَةً - ولَا اعْتَدَلَ بِمُمَازِجٍ لِتِلْكَ الطَّبَائِعِ - إِلَّا أَمَدَّ مِنْهَا كُلَّ ذَاتِ دَاءٍ - حَتَّى فَتَرَ مُعَلِّلُه وذَهَلَ مُمَرِّضُه - وتَعَايَا أَهْلُه بِصِفَةِ دَائِه - وخَرِسُوا عَنْ جَوَابِ السَّاِئِلينَ عَنْه - وتَنَازَعُوا دُونَه شَجِيَّ خَبَرٍ يَكْتُمُونَه - فَقَائِلٌ يَقُولُ هُوَ لِمَا بِه ومُمَنٍّ لَهُمْ إِيَابَ عَافِيَتِه - ومُصَبِّرٌ لَهُمْ عَلَى فَقْدِه - يُذَكِّرُهُمْ أُسَى الْمَاضِينَ مِنْ قَبْلِه - فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ عَلَى جَنَاحٍ مِنْ فِرَاقِ الدُّنْيَا - وتَرْكِ الأَحِبَّةِ - إِذْ عَرَضَ لَه عَارِضٌ مِنْ غُصَصِه - فَتَحَيَّرَتْ نَوَافِذُ فِطْنَتِه ويَبِسَتْ رُطُوبَةُ لِسَانِه - فَكَمْ مِنْ مُهِمٍّ مِنْ جَوَابِه عَرَفَه فَعَيَّ عَنْ رَدِّه - ودُعَاءٍ مُؤْلِمٍ بِقَلْبِه سَمِعَه فَتَصَامَّ عَنْه - مِنْ كَبِيرٍ

جن کا اطباء نے عادی بنادیا تھا کہ گرم کا سرد سے علاج کریں اورسردی میں گرم دوا کی تحریک پیداکریں لیکن سرد دوائوں نے حرارت کو اوربھڑکا دیا اور گرم دوانے حرکت کے بجائے برودت میں اور ہیجان پیدا کردیا اور کسی مناسب طبیعت دواسے اعتدال نہیں پیدا ہو ا بلکہ اس نے مرض کو اور طاقت بخش دی۔یہاں تک کہ تیمار دار سست ہوگئے اور علاج کرنے والے غفلت برتنے لگے۔گھروالے مرض کی حالت بیان کرنے سے عاجزآگئے اور مزاج پرسی کرنے والوں کے جواب سے خاموشی اختیارکرلی اور درد ناک خبرکو چھپانے کے لئے آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ایک کہنے لگا کر جو ہے وہ ہے۔دوسرے نے امید دلائی کہ صحت پلٹ آئے گی۔تیسرے نے موت پر صبر کی تلقین شروع کردی اورگذشتہ لوگوں کے مصائب یاد دلانے لگا۔

ابھی وہ اسی عالم میں دنیا کے فراق اوراحباب کی جدائی کے لئے پر تول رہا تھا کہ اس کے گلے میں ایک پھندہ پڑ گیا(۱) جس سے اس کی ذہانت و ہوشیاری پریشانی کاش کار ہوگئی اور زبان کی رطوبت خشکی میں تبدیل ہوگئی ۔کتنے ہی مبہم سوالات تھے جن کے جوابات اسے معلوم تھے لیکن بیان سے عاجز تھا اور کتنی ہی درد ناک آوازیں ان کے کان سے ٹکرا رہی تھی جن کے سننے سے بہرہ ہوگیا تھا وہ آوازیں کسی بزرگ کی تھیں

(۱)ہائے وہ بے کسی کاعالم کہ نہ مرنے والا درد دل کی ترجمانی کر سکتا ہے اور نہ رہ جانے والے اس کے کسی درد کا علاج کرسکتے ہیں۔جب کہ دونوں آمنے سامنے زندہ موجود ہیں تو اسی کے بعد کسی سے کیا توقع رکھی جائے جب ایک موت کی آغوش میں سو جائے گا اوردوسرا کنج لحد کے حالات سے بھی بے خبر ہو جائے گا اوراسے مرنے والے کے حالات کی بھی اطلاع نہ ہوگی۔ کیا یہ صورت حال اس امرکی دعوت نہیں دیتی ہے کہ انسان اس دنیا سے عبرت حاصل کرے اوراہل دنیا پر اعتماد کرنے کے بجائے اپنے ایمان کردار اور اولیاء الٰہی کی نصرت وحمایت حاصل کرنے پر توجہ دے کہ اس کے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے۔

۴۴۷

كَانَ يُعَظِّمُه أَوْ صَغِيرٍ كَانَ يَرْحَمُه - وإِنَّ لِلْمَوْتِ لَغَمَرَاتٍ هِيَ أَفْظَعُ مِنْ أَنْ تُسْتَغْرَقَ بِصِفَةٍ - أَوْ تَعْتَدِلَ عَلَى عُقُولِ أَهْلِ الدُّنْيَا

(۲۲۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله عند تلاوته:( يُسَبِّحُ لَه فِيها بِالْغُدُوِّ والآصالِ رِجالٌ - لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ ولا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله).

إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وتَعَالَى جَعَلَ الذِّكْرَ جِلاءً لِلْقُلُوبِ - تَسْمَعُ بِه بَعْدَ الْوَقْرَةِ وتُبْصِرُ بِه بَعْدَ الْعَشْوَةِ - وتَنْقَادُ بِه بَعْدَ الْمُعَانَدَةِ - ومَا بَرِحَ لِلَّه عَزَّتْ آلَاؤُه فِي الْبُرْهَةِ بَعْدَ الْبُرْهَةِ - وفِي أَزْمَانِ الْفَتَرَاتِ عِبَادٌ نَاجَاهُمْ فِي فِكْرِهِمْ - وكَلَّمَهُمْ فِي ذَاتِ عُقُولِهِمْ - فَاسْتَصْبَحُوا بِنُورِ يَقَظَةٍ فِي الأَبْصَارِ والأَسْمَاعِ والأَفْئِدَةِ - يُذَكِّرُونَ بِأَيَّامِ اللَّه ويُخَوِّفُونَ مَقَامَه - بِمَنْزِلَةِ الأَدِلَّةِ فِي الْفَلَوَاتِ

جنکا احترام کیا کرتا تھا یا ان بچوں کی تھیں جن پر رحم کیا کرتا تھا۔لیکن موت کی سختیاں ایسی ہی ہیں جو اپنی شدت میں بیان کی حدوں میں نہیں آسکتی ہیں اور اہل دنیا کی عقلوں کے اندازوں پرپوری نہیں اتر سکتی ہیں۔

(۲۲۲)

آپ کا اشاد گرامی

(جسے آیت کریمہ '' یسبح لہ فیھا بالغدوو الاصال رجال'' ان گھروں میں صبح و شام تسبیح پروردگار کرنے والے وہ افراد ہیں جنہیں تجارت اورکاروبار یاد خداس ے غافل نہیں بنا سکتا ہے۔کی تلاوت کے موقع پر ارشاد فرمایا :)

پروردگار نے اپنے ذکر کو دلوں کے لئے صیقل قراردیا ہے جس کی بنا پر وہ بہرے پن کے بعد سننے لگتے ہیں اور اندھے پن کے بعد دیکھنے لگتے ہیں اور رعنا و اور ضد کے بعد مطیع و فرمانبردار ہو جاتے ہیں اور خدائے عزوجل ( جس کی نعمتیں عظیم و جلیل ہیں ) کے لئے ہردور میں اور ہر عہد فترت میں ایسے بندے رہے ہیں جن سے اس نے ان کا افکار کے ذریعہ راز دارانہ گفتگو کی ہے اور ان کی عقلوں کے وسیلہ سے ان سے کلام کیا ے اور انہوں نے اپنی بصارت ' سماعت اورفکر کی بیداری کے نور سے روشنی حاصل کی ہے۔انہیں اللہ کے مخصوص دنوں کی یاد عطا کی گئی ہے اور وہ اس کی عظمت سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ان کی مثال بیابانوں کے راہنمائوں جیسی ہے

۴۴۸

مَنْ أَخَذَ الْقَصْدَ حَمِدُوا إِلَيْه طَرِيقَه وبَشَّرُوه بِالنَّجَاةِ ومَنْ أَخَذَ يَمِيناً وشِمَالًا ذَمُّوا إِلَيْه الطَّرِيقَ - وحَذَّرُوه مِنَ الْهَلَكَةِ - وكَانُوا كَذَلِكَ مَصَابِيحَ تِلْكَ الظُّلُمَاتِ - وأَدِلَّةَ تِلْكَ الشُّبُهَاتِ - وإِنَّ لِلذِّكْرِ لأَهْلًا أَخَذُوه مِنَ الدُّنْيَا بَدَلًا - فَلَمْ تَشْغَلْهُمْ تِجَارَةٌ ولَا بَيْعٌ عَنْه - يَقْطَعُونَ بِه أَيَّامَ الْحَيَاةِ - ويَهْتِفُونَ بِالزَّوَاجِرِ عَنْ مَحَارِمِ اللَّه فِي أَسْمَاعِ الْغَافِلِينَ - ويَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ ويَأْتَمِرُونَ بِه - ويَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ويَتَنَاهَوْنَ عَنْه - فَكَأَنَّمَا قَطَعُوا الدُّنْيَا إِلَى الآخِرَةِ وهُمْ فِيهَا - فَشَاهَدُوا مَا وَرَاءَ ذَلِكَ - فَكَأَنَّمَا اطَّلَعُوا غُيُوبَ أَهْلِ الْبَرْزَخِ فِي طُولِ الإِقَامَةِ فِيه - وحَقَّقَتِ الْقِيَامَةُ عَلَيْهِمْ عِدَاتِهَا - فَكَشَفُوا غِطَاءَ ذَلِكَ لأَهْلِ الدُّنْيَا - حَتَّى كَأَنَّهُمْ يَرَوْنَ مَا لَا يَرَى النَّاسُ ويَسْمَعُونَ مَا لَا يَسْمَعُونَ - فَلَوْ مَثَّلْتَهُمْ لِعَقْلِكَ  

کہ جو صحیح راستہ پر چلتا ہے اس کی روش کی تعریف کرتے ہیں اوراسے نجات کی بشارت دیتے ہیں اور جوداہنے بائیں چلا جاتا ہے اس کے راستہ کی مذمت کرتے ہیں اور اسے ہلاکت سے ڈراتے ہیں اور اسی اندازس ے یہ ظلمتوں کے چراغ اور شبہات کے رہنما ہیں۔

بیشک ذکرخدا کے بھی کچھ اہل ہیں جنہوں نے اسے ساری دنیا کا بدل قراردیا ہے اور اب انہیں تجارت یا خریدو فروخت اس ذکر سے غافل نہیں کرسکتی ہے ۔ یہ اس کے سہارے زندگی کے دن کاٹتے ہیں اور غافلوں کے کانوں میں محرمات کے روکنے والی آوازیں داخل کر دیتے ہیں۔لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور خود بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔برائیوں سے روکتے ہیں اور خودبھی باز رہتے ہیں۔گویا انہوں نے دنیا میں رہ کرآخرت تک کا فاصلہ طے کرلیا ہے اور پس پردۂ دنیا جو کچھ ہے سب دیکھ لیا ہے اور گویاکہ انہوں نے برزخ کے طویل و عریض زمانہ کے مخفی حالات پر اطلاع حاصل کرلی ہے اورگویا کہ قیامت نے ان کے لئے اپنے وعدوں کو پورا کردیا ہے اور انہوں نے اہل دنیا کے لئے اس پردہ(۱) کواٹھا دیا ہے۔کہ اب وہ ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں جنہیں عام لوگن ہیں دیکھ سکتے ہیں اور ان آوازوں کو سن رہے ہیں جنہیں دوسرے لوگ نہیں سن سکتے ہیں اگر تم اپنی عقل سے ان کی اس تصویر کو تیار کرو

(۱)ان حقائق کا صحیح اظہر وہی انسان کر سکتا ہے جو یقین کی اس آخری منزل پر فائز ہو جس کے بعد خود یہ اعلان کرتا ہو کہ اب اگر پردے ہٹا بھی دئیے جائیں تو یقین میں کسی طرح کا اضافہ نہیں ہو سکتا ہے۔اور حقیقت امر یہ ہے کہ اسلام میں اہل ذکر صرف صاحبان علم و فضل کا نام نہیں ہے بلکہ ذکر الٰہی کا اہل ان افراد کو قرا دیا گیا ہے جو تقویٰ اور پرہیز گاری کی آخری منزل پر ہوں اورآخرت کو اپنی نگاہوں سے دیکھ کر ساری دنیا کو راہ و وچاہ سے آگاہ کر رہے ہوں ملائکہ مقربین ان کے گرد گھیرے ڈالے ہوں لیکن اس کیب عد بھی عظمت جلال الٰہی کے تصورس ے اپنے اعمال کو بے قیمت سمجھ کر لرز رہے ہوں اور مسلسل اپنی کوتاہیوں کا اقرار کر رہے ہوں۔

۴۴۹

فِي مَقَاوِمِهِمُ الْمَحْمُودَةِ - ومَجَالِسِهِمُ الْمَشْهُودَةِ - وقَدْ نَشَرُوا دَوَاوِينَ أَعْمَالِهِمْ - وفَرَغُوا لِمُحَاسَبَةِ أَنْفُسِهِمْ عَلَى كُلِّ صَغِيرَةٍ وكَبِيرَةٍ - أُمِرُوا بِهَا فَقَصَّرُوا عَنْهَا أَوْ نُهُوا عَنْهَا فَفَرَّطُوا فيهَا - وحَمَّلُوا ثِقَلَ أَوْزَاِرِهمْ ظُهُورَهُمْ - فَضَعُفُوا عَنِ الِاسْتِقْلَالِ بِهَا - فَنَشَجُوا نَشِيجاً وتَجَاوَبُوا نَحِيباً - يَعِجُّونَ إِلَى رَبِّهِمْ مِنْ مَقَامِ نَدَمٍ واعْتِرَافٍ - لَرَأَيْتَ أَعْلَامَ هُدًى ومَصَابِيحَ دُجًى - قَدْ حَفَّتْ بِهِمُ الْمَلَائِكَةُ - وتَنَزَّلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ - وفُتِحَتْ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وأُعِدَّتْ لَهُمْ مَقَاعِدُ الْكَرَامَاتِ - فِي مَقْعَدٍ اطَّلَعَ اللَّه عَلَيْهِمْ فِيه - فَرَضِيَ سَعْيَهُمْ وحَمِدَ مَقَامَهُمْ - يَتَنَسَّمُونَ بِدُعَائِه رَوْحَ التَّجَاوُزِ - رَهَائِنُ فَاقَةٍ إِلَى فَضْلِه وأُسَارَى ذِلَّةٍ لِعَظَمَتِه - جَرَحَ طُولُ الأَسَى قُلُوبَهُمْ وطُولُ الْبُكَاءِ عُيُونَهُمْ - لِكُلِّ بَابِ رَغْبَةٍ إِلَى اللَّه مِنْهُمْ يَدٌ قَارِعَةٌ - يَسْأَلُونَ مَنْ لَا تَضِيقُ لَدَيْه الْمَنَادِحُ -

جو ان کے قابل تعریف مقامات اور قابل حضور مجالس کی ہے۔جہاں انہوں نے اپنے اعمال کے دفتر پھیلائے ہوئے ہیں اور اپنے ہرچھوٹے بڑے عمل کاحساب دینے کے لئے تیار ہیں جن کا حکمدیا گیا تھا اور ان میں کوتاہی ہوگئی ہے یا جن سے روکا گیاتھا اور تفصیر ہوگئی ہے اور اپنی پشت پر تمام اعمال کابوجھ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن اٹھانے کے قابل نہیں ہیں اور اب روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی ہیں اور ایک دوسرے کو رو رو کر اس کے سوال کا جوابدے رہے ہیں اور ندامت اوراعتراف گناہ کے ساتھ پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کر رہے ہیں۔تو وہ تمہیں ہدایت کے نشان اور تاریکی کے چراغ نظر آئیں گے جن کے گرد ملائکہ کا گھیرا ہوگا اور ان پر پروردگار کی طرف سے سکون و اطمینان کا مسلسل نزول ہوگا اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے ہوں گے اورکرامتوں کی منزلیں مہیا کردی گئی ہوں گی۔ایسے مقام پرجہاں مالک کی نگاہ کرم ان کی طرف ہو اور وہ ان کی سعی سے راضی ہو اور ان کی منزل کی تعریف کر رہا ہو۔ وہ مالک کو پکارنے کی فرحت سے بخشش کی ہوائوں میں سانس لیتے ہوں۔اس کے فضل و کرم کی احتیاج کے ہاتھوں رہن ہوں اوراس کی عظمت کے سامنے ذلت کے اسیر ہوں۔غم و اندوہ کے طول زمان نے ان کے دلوں کومجروح کردیا ہو اور مسلسل گریہ نے ان کی آنکھوں کو زخمی کردیا ہو۔مالک کی طرف رغبت کے ہر دروازہ کو کھٹکھٹارہے ہوں اور اس سے سوال کر رہے ہوں جس کے جودو کرم کی وسعتوں میں تنگی نہیں آتی ہے اور جس کی

۴۵۰

ولَا يَخِيبُ عَلَيْه الرَّاغِبُونَ. فَحَاسِبْ نَفْسَكَ لِنَفْسِكَ فَإِنَّ غَيْرَهَا مِنَ الأَنْفُسِ لَهَا حَسِيبٌ غَيْرُكَ.

(۲۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله عند تلاوته:( يا أَيُّهَا الإِنْسانُ ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ ) .

أَدْحَضُ مَسْئُولٍ حُجَّةً وأَقْطَعُ مُغْتَرٍّ مَعْذِرَةً - لَقَدْ أَبْرَحَ جَهَالَةً بِنَفْسِه.

يَا أَيُّهَا الإِنْسَانُ مَا جَرَّأَكَ عَلَى ذَنْبِكَ - ومَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ ومَا أَنَّسَكَ بِهَلَكَةِ نَفْسِكَ - أَمَا مِنْ دَائِكَ بُلُولٌ أَمْ لَيْسَ مِنْ نَوْمَتِكَ يَقَظَةٌ - أَمَا تَرْحَمُ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَرْحَمُ مِنْ غَيْرِكَ - فَلَرُبَّمَا تَرَى الضَّاحِيَ مِنْ حَرِّ الشَّمْسِ فَتُظِلُّه

طرف رغبت کرنے والے کبھی مایوس نہیں ہوتے ہیں دیکھو اپنی بھلائی کے لئے خود اپنے نفس کا حساب کرو کہ دوسروں کے نفس کاحساب کرنے والا کوئی اور ہے۔

(۲۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے آیت شریفہ'' ما غرک بربک الکریم' ' (اے انسان تجھے خدائے کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکہ میں ڈال دیا ہے ؟)کے ذیل میں ارشاد فرمایا ہے :)

دیکھو یہ انسان جس سے یہ سوال کیا گیا ہے وہ اپنی دلیل کے اعتبار سے کس قدر کمزور ہے اور اپنے فریب خوردہ ہونے کے اعتبار سے کس قدرناقص معذرت کا حامل ہے ۔یقینا اس نے اپنے نفس کو جہالت کی سختیوں میں مبتلا کردیا ہے۔ اے انسان! سچ بتا۔تجھے کس شے نے گناہوں کی جرأت دلائی ہے اور کس چیزنے پروردگار کے بارے میں دھوکہ میں رکھا ہے اور کس امرنے نفس کی ہلاکت پر بھی مطمئن بنادیا ہے۔کیا تیرے اس مرض کا کوی علاج اور تیرے اس خواب کی کوئی بیداری نہیں ہے اور کیا انپے نفس(۱) پر اتنا بھی رحم نہیں کرتا ہے جتنا دوسروں پرکرتا ہے کہ جب کبھی آفتاب کی حرارت میں کسی کو تپتا دیکھتا ہے تو سایہ کردیتا ہے

(۱)حقیقت امری ہ ہے کہ انسان آخرت کی طرف سے بالکل غفلت کا مجسمہ بن گیا ہے کہ دنیا میں کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ پاتا ہے اوراس کی داد رسی کے لئے تیار ہو جاتا ہے اورآخرت میں پیش آنے والے خود اپنے مصائب کی طرف سے بھی یکسر غافل ے اورایک لمحہ کے لئے بھی آفتاب محشر کے سایہ اور گرمی قیامت کی خشکی کا انتظام نہیں کرتا ہے۔بلکہ بعض اوقات اس کا مذاق بھی اڑاتا ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون

۴۵۱

أَوْ تَرَى الْمُبْتَلَى بِأَلَمٍ يُمِضُّ جَسَدَه فَتَبْكِي رَحْمَةً لَه - فَمَا صَبَّرَكَ عَلَى دَائِكَ وجَلَّدَكَ عَلَى مُصَابِكَ - وعَزَّاكَ عَنِ الْبُكَاءِ عَلَى نَفْسِكَ - وهِيَ أَعَزُّ الأَنْفُسِ عَلَيْكَ - وكَيْفَ لَا يُوقِظُكَ خَوْفُ بَيَاتِ نِقْمَةٍ - وقَدْ تَوَرَّطْتَ بِمَعَاصِيه مَدَارِجَ سَطَوَاتِه - فَتَدَاوَ مِنْ دَاءِ الْفَتْرَةِ فِي قَلْبِكَ بِعَزِيمَةٍ - ومِنْ كَرَى الْغَفْلَةِ فِي نَاظِرِكَ بِيَقَظَةٍ - وكُنْ لِلَّه مُطِيعاً وبِذِكْرِه آنِساً - وتَمَثَّلْ فِي حَالِ تَوَلِّيكَ عَنْه - إِقْبَالَه عَلَيْكَ يَدْعُوكَ إِلَى عَفْوِه - ويَتَغَمَّدُكَ بِفَضْلِه وأَنْتَ مُتَوَلٍّ عَنْه إِلَى غَيْرِه فَتَعَالَى مِنْ قَوِيٍّ مَا أَكْرَمَه - وتَوَاضَعْتَ مِنْ ضَعِيفٍ مَا أَجْرَأَكَ عَلَى مَعْصِيَتِه - وأَنْتَ فِي كَنَفِ سِتْرِه مُقِيمٌ - وفِي سَعَةِ فَضْلِه مُتَقَلِّبٌ - فَلَمْ يَمْنَعْكَ فَضْلَه ولَمْ يَهْتِكْ عَنْكَ سِتْرَه - بَلْ لَمْ تَخْلُ مِنْ لُطْفِه مَطْرَفَ عَيْنٍ - فِي نِعْمَةٍ يُحْدِثُهَا لَكَ أَوْ سَيِّئَةٍ يَسْتُرُهَا عَلَيْكَ - أَوْ بَلِيَّةٍ يَصْرِفُهَا عَنْكَ فَمَا

یا کسی کو درد و رنج میں مبتلا دیکھتا ہے تو اس کے حال پررونے لگتا ہے توخرکس شے نے تجھے خود اپنے مرض پر صبر دلادیا ہے اور اپنی مصیبت پرسامان سکون فراہم کردیا ہے اوراپنے نفس پر رونے سے روک دیا ہے جب کہ وہ تجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔اور کیوں راتوں رات عذاب الٰہی کے نازل ہو جانے کا تصور تجھے بیدار نہیں رکھتا ہے جب کہ تو اس کی نا فرمانیوں کی بنا پر اس کے قہرو غلبہ کی راہ میں پڑا ہوا ہے۔ ابھی غنیمت ہے کہ اپنے دل کی سستی کاعزمراسخ سے علاج کرلے اور اپنی آنکھوں میں غفلت کی نیند کابیدردی سے مداوا کرلے اللہ کی اطاعت گذار بن جا۔اس کی یاد سے انس حاصل کراور اس امر کاتصور کرکہ کس طرح وہ تیرے دوسروں کی طرف منہ موڑ لینے کے باوجود وہ تیری طرف متوجہ رہتا ہے۔تجھے معافی کی دعوت دیتاہے۔اپنے فضل و کرم میں ڈھانپ لیتا ہے حالانکہ تو دوسروں کی طرف رخ کئے ہوئے ہے۔بلند وبالا ہے وہ صاحب قوت جو اس قدر کرم کرتا ہے اور ضعیف و ناتواں ہے تو انسان جو اس کی معصیت کی اس قدر جرأت رکھتا ہے جب کہ اسی کے عیب پوشی کے ہمسایہ میں مقیم ہے اور اسی کے فضل و کرم کی وسعتوں میں کروٹیں بدل رہا ہے وہ نہ اپنے فضل وکرم کوتجھ سے روکتا ہے اورنہ تیرے پردہ ٔ راز کوفاش کرتا ہے۔بلکہ تو پلک جھپکنے کے برابر بھی اس کی مہربانیوں سے خالی نہیں ہے۔کبھی نئی نئی نعمتیںعطا کرتا ہے۔کبھی برائیوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور کبھی بلائوں کو رد کردیتا ہے جب کہ تو اس کی

۴۵۲

ظَنُّكَ بِه لَوْ أَطَعْتَه - وايْمُ اللَّه لَوْ أَنَّ هَذِه الصِّفَةَ كَانَتْ فِي مُتَّفِقَيْنِ فِي الْقُوَّةِ - مُتَوَازِيَيْنِ فِي الْقُدْرَةِ - لَكُنْتَ أَوَّلَ حَاكِمٍ عَلَى نَفْسِكَ بِذَمِيمِ الأَخْلَاقِ - ومَسَاوِئِ الأَعْمَالِ - وحَقّاً أَقُولُ مَا الدُّنْيَا غَرَّتْكَ ولَكِنْ بِهَا اغْتَرَرْتَ - ولَقَدْ كَاشَفَتْكَ الْعِظَاتِ وآذَنَتْكَ عَلَى سَوَاءٍ - ولَهِيَ بِمَا تَعِدُكَ مِنْ نُزُولِ الْبَلَاءِ بِجِسْمِكَ - والنَّقْصِ فِي قُوَّتِكَ أَصْدَقُ وأَوْفَى مِنْ أَنْ تَكْذِبَكَ أَوْ تَغُرَّكَ - ولَرُبَّ نَاصِحٍ لَهَا عِنْدَكَ مُتَّهَمٌ - وصَادِقٍ مِنْ خَبَرِهَا مُكَذَّبٌ - ولَئِنْ تَعَرَّفْتَهَا فِي الدِّيَارِ الْخَاوِيَةِ والرُّبُوعِ الْخَالِيَةِ - لَتَجِدَنَّهَا مِنْ حُسْنِ تَذْكِيرِكَ - وبَلَاغِ مَوْعِظَتِكَ - بِمَحَلَّةِ الشَّفِيقِ عَلَيْكَ والشَّحِيحِ بِكَ - ولَنِعْمَ دَارُ مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَا دَاراً - ومَحَلُّ مَنْ لَمْ يُوَطِّنْهَا مَحَلاًّ - وإِنَّ السُّعَدَاءَ بِالدُّنْيَا غَداً هُمُ الْهَارِبُونَ مِنْهَا الْيَوْمَ. إِذَا رَجَفَتِ الرَّاجِفَةُ

معصیت کر رہا ہے تو سوچ اگر تو اطاعت کرتا تو کیا ہوتا ؟

خدا گواہ ہے کہ اگریہ برتائو دو برابر کی قوتو قدرت والوں کے درمیان ہوتا اور تو دوسرے کے ساتھ ایسا ہی برتائو کرتا تو تو خود ہی سب سے پہلے اپنے نفس کے بد اخلاق اور بد عمل ہونے کا فیصلہ کردیتا ہے لیکن افسوس۔

میں سچ کہتا ہوں کہ دنیا نے تجھے دھوکہ نہیں دیا ہے تونے دنیا سے دھوکہ کھایا ہے۔اس نے تو نصیحتوں کوکھول کر سامنے رکھ دیا ہے اور تجھے ہر چیز سے برابر سے آگاہ کیا ہے۔اس نے جسم پر جن نازل ہونے والی بلائوں کا وعدہ کیا ہے اور قوت میں جس کمزوری کی خبردی ہے۔اس میں وہ بالکل سچی اور وفائے عہد کرنے والی ہے۔نہ جھوٹ بولنے والی ہے اور نہ دھکہ دینے والی۔بلکہ بہت سے اس کے بارے میں نصیحت کرنے والے ہیں جو تیرے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں اورسچ سچ بولنے والے ہیں جو تیریر نگاہ میں جھوٹے ہیں۔

اگر تونے اسے گرے پڑے مکانات اور غیر آباد منزلوں میں پہچان لیا ہوتا تو دیکھتا کہ وہ اپنی یاد دہانی اوربلیغ ترین نصیحت میں تجھ پر کس قدر مہربان ہے اور تیری تباہی کے بارے میں کس قدر بخل سے کام لیتی ہے۔

یہ دنیا اس کے لئے بہترین گھر ہے جو اسکو گھر بنانے سے راضی نہ ہو۔اور اس کے لئے بہترین وطن ہے جو اسے وطن بنانے پرآمادہ نہ ہو۔اس دنیا کے رہنے والوں میں کل کے دن نیک بخت وہی ہوں گے جوآج اس سے گریز کرنے پرآمادہ ہوں۔ دیکھو جب زمین کو زلزلہ آجائے گا

۴۵۳

وحَقَّتْ بِجَلَائِلِهَا الْقِيَامَةُ - ولَحِقَ بِكُلِّ مَنْسَكٍ أَهْلُه وبِكُلِّ مَعْبُودٍ عَبَدَتُه - وبِكُلِّ مُطَاعٍ أَهْلُ طَاعَتِه - فَلَمْ يُجْزَ فِي عَدْلِه وقِسْطِه يَوْمَئِذٍ خَرْقُ بَصَرٍ فِي الْهَوَاءِ - ولَا هَمْسُ قَدَمٍ فِي الأَرْضِ إِلَّا بِحَقِّه - فَكَمْ حُجَّةٍ يَوْمَ ذَاكَ دَاحِضَةٌ - وعَلَائِقِ عُذْرٍ مُنْقَطِعَةٌ! فَتَحَرَّ مِنْ أَمْرِكَ مَا يَقُومُ بِه عُذْرُكَ وتَثْبُتُ بِه حُجَّتُكَ - وخُذْ مَا يَبْقَى لَكَ مِمَّا لَا تَبْقَى لَه - وتَيَسَّرْ لِسَفَرِكَ وشِمْ بَرْقَ النَّجَاةِ وارْحَلْ مَطَايَا التَّشْمِيرِ

(۲۲۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يتبرأ من الظلم

واللَّه لأَنْ أَبِيتَ عَلَى حَسَكِ السَّعْدَانِ مُسَهَّداً - أَوْ أُجَرَّ فِي الأَغْلَالِ مُصَفَّداً - أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَلْقَى اللَّه ورَسُولَه يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظَالِماً - لِبَعْضِ الْعِبَادِ وغَاصِباً لِشَيْءٍ مِنَ الْحُطَامِ - وكَيْفَ أَظْلِمُ أَحَداً

اور قیامت اپنی عظیم مصیبتوں کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی اور ہر عبادت گاہ کے ساتھ اس کے عبادت گزار ۔ہر معبود کے ساتھ اس کے بندے اور ہر قابل اطاعت کے ساتھ اس کے مطیع و فرمانبردار ملحق کردئیے جائیں گے تو کوئی ہوا میں شگاف کرنے والی نگاہ اور زمین پر پڑنے والے قدم کی آہٹ ایسی نہ ہوگی جس کا عدل و انصاف کے ساتھ پورا بدلہ نہ دے دیا جائے۔اس دن کتنی ہی دلیلیں ہوں گی جو بیکار ہو جائیں گی اور کتنے ہی معذرت کے رشتے ہوں گے جو کٹ کے رہ جائیں گے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ ابھی سے ان چیزوں کو تلاش کرلو جن سے عذر قائم ہو سکے اور دلیل ثابت ہو سکے جن دنیا میں تم کونہیں رہنا ہے اس میں سے وہ لے لو جس کو تمہارے ساتھ رہنا ہے۔سفر کے لئے آمادہ ہو جائو۔نجات کی روشنی کی چمک دیکھ لو اور آمادگی کی سواریوں پر سامان بار کرلو۔

(۲۲۴)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں ظلم سے برائت و بیزاری کا اظہار فرمایا گیا ہے)

خدا گواہ ہے کہ میرے لئے سعد ان کی خار دار جھاڑی پر جگ کر رات گزارلینایا زنجیروں میں قید ہو کر کھینچا جانا اس امر سے زیادہ عزیز ہے۔کہ میں روز قیامت پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کروں کہ کسی بندہ پر ظلم کرچکا ہوں یا دنیاکے کسی معمولی مال کو غصب کیا ہو بھلا میں کسی شخص پر بھی اس نفس کے لئے کس طرح ظلم

۴۵۴

لِنَفْسٍ يُسْرِعُ إِلَى الْبِلَى قُفُولُهَا ويَطُولُ فِي الثَّرَى حُلُولُهَا؟!

واللَّه لَقَدْ رَأَيْتُ عَقِيلًا وقَدْ أَمْلَقَ - حَتَّى اسْتَمَاحَنِي مِنْ بُرِّكُمْ صَاعاً - ورَأَيْتُ صِبْيَانَه شُعْثَ الشُّعُورِ غُبْرَ الأَلْوَانِ مِنْ فَقْرِهِمْ - كَأَنَّمَا سُوِّدَتْ وُجُوهُهُمْ بِالْعِظْلِمِ - وعَاوَدَنِي مُؤَكِّداً وكَرَّرَ عَلَيَّ الْقَوْلَ مُرَدِّداً - فَأَصْغَيْتُ إِلَيْه سَمْعِي فَظَنَّ أَنِّي أَبِيعُه دِينِي - وأَتَّبِعُ قِيَادَه مُفَارِقاً طَرِيقَتِي – فَأَحْمَيْتُ لَه حَدِيدَةً ثُمَّ أَدْنَيْتُهَا مِنْ جِسْمِه لِيَعْتَبِرَ بِهَا - فَضَجَّ ضَجِيجَ ذِي دَنَفٍ مِنْ أَلَمِهَا - وكَادَ أَنْ يَحْتَرِقَ مِنْ مِيسَمِهَا - فَقُلْتُ لَه ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ يَا عَقِيلُ - أَتَئِنُّ مِنْ حَدِيدَةٍ أَحْمَاهَا إِنْسَانُهَا لِلَعِبِه - وتَجُرُّنِي إِلَى نَارٍ سَجَرَهَا جَبَّارُهَا لِغَضَبِه - أَتَئِنُّ مِنَ الأَذَى ولَا أَئِنُّ مِنْ لَظَى

کروں گا جو فنا کی طرف بہت جلد پلٹنے والا ہے اورزمین کے اندر بہت دنوں رہنے والا ہے۔

خداکی قسم میں نے عقیل(۱) کوخود دیکھا ہے کہ انہوں نے فقر وفاقہ کی بنا پر تمہارے حصہ گندم میں سے تین کیلو کامطالبہ کیا تھا جب کہ ان کے بچغوں کے بال غربت کی بناپر پراگندہ ہو چکے تھے اور ان کے چہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑ ک کر سیاہ بنایا گیا ہوا اورانہوںنے مجھ سے باربارتقاضا کیا اور مکرر اپنے مطالبہ کودہرایا تو میں نے ان کی طرف کان دھردئیے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید میں دین بیچنے اور اپنے راستہ کو چھوڑ کران کے مطالبہ پرچلنے کے لئے تیار ہوگیا ہوں۔لیکن میں نے ان کے لئے لوہا گرم کرایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں۔انہوںنے لوہا دیکھ کری وں فریاد شروع کردی جیسے کوئی بیمار اپنے درد و الم سے فریاد کرتا ہو اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس کے داغ دینے سے جل جائے۔تو میں نے کہا رونے والیاں آپ کے غم میں روئیں اپنے عقیل ! آپ اس لوہے سے فریاد کر رہے ہیں جس ایک انسان نے فقط ہنسی مذاق میں تپایا ہے اور مجھے اسآگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جسے خدائے جبارنے اپنے غضب کی بنیاد پربھڑکایا ہے۔آپ اذیت سے فریاد کریں اور میں جہنم سے فریاد نہ کروں۔

(۱) جناب عقیل آپ کے بڑے بھائی او حقیقی بھائی تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے یہ عادلانہ برتائو کرکے واضح کردیا کہ دین الٰہی میں رشت و قرابت کا گذر نہیں ہے۔دین کا ذمہ دار وہی شخص ہو سکتا ہے جو مال خدا کو مال خدا تصور کرے اور اس مسئلہمیں کسی طرح کی رشتہ داری اور تعلق کو شامل نہ کرے۔یہ امیر المومنین کے کردار کا وہ نمایاں امتیاز ہے جس کا اندازہ دوست اوردشمن دونوں کو تھا اور کوئی بھی اس معرفت سے بیگانہ نہ تھا۔

۴۵۵

وأَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ طَارِقٌ طَرَقَنَا بِمَلْفُوفَةٍ فِي وِعَائِهَا - ومَعْجُونَةٍ شَنِئْتُهَا - كَأَنَّمَا عُجِنَتْ بِرِيقِ حَيَّةٍ أَوْ قَيْئِهَا - فَقُلْتُ أَصِلَةٌ أَمْ زَكَاةٌ أَمْ صَدَقَةٌ - فَذَلِكَ مُحَرَّمٌ عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ - فَقَالَ لَا ذَا ولَا ذَاكَ ولَكِنَّهَا هَدِيَّةٌ - فَقُلْتُ هَبِلَتْكَ الْهَبُولُ أَعَنْ دِينِ اللَّه أَتَيْتَنِي لِتَخْدَعَنِي - أَمُخْتَبِطٌ أَنْتَ أَمْ ذُو جِنَّةٍ أَمْ تَهْجُرُ -

واللَّه لَوْ أُعْطِيتُ الأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا - عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّه فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُه - وإِنَّ دُنْيَاكُمْ عِنْدِي لأَهْوَنُ مِنْ وَرَقَةٍ فِي فَمِ جَرَادَةٍ تَقْضَمُهَا - مَا لِعَلِيٍّ ولِنَعِيمٍ يَفْنَى ولَذَّةٍ لَا تَبْقَى - نَعُوذُ بِاللَّه مِنْ سُبَاتِ الْعَقْلِ وقُبْحِ الزَّلَلِ وبِه نَسْتَعِينُ.

اس سے زیادہ تعجب خیز باتیہ ہے کہ ایک رات ایک شخص (اشعث بن قیس) میرے پاس شہد میں گندھا ہوا حلوہ برتن میں رکھ کر لایا جو مجھے اس قدر ناگوارتھا جیسے سانپ کے تھوک یا قے سے گوندھا ہو۔میں نے پوچھا کہ یہ کوئی انعام ہے یا زکوٰة یا صدقہ جو ہم اہل بیت پر حرام ہے ؟ اس نے کہاکہ یہ کچھ نہیں ہے۔یہ فقط ایک ہدیہ ہے ! میں نے کہاکہ پسر مردہ عورتیں تجھ کو روئیں ۔تو دین خداکے راستہ سے آکر مجھے دھوکہ دینا چاہتا ہے تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے یا تو پاگل ہوگیا ہے یا ہذیان بک رہا ہے۔ آخر ہے کیا ؟

خدا گواہ ہے کہ اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت تمام زیر آسمان دولتوں کے ساتھ دے دی جائے اور مجھ سے یہ مطالبہ کیاجائے کہ میں کسی چیونٹی پر صرف اس قدر ظلم کروں کہ اس کے منہ سے اس چھلکے کو چھین لوں جو وہ چبا رہی ہے تو ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہوں۔یہ تمہاری دنیا میری نظر میں اس پتی سے زیادہ بے قیمت ہے جو کسی ٹڈی کے منہ میں ہواور وہ اسے چبا رہی ہو۔

بھلا علی کو ان نعمتوں سے کیاواسطہ جو فنا ہو جانے والی ہیں اور اس لذت سے کیا تعلق جوب اقی رہنے والی ہیں ہے۔میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے اورلغزشوں کی برائیوں سے اوراسی سے مدد کا طلب گار ہوں۔

۴۵۶

( ۲۲۵ )

ومن دعاء لهعليه‌السلام

يلتجئ إلى اللَّه أن يغنيه

اللَّهُمَّ صُنْ وَجْهِي بِالْيَسَارِ ولَا تَبْذُلْ جَاهِيَ

بِالإِقْتَارِ - فَأَسْتَرْزِقَ طَالِبِي رِزْقِكَ وأَسْتَعْطِفَ شِرَارَ خَلْقِكَ - وأُبْتَلَى بِحَمْدِ مَنْ أَعْطَانِي وأُفْتَتَنَ بِذَمِّ مَنْ مَنَعَنِي - وأَنْتَ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ كُلِّه وَلِيُّ الإِعْطَاءِ والْمَنْعِ -( إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) .

(۲۲۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في التنفير من الدنيا

دَارٌ بِالْبَلَاءِ مَحْفُوفَةٌ وبِالْغَدْرِ مَعْرُوفَةٌ - لَا تَدُومُ أَحْوَالُهَا ولَا يَسْلَمُ نُزَّالُهَا

أَحْوَالٌ مُخْتَلِفَةٌ وتَارَاتٌ مُتَصَرِّفَةٌ

(۲۲۵)

آپ کی دعا کا ایک حصہ

(جس میں پروردگار سے ے نیازی کا مطالبہ کیا گیا ہے )

خدایا! میری آبرو(۱) کومالداری کے ذریعہ محفوظ فرما اورمیری منزلت کو غربت کی بنا پر نگاہوں سے نہ گرنے دینا کہ مجھے تجھ سے روزی مانگنے والوں سے مانگنا پڑے یا تیری بد ترین مخلوقات سے رحم کی درخواست کرنا پڑے اوراس کے بعد میں ہر عطا کرنے والے کی تعریف کروں اور ہرانکار کرنے والے کی مذمت میں مبتلا ہو جائوںجب کہان سب کے پس پردہ عطاء و انکار دونوں کا اختیار تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پرقدرت رکھنے والا ہے۔

(۲۲۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں دنیا سے نفرت دلائی گئی ہے )

یہ ایک ایسا گھرہے جو بلائوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے۔نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے۔

اس کے حالات مختلف اوراس کے اطوار بدلنے

(۱) یہ فقرات بعینہ اسی طرح امام زین العابدین کی مکارم اخلاق میں بھی پائے جاتے ہیں جواس بات کی علامت ہے کہ اہل بیت کاکردار اور ان کا بیان ہمیشہ ایک انداز کا ہوتا ہے اوراسمیں کسی طرح کا اختلاف و انتشار نہیں ہوتا ہے۔

۲۔ اس خطبہ میں دنیا کے حسب ذیل خصوصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔۱۔یہ مکان بلائوں میں گھرا ہواہے۔۲۔اس کی غداری معروف ہے ۔۳۔اس کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں ۔۴۔اس کی زندگی کا انجام موت ہے۔۵۔اس کی زندگی قابل مذمت ہے ۔۶۔اس میں امن و امان نہیں ہے۔۷۔اس کے باشندے بلائوں اورمصیبتوں کا ہدف ہیں۔

۴۵۷

الْعَيْشُ فِيهَا مَذْمُومٌ والأَمَانُ مِنْهَا مَعْدُومٌ - وإِنَّمَا أَهْلُهَا فِيهَا أَغْرَاضٌ مُسْتَهْدَفَةٌ - تَرْمِيهِمْ بِسِهَامِهَا وتُفْنِيهِمْ بِحِمَامِهَا

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّكُمْ ومَا أَنْتُمْ فِيه مِنْ هَذِه الدُّنْيَا - عَلَى سَبِيلِ مَنْ قَدْ مَضَى قَبْلَكُمْ - مِمَّنْ كَانَ أَطْوَلَ مِنْكُمْ أَعْمَاراً وأَعْمَرَ دِيَاراً وأَبْعَدَ آثَاراً - أَصْبَحَتْ أَصْوَاتُهُمْ هَامِدَةً ورِيَاحُهُمْ رَاكِدَةً - وأَجْسَادُهُمْ بَالِيَةً ودِيَارُهُمْ خَالِيَةً وآثَارُهُمْ عَافِيَةً - فَاسْتَبْدَلُوا بِالْقُصُورِ الْمَشَيَّدَةِ والنَّمَارِقِ الْمُمَهَّدَةِ - الصُّخُورَ والأَحْجَارَ الْمُسَنَّدَةَ والْقُبُورَ اللَّاطِئَةَ الْمُلْحَدَةَ - الَّتِي قَدْ بُنِيَ عَلَى الْخَرَابِ فِنَاؤُهَا - وشُيِّدَ بِالتُّرَابِ بِنَاؤُهَا فَمَحَلُّهَا مُقْتَرِبٌ وسَاكِنُهَا مُغْتَرِبٌ - بَيْنَ أَهْلِ مَحَلَّةٍ مُوحِشِينَ وأَهْلِ فَرَاغٍ مُتَشَاغِلِينَ - لَا يَسْتَأْنِسُونَ بِالأَوْطَانِ ولَا يَتَوَاصَلُونَ تَوَاصُلَ الْجِيرَانِ - عَلَى مَا بَيْنَهُمْ مِنْ قُرْبِ الْجِوَارِ ودُنُوِّ الدَّارِ - وكَيْفَ يَكُونُ بَيْنَهُمْ تَزَاوُرٌ وقَدْ طَحَنَهُمْ بِكَلْكَلِه الْبِلَى

والے ہیں۔اس میں پرکیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن و امان کا دور دورہ پتہ نہیں ہے۔اس کے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انہیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے۔

بندگان خدا! یادرکھو اس دنیا میں تم اورجو کچھ تمہارے پاس ہے سب کا وہی راستہ ہے جس پرپہلے والے چل چکے ہیں جن کی عمریں تم سے زیادہ طویل اور جن کے علاقے تم سے زیادہ آباد تھے ۔ان کے آثار بھی دور دورتک پھیلے ہوئے تھے ۔لیکن اب ان کی آوازیں دب گئی ہیں ان کی ہوائیں اکھڑ گئی ہیں۔ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ہیں۔ان کے مکانات خالی ہوگئے ہیں اور ان کے آثارمٹ چکے ہیں ۔وہ مستحکم قلعوں اور بچھی ہوئی مسندوں کو پتھروں اورچنی ہوئی سلوں اور زمین کے اندرلحد والی قبروں میں تبدیل کر چکے ہیں جن کے صحتوں کی بنیاد تباہی پر قائم ہے اورجن کی عمارت مٹی سے مضبوط کی گئی ہے۔ان قبروں کی جگہیں تو قریب قریب ہیں لیکن ان کے رہنے والے سب ایک دوسرے سے غریب اور اجنبی ہیں۔ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو بوکھلائے ہوئے ہیں اور یہاں کے کاموں سے فارغ ہو کر وہاں کی فکر میں مشغول ہوگئے ہیں۔نہ اپنے وطن سے کوئی انس رکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایوں سے کوئی ربط رکھتے ہیں۔حالانکہ بالکل قرب وجوار اورنزدیک ترین دیار میں ہیں۔اور ظاہر ہے کہ اب ملاقات کا کیا امکان ہے جب کہ بوسیدگی نے انہیں اپنے سینہ سے دباکر پیش ڈالا ہے اور پتھروں اورمٹی نے انہیں

۴۵۸

وأَكَلَتْهُمُ الْجَنَادِلُ والثَّرَى !وكَأَنْ قَدْ صِرْتُمْ إِلَى مَا صَارُوا إِلَيْه - وارْتَهَنَكُمْ ذَلِكَ الْمَضْجَعُ وضَمَّكُمْ ذَلِكَ الْمُسْتَوْدَعُ - فَكَيْفَ بِكُمْ لَوْ تَنَاهَتْ بِكُمُ الأُمُورُ - وبُعْثِرَتِ الْقُبُورُ :( هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ - ورُدُّوا إِلَى الله مَوْلاهُمُ الْحَقِّ - وضَلَّ عَنْهُمْ ما كانُوا يَفْتَرُونَ ) .

(۲۲۷)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

يلجأ فيه إلى اللَّه ليهديه إلى الرشاد

اللَّهُمَّ إِنَّكَ آنَسُ الآنِسِينَ لأَوْلِيَائِكَ - وأَحْضَرُهُمْ بِالْكِفَايَةِ لِلْمُتَوَكِّلِينَ عَلَيْكَ - تُشَاهِدُهُمْ فِي سَرَائِرِهِمْ وتَطَّلِعُ عَلَيْهِمْ فِي ضَمَائِرِهِمْ - وتَعْلَمُ مَبْلَغَ بَصَائِرِهِمْ - فَأَسْرَارُهُمْ لَكَ مَكْشُوفَةٌ وقُلُوبُهُمْ إِلَيْكَ مَلْهُوفَةٌ - إِنْ أَوْحَشَتْهُمُ الْغُرْبَةُ آنَسَهُمْ ذِكْرُكَ - وإِنْ صُبَّتْ عَلَيْهِمُ الْمَصَائِبُ لَجَئُوا إِلَى الِاسْتِجَارَةِ بِكَ - عِلْماً بِأَنَّ أَزِمَّةَ الأُمُورِ بِيَدِكَ - ومَصَادِرَهَا عَنْ قَضَائِكَ.

اللَّهُمَّ إِنْ فَهِهْتُ عَنْ مَسْأَلَتِي

کھا کر برابر کر دیا ہے اورگویا کہ اب تم بھی وہیں پہنچ گئے ہوجہاں وہ پہنچ چکے ہیں اور تمہیں بھی اسی قبر نے گرو رکھ لیا ہے اور اسی امانت گاہ نے جکڑ لیا ہے۔

سوچو اس وقت کیا ہوگا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد کو پہنچ جائیں گے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا اس وقت ہرنفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب کو مالک برحق کی طرف پلٹا دیاجائے گا اور کسی کی کوئی افتر پردازی کام آنے والی نہ ہوگی

(۲۲۷)

آپ کی دعا کا ایک حصہ

(جس میں نیک راستہ کی ہدایت کا مطالبہ کیاگیا ہے)

پروردگار تو اپنے دوستوں کے لئے تمام انس فراہم کرنے والوں سے زیادہ سبب انس اور تمام اپنے اوپر بھروسہ کرنے والوں کے لئے سب سے زیادہ حاجت روائی کے لئے حاضر ہے۔توان کے پوشیدہ امور پر نگاہ رکھتا ہے۔ان کے اسرار پر اطلاع رکھتا ہے اور ان کی بصیرتوں کی آخری حدوں کوبھی جانتا ہے۔ان کے اسرار تیرے لئے روشن اور ان کے قلوب تیری بارگاہ میں فریادی ہیں۔جب غربت انہیں متوحش کرتی ہے تو تیری یاد انس کا سامان فراہم کر دیتی ہے اور جب مصائب ان پر انڈیل دئیے جاتے ہیں تو وہ تیریر پناہ تلاش کرلیتے ہیں اس لئے کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ تمام معاملات کی زمام تیرے ہاتھ میں ہے اور تمام امور کا فیصلہ تیری ذات سے صادر ہوتا ہے۔

خدایا ! اگرمیں اپنے سوالات کو پیش کرنے

۴۵۹

أَوْ عَمِيتُ عَنْ طِلْبَتِي - فَدُلَّنِي عَلَى مَصَالِحِي - وخُذْ بِقَلْبِي إِلَى مَرَاشِدِي - فَلَيْسَ ذَلِكَ بِنُكْرٍ مِنْ هِدَايَاتِكَ - ولَا بِبِدْعٍ مِنْ كِفَايَاتِكَ

اللَّهُمَّ احْمِلْنِي عَلَى عَفْوِكَ ولَا تَحْمِلْنِي عَلَى عَدْلِكَ.

(۲۲۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يريد به بعض أصحابه

لِلَّه بَلَاءُ فُلَانٍ فَلَقَدْ قَوَّمَ الأَوَدَ ودَاوَى الْعَمَدَ - وأَقَامَ السُّنَّةَ وخَلَّفَ الْفِتْنَةَ - ذَهَبَ نَقِيَّ الثَّوْبِ قَلِيلَ الْعَيْبِ - أَصَابَ خَيْرَهَا وسَبَقَ شَرَّهَا - أَدَّى إِلَى اللَّه طَاعَتَه واتَّقَاه بِحَقِّه - رَحَلَ وتَرَكَهُمْ فِي طُرُقٍ مُتَشَعِّبَةٍ - لَا يَهْتَدِي بِهَا الضَّالُّ ولَا يَسْتَيْقِنُ الْمُهْتَدِي.

سے عاجز ہوں اور مجھے اپنے مطالبات کی راہ نظرنہیں آتی ہے تو تو میرے مصالح کی رہنمائی فرما اورمیرے دل کو ہدایت کی منزلوں تک پہنچا دے کہ یہ بات تیری ہدایتوں کے لئے کوئی انوکھی نہیں ہے اور تیریر حاجت روائیوں کے سلسلہ میں کوئی نرالی نہیں ہے۔

خدایا میرے معاملات کواپنے عفوو کرم پر محمول کرنا اورعدل و انصاف پر محمول نہ کرنا۔

(۲۲۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنے بعض اصحاب کا تذکرہ فرمایاہے )

اللہ فلاں شخص(۱) کا بھلا کرے کہ اس نے کجی کو سیدھا کیا اور مرض کا علاج کیا۔سنت کوقائم کیا اور فتنوں کو چھوڑ کر چلا گیا۔دنیا سے اس عالم میںگیا کہ اس کا لباس حیات پاکیزہ تھا اور اس کے عیب بہت کم تھے ۔ اس نے دنیا کے خیر کو حاصل کرلیا اور اس کے شر سے آگے بڑھ گیا۔اللہ کی اطاعت کاحق ادا کردیا اوراس سے مکمل طور پر خوفزدہ رہا۔وہ دنیا سے اس عالم میں رخصت ہوا کہ لوگ متفرق راستوں پرتھے جہاں نہ گمراہ ہدایت پا سکتا تھا اورنہ ہدایت یافتہ منزل یقین تک جا سکتا تھا۔

(۱)ابن ابی الحدید نے ساتویں صدی ہجری میں یہ انکشاف کیا کہ ان فقرات میں فلاں سے مراد حضرت عمر ہیں اور پھر اس کی وضاحت میں ۸۷ صفحے سیاہ کر ڈالے حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ سید رضی کے دور کے نسخوں میں اس کاکوئی تذکرہ ہے اور پھر اسلامی دنیا کے سر براہ کی تعریف کے لئے لفظ فلاں کے کوئی معنی نہیں ہیں خطبہ شقشقیہ میں لفظ فلاں کا امکان ہے لیکن مدح میں لفظ فلاں عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے۔اس لفظ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ایسے صحابی کا تذکرہ ہے جسے عام لوگ بردات نہیں کرس کتے ہیں اور امیرالمومنین اس کی تعریف ضروری تصور فرماتے ہیں۔

۴۶۰