نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656652 / ڈاؤنلوڈ: 15922
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

میرا وہ سفر جو امریکہ کے چندجنوبی ممالک سے متعلّق تھا جیسا کہ مجھے یاد ہے ان میں ایک ملک شیلی بھی تھا اس ملک کے ذمہ داروں اور یونیورسٹی کے سر براہان نے مجھ سے کہا کہ ہم اپنے ملک کے جوان طبقہ اور انکے مستقبل کے سلسلے میں بہت فکر مند ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں؟ ہم ان نوجوانوں کو اس یونیورسٹی میں آپ کے حوالے کرتے ہیں آپ انکی تربیت اپنی روش کے مطابق انجام دیں ہم آپ کو تمام سہولیات دیتے ہیں آپ ایک پروگرام کے تحت انکی تربیت کریں اس لئے کہ ہم کو اطمینان ہے کہ دنیا میں تربیت کے جتنے ذرائع ہیں ان میں مسلمانوں کی روش سب سے بہتر ہے۔ اس یونیورسٹی کا نائب مختلف شعبوں کو پہچنوانے او ر اس کی راہنمائی کے لئے ہمارے ساتھ تھا جب ظہر کا وقت ہوا تو ہم نے کہا ہم ظہر کی نماز پڑ ھنا چاہتے ہیں چنانچہ ایک جگہ ہمارے لئے معےّن ہوئی اور ہم لوگ نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے یونیورسٹی کا نائب جو کہ عیسائی تھا اس نے بھی ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ہمیں بہت تعجّب ہوا اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم آپ لوگ نماز میں کیا پڑھتے اور کیا کہتے ہیں ؟ لیکن یہ سجدہ کی حالت مجھکو بہت اچھی لگی اور میرے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی نماز پڑھوں ۔

۲۱

ہاوانا ]یہ ایک ایسے ملک کی راجدھانی ہے جو پچاس سال تک کمیونزم کے زیر تسلّط رہ چکا ہے اورآج بھی ہے [وہاں کے ایک بزرگ پروفیسر جو کہ پیدائشی طور پر اسپین کے رہنے والے ہیں اوروہاں تاریخ کے استاد ہیں وہا ں جتنے بھی اساتید ہماری میزبانی کر رہے تھے ان لوگوں کے درمیان یہ شخص بلند ہوا اور تقریر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ میں جوانی کے عالم میں اس بات کی خواہش رکھتا تھا کہ میں دو شخصیات کے بارے میں مطالعہ کروں اور تحقیقات کر کے تفصیلی معلومات حاصل کروںایک پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ]جو کہ ایک عالمی شخصیت کے مالک تھے [دوسرے خےّام جوکہ ایک ایرانی دانشمند ہے لیکن آج کل کافی دنوں سے میرے اندر ایک نئی شخصیت کے بارے میں جستجو کرنے کی خواہش ہو گئی ہے جس خواہش نے ان دونوں پرانی خواہشوں کوبھلا دیا ہے آج میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کروں جس نے دنیا میں انقلاب برپاکردیا ہے اور وہ ذات امام خمینی کی ہے یہاں پر وہہاواناکا ضعیف استاد جذباتی ہو گیا اس نے اپنے اندر عجیب کیفیت پیدا کر لی وہ دو بار میرے سامنے جھکا اور اس نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور خواہش کی کہ ایک اسپینی زبان میں ترجمہ شدہ قرآن اسکو دوں کہاں''ہاواناجہاں نصف صدی تک کمیونسٹ کی حکومت تھی وہاںایک یونیورسٹی کا استاد جو کہ سب سے ضعیف تھا اسکی یہ خواہش؟

۲۲

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ تصوّر نہ کریں کہ گمراہی کے وسائل بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور گمراہی ہر طرف پھیل چکی ہے اب کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے چاہے ایک بالشت ہو یا سو بالشت، ڈومنے کے لئے کافی ہے یہ تصّور بالکل غلط ہے مایوسی اور ناامےّدی کی حالت ہمارے اندر کبھی بھی نہیں ہونا چاہئے، خدا وند عالم نے اس دنیا کو انسان کی ترّقی اور کمال کے لئے پیدا کیا ہے اس کی ذات اس بات سے منزّہ ہے کہ دنیا کو چھوڑ دے اور کچھ شیطان نماانسانوں کے حوالے کر دے اور لا پرواہ ہو جائے ایسا ہر گز نہیں ہے، اگر گمراہی اور انحرافات کے وسائل زیادہ ہیں تو ہدایت و اصلاح کے راستے بھی نئے نئے سامنے آرہے ہیں جو کسی بھی پیغمبر اور امام کے زمانے میں موجود نہیں تھے ۔

وہ اجتماعی حالات جو آج سماج اور قوم کو بدلنے کے لئے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں پائے جاتے تھے آپ اسکانمونہ ایرانی انقلاب اور آٹھ سالہ دفاع مقدّس کے تناظرمیں دیکھ سکتے ہیں ۔

یہی جوان جو کہ شاہ کے دور میں پلے بڑھے تھے انکے اندر ایسا انقلاب اور تحوّل آیا کہ وہ با ایمان اور صاحب عرفان ہو گئے کہ ان لوگوں نے ۸ سالہ جنگ کو بہت ہی افتخار اور سر بلندی کے ساتھ فتح کیا اسی دفاع مقدّس میں ایسی قربانی دیکھی گئی جسکی کوئی مثال نہیں ملتی ان لوگوں نے لاجواب اور بے نظیر قربانی پیش کی ، ان لوگوں نے انقلاب کو زندئہ جاویدکر دیا ۔اگر آپ اس زمانے میں اپنی کلاسوں میں ملاحظہ کریں گے تو آپ کو ایسے نوجوان مل جائیںگے جو عرفانی مطالب کو حاصل کرنے کے لئے اسی قدر والہانہ جذبہ رکھتے ہیں کہ گویاسو سال کی منزل کو ایک دن میں طے کر لیں اگر انکی ہدایت اور راہنمائی صحیح طریقے سے کی جائے تو ان میں صبرو ایثار،جذبہ و فدا کاری کی نیز دنیاوی لذّات سے اپنے کو بچانے کی قوت و صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کا ہم نے انقلاب کے دوران اور جنگی محاذ پر مشاہدہ کیا ہے اور ایسی مثالوں کو دیکھا ہے اس نوجوان نسل کی ہدایت ]جو کہ بہترین صلاحیت رکھتے ہیں اور انکی فطرت پاک وپاکیزہ ہے[اور ان کی راہنمائی آج ہم اورآپ اساتیدکے کاندھوں پر ہے۔

۲۳

اکثر بڑے انقلابات صاحبان علم کی فکروں کا نتیجہ

ہماری بحث ذمہ داری اور مسئولیت کے بارے میں تھی جو مطالب میں نے پیش کئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو اور زیادہ محسوس کریں، اگر آپ توّجہ کریں تو دیکھںگے کہ جولوگ مختلف شعبوں میں کامیاب ہوئے ہیں اور دنیا کے مختلف حصّوں میں انقلاب لانے کا سبب واقع ہوئے ہیں نوے فیصد سے زیادہ افراد صاحبان علم ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ یونیورسٹی سے تعلّق رکھتے ہوں یادینی مدارس سے، اقتصادی،اجتماعی،سیاسی اوردینی نیزاسی طرح کے اور دوسرے شعبوں میں آپ اکثر دیکھں گے کہ شروع میں ایک شخص کی کوشش اورپلاننگ ہوتی ہے پھردھیرے دھیرے اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور آخر میں وہ بڑے انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ انقلاب اور تحوّل ہمیشہ مثبت اور مفید ہی رہا ہو ان میں منفی اور مضر تحوّلات بھی پائے جاتے ہیں بہت سے ایسے تحوّلات بھی ہیں جو کہ اپنے اندر بہت ہی وسیع پیمانے پر فکری اوراخلاقی انحرافات کے حامل ہیں اور وہ انحرافات بہت ہی خطرناک حد تک پہونچے ہوئے ہیں ، انھیں میں سے ایک انحراف جس کی طرف اشارہ کیا جا سکتاہے مغرب کاجنسی اور اخلاقی انحراف ہے جس کے قائل خود مغربی ممالک کے افراد ہیں کہ اس انحراف کا سبب جرمنی کا مشہور ماہر نفسیات ]زیگمونڈ فرویڈ[نے نفسیاتی بیماریوں کے اسباب و علل کو دیکھ کر نتیجہ نکالا کہ اس جنسی اور اخلاقی انحراف کا سبب جنسی خواہش کا کچلا جانا اور غریزئہ جنسی کا دبایا جانا ہے اور اس پر پہرے کے سبب یہ انحراف ہو رہا ہے اس نے تحلیل و تجزیہ کیا اور اس بیماری کی وسعت کو کم کرنے اور اس سے بچنے کے لئے یہ رائے پیش کی کہ سماج اور معاشرے میں پوری طرح سے جنسی آزادی ہونی چاہئے۔

اگر چہ خود (فرویڈ) اس نظریہ کو ظاہر کرنے میں کوئی قصد و غرض نہیں رکھتا تھا لیکن پھر بھی بہر حال یہ نظریہ اس جنسی اور اخلاقی تنزّلی اورپستی کا باعث بنا جسکا ہم مغربی ممالک میں مشاہدہ کر رہے ہیں البتہ شہوت پرستی اور لوگوں کی ہوس رانی نیزغلط فائدہ اٹھانے والوں کی منفعت طلبی اور وقت سے فائدہ اٹھانے والوں کی کار فرمائیاں بھی اس چیز کے پھیلائو کا سبب بنی ہیں لیکن بہر حال پہلا قدم اسکے پھیلانے میں فرویڈ'' کا تھا، آج کل دنیا میں سب سے زیادہ فائدہ مند صنعت سیکس اور جنسی مسائل سے متعلّق ہے دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی فلمیں سیکسی فلمیں ہیں اور ٹی وی پر جو چینل سیکسی فلمیں نشر کرتے ہیں وہی چینل دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں ان تمام انحرافات کی جڑ اسی ایک ماہر نفسیات کی فکر تھی۔

۲۴

فکری فسادو انحطاط کے متعلق بھی مارکس ازم کے تفکرّات اور اسکے غم انگیز نتیجوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ستّر سال سے جو فلسفہ نصف کرئہ زمین پر حاکم تھا خود انھیں ملکوں اور جو لوگ ان ملکوں میں انکے پیرو تھے خود انھیں لوگوں کے اعتراف کے مطابق اسکے خطرناک نتائج سامنے آئے ،یہی مارکس ازم کانظریہ تھا جس نے لاکھوں بے دین اورر منکرین خدا کو پیدا کیا جو خدا اور دین سے شدّت جنگ کی ،نیز یہ نظریہ بھی ایک دوسرے جرمنی دانشور'' مارکسکا تھا یہ تو چند مضر اور نقصان دہ تحوّلات تھے،البتہ کچھہ مثبت اور فائدہ مند تحولات بھی علماء اور دانشوروں نے ایجاد کئے ہیں جن سے ہم کو غافل نہیں ہونا چاہئے انقلاب جمہوری اسلامی ایران بیسویں صدی کا مہم ترین تحوّل و انقلاب ہے جس کا دوست اور دشمن سبھی نے اعتراف کیا ہے یہ ایک مذہبی عالم آیت...امام خمینی کی فکروں کا نتیجہ تھا امام خمینی کی شخصیت ایک سے زیادہ نہیں تھی اور اسلحہ ،پیسہ وغیرہ کچھ بھی نہیں رکھتے تھے ان کے پاس صرف ایک بلند فکر تھی ایسی فکر کہ شروع میں تقریباً۹۹ فیصد خاص دوست ا ور احباب بھی یقین نہیں رکھتے تھے کہ یہ فکر عملی ہوجائے گی لیکن سبھی لوگ گواہ ہیں کہ اس شخص نے دنیا سے الگ ایک چھوٹے اور معمولی مکان میں بیٹھ کر مشرق و مغرب کی دو بڑی طاقتوں کو مبہوت کر دیا یہ ایسے عالم میں ہوا کہ امام نہ شہرت کے طالب تھے اور نہ ہی حکومت کے خواہاں، جبکہ یہ عام بات ہے کہ کوئی استاد درس پڑھا کر نکلتا ہے تو تمام شاگرد اسکے پیچھے پیچھے چلتے ہیں لیکن امام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی انکے پیچھے چلے امام خمینی اگر کسی کو دیکھتے تھے تو اسکو منع کرتے تھے کہ وہ راستے میں انکے پیچھے پیچھے چلے، امام خمینی ایسے مرجع تھے کہ جنھوں نے بہت زمانے تک اپنے رسالہ عملیہ کو چھاپنے کی بھی اجازت نہیں دی اور جب اجازت دی تو اس شرط کے ساتھ کہ ایک پیسہ بھی سہم امام علیہم السلام کا اس میں خرچ نہ ہو میں خود اس بات کو جانتا ہوں کہ آپ کا رسالہ عملیہ کن لوگوں کے تعاون سے چھپا تھاآپ ایسی شخصیت تھے جو نہ قدرت کے طالب تھے اور نہ ہی شہرت کے خواہاں ،بلکہ ان دونوں چیز سے گریزاں تھے ۔

۲۵

آپ کے اندر ایک فکر تھی کہ جس پر بھروسہ کرکے آپ نے ایک بہت بڑا انقلاب برپا کر دیا ایسا تحوّل جس نے دنیا کے سیاسی حالات کو درہم برہم کر دیا یہ سب ایک مثبت فکر کا نتیجہ ہے۔

بہر حال میں اس بات کی تاکید کرنا چاہتا ہوں ایک آدمی،ایک استادخواہ وہ دینی مدرسے کا ہو یا یو نیورسٹی کا(چاہے وہ مثبت ہو یا منفی) عالمی انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔ اگر ہم اس مسئلہ کی کی طرف توجّہ کریں تو ان ذمہ داریوں کے بوجھ اور اسکی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں پھر اس بات کے لئے آمادہ ہونگے کہ اس کے لئے وقت صرف کریں درس اور کلاس کو تعطیل کریں اور بیٹھ کر اس اہم مسئلہ کے بارے میں بحث اور گفتگو کریں اور ملک کے نوجوانوں کے بارے میں فکر کریں، اسلام اور اسلامی معاشرہ سے متعلّق جو کام انجام دینا ہے اسکو پہچانیںاور ان کے متعلق اپنا فریضہ انجام دیں ان تمام مطالب کی طرف توجّہ کرتے ہوئے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فریضہ اور ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ہم کو کیا کرنا چاہئے اس کے جواب سے قبل ایک مقدمّہ بیان کرتا ہوں۔

تہذیبی انقلاب کی اہمیت

میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کو کتنا یاد ہے لیکن انقلاب اسلامی کے شروع ہی میں مرحوم امام خمینی نے ثقافتی اورتہذیبی انقلاب کے مسئلہ کو پیش کیا اور بہت سے ملک کے تعلیمی ادارے بند ہوگئے تو مختلف ممالک سے لوگ آئے تاکہ اس بات کوملاحظہ کریں کہ امام خمینی نے جو ثقافتی انقلاب کی بات کو کہی ہے آخراس کاراز کیا ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی ثقافتی انقلاب فرہنگی کی بات آئی تھی جو کہ چین کے ثقافتی انقلاب سے متعلّق تھی جسکی بنیاد''مائو''نے رکھی تھی بہر حال ساری دنیا سے اہل فکر و نظر اور سیاسی لوگ ایران آئے تاکہ دیکھیں امام خمینی کیا کرنا چاہتے ہیں مجھکو خود یاد ہے کہ ایک یہودی استاد بھی آسٹریلیا سے قم آیا تھا میں نے خود جلسہ میں بیٹھ کر اس سے بحث و گفتگو کی وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر امام خمینی کا تہذیبی انقلاب کیا ہے؟ میں نے اس کو وضاحت کے ساتھ بتایا۔

۲۶

لیکن افسوس کہ ایسے حالات سامنے آئے کہ امام خمینی اپنے ارمان کو صحیح طریقے سے بیان نہ کر سکے اور اس کو عملی جامہ نہ پہنا سکے چونکہ نیا نیا انقلاب آیا تھا مختلف مسائل اور مشکلات سامنے تھے ابھی کچھ ہی دن گذرے تھے کہ آٹھ سالہ جنگ ہم پر مسلّط کر دی گئی جو کہ ملک کا سب سے اہم مسئلہ بن گئی ہم کو اس پر بہت ہی امکانات اور قوت و طاقت صرف کرنی پڑی ،بہر حال ملک کے اندر اور باہر شیطان صفت افرادمتحد ہو گئے یہ بھی ایک سبب بنا کہ جو ثقافتی انقلاب امام خمینی کے ذہن میں تھا وہ حقیقی اور عملی صورت اختیار نہیں کر سکا لہٰذا اگر کوئی یہ نتیجہ نکالے کہ بیرونی دبائو اورفوجی محاصرہ اور اقتصادی پابندی اور طرح طرح کی مشکلات ہمارے لئے کھڑی کی گئیں وہ سب صرف اس لئے کیا گیاکہ امام خمینی کا ثقافتی انقلاب کامیاب نہ ہو سکے اس جملہ میں کچھ نہ کچھ ربط ضرور ہے اور اس کو بعید از امکان نہیں سمجھنا چاہیئے، آپ خود بو سینا میں دیکھیں کہ وہاں اتنے ظلم کیوں کئے گئے ؟اور بہت ہی بے رحمی اور پوری دشمنی کے ساتھ ہزاروں مردوں، عورتوں ،بوڑھوں جوانوںحتیّٰ بچوّں کو قتل کر کے انکے سر کیوں جدا کئے گئے؟اور جو لوگ حیوانات کی حفاظت کے لئے انجمن بناتے ہیں اور چند حیوانات کے لئے مظاہرہ کرتے ہیں وہ لوگ بھی انسانوں پر اتنے ظلم و ستم کے بعد بیٹھے دیکھتے رہے اور انکی زبان پر ذلّت و رسوائی کا تالا پڑا رہا اور ان سے کچھ نہ بولا گیا بلکہ اس کے بر خلاف ظالموں کی مالی اور جنگی مدد بھی کرتے رہے، کیا اس کا سبب ثقافتی اور تہذیبی مسئلہ کے علاوہ کچھ اور تھا ؟ کیا ان مسلمانوں کی تعداد دو تین ملین سے زیادہ تھی ؟ یہ نہ زمین رکھتے تھے اور نہ مکان نہ انکی تعداد زیادہ تھی نہ ہی انکے پاس دولت، ہتھیار ،ٹکنالوجی اور کوئی اہم چیز تھی تو ان لوگوں پر اتنا بھیانک حملہ اور ظلم و ستم کیوں ہوا ؟اس کا جواب صرف ایک چیز ہے وہ یہ کہ ان کے پاس صر ف ثقافت اور اسلام کا کلچر تھا وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ بیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے مرکز میں ایک اسلامی ملک ظاہر ہو رہا ہے اور اپنے وجود کا بر ملااعلان کر رہاہے اس سے وہ لوگ خوف زدہ تھے کہ اسلامی فرہنگ اور کلچر دھیرے دھیرے پڑوسی ممالک اور پورے یورپ میں پھیل جائے گااور آگے چل کر پورے یورپ میں ہر چیز کو بدل دے گا لہٰذا ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ آغاز میں ہی اس تحریک کو ختم کر دیا جائے اور یہی کام الجزائر، ترکیہ اور دوسرے اسلامی ممالک میں انجام دیا گیا، آخر کیوں ؟ یہ لوگ اسلام سے خوف زدہ ہیں اسلام کیا ہے؟ اسلام ایک فکر اور فرہنگ ثقافت کا نام ہے تو گویا یہ لوگ ایک فکر اور فرہنگ سے ڈرتے ہیں

۲۷

اس طولانی مقدّمہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کو اس سوال کے جواب میں کہ کیا کرنا چاہئے؟ صرف یہی ہے کہ ہم کو ثقافتی کام کرنا ہے یہ ساری بحثیں اس بات کا سبب بنتی ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنی ذمہ داری کو انجام دیں اور اس بات کو اپنے ذہن سے نکال دیں کہ یہ فکری اور فرہنگی بحثیں بے فائدہ ہیں اور ملک میں جو کچھ بھی مشکل ہے اسکا تعلّق صرف اقتصاد اور خارجی سیاست وغیرہ جیسے مسائل سے ہے ۔

انقلاب کے ارتقاء میں ثقافتی تحریکوں کا کردار

اسلامی تہذیب وتمدن کو فروغ دینے کے لئے ہم کو اصول اور نظام کی ضرورت ہے ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی تحریک کی راہ و روش کو معین کریں جو حالات ہمارے سامنے ہیں ان کو محسوس کریں اپنے طریقہ کار کو پہچانیں اسی طرح اس تحریک سے متعلّق راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دیکھیں اور ان سے متعلّق جو لازمی تدابیر ہیں انکو اختیار کریں، اس راستے میں سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہم فکروں کو نئے انداز سے پیش کریں، اپنے مطالعہ کو وسیع اور مضبوط کریں ،فکروں کے اصول کو قائم کریں اصولی اور بنیادی طور پر محکم انداز سے اپنے کام کو شروع کریں۔

۲۸

انقلاب کے شروع میں ہم لوگ ایک مختصر شناخت رکھتے تھے ہم کو ظالموں اور انکے پٹھّوئوں کے مقابلے میں پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اسی مختصرشناخت پر ہم نے حرکت کی اور انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور یہاں تک پہونچا ہے آج بھی لوگوں کی اکثریت اسی اصول اور قانون کی پابند ہے لیکن ہم کو اس بات پر توّجہ دینی ہوگی کہ اس انقلاب کو باقی رکھنے اور اس کے تحفظ کے لئے یہ تھوڑی سی شناخت کافی نہیں ہے اس حرکت کے آغاز اور انقلاب کی کامیابی کے لئے زیادہ تر احساسات اورجذبات پر بھروسہ تھا جو کہ اسی مختصر شناخت کے ساتھ تھا جس سے کچھ نتیجہ حاصل ہوا لیکن اس راستے کو جاری رکھنے کے لئے صرف اس پر عمل کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہم کو اب اصل میں احساس و عواطف سے ہٹ کر شناخت اوربصیرت کے اسباب پر زیادہ توجّہ دینی ہوگی۔ اب آج نوحہ و ماتم اور نعروں سے لوگوں کو جمع نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ سب چیزیں اپنی جگہ پر باقی رہیں اور محفوظ رکھی جائیں ،لیکن گفتگو اس بات میں ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ثقافتی اموراور تہذیبی مراکز میں کوئی رخنہ وارد نہ ہو اور ہم دشمن کے نفوذ سے محفوظ رہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم غورو فکر کے ساتھ فرہنگ و ثقافت کی طرف خاص توجّہ دیں ۔آج دشمن بھی چالاکی کے ساتھ اس نکتے کو پہچان گیا ہے اس نے اپنی قوی اور مستحکم حرکت کو اقتصادی اور فوج میدان سے ہٹاکر سارے امکانات کو ثقافتی مسائل میں صرف کر رہا ہے اور دشمن اس کوشش میں ہے کہ اس طرح سے انقلاب کے ثقافتی مراکز کو آلودہ اور خراب کرکے دھیرے دھیرے تمام میدان کو اپنے قبضہ و اختیار میں کر لے ،اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ثقافتی شگاف کو روکیں اور دشمن کو اس طرف سے داخل نہ ہونے دیں تو ہمیں چاہئے کہ اس پرا گندگی اور بے نظمی سے اپنے کو نکالیں، اگر ہم یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے چاہتے ہیں کہ ثقافتی کاموں کو انجام دیں اور اسلام کی قدرو قیمت اور اسکی اہمیت کو نو جوانوں کے ذہن تک پہونچائیں تو سب سے پہلے ہم اپنے کو فکری اور ثقافتی اسلحہ سے لیس کریں

۲۹

اور اسلامی فکر و ثقافت اور اسکے مبانی و اصول نیز مغربی فکر وثقافت اور وہ شبہات جو کہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں اس کو جانیں اور پہچانیں تاکہ معاشرہ خاص طور سے نوجوان نسلوں کے مسائل اور مشکلات اور انکے فکری اور ثقافتی شبہات ومشکلات کو حل کر سکیں اور انکے سوالات کے جوابات دے سکیں ا لبتہ خدا وند عالم خود اپنے دین کا محافظ ہے قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:( انّانحن نزّلناالذکر واناّ له لحافظون'' ) ( ۱ ) بیشک ہم نے قران کریم کو نازل کیا اور ہم ہی اسکے محافظ ہیں ۔ اور بیشک خدا وند عالم ان تمام ظلمتوں اور تاریکیوں کے باوجود اسلام اور دین کی کشتی کو ساحل نجات تک پہو نچائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے( هوالذی ارسل رسوله بالهدیٰ ودین الحق ) ۔۔.''( ۲ ) وہ خدا ہے جس نے پیغمبر کو ہدایت اور د ین حق کے ساتھ بھتجا تاکہ اسکو تمام ادیان پرغالب کر دے ہر چند کہ مشرکین اس بات کو نا پسند کریں ۔لیکن اس دین کی حفاظت کیوں نہ ہمارے ذریعہ ہو اور کیوں نہ ہم اس گروہ سے ہوں جن کوخدا وندعالم نے کلمہ حق کی بلندی کے لئے اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے چنا ہے۔ ؟

امید کرتا ہوں کہ خدا وند عالم ہم سبھی لوگوں کو یہ توفیق عنایت فرمائے اورآخر میں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ آج ہم لوگ اپنی حسّاس اور تا ریخی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اس ذمہ داری کو انجام دینے اور اپنی فکری اور فلسفی خامیوں کو دور کرنے کے لئے ضروری تےّاریاں کریں اور اس بات پر توّجہ دیں کہ اگر خدا نخواستہ اس عظیم کام اور اس ذمہ داری کو انجام دینے میں کوئی کمی یا کوتاہی کی تو خدا وند عالم ، پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان شہداء کی بارگاہ میں جنھوں نے اپنا خون نچھاور کر کے اس پاک و پاکیزہ شجر کو محفوظ رکھا ہم لوگ اس کے جواب دہ ہونگے اور آسانی سے اس سے بچ نہیں سکتے ۔

____________________

(۱)سورہ حجر : آیہ ۹۔

(۲) سورہ صف : آیہ ۹۔

۳۰

تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری-۲

خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے توفیق عطا فرمائی کہ دوبارہ یونیورسٹی کے معظّم اساتید کے درمیان گفتگو کرنے کا موقع ملا اس کے پہلے جلسے میں گفتگو اس بارے میں تھی کہ ہمارے اوپر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ اس کو میں نے کچھ حد تک بیان کیا اور اس ضمن میں چند باتیں آپ کے سامنے پیش کیںاس جلسے میں میں نے بیان کیا تھا کہ تہذیب وثقافت سے متعلق امور کو انجام دینے کے لئے سب سے پہلے ہم کو کچھ بنیادی باتوں پر غورو فکر کرنی ہوگی منجملہ انکے موجودہ حالات کو جاننا اور انکی تجزیہ اور تحلیل شامل ہے ،اگر چہ ہم لوگ اجمالی اور مختصر طور پر اپنے اندر ایک ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں اور یہی احساس ہے جس نے ہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے پر مجبورکیا ہے اور ہم لوگ ایک اجتماعی تحریک کے لئے آمادہ ہیں لیکن اس ذمہ داری کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور بہتر طریقے سے جاننے کے لئے انقلاب اجتماعی اور سیاسی حالات اور اس کی گذشتہ تاریخ کو جاننا ضروری ہوگا تاکہ موجودہ حالات کی تصویر کو زیادہ واضح طریقے سے سمجھ سکیں اور زیادہ معلومات کے ساتھ مطلوبہ حالت کی طرف قدم بڑھا سکیں ،البتہ اس بارے میں مزید تفصیلی بحث ہونی چاہئے لیکن وقت کی کمی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس گفتگو کو زیادہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے مجبوراً اسی ایک جلسہ میں اس مسئلہ کو پیش کرکے ختم کیا جارہا ہے ۔

۳۱

بہمن ۵۷ ۱۳ھجری شمشی سے پہلے ایران کی ایک تصویر

ہم سب کو معلوم ہے کہ اصل میں یہ تحریک ، انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پندرہ سال پہلے ۴۲ ہجری شمسی سے شروع ہو چکی تھی یہ پندرہ سال کاعرصہ ایرانی عوام پر بہت ہی سخت گذرا ہے افراتفری کی حالت پورے ملک میں پائی جاتی تھی۔ اقتصادی بحران، سرکاری خزانے کی غارت گری اور تمام شعبوںمیں گمراہی جو دربار شاہ سے وابستہ تھے ان میں اخلاقی برائیاں نیزسرکاری ملازمین میں غلط کاریاں ،بے انتہا رشوت خوری ،ہر جگہ نا قابل برداشت طبقاتی اختلاف نیز اسکے علاوہ اور بہت ساری خرابیاں جس نے لوگوں کو عاجز کر دیا تھا اس کے علاوہ اجتماعی معاملات میں غیروں ، خاص کر امریکا کا عمل دخل پوری طرح سے اتنا دکھائی دیتا تھا کہ بلند و بالا وزیر اور عہدہ دار بھی امریکی تسلّط کے زیر اثر تھے اور عملی طور سے امریکی سفارت خانہ تھا کہ جس کے ہاتھ میں ملک کی ساری حاکمیت تھی ، وہ لوگ ہماری عوام حتّی بزرگ شخصیتوں کی بے عزتی اور توہین کیا کرتے تھے اور بار بار کی حقارت و توہین سے ان لوگوںکے اندربہت حد تک احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا اور عوام یہ تصّور کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ امریکی ہی متمدّن اور ترقی یافتہ ہیں اور ہم لوگ ان کے مقابلے میں بے حیثیت اور پس ماندہ ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسراسب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگ دین سے مقابلہ و مبارزہ کی سیاست اپنائے ہوئے تھے اور یہ فکر دن بہ دن وسیع ہوتی جا رہی تھی اور ایک مضبوط صدا بن رہی تھی آخری دنوں میں بات یہاں تک پہونچ گئی تھی کہ ان لوگوں نے درمیان سے سارے پردوں کو ختم کر دیا تھا وہ لوگ عام طور سے دینی مقدّسات سے کھلواڑ کر رہے تھے ان تمام حالات کے ہوتے ہوئے ایک عام اور وسیع انقلاب کا ہونانا گزیر ہو گیا تھا ۔

۳۲

شہنشا ہی دور کی سب سے بڑی آفت

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کا تجزیہ کریں تو سب سے بڑی آفت میری نظر میں یہ تھی کہ پچھلی استعماری سیاست کے ذریعہ خاص طور سے پہلوی نظام کے پچاّس ساٹھ سالہ دور میں ان لوگوں نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے گروہ اور دیندار افراد کو سیاست سے با لکل خارج کر دیا تھا، اس زمانے کی بہت سی چیزیں مجھکو یاد ہیں لیکن جس نکتہ کی طرف میں نے اشارہ کیا اس کی طرف بہت کم دوستوں کی توّجہ ہوگی یا انکو یاد نہ ہوگا ،یہ ایک بلا تھی اور بہت ہی اہم مسئلہ تھا جو ان لوگوں نے اس ملّت کے لئے ایجاد کر دیا تھا ۔اس طرح کی ان لوگوں نے سیاست گذاری کی تھی کہ اس ملک کے سیاسی اور اجتماعی کاموں کو کچھ ایسے افراد کے حوالے کر دیا تھا کہ جو ان کے مطابق تھے ایسے منتخب افراد کہ جن میں اسّی فیصد سے زیادہ امریکہ میں تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے یا ایران میں ایسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے جو امریکہ کے زیر اثر تھیں منجملہ ان یو نیورسٹیوں میں تہران کا'' د انشکدئہ مدیریت''(جو آجکل امام صادق یونیورسٹی ) اور شیراز کی یو نیورسٹی تھی شیراز کی یونیورسٹی کا جو مالک ہوتا تھا وہ سفارت امریکہ سے معےّن ہوتا تھا اور دوسری یونیورسٹیوں کے نظام اور نصاب بھی امریکی ہی معےّن کرتے تھے ،بہر حال ملک کی سیاست گذاری عملی طور سے انھیں منتخب اور چنندہ دانشوروں کے ہاتھ میں تھی جنکی اکثریت امریکہ کی تربیت یافتہ تھی،البتہ یہ سیاست اصل میں انگریزوں کی ہے جو بہت ہی باضابطہ اور منظّم انداز میں تھی،امریکہ نے سیاست کے اس طریقے کو انگریزوں سے سیکھا ہے تا کہ اس ذریعہ سے ان ممالک میں بہت دنوں تک اپنا تسلّط برقرار رکھ سکیں لہٰذا وہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ایسے دانشوروں کی خود انھیں ملک میں تربیت کریں جو بلا واسطہ طریقے سے انکی فکروں کو پروان چڑھائے اوروہ ان کے مطابق ہر کام کرنے کے لئے تیارہوں ۔اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلاکہ ملک کے عام مسلمانوں کا ملک کی سیاست اور سرکاری امور میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا تھا صرف ایک پارلیمنٹ تھی جہاں عوام کی کسی حد تک دخالت نظر آرہی تھی وہ بھی اس طرح کہ ممبروں کی ایک لیسٹ اور فہرست دربار شاہ اور امریکی سفارت خانہ کے توسط سے پہلے ہی معےّن ہو جاتی تھی اور وہی نام انتخابات کے دن بکسوں سے باہر آتے تھے۔

۳۳

اگر چہ ملک کے دانشوروں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ملک کی موجودہ سیاست سے متّفق نہیں تھے اور کسی بھی طرح ان کے ساتھ رہنے کو آمادہ نہیں تھے بلکہ ان سے مقابلہ کے لئے تےّار تھے اس سلسلے میں ان لوگوں نے کئی جماعتیں تشکیل دی تھیں ان میں سے ایک حزب تودہ (تودہ پارٹی )تھی اگرچہ یہ لوگ بھی کسی حدتک مشرقی استعمار کا آلہ کار تھے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو روس کی طرف جھکائو رکھتے تھے اور وہ لوگ چاہتے تھے کہ ایران ایک سو سلشٹ اور روسی فکر میں تبدیل ہو جائے ،بہر حال پھر بھی اس گروہ میں کچھ مخلص اور سچّے لوگ بھی پائے جاتے تھے جوحقیقت میں انگریزوں اور امریکہ کے تسلّط اور استعمار کے چنگل سے بچنے کے لئے اسکے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں سمجھتے تھے تھا کہ اپنے کو روسیوںکے حوالہ کر دیں یعنی انکے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ تیسری دنیا کے ممالک مثلاً ایران وغیرہ کے سامنے صرف دو ہی راستہ ہے یا وہ امریکی پرچم کے نیچے آجائیں یا روسی پرچم کے زیر سایہ تا کہ انکے لئے دوسرے لوگوں سے مقابلہ کرنا ممکن اورآسان ہو جائے اگر چہ یہ دوسرے گروہ والے زیادہ نہیں تھے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اس خیال کے حامی ضرور تھے بہر حال ان دنوں دانشوروں کی ایک جماعت حزب تودہ کی شکل میں جمع ہو گئی تھی اور رسمی کاموں کو انجام دیتی تھی آج بھی ہم کو اس طرح کی تنظیم سے غافل نہیں ہونا چاہئے چونکہ یہ لوگ دوبارہ موقع کو غنیمت جان کر چوری چھپے اپنے کو پھر سے آمادہ کر رہے ہیں ۔اوراس بائیںبازو میں تودہ پارٹی کے علاوہ دوسرے گروہ جیسے فدائی خلق، کارگرپارٹی، رستگار پارٹی ، اور مختلف قسم کے مقامی گروہ مختلف علاقوںجیسے کردستان، آذربائیجان، ترکمنستان اور خوزستان وغیرہ میں موجود تھے ان تمام پارٹیوں کا مارکس ازم کی طرف جھکائو تھا ۔اس بات کا تذکرہ مناسب ہے کہ بہت سے گروہ جو کسی نام سے پائے جاتے تھے حقیقت میں اس کے اندر ممبران کی تعداد دس بیس افراد سے زیادہ نہیں تھی۔ ان بائیں بازو کی پارٹیوں کے مقابلہ میں اور دوسری پارٹیاں بھی پائی جاتی تھیں جن کا شمار داہنے بازو کی پارٹیوں میں ہوتا تھا جو کہ حکومت کی طرفدار اور اس پہلوی نظام کی موافق تھیں کہ مغربی بلاک سے تعلق رکھتی تھیں۔

۳۴

اس درمیان جس بات کی کمی تھی وہ دیندار افراد کی فعّالیت اور ان کا متحرک نہ ہونا تھا مختلف چالوں اور حربوں سے ان لوگوں کو سیاست کے میدان سے جدا کردیا گیا تھااور اس طرح سے تبلیغ کی گئی تھی کہ اصلاًکوئی دینداراورمتدےّن سیاسی امور میں دخالت نہیں کرتا تھا۔

یہ بات مجھکو خود یاد ہے کہ جب کسی موقع پر کسی عالم دین کو بدنام کرنا چاہتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ ملاّسیاسی ہے گویا ایسا دور آ گیا تھا کہ سیاسی مولوی ہونا ایک گالی تصوّر کیاجاتاتھا اسی وجہ سے دیندارافراد خاص طور سے عالم دین حضرات سیاست کے میدان میں اترنے سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بعض اسلامی ممالک کی پیروی اور کچھ دوسرے اسباب کی بنا پر دینداروں کے درمیان بھی بعض سیاسی گروہ پیدا ہو گئے تھے مشہور تنظیمفدائیان خلقانھیں گروہوںمیں سے ایک تھی اگر چہ یہ ایک چھوٹی سی تنظیم تھی لیکن اپنی جگہ بہت ہی مصممّ اور مستحکم پارٹی تھی، ایک دوسرا گروہحزب ملل اسلامی'' تھا جو کہ ۲۸ مردادکے بعد عالم وجود میں آیا تھا یہ لوگ بھی معدودے چندافرادسے زیادہ نہیں تھے اور آخر کار گوشئہ گمنامی میں چلے گئے اسی دوران (جو کہ مرحوم آیت۔۔ کاشانی کے سیاسی کارناموں کی بلندی کا دور تھا )ایک دوسرا گروہمجاہدین اسلامبھی تھا جس کے بانی شمس قنات آبادی تھےسازمان مجاہدین خلقجس کو آجکل ہم گروہ منافقین کے نام سے جانتے ہیں حقیقت میں اسی گروہ کا ایک حصّہ تھا جس کے بانی یہی شمس تھے جیسا کہ آپ جانتے ہیں بعد میں چل کر اس گروہ نے مارکسی رجحان پیدا کر لیا اور آخر کار امریکہ اورمغرب کے دامن میں چلا گیابہر حال ملک کے سیاسی حالات کی یہ تصویر او ر یہ متحّرک تنظیمیں انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھیں جو انھیںمذکورہ چند گروہوں میں منحصر تھیں اور ملک کے مخلص اورمعتقدمسلمانوں کی اکثریت ، جو کہ نوّے فیصدتھے اس میدان سے پوری طرح دور تھے سیاست میں آنے کے لئے انکے پاس کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں تھا ان نوّے فیصد لوگوں میں حالات اور واقعات کی حقیقت سے آگاہی رکھنے والے افراد کم نہ تھے یہ لوگ حقیقت میں ملک کے حالات سے ناراض تھے اور خون دل پیتے تھے لیکن عملی طور سے کچھ نہیں کر سکتے تھے انکو کچھ امید بھی نہیں تھی اس زمانے میں چند اسلامی گروہوں کے درمیان جو کہ واقعا ًاسلام سے لگائو رکھتے تھ

۳۵

ے اوروہ شاہ کی حکومت کو قبول نہیں کرتے تھے نیز بائیں بازو اور مارکس ازم کی طرف بھی ان کا رجحان نہیں تھا ایک گروہنہضت آزادیبھی تھااس گروہ میں چند نوجوان لڑکے تھے جنھوں نے اکٹھاہو کر ایک تنظیم بنا لی تھی اور دھیرے دھیرے اس تنظیم نے تحریک آزادی کی شکل اختیار کر لی تھی اس تنطیم کی بنیاد ڈالنے والے لوگوں میں انجینئر بازرگان اور ڈاکٹر ید ا... سحابی کا نام لیا جا سکتا ہے ،تہران یونیورسٹی کے شعبہ فنّی کی مسجد کی بنیاد ڈالنے والے یہی مہندس بازرگان تھے، اسی طرح آپ کئی رسالوں کو مختلف شکل میں چھاپتے تھے ان میں ایک رسالہ''گنج شایگاں''تھا ،تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح اسلام سے ربط رکھتے تھے نمازی اور روزہ دار بلکہ بعض عابدشب زندہ دار بھی تھے، اگرچہ تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح راستے سے بھٹک گئے اورخود کو سیاسی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے محاذملّی کے ان ممبران کے عنوان سے پیش کیا جو کہ سیاسی دانشوروں کے درمیان دوسروں سے بہتر تصوّر کئے جاتے تھے، اور ویسا ہی کام کرنے لگے سیاسی اعتبار سے ملک کی یہ حالت اس وقت، انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھی ۔

سیاسی تغیراورانقلاب کے لئے امام خمینی کی حکمت عملی

ان حالات میں امام خمینی نے فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کے ساتھ جو کہ شروع سے آپ رکھتے تھے یہ محسوس کیا کہ یہ سیاسی کارنامے جو دانشوروں کے مختلف گروہوں کی طرف سے انجام دئیے جارہے ہیں اگرنتیجہ کو پہونچ جائیں تو بھی اس سے اسلام کو کوئی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے حتیّٰ جو لوگ اسلام کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں اس سے بھی کچھ فائدہ ہونے والانہیں ہے، صرف ایک راستہ جو امام خمینی کی نظر میں فائدہ مند تھا اور اس کا ہونا ضروری تھا وہ یہ کہ عام مسلمانوں کو میدان میں لایا جائے امام خمینی کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ جماعتیں اور تنظیمیں ایک اسلامی انقلاب( جو کہ مضبوطی کے ساتھ تمام شعبوں میں حاکم ہو اور حکومت اسلامی کی شکل میں ہو ) نہیں لاسکتی ہیں ، اگرچہ امام خمینی کی تھیوری اس زمانے میں قابل قبول نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے وہ لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ جہاں بھی جس صورت میں سیاسی تحریک اور فعّالیت انجام پائے، اس کا نتیجہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی گروہ یا تنظیم کی شکل میں کسی خاص رابطہ اور قاعدہ کے ساتھ انجام پائے اسکے بر خلاف ایسی تحریک جو عمومی طور سے ہو اور اس میں سب کے سب لوگ دخالت رکھتے ہوں

۳۶

اور سب کے سب اپنے کو ذمہ دار محسوس کرتے ہوں اور وہ تمام لوگ متحد ہو کر حرکت کرتے ہوں تو علوم سیاسی کے کلاسکی نظریات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر امام خمینی یہ چاہتے کہ اپنے نظریات اور افکار کو علمی نظریہ کی شکل میں پیش کریں اور اس کے بارے میں بحث وگفتگو کریں تو کوئی بھی اس کو قبو ل نہیں کرتا امام خمینی نے اس سیاسی مطلب کو علمی نظریہ میں پیش کرنے کے بجائے اس کام کو عملی طور سے پیش کرنا شروع کیا اور آپ نے مصّمم ارادہ کر لیا کہ عام لوگو ںکو میدان میں لیکر آئیں اور اس احساس ذمہ دارری کو عام لوگوں کے ذہن میں ڈال دیا کہ مسلمان ہونے کے ناطے تمام لوگوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی امور میں حصّہ لیں، امام خمینی کی یہ فکر دوسری اور فکروں کی طرح ایک نئی فکر تھی اگر امام خمینی س راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے تو کوئی خاطرخواہ انقلاب پیدا نہیں کر سکتے تھے امام خمینی نے عوامی طاقت اور ان کی حمایت سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی اور اس تحریک کو جو کہ اس کے پہلے ہمیں نظر نہیں آتی تھی وجود بخشا ، اس کام کو کوئی بھی سیاسی گروہ چاہے بائیں بازو کی پارٹی ہو یا تنظیم ملّی ہو یا کوئی اور مذہبی گروہ ہو انجام دینے پر قادر نہیں تھا ،اس بات کادوست دشمن سب نے اعتراف کیا ہے ۔ یہ صرف امام خمینی کی ذات تھی جس نے عظیم ملّت کے گروہوں میں چھپی ہوئی طاقت کو مشخّص کرکے ان کے دینی اور اسلامی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نتیجہ خیز کام کو شروع کیا ۔ہم کویہ بات اچھی طرح یاد ہے اور میں خود اس بات کا قریب سے گواہ ہوں کہ وہ آوارہ اوربیکار جوان جو کہ سڑکوں اور گلیوں میں پھرا کرتے تھے امام خمینی نے ان کو ایسا بدل دیا اور ایسا بنا دیا کہ وہ انقلاب کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے سینوں کو ڈھال بنا کر پیش کرتے تھے اورحکومت شاہ کے سپاہیوںسے کہتے تھے مارو جتنا مارنا ہے مار لو! امام خمینی نے لوگوں کے اندر ان کی دینی ذمہ داری کے احساس کو زندہ کر دیا آپ نے اپنی خالص نےّت سے ایسا کام کر دیا جس سے لوگوں میں محدود اور خشک گروہی رابطوں کے بجائے ایک گہرا اور صمیمانہ رابطہ پیدا ہوگیا لوگ امام خمینی سے محبّت کرتے تھے اور پروانہ کی طرح ارد گرد گھومتے تھے ۔یہ امام خمینی کی بے مثل اور بے نظیر رہبری اور قیادت تھی ہم آج بھی محبّت کے اس گہرے رشتے کو دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ آپکے انتقال کے سالوں بعد بھی آپ کا نام خاص احترا م کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

۳۷

بہر حال امام خمینی کی یہ تحریک اس روز کے رائج فارمولے اور سیاست سے جدا تھی، اس وقت جب ۱۳۵۶ہجری شمسی میں لوگوں نے سڑکوں پر مظاہرہ شروع کیا تو اچھے اچھے لوگوں نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بیس سال سے کم کی مدّت میں اس حرکت اور قیام کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے اور کامیابی حاصل ہوگی ایسے افراد سے میری مراد ڈاکٹر بہشتی وغیرہ جیسے لوگ ہیں یہ لوگ کوئی معمولی شخصیت کے مالک نہیں تھے بلکہ بلند سیاسی درجہ رکھتے تھے ان جیسے لوگوں کا بھی ( انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے اور آزادی کے آخری دنوں میں ) یہی نظریہ تھا کہ ابھی بیس سال اور انتظار کریں لیکن سبھی لوگوں نے دیکھا کہ امام خمینی کی تحریک نے ایک سال اور چند دنوں میں ہی نتیجہ دینا شروع کر دیا اور انقلاب کامیاب ہو گیا ،ایسی چیز جس پر میں خود ذاتی طور پر بھی یقین نہیں کرتا تھا اگر کوئی کہتا تھاتو مجھے خواب و خیال سا لگتا تھا میں تو ایک معمولی آدمی ہوں مجھ سے بڑے بڑے لوگوں کا بھی تصّور اور خیال یہی تھا ،بہر حال اگر یہ کہیں کہ ۱۳۵۷ میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی ایک خدائی معجزہ تھی تو میرے نزدیک یہ کوئی مبالغہ کی بات نہیں ہوگی۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض ایسے مفسد گروہ کہ جنکی لوگوں کے درمیان کوئی وقعت نہیں تھی اور ان کی بیہودہ حرکتیں، فریب کاریاںاور قتل و غارت گری ہی خود ان کے خاتمہ کا سبب بنی اور وہ ملک سے بھاگ گئے ان کے علاوہ کچھ دوسرے گروہ باقی رہ گئے جیسے تودہ پارٹی،دہشت گرد فدائی خلق ،پان ایرانیسٹ ،محاذملّی اورتحریک آزادی یہ لوگ پہلے کی طرح کام کرتے رہے انکے لئے کوئی چیز مانع بھی نہیں تھی اور انکے جان ومال محفوظ تھے ۔

یہاں تک تقریباًوہ مطالب تھے جن کو آپ سبھی لوگ جانتے تھے اور کوئی نئی بات نہیں تھی صرف ان مسائل اور واقعات پر جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھے ایک سرسری نظر ڈالی گئی اور اکثر مطالب مقدّمہ کے عنوان سے تھے اصل بحث جس پر میری خاص تاکید ہے اس کے بعد ہے جس پر میں چاہتا ہوں کہ آپ خاص توجّہ دیں ۔

۳۸

حقیقی اسلام کے افکار و اقدا ر سے متعلق اسلامی نظام کے کے ذمہ داروںکا اعتقاد

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد طبعی طور سے ملک کی سرپرستی اور حکومت بنانے سے متعلق بحث ہوئی؛ سب سے پہلی حکومت انجینئر بازرگان کی صدارت میں بنی؛ اسکے بعد بہت سے حکومتیں کئی لوگوں کی سر براہی میں بنیں؛بہت سی کمیاں اور فطری اشکالات جو کم تجربگی اور نئے ہونے کی وجہ سے لازمی تھے وہ سب پائے جاتے تھے جیسا کہ ہر انقلاب اور ہر نئی حکومت کی خصوصیت ہے لیکن اس کے علاوہ اس جگہ جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ کیا ارکان حکومت کے تمام لوگ امام خمینی کی طرح فکر رکھتے تھے اور کیا سبھی لوگ معاشرہ میں دین کے اثر کے متعلق وہی چیز سمجھتے تھے جومرحوم امام سمجھتے تھے ۔

اس وقت ملک کے بڑے لوگ جن کا شمار سیاسی طور پر بزرگوں اور فیصلہ کن لوگوں میں ہوتا تھا جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہد باہنر اور ان جیسے دوسرے لوگ جو سالوں امام خمینی کے زیر سایہ تربیت پاچکے تھے یہ لوگ مکمل طور سے امام خمینی کی فکروں اور نظریوں سے واقف تھے اس کے علاوہ یہ لوگ خود بھی اچھّی صلاحیت کے مالک تھے اسلام کے معارف اور اصول کا وسیع اور گہرا مطالعہ رکھتے تھے اور اسلام کے اصول و احکام اور معارف کا بخوبی علم رکھتے تھے، ایسے لوگ امام خمینی کے راستوں کو پہچانتے تھے اور اس پر اعتماد اور یقین رکھتے تھے اور حقیقت میں وہی چاہتے تھے جس کی فکراور جستجو میں امام خمینی تھے؛ لیکن ذرا آپ غور کریں یہ لوگ کتنے سال زندہ رہے؟ انقلاب کے ایک دو سال کے شروع میں ہی اکثر کو شہید کر دیا گیا سب سے پہلے مرتضیٰ مطّہری کو شہید کیا گیا اس کے بعد ۷ تیر اور ۸شہریور کا واقعہ ہوا ؛جس میں بہشتی؛ باہنر وغیرہ شہید ہوگئے نیز اور دوسرے بہت سارے واقعات جس میں بہت سے ایسے لوگ جو امام خمینی کے افکار اور اصول سے اچھی طرح واقف تھے اور اسی اصول پر یقین رکھتے تھے ملک کے سیاسی عہدوں پر متمکّن تھے اور ملک کے قوانین بنانے میں اہم رول رکھتے تھے وہ لوگ ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے، دشمن جو کہ سارے حالا ت سے باخبر تھا اس سے پہلے کہ ہم ان شخصیات کو اچھی طرح پہچانیں اس نے ان تمام لوگوں کو ہم سے چھین لیا ؛وہ بعض افراد کہ جن کا نام ہم نے لیا اور دوسرے چند لوگوں کو چھوڑ کر وہ تمام لوگ جو کہ ۸شہریور کے واقعہ اور مرحوم باہنر کی حکومت کے بعد حکومت کے لئے آئے اور ملک کے ا ہم سرکاری عہدوں اور وزارتوں پر فائز ہوئے وہ لوگ نہ اس حد تک امام خمینی کو پہچانتے تھے

۳۹

اورنہ انکی روحی اور معنوی نظر اس قابل تھی کہ وہ امام خمینی کے افکار کو پہچان سکیں ؛مختلف لوگ کم و بیش مغربی ثقافت اور تعلیمات سے متا ثر تھے وہ لوگ اسلامی معارف و ثقافت سے دور تھے یہ فاصلہ دن بہ دن ہر حکومت میں پچھلی حکومت اور اس کے مسئولین کی نسبت بڑھتا چلا گیا ؛لیکن جب تک امام خمینی زندہ تھے آپ کی روحانی عظمت اور الٰہی و معنوی شخصیت جس کا سایہ سارے ملک پر تھا بہت کم لوگ اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے تھے حتیٰ جو لوگ امام خمینی کی فکروں اور اصول کی مخالفت کرتے تھے وہ لوگ بھی مخالفت کے لئے راستے کو ہموار نہیں دیکھتے تھے اور پھر وہ عملی طور سے کوئی بات پیش نہیں کر سکتے تھے ۔بہر حال امام خمینی کے انتقال کے بعد آپ کے راستے اور افکار سے دوری کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا کیونکہ اب وہ مربی نہیں رہا اور وہ معنوی شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہی ؛امام خمینی ایسی شخصیت تھے جنھوں نے ۸۰سال تک سیاسی اور اجتماعی تلخ وشیریں حادثوں کو ملاحظہ کیا نفسانی اور روحانی طور سے اپنے کو آمادہ کیا اورآپ دشمن سے مقابلہ کا ۳۰ سالہ گرانبہاتجربہ رکھتے تھے لہٰذا امام خمینی کے بعد کوئی کتنی ہی خود سازی کرے اور کتنا ہی با تجربہ اور با لائق ہو وہ امام خمینی جیسا نہیں ہو سکتا ،یہ خود ایک وجہ ہے جو دوسری مختلف وجہوں کے ساتھ فطری طور سے موجود ہے اور اس وقت ان کے بیان کی گنجائش نہیں ہیاور یہ سب وجہیں ایک ساتھ مل کر اس بات کا سبب بن گئی ہیں کہ اسلامی افکارو اقدار دن بہ دن کم سے کمتر ہوتے جا رہے ہیں اس وقت ہم یہ ذمہ داری رکھتے ہیں کہ حالات کو سمجھیں اور مناسب طریقہ کار اور حکمت عملی کے ذریعہ ا س چیزکو آگے بڑھنے سے روکیں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

(۲۲۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في وصف بيعته بالخلافة

قال الشريف: وقد تقدم مثله بألفاظ مختلفة.

وبَسَطْتُمْ يَدِي فَكَفَفْتُهَا ومَدَدْتُمُوهَا فَقَبَضْتُهَا - ثُمَّ تَدَاكَكْتُمْ عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ - عَلَى حِيَاضِهَا يَوْمَ وِرْدِهَا - حَتَّى انْقَطَعَتِ النَّعْلُ - وسَقَطَ الرِّدَاءُ ووُطِئَ الضَّعِيفُ - وبَلَغَ مِنْ سُرُورِ النَّاسِ بِبَيْعَتِهِمْ إِيَّايَ - أَنِ ابْتَهَجَ بِهَا الصَّغِيرُ وهَدَجَ إِلَيْهَا الْكَبِيرُ - وتَحَامَلَ نَحْوَهَا الْعَلِيلُ وحَسَرَتْ إِلَيْهَا الْكِعَابُ

(۲۳۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في مقاصد أخرى

فَإِنَّ تَقْوَى اللَّه مِفْتَاحُ سَدَادٍ

(۲۲۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(اپنی بعیت خلافت کے بارے میں )

تم نے بیعت کے لئے میری طرف ہاتھ پھیلانا چاہا تو میں نے روک لیا اور اسے کھینچنا چاہا تو میں نے سمیٹ لیا ۔لیکن اس کے بعد تم اس طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے جس طرح پانی پینے کے دن پیا سے اونٹ تالاب پر گر پڑتے ہیں۔یہاں تک کہ میری جوتی کا تسمہ کٹ گیا اور عبا کاندھے سے گر گئی اور کمزور افراد کچل گئے۔تمہاری خوشی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خوشیاں منائیں ۔بوڑھے لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھے ۔بیمار اٹھتے بیٹھتے۔پہنچ گئے اور میری بیعت کے لئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ(۱) سے باہر نکل آئیں۔

(۲۳۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

یقینا تقویٰ الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا

(۱) کس قدر فرق ہے اس بیعت میں جس کے لئے بوڑھے بچے عورتیں سب گھرسے نکل آئے اور کمال اشتیاق میں صاحب منصب کی بارگاہ کی طرف دوڑ پڑے اوراس بیعت میں جس کے لئے بنت رسول (ص) کے دروازہ میں آگ لگائی گئی ۔نفس رسول (ص) کو گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر گھرسے نکالا گیا اور صحابہ کرام کو زد و کوب کیا گیا۔

کیا ایسی بیعت کوبھی اسلامی بیعت کہاجا سکتا ہے اورایسے انداز کوبھی جواز خلافت کی دلیل بنایا جا سکتا ہے ؟ امیرالمومنین نے اپنی بیعت کاتذکرہ اسی لئے فرمایا ہے کہ صاحبان عقل و شعوراور ارباب عدل وانصاف بیعت کے معنی کا ادراک کرس کیں اور ظلم وجور۔جبر و استبدار کو بیعت کا نام نہدے سکیں اور نہ اسے جوازحکومت کی دلیل بناسکیں۔

۴۶۱

وذَخِيرَةُ مَعَادٍ وعِتْقٌ مِنْ كُلِّ مَلَكَةٍ - ونَجَاةٌ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ بِهَا يَنْجَحُ الطَّالِبُ - ويَنْجُو الْهَارِبُ وتُنَالُ الرَّغَائِبُ.

فضل العمل

فَاعْمَلُوا والْعَمَلُ يُرْفَعُ - والتَّوْبَةُ تَنْفَعُ والدُّعَاءُ يُسْمَعُ - والْحَالُ هَادِئَةٌ والأَقْلَامُ جَارِيَةٌ - وبَادِرُوا بِالأَعْمَالِ عُمُراً نَاكِساً - أَوْ مَرَضاً حَابِساً أَوْ مَوْتاً خَالِساً - فَإِنَّ الْمَوْتَ هَادِمُ لَذَّاتِكُمْ - ومُكَدِّرُ شَهَوَاتِكُمْ ومُبَاعِدُ طِيَّاتِكُمْ - زَائِرٌ غَيْرُ مَحْبُوبٍ وقِرْنٌ غَيْرُ مَغْلُوبٍ - ووَاتِرٌ غَيْرُ مَطْلُوبٍ - قَدْ أَعْلَقَتْكُمْ حَبَائِلُه - وتَكَنَّفَتْكُمْ غَوَائِلُه وأَقْصَدَتْكُمْ مَعَابِلُه - وعَظُمَتْ فِيكُمْ سَطْوَتُه وتَتَابَعَتْ عَلَيْكُمْ عَدْوَتُه ،وقَلَّتْ عَنْكُمْ نَبْوَتُه - فَيُوشِكُ أَنْ تَغْشَاكُمْ دَوَاجِي ظُلَلِه - واحْتِدَامُ عِلَلِه وحَنَادِسُ غَمَرَاتِه - وغَوَاشِي سَكَرَاتِه وأَلِيمُ إِرْهَاقِه - ودُجُوُّ أَطْبَاقِه وجُشُوبَةُ مَذَاقِه - فَكَأَنْ قَدْ أَتَاكُمْ بَغْتَةً

ذخیرہ ہے۔ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔اس کے وسیلہ سے طلب گار کامیاب ہوتے ہیں۔عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اوربہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔

لہٰذا عمل کرو کہابھی اعمال بلند ہو رہے ہیں اور توبہ فائدہ مند ہے اور دعا سنی جا رہی ہے۔حالات پر سکون ہیں قلم اعمال چل رہا ہے۔اپنے اعمال کے ذریعہ آگے بڑھ جائو جو الٹے پائوں چل رہی ہے اور اس مرض سے جواعمال سے روکدیتا ہے اوراس موت سے جواچانک جھپٹ لیتی ہے۔اس لئے کہ موت تمہاری لذتوں کو فناکردینے والی تمہاری خواہشات کو بدمزہ کردینے والی اور تمہاری منلوں کودورکردینے والی ہے۔وہ ایسی زائر ہے جسے کوئی پسند نہیں کرتاہے اور ایی مقابل ہے جومغلوب نہیں ہوتی ہے اور ایسی قاتل ہے جس سے خوں بہا کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے۔اس نے اپنے پھندے تمہاے گلوں میں ڈال رکھے ہیں اوراس کی ہلاکتوں نے تمہیں گھیرے میں لے لیا ہے اور اس کے تیروں نے تمہیں نشانہ بنا لیا ہے۔اس کی سطوت تمہارے بارے میں عظیم ہے اور اس کی تعدیاں مسلسل ہیں اور اس کا وار اچٹتا بھی نہیں ہے۔قریب ہے کہاس کے بادلوں کی تیرگیاں ۔اس کے مرض کی سختیاں۔اس کی جاں کنی کی اذیتیں۔اس کی دم اکھڑنے کی بے ہوشیاں ۔اس کے ہر طرف سے چھا جانے کی تاریکیا ں اور بد مزگیاں۔اس کی سختیوں کے اندھیرے تمہیں اپنے گھیرے میں لے لیں۔گویا وہ اچانک اس

۴۶۲

فَأَسْكَتَ نَجِيَّكُمْ - وفَرَّقَ نَدِيَّكُمْ وعَفَّى آثَارَكُمْ - وعَطَّلَ دِيَارَكُمْ وبَعَثَ وُرَّاثَكُمْ - يَقْتَسِمُونَ تُرَاثَكُمْ بَيْنَ حَمِيمٍ خَاصٍّ لَمْ يَنْفَعْ - وقَرِيبٍ مَحْزُونٍ لَمْ يَمْنَعْ - وآخَرَ شَامِتٍ لَمْ يَجْزَعْ.

فضل الجد

فَعَلَيْكُمْ بِالْجَدِّ والِاجْتِهَادِ والتَّأَهُّبِ والِاسْتِعْدَادِ - والتَّزَوُّدِ فِي مَنْزِلِ الزَّادِ - ولَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا - كَمَا غَرَّتْ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ الْمَاضِيَةِ - والْقُرُونِ الْخَالِيَةِ الَّذِينَ احْتَلَبُوا دِرَّتَهَا - وأَصَابُوا غِرَّتَهَا وأَفْنَوْا عِدَّتَهَا - وأَخْلَقُوا جِدَّتَهَا وأَصْبَحَتْ مَسَاكِنُهُمْ أَجْدَاثاً - وأَمْوَالُهُمْ مِيرَاثاً لَا يَعْرِفُونَ مَنْ أَتَاهُمْ - ولَا يَحْفِلُونَ مَنْ بَكَاهُمْ ولَا يُجِيبُونَ مَنْ دَعَاهُمْ - فَاحْذَرُوا الدُّنْيَا فَإِنَّهَا غَدَّارَةٌ غَرَّارَةٌ خَدُوعٌ - مُعْطِيَةٌ مَنُوعٌ مُلْبِسَةٌ نَزُوعٌ

طرح وارد ہوگئی کہ تمہارے راز داروں کو خاموش کردیا، ساتھیوں کو منتشر کردیا، آثار کومحو کردیا، دیار کو معطل کردیا اور وارثوں کو آمادہ کردیا۔اب وہ تمہاری میراث کو تقسیم کر رہے ہیں ان خاص عزیزوں کے درمیان جو کام(۱) نہیں آئے اور ان رنجیدہ رشتہ داروں کے درمیان جنہوں نے موت کو روکا نہیں اوران خوش ہونے والوں کے درمیان جو ہرگز رنجیدہ نہیں ہے۔

اب تمہارا فرض ہے کہ سعی کرو۔کوشش کرو ۔تیاری کرو۔آمادہ ہو جائو، اس زاد راہکی جگہ سے زاد سفر لے لو اور خبردار یہ دنیا تمہیں اس طرح دھوکہ نہ دے سکے جیسے پہلے والوں کو دیا ہے جوامتیں گزر گئیں اورجونسلیں تباہ ہوگئیں ۔جنہوں نے اس دنیا کا دودھ دوہا تھا۔اس کی غفلت سے فائدہ اٹھایا تھا۔اس کے باقی پسماندہ دنوں کو گزارا تھا اوراس کی تازگیوں کو پڑمردہ بنادیا تھا اب ان کے مکانات قبر بن گئے ہیں اور ان کے اموال میراث قرارپا گئے ہیں۔نہ انہیں اپنے پاس آنے والوں کی خبر ہے اور نہ رونے والوں کی پرواہ ہے اور نہ پکارنے والوں کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔

اس دنیا سے بچو کہ یہ بڑی دھوکہ باز۔فریب کار۔غدار۔دینے والی اورچھیننے والی اورلباس پہنا کراتار لینے والی(۱) ہے

(۱) یہ موت کا عجیب و غریب کاروبار ہے کہ مالک کودنیا سے اٹھالے جاتی ہے اور اس کامال ایسے افراد کے حوالے کر دیتی ہے جو نہ زندگی میں کام آئے اور نہ موت کے مرحلہ ہی میں ساتھ دے سکے۔کیا اس سے زیادہ عبرت کا کوئی مقام ہو سکتا ہے کہ انسان ایسی موت سے غافل رہے اور چند روز ہ زندگی کی لذتوں میں مبتلا ہو کرموت کے جملہ خطرات سے بے خبر ہو جائے ۔

۴۶۳

لَا يَدُومُ رَخَاؤُهَا - ولَا يَنْقَضِي عَنَاؤُهَا ولَا يَرْكُدُ بَلَاؤُهَا.

ومنها في صفة الزهاد - كَانُوا قَوْماً مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا ولَيْسُوا مِنْ أَهْلِهَا – فَكَانُوا فِيهَا كَمَنْ لَيْسَ مِنْهَا - عَمِلُوا فِيهَا بِمَا يُبْصِرُونَ - وبَادَرُوا فِيهَا مَا يَحْذَرُونَ - تَقَلَّبُ أَبْدَانِهِمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِ الآخِرَةِ - ويَرَوْنَ أَهْلَ الدُّنْيَا يُعَظِّمُونَ مَوْتَ أَجْسَادِهِمْ - وهُمْ أَشَدُّ إِعْظَاماً لِمَوْتِ قُلُوبِ أَحْيَائِهِمْ.

(۲۳۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها بذي قار - وهو متوجه إلى البصرة ذكرها الواقدي في كتاب «الجمل»:

فَصَدَعَ بِمَا أُمِرَ بِه وبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّه - فَلَمَّ اللَّه بِه الصَّدْعَ ورَتَقَ بِه الْفَتْقَ - وأَلَّفَ بِه الشَّمْلَ بَيْنَ ذَوِي الأَرْحَامِ - بَعْدَ الْعَدَاوَةِ الْوَاغِرَةِ فِي الصُّدُورِ - والضَّغَائِنِ الْقَادِحَةِ فِي الْقُلُوبِ.

نہ اس کی آسائشیں رہنے والی ہیں اورنہ اس کی تکلیفیں ختم ہونے والی ہیں اور نہ اس کی بلائیں تھمنے والی ہیں۔

(کچھ زاہدوں کے برے میں )یہ انہیں دنیا والوں میں تھے لیکن اہل دنیا نہیں تھے ۔ایسے تھے جیسے اس دنیا کے نہ ہوں۔دیکھ بھال کرعمل کیا اور خطرات سے آگے نکل گئے۔گویا ان کے بدن اہل آخرت کے درمیان کروٹیں بدل رہے ہیں اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اہل دنیا ان کی موت کوبڑی اہمیت دے رہے ہیں حالانکہ وہخود ان زندوں کے دلوں کی موت کو زیادہ بڑا حادثہ قرار دے رہے ہیں۔

(۲۳۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جسے بصرہ جاتے ہوئے مقام ذی قار میں ارشاد فرمایا اوراسے واقدی نے کتاب الجمل میں نقل کیا ہے )

رسول اکرم (ص) نے اوامر الہیہ کو واضح انداز سے پیش کردیا اوراس کے پیغامات کو پہنچادیا۔اللہ نے آپ کے ذریعہ انتشار کو مجتمع کیا ۔شگاف کو بھر دیا اور قرابتداروں کے افتراق کو انس میں تبدیل کردیا حالانکہ ان کے درمیان سخت قسم کی عداوت اوردلوں میں بھڑک اٹھنے والے کینے موجود تھے ۔

(۱) دنیاکی اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں ہو سکتی ہے کہ یہ ایک دن بہترین لباس سے انسان کو آراستہ کرتی ہے اور دوسرے دن اسے اتار کر سر راہ برہنہ کردیتی ہے۔یہی حال ظاہری لباس کابھی ہوتا ہے اور یہی حال معنوی لباس کابھی ہوتا ہے۔حسن دے کربد شکل بنا دیتی ہے جوانی دے کر بوڑھا کردیتی ہے۔زندگی دے کرمردہبنا دیتی ہے۔تخت و تاج دے کرکنج قبر کے حوالہ کردیتی ہے اور صاحب دربارو بارگاہ بنا کر قبرستان کے وحشت کدہ میں چھوڑ آتی ہے ۔

۴۶۴

(۲۳۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

كلم به عبد الله بن زمعة وهو من شيعته، وذلك أنه قدم عليه في خلافته يطلب منه مالا فقالعليه‌السلام :

إِنَّ هَذَا الْمَالَ لَيْسَ لِي ولَا لَكَ - وإِنَّمَا هُوَ فَيْءٌ لِلْمُسْلِمِينَ وجَلْبُ أَسْيَافِهِمْ - فَإِنْ شَرِكْتَهُمْ فِي حَرْبِهِمْ كَانَ لَكَ مِثْلُ حَظِّهِمْ - وإِلَّا فَجَنَاةُ أَيْدِيهِمْ لَا تَكُونُ لِغَيْرِ أَفْوَاهِهِمْ.

(۲۳۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

بعد أن أقدم أحدهم عل الكلام فحصر، وهو في فضل أهل البيت، ووصف فساد الزمان

أَلَا وإِنَّ اللِّسَانَ بَضْعَةٌ مِنَ الإِنْسَانِ - فَلَا يُسْعِدُه الْقَوْلُ إِذَا امْتَنَعَ - ولَا يُمْهِلُه النُّطْقُ إِذَا اتَّسَعَ - وإِنَّا لأُمَرَاءُ الْكَلَامِ

(۲۳۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس کا مخاطب عبداللہ بن زکعہ کو قرادیا تھا جو کہ آپ کے اصحاب میں شمار ہوتا تھا اور اس نے آپ سے مال کا مطالبہ کرلیا تھا)

یہ مال نہ میرا ہے اور نہ تیرا۔یہ مسلمانوں کا مشترکہ حق ہے اوران کی تلواروں کا نتیجہ ہے لہٰذا اگرت ونے ان کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا ہے تو انہیں کی طرح تیرا بھی حصہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایک شخص کے ہاتھ کی کمائی دوسرے کے منہ کا نوالہ(۱) نہیںبن سکتی ہے۔

(۲۳۳)

آپ کا ارشاد گرامی

فضائل اہلبیت ع اورزمانے کے فسادات کے بارے میں

یاد رکھو کہ زبان انسانی وجود کا ایک ٹکڑا ہے لہٰذا جب انسان رکجاتا ہے تو زبان ساتھ نہیں دے سکتی ہے اور جب انسان کے ذہن میں کشادگی ہوتی ہے تو زبان کو رکنے کی مہلت نہیں ہوتی ہے۔ہم اہل بیت(۲) جو اقلیم سخن

(۱)اس سے بہتر موعظہ و نصیحت عالم عمل و اکتساب میں ممکن نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ اس امر کا احساس رکھے کہ اگر کی مال سے استفادہ کرنے کا شوق ہے تو اس کی راہمیں عمل اورمحنت بھی ضروری ہے۔ورنہ ایک انسان کے نتیجہ عمل کو دوسرے کے حوالہ نہیں کیا جا سکتاہے اورنہدین خدا اس طرح کی مفت خوری اورحرام خوری کو برداشت کرسکتا ہے۔

(۲)کہا جاتا ہے کہ حضرت نے اپنے بھانجے جعدہ بن ہبیرہ مخزومی کو خطبہ پڑھنے کاحکم دیا تو ان کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی اور آپ نے زبان و بیان کے فضائل کے ساتھ اس حقیقت کا اعلان کیاکہ اہل بیت اقلیم سخن کے حکام ہیں لہٰذا جعدہ کو عاجز اور گونگا تصورنہیں کرنا چاہیے۔یہ ماحول کا اثرتھا کہ وہخطبہ نہ پیش کرس کے ۔اور زبان میں لکنت پیدا ہوگئی۔بلکہ ایسی صورت حال اکثر اوقات انسان کے کمال معرفت کی دلیل بن جاتی ہے کہ وہ بزرگوں کی بزرگی کا ادراک رکھتا ہے اور ان کے سامنے روانی کے ساتھ تقریر نہیں کرسکتا ہے۔

۴۶۵

وفِينَا تَنَشَّبَتْ عُرُوقُه - وعَلَيْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُونُه.

فساد الزمان

واعْلَمُوا رَحِمَكُمُ اللَّه أَنَّكُمْ فِي زَمَانٍ - الْقَائِلُ فِيه بِالْحَقِّ قَلِيلٌ - واللِّسَانُ عَنِ الصِّدْقِ كَلِيلٌ - واللَّازِمُ لِلْحَقِّ ذَلِيلٌ - أَهْلُه مُعْتَكِفُونَ عَلَى الْعِصْيَانِ - مُصْطَلِحُونَ عَلَى الإِدْهَانِ فَتَاهُمْ عَارِمٌ - وشَائِبُهُمْ آثِمٌ وعَالِمُهُمْ مُنَافِقٌ - وقَارِنُهُمْ مُمَاذِقٌ لَا يُعَظِّمُ صَغِيرُهُمْ كَبِيرَهُمْ - ولَا يَعُولُ غَنِيُّهُمْ فَقِيرَهُمْ.

(۲۳۴ )

ومن كلام لهعليه‌السلام

رَوَى ذِعْلَبٌ الْيَمَامِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ قُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّه بْنِ يَزِيدَ عَنْ مَالِكِ بْنِ دِحْيَةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمنِيِنَعليه‌السلام - وقَدْ ذُكِرَ عِنْدَه اخْتِلَافُ النَّاسِ فَقَالَ:

إِنَّمَا فَرَّقَ بَيْنَهُمْ مَبَادِئُ طِينِهِمْ

کے حکام ہیں۔ہمارے ہی اندر بیان کی جڑیں پیوست ہیں اور ہمارے ہی سر پر خطابت کی شاخیں سایہ فگن ہیں۔

(خدا تم پر رحم کرے ) یہ یاد رکھو کہتم اس زمانہ میں زندگی گذاررہے ہو جس میں حق کہنے والوں کی قلت ہے اور زبانیں صدق بیانی سے کند ہوگئی ہیں۔حق سے وابستہ رہنے والا ذلیل شمار ہوتا ہے اور اہل زمانہ گناہ و ناف رمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری پرمتحد ہوگئے ہیں۔جو ان بد خوہیں اور بوڑھے گناہ گار۔عالم منافق ہیں اور قاری چاپلوس۔نہ چھوٹے بڑوں کی تعظیمکرتے ہیں اور نہ دولت مند فقیروں کی دستگیری کرتے ہیں۔

(۲۳۴)

آپ کا ارشاد گرامی

( غلب یمانی احمد بن قتیبہ سے۔انہوں نے عبداللہ بن یزید سے اور انہوں نے مالک بن وحیہ کلبی سے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین کے سامنے لوگوں کے اختلاف ا مزاج کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا)

لوگوں کے درمیان یہ تفرقہ ان کی(۱) طینت

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی شکل و صورت اور اس کی طبیعت و فطرت میں ایک طرح کا رابطہ ضرورپایا جاتا ہے جیسا کہ دورحاضر کے بعض محققین نے ثابت جکیا ہے لیکن اس کا یہمطلب ہرگز نہیں ہے کہ ساری زندگی کے اعمال و کردار کا فیصلہ ابھی اسی طینت اورخاک سے ہو جاتا ہے۔انسانی زندگی پر تعلیم وتربیت کا بہر حال اثر ہوتا ہے اور اسی کے اعتبار سے کرداروں میں اختلاف بھی پیدا ہوجاتا ہے۔لیکن بنیادی سبب طینت کا اختلاف ہی ہے اور یہ ایک فطری شے ہے کہ جو چیز جس سے بنائی جائے گی اس مادہ کا اثر اس کے مزاج پر ضرور ہوگا۔

تجربات کی بنا پر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریگ زاروں کی مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کی طبیعت میں کسی طرح کی چیک نہیں ہوتی ہے اور کھارے پانی سے گندھی ہوئی مٹی کی مخلوقات میں حلاوت اور شیرینی نہیں ہوتی ہے۔یہ اوربات ہے کہ یہ طے کرنا سخت دشوار ہے کہ کون کس مٹی سے بنا ہے اور کس کی مٹی کس پانی سے گوندھی گئی ہے۔حالات کسی مقدار میں نشاندہی کر سکتے ہیں لیکن اسے دلیل مستقل نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔

۴۶۶

وذَلِكَ أَنَّهُمْ كَانُوا فِلْقَةً مِنْ سَبَخِ أَرْضٍ وعَذْبِهَا - وحَزْنِ تُرْبَةٍ وسَهْلِهَا - فَهُمْ عَلَى حَسَبِ قُرْبِ أَرْضِهِمْ يَتَقَارَبُونَ - وعَلَى قَدْرِ اخْتِلَافِهَا يَتَفَاوَتُونَ - فَتَامُّ الرُّوَاءِ نَاقِصُ الْعَقْلِ - ومَادُّ الْقَامَةِ قَصِيرُ الْهِمَّةِ - وزَاكِي الْعَمَلِ قَبِيحُ الْمَنْظَرِ - وقَرِيبُ الْقَعْرِ بَعِيدُ السَّبْرِ - ومَعْرُوفُ الضَّرِيبَةِ مُنْكَرُ الْجَلِيبَةِ - وتَائِه الْقَلْبِ مُتَفَرِّقُ اللُّبِّ - وطَلِيقُ اللِّسَانِ حَدِيدُ الْجَنَانِ.

(۲۳۵)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

قَالَه وهُوَ يَلِي غُسْلَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وتَجْهِيزَه

بِأَبِي أَنْتَ وأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّه - لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ يَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَيْرِكَ - مِنَ النُّبُوَّةِ والإِنْبَاءِ وأَخْبَارِ السَّمَاءِ - خَصَّصْتَ حَتَّى صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاكَ - وعَمَّمْتَ حَتَّى صَارَ النَّاسُ فِيكَ سَوَاءً - ولَوْ لَا أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ ونَهَيْتَ عَنِ الْجَزَعِ - لأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ الشُّئُونِ - ولَكَانَ الدَّاءُ مُمَاطِلًا والْكَمَدُ مُحَالِفاً - وقَلَّا لَكَ

کی بنیادوںسے پیدا ہوا ہے کہ وہ شورو شیریں اور ہموارو نا ہموار زمین کاایک حصہ ہیں۔لہٰذا جس قدر ان کیزمین میں قربت ہوگی ان میں اتفاق ہوگا اور جس قدر طینت میں اختلاف پیدا ہوگا۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صورت کا حسین و جمیل عقل کا ناقص اور قدو قامت کا طویل ہمت کا قصیر ہوتا ہے۔عمل کا پاکیزہ ' منظر کا قبیح ہوتا ہے اور قد کا کوتاہ فکر کا دور اندیش ہوتا ہے۔فطری اعتبار سے نیک اعمال کے اعتبارسے بد اوردل کے اعتبارسے پریشان' دماغ کے اعتبارس ے پراگندہ اور اس طرح زبان کے اعتبارسے بہترین بولنے والا' ہوش مند دل رکھنے والا ہوتا ہے۔

(۲۳۵)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے رسول اکرم (ص) کے جنازہ کو غسل و کفن دیتے وقت ارشاد فرمایا تھا )

یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔ آپ کے انتقال سے وہ نبوت الٰہی احکام اورآسمانی اخبارکا سلسلہ منقطع ہوگیا جو آپ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا۔آپ کا غم اہل بیت کے ساتھیوں خاص ہوا کہ ان کے لئے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لئے عام ہوا کہ سب برابر کے شریک ہوگئے۔ اگر آپ نے صبر کاحکم نہ دیا ہوتا اورنالہ وفریاد سے منع نہکیا ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کردیتے اور یہ درد کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج و الم ہمیشہ

۴۶۷

ولَكِنَّه مَا لَا يُمْلَكُ رَدُّه - ولَا يُسْتَطَاعُ دَفْعُه - بِأَبِي أَنْتَ وأُمِّي اذْكُرْنَا عِنْدَ رَبِّكَ واجْعَلْنَا مِنْ بَالِكَ!

(۲۳۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

اقتص فيه ذكر ما كان منه - بعد هجرة النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ثم لحاقه به:

فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ مَأْخَذَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَأَطَأُ ذِكْرَه حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرَجِ

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - في كلام طويل: قولهعليه‌السلام فأطأ ذكره - من الكلام الذي رمى به إلى غايتي الإيجاز والفصاحة - أراد أني كنت أعطى خبرهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - من بدء خروجي إلى أن انتهيت إلى هذا الموضع - فكنى عن ذلك بهذه الكناية العجيبة.

(۲۳۷)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في المسارعة إلى العمل

فَاعْمَلُوا وأَنْتُمْ فِي نَفَسِ الْبَقَاءِ - والصُّحُفُ مَنْشُورَةٌ والتَّوْبَةُ مَبْسُوطَةٌ - والْمُدْبِرُ يُدْعَى

ساتھ رہ جاتا۔لیکن موت ایک ایسی چیز ہے جس کا پلٹا دینا کسی کے اختیار میں نہیں ہے اور جس کا ٹال دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔

(۲۳۶)

آپ کا ارشاد گرامی

( جس میں رسول اکرم (ص)کی ہجرت کے بعدآپ سے ملحق ہنے تک کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے )

میں مسلسل رسول اکرم (ص) کے نقش قدم پر چلتا رہا اوران کیذکر کے خطوط پر قدم جماتا رہا۔یہاں تک کہ مقام عرج تک پہنچ گیا۔

سید رضی : آپ کا ارشاد گرامی ''فاطاذکرہ'' وہ کلام ہے جس میں ایجاز و فصاحت کی آخری حدوں کو پیش کردیا گیا ہے اورجن کا مقصد یہ ہے کہ میرے پاس مسلسل سرکاری کی خبریں پہنچ رہی تھیں اور میں انہیں خطوط پر آگئے بڑھ رہاتھا۔یہاں تک کہ مقام عرج پر پہنچ گیا۔

(۲۳۷)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(عمل میں تیز رفتاری کی دعوت دیتے ہوئے )

تم لوگ ابھی عمل کرو جبکہ بقا کی وسعت حاصل ہے اور نامۂ اعمال کھلے ہوئے ہیں۔توبہ کا دامن پھیلا ہوا ہے اور انحراف کرنے والوں کو برابر دعوت دی

۴۶۸

والْمُسِيءُ يُرْجَى - قَبْلَ أَنْ يَخْمُدَ الْعَمَلُ ويَنْقَطِعَ الْمَهَلُ - ويَنْقَضِيَ الأَجَلُ ويُسَدَّ بَابُ التَّوْبَةِ - وتَصْعَدَ الْمَلَائِكَةُ

فَأَخَذَ امْرُؤٌ مِنْ نَفْسِه لِنَفْسِه وأَخَذَ مِنْ حَيٍّ لِمَيِّتٍ - ومِنْ فَانٍ لِبَاقٍ ومِنْ ذَاهِبٍ لِدَائِمٍ - امْرُؤٌ خَافَ اللَّه - وهُوَ مُعَمَّرٌ إِلَى أَجَلِه ومَنْظُورٌ إِلَى عَمَلِه - امْرُؤٌ أَلْجَمَ نَفْسَه بِلِجَامِهَا وزَمَّهَا بِزِمَامِهَا - فَأَمْسَكَهَا بِلِجَامِهَا عَنْ مَعَاصِي اللَّه - وقَادَهَا بِزِمَامِهَا إِلَى طَاعَةِ اللَّه.

(۲۳۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في شأن الحكمين وذم أهل الشام

جُفَاةٌ طَغَامٌ وعَبِيدٌ أَقْزَامٌ - جُمِعُوا مِنْ كُلِّ أَوْبٍ وتُلُقِّطُوا مِنْ كُلِّ شَوْبٍ - مِمَّنْ يَنْبَغِي أَنْ يُفَقَّه ويُؤَدَّبَ - ويُعَلَّمَ ويُدَرَّبَ ويُوَلَّى عَلَيْه - ويُؤْخَذَ عَلَى يَدَيْه

جا رہی ہے اوربدعمل افراد کو مہلت دی جا رہی ہے۔قبل اس کے کہ شعلہ عمل بجھ جائے اور مہلت کی مدت ختم ہو جائے اور مدتعمل تمام ہو جائے ۔توبہ کا دروازہ بند ہوجائے اورملائکہ آسمان کی طرف صعود کرجائیں ۔

ہرش خص کو چاہیے کہ اپنے نفس سے اپنے نفس کا انتظام کرے۔زندہ سے مردہ کے لئے اور فانی سے باقی کے لئے اور جانے والے سے رہ جانے والے کے لئے لے لے۔

جب تک موت تک کی زندگی مل رہی ہے اورعمل کی مہلت ملی ہوئی ہے خدا کاخوف پیدا کرے۔

اپنے نفس کو لگام لگائے اوراسے زمام دے کہ معاصی خدا سے روک دے اور کھینچ کر اطاعت الٰہی تک لے آئے ۔

(۲۳۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(حکمین کے حالات اوراہل شام کی مذمت کے بارے میں )

یہ چند تند خو اوربد سر شت افراد ہیں اور غلامانہ ذہنیت کے بد قماش ہیں جنہیں ہرطرف سے جمع کرلیا گیا ہے اور ہرمخلوط نسب سے چن لیا گیا ہے۔یہ لوگ اس قابل تھے کہانہیں مذہب سکھایا جائے ' مودب بنایا جائے ۔ تعلیم دی جائے اورتربیت یافتہ بنایاجائے ان پر لوگوں کو حاکم بنایا جائے اوران کا ہاتھ پکڑ کرچلایا جائے۔یہ نہ

۴۶۹

- لَيْسُوا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - ولَا مِنَ( الَّذِينَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ والإِيمانَ ) .

أَلَا وإِنَّ الْقَوْمَ اخْتَارُوا لأَنْفُسِهِمْ - أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تُحِبُّونَ - وإِنَّكُمُ اخْتَرْتُمْ لأَنْفُسِكُمْ - أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِمَّا تَكْرَهُونَ - وإِنَّمَا عَهْدُكُمْ بِعَبْدِ اللَّه بْنِ قَيْسٍ بِالأَمْسِ يَقُولُ - إِنَّهَا فِتْنَةٌ فَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وشِيمُوا سُيُوفَكُمْ - فَإِنْ كَانَ صَادِقاً فَقَدْ أَخْطَأَ بِمَسِيرِه غَيْرَ مُسْتَكْرَه - وإِنْ كَانَ كَاذِباً فَقَدْ لَزِمَتْه التُّهَمَةُ - فَادْفَعُوا فِي صَدْرِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ - بِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ - وخُذُوا مَهَلَ الأَيَّامِ وحُوطُوا قَوَاصِيَ الإِسْلَامِ -

مہاجرین(۱) میںتھے نہ انصار میں اور نہ ان لوگوں میں جنہوں نے مدینہ میں یا ایمان میں اپنی جگہ بنائی تھی۔

یاد رکھو کہ قوم نے اپنے لئے ان لوگوں کو منتخب کیا ہے جو ان کی پسند سے قریب تھے اورتم نے اپنے لئے ان افراد کا انتخاب کیا ہے جو تمہاری نا پسندیدگی سے قریب تھے ۔ابھی تمہارا اور عبداللہ بن قیس کا زمانہ کل ہی کا ہے جب وہ یہ کہہ رہا تھاکہ ''یہ جنگ ایک فتنہ(۲) ہے لہٰذا اپنی کمانوں کو توڑ ڈالو اور تلواروں کو نیام میں رکھ لو۔اب اگریہ اپنی بات میں سچا تھا تو میرے ساتھ بلا جبر و اکراہ چلنے میں غلط کار تھا اور غلط کہتا تھا تو اس پر الزام ثابت ہوگیا تھا۔اب تمہارے پاس عمروبن العاص کا توڑ عبداللہ بن عباس ہیں۔دیکھو ان دنوں کی مہلت کو غنیمت جانو اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرو۔کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو

(۱)معاویہ کے لشکر اور امیرالمومنین کے سپاہیوں کا ایک نمایاں بنیادی فرق یہ تھا کہ معاویہ کے لشکر میں تمام کے تمام افراد بد سرشت ۔بد نسل ۔بد کردار اوربے ایمان تھے ۔نہ ایک مہاجر نہ ایک ناصر۔اورنہ ایک معروف ایمان و کردار والا۔ اوراس کے برخلاف امیرالمومنین کے سپاہیوں میں ۲۸۰۰ مہاجرین اور انصارتھے ۔اور ان میں سے ۸۰ تو وہافراد تھے جو جنگ بدر میں شرکت کرچکے تھے اور جن کے ایمان کی شہادت دی جا چکی تھی اوران سب سے بالا ترعمار یا سر جیسا صحابی موجود تھا جس کے قاتل کوسرکار(ص) نے باغی قراردیات ھا اور اویس قرنی جیسا جاں نثار موجود تھا جس کے علاقہ سے ایمان کی خوشبو آتی تھی۔

ایسے واضح حالات کے بعد بھی انسان نفس رسول (ص) کو چھوڑ کربنی امیہ کے بد سرشت انسان کا اتباع کرے تو اس کا انجام جہنم کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے اور اسے کس رخ سے مسلمان یا مومن کہاجاسکتا ہے۔

(۲)ابن ابی الحدید نے اس مقام پر خود ابوموسیٰ اشعری کی زبان سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سرکار دو عالم (ص) نے فرمایا کہ جس طرح بنی اسرائیل میں دوگمراہ حکم تھے اسی طرح اس امت میں بھی ہوں گے۔تو لوگوں نے ابو موسیٰ سے کہاکہ کہیں آپایسے نہ ہو جائیں۔اس نے کہا یہ نا ممکن ہے اور اس کے بعد جب وقت آیا تو طمع دنیا نے ایسا ہی بنا دیا جس کی خبر سرکار دوعالم (ص) نے دی تھی۔

حیرت کی بات ہے کہ حکمین کے بارے میں روایت خود ابو موسیٰ نے بیان کی ہے اور حواب کے سلسلہ کی روایت خود ام المومنین عائشہ نے نقل کی ہے لیکن اس کے باوجود نہ اس روایت کا کوئی اثر ابو موسیٰ پر ہوا اور نہ اس روایت کا کوئی اثر حضرت عائشہ پر۔

اس صورت حال کو کیا کہا جائے اور اسے کیا نام دیا جائے ۔انسان کا ذہن صحیح تعبری سے عاجز ہے۔اور ''ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہے ''

۴۷۰

أَلَا تَرَوْنَ إِلَى بِلَادِكُمْ تُغْزَى وإِلَى صَفَاتِكُمْ تُرْمَى؟

(۲۳۹ )

ومن خطبة لهعليه‌السلام

يذكر فيها آل محمد صلى الله عليه وآله

هُمْ عَيْشُ الْعِلْمِ ومَوْتُ الْجَهْلِ - يُخْبِرُكُمْ حِلْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ،وظَاهِرُهُمْ عَنْ بَاطِنِهِمْ - وصَمْتُهُمْ عَنْ حِكَمِ مَنْطِقِهِمْ - لَا يُخَالِفُونَ الْحَقَّ ولَا يَخْتَلِفُونَ فِيه - وهُمْ دَعَائِمُ الإِسْلَامِ ووَلَائِجُ الِاعْتِصَامِ - بِهِمْ عَادَ الْحَقُّ إِلَى نِصَابِه وانْزَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ مُقَامِه - وانْقَطَعَ لِسَانُه عَنْ مَنْبِتِه - عَقَلُوا الدِّينَ عَقْلَ وِعَايَةٍ ورِعَايَةٍ - لَا عَقْلَ سَمَاعٍ ورِوَايَةٍ - فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ ورُعَاتَه قَلِيلٌ.

(۲۴۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله لعبد الله بن العباس - وقد جاءه برسالة من عثمان

کہ تمہارے شہروں پرحملے ہو رہے ہیں اور تمہاری طاقت و قوت کونشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

(۲۳۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں آل محمد علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے)

یہ لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ان کا حلم ان کے علم سے اور ان کا ظاہر ان کے باطن سے اور ان کی خموشی ان کے کلام سے با خبر کرتی ہے۔یہ نہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اورنہ حق کے بارے میں کوئی اختلاف کرتے ہیں یہ اسلام کے ستون(۱) اور حفاظت کے مراکز ہیں۔انہیں کے ذریعہ حق اپنے مرکز کی طرف واپس آیا ہے اور باطل اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ہے اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی ہے۔انہوں نے دین کو اس طرح پہچانا ہے جو سمجھ اور نگرانی کا نتیجہ ہے۔صرف تننے اور روایت کا نتیجہ نہیں ہے۔اس لئے کہ علم کی روایت کرنے والے بہت ہیں اوراس کا خیال رکھنے والے بہت کم ہیں۔

(۲۴۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(جواس وقت فرمایا جب محاصرہ کے زمانے میں عبداللہ بن عباس عثمان کاخط لے کر آئے جس

(۱)سرکار دو عالم (ص) نے ایک طرف نماز کو اسلام کا ستون قراردیا ہے اوردوسری طرف اہل بیت کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو مجھ پر اور ان پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز باطل اور بیکار ہے ( سنن دار قطنی ص ۱۳۶) جس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ نماز اسلام کا ستون ہے اور محبت اہل بیت نماز کا ستون اکبر ہے نماز نہیں ہے تواسلام نہیں ہے اور اہل بیت نہیں ہیں تو نماز نہیں ہے۔

۴۷۱

وهو محصور يسأله فيها الخروج إلى ماله بينبع، ليقل هتف الناس باسمه للخلافة، بعد أن كان سأله مثل ذلك من قبل، فقالعليه‌السلام

يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا يُرِيدُ عُثْمَانُ - إِلَّا أَنْ يَجْعَلَنِي جَمَلًا نَاضِحاً بِالْغَرْبِ أَقْبِلْ وأَدْبِرْ - بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ ثُمَّ بَعَثَ إِلَيَّ أَنْ أَقْدُمَ - ثُمَّ هُوَ الآنَ يَبْعَثُ إِلَيَّ أَنْ أَخْرُجَ - واللَّه لَقَدْ دَفَعْتُ عَنْه حَتَّى خَشِيتُ أَنْ أَكُونَ آثِماً.

(۲۴۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يحث به أصحابه على الجهاد

واللَّه مُسْتَأْدِيكُمْ شُكْرَه ومُوَرِّثُكُمْ أَمْرَه - ومُمْهِلُكُمْ فِي مِضْمَارٍ مَحْدُودٍ لِتَتَنَازَعُوا سَبَقَه - فَشُدُّوا عُقَدَ الْمَآزِرِ

میں یہ مطالبہ کیا گیا تھاکہ آپ اپنے املاک کی طرف مقام منبع(۱) میں چلے جائیں تاکہ لوگوں میں خلافت کے لئے آپ کے نام کی آواز کم ہو جائے اور ایسا ہی مطالبہ پہلے بھی ہوچکا ہے )

ابن عباس ! عثمان کا مقصد صرف یہ ہے کہ مجھے ایک پانی کھینچنے والے اونٹ کی مثال بنادے کہ میں ہی ڈول کے ساتھ آگے بڑھتا رہوں اور پیچھے ہٹتا رہوں۔اس نے پہلے بھی یہ مطالبہ کیا تھا کہ میں باہر نکل جائوں۔پھر تقاضا کیا کہ واپس آجائوں اورآج پھر یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ باہو چلا جائوں۔خداکی قسم میں نے عثمان سے یہاں تک دفاع کیا کہ یہ خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں گناہ گار نہ ہو جائوں۔

(۲۴۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اپنے اصحاب کو جہاد پر آمادہ کیا ہے )

پروردگار تم سے اپنے لشکر کے ادا کرنے کا تقاضا کر رہا ہے اور اس نے تمہیں اپنے امرکاصاحب اختیار بنادیاہے اورتمہیں ایک محدود میدان میں مہلت دے دی ہے تاکہ اس کے انعامات کی طرف سبقت میں مقابلہ کرو لہٰذا اپنی کمر یں مضبوطی کے ساتھ کس لو اور

(۱)منبع مدینہ کے قریب ایک مقام ہے جس کا شمارا راضی خراج میں ہوتا تھا۔رسول اکرم (ص) نے اسے امیر المومنین کودے دیا تھا اور آپ نے وہاں ایک چشمہ جاری کیا تھا جس کی بنا پر اس کا نام ینبع ہوگیا تھا۔عثمان نے مظاہرین کے حالات کو دیکھ کر کہا وہ خلافت کے لئے امیر المومنین کا نام لے رہے ہیں آپ کو ینیع جانے کا حکم دے دیا۔آپ وہاں تشریف لے گئے تو دوبارہ امداد کے لئے پھر طلب کرلیا۔اور اس کے بعد پھر منبع جانے کا تقاضا کردیا تو آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ واضح کردیا کہ اس سے زیادہ عثمان کی حمایت انسان کو گناہ گار بنا سکتی ہے لہٰذا اب مزید حمایت کا کوئی امکان نہیں ہے ہر انسان کواپنے اعمال کے نتائج کو بہر حال برداشت کرنا چاہیے۔

۴۷۲

واطْوُوا فُضُولَ الْخَوَاصِرِ - لَا تَجْتَمِعُ عَزِيمَةٌ ووَلِيمَةٌ - مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْيَوْمِ - وأَمْحَى الظُّلَمَ لِتَذَاكِيرِ الْهِمَمِ.

وصلى اللَّه على سيدنا محمد النبي الأمي، وعلى آله مصابيح الدجى والعروة الوثقى، وسلم تسليما كثيرا

اپنے دامن کو سمیٹ لو اور یہ یاد رکھو کہ عزم محکم و لیموں کے ساتھ جمع نہیں ہوتا ہے۔رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدرشکستہ کر دیتی ہے اور اس کی تاریکیاں ہمت و جرأت کی یادوں کوکس قدر فنا کردینے والی ہوتی ہیں۔

والحمد للہ رب العالمین

۴۷۳

باب المختار من كتب مولانا أمير المؤمنين عليعليه‌السلام

ورسائله إلى أعدائه وأمراء بلاده، ويدخل في ذلك ما اختير من عهوده إلى عماله

ووصاياه لأهله وأصحابه.

(۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل الكوفة - عند مسيره من المدينة إلى البصرة

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَهْلِ الْكُوفَةِ - جَبْهَةِ الأَنْصَارِ وسَنَامِ الْعَرَبِ

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أُخْبِرُكُمْ عَنْ أَمْرِ عُثْمَانَ - حَتَّى يَكُونَ

مکاتیب و رسائل

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی تحریروں کا ایک انتخاب

جس میں آپ کے دشمنوں اور حکام بلاد کے نام سرکاری خطوط کے علاوہ اپنے اعمال کے نام عہد ناموں اور اولاد کے نام وصیتوں کا مضمون بھی شامل کرلیا گیا ہے۔

(۱)

مکتوب

(اہل کوفہ کے نام ۔مدینہ سے بصرہ روانگی کے وقت

بندہ خدا ' امیرالمومنین علی کی طرف سے اہل کوفہ کے نام جو مدد گاروں میں سربرآوردہ ہیں اور عرب میں بلند وبالا شخصیت کے مالک ہیں۔

اما بعد! میں تمہیں قتل(۱) عثمان کے بارے میں حقیقت حال سے یوں آگاہ کردیناچاہتا ہوں جیسے تم نے خود

(۱)صورت حال کا خلاصہ یہ ہے کہ عثمان کے والیوں کے کردار سے عاجزآکر مسلمانوں نے احتجاج کیا تو عثمان نے حضرت کو درمیان میں ڈالا۔آپ نے لوگوں کو سمجھا بجھا کر خاموش کردیا لیکن مروان نے م عاملہ کو پھرخراب کردیا۔اور لوگوں کے احتجاج کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھی۔ادھر ام المومنین نے نعلین و قمیص رسول (ص) کا حوالہ دے کرعثمان پر الزامات عائد کرنا شروع کردئیے کہابھی یہ پیراہن بھی میلا نہیں ہوا ہے اور عثمان نے سارا دین تباہ کردیا ہے جس کے نتیجہ میں لوگ قتل عثمان پر آمادہ ہوگئے اور طلحہ وزبیر نے اپنے مفادات کی خاطرآگ کو مزید بھڑکادیا اور آخری نتیجہ قتل عثمان کی شکل میں برآمد ہوا جیسا کہ تمام مورخین نے نقل کیا ہے۔

اس کے بعد اچانک امیرالمومنین کی خلافت کی خبر پاکر عائشہ نے اپنی رائے بدل دی اور عثمان کو مظلوم قرار دے کرحضرت سے انتقام خون عثمان لینے پرآمادہ ہوگئیں۔حضرت نے بے حد سمجھایا لیکن عورت کی ضد چیز ہی کچھ اور ہوتی ہے اور پھر طلحہ و زبیر کے مفادات جلتی پر پٹرول کا کام کر رہے تھے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ جمل کا معرکہ پیش آگیا اور بے شمار کلمہ گو تلوار کے گھاٹ اتر گئے ۔

ابن ابی الحدید نے اس حقیقت کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ جمل میں امیرالمومنین سے مقابلہ کرنے والے سب ہلک ہونے والے ہیں جب تک توبہ نہ کرلیں اور اپنے گناہ سے استغفار نہ کریں۔اور اس کے بعد یہ اضافہ کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے امیر المومنین سے معافی مانگ لی تھی زبیر جنگ سے پلٹ گیا تھا۔اور طلحہ نے وقت آخر اپنے کو اصحاب امیر المومنین میں شامل کرلیا تھا۔( خدا کرے ایسا ہی ہو؟ روایت کی ذمہ داری راوی کے سر ہوا کرتی ہے )

۴۷۴

سَمْعُه كَعِيَانِه - إِنَّ النَّاسَ طَعَنُوا عَلَيْه - فَكُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ أُكْثِرُ اسْتِعْتَابَه - وأُقِلُّ عِتَابَه - وكَانَ طَلْحَةُ والزُّبَيْرُ أَهْوَنُ سَيْرِهِمَا فِيه الْوَجِيفُ - وأَرْفَقُ حِدَائِهِمَا الْعَنِيفُ - وكَانَ مِنْ عَائِشَةَ فِيه فَلْتَةُ غَضَبٍ - فَأُتِيحَ لَه قَوْمٌ فَقَتَلُوه - وبَايَعَنِي النَّاسُ غَيْرَ مُسْتَكْرَهِينَ - ولَا مُجْبَرِينَ بَلْ طَائِعِينَ مُخَيَّرِينَ.

واعْلَمُوا أَنَّ دَارَ الْهِجْرَةِ قَدْ قَلَعَتْ بِأَهْلِهَا وقَلَعُوا بِهَا - وجَاشَتْ جَيْشَ الْمِرْجَلِ - وقَامَتِ الْفِتْنَةُ عَلَى الْقُطْبِ - فَأَسْرِعُوا إِلَى أَمِيرِكُمْ - وبَادِرُوا جِهَادَ عَدُوِّكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه عَزَّ وجَلَّ.

(۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليهم بعد فتح البصرة

وجَزَاكُمُ اللَّه مِنْ أَهْلِ مِصْرٍ عَنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ - أَحْسَنَ مَا يَجْزِي الْعَامِلِينَ بِطَاعَتِه - والشَّاكِرِينَ لِنِعْمَتِه - فَقَدْ سَمِعْتُمْ وأَطَعْتُمْ ودُعِيتُمْ فَأَجَبْتُمْ.

مشاہدہ کیا ہو۔لوگوں نے جب عثمان پر اعتراضات کئے تو میں مہاجرین میں سب سے زیادہ اصلاح حال کا چاہنے والا اور سب سے کم ان پر عتاب کرنے والا تھا۔اورطلحہ و زبیر کی ہلکی رفتار بھی ان کے بارے میں تیز رفتاری کے برابرتھی اورنرم سے نرم آوازبھی سخت ترین تھی اورعائشہ تو ان کے بارے میں بے حد غضبناک تھیں۔چنانچہ ایک قوم کو موقع فراہم ہوگیا اور اس نے ان کو قتل کردیا۔جس کے بعد لوگوں نے میری بیعت کی جس میں نہ کوئی جبر تھا اور نہ اکراہ ۔بلکہ سب کے سب اطاعت گذار تھے اور خود مختار۔

اوریہ بھی یاد رکھو کہ اب مدینہ رسول اپنے باشندوں سے خالی ہو چکا ہے اور اس کے رہنے والے وہاں سے اکھڑ چکے ہیں۔وہاں کا ماحلو دیگ کی طرح ابل رہا ہے اوروہاں فتنہ کی چکی چلنے لگی ہے لہٰذا تم لوگ فوراً اپنے امیرکے پاس حاضر ہو جائو اور اپنے دشمن سے جہاد کرنے میں سبقت سے کامل و ۔انشاء اللہ ۔

(۲)

مکتوب

(جسےاہل کوفہ کےنام بصرہ کی فتح کےبعدلکھا گیاہے)

شہر کوفہ والو! خدا تمہیں تمہارے پیغمبر (ص) کے اہل بیت کی طرف سے جزائے خیردے ۔ایسی بہترین جزا جواس کی اطاعت پرعمل کرنے والوں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔کہ تم نے میری بات سنی اور اطاعت کی اورتمہیں پکارا گیا تو تم نے میری آواز پرلبیک کہی ۔

۴۷۵

(۳)

ومن كتاب له عليالسلام

لشريح بن الحارث قاضيه

ورُوِيَ أَنَّ شُرَيْحَ بْنَ الْحَارِثِ قَاضِيَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - اشْتَرَى عَلَى عَهْدِه دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً - فَبَلَغَه ذَلِكَ فَاسْتَدْعَى شُرَيْحاً - وقَالَ لَه:

بَلَغَنِي أَنَّكَ ابْتَعْتَ دَاراً بِثَمَانِينَ دِينَاراً - وكَتَبْتَ لَهَا كِتَاباً وأَشْهَدْتَ فِيه شُهُوداً.

فَقَالَ لَه شُرَيْحٌ قَدْ كَانَ ذَلِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - قَالَ فَنَظَرَ إِلَيْه نَظَرَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ لَه

يَا شُرَيْحُ أَمَا إِنَّه سَيَأْتِيكَ مَنْ لَا يَنْظُرُ فِي كِتَابِكَ - ولَا يَسْأَلُكَ عَنْ بَيِّنَتِكَ - حَتَّى يُخْرِجَكَ مِنْهَا شَاخِصاً ويُسْلِمَكَ إِلَى قَبْرِكَ خَالِصاً

(۳)

مکتوب

(اپنے قاضی شریح کے نام(۱)

کہا جاتا ہے کہ امیر المومنین کے ایک قاضی شریح بن الحارث نے آپ کیدورمیں اسی دینار کا ایک مکان خرید لیا تو حضرت نے خبرپاتے ہی اسے طلب کرلیا اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے اسی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پرگواہی بھی لے لی ہے ؟

شریح! عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کودیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کرے گا بلکہ تجھے اس گھرسے نکال کر تن تنہا قبر کے حوالہ کردے گا۔

(۱) صاحب اغانی نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ امیر المومنین کا اختلاف ایک یہودی سے ہوگیا جس کے پاس آپ کی زرہ تھی۔اسنے قاضی سے فیصلہ کرانے پر اصرار کیا آپ یہودی کے ساتھ شریح کے پاس آئے ۔اس نے آپ سے گواہ طلب کئے آپ نے قنبر اورامام حسن کو پیش کیا۔شریح نے قنبر کی گواہی قبول کرلی۔اور امام حسن کی گواہی فرزند ہونے کی بنا پر رد کردی۔آٰپ نے فرمایا کہ رسول اکرم (ص) نے انہیں سر دار جوانان جنت قراردیا ہے اور تم ان کی گواہی کو رد کر رہے ہو؟ لیکن اس کے باوجود آپ نے فیصلہ کا خیال کرتے ہوئے زرہ یہودی کو دے دی۔اس نے واقعہ کو نہایت درجہ حیرت کی نگاہ سے دیکھا اور پھر کلمہ شہادتین پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔آپ نے زرہ کے ساتھ اسے گھوڑا بھی دے دیا اور ۹۰۰درہم وظیفہ مقرر کردیا۔وہ مستقل آپ کی خدمت میں حاضر رہا یہاں تک کہ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہو گیا۔

اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کردار کیا تھا اور شریح کی بد نفسی کا کیا عالم تھا اور یہودی کے ظرف میں کس قدر صلاحیت پائی جاتی تھی۔

۴۷۶

- فَانْظُرْ يَا شُرَيْحُ لَا تَكُونُ ابْتَعْتَ هَذِه الدَّارَ مِنْ غَيْرِ مَالِكَ - أَوْ نَقَدْتَ الثَّمَنَ مِنْ غَيْرِ حَلَالِكَ - فَإِذَا أَنْتَ قَدْ خَسِرْتَ دَارَ الدُّنْيَا

ودَارَ الآخِرَةِ -. أَمَا إِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَتَيْتَنِي عِنْدَ شِرَائِكَ مَا اشْتَرَيْتَ - لَكَتَبْتُ لَكَ كِتَاباً عَلَى هَذِه النُّسْخَةِ - فَلَمْ تَرْغَبْ فِي شِرَاءِ هَذِه الدَّارِ بِدِرْهَمٍ فَمَا فَوْقُ.

والنُّسْخَةُ هَذِه - هَذَا مَا اشْتَرَى عَبْدٌ ذَلِيلٌ مِنْ مَيِّتٍ قَدْ أُزْعِجَ لِلرَّحِيلِ - اشْتَرَى مِنْه دَاراً مِنْ دَارِ الْغُرُورِ - مِنْ جَانِبِ الْفَانِينَ وخِطَّةِ الْهَالِكِينَ - وتَجْمَعُ هَذِه الدَّارَ حُدُودٌ أَرْبَعَةٌ - الْحَدُّ الأَوَّلُ يَنْتَهِي إِلَى دَوَاعِي الآفَاتِ - والْحَدُّ الثَّانِي يَنْتَهِي إِلَى دَوَاعِي الْمُصِيبَاتِ - والْحَدُّ الثَّالِثُ يَنْتَهِي إِلَى الْهَوَى الْمُرْدِي - والْحَدُّ الرَّابِعُ يَنْتَهِي إِلَى الشَّيْطَانِ الْمُغْوِي - وفِيه يُشْرَعُ بَابُ هَذِه الدَّارِ - اشْتَرَى هَذَا الْمُغْتَرُّ بِالأَمَلِ مِنْ هَذَا الْمُزْعَجِ بِالأَجَلِ - هَذِه الدَّارَ بِالْخُرُوجِ مِنْ عِزِّ الْقَنَاعَةِ - والدُّخُولِ فِي ذُلِّ الطَّلَبِ والضَّرَاعَةِ - فَمَا أَدْرَكَ هَذَا الْمُشْتَرِي فِيمَا اشْتَرَى مِنْه مِنْ دَرَكٍ - فَعَلَى مُبَلْبِلِ أَجْسَامِ الْمُلُوكِ وسَالِبِ نُفُوسِ الْجَبَابِرَةِ - ومُزِيلِ مُلْكِ الْفَرَاعِنَةِ - مِثْلِ كِسْرَى وقَيْصَرَ وتُبَّعٍ وحِمْيَرَ

اگر تم نے مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اورغیرحلال سے قیمت ادا کی ہے تو تمہیں دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے۔

یادرکھو اگر تم اس مکان کو خرید تے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے اسی درہم توبہت بڑی بات ہے ۔میں اس کی دستاویز اس طرح لکھتا۔

'' یہ مکان ہے جسے ایک بندۂ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریدا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے۔یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں۔

ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اوردوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اورچوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے۔

اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے۔اب اگر اس خریدار کواس سودے میں کوئی خسارہ ہو تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کا تہ و بالا کرنے والا۔جابروں کی جان نکال لینے والا۔فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کردینے والا ۔کسریٰ و قیصر۔تیغ و حمیر

۴۷۷

ومَنْ جَمَعَ الْمَالَ عَلَى الْمَالِ فَأَكْثَرَ - ومَنْ بَنَى وشَيَّدَ وزَخْرَفَ ونَجَّدَ - وادَّخَرَ واعْتَقَدَ ونَظَرَ بِزَعْمِه لِلْوَلَدِ - إِشْخَاصُهُمْ جَمِيعاً إِلَى مَوْقِفِ الْعَرْضِ والْحِسَابِ - ومَوْضِعِ الثَّوَابِ والْعِقَابِ - إِذَا وَقَعَ الأَمْرُ بِفَصْلِ الْقَضَاءِ( وخَسِرَ هُنالِكَ الْمُبْطِلُونَ ) - شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ الْعَقْلُ إِذَا خَرَجَ مِنْ أَسْرِ الْهَوَى - وسَلِمَ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا.»

(۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض أمراء جيشه

فَإِنْ عَادُوا إِلَى ظِلِّ الطَّاعَةِ فَذَاكَ الَّذِي نُحِبُّ - وإِنْ تَوَافَتِ الأُمُورُ بِالْقَوْمِ إِلَى الشِّقَاقِ والْعِصْيَانِ - فَانْهَدْ بِمَنْ أَطَاعَكَ إِلَى مَنْ عَصَاكَ واسْتَغْنِ بِمَنِ انْقَادَ مَعَكَ عَمَّنْ تَقَاعَسَ عَنْكَ

اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ۔مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں۔ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فنا کے گھاٹ اتاردینے والا ہے کہ ان سب کو قیامت کے موقف حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہو گا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہوں گے۔

''اس سو دے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ''

(۴)

مکتوب

(بعض امر اء لشکر کے نام(۱)

اگر دشمن اطاعت کے زیر سایہ آجائیں تو یہی ہمارا مدعا ہے اور اگر معاملات افتراف اورنا فرمانی کی منزل ہی کی طرف بڑھیں تو تم اپنے اطاعت گزاروں کو لے کر نافرمانوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہو۔اور اپنے فرمانبرداروں کے وسیلہ سے انحراف کرن والوں سے بے نیاز ہوجائو

(۱) جب اصحاب جمل بصرہ میں وارد ہوئے تو وہاں کے حضرت ک عامل عثمان بن حنیف نے آپ کے نام ایک خط لکھا جس میں بصرہ کی صورت حال کا ذکر کیا گیا تھا۔آپ نے اس کے جواب میںتحریر فرمایا کہ جنگ میں پہل کرنا ہمارا کام نہیں ہے لہٰذا تمہارا پہلا کام یہ ہے کہ ان پر اتمام حجت کرو پھراگر اطاعت امام پرآمادہ ہو جائیں تو بہترین بات ہے ورنہ تمہارے پاس فرمانبردار قسم کے افراد موجود ہیں۔انہیں ساتھ لے کرظالموں کا مقابلہ کرنا اور خبر دار جنگ کے معاملہ میں کسی پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا کہ جنگ کا میدان قربانی کا میدان ہے اور اس میں وہی افراد ثابت قدم رہ سکتے ہیں جو جان و دل سے قربانی کے لئے تیار ہوں۔ورنہ اگر بادل نا خواستہ فوج اکٹھا بھی کرلی گئی تو یہ خطرہ بہر حال رہے گا کہ یہ عین وقت پر چھوڑ کر فرار کر سکتے ہیں جس کا تجربہ تاریخ اسلام میں بارہا ہو چکا ہیاورجس کا ثبوت خود قرآن حکیم میں موجود ہے ۔

۴۷۸

فَإِنَّ الْمُتَكَارِه مَغِيبُه خَيْرٌ مِنْ مَشْهَدِه - وقُعُودُه أَغْنَى مِنْ نُهُوضِه.

(۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أشعث بن قيس - عامل أذربيجان

وإِنَّ عَمَلَكَ لَيْسَ لَكَ بِطُعْمَةٍ ولَكِنَّه فِي عُنُقِكَ أَمَانَةٌ - وأَنْتَ مُسْتَرْعًى لِمَنْ فَوْقَكَ - لَيْسَ لَكَ أَنْ تَفْتَاتَ فِي رَعِيَّةٍ - ولَا تُخَاطِرَ إِلَّا بِوَثِيقَةٍ - وفِي يَدَيْكَ مَالٌ مِنْ مَالِ اللَّه - عَزَّ وجَلَّ وأَنْتَ مِنْ خُزَّانِه حَتَّى تُسَلِّمَه إِلَيَّ - ولَعَلِّي أَلَّا أَكُونَ شَرَّ وُلَاتِكَ لَكَ والسَّلَامُ.

(۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

إِنَّه بَايَعَنِي الْقَوْمُ الَّذِينَ بَايَعُوا أَبَا بَكْرٍ وعُمَرَ وعُثْمَانَ - عَلَى مَا بَايَعُوهُمْ عَلَيْه - فَلَمْ يَكُنْ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَخْتَارَ - ولَا لِلْغَائِبِ أَنْ يَرُدَّ - وإِنَّمَا الشُّورَى لِلْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وسَمَّوْه إِمَاماً

کہ بادل ناخواستہ حاضری دینے والوں کی حاضری سے غیبت بہتر ہے اور ان کا بیٹھ جانا ہی اٹھ جانے سے زیادہ مفید ہے۔

(۵)

مکتوب

(آذر بائیجان کے عامل اشعث بن قیس کے نام)

یہ تمہارا منصب کوئی لقمہ تر نہیں ہے بلکہ تمہاری گردن پر امانت الٰہی ہے اور تم ایک بلند ہستی کے زیر نگرانی حفاظت پر مامور ہو۔تمہیں رعایا کے معاملہ میں اس طرح کے اقدام کا حق نہیں ہے اور خبردار کسی مستحکم دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ مت ڈالنا۔تمہارے ہاتھوں میں جو مال ہے۔یہ بھی پروردگار کے اموال کا ایک حصہ ہے اورتم اس کے ذمہ دار ہو جب تک میرے حوالہ نہ کردو اور شائد اس نصیحت کی بنا پرمیں تمہارا برا ولی نہ ہوگا۔والسلام

(۶)

مکتوب

(معاویہ کے نام)

دیکھ میری بیعت اسی قوم نے کی ہے جس نے ابوبکر و عمر و عثمان کی بیعت کی تھی اور اسی طرح کی ہے جس طرح ان کی بیعت کی تھی کہ نہ کسی حاضر کو نظر ثانی کا حق تھا اورنہ کسی غائب کو رد کردینے کا اختیار تھا۔

شوریٰ کا اختیار بھی صرف مہاجرین و انصار کو ہوتا ہے لہٰذاوہ کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام نامزد کردیں

۴۷۹

كَانَ ذَلِكَ لِلَّه رِضًا - فَإِنْ خَرَجَ عَنْ أَمْرِهِمْ خَارِجٌ - بِطَعْنٍ أَوْ بِدْعَةٍ رَدُّوه إِلَى مَا خَرَجَ مِنْه - فَإِنْ أَبَى قَاتَلُوه عَلَى اتِّبَاعِه غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ - ووَلَّاه اللَّه مَا تَوَلَّى.

ولَعَمْرِي يَا مُعَاوِيَةُ لَئِنْ نَظَرْتَ بِعَقْلِكَ دُونَ هَوَاكَ - لَتَجِدَنِّي أَبْرَأَ النَّاسِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ولَتَعْلَمَنَّ أَنِّي كُنْتُ فِي عُزْلَةٍ عَنْه - إِلَّا أَنْ تَتَجَنَّى فَتَجَنَّ مَا بَدَا لَكَ والسَّلَامُ.

(۷)

ومن كتاب منهعليه‌السلام

إليه أيضا

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَتْنِي مِنْكَ مَوْعِظَةٌ مُوَصَّلَةٌ ورِسَالَةٌ مُحَبَّرَةٌ -

تو گویا کہ اسی میں رضائے الٰہی ہے اوراگر کوئی شخص تنقید کرکے یا بدعت کی بنیاد پر اس امر سے بالکل باہرنکل جائے تو لوگوں کا فرض ہے کہ اسے واپس لائیں اوراگر انکار کردے تواس سے جنگ کریں کہ اسنے مومنین کے راستہ سے ہٹ کر راہ نکالی ہے اوراللہ بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا جدھر وہ پھر گیا ہے ۔

معاویہ! میری جان کی قسم! اگر توخواہشات کو چھوڑ کرعقل کی نگاہوں سے دیکھے گا تو مجھے سب سے زیادہ خون عثمان(۱) سے پاکدامن پائے گا اورتجھے معلوم ہو جائے گاکہ میں اس مسئلہ سے بالکل الگ تھلک تھا۔مگر یہ کہ تو حقائق کی پردہ پوشی کرکے الزام ہی لگاناچاہے تو تجھے مکمل اختیار ہے ( یہ گذشتہ بیعتوں کی صورت حال کی طرف اشارہ ہے ورنہ اسلام میں خلافت شوریٰ سے طے نہیں ہوتی ہے ۔جوادی )

(۷)

مکتوب

(معاویہ ہی کے نام )

امابعد! میرے پاس تیری بے جوڑنصیحتوں کامجموعہ اور تیراخوبصورت سجایا بنایا ہوا خط وارد ہوا ہے جسے

(۱)عباس محمود عقاد نے عبقر پتہ الامام میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ خون عثمان کی تمامتر ذمہ داری خود معاویہ پر ہے کہ وہ ان کا تحفظ کرنا چاہتا تو اس کے پاس تمامتر امکانات موجود تھے۔وہ شام کا حاکم تھا اوراس کے پاس ایک عظیم ترین فوج موجود تھی جس سے کسی طرح کا کام لیا جا سکتا تھا۔

امام علی کی یہ حیثیت نہیں تھی آپ پردونوں طرف سے دبائو پڑ رہا تھا۔انقلابیوں کا خیال تھا کہ اگر آپ بیعت قبول کرلیں تو عثمان کو با آسانی معزول کیاجا سکتا ہے اورعثمان کا خیال تھا کہ آپ چاہیں تو انقلابیوں کو ہٹا کر میرے منصب کا تحفظ کر سکتے ہیں اور میری جان بچا سکتے ہیں۔ایسے حالات میں حضرت نے جس ایمانی فراست اورعرفانی حکمت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے زیادہ کسی فرو بشر کے امکان میں نہیں تھا۔

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863