نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656919 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کے خاتمے پر مذہب شیعہ کی حقیقت اس پر ظاہر اور روشن ہوگئی اور اس نے مذہب حقہ امامیہ اختیار کر لیا۔ اور تمام بلاد ایران میں شیعہ مذہب کی آزادی کا اعلان نافذ کردیا ۔ اور اسی وقت سے سارے حکام اور ولایتوں کے گورنروں کو اطلاع دے دی کہ ساری مسجدوں اور مجمعوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نام کا خطبہ پڑھیں اور حکم دیا کہ دیناروں پر تین متوازی سطروں میں کلمہ طیبہ" لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ" کو سکہ نقش کیا جائے۔

جناب علامہ حلی کو جنہیں ایک اختلافی مسئلہ حل کرنے کے لیے جلہ سے بلوایا تھا ( اور اسی کی بنا پر اس جلسے میں مناظرہ کا دروازہ کھل گیا ۔ اور تشیع کی حقیقت ظاہر ہوئی) اپنے پاس ٹھہرا لیا آپ کے لیے مدرسہ سیارہ تعمیر کرایا اور طالبان علوم آپ کے گرد جمع ہوگئے چونکہ آپ بلا تقیہ اور کھلم کھلا حقائق کو بیان فرماتے تھے لہذا بے خبر لوگوں نے بھی طریقہ حقہ امامیہ کا پتہ لگا لیا، ولایت کا آفتاب درخشان ابر خفا سے باہر آگیا اور اسی زمانے سے مذہب حقہ، شیعہ کی روشنی جہالت و نادانی کا پردہ چاک کر کے ظاہر اور نمایاں ہوئی۔

تقریبا سات سو سال کے بعد با اقتدار صفوی بادشاہوں کی حمایت اور اس زمانے کی مکمل تبلیغات کے اثر سے باطل تیرہ و تار بادل بالکل چھٹ گئے اور ولایت و امامت کا آفتاب عالمگیر ضیا پاشی کرنے لگا۔

چنانچہ ایرانی اگر چہ ایک روز مجوسی اور دو خداؤں ( یزادن و اہرمن) کے معتقد تھے لیکن جس وقت سے انہوں نے اہل اسلام کے عقلی دلائل و براہین کو سنا ان کو دل و جان سے قبول کیا اور اب تک پورے خلوص کے ساتھ اپنے اسلامی عقیدے پر ثابت قدم ہیں۔

اگر ایرانیوں میں چند افراد ایسے پیدا ہوجائیں جو مجوسی ہوں یا کسی طریقے کے پابند نہ ہوں یا غلات کے سلسلے میں شامل ہوکر حضرت علی(ع) کو ان کی منزل سے بلند کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیں اور ان کو بندوں کا خالق و رازق سمجھنے لگیں ۔، حلول و اتحاد اور وحدت وجود کے قائل ہوں تو اس کو پاک نفس ایرانیوں کی اصل جماعت اور اکثریت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس طرح کے غیر مناسب اور بے عقل و خرد افراد ہر قوم و ملت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شریف و عقلمند ایرانی قوم کی اکثریت وحدانیت حق تعالی اور نبوت خاتم الانبیاء پر مضبوط عقیدے سے اور ایمان کی حامل ہے۔ اور رسول اﷲ(ص) کے حسب الحکم سب امیرالمومنین علیہ السلام اور ان حضرت کے گیارہ فرزندوں کے پیرو ہیں۔

حافظ : آپ کے ایسے حجازی ، مکی اور مدنی بزرگ سے تعجب ہے کہ چند روز کے لیے ایران میں قیام کر لیا تو ایرانیوں کی اس قدر طرفداری کررہے ہیں۔ اور ان کو علی کرم اﷲ وجہ ، کا پیرو سمجھتے ہیں باوجودیکہ علی (ع) خود خدائے تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے لیکن ایرانی شیعہ سب کےسب آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور

۴۱

خدا سے جدا نہیں جانتے اور اپنے اشعار میں آپ کو بمنزلہ حق بلکہ عین حق قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ان کے دلوں اور مکتوبات میں ا س طرح کی کفریات واضح طور پر موجود ہیں کیا ۔ اس قسم کے اشعار ایرانی شیعہ عارفین سے وارد نہیں ہیں جنہیں علی کرم اﷲ وجہ کی زبان سے نقل کرتے ہیں ۔ ( حالانکہ علی(ع) قطعا اس قسم کے عقیدے سے بیزار ہیں۔)

من طلسم عیب و کنز لاستم چون بہ کنیز لارسی الاستم

یعنی از اﷲ ولا بالا ستم نقطہ ام بار بار گویا ستم

کثرت تاترات پندارت کند

مظہر کل عجائب کیست من مظہر سرِ غرائب کیست من

صاحب عون نواسب کیست من در حقیقت ذاب واجب کیست من

ایک دوسرے شخص نے کہا ہے۔

در مذہب عارفان آگاہ ( گمراہ) اﷲ علی، علی است اﷲ

خیر طلب : آپ سے تعجب ہے کہ بغیر تحقیق کے قوم ایرانی شیعوں کو غالی اور علی پرست سمجھتے ہیں اور اس قسم کی باتوں سے بے خبر سنی بھائیوں کے سامنے معاملے کو شبہ کر کے برادر کشی کا دروازہ کھولتے ہیں ، چنانچہ افغانستان ، ہندوستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ میں اس قدر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کہ خون کے دھارے بہہ گئے۔

ازبکستان اور ترکستان کے مسلمان اپنے علماء کے بھڑکانے سے کہتے تھے کہ شیعہ علی پرست مشرک اور کافر ہیں اور ان کا قتل واجب ہے ان سبھوں نے ایرانی مسلمانوں کا اس کثرت سے خون بہایا کہ تاریخ کے صفحات کو داغدار بنا دیا۔

بے چارے سنی عوام آپ کے ایسے بزرگ علماء کی رہنمائی میں ایرانی مسلمانوں کو نگاہ کینہ بلکہ کفر و شرک اور ارتداد کے خیالی سے دیکھتے ہیں۔

گذشتہ زبانوں میں ترکمان لوگ خراسان کے راستے میں سر راہ ایرانی قافلوں کو گرفتار کر کے قتل و غارت میں مشغول ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص سات عدد رافضیوں ( شیعوں ) کو قتل کردے اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔

قطعی طور پر جان لیجئے کہ اس طرح کے افعال اور قتل عام کی جواب دہی آپ ہی جیسے حضرات کے ذمے ہے جو ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شیعہ علی(ع) پرست مشرک اور کافر ہیں اور بے خبر عقیدت مند سنی عوام

۴۲

اس کو قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ لہذا بقصد ثواب اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا

پہلے میں آپ کے جملہ اول کا جواب عرض کرتا ہوں تاکہ ہم لوگ اصل مطلب تک پہنچیں۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ تم حجازی ، مکی اور مدنی ہو کر ایرانی بھائیوں کی طرفداری کس لیے کرتے ہو؟ تو یہ بدیہی بات ہے کہ مجھ کو اپنے مکی مدنی اور محمدی ہونے پر فخر ہے لیکن نسلی تعصب جو جہالت اور نادانی کے آثار میں سے ہے میں اپنے دل مین نہیں رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ میرے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے باوجودیکہ ہر ملت کی قومیت اور وطنیت کی حفاظت ملحوظ رکھی ہے۔ اور جملہ حب الوطن من الایمان کے ساتھ ہر قوم و ملت کو محب وطن کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن آں حضرت (ص) نے النافوں کے اتحاد اور ہر فرد بشر کے دل سے ہر طرح کے بیہودہ خیالات دور کرنے کے لیے جو بڑے قدم اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کو کلی طور پر جڑ سے کاٹ دیا اور ایک بلند اور موثر آواز کے ساتھ دنیا والوں کو اپنے اس اعلان کی طرف متوجہ فرمایا کہ

"لافخر للعرب علی العجم ولا للعجم علی العرب ولا للابيض علی الاسود ولا للاسود علی الابيض الا بالعلم و التقی ۔" (1)

اور نیز اس لیے کہ عالم اور متقی اشخاص کو اشتباہ نہ پیدا ہوجائے کہ آں حضرت (ص) کے ارشاد سے سند لے کر تواضع اور خاکساری سے ہٹ جائیں اور دوسروں پر کبر و خودی کا اظہار کرنے لگیں فرمایا ۔

" انا من العرب ولا فخروا فاسيد ولد الآدم ولا فخر ۔ " (2)

نتیجہ کلام یہ کہ میں باوجودیکہ عرب اور سید آدم ہوں لیکن اس نسل اور منزلت سے دوسروں پر کوئی فخر و مباہات نہیں کرتا۔

پیغمبر(ص) کا فخر صرف اس بات پر تھا کہ پروردگار کے اطاعت گذار بندے ہیں۔ آں حضرت(ص) مقام مناجات میں عرض کرتے تھے۔

" کفی بی فخرا ان اکون لک عبدا " یعنی میرے لیے یہی فخر ومباہات کافی ہے کہ تجھ ایسے پروردگار کا بندہ ہوں۔

خدا تعالی سورہ نمبر49 ( حجرات) آیت نمبر13 میں ارشاد فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر ، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فخر و مباہات نہیں ہے سوا علم و تقوی کے۔

2 ـ میں قوم عرب سے ہوں لیکن ان پر فخر نہیں کرتا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ لیکن اس پر فخر نہیں کرتا ہوں۔

۴۳

" يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ " (الحجرات، 13) (1)

اس نے فضل و شرف اور بزرگی تقوی میں قرار دی ہے۔ نیز اسی سورے کے آیت نمبر 10 میں فرمایا ہے:

" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "( الحجرات ، 10)

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا ہمیشہ اپنے ایمانی بھائیوں کے درمیان اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو صلح کرا دیا کرو ) چنانچہ ایشائی ، افریقی، یورپی اور امریکی سفید و سیاہ ، سرخ و زرد شہرستانی اور کوہستانی نسلوں کے جملہ افراد لوائے اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے ماتحت آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی فخر و مباہات نہیں رکھتے۔

اسلام کے عظیم المرتب قائد حضرت خاتم الانبیاء نے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے عجم سے سلمان فارسی کو روم سے صہیب رومی کو اور حبش سے بلال سیاہ کو اپنے آغوش محبت میں قبول فرمایا لیکن اپنے شریف النسل چچا ابولہب کو جو عرب کی بہترین نسل سے تھا اپنے سے دور فرمادیا اور اس کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا جس میں صریح طور پر ارشاد ہے ۔ تبت یدا ابی لھب۔ ( یعنی ابولہب کے ددنوں ہاتھ قطع ہوجائیں ( جو رسول اﷲ(ص) کے درپے آزار تھے۔)

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں

انسانوں کے تمام فتنہ و فساد اور جنگ و جدال انہیں نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کی بنا پر ہیں۔ جرمنی کے باشندے کہتے ہیں کہ آرین اور جرمنی نسلی سب سے بلند ہے ۔ جاپانی کہتے ہیں کہ سرداری کا حق ان کی زرد نسل کو حاصل ہے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ سفید فام لوگ حاکم اور سب کے اوپر افسر ہیں۔ امریکہ کے متمدن ممالک میں اب تک سیاہ فام لوگ اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ۔ یہاں تک کہ سفید فاموں کے کیفے ، سینما اور مہمان خانوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے اور سیاہ فام عیسائی کو سفید فاموں کے کلیساء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ عبادت گاہ میں بھی ایک دوسرے کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں ، سیاہ کھال کے علماء اور افاضل اگر سفید کھال کے دانشمندوں کے جلسوں میں جاتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ جوتے اتارنے کی جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اے انسانو ! ہم نے سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ۔ اور ان میں مختلف شاخیں اور قبیلے قرار دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو( اور سمجھ لو کہ اصل ونسب اور نسلی سرمایہ افتخار نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

۴۴

بیٹھیں ، ان کو سفید فاموں کے سامنے علم و ہنر کا اظہار نہ کرنا چاہئیے ایک بوڑھے سیاہ فام عالم کو چاہیئے کہ سفید فام جوان کے سامنے تعظیم بجالائے اور مطیع و فرمانبردار رہے۔ سفید فام اساتذہ سیاہ فاموں کو اپنے مدرسوں میں داخل نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اگر کوئی سیاہ فام چھوٹ گیا ہو تو ان کو سفید فاموں کے مسافر خانوں میں گھسنے کا اختیار نہیں۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ باوجود ان کوششوں کے جو ان لوگوں کی آزادی کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں) حیوانات میں شمار ہوتے ہیں اور سفید فاموں کی طرح وسائل تمدن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (1)

لیکن مقدس دین اسلام نے سارے بیہودہ اور موہوم عقائد کو تیرہ سو سال پہلے ہی درمیان سے اٹھادیا تھا، اس کا اعلان ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے جس نسل اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یورپ ، ایشا، امریکہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت کا آغوش کھلا رکھیں اور دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں، ہمیشہ ایک دوسرے کے یار و غمگسار رہیں۔ اسلام حجازی، مکی اور مدنی مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے مسلمین میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ چنانچہ اگر میری نسل حجازی ، قریشی ، ہاشمی اور محمدی ہے تو جائز نہیں ہے کہ سچی بات کو چھپاؤں اور مہمل خیالات کی بنا پر حق کو پس پشت ڈال دوں ۔ میں قطعی طور پر حجازی گمراہوں سے متنفر اور ایرانی شیعوں کا دوستدار ہوں۔

مادروں را بنگریم و حال را نے درون را بنگریم و قال را

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایرانی غالیوں کو بغیر کسی مناسبت اور دلیل و برہان کے پاک باز موحد اور خالص شیعوں کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ سب کے سب حق تعالےٰ کے خالص بندے ہیں۔ خدا اور اس کے بندے و رسول محمد(ص) کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ نہ اور کچھ کہتے ہیں نہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم لوگ حضرت علی(ع) کو پروردگار کا عبد صالح اور رسول اﷲ(ص) کا وصی اور خلیفہ مںصوص سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے مردود اور اپنے سے الگ جانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اٹلی کے قائد اور پیشوا مسولینی نے حکم دیا تھا کہ اس کا نمائندہ ادارہ مجلس اقوام سے نکل آئے۔ اس کا عذر یہ تھا کہ میرے لیے باعث ننگ ہے کہ میرا نمائندہ ایسے مجمع میں بیٹھے جہاں حبشی سیاہ فاموں کا نمائیندہ بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن اسلام کے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) نے چودہ سو برس پہلے) بلال سیاہ و حبشی کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا بلال ! یعنی اے بلال میرے سامنے قرآن پڑھو اور مجھ کو شاد و مسرور کرو ۔ اب ناظرین محترم انصاف کریں اور دیکھیں کہ تفاوت راہ کہاں تک ہے۔

۴۵

جیسے مسلمانوں میں سے غلات از قبیل سائیبہ ، خطابیہ، غرابیہ، علیادیہ مخمہ وبزیفیہ اور انہیں کے امثال جیسے نصیریہ جو ایران کے بعض شہروں اور قریوں اور دوسرے بلاد میں مثل موصل اور شام کے اہل حق کے نام سے متفرق طور پر آباد ہیں۔

شیعہ بالعموم ان سے علیحدہ اور ان کو کافر و مرتد اور نجس سمجھتے ہیں ۔ فقہ کی ساری کتابوں اور عملیہ رسالوں میں فقہائے امامیہ نے غلات کو کافروں میں شمار کیا ہے کیونکہ وہ لوگ بے شمار فاسد عقیدوں کے حامل ہیں جن میں سے کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ جسم کے قالب میں روح کا ظہور محال نہیں ہے ۔ جیسے کہ جبرائیل وحبہ کلبی کی صورت میں پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر ہوتے تھے۔لہذا خدا کی حکیمانہ مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ذات اقدس انسانی قالب میں ظاہر ہو چنانچہ علی(ع) کی صورت اور جسم میں نمایاں ہوا، اسی سبب سے علی(ع) کی منزل کو رسول اﷲ(ص) کی مقدس منزل سے بلند تر سمجھتے ہیں اور خود انہیں حضرت کے زمانے میں شیاطین جن و انس کے بہکانے سے ایک جماعت اس عقیدے کی قائل تھی۔ ہند اور سوڈان کے باشندون کی ایک جماعت آئی اور اس نے آپ کی الوہیت کا اقرار کیا۔ حضرت نے ہر چند ان لوگوں کو نصیحت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار جس طریقے سے کہ کتب اخبار میں درج ہے آپ کے حکم سے دھویں کے کنووں میں ہلاک کردئیے گئے۔ چنانچہ اس قبیلے کی مفصل تشریح علامہ جلیل ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیف بحار الانوار جلد ہفتم میں لکھی ہوئی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین سلام اﷲ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مثلا جو ہماری معتبر کتابوں میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ کہ فرمایا :

" اللَّهُمَّ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنَ الْغُلَاةِ كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنَ النَّصَارَى اللَّهُمَّ اخْذُلْهُمْ أَبَداًوَ لَا تَنْصُرْ مِنْهُمْ أَحَداً."

یعنی خداوندا میں گروہ غلات سے بری ہوں ۔ جیسے عیسی بن مریم نصاری سے بیزار تھے ۔ خداوندا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار رکھ۔ اور ان میں سے کسی کی مدد نہ فرما۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِمَّنْ يَغْلُو فِينَا وَ يَرْفَعُنَا فَوْقَ حَدِّنَا كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع مِنَ النَّصَارَى "

یعنی میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوتے ہیں اورمیرے ذمے کوئی گناہ نہیں ہے (یعنی چونکہ میں ان کے عمل سے راضی نہیں لہذا گنہگار نہیں ہوں) ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو میری محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بلا سبب مجھ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں یقینا میں ان لوگوں سے خدا کی طرف بیزاری اختیار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ہم کو ہماری حد سے بڑھاتے ہیں جس طرح سے عیسی بن مریم(ع) نے ںصاری سے بیزاری اختیار کی۔

۴۶

نیز فرمایا ہے۔" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ. " ( یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، ایک ایسے دوست جو محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ دشمن جو مجھ کو میری منزل سے گھٹاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ہر اس شخص سے بیزاری اختیار کرتے ہیں جو نظم و نثر میں امیرالمومنین (ع) اور ان کے اہل بیت اطہار (ع) کے لیے غلو کرے اور مقام تعریف میں ان کو منزل سے بلند قرار دے جو خدا و رسول(ص) نے ان کے لیے معین فرمائی ہے اور بندگی سے خدائی پر پہنچا دے جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ غالی اور ملعون ہیں۔ آپ اثنا عشریہ شیعہ امامیہ جماعت کا معاملہ ان سے الگ سمجھئے کیونکہ غالی فرقوں کے کفر و نجاست پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے اور اگر آپ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں جیسے جواہر الکلام اور مسالک وغیرہ اور عملیہ رسالوں جیسے مرحوم آیتہ اﷲ یزدی قدس سرہ کی عروة الوثقی اور آیتہ اﷲ اصفہانی اعلی اﷲ مقامہ کی وسیلہ النجات کے باب طہارت باب زکوة ، باب ازدواج اور باب ارث کی طرف رجوع کریں تو ہمارے فقہاء کے فتوے ان لوگوں کے کفر ونجاست پر ملیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سب نے یہی فتوی دیا ہے کہ ان کے غسل و دفن میں شرکت جائز نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ( باوجودیکہ متعہ کی صورت سے اہل کتاب کیساتھ تزویج کو جائز جانتے ہیں۔) اور مسلمانوں کا حق وراثت ان کو نہیں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو صدقات و زکوة کادینا بھی ممنوع ہے۔

فرقہ ناجیہ شیعہ کی فن کلام اور عقائد کی کتابوں میں تفصیل اور استدلالی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرقہ فاسد اور کافر ہے ہر مسلمان پر اور خاص طور سے خالص العقیدہ شیعوں پر ان سے تبرا اور بیزاری واجب و لازم ہے۔

غلات کی مخالفت اور رد میں آیات و اخبار سے کافی مضبوط اور مکمل دلیلیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے ۔ سورہ نمبر5( مائدہ) آیت نمبر81 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَ أَضَلُّوا كَثيراً وَ ضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبيلِ "( المائدة ، 77 )

یعنی کہہ دو( اے رسول(ص)) کہ اے اہل کتاب غلو مت کرو اپنے دین میں کہ وہ حق نہیں ہے اور اس قوم کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے بہتوں کو گمراہ کردیا اور راہ راست سے دور جا پڑے۔

مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار جلد سوم میں ( جو شیعہ امامیہ فرقے کا دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ، ان کی مذمت اور ان لوگوں کے مدعا سے خاندان رسالت کے دور ہونے میں بہت سی روائتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ فرمایا :

" و ما نحن الا عبيد الذي خلقنا و اصطفانا، ما لنا على اللّه من حجة، و لا معنا من اللّه براءة، و انا لميتون، و موقوفون، و

۴۷

مسئولون، من احب الغلاة فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبنا الغلاة كفّار و المفوضة مشركون، لعن اﷲ الغلاة ۔۔۔۔۔۔ "

( خلاصہ مطلب یہ کہ ہم اس خدا کے بندے ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا اور مخلوقات میں سے منتخب کیا۔ در حقیقت غالیوں کو دوست رکھے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو شخص ان کو دشمن رکھے وہ ہمارا دوست ہے غلات کافر اور ملفوضہ مشرک ہیں۔ خدا کی لعنت ہو غلات پر)

نیز انہیں حضرت سے شیعوں کے ایک بڑے پیشوا نے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" لعن اللّه عبد اللّه بن سبأ إنه ادّعى الربوبية في أمير المؤمنين و كان و اللّه أمير المؤمنين عبدا للّه طائعا، الويل لمن كذب علينا، و إن قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ إلى اللّه منهم نبرأ إلى اللّه منهم "

(یعنی لعنت خدا کی، عبداﷲ بن سبا پر جس نے امیرالمومنین (ع) کےلیے ربوبیت اور خدائی کا دعوی کیا ۔ خدا کی قسم وہ حضرت خدا کے مطیع بندے تھے ، وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے ہم پر افترا کیا، ایک گروہ ہمارے بارےمیں وہ باتیں کہتا ہے جو ہم خود اپنے بارےمیں نہیں کہتے ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ، ان سے خدا کی طرف ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ان سے خدا کی طرف۔

صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی قدس سرہ نے جو جلیل القدر فقہائے امامیہ میں سے ہیں کتاب عقائد میں ایک روایت زرارہ بن اعین سے جو موثق شیعہ راوی ، حافظ علم اہل بیت(ع) اور حضرت باقر العلوم و صادق آل محمد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداﷲ بن سبا کی اولاد میں سے ایک شخص تفویض کا قائل ہے ۔ فرمایا تفویض کیا؟ میں نے عرض کیا وہ کہتا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ عَلِيّاً- عَلَيْهِ السَّلَامُ- ثُمَّ فَوَّضَ الْأَمْرَ إِلَيْهِمَا، فَخَلَقَا، وَ رَزَقَا، وَ أَحْيَيَا، وَ أَمَاتَا."

( یعنی خدائے عزوجل نے محمد (ص) و علی(ع) کو پیدا کیا پھر بندوں کے امور ان کے سپرد کردئیے چنانچہ وہی خالق ہیں وہی رازق ہیں وہی زندہ کرتے ہیں ۔ وہی مارتے ہیں ) حضرت نے فرمایا کذب واﷲ جھوٹ بولتا ہے دشمن خدا جب تم پلٹ کر اس کے پاس جاؤ تو سورہ رعد کی یہ آیت پڑھو :

"أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ " ( الرعد ،16)

“ یعنی کیا مشرکین نے خدائے تعالیٰ کے کچھ شریک قرار دیئے کہ خدا کا پیدا کیا ہوا کون اور ان شرکاء کا پیدا کیا ہوا کون ہے۔ کہدو (اے محمد(ص)) کہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ صرف خدائے تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی الوہیت میں یکتا ہے جس کا ارادہ ساری کائنات پر غالب ہے۔”

یہ آیت خود توحید باری تعالی کی تصریح کر رہی ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں اس کے پاس گیا اور یہ آیت حسبِ

۴۸

ارشاد امام(ع) میں نے اس کے سامنے پڑھی تو گویا میں نے اس کے منہ پر پتھر مار دیا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا۔

اس طرح کی روایتیں ہماری معتبر کتابوں میں آئمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم اجمعین اور شیعوں کے برحق پیشواؤں کی طرف سے گروہ غلات کے لیے لعن و طعن اور بر کہنے میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس طرح ہم آپ کے علماء کی کتابیں پڑھتے ہیں آپ بھی علمائے شیعہ کی معتبر کتابیں پڑھا کیجئے تاکہ ایسے الفاظ زبان سے نہ نکالیے جو بے چارے عوام کو بہکانے والے ہوں۔ اور آپ بھی خدا کے دربار عدالت میں گرفتار ہوں۔

حضرات محترم! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں ۔ آیا ایسی صورت میں جب کہ ہمارے ائمہ نے اپنے شیعوں کی رہنمائی کے لیے ایسے بیانات ارشاد فرمائے ہیں اور سچے شیعہ علی (ع) واولاد علی(ع) کے پیرو اپنے مقتداؤں سے ان روایتوں کے سنے ہوئے ہیں اس کے بعد بھی ان کو خدا یا خدائی کی جگہ پر قرار دیں گے؟ غالیوں کا گروہ ہم سے بالکل الگ اور ہم ان لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہیں۔ چاہے وہ بظاہر تشیع کا دعوی کریں۔ لیکن خدا اور رسول(ص) علی و اولا علی علیہم السلام سب کےسب ان سے بیزار اور سارے شیعہ بھی ان سے بیزار اورالگ ہیں۔

چنانچہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے رئیس غلات عبداﷲ بن سبا ملعون کو تین روز تک مقید رکھا اور توبہ کا حکم دیا جب اس نے قبول نہ کیا تو مجبورا اس کو آگ میں جلوا دیا۔ آپ کو خدا کے سامنے اس سے شرم آنا چاہئیے کہ آپ کے علماء تعصب و عادت اور اسلاف کی پیروی میں یہ لکھیں کہ تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا یہی عبداﷲ ملعون تھا جو حضرت علی(ع) کے حکم سے جلا دیا گیا۔ حالانکہ علمائے شیعہ نے ساری متعلقہ کتابوں میں اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے عبداﷲ بن سبا کو ملعون بتایا ہے۔ لہذا عبداﷲ کے پیرو بھی ملعون ہیں کیونکہ وہ غلات میں سے ہیں نہ کہ آل محمد(ص) اور عترت طاہرہ پیغمبر(ص) کے محبت خالص شیعوں مین سے اس لیے کہ وہ س خداندان جلیل کے بارے میں غلو کی وہ سے دور اور مطرود ہیں۔

اگر تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا عبداﷲ ملعون ہوتا اور شیعہ اس کے پیرو ہوتے جیسا کہ آپ کے متعصب علماء نے لکھا ہے اور دوسرے ان کی اندھی تقلید کر کے جلسوں میں اس کو نقل کرتے ہیں تو کم سے کم شیعوں کی کسی ایک ہی کتاب میں اس کی کچھ تعریف درج ہونا چاہئیے تھی۔ اگر آپ علماء شیعہ امامیہ کی کسی ایک ایسی کتاب کا پتہ دے دیجئے جس میں عبداﷲ ملعون کی کوئی تعریف کی گئی ہو تو میں آپ کی ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہوں اور اگر یہ پتہ نہ دیں ( اور ہرگز نہیں دے سکتے ہیں) تو روز حساب اور محکمہ عدل الہی سے ڈرئیے ، پاک و موحد شیعوں کو عبداﷲ ملعون کا پیرو نہ کہیئے اور حقیقت کو بیخبر عوام کی نگاہوں میں مشتبہ نہ بنائیے۔

اس کے علاوہ میں آپ سے برادرانہ التماس کرتا ہوں کہ آپ چونکہ اہل علم ہیں لہذا ہمیشہ قاعدہ علم و منطق اور حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائیں اور خلاف عقل و حقیقت باتوں اور بے بنیاد شہرتوں کا سہارا نہ لیں۔

۴۹

جن کو دشمنوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے شیعوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

حافظ : آپ کی برادرانہ نصیحتیں ہر عقلمند کے لیے قابل قبول و توجہ ہیں لیکن اجازت دیجئیے کہ میں بھی فرمائش کے طور پر چند جملے عرض کروں۔

خیر طلب : میں بہت ممنوں ہوں گا فرمائیے!

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود و ملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جارہے ہیں کہ آپ ہی کے بیان کیئے ہوئے قواعد کی روسے وہ حضرات اس قسم امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں۔

خیر طلب : میں خشک و تنگ نظر اور متعصب و جاہل انسان نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا کہ اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش پائی جاتی ہو تو اس کی یاد دہانی فرما دیجئیے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتوں میں جوکچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوکہ ائمہ ہدی علیہم السلام کے خلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرمائیے۔

حافظ : میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کا نام لیتے ہین تو بجائے اس کے کہ رضی اﷲ عنہم کہیں ، سلام اﷲ علیہم اور صلوات اﷲ علیہم کہا ہے در آںحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے :

" إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً" ( الاحزاب، 56 )

یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر کی روح پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو ( اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو) آیت نمبر56 سورہ نمبر133 ( احزاب) سلام اور صلوة صرف رسول خدا(ص) سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانات میں اماموں کے لیے بھی صلوات و سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی ںص صریح کے خلاف ہے۔

آپ کے اوپر جو اعتراض کئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں۔

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ

خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہ رگز کوئ ی عمل نص کے خلاف ن ہ ک یا ہے ن ہ کرت ے ہیں ۔ ہ وا یہ کہ گذشت ہ

۵۰

صد یوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پ یرووں نے ح یلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہ ل بدعت نام زد کرنے ک یلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے ب ڑے ش یعہ علماء نے مکمل جواب د یا اور ثابت کیا ہے ک ہ ہ م ا ہ ل بد عت ن ہیں ہیں ۔ چونک ہ دشمن ک ے ہ ات ھ و ں م یں قلم ہے ل ہ ذا تن ہ ا قاض ی بن کر جو چاہ ت ے ہیں لکھ ت ے ہیں ۔ اس موضوع پر ب ھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔ ل یکن چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے ۔ ل ہ ذا تفص یلی جواب سے قظع نظر کرتا ہ و ں محض اس لئ ے ک ی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے ن ہ ر ہ جائ ے اور حضرات ا ہ ل جلس ہ اور م یرے برادران عزیز کے سامن ے حق یقت امر مشتبہ ن ہ ر ہے مختصر طور س ے عرض کرتا ہ و ں ، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات ب ھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فقط حکم د یا جاتا ہے ک ہ مسلمانو ں کو لازم ہے ک ہ آ ں حضرت (ص) پر صلوات ب ھیجیں ۔

دوسرے جس خدائے بر تر ن ے یہ آیت نازل فرمائی ہے و ہی سورہ 37 (صافات)آ یت 130میں فرماتا ہے ۔ سلام عل ی آل یاسین (یعنی سلام ہ و یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہ م خصوص یات میں سے ا یک یہ بھی ہے ک ہ قرآن مج ید میں ہ رجگ ہ مخصوص طور پر انب یائے کرام پر سلام ہے و ہ ف رماتا ہے ۔ "سلام عل ی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھ ارون" (سور ہ صافات ) ل یکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے ل یئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانب یاء کے جن ک ے لئ ے ارشاد ال ہی ہے ، سلام عل ی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے

آپ کو معلوم ہے ک ہ قرآن مج ید میں پیغمبر(ص)کے بار ہ نامو ں م یں سے پانچ نام امت ک ی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئ ے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبدالل ہ ، نون اور یاسین ہیں ۔ سور ہ نمبر 36 ک ے شروع م یں فرماتا ہے " یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہ ر ی وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔

نواب:- اس کا کیا سبب ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟

خیر طلب :- میں نے عرض ک یا کہ آنحضرت(ص) ک ے عالم معنو ی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ ک یونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پ ہ نچا ہ وا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا

۵۱

ظا ہ ر وباطن یکساں ہ و اور یہ مرتبہ آ ں حضرت (ص) ک ے وجود مق دس کو حاصل تھ ا ،ل ہ ذا حرف "س" ک ے سات ھ اس ح یثیت کا اظہار فرمایا ۔

عام عقلوں س ے قر یب تر بیان یہ ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی کے درم یان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظا ہ ر وباطن برابر ہے اس معن ی سے ک ہ ا ٹھ ائ یس حرفوں م یں سے ہ ر ا یک کے لئ ے علمائ ے علم اعداد ک ے نزد یک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف ک ے زبر و ب یّنہ کا تطابق کرنے م یں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہ وتا ہے یا بیّنہ ۔

نواب :- قبلہ معاف فرمائ یے گا میں جسارت کر رہ ا ہ و ں ۔ چونک ہ م یں گہ ر ے مضام ین کو سمجھ ن ے س ے معذور ہ و ں ل ہ ذا استدعا ہے ک ہ ان راتو ں م یں مطالب کو سادہ اور واضح طر یقے سے ب یان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئ ے لائق توج ہ اور قابل قبول ہ و ں چونک ہ ہ م لوگو ں ن ے زبر وب یّنہ ک ے معن ی نہیں سمجھے ،ل ہ ذا م یں متمنی ہ و ں ک ہ ساد ہ ب یان کے سات ھ وضاحت فرمائ یے تاکہ یہ معمّا حل ہ و جائ ے ۔

خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف ک ی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لک ھی جاتی ہے ا ور بیّنہ سے و ہ ز یادتی ہے جو بولن ے ک ے وقت ظا ہ ر ہ وت ی ہے "س" کاغذ ک ے اوپر ا یک حرف ہے ل یکن تلفظ کے وقت ت ین حرف ہ وجات ے ہیں ۔ س ۔ی ۔ ن ۔ بولن ے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہ وجاتا ہے ۔ اورا ٹھ ائ یس حروف تہ ج ی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے ک ہ حساب ک ی مطابقت کرنے م یں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہ تا ہے "س" ک ے عدد سا ٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے " ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے " ی" کے (10)اور"ن"ک ے (50)مل کر سا ٹھ ہ وئ ے اس ی وجہ سے قرآن مج ید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظا ہ ر و باطن ک ی طرف اشارہ کرت ے ہ وئ ے " یس"کہہ کر مخاطب ک یا ۔یعنی اے و ہ شخص جو ظا ہ ر وباطن دونو ں ح یثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں

اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے ل ہ ذا اس آ یہ مبارکہ م یں فرماتا ہے "سلام عل ی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔

حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو ب یانی سے ثابت کرنا ہ ت ے ہیں ورنہ علماء ک ے درم یان اس کا ذکر نہیں آیا ہے ک ہ آل یا سین پر سلام ہ و ۔

۵۲

خیر طلب :- میں متمنی ہ و ں ک ہ انکار ک ے مواقع پر قطع ی طور سے کوئ ی بات نہ ک ہہ د یا کیجیئے بلکہ ترد ید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب ک ے وقت آپ کو پچ ھ تان ے ک ی ضرورت نہ ہ و ۔ اگر آپ اپن ے علماء ک ی کتابو ں س ے ب ے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے ک ے خلاف سمج ھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں س ے باخبر ہ و ں اور حق س ے من ہ ب ھی نہیں موڑ تا ہ و ں ۔

آپ کے ب ڑے ب ڑے علماء ک ی کتابوں م یں کثرت سے اس معن ی کی طرف اشارہ ک یا گیا ہے ،منجمل ہ ان ک ے متعصب ابن حجر ن ے صواعق محرق ہ ک ے اندر جو آ یات فضائل اہ ل ب یت علیھ م السلام میں نقل کی ہے ان م یں سے ت یسری آیت کے ذ یل میں لکھ ا ہے ک ہ مفسّر ین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خ یر امّت ابن عباس سے نقل ک یا ہے ک ہ "المراد بذالک سلام عل ی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہ ذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لک ھ ت ے ہیں کہ اما م فخر الد ین رازی نے ذکر ک یا ہے ۔ ان اهل بیته صلّی الله علیه وآله وسلّم یساوونه فی خمسة اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایها النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواة علیه علیهم فی التشهد وفی الطهارة قال الله تعالی "طه یا طاهر "وقال " یطهرکم تطهیرا "،و فی تحریم الصدقة ،وفی المحبة قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعونی یحببکم الله وقال قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"

(یعنی رسول کے ا ہ ل ب یت علیھ م السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔ )دوسر ے صلوات م یں تشہ د نماز م یں۔ ت یسرے طہ ارت م یں خدائے تعال ی نے فرمایا ہے ط ہ یعنی اے طا ہ ر اور ان حضرات ک ے بار ے م یں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔ چوت ھے تحر یم صدقہ م یں کیونکہ پیغمبر اور ان کے ا ہ ل ب یت پر صدقہ حرام ہے ،پانچو یں محبت میں ،ک یوں کہ خدائ ے تعال ی نے فرما یا (محمدص) کہہ دو(امت س ے )م یں تم سے کوئ ی اجر اور مزدوری نہیں چاہ تا ہ و ں سوا م یرے ذوی القربی اور اہ لب یت سے محبت ک ے ) ۔

سید ابو بکر بن شہ اب الد ین علوی کتاب "شفتہ الصاد ی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھ اد ی(مطبوعہ مطبع ہ اعلام یہ مصر سنہ 1303 ھ ک ے باب اول صفح ہ 24 پر مفسر ین کی ایک جماعت سے بروا یت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب 2 صفح ہ 42 پر نقل ک یا ہے ک ہ آ یت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفس یر کبیر جلد ہ فتم صفح ہ 163 م یں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آ یت کے معن ی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم م یں کہ ا ہے ک ہ ال یا سین سے مراد آل محمد سلام الل ہ عل یھ م اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرق ہ م یں ذکر کیا ہے ک ہ مفسر ین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل ک یا ہے ، ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "سلام عل ی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔

۵۳

لیکن اہ ل ب یت علیھ م السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فر یقین کے درم یان مسلم ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پ یغمبر نے فرما یا میرے اور میرے اہ ل ب یت علیھ م السلام کے دوم یان صلواۃ میں جدائی نہ ڈ الو ۔

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے

مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق م یں اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء کعب بن عجز ہ س ے نقل کرت ے ہیں کہ جب آ یت "انّ اللہ و ملائکت ہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب 43) ہ وئ ی تو ہ م لوگو ں ن ے عرض ک یا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرن ے کا طر یقہ تو ہ م کو معلوم ہ وا ل یکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت ن ے فرما یا صلوات اس طریقے سے ب ھیجو" اللھ م صلّ عل ی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے ک ہ "کما صلّ یت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 797 م یں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) س ے لوگو ں ن ے سوال ک یا کہ ہ م آپ پر کس طرح س ے صلوا ۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرما یا کہ و " اللهم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراهیم وعلی آل ابرا هیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انّک حمید مجید.

اور ابن حجر نے ت ھ و ڑے س ے لفظ ی اختلاف کے سات ھ یہی روایت حاکم سے نقل ک ی ہے اس ک ے بعد اپن ے عق یدے اوررائے کا اظ ہ ار کرت ے ہ و ے ک ہ ت ے ہیں ۔ "وف یہ دلیل ظاھ ر عل ی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھ ل ی ہ وئ ی دلیل ہے ک ہ پ یغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئ ے ہے ۔ ن یز روایت کی ہے ک ہ فرما یا "لا تصلّوا علیّ الصلواة البتراء" یعنی مجھ پر بترا اور دم بر یدہ صلوات نہ ب ھیجو لوگوں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ صلوا ۃ بتراء کون ہے ؟ فرما یا اگر کہ و "اللھ م صلّ عل ی محمد "لہ ذا یوں کہ و"الل ھ م صلّ عل ی محمدو علی آل محمد۔

اس کے علاو ہ د یلمی نے نقل ک یا ہے ک ہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حت ی یصلی علی محمد وآلہ " ۔ دعا پرد ے م یں رہ ت ی ہے (اور قبول ن ہیں ہ وت ی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ ب ھیجیں ۔ اور اما م شافع ی سے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا :

۵۴

یا اهل بیت رسول الله حبکم ----- فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم ----- من لم یصل علیکم لا صلواة له

(یعنی اے ا ہ ل ب یت رسول اللہ (ص) تم ہ ار ی دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تم ہ ار ی بزرگی ،منزلت اور مرتبے ک یلئے یہی کافی ہے ک ہ جو شخص تم پر صلوا ۃ نہ ب ھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہ وت ی ، شافعی کی مراد تشہ د نماز م یں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کرد یں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)

رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد ک ے پ یش نظر کہ "الصلواة عمود الدین ان قبلت قبل ما سواها وان ردّت ردّ ما سواها "( یعنی نماز دین کا نگہ بان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہ وجائ ے تو اس ک ے علاو ہ دوسر ے تمام اعمال ب ھی قبول ہ وجات ے ہیں ، اور اگر نماز رد ہ وجائ ے تو دوسر ے اع مال بھی رد ہ وجات ے ہیں ۔ تمام اعمال ک ی قبولیت نماز سے وابست ہ ہے اور جو روا یتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہ وئ ے نماز ک ی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے ج یسا کہ شافع ی نے خود اقرار ک یا ہے ۔

سید ابو بکر شہ اب الد ین نے کتاب "شفت ہ الصاد ی من بحر فضائل بنی النبی الہ اد ی"باب 2 میں صفحہ 29-35 تک محمد وآل محمد پر صلوات ب ھیجنے کے وجوب م یں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائ ی سے دارقطن ی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوس ی سے ان ہ و ں ن ے ابو اسحاق مروزی اور سمہ ود ی سے ، نوو ی نے تنق یح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل ک یا ہے ک ہ نماز ک ے تش ہ د م یں محمد صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم ک ے نام مبارک ک ے بعد آل محمد پر صلوات ب ھیجنا واجب ہے ۔

چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ل ہ ذا مفصل ب یان سے قطع نظر کرتا ہ و ں اور ف یصلہ آپ حضرات کے پاک ضم یر پر چھ و ڑ تا ہ و ں ۔

چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ ا ہ ل ب یت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ا یسی عبادت ہے جس ک ے لئ ے خود رسول (ص) ک ی تاکید ہے اور اس ک ی حقیقت سے کوئ ی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھ م الل ہ )ک ے جن ہ و ں ن ے اصل ی بات کو برادران اہ ل سنت ک ی نگاہ و ں پر مشتب ہ بنا د یا ہے اور بنات ے ر ہ ت ے ہیں ۔

یہ بدیہی بات ہے ک ہ جو ہ ست یاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قر یب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر ق یاس کرنا اور دوسروں کو ان ک ے اوپر ترج یح دینا سوا سفاہ ت اور ج ہ الت یا تعصب کے وب ے خبر ی کے اور ک یا ہے ؟

اس موقع پر چونکہ آدھی رات گزرچکی تھی۔ اور بعض حاضرین جلسہ کے چہروں پر کسل مندی کے

۵۵

آثار ظاہر تھے ۔ لہذا ہم لوگوں نے نشست کو ختم کردیا اور چائے نوشی اور اس اقرار کے بعد کہ کل شب میں ذرا سویرے تشریف لائینگے سب حضرات متفرق ہوگئے -

تیسری نشست

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ

ہم لوگ نماز مغرب سے فارغ ہوچکے تو مولوی صاحبان تشریف لے آئے اور معمولی صاحب سلامت کے بعد چاء نوش میں مشغول ہوئے میں بھی نماز عشاء ختم کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ ان حضرات کی گفتگو سننے کے لیے حاضر ہوا۔

حافظ : قبلہ صاحب کا شب میں جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے تو میں نے اپنے کو بہت ملامت کی کہ ہم دوسری قوموں کے عقائد میں اس لیے زیادہ غور فکر نہیں کرتے اور (بقول آپ کے) صرف بعض متعصب لوگوں کی کتابوں پر اکتفا کر لیتے ہیں جس سے حقیقت ہم پر ظاہر نہیں ہوتی۔

خیر طلب : جیسا کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر5( انعام ) ، آیت ص150 میں ارشاد فرمایا ہے کہ قل ﷲ الحجة البالغہ ۔ (1) کل شب کی نشست بھی خدائی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ حضرات ابتدائے صحبت ہی میں کسی قدر اپنی عادت سے ہٹ کے اور دیدہ انصاف و علم و عقل کے ساتھ میری گزارش پر توجہ کر کے یہ جان لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں وہ علم عقل اور منطق و حقیقت کی میزان پر تلا ہوا ہے۔اور جو

باتیں پہلے سے آپ حضرات کے سمع مبارک میں پہنچائی گئی ہیں، اور جنہوں نے آپ کے ذہن کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے اور خود غرض متعصب لوگوں کے عناد اور ضد کا نتیجہ ہیں۔

میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ ان جلسوں میں میرا نظر یہ قطعی طور پر یہ نہیں ہے ۔ کہ گفتگو میں خود غالب رہوں اور آپ حضرات کو مغلوب کروں بلکہ ہمیشہ کی طرح میرا مقصد اور نقطہ نظر حریم تشیع کی طرف سے دفاع اورحق و حقیقت کو نمایاں کرنا ہے۔

حافظ : کل شب کے بیانات میں آپ کے فقرات سے ظاہر ہوا کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں، تو آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ کہدو اے پیغمبر کہ خدا کے لیے کامل حجت ہے۔

۵۶

شیعوں کے کس طبقے کو برحق اور ان کے اقوال و عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر ممکن ہوتو مطلب واضح ہونے کے کیے ان طبقات کو بیان فرمائیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کس گروہ کے بارے میں ہم کو بحث کرنا چاہیے۔

خیرطلب : میں نے گذشتہ شب میں یہ تو عرض نہیں کیا ہے کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں بلکہ شیعہ کی جس معنی کے ساتھ میں نے تشریح کی ہے یعنی خدا و رسول(ص) کے فرمانبردار بندے اورآں حضرت(ص) کے حکم سے خاندان رسالت کے پیرور دہ ایک طبقے سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ چند شعبدہ باز فرقوں نے تشیع کے نام پر اپنی نمائش کر کے بے خبر جاہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ مقدس شیعہ نام سے غلط فائدہ اٹھایا اور باطل عقائد بلکہ کفر و بے دینی کو اس نام سے لوگوں کے درمیان رائج کیا لہذا نا واقف اشخاص نے جو حقائق کی تشخیص نہٰیں کرتے ہیں تاریخ میں لفظ شیعہ سے ان کو موسوم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے بنیادی طبقے چار ہیں جن میں صرف دو باقی رہ گئے ہیں اور دو بالکل فنا ہوچکے ہیں۔ اور ان کے ہر طبقے سے اور دوسرے فرقے پیدا ہوئے ان چار فرقوں سے مراد ہیں زیدیہ ، کیسانیہ، قداحیہ اور غلات۔

عقائد زیدیہ

پہلا فرقہ زیدیہ ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو زید ابن علی ابن الحسین علیہما السلام کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد زید کو امام مانتے ہیں ، زیدیہ فرقے والے فی الحال یمن اور اس کے اطراف میں کثرت سے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو علوی اور فاطمی شخص عالم و زاہد اور شجاع ہو ، اس کے علاوہ تلوار کے ساتھ خروج کرے اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے وہ امام ہے اور چونکہ جناب زید نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے زمانہ خلافت میں بنی امیہ کے ظلم اور چیرہ دستی کی وجہ سے کوفہ میں خروج کیا اور شربت شہادت نوش فرمایا۔ جیسا کہ پرسوں کی شب میں میں نے ایک موقع پر ان بزرگواروں کی مفصل کیفیت عرض کی ہے۔ لہذا ان کو امام سمجھ کر ان کی پیروی اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ جناب زید کی منزل اس سے کہیں الگ ہے کہ ان کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ جناب زید بنی ہاشم کے بزرگ سادات میں سے تھے۔ زہد، علم، فضل ، فہم، دینداری، پرہیزگاری، عبادت ، شجاعت اور سخاوت میں قوم کے اندر نمایاں اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔

رسول اکرم(ص) آں جناب کی خبر شہادت دے چکے تھے جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

" وضع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يده على صلبي فقال: يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يقتل شهيدا إذا كان يوم القيامة يتخطّى هو و أصحابه رقاب الناس، فيدخلون الجنة "

( یعنی رسول اﷲ(ص) نے اپنا دست مبارک میری پشت پر رکھا اور فرمایا کہ اے حسین(ع)

۵۷

عنقریب تمہاری صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا۔ جس کا نام زید ہوگا وہ شہید قتل ہوگا۔ اور جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اور اس کے اصحاب لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت میں داخل ہوں گے۔)

( اور یہ بدیہی بات ہے کہ اصحاب سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خروج کے موقع پر ظلم بنی امیہ کے مقابلے میں ان جناب کے ہمراہ مقاومت کی لیکن خود جناب زید نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔ اور یہ ایک تہمت ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ورنہ وہ خود اپنے کو اپنے برادر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا تابع اور مطیع سمجھتے تھے۔ البتہ ان جناب کے بعد چند شعبدہ باز اس اصول کے قائل ہوگئے کہ:

"ليس الامام من جلس في بيته و أرخى عليه ستره، بل الامام كل فاطمي عالم صالح ذي رأي يخرج بالسيف."

( یعنی وہ شخص اور امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ رہے اور اپنے کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے بلکہ ہر وہ عالم، صالح اور صاحب رائے فاطمی امام ہے۔جو خروج بہ شمشیر کرے۔)

لوگوں کو آپ کی امامت کی طرف دعوت دی اور نئی نئی شکلیں ایجاد کر کے اپنے مقاصد حل کرنے کے لیے ایک وکان کھول دی یہ لوگ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ۔ مغیریہ ، جارودیہ، ذکریہ، خشییہ اور خلقیہ۔

عقائد کیسانیہ

دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے یہ لوگ کیسان غلام و آزاد کردہ علی ابن ابی طالب کے اصحاب شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ حسنین علیہما السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند محمد ابن حنفیہ کی امت کے قائل تھے ۔ لیکن جناب محمدخود ایسا دعوی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کو سید لتابعین کہا جاتا تھا اور علم زہد ورع و تقوی اور امر مولیٰ کی اطاعت میں مشہور تھے بعض بازی گروہ نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مخالفتوں کے قضیہ کو حیلہ بنایا اور آپ کے دعوی امامت کی دلیل قرار دیا ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ نہیں تھی کہ آپ امامت کے مدعی تھے بلکہ ان مخالفتوں سے جناب محمد کا مقصود امام چہارم حضرت سید سجاد علیہ السلام کی منزل ظاہر کرتا تھا تاکہ اس طریقہ سے اپنے جاہل مریدین اور سادہ لوح معتقدین کو متوجہ فرما دیں کہ میں اس منصب پر فائز نہیں ہوں چنانچہ اسی مسجد الحرام کے اندر حجر اسود کے سامنے ثبوت حق اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حجر اسود کے اقرار کے بعد جیسا کہ کتب اخبار و تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابو خالد کابلی نے ان جناب کے معتقدین کا راس و رئیس تھا محمد حنیفہ کو امام ماننے والوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان جناب کی پیروی کرتے ہوئے امامت حضرت سید سجاد علیہ السلام کا اعتراف کیا، لیکن چند مکاروں نے بے عقل اور بے خبر عوام کے ایک گروہ کو اسی عقیدے پر باقی رکھا۔ اور

۵۸

بہانہ یہ بنایا کہ جناب محمد نے انکسار سے کام لیا ہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں سیاست کا یہی تقاضا بھی تھا ورنہ ان کی امامت مسلم ہے آپ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ اس پر جمے رہے اور کہا کہ جناب محمد مرے نہیں بلکہ جبل رضوی کے غار میں پوشیدہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و داد سے بھر دیں گے ۔ ان کے چار فرقے تھے۔ مختاریہ، کربیہ، اسحاقیہ اور حربیہ، لیکن آج اس عقیدے پر کوئی شخص باقی نہیں ہے۔

عقائد قداحیہ

تیسرا گروہ قداحیہ ہے ان لوگوں کے مذہب کی بنیاد بظاہر تشیع مگر باطنا محض کفر ہے۔ اس مذہب کی اصل تشکیلات میمون ابن سالم یا ( ویصان) معروف بہ قداح اور عیسی جہار لختان کے ہاتھوں مصر میں شروع ہوئیں اور انہوں نے قرآن مجید و اخبار میں اپنی خواہش کے مطابق تاویلات کا دروازہ کھولا ۔ شریعت کے لیے ایک ظاہر اور ایک باطن قرار دیا اور کیا کہ باطن شریعت کی خدا نے پیغمبر کو پیغمبر نے علی(ع) کو انہوں نے اپنے فرزندوں کو اور خالص شیعوں کو تعلیم دی۔ ان کا قول ہے کہ جن لوگوں نے باطن شریعت کو سمجھ لیا وہ ظاہری طاعت و عبادت ی قید سے آزاد اوربے فکر ہوگئے۔

انہوں نے مذہب کی بنیاد سات ستونوں پر قائم کی۔ سات پیغمبروں کے معتقد ہیں۔ سات امام مانتے ہیں اور ساتویں امام کا غائب جانتے ہیں۔ اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ یہ دو جماعتوں پر متقسم تھے۔

ناصریہ : مذہب خسرو علوی کے اصحاب جنہوں نے اپنے اشعار و گفتار اور کتابوں میں شیعہ کے نام پر بہت سے لوگوں کو کفر و الحاد کی طرف کھینچ لیا اور طبرستان میں کافی پھیلے ہوئے تھے۔

صباحیہ : یہ دوسری جماعت حسن صباح کے اصحاب تھے جو در اصل معرکا باشندہ تھا لیکن ایران میں آکر قزوین کے اندر واقعہ اسفناک اور الموت کا فتنہ عظیم پرپا کیا اور بکثرت قتل و خونریزی کا باعث بنا جس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے لیکن اس مختصر مجلس میں اس کے مفصل تاریخی حالات بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔

عقائد غلات

چوتھی جماعت غالیہ ہے جو تمام قوموں اور فرقوں سے زیادہ پست ہے یہ لوگ تشیع کے نام سے مشہور ہوگئے لیکن یہ سب کےسب کافر نجس اور فاسد و مفسد ہیں ان کے اصلی فرقے سات میں سبائیہ، منصوریہ، غرابیہ،

۵۹

بزیعینہ، یعقوبیہ، اسماعیلیہ، اور ازدریہ، ان کے حالات اور پیدائش کی تشریح کل کی شب میں مقتضائے مجلس کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کرچکا ہوں ۔ ہم شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی پوری ملت بلکہ دنیا کے سارے مسلمان ان سے اور ان کے عقائد سے بیزار ہیں ہم ان کو ہر نجس سے زیادہ نجس کافر ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں۔

کفر والحاد کے قاعدے پر جو عقیدہ بھی صراحتہ یا کنایة شیعوں کے نام سے زبانوں پر مشہور اور بعض کتابوں میں عمدا یا سہوا درج ہوا ہے، وہ زیادہ تراسی گروہ سے ہے جو اپنے کو شیعہ علی کہتا ہے لیکن جماعت شیعہ امامیہ اثنا عشریہ جو دنیا میں اسی کروڑ سے زیادہ تعداد کے مالک ہے ان فاسد عقائد سے دور ہے بلکہ اصلی دین، پاکیزہ مذہب اور شریعت کا لب لباب جو باب علم رسول امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے حاصل ہوا ہے انہیں لوگوں کے پاس ملتا ہے۔

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ

پانچواں گروہ شیعہ امامیہ اور فرقہ فقہ اثناعشریہ ہے جو عقل و نقل کے مطابق شریعت کے لب و لباب کا حامل ہے اور در اصل حقیقی شیعہ یہی لوگ ہیں اور وہ چار فرقے فرضی شیعہ ہیں۔

ان میں حقیقی شیعوں کے اعتقاد کا خلاصہ فہرست کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ بعد کو ان کی طرف غلط باتیں منسوب نہ کیجئے۔

شیعہ امامیہ کی پوری جماعت ذات واجب الوجود خداوند جل و علا کا اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ ایسا واحد یکتا ہے جو اپنا شبیہ و عدیل اور نظیر نہیں رکھتا نہ جسم ہے نہ صورت نہ جوہر ہے نہ عرض ، جملہ صفات مکانیہ سے مبرا و معرا ہے بلکہ سارے اعراض و جواہر کا خالق ہے اور خلق موجودات اور ان پر فیوض نازل کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بعض عارفین نے پروردگار کی صفات سلبیہ کو شعر میں اس طرح نظم کیا ہے۔

نہ مرکب بود نہ جسم نہ جوہر نہ عرضبے شریک است و معانی تو غنی داں خالق

چونکہ ذات واجب الوجود ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ دیکھا جا سکے اور دوسری طرف مخلوق کی ہدایت و رہنمائی بھی ضروری تھی۔ لہذا قوم انسانی سے معیار کے لحاظ سے کامل انبیاء و مرسلین منتخب کر کے ہر زمانہ والوں کے حالات و ضروریات کے مطابق دلائل و براہین ، معجزات ، بینات اور کافی ہدیات سپرد کر کےبھیجے ۔ جن کی تعداد بہت اور بے شمار ہے یہ سب کے سب ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں کے احکام کے ماتحت

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

(۲۲۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وصف بيعته بالخلافة

قال الشريف: وقد تقدم مثله بألفاظ مختلفة.

وبَسَطْتُمْ يَدِي فَكَفَفْتُهَا ومَدَدْتُمُوهَا فَقَبَضْتُهَا - ثُمَّ تَدَاكَكْتُمْ عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ - عَلَى حِيَاضِهَا يَوْمَ وِرْدِهَا - حَتَّى انْقَطَعَتِ النَّعْلُ - وسَقَطَ الرِّدَاءُ ووُطِئَ الضَّعِيفُ - وبَلَغَ مِنْ سُرُورِ النَّاسِ بِبَيْعَتِهِمْ إِيَّايَ - أَنِ ابْتَهَجَ بِهَا الصَّغِيرُ وهَدَجَ إِلَيْهَا الْكَبِيرُ - وتَحَامَلَ نَحْوَهَا الْعَلِيلُ وحَسَرَتْ إِلَيْهَا الْكِعَابُ

(۲۳۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في مقاصد أخرى

فَإِنَّ تَقْوَى اللَّه مِفْتَاحُ سَدَادٍ

(۲۲۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنی بعیت خلافت کے بارے میں )

تم نے بیعت کے لئے میری طرف ہاتھ پھیلانا چاہا تو میں نے روک لیا اور اسے کھینچنا چاہا تو میں نے سمیٹ لیا ۔لیکن اس کے بعد تم اس طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے جس طرح پانی پینے کے دن پیا سے اونٹ تالاب پر گر پڑتے ہیں۔یہاں تک کہ میری جوتی کا تسمہ کٹ گیا اور عبا کاندھے سے گر گئی اور کمزور افراد کچل گئے۔تمہاری خوشی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خوشیاں منائیں ۔بوڑھے لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھے ۔بیمار اٹھتے بیٹھتے۔پہنچ گئے اور میری بیعت کے لئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ(۱) سے باہر نکل آئیں۔

(۲۳۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

یقینا تقویٰ الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا

(۱) کس قدر فرق ہے اس بیعت میں جس کے لئے بوڑھے بچے عورتیں سب گھرسے نکل آئے اور کمال اشتیاق میں صاحب منصب کی بارگاہ کی طرف دوڑ پڑے اوراس بیعت میں جس کے لئے بنت رسول (ص) کے دروازہ میں آگ لگائی گئی ۔نفس رسول (ص) کو گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر گھرسے نکالا گیا اور صحابہ کرام کو زد و کوب کیا گیا۔

کیا ایسی بیعت کوبھی اسلامی بیعت کہاجا سکتا ہے اورایسے انداز کوبھی جواز خلافت کی دلیل بنایا جا سکتا ہے ؟ امیرالمومنین نے اپنی بیعت کاتذکرہ اسی لئے فرمایا ہے کہ صاحبان عقل و شعوراور ارباب عدل وانصاف بیعت کے معنی کا ادراک کرس کیں اور ظلم وجور۔جبر و استبدار کو بیعت کا نام نہدے سکیں اور نہ اسے جوازحکومت کی دلیل بناسکیں۔

۴۶۱

وذَخِيرَةُ مَعَادٍ وعِتْقٌ مِنْ كُلِّ مَلَكَةٍ - ونَجَاةٌ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ بِهَا يَنْجَحُ الطَّالِبُ - ويَنْجُو الْهَارِبُ وتُنَالُ الرَّغَائِبُ.

فضل العمل

فَاعْمَلُوا والْعَمَلُ يُرْفَعُ - والتَّوْبَةُ تَنْفَعُ والدُّعَاءُ يُسْمَعُ - والْحَالُ هَادِئَةٌ والأَقْلَامُ جَارِيَةٌ - وبَادِرُوا بِالأَعْمَالِ عُمُراً نَاكِساً - أَوْ مَرَضاً حَابِساً أَوْ مَوْتاً خَالِساً - فَإِنَّ الْمَوْتَ هَادِمُ لَذَّاتِكُمْ - ومُكَدِّرُ شَهَوَاتِكُمْ ومُبَاعِدُ طِيَّاتِكُمْ - زَائِرٌ غَيْرُ مَحْبُوبٍ وقِرْنٌ غَيْرُ مَغْلُوبٍ - ووَاتِرٌ غَيْرُ مَطْلُوبٍ - قَدْ أَعْلَقَتْكُمْ حَبَائِلُه - وتَكَنَّفَتْكُمْ غَوَائِلُه وأَقْصَدَتْكُمْ مَعَابِلُه - وعَظُمَتْ فِيكُمْ سَطْوَتُه وتَتَابَعَتْ عَلَيْكُمْ عَدْوَتُه ،وقَلَّتْ عَنْكُمْ نَبْوَتُه - فَيُوشِكُ أَنْ تَغْشَاكُمْ دَوَاجِي ظُلَلِه - واحْتِدَامُ عِلَلِه وحَنَادِسُ غَمَرَاتِه - وغَوَاشِي سَكَرَاتِه وأَلِيمُ إِرْهَاقِه - ودُجُوُّ أَطْبَاقِه وجُشُوبَةُ مَذَاقِه - فَكَأَنْ قَدْ أَتَاكُمْ بَغْتَةً

ذخیرہ ہے۔ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔اس کے وسیلہ سے طلب گار کامیاب ہوتے ہیں۔عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اوربہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔

لہٰذا عمل کرو کہابھی اعمال بلند ہو رہے ہیں اور توبہ فائدہ مند ہے اور دعا سنی جا رہی ہے۔حالات پر سکون ہیں قلم اعمال چل رہا ہے۔اپنے اعمال کے ذریعہ آگے بڑھ جائو جو الٹے پائوں چل رہی ہے اور اس مرض سے جواعمال سے روکدیتا ہے اوراس موت سے جواچانک جھپٹ لیتی ہے۔اس لئے کہ موت تمہاری لذتوں کو فناکردینے والی تمہاری خواہشات کو بدمزہ کردینے والی اور تمہاری منلوں کودورکردینے والی ہے۔وہ ایسی زائر ہے جسے کوئی پسند نہیں کرتاہے اور ایی مقابل ہے جومغلوب نہیں ہوتی ہے اور ایسی قاتل ہے جس سے خوں بہا کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے۔اس نے اپنے پھندے تمہاے گلوں میں ڈال رکھے ہیں اوراس کی ہلاکتوں نے تمہیں گھیرے میں لے لیا ہے اور اس کے تیروں نے تمہیں نشانہ بنا لیا ہے۔اس کی سطوت تمہارے بارے میں عظیم ہے اور اس کی تعدیاں مسلسل ہیں اور اس کا وار اچٹتا بھی نہیں ہے۔قریب ہے کہاس کے بادلوں کی تیرگیاں ۔اس کے مرض کی سختیاں۔اس کی جاں کنی کی اذیتیں۔اس کی دم اکھڑنے کی بے ہوشیاں ۔اس کے ہر طرف سے چھا جانے کی تاریکیا ں اور بد مزگیاں۔اس کی سختیوں کے اندھیرے تمہیں اپنے گھیرے میں لے لیں۔گویا وہ اچانک اس

۴۶۲

فَأَسْكَتَ نَجِيَّكُمْ - وفَرَّقَ نَدِيَّكُمْ وعَفَّى آثَارَكُمْ - وعَطَّلَ دِيَارَكُمْ وبَعَثَ وُرَّاثَكُمْ - يَقْتَسِمُونَ تُرَاثَكُمْ بَيْنَ حَمِيمٍ خَاصٍّ لَمْ يَنْفَعْ - وقَرِيبٍ مَحْزُونٍ لَمْ يَمْنَعْ - وآخَرَ شَامِتٍ لَمْ يَجْزَعْ.

فضل الجد

فَعَلَيْكُمْ بِالْجَدِّ والِاجْتِهَادِ والتَّأَهُّبِ والِاسْتِعْدَادِ - والتَّزَوُّدِ فِي مَنْزِلِ الزَّادِ - ولَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا - كَمَا غَرَّتْ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ الْمَاضِيَةِ - والْقُرُونِ الْخَالِيَةِ الَّذِينَ احْتَلَبُوا دِرَّتَهَا - وأَصَابُوا غِرَّتَهَا وأَفْنَوْا عِدَّتَهَا - وأَخْلَقُوا جِدَّتَهَا وأَصْبَحَتْ مَسَاكِنُهُمْ أَجْدَاثاً - وأَمْوَالُهُمْ مِيرَاثاً لَا يَعْرِفُونَ مَنْ أَتَاهُمْ - ولَا يَحْفِلُونَ مَنْ بَكَاهُمْ ولَا يُجِيبُونَ مَنْ دَعَاهُمْ - فَاحْذَرُوا الدُّنْيَا فَإِنَّهَا غَدَّارَةٌ غَرَّارَةٌ خَدُوعٌ - مُعْطِيَةٌ مَنُوعٌ مُلْبِسَةٌ نَزُوعٌ

طرح وارد ہوگئی کہ تمہارے راز داروں کو خاموش کردیا، ساتھیوں کو منتشر کردیا، آثار کومحو کردیا، دیار کو معطل کردیا اور وارثوں کو آمادہ کردیا۔اب وہ تمہاری میراث کو تقسیم کر رہے ہیں ان خاص عزیزوں کے درمیان جو کام(۱) نہیں آئے اور ان رنجیدہ رشتہ داروں کے درمیان جنہوں نے موت کو روکا نہیں اوران خوش ہونے والوں کے درمیان جو ہرگز رنجیدہ نہیں ہے۔

اب تمہارا فرض ہے کہ سعی کرو۔کوشش کرو ۔تیاری کرو۔آمادہ ہو جائو، اس زاد راہکی جگہ سے زاد سفر لے لو اور خبردار یہ دنیا تمہیں اس طرح دھوکہ نہ دے سکے جیسے پہلے والوں کو دیا ہے جوامتیں گزر گئیں اورجونسلیں تباہ ہوگئیں ۔جنہوں نے اس دنیا کا دودھ دوہا تھا۔اس کی غفلت سے فائدہ اٹھایا تھا۔اس کے باقی پسماندہ دنوں کو گزارا تھا اوراس کی تازگیوں کو پڑمردہ بنادیا تھا اب ان کے مکانات قبر بن گئے ہیں اور ان کے اموال میراث قرارپا گئے ہیں۔نہ انہیں اپنے پاس آنے والوں کی خبر ہے اور نہ رونے والوں کی پرواہ ہے اور نہ پکارنے والوں کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

اس دنیا سے بچو کہ یہ بڑی دھوکہ باز۔فریب کار۔غدار۔دینے والی اورچھیننے والی اورلباس پہنا کراتار لینے والی(۱) ہے

(۱) یہ موت کا عجیب و غریب کاروبار ہے کہ مالک کودنیا سے اٹھالے جاتی ہے اور اس کامال ایسے افراد کے حوالے کر دیتی ہے جو نہ زندگی میں کام آئے اور نہ موت کے مرحلہ ہی میں ساتھ دے سکے۔کیا اس سے زیادہ عبرت کا کوئی مقام ہو سکتا ہے کہ انسان ایسی موت سے غافل رہے اور چند روز ہ زندگی کی لذتوں میں مبتلا ہو کرموت کے جملہ خطرات سے بے خبر ہو جائے ۔

۴۶۳

لَا يَدُومُ رَخَاؤُهَا - ولَا يَنْقَضِي عَنَاؤُهَا ولَا يَرْكُدُ بَلَاؤُهَا.

ومنها في صفة الزهاد - كَانُوا قَوْماً مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا ولَيْسُوا مِنْ أَهْلِهَا – فَكَانُوا فِيهَا كَمَنْ لَيْسَ مِنْهَا - عَمِلُوا فِيهَا بِمَا يُبْصِرُونَ - وبَادَرُوا فِيهَا مَا يَحْذَرُونَ - تَقَلَّبُ أَبْدَانِهِمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِ الآخِرَةِ - ويَرَوْنَ أَهْلَ الدُّنْيَا يُعَظِّمُونَ مَوْتَ أَجْسَادِهِمْ - وهُمْ أَشَدُّ إِعْظَاماً لِمَوْتِ قُلُوبِ أَحْيَائِهِمْ.

(۲۳۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها بذي قار - وهو متوجه إلى البصرة ذكرها الواقدي في كتاب «الجمل»:

فَصَدَعَ بِمَا أُمِرَ بِه وبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّه - فَلَمَّ اللَّه بِه الصَّدْعَ ورَتَقَ بِه الْفَتْقَ - وأَلَّفَ بِه الشَّمْلَ بَيْنَ ذَوِي الأَرْحَامِ - بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِي الصُّدُورِ - والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِي الْقُلُوبِ.

نہ اس کی آسائشیں رہنے والی ہیں اورنہ اس کی تکلیفیں ختم ہونے والی ہیں اور نہ اس کی بلائیں تھمنے والی ہیں۔

(کچھ زاہدوں کے برے میں )یہ انہیں دنیا والوں میں تھے لیکن اہل دنیا نہیں تھے ۔ایسے تھے جیسے اس دنیا کے نہ ہوں۔دیکھ بھال کرعمل کیا اور خطرات سے آگے نکل گئے۔گویا ان کے بدن اہل آخرت کے درمیان کروٹیں بدل رہے ہیں اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اہل دنیا ان کی موت کوبڑی اہمیت دے رہے ہیں حالانکہ وہخود ان زندوں کے دلوں کی موت کو زیادہ بڑا حادثہ قرار دے رہے ہیں۔

(۲۳۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسے بصرہ جاتے ہوئے مقام ذی قار میں ارشاد فرمایا اوراسے واقدی نے کتاب الجمل میں نقل کیا ہے )

رسول اکرم (ص) نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہنچادیا۔اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا ۔شگاف کو بھر دیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اوردلوں میں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے ۔

(۱) دنیاکی اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں ہو سکتی ہے کہ یہ ایک دن بہترین لباس سے انسان کو آراستہ کرتی ہے اور دوسرے دن اسے اتار کر سر راہ برہنہ کردیتی ہے۔یہی حال ظاہری لباس کابھی ہوتا ہے اور یہی حال معنوی لباس کابھی ہوتا ہے۔حسن دے کربد شکل بنا دیتی ہے جوانی دے کر بوڑھا کردیتی ہے۔زندگی دے کرمردہبنا دیتی ہے۔تخت و تاج دے کرکنج قبر کے حوالہ کردیتی ہے اور صاحب دربارو بارگاہ بنا کر قبرستان کے وحشت کدہ میں چھوڑ آتی ہے ۔

۴۶۴

(۲۳۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به عبد الله بن زمعة وهو من شيعته، وذلك أنه قدم عليه في خلافته يطلب منه مالا فقالعليه‌السلام :

إِنَّ هَذَا الْمَالَ لَيْسَ لِي ولَا لَكَ - وإِنَّمَا هُوَ فَيْءٌ لِلْمُسْلِمِينَ وجَلْبُ أَسْيَافِهِمْ - فَإِنْ شَرِكْتَهُمْ فِي حَرْبِهِمْ كَانَ لَكَ مِثْلُ حَظِّهِمْ - وإِلَّا فَجَنَاةُ أَيْدِيهِمْ لَا تَكُونُ لِغَيْرِ أَفْوَاهِهِمْ.

(۲۳۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد أن أقدم أحدهم عل الكلام فحصر، وهو في فضل أهل البيت، ووصف فساد الزمان

أَلَا وإِنَّ اللِّسَانَ بَضْعَةٌ مِنَ الإِنْسَانِ - فَلَا يُسْعِدُه الْقَوْلُ إِذَا امْتَنَعَ - ولَا يُمْهِلُه النُّطْقُ إِذَا اتَّسَعَ - وإِنَّا لأُمَرَاءُ الْكَلَامِ

(۲۳۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب عبداللہ بن زکعہ کو قرادیا تھا جو کہ آپ کے اصحاب میں شمار ہوتا تھا اور اس نے آپ سے مال کا مطالبہ کرلیا تھا)

یہ مال نہ میرا ہے اور نہ تیرا۔یہ مسلمانوں کا مشترکہ حق ہے اوران کی تلواروں کا نتیجہ ہے لہٰذا اگرت ونے ان کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا ہے تو انہیں کی طرح تیرا بھی حصہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایک شخص کے ہاتھ کی کمائی دوسرے کے منہ کا نوالہ(۱) نہیںبن سکتی ہے۔

(۲۳۳)

آپ کا ارشاد گرامی

فضائل اہلبیت ع اورزمانے کے فسادات کے بارے میں

یاد رکھو کہ زبان انسانی وجود کا ایک ٹکڑا ہے لہٰذا جب انسان رکجاتا ہے تو زبان ساتھ نہیں دے سکتی ہے اور جب انسان کے ذہن میں کشادگی ہوتی ہے تو زبان کو رکنے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔ہم اہل بیت(۲) جو اقلیم سخن

(۱)اس سے بہتر موعظہ و نصیحت عالم عمل و اکتساب میں ممکن نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ اس امر کا احساس رکھے کہ اگر کی مال سے استفادہ کرنے کا شوق ہے تو اس کی راہمیں عمل اورمحنت بھی ضروری ہے۔ورنہ ایک انسان کے نتیجہ عمل کو دوسرے کے حوالہ نہیں کیا جا سکتاہے اورنہدین خدا اس طرح کی مفت خوری اورحرام خوری کو برداشت کرسکتا ہے۔

(۲)کہا جاتا ہے کہ حضرت نے اپنے بھانجے جعدہ بن ہبیرہ مخزومی کو خطبہ پڑھنے کاحکم دیا تو ان کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی اور آپ نے زبان و بیان کے فضائل کے ساتھ اس حقیقت کا اعلان کیاکہ اہل بیت اقلیم سخن کے حکام ہیں لہٰذا جعدہ کو عاجز اور گونگا تصورنہیں کرنا چاہیے۔یہ ماحول کا اثرتھا کہ وہخطبہ نہ پیش کرس کے ۔اور زبان میں لکنت پیدا ہوگئی۔بلکہ ایسی صورت حال اکثر اوقات انسان کے کمال معرفت کی دلیل بن جاتی ہے کہ وہ بزرگوں کی بزرگی کا ادراک رکھتا ہے اور ان کے سامنے روانی کے ساتھ تقریر نہیں کرسکتا ہے۔

۴۶۵

وفِينَا تَنَشَّبَتْ عُرُوقُه - وعَلَيْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُونُه.

فساد الزمان

واعْلَمُوا رَحِمَكُمُ اللَّه أَنَّكُمْ فِي زَمَانٍ - الْقَائِلُ فِيه بِالْحَقِّ قَلِيلٌ - واللِّسَانُ عَنِ الصِّدْقِ كَلِيلٌ - واللَّازِمُ لِلْحَقِّ ذَلِيلٌ - أَهْلُه مُعْتَكِفُونَ عَلَى الْعِصْيَانِ - مُصْطَلِحُونَ عَلَى الإِدْهَانِ فَتَاهُمْ عَارِمٌ - وشَائِبُهُمْ آثِمٌ وعَالِمُهُمْ مُنَافِقٌ - وقَارِنُهُمْ مُمَاذِقٌ لَا يُعَظِّمُ صَغِيرُهُمْ كَبِيرَهُمْ - ولَا يَعُولُ غَنِيُّهُمْ فَقِيرَهُمْ.

(۲۳۴ )

ومن كلام لهعليه‌السلام

رَوَى ذِعْلَبٌ الْيَمَامِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ قُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّه بْنِ يَزِيدَ عَنْ مَالِكِ بْنِ دِحْيَةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمنِيِنَعليه‌السلام - وقَدْ ذُكِرَ عِنْدَه اخْتِلَافُ النَّاسِ فَقَالَ:

إِنَّمَا فَرَّقَ بَيْنَهُمْ مَبَادِئُ طِينِهِمْ

کے حکام ہیں۔ہمارے ہی اندر بیان کی جڑیں پیوست ہیں اور ہمارے ہی سر پر خطابت کی شاخیں سایہ فگن ہیں۔

(خدا تم پر رحم کرے ) یہ یاد رکھو کہتم اس زمانہ میں زندگی گذاررہے ہو جس میں حق کہنے والوں کی قلت ہے اور زبانیں صدق بیانی سے کند ہوگئی ہیں۔حق سے وابستہ رہنے والا ذلیل شمار ہوتا ہے اور اہل زمانہ گناہ و ناف رمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری پرمتحد ہوگئے ہیں۔جو ان بد خوہیں اور بوڑھے گناہ گار۔عالم منافق ہیں اور قاری چاپلوس۔نہ چھوٹے بڑوں کی تعظیمکرتے ہیں اور نہ دولت مند فقیروں کی دستگیری کرتے ہیں۔

(۲۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

( غلب یمانی احمد بن قتیبہ سے۔انہوں نے عبداللہ بن یزید سے اور انہوں نے مالک بن وحیہ کلبی سے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین کے سامنے لوگوں کے اختلاف ا مزاج کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا)

لوگوں کے درمیان یہ تفرقہ ان کی(۱) طینت

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی شکل و صورت اور اس کی طبیعت و فطرت میں ایک طرح کا رابطہ ضرورپایا جاتا ہے جیسا کہ دورحاضر کے بعض محققین نے ثابت جکیا ہے لیکن اس کا یہمطلب ہرگز نہیں ہے کہ ساری زندگی کے اعمال و کردار کا فیصلہ ابھی اسی طینت اورخاک سے ہو جاتا ہے۔انسانی زندگی پر تعلیم وتربیت کا بہر حال اثر ہوتا ہے اور اسی کے اعتبار سے کرداروں میں اختلاف بھی پیدا ہوجاتا ہے۔لیکن بنیادی سبب طینت کا اختلاف ہی ہے اور یہ ایک فطری شے ہے کہ جو چیز جس سے بنائی جائے گی اس مادہ کا اثر اس کے مزاج پر ضرور ہوگا۔

تجربات کی بنا پر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریگ زاروں کی مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کی طبیعت میں کسی طرح کی چیک نہیں ہوتی ہے اور کھارے پانی سے گندھی ہوئی مٹی کی مخلوقات میں حلاوت اور شیرینی نہیں ہوتی ہے۔یہ اوربات ہے کہ یہ طے کرنا سخت دشوار ہے کہ کون کس مٹی سے بنا ہے اور کس کی مٹی کس پانی سے گوندھی گئی ہے۔حالات کسی مقدار میں نشاندہی کر سکتے ہیں لیکن اسے دلیل مستقل نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔

۴۶۶

وذَلِكَ أَنَّهُمْ كَانُوا فِلْقَةً مِنْ سَبَخِ أَرْضٍ وعَذْبِهَا - وحَزْنِ تُرْبَةٍ وسَهْلِهَا - فَهُمْ عَلَى حَسَبِ قُرْبِ أَرْضِهِمْ يَتَقَارَبُونَ - وعَلَى قَدْرِ اخْتِلَافِهَا يَتَفَاوَتُونَ - فَتَامُّ الرُّوَاءِ نَاقِصُ الْعَقْلِ - ومَادُّ الْقَامَةِ قَصِيرُ الْهِمَّةِ - وزَاكِي الْعَمَلِ قَبِيحُ الْمَنْظَرِ - وقَرِيبُ الْقَعْرِ بَعِيدُ السَّبْرِ - ومَعْرُوفُ الضَّرِيبَةِ مُنْكَرُ الْجَلِيبَةِ - وتَائِه الْقَلْبِ مُتَفَرِّقُ اللُّبِّ - وطَلِيقُ اللِّسَانِ حَدِيدُ الْجَنَانِ.

(۲۳۵)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

قَالَه وهُوَ يَلِي غُسْلَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وتَجْهِيزَه

بِأَبِي أَنْتَ وأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّه - لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ يَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَيْرِكَ - مِنَ النُّبُوَّةِ والإِنْبَاءِ وأَخْبَارِ السَّمَاءِ - خَصَّصْتَ حَتَّى صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاكَ - وعَمَّمْتَ حَتَّى صَارَ النَّاسُ فِيكَ سَوَاءً - ولَوْ لَا أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ ونَهَيْتَ عَنِ الْجَزَعِ - لأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ الشُّئُونِ - ولَكَانَ الدَّاءُ مُمَاطِلًا والْكَمَدُ مُحَالِفاً - وقَلَّا لَكَ

کی بنیادوںسے پیدا ہوا ہے کہ وہ شورو شیریں اور ہموارو نا ہموار زمین کاایک حصہ ہیں۔لہٰذا جس قدر ان کیزمین میں قربت ہوگی ان میں اتفاق ہوگا اور جس قدر طینت میں اختلاف پیدا ہوگا۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صورت کا حسین و جمیل عقل کا ناقص اور قدو قامت کا طویل ہمت کا قصیر ہوتا ہے۔عمل کا پاکیزہ ' منظر کا قبیح ہوتا ہے اور قد کا کوتاہ فکر کا دور اندیش ہوتا ہے۔فطری اعتبار سے نیک اعمال کے اعتبارسے بد اوردل کے اعتبارسے پریشان' دماغ کے اعتبارس ے پراگندہ اور اس طرح زبان کے اعتبارسے بہترین بولنے والا' ہوش مند دل رکھنے والا ہوتا ہے۔

(۲۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے رسول اکرم (ص) کے جنازہ کو غسل و کفن دیتے وقت ارشاد فرمایا تھا )

یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔ آپ کے انتقال سے وہ نبوت الٰہی احکام اورآسمانی اخبارکا سلسلہ منقطع ہوگیا جو آپ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا۔آپ کا غم اہل بیت کے ساتھیوں خاص ہوا کہ ان کے لئے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لئے عام ہوا کہ سب برابر کے شریک ہوگئے۔ اگر آپ نے صبر کاحکم نہ دیا ہوتا اورنالہ وفریاد سے منع نہکیا ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کردیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج و الم ہمیشہ

۴۶۷

ولَكِنَّه مَا لَا يُمْلَكُ رَدُّه - ولَا يُسْتَطَاعُ دَفْعُه - بِأَبِي أَنْتَ وأُمِّي اذْكُرْنَا عِنْدَ رَبِّكَ واجْعَلْنَا مِنْ بَالِكَ!

(۲۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

اقتص فيه ذكر ما كان منه - بعد هجرة النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثم لحاقه به:

فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ مَأْخَذَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَأَطَأُ ذِكْرَه حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرَجِ

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - في كلام طويل: قولهعليه‌السلام فأطأ ذكره - من الكلام الذي رمى به إلى غايتي الإيجاز والفصاحة - أراد أني كنت أعطى خبرهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - من بدء خروجي إلى أن انتهيت إلى هذا الموضع - فكنى عن ذلك بهذه الكناية العجيبة.

(۲۳۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المسارعة إلى العمل

فَاعْمَلُوا وأَنْتُمْ فِي نَفَسِ الْبَقَاءِ - والصُّحُفُ مَنْشُورَةٌ والتَّوْبَةُ مَبْسُوطَةٌ - والْمُدْبِرُ يُدْعَى

ساتھ رہ جاتا۔لیکن موت ایک ایسی چیز ہے جس کا پلٹا دینا کسی کے اختیار میں نہیں ہے اور جس کا ٹال دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔

(۲۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں رسول اکرم (ص)کی ہجرت کے بعدآپ سے ملحق ہنے تک کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے )

میں مسلسل رسول اکرم (ص) کے نقش قدم پر چلتا رہا اوران کیذکر کے خطوط پر قدم جماتا رہا۔یہاں تک کہ مقام عرج تک پہنچ گیا۔

سید رضی : آپ کا ارشاد گرامی ''فاطاذکرہ'' وہ کلام ہے جس میں ایجاز و فصاحت کی آخری حدوں کو پیش کردیا گیا ہے اورجن کا مقصد یہ ہے کہ میرے پاس مسلسل سرکاری کی خبریں پہنچ رہی تھیں اور میں انہیں خطوط پر آگئے بڑھ رہاتھا۔یہاں تک کہ مقام عرج پر پہنچ گیا۔

(۲۳۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(عمل میں تیز رفتاری کی دعوت دیتے ہوئے )

تم لوگ ابھی عمل کرو جبکہ بقا کی وسعت حاصل ہے اور نامۂ اعمال کھلے ہوئے ہیں۔توبہ کا دامن پھیلا ہوا ہے اور انحراف کرنے والوں کو برابر دعوت دی

۴۶۸

والْمُسِيءُ يُرْجَى - قَبْلَ أَنْ يَخْمُدَ الْعَمَلُ ويَنْقَطِعَ الْمَهَلُ - ويَنْقَضِيَ الأَجَلُ ويُسَدَّ بَابُ التَّوْبَةِ - وتَصْعَدَ الْمَلَائِكَةُ

فَأَخَذَ امْرُؤٌ مِنْ نَفْسِه لِنَفْسِه وأَخَذَ مِنْ حَيٍّ لِمَيِّتٍ - ومِنْ فَانٍ لِبَاقٍ ومِنْ ذَاهِبٍ لِدَائِمٍ - امْرُؤٌ خَافَ اللَّه - وهُوَ مُعَمَّرٌ إِلَى أَجَلِه ومَنْظُورٌ إِلَى عَمَلِه - امْرُؤٌ أَلْجَمَ نَفْسَه بِلِجَامِهَا وزَمَّهَا بِزِمَامِهَا - فَأَمْسَكَهَا بِلِجَامِهَا عَنْ مَعَاصِي اللَّه - وقَادَهَا بِزِمَامِهَا إِلَى طَاعَةِ اللَّه.

(۲۳۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن الحكمين وذم أهل الشام

جُفَاةٌ طَغَامٌ وعَبِيدٌ أَقْزَامٌ - جُمِعُوا مِنْ كُلِّ أَوْبٍ وتُلُقِّطُوا مِنْ كُلِّ شَوْبٍ - مِمَّنْ يَنْبَغِي أَنْ يُفَقَّه ويُؤَدَّبَ - ويُعَلَّمَ ويُدَرَّبَ ويُوَلَّى عَلَيْه - ويُؤْخَذَ عَلَى يَدَيْه

جا رہی ہے اوربدعمل افراد کو مہلت دی جا رہی ہے۔قبل اس کے کہ شعلہ عمل بجھ جائے اور مہلت کی مدت ختم ہو جائے اور مدتعمل تمام ہو جائے ۔توبہ کا دروازہ بند ہوجائے اورملائکہ آسمان کی طرف صعود کرجائیں ۔

ہرش خص کو چاہیے کہ اپنے نفس سے اپنے نفس کا انتظام کرے۔زندہ سے مردہ کے لئے اور فانی سے باقی کے لئے اور جانے والے سے رہ جانے والے کے لئے لے لے۔

جب تک موت تک کی زندگی مل رہی ہے اورعمل کی مہلت ملی ہوئی ہے خدا کاخوف پیدا کرے۔

اپنے نفس کو لگام لگائے اوراسے زمام دے کہ معاصی خدا سے روک دے اور کھینچ کر اطاعت الٰہی تک لے آئے ۔

(۲۳۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(حکمین کے حالات اوراہل شام کی مذمت کے بارے میں )

یہ چند تند خو اوربد سر شت افراد ہیں اور غلامانہ ذہنیت کے بد قماش ہیں جنہیں ہرطرف سے جمع کرلیا گیا ہے اور ہرمخلوط نسب سے چن لیا گیا ہے۔یہ لوگ اس قابل تھے کہانہیں مذہب سکھایا جائے ' مودب بنایا جائے ۔ تعلیم دی جائے اورتربیت یافتہ بنایاجائے ان پر لوگوں کو حاکم بنایا جائے اوران کا ہاتھ پکڑ کرچلایا جائے۔یہ نہ

۴۶۹

- لَيْسُوا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - ولَا مِنَ( الَّذِينَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ والإِيمانَ ) .

أَلَا وإِنَّ الْقَوْمَ اخْتَارُوا لأَنْفُسِهِمْ - أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تُحِبُّونَ - وإِنَّكُمُ اخْتَرْتُمْ لأَنْفُسِكُمْ - أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تَكْرَهُونَ - وإِنَّمَا عَهْدُكُمْ بِعَبْدِ اللَّه بْنِ قَيْسٍ بِالأَمْسِ يَقُولُ - إِنَّهَا فِتْنَةٌ فَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وشِيمُوا سُيُوفَكُمْ - فَإِنْ كَانَ صَادِقاً فَقَدْ أَخْطَأَ بِمَسِيرِه غَيْرَ مُسْتَكْرَه - وإِنْ كَانَ كَاذِباً فَقَدْ لَزِمَتْه التُّهَمَةُ - فَادْفَعُوا فِي صَدْرِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ - بِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ - وخُذُوا مَهَلَ الأَيَّامِ وحُوطُوا قَوَاصِيَ الإِسْلَامِ -

مہاجرین(۱) میںتھے نہ انصار میں اور نہ ان لوگوں میں جنہوں نے مدینہ میں یا ایمان میں اپنی جگہ بنائی تھی۔

یاد رکھو کہ قوم نے اپنے لئے ان لوگوں کو منتخب کیا ہے جو ان کی پسند سے قریب تھے اورتم نے اپنے لئے ان افراد کا انتخاب کیا ہے جو تمہاری نا پسندیدگی سے قریب تھے ۔ابھی تمہارا اور عبداللہ بن قیس کا زمانہ کل ہی کا ہے جب وہ یہ کہہ رہا تھاکہ ''یہ جنگ ایک فتنہ(۲) ہے لہٰذا اپنی کمانوں کو توڑ ڈالو اور تلواروں کو نیام میں رکھ لو۔اب اگریہ اپنی بات میں سچا تھا تو میرے ساتھ بلا جبر و اکراہ چلنے میں غلط کار تھا اور غلط کہتا تھا تو اس پر الزام ثابت ہوگیا تھا۔اب تمہارے پاس عمروبن العاص کا توڑ عبداللہ بن عباس ہیں۔دیکھو ان دنوں کی مہلت کو غنیمت جانو اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرو۔کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو

(۱)معاویہ کے لشکر اور امیرالمومنین کے سپاہیوں کا ایک نمایاں بنیادی فرق یہ تھا کہ معاویہ کے لشکر میں تمام کے تمام افراد بد سرشت ۔بد نسل ۔بد کردار اوربے ایمان تھے ۔نہ ایک مہاجر نہ ایک ناصر۔اورنہ ایک معروف ایمان و کردار والا۔ اوراس کے برخلاف امیرالمومنین کے سپاہیوں میں ۲۸۰۰ مہاجرین اور انصارتھے ۔اور ان میں سے ۸۰ تو وہافراد تھے جو جنگ بدر میں شرکت کرچکے تھے اور جن کے ایمان کی شہادت دی جا چکی تھی اوران سب سے بالا ترعمار یا سر جیسا صحابی موجود تھا جس کے قاتل کوسرکار(ص) نے باغی قراردیات ھا اور اویس قرنی جیسا جاں نثار موجود تھا جس کے علاقہ سے ایمان کی خوشبو آتی تھی۔

ایسے واضح حالات کے بعد بھی انسان نفس رسول (ص) کو چھوڑ کربنی امیہ کے بد سرشت انسان کا اتباع کرے تو اس کا انجام جہنم کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے اور اسے کس رخ سے مسلمان یا مومن کہاجاسکتا ہے۔

(۲)ابن ابی الحدید نے اس مقام پر خود ابوموسیٰ اشعری کی زبان سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سرکار دو عالم (ص) نے فرمایا کہ جس طرح بنی اسرائیل میں دوگمراہ حکم تھے اسی طرح اس امت میں بھی ہوں گے۔تو لوگوں نے ابو موسیٰ سے کہاکہ کہیں آپایسے نہ ہو جائیں۔اس نے کہا یہ نا ممکن ہے اور اس کے بعد جب وقت آیا تو طمع دنیا نے ایسا ہی بنا دیا جس کی خبر سرکار دوعالم (ص) نے دی تھی۔

حیرت کی بات ہے کہ حکمین کے بارے میں روایت خود ابو موسیٰ نے بیان کی ہے اور حواب کے سلسلہ کی روایت خود ام المومنین عائشہ نے نقل کی ہے لیکن اس کے باوجود نہ اس روایت کا کوئی اثر ابو موسیٰ پر ہوا اور نہ اس روایت کا کوئی اثر حضرت عائشہ پر۔

اس صورت حال کو کیا کہا جائے اور اسے کیا نام دیا جائے ۔انسان کا ذہن صحیح تعبری سے عاجز ہے۔اور ''ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہے ''

۴۷۰

أَلَا تَرَوْنَ إِلَى بِلَادِكُمْ تُغْزَى وإِلَى صَفَاتِكُمْ تُرْمَى؟

(۲۳۹ )

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها آل محمد صلى الله عليه وآله

هُمْ عَيْشُ الْعِلْمِ ومَوْتُ الْجَهْلِ - يُخْبِرُكُمْ حِلْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ،وظَاهِرُهُمْ عَنْ بَاطِنِهِمْ - وصَمْتُهُمْ عَنْ حِكَمِ مَنْطِقِهِمْ - لَا يُخَالِفُونَ الْحَقَّ ولَا يَخْتَلِفُونَ فِيه - وهُمْ دَعَائِمُ الإِسْلَامِ ووَلَائِجُ الِاعْتِصَامِ - بِهِمْ عَادَ الْحَقُّ إِلَى نِصَابِه وانْزَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ مُقَامِه - وانْقَطَعَ لِسَانُه عَنْ مَنْبِتِه - عَقَلُوا الدِّينَ عَقْلَ وِعَايَةٍ ورِعَايَةٍ - لَا عَقْلَ سَمَاعٍ ورِوَايَةٍ - فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ ورُعَاتَه قَلِيلٌ.

(۲۴۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لعبد الله بن العباس - وقد جاءه برسالة من عثمان

کہ تمہارے شہروں پرحملے ہو رہے ہیں اور تمہاری طاقت و قوت کونشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

(۲۳۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آل محمد علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے)

یہ لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ان کا حلم ان کے علم سے اور ان کا ظاہر ان کے باطن سے اور ان کی خموشی ان کے کلام سے با خبر کرتی ہے۔یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اورنہ حق کے بارے میں کوئی اختلاف کرتے ہیں یہ اسلام کے ستون(۱) اور حفاظت کے مراکز ہیں۔انہیں کے ذریعہ حق اپنے مرکز کی طرف واپس آیا ہے اور باطل اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہے اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی ہے۔انہوں نے دین کو اس طرح پہچانا ہے جو سمجھ اور نگرانی کا نتیجہ ہے۔صرف تننے اور روایت کا نتیجہ نہیں ہے۔اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اوراس کا خیال رکھنے والے بہت کم ہیں۔

(۲۴۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جواس وقت فرمایا جب محاصرہ کے زمانے میں عبداللہ بن عباس عثمان کاخط لے کر آئے جس

(۱)سرکار دو عالم (ص) نے ایک طرف نماز کو اسلام کا ستون قراردیا ہے اوردوسری طرف اہل بیت کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو مجھ پر اور ان پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز باطل اور بیکار ہے ( سنن دار قطنی ص ۱۳۶) جس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ نماز اسلام کا ستون ہے اور محبت اہل بیت نماز کا ستون اکبر ہے نماز نہیں ہے تواسلام نہیں ہے اور اہل بیت نہیں ہیں تو نماز نہیں ہے۔

۴۷۱

وهو محصور يسأله فيها الخروج إلى ماله بينبع، ليقل هتف الناس باسمه للخلافة، بعد أن كان سأله مثل ذلك من قبل، فقالعليه‌السلام

يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا يُرِيدُ عُثْمَانُ - إِلَّا أَنْ يَجْعَلَنِي جَمَلًا نَاضِحاً بِالْغَرْبِ أَقْبِلْ وأَدْبِرْ - بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ ثُمَّ بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَقْدُمَ - ثُمَّ هُوَ الآنَ يَبْعَثُ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ - واللَّه لَقَدْ دَفَعْتُ عَنْه حَتَّى خَشِيتُ أَنْ أَكُونَ آثِماً.

(۲۴۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يحث به أصحابه على الجهاد

واللَّه مُسْتَأْدِيكُمْ شُكْرَه ومُوَرِّثُكُمْ أَمْرَه - ومُمْهِلُكُمْ فِي مِضْمَارٍ مَحْدُودٍ لِتَتَنَازَعُوا سَبَقَه - فَشُدُّوا عُقَدَ الْمَآزِرِ

میں یہ مطالبہ کیا گیا تھاکہ آپ اپنے املاک کی طرف مقام منبع(۱) میں چلے جائیں تاکہ لوگوں میں خلافت کے لئے آپ کے نام کی آواز کم ہو جائے اور ایسا ہی مطالبہ پہلے بھی ہوچکا ہے )

ابن عباس ! عثمان کا مقصد صرف یہ ہے کہ مجھے ایک پانی کھینچنے والے اونٹ کی مثال بنادے کہ میں ہی ڈول کے ساتھ آگے بڑھتا رہوں اور پیچھے ہٹتا رہوں۔اس نے پہلے بھی یہ مطالبہ کیا تھا کہ میں باہر نکل جائوں۔پھر تقاضا کیا کہ واپس آجائوں اورآج پھر یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ باہو چلا جائوں۔خداکی قسم میں نے عثمان سے یہاں تک دفاع کیا کہ یہ خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں گناہ گار نہ ہو جائوں۔

(۲۴۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنے اصحاب کو جہاد پر آمادہ کیا ہے )

پروردگار تم سے اپنے لشکر کے ادا کرنے کا تقاضا کر رہا ہے اور اس نے تمہیں اپنے امرکاصاحب اختیار بنادیاہے اورتمہیں ایک محدود میدان میں مہلت دے دی ہے تاکہ اس کے انعامات کی طرف سبقت میں مقابلہ کرو لہٰذا اپنی کمر یں مضبوطی کے ساتھ کس لو اور

(۱)منبع مدینہ کے قریب ایک مقام ہے جس کا شمارا راضی خراج میں ہوتا تھا۔رسول اکرم (ص) نے اسے امیر المومنین کودے دیا تھا اور آپ نے وہاں ایک چشمہ جاری کیا تھا جس کی بنا پر اس کا نام ینبع ہوگیا تھا۔عثمان نے مظاہرین کے حالات کو دیکھ کر کہا وہ خلافت کے لئے امیر المومنین کا نام لے رہے ہیں آپ کو ینیع جانے کا حکم دے دیا۔آپ وہاں تشریف لے گئے تو دوبارہ امداد کے لئے پھر طلب کرلیا۔اور اس کے بعد پھر منبع جانے کا تقاضا کردیا تو آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ واضح کردیا کہ اس سے زیادہ عثمان کی حمایت انسان کو گناہ گار بنا سکتی ہے لہٰذا اب مزید حمایت کا کوئی امکان نہیں ہے ہر انسان کواپنے اعمال کے نتائج کو بہر حال برداشت کرنا چاہیے۔

۴۷۲

واطْوُوا فُضُولَ الْخَوَاصِرِ - لَا تَجْتَمِعُ عَزِيمَةٌ ووَلِيمَةٌ - مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْيَوْمِ - وأَمْحَى الظُّلَمَ لِتَذَاكِيرِ الْهِمَمِ.

وصلى اللَّه على سيدنا محمد النبي الأمي، وعلى آله مصابيح الدجى والعروة الوثقى، وسلم تسليما كثيرا

اپنے دامن کو سمیٹ لو اور یہ یاد رکھو کہ عزم محکم و لیموں کے ساتھ جمع نہیں ہوتا ہے۔رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدرشکستہ کر دیتی ہے اور اس کی تاریکیاں ہمت و جرأت کی یادوں کوکس قدر فنا کردینے والی ہوتی ہیں۔

والحمد للہ رب العالمین

۴۷۳

باب المختار من كتب مولانا أمير المؤمنين عليعليه‌السلام

ورسائله إلى أعدائه وأمراء بلاده، ويدخل في ذلك ما اختير من عهوده إلى عماله

ووصاياه لأهله وأصحابه.

(۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل الكوفة - عند مسيره من المدينة إلى البصرة

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ - جَبْهَةِ الأَنْصَارِ وسَنَامِ الْعَرَبِ

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُخْبِرُكُمْ عَنْ أَمْرِ عُثْمَانَ - حَتَّى يَكُونَ

مکاتیب و رسائل

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی تحریروں کا ایک انتخاب

جس میں آپ کے دشمنوں اور حکام بلاد کے نام سرکاری خطوط کے علاوہ اپنے اعمال کے نام عہد ناموں اور اولاد کے نام وصیتوں کا مضمون بھی شامل کرلیا گیا ہے۔

(۱)

مکتوب

(اہل کوفہ کے نام ۔مدینہ سے بصرہ روانگی کے وقت

بندہ خدا ' امیرالمومنین علی کی طرف سے اہل کوفہ کے نام جو مدد گاروں میں سربرآوردہ ہیں اور عرب میں بلند وبالا شخصیت کے مالک ہیں۔

اما بعد! میں تمہیں قتل(۱) عثمان کے بارے میں حقیقت حال سے یوں آگاہ کردیناچاہتا ہوں جیسے تم نے خود

(۱)صورت حال کا خلاصہ یہ ہے کہ عثمان کے والیوں کے کردار سے عاجزآکر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو عثمان نے حضرت کو درمیان میں ڈالا۔آپ نے لوگوں کو سمجھا بجھا کر خاموش کردیا لیکن مروان نے م عاملہ کو پھرخراب کردیا۔اور لوگوں کے احتجاج کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھی۔ادھر ام المومنین نے نعلین و قمیص رسول (ص) کا حوالہ دے کرعثمان پر الزامات عائد کرنا شروع کردئیے کہابھی یہ پیراہن بھی میلا نہیں ہوا ہے اور عثمان نے سارا دین تباہ کردیا ہے جس کے نتیجہ میں لوگ قتل عثمان پر آمادہ ہوگئے اور طلحہ وزبیر نے اپنے مفادات کی خاطرآگ کو مزید بھڑکادیا اور آخری نتیجہ قتل عثمان کی شکل میں برآمد ہوا جیسا کہ تمام مورخین نے نقل کیا ہے۔

اس کے بعد اچانک امیرالمومنین کی خلافت کی خبر پاکر عائشہ نے اپنی رائے بدل دی اور عثمان کو مظلوم قرار دے کرحضرت سے انتقام خون عثمان لینے پرآمادہ ہوگئیں۔حضرت نے بے حد سمجھایا لیکن عورت کی ضد چیز ہی کچھ اور ہوتی ہے اور پھر طلحہ و زبیر کے مفادات جلتی پر پٹرول کا کام کر رہے تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ جمل کا معرکہ پیش آگیا اور بے شمار کلمہ گو تلوار کے گھاٹ اتر گئے ۔

ابن ابی الحدید نے اس حقیقت کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ جمل میں امیرالمومنین سے مقابلہ کرنے والے سب ہلک ہونے والے ہیں جب تک توبہ نہ کرلیں اور اپنے گناہ سے استغفار نہ کریں۔اور اس کے بعد یہ اضافہ کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے امیر المومنین سے معافی مانگ لی تھی زبیر جنگ سے پلٹ گیا تھا۔اور طلحہ نے وقت آخر اپنے کو اصحاب امیر المومنین میں شامل کرلیا تھا۔( خدا کرے ایسا ہی ہو؟ روایت کی ذمہ داری راوی کے سر ہوا کرتی ہے )

۴۷۴

سَمْعُه كَعِيَانِه - إِنَّ النَّاسَ طَعَنُوا عَلَيْه - فَكُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ أُكْثِرُ اسْتِعْتَابَه - وأُقِلُّ عِتَابَه - وكَانَ طَلْحَةُ والزُّبَيْرُ أَهْوَنُ سَيْرِهِمَا فِيه الْوَجِيفُ - وأَرْفَقُ حِدَائِهِمَا الْعَنِيفُ - وكَانَ مِنْ عَائِشَةَ فِيه فَلْتَةُ غَضَبٍ - فَأُتِيحَ لَه قَوْمٌ فَقَتَلُوه - وبَايَعَنِي النَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ - ولَا مُجْبَرِينَ بَلْ طَائِعِينَ مُخَيَّرِينَ.

واعْلَمُوا أَنَّ دَارَ الْهِجْرَةِ قَدْ قَلَعَتْ بِأَهْلِهَا وقَلَعُوا بِهَا - وجَاشَتْ جَيْشَ الْمِرْجَلِ - وقَامَتِ الْفِتْنَةُ عَلَى الْقُطْبِ - فَأَسْرِعُوا إِلَى أَمِيرِكُمْ - وبَادِرُوا جِهَادَ عَدُوِّكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه عَزَّ وجَلَّ.

(۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليهم بعد فتح البصرة

وجَزَاكُمُ اللَّه مِنْ أَهْلِ مِصْرٍ عَنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ - أَحْسَنَ مَا يَجْزِي الْعَامِلِينَ بِطَاعَتِه - والشَّاكِرِينَ لِنِعْمَتِه - فَقَدْ سَمِعْتُمْ وأَطَعْتُمْ ودُعِيتُمْ فَأَجَبْتُمْ.

مشاہدہ کیا ہو۔لوگوں نے جب عثمان پر اعتراضات کئے تو میں مہاجرین میں سب سے زیادہ اصلاح حال کا چاہنے والا اور سب سے کم ان پر عتاب کرنے والا تھا۔اورطلحہ و زبیر کی ہلکی رفتار بھی ان کے بارے میں تیز رفتاری کے برابرتھی اورنرم سے نرم آوازبھی سخت ترین تھی اورعائشہ تو ان کے بارے میں بے حد غضبناک تھیں۔چنانچہ ایک قوم کو موقع فراہم ہوگیا اور اس نے ان کو قتل کردیا۔جس کے بعد لوگوں نے میری بیعت کی جس میں نہ کوئی جبر تھا اور نہ اکراہ ۔بلکہ سب کے سب اطاعت گذار تھے اور خود مختار۔

اوریہ بھی یاد رکھو کہ اب مدینہ رسول اپنے باشندوں سے خالی ہو چکا ہے اور اس کے رہنے والے وہاں سے اکھڑ چکے ہیں۔وہاں کا ماحلو دیگ کی طرح ابل رہا ہے اوروہاں فتنہ کی چکی چلنے لگی ہے لہٰذا تم لوگ فوراً اپنے امیرکے پاس حاضر ہو جائو اور اپنے دشمن سے جہاد کرنے میں سبقت سے کامل و ۔انشاء اللہ ۔

(۲)

مکتوب

(جسےاہل کوفہ کےنام بصرہ کی فتح کےبعدلکھا گیاہے)

شہر کوفہ والو! خدا تمہیں تمہارے پیغمبر (ص) کے اہل بیت کی طرف سے جزائے خیردے ۔ایسی بہترین جزا جواس کی اطاعت پرعمل کرنے والوں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔کہ تم نے میری بات سنی اور اطاعت کی اورتمہیں پکارا گیا تو تم نے میری آواز پرلبیک کہی ۔

۴۷۵

(۳)

ومن كتاب له عليالسلام

لشريح بن الحارث قاضيه

ورُوِيَ أَنَّ شُرَيْحَ بْنَ الْحَارِثِ قَاضِيَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - اشْتَرَى عَلَى عَهْدِه دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً - فَبَلَغَه ذَلِكَ فَاسْتَدْعَى شُرَيْحاً - وقَالَ لَه:

بَلَغَنِي أَنَّكَ ابْتَعْتَ دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً - وكَتَبْتَ لَهَا كِتَاباً وأَشْهَدْتَ فِيه شُهُوداً.

فَقَالَ لَه شُرَيْحٌ قَدْ كَانَ ذَلِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْه نَظَرَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ لَه

يَا شُرَيْحُ أَمَا إِنَّه سَيَأْتِيكَ مَنْ لَا يَنْظُرُ فِي كِتَابِكَ - ولَا يَسْأَلُكَ عَنْ بَيِّنَتِكَ - حَتَّى يُخْرِجَكَ مِنْهَا شَاخِصاً ويُسْلِمَكَ إِلَى قَبْرِكَ خَالِصاً

(۳)

مکتوب

(اپنے قاضی شریح کے نام(۱)

کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین کے ایک قاضی شریح بن الحارث نے آپ کیدورمیں اسی دینار کا ایک مکان خرید لیا تو حضرت نے خبرپاتے ہی اسے طلب کرلیا اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے اسی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پرگواہی بھی لے لی ہے ؟

شریح! عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کودیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کرے گا بلکہ تجھے اس گھرسے نکال کر تن تنہا قبر کے حوالہ کردے گا۔

(۱) صاحب اغانی نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ امیر المومنین کا اختلاف ایک یہودی سے ہوگیا جس کے پاس آپ کی زرہ تھی۔اسنے قاضی سے فیصلہ کرانے پر اصرار کیا آپ یہودی کے ساتھ شریح کے پاس آئے ۔اس نے آپ سے گواہ طلب کئے آپ نے قنبر اورامام حسن کو پیش کیا۔شریح نے قنبر کی گواہی قبول کرلی۔اور امام حسن کی گواہی فرزند ہونے کی بنا پر رد کردی۔آٰپ نے فرمایا کہ رسول اکرم (ص) نے انہیں سر دار جوانان جنت قراردیا ہے اور تم ان کی گواہی کو رد کر رہے ہو؟ لیکن اس کے باوجود آپ نے فیصلہ کا خیال کرتے ہوئے زرہ یہودی کو دے دی۔اس نے واقعہ کو نہایت درجہ حیرت کی نگاہ سے دیکھا اور پھر کلمہ شہادتین پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔آپ نے زرہ کے ساتھ اسے گھوڑا بھی دے دیا اور ۹۰۰درہم وظیفہ مقرر کردیا۔وہ مستقل آپ کی خدمت میں حاضر رہا یہاں تک کہ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہو گیا۔

اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کردار کیا تھا اور شریح کی بد نفسی کا کیا عالم تھا اور یہودی کے ظرف میں کس قدر صلاحیت پائی جاتی تھی۔

۴۷۶

- فَانْظُرْ يَا شُرَيْحُ لَا تَكُونُ ابْتَعْتَ هَذِه الدَّارَ مِنْ غَيْرِ مَالِكَ - أَوْ نَقَدْتَ الثَّمَنَ مِنْ غَيْرِ حَلَالِكَ - فَإِذَا أَنْتَ قَدْ خَسِرْتَ دَارَ الدُّنْيَا

ودَارَ الآخِرَةِ -. أَمَا إِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَتَيْتَنِي عِنْدَ شِرَائِكَ مَا اشْتَرَيْتَ - لَكَتَبْتُ لَكَ كِتَاباً عَلَى هَذِه النُّسْخَةِ - فَلَمْ تَرْغَبْ فِي شِرَاءِ هَذِه الدَّارِ بِدِرْهَمٍ فَمَا فَوْقُ.

والنُّسْخَةُ هَذِه - هَذَا مَا اشْتَرَى عَبْدٌ ذَلِيلٌ مِنْ مَيِّتٍ قَدْ أُزْعِجَ لِلرَّحِيلِ - اشْتَرَى مِنْه دَاراً مِنْ دَارِ الْغُرُورِ - مِنْ جَانِبِ الْفَانِينَ وخِطَّةِ الْهَالِكِينَ - وتَجْمَعُ هَذِه الدَّارَ حُدُودٌ أَرْبَعَةٌ - الْحَدُّ الأَوَّلُ يَنْتَهِي إِلَى دَوَاعِي الآفَاتِ - والْحَدُّ الثَّانِي يَنْتَهِي إِلَى دَوَاعِي الْمُصِيبَاتِ - والْحَدُّ الثَّالِثُ يَنْتَهِي إِلَى الْهَوَى الْمُرْدِي - والْحَدُّ الرَّابِعُ يَنْتَهِي إِلَى الشَّيْطَانِ الْمُغْوِي - وفِيه يُشْرَعُ بَابُ هَذِه الدَّارِ - اشْتَرَى هَذَا الْمُغْتَرُّ بِالأَمَلِ مِنْ هَذَا الْمُزْعَجِ بِالأَجَلِ - هَذِه الدَّارَ بِالْخُرُوجِ مِنْ عِزِّ الْقَنَاعَةِ - والدُّخُولِ فِي ذُلِّ الطَّلَبِ والضَّرَاعَةِ - فَمَا أَدْرَكَ هَذَا الْمُشْتَرِي فِيمَا اشْتَرَى مِنْه مِنْ دَرَكٍ - فَعَلَى مُبَلْبِلِ أَجْسَامِ الْمُلُوكِ وسَالِبِ نُفُوسِ الْجَبَابِرَةِ - ومُزِيلِ مُلْكِ الْفَرَاعِنَةِ - مِثْلِ كِسْرَى وقَيْصَرَ وتُبَّعٍ وحِمْيَرَ

اگر تم نے مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اورغیرحلال سے قیمت ادا کی ہے تو تمہیں دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے۔

یادرکھو اگر تم اس مکان کو خرید تے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے اسی درہم توبہت بڑی بات ہے ۔میں اس کی دستاویز اس طرح لکھتا۔

'' یہ مکان ہے جسے ایک بندۂ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریدا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے۔یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں۔

ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اوردوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اورچوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے۔

اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے۔اب اگر اس خریدار کواس سودے میں کوئی خسارہ ہو تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کا تہ و بالا کرنے والا۔جابروں کی جان نکال لینے والا۔فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کردینے والا ۔کسریٰ و قیصر۔تیغ و حمیر

۴۷۷

ومَنْ جَمَعَ الْمَالَ عَلَى الْمَالِ فَأَكْثَرَ - ومَنْ بَنَى وشَيَّدَ وزَخْرَفَ ونَجَّدَ - وادَّخَرَ واعْتَقَدَ ونَظَرَ بِزَعْمِه لِلْوَلَدِ - إِشْخَاصُهُمْ جَمِيعاً إِلَى مَوْقِفِ الْعَرْضِ والْحِسَابِ - ومَوْضِعِ الثَّوَابِ والْعِقَابِ - إِذَا وَقَعَ الأَمْرُ بِفَصْلِ الْقَضَاءِ( وخَسِرَ هُنالِكَ الْمُبْطِلُونَ ) - شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ الْعَقْلُ إِذَا خَرَجَ مِنْ أَسْرِ الْهَوَى - وسَلِمَ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا.»

(۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض أمراء جيشه

فَإِنْ عَادُوا إِلَى ظِلِّ الطَّاعَةِ فَذَاكَ الَّذِي نُحِبُّ - وإِنْ تَوَافَتِ الأُمُورُ بِالْقَوْمِ إِلَى الشِّقَاقِ والْعِصْيَانِ - فَانْهَدْ بِمَنْ أَطَاعَكَ إِلَى مَنْ عَصَاكَ واسْتَغْنِ بِمَنِ انْقَادَ مَعَكَ عَمَّنْ تَقَاعَسَ عَنْكَ

اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ۔مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں۔ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فنا کے گھاٹ اتاردینے والا ہے کہ ان سب کو قیامت کے موقف حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہو گا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہوں گے۔

''اس سو دے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ''

(۴)

مکتوب

(بعض امر اء لشکر کے نام(۱)

اگر دشمن اطاعت کے زیر سایہ آجائیں تو یہی ہمارا مدعا ہے اور اگر معاملات افتراف اورنا فرمانی کی منزل ہی کی طرف بڑھیں تو تم اپنے اطاعت گزاروں کو لے کر نافرمانوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہو۔اور اپنے فرمانبرداروں کے وسیلہ سے انحراف کرن والوں سے بے نیاز ہوجائو

(۱) جب اصحاب جمل بصرہ میں وارد ہوئے تو وہاں کے حضرت ک عامل عثمان بن حنیف نے آپ کے نام ایک خط لکھا جس میں بصرہ کی صورت حال کا ذکر کیا گیا تھا۔آپ نے اس کے جواب میںتحریر فرمایا کہ جنگ میں پہل کرنا ہمارا کام نہیں ہے لہٰذا تمہارا پہلا کام یہ ہے کہ ان پر اتمام حجت کرو پھراگر اطاعت امام پرآمادہ ہو جائیں تو بہترین بات ہے ورنہ تمہارے پاس فرمانبردار قسم کے افراد موجود ہیں۔انہیں ساتھ لے کرظالموں کا مقابلہ کرنا اور خبر دار جنگ کے معاملہ میں کسی پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا کہ جنگ کا میدان قربانی کا میدان ہے اور اس میں وہی افراد ثابت قدم رہ سکتے ہیں جو جان و دل سے قربانی کے لئے تیار ہوں۔ورنہ اگر بادل نا خواستہ فوج اکٹھا بھی کرلی گئی تو یہ خطرہ بہر حال رہے گا کہ یہ عین وقت پر چھوڑ کر فرار کر سکتے ہیں جس کا تجربہ تاریخ اسلام میں بارہا ہو چکا ہیاورجس کا ثبوت خود قرآن حکیم میں موجود ہے ۔

۴۷۸

فَإِنَّ الْمُتَكَارِه مَغِيبُه خَيْرٌ مِنْ مَشْهَدِه - وقُعُودُه أَغْنَى مِنْ نُهُوضِه.

(۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أشعث بن قيس - عامل أذربيجان

وإِنَّ عَمَلَكَ لَيْسَ لَكَ بِطُعْمَةٍ ولَكِنَّه فِي عُنُقِكَ أَمَانَةٌ - وأَنْتَ مُسْتَرْعًى لِمَنْ فَوْقَكَ - لَيْسَ لَكَ أَنْ تَفْتَاتَ فِي رَعِيَّةٍ - ولَا تُخَاطِرَ إِلَّا بِوَثِيقَةٍ - وفِي يَدَيْكَ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّه - عَزَّ وجَلَّ وأَنْتَ مِنْ خُزَّانِه حَتَّى تُسَلِّمَه إِلَيَّ - ولَعَلِّي أَلَّا أَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَكَ والسَّلَامُ.

(۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

إِنَّه بَايَعَنِي الْقَوْمُ الَّذِينَ بَايَعُوا أَبَا بَكْرٍ وعُمَرَ وعُثْمَانَ - عَلَى مَا بَايَعُوهُمْ عَلَيْه - فَلَمْ يَكُنْ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَخْتَارَ - ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَرُدَّ - وإِنَّمَا الشُّورَى لِلْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وسَمَّوْه إِمَاماً

کہ بادل ناخواستہ حاضری دینے والوں کی حاضری سے غیبت بہتر ہے اور ان کا بیٹھ جانا ہی اٹھ جانے سے زیادہ مفید ہے۔

(۵)

مکتوب

(آذر بائیجان کے عامل اشعث بن قیس کے نام)

یہ تمہارا منصب کوئی لقمہ تر نہیں ہے بلکہ تمہاری گردن پر امانت الٰہی ہے اور تم ایک بلند ہستی کے زیر نگرانی حفاظت پر مامور ہو۔تمہیں رعایا کے معاملہ میں اس طرح کے اقدام کا حق نہیں ہے اور خبردار کسی مستحکم دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ مت ڈالنا۔تمہارے ہاتھوں میں جو مال ہے۔یہ بھی پروردگار کے اموال کا ایک حصہ ہے اورتم اس کے ذمہ دار ہو جب تک میرے حوالہ نہ کردو اور شائد اس نصیحت کی بنا پرمیں تمہارا برا ولی نہ ہوگا۔والسلام

(۶)

مکتوب

(معاویہ کے نام)

دیکھ میری بیعت اسی قوم نے کی ہے جس نے ابوبکر و عمر و عثمان کی بیعت کی تھی اور اسی طرح کی ہے جس طرح ان کی بیعت کی تھی کہ نہ کسی حاضر کو نظر ثانی کا حق تھا اورنہ کسی غائب کو رد کردینے کا اختیار تھا۔

شوریٰ کا اختیار بھی صرف مہاجرین و انصار کو ہوتا ہے لہٰذاوہ کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام نامزد کردیں

۴۷۹

كَانَ ذَلِكَ لِلَّه رِضًا - فَإِنْ خَرَجَ عَنْ أَمْرِهِمْ خَارِجٌ - بِطَعْنٍ أَوْ بِدْعَةٍ رَدُّوه إِلَى مَا خَرَجَ مِنْه - فَإِنْ أَبَى قَاتَلُوه عَلَى اتِّبَاعِه غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ - ووَلَّاه اللَّه مَا تَوَلَّى.

ولَعَمْرِي يَا مُعَاوِيَةُ لَئِنْ نَظَرْتَ بِعَقْلِكَ دُونَ هَوَاكَ - لَتَجِدَنِّي أَبْرَأَ النَّاسِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ولَتَعْلَمَنَّ أَنِّي كُنْتُ فِي عُزْلَةٍ عَنْه - إِلَّا أَنْ تَتَجَنَّى فَتَجَنَّ مَا بَدَا لَكَ والسَّلَامُ.

(۷)

ومن كتاب منهعليه‌السلام

إليه أيضا

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَتْنِي مِنْكَ مَوْعِظَةٌ مُوَصَّلَةٌ ورِسَالَةٌ مُحَبَّرَةٌ -

تو گویا کہ اسی میں رضائے الٰہی ہے اوراگر کوئی شخص تنقید کرکے یا بدعت کی بنیاد پر اس امر سے بالکل باہرنکل جائے تو لوگوں کا فرض ہے کہ اسے واپس لائیں اوراگر انکار کردے تواس سے جنگ کریں کہ اسنے مومنین کے راستہ سے ہٹ کر راہ نکالی ہے اوراللہ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا جدھر وہ پھر گیا ہے ۔

معاویہ! میری جان کی قسم! اگر توخواہشات کو چھوڑ کرعقل کی نگاہوں سے دیکھے گا تو مجھے سب سے زیادہ خون عثمان(۱) سے پاکدامن پائے گا اورتجھے معلوم ہو جائے گاکہ میں اس مسئلہ سے بالکل الگ تھلک تھا۔مگر یہ کہ تو حقائق کی پردہ پوشی کرکے الزام ہی لگاناچاہے تو تجھے مکمل اختیار ہے ( یہ گذشتہ بیعتوں کی صورت حال کی طرف اشارہ ہے ورنہ اسلام میں خلافت شوریٰ سے طے نہیں ہوتی ہے ۔جوادی )

(۷)

مکتوب

(معاویہ ہی کے نام )

امابعد! میرے پاس تیری بے جوڑنصیحتوں کامجموعہ اور تیراخوبصورت سجایا بنایا ہوا خط وارد ہوا ہے جسے

(۱)عباس محمود عقاد نے عبقر پتہ الامام میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ خون عثمان کی تمامتر ذمہ داری خود معاویہ پر ہے کہ وہ ان کا تحفظ کرنا چاہتا تو اس کے پاس تمامتر امکانات موجود تھے۔وہ شام کا حاکم تھا اوراس کے پاس ایک عظیم ترین فوج موجود تھی جس سے کسی طرح کا کام لیا جا سکتا تھا۔

امام علی کی یہ حیثیت نہیں تھی آپ پردونوں طرف سے دبائو پڑ رہا تھا۔انقلابیوں کا خیال تھا کہ اگر آپ بیعت قبول کرلیں تو عثمان کو با آسانی معزول کیاجا سکتا ہے اورعثمان کا خیال تھا کہ آپ چاہیں تو انقلابیوں کو ہٹا کر میرے منصب کا تحفظ کر سکتے ہیں اور میری جان بچا سکتے ہیں۔ایسے حالات میں حضرت نے جس ایمانی فراست اورعرفانی حکمت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے زیادہ کسی فرو بشر کے امکان میں نہیں تھا۔

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863