نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656993 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

(۲۲۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وصف بيعته بالخلافة

قال الشريف: وقد تقدم مثله بألفاظ مختلفة.

وبَسَطْتُمْ يَدِي فَكَفَفْتُهَا ومَدَدْتُمُوهَا فَقَبَضْتُهَا - ثُمَّ تَدَاكَكْتُمْ عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ - عَلَى حِيَاضِهَا يَوْمَ وِرْدِهَا - حَتَّى انْقَطَعَتِ النَّعْلُ - وسَقَطَ الرِّدَاءُ ووُطِئَ الضَّعِيفُ - وبَلَغَ مِنْ سُرُورِ النَّاسِ بِبَيْعَتِهِمْ إِيَّايَ - أَنِ ابْتَهَجَ بِهَا الصَّغِيرُ وهَدَجَ إِلَيْهَا الْكَبِيرُ - وتَحَامَلَ نَحْوَهَا الْعَلِيلُ وحَسَرَتْ إِلَيْهَا الْكِعَابُ

(۲۳۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في مقاصد أخرى

فَإِنَّ تَقْوَى اللَّه مِفْتَاحُ سَدَادٍ

(۲۲۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنی بعیت خلافت کے بارے میں )

تم نے بیعت کے لئے میری طرف ہاتھ پھیلانا چاہا تو میں نے روک لیا اور اسے کھینچنا چاہا تو میں نے سمیٹ لیا ۔لیکن اس کے بعد تم اس طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے جس طرح پانی پینے کے دن پیا سے اونٹ تالاب پر گر پڑتے ہیں۔یہاں تک کہ میری جوتی کا تسمہ کٹ گیا اور عبا کاندھے سے گر گئی اور کمزور افراد کچل گئے۔تمہاری خوشی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خوشیاں منائیں ۔بوڑھے لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھے ۔بیمار اٹھتے بیٹھتے۔پہنچ گئے اور میری بیعت کے لئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ(۱) سے باہر نکل آئیں۔

(۲۳۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

یقینا تقویٰ الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا

(۱) کس قدر فرق ہے اس بیعت میں جس کے لئے بوڑھے بچے عورتیں سب گھرسے نکل آئے اور کمال اشتیاق میں صاحب منصب کی بارگاہ کی طرف دوڑ پڑے اوراس بیعت میں جس کے لئے بنت رسول (ص) کے دروازہ میں آگ لگائی گئی ۔نفس رسول (ص) کو گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر گھرسے نکالا گیا اور صحابہ کرام کو زد و کوب کیا گیا۔

کیا ایسی بیعت کوبھی اسلامی بیعت کہاجا سکتا ہے اورایسے انداز کوبھی جواز خلافت کی دلیل بنایا جا سکتا ہے ؟ امیرالمومنین نے اپنی بیعت کاتذکرہ اسی لئے فرمایا ہے کہ صاحبان عقل و شعوراور ارباب عدل وانصاف بیعت کے معنی کا ادراک کرس کیں اور ظلم وجور۔جبر و استبدار کو بیعت کا نام نہدے سکیں اور نہ اسے جوازحکومت کی دلیل بناسکیں۔

۴۶۱

وذَخِيرَةُ مَعَادٍ وعِتْقٌ مِنْ كُلِّ مَلَكَةٍ - ونَجَاةٌ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ بِهَا يَنْجَحُ الطَّالِبُ - ويَنْجُو الْهَارِبُ وتُنَالُ الرَّغَائِبُ.

فضل العمل

فَاعْمَلُوا والْعَمَلُ يُرْفَعُ - والتَّوْبَةُ تَنْفَعُ والدُّعَاءُ يُسْمَعُ - والْحَالُ هَادِئَةٌ والأَقْلَامُ جَارِيَةٌ - وبَادِرُوا بِالأَعْمَالِ عُمُراً نَاكِساً - أَوْ مَرَضاً حَابِساً أَوْ مَوْتاً خَالِساً - فَإِنَّ الْمَوْتَ هَادِمُ لَذَّاتِكُمْ - ومُكَدِّرُ شَهَوَاتِكُمْ ومُبَاعِدُ طِيَّاتِكُمْ - زَائِرٌ غَيْرُ مَحْبُوبٍ وقِرْنٌ غَيْرُ مَغْلُوبٍ - ووَاتِرٌ غَيْرُ مَطْلُوبٍ - قَدْ أَعْلَقَتْكُمْ حَبَائِلُه - وتَكَنَّفَتْكُمْ غَوَائِلُه وأَقْصَدَتْكُمْ مَعَابِلُه - وعَظُمَتْ فِيكُمْ سَطْوَتُه وتَتَابَعَتْ عَلَيْكُمْ عَدْوَتُه ،وقَلَّتْ عَنْكُمْ نَبْوَتُه - فَيُوشِكُ أَنْ تَغْشَاكُمْ دَوَاجِي ظُلَلِه - واحْتِدَامُ عِلَلِه وحَنَادِسُ غَمَرَاتِه - وغَوَاشِي سَكَرَاتِه وأَلِيمُ إِرْهَاقِه - ودُجُوُّ أَطْبَاقِه وجُشُوبَةُ مَذَاقِه - فَكَأَنْ قَدْ أَتَاكُمْ بَغْتَةً

ذخیرہ ہے۔ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔اس کے وسیلہ سے طلب گار کامیاب ہوتے ہیں۔عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اوربہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔

لہٰذا عمل کرو کہابھی اعمال بلند ہو رہے ہیں اور توبہ فائدہ مند ہے اور دعا سنی جا رہی ہے۔حالات پر سکون ہیں قلم اعمال چل رہا ہے۔اپنے اعمال کے ذریعہ آگے بڑھ جائو جو الٹے پائوں چل رہی ہے اور اس مرض سے جواعمال سے روکدیتا ہے اوراس موت سے جواچانک جھپٹ لیتی ہے۔اس لئے کہ موت تمہاری لذتوں کو فناکردینے والی تمہاری خواہشات کو بدمزہ کردینے والی اور تمہاری منلوں کودورکردینے والی ہے۔وہ ایسی زائر ہے جسے کوئی پسند نہیں کرتاہے اور ایی مقابل ہے جومغلوب نہیں ہوتی ہے اور ایسی قاتل ہے جس سے خوں بہا کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے۔اس نے اپنے پھندے تمہاے گلوں میں ڈال رکھے ہیں اوراس کی ہلاکتوں نے تمہیں گھیرے میں لے لیا ہے اور اس کے تیروں نے تمہیں نشانہ بنا لیا ہے۔اس کی سطوت تمہارے بارے میں عظیم ہے اور اس کی تعدیاں مسلسل ہیں اور اس کا وار اچٹتا بھی نہیں ہے۔قریب ہے کہاس کے بادلوں کی تیرگیاں ۔اس کے مرض کی سختیاں۔اس کی جاں کنی کی اذیتیں۔اس کی دم اکھڑنے کی بے ہوشیاں ۔اس کے ہر طرف سے چھا جانے کی تاریکیا ں اور بد مزگیاں۔اس کی سختیوں کے اندھیرے تمہیں اپنے گھیرے میں لے لیں۔گویا وہ اچانک اس

۴۶۲

فَأَسْكَتَ نَجِيَّكُمْ - وفَرَّقَ نَدِيَّكُمْ وعَفَّى آثَارَكُمْ - وعَطَّلَ دِيَارَكُمْ وبَعَثَ وُرَّاثَكُمْ - يَقْتَسِمُونَ تُرَاثَكُمْ بَيْنَ حَمِيمٍ خَاصٍّ لَمْ يَنْفَعْ - وقَرِيبٍ مَحْزُونٍ لَمْ يَمْنَعْ - وآخَرَ شَامِتٍ لَمْ يَجْزَعْ.

فضل الجد

فَعَلَيْكُمْ بِالْجَدِّ والِاجْتِهَادِ والتَّأَهُّبِ والِاسْتِعْدَادِ - والتَّزَوُّدِ فِي مَنْزِلِ الزَّادِ - ولَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا - كَمَا غَرَّتْ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ الْمَاضِيَةِ - والْقُرُونِ الْخَالِيَةِ الَّذِينَ احْتَلَبُوا دِرَّتَهَا - وأَصَابُوا غِرَّتَهَا وأَفْنَوْا عِدَّتَهَا - وأَخْلَقُوا جِدَّتَهَا وأَصْبَحَتْ مَسَاكِنُهُمْ أَجْدَاثاً - وأَمْوَالُهُمْ مِيرَاثاً لَا يَعْرِفُونَ مَنْ أَتَاهُمْ - ولَا يَحْفِلُونَ مَنْ بَكَاهُمْ ولَا يُجِيبُونَ مَنْ دَعَاهُمْ - فَاحْذَرُوا الدُّنْيَا فَإِنَّهَا غَدَّارَةٌ غَرَّارَةٌ خَدُوعٌ - مُعْطِيَةٌ مَنُوعٌ مُلْبِسَةٌ نَزُوعٌ

طرح وارد ہوگئی کہ تمہارے راز داروں کو خاموش کردیا، ساتھیوں کو منتشر کردیا، آثار کومحو کردیا، دیار کو معطل کردیا اور وارثوں کو آمادہ کردیا۔اب وہ تمہاری میراث کو تقسیم کر رہے ہیں ان خاص عزیزوں کے درمیان جو کام(۱) نہیں آئے اور ان رنجیدہ رشتہ داروں کے درمیان جنہوں نے موت کو روکا نہیں اوران خوش ہونے والوں کے درمیان جو ہرگز رنجیدہ نہیں ہے۔

اب تمہارا فرض ہے کہ سعی کرو۔کوشش کرو ۔تیاری کرو۔آمادہ ہو جائو، اس زاد راہکی جگہ سے زاد سفر لے لو اور خبردار یہ دنیا تمہیں اس طرح دھوکہ نہ دے سکے جیسے پہلے والوں کو دیا ہے جوامتیں گزر گئیں اورجونسلیں تباہ ہوگئیں ۔جنہوں نے اس دنیا کا دودھ دوہا تھا۔اس کی غفلت سے فائدہ اٹھایا تھا۔اس کے باقی پسماندہ دنوں کو گزارا تھا اوراس کی تازگیوں کو پڑمردہ بنادیا تھا اب ان کے مکانات قبر بن گئے ہیں اور ان کے اموال میراث قرارپا گئے ہیں۔نہ انہیں اپنے پاس آنے والوں کی خبر ہے اور نہ رونے والوں کی پرواہ ہے اور نہ پکارنے والوں کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

اس دنیا سے بچو کہ یہ بڑی دھوکہ باز۔فریب کار۔غدار۔دینے والی اورچھیننے والی اورلباس پہنا کراتار لینے والی(۱) ہے

(۱) یہ موت کا عجیب و غریب کاروبار ہے کہ مالک کودنیا سے اٹھالے جاتی ہے اور اس کامال ایسے افراد کے حوالے کر دیتی ہے جو نہ زندگی میں کام آئے اور نہ موت کے مرحلہ ہی میں ساتھ دے سکے۔کیا اس سے زیادہ عبرت کا کوئی مقام ہو سکتا ہے کہ انسان ایسی موت سے غافل رہے اور چند روز ہ زندگی کی لذتوں میں مبتلا ہو کرموت کے جملہ خطرات سے بے خبر ہو جائے ۔

۴۶۳

لَا يَدُومُ رَخَاؤُهَا - ولَا يَنْقَضِي عَنَاؤُهَا ولَا يَرْكُدُ بَلَاؤُهَا.

ومنها في صفة الزهاد - كَانُوا قَوْماً مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا ولَيْسُوا مِنْ أَهْلِهَا – فَكَانُوا فِيهَا كَمَنْ لَيْسَ مِنْهَا - عَمِلُوا فِيهَا بِمَا يُبْصِرُونَ - وبَادَرُوا فِيهَا مَا يَحْذَرُونَ - تَقَلَّبُ أَبْدَانِهِمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِ الآخِرَةِ - ويَرَوْنَ أَهْلَ الدُّنْيَا يُعَظِّمُونَ مَوْتَ أَجْسَادِهِمْ - وهُمْ أَشَدُّ إِعْظَاماً لِمَوْتِ قُلُوبِ أَحْيَائِهِمْ.

(۲۳۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها بذي قار - وهو متوجه إلى البصرة ذكرها الواقدي في كتاب «الجمل»:

فَصَدَعَ بِمَا أُمِرَ بِه وبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّه - فَلَمَّ اللَّه بِه الصَّدْعَ ورَتَقَ بِه الْفَتْقَ - وأَلَّفَ بِه الشَّمْلَ بَيْنَ ذَوِي الأَرْحَامِ - بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِي الصُّدُورِ - والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِي الْقُلُوبِ.

نہ اس کی آسائشیں رہنے والی ہیں اورنہ اس کی تکلیفیں ختم ہونے والی ہیں اور نہ اس کی بلائیں تھمنے والی ہیں۔

(کچھ زاہدوں کے برے میں )یہ انہیں دنیا والوں میں تھے لیکن اہل دنیا نہیں تھے ۔ایسے تھے جیسے اس دنیا کے نہ ہوں۔دیکھ بھال کرعمل کیا اور خطرات سے آگے نکل گئے۔گویا ان کے بدن اہل آخرت کے درمیان کروٹیں بدل رہے ہیں اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اہل دنیا ان کی موت کوبڑی اہمیت دے رہے ہیں حالانکہ وہخود ان زندوں کے دلوں کی موت کو زیادہ بڑا حادثہ قرار دے رہے ہیں۔

(۲۳۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسے بصرہ جاتے ہوئے مقام ذی قار میں ارشاد فرمایا اوراسے واقدی نے کتاب الجمل میں نقل کیا ہے )

رسول اکرم (ص) نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہنچادیا۔اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا ۔شگاف کو بھر دیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اوردلوں میں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے ۔

(۱) دنیاکی اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں ہو سکتی ہے کہ یہ ایک دن بہترین لباس سے انسان کو آراستہ کرتی ہے اور دوسرے دن اسے اتار کر سر راہ برہنہ کردیتی ہے۔یہی حال ظاہری لباس کابھی ہوتا ہے اور یہی حال معنوی لباس کابھی ہوتا ہے۔حسن دے کربد شکل بنا دیتی ہے جوانی دے کر بوڑھا کردیتی ہے۔زندگی دے کرمردہبنا دیتی ہے۔تخت و تاج دے کرکنج قبر کے حوالہ کردیتی ہے اور صاحب دربارو بارگاہ بنا کر قبرستان کے وحشت کدہ میں چھوڑ آتی ہے ۔

۴۶۴

(۲۳۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به عبد الله بن زمعة وهو من شيعته، وذلك أنه قدم عليه في خلافته يطلب منه مالا فقالعليه‌السلام :

إِنَّ هَذَا الْمَالَ لَيْسَ لِي ولَا لَكَ - وإِنَّمَا هُوَ فَيْءٌ لِلْمُسْلِمِينَ وجَلْبُ أَسْيَافِهِمْ - فَإِنْ شَرِكْتَهُمْ فِي حَرْبِهِمْ كَانَ لَكَ مِثْلُ حَظِّهِمْ - وإِلَّا فَجَنَاةُ أَيْدِيهِمْ لَا تَكُونُ لِغَيْرِ أَفْوَاهِهِمْ.

(۲۳۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد أن أقدم أحدهم عل الكلام فحصر، وهو في فضل أهل البيت، ووصف فساد الزمان

أَلَا وإِنَّ اللِّسَانَ بَضْعَةٌ مِنَ الإِنْسَانِ - فَلَا يُسْعِدُه الْقَوْلُ إِذَا امْتَنَعَ - ولَا يُمْهِلُه النُّطْقُ إِذَا اتَّسَعَ - وإِنَّا لأُمَرَاءُ الْكَلَامِ

(۲۳۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب عبداللہ بن زکعہ کو قرادیا تھا جو کہ آپ کے اصحاب میں شمار ہوتا تھا اور اس نے آپ سے مال کا مطالبہ کرلیا تھا)

یہ مال نہ میرا ہے اور نہ تیرا۔یہ مسلمانوں کا مشترکہ حق ہے اوران کی تلواروں کا نتیجہ ہے لہٰذا اگرت ونے ان کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا ہے تو انہیں کی طرح تیرا بھی حصہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایک شخص کے ہاتھ کی کمائی دوسرے کے منہ کا نوالہ(۱) نہیںبن سکتی ہے۔

(۲۳۳)

آپ کا ارشاد گرامی

فضائل اہلبیت ع اورزمانے کے فسادات کے بارے میں

یاد رکھو کہ زبان انسانی وجود کا ایک ٹکڑا ہے لہٰذا جب انسان رکجاتا ہے تو زبان ساتھ نہیں دے سکتی ہے اور جب انسان کے ذہن میں کشادگی ہوتی ہے تو زبان کو رکنے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔ہم اہل بیت(۲) جو اقلیم سخن

(۱)اس سے بہتر موعظہ و نصیحت عالم عمل و اکتساب میں ممکن نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ اس امر کا احساس رکھے کہ اگر کی مال سے استفادہ کرنے کا شوق ہے تو اس کی راہمیں عمل اورمحنت بھی ضروری ہے۔ورنہ ایک انسان کے نتیجہ عمل کو دوسرے کے حوالہ نہیں کیا جا سکتاہے اورنہدین خدا اس طرح کی مفت خوری اورحرام خوری کو برداشت کرسکتا ہے۔

(۲)کہا جاتا ہے کہ حضرت نے اپنے بھانجے جعدہ بن ہبیرہ مخزومی کو خطبہ پڑھنے کاحکم دیا تو ان کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی اور آپ نے زبان و بیان کے فضائل کے ساتھ اس حقیقت کا اعلان کیاکہ اہل بیت اقلیم سخن کے حکام ہیں لہٰذا جعدہ کو عاجز اور گونگا تصورنہیں کرنا چاہیے۔یہ ماحول کا اثرتھا کہ وہخطبہ نہ پیش کرس کے ۔اور زبان میں لکنت پیدا ہوگئی۔بلکہ ایسی صورت حال اکثر اوقات انسان کے کمال معرفت کی دلیل بن جاتی ہے کہ وہ بزرگوں کی بزرگی کا ادراک رکھتا ہے اور ان کے سامنے روانی کے ساتھ تقریر نہیں کرسکتا ہے۔

۴۶۵

وفِينَا تَنَشَّبَتْ عُرُوقُه - وعَلَيْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُونُه.

فساد الزمان

واعْلَمُوا رَحِمَكُمُ اللَّه أَنَّكُمْ فِي زَمَانٍ - الْقَائِلُ فِيه بِالْحَقِّ قَلِيلٌ - واللِّسَانُ عَنِ الصِّدْقِ كَلِيلٌ - واللَّازِمُ لِلْحَقِّ ذَلِيلٌ - أَهْلُه مُعْتَكِفُونَ عَلَى الْعِصْيَانِ - مُصْطَلِحُونَ عَلَى الإِدْهَانِ فَتَاهُمْ عَارِمٌ - وشَائِبُهُمْ آثِمٌ وعَالِمُهُمْ مُنَافِقٌ - وقَارِنُهُمْ مُمَاذِقٌ لَا يُعَظِّمُ صَغِيرُهُمْ كَبِيرَهُمْ - ولَا يَعُولُ غَنِيُّهُمْ فَقِيرَهُمْ.

(۲۳۴ )

ومن كلام لهعليه‌السلام

رَوَى ذِعْلَبٌ الْيَمَامِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ قُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّه بْنِ يَزِيدَ عَنْ مَالِكِ بْنِ دِحْيَةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمنِيِنَعليه‌السلام - وقَدْ ذُكِرَ عِنْدَه اخْتِلَافُ النَّاسِ فَقَالَ:

إِنَّمَا فَرَّقَ بَيْنَهُمْ مَبَادِئُ طِينِهِمْ

کے حکام ہیں۔ہمارے ہی اندر بیان کی جڑیں پیوست ہیں اور ہمارے ہی سر پر خطابت کی شاخیں سایہ فگن ہیں۔

(خدا تم پر رحم کرے ) یہ یاد رکھو کہتم اس زمانہ میں زندگی گذاررہے ہو جس میں حق کہنے والوں کی قلت ہے اور زبانیں صدق بیانی سے کند ہوگئی ہیں۔حق سے وابستہ رہنے والا ذلیل شمار ہوتا ہے اور اہل زمانہ گناہ و ناف رمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری پرمتحد ہوگئے ہیں۔جو ان بد خوہیں اور بوڑھے گناہ گار۔عالم منافق ہیں اور قاری چاپلوس۔نہ چھوٹے بڑوں کی تعظیمکرتے ہیں اور نہ دولت مند فقیروں کی دستگیری کرتے ہیں۔

(۲۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

( غلب یمانی احمد بن قتیبہ سے۔انہوں نے عبداللہ بن یزید سے اور انہوں نے مالک بن وحیہ کلبی سے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین کے سامنے لوگوں کے اختلاف ا مزاج کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا)

لوگوں کے درمیان یہ تفرقہ ان کی(۱) طینت

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی شکل و صورت اور اس کی طبیعت و فطرت میں ایک طرح کا رابطہ ضرورپایا جاتا ہے جیسا کہ دورحاضر کے بعض محققین نے ثابت جکیا ہے لیکن اس کا یہمطلب ہرگز نہیں ہے کہ ساری زندگی کے اعمال و کردار کا فیصلہ ابھی اسی طینت اورخاک سے ہو جاتا ہے۔انسانی زندگی پر تعلیم وتربیت کا بہر حال اثر ہوتا ہے اور اسی کے اعتبار سے کرداروں میں اختلاف بھی پیدا ہوجاتا ہے۔لیکن بنیادی سبب طینت کا اختلاف ہی ہے اور یہ ایک فطری شے ہے کہ جو چیز جس سے بنائی جائے گی اس مادہ کا اثر اس کے مزاج پر ضرور ہوگا۔

تجربات کی بنا پر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریگ زاروں کی مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کی طبیعت میں کسی طرح کی چیک نہیں ہوتی ہے اور کھارے پانی سے گندھی ہوئی مٹی کی مخلوقات میں حلاوت اور شیرینی نہیں ہوتی ہے۔یہ اوربات ہے کہ یہ طے کرنا سخت دشوار ہے کہ کون کس مٹی سے بنا ہے اور کس کی مٹی کس پانی سے گوندھی گئی ہے۔حالات کسی مقدار میں نشاندہی کر سکتے ہیں لیکن اسے دلیل مستقل نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔

۴۶۶

وذَلِكَ أَنَّهُمْ كَانُوا فِلْقَةً مِنْ سَبَخِ أَرْضٍ وعَذْبِهَا - وحَزْنِ تُرْبَةٍ وسَهْلِهَا - فَهُمْ عَلَى حَسَبِ قُرْبِ أَرْضِهِمْ يَتَقَارَبُونَ - وعَلَى قَدْرِ اخْتِلَافِهَا يَتَفَاوَتُونَ - فَتَامُّ الرُّوَاءِ نَاقِصُ الْعَقْلِ - ومَادُّ الْقَامَةِ قَصِيرُ الْهِمَّةِ - وزَاكِي الْعَمَلِ قَبِيحُ الْمَنْظَرِ - وقَرِيبُ الْقَعْرِ بَعِيدُ السَّبْرِ - ومَعْرُوفُ الضَّرِيبَةِ مُنْكَرُ الْجَلِيبَةِ - وتَائِه الْقَلْبِ مُتَفَرِّقُ اللُّبِّ - وطَلِيقُ اللِّسَانِ حَدِيدُ الْجَنَانِ.

(۲۳۵)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

قَالَه وهُوَ يَلِي غُسْلَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وتَجْهِيزَه

بِأَبِي أَنْتَ وأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّه - لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ يَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَيْرِكَ - مِنَ النُّبُوَّةِ والإِنْبَاءِ وأَخْبَارِ السَّمَاءِ - خَصَّصْتَ حَتَّى صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاكَ - وعَمَّمْتَ حَتَّى صَارَ النَّاسُ فِيكَ سَوَاءً - ولَوْ لَا أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ ونَهَيْتَ عَنِ الْجَزَعِ - لأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ الشُّئُونِ - ولَكَانَ الدَّاءُ مُمَاطِلًا والْكَمَدُ مُحَالِفاً - وقَلَّا لَكَ

کی بنیادوںسے پیدا ہوا ہے کہ وہ شورو شیریں اور ہموارو نا ہموار زمین کاایک حصہ ہیں۔لہٰذا جس قدر ان کیزمین میں قربت ہوگی ان میں اتفاق ہوگا اور جس قدر طینت میں اختلاف پیدا ہوگا۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صورت کا حسین و جمیل عقل کا ناقص اور قدو قامت کا طویل ہمت کا قصیر ہوتا ہے۔عمل کا پاکیزہ ' منظر کا قبیح ہوتا ہے اور قد کا کوتاہ فکر کا دور اندیش ہوتا ہے۔فطری اعتبار سے نیک اعمال کے اعتبارسے بد اوردل کے اعتبارسے پریشان' دماغ کے اعتبارس ے پراگندہ اور اس طرح زبان کے اعتبارسے بہترین بولنے والا' ہوش مند دل رکھنے والا ہوتا ہے۔

(۲۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے رسول اکرم (ص) کے جنازہ کو غسل و کفن دیتے وقت ارشاد فرمایا تھا )

یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔ آپ کے انتقال سے وہ نبوت الٰہی احکام اورآسمانی اخبارکا سلسلہ منقطع ہوگیا جو آپ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا۔آپ کا غم اہل بیت کے ساتھیوں خاص ہوا کہ ان کے لئے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لئے عام ہوا کہ سب برابر کے شریک ہوگئے۔ اگر آپ نے صبر کاحکم نہ دیا ہوتا اورنالہ وفریاد سے منع نہکیا ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کردیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج و الم ہمیشہ

۴۶۷

ولَكِنَّه مَا لَا يُمْلَكُ رَدُّه - ولَا يُسْتَطَاعُ دَفْعُه - بِأَبِي أَنْتَ وأُمِّي اذْكُرْنَا عِنْدَ رَبِّكَ واجْعَلْنَا مِنْ بَالِكَ!

(۲۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

اقتص فيه ذكر ما كان منه - بعد هجرة النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثم لحاقه به:

فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ مَأْخَذَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَأَطَأُ ذِكْرَه حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرَجِ

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - في كلام طويل: قولهعليه‌السلام فأطأ ذكره - من الكلام الذي رمى به إلى غايتي الإيجاز والفصاحة - أراد أني كنت أعطى خبرهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - من بدء خروجي إلى أن انتهيت إلى هذا الموضع - فكنى عن ذلك بهذه الكناية العجيبة.

(۲۳۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المسارعة إلى العمل

فَاعْمَلُوا وأَنْتُمْ فِي نَفَسِ الْبَقَاءِ - والصُّحُفُ مَنْشُورَةٌ والتَّوْبَةُ مَبْسُوطَةٌ - والْمُدْبِرُ يُدْعَى

ساتھ رہ جاتا۔لیکن موت ایک ایسی چیز ہے جس کا پلٹا دینا کسی کے اختیار میں نہیں ہے اور جس کا ٹال دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔

(۲۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں رسول اکرم (ص)کی ہجرت کے بعدآپ سے ملحق ہنے تک کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے )

میں مسلسل رسول اکرم (ص) کے نقش قدم پر چلتا رہا اوران کیذکر کے خطوط پر قدم جماتا رہا۔یہاں تک کہ مقام عرج تک پہنچ گیا۔

سید رضی : آپ کا ارشاد گرامی ''فاطاذکرہ'' وہ کلام ہے جس میں ایجاز و فصاحت کی آخری حدوں کو پیش کردیا گیا ہے اورجن کا مقصد یہ ہے کہ میرے پاس مسلسل سرکاری کی خبریں پہنچ رہی تھیں اور میں انہیں خطوط پر آگئے بڑھ رہاتھا۔یہاں تک کہ مقام عرج پر پہنچ گیا۔

(۲۳۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(عمل میں تیز رفتاری کی دعوت دیتے ہوئے )

تم لوگ ابھی عمل کرو جبکہ بقا کی وسعت حاصل ہے اور نامۂ اعمال کھلے ہوئے ہیں۔توبہ کا دامن پھیلا ہوا ہے اور انحراف کرنے والوں کو برابر دعوت دی

۴۶۸

والْمُسِيءُ يُرْجَى - قَبْلَ أَنْ يَخْمُدَ الْعَمَلُ ويَنْقَطِعَ الْمَهَلُ - ويَنْقَضِيَ الأَجَلُ ويُسَدَّ بَابُ التَّوْبَةِ - وتَصْعَدَ الْمَلَائِكَةُ

فَأَخَذَ امْرُؤٌ مِنْ نَفْسِه لِنَفْسِه وأَخَذَ مِنْ حَيٍّ لِمَيِّتٍ - ومِنْ فَانٍ لِبَاقٍ ومِنْ ذَاهِبٍ لِدَائِمٍ - امْرُؤٌ خَافَ اللَّه - وهُوَ مُعَمَّرٌ إِلَى أَجَلِه ومَنْظُورٌ إِلَى عَمَلِه - امْرُؤٌ أَلْجَمَ نَفْسَه بِلِجَامِهَا وزَمَّهَا بِزِمَامِهَا - فَأَمْسَكَهَا بِلِجَامِهَا عَنْ مَعَاصِي اللَّه - وقَادَهَا بِزِمَامِهَا إِلَى طَاعَةِ اللَّه.

(۲۳۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن الحكمين وذم أهل الشام

جُفَاةٌ طَغَامٌ وعَبِيدٌ أَقْزَامٌ - جُمِعُوا مِنْ كُلِّ أَوْبٍ وتُلُقِّطُوا مِنْ كُلِّ شَوْبٍ - مِمَّنْ يَنْبَغِي أَنْ يُفَقَّه ويُؤَدَّبَ - ويُعَلَّمَ ويُدَرَّبَ ويُوَلَّى عَلَيْه - ويُؤْخَذَ عَلَى يَدَيْه

جا رہی ہے اوربدعمل افراد کو مہلت دی جا رہی ہے۔قبل اس کے کہ شعلہ عمل بجھ جائے اور مہلت کی مدت ختم ہو جائے اور مدتعمل تمام ہو جائے ۔توبہ کا دروازہ بند ہوجائے اورملائکہ آسمان کی طرف صعود کرجائیں ۔

ہرش خص کو چاہیے کہ اپنے نفس سے اپنے نفس کا انتظام کرے۔زندہ سے مردہ کے لئے اور فانی سے باقی کے لئے اور جانے والے سے رہ جانے والے کے لئے لے لے۔

جب تک موت تک کی زندگی مل رہی ہے اورعمل کی مہلت ملی ہوئی ہے خدا کاخوف پیدا کرے۔

اپنے نفس کو لگام لگائے اوراسے زمام دے کہ معاصی خدا سے روک دے اور کھینچ کر اطاعت الٰہی تک لے آئے ۔

(۲۳۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(حکمین کے حالات اوراہل شام کی مذمت کے بارے میں )

یہ چند تند خو اوربد سر شت افراد ہیں اور غلامانہ ذہنیت کے بد قماش ہیں جنہیں ہرطرف سے جمع کرلیا گیا ہے اور ہرمخلوط نسب سے چن لیا گیا ہے۔یہ لوگ اس قابل تھے کہانہیں مذہب سکھایا جائے ' مودب بنایا جائے ۔ تعلیم دی جائے اورتربیت یافتہ بنایاجائے ان پر لوگوں کو حاکم بنایا جائے اوران کا ہاتھ پکڑ کرچلایا جائے۔یہ نہ

۴۶۹

- لَيْسُوا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - ولَا مِنَ( الَّذِينَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ والإِيمانَ ) .

أَلَا وإِنَّ الْقَوْمَ اخْتَارُوا لأَنْفُسِهِمْ - أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تُحِبُّونَ - وإِنَّكُمُ اخْتَرْتُمْ لأَنْفُسِكُمْ - أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تَكْرَهُونَ - وإِنَّمَا عَهْدُكُمْ بِعَبْدِ اللَّه بْنِ قَيْسٍ بِالأَمْسِ يَقُولُ - إِنَّهَا فِتْنَةٌ فَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وشِيمُوا سُيُوفَكُمْ - فَإِنْ كَانَ صَادِقاً فَقَدْ أَخْطَأَ بِمَسِيرِه غَيْرَ مُسْتَكْرَه - وإِنْ كَانَ كَاذِباً فَقَدْ لَزِمَتْه التُّهَمَةُ - فَادْفَعُوا فِي صَدْرِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ - بِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ - وخُذُوا مَهَلَ الأَيَّامِ وحُوطُوا قَوَاصِيَ الإِسْلَامِ -

مہاجرین(۱) میںتھے نہ انصار میں اور نہ ان لوگوں میں جنہوں نے مدینہ میں یا ایمان میں اپنی جگہ بنائی تھی۔

یاد رکھو کہ قوم نے اپنے لئے ان لوگوں کو منتخب کیا ہے جو ان کی پسند سے قریب تھے اورتم نے اپنے لئے ان افراد کا انتخاب کیا ہے جو تمہاری نا پسندیدگی سے قریب تھے ۔ابھی تمہارا اور عبداللہ بن قیس کا زمانہ کل ہی کا ہے جب وہ یہ کہہ رہا تھاکہ ''یہ جنگ ایک فتنہ(۲) ہے لہٰذا اپنی کمانوں کو توڑ ڈالو اور تلواروں کو نیام میں رکھ لو۔اب اگریہ اپنی بات میں سچا تھا تو میرے ساتھ بلا جبر و اکراہ چلنے میں غلط کار تھا اور غلط کہتا تھا تو اس پر الزام ثابت ہوگیا تھا۔اب تمہارے پاس عمروبن العاص کا توڑ عبداللہ بن عباس ہیں۔دیکھو ان دنوں کی مہلت کو غنیمت جانو اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرو۔کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو

(۱)معاویہ کے لشکر اور امیرالمومنین کے سپاہیوں کا ایک نمایاں بنیادی فرق یہ تھا کہ معاویہ کے لشکر میں تمام کے تمام افراد بد سرشت ۔بد نسل ۔بد کردار اوربے ایمان تھے ۔نہ ایک مہاجر نہ ایک ناصر۔اورنہ ایک معروف ایمان و کردار والا۔ اوراس کے برخلاف امیرالمومنین کے سپاہیوں میں ۲۸۰۰ مہاجرین اور انصارتھے ۔اور ان میں سے ۸۰ تو وہافراد تھے جو جنگ بدر میں شرکت کرچکے تھے اور جن کے ایمان کی شہادت دی جا چکی تھی اوران سب سے بالا ترعمار یا سر جیسا صحابی موجود تھا جس کے قاتل کوسرکار(ص) نے باغی قراردیات ھا اور اویس قرنی جیسا جاں نثار موجود تھا جس کے علاقہ سے ایمان کی خوشبو آتی تھی۔

ایسے واضح حالات کے بعد بھی انسان نفس رسول (ص) کو چھوڑ کربنی امیہ کے بد سرشت انسان کا اتباع کرے تو اس کا انجام جہنم کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے اور اسے کس رخ سے مسلمان یا مومن کہاجاسکتا ہے۔

(۲)ابن ابی الحدید نے اس مقام پر خود ابوموسیٰ اشعری کی زبان سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سرکار دو عالم (ص) نے فرمایا کہ جس طرح بنی اسرائیل میں دوگمراہ حکم تھے اسی طرح اس امت میں بھی ہوں گے۔تو لوگوں نے ابو موسیٰ سے کہاکہ کہیں آپایسے نہ ہو جائیں۔اس نے کہا یہ نا ممکن ہے اور اس کے بعد جب وقت آیا تو طمع دنیا نے ایسا ہی بنا دیا جس کی خبر سرکار دوعالم (ص) نے دی تھی۔

حیرت کی بات ہے کہ حکمین کے بارے میں روایت خود ابو موسیٰ نے بیان کی ہے اور حواب کے سلسلہ کی روایت خود ام المومنین عائشہ نے نقل کی ہے لیکن اس کے باوجود نہ اس روایت کا کوئی اثر ابو موسیٰ پر ہوا اور نہ اس روایت کا کوئی اثر حضرت عائشہ پر۔

اس صورت حال کو کیا کہا جائے اور اسے کیا نام دیا جائے ۔انسان کا ذہن صحیح تعبری سے عاجز ہے۔اور ''ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہے ''

۴۷۰

أَلَا تَرَوْنَ إِلَى بِلَادِكُمْ تُغْزَى وإِلَى صَفَاتِكُمْ تُرْمَى؟

(۲۳۹ )

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها آل محمد صلى الله عليه وآله

هُمْ عَيْشُ الْعِلْمِ ومَوْتُ الْجَهْلِ - يُخْبِرُكُمْ حِلْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ،وظَاهِرُهُمْ عَنْ بَاطِنِهِمْ - وصَمْتُهُمْ عَنْ حِكَمِ مَنْطِقِهِمْ - لَا يُخَالِفُونَ الْحَقَّ ولَا يَخْتَلِفُونَ فِيه - وهُمْ دَعَائِمُ الإِسْلَامِ ووَلَائِجُ الِاعْتِصَامِ - بِهِمْ عَادَ الْحَقُّ إِلَى نِصَابِه وانْزَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ مُقَامِه - وانْقَطَعَ لِسَانُه عَنْ مَنْبِتِه - عَقَلُوا الدِّينَ عَقْلَ وِعَايَةٍ ورِعَايَةٍ - لَا عَقْلَ سَمَاعٍ ورِوَايَةٍ - فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ ورُعَاتَه قَلِيلٌ.

(۲۴۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لعبد الله بن العباس - وقد جاءه برسالة من عثمان

کہ تمہارے شہروں پرحملے ہو رہے ہیں اور تمہاری طاقت و قوت کونشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

(۲۳۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آل محمد علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے)

یہ لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ان کا حلم ان کے علم سے اور ان کا ظاہر ان کے باطن سے اور ان کی خموشی ان کے کلام سے با خبر کرتی ہے۔یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اورنہ حق کے بارے میں کوئی اختلاف کرتے ہیں یہ اسلام کے ستون(۱) اور حفاظت کے مراکز ہیں۔انہیں کے ذریعہ حق اپنے مرکز کی طرف واپس آیا ہے اور باطل اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہے اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی ہے۔انہوں نے دین کو اس طرح پہچانا ہے جو سمجھ اور نگرانی کا نتیجہ ہے۔صرف تننے اور روایت کا نتیجہ نہیں ہے۔اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اوراس کا خیال رکھنے والے بہت کم ہیں۔

(۲۴۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جواس وقت فرمایا جب محاصرہ کے زمانے میں عبداللہ بن عباس عثمان کاخط لے کر آئے جس

(۱)سرکار دو عالم (ص) نے ایک طرف نماز کو اسلام کا ستون قراردیا ہے اوردوسری طرف اہل بیت کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو مجھ پر اور ان پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز باطل اور بیکار ہے ( سنن دار قطنی ص ۱۳۶) جس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ نماز اسلام کا ستون ہے اور محبت اہل بیت نماز کا ستون اکبر ہے نماز نہیں ہے تواسلام نہیں ہے اور اہل بیت نہیں ہیں تو نماز نہیں ہے۔

۴۷۱

وهو محصور يسأله فيها الخروج إلى ماله بينبع، ليقل هتف الناس باسمه للخلافة، بعد أن كان سأله مثل ذلك من قبل، فقالعليه‌السلام

يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا يُرِيدُ عُثْمَانُ - إِلَّا أَنْ يَجْعَلَنِي جَمَلًا نَاضِحاً بِالْغَرْبِ أَقْبِلْ وأَدْبِرْ - بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ ثُمَّ بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَقْدُمَ - ثُمَّ هُوَ الآنَ يَبْعَثُ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ - واللَّه لَقَدْ دَفَعْتُ عَنْه حَتَّى خَشِيتُ أَنْ أَكُونَ آثِماً.

(۲۴۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يحث به أصحابه على الجهاد

واللَّه مُسْتَأْدِيكُمْ شُكْرَه ومُوَرِّثُكُمْ أَمْرَه - ومُمْهِلُكُمْ فِي مِضْمَارٍ مَحْدُودٍ لِتَتَنَازَعُوا سَبَقَه - فَشُدُّوا عُقَدَ الْمَآزِرِ

میں یہ مطالبہ کیا گیا تھاکہ آپ اپنے املاک کی طرف مقام منبع(۱) میں چلے جائیں تاکہ لوگوں میں خلافت کے لئے آپ کے نام کی آواز کم ہو جائے اور ایسا ہی مطالبہ پہلے بھی ہوچکا ہے )

ابن عباس ! عثمان کا مقصد صرف یہ ہے کہ مجھے ایک پانی کھینچنے والے اونٹ کی مثال بنادے کہ میں ہی ڈول کے ساتھ آگے بڑھتا رہوں اور پیچھے ہٹتا رہوں۔اس نے پہلے بھی یہ مطالبہ کیا تھا کہ میں باہر نکل جائوں۔پھر تقاضا کیا کہ واپس آجائوں اورآج پھر یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ باہو چلا جائوں۔خداکی قسم میں نے عثمان سے یہاں تک دفاع کیا کہ یہ خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں گناہ گار نہ ہو جائوں۔

(۲۴۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنے اصحاب کو جہاد پر آمادہ کیا ہے )

پروردگار تم سے اپنے لشکر کے ادا کرنے کا تقاضا کر رہا ہے اور اس نے تمہیں اپنے امرکاصاحب اختیار بنادیاہے اورتمہیں ایک محدود میدان میں مہلت دے دی ہے تاکہ اس کے انعامات کی طرف سبقت میں مقابلہ کرو لہٰذا اپنی کمر یں مضبوطی کے ساتھ کس لو اور

(۱)منبع مدینہ کے قریب ایک مقام ہے جس کا شمارا راضی خراج میں ہوتا تھا۔رسول اکرم (ص) نے اسے امیر المومنین کودے دیا تھا اور آپ نے وہاں ایک چشمہ جاری کیا تھا جس کی بنا پر اس کا نام ینبع ہوگیا تھا۔عثمان نے مظاہرین کے حالات کو دیکھ کر کہا وہ خلافت کے لئے امیر المومنین کا نام لے رہے ہیں آپ کو ینیع جانے کا حکم دے دیا۔آپ وہاں تشریف لے گئے تو دوبارہ امداد کے لئے پھر طلب کرلیا۔اور اس کے بعد پھر منبع جانے کا تقاضا کردیا تو آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ واضح کردیا کہ اس سے زیادہ عثمان کی حمایت انسان کو گناہ گار بنا سکتی ہے لہٰذا اب مزید حمایت کا کوئی امکان نہیں ہے ہر انسان کواپنے اعمال کے نتائج کو بہر حال برداشت کرنا چاہیے۔

۴۷۲

واطْوُوا فُضُولَ الْخَوَاصِرِ - لَا تَجْتَمِعُ عَزِيمَةٌ ووَلِيمَةٌ - مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْيَوْمِ - وأَمْحَى الظُّلَمَ لِتَذَاكِيرِ الْهِمَمِ.

وصلى اللَّه على سيدنا محمد النبي الأمي، وعلى آله مصابيح الدجى والعروة الوثقى، وسلم تسليما كثيرا

اپنے دامن کو سمیٹ لو اور یہ یاد رکھو کہ عزم محکم و لیموں کے ساتھ جمع نہیں ہوتا ہے۔رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدرشکستہ کر دیتی ہے اور اس کی تاریکیاں ہمت و جرأت کی یادوں کوکس قدر فنا کردینے والی ہوتی ہیں۔

والحمد للہ رب العالمین

۴۷۳

باب المختار من كتب مولانا أمير المؤمنين عليعليه‌السلام

ورسائله إلى أعدائه وأمراء بلاده، ويدخل في ذلك ما اختير من عهوده إلى عماله

ووصاياه لأهله وأصحابه.

(۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل الكوفة - عند مسيره من المدينة إلى البصرة

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ - جَبْهَةِ الأَنْصَارِ وسَنَامِ الْعَرَبِ

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُخْبِرُكُمْ عَنْ أَمْرِ عُثْمَانَ - حَتَّى يَكُونَ

مکاتیب و رسائل

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی تحریروں کا ایک انتخاب

جس میں آپ کے دشمنوں اور حکام بلاد کے نام سرکاری خطوط کے علاوہ اپنے اعمال کے نام عہد ناموں اور اولاد کے نام وصیتوں کا مضمون بھی شامل کرلیا گیا ہے۔

(۱)

مکتوب

(اہل کوفہ کے نام ۔مدینہ سے بصرہ روانگی کے وقت

بندہ خدا ' امیرالمومنین علی کی طرف سے اہل کوفہ کے نام جو مدد گاروں میں سربرآوردہ ہیں اور عرب میں بلند وبالا شخصیت کے مالک ہیں۔

اما بعد! میں تمہیں قتل(۱) عثمان کے بارے میں حقیقت حال سے یوں آگاہ کردیناچاہتا ہوں جیسے تم نے خود

(۱)صورت حال کا خلاصہ یہ ہے کہ عثمان کے والیوں کے کردار سے عاجزآکر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو عثمان نے حضرت کو درمیان میں ڈالا۔آپ نے لوگوں کو سمجھا بجھا کر خاموش کردیا لیکن مروان نے م عاملہ کو پھرخراب کردیا۔اور لوگوں کے احتجاج کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھی۔ادھر ام المومنین نے نعلین و قمیص رسول (ص) کا حوالہ دے کرعثمان پر الزامات عائد کرنا شروع کردئیے کہابھی یہ پیراہن بھی میلا نہیں ہوا ہے اور عثمان نے سارا دین تباہ کردیا ہے جس کے نتیجہ میں لوگ قتل عثمان پر آمادہ ہوگئے اور طلحہ وزبیر نے اپنے مفادات کی خاطرآگ کو مزید بھڑکادیا اور آخری نتیجہ قتل عثمان کی شکل میں برآمد ہوا جیسا کہ تمام مورخین نے نقل کیا ہے۔

اس کے بعد اچانک امیرالمومنین کی خلافت کی خبر پاکر عائشہ نے اپنی رائے بدل دی اور عثمان کو مظلوم قرار دے کرحضرت سے انتقام خون عثمان لینے پرآمادہ ہوگئیں۔حضرت نے بے حد سمجھایا لیکن عورت کی ضد چیز ہی کچھ اور ہوتی ہے اور پھر طلحہ و زبیر کے مفادات جلتی پر پٹرول کا کام کر رہے تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ جمل کا معرکہ پیش آگیا اور بے شمار کلمہ گو تلوار کے گھاٹ اتر گئے ۔

ابن ابی الحدید نے اس حقیقت کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ جمل میں امیرالمومنین سے مقابلہ کرنے والے سب ہلک ہونے والے ہیں جب تک توبہ نہ کرلیں اور اپنے گناہ سے استغفار نہ کریں۔اور اس کے بعد یہ اضافہ کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے امیر المومنین سے معافی مانگ لی تھی زبیر جنگ سے پلٹ گیا تھا۔اور طلحہ نے وقت آخر اپنے کو اصحاب امیر المومنین میں شامل کرلیا تھا۔( خدا کرے ایسا ہی ہو؟ روایت کی ذمہ داری راوی کے سر ہوا کرتی ہے )

۴۷۴

سَمْعُه كَعِيَانِه - إِنَّ النَّاسَ طَعَنُوا عَلَيْه - فَكُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ أُكْثِرُ اسْتِعْتَابَه - وأُقِلُّ عِتَابَه - وكَانَ طَلْحَةُ والزُّبَيْرُ أَهْوَنُ سَيْرِهِمَا فِيه الْوَجِيفُ - وأَرْفَقُ حِدَائِهِمَا الْعَنِيفُ - وكَانَ مِنْ عَائِشَةَ فِيه فَلْتَةُ غَضَبٍ - فَأُتِيحَ لَه قَوْمٌ فَقَتَلُوه - وبَايَعَنِي النَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ - ولَا مُجْبَرِينَ بَلْ طَائِعِينَ مُخَيَّرِينَ.

واعْلَمُوا أَنَّ دَارَ الْهِجْرَةِ قَدْ قَلَعَتْ بِأَهْلِهَا وقَلَعُوا بِهَا - وجَاشَتْ جَيْشَ الْمِرْجَلِ - وقَامَتِ الْفِتْنَةُ عَلَى الْقُطْبِ - فَأَسْرِعُوا إِلَى أَمِيرِكُمْ - وبَادِرُوا جِهَادَ عَدُوِّكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه عَزَّ وجَلَّ.

(۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليهم بعد فتح البصرة

وجَزَاكُمُ اللَّه مِنْ أَهْلِ مِصْرٍ عَنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ - أَحْسَنَ مَا يَجْزِي الْعَامِلِينَ بِطَاعَتِه - والشَّاكِرِينَ لِنِعْمَتِه - فَقَدْ سَمِعْتُمْ وأَطَعْتُمْ ودُعِيتُمْ فَأَجَبْتُمْ.

مشاہدہ کیا ہو۔لوگوں نے جب عثمان پر اعتراضات کئے تو میں مہاجرین میں سب سے زیادہ اصلاح حال کا چاہنے والا اور سب سے کم ان پر عتاب کرنے والا تھا۔اورطلحہ و زبیر کی ہلکی رفتار بھی ان کے بارے میں تیز رفتاری کے برابرتھی اورنرم سے نرم آوازبھی سخت ترین تھی اورعائشہ تو ان کے بارے میں بے حد غضبناک تھیں۔چنانچہ ایک قوم کو موقع فراہم ہوگیا اور اس نے ان کو قتل کردیا۔جس کے بعد لوگوں نے میری بیعت کی جس میں نہ کوئی جبر تھا اور نہ اکراہ ۔بلکہ سب کے سب اطاعت گذار تھے اور خود مختار۔

اوریہ بھی یاد رکھو کہ اب مدینہ رسول اپنے باشندوں سے خالی ہو چکا ہے اور اس کے رہنے والے وہاں سے اکھڑ چکے ہیں۔وہاں کا ماحلو دیگ کی طرح ابل رہا ہے اوروہاں فتنہ کی چکی چلنے لگی ہے لہٰذا تم لوگ فوراً اپنے امیرکے پاس حاضر ہو جائو اور اپنے دشمن سے جہاد کرنے میں سبقت سے کامل و ۔انشاء اللہ ۔

(۲)

مکتوب

(جسےاہل کوفہ کےنام بصرہ کی فتح کےبعدلکھا گیاہے)

شہر کوفہ والو! خدا تمہیں تمہارے پیغمبر (ص) کے اہل بیت کی طرف سے جزائے خیردے ۔ایسی بہترین جزا جواس کی اطاعت پرعمل کرنے والوں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔کہ تم نے میری بات سنی اور اطاعت کی اورتمہیں پکارا گیا تو تم نے میری آواز پرلبیک کہی ۔

۴۷۵

(۳)

ومن كتاب له عليالسلام

لشريح بن الحارث قاضيه

ورُوِيَ أَنَّ شُرَيْحَ بْنَ الْحَارِثِ قَاضِيَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - اشْتَرَى عَلَى عَهْدِه دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً - فَبَلَغَه ذَلِكَ فَاسْتَدْعَى شُرَيْحاً - وقَالَ لَه:

بَلَغَنِي أَنَّكَ ابْتَعْتَ دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً - وكَتَبْتَ لَهَا كِتَاباً وأَشْهَدْتَ فِيه شُهُوداً.

فَقَالَ لَه شُرَيْحٌ قَدْ كَانَ ذَلِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْه نَظَرَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ لَه

يَا شُرَيْحُ أَمَا إِنَّه سَيَأْتِيكَ مَنْ لَا يَنْظُرُ فِي كِتَابِكَ - ولَا يَسْأَلُكَ عَنْ بَيِّنَتِكَ - حَتَّى يُخْرِجَكَ مِنْهَا شَاخِصاً ويُسْلِمَكَ إِلَى قَبْرِكَ خَالِصاً

(۳)

مکتوب

(اپنے قاضی شریح کے نام(۱)

کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین کے ایک قاضی شریح بن الحارث نے آپ کیدورمیں اسی دینار کا ایک مکان خرید لیا تو حضرت نے خبرپاتے ہی اسے طلب کرلیا اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے اسی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پرگواہی بھی لے لی ہے ؟

شریح! عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کودیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کرے گا بلکہ تجھے اس گھرسے نکال کر تن تنہا قبر کے حوالہ کردے گا۔

(۱) صاحب اغانی نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ امیر المومنین کا اختلاف ایک یہودی سے ہوگیا جس کے پاس آپ کی زرہ تھی۔اسنے قاضی سے فیصلہ کرانے پر اصرار کیا آپ یہودی کے ساتھ شریح کے پاس آئے ۔اس نے آپ سے گواہ طلب کئے آپ نے قنبر اورامام حسن کو پیش کیا۔شریح نے قنبر کی گواہی قبول کرلی۔اور امام حسن کی گواہی فرزند ہونے کی بنا پر رد کردی۔آٰپ نے فرمایا کہ رسول اکرم (ص) نے انہیں سر دار جوانان جنت قراردیا ہے اور تم ان کی گواہی کو رد کر رہے ہو؟ لیکن اس کے باوجود آپ نے فیصلہ کا خیال کرتے ہوئے زرہ یہودی کو دے دی۔اس نے واقعہ کو نہایت درجہ حیرت کی نگاہ سے دیکھا اور پھر کلمہ شہادتین پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔آپ نے زرہ کے ساتھ اسے گھوڑا بھی دے دیا اور ۹۰۰درہم وظیفہ مقرر کردیا۔وہ مستقل آپ کی خدمت میں حاضر رہا یہاں تک کہ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہو گیا۔

اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کردار کیا تھا اور شریح کی بد نفسی کا کیا عالم تھا اور یہودی کے ظرف میں کس قدر صلاحیت پائی جاتی تھی۔

۴۷۶

- فَانْظُرْ يَا شُرَيْحُ لَا تَكُونُ ابْتَعْتَ هَذِه الدَّارَ مِنْ غَيْرِ مَالِكَ - أَوْ نَقَدْتَ الثَّمَنَ مِنْ غَيْرِ حَلَالِكَ - فَإِذَا أَنْتَ قَدْ خَسِرْتَ دَارَ الدُّنْيَا

ودَارَ الآخِرَةِ -. أَمَا إِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَتَيْتَنِي عِنْدَ شِرَائِكَ مَا اشْتَرَيْتَ - لَكَتَبْتُ لَكَ كِتَاباً عَلَى هَذِه النُّسْخَةِ - فَلَمْ تَرْغَبْ فِي شِرَاءِ هَذِه الدَّارِ بِدِرْهَمٍ فَمَا فَوْقُ.

والنُّسْخَةُ هَذِه - هَذَا مَا اشْتَرَى عَبْدٌ ذَلِيلٌ مِنْ مَيِّتٍ قَدْ أُزْعِجَ لِلرَّحِيلِ - اشْتَرَى مِنْه دَاراً مِنْ دَارِ الْغُرُورِ - مِنْ جَانِبِ الْفَانِينَ وخِطَّةِ الْهَالِكِينَ - وتَجْمَعُ هَذِه الدَّارَ حُدُودٌ أَرْبَعَةٌ - الْحَدُّ الأَوَّلُ يَنْتَهِي إِلَى دَوَاعِي الآفَاتِ - والْحَدُّ الثَّانِي يَنْتَهِي إِلَى دَوَاعِي الْمُصِيبَاتِ - والْحَدُّ الثَّالِثُ يَنْتَهِي إِلَى الْهَوَى الْمُرْدِي - والْحَدُّ الرَّابِعُ يَنْتَهِي إِلَى الشَّيْطَانِ الْمُغْوِي - وفِيه يُشْرَعُ بَابُ هَذِه الدَّارِ - اشْتَرَى هَذَا الْمُغْتَرُّ بِالأَمَلِ مِنْ هَذَا الْمُزْعَجِ بِالأَجَلِ - هَذِه الدَّارَ بِالْخُرُوجِ مِنْ عِزِّ الْقَنَاعَةِ - والدُّخُولِ فِي ذُلِّ الطَّلَبِ والضَّرَاعَةِ - فَمَا أَدْرَكَ هَذَا الْمُشْتَرِي فِيمَا اشْتَرَى مِنْه مِنْ دَرَكٍ - فَعَلَى مُبَلْبِلِ أَجْسَامِ الْمُلُوكِ وسَالِبِ نُفُوسِ الْجَبَابِرَةِ - ومُزِيلِ مُلْكِ الْفَرَاعِنَةِ - مِثْلِ كِسْرَى وقَيْصَرَ وتُبَّعٍ وحِمْيَرَ

اگر تم نے مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اورغیرحلال سے قیمت ادا کی ہے تو تمہیں دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے۔

یادرکھو اگر تم اس مکان کو خرید تے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے اسی درہم توبہت بڑی بات ہے ۔میں اس کی دستاویز اس طرح لکھتا۔

'' یہ مکان ہے جسے ایک بندۂ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریدا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے۔یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں۔

ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اوردوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اورچوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے۔

اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے۔اب اگر اس خریدار کواس سودے میں کوئی خسارہ ہو تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کا تہ و بالا کرنے والا۔جابروں کی جان نکال لینے والا۔فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کردینے والا ۔کسریٰ و قیصر۔تیغ و حمیر

۴۷۷

ومَنْ جَمَعَ الْمَالَ عَلَى الْمَالِ فَأَكْثَرَ - ومَنْ بَنَى وشَيَّدَ وزَخْرَفَ ونَجَّدَ - وادَّخَرَ واعْتَقَدَ ونَظَرَ بِزَعْمِه لِلْوَلَدِ - إِشْخَاصُهُمْ جَمِيعاً إِلَى مَوْقِفِ الْعَرْضِ والْحِسَابِ - ومَوْضِعِ الثَّوَابِ والْعِقَابِ - إِذَا وَقَعَ الأَمْرُ بِفَصْلِ الْقَضَاءِ( وخَسِرَ هُنالِكَ الْمُبْطِلُونَ ) - شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ الْعَقْلُ إِذَا خَرَجَ مِنْ أَسْرِ الْهَوَى - وسَلِمَ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا.»

(۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض أمراء جيشه

فَإِنْ عَادُوا إِلَى ظِلِّ الطَّاعَةِ فَذَاكَ الَّذِي نُحِبُّ - وإِنْ تَوَافَتِ الأُمُورُ بِالْقَوْمِ إِلَى الشِّقَاقِ والْعِصْيَانِ - فَانْهَدْ بِمَنْ أَطَاعَكَ إِلَى مَنْ عَصَاكَ واسْتَغْنِ بِمَنِ انْقَادَ مَعَكَ عَمَّنْ تَقَاعَسَ عَنْكَ

اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ۔مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں۔ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فنا کے گھاٹ اتاردینے والا ہے کہ ان سب کو قیامت کے موقف حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہو گا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہوں گے۔

''اس سو دے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ''

(۴)

مکتوب

(بعض امر اء لشکر کے نام(۱)

اگر دشمن اطاعت کے زیر سایہ آجائیں تو یہی ہمارا مدعا ہے اور اگر معاملات افتراف اورنا فرمانی کی منزل ہی کی طرف بڑھیں تو تم اپنے اطاعت گزاروں کو لے کر نافرمانوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہو۔اور اپنے فرمانبرداروں کے وسیلہ سے انحراف کرن والوں سے بے نیاز ہوجائو

(۱) جب اصحاب جمل بصرہ میں وارد ہوئے تو وہاں کے حضرت ک عامل عثمان بن حنیف نے آپ کے نام ایک خط لکھا جس میں بصرہ کی صورت حال کا ذکر کیا گیا تھا۔آپ نے اس کے جواب میںتحریر فرمایا کہ جنگ میں پہل کرنا ہمارا کام نہیں ہے لہٰذا تمہارا پہلا کام یہ ہے کہ ان پر اتمام حجت کرو پھراگر اطاعت امام پرآمادہ ہو جائیں تو بہترین بات ہے ورنہ تمہارے پاس فرمانبردار قسم کے افراد موجود ہیں۔انہیں ساتھ لے کرظالموں کا مقابلہ کرنا اور خبر دار جنگ کے معاملہ میں کسی پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا کہ جنگ کا میدان قربانی کا میدان ہے اور اس میں وہی افراد ثابت قدم رہ سکتے ہیں جو جان و دل سے قربانی کے لئے تیار ہوں۔ورنہ اگر بادل نا خواستہ فوج اکٹھا بھی کرلی گئی تو یہ خطرہ بہر حال رہے گا کہ یہ عین وقت پر چھوڑ کر فرار کر سکتے ہیں جس کا تجربہ تاریخ اسلام میں بارہا ہو چکا ہیاورجس کا ثبوت خود قرآن حکیم میں موجود ہے ۔

۴۷۸

فَإِنَّ الْمُتَكَارِه مَغِيبُه خَيْرٌ مِنْ مَشْهَدِه - وقُعُودُه أَغْنَى مِنْ نُهُوضِه.

(۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أشعث بن قيس - عامل أذربيجان

وإِنَّ عَمَلَكَ لَيْسَ لَكَ بِطُعْمَةٍ ولَكِنَّه فِي عُنُقِكَ أَمَانَةٌ - وأَنْتَ مُسْتَرْعًى لِمَنْ فَوْقَكَ - لَيْسَ لَكَ أَنْ تَفْتَاتَ فِي رَعِيَّةٍ - ولَا تُخَاطِرَ إِلَّا بِوَثِيقَةٍ - وفِي يَدَيْكَ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّه - عَزَّ وجَلَّ وأَنْتَ مِنْ خُزَّانِه حَتَّى تُسَلِّمَه إِلَيَّ - ولَعَلِّي أَلَّا أَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَكَ والسَّلَامُ.

(۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

إِنَّه بَايَعَنِي الْقَوْمُ الَّذِينَ بَايَعُوا أَبَا بَكْرٍ وعُمَرَ وعُثْمَانَ - عَلَى مَا بَايَعُوهُمْ عَلَيْه - فَلَمْ يَكُنْ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَخْتَارَ - ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَرُدَّ - وإِنَّمَا الشُّورَى لِلْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وسَمَّوْه إِمَاماً

کہ بادل ناخواستہ حاضری دینے والوں کی حاضری سے غیبت بہتر ہے اور ان کا بیٹھ جانا ہی اٹھ جانے سے زیادہ مفید ہے۔

(۵)

مکتوب

(آذر بائیجان کے عامل اشعث بن قیس کے نام)

یہ تمہارا منصب کوئی لقمہ تر نہیں ہے بلکہ تمہاری گردن پر امانت الٰہی ہے اور تم ایک بلند ہستی کے زیر نگرانی حفاظت پر مامور ہو۔تمہیں رعایا کے معاملہ میں اس طرح کے اقدام کا حق نہیں ہے اور خبردار کسی مستحکم دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ مت ڈالنا۔تمہارے ہاتھوں میں جو مال ہے۔یہ بھی پروردگار کے اموال کا ایک حصہ ہے اورتم اس کے ذمہ دار ہو جب تک میرے حوالہ نہ کردو اور شائد اس نصیحت کی بنا پرمیں تمہارا برا ولی نہ ہوگا۔والسلام

(۶)

مکتوب

(معاویہ کے نام)

دیکھ میری بیعت اسی قوم نے کی ہے جس نے ابوبکر و عمر و عثمان کی بیعت کی تھی اور اسی طرح کی ہے جس طرح ان کی بیعت کی تھی کہ نہ کسی حاضر کو نظر ثانی کا حق تھا اورنہ کسی غائب کو رد کردینے کا اختیار تھا۔

شوریٰ کا اختیار بھی صرف مہاجرین و انصار کو ہوتا ہے لہٰذاوہ کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام نامزد کردیں

۴۷۹

كَانَ ذَلِكَ لِلَّه رِضًا - فَإِنْ خَرَجَ عَنْ أَمْرِهِمْ خَارِجٌ - بِطَعْنٍ أَوْ بِدْعَةٍ رَدُّوه إِلَى مَا خَرَجَ مِنْه - فَإِنْ أَبَى قَاتَلُوه عَلَى اتِّبَاعِه غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ - ووَلَّاه اللَّه مَا تَوَلَّى.

ولَعَمْرِي يَا مُعَاوِيَةُ لَئِنْ نَظَرْتَ بِعَقْلِكَ دُونَ هَوَاكَ - لَتَجِدَنِّي أَبْرَأَ النَّاسِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ولَتَعْلَمَنَّ أَنِّي كُنْتُ فِي عُزْلَةٍ عَنْه - إِلَّا أَنْ تَتَجَنَّى فَتَجَنَّ مَا بَدَا لَكَ والسَّلَامُ.

(۷)

ومن كتاب منهعليه‌السلام

إليه أيضا

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَتْنِي مِنْكَ مَوْعِظَةٌ مُوَصَّلَةٌ ورِسَالَةٌ مُحَبَّرَةٌ -

تو گویا کہ اسی میں رضائے الٰہی ہے اوراگر کوئی شخص تنقید کرکے یا بدعت کی بنیاد پر اس امر سے بالکل باہرنکل جائے تو لوگوں کا فرض ہے کہ اسے واپس لائیں اوراگر انکار کردے تواس سے جنگ کریں کہ اسنے مومنین کے راستہ سے ہٹ کر راہ نکالی ہے اوراللہ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا جدھر وہ پھر گیا ہے ۔

معاویہ! میری جان کی قسم! اگر توخواہشات کو چھوڑ کرعقل کی نگاہوں سے دیکھے گا تو مجھے سب سے زیادہ خون عثمان(۱) سے پاکدامن پائے گا اورتجھے معلوم ہو جائے گاکہ میں اس مسئلہ سے بالکل الگ تھلک تھا۔مگر یہ کہ تو حقائق کی پردہ پوشی کرکے الزام ہی لگاناچاہے تو تجھے مکمل اختیار ہے ( یہ گذشتہ بیعتوں کی صورت حال کی طرف اشارہ ہے ورنہ اسلام میں خلافت شوریٰ سے طے نہیں ہوتی ہے ۔جوادی )

(۷)

مکتوب

(معاویہ ہی کے نام )

امابعد! میرے پاس تیری بے جوڑنصیحتوں کامجموعہ اور تیراخوبصورت سجایا بنایا ہوا خط وارد ہوا ہے جسے

(۱)عباس محمود عقاد نے عبقر پتہ الامام میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ خون عثمان کی تمامتر ذمہ داری خود معاویہ پر ہے کہ وہ ان کا تحفظ کرنا چاہتا تو اس کے پاس تمامتر امکانات موجود تھے۔وہ شام کا حاکم تھا اوراس کے پاس ایک عظیم ترین فوج موجود تھی جس سے کسی طرح کا کام لیا جا سکتا تھا۔

امام علی کی یہ حیثیت نہیں تھی آپ پردونوں طرف سے دبائو پڑ رہا تھا۔انقلابیوں کا خیال تھا کہ اگر آپ بیعت قبول کرلیں تو عثمان کو با آسانی معزول کیاجا سکتا ہے اورعثمان کا خیال تھا کہ آپ چاہیں تو انقلابیوں کو ہٹا کر میرے منصب کا تحفظ کر سکتے ہیں اور میری جان بچا سکتے ہیں۔ایسے حالات میں حضرت نے جس ایمانی فراست اورعرفانی حکمت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے زیادہ کسی فرو بشر کے امکان میں نہیں تھا۔

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

وهذا من أفصح الكلام وأغربه - فكأنهعليه‌السلام شبه المهلة التي هم فيها بالمضمار - الذي يجرون فيه إلى الغاية - فإذا بلغوا منقطعها انتقض نظامهم بعدها.

۴۶۵ - وقَالَعليه‌السلام فِي مَدْحِ الأَنْصَارِ - هُمْ واللَّه رَبَّوُا الإِسْلَامَ كَمَا يُرَبَّى الْفِلْوُ - مَعَ غَنَائِهِمْ بِأَيْدِيهِمُ السِّبَاطِ وأَلْسِنَتِهِمُ السِّلَاطِ

۴۶۶ - وقَالَعليه‌السلام : الْعَيْنُ وِكَاءُ السَّه.

قال الرضي - وهذه من الاستعارات العجيبة - كأنه يشبه السه بالوعاء والعين بالوكاء - فإذا أطلق الوكاء لم ينضبط الوعاء - وهذا القول في الأشهر الأظهر من كلام النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وقد رواه قوم لأمير المؤمنينعليه‌السلام - وذكر ذلك المبرد في كتاب المقتضب - في باب اللفظ بالحروف - وقد تكلمنا على هذه الاستعارة - في كتابنا الموسوم بمجازات الآثار النبوية.

فصیح ترین اورعجیب ترین تعبیر ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان کا میدان عمل یہی مہلت خداوندی ہے جس میں سب بھاگے چلے جا رہے ہیں ورنہ جس دن یہ مہلت ختم ہوگئی سارا نظام درہم وبرہم ہو کر رہ جائے گا۔

(۴۶۵)

انصار مدینہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا۔خدا کی قسم ان لوگوں نے اسلام کو اسی طرح پالا ہے جس طرح ایک سالہ بچہ ناقہ کو پالا جاتا ہے اپنے کریم ہاتھوں اور تیز زبانوں کے ساتھ۔

(۴۶۶)

آنکھ عقب(۱) کا تسمہ ہے۔

سید رضی : یہ ایک عجیب و غریب استعارہ ہے جس میں انسان کے عقب کو ظرف کو تشبیہ دی گئی ہے اور اس کیآنکھ کو تسمہ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جب تسمہ کھولدیاجاتا ہے تو برتن کا سامان محفوظ نہیں رہتا ہے۔عام طور سے شہرت یہ ہے کہ یہ پیغمبر اسلام (ص) کاکلام ہے لیکن امیر المومنین سے بھی نقل کیا گیا ہے اور اس کاذکر مبردنے اپنی کتاب المقتضب میں باب اللفظ بالحروف میں کیا ہے اور ہم نے بھی اپنی کتاب المجازات النبویہ میں اس سے مفصل بحث کی ہے۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان کی آنکھ ہی اس کے تحفظ کاذریعہ ہے چاہے سامنے سے ہو چاہے پیچھے سے۔لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس نعمت پروردگار کی قدر کرے اوراس بات کا احساس کرے کہ یہ ایک آنکھ نہ ہوتی تو انسان کا راستہ چلنا بھی دشوار ہو جاتا ۔حملوں سے تحفظ تو بہت دور کی بات ہے۔

۷۸۱

۴۶۷ - وقَالَعليه‌السلام فِي كَلَامٍ لَه: ووَلِيَهُمْ وَالٍ فَأَقَامَ واسْتَقَامَ حَتَّى ضَرَبَ الدِّينُ بِجِرَانِه

۴۶۸ - وقَالَعليه‌السلام : يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ - يَعَضُّ الْمُوسِرُ فِيه عَلَى مَا فِي يَدَيْه - ولَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( ولا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ) - تَنْهَدُ فِيه الأَشْرَارُ وتُسْتَذَلُّ الأَخْيَارُ - ويُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ - وقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّينَ

۴۶۹ - وقَالَعليه‌السلام : يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وبَاهِتٌ مُفْتَرٍ

قال الرضي: وهذا مثل قولهعليه‌السلام

(۴۶۷)

لوگوں کے امور کاذمہ دار ایک ایساحاکم(۱) بنا جوخود بھی سیدھے راستہ پر چلا اور لوگوں کوب بھی اسی راستہ پر چلایا۔یہاں تک کہ دین نے اپنا سینہ ٹیک دیا۔

(۴۶۸)

لوگوں پر ایک ایسا سخت زمانہ آنے والا ہے جس میں موسرا پنے مال میں انتہائی بخل سے کام لے گا حالانکہ اسے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا ہے اورپروردگار نے فرمایا ے کہ '' خبردار آپس میں حسن سلوک کوفراموش نہ کردینا ''اس زمانہ میں اشرار اونچے ہو جائیں گے اور اخیار کوذلیل سمجھ لیا جائے گا مجبور(۲) و بیکس لوگوں کی خریدو فروخت کی جائے گی حالانکہ رسول اکرم (ص) نے اس بات سے منع فرمایا ہے۔

(۴۶۹)

میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔حدسے آگے بڑھ جانے والا دوست اورغلط بیانی اور افتر ا پردازی کرنے والا دشمن۔

سیدرضی : یہ ارشاد مثل اس کالام سابق کے ہے

(۱)شیخ محمد عبدہ کاخیال ہے کہ یہ سرکار دو عالم (ص) کے کردار کے طرف اشارہ ہے کہ جب آپ کا اقتدار قائم ہوگیا تو آپنے تمام لوگوں کو حق کے راستہ پر چلانا شروع کیا اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام نے اپنا سینہ ٹیک دیا اوراسے استقرار و استقلال حاصل ہوگیا۔

(۲)یہاں مجبور و بیکس سے مراد وہ افراد ہیں جن کو خریدو فروخت پر مجبور کردیا جائے کہ اسلام نے اس طرح کے معاملہ کو غلط قراردیا ہے اور اس بیع و شراء کو غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن اگرانسان کو معاملہ پر مجبورنہ کیا اور وہ حالات سے مجبور ہو کر معاملہ کرنے پر تیار ہوجائے توقف ہی اعتبار سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس میں انسان کی رضا مندی شامل ہے چاہے وہ رضا مندی حالات کی مجبوری ہی سے پیدا ہوئی ہو۔

۷۸۲

هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ ومُبْغِضٌ قَالٍ

۴۷۰ - وسُئِلَ عَنِ التَّوْحِيدِ والْعَدْلِ فَقَالَعليه‌السلام

التَّوْحِيدُ أَلَّا تَتَوَهَّمَه والْعَدْلُ أَلَّا تَتَّهِمَه

۴۷۱ - وقالعليه‌السلام : لَا خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ كَمَا أَنَّه لَا خَيْرَ فِي الْقَوْلِ بِالْجَهْلِ.

۴۷۲ - وقَالَعليه‌السلام فِي دُعَاءٍ اسْتَسْقَى بِه:اللَّهُمَّ اسْقِنَا ذُلُلَ السَّحَابِ دُونَ صِعَابِهَا.

قال الرضي - وهذا من الكلام العجيب الفصاحة - وذلك أنهعليه‌السلام شبه السحاب ذوات الرعود والبوارق - والرياح والصواعق - بالإبل الصعاب التي تقمص برحالها وتقص بركبانها - وشبه السحاب خالية من تلك الروائع - بالإبل الذلل التي تحتلب طيعة وتقتعد مسمحة

'' میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ۔ غلو کرنے والا دوست اور عناد رکھنے والا دشمن۔

(۴۷۰)

آپ سے توحید اور عدالت کے مفہوم کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ توحید یہ ہے کہ اس کی وہمی تصویر نہ بنائی جائے اور عدالت یہ ہے کہ اس کے حکیمانہ افعال کو متہم نہ کیا جائے ۔

(۴۷۱)

حکمت کی بات سے خاموشی اختیار کرنا کوئی خوبی نہیں جس طرح جہالت کے ساتھ بات کرنے میں کوئی بھلائی نہیں۔

(۴۷۲)

بارش کے سلسلہ میں دعاکرتے ہوئے فرمایا ''خدایا ہمیں فرمانبردار بادلوں سے سیراب کرنا نہ کہ دشوار گذار بروں سے۔

سید رضی : یہ انتہائی عجیب و غریب فصیح کلام ہے جس میں حضرت نے گرج ' چمک اورآندھیوں سے بھرے ہوئے بادلوں کو سر کش اونٹوں سے تشبیہ دی ہے جو پیر پٹکتے رہتے ہیں اور سواروں کو پٹک دیتے ہیں اور اسی طرح ان تام خطرات سے خالی بادلوں کوف رمانبردار اونٹوں سے تشبیہ دی ہے جو دوہنے میں مطیع اورس واری میں فرمانبردار ہوں۔

۷۸۳

۴۷۳ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ غَيَّرْتَ شَيْبَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَعليه‌السلام

الْخِضَابُ زِينَةٌ ونَحْنُ قَوْمٌ فِي مُصِيبَةٍ! (يُرِيدُ وَفَاةَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ).

۴۷۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَا الْمُجَاهِدُ الشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّه بِأَعْظَمَ أَجْراً - مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ - لَكَادَ الْعَفِيفُ أَنْ يَكُونَ مَلَكاً مِنَ الْمَلَائِكَةِ.

(۴۷۳)

آپ سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ اپنے سفید بالوں کا رنگبدل دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا؟ فرمایا کہ خضاب ایک زینت ہے لیکن ہم لوگ حالات مصیبت(۱) میں ہیں (کہ سرکار دو عالم (ص) کا انتقال ہوگیا ہے )

(۴۷۴)

راہ خدا میں جہاد کرکے شہید ہوجانے والا اس سے زیادہ اجرکا حقدار نہیں ہوتا ہے ۔ جتنا اجر اس کا ہے جو اختیارات کے باوجود عفت(۲) سے کام لے کہ عفیف و پاکدامن انسان قریب ہے کہ ملائکہ آسمان میں شمار ہو جائے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خضاب بھی سرکار دو عالم (ص) کی سنت کا ایک حصہ تھا اور آپ اسے استعمال فرمایا کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ حضرت نے سرکار (ص) سے عرض کی کہ یارسول اللہ ! اجازت ہے کہ میں بھی آپ کے اتباع میں خضاب استعمال کروں۔تو فرمایا نہیں اس وقت کا انتظار کرو جب تمہارے محاسن تمہارے سرکے خونس ے رنگین ہوں گے اورتم سجدہ ٔ پروردگار میں ہوگے ۔

یہ سن کر آپ نے عرض کی کہ یارسول اللہ اس حادثہ میں میرادین تو سلامت رہے گا؟ فرمایا بیشک! جس کے بعد آپ مستقل اس وقت کا انتظارکرنے لگے اور اپنے کو راہ خدامیں قربان کرنے کی تیاری میںمصروف ہوگئے ۔

(۲)یہ بات طے شدہ ہے کہ راہ خدا میں قربانی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور سکار دو عالم (ص)نے بھی اس شہادت کو تمام نیکیوں کے لئے سر فہرست قراردیا ہے لیکن عفت ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا ہرایک کے بس کا کام نہیں ہے ۔خصوصیت کے ساتھ دور حاضرمیں جب کہ عفت کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے اور دامان کردار کے داغوں ہی کو سبب زینت تصورکرلیا گیا ہے ورنہ عفت کے بغیر انسانیت کا کوئی مفہوم نہیں ہے اوروہ انسان 'انسان کہے جانے کے قابل نہیں ہے جس میں عفت کردار نہ پای جاتی ہو۔

عفیف الحیوة انسان ملائکہ میں شمار کئے جانے کے قابل اسی لئے ہے کہ عفت کردارملائکہ کا ایک امتیازی کمال ہے اور ان کے یہاں تردامنی کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن اس کے بعد بھی اگر بشراس کردارکو پیدا کرلے تو اس کا مرتبہ ملائکہ سے افضل ہو سکتا ہے۔اس لئے کہ ملائکہ کی عفت قہری ہے اور اس کا راز ان جذبات اورخواہشات کانہ ہونا ہے جو انسان کو خلاف عفت زندگی پرآمادہ کرتے ہیں اورانسان ان جذبات وخواہشات سے معمور ہے لہٰذا وہ اگر عفت کردار اختیار کرلے تو اس کا مرتبہ یقینا ملائکہ سے بلند تر ہو سکتا ہے۔

۷۸۴

۴۷۵ - وقَالَعليه‌السلام : الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ.

قال الرضي وقد روى بعضهم هذا الكلام لرسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

۴۷۶ - وقَالَعليه‌السلام لِزِيَادِ ابْنِ أَبِيه - وقَدِ اسْتَخْلَفَه لِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ عَلَى فَارِسَ وأَعْمَالِهَا - فِي كَلَامٍ طَوِيلٍ كَانَ بَيْنَهُمَا نَهَاه فِيه عَنْ تَقَدُّمِ الْخَرَاجِ -. اسْتَعْمِلِ الْعَدْلَ واحْذَرِ الْعَسْفَ والْحَيْفَ - فَإِنَّ الْعَسْفَ يَعُودُ بِالْجَلَاءِ والْحَيْفَ يَدْعُو إِلَى السَّيْفِ.

۴۷۷ - وقَالَعليه‌السلام : أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَخَفَّ بِهَا صَاحِبُه.

۴۷۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَخَذَ اللَّه عَلَى أَهْلِ الْجَهْلِ أَنْ يَتَعَلَّمُوا - حَتَّى أَخَذَ عَلَى أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُعَلِّمُوا.

(۴۷۵)

قناعت وہ مال ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس کلام کو رسول اکرم (ص) کے نام سے نقل کیا ہے ۔

(۴۷۶)

جب عبداللہ عباس نے زیاد بن ابیہ کو فارس اور اس کے اطراف پر قائم مقام بنادیا تو ایک مرتبہ پیشگی خراج وصول کرنے سے روکتے ہوئے زیاد سے فرمایاکہ خبردار۔عدل کو استعمال کرو اور بیجا دبائو اور ظلم سے ہوشیار رہو کہ دبائو عوام کو غریب الوطنی پرآمادہ کردے گا اور ظلم تلواراٹھانے پر مجبور کردے گا۔

(۴۷۷)

سخت ترین گناہ وہ ہے جسے انسان ہلکا تصور کرلے۔

(۴۷۸)

پروردگار نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کا عہدلینے سے پہلے علماء سے تعلیم دینے کاعہد لیا ہے ۔

۷۸۵

۴۷۹ - وقَالَعليه‌السلام : شَرُّ الإِخْوَانِ مَنْ تُكُلِّفَ لَه.

قال الرضي لأن التكليف مستلزم للمشقة وهو شر لازم عن الأخ المتكلف له فهو شر الإخوان.

۴۸۰ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا احْتَشَمَ الْمُؤْمِنُ أَخَاه فَقَدْ فَارَقَه.

قال الرضي يقال حشمه وأحشمه إذا أغضبه وقيل أخجله أو احتشمه طلب ذلك له وهو مظنة مفارقته.

وهذا حين انتهاء الغاية بنا إلى قطع المختار من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام ، حامدين للَّه سبحانه على ما منّ به من توفيقنا لضم ما انتشر من أطرافه، وتقريب ما بعد من أقطاره. وتقرر العزم كما شرطنا أولا على تفضيل أوراق من البياض في آخر كل باب من الأبواب، ليكون لاقتناص الشارد، واستلحاق الوارد، وما عسى أن يظهر لنا بعد الغموض

(۴۷۹)

بدترین بھائی وہ ہے جس کے لئے زحمت اٹھانی پڑے۔

سید رضی : یہ اس طرح کہ تکلیف سے مشقت پیدا ہوتی ہے اور یہ وہ شر ہے جو اس بھائی کے لئے بہر حال لازم ہے جس کے لئے زحمت برداشت کرنا پڑے ۔

(۴۸۰)

اگر مومن اپنے بھائی سے احتشام کرے تو سمجھو کہ اس سے جدا ہوگیا۔

سید رضی :حشمہ۔احشمہ:اس وقت استعمال ہوتا ہے جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ اسے غضب ناک کردیا یا بقولے شرمندہ کردیا۔اس طرح احتشمہ کے معنی ہوں گے۔ اس سے غضب یا شرمندگی کا تقاضا کیا۔ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں جدائی لازمی ہے۔

یہ ہمارے عمل کی آخری منزل ہے جس کا مقصد امیر المومنین کے منتخب کلام کاجمع کرنا تھا اورخدا کا شکرہے کہ اس نے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں آپ کے منتشر کلمات کو جمع کرنے اور دور دست ارشادات کو قریب کرنے کی توفیق عنایت فرمائی اورہمارا روز اول سے یہ عزم رہا ہے کہ ہر باب کے آخرمیں کچھ سادہ اوراق چھوڑدیں تاکہ جو کلمات اس وقت ہاتھ نہیں لگے انہیں بھی گرفت میں لا سکیں اور جونئے ارشادات مل جائیں انہیں ملحق کر سکیں ۔شائد کہ کوئی چیز نگاہوں سے اوجھل

۷۸۶

ويقع إلينا بعد الشذوذ، وما توفيقنا إلا باللَّه: عليه توكلنا، وهو حسبنا ونعم الوكيل.

وذلك في رجب سنة أربع مائة من الهجرة، وصلى اللَّه على سيدنا محمد خاتم الرسل، والهادي إلى خير السبل، وآله الطاهرين، وأصحابه نجوم اليقين.

تم - والحمد لله -

نهج البلاغة

من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام

ہونے کے بعد ظہورپذیر ہو جائے اور ہاتھ سے نکل جانے کے بعد ہاتھ آجائے۔

ہماری توفیق صرف پروردگار سے وابستہ ہے اوراسی پر ہمارابھروسہ ہے۔وہی ہمارے لئے کافی ہے اوروہی ہماراکارساز ہے۔اور یہ کتاب۴۰۰ ھ میں اختتام کو پہنچی ہے۔اللہ ہمارے سردار حضرت خاتم المرسلین اورہادی الی خیرالسبل اور ان کی اولاد طاہرین اوران اصحاب پر رحمت نازل کرے جوآسمان یقین کے نجوم ہدایت ہیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

۷۸۷

فہرست

امیر المومنین کے منتخب خطبات ۴

اور احکام کا سلسلہ کلام ۴

(۱) ۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴

(جس میں آسمان کی خلقت کی ابتدا اور خلقت آدم ۔ کے تذکرہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی عظمت کا بھی ذکر کیا گیاہے) ۴

تخلیق جناب آدم کی کیفیت ۱۰

انبیاء کرام کا انتخاب ۱۲

بعثت رسول اکرم (ص) ۱۳

قرآن اور احکام شرعیہ ۱۴

ذکر حج بیت اللہ ۱۵

(۲) ۱۶

صفیں سے واپسی پرآپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۶

جس میں بعثت پیغمبر(ص) کے وقت لوگوں کے حالات' آل رسول (ص) کے اوصاف اور دوسرے افراد کے کیفیات کاذکر کیا گیا ہے۔ ۱۶

آل رسول اکرم (ص) ۱۸

ایک دوسری قوم ۱۸

(۳) ۱۹

آپ کے ایک خطبہ کا حصہ ۱۹

جسے شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۱۹

۷۸۸

(۴) ۲۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۴

جوفصیح ترین کلمات میں شمار ہوتا ہے اور جس میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستہ پرلایا گیا ہے۔(طلحہ و زبیر کی بغاوت اورقتل عثمان کے پس منظر میں فرمایا) ۲۴

(۵) ۲۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۵

جو آپ کے وفات پیغمبراسلام(ص) کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا جب عباس اورابو سفیان نے آپ سے بیعت لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ۲۵

(۶) ۲۶

حضرت کا ارشاد گرامی ۲۶

جب آپ کو مشورہ دیا گیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کا بندو بست نہ کریں ۲۶

(۷) ۲۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۷

جس میں شیطان کے پیروکاروں کی مذمت کی گئی ہے ۲۷

(۸) ۲۸

آپ کا ارشاد گرامی ۲۸

زبیر کے بارے میں ۲۸

جب ایسے حالات پیدا ہوگئے اور اسے دوبارہ بیعت کے دائرہ میں داخل ہونا پڑے گا جس سے نکل گیا ہے ۲۸

(۹) ۲۸

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۲۸

جس میں اپنے اوربعض مخالفین کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اور شاید اس سے مراد اہل جمل ہیں۔ ۲۸

۷۸۹

(۱۰) ۲۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۹

جس کا مقصد شیطان ہے یا شیطان صفت کوئی گروہ ۲۹

(۱۱) ۲۹

آپ کا ارشاد گرامی ۲۹

اپنے فرزند محمد بن الخفیہ سے ۲۹

( میدان جمل میں علم لشکر دیتے ہوئے) ۲۹

(۱۲) ۳۰

آپ کا ارشاد گرامی ۳۰

(۱۳) ۳۱

آپ کا ارشاد گرامی ۳۱

جس میں جنگ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت فرمائی ہے ۳۱

(۱۴) ۳۲

آپ کا ارشاد گرامی ۳۲

(ایسے ہی ایک موقع پر) ۳۲

(۱۵) ۳۳

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۳۳

اس موضوع سے متعلق کہ آپ نے عثمان کی جاگیروں کو مسلمانوں کو واپس دے دیا ۳۳

۷۹۰

(۱۶) ۳۳

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۳۳

(اس وقت جب آپ کی مدینہ میں بیعت کی گئی اور آپ نے لوگوں کو بیعت کے مستقبل سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی قسمیں بیان فرمائی) ۳۳

اسی خطبہ کا ایک حصہ جس میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۳۵

(۱۷) ۳۷

(ان نا اہلوں کے بارے میں جوصلاحیت کے بغیر فیصلہ کا کام شروع کر دیتے ہیں اور اسی ذیل میں دوبد ترین اقسام مخلوقات کا ذکربھی ہے) ۳۷

(۱۸) ۳۹

آپ کا ارشاد گرامی ۳۹

(علماء کے درمیان اختلاف فتویٰ کے بارے میں اور اسی میں اہل رائے کی مذمت اور قرآن کی مرجعت کا ذکر کیا گیا ہے) ۳۹

مذمت اہل رائے: ۴۰

(۱۹) ۴۱

آپ کا ارشاد گرامی ۴۱

جسے اس وقت فرمایا جب منبر کوفہ پر خطبہ دے رہے تھے اوراشعث بن قیس نے ٹوک دیا کہ یہ بیان آپ خود اپنے خلاف دے رہے ہیں۔ آپ نے پہلے نگاہوں کونیچا کرکے سکوت فرمایا اور پھرپر جلال انداز سے فرمایا: ۴۱

(۲۰) ۴۲

آپ کا ارشاد گرامی ۴۲

جس میں غفلت سے بیدار کیا گیا ہے اور خدا کی طرف دوڑ کرآنے کی دعوت دی گئی ہے ۴۲

(۲۱) ۴۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۲

۷۹۱

(۲۲) ۴۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۳

جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت توڑدی ہے ۴۳

(۲۳) ۴۵

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ ۴۵

یہ خطبہ فقراء کی تہذیب اور ثروت مندوں کی شفقت پر مشتمل ہے ۴۵

(۲۴) ۴۸

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۸

جس میں اطاعت خداکی دعوت دی گئی ہے ۴۸

(۲۵) ۴۸

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۸

جب آپ کو مسلسل(۱) خبردی گئی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے اور آپ کے دو عامل یمن عبید اللہ بن عباس اورسعید بن نمران بسر بن ابی ارطاة کے مظالم سے پریشان ہو کرآپ کی خدمت میں آگئے۔ ۴۸

(۲۶) ۵۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۱

(جس میں بعثت سے پہلے عرب کی حالت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اپنی بیعت سے پہلے کیے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے) ۵۱

(بیعت کے ہنگام) ۵۱

(۲۷) ۵۲

(جو اس وقت ارشد فرمایا جب آپ کو خبر ملی کہ ۵۲

معاویہ(۱) کے لشکرنے انبار پر حملہ کردیا ہے ۔اس خطبہ میں جہاد کی فضیلت کا ذکر کرکے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کیا گیا ہے اوراپنی جنگی مہارت کا تذکرہ کرکے نا فرمانی کی ذمہ داری لشکر والوں پر ڈالی گئی ہے) ۵۲

۷۹۲

(۲۸) ۵۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۶

(جو اس خطبہ کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کاآغاز'' الحمد للہ غیر مقنوط من رحمة '' سے ہوا ہے اور اس میں گیارہ تنبیہات ہیں) ۵۶

(۲۹) ۵۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۹

جب تحکیم کے بعد معاویہ(۱) کے سپاہی ضحاک بن قیس نے حجاج کے قابلہ پر حملہ کردیا اور حضرت کواس کی خبر دی گئی تو آپ نے لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: ۵۹

(۳۰) ۶۰

آپ کا ارشاد گرامی ۶۰

قتل عثمان کی حقیقت کے بارے میں ۶۰

(۳۱) ۶۱

آپ کا ارشاد گرامی ۶۱

جب آپ نے عبداللہ بن عباس کو زبیر کے پاس بھیجا کہ اسے جنگ سے پہلے اطاعت امام کی طرف واپس لے آئیں۔ ۶۱

(۳۲) ۶۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۲

جس میں زمانہ کے ظلم کاتذکرہ ہے اورلوگوں کی پانچ قسموں کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد زہد کی دعوت دی گئی ہے۔ ۶۲

(پانچویں قسم) ۶۳

(۳۲) ۶۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۴

(اہل بصرہ سے جہاد کے لئے نکلتے وقت جس میں آپ نے رسولوں کی بعثت کی حکمت اورپھر اپنی فضیلت اورخوارج کی رذیلت کاذکر کیا ہے) ۶۴

۷۹۳

(۳۴) ۶۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۶

(جس میں خوارج کےقصہ کےبعد لوگوں کو اہل شام سےجہادکےلئےآمادہ کیاگیا ہےاور انکے حالات پرافسوس کا اظہار کرتےہوئےانہیں نصیحت کی گئی ہے) ۶۶

(۳۵) ۶۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۹

(جب تحکیم کے بعد اس کے نتیجہ کی اطلاع دی گئی تو آپ نے حمدو ثنائے الٰہی کے بعد اس بلا کا سبب بیان فرمایا) ۶۹

(۳۶) ۷۰

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۰

(اہل نہروان کو انجام کارسے ڈرانےکے سلسلہ میں) ۷۰

(۳۷) ۷۱

آپ کا ارشاد گرامی(جو بمنزلہ' خطبہ ہے اور اس میں نہر وان کے واقعہ کےبعدآپ نےاپنے فضائل اورکارناموں کا تذکرہ کیا ہے) ۷۱

(۳۹) ۷۲

(۳۸) ۷۲

آپ کا ارشاد گرامی ۷۲

(جس میں شبہ کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اور لوگوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے) ۷۲

(۳۹) ۷۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۲

(جو معاویہ کے سردار لشکر نعمان بن(۱) بشیرکے عین التمر پرحملہ کے وقت ارشاد فرمایا اور لوگوں کو اپنی نصرت پرآمادہ کیا ) ۷۲

۷۹۴

(۴۰) ۷۴

آپ کا ارشاد گرامی ۷۴

(خوارج کے بارے میں ان کا یہ مقولہ سن کر کہ'' حکم اللہ کے علاوہ کسی کے لئے نہیں ہے) ۷۴

(۴۱) ۷۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۵

(جس میں غداری سے روکا گیا ہے اور اس کے نتائج سے ڈرایا گیا ہے) ۷۵

(۴۲) ۷۶

آپ کا ارشاد گرامی ۷۶

(جس میں اتباع خواہشات اور طول امل سے ڈرایا گیا ہے) ۷۶

(۴۳) ۷۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۷

(جب جریربن عبداللہ البجلی کو معاویہ کے پاس بھیجنے اور معاویہ کے انکار بیعت کے بعد اصحاب کو اہل شام سے جنگ پرآمادہ کرنا چاہا ) ۷۷

(۴۴) ۷۸

حضرت کا ارشاد گرامی ۷۸

(اس موقع پر جب مصقلہ(۱) بن ہیرہ شیبانی نے آپ کے عامل سبے بنی ناجیہ کے اسیرکو خرید کر آزاد کردیا اور جب حضرت نے اس سے قیمت کامطالبہ کیا تو بد دیانتی کرتے ہوئے شام کی طرف فرار کر گیا) ۷۸

(۴۵) ۷۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۹

(یہ عید الفطر کے موقع پرآپ کے طویل خطبہ کا ایک جز ہے جس میں حمد خدا اور مذمت دنیا کا ذکر کیا گیا ہے) ۷۹

۷۹۵

(۴۶) ۷۹

آپ کا ارشاد گرامی ۷۹

(جب شام کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور اس دعا کو رکاب میں پائوں رکھتے ہوئے درد زبان فرمایا) ۷۹

(۴۷) ۸۰

آپ کا ارشاد گرامی ۸۰

(کوفہ کے بارے میں ) ۸۰

(۴۸) ۸۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۱

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا) ۸۱

(۴۹) ۸۲

آپ کا ارشاد گرامی ۸۲

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے) ۸۲

(۵۰) ۸۳

آپ کا ارشاد گرامی ۸۳

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے) ۸۳

(۵۱) ۸۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۴

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا) ۸۴

(۵۲) ۸۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۴

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے ) ۸۴

۷۹۶

(۵۳) ۸۶

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے) ۸۶

(۵۴) ۸۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۶

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے) ۸۶

(۵۵) ۸۷

آپ کا ارشاد گرامی ۸۷

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں) ۸۷

(۵۶) ۸۸

آپ کا ارشاد گرامی ۸۸

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا) ۸۸

(۵۷) ۸۹

آپ کا ارشاد گرامی ۸۹

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں) ۸۹

(۵۸) ۹۰

آپ کا ارشاد گرامی ۹۰

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے) ۹۰

(۵۹) ۹۱

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا ۹۱

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا ۹۱

۷۹۷

(۶۰) ۹۲

آپ نے فرمایا ۹۲

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے) ۹۲

(۶۱) ۹۲

آپ نے فرمایا ۹۲

(۶۲) ۹۲

آپ کا ارشاد گرامی ۹۲

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا ) ۹۲

(۶۳) ۹۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۹۳

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے) ۹۳

(۶۴) ۹۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۹۳

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں ) ۹۳

(۶۵) ۹۵

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے) ۹۵

(۶۶) ۹۷

آپ کا ارشاد گرامی ۹۷

(تعلیم جنگ کے بارے میں ) ۹۷

۷۹۸

(۶۷) ۹۸

آپ کا ارشاد گرامی ۹۸

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔ ۹۸

(۶۸) ۹۹

آپ کا ارشاد گرامی ۹۹

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا) ۹۹

(۶۹) ۱۰۰

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۰

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے) ۱۰۰

(۷۰) ۱۰۱

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۱

(اس سحرکے ہنگام جب آپکےسر اقدس پر ضربت لگائی گئی) ۱۰۱

(۷۱) ۱۰۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۱

(اہل عراق کی مذمت کے بارے میں) ۱۰۱

(۷۲) ۱۰۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۲

(جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسول (ص) کا ذکر کیا گیا ہے ) ۱۰۲

(۷۳) ۱۰۵

(جو مروان بن الحکم سے بصرہ میں فرمایا) ۱۰۵

۷۹۹

(۷۴) ۱۰۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۵

(جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا) ۱۰۵

(۷۵) ۱۰۶

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۶

(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا الزام لگا رہے ہیں) ۱۰۶

(۷۶) ۱۰۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۷

(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے) ۱۰۷

(۷۷) ۱۰۸

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۸

(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے محروم کردیا) ۱۰۸

(۷۸) ۱۰۸

آپ کی دعا ۱۰۸

(جسے برابر تکرار فرمایا کرتے تھے) ۱۰۸

(۷۹) ۱۰۹

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۹

(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی دوسرا وقت اختیار فرمائیں۔اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی اندازہ ہوتا ہے) ۱۰۹

۸۰۰

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863