نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657125 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

(۲۲۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وصف بيعته بالخلافة

قال الشريف: وقد تقدم مثله بألفاظ مختلفة.

وبَسَطْتُمْ يَدِي فَكَفَفْتُهَا ومَدَدْتُمُوهَا فَقَبَضْتُهَا - ثُمَّ تَدَاكَكْتُمْ عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ - عَلَى حِيَاضِهَا يَوْمَ وِرْدِهَا - حَتَّى انْقَطَعَتِ النَّعْلُ - وسَقَطَ الرِّدَاءُ ووُطِئَ الضَّعِيفُ - وبَلَغَ مِنْ سُرُورِ النَّاسِ بِبَيْعَتِهِمْ إِيَّايَ - أَنِ ابْتَهَجَ بِهَا الصَّغِيرُ وهَدَجَ إِلَيْهَا الْكَبِيرُ - وتَحَامَلَ نَحْوَهَا الْعَلِيلُ وحَسَرَتْ إِلَيْهَا الْكِعَابُ

(۲۳۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في مقاصد أخرى

فَإِنَّ تَقْوَى اللَّه مِفْتَاحُ سَدَادٍ

(۲۲۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنی بعیت خلافت کے بارے میں )

تم نے بیعت کے لئے میری طرف ہاتھ پھیلانا چاہا تو میں نے روک لیا اور اسے کھینچنا چاہا تو میں نے سمیٹ لیا ۔لیکن اس کے بعد تم اس طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے جس طرح پانی پینے کے دن پیا سے اونٹ تالاب پر گر پڑتے ہیں۔یہاں تک کہ میری جوتی کا تسمہ کٹ گیا اور عبا کاندھے سے گر گئی اور کمزور افراد کچل گئے۔تمہاری خوشی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خوشیاں منائیں ۔بوڑھے لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھے ۔بیمار اٹھتے بیٹھتے۔پہنچ گئے اور میری بیعت کے لئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ(۱) سے باہر نکل آئیں۔

(۲۳۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

یقینا تقویٰ الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا

(۱) کس قدر فرق ہے اس بیعت میں جس کے لئے بوڑھے بچے عورتیں سب گھرسے نکل آئے اور کمال اشتیاق میں صاحب منصب کی بارگاہ کی طرف دوڑ پڑے اوراس بیعت میں جس کے لئے بنت رسول (ص) کے دروازہ میں آگ لگائی گئی ۔نفس رسول (ص) کو گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر گھرسے نکالا گیا اور صحابہ کرام کو زد و کوب کیا گیا۔

کیا ایسی بیعت کوبھی اسلامی بیعت کہاجا سکتا ہے اورایسے انداز کوبھی جواز خلافت کی دلیل بنایا جا سکتا ہے ؟ امیرالمومنین نے اپنی بیعت کاتذکرہ اسی لئے فرمایا ہے کہ صاحبان عقل و شعوراور ارباب عدل وانصاف بیعت کے معنی کا ادراک کرس کیں اور ظلم وجور۔جبر و استبدار کو بیعت کا نام نہدے سکیں اور نہ اسے جوازحکومت کی دلیل بناسکیں۔

۴۶۱

وذَخِيرَةُ مَعَادٍ وعِتْقٌ مِنْ كُلِّ مَلَكَةٍ - ونَجَاةٌ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ بِهَا يَنْجَحُ الطَّالِبُ - ويَنْجُو الْهَارِبُ وتُنَالُ الرَّغَائِبُ.

فضل العمل

فَاعْمَلُوا والْعَمَلُ يُرْفَعُ - والتَّوْبَةُ تَنْفَعُ والدُّعَاءُ يُسْمَعُ - والْحَالُ هَادِئَةٌ والأَقْلَامُ جَارِيَةٌ - وبَادِرُوا بِالأَعْمَالِ عُمُراً نَاكِساً - أَوْ مَرَضاً حَابِساً أَوْ مَوْتاً خَالِساً - فَإِنَّ الْمَوْتَ هَادِمُ لَذَّاتِكُمْ - ومُكَدِّرُ شَهَوَاتِكُمْ ومُبَاعِدُ طِيَّاتِكُمْ - زَائِرٌ غَيْرُ مَحْبُوبٍ وقِرْنٌ غَيْرُ مَغْلُوبٍ - ووَاتِرٌ غَيْرُ مَطْلُوبٍ - قَدْ أَعْلَقَتْكُمْ حَبَائِلُه - وتَكَنَّفَتْكُمْ غَوَائِلُه وأَقْصَدَتْكُمْ مَعَابِلُه - وعَظُمَتْ فِيكُمْ سَطْوَتُه وتَتَابَعَتْ عَلَيْكُمْ عَدْوَتُه ،وقَلَّتْ عَنْكُمْ نَبْوَتُه - فَيُوشِكُ أَنْ تَغْشَاكُمْ دَوَاجِي ظُلَلِه - واحْتِدَامُ عِلَلِه وحَنَادِسُ غَمَرَاتِه - وغَوَاشِي سَكَرَاتِه وأَلِيمُ إِرْهَاقِه - ودُجُوُّ أَطْبَاقِه وجُشُوبَةُ مَذَاقِه - فَكَأَنْ قَدْ أَتَاكُمْ بَغْتَةً

ذخیرہ ہے۔ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔اس کے وسیلہ سے طلب گار کامیاب ہوتے ہیں۔عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اوربہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔

لہٰذا عمل کرو کہابھی اعمال بلند ہو رہے ہیں اور توبہ فائدہ مند ہے اور دعا سنی جا رہی ہے۔حالات پر سکون ہیں قلم اعمال چل رہا ہے۔اپنے اعمال کے ذریعہ آگے بڑھ جائو جو الٹے پائوں چل رہی ہے اور اس مرض سے جواعمال سے روکدیتا ہے اوراس موت سے جواچانک جھپٹ لیتی ہے۔اس لئے کہ موت تمہاری لذتوں کو فناکردینے والی تمہاری خواہشات کو بدمزہ کردینے والی اور تمہاری منلوں کودورکردینے والی ہے۔وہ ایسی زائر ہے جسے کوئی پسند نہیں کرتاہے اور ایی مقابل ہے جومغلوب نہیں ہوتی ہے اور ایسی قاتل ہے جس سے خوں بہا کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے۔اس نے اپنے پھندے تمہاے گلوں میں ڈال رکھے ہیں اوراس کی ہلاکتوں نے تمہیں گھیرے میں لے لیا ہے اور اس کے تیروں نے تمہیں نشانہ بنا لیا ہے۔اس کی سطوت تمہارے بارے میں عظیم ہے اور اس کی تعدیاں مسلسل ہیں اور اس کا وار اچٹتا بھی نہیں ہے۔قریب ہے کہاس کے بادلوں کی تیرگیاں ۔اس کے مرض کی سختیاں۔اس کی جاں کنی کی اذیتیں۔اس کی دم اکھڑنے کی بے ہوشیاں ۔اس کے ہر طرف سے چھا جانے کی تاریکیا ں اور بد مزگیاں۔اس کی سختیوں کے اندھیرے تمہیں اپنے گھیرے میں لے لیں۔گویا وہ اچانک اس

۴۶۲

فَأَسْكَتَ نَجِيَّكُمْ - وفَرَّقَ نَدِيَّكُمْ وعَفَّى آثَارَكُمْ - وعَطَّلَ دِيَارَكُمْ وبَعَثَ وُرَّاثَكُمْ - يَقْتَسِمُونَ تُرَاثَكُمْ بَيْنَ حَمِيمٍ خَاصٍّ لَمْ يَنْفَعْ - وقَرِيبٍ مَحْزُونٍ لَمْ يَمْنَعْ - وآخَرَ شَامِتٍ لَمْ يَجْزَعْ.

فضل الجد

فَعَلَيْكُمْ بِالْجَدِّ والِاجْتِهَادِ والتَّأَهُّبِ والِاسْتِعْدَادِ - والتَّزَوُّدِ فِي مَنْزِلِ الزَّادِ - ولَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا - كَمَا غَرَّتْ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ الْمَاضِيَةِ - والْقُرُونِ الْخَالِيَةِ الَّذِينَ احْتَلَبُوا دِرَّتَهَا - وأَصَابُوا غِرَّتَهَا وأَفْنَوْا عِدَّتَهَا - وأَخْلَقُوا جِدَّتَهَا وأَصْبَحَتْ مَسَاكِنُهُمْ أَجْدَاثاً - وأَمْوَالُهُمْ مِيرَاثاً لَا يَعْرِفُونَ مَنْ أَتَاهُمْ - ولَا يَحْفِلُونَ مَنْ بَكَاهُمْ ولَا يُجِيبُونَ مَنْ دَعَاهُمْ - فَاحْذَرُوا الدُّنْيَا فَإِنَّهَا غَدَّارَةٌ غَرَّارَةٌ خَدُوعٌ - مُعْطِيَةٌ مَنُوعٌ مُلْبِسَةٌ نَزُوعٌ

طرح وارد ہوگئی کہ تمہارے راز داروں کو خاموش کردیا، ساتھیوں کو منتشر کردیا، آثار کومحو کردیا، دیار کو معطل کردیا اور وارثوں کو آمادہ کردیا۔اب وہ تمہاری میراث کو تقسیم کر رہے ہیں ان خاص عزیزوں کے درمیان جو کام(۱) نہیں آئے اور ان رنجیدہ رشتہ داروں کے درمیان جنہوں نے موت کو روکا نہیں اوران خوش ہونے والوں کے درمیان جو ہرگز رنجیدہ نہیں ہے۔

اب تمہارا فرض ہے کہ سعی کرو۔کوشش کرو ۔تیاری کرو۔آمادہ ہو جائو، اس زاد راہکی جگہ سے زاد سفر لے لو اور خبردار یہ دنیا تمہیں اس طرح دھوکہ نہ دے سکے جیسے پہلے والوں کو دیا ہے جوامتیں گزر گئیں اورجونسلیں تباہ ہوگئیں ۔جنہوں نے اس دنیا کا دودھ دوہا تھا۔اس کی غفلت سے فائدہ اٹھایا تھا۔اس کے باقی پسماندہ دنوں کو گزارا تھا اوراس کی تازگیوں کو پڑمردہ بنادیا تھا اب ان کے مکانات قبر بن گئے ہیں اور ان کے اموال میراث قرارپا گئے ہیں۔نہ انہیں اپنے پاس آنے والوں کی خبر ہے اور نہ رونے والوں کی پرواہ ہے اور نہ پکارنے والوں کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

اس دنیا سے بچو کہ یہ بڑی دھوکہ باز۔فریب کار۔غدار۔دینے والی اورچھیننے والی اورلباس پہنا کراتار لینے والی(۱) ہے

(۱) یہ موت کا عجیب و غریب کاروبار ہے کہ مالک کودنیا سے اٹھالے جاتی ہے اور اس کامال ایسے افراد کے حوالے کر دیتی ہے جو نہ زندگی میں کام آئے اور نہ موت کے مرحلہ ہی میں ساتھ دے سکے۔کیا اس سے زیادہ عبرت کا کوئی مقام ہو سکتا ہے کہ انسان ایسی موت سے غافل رہے اور چند روز ہ زندگی کی لذتوں میں مبتلا ہو کرموت کے جملہ خطرات سے بے خبر ہو جائے ۔

۴۶۳

لَا يَدُومُ رَخَاؤُهَا - ولَا يَنْقَضِي عَنَاؤُهَا ولَا يَرْكُدُ بَلَاؤُهَا.

ومنها في صفة الزهاد - كَانُوا قَوْماً مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا ولَيْسُوا مِنْ أَهْلِهَا – فَكَانُوا فِيهَا كَمَنْ لَيْسَ مِنْهَا - عَمِلُوا فِيهَا بِمَا يُبْصِرُونَ - وبَادَرُوا فِيهَا مَا يَحْذَرُونَ - تَقَلَّبُ أَبْدَانِهِمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِ الآخِرَةِ - ويَرَوْنَ أَهْلَ الدُّنْيَا يُعَظِّمُونَ مَوْتَ أَجْسَادِهِمْ - وهُمْ أَشَدُّ إِعْظَاماً لِمَوْتِ قُلُوبِ أَحْيَائِهِمْ.

(۲۳۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها بذي قار - وهو متوجه إلى البصرة ذكرها الواقدي في كتاب «الجمل»:

فَصَدَعَ بِمَا أُمِرَ بِه وبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّه - فَلَمَّ اللَّه بِه الصَّدْعَ ورَتَقَ بِه الْفَتْقَ - وأَلَّفَ بِه الشَّمْلَ بَيْنَ ذَوِي الأَرْحَامِ - بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِي الصُّدُورِ - والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِي الْقُلُوبِ.

نہ اس کی آسائشیں رہنے والی ہیں اورنہ اس کی تکلیفیں ختم ہونے والی ہیں اور نہ اس کی بلائیں تھمنے والی ہیں۔

(کچھ زاہدوں کے برے میں )یہ انہیں دنیا والوں میں تھے لیکن اہل دنیا نہیں تھے ۔ایسے تھے جیسے اس دنیا کے نہ ہوں۔دیکھ بھال کرعمل کیا اور خطرات سے آگے نکل گئے۔گویا ان کے بدن اہل آخرت کے درمیان کروٹیں بدل رہے ہیں اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اہل دنیا ان کی موت کوبڑی اہمیت دے رہے ہیں حالانکہ وہخود ان زندوں کے دلوں کی موت کو زیادہ بڑا حادثہ قرار دے رہے ہیں۔

(۲۳۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسے بصرہ جاتے ہوئے مقام ذی قار میں ارشاد فرمایا اوراسے واقدی نے کتاب الجمل میں نقل کیا ہے )

رسول اکرم (ص) نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہنچادیا۔اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا ۔شگاف کو بھر دیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اوردلوں میں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے ۔

(۱) دنیاکی اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں ہو سکتی ہے کہ یہ ایک دن بہترین لباس سے انسان کو آراستہ کرتی ہے اور دوسرے دن اسے اتار کر سر راہ برہنہ کردیتی ہے۔یہی حال ظاہری لباس کابھی ہوتا ہے اور یہی حال معنوی لباس کابھی ہوتا ہے۔حسن دے کربد شکل بنا دیتی ہے جوانی دے کر بوڑھا کردیتی ہے۔زندگی دے کرمردہبنا دیتی ہے۔تخت و تاج دے کرکنج قبر کے حوالہ کردیتی ہے اور صاحب دربارو بارگاہ بنا کر قبرستان کے وحشت کدہ میں چھوڑ آتی ہے ۔

۴۶۴

(۲۳۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به عبد الله بن زمعة وهو من شيعته، وذلك أنه قدم عليه في خلافته يطلب منه مالا فقالعليه‌السلام :

إِنَّ هَذَا الْمَالَ لَيْسَ لِي ولَا لَكَ - وإِنَّمَا هُوَ فَيْءٌ لِلْمُسْلِمِينَ وجَلْبُ أَسْيَافِهِمْ - فَإِنْ شَرِكْتَهُمْ فِي حَرْبِهِمْ كَانَ لَكَ مِثْلُ حَظِّهِمْ - وإِلَّا فَجَنَاةُ أَيْدِيهِمْ لَا تَكُونُ لِغَيْرِ أَفْوَاهِهِمْ.

(۲۳۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد أن أقدم أحدهم عل الكلام فحصر، وهو في فضل أهل البيت، ووصف فساد الزمان

أَلَا وإِنَّ اللِّسَانَ بَضْعَةٌ مِنَ الإِنْسَانِ - فَلَا يُسْعِدُه الْقَوْلُ إِذَا امْتَنَعَ - ولَا يُمْهِلُه النُّطْقُ إِذَا اتَّسَعَ - وإِنَّا لأُمَرَاءُ الْكَلَامِ

(۲۳۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب عبداللہ بن زکعہ کو قرادیا تھا جو کہ آپ کے اصحاب میں شمار ہوتا تھا اور اس نے آپ سے مال کا مطالبہ کرلیا تھا)

یہ مال نہ میرا ہے اور نہ تیرا۔یہ مسلمانوں کا مشترکہ حق ہے اوران کی تلواروں کا نتیجہ ہے لہٰذا اگرت ونے ان کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا ہے تو انہیں کی طرح تیرا بھی حصہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایک شخص کے ہاتھ کی کمائی دوسرے کے منہ کا نوالہ(۱) نہیںبن سکتی ہے۔

(۲۳۳)

آپ کا ارشاد گرامی

فضائل اہلبیت ع اورزمانے کے فسادات کے بارے میں

یاد رکھو کہ زبان انسانی وجود کا ایک ٹکڑا ہے لہٰذا جب انسان رکجاتا ہے تو زبان ساتھ نہیں دے سکتی ہے اور جب انسان کے ذہن میں کشادگی ہوتی ہے تو زبان کو رکنے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔ہم اہل بیت(۲) جو اقلیم سخن

(۱)اس سے بہتر موعظہ و نصیحت عالم عمل و اکتساب میں ممکن نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ اس امر کا احساس رکھے کہ اگر کی مال سے استفادہ کرنے کا شوق ہے تو اس کی راہمیں عمل اورمحنت بھی ضروری ہے۔ورنہ ایک انسان کے نتیجہ عمل کو دوسرے کے حوالہ نہیں کیا جا سکتاہے اورنہدین خدا اس طرح کی مفت خوری اورحرام خوری کو برداشت کرسکتا ہے۔

(۲)کہا جاتا ہے کہ حضرت نے اپنے بھانجے جعدہ بن ہبیرہ مخزومی کو خطبہ پڑھنے کاحکم دیا تو ان کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی اور آپ نے زبان و بیان کے فضائل کے ساتھ اس حقیقت کا اعلان کیاکہ اہل بیت اقلیم سخن کے حکام ہیں لہٰذا جعدہ کو عاجز اور گونگا تصورنہیں کرنا چاہیے۔یہ ماحول کا اثرتھا کہ وہخطبہ نہ پیش کرس کے ۔اور زبان میں لکنت پیدا ہوگئی۔بلکہ ایسی صورت حال اکثر اوقات انسان کے کمال معرفت کی دلیل بن جاتی ہے کہ وہ بزرگوں کی بزرگی کا ادراک رکھتا ہے اور ان کے سامنے روانی کے ساتھ تقریر نہیں کرسکتا ہے۔

۴۶۵

وفِينَا تَنَشَّبَتْ عُرُوقُه - وعَلَيْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُونُه.

فساد الزمان

واعْلَمُوا رَحِمَكُمُ اللَّه أَنَّكُمْ فِي زَمَانٍ - الْقَائِلُ فِيه بِالْحَقِّ قَلِيلٌ - واللِّسَانُ عَنِ الصِّدْقِ كَلِيلٌ - واللَّازِمُ لِلْحَقِّ ذَلِيلٌ - أَهْلُه مُعْتَكِفُونَ عَلَى الْعِصْيَانِ - مُصْطَلِحُونَ عَلَى الإِدْهَانِ فَتَاهُمْ عَارِمٌ - وشَائِبُهُمْ آثِمٌ وعَالِمُهُمْ مُنَافِقٌ - وقَارِنُهُمْ مُمَاذِقٌ لَا يُعَظِّمُ صَغِيرُهُمْ كَبِيرَهُمْ - ولَا يَعُولُ غَنِيُّهُمْ فَقِيرَهُمْ.

(۲۳۴ )

ومن كلام لهعليه‌السلام

رَوَى ذِعْلَبٌ الْيَمَامِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ قُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّه بْنِ يَزِيدَ عَنْ مَالِكِ بْنِ دِحْيَةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمنِيِنَعليه‌السلام - وقَدْ ذُكِرَ عِنْدَه اخْتِلَافُ النَّاسِ فَقَالَ:

إِنَّمَا فَرَّقَ بَيْنَهُمْ مَبَادِئُ طِينِهِمْ

کے حکام ہیں۔ہمارے ہی اندر بیان کی جڑیں پیوست ہیں اور ہمارے ہی سر پر خطابت کی شاخیں سایہ فگن ہیں۔

(خدا تم پر رحم کرے ) یہ یاد رکھو کہتم اس زمانہ میں زندگی گذاررہے ہو جس میں حق کہنے والوں کی قلت ہے اور زبانیں صدق بیانی سے کند ہوگئی ہیں۔حق سے وابستہ رہنے والا ذلیل شمار ہوتا ہے اور اہل زمانہ گناہ و ناف رمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری پرمتحد ہوگئے ہیں۔جو ان بد خوہیں اور بوڑھے گناہ گار۔عالم منافق ہیں اور قاری چاپلوس۔نہ چھوٹے بڑوں کی تعظیمکرتے ہیں اور نہ دولت مند فقیروں کی دستگیری کرتے ہیں۔

(۲۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

( غلب یمانی احمد بن قتیبہ سے۔انہوں نے عبداللہ بن یزید سے اور انہوں نے مالک بن وحیہ کلبی سے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین کے سامنے لوگوں کے اختلاف ا مزاج کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا)

لوگوں کے درمیان یہ تفرقہ ان کی(۱) طینت

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی شکل و صورت اور اس کی طبیعت و فطرت میں ایک طرح کا رابطہ ضرورپایا جاتا ہے جیسا کہ دورحاضر کے بعض محققین نے ثابت جکیا ہے لیکن اس کا یہمطلب ہرگز نہیں ہے کہ ساری زندگی کے اعمال و کردار کا فیصلہ ابھی اسی طینت اورخاک سے ہو جاتا ہے۔انسانی زندگی پر تعلیم وتربیت کا بہر حال اثر ہوتا ہے اور اسی کے اعتبار سے کرداروں میں اختلاف بھی پیدا ہوجاتا ہے۔لیکن بنیادی سبب طینت کا اختلاف ہی ہے اور یہ ایک فطری شے ہے کہ جو چیز جس سے بنائی جائے گی اس مادہ کا اثر اس کے مزاج پر ضرور ہوگا۔

تجربات کی بنا پر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریگ زاروں کی مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کی طبیعت میں کسی طرح کی چیک نہیں ہوتی ہے اور کھارے پانی سے گندھی ہوئی مٹی کی مخلوقات میں حلاوت اور شیرینی نہیں ہوتی ہے۔یہ اوربات ہے کہ یہ طے کرنا سخت دشوار ہے کہ کون کس مٹی سے بنا ہے اور کس کی مٹی کس پانی سے گوندھی گئی ہے۔حالات کسی مقدار میں نشاندہی کر سکتے ہیں لیکن اسے دلیل مستقل نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔

۴۶۶

وذَلِكَ أَنَّهُمْ كَانُوا فِلْقَةً مِنْ سَبَخِ أَرْضٍ وعَذْبِهَا - وحَزْنِ تُرْبَةٍ وسَهْلِهَا - فَهُمْ عَلَى حَسَبِ قُرْبِ أَرْضِهِمْ يَتَقَارَبُونَ - وعَلَى قَدْرِ اخْتِلَافِهَا يَتَفَاوَتُونَ - فَتَامُّ الرُّوَاءِ نَاقِصُ الْعَقْلِ - ومَادُّ الْقَامَةِ قَصِيرُ الْهِمَّةِ - وزَاكِي الْعَمَلِ قَبِيحُ الْمَنْظَرِ - وقَرِيبُ الْقَعْرِ بَعِيدُ السَّبْرِ - ومَعْرُوفُ الضَّرِيبَةِ مُنْكَرُ الْجَلِيبَةِ - وتَائِه الْقَلْبِ مُتَفَرِّقُ اللُّبِّ - وطَلِيقُ اللِّسَانِ حَدِيدُ الْجَنَانِ.

(۲۳۵)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

قَالَه وهُوَ يَلِي غُسْلَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وتَجْهِيزَه

بِأَبِي أَنْتَ وأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّه - لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ يَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَيْرِكَ - مِنَ النُّبُوَّةِ والإِنْبَاءِ وأَخْبَارِ السَّمَاءِ - خَصَّصْتَ حَتَّى صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاكَ - وعَمَّمْتَ حَتَّى صَارَ النَّاسُ فِيكَ سَوَاءً - ولَوْ لَا أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ ونَهَيْتَ عَنِ الْجَزَعِ - لأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ الشُّئُونِ - ولَكَانَ الدَّاءُ مُمَاطِلًا والْكَمَدُ مُحَالِفاً - وقَلَّا لَكَ

کی بنیادوںسے پیدا ہوا ہے کہ وہ شورو شیریں اور ہموارو نا ہموار زمین کاایک حصہ ہیں۔لہٰذا جس قدر ان کیزمین میں قربت ہوگی ان میں اتفاق ہوگا اور جس قدر طینت میں اختلاف پیدا ہوگا۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صورت کا حسین و جمیل عقل کا ناقص اور قدو قامت کا طویل ہمت کا قصیر ہوتا ہے۔عمل کا پاکیزہ ' منظر کا قبیح ہوتا ہے اور قد کا کوتاہ فکر کا دور اندیش ہوتا ہے۔فطری اعتبار سے نیک اعمال کے اعتبارسے بد اوردل کے اعتبارسے پریشان' دماغ کے اعتبارس ے پراگندہ اور اس طرح زبان کے اعتبارسے بہترین بولنے والا' ہوش مند دل رکھنے والا ہوتا ہے۔

(۲۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے رسول اکرم (ص) کے جنازہ کو غسل و کفن دیتے وقت ارشاد فرمایا تھا )

یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔ آپ کے انتقال سے وہ نبوت الٰہی احکام اورآسمانی اخبارکا سلسلہ منقطع ہوگیا جو آپ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا۔آپ کا غم اہل بیت کے ساتھیوں خاص ہوا کہ ان کے لئے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لئے عام ہوا کہ سب برابر کے شریک ہوگئے۔ اگر آپ نے صبر کاحکم نہ دیا ہوتا اورنالہ وفریاد سے منع نہکیا ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کردیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج و الم ہمیشہ

۴۶۷

ولَكِنَّه مَا لَا يُمْلَكُ رَدُّه - ولَا يُسْتَطَاعُ دَفْعُه - بِأَبِي أَنْتَ وأُمِّي اذْكُرْنَا عِنْدَ رَبِّكَ واجْعَلْنَا مِنْ بَالِكَ!

(۲۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

اقتص فيه ذكر ما كان منه - بعد هجرة النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثم لحاقه به:

فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ مَأْخَذَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَأَطَأُ ذِكْرَه حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرَجِ

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - في كلام طويل: قولهعليه‌السلام فأطأ ذكره - من الكلام الذي رمى به إلى غايتي الإيجاز والفصاحة - أراد أني كنت أعطى خبرهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - من بدء خروجي إلى أن انتهيت إلى هذا الموضع - فكنى عن ذلك بهذه الكناية العجيبة.

(۲۳۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المسارعة إلى العمل

فَاعْمَلُوا وأَنْتُمْ فِي نَفَسِ الْبَقَاءِ - والصُّحُفُ مَنْشُورَةٌ والتَّوْبَةُ مَبْسُوطَةٌ - والْمُدْبِرُ يُدْعَى

ساتھ رہ جاتا۔لیکن موت ایک ایسی چیز ہے جس کا پلٹا دینا کسی کے اختیار میں نہیں ہے اور جس کا ٹال دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔

(۲۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں رسول اکرم (ص)کی ہجرت کے بعدآپ سے ملحق ہنے تک کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے )

میں مسلسل رسول اکرم (ص) کے نقش قدم پر چلتا رہا اوران کیذکر کے خطوط پر قدم جماتا رہا۔یہاں تک کہ مقام عرج تک پہنچ گیا۔

سید رضی : آپ کا ارشاد گرامی ''فاطاذکرہ'' وہ کلام ہے جس میں ایجاز و فصاحت کی آخری حدوں کو پیش کردیا گیا ہے اورجن کا مقصد یہ ہے کہ میرے پاس مسلسل سرکاری کی خبریں پہنچ رہی تھیں اور میں انہیں خطوط پر آگئے بڑھ رہاتھا۔یہاں تک کہ مقام عرج پر پہنچ گیا۔

(۲۳۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(عمل میں تیز رفتاری کی دعوت دیتے ہوئے )

تم لوگ ابھی عمل کرو جبکہ بقا کی وسعت حاصل ہے اور نامۂ اعمال کھلے ہوئے ہیں۔توبہ کا دامن پھیلا ہوا ہے اور انحراف کرنے والوں کو برابر دعوت دی

۴۶۸

والْمُسِيءُ يُرْجَى - قَبْلَ أَنْ يَخْمُدَ الْعَمَلُ ويَنْقَطِعَ الْمَهَلُ - ويَنْقَضِيَ الأَجَلُ ويُسَدَّ بَابُ التَّوْبَةِ - وتَصْعَدَ الْمَلَائِكَةُ

فَأَخَذَ امْرُؤٌ مِنْ نَفْسِه لِنَفْسِه وأَخَذَ مِنْ حَيٍّ لِمَيِّتٍ - ومِنْ فَانٍ لِبَاقٍ ومِنْ ذَاهِبٍ لِدَائِمٍ - امْرُؤٌ خَافَ اللَّه - وهُوَ مُعَمَّرٌ إِلَى أَجَلِه ومَنْظُورٌ إِلَى عَمَلِه - امْرُؤٌ أَلْجَمَ نَفْسَه بِلِجَامِهَا وزَمَّهَا بِزِمَامِهَا - فَأَمْسَكَهَا بِلِجَامِهَا عَنْ مَعَاصِي اللَّه - وقَادَهَا بِزِمَامِهَا إِلَى طَاعَةِ اللَّه.

(۲۳۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن الحكمين وذم أهل الشام

جُفَاةٌ طَغَامٌ وعَبِيدٌ أَقْزَامٌ - جُمِعُوا مِنْ كُلِّ أَوْبٍ وتُلُقِّطُوا مِنْ كُلِّ شَوْبٍ - مِمَّنْ يَنْبَغِي أَنْ يُفَقَّه ويُؤَدَّبَ - ويُعَلَّمَ ويُدَرَّبَ ويُوَلَّى عَلَيْه - ويُؤْخَذَ عَلَى يَدَيْه

جا رہی ہے اوربدعمل افراد کو مہلت دی جا رہی ہے۔قبل اس کے کہ شعلہ عمل بجھ جائے اور مہلت کی مدت ختم ہو جائے اور مدتعمل تمام ہو جائے ۔توبہ کا دروازہ بند ہوجائے اورملائکہ آسمان کی طرف صعود کرجائیں ۔

ہرش خص کو چاہیے کہ اپنے نفس سے اپنے نفس کا انتظام کرے۔زندہ سے مردہ کے لئے اور فانی سے باقی کے لئے اور جانے والے سے رہ جانے والے کے لئے لے لے۔

جب تک موت تک کی زندگی مل رہی ہے اورعمل کی مہلت ملی ہوئی ہے خدا کاخوف پیدا کرے۔

اپنے نفس کو لگام لگائے اوراسے زمام دے کہ معاصی خدا سے روک دے اور کھینچ کر اطاعت الٰہی تک لے آئے ۔

(۲۳۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(حکمین کے حالات اوراہل شام کی مذمت کے بارے میں )

یہ چند تند خو اوربد سر شت افراد ہیں اور غلامانہ ذہنیت کے بد قماش ہیں جنہیں ہرطرف سے جمع کرلیا گیا ہے اور ہرمخلوط نسب سے چن لیا گیا ہے۔یہ لوگ اس قابل تھے کہانہیں مذہب سکھایا جائے ' مودب بنایا جائے ۔ تعلیم دی جائے اورتربیت یافتہ بنایاجائے ان پر لوگوں کو حاکم بنایا جائے اوران کا ہاتھ پکڑ کرچلایا جائے۔یہ نہ

۴۶۹

- لَيْسُوا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - ولَا مِنَ( الَّذِينَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ والإِيمانَ ) .

أَلَا وإِنَّ الْقَوْمَ اخْتَارُوا لأَنْفُسِهِمْ - أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تُحِبُّونَ - وإِنَّكُمُ اخْتَرْتُمْ لأَنْفُسِكُمْ - أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تَكْرَهُونَ - وإِنَّمَا عَهْدُكُمْ بِعَبْدِ اللَّه بْنِ قَيْسٍ بِالأَمْسِ يَقُولُ - إِنَّهَا فِتْنَةٌ فَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وشِيمُوا سُيُوفَكُمْ - فَإِنْ كَانَ صَادِقاً فَقَدْ أَخْطَأَ بِمَسِيرِه غَيْرَ مُسْتَكْرَه - وإِنْ كَانَ كَاذِباً فَقَدْ لَزِمَتْه التُّهَمَةُ - فَادْفَعُوا فِي صَدْرِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ - بِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ - وخُذُوا مَهَلَ الأَيَّامِ وحُوطُوا قَوَاصِيَ الإِسْلَامِ -

مہاجرین(۱) میںتھے نہ انصار میں اور نہ ان لوگوں میں جنہوں نے مدینہ میں یا ایمان میں اپنی جگہ بنائی تھی۔

یاد رکھو کہ قوم نے اپنے لئے ان لوگوں کو منتخب کیا ہے جو ان کی پسند سے قریب تھے اورتم نے اپنے لئے ان افراد کا انتخاب کیا ہے جو تمہاری نا پسندیدگی سے قریب تھے ۔ابھی تمہارا اور عبداللہ بن قیس کا زمانہ کل ہی کا ہے جب وہ یہ کہہ رہا تھاکہ ''یہ جنگ ایک فتنہ(۲) ہے لہٰذا اپنی کمانوں کو توڑ ڈالو اور تلواروں کو نیام میں رکھ لو۔اب اگریہ اپنی بات میں سچا تھا تو میرے ساتھ بلا جبر و اکراہ چلنے میں غلط کار تھا اور غلط کہتا تھا تو اس پر الزام ثابت ہوگیا تھا۔اب تمہارے پاس عمروبن العاص کا توڑ عبداللہ بن عباس ہیں۔دیکھو ان دنوں کی مہلت کو غنیمت جانو اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرو۔کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو

(۱)معاویہ کے لشکر اور امیرالمومنین کے سپاہیوں کا ایک نمایاں بنیادی فرق یہ تھا کہ معاویہ کے لشکر میں تمام کے تمام افراد بد سرشت ۔بد نسل ۔بد کردار اوربے ایمان تھے ۔نہ ایک مہاجر نہ ایک ناصر۔اورنہ ایک معروف ایمان و کردار والا۔ اوراس کے برخلاف امیرالمومنین کے سپاہیوں میں ۲۸۰۰ مہاجرین اور انصارتھے ۔اور ان میں سے ۸۰ تو وہافراد تھے جو جنگ بدر میں شرکت کرچکے تھے اور جن کے ایمان کی شہادت دی جا چکی تھی اوران سب سے بالا ترعمار یا سر جیسا صحابی موجود تھا جس کے قاتل کوسرکار(ص) نے باغی قراردیات ھا اور اویس قرنی جیسا جاں نثار موجود تھا جس کے علاقہ سے ایمان کی خوشبو آتی تھی۔

ایسے واضح حالات کے بعد بھی انسان نفس رسول (ص) کو چھوڑ کربنی امیہ کے بد سرشت انسان کا اتباع کرے تو اس کا انجام جہنم کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے اور اسے کس رخ سے مسلمان یا مومن کہاجاسکتا ہے۔

(۲)ابن ابی الحدید نے اس مقام پر خود ابوموسیٰ اشعری کی زبان سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سرکار دو عالم (ص) نے فرمایا کہ جس طرح بنی اسرائیل میں دوگمراہ حکم تھے اسی طرح اس امت میں بھی ہوں گے۔تو لوگوں نے ابو موسیٰ سے کہاکہ کہیں آپایسے نہ ہو جائیں۔اس نے کہا یہ نا ممکن ہے اور اس کے بعد جب وقت آیا تو طمع دنیا نے ایسا ہی بنا دیا جس کی خبر سرکار دوعالم (ص) نے دی تھی۔

حیرت کی بات ہے کہ حکمین کے بارے میں روایت خود ابو موسیٰ نے بیان کی ہے اور حواب کے سلسلہ کی روایت خود ام المومنین عائشہ نے نقل کی ہے لیکن اس کے باوجود نہ اس روایت کا کوئی اثر ابو موسیٰ پر ہوا اور نہ اس روایت کا کوئی اثر حضرت عائشہ پر۔

اس صورت حال کو کیا کہا جائے اور اسے کیا نام دیا جائے ۔انسان کا ذہن صحیح تعبری سے عاجز ہے۔اور ''ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہے ''

۴۷۰

أَلَا تَرَوْنَ إِلَى بِلَادِكُمْ تُغْزَى وإِلَى صَفَاتِكُمْ تُرْمَى؟

(۲۳۹ )

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها آل محمد صلى الله عليه وآله

هُمْ عَيْشُ الْعِلْمِ ومَوْتُ الْجَهْلِ - يُخْبِرُكُمْ حِلْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ،وظَاهِرُهُمْ عَنْ بَاطِنِهِمْ - وصَمْتُهُمْ عَنْ حِكَمِ مَنْطِقِهِمْ - لَا يُخَالِفُونَ الْحَقَّ ولَا يَخْتَلِفُونَ فِيه - وهُمْ دَعَائِمُ الإِسْلَامِ ووَلَائِجُ الِاعْتِصَامِ - بِهِمْ عَادَ الْحَقُّ إِلَى نِصَابِه وانْزَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ مُقَامِه - وانْقَطَعَ لِسَانُه عَنْ مَنْبِتِه - عَقَلُوا الدِّينَ عَقْلَ وِعَايَةٍ ورِعَايَةٍ - لَا عَقْلَ سَمَاعٍ ورِوَايَةٍ - فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ ورُعَاتَه قَلِيلٌ.

(۲۴۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لعبد الله بن العباس - وقد جاءه برسالة من عثمان

کہ تمہارے شہروں پرحملے ہو رہے ہیں اور تمہاری طاقت و قوت کونشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

(۲۳۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آل محمد علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے)

یہ لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ان کا حلم ان کے علم سے اور ان کا ظاہر ان کے باطن سے اور ان کی خموشی ان کے کلام سے با خبر کرتی ہے۔یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اورنہ حق کے بارے میں کوئی اختلاف کرتے ہیں یہ اسلام کے ستون(۱) اور حفاظت کے مراکز ہیں۔انہیں کے ذریعہ حق اپنے مرکز کی طرف واپس آیا ہے اور باطل اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہے اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی ہے۔انہوں نے دین کو اس طرح پہچانا ہے جو سمجھ اور نگرانی کا نتیجہ ہے۔صرف تننے اور روایت کا نتیجہ نہیں ہے۔اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اوراس کا خیال رکھنے والے بہت کم ہیں۔

(۲۴۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جواس وقت فرمایا جب محاصرہ کے زمانے میں عبداللہ بن عباس عثمان کاخط لے کر آئے جس

(۱)سرکار دو عالم (ص) نے ایک طرف نماز کو اسلام کا ستون قراردیا ہے اوردوسری طرف اہل بیت کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو مجھ پر اور ان پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز باطل اور بیکار ہے ( سنن دار قطنی ص ۱۳۶) جس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ نماز اسلام کا ستون ہے اور محبت اہل بیت نماز کا ستون اکبر ہے نماز نہیں ہے تواسلام نہیں ہے اور اہل بیت نہیں ہیں تو نماز نہیں ہے۔

۴۷۱

وهو محصور يسأله فيها الخروج إلى ماله بينبع، ليقل هتف الناس باسمه للخلافة، بعد أن كان سأله مثل ذلك من قبل، فقالعليه‌السلام

يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا يُرِيدُ عُثْمَانُ - إِلَّا أَنْ يَجْعَلَنِي جَمَلًا نَاضِحاً بِالْغَرْبِ أَقْبِلْ وأَدْبِرْ - بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ ثُمَّ بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَقْدُمَ - ثُمَّ هُوَ الآنَ يَبْعَثُ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ - واللَّه لَقَدْ دَفَعْتُ عَنْه حَتَّى خَشِيتُ أَنْ أَكُونَ آثِماً.

(۲۴۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يحث به أصحابه على الجهاد

واللَّه مُسْتَأْدِيكُمْ شُكْرَه ومُوَرِّثُكُمْ أَمْرَه - ومُمْهِلُكُمْ فِي مِضْمَارٍ مَحْدُودٍ لِتَتَنَازَعُوا سَبَقَه - فَشُدُّوا عُقَدَ الْمَآزِرِ

میں یہ مطالبہ کیا گیا تھاکہ آپ اپنے املاک کی طرف مقام منبع(۱) میں چلے جائیں تاکہ لوگوں میں خلافت کے لئے آپ کے نام کی آواز کم ہو جائے اور ایسا ہی مطالبہ پہلے بھی ہوچکا ہے )

ابن عباس ! عثمان کا مقصد صرف یہ ہے کہ مجھے ایک پانی کھینچنے والے اونٹ کی مثال بنادے کہ میں ہی ڈول کے ساتھ آگے بڑھتا رہوں اور پیچھے ہٹتا رہوں۔اس نے پہلے بھی یہ مطالبہ کیا تھا کہ میں باہر نکل جائوں۔پھر تقاضا کیا کہ واپس آجائوں اورآج پھر یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ باہو چلا جائوں۔خداکی قسم میں نے عثمان سے یہاں تک دفاع کیا کہ یہ خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں گناہ گار نہ ہو جائوں۔

(۲۴۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنے اصحاب کو جہاد پر آمادہ کیا ہے )

پروردگار تم سے اپنے لشکر کے ادا کرنے کا تقاضا کر رہا ہے اور اس نے تمہیں اپنے امرکاصاحب اختیار بنادیاہے اورتمہیں ایک محدود میدان میں مہلت دے دی ہے تاکہ اس کے انعامات کی طرف سبقت میں مقابلہ کرو لہٰذا اپنی کمر یں مضبوطی کے ساتھ کس لو اور

(۱)منبع مدینہ کے قریب ایک مقام ہے جس کا شمارا راضی خراج میں ہوتا تھا۔رسول اکرم (ص) نے اسے امیر المومنین کودے دیا تھا اور آپ نے وہاں ایک چشمہ جاری کیا تھا جس کی بنا پر اس کا نام ینبع ہوگیا تھا۔عثمان نے مظاہرین کے حالات کو دیکھ کر کہا وہ خلافت کے لئے امیر المومنین کا نام لے رہے ہیں آپ کو ینیع جانے کا حکم دے دیا۔آپ وہاں تشریف لے گئے تو دوبارہ امداد کے لئے پھر طلب کرلیا۔اور اس کے بعد پھر منبع جانے کا تقاضا کردیا تو آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ واضح کردیا کہ اس سے زیادہ عثمان کی حمایت انسان کو گناہ گار بنا سکتی ہے لہٰذا اب مزید حمایت کا کوئی امکان نہیں ہے ہر انسان کواپنے اعمال کے نتائج کو بہر حال برداشت کرنا چاہیے۔

۴۷۲

واطْوُوا فُضُولَ الْخَوَاصِرِ - لَا تَجْتَمِعُ عَزِيمَةٌ ووَلِيمَةٌ - مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْيَوْمِ - وأَمْحَى الظُّلَمَ لِتَذَاكِيرِ الْهِمَمِ.

وصلى اللَّه على سيدنا محمد النبي الأمي، وعلى آله مصابيح الدجى والعروة الوثقى، وسلم تسليما كثيرا

اپنے دامن کو سمیٹ لو اور یہ یاد رکھو کہ عزم محکم و لیموں کے ساتھ جمع نہیں ہوتا ہے۔رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدرشکستہ کر دیتی ہے اور اس کی تاریکیاں ہمت و جرأت کی یادوں کوکس قدر فنا کردینے والی ہوتی ہیں۔

والحمد للہ رب العالمین

۴۷۳

باب المختار من كتب مولانا أمير المؤمنين عليعليه‌السلام

ورسائله إلى أعدائه وأمراء بلاده، ويدخل في ذلك ما اختير من عهوده إلى عماله

ووصاياه لأهله وأصحابه.

(۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل الكوفة - عند مسيره من المدينة إلى البصرة

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ - جَبْهَةِ الأَنْصَارِ وسَنَامِ الْعَرَبِ

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُخْبِرُكُمْ عَنْ أَمْرِ عُثْمَانَ - حَتَّى يَكُونَ

مکاتیب و رسائل

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی تحریروں کا ایک انتخاب

جس میں آپ کے دشمنوں اور حکام بلاد کے نام سرکاری خطوط کے علاوہ اپنے اعمال کے نام عہد ناموں اور اولاد کے نام وصیتوں کا مضمون بھی شامل کرلیا گیا ہے۔

(۱)

مکتوب

(اہل کوفہ کے نام ۔مدینہ سے بصرہ روانگی کے وقت

بندہ خدا ' امیرالمومنین علی کی طرف سے اہل کوفہ کے نام جو مدد گاروں میں سربرآوردہ ہیں اور عرب میں بلند وبالا شخصیت کے مالک ہیں۔

اما بعد! میں تمہیں قتل(۱) عثمان کے بارے میں حقیقت حال سے یوں آگاہ کردیناچاہتا ہوں جیسے تم نے خود

(۱)صورت حال کا خلاصہ یہ ہے کہ عثمان کے والیوں کے کردار سے عاجزآکر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو عثمان نے حضرت کو درمیان میں ڈالا۔آپ نے لوگوں کو سمجھا بجھا کر خاموش کردیا لیکن مروان نے م عاملہ کو پھرخراب کردیا۔اور لوگوں کے احتجاج کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھی۔ادھر ام المومنین نے نعلین و قمیص رسول (ص) کا حوالہ دے کرعثمان پر الزامات عائد کرنا شروع کردئیے کہابھی یہ پیراہن بھی میلا نہیں ہوا ہے اور عثمان نے سارا دین تباہ کردیا ہے جس کے نتیجہ میں لوگ قتل عثمان پر آمادہ ہوگئے اور طلحہ وزبیر نے اپنے مفادات کی خاطرآگ کو مزید بھڑکادیا اور آخری نتیجہ قتل عثمان کی شکل میں برآمد ہوا جیسا کہ تمام مورخین نے نقل کیا ہے۔

اس کے بعد اچانک امیرالمومنین کی خلافت کی خبر پاکر عائشہ نے اپنی رائے بدل دی اور عثمان کو مظلوم قرار دے کرحضرت سے انتقام خون عثمان لینے پرآمادہ ہوگئیں۔حضرت نے بے حد سمجھایا لیکن عورت کی ضد چیز ہی کچھ اور ہوتی ہے اور پھر طلحہ و زبیر کے مفادات جلتی پر پٹرول کا کام کر رہے تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ جمل کا معرکہ پیش آگیا اور بے شمار کلمہ گو تلوار کے گھاٹ اتر گئے ۔

ابن ابی الحدید نے اس حقیقت کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ جمل میں امیرالمومنین سے مقابلہ کرنے والے سب ہلک ہونے والے ہیں جب تک توبہ نہ کرلیں اور اپنے گناہ سے استغفار نہ کریں۔اور اس کے بعد یہ اضافہ کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے امیر المومنین سے معافی مانگ لی تھی زبیر جنگ سے پلٹ گیا تھا۔اور طلحہ نے وقت آخر اپنے کو اصحاب امیر المومنین میں شامل کرلیا تھا۔( خدا کرے ایسا ہی ہو؟ روایت کی ذمہ داری راوی کے سر ہوا کرتی ہے )

۴۷۴

سَمْعُه كَعِيَانِه - إِنَّ النَّاسَ طَعَنُوا عَلَيْه - فَكُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ أُكْثِرُ اسْتِعْتَابَه - وأُقِلُّ عِتَابَه - وكَانَ طَلْحَةُ والزُّبَيْرُ أَهْوَنُ سَيْرِهِمَا فِيه الْوَجِيفُ - وأَرْفَقُ حِدَائِهِمَا الْعَنِيفُ - وكَانَ مِنْ عَائِشَةَ فِيه فَلْتَةُ غَضَبٍ - فَأُتِيحَ لَه قَوْمٌ فَقَتَلُوه - وبَايَعَنِي النَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ - ولَا مُجْبَرِينَ بَلْ طَائِعِينَ مُخَيَّرِينَ.

واعْلَمُوا أَنَّ دَارَ الْهِجْرَةِ قَدْ قَلَعَتْ بِأَهْلِهَا وقَلَعُوا بِهَا - وجَاشَتْ جَيْشَ الْمِرْجَلِ - وقَامَتِ الْفِتْنَةُ عَلَى الْقُطْبِ - فَأَسْرِعُوا إِلَى أَمِيرِكُمْ - وبَادِرُوا جِهَادَ عَدُوِّكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه عَزَّ وجَلَّ.

(۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليهم بعد فتح البصرة

وجَزَاكُمُ اللَّه مِنْ أَهْلِ مِصْرٍ عَنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ - أَحْسَنَ مَا يَجْزِي الْعَامِلِينَ بِطَاعَتِه - والشَّاكِرِينَ لِنِعْمَتِه - فَقَدْ سَمِعْتُمْ وأَطَعْتُمْ ودُعِيتُمْ فَأَجَبْتُمْ.

مشاہدہ کیا ہو۔لوگوں نے جب عثمان پر اعتراضات کئے تو میں مہاجرین میں سب سے زیادہ اصلاح حال کا چاہنے والا اور سب سے کم ان پر عتاب کرنے والا تھا۔اورطلحہ و زبیر کی ہلکی رفتار بھی ان کے بارے میں تیز رفتاری کے برابرتھی اورنرم سے نرم آوازبھی سخت ترین تھی اورعائشہ تو ان کے بارے میں بے حد غضبناک تھیں۔چنانچہ ایک قوم کو موقع فراہم ہوگیا اور اس نے ان کو قتل کردیا۔جس کے بعد لوگوں نے میری بیعت کی جس میں نہ کوئی جبر تھا اور نہ اکراہ ۔بلکہ سب کے سب اطاعت گذار تھے اور خود مختار۔

اوریہ بھی یاد رکھو کہ اب مدینہ رسول اپنے باشندوں سے خالی ہو چکا ہے اور اس کے رہنے والے وہاں سے اکھڑ چکے ہیں۔وہاں کا ماحلو دیگ کی طرح ابل رہا ہے اوروہاں فتنہ کی چکی چلنے لگی ہے لہٰذا تم لوگ فوراً اپنے امیرکے پاس حاضر ہو جائو اور اپنے دشمن سے جہاد کرنے میں سبقت سے کامل و ۔انشاء اللہ ۔

(۲)

مکتوب

(جسےاہل کوفہ کےنام بصرہ کی فتح کےبعدلکھا گیاہے)

شہر کوفہ والو! خدا تمہیں تمہارے پیغمبر (ص) کے اہل بیت کی طرف سے جزائے خیردے ۔ایسی بہترین جزا جواس کی اطاعت پرعمل کرنے والوں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔کہ تم نے میری بات سنی اور اطاعت کی اورتمہیں پکارا گیا تو تم نے میری آواز پرلبیک کہی ۔

۴۷۵

(۳)

ومن كتاب له عليالسلام

لشريح بن الحارث قاضيه

ورُوِيَ أَنَّ شُرَيْحَ بْنَ الْحَارِثِ قَاضِيَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - اشْتَرَى عَلَى عَهْدِه دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً - فَبَلَغَه ذَلِكَ فَاسْتَدْعَى شُرَيْحاً - وقَالَ لَه:

بَلَغَنِي أَنَّكَ ابْتَعْتَ دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً - وكَتَبْتَ لَهَا كِتَاباً وأَشْهَدْتَ فِيه شُهُوداً.

فَقَالَ لَه شُرَيْحٌ قَدْ كَانَ ذَلِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْه نَظَرَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ لَه

يَا شُرَيْحُ أَمَا إِنَّه سَيَأْتِيكَ مَنْ لَا يَنْظُرُ فِي كِتَابِكَ - ولَا يَسْأَلُكَ عَنْ بَيِّنَتِكَ - حَتَّى يُخْرِجَكَ مِنْهَا شَاخِصاً ويُسْلِمَكَ إِلَى قَبْرِكَ خَالِصاً

(۳)

مکتوب

(اپنے قاضی شریح کے نام(۱)

کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین کے ایک قاضی شریح بن الحارث نے آپ کیدورمیں اسی دینار کا ایک مکان خرید لیا تو حضرت نے خبرپاتے ہی اسے طلب کرلیا اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے اسی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پرگواہی بھی لے لی ہے ؟

شریح! عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کودیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کرے گا بلکہ تجھے اس گھرسے نکال کر تن تنہا قبر کے حوالہ کردے گا۔

(۱) صاحب اغانی نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ امیر المومنین کا اختلاف ایک یہودی سے ہوگیا جس کے پاس آپ کی زرہ تھی۔اسنے قاضی سے فیصلہ کرانے پر اصرار کیا آپ یہودی کے ساتھ شریح کے پاس آئے ۔اس نے آپ سے گواہ طلب کئے آپ نے قنبر اورامام حسن کو پیش کیا۔شریح نے قنبر کی گواہی قبول کرلی۔اور امام حسن کی گواہی فرزند ہونے کی بنا پر رد کردی۔آٰپ نے فرمایا کہ رسول اکرم (ص) نے انہیں سر دار جوانان جنت قراردیا ہے اور تم ان کی گواہی کو رد کر رہے ہو؟ لیکن اس کے باوجود آپ نے فیصلہ کا خیال کرتے ہوئے زرہ یہودی کو دے دی۔اس نے واقعہ کو نہایت درجہ حیرت کی نگاہ سے دیکھا اور پھر کلمہ شہادتین پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔آپ نے زرہ کے ساتھ اسے گھوڑا بھی دے دیا اور ۹۰۰درہم وظیفہ مقرر کردیا۔وہ مستقل آپ کی خدمت میں حاضر رہا یہاں تک کہ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہو گیا۔

اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کردار کیا تھا اور شریح کی بد نفسی کا کیا عالم تھا اور یہودی کے ظرف میں کس قدر صلاحیت پائی جاتی تھی۔

۴۷۶

- فَانْظُرْ يَا شُرَيْحُ لَا تَكُونُ ابْتَعْتَ هَذِه الدَّارَ مِنْ غَيْرِ مَالِكَ - أَوْ نَقَدْتَ الثَّمَنَ مِنْ غَيْرِ حَلَالِكَ - فَإِذَا أَنْتَ قَدْ خَسِرْتَ دَارَ الدُّنْيَا

ودَارَ الآخِرَةِ -. أَمَا إِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَتَيْتَنِي عِنْدَ شِرَائِكَ مَا اشْتَرَيْتَ - لَكَتَبْتُ لَكَ كِتَاباً عَلَى هَذِه النُّسْخَةِ - فَلَمْ تَرْغَبْ فِي شِرَاءِ هَذِه الدَّارِ بِدِرْهَمٍ فَمَا فَوْقُ.

والنُّسْخَةُ هَذِه - هَذَا مَا اشْتَرَى عَبْدٌ ذَلِيلٌ مِنْ مَيِّتٍ قَدْ أُزْعِجَ لِلرَّحِيلِ - اشْتَرَى مِنْه دَاراً مِنْ دَارِ الْغُرُورِ - مِنْ جَانِبِ الْفَانِينَ وخِطَّةِ الْهَالِكِينَ - وتَجْمَعُ هَذِه الدَّارَ حُدُودٌ أَرْبَعَةٌ - الْحَدُّ الأَوَّلُ يَنْتَهِي إِلَى دَوَاعِي الآفَاتِ - والْحَدُّ الثَّانِي يَنْتَهِي إِلَى دَوَاعِي الْمُصِيبَاتِ - والْحَدُّ الثَّالِثُ يَنْتَهِي إِلَى الْهَوَى الْمُرْدِي - والْحَدُّ الرَّابِعُ يَنْتَهِي إِلَى الشَّيْطَانِ الْمُغْوِي - وفِيه يُشْرَعُ بَابُ هَذِه الدَّارِ - اشْتَرَى هَذَا الْمُغْتَرُّ بِالأَمَلِ مِنْ هَذَا الْمُزْعَجِ بِالأَجَلِ - هَذِه الدَّارَ بِالْخُرُوجِ مِنْ عِزِّ الْقَنَاعَةِ - والدُّخُولِ فِي ذُلِّ الطَّلَبِ والضَّرَاعَةِ - فَمَا أَدْرَكَ هَذَا الْمُشْتَرِي فِيمَا اشْتَرَى مِنْه مِنْ دَرَكٍ - فَعَلَى مُبَلْبِلِ أَجْسَامِ الْمُلُوكِ وسَالِبِ نُفُوسِ الْجَبَابِرَةِ - ومُزِيلِ مُلْكِ الْفَرَاعِنَةِ - مِثْلِ كِسْرَى وقَيْصَرَ وتُبَّعٍ وحِمْيَرَ

اگر تم نے مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اورغیرحلال سے قیمت ادا کی ہے تو تمہیں دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے۔

یادرکھو اگر تم اس مکان کو خرید تے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے اسی درہم توبہت بڑی بات ہے ۔میں اس کی دستاویز اس طرح لکھتا۔

'' یہ مکان ہے جسے ایک بندۂ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریدا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے۔یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں۔

ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اوردوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اورچوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے۔

اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے۔اب اگر اس خریدار کواس سودے میں کوئی خسارہ ہو تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کا تہ و بالا کرنے والا۔جابروں کی جان نکال لینے والا۔فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کردینے والا ۔کسریٰ و قیصر۔تیغ و حمیر

۴۷۷

ومَنْ جَمَعَ الْمَالَ عَلَى الْمَالِ فَأَكْثَرَ - ومَنْ بَنَى وشَيَّدَ وزَخْرَفَ ونَجَّدَ - وادَّخَرَ واعْتَقَدَ ونَظَرَ بِزَعْمِه لِلْوَلَدِ - إِشْخَاصُهُمْ جَمِيعاً إِلَى مَوْقِفِ الْعَرْضِ والْحِسَابِ - ومَوْضِعِ الثَّوَابِ والْعِقَابِ - إِذَا وَقَعَ الأَمْرُ بِفَصْلِ الْقَضَاءِ( وخَسِرَ هُنالِكَ الْمُبْطِلُونَ ) - شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ الْعَقْلُ إِذَا خَرَجَ مِنْ أَسْرِ الْهَوَى - وسَلِمَ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا.»

(۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض أمراء جيشه

فَإِنْ عَادُوا إِلَى ظِلِّ الطَّاعَةِ فَذَاكَ الَّذِي نُحِبُّ - وإِنْ تَوَافَتِ الأُمُورُ بِالْقَوْمِ إِلَى الشِّقَاقِ والْعِصْيَانِ - فَانْهَدْ بِمَنْ أَطَاعَكَ إِلَى مَنْ عَصَاكَ واسْتَغْنِ بِمَنِ انْقَادَ مَعَكَ عَمَّنْ تَقَاعَسَ عَنْكَ

اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ۔مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں۔ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فنا کے گھاٹ اتاردینے والا ہے کہ ان سب کو قیامت کے موقف حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہو گا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہوں گے۔

''اس سو دے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ''

(۴)

مکتوب

(بعض امر اء لشکر کے نام(۱)

اگر دشمن اطاعت کے زیر سایہ آجائیں تو یہی ہمارا مدعا ہے اور اگر معاملات افتراف اورنا فرمانی کی منزل ہی کی طرف بڑھیں تو تم اپنے اطاعت گزاروں کو لے کر نافرمانوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہو۔اور اپنے فرمانبرداروں کے وسیلہ سے انحراف کرن والوں سے بے نیاز ہوجائو

(۱) جب اصحاب جمل بصرہ میں وارد ہوئے تو وہاں کے حضرت ک عامل عثمان بن حنیف نے آپ کے نام ایک خط لکھا جس میں بصرہ کی صورت حال کا ذکر کیا گیا تھا۔آپ نے اس کے جواب میںتحریر فرمایا کہ جنگ میں پہل کرنا ہمارا کام نہیں ہے لہٰذا تمہارا پہلا کام یہ ہے کہ ان پر اتمام حجت کرو پھراگر اطاعت امام پرآمادہ ہو جائیں تو بہترین بات ہے ورنہ تمہارے پاس فرمانبردار قسم کے افراد موجود ہیں۔انہیں ساتھ لے کرظالموں کا مقابلہ کرنا اور خبر دار جنگ کے معاملہ میں کسی پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا کہ جنگ کا میدان قربانی کا میدان ہے اور اس میں وہی افراد ثابت قدم رہ سکتے ہیں جو جان و دل سے قربانی کے لئے تیار ہوں۔ورنہ اگر بادل نا خواستہ فوج اکٹھا بھی کرلی گئی تو یہ خطرہ بہر حال رہے گا کہ یہ عین وقت پر چھوڑ کر فرار کر سکتے ہیں جس کا تجربہ تاریخ اسلام میں بارہا ہو چکا ہیاورجس کا ثبوت خود قرآن حکیم میں موجود ہے ۔

۴۷۸

فَإِنَّ الْمُتَكَارِه مَغِيبُه خَيْرٌ مِنْ مَشْهَدِه - وقُعُودُه أَغْنَى مِنْ نُهُوضِه.

(۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أشعث بن قيس - عامل أذربيجان

وإِنَّ عَمَلَكَ لَيْسَ لَكَ بِطُعْمَةٍ ولَكِنَّه فِي عُنُقِكَ أَمَانَةٌ - وأَنْتَ مُسْتَرْعًى لِمَنْ فَوْقَكَ - لَيْسَ لَكَ أَنْ تَفْتَاتَ فِي رَعِيَّةٍ - ولَا تُخَاطِرَ إِلَّا بِوَثِيقَةٍ - وفِي يَدَيْكَ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّه - عَزَّ وجَلَّ وأَنْتَ مِنْ خُزَّانِه حَتَّى تُسَلِّمَه إِلَيَّ - ولَعَلِّي أَلَّا أَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَكَ والسَّلَامُ.

(۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

إِنَّه بَايَعَنِي الْقَوْمُ الَّذِينَ بَايَعُوا أَبَا بَكْرٍ وعُمَرَ وعُثْمَانَ - عَلَى مَا بَايَعُوهُمْ عَلَيْه - فَلَمْ يَكُنْ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَخْتَارَ - ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَرُدَّ - وإِنَّمَا الشُّورَى لِلْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وسَمَّوْه إِمَاماً

کہ بادل ناخواستہ حاضری دینے والوں کی حاضری سے غیبت بہتر ہے اور ان کا بیٹھ جانا ہی اٹھ جانے سے زیادہ مفید ہے۔

(۵)

مکتوب

(آذر بائیجان کے عامل اشعث بن قیس کے نام)

یہ تمہارا منصب کوئی لقمہ تر نہیں ہے بلکہ تمہاری گردن پر امانت الٰہی ہے اور تم ایک بلند ہستی کے زیر نگرانی حفاظت پر مامور ہو۔تمہیں رعایا کے معاملہ میں اس طرح کے اقدام کا حق نہیں ہے اور خبردار کسی مستحکم دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ مت ڈالنا۔تمہارے ہاتھوں میں جو مال ہے۔یہ بھی پروردگار کے اموال کا ایک حصہ ہے اورتم اس کے ذمہ دار ہو جب تک میرے حوالہ نہ کردو اور شائد اس نصیحت کی بنا پرمیں تمہارا برا ولی نہ ہوگا۔والسلام

(۶)

مکتوب

(معاویہ کے نام)

دیکھ میری بیعت اسی قوم نے کی ہے جس نے ابوبکر و عمر و عثمان کی بیعت کی تھی اور اسی طرح کی ہے جس طرح ان کی بیعت کی تھی کہ نہ کسی حاضر کو نظر ثانی کا حق تھا اورنہ کسی غائب کو رد کردینے کا اختیار تھا۔

شوریٰ کا اختیار بھی صرف مہاجرین و انصار کو ہوتا ہے لہٰذاوہ کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام نامزد کردیں

۴۷۹

كَانَ ذَلِكَ لِلَّه رِضًا - فَإِنْ خَرَجَ عَنْ أَمْرِهِمْ خَارِجٌ - بِطَعْنٍ أَوْ بِدْعَةٍ رَدُّوه إِلَى مَا خَرَجَ مِنْه - فَإِنْ أَبَى قَاتَلُوه عَلَى اتِّبَاعِه غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ - ووَلَّاه اللَّه مَا تَوَلَّى.

ولَعَمْرِي يَا مُعَاوِيَةُ لَئِنْ نَظَرْتَ بِعَقْلِكَ دُونَ هَوَاكَ - لَتَجِدَنِّي أَبْرَأَ النَّاسِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ولَتَعْلَمَنَّ أَنِّي كُنْتُ فِي عُزْلَةٍ عَنْه - إِلَّا أَنْ تَتَجَنَّى فَتَجَنَّ مَا بَدَا لَكَ والسَّلَامُ.

(۷)

ومن كتاب منهعليه‌السلام

إليه أيضا

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَتْنِي مِنْكَ مَوْعِظَةٌ مُوَصَّلَةٌ ورِسَالَةٌ مُحَبَّرَةٌ -

تو گویا کہ اسی میں رضائے الٰہی ہے اوراگر کوئی شخص تنقید کرکے یا بدعت کی بنیاد پر اس امر سے بالکل باہرنکل جائے تو لوگوں کا فرض ہے کہ اسے واپس لائیں اوراگر انکار کردے تواس سے جنگ کریں کہ اسنے مومنین کے راستہ سے ہٹ کر راہ نکالی ہے اوراللہ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا جدھر وہ پھر گیا ہے ۔

معاویہ! میری جان کی قسم! اگر توخواہشات کو چھوڑ کرعقل کی نگاہوں سے دیکھے گا تو مجھے سب سے زیادہ خون عثمان(۱) سے پاکدامن پائے گا اورتجھے معلوم ہو جائے گاکہ میں اس مسئلہ سے بالکل الگ تھلک تھا۔مگر یہ کہ تو حقائق کی پردہ پوشی کرکے الزام ہی لگاناچاہے تو تجھے مکمل اختیار ہے ( یہ گذشتہ بیعتوں کی صورت حال کی طرف اشارہ ہے ورنہ اسلام میں خلافت شوریٰ سے طے نہیں ہوتی ہے ۔جوادی )

(۷)

مکتوب

(معاویہ ہی کے نام )

امابعد! میرے پاس تیری بے جوڑنصیحتوں کامجموعہ اور تیراخوبصورت سجایا بنایا ہوا خط وارد ہوا ہے جسے

(۱)عباس محمود عقاد نے عبقر پتہ الامام میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ خون عثمان کی تمامتر ذمہ داری خود معاویہ پر ہے کہ وہ ان کا تحفظ کرنا چاہتا تو اس کے پاس تمامتر امکانات موجود تھے۔وہ شام کا حاکم تھا اوراس کے پاس ایک عظیم ترین فوج موجود تھی جس سے کسی طرح کا کام لیا جا سکتا تھا۔

امام علی کی یہ حیثیت نہیں تھی آپ پردونوں طرف سے دبائو پڑ رہا تھا۔انقلابیوں کا خیال تھا کہ اگر آپ بیعت قبول کرلیں تو عثمان کو با آسانی معزول کیاجا سکتا ہے اورعثمان کا خیال تھا کہ آپ چاہیں تو انقلابیوں کو ہٹا کر میرے منصب کا تحفظ کر سکتے ہیں اور میری جان بچا سکتے ہیں۔ایسے حالات میں حضرت نے جس ایمانی فراست اورعرفانی حکمت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے زیادہ کسی فرو بشر کے امکان میں نہیں تھا۔

۴۸۰

نَمَّقْتَهَا بِضَلَالِكَ وأَمْضَيْتَهَا بِسُوءِ رَأْيِكَ - وكِتَابُ امْرِئٍ لَيْسَ لَه بَصَرٌ يَهْدِيه - ولَا قَائِدٌ يُرْشِدُه قَدْ دَعَاه الْهَوَى فَأَجَابَه - وقَادَه الضَّلَالُ فَاتَّبَعَه - فَهَجَرَ لَاغِطاً وضَلَّ خَابِطاً.

ومِنْه لأَنَّهَا بَيْعَةٌ وَاحِدَةٌ لَا يُثَنَّى فِيهَا النَّظَرُ - ولَا يُسْتَأْنَفُ فِيهَا الْخِيَارُ - الْخَارِجُ مِنْهَا طَاعِنٌ والْمُرَوِّي فِيهَا مُدَاهِنٌ

(۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى جرير بن عبد الله البجلي - لما أرسله إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِذَا أَتَاكَ كِتَابِي فَاحْمِلْ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْفَصْلِ وخُذْه بِالأَمْرِ الْجَزْمِ - ثُمَّ خَيِّرْه بَيْنَ حَرْبٍ مُجْلِيَةٍ أَوْ سِلْمٍ مُخْزِيَةٍ - فَإِنِ اخْتَارَ الْحَرْبَ فَانْبِذْ إِلَيْه - وإِنِ اخْتَارَ السِّلْمَ فَخُذْ بَيْعَتَه والسَّلَامُ.

تیرے گمراہی کے قلم نے لکھا ہے اور اس پر تیری بے عقلی نے امضاء کیا ہے ۔یہ ایک ایس شخص کا خط ہے جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور نہراستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو اس نے لبیک کہہ دی اور گمراہینے کھینچا تو اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا۔

دیکھو یہ بیعت ایک مرتبہ ہوتی ہے جس کے بعد نہ کسی کو نظر ثانی کا حق ہوتا ہے اورنہ دوبارہ اختیار کرنے کا۔اس سے باہرنکل جانے والا اسلامی نظام پرمعترض شمار کیا جاتا ہے اوراس میں سوچ بچار کرنے والامنافق کہا جاتا ہے۔

(۸)

مکتوب

(جریر بن عبداللہ بجلی کے نام جب انہیں معاویہ کی فہمائش کے لئے روانہ فرمایا)

اما بعد(۶) ۔جب تمہیں یہ میراخط مل جائے تو معاویہ سے حتمی فیصلہ کا مطالبہ کردینا اورایک آخری بات طے کر لینا اوراسے خبردار کردینا کہاب دو ہی راستے ہیں۔یا فنا کردینے والی جنگ یا رسواکن صلح۔اب اگر وہ جنگ کو اختیار کرے توبات چیت ختم کردینا اور جنگ کی تیاری کرنا اور اگر صلح کی بات کرے تو فوراً اس سے بیعت لے لینا۔والسلام۔

۴۸۱

(۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَأَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِيِّنَا واجْتِيَاحَ أَصْلِنَا - وهَمُّوا بِنَا الْهُمُومَ وفَعَلُوا بِنَا الأَفَاعِيلَ - ومَنَعُونَا الْعَذْبَ وأَحْلَسُونَا الْخَوْفَ - واضْطَرُّونَا إِلَى جَبَلٍ وَعْرٍ - وأَوْقَدُوا لَنَا نَارَ الْحَرْبِ - فَعَزَمَ اللَّه لَنَا عَلَى الذَّبِّ عَنْ حَوْزَتِه - والرَّمْيِ مِنْ وَرَاءِ حُرْمَتِه - مُؤْمِنُنَا يَبْغِي بِذَلِكَ الأَجْرَ وكَافِرُنَا يُحَامِي عَنِ الأَصْلِ - ومَنْ أَسْلَمَ مِنْ قُرَيْشٍ خِلْوٌ مِمَّا نَحْنُ فِيه بِحِلْفٍ يَمْنَعُه - أَوْ عَشِيرَةٍ تَقُومُ دُونَه فَهُوَ مِنَ الْقَتْلِ بِمَكَانِ أَمْنٍ

وكَانَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ ،

(۹)

مکتوب

(معاویہ کے نام )

ہماری قوم قریش(۱) کا ارادہ تھاکہ ہمارے پیغمبر (ص) کو قتل کردے اور ہمیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے۔انہوںنے ہمارے بارے میں رنج و غم کے اسباب فراہم کئے اور ہم سے طرح طرح کے برتائو کئے۔ہمیں راحت و آرام سے روک دیا اور ہمارے لئے مختلف قسم کے خوف کا انتظام کیا۔کبھی ہمیں نا ہموار پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا اور کبھی ہمارے لئے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔لیکن پروردگار نے ہمیں طاقت دی کہ ہم ان کے دین کی حفاظت کریں اوران کی حرمت سے ہر طرح سے دفاع کریں۔ہم میں صاحبان ایمان اجرآخرت کے طلب گارتھے اور کفار اپنی اصل کی حمایت کر رہے تھے ۔قریش میں جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ ان مشکلات سے آزاد تھے۔یا اس لئے کہ انہوں نے کوئی حفاظتی معادہ کرلیا تھا یا ان کے پاس قبیلہ تھا جوان کے سامنے کھڑا ہو جاتاتھا اور وہ قتل سے محفوظ رہتے تھے۔اور رسول اکرم (ص) کا یہ عالم تھا کہ جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے تھے

(۱) قریش کی زندگی کا سارا نظام قبائلی بنیادوں پرچل رہا تھا اور ہر قبیلہ کو کوئی نہ کوئی حیثیت حاصل تھی لیکن اسلام کے آنے کے بعد ان تمام حیثیتوں کا خاتمہ ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں سب نے اسلام کے خلاف اتحاد کرلیا اورمختلف معرکے بھی سامنے آگئے لیکن پروردگار عالم نے رسول اکرم (ص)کے گھرانے کے ذریعہ اپنے دین کو بچا لیا اوراس میں کوئی قبیلہ بھی ان کا شریک نہیں ہے اورنہ کسی کو یہ شرف حاصل ہے ۔نہ کسی قبیلہ پمیں کوئی ابو طالب جیسا محافظ پیدا ہوا۔ اورنہ عبیدہ جیسا ہ مجاہد ۔ نہ کسی قبیلہ نے حمزہ جیسا سیدالشہداء پیدا کیا ہے اورنہ جعفر جیسا طیار۔

یہ صرف بنی ہاشم کا شرف ہے اور اسلام کی گردن پران کے علاوہ کسی کا کوئی احسان نہیں ہے۔

۴۸۲

وأَحْجَمَ النَّاسُ - قَدَّمَ أَهْلَ بَيْتِه - فَوَقَى بِهِمْ أَصْحَابَه حَرَّ السُّيُوفِ والأَسِنَّةِ - فَقُتِلَ عُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ يَوْمَ بَدْرٍ - وقُتِلَ حَمْزَةُ يَوْمَ أُحُدٍ - وقُتِلَ جَعْفَرٌ يَوْمَ مُؤْتَةَ - وأَرَادَ مَنْ لَوْ شِئْتُ ذَكَرْتُ اسْمَه - مِثْلَ الَّذِي أَرَادُوا مِنَ الشَّهَادَةِ - ولَكِنَّ آجَالَهُمْ عُجِّلَتْ ومَنِيَّتَه أُجِّلَتْ - فَيَا عَجَباً لِلدَّهْرِ - إِذْ صِرْتُ يُقْرَنُ بِي مَنْ لَمْ يَسْعَ بِقَدَمِي - ولَمْ تَكُنْ لَه كَسَابِقَتِي - الَّتِي لَا يُدْلِي أَحَدٌ بِمِثْلِهَا - إِلَّا أَنْ يَدَّعِيَ مُدَّعٍ مَا لَا أَعْرِفُه ولَا أَظُنُّ اللَّه يَعْرِفُه - والْحَمْدُ لِلَّه عَلَى كُلِّ حَالٍ.

وأَمَّا مَا سَأَلْتَ مِنْ دَفْعِ قَتَلَةِ عُثْمَانَ إِلَيْكَ - فَإِنِّي نَظَرْتُ فِي هَذَا الأَمْرِ - فَلَمْ أَرَه يَسَعُنِي دَفْعُهُمْ إِلَيْكَ ولَا إِلَى غَيْرِكَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ لَمْ تَنْزِعْ عَنْ غَيِّكَ وشِقَاقِكَ - لَتَعْرِفَنَّهُمْ عَنْ قَلِيلٍ يَطْلُبُونَكَ - لَا يُكَلِّفُونَكَ طَلَبَهُمْ فِي بَرٍّ ولَا بَحْرٍ - ولَا جَبَلٍ ولَا سَهْلٍ - إِلَّا أَنَّه طَلَبٌ يَسُوءُكَ وِجْدَانُه - وزَوْرٌ لَا يَسُرُّكَ لُقْيَانُه والسَّلَامُ لأَهْلِه.

اور لوگ پیچھے ہٹنے لگے تھے تو آپ اپنے اہل بیت کو آگے بڑھا دیتے تھے اوروہ اپنے کو سپر بناکر اصحاب کو تلوار اورنیزوں کی گرمی سے محفوظ رکھتے تھے چنانچہ بدرکے دن جناب عبیدہ بن الحارث مارے گئے۔احد کے دن حمزہ شہید ہوئے اورموتہ میں جعفر کام آگئے ۔

ایک شخص نے جس کا نام بتا سکتا ہوںانہیں لوگوں جیسی شہادت کا قصد کیاتھا لیکن ان سب کی موت جلدی آگئی اور اس کی موت پیچھے ٹال دی گئی۔

کس قدر تعجب خیز ہے زمانہ کا یہ حال کہ میرا مقابلہ ایسے افراد سے ہوتا ہے جو کبھی میرے ساتھ قدم ملا کر نہیں چلے اورنہاس دین میں ان کا کوئی کارنامہ ہے جو مجھ سے موازنہ کیا جا سکے مگر یہ کہ کوئی مدعی کسی ایسے شرف کادعویٰ کرے جس کونہ میں جانتا ہوں۔اورنہ ''شائد ''خدا ہی جانتا ہے۔مگر بہر حال ہر حال میں خداکا شکرہے۔

رہ گیا تمہارا یہ مطالبہ کہ میں قاتلان عثمان کو تمہارے حوالے کردوں تو میں نے اس مسئلہ میں کافی غور کیا ے۔میرے امکان میں انہیں نہ تمہارے حوالہ کرنا ہے اورنہ کسی اور کے ۔میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اورعداوت سے بازنہ آئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ یہ تمہیں بھی ڈھونڈھ لیں گے اوراس بات کی زحمت نہ دیں گے کہ تم انہیں خشکی یا تری ۔پہاڑ یا صحرا میں تلاش کرو۔البتہ یہ وہ طلب ہوگی جس کا پالینا باعث مسرت نہ ہوگا اور وہ ملاقات ہوگی جس سے کسی طرح کی خوشی نہ ہوگی۔اور سلام اس کے اہل پر۔

۴۸۳

(۱۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليه أيضا

وكَيْفَ أَنْتَ صَانِعٌ - إِذَا تَكَشَّفَتْ عَنْكَ جَلَابِيبُ مَا أَنْتَ فِيه - مِنْ دُنْيَا قَدْ تَبَهَّجَتْ بِزِينَتِهَا وخَدَعَتْ بِلَذَّتِهَا - دَعَتْكَ فَأَجَبْتَهَا،

وقَادَتْكَ فَاتَّبَعْتَهَا - وأَمَرَتْكَ فَأَطَعْتَهَا - وإِنَّه يُوشِكُ أَنْ يَقِفَكَ وَاقِفٌ عَلَى مَا لَا يُنْجِيكَ مِنْه مِجَنٌّ - فَاقْعَسْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ - وخُذْ أُهْبَةَ الْحِسَابِ وشَمِّرْ لِمَا قَدْ نَزَلَ بِكَ - ولَا تُمَكِّنِ الْغُوَاةَ مِنْ سَمْعِكَ - وإِلَّا تَفْعَلْ أُعْلِمْكَ مَا أَغْفَلْتَ مِنْ نَفْسِكَ - فَإِنَّكَ مُتْرَفٌ قَدْ أَخَذَ الشَّيْطَانُ مِنْكَ مَأْخَذَه - وبَلَغَ فِيكَ أَمَلَه وجَرَى مِنْكَ مَجْرَى الرُّوحِ والدَّمِ.

ومَتَى كُنْتُمْ يَا مُعَاوِيَةُ سَاسَةَ الرَّعِيَّةِ - ووُلَاةَ أَمْرِ الأُمَّةِ -

(۱۰)

مکتوب

(معاویہ ہی کے نام )

اس وقت کیا کروگے جب اس دنیاکے یہ سارے لباس تم سے اترجائیں جس کی زینت سے تم نے اپنے کوآراستہ کر رکھا ہے اورجس کی لذت نے تم کودھوکہ میں ڈال دیا ہے۔اس دنیانے تم کوآوازدی تو تم نے لبیک کہہ دی اورتمہیں کھینچنا چاہا تو تم کھینچتے چلے گئے اوراس کے احکام کی اطاعت کرتے رہے۔قریب ہے کہ کوئی بتانے والا تمہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے جن سے کوئی سپر بچانے والی نہیں ہے لہٰذا مناسب ہے کہ اس دعویٰ سے باز آجائواور حساب و کتاب کا سامان تیار کرلو۔آنے والی مصیبتوں کے لئے کمر بستہ ہو جائو اور گمراہوں کو اپنی سماعت پر حاوینہ بنائو ورنہ ایسا نہ کیا تو میں تہیں ان تمام چیزوں سے با خبر کردوں گا جن سے تم غافل ہو۔تم عیش و عشرت کے دلدادہ ہو۔شیطان نے تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اپنی امیدوں کو حاصل کرلیا ہے اورتمہارے رگ و پے میں روح اورخون کی طرح سرایت کرگیا ہے۔

معاویہ! آخر تم لوگ کب رعایا(۱) کی نگرانی کے قابل اور امت کے مسائل کے والی تھے جب کہ تمہارے

(۱) اس مقام پر سیاست سے مراد سیاست عادلہ اوررعایت کاملہ ہے کہ اس کام کا انجام دیناہر کس و ناکس کے بسکا نہیں ہے ورنہ سیاست سے مکاری ' عیاری اورغداری مرادلی جائے تو بنی امیہ ہمیشہ سے سیاست مدار تھے اورابو سفیان نے ہرمحاذ پر اسلام کے خلاف لشکرکشی کی ہے اور اس راہمیں کسی بھی حربہ کونظراندازنہیں کیا ہے ۔بکیھ میدانوں میں مقابلہ کیا ہے اورکبھی بیعت کرکے اسلام کا صفایا کیا ہے۔

۴۸۴

بِغَيْرِ قَدَمٍ سَابِقٍ ولَا شَرَفٍ بَاسِقٍ - ونَعُوذُ بِاللَّه مِنْ لُزُومِ سَوَابِقِ الشَّقَاءِ - وأُحَذِّرُكَ أَنْ تَكُونَ مُتَمَادِياً فِي غِرَّةِ الأُمْنِيِّةِ - مُخْتَلِفَ الْعَلَانِيَةِ والسَّرِيرَةِ.

وقَدْ دَعَوْتَ إِلَى الْحَرْبِ فَدَعِ النَّاسَ جَانِباً - واخْرُجْ إِلَيَّ وأَعْفِ الْفَرِيقَيْنِ مِنَ الْقِتَالِ - لِتَعْلَمَ أَيُّنَا الْمَرِينُ عَلَى قَلْبِه والْمُغَطَّى عَلَى بَصَرِه - فَأَنَا أَبُو حَسَنٍ - قَاتِلُ جَدِّكَ وأَخِيكَ وخَالِكَ شَدْخاً يَوْمَ بَدْرٍ - وذَلِكَ السَّيْفُ مَعِي - وبِذَلِكَ الْقَلْبِ أَلْقَى عَدُوِّي - مَا اسْتَبْدَلْتُ دِيناً ولَا اسْتَحْدَثْتُ نَبِيّاً - وإِنِّي لَعَلَى الْمِنْهَاجِ الَّذِي تَرَكْتُمُوه طَائِعِينَ - ودَخَلْتُمْ فِيه مُكْرَهِينَ.

وزَعَمْتَ أَنَّكَ جِئْتَ ثَائِراً بِدَمِ عُثْمَانَ - ولَقَدْ عَلِمْتَ حَيْثُ

وَقَعَ دَمُ عُثْمَانَ - فَاطْلُبْه مِنْ هُنَاكَ إِنْ كُنْتَ طَالِباً - فَكَأَنِّي قَدْ رَأَيْتُكَ تَضِجُّ مِنَ الْحَرْبِ - إِذَا عَضَّتْكَ ضَجِيجَ الْجِمَالِ بِالأَثْقَالِ - وكَأَنِّي بِجَمَاعَتِكَ

پاس نہ کوئی سابقہ شرف ہے اور نہ کوئی بلند و بالا عزت۔ہم اللہ سے تمام دیرینہ بد بختیوں سے پناہ مانگتے ہیں اورتمہیں باخبر کرتے ہیں کہ خبر دار امیدوں کے دھوکہ میں اور ظاہر و باطن کے اختلاف میں مبتلا ہوکر گمراہی میں دورتک مت چلے جائو۔تم نے مجھے جنگ کی دعوت دی ہے تو بہتر یہ ہے کہ لوگوں کوالگ کردو اور بذات خود میدان میں آجائو۔ فریقین کو جنگ سے معاف کردواور ہم(۱) تم براہ راست مقابلہ کرلیں تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ کس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اور کس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے روز بدر تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ ) ماموں ( ولید بن عتبہ ) اور بھائی حنظلہ کا سر توڑ کرخاتمہ کردیا ہے۔ اورابھی وہ تلوار میرے پاس ہے اورمیں اسی ہمت قلب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کروں گا۔میں نےنہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ نیا نبی اختیار کیا ہے میں اسی راستہ پرچل رہا ہوں جسے تم نے اختیاری حدود تک چھوڑ رکھا تھا اورپھرمجبوراً داخل ہوگئے تھے ۔تمہارا خیال ہے کہ تم خون عثمان کا بدلہ لینے آئے ہو۔تو تمہیں تو معلوم ہےکہ اس خون کی جگہ کہاں ہے۔اگرواقعی مطالبہ کرنا ہے تو وہیں جا کرکرو۔مجھےتو یہ منظرنظر آرہا ہے(۸) کہ جنگ تمہیں دانتوں سےکاٹ رہی ہےاورتم اس طرح فریاد کر رہےہو جس طرح اونٹ سامان کی گرانی سےبلبلانے لگتے ہیں اورتمہاری جماعت

(۱)حضرت کا یہ وہ مطالبہ تھاجس کی عمرو عاص نے بھی تائید کردی تھی لیکن معاویہ فوراً تاڑ گیا اوراس نے کہا کہ تو خلافت کاامید وار دکھائی دے رہا ہے اور پھر میدان کا رخ کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا کہ علی کی تلوارسے بچ کرنکل جانا محالات میں سے ہے۔

۴۸۵

تَدْعُونِي جَزَعاً مِنَ الضَّرْبِ الْمُتَتَابِعِ - والْقَضَاءِ الْوَاقِعِ ومَصَارِعَ بَعْدَ مَصَارِعَ إِلَى كِتَابِ اللَّه - وهِيَ كَافِرَةٌ جَاحِدَةٌ أَوْ مُبَايِعَةٌ حَائِدَةٌ

(۱۱)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها جيشا بعثه إلى العدو

فَإِذَا نَزَلْتُمْ بِعَدُوٍّ أَوْ نَزَلَ بِكُمْ - فَلْيَكُنْ مُعَسْكَرُكُمْ فِي قُبُلِ الأَشْرَافِ - أَوْ سِفَاحِ الْجِبَالِ أَوْ أَثْنَاءِ الأَنْهَارِ - كَيْمَا يَكُونَ لَكُمْ رِدْءاً ودُونَكُمْ مَرَدّاً - ولْتَكُنْ مُقَاتَلَتُكُمْ مِنْ وَجْه وَاحِدٍ أَوِ اثْنَيْنِ - واجْعَلُوا لَكُمْ رُقَبَاءَ فِي صَيَاصِي الْجِبَالِ - ومَنَاكِبِ الْهِضَابِ - لِئَلَّا يَأْتِيَكُمُ الْعَدُوُّ مِنْ مَكَانِ مَخَافَةٍ أَوْ أَمْنٍ - واعْلَمُوا أَنَّ مُقَدِّمَةَ الْقَوْمِ عُيُونُهُمْ - وعُيُونَ الْمُقَدِّمَةِ طَلَائِعُهُمْ وإِيَّاكُمْ والتَّفَرُّقَ - فَإِذَا نَزَلْتُمْ فَانْزِلُوا جَمِيعاً - وإِذَا ارْتَحَلْتُمْ فَارْتَحِلُوا جَمِيعاً - وإِذَا غَشِيَكُمُ اللَّيْلُ فَاجْعَلُوا الرِّمَاحَ كِفَّةً - ولَا تَذُوقُوا النَّوْمَ إِلَّا غِرَاراً أَوْ مَضْمَضَةً

مسلسل تلوار کی ضرب اورموت کی گرم بازاری اور کشتوں کے پشتے لگ جانے کی بنا پر مجھے کتاب خداکی دعوت دے رہی ہے جب کہ خود اس کتاب کی دیدہ و دانستہ منکر ہے یا بیعت کرنے کے بعد بیعت شکنی کرنے والی ہے۔

(۱۱)

آپ کی نصیحت

(جو اپنےلشکرکودشمن کی طرف روانہ کرتےہوئےفرمائی ہے )

جب تم کسی دشمن پر واردہونا یا اگر وہ تم پر وارد ہو تو دیکھو(۱) تمہارے پڑائو ٹیلوں کے سامنے یا پہاڑوں کے دامن میں یا نہروں کے موڑ پر ہوں تاکہ یہ تمہارے لئے وسیلہ حفاظت بھی رہیں اوردشمن کو روک بھی سکیں۔اورجنگ ہمیشہ ایک یا دو محاذوں پر کرنا اور اپنے نگرانوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور ٹیلوں کی بلند سطحوںپرمعین کر دیناتاکہ دشمن نہ کسی خطرناک جگہ سے حملہ کر سکے اورنہ محفوظ جگہ سے اور یہ یاد رکھنا کہ فوج کاہر اول دستہ فوج کا نگراں ہوتا ہے اوراس کی اطلاعات کاذریعہ مخبر افراد ہوتے ہیں۔خبردار آپس میں منتشر نہ ہو جانا۔جہاں اترنا سب ایک ساتھ اترنا اور جب کوچ کرنا تو سب ساتھ کوچ کرنا۔اور جب رات ہو جائے تو نیزوں کو اپنے گرد گاڑ دینا اور خبردار نیند کا مزہ چکھنے کا ارادہ نہ کرنا مگر یہ کہ ایک آدھ جھپکی لگ جائے ۔

(۱)یہ وہ ہدایات ہیںجو ہردورمیں کام آنے والی ہیں اورقائد اسلام کا فرض ہے کہ جس دورمیں جس طرح کا میدان اورجس طرح کے اسلحہ ہوں ان سبکی تنظیم انہیں اصولوں کی نیاد پر کرے جن کی طر ف امیر المومنین نیدو رنیزہ و شمشیر میں اشارہ فرمایا ہے۔حالات اوراسلحوں کے بدل جانے سے اصول حرب و ضرب اور قوانین جہاد و قتال میں فرق نہیں ہوسکتا ہے۔

۴۸۶

(۱۲)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها معقل بن قيس الرياحي - حين أنفذه إلى الشام في ثلاثة آلاف مقدمة له

اتَّقِ اللَّه الَّذِي لَا بُدَّ لَكَ مِنْ لِقَائِه - ولَا مُنْتَهَى لَكَ دُونَه - ولَا تُقَاتِلَنَّ إِلَّا مَنْ قَاتَلَكَ - وسِرِ الْبَرْدَيْنِ وغَوِّرْ بِالنَّاسِ - ورَفِّه فِي السَّيْرِ ولَا تَسِرْ أَوَّلَ اللَّيْلِ - فَإِنَّ اللَّه جَعَلَه سَكَناً وقَدَّرَه مُقَاماً لَا ظَعْناً - فَأَرِحْ فِيه بَدَنَكَ ورَوِّحْ ظَهْرَكَ - فَإِذَا وَقَفْتَ حِينَ يَنْبَطِحُ السَّحَرُ - أَوْ حِينَ يَنْفَجِرُ الْفَجْرُ فَسِرْ عَلَى بَرَكَةِ اللَّه - فَإِذَا لَقِيتَ الْعَدُوَّ فَقِفْ مِنْ أَصْحَابِكَ وَسَطاً - ولَا تَدْنُ مِنَ الْقَوْمِ دُنُوَّ مَنْ يُرِيدُ أَنْ يُنْشِبَ الْحَرْبَ - ولَا تَبَاعَدْ عَنْهُمْ تَبَاعُدَ مَنْ يَهَابُ الْبَأْسَ - حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي - ولَا يَحْمِلَنَّكُمُ شَنَآنُهُمْ عَلَى قِتَالِهِمْ - قَبْلَ دُعَائِهِمْ والإِعْذَارِ إِلَيْهِمْ.

(۱۲)

آپ کی نصیحت

(جو معقل بن قیس ریاحی کواس وقت فرمائی ہے جب انہیں تین ہزار کا لشکر دے کرشام کی طرف روانہ فرمایا ہے )

اس اللہ سے ڈرتے رہنا جس کی بارگاہ میںبہر حال حاضر ہونا ہے اورجس کے علاوہ کوئی آخری منزل نہیں ہے۔جنگ اسی سے کرنا جو تم سے جنگ کرے۔ٹھنڈے اوقات میں صبح و شام سفر کرنا اور گرمی کے وقت میں قافلہ کو روک کر لوگوں کو آرام کرنے دینا۔آہستہ سفر کرنا اوراول شب میں سفرمت کرناکہ پروردگارنے رات کو سکون کے کے لئے بنایا ہے اور اسے قیام کے لئے قرار دیا ہے۔سفر کے لئے نہیں۔لہٰذا رات میں اپنے بدن کوآرام دینا اوراپنی سواری کے لئے سکون فراہم کرنا۔اس کیبعد جب دیکھ لینا کہ سحر طلوع ہو رہی ہے اور صبح روشن ہو رہی ہے تو برکت خدا کے سہارے اٹھ کھڑے ہونا۔ اورجب دشمن کا سامناہو جائے تو اپنے اصحاب کے درمیان ٹھہرنا اورنہ دشمن سے اس قدر قریب ہو جانا کہ جیسے جنگ چھیڑنا چاہیے ہو۔اور نہ اس قدر دور ہو جانا کہ جیسے جنگ سے خوفزدہ ہو۔یہاں تک کہ میرا حکم آجائے اوردیکھوخبردار دشمن کی دشمنی تمہیں اس بات پرآمادہ نہ کردے کہ اسے حق کی دعوت دینے اورحجت تمام کرنے سے پہلے جنگ کا آغاز کردو(۱)

(۱)یہ ساری ہدایات معقل بن قیس کے بارے میں ہیں جنہیں آپ نے تین ہزار افراد کا سردار لشکر بنا کر بھیجا تھا اورایسے ہدایات سے مسلح فرمادیا تھا جو صبح قیامت تک کام آنے والی ہوں اور ہر دور کا انسان ان سے استفادہ کرسکے۔

۴۸۷

(۱۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أميرين من أمراء جيشه

وقَدْ أَمَّرْتُ عَلَيْكُمَا - وعَلَى مَنْ فِي حَيِّزِكُمَا مَالِكَ بْنَ الْحَارِثِ الأَشْتَرَ - فَاسْمَعَا لَه وأَطِيعَا واجْعَلَاه دِرْعاً ومِجَنّاً - فَإِنَّه مِمَّنْ لَا يُخَافُ وَهْنُه ولَا سَقْطَتُه - ولَا بُطْؤُه عَمَّا الإِسْرَاعُ إِلَيْه أَحْزَمُ - ولَا إِسْرَاعُه إِلَى مَا الْبُطْءُ عَنْه أَمْثَلُ

(۱۴)

ومن وصية لهعليه‌السلام

لعسكره قبل لقاء العدو بصفين

لَا تُقَاتِلُوهُمْ حَتَّى يَبْدَءُوكُمْ - فَإِنَّكُمْ بِحَمْدِ اللَّه عَلَى حُجَّةٍ - وتَرْكُكُمْ إِيَّاهُمْ حَتَّى يَبْدَءُوكُمْ حُجَّةٌ أُخْرَى لَكُمْ عَلَيْهِمْ - فَإِذَا كَانَتِ الْهَزِيمَةُ بِإِذْنِ اللَّه - فَلَا تَقْتُلُوا مُدْبِراً ولَا تُصِيبُوا مُعْوِراً - ولَا تُجْهِزُوا عَلَى جَرِيحٍ

(۱۳)

آپ کامکتوب شریف

(اپنے سرداران لشکر میں ایک سردار کے نام)

میں نے تم پر اورتمہارے ماتحت لشکر پر مالک بن الحارث(۱) الاشترکو سردار قراردے دیا ہے لہٰذا ان کی باتوں پر توجہ دینا اور ان کی اطاعت کرنا اورانہیں کو اپنی زرہ اور سپر قراردینا کہ مالک ان لوگوں میں ہیں جن کی کمزوری اور لغزش کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ وہ اس موقع پر سستی کرسکتے ہیںجہاںتیز زیادہ مناسب ہو۔اورنہ وہاں تیزی کرس کتے ہیں جہاں سستی زیادہ قرین عقل ہو۔

(۱۴)

آپ کی نصیحت

(اپنے لشکر کے نام صفین کی جنگ کے آغاز سے پہلے )

خبردار! اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک وہ لوگ پہل نہ کردیں کہ تم بحمد اللہ اپنی دلیل(۲) رکھتے ہو اور انہیں اس وقت تک موقع دینا جب تک پہل نہ کردیں ایک دوسری حجت ہو جائے گی۔اس کے بعد جب حکم خدا سے دشمن کو شکست ہو جائے تو کسی بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اور کسی عاجز کو ہلاک نہ کرنا اور کسی زخمی

(۱)مالک اشتران لوگوں میں ہیں جنہوں نے ابو ذر کے غسل و کفن کا انتظام کیا تھا۔جن کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ میرا ایک صحابی عالم غربت میں انتقال کرے گا اورصاحبان ایمان کی ایک جماعت اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرے گی۔ (استیعاب ترجمہ جندب)

(۲)یہ دلیل سورہ ٔ حجرات کی آیت ۹ ہے جس میں باغی سے قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاویہ اوراس کی جماعت باغی تھی جس کی تصدیق جناب عمار یاسر کی شہادت سے ہوگئی جن کے قاتل کو سرکار دوعالم (ص) نے باغی قرر دیا تھا۔

۴۸۸

- ولَا تَهِيجُوا النِّسَاءَ بِأَذًى - وإِنْ شَتَمْنَ أَعْرَاضَكُمْ وسَبَبْنَ أُمَرَاءَكُمْ - فَإِنَّهُنَّ ضَعِيفَاتُ الْقُوَى والأَنْفُسِ والْعُقُولِ - إِنْ كُنَّا لَنُؤْمَرُ بِالْكَفِّ عَنْهُنَّ وإِنَّهُنَّ لَمُشْرِكَاتٌ - وإِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَتَنَاوَلُ الْمَرْأَةَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ - بِالْفَهْرِ أَوِ الْهِرَاوَةِ - فَيُعَيَّرُ بِهَا وعَقِبُه مِنْ بَعْدِه.

(۱۵)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

كانعليه‌السلام يقول إذا لقي العدو محاربا

اللَّهُمَّ إِلَيْكَ أَفْضَتِ الْقُلُوبُ ومُدَّتِ الأَعْنَاقُ - وشَخَصَتِ الأَبْصَارُ ونُقِلَتِ الأَقْدَامُ وأُنْضِيَتِ الأَبْدَانُ - اللَّهُمَّ قَدْ صَرَّحَ مَكْنُونُ الشَّنَآنِ - وجَاشَتْ مَرَاجِلُ الأَضْغَانِ - اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْكُو إِلَيْكَ غَيْبَةَ نَبِيِّنَا - وكَثْرَةَ عَدُوِّنَا وتَشَتُّتَ أَهْوَائِنَا -( رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ - وأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ ) .

(۱۶)

وكان يقولعليه‌السلام

لأصحابه عند الحربك

پر قاتلانہ حملہ نہ کرنا۔اورعورتوں کو اذیت مت دینا چاہے وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دیں اور تمہارے حکام کوبرا بھلا ہی کیوں نہ کہیں۔کہ یہ قوت نفس اور عقل کے اعتبارسے کمزور ہیں اور ہم پیغمبر (ص) کے زمانے میں بھی ان کے بارے میں ہاتھ روک لینے پر مامور تھے ۔ جب کہ وہ مشرک تھیں اوراس وقت بھی اگر کوئی شخص عورتوں سے پتھر یالکڑی کے ذریعہ تعرض کرتا تھا تو اسے اور اس کی نسلوں کو مطعون کیا جاتا تھا۔

(۱۵)

آپ کی دعا

(جسے دشمن کے مقابلہ کے وقت دہرایا کرتے تھے)

خدایا تیری ہی طرف دل کھنچ رہے ہیں اور گردنیں اٹھی ہوئی ہیں اورآنکھیں لگی ہوئی ہیں اورقدم آگے بڑھ رہے ہیں اوربدن لاغر ہو چکے ہیں۔ خدایا چھپے ہوئے کینے سامنے آگئے ہیں اور عداوتوں کی دیگیں جوش کھانے لگی ہیں۔

خدایا ہم تیریر بارگاہ میں اپنے رسول کی غیبت اوردشمنوں کی کثرت کی اورخواہشات کے تفرقہ کی فریاد کر رہے ہیں ۔

خدایا ہمارے اوردشمنوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

(۱۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو جنگ کے وقت اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے )

۴۸۹

لَا تَشْتَدَّنَّ عَلَيْكُمْ فَرَّةٌ بَعْدَهَا كَرَّةٌ - ولَا جَوْلَةٌ بَعْدَهَا حَمْلَةٌ - وأَعْطُوا السُّيُوفَ حُقُوقَهَا - ووَطِّئُوا لِلْجُنُوبِ مَصَارِعَهَا - واذْمُرُوا أَنْفُسَكُمْ عَلَى الطَّعْنِ الدَّعْسِيِّ والضَّرْبِ الطِّلَحْفِيِّ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ –

فَوَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ - مَا أَسْلَمُوا ولَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وأَسَرُّوا الْكُفْرَ - فَلَمَّا وَجَدُوا أَعْوَاناً عَلَيْه أَظْهَرُوه.

(۱۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية - جوابا عن كتاب منه إليه

وأَمَّا طَلَبُكَ إِلَيَّ الشَّامَ - فَإِنِّي لَمْ أَكُنْ لأُعْطِيَكَ الْيَوْمَ مَا مَنَعْتُكَ أَمْسِ

خبردا رتم پروہ فرار(۱) گراں نہ گزرے جس کے بعد حملہ کرنے کا امکان ہو اور وہ پسپائی پریشان کن نہ ہوجس کے بعد دوبارہ واپسی کا امکان ہو۔تلواروں کوان کا حق دے دواور پہلو کے بھل گرنے والے دشمنوں کے لئے مقتل تیار رکھو۔اپنے نفس کو شدید نیزہ بازی اورسخت ترین شمشیر زنی کے لئے آمادہ رکھو اور آوازوں کومردہ بنا دو کہ اس سے کمزوری دور ہوجاتی ہے ۔

قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورجاندار چیزوں کوپیدا کیا ہے کہ یہ لوگ اسلام نہیں لائے ہیں بلکہ حالات کے سامنے سپر انداختہ ہوگئے ہیں اور اپنے کفر کو چھپائے ہوئے ہیں اورجیسے ہی مددگار مل گئے ویسے ہی اظہار کردیا۔

(۱۷)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام۔اس کے ایک خط کے جواب میں )

تمہارا یہ مطالبہ(۲) کہ میں شام کا علاقہ تمہارے حوالے کردوں۔تو جس چیز سے کل انکار کرچکا ہوں وہ

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میدان جنگ میں ایسے حالات آجاتے ہیں جب سپاہی کو اپنی جگہ چھوڑنا پڑتی ہے۔ اور ایک طرح سے فرارکا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔لیکن اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔بشرطیکہ حوصلہ جہاد برقرار رہے اورجذبہ قربانی میں فرق نہ آنے پائے ۔ میدان احد کا سب سے بڑا عیب یہی تھا کہ '' صحابہ کرام '' جذبہ قربانی سے عاری ہوگئے تھے اور رسول اکرم (ص) کے پکارنے کے باوجود پلٹ کر آنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ایسی صورت حال یقینا اس قابل ہے کہ اس کی مذمت کی جائے اور یہ ننگ و عارنسلوں میں باقی رہ جائے ۔ورنہ افراد کے بعد حملہ یا پسپائی کے بعد واپسی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پرمذمت یا ملامت کی جائے ۔

(۲)معاویہ نے اپنے خط میں چار نکتے اٹھائے تھے اورحضرت نے سب کے الگ الگ جوابات دئیے ہیں اورحق و باطل کا ابدی فیصلہ کردیا ہے اورآخرمیں یہ بھی واضح کردیاہے کہ تمام معاملات میں مساوات فرض کرلینے کے بعد بھی شرفت نبوت کاکوئی مقام نہیں ہو سکتا ہے جوپروردگارنے بنی ہاشم کو عطا کیا ہے اوراسی کابنی امیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اورذاتی کردار کے اعتبار سے بھی بنی ہاشم اسلام کی منزل پر فائز تھے اور بنی امیہ نے فتح مکہ کے موقع پر مجبوراً کلمہ پڑھ لیا تھا اور ظاہر ہے کہ استسلام اسلام کے مانند نہیں ہو سکتا ہے ۔

۴۹۰

وأَمَّا قَوْلُكَ - إِنَّ الْحَرْبَ قَدْ أَكَلَتِ الْعَرَبَ إِلَّا حُشَاشَاتِ أَنْفُسٍ بَقِيَتْ - أَلَا ومَنْ أَكَلَه الْحَقُّ فَإِلَى الْجَنَّةِ - ومَنْ أَكَلَه الْبَاطِلُ فَإِلَى النَّارِ – وأَمَّا اسْتِوَاؤُنَا فِي الْحَرْبِ والرِّجَالِ - فَلَسْتَ بِأَمْضَى عَلَى الشَّكِّ مِنِّي عَلَى الْيَقِينِ - ولَيْسَ أَهْلُ الشَّامِ بِأَحْرَصَ عَلَى الدُّنْيَا - مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ عَلَى الآخِرَةِ - وأَمَّا قَوْلُكَ إِنَّا بَنُو عَبْدِ مَنَافٍ - فَكَذَلِكَ نَحْنُ ولَكِنْ لَيْسَ أُمَيَّةُ كَهَاشِمٍ - ولَا حَرْبٌ كَعَبْدِ الْمُطَّلِبِ ولَا أَبُو سُفْيَانَ كَأَبِي طَالِبٍ - ولَا الْمُهَاجِرُ كَالطَّلِيقِ ولَا الصَّرِيحُ كَاللَّصِيقِ - ولَا الْمُحِقُّ كَالْمُبْطِلِ ولَا الْمُؤْمِنُ كَالْمُدْغِلِ - ولَبِئْسَ الْخَلْفُ خَلْفٌ يَتْبَعُ سَلَفاً هَوَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ.

وفِي أَيْدِينَا بَعْدُ فَضْلُ النُّبُوَّةِ الَّتِي أَذْلَلْنَا بِهَا الْعَزِيزَ - ونَعَشْنَا بِهَا الذَّلِيلَ - ولَمَّا أَدْخَلَ اللَّه الْعَرَبَ فِي دِينِه أَفْوَاجاً - وأَسْلَمَتْ لَه هَذِه الأُمَّةُ طَوْعاً وكَرْهاً - كُنْتُمْ مِمَّنْ دَخَلَ فِي الدِّينِ إِمَّا رَغْبَةً وإِمَّا رَهْبَةً - عَلَى حِينَ

آج عطا نہیں کرسکتا ہوں اور تمہارا یہ کہنا کہ جنگ نے عرب کاخاتمہ کردیا ہے اورچند ایک افراد کے علاوہ کچھ نہیں باقی رہ گیا ہے تو یاد رکھوکہ جس کا خاتمہ حق پر ہوا ہے اس کا انجام جنت ہے اورجسے باطل کھا گیا ہے اس کا انجام جہنم ہے۔ رہ گیا ہم دونوں کا جنگ اور شخصیات کے بارے میں برابر ہونا۔تو تم شک میں اس طرح تیز رفتاری سے کام نہیں کرسکتے ہو جتنامیں یقین میں کر سکتا ہوں اور اہل شام دنیاکے بارے میں اتنے حریص نہیں ہیں جس قدراہل عراق آخرت کے بارے میں فکر مند ہیں۔

اورتمہارا یہ کہنا کہ ہم سب عبد مناف کی اولاد ہیں تو یہ بات صحیح ہے لیکن نہ امیہ ہاشم جیسا ہو سکتا ہے اور نہ حرب عبدالمطلب جیسا۔نہ ابو سفیان ابو طالب کاہمسر ہو سکتا ہے اور نہ راہ خدا میں ہجرت کرنے والا آزاد کردہ افراد جیسا۔نہ واضح نسب والے کا قیاس شجرہ سے چپکائے جانے والے پر ہوسکتا ہے اور نہ حقدار کو باطل نواز جیسا قراردیا جاسکتا ہے ۔مومن کبھی منافق کے برابر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔بد ترین اولاد تو وہ ہے جو اس سلف کے نقش قدم پر چلے جو جہنم میں گر چکا ہے۔

اس کے بعد ہمارے ہاتھوں میں نبوت کا شرف ہے جس کے ذریعہ ہم نے باطل کے عزت داروں کو ذلیل بنایا ہے اور حق کے کمزوروں کو اوپر اٹھایا ہے۔اورجب پروردگارنے عرب کو اپنے دین میں فوج در فوج داخل کیا ہے اوری ہ قوم بخوشی یا بکراہت مسلمان ہوئی ہے تو تم انہیں دین کے دائرہ میں داخل ہونے والوں میں تھے یا بہ

۴۹۱

فَازَ أَهْلُ السَّبْقِ بِسَبْقِهِمْ - وذَهَبَ الْمُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ بِفَضْلِهِمْ - فَلَا تَجْعَلَنَّ لِلشَّيْطَانِ فِيكَ نَصِيباً - ولَا عَلَى نَفْسِكَ سَبِيلًا والسَّلَامُ.

(۱۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن عباس - وهو عامله على البصرة

واعْلَمْ أَنَّ الْبَصْرَةَ مَهْبِطُ إِبْلِيسَ ومَغْرِسُ الْفِتَنِ - فَحَادِثْ أَهْلَهَا بِالإِحْسَانِ إِلَيْهِمْ - واحْلُلْ عُقْدَةَ الْخَوْفِ عَنْ قُلُوبِهِمْ. وقَدْ بَلَغَنِي تَنَمُّرُكَ لِبَنِي تَمِيمٍ وغِلْظَتُك عَلَيْهِمْ - وإِنَّ بَنِي تَمِيمٍ لَمْ يَغِبْ لَهُمْ نَجْمٌ - إِلَّا طَلَعَ لَهُمْ آخَرُ - وإِنَّهُمْ لَمْ يُسْبَقُوا بِوَغْمٍ فِي جَاهِلِيَّةٍ ولَا إِسْلَامٍ - وإِنَّ لَهُمْ بِنَا رَحِماً مَاسَّةً وقَرَابَةً خَاصَّةً - نَحْنُ مَأْجُورُونَ عَلَى صِلَتِهَا - ومَأْزُورُونَ عَلَى قَطِيعَتِهَا - فَارْبَعْ أَبَا الْعَبَّاسِ رَحِمَكَ اللَّه - فِيمَا جَرَى عَلَى لِسَانِكَ ويَدِكَ مِنْ خَيْرٍ وشَرٍّ - فَإِنَّا شَرِيكَانِ فِي ذَلِكَ - وكُنْ عِنْدَ صَالِحِ ظَنِّي بِكَ - ولَا يَفِيلَنَّ رَأْيِي فِيكَ والسَّلَامُ.

رغبت یا بہ خوف جب کہ سبقت حاصل کرنے والے سبقت حاصل کرچکے تھے اور مہاجرین اولین اپنی فضلیت پاچکے تھے ۔دیکھوخبردار شیطان کواپنی زندگی کا حصہ دار مت بنائو اور اسے اپنے نفس پر راہمت دو۔والسلام ۔

(۱۸)

حضرت کا مکتوب گرامی

(بصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کے نام)

یاد رکھو کہ یہ بصرہ ابلیس کے اترنے اور فتنوں کے ابھرنے کی جگہ کا نام ہے لہٰذا یہاں کے لوگ کے ساتھ اچھابرتائو کرنا اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہ کھول دینا۔

مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم بنی تمیم کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہو اور ان سے سخت قسم کابرتائو کرتے ہو تو یاد رکھو کہ بنی تمیم وہ لوگ ہیں کہ جب ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو دوسرا ابھرآتا ہے۔یہ جنگ کے معاملہ میں جاہلیت یا اسلام کبھی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں اور پھر ہمارا ان سے رشتہ داری اورقرابت کا تعلق بھی ہے کہ اگرہم اس کاخیال رکھیں گے تواجرپائیں گے اور قطع تعلق کرلیں گے تو گناہ گار ہوں گے لہٰذا ابن عباس خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ان کے ساتھ اپنی زبان یا ہاتھ پر جاری ہونے والی اچھائی یا برائی میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا کہ ہم دونوں ان ذمہ داریوں میں شریک ہیں۔اور دیکھو تمہارے بارے میں میرا حسن ظن برقرار رہے اور میری رائے غلط ثابت ہونے پائے ۔

۴۹۲

(۱۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ دَهَاقِينَ أَهْلِ بَلَدِكَ شَكَوْا مِنْكَ غِلْظَةً وقَسْوَةً - واحْتِقَاراً وجَفْوَةً - ونَظَرْتُ فَلَمْ أَرَهُمْ أَهْلًا لأَنْ يُدْنَوْا لِشِرْكِهِمْ - ولَا أَنْ يُقْصَوْا ويُجْفَوْا لِعَهْدِهِمْ - فَالْبَسْ لَهُمْ جِلْبَاباً مِنَ اللِّينِ تَشُوبُه بِطَرَفٍ مِنَ الشِّدَّةِ - ودَاوِلْ لَهُمْ بَيْنَ الْقَسْوَةِ والرَّأْفَةِ - وامْزُجْ لَهُمْ بَيْنَ التَّقْرِيبِ والإِدْنَاءِ - والإِبْعَادِ والإِقْصَاءِ إِنْ شَاءَ اللَّه.

(۲۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد ابن أبيه - وهو خليفة عامله عبد الله بن عباس على البصرة وعبد الله عامل أمير المؤمنينعليه‌السلام يومئذ عليها - وعلى كور الأهواز وفارس وكرمان وغيرها:

(۱۹)

آپ کامکتوب گرامی

(اپنے بعض عمال کے نام )

اما بعد! تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہارے بارے میں سختی ۔سنگدلی ۔تحقیر و تذلیل اورتشدد کی شکایت کی ہے اورمیں نے ان کے بارے میں غورکرلیا ہے۔وہ اپنے شرک کی بنا پر قریب(۱) کرنے کے قابل تو نہیں ہیں لیکن عہدو پیمان کی بنا پرانہیں دوربھی نہیں کیا جاسکتا ہے اوران پر زیادتی بھی نہیں کی جا سکتی ہے لہٰذا تم ان کے بارے میں ایسی نرمی کاشعار اختیار کرو جس میں قدرے سختی بھی شامل ہو اور ان کے ساتھ سختی اور نرمی کے درمیان کا برتائو کرو کہ کبھی قریب کرلو۔کبھی دور کردو کبھی نزدیک بلا لو اور کبھی الگ رکھو۔انشاء اللہ ۔

(۲۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(زیاد بن ابیہ کے نام جوبصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کا نائب(۲) ہوگیا تھا اور ابن عباس بصرہ اور اہواز کے تمام اطراف کے عامل تھے )

(۱)واضح رہے کہ کسی کا قریب کر لینااورہے اور اس کے ساتھ عادلانہ اورمنصفانہ برتائو کرنا اور ہے۔اسلام عادلانہ برتائو کاحکم ہر ایک کے بارے میں دیتا ہے لیکن قربت کا جواز صرف صاحبان ایمان و کردار کے لئے ہے۔کفار و مشرکین کو تو اس نے حرم خدا سے بھی دور کردیا ہے اور ان کاداخلہ حدود حرم میں بند کردیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ آج عالم اسلام میں کفارو مشرکین ہی قریب بنائے جانے کے قابل ہیں اور کلمہ گو مسلمان اس لائق نہیں رہ گئے ہیں اور ان سے صبح و شام سرد جنگ صرف کفار و مشرکین سے قربت پیدا کرنے یا بر قرار رکھنے کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔اللہ اس اسلام پر رحم کرے اور اس امتکو عقل سلیم عنایت فرمائے ۔

(۲)واضح رہے کہ حضرت اختیاری طور پر کسی ایسے شخص کو عہدہ نہیں دے سکتے ہیں جس کا نسب مشکوک ہو۔یہکام ابن عباس نے ذاتی طورپر کیا تھا۔اسی لئے حضرت نے نہایت ہی سخت لہجہ میں خطاب فرمایا ہے۔

۴۹۳

وإِنِّي أُقْسِمُ بِاللَّه قَسَماً صَادِقاً - لَئِنْ بَلَغَنِي أَنَّكَ خُنْتَ مِنْ فَيْءِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئاً صَغِيراً أَوْ كَبِيراً - لأَشُدَّنَّ عَلَيْكَ شَدَّةً تَدَعُكَ قَلِيلَ الْوَفْرِ - ثَقِيلَ الظَّهْرِ ضَئِيلَ الأَمْرِ والسَّلَامُ

(۲۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد أيضا فَدَعِ الإِسْرَافَ مُقْتَصِداً - واذْكُرْ فِي الْيَوْمِ غَداً - وأَمْسِكْ مِنَ الْمَالِ بِقَدْرِ ضَرُورَتِكَ - وقَدِّمِ الْفَضْلَ لِيَوْمِ حَاجَتِكَ.

أَتَرْجُو أَنْ يُعْطِيَكَ اللَّه أَجْرَ الْمُتَوَاضِعِينَ - وأَنْتَ عِنْدَه مِنَ الْمُتَكَبِّرِينَ - وتَطْمَعُ وأَنْتَ مُتَمَرِّغٌ فِي النَّعِيمِ تَمْنَعُه الضَّعِيفَ والأَرْمَلَةَ - أَنْ يُوجِبَ لَكَ ثَوَابَ الْمُتَصَدِّقِينَ - وإِنَّمَا الْمَرْءُ مَجْزِيٌّ بِمَا أَسْلَفَ وقَادِمٌ عَلَى مَا قَدَّمَ والسَّلَامُ.

(۲۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس رحمه الله تعالى وكان عبد اللَّه يقول: «ما انتفعت بكلام بعد كلام رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،

میں اللہ کی سچی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مجھے خبر مل گئی کہ تم نے مسلمانوں کے مال غنیمت میں چھوٹی یا بڑی قسم کی خیانت کی ہے تو میں تم پر ایسی سختی کروں گا کہ تم نادار ۔بوجھل پیٹھ والے اور بے ننگ ونام ہو کر رہ جائو گے ۔والسلام )

(۲۱)

آپ کامکتوب گرامی

(زیاد ہی کے نام)

(اسراف کوچھوڑ کرمیانہ روی اختیار کرو اورآج کے دن کل کویاد رکھو۔بقدر ضرورت مال روک کر باقی روز حاجت کے لئے آگے بڑھا دو۔)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تم متکبروں میں رہو گے اورخدا تمہیں متواضع افراد جیسا اجردے دے گا یا تمہارے واسطے صدقہ وخیرات کرنے والوں کا ثواب لازم قراردے دیگا اورتم نعمتوں میں کروٹیں بدلتے رہوگے نہ کسی کمزور کاخیال کرو گے اور نہ کسی بیوہ کا جب کہ انسان کو اسی کا اجرملتا ہے جو اس نے انجام دیا ہے اور وہ اسی پر وارد ہوتا ہے جو اس نے پہلے بھیج دیا ہے۔والسلام

(۲۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔جس کے بارے میں خود ابن عباس کا مقولہ تھا کہمیں نے رسول اکرم

۴۹۴

كانتفاعي بهذا الكلام!»

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الْمَرْءَ قَدْ يَسُرُّه دَرْكُ مَا لَمْ يَكُنْ لِيَفُوتَه - ويَسُوؤُه فَوْتُ مَا لَمْ يَكُنْ لِيُدْرِكَه - فَلْيَكُنْ سُرُورُكَ بِمَا نِلْتَ مِنْ آخِرَتِكَ - ولْيَكُنْ أَسَفُكَ عَلَى مَا فَاتَكَ مِنْهَا - ومَا نِلْتَ مِنْ دُنْيَاكَ فَلَا تُكْثِرْ بِه فَرَحاً - ومَا فَاتَكَ مِنْهَا فَلَا تَأْسَ عَلَيْه جَزَعاً - ولْيَكُنْ هَمُّكَ فِيمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

(۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله قبل موته على سبيل الوصية - لما ضربه ابن ملجم لعنه الله:

وَصِيَّتِي لَكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِاللَّه شَيْئاً - ومُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَا تُضَيِّعُوا سُنَّتَه - أَقِيمُوا هَذَيْنِ الْعَمُودَيْنِ - وأَوْقِدُوا هَذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ وخَلَاكُمْ ذَمٌّ !

أَنَا بِالأَمْسِ صَاحِبُكُمْ - والْيَوْمَ عِبْرَةٌ لَكُمْ وغَداً مُفَارِقُكُمْ - إِنْ أَبْقَ فَأَنَا وَلِيُّ دَمِي - وإِنْ أَفْنَ فَالْفَنَاءُ مِيعَادِي -

کے بعد کسی کلام سے اس قدر استفادہ نہیں کیا ہے جس قدراس کلام سے کیا ہے )

امابعد! کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اسچیز کو پا کر بھی خوش ہو جاتا ہے جواس کے ہاتھ سے جانے والی نہیں تھی اور اس چیز کے چلے جانے سے بھی رنجیدہ ہو جاتا ہے جواسے ملنے والی نہیں تھی لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اس آخرت پر خوشی منائو جو حاصل ہو جائے اوراس پر افسوس کروجو اس میںسے حاصل نہ ہو سکے ۔دنیا حاصل ہوجائے تواس پر زیادہ خوشی کا اظہار نہ کرو اور ہاتھ سے نکل جائے تو بے قرار ہوکرافسوس نہ کرو۔تمہاری تمامتر فکر موت کے بعد کے بارے میں ہونی چاہیے ۔

(۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے اپنی شہادت سے پہلے بطور وصیت فرمایا ہے)

تم سب کے لئے میری وصیت یہ ہے کہ خبردار خداکے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ کرنا اور حضرت محمد (ص) کی سنت کو ضائع اور برباد نہ کرنا۔ان دونوں ستونوں کوقائم رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھو۔اس کے بعد کسی مذمت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔

میں کل تمہارے ساتھ تھا اور آج تمہارے لئے عبرت بن گیا ہوں اور کل تم سے جدا ہو جائوں گا۔اس کے بعد میں باقی رہ گیا تو اپنے خون کاصاحب اختیار میں خود ہوں ورنہ اگرمیری مدت حیات پوری ہوگئی ہے تو میں دنیا

۴۹۵

وإِنْ أَعْفُ فَالْعَفْوُ لِي قُرْبَةٌ وهُوَ لَكُمْ حَسَنَةٌ - فَاعْفُوا:( أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ الله لَكُمْ ) .

واللَّه مَا فَجَأَنِي مِنَ الْمَوْتِ وَارِدٌ كَرِهْتُه - ولَا طَالِعٌ أَنْكَرْتُه – ومَاكُنْتُ إِلَّا كَقَارِبٍ وَرَدَ وطَالِبٍ وَجَدَ -( وما عِنْدَ الله خَيْرٌ لِلأَبْرارِ ) .

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - أقول وقد مضى بعض هذا الكلام - فيما تقدم من الخطب - إلا أن فيه هاهنا زيادة أوجبت تكريره»

(۲۴)

ومن وصية لهعليه‌السلام

بما يعمل في أمواله - كتبها بعد منصرفه من صفين:

هَذَا مَا أَمَرَ بِه عَبْدُ اللَّه عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ

سے چلا جائوںگا۔میں اگر معاف(۱) کردوں تو یہ میرے لئے قربت الٰہی کا ذریعہ ہوگا اور تمہارے حق میں بھی ایک نیکی ہوگی لہٰذا تم بھی معاف کردینا۔'' کیا تم نہیں چاہتے ہوکہ اللہ تمہیں بخش دے ''

خدا کی قسم یہ اچانک موت ایسی نہیں ہے جسے میں نا پسند کرتا ہوں اور نہ ایسا سانحہ ہے جسے میں برا سمجھتا ہوں ۔میں تو اس شخص کے مانند ہوں جو رات بھر پانی کی جستجو میں رہے اور صبح کو چشمہ پروار ہو جائے اورتلاش کے بعد اپنے مقصد کو پالے اور پھرخداکی بارگاہ میں جو کچھ بھی ہے وہ نیک کرداروں کے لئے بہتر ہی ہے۔

سید رضی : اس کلام کا ایک حصہ پہلے گزر چکا ہے لیکن یہاں کچھ اصنافات تھے لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ اسے دوبارہ نقل کردیا جائے ۔

(۲۴)

آپ کی وصیت

(اپنے اموال کے بارےمیں جسے جنگ صفین کی واپسی پر تحریر فرمایا ہے)

یہ بندۂ خدا ! علی بن ابی طالب امیر المومنین کاحکم

(۱)واضح رہے کہ اس معافی سے مراد دنیا میں انتقام نہ لینا ہے کہ قاتل کے جرم کی دوحیثیتیں ہوتی ہیں ۔وہ انسانی دنیا میں ایک خون کا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں قصاص کا قانون سامنے آتا ہے اور مذہبی دنیا میں حکم الٰہی کی مخالفت کامجرم ہوتا ہے جس کا انجام آتش جہنم ہے۔دنیا کے قصاص و انتقام میں فسادات کے اندیشے ہوتے ہیں اورعداوتوں کے شعلے مزید بھڑک اٹھتے ہیں لیکن آخرت کے عذاب میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہے۔اس لئے صاحبان عقل و دانش یہاں کے انتقام کو نظراندازکردیتے ہیں تاکہ مزید فساد نہ پیدا ہو سکے اور اس بات سے مطمئن رہتے ہیں کہ مجرم کے لئیعذاب جہنم ہی کافی ہے اور خدا سے بہتر انتقام لینے والا کون ہے ۔

۴۹۶

- فِي مَالِه ابْتِغَاءَ وَجْه اللَّه - لِيُولِجَه بِه الْجَنَّةَ ويُعْطِيَه بِه الأَمَنَةَ

مِنْهَا فَإِنَّه يَقُومُ بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ - يَأْكُلُ مِنْه بِالْمَعْرُوفِ - ويُنْفِقُ مِنْه بِالْمَعْرُوفِ - فَإِنْ حَدَثَ بِحَسَنٍ حَدَثٌ وحُسَيْنٌ حَيٌّ - قَامَ بِالأَمْرِ بَعْدَه وأَصْدَرَه مَصْدَرَه.

وإِنَّ لِابْنَيْ فَاطِمَةَ مِنْ صَدَقَةِ عَلِيٍّ مِثْلَ الَّذِي لِبَنِي عَلِيٍّ - وإِنِّي إِنَّمَا جَعَلْتُ الْقِيَامَ بِذَلِكَ - إِلَى ابْنَيْ فَاطِمَةَ ابْتِغَاءَ وَجْه اللَّه - وقُرْبَةً إِلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وتَكْرِيماً لِحُرْمَتِه وتَشْرِيفاً لِوُصْلَتِه

ويَشْتَرِطُ عَلَى الَّذِي يَجْعَلُه إِلَيْه - أَنْ يَتْرُكَ الْمَالَ عَلَى أُصُولِه - ويُنْفِقَ مِنْ ثَمَرِه حَيْثُ أُمِرَ بِه وهُدِيَ لَه - وأَلَّا

ہے اپنے اموال(۱) کے بارے میں جس کا مقصد رضائے پروردگار ہے تاکہ اس کے ذریعہ جنت میں داخل ہو سکے اور روز محشر کے ہول سے امان پا سکے ۔

ان اموال کی نگرانی حسن بن علی کریں گے بقدر ضرورت استعمال کریں گے اور بقدر مناسب انفاق کریں گے۔اس کے بعد اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آگیا اور جبیں باقی رہ گئے تو ذمہ دار وہ ہوں گے اور اسی انداز پر کام کریں گے ۔

اولاد فاطمہ کا حق علی کے صدقات میں وہی ہے جودیگر اولاد علی کا ہے۔میں نے نگرانی کاکام اولاد فاطمہ کو صرف رضائے الٰہی اورقربت پیغمبر (ص) کے خیال سے سونپ دیاہے کہ اس طرح حضرت کی حرمت کا احترام بھی ہو جائے گا اور آپ کی قرابت کا اعزاز بھی بر قرار رہے گا۔

لیکن اس کے بعد بھی والی کے لئے یہ شرط ہے کہ مال کی اصل کوباقی رکھے اور صرف اس کے ثمرات کوخرچ کرے ۔وہ بھی ان راہوں میں جن کا حکم دیا گیا ہے اورجن کی ہدایت دی گئی ہے اور خبردار اس قریہ کے

(۱)مورخین کے بیان کے مطابق امیر المومنین نے اپنی زندگی میں صرف ارواح و نفوس کی سر زمینوں کو زندہ کرنے کا کام انام نہیں دیا ہے ۔بلکہ مادی زمینوں میں بھی مسلسل کام کرتے رہے ہیں۔زمینوں کو قابل کاشت بنایا ہے۔چشموں کو جاری کیا ہے۔درختوں کی سینچائی کی ہے اور ایک مزدورجیسی زندگی گذاری ہے اور پھر اپنی ساری زحمتوں اور محنتوں کے نتیجہ کو راہ خدا میں وقف کردیا ہے تاکہ بندگان خدا استفادہ کر سکیں اور اولاد علی بھی صرف بقدر ضرورت فائدہ اٹھا سکے۔ ایساکردار اب صرف کا غذات پر رہ گیا ہے۔ورنہ اس کا وجود دنیا سے عنقا ہو چکا ہے نہ علی والوں میں دیکھنے میں آتا ہے اور نہ اغیار میں سر براہان مملکت فوٹو کھنچوانے کے لئے ہاتھ میں پھاوڑا اورکدال لے لیتے ہیں ورنہ انہیں زراعت سے کیا تعلق ہے ۔زمینوں کازندہ رکھنا ابو تراب کاکام تھا اور انہوں نے اس کاحق ادا کردیا۔باقی سب داستانیں ہیں جو صفحہ قرطاس پرمحفوظ کردی گئی ہیں اور ان میں روشنائی کی چمک ہے۔کردار اورحقیقت کی روشنی نہیں ہے۔

۴۹۷

يَبِيعَ مِنْ أَوْلَادِ نَخِيلِ هَذِه الْقُرَى وَدِيَّةً - حَتَّى تُشْكِلَ أَرْضُهَا غِرَاساً.

ومَنْ كَانَ مِنْ إِمَائِي اللَّاتِي أَطُوفُ عَلَيْهِنَّ - لَهَا وَلَدٌ أَوْ هِيَ حَامِلٌ - فَتُمْسَكُ عَلَى وَلَدِهَا وهِيَ مِنْ حَظِّه - فَإِنْ مَاتَ وَلَدُهَا وهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ عَتِيقَةٌ - قَدْ أَفْرَجَ عَنْهَا الرِّقُّ وحَرَّرَهَا الْعِتْقُ.

قال الشريف - قولهعليه‌السلام في هذه الوصية - وألا يبيع من نخلها ودية الودية الفسيلة وجمعها ودي. وقولهعليه‌السلام حتى تشكل أرضها غراسا - هو من أفصح الكلام - والمراد به أن الأرض يكثر فيها غراس النخل - حتى يراها الناظر على غير تلك الصفة التي عرفها بها - فيشكل عليه أمرها ويحسبها غيرها.

(۲۵)

ومن وصية لهعليه‌السلام

كان يكتبها لمن يستعمله على الصدقات

قال الشريف: وإنما ذكرنا هنا جملا ليعلم بها أنهعليه‌السلام كان يقيم عماد الحق، ويشرع أمثلة العدل، في صغير الأمور وكبيرها

نخلستان میں سے ایک پودا بھی فروخت نہ کرے یہاں تک کہ زمین دوبارہ بونے کے لائق نہ رہ جائے ۔

میری وہ کنیزیں جن سے میرا تعلق رہ چکا ہے اور ان کی اولاد بھی موجود ہے یا وہ حاملہ ہیں۔ان کو ان کی اولاد کے حساب میں روک لیا جائے اور انہیں کا حصہ قرار دے دیا جائے ۔اس کے بعد اگربچہ مرجائے اور کنیز زندہ رہ جائے تو اسے آزاد کردیا جائے کہ گویا اس کی غلامی ختم ہوچکی ہے اور آزادی حاصل ہو چکی ہے ۔

سید رضی : اس وصیت میں حضرت کا ارشاد '' ودیہ بھی فروخت نہ کیا جائے '' اس میں ودیہ سے مراد خرمہ کے چھوٹے درخت ہیں جس کی جمع ودی ہوتی ہے اور '' حتی تشکل ارضھا غراسا ''ایک فصیح ترین کلام ہے جس کامقصد یہ ہے کہ زمین میں کھجور کی درخت کاری اتنی زیادہ ہو جائے کہ دیکھنے والا اس کی اصل ہئیت کا اندازہ نہ کر سکے اور اس کے لئے مسئلہ مشتبہ ہوجائے کہ شاید یہ کوئی دوسری زمین ہے۔

(۲۵)

آپ کی وصیت

(جسے ہر اس شخص کو لکھ کردیتے تھے جسے صدقات کاعامل قراردیتے تھے )

سید رضی :میں نے یہ چند جملے اس لئے نقل کردئیے ہیں تاکہ ہر شخص کو اندازہ ہو جائے کہ حضرت کس طرح ستون حق کو قائم رکھتے تھے اور چھوٹے بڑے

۴۹۸

ودقيقها وجليلها.

انْطَلِقْ عَلَى تَقْوَى اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - ولَا تُرَوِّعَنَّ مُسْلِماً ولَا تَجْتَازَنَّ عَلَيْه كَارِهاً - ولَا تَأْخُذَنَّ مِنْه أَكْثَرَ مِنْ حَقِّ اللَّه فِي مَالِه - فَإِذَا قَدِمْتَ عَلَى الْحَيِّ فَانْزِلْ بِمَائِهِمْ - مِنْ غَيْرِ أَنْ تُخَالِطَ أَبْيَاتَهُمْ - ثُمَّ امْضِ إِلَيْهِمْ بِالسَّكِينَةِ والْوَقَارِ - حَتَّى تَقُومَ بَيْنَهُمْ فَتُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ - ولَا تُخْدِجْ بِالتَّحِيَّةِ لَهُمْ ثُمَّ تَقُولَ عِبَادَ اللَّه - أَرْسَلَنِي إِلَيْكُمْ وَلِيُّ اللَّه وخَلِيفَتُه - لِآخُذَ مِنْكُمْ حَقَّ اللَّه فِي أَمْوَالِكُمْ - فَهَلْ لِلَّه فِي أَمْوَالِكُمْ مِنْ حَقٍّ فَتُؤَدُّوه إِلَى وَلِيِّه - فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ لَا فَلَا تُرَاجِعْه - وإِنْ أَنْعَمَ لَكَ مُنْعِمٌ فَانْطَلِقْ مَعَه - مِنْ غَيْرِ أَنْ تُخِيفَه أَوْ تُوعِدَه - أَوْتَعْسِفَه أَوْ تُرْهِقَه فَخُذْ مَا أَعْطَاكَ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ - فَإِنْ كَانَ لَه مَاشِيَةٌ

' اہم اور معمولی معاملات میں عدل و انصاف کی مثالیں قائم کرنا چاہتے تھے ۔

خدائے وحدہ لا شریک کا خوف لے کر آگے بڑھو اور خبردار(۱) نہ کسی مسلمان کوخوفزدہ کرنا اورنہ کسی کی زمین پر جبراً اپنا گزر کرنا۔مال میں سے حق خدا سے ذرہ برابر زیادہ مت لینا اور جب کسی قبیلہ پر وارد ہونا تو ان کے گھروں میں گھسنے کے بجائے چشمہ اورکنویں پر وارد ہونا۔اس کے بعد سکون و وقار کے ساتھ ان کی طرف جانا اوران کے درمیان کھڑے ہو کر سلام کرنا اور سلام کرنے میں بخل سے کام نہ لینا۔

اس کے بعد ان سے کہنا کہ بندگان خدا مجھے تمہاری طرف پروردگار کے ولی اورجانشین نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے اموال میں سے پروردگار کا حق لے لوں تو کیا تمہارے اموال میں کوئی حق اللہ ہے جسے میرے حوالے کر سکو ؟ اگر کوئی شخص انکار کردے تو اس سے دوبارہ تکرارنہ کرنا اور اگر کوئی شخص اقرار کرے تو اس کے ساتھ اس انداز سے جاناکہ نہ کی کو خوفزدہ کرنا نہ دھمکی دینا۔نہ سختی کا برتائو کرنااور نہ بیجا دبائو ڈالنا جو سونایا چاندی دے دیں وہ لے لینا اور اگر چوپایایہ کے مرکز تک

(۱) دنیا میں کون ایسا سر براہ مملکتہے جو اپنے احکام کو اتنی شدید پابندیوں میں جکڑ دے اور اپنی رعایا کو اس قدر سہولت دیدے ۔دنیا کے حکام میں تو اس کردار کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اسلام کے خلفاء میں بھی دور دورتک اس کردار کا پتہ نہیں ملتا ہے اور حکومت کا آغاز ہی جبرو تشدد اور اسیری و خانہ سوزی سے ہوتا ہے۔

ضرورت ہے کہ اس وصیت نامہ کوبغور پڑھا جائے اور اس کی ایک دفعہ پر غور کیاجائے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ اسلامی سلطنت میں رعایا کا کیا مرتبہ ہوتا ہے حقوق کی ادائیگی میں کس قدر سہولت فراہم کی جاتی ہے اورانسانوں کی طرح جانوروں کے ساتھ کس طرح کابرتائو کیا جاتا ہے۔

۴۹۹

أَوْ إِبِلٌ فَلَا تَدْخُلْهَا إِلَّا بِإِذْنِه - فَإِنَّ أَكْثَرَهَا لَه - فَإِذَا أَتَيْتَهَا فَلَا تَدْخُلْ عَلَيْهَا دُخُولَ مُتَسَلِّطٍ عَلَيْه - ولَا عَنِيفٍ بِه - ولَا تُنَفِّرَنَّ بَهِيمَةً ولَا تُفْزِعَنَّهَا - ولَا تَسُوأَنَّ صَاحِبَهَا فِيهَا - واصْدَعِ الْمَالَ صَدْعَيْنِ ثُمَّ خَيِّرْه - فَإِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعْرِضَنَّ لِمَا اخْتَارَه - ثُمَّ اصْدَعِ الْبَاقِيَ صَدْعَيْنِ ثُمَّ خَيِّرْه - فَإِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعْرِضَنَّ لِمَا اخْتَارَه - فَلَا تَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يَبْقَى مَا فِيه - وَفَاءٌ لِحَقِّ اللَّه فِي مَالِه - فَاقْبِضْ حَقَّ اللَّه مِنْه - فَإِنِ اسْتَقَالَكَ فَأَقِلْه - ثُمَّ اخْلِطْهُمَا ثُمَّ اصْنَعْ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتَ أَوَّلًا - حَتَّى تَأْخُذَ حَقَّ اللَّه فِي مَالِه - ولَا تَأْخُذَنَّ عَوْداً ولَا هَرِمَةً ولَا مَكْسُورَةً ولَا مَهْلُوسَةً ولَا ذَاتَ عَوَارٍ - ولَا تَأْمَنَنَّ عَلَيْهَا إِلَّا مَنْ تَثِقُ بِدِينِه - رَافِقاً بِمَالِ الْمُسْلِمِينَ - حَتَّى يُوَصِّلَه إِلَى وَلِيِّهِمْ فَيَقْسِمَه بَيْنَهُمْ - ولَا تُوَكِّلْ بِهَا إِلَّا نَاصِحاً شَفِيقاً وأَمِيناً حَفِيظاً - غَيْرَ مُعْنِفٍ ولَا مُجْحِفٍ ولَا مُلْغِبٍ ولَا مُتْعِبٍ - ثُمَّ احْدُرْ إِلَيْنَا مَا اجْتَمَعَ عِنْدَكَ - نُصَيِّرْه حَيْثُ أَمَرَ اللَّه - بِه فَإِذَا أَخَذَهَا أَمِينُكَ - فَأَوْعِزْ إِلَيْه أَلَّا يَحُولَ بَيْنَ نَاقَةٍ وبَيْنَ فَصِيلِهَا - ولَا يَمْصُرَ لَبَنَهَا فَيَضُرَّ [فَيُضِرَّ] ذَلِكَ بِوَلَدِهَا - ولَا يَجْهَدَنَّهَا رُكُوباً -

پہنچ جانا تو کسی ظالم و جابر کی طرح داخل نہ ہونا نہ کسی جانور کو بھڑکادینا اور نہ کسی کوخوفزدہ کردینا اور مالک کے ساتھ بھی غلط برتائو نہ کرنا بلکہ مال کو دوحصہ میں تقسیم کرکے مالک کو اختیار دینا اوروہ جس حصہ کو اختیار کرلے اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا۔پھر باقی کودوحصوں میں تقسیم کرنا اور اسے اختیار دینا اورپھراس کے اختیار پراعتراض نہ کرنا۔یہاں تک کہ اتنا ہی مال باقی رہ جائے جس سے حقخدا ادا ہوسکتا ہے تو اسی کو لے لینا۔بلکہ اگر کوئی شخص تقسیم پر نظرثانی کی درخواست کرے تو اسے بھی منظور کر لینا اور سارے مال کو ملا کر پھر پہلے کی طرح تقسیم کرنا اور آخرمیں اسے بچے مال میں سیحق اللہ لے لینا۔بس اس کا خیال رکھنا کہ بوڑھا ۔ضعیف ۔کمرشکستہ۔ کمزور اور عیب دار اونٹ نہ لینا اور ان اونٹوں کا امین بھی اسی کو بنانا جس کے دین کااعتبار ہو اور جو مسلمانوں کے مال میں نرمی کا برتائو کرتا ہو۔تاکہ وہ ولی تک مال پہنچادے اوروہ ان کے درمیان تقسیم کردے ۔اس موضوع پر صرف اسے وکیل بنایا جو مخلص ۔خدا ترس ۔ امانت دار اورنگراں ہو ' نہ سختی کرنے والا ہو نہ ظلم کرنے والا۔نہ تھکا دینے والا ہو نہ شدت سے دوڑانے والا۔اس کے بعد جس قدر مال جمع ہو جائے ۔وہ میرے پاس بھیج دینا تاکہ میں امر الٰہی کے مطابق اس کے مرکز تک پہنچا دوں۔

امانت دار کو مال دیتے وقت اس بات کی ہدایت دے دینا کہ خبردار اونٹنی اور اس کے بچہ کو جدا نہ کرے اورسارادودھ نہ نکال لے جو بچہ کے حق میں مضر ہو۔ سواری

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863