نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657199 / ڈاؤنلوڈ: 15929
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

نَمَّقْتَهَا بِضَلَالِكَ وأَمْضَيْتَهَا بِسُوءِ رَأْيِكَ - وكِتَابُ امْرِئٍ لَيْسَ لَه بَصَرٌ يَهْدِيه - ولَا قَائِدٌ يُرْشِدُه قَدْ دَعَاه الْهَوَى فَأَجَابَه - وقَادَه الضَّلَالُ فَاتَّبَعَه - فَهَجَرَ لَاغِطاً وضَلَّ خَابِطاً.

ومِنْه لأَنَّهَا بَيْعَةٌ وَاحِدَةٌ لَا يُثَنَّى فِيهَا النَّظَرُ - ولَا يُسْتَأْنَفُ فِيهَا الْخِيَارُ - الْخَارِجُ مِنْهَا طَاعِنٌ والْمُرَوِّي فِيهَا مُدَاهِنٌ

(۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى جرير بن عبد الله البجلي - لما أرسله إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِذَا أَتَاكَ كِتَابِي فَاحْمِلْ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْفَصْلِ وخُذْه بِالأَمْرِ الْجَزْمِ - ثُمَّ خَيِّرْه بَيْنَ حَرْبٍ مُجْلِيَةٍ أَوْ سِلْمٍ مُخْزِيَةٍ - فَإِنِ اخْتَارَ الْحَرْبَ فَانْبِذْ إِلَيْه - وإِنِ اخْتَارَ السِّلْمَ فَخُذْ بَيْعَتَه والسَّلَامُ.

تیرے گمراہی کے قلم نے لکھا ہے اور اس پر تیری بے عقلی نے امضاء کیا ہے ۔یہ ایک ایس شخص کا خط ہے جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور نہراستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو اس نے لبیک کہہ دی اور گمراہینے کھینچا تو اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا۔

دیکھو یہ بیعت ایک مرتبہ ہوتی ہے جس کے بعد نہ کسی کو نظر ثانی کا حق ہوتا ہے اورنہ دوبارہ اختیار کرنے کا۔اس سے باہرنکل جانے والا اسلامی نظام پرمعترض شمار کیا جاتا ہے اوراس میں سوچ بچار کرنے والامنافق کہا جاتا ہے۔

(۸)

مکتوب

(جریر بن عبداللہ بجلی کے نام جب انہیں معاویہ کی فہمائش کے لئے روانہ فرمایا)

اما بعد(۶) ۔جب تمہیں یہ میراخط مل جائے تو معاویہ سے حتمی فیصلہ کا مطالبہ کردینا اورایک آخری بات طے کر لینا اوراسے خبردار کردینا کہاب دو ہی راستے ہیں۔یا فنا کردینے والی جنگ یا رسواکن صلح۔اب اگر وہ جنگ کو اختیار کرے توبات چیت ختم کردینا اور جنگ کی تیاری کرنا اور اگر صلح کی بات کرے تو فوراً اس سے بیعت لے لینا۔والسلام۔

۴۸۱

(۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَأَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِيِّنَا واجْتِيَاحَ أَصْلِنَا - وهَمُّوا بِنَا الْهُمُومَ وفَعَلُوا بِنَا الأَفَاعِيلَ - ومَنَعُونَا الْعَذْبَ وأَحْلَسُونَا الْخَوْفَ - واضْطَرُّونَا إِلَى جَبَلٍ وَعْرٍ - وأَوْقَدُوا لَنَا نَارَ الْحَرْبِ - فَعَزَمَ اللَّه لَنَا عَلَى الذَّبِّ عَنْ حَوْزَتِه - والرَّمْيِ مِنْ وَرَاءِ حُرْمَتِه - مُؤْمِنُنَا يَبْغِي بِذَلِكَ الأَجْرَ وكَافِرُنَا يُحَامِي عَنِ الأَصْلِ - ومَنْ أَسْلَمَ مِنْ قُرَيْشٍ خِلْوٌ مِمَّا نَحْنُ فِيه بِحِلْفٍ يَمْنَعُه - أَوْ عَشِيرَةٍ تَقُومُ دُونَه فَهُوَ مِنَ الْقَتْلِ بِمَكَانِ أَمْنٍ

وكَانَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ ،

(۹)

مکتوب

(معاویہ کے نام )

ہماری قوم قریش(۱) کا ارادہ تھاکہ ہمارے پیغمبر (ص) کو قتل کردے اور ہمیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے۔انہوںنے ہمارے بارے میں رنج و غم کے اسباب فراہم کئے اور ہم سے طرح طرح کے برتائو کئے۔ہمیں راحت و آرام سے روک دیا اور ہمارے لئے مختلف قسم کے خوف کا انتظام کیا۔کبھی ہمیں نا ہموار پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا اور کبھی ہمارے لئے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔لیکن پروردگار نے ہمیں طاقت دی کہ ہم ان کے دین کی حفاظت کریں اوران کی حرمت سے ہر طرح سے دفاع کریں۔ہم میں صاحبان ایمان اجرآخرت کے طلب گارتھے اور کفار اپنی اصل کی حمایت کر رہے تھے ۔قریش میں جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ ان مشکلات سے آزاد تھے۔یا اس لئے کہ انہوں نے کوئی حفاظتی معادہ کرلیا تھا یا ان کے پاس قبیلہ تھا جوان کے سامنے کھڑا ہو جاتاتھا اور وہ قتل سے محفوظ رہتے تھے۔اور رسول اکرم (ص) کا یہ عالم تھا کہ جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے تھے

(۱) قریش کی زندگی کا سارا نظام قبائلی بنیادوں پرچل رہا تھا اور ہر قبیلہ کو کوئی نہ کوئی حیثیت حاصل تھی لیکن اسلام کے آنے کے بعد ان تمام حیثیتوں کا خاتمہ ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں سب نے اسلام کے خلاف اتحاد کرلیا اورمختلف معرکے بھی سامنے آگئے لیکن پروردگار عالم نے رسول اکرم (ص)کے گھرانے کے ذریعہ اپنے دین کو بچا لیا اوراس میں کوئی قبیلہ بھی ان کا شریک نہیں ہے اورنہ کسی کو یہ شرف حاصل ہے ۔نہ کسی قبیلہ پمیں کوئی ابو طالب جیسا محافظ پیدا ہوا۔ اورنہ عبیدہ جیسا ہ مجاہد ۔ نہ کسی قبیلہ نے حمزہ جیسا سیدالشہداء پیدا کیا ہے اورنہ جعفر جیسا طیار۔

یہ صرف بنی ہاشم کا شرف ہے اور اسلام کی گردن پران کے علاوہ کسی کا کوئی احسان نہیں ہے۔

۴۸۲

وأَحْجَمَ النَّاسُ - قَدَّمَ أَهْلَ بَيْتِه - فَوَقَى بِهِمْ أَصْحَابَه حَرَّ السُّيُوفِ والأَسِنَّةِ - فَقُتِلَ عُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ يَوْمَ بَدْرٍ - وقُتِلَ حَمْزَةُ يَوْمَ أُحُدٍ - وقُتِلَ جَعْفَرٌ يَوْمَ مُؤْتَةَ - وأَرَادَ مَنْ لَوْ شِئْتُ ذَكَرْتُ اسْمَه - مِثْلَ الَّذِي أَرَادُوا مِنَ الشَّهَادَةِ - ولَكِنَّ آجَالَهُمْ عُجِّلَتْ ومَنِيَّتَه أُجِّلَتْ - فَيَا عَجَباً لِلدَّهْرِ - إِذْ صِرْتُ يُقْرَنُ بِي مَنْ لَمْ يَسْعَ بِقَدَمِي - ولَمْ تَكُنْ لَه كَسَابِقَتِي - الَّتِي لَا يُدْلِي أَحَدٌ بِمِثْلِهَا - إِلَّا أَنْ يَدَّعِيَ مُدَّعٍ مَا لَا أَعْرِفُه ولَا أَظُنُّ اللَّه يَعْرِفُه - والْحَمْدُ لِلَّه عَلَى كُلِّ حَالٍ.

وأَمَّا مَا سَأَلْتَ مِنْ دَفْعِ قَتَلَةِ عُثْمَانَ إِلَيْكَ - فَإِنِّي نَظَرْتُ فِي هَذَا الأَمْرِ - فَلَمْ أَرَه يَسَعُنِي دَفْعُهُمْ إِلَيْكَ ولَا إِلَى غَيْرِكَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ لَمْ تَنْزِعْ عَنْ غَيِّكَ وشِقَاقِكَ - لَتَعْرِفَنَّهُمْ عَنْ قَلِيلٍ يَطْلُبُونَكَ - لَا يُكَلِّفُونَكَ طَلَبَهُمْ فِي بَرٍّ ولَا بَحْرٍ - ولَا جَبَلٍ ولَا سَهْلٍ - إِلَّا أَنَّه طَلَبٌ يَسُوءُكَ وِجْدَانُه - وزَوْرٌ لَا يَسُرُّكَ لُقْيَانُه والسَّلَامُ لأَهْلِه.

اور لوگ پیچھے ہٹنے لگے تھے تو آپ اپنے اہل بیت کو آگے بڑھا دیتے تھے اوروہ اپنے کو سپر بناکر اصحاب کو تلوار اورنیزوں کی گرمی سے محفوظ رکھتے تھے چنانچہ بدرکے دن جناب عبیدہ بن الحارث مارے گئے۔احد کے دن حمزہ شہید ہوئے اورموتہ میں جعفر کام آگئے ۔

ایک شخص نے جس کا نام بتا سکتا ہوںانہیں لوگوں جیسی شہادت کا قصد کیاتھا لیکن ان سب کی موت جلدی آگئی اور اس کی موت پیچھے ٹال دی گئی۔

کس قدر تعجب خیز ہے زمانہ کا یہ حال کہ میرا مقابلہ ایسے افراد سے ہوتا ہے جو کبھی میرے ساتھ قدم ملا کر نہیں چلے اورنہاس دین میں ان کا کوئی کارنامہ ہے جو مجھ سے موازنہ کیا جا سکے مگر یہ کہ کوئی مدعی کسی ایسے شرف کادعویٰ کرے جس کونہ میں جانتا ہوں۔اورنہ ''شائد ''خدا ہی جانتا ہے۔مگر بہر حال ہر حال میں خداکا شکرہے۔

رہ گیا تمہارا یہ مطالبہ کہ میں قاتلان عثمان کو تمہارے حوالے کردوں تو میں نے اس مسئلہ میں کافی غور کیا ے۔میرے امکان میں انہیں نہ تمہارے حوالہ کرنا ہے اورنہ کسی اور کے ۔میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اورعداوت سے بازنہ آئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ یہ تمہیں بھی ڈھونڈھ لیں گے اوراس بات کی زحمت نہ دیں گے کہ تم انہیں خشکی یا تری ۔پہاڑ یا صحرا میں تلاش کرو۔البتہ یہ وہ طلب ہوگی جس کا پالینا باعث مسرت نہ ہوگا اور وہ ملاقات ہوگی جس سے کسی طرح کی خوشی نہ ہوگی۔اور سلام اس کے اہل پر۔

۴۸۳

(۱۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليه أيضا

وكَيْفَ أَنْتَ صَانِعٌ - إِذَا تَكَشَّفَتْ عَنْكَ جَلَابِيبُ مَا أَنْتَ فِيه - مِنْ دُنْيَا قَدْ تَبَهَّجَتْ بِزِينَتِهَا وخَدَعَتْ بِلَذَّتِهَا - دَعَتْكَ فَأَجَبْتَهَا،

وقَادَتْكَ فَاتَّبَعْتَهَا - وأَمَرَتْكَ فَأَطَعْتَهَا - وإِنَّه يُوشِكُ أَنْ يَقِفَكَ وَاقِفٌ عَلَى مَا لَا يُنْجِيكَ مِنْه مِجَنٌّ - فَاقْعَسْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ - وخُذْ أُهْبَةَ الْحِسَابِ وشَمِّرْ لِمَا قَدْ نَزَلَ بِكَ - ولَا تُمَكِّنِ الْغُوَاةَ مِنْ سَمْعِكَ - وإِلَّا تَفْعَلْ أُعْلِمْكَ مَا أَغْفَلْتَ مِنْ نَفْسِكَ - فَإِنَّكَ مُتْرَفٌ قَدْ أَخَذَ الشَّيْطَانُ مِنْكَ مَأْخَذَه - وبَلَغَ فِيكَ أَمَلَه وجَرَى مِنْكَ مَجْرَى الرُّوحِ والدَّمِ.

ومَتَى كُنْتُمْ يَا مُعَاوِيَةُ سَاسَةَ الرَّعِيَّةِ - ووُلَاةَ أَمْرِ الأُمَّةِ -

(۱۰)

مکتوب

(معاویہ ہی کے نام )

اس وقت کیا کروگے جب اس دنیاکے یہ سارے لباس تم سے اترجائیں جس کی زینت سے تم نے اپنے کوآراستہ کر رکھا ہے اورجس کی لذت نے تم کودھوکہ میں ڈال دیا ہے۔اس دنیانے تم کوآوازدی تو تم نے لبیک کہہ دی اورتمہیں کھینچنا چاہا تو تم کھینچتے چلے گئے اوراس کے احکام کی اطاعت کرتے رہے۔قریب ہے کہ کوئی بتانے والا تمہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے جن سے کوئی سپر بچانے والی نہیں ہے لہٰذا مناسب ہے کہ اس دعویٰ سے باز آجائواور حساب و کتاب کا سامان تیار کرلو۔آنے والی مصیبتوں کے لئے کمر بستہ ہو جائو اور گمراہوں کو اپنی سماعت پر حاوینہ بنائو ورنہ ایسا نہ کیا تو میں تہیں ان تمام چیزوں سے با خبر کردوں گا جن سے تم غافل ہو۔تم عیش و عشرت کے دلدادہ ہو۔شیطان نے تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اپنی امیدوں کو حاصل کرلیا ہے اورتمہارے رگ و پے میں روح اورخون کی طرح سرایت کرگیا ہے۔

معاویہ! آخر تم لوگ کب رعایا(۱) کی نگرانی کے قابل اور امت کے مسائل کے والی تھے جب کہ تمہارے

(۱) اس مقام پر سیاست سے مراد سیاست عادلہ اوررعایت کاملہ ہے کہ اس کام کا انجام دیناہر کس و ناکس کے بسکا نہیں ہے ورنہ سیاست سے مکاری ' عیاری اورغداری مرادلی جائے تو بنی امیہ ہمیشہ سے سیاست مدار تھے اورابو سفیان نے ہرمحاذ پر اسلام کے خلاف لشکرکشی کی ہے اور اس راہمیں کسی بھی حربہ کونظراندازنہیں کیا ہے ۔بکیھ میدانوں میں مقابلہ کیا ہے اورکبھی بیعت کرکے اسلام کا صفایا کیا ہے۔

۴۸۴

بِغَيْرِ قَدَمٍ سَابِقٍ ولَا شَرَفٍ بَاسِقٍ - ونَعُوذُ بِاللَّه مِنْ لُزُومِ سَوَابِقِ الشَّقَاءِ - وأُحَذِّرُكَ أَنْ تَكُونَ مُتَمَادِياً فِي غِرَّةِ الأُمْنِيِّةِ - مُخْتَلِفَ الْعَلَانِيَةِ والسَّرِيرَةِ.

وقَدْ دَعَوْتَ إِلَى الْحَرْبِ فَدَعِ النَّاسَ جَانِباً - واخْرُجْ إِلَيَّ وأَعْفِ الْفَرِيقَيْنِ مِنَ الْقِتَالِ - لِتَعْلَمَ أَيُّنَا الْمَرِينُ عَلَى قَلْبِه والْمُغَطَّى عَلَى بَصَرِه - فَأَنَا أَبُو حَسَنٍ - قَاتِلُ جَدِّكَ وأَخِيكَ وخَالِكَ شَدْخاً يَوْمَ بَدْرٍ - وذَلِكَ السَّيْفُ مَعِي - وبِذَلِكَ الْقَلْبِ أَلْقَى عَدُوِّي - مَا اسْتَبْدَلْتُ دِيناً ولَا اسْتَحْدَثْتُ نَبِيّاً - وإِنِّي لَعَلَى الْمِنْهَاجِ الَّذِي تَرَكْتُمُوه طَائِعِينَ - ودَخَلْتُمْ فِيه مُكْرَهِينَ.

وزَعَمْتَ أَنَّكَ جِئْتَ ثَائِراً بِدَمِ عُثْمَانَ - ولَقَدْ عَلِمْتَ حَيْثُ

وَقَعَ دَمُ عُثْمَانَ - فَاطْلُبْه مِنْ هُنَاكَ إِنْ كُنْتَ طَالِباً - فَكَأَنِّي قَدْ رَأَيْتُكَ تَضِجُّ مِنَ الْحَرْبِ - إِذَا عَضَّتْكَ ضَجِيجَ الْجِمَالِ بِالأَثْقَالِ - وكَأَنِّي بِجَمَاعَتِكَ

پاس نہ کوئی سابقہ شرف ہے اور نہ کوئی بلند و بالا عزت۔ہم اللہ سے تمام دیرینہ بد بختیوں سے پناہ مانگتے ہیں اورتمہیں باخبر کرتے ہیں کہ خبر دار امیدوں کے دھوکہ میں اور ظاہر و باطن کے اختلاف میں مبتلا ہوکر گمراہی میں دورتک مت چلے جائو۔تم نے مجھے جنگ کی دعوت دی ہے تو بہتر یہ ہے کہ لوگوں کوالگ کردو اور بذات خود میدان میں آجائو۔ فریقین کو جنگ سے معاف کردواور ہم(۱) تم براہ راست مقابلہ کرلیں تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ کس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اور کس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے روز بدر تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ ) ماموں ( ولید بن عتبہ ) اور بھائی حنظلہ کا سر توڑ کرخاتمہ کردیا ہے۔ اورابھی وہ تلوار میرے پاس ہے اورمیں اسی ہمت قلب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کروں گا۔میں نےنہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ نیا نبی اختیار کیا ہے میں اسی راستہ پرچل رہا ہوں جسے تم نے اختیاری حدود تک چھوڑ رکھا تھا اورپھرمجبوراً داخل ہوگئے تھے ۔تمہارا خیال ہے کہ تم خون عثمان کا بدلہ لینے آئے ہو۔تو تمہیں تو معلوم ہےکہ اس خون کی جگہ کہاں ہے۔اگرواقعی مطالبہ کرنا ہے تو وہیں جا کرکرو۔مجھےتو یہ منظرنظر آرہا ہے(۸) کہ جنگ تمہیں دانتوں سےکاٹ رہی ہےاورتم اس طرح فریاد کر رہےہو جس طرح اونٹ سامان کی گرانی سےبلبلانے لگتے ہیں اورتمہاری جماعت

(۱)حضرت کا یہ وہ مطالبہ تھاجس کی عمرو عاص نے بھی تائید کردی تھی لیکن معاویہ فوراً تاڑ گیا اوراس نے کہا کہ تو خلافت کاامید وار دکھائی دے رہا ہے اور پھر میدان کا رخ کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا کہ علی کی تلوارسے بچ کرنکل جانا محالات میں سے ہے۔

۴۸۵

تَدْعُونِي جَزَعاً مِنَ الضَّرْبِ الْمُتَتَابِعِ - والْقَضَاءِ الْوَاقِعِ ومَصَارِعَ بَعْدَ مَصَارِعَ إِلَى كِتَابِ اللَّه - وهِيَ كَافِرَةٌ جَاحِدَةٌ أَوْ مُبَايِعَةٌ حَائِدَةٌ

(۱۱)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها جيشا بعثه إلى العدو

فَإِذَا نَزَلْتُمْ بِعَدُوٍّ أَوْ نَزَلَ بِكُمْ - فَلْيَكُنْ مُعَسْكَرُكُمْ فِي قُبُلِ الأَشْرَافِ - أَوْ سِفَاحِ الْجِبَالِ أَوْ أَثْنَاءِ الأَنْهَارِ - كَيْمَا يَكُونَ لَكُمْ رِدْءاً ودُونَكُمْ مَرَدّاً - ولْتَكُنْ مُقَاتَلَتُكُمْ مِنْ وَجْه وَاحِدٍ أَوِ اثْنَيْنِ - واجْعَلُوا لَكُمْ رُقَبَاءَ فِي صَيَاصِي الْجِبَالِ - ومَنَاكِبِ الْهِضَابِ - لِئَلَّا يَأْتِيَكُمُ الْعَدُوُّ مِنْ مَكَانِ مَخَافَةٍ أَوْ أَمْنٍ - واعْلَمُوا أَنَّ مُقَدِّمَةَ الْقَوْمِ عُيُونُهُمْ - وعُيُونَ الْمُقَدِّمَةِ طَلَائِعُهُمْ وإِيَّاكُمْ والتَّفَرُّقَ - فَإِذَا نَزَلْتُمْ فَانْزِلُوا جَمِيعاً - وإِذَا ارْتَحَلْتُمْ فَارْتَحِلُوا جَمِيعاً - وإِذَا غَشِيَكُمُ اللَّيْلُ فَاجْعَلُوا الرِّمَاحَ كِفَّةً - ولَا تَذُوقُوا النَّوْمَ إِلَّا غِرَاراً أَوْ مَضْمَضَةً

مسلسل تلوار کی ضرب اورموت کی گرم بازاری اور کشتوں کے پشتے لگ جانے کی بنا پر مجھے کتاب خداکی دعوت دے رہی ہے جب کہ خود اس کتاب کی دیدہ و دانستہ منکر ہے یا بیعت کرنے کے بعد بیعت شکنی کرنے والی ہے۔

(۱۱)

آپ کی نصیحت

(جو اپنےلشکرکودشمن کی طرف روانہ کرتےہوئےفرمائی ہے )

جب تم کسی دشمن پر واردہونا یا اگر وہ تم پر وارد ہو تو دیکھو(۱) تمہارے پڑائو ٹیلوں کے سامنے یا پہاڑوں کے دامن میں یا نہروں کے موڑ پر ہوں تاکہ یہ تمہارے لئے وسیلہ حفاظت بھی رہیں اوردشمن کو روک بھی سکیں۔اورجنگ ہمیشہ ایک یا دو محاذوں پر کرنا اور اپنے نگرانوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور ٹیلوں کی بلند سطحوںپرمعین کر دیناتاکہ دشمن نہ کسی خطرناک جگہ سے حملہ کر سکے اورنہ محفوظ جگہ سے اور یہ یاد رکھنا کہ فوج کاہر اول دستہ فوج کا نگراں ہوتا ہے اوراس کی اطلاعات کاذریعہ مخبر افراد ہوتے ہیں۔خبردار آپس میں منتشر نہ ہو جانا۔جہاں اترنا سب ایک ساتھ اترنا اور جب کوچ کرنا تو سب ساتھ کوچ کرنا۔اور جب رات ہو جائے تو نیزوں کو اپنے گرد گاڑ دینا اور خبردار نیند کا مزہ چکھنے کا ارادہ نہ کرنا مگر یہ کہ ایک آدھ جھپکی لگ جائے ۔

(۱)یہ وہ ہدایات ہیںجو ہردورمیں کام آنے والی ہیں اورقائد اسلام کا فرض ہے کہ جس دورمیں جس طرح کا میدان اورجس طرح کے اسلحہ ہوں ان سبکی تنظیم انہیں اصولوں کی نیاد پر کرے جن کی طر ف امیر المومنین نیدو رنیزہ و شمشیر میں اشارہ فرمایا ہے۔حالات اوراسلحوں کے بدل جانے سے اصول حرب و ضرب اور قوانین جہاد و قتال میں فرق نہیں ہوسکتا ہے۔

۴۸۶

(۱۲)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها معقل بن قيس الرياحي - حين أنفذه إلى الشام في ثلاثة آلاف مقدمة له

اتَّقِ اللَّه الَّذِي لَا بُدَّ لَكَ مِنْ لِقَائِه - ولَا مُنْتَهَى لَكَ دُونَه - ولَا تُقَاتِلَنَّ إِلَّا مَنْ قَاتَلَكَ - وسِرِ الْبَرْدَيْنِ وغَوِّرْ بِالنَّاسِ - ورَفِّه فِي السَّيْرِ ولَا تَسِرْ أَوَّلَ اللَّيْلِ - فَإِنَّ اللَّه جَعَلَه سَكَناً وقَدَّرَه مُقَاماً لَا ظَعْناً - فَأَرِحْ فِيه بَدَنَكَ ورَوِّحْ ظَهْرَكَ - فَإِذَا وَقَفْتَ حِينَ يَنْبَطِحُ السَّحَرُ - أَوْ حِينَ يَنْفَجِرُ الْفَجْرُ فَسِرْ عَلَى بَرَكَةِ اللَّه - فَإِذَا لَقِيتَ الْعَدُوَّ فَقِفْ مِنْ أَصْحَابِكَ وَسَطاً - ولَا تَدْنُ مِنَ الْقَوْمِ دُنُوَّ مَنْ يُرِيدُ أَنْ يُنْشِبَ الْحَرْبَ - ولَا تَبَاعَدْ عَنْهُمْ تَبَاعُدَ مَنْ يَهَابُ الْبَأْسَ - حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي - ولَا يَحْمِلَنَّكُمُ شَنَآنُهُمْ عَلَى قِتَالِهِمْ - قَبْلَ دُعَائِهِمْ والإِعْذَارِ إِلَيْهِمْ.

(۱۲)

آپ کی نصیحت

(جو معقل بن قیس ریاحی کواس وقت فرمائی ہے جب انہیں تین ہزار کا لشکر دے کرشام کی طرف روانہ فرمایا ہے )

اس اللہ سے ڈرتے رہنا جس کی بارگاہ میںبہر حال حاضر ہونا ہے اورجس کے علاوہ کوئی آخری منزل نہیں ہے۔جنگ اسی سے کرنا جو تم سے جنگ کرے۔ٹھنڈے اوقات میں صبح و شام سفر کرنا اور گرمی کے وقت میں قافلہ کو روک کر لوگوں کو آرام کرنے دینا۔آہستہ سفر کرنا اوراول شب میں سفرمت کرناکہ پروردگارنے رات کو سکون کے کے لئے بنایا ہے اور اسے قیام کے لئے قرار دیا ہے۔سفر کے لئے نہیں۔لہٰذا رات میں اپنے بدن کوآرام دینا اوراپنی سواری کے لئے سکون فراہم کرنا۔اس کیبعد جب دیکھ لینا کہ سحر طلوع ہو رہی ہے اور صبح روشن ہو رہی ہے تو برکت خدا کے سہارے اٹھ کھڑے ہونا۔ اورجب دشمن کا سامناہو جائے تو اپنے اصحاب کے درمیان ٹھہرنا اورنہ دشمن سے اس قدر قریب ہو جانا کہ جیسے جنگ چھیڑنا چاہیے ہو۔اور نہ اس قدر دور ہو جانا کہ جیسے جنگ سے خوفزدہ ہو۔یہاں تک کہ میرا حکم آجائے اوردیکھوخبردار دشمن کی دشمنی تمہیں اس بات پرآمادہ نہ کردے کہ اسے حق کی دعوت دینے اورحجت تمام کرنے سے پہلے جنگ کا آغاز کردو(۱)

(۱)یہ ساری ہدایات معقل بن قیس کے بارے میں ہیں جنہیں آپ نے تین ہزار افراد کا سردار لشکر بنا کر بھیجا تھا اورایسے ہدایات سے مسلح فرمادیا تھا جو صبح قیامت تک کام آنے والی ہوں اور ہر دور کا انسان ان سے استفادہ کرسکے۔

۴۸۷

(۱۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أميرين من أمراء جيشه

وقَدْ أَمَّرْتُ عَلَيْكُمَا - وعَلَى مَنْ فِي حَيِّزِكُمَا مَالِكَ بْنَ الْحَارِثِ الأَشْتَرَ - فَاسْمَعَا لَه وأَطِيعَا واجْعَلَاه دِرْعاً ومِجَنّاً - فَإِنَّه مِمَّنْ لَا يُخَافُ وَهْنُه ولَا سَقْطَتُه - ولَا بُطْؤُه عَمَّا الإِسْرَاعُ إِلَيْه أَحْزَمُ - ولَا إِسْرَاعُه إِلَى مَا الْبُطْءُ عَنْه أَمْثَلُ

(۱۴)

ومن وصية لهعليه‌السلام

لعسكره قبل لقاء العدو بصفين

لَا تُقَاتِلُوهُمْ حَتَّى يَبْدَءُوكُمْ - فَإِنَّكُمْ بِحَمْدِ اللَّه عَلَى حُجَّةٍ - وتَرْكُكُمْ إِيَّاهُمْ حَتَّى يَبْدَءُوكُمْ حُجَّةٌ أُخْرَى لَكُمْ عَلَيْهِمْ - فَإِذَا كَانَتِ الْهَزِيمَةُ بِإِذْنِ اللَّه - فَلَا تَقْتُلُوا مُدْبِراً ولَا تُصِيبُوا مُعْوِراً - ولَا تُجْهِزُوا عَلَى جَرِيحٍ

(۱۳)

آپ کامکتوب شریف

(اپنے سرداران لشکر میں ایک سردار کے نام)

میں نے تم پر اورتمہارے ماتحت لشکر پر مالک بن الحارث(۱) الاشترکو سردار قراردے دیا ہے لہٰذا ان کی باتوں پر توجہ دینا اور ان کی اطاعت کرنا اورانہیں کو اپنی زرہ اور سپر قراردینا کہ مالک ان لوگوں میں ہیں جن کی کمزوری اور لغزش کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ وہ اس موقع پر سستی کرسکتے ہیںجہاںتیز زیادہ مناسب ہو۔اورنہ وہاں تیزی کرس کتے ہیں جہاں سستی زیادہ قرین عقل ہو۔

(۱۴)

آپ کی نصیحت

(اپنے لشکر کے نام صفین کی جنگ کے آغاز سے پہلے )

خبردار! اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک وہ لوگ پہل نہ کردیں کہ تم بحمد اللہ اپنی دلیل(۲) رکھتے ہو اور انہیں اس وقت تک موقع دینا جب تک پہل نہ کردیں ایک دوسری حجت ہو جائے گی۔اس کے بعد جب حکم خدا سے دشمن کو شکست ہو جائے تو کسی بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اور کسی عاجز کو ہلاک نہ کرنا اور کسی زخمی

(۱)مالک اشتران لوگوں میں ہیں جنہوں نے ابو ذر کے غسل و کفن کا انتظام کیا تھا۔جن کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ میرا ایک صحابی عالم غربت میں انتقال کرے گا اورصاحبان ایمان کی ایک جماعت اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرے گی۔ (استیعاب ترجمہ جندب)

(۲)یہ دلیل سورہ ٔ حجرات کی آیت ۹ ہے جس میں باغی سے قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاویہ اوراس کی جماعت باغی تھی جس کی تصدیق جناب عمار یاسر کی شہادت سے ہوگئی جن کے قاتل کو سرکار دوعالم (ص) نے باغی قرر دیا تھا۔

۴۸۸

- ولَا تَهِيجُوا النِّسَاءَ بِأَذًى - وإِنْ شَتَمْنَ أَعْرَاضَكُمْ وسَبَبْنَ أُمَرَاءَكُمْ - فَإِنَّهُنَّ ضَعِيفَاتُ الْقُوَى والأَنْفُسِ والْعُقُولِ - إِنْ كُنَّا لَنُؤْمَرُ بِالْكَفِّ عَنْهُنَّ وإِنَّهُنَّ لَمُشْرِكَاتٌ - وإِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَتَنَاوَلُ الْمَرْأَةَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ - بِالْفَهْرِ أَوِ الْهِرَاوَةِ - فَيُعَيَّرُ بِهَا وعَقِبُه مِنْ بَعْدِه.

(۱۵)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

كانعليه‌السلام يقول إذا لقي العدو محاربا

اللَّهُمَّ إِلَيْكَ أَفْضَتِ الْقُلُوبُ ومُدَّتِ الأَعْنَاقُ - وشَخَصَتِ الأَبْصَارُ ونُقِلَتِ الأَقْدَامُ وأُنْضِيَتِ الأَبْدَانُ - اللَّهُمَّ قَدْ صَرَّحَ مَكْنُونُ الشَّنَآنِ - وجَاشَتْ مَرَاجِلُ الأَضْغَانِ - اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْكُو إِلَيْكَ غَيْبَةَ نَبِيِّنَا - وكَثْرَةَ عَدُوِّنَا وتَشَتُّتَ أَهْوَائِنَا -( رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ - وأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ ) .

(۱۶)

وكان يقولعليه‌السلام

لأصحابه عند الحربك

پر قاتلانہ حملہ نہ کرنا۔اورعورتوں کو اذیت مت دینا چاہے وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دیں اور تمہارے حکام کوبرا بھلا ہی کیوں نہ کہیں۔کہ یہ قوت نفس اور عقل کے اعتبارسے کمزور ہیں اور ہم پیغمبر (ص) کے زمانے میں بھی ان کے بارے میں ہاتھ روک لینے پر مامور تھے ۔ جب کہ وہ مشرک تھیں اوراس وقت بھی اگر کوئی شخص عورتوں سے پتھر یالکڑی کے ذریعہ تعرض کرتا تھا تو اسے اور اس کی نسلوں کو مطعون کیا جاتا تھا۔

(۱۵)

آپ کی دعا

(جسے دشمن کے مقابلہ کے وقت دہرایا کرتے تھے)

خدایا تیری ہی طرف دل کھنچ رہے ہیں اور گردنیں اٹھی ہوئی ہیں اورآنکھیں لگی ہوئی ہیں اورقدم آگے بڑھ رہے ہیں اوربدن لاغر ہو چکے ہیں۔ خدایا چھپے ہوئے کینے سامنے آگئے ہیں اور عداوتوں کی دیگیں جوش کھانے لگی ہیں۔

خدایا ہم تیریر بارگاہ میں اپنے رسول کی غیبت اوردشمنوں کی کثرت کی اورخواہشات کے تفرقہ کی فریاد کر رہے ہیں ۔

خدایا ہمارے اوردشمنوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

(۱۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو جنگ کے وقت اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے )

۴۸۹

لَا تَشْتَدَّنَّ عَلَيْكُمْ فَرَّةٌ بَعْدَهَا كَرَّةٌ - ولَا جَوْلَةٌ بَعْدَهَا حَمْلَةٌ - وأَعْطُوا السُّيُوفَ حُقُوقَهَا - ووَطِّئُوا لِلْجُنُوبِ مَصَارِعَهَا - واذْمُرُوا أَنْفُسَكُمْ عَلَى الطَّعْنِ الدَّعْسِيِّ والضَّرْبِ الطِّلَحْفِيِّ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ –

فَوَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ - مَا أَسْلَمُوا ولَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وأَسَرُّوا الْكُفْرَ - فَلَمَّا وَجَدُوا أَعْوَاناً عَلَيْه أَظْهَرُوه.

(۱۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية - جوابا عن كتاب منه إليه

وأَمَّا طَلَبُكَ إِلَيَّ الشَّامَ - فَإِنِّي لَمْ أَكُنْ لأُعْطِيَكَ الْيَوْمَ مَا مَنَعْتُكَ أَمْسِ

خبردا رتم پروہ فرار(۱) گراں نہ گزرے جس کے بعد حملہ کرنے کا امکان ہو اور وہ پسپائی پریشان کن نہ ہوجس کے بعد دوبارہ واپسی کا امکان ہو۔تلواروں کوان کا حق دے دواور پہلو کے بھل گرنے والے دشمنوں کے لئے مقتل تیار رکھو۔اپنے نفس کو شدید نیزہ بازی اورسخت ترین شمشیر زنی کے لئے آمادہ رکھو اور آوازوں کومردہ بنا دو کہ اس سے کمزوری دور ہوجاتی ہے ۔

قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورجاندار چیزوں کوپیدا کیا ہے کہ یہ لوگ اسلام نہیں لائے ہیں بلکہ حالات کے سامنے سپر انداختہ ہوگئے ہیں اور اپنے کفر کو چھپائے ہوئے ہیں اورجیسے ہی مددگار مل گئے ویسے ہی اظہار کردیا۔

(۱۷)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام۔اس کے ایک خط کے جواب میں )

تمہارا یہ مطالبہ(۲) کہ میں شام کا علاقہ تمہارے حوالے کردوں۔تو جس چیز سے کل انکار کرچکا ہوں وہ

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میدان جنگ میں ایسے حالات آجاتے ہیں جب سپاہی کو اپنی جگہ چھوڑنا پڑتی ہے۔ اور ایک طرح سے فرارکا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔لیکن اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔بشرطیکہ حوصلہ جہاد برقرار رہے اورجذبہ قربانی میں فرق نہ آنے پائے ۔ میدان احد کا سب سے بڑا عیب یہی تھا کہ '' صحابہ کرام '' جذبہ قربانی سے عاری ہوگئے تھے اور رسول اکرم (ص) کے پکارنے کے باوجود پلٹ کر آنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ایسی صورت حال یقینا اس قابل ہے کہ اس کی مذمت کی جائے اور یہ ننگ و عارنسلوں میں باقی رہ جائے ۔ورنہ افراد کے بعد حملہ یا پسپائی کے بعد واپسی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پرمذمت یا ملامت کی جائے ۔

(۲)معاویہ نے اپنے خط میں چار نکتے اٹھائے تھے اورحضرت نے سب کے الگ الگ جوابات دئیے ہیں اورحق و باطل کا ابدی فیصلہ کردیا ہے اورآخرمیں یہ بھی واضح کردیاہے کہ تمام معاملات میں مساوات فرض کرلینے کے بعد بھی شرفت نبوت کاکوئی مقام نہیں ہو سکتا ہے جوپروردگارنے بنی ہاشم کو عطا کیا ہے اوراسی کابنی امیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اورذاتی کردار کے اعتبار سے بھی بنی ہاشم اسلام کی منزل پر فائز تھے اور بنی امیہ نے فتح مکہ کے موقع پر مجبوراً کلمہ پڑھ لیا تھا اور ظاہر ہے کہ استسلام اسلام کے مانند نہیں ہو سکتا ہے ۔

۴۹۰

وأَمَّا قَوْلُكَ - إِنَّ الْحَرْبَ قَدْ أَكَلَتِ الْعَرَبَ إِلَّا حُشَاشَاتِ أَنْفُسٍ بَقِيَتْ - أَلَا ومَنْ أَكَلَه الْحَقُّ فَإِلَى الْجَنَّةِ - ومَنْ أَكَلَه الْبَاطِلُ فَإِلَى النَّارِ – وأَمَّا اسْتِوَاؤُنَا فِي الْحَرْبِ والرِّجَالِ - فَلَسْتَ بِأَمْضَى عَلَى الشَّكِّ مِنِّي عَلَى الْيَقِينِ - ولَيْسَ أَهْلُ الشَّامِ بِأَحْرَصَ عَلَى الدُّنْيَا - مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ عَلَى الآخِرَةِ - وأَمَّا قَوْلُكَ إِنَّا بَنُو عَبْدِ مَنَافٍ - فَكَذَلِكَ نَحْنُ ولَكِنْ لَيْسَ أُمَيَّةُ كَهَاشِمٍ - ولَا حَرْبٌ كَعَبْدِ الْمُطَّلِبِ ولَا أَبُو سُفْيَانَ كَأَبِي طَالِبٍ - ولَا الْمُهَاجِرُ كَالطَّلِيقِ ولَا الصَّرِيحُ كَاللَّصِيقِ - ولَا الْمُحِقُّ كَالْمُبْطِلِ ولَا الْمُؤْمِنُ كَالْمُدْغِلِ - ولَبِئْسَ الْخَلْفُ خَلْفٌ يَتْبَعُ سَلَفاً هَوَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ.

وفِي أَيْدِينَا بَعْدُ فَضْلُ النُّبُوَّةِ الَّتِي أَذْلَلْنَا بِهَا الْعَزِيزَ - ونَعَشْنَا بِهَا الذَّلِيلَ - ولَمَّا أَدْخَلَ اللَّه الْعَرَبَ فِي دِينِه أَفْوَاجاً - وأَسْلَمَتْ لَه هَذِه الأُمَّةُ طَوْعاً وكَرْهاً - كُنْتُمْ مِمَّنْ دَخَلَ فِي الدِّينِ إِمَّا رَغْبَةً وإِمَّا رَهْبَةً - عَلَى حِينَ

آج عطا نہیں کرسکتا ہوں اور تمہارا یہ کہنا کہ جنگ نے عرب کاخاتمہ کردیا ہے اورچند ایک افراد کے علاوہ کچھ نہیں باقی رہ گیا ہے تو یاد رکھوکہ جس کا خاتمہ حق پر ہوا ہے اس کا انجام جنت ہے اورجسے باطل کھا گیا ہے اس کا انجام جہنم ہے۔ رہ گیا ہم دونوں کا جنگ اور شخصیات کے بارے میں برابر ہونا۔تو تم شک میں اس طرح تیز رفتاری سے کام نہیں کرسکتے ہو جتنامیں یقین میں کر سکتا ہوں اور اہل شام دنیاکے بارے میں اتنے حریص نہیں ہیں جس قدراہل عراق آخرت کے بارے میں فکر مند ہیں۔

اورتمہارا یہ کہنا کہ ہم سب عبد مناف کی اولاد ہیں تو یہ بات صحیح ہے لیکن نہ امیہ ہاشم جیسا ہو سکتا ہے اور نہ حرب عبدالمطلب جیسا۔نہ ابو سفیان ابو طالب کاہمسر ہو سکتا ہے اور نہ راہ خدا میں ہجرت کرنے والا آزاد کردہ افراد جیسا۔نہ واضح نسب والے کا قیاس شجرہ سے چپکائے جانے والے پر ہوسکتا ہے اور نہ حقدار کو باطل نواز جیسا قراردیا جاسکتا ہے ۔مومن کبھی منافق کے برابر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔بد ترین اولاد تو وہ ہے جو اس سلف کے نقش قدم پر چلے جو جہنم میں گر چکا ہے۔

اس کے بعد ہمارے ہاتھوں میں نبوت کا شرف ہے جس کے ذریعہ ہم نے باطل کے عزت داروں کو ذلیل بنایا ہے اور حق کے کمزوروں کو اوپر اٹھایا ہے۔اورجب پروردگارنے عرب کو اپنے دین میں فوج در فوج داخل کیا ہے اوری ہ قوم بخوشی یا بکراہت مسلمان ہوئی ہے تو تم انہیں دین کے دائرہ میں داخل ہونے والوں میں تھے یا بہ

۴۹۱

فَازَ أَهْلُ السَّبْقِ بِسَبْقِهِمْ - وذَهَبَ الْمُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ بِفَضْلِهِمْ - فَلَا تَجْعَلَنَّ لِلشَّيْطَانِ فِيكَ نَصِيباً - ولَا عَلَى نَفْسِكَ سَبِيلًا والسَّلَامُ.

(۱۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن عباس - وهو عامله على البصرة

واعْلَمْ أَنَّ الْبَصْرَةَ مَهْبِطُ إِبْلِيسَ ومَغْرِسُ الْفِتَنِ - فَحَادِثْ أَهْلَهَا بِالإِحْسَانِ إِلَيْهِمْ - واحْلُلْ عُقْدَةَ الْخَوْفِ عَنْ قُلُوبِهِمْ. وقَدْ بَلَغَنِي تَنَمُّرُكَ لِبَنِي تَمِيمٍ وغِلْظَتُك عَلَيْهِمْ - وإِنَّ بَنِي تَمِيمٍ لَمْ يَغِبْ لَهُمْ نَجْمٌ - إِلَّا طَلَعَ لَهُمْ آخَرُ - وإِنَّهُمْ لَمْ يُسْبَقُوا بِوَغْمٍ فِي جَاهِلِيَّةٍ ولَا إِسْلَامٍ - وإِنَّ لَهُمْ بِنَا رَحِماً مَاسَّةً وقَرَابَةً خَاصَّةً - نَحْنُ مَأْجُورُونَ عَلَى صِلَتِهَا - ومَأْزُورُونَ عَلَى قَطِيعَتِهَا - فَارْبَعْ أَبَا الْعَبَّاسِ رَحِمَكَ اللَّه - فِيمَا جَرَى عَلَى لِسَانِكَ ويَدِكَ مِنْ خَيْرٍ وشَرٍّ - فَإِنَّا شَرِيكَانِ فِي ذَلِكَ - وكُنْ عِنْدَ صَالِحِ ظَنِّي بِكَ - ولَا يَفِيلَنَّ رَأْيِي فِيكَ والسَّلَامُ.

رغبت یا بہ خوف جب کہ سبقت حاصل کرنے والے سبقت حاصل کرچکے تھے اور مہاجرین اولین اپنی فضلیت پاچکے تھے ۔دیکھوخبردار شیطان کواپنی زندگی کا حصہ دار مت بنائو اور اسے اپنے نفس پر راہمت دو۔والسلام ۔

(۱۸)

حضرت کا مکتوب گرامی

(بصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کے نام)

یاد رکھو کہ یہ بصرہ ابلیس کے اترنے اور فتنوں کے ابھرنے کی جگہ کا نام ہے لہٰذا یہاں کے لوگ کے ساتھ اچھابرتائو کرنا اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہ کھول دینا۔

مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم بنی تمیم کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہو اور ان سے سخت قسم کابرتائو کرتے ہو تو یاد رکھو کہ بنی تمیم وہ لوگ ہیں کہ جب ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو دوسرا ابھرآتا ہے۔یہ جنگ کے معاملہ میں جاہلیت یا اسلام کبھی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں اور پھر ہمارا ان سے رشتہ داری اورقرابت کا تعلق بھی ہے کہ اگرہم اس کاخیال رکھیں گے تواجرپائیں گے اور قطع تعلق کرلیں گے تو گناہ گار ہوں گے لہٰذا ابن عباس خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ان کے ساتھ اپنی زبان یا ہاتھ پر جاری ہونے والی اچھائی یا برائی میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا کہ ہم دونوں ان ذمہ داریوں میں شریک ہیں۔اور دیکھو تمہارے بارے میں میرا حسن ظن برقرار رہے اور میری رائے غلط ثابت ہونے پائے ۔

۴۹۲

(۱۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ دَهَاقِينَ أَهْلِ بَلَدِكَ شَكَوْا مِنْكَ غِلْظَةً وقَسْوَةً - واحْتِقَاراً وجَفْوَةً - ونَظَرْتُ فَلَمْ أَرَهُمْ أَهْلًا لأَنْ يُدْنَوْا لِشِرْكِهِمْ - ولَا أَنْ يُقْصَوْا ويُجْفَوْا لِعَهْدِهِمْ - فَالْبَسْ لَهُمْ جِلْبَاباً مِنَ اللِّينِ تَشُوبُه بِطَرَفٍ مِنَ الشِّدَّةِ - ودَاوِلْ لَهُمْ بَيْنَ الْقَسْوَةِ والرَّأْفَةِ - وامْزُجْ لَهُمْ بَيْنَ التَّقْرِيبِ والإِدْنَاءِ - والإِبْعَادِ والإِقْصَاءِ إِنْ شَاءَ اللَّه.

(۲۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد ابن أبيه - وهو خليفة عامله عبد الله بن عباس على البصرة وعبد الله عامل أمير المؤمنينعليه‌السلام يومئذ عليها - وعلى كور الأهواز وفارس وكرمان وغيرها:

(۱۹)

آپ کامکتوب گرامی

(اپنے بعض عمال کے نام )

اما بعد! تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہارے بارے میں سختی ۔سنگدلی ۔تحقیر و تذلیل اورتشدد کی شکایت کی ہے اورمیں نے ان کے بارے میں غورکرلیا ہے۔وہ اپنے شرک کی بنا پر قریب(۱) کرنے کے قابل تو نہیں ہیں لیکن عہدو پیمان کی بنا پرانہیں دوربھی نہیں کیا جاسکتا ہے اوران پر زیادتی بھی نہیں کی جا سکتی ہے لہٰذا تم ان کے بارے میں ایسی نرمی کاشعار اختیار کرو جس میں قدرے سختی بھی شامل ہو اور ان کے ساتھ سختی اور نرمی کے درمیان کا برتائو کرو کہ کبھی قریب کرلو۔کبھی دور کردو کبھی نزدیک بلا لو اور کبھی الگ رکھو۔انشاء اللہ ۔

(۲۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(زیاد بن ابیہ کے نام جوبصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کا نائب(۲) ہوگیا تھا اور ابن عباس بصرہ اور اہواز کے تمام اطراف کے عامل تھے )

(۱)واضح رہے کہ کسی کا قریب کر لینااورہے اور اس کے ساتھ عادلانہ اورمنصفانہ برتائو کرنا اور ہے۔اسلام عادلانہ برتائو کاحکم ہر ایک کے بارے میں دیتا ہے لیکن قربت کا جواز صرف صاحبان ایمان و کردار کے لئے ہے۔کفار و مشرکین کو تو اس نے حرم خدا سے بھی دور کردیا ہے اور ان کاداخلہ حدود حرم میں بند کردیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ آج عالم اسلام میں کفارو مشرکین ہی قریب بنائے جانے کے قابل ہیں اور کلمہ گو مسلمان اس لائق نہیں رہ گئے ہیں اور ان سے صبح و شام سرد جنگ صرف کفار و مشرکین سے قربت پیدا کرنے یا بر قرار رکھنے کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔اللہ اس اسلام پر رحم کرے اور اس امتکو عقل سلیم عنایت فرمائے ۔

(۲)واضح رہے کہ حضرت اختیاری طور پر کسی ایسے شخص کو عہدہ نہیں دے سکتے ہیں جس کا نسب مشکوک ہو۔یہکام ابن عباس نے ذاتی طورپر کیا تھا۔اسی لئے حضرت نے نہایت ہی سخت لہجہ میں خطاب فرمایا ہے۔

۴۹۳

وإِنِّي أُقْسِمُ بِاللَّه قَسَماً صَادِقاً - لَئِنْ بَلَغَنِي أَنَّكَ خُنْتَ مِنْ فَيْءِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئاً صَغِيراً أَوْ كَبِيراً - لأَشُدَّنَّ عَلَيْكَ شَدَّةً تَدَعُكَ قَلِيلَ الْوَفْرِ - ثَقِيلَ الظَّهْرِ ضَئِيلَ الأَمْرِ والسَّلَامُ

(۲۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد أيضا فَدَعِ الإِسْرَافَ مُقْتَصِداً - واذْكُرْ فِي الْيَوْمِ غَداً - وأَمْسِكْ مِنَ الْمَالِ بِقَدْرِ ضَرُورَتِكَ - وقَدِّمِ الْفَضْلَ لِيَوْمِ حَاجَتِكَ.

أَتَرْجُو أَنْ يُعْطِيَكَ اللَّه أَجْرَ الْمُتَوَاضِعِينَ - وأَنْتَ عِنْدَه مِنَ الْمُتَكَبِّرِينَ - وتَطْمَعُ وأَنْتَ مُتَمَرِّغٌ فِي النَّعِيمِ تَمْنَعُه الضَّعِيفَ والأَرْمَلَةَ - أَنْ يُوجِبَ لَكَ ثَوَابَ الْمُتَصَدِّقِينَ - وإِنَّمَا الْمَرْءُ مَجْزِيٌّ بِمَا أَسْلَفَ وقَادِمٌ عَلَى مَا قَدَّمَ والسَّلَامُ.

(۲۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس رحمه الله تعالى وكان عبد اللَّه يقول: «ما انتفعت بكلام بعد كلام رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،

میں اللہ کی سچی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مجھے خبر مل گئی کہ تم نے مسلمانوں کے مال غنیمت میں چھوٹی یا بڑی قسم کی خیانت کی ہے تو میں تم پر ایسی سختی کروں گا کہ تم نادار ۔بوجھل پیٹھ والے اور بے ننگ ونام ہو کر رہ جائو گے ۔والسلام )

(۲۱)

آپ کامکتوب گرامی

(زیاد ہی کے نام)

(اسراف کوچھوڑ کرمیانہ روی اختیار کرو اورآج کے دن کل کویاد رکھو۔بقدر ضرورت مال روک کر باقی روز حاجت کے لئے آگے بڑھا دو۔)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تم متکبروں میں رہو گے اورخدا تمہیں متواضع افراد جیسا اجردے دے گا یا تمہارے واسطے صدقہ وخیرات کرنے والوں کا ثواب لازم قراردے دیگا اورتم نعمتوں میں کروٹیں بدلتے رہوگے نہ کسی کمزور کاخیال کرو گے اور نہ کسی بیوہ کا جب کہ انسان کو اسی کا اجرملتا ہے جو اس نے انجام دیا ہے اور وہ اسی پر وارد ہوتا ہے جو اس نے پہلے بھیج دیا ہے۔والسلام

(۲۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔جس کے بارے میں خود ابن عباس کا مقولہ تھا کہمیں نے رسول اکرم

۴۹۴

كانتفاعي بهذا الكلام!»

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الْمَرْءَ قَدْ يَسُرُّه دَرْكُ مَا لَمْ يَكُنْ لِيَفُوتَه - ويَسُوؤُه فَوْتُ مَا لَمْ يَكُنْ لِيُدْرِكَه - فَلْيَكُنْ سُرُورُكَ بِمَا نِلْتَ مِنْ آخِرَتِكَ - ولْيَكُنْ أَسَفُكَ عَلَى مَا فَاتَكَ مِنْهَا - ومَا نِلْتَ مِنْ دُنْيَاكَ فَلَا تُكْثِرْ بِه فَرَحاً - ومَا فَاتَكَ مِنْهَا فَلَا تَأْسَ عَلَيْه جَزَعاً - ولْيَكُنْ هَمُّكَ فِيمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

(۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله قبل موته على سبيل الوصية - لما ضربه ابن ملجم لعنه الله:

وَصِيَّتِي لَكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِاللَّه شَيْئاً - ومُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَا تُضَيِّعُوا سُنَّتَه - أَقِيمُوا هَذَيْنِ الْعَمُودَيْنِ - وأَوْقِدُوا هَذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ وخَلَاكُمْ ذَمٌّ !

أَنَا بِالأَمْسِ صَاحِبُكُمْ - والْيَوْمَ عِبْرَةٌ لَكُمْ وغَداً مُفَارِقُكُمْ - إِنْ أَبْقَ فَأَنَا وَلِيُّ دَمِي - وإِنْ أَفْنَ فَالْفَنَاءُ مِيعَادِي -

کے بعد کسی کلام سے اس قدر استفادہ نہیں کیا ہے جس قدراس کلام سے کیا ہے )

امابعد! کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اسچیز کو پا کر بھی خوش ہو جاتا ہے جواس کے ہاتھ سے جانے والی نہیں تھی اور اس چیز کے چلے جانے سے بھی رنجیدہ ہو جاتا ہے جواسے ملنے والی نہیں تھی لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اس آخرت پر خوشی منائو جو حاصل ہو جائے اوراس پر افسوس کروجو اس میںسے حاصل نہ ہو سکے ۔دنیا حاصل ہوجائے تواس پر زیادہ خوشی کا اظہار نہ کرو اور ہاتھ سے نکل جائے تو بے قرار ہوکرافسوس نہ کرو۔تمہاری تمامتر فکر موت کے بعد کے بارے میں ہونی چاہیے ۔

(۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے اپنی شہادت سے پہلے بطور وصیت فرمایا ہے)

تم سب کے لئے میری وصیت یہ ہے کہ خبردار خداکے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ کرنا اور حضرت محمد (ص) کی سنت کو ضائع اور برباد نہ کرنا۔ان دونوں ستونوں کوقائم رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھو۔اس کے بعد کسی مذمت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔

میں کل تمہارے ساتھ تھا اور آج تمہارے لئے عبرت بن گیا ہوں اور کل تم سے جدا ہو جائوں گا۔اس کے بعد میں باقی رہ گیا تو اپنے خون کاصاحب اختیار میں خود ہوں ورنہ اگرمیری مدت حیات پوری ہوگئی ہے تو میں دنیا

۴۹۵

وإِنْ أَعْفُ فَالْعَفْوُ لِي قُرْبَةٌ وهُوَ لَكُمْ حَسَنَةٌ - فَاعْفُوا:( أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ الله لَكُمْ ) .

واللَّه مَا فَجَأَنِي مِنَ الْمَوْتِ وَارِدٌ كَرِهْتُه - ولَا طَالِعٌ أَنْكَرْتُه – ومَاكُنْتُ إِلَّا كَقَارِبٍ وَرَدَ وطَالِبٍ وَجَدَ -( وما عِنْدَ الله خَيْرٌ لِلأَبْرارِ ) .

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - أقول وقد مضى بعض هذا الكلام - فيما تقدم من الخطب - إلا أن فيه هاهنا زيادة أوجبت تكريره»

(۲۴)

ومن وصية لهعليه‌السلام

بما يعمل في أمواله - كتبها بعد منصرفه من صفين:

هَذَا مَا أَمَرَ بِه عَبْدُ اللَّه عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ

سے چلا جائوںگا۔میں اگر معاف(۱) کردوں تو یہ میرے لئے قربت الٰہی کا ذریعہ ہوگا اور تمہارے حق میں بھی ایک نیکی ہوگی لہٰذا تم بھی معاف کردینا۔'' کیا تم نہیں چاہتے ہوکہ اللہ تمہیں بخش دے ''

خدا کی قسم یہ اچانک موت ایسی نہیں ہے جسے میں نا پسند کرتا ہوں اور نہ ایسا سانحہ ہے جسے میں برا سمجھتا ہوں ۔میں تو اس شخص کے مانند ہوں جو رات بھر پانی کی جستجو میں رہے اور صبح کو چشمہ پروار ہو جائے اورتلاش کے بعد اپنے مقصد کو پالے اور پھرخداکی بارگاہ میں جو کچھ بھی ہے وہ نیک کرداروں کے لئے بہتر ہی ہے۔

سید رضی : اس کلام کا ایک حصہ پہلے گزر چکا ہے لیکن یہاں کچھ اصنافات تھے لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ اسے دوبارہ نقل کردیا جائے ۔

(۲۴)

آپ کی وصیت

(اپنے اموال کے بارےمیں جسے جنگ صفین کی واپسی پر تحریر فرمایا ہے)

یہ بندۂ خدا ! علی بن ابی طالب امیر المومنین کاحکم

(۱)واضح رہے کہ اس معافی سے مراد دنیا میں انتقام نہ لینا ہے کہ قاتل کے جرم کی دوحیثیتیں ہوتی ہیں ۔وہ انسانی دنیا میں ایک خون کا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں قصاص کا قانون سامنے آتا ہے اور مذہبی دنیا میں حکم الٰہی کی مخالفت کامجرم ہوتا ہے جس کا انجام آتش جہنم ہے۔دنیا کے قصاص و انتقام میں فسادات کے اندیشے ہوتے ہیں اورعداوتوں کے شعلے مزید بھڑک اٹھتے ہیں لیکن آخرت کے عذاب میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہے۔اس لئے صاحبان عقل و دانش یہاں کے انتقام کو نظراندازکردیتے ہیں تاکہ مزید فساد نہ پیدا ہو سکے اور اس بات سے مطمئن رہتے ہیں کہ مجرم کے لئیعذاب جہنم ہی کافی ہے اور خدا سے بہتر انتقام لینے والا کون ہے ۔

۴۹۶

- فِي مَالِه ابْتِغَاءَ وَجْه اللَّه - لِيُولِجَه بِه الْجَنَّةَ ويُعْطِيَه بِه الأَمَنَةَ

مِنْهَا فَإِنَّه يَقُومُ بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ - يَأْكُلُ مِنْه بِالْمَعْرُوفِ - ويُنْفِقُ مِنْه بِالْمَعْرُوفِ - فَإِنْ حَدَثَ بِحَسَنٍ حَدَثٌ وحُسَيْنٌ حَيٌّ - قَامَ بِالأَمْرِ بَعْدَه وأَصْدَرَه مَصْدَرَه.

وإِنَّ لِابْنَيْ فَاطِمَةَ مِنْ صَدَقَةِ عَلِيٍّ مِثْلَ الَّذِي لِبَنِي عَلِيٍّ - وإِنِّي إِنَّمَا جَعَلْتُ الْقِيَامَ بِذَلِكَ - إِلَى ابْنَيْ فَاطِمَةَ ابْتِغَاءَ وَجْه اللَّه - وقُرْبَةً إِلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وتَكْرِيماً لِحُرْمَتِه وتَشْرِيفاً لِوُصْلَتِه

ويَشْتَرِطُ عَلَى الَّذِي يَجْعَلُه إِلَيْه - أَنْ يَتْرُكَ الْمَالَ عَلَى أُصُولِه - ويُنْفِقَ مِنْ ثَمَرِه حَيْثُ أُمِرَ بِه وهُدِيَ لَه - وأَلَّا

ہے اپنے اموال(۱) کے بارے میں جس کا مقصد رضائے پروردگار ہے تاکہ اس کے ذریعہ جنت میں داخل ہو سکے اور روز محشر کے ہول سے امان پا سکے ۔

ان اموال کی نگرانی حسن بن علی کریں گے بقدر ضرورت استعمال کریں گے اور بقدر مناسب انفاق کریں گے۔اس کے بعد اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آگیا اور جبیں باقی رہ گئے تو ذمہ دار وہ ہوں گے اور اسی انداز پر کام کریں گے ۔

اولاد فاطمہ کا حق علی کے صدقات میں وہی ہے جودیگر اولاد علی کا ہے۔میں نے نگرانی کاکام اولاد فاطمہ کو صرف رضائے الٰہی اورقربت پیغمبر (ص) کے خیال سے سونپ دیاہے کہ اس طرح حضرت کی حرمت کا احترام بھی ہو جائے گا اور آپ کی قرابت کا اعزاز بھی بر قرار رہے گا۔

لیکن اس کے بعد بھی والی کے لئے یہ شرط ہے کہ مال کی اصل کوباقی رکھے اور صرف اس کے ثمرات کوخرچ کرے ۔وہ بھی ان راہوں میں جن کا حکم دیا گیا ہے اورجن کی ہدایت دی گئی ہے اور خبردار اس قریہ کے

(۱)مورخین کے بیان کے مطابق امیر المومنین نے اپنی زندگی میں صرف ارواح و نفوس کی سر زمینوں کو زندہ کرنے کا کام انام نہیں دیا ہے ۔بلکہ مادی زمینوں میں بھی مسلسل کام کرتے رہے ہیں۔زمینوں کو قابل کاشت بنایا ہے۔چشموں کو جاری کیا ہے۔درختوں کی سینچائی کی ہے اور ایک مزدورجیسی زندگی گذاری ہے اور پھر اپنی ساری زحمتوں اور محنتوں کے نتیجہ کو راہ خدا میں وقف کردیا ہے تاکہ بندگان خدا استفادہ کر سکیں اور اولاد علی بھی صرف بقدر ضرورت فائدہ اٹھا سکے۔ ایساکردار اب صرف کا غذات پر رہ گیا ہے۔ورنہ اس کا وجود دنیا سے عنقا ہو چکا ہے نہ علی والوں میں دیکھنے میں آتا ہے اور نہ اغیار میں سر براہان مملکت فوٹو کھنچوانے کے لئے ہاتھ میں پھاوڑا اورکدال لے لیتے ہیں ورنہ انہیں زراعت سے کیا تعلق ہے ۔زمینوں کازندہ رکھنا ابو تراب کاکام تھا اور انہوں نے اس کاحق ادا کردیا۔باقی سب داستانیں ہیں جو صفحہ قرطاس پرمحفوظ کردی گئی ہیں اور ان میں روشنائی کی چمک ہے۔کردار اورحقیقت کی روشنی نہیں ہے۔

۴۹۷

يَبِيعَ مِنْ أَوْلَادِ نَخِيلِ هَذِه الْقُرَى وَدِيَّةً - حَتَّى تُشْكِلَ أَرْضُهَا غِرَاساً.

ومَنْ كَانَ مِنْ إِمَائِي اللَّاتِي أَطُوفُ عَلَيْهِنَّ - لَهَا وَلَدٌ أَوْ هِيَ حَامِلٌ - فَتُمْسَكُ عَلَى وَلَدِهَا وهِيَ مِنْ حَظِّه - فَإِنْ مَاتَ وَلَدُهَا وهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ عَتِيقَةٌ - قَدْ أَفْرَجَ عَنْهَا الرِّقُّ وحَرَّرَهَا الْعِتْقُ.

قال الشريف - قولهعليه‌السلام في هذه الوصية - وألا يبيع من نخلها ودية الودية الفسيلة وجمعها ودي. وقولهعليه‌السلام حتى تشكل أرضها غراسا - هو من أفصح الكلام - والمراد به أن الأرض يكثر فيها غراس النخل - حتى يراها الناظر على غير تلك الصفة التي عرفها بها - فيشكل عليه أمرها ويحسبها غيرها.

(۲۵)

ومن وصية لهعليه‌السلام

كان يكتبها لمن يستعمله على الصدقات

قال الشريف: وإنما ذكرنا هنا جملا ليعلم بها أنهعليه‌السلام كان يقيم عماد الحق، ويشرع أمثلة العدل، في صغير الأمور وكبيرها

نخلستان میں سے ایک پودا بھی فروخت نہ کرے یہاں تک کہ زمین دوبارہ بونے کے لائق نہ رہ جائے ۔

میری وہ کنیزیں جن سے میرا تعلق رہ چکا ہے اور ان کی اولاد بھی موجود ہے یا وہ حاملہ ہیں۔ان کو ان کی اولاد کے حساب میں روک لیا جائے اور انہیں کا حصہ قرار دے دیا جائے ۔اس کے بعد اگربچہ مرجائے اور کنیز زندہ رہ جائے تو اسے آزاد کردیا جائے کہ گویا اس کی غلامی ختم ہوچکی ہے اور آزادی حاصل ہو چکی ہے ۔

سید رضی : اس وصیت میں حضرت کا ارشاد '' ودیہ بھی فروخت نہ کیا جائے '' اس میں ودیہ سے مراد خرمہ کے چھوٹے درخت ہیں جس کی جمع ودی ہوتی ہے اور '' حتی تشکل ارضھا غراسا ''ایک فصیح ترین کلام ہے جس کامقصد یہ ہے کہ زمین میں کھجور کی درخت کاری اتنی زیادہ ہو جائے کہ دیکھنے والا اس کی اصل ہئیت کا اندازہ نہ کر سکے اور اس کے لئے مسئلہ مشتبہ ہوجائے کہ شاید یہ کوئی دوسری زمین ہے۔

(۲۵)

آپ کی وصیت

(جسے ہر اس شخص کو لکھ کردیتے تھے جسے صدقات کاعامل قراردیتے تھے )

سید رضی :میں نے یہ چند جملے اس لئے نقل کردئیے ہیں تاکہ ہر شخص کو اندازہ ہو جائے کہ حضرت کس طرح ستون حق کو قائم رکھتے تھے اور چھوٹے بڑے

۴۹۸

ودقيقها وجليلها.

انْطَلِقْ عَلَى تَقْوَى اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - ولَا تُرَوِّعَنَّ مُسْلِماً ولَا تَجْتَازَنَّ عَلَيْه كَارِهاً - ولَا تَأْخُذَنَّ مِنْه أَكْثَرَ مِنْ حَقِّ اللَّه فِي مَالِه - فَإِذَا قَدِمْتَ عَلَى الْحَيِّ فَانْزِلْ بِمَائِهِمْ - مِنْ غَيْرِ أَنْ تُخَالِطَ أَبْيَاتَهُمْ - ثُمَّ امْضِ إِلَيْهِمْ بِالسَّكِينَةِ والْوَقَارِ - حَتَّى تَقُومَ بَيْنَهُمْ فَتُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ - ولَا تُخْدِجْ بِالتَّحِيَّةِ لَهُمْ ثُمَّ تَقُولَ عِبَادَ اللَّه - أَرْسَلَنِي إِلَيْكُمْ وَلِيُّ اللَّه وخَلِيفَتُه - لِآخُذَ مِنْكُمْ حَقَّ اللَّه فِي أَمْوَالِكُمْ - فَهَلْ لِلَّه فِي أَمْوَالِكُمْ مِنْ حَقٍّ فَتُؤَدُّوه إِلَى وَلِيِّه - فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ لَا فَلَا تُرَاجِعْه - وإِنْ أَنْعَمَ لَكَ مُنْعِمٌ فَانْطَلِقْ مَعَه - مِنْ غَيْرِ أَنْ تُخِيفَه أَوْ تُوعِدَه - أَوْتَعْسِفَه أَوْ تُرْهِقَه فَخُذْ مَا أَعْطَاكَ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ - فَإِنْ كَانَ لَه مَاشِيَةٌ

' اہم اور معمولی معاملات میں عدل و انصاف کی مثالیں قائم کرنا چاہتے تھے ۔

خدائے وحدہ لا شریک کا خوف لے کر آگے بڑھو اور خبردار(۱) نہ کسی مسلمان کوخوفزدہ کرنا اورنہ کسی کی زمین پر جبراً اپنا گزر کرنا۔مال میں سے حق خدا سے ذرہ برابر زیادہ مت لینا اور جب کسی قبیلہ پر وارد ہونا تو ان کے گھروں میں گھسنے کے بجائے چشمہ اورکنویں پر وارد ہونا۔اس کے بعد سکون و وقار کے ساتھ ان کی طرف جانا اوران کے درمیان کھڑے ہو کر سلام کرنا اور سلام کرنے میں بخل سے کام نہ لینا۔

اس کے بعد ان سے کہنا کہ بندگان خدا مجھے تمہاری طرف پروردگار کے ولی اورجانشین نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے اموال میں سے پروردگار کا حق لے لوں تو کیا تمہارے اموال میں کوئی حق اللہ ہے جسے میرے حوالے کر سکو ؟ اگر کوئی شخص انکار کردے تو اس سے دوبارہ تکرارنہ کرنا اور اگر کوئی شخص اقرار کرے تو اس کے ساتھ اس انداز سے جاناکہ نہ کی کو خوفزدہ کرنا نہ دھمکی دینا۔نہ سختی کا برتائو کرنااور نہ بیجا دبائو ڈالنا جو سونایا چاندی دے دیں وہ لے لینا اور اگر چوپایایہ کے مرکز تک

(۱) دنیا میں کون ایسا سر براہ مملکتہے جو اپنے احکام کو اتنی شدید پابندیوں میں جکڑ دے اور اپنی رعایا کو اس قدر سہولت دیدے ۔دنیا کے حکام میں تو اس کردار کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اسلام کے خلفاء میں بھی دور دورتک اس کردار کا پتہ نہیں ملتا ہے اور حکومت کا آغاز ہی جبرو تشدد اور اسیری و خانہ سوزی سے ہوتا ہے۔

ضرورت ہے کہ اس وصیت نامہ کوبغور پڑھا جائے اور اس کی ایک دفعہ پر غور کیاجائے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ اسلامی سلطنت میں رعایا کا کیا مرتبہ ہوتا ہے حقوق کی ادائیگی میں کس قدر سہولت فراہم کی جاتی ہے اورانسانوں کی طرح جانوروں کے ساتھ کس طرح کابرتائو کیا جاتا ہے۔

۴۹۹

أَوْ إِبِلٌ فَلَا تَدْخُلْهَا إِلَّا بِإِذْنِه - فَإِنَّ أَكْثَرَهَا لَه - فَإِذَا أَتَيْتَهَا فَلَا تَدْخُلْ عَلَيْهَا دُخُولَ مُتَسَلِّطٍ عَلَيْه - ولَا عَنِيفٍ بِه - ولَا تُنَفِّرَنَّ بَهِيمَةً ولَا تُفْزِعَنَّهَا - ولَا تَسُوأَنَّ صَاحِبَهَا فِيهَا - واصْدَعِ الْمَالَ صَدْعَيْنِ ثُمَّ خَيِّرْه - فَإِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعْرِضَنَّ لِمَا اخْتَارَه - ثُمَّ اصْدَعِ الْبَاقِيَ صَدْعَيْنِ ثُمَّ خَيِّرْه - فَإِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعْرِضَنَّ لِمَا اخْتَارَه - فَلَا تَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يَبْقَى مَا فِيه - وَفَاءٌ لِحَقِّ اللَّه فِي مَالِه - فَاقْبِضْ حَقَّ اللَّه مِنْه - فَإِنِ اسْتَقَالَكَ فَأَقِلْه - ثُمَّ اخْلِطْهُمَا ثُمَّ اصْنَعْ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتَ أَوَّلًا - حَتَّى تَأْخُذَ حَقَّ اللَّه فِي مَالِه - ولَا تَأْخُذَنَّ عَوْداً ولَا هَرِمَةً ولَا مَكْسُورَةً ولَا مَهْلُوسَةً ولَا ذَاتَ عَوَارٍ - ولَا تَأْمَنَنَّ عَلَيْهَا إِلَّا مَنْ تَثِقُ بِدِينِه - رَافِقاً بِمَالِ الْمُسْلِمِينَ - حَتَّى يُوَصِّلَه إِلَى وَلِيِّهِمْ فَيَقْسِمَه بَيْنَهُمْ - ولَا تُوَكِّلْ بِهَا إِلَّا نَاصِحاً شَفِيقاً وأَمِيناً حَفِيظاً - غَيْرَ مُعْنِفٍ ولَا مُجْحِفٍ ولَا مُلْغِبٍ ولَا مُتْعِبٍ - ثُمَّ احْدُرْ إِلَيْنَا مَا اجْتَمَعَ عِنْدَكَ - نُصَيِّرْه حَيْثُ أَمَرَ اللَّه - بِه فَإِذَا أَخَذَهَا أَمِينُكَ - فَأَوْعِزْ إِلَيْه أَلَّا يَحُولَ بَيْنَ نَاقَةٍ وبَيْنَ فَصِيلِهَا - ولَا يَمْصُرَ لَبَنَهَا فَيَضُرَّ [فَيُضِرَّ] ذَلِكَ بِوَلَدِهَا - ولَا يَجْهَدَنَّهَا رُكُوباً -

پہنچ جانا تو کسی ظالم و جابر کی طرح داخل نہ ہونا نہ کسی جانور کو بھڑکادینا اور نہ کسی کوخوفزدہ کردینا اور مالک کے ساتھ بھی غلط برتائو نہ کرنا بلکہ مال کو دوحصہ میں تقسیم کرکے مالک کو اختیار دینا اوروہ جس حصہ کو اختیار کرلے اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا۔پھر باقی کودوحصوں میں تقسیم کرنا اور اسے اختیار دینا اورپھراس کے اختیار پراعتراض نہ کرنا۔یہاں تک کہ اتنا ہی مال باقی رہ جائے جس سے حقخدا ادا ہوسکتا ہے تو اسی کو لے لینا۔بلکہ اگر کوئی شخص تقسیم پر نظرثانی کی درخواست کرے تو اسے بھی منظور کر لینا اور سارے مال کو ملا کر پھر پہلے کی طرح تقسیم کرنا اور آخرمیں اسے بچے مال میں سیحق اللہ لے لینا۔بس اس کا خیال رکھنا کہ بوڑھا ۔ضعیف ۔کمرشکستہ۔ کمزور اور عیب دار اونٹ نہ لینا اور ان اونٹوں کا امین بھی اسی کو بنانا جس کے دین کااعتبار ہو اور جو مسلمانوں کے مال میں نرمی کا برتائو کرتا ہو۔تاکہ وہ ولی تک مال پہنچادے اوروہ ان کے درمیان تقسیم کردے ۔اس موضوع پر صرف اسے وکیل بنایا جو مخلص ۔خدا ترس ۔ امانت دار اورنگراں ہو ' نہ سختی کرنے والا ہو نہ ظلم کرنے والا۔نہ تھکا دینے والا ہو نہ شدت سے دوڑانے والا۔اس کے بعد جس قدر مال جمع ہو جائے ۔وہ میرے پاس بھیج دینا تاکہ میں امر الٰہی کے مطابق اس کے مرکز تک پہنچا دوں۔

امانت دار کو مال دیتے وقت اس بات کی ہدایت دے دینا کہ خبردار اونٹنی اور اس کے بچہ کو جدا نہ کرے اورسارادودھ نہ نکال لے جو بچہ کے حق میں مضر ہو۔ سواری

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

وهذا من أفصح الكلام وأغربه - فكأنهعليه‌السلام شبه المهلة التي هم فيها بالمضمار - الذي يجرون فيه إلى الغاية - فإذا بلغوا منقطعها انتقض نظامهم بعدها.

۴۶۵ - وقَالَعليه‌السلام فِي مَدْحِ الأَنْصَارِ - هُمْ واللَّه رَبَّوُا الإِسْلَامَ كَمَا يُرَبَّى الْفِلْوُ - مَعَ غَنَائِهِمْ بِأَيْدِيهِمُ السِّبَاطِ وأَلْسِنَتِهِمُ السِّلَاطِ

۴۶۶ - وقَالَعليه‌السلام : الْعَيْنُ وِكَاءُ السَّه.

قال الرضي - وهذه من الاستعارات العجيبة - كأنه يشبه السه بالوعاء والعين بالوكاء - فإذا أطلق الوكاء لم ينضبط الوعاء - وهذا القول في الأشهر الأظهر من كلام النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وقد رواه قوم لأمير المؤمنينعليه‌السلام - وذكر ذلك المبرد في كتاب المقتضب - في باب اللفظ بالحروف - وقد تكلمنا على هذه الاستعارة - في كتابنا الموسوم بمجازات الآثار النبوية.

فصیح ترین اورعجیب ترین تعبیر ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ان کا میدان عمل یہی مہلت خداوندی ہے جس میں سب بھاگے چلے جا رہے ہیں ورنہ جس دن یہ مہلت ختم ہوگئی سارا نظام درہم وبرہم ہو کر رہ جائے گا۔

(۴۶۵)

انصار مدینہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا۔خدا کی قسم ان لوگوں نے اسلام کو اسی طرح پالا ہے جس طرح ایک سالہ بچہ ناقہ کو پالا جاتا ہے اپنے کریم ہاتھوں اور تیز زبانوں کے ساتھ۔

(۴۶۶)

آنکھ عقب(۱) کا تسمہ ہے۔

سید رضی : یہ ایک عجیب و غریب استعارہ ہے جس میں انسان کے عقب کو ظرف کو تشبیہ دی گئی ہے اور اس کیآنکھ کو تسمہ سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جب تسمہ کھولدیاجاتا ہے تو برتن کا سامان محفوظ نہیں رہتا ہے۔عام طور سے شہرت یہ ہے کہ یہ پیغمبر اسلام (ص) کاکلام ہے لیکن امیر المومنین سے بھی نقل کیا گیا ہے اور اس کاذکر مبردنے اپنی کتاب المقتضب میں باب اللفظ بالحروف میں کیا ہے اور ہم نے بھی اپنی کتاب المجازات النبویہ میں اس سے مفصل بحث کی ہے۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان کی آنکھ ہی اس کے تحفظ کاذریعہ ہے چاہے سامنے سے ہو چاہے پیچھے سے۔لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس نعمت پروردگار کی قدر کرے اوراس بات کا احساس کرے کہ یہ ایک آنکھ نہ ہوتی تو انسان کا راستہ چلنا بھی دشوار ہو جاتا ۔حملوں سے تحفظ تو بہت دور کی بات ہے۔

۷۸۱

۴۶۷ - وقَالَعليه‌السلام فِي كَلَامٍ لَه: ووَلِيَهُمْ وَالٍ فَأَقَامَ واسْتَقَامَ حَتَّى ضَرَبَ الدِّينُ بِجِرَانِه

۴۶۸ - وقَالَعليه‌السلام : يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ - يَعَضُّ الْمُوسِرُ فِيه عَلَى مَا فِي يَدَيْه - ولَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( ولا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ) - تَنْهَدُ فِيه الأَشْرَارُ وتُسْتَذَلُّ الأَخْيَارُ - ويُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ - وقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّينَ

۴۶۹ - وقَالَعليه‌السلام : يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وبَاهِتٌ مُفْتَرٍ

قال الرضي: وهذا مثل قولهعليه‌السلام

(۴۶۷)

لوگوں کے امور کاذمہ دار ایک ایساحاکم(۱) بنا جوخود بھی سیدھے راستہ پر چلا اور لوگوں کوب بھی اسی راستہ پر چلایا۔یہاں تک کہ دین نے اپنا سینہ ٹیک دیا۔

(۴۶۸)

لوگوں پر ایک ایسا سخت زمانہ آنے والا ہے جس میں موسرا پنے مال میں انتہائی بخل سے کام لے گا حالانکہ اسے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا ہے اورپروردگار نے فرمایا ے کہ '' خبردار آپس میں حسن سلوک کوفراموش نہ کردینا ''اس زمانہ میں اشرار اونچے ہو جائیں گے اور اخیار کوذلیل سمجھ لیا جائے گا مجبور(۲) و بیکس لوگوں کی خریدو فروخت کی جائے گی حالانکہ رسول اکرم (ص) نے اس بات سے منع فرمایا ہے۔

(۴۶۹)

میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔حدسے آگے بڑھ جانے والا دوست اورغلط بیانی اور افتر ا پردازی کرنے والا دشمن۔

سیدرضی : یہ ارشاد مثل اس کالام سابق کے ہے

(۱)شیخ محمد عبدہ کاخیال ہے کہ یہ سرکار دو عالم (ص) کے کردار کے طرف اشارہ ہے کہ جب آپ کا اقتدار قائم ہوگیا تو آپنے تمام لوگوں کو حق کے راستہ پر چلانا شروع کیا اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام نے اپنا سینہ ٹیک دیا اوراسے استقرار و استقلال حاصل ہوگیا۔

(۲)یہاں مجبور و بیکس سے مراد وہ افراد ہیں جن کو خریدو فروخت پر مجبور کردیا جائے کہ اسلام نے اس طرح کے معاملہ کو غلط قراردیا ہے اور اس بیع و شراء کو غیر قانونی قرار دیا ہے لیکن اگرانسان کو معاملہ پر مجبورنہ کیا اور وہ حالات سے مجبور ہو کر معاملہ کرنے پر تیار ہوجائے توقف ہی اعتبار سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اس میں انسان کی رضا مندی شامل ہے چاہے وہ رضا مندی حالات کی مجبوری ہی سے پیدا ہوئی ہو۔

۷۸۲

هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ ومُبْغِضٌ قَالٍ

۴۷۰ - وسُئِلَ عَنِ التَّوْحِيدِ والْعَدْلِ فَقَالَعليه‌السلام

التَّوْحِيدُ أَلَّا تَتَوَهَّمَه والْعَدْلُ أَلَّا تَتَّهِمَه

۴۷۱ - وقالعليه‌السلام : لَا خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ كَمَا أَنَّه لَا خَيْرَ فِي الْقَوْلِ بِالْجَهْلِ.

۴۷۲ - وقَالَعليه‌السلام فِي دُعَاءٍ اسْتَسْقَى بِه:اللَّهُمَّ اسْقِنَا ذُلُلَ السَّحَابِ دُونَ صِعَابِهَا.

قال الرضي - وهذا من الكلام العجيب الفصاحة - وذلك أنهعليه‌السلام شبه السحاب ذوات الرعود والبوارق - والرياح والصواعق - بالإبل الصعاب التي تقمص برحالها وتقص بركبانها - وشبه السحاب خالية من تلك الروائع - بالإبل الذلل التي تحتلب طيعة وتقتعد مسمحة

'' میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ۔ غلو کرنے والا دوست اور عناد رکھنے والا دشمن۔

(۴۷۰)

آپ سے توحید اور عدالت کے مفہوم کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ توحید یہ ہے کہ اس کی وہمی تصویر نہ بنائی جائے اور عدالت یہ ہے کہ اس کے حکیمانہ افعال کو متہم نہ کیا جائے ۔

(۴۷۱)

حکمت کی بات سے خاموشی اختیار کرنا کوئی خوبی نہیں جس طرح جہالت کے ساتھ بات کرنے میں کوئی بھلائی نہیں۔

(۴۷۲)

بارش کے سلسلہ میں دعاکرتے ہوئے فرمایا ''خدایا ہمیں فرمانبردار بادلوں سے سیراب کرنا نہ کہ دشوار گذار بروں سے۔

سید رضی : یہ انتہائی عجیب و غریب فصیح کلام ہے جس میں حضرت نے گرج ' چمک اورآندھیوں سے بھرے ہوئے بادلوں کو سر کش اونٹوں سے تشبیہ دی ہے جو پیر پٹکتے رہتے ہیں اور سواروں کو پٹک دیتے ہیں اور اسی طرح ان تام خطرات سے خالی بادلوں کوف رمانبردار اونٹوں سے تشبیہ دی ہے جو دوہنے میں مطیع اورس واری میں فرمانبردار ہوں۔

۷۸۳

۴۷۳ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ غَيَّرْتَ شَيْبَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَعليه‌السلام

الْخِضَابُ زِينَةٌ ونَحْنُ قَوْمٌ فِي مُصِيبَةٍ! (يُرِيدُ وَفَاةَ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ).

۴۷۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَا الْمُجَاهِدُ الشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّه بِأَعْظَمَ أَجْراً - مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ - لَكَادَ الْعَفِيفُ أَنْ يَكُونَ مَلَكاً مِنَ الْمَلَائِكَةِ.

(۴۷۳)

آپ سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ اپنے سفید بالوں کا رنگبدل دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا؟ فرمایا کہ خضاب ایک زینت ہے لیکن ہم لوگ حالات مصیبت(۱) میں ہیں (کہ سرکار دو عالم (ص) کا انتقال ہوگیا ہے )

(۴۷۴)

راہ خدا میں جہاد کرکے شہید ہوجانے والا اس سے زیادہ اجرکا حقدار نہیں ہوتا ہے ۔ جتنا اجر اس کا ہے جو اختیارات کے باوجود عفت(۲) سے کام لے کہ عفیف و پاکدامن انسان قریب ہے کہ ملائکہ آسمان میں شمار ہو جائے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خضاب بھی سرکار دو عالم (ص) کی سنت کا ایک حصہ تھا اور آپ اسے استعمال فرمایا کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ حضرت نے سرکار (ص) سے عرض کی کہ یارسول اللہ ! اجازت ہے کہ میں بھی آپ کے اتباع میں خضاب استعمال کروں۔تو فرمایا نہیں اس وقت کا انتظار کرو جب تمہارے محاسن تمہارے سرکے خونس ے رنگین ہوں گے اورتم سجدہ ٔ پروردگار میں ہوگے ۔

یہ سن کر آپ نے عرض کی کہ یارسول اللہ اس حادثہ میں میرادین تو سلامت رہے گا؟ فرمایا بیشک! جس کے بعد آپ مستقل اس وقت کا انتظارکرنے لگے اور اپنے کو راہ خدامیں قربان کرنے کی تیاری میںمصروف ہوگئے ۔

(۲)یہ بات طے شدہ ہے کہ راہ خدا میں قربانی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اور سکار دو عالم (ص)نے بھی اس شہادت کو تمام نیکیوں کے لئے سر فہرست قراردیا ہے لیکن عفت ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنا ہرایک کے بس کا کام نہیں ہے ۔خصوصیت کے ساتھ دور حاضرمیں جب کہ عفت کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے اور دامان کردار کے داغوں ہی کو سبب زینت تصورکرلیا گیا ہے ورنہ عفت کے بغیر انسانیت کا کوئی مفہوم نہیں ہے اوروہ انسان 'انسان کہے جانے کے قابل نہیں ہے جس میں عفت کردار نہ پای جاتی ہو۔

عفیف الحیوة انسان ملائکہ میں شمار کئے جانے کے قابل اسی لئے ہے کہ عفت کردارملائکہ کا ایک امتیازی کمال ہے اور ان کے یہاں تردامنی کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن اس کے بعد بھی اگر بشراس کردارکو پیدا کرلے تو اس کا مرتبہ ملائکہ سے افضل ہو سکتا ہے۔اس لئے کہ ملائکہ کی عفت قہری ہے اور اس کا راز ان جذبات اورخواہشات کانہ ہونا ہے جو انسان کو خلاف عفت زندگی پرآمادہ کرتے ہیں اورانسان ان جذبات وخواہشات سے معمور ہے لہٰذا وہ اگر عفت کردار اختیار کرلے تو اس کا مرتبہ یقینا ملائکہ سے بلند تر ہو سکتا ہے۔

۷۸۴

۴۷۵ - وقَالَعليه‌السلام : الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ.

قال الرضي وقد روى بعضهم هذا الكلام لرسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

۴۷۶ - وقَالَعليه‌السلام لِزِيَادِ ابْنِ أَبِيه - وقَدِ اسْتَخْلَفَه لِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ عَلَى فَارِسَ وأَعْمَالِهَا - فِي كَلَامٍ طَوِيلٍ كَانَ بَيْنَهُمَا نَهَاه فِيه عَنْ تَقَدُّمِ الْخَرَاجِ -. اسْتَعْمِلِ الْعَدْلَ واحْذَرِ الْعَسْفَ والْحَيْفَ - فَإِنَّ الْعَسْفَ يَعُودُ بِالْجَلَاءِ والْحَيْفَ يَدْعُو إِلَى السَّيْفِ.

۴۷۷ - وقَالَعليه‌السلام : أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَخَفَّ بِهَا صَاحِبُه.

۴۷۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَخَذَ اللَّه عَلَى أَهْلِ الْجَهْلِ أَنْ يَتَعَلَّمُوا - حَتَّى أَخَذَ عَلَى أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُعَلِّمُوا.

(۴۷۵)

قناعت وہ مال ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس کلام کو رسول اکرم (ص) کے نام سے نقل کیا ہے ۔

(۴۷۶)

جب عبداللہ عباس نے زیاد بن ابیہ کو فارس اور اس کے اطراف پر قائم مقام بنادیا تو ایک مرتبہ پیشگی خراج وصول کرنے سے روکتے ہوئے زیاد سے فرمایاکہ خبردار۔عدل کو استعمال کرو اور بیجا دبائو اور ظلم سے ہوشیار رہو کہ دبائو عوام کو غریب الوطنی پرآمادہ کردے گا اور ظلم تلواراٹھانے پر مجبور کردے گا۔

(۴۷۷)

سخت ترین گناہ وہ ہے جسے انسان ہلکا تصور کرلے۔

(۴۷۸)

پروردگار نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کا عہدلینے سے پہلے علماء سے تعلیم دینے کاعہد لیا ہے ۔

۷۸۵

۴۷۹ - وقَالَعليه‌السلام : شَرُّ الإِخْوَانِ مَنْ تُكُلِّفَ لَه.

قال الرضي لأن التكليف مستلزم للمشقة وهو شر لازم عن الأخ المتكلف له فهو شر الإخوان.

۴۸۰ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا احْتَشَمَ الْمُؤْمِنُ أَخَاه فَقَدْ فَارَقَه.

قال الرضي يقال حشمه وأحشمه إذا أغضبه وقيل أخجله أو احتشمه طلب ذلك له وهو مظنة مفارقته.

وهذا حين انتهاء الغاية بنا إلى قطع المختار من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام ، حامدين للَّه سبحانه على ما منّ به من توفيقنا لضم ما انتشر من أطرافه، وتقريب ما بعد من أقطاره. وتقرر العزم كما شرطنا أولا على تفضيل أوراق من البياض في آخر كل باب من الأبواب، ليكون لاقتناص الشارد، واستلحاق الوارد، وما عسى أن يظهر لنا بعد الغموض

(۴۷۹)

بدترین بھائی وہ ہے جس کے لئے زحمت اٹھانی پڑے۔

سید رضی : یہ اس طرح کہ تکلیف سے مشقت پیدا ہوتی ہے اور یہ وہ شر ہے جو اس بھائی کے لئے بہر حال لازم ہے جس کے لئے زحمت برداشت کرنا پڑے ۔

(۴۸۰)

اگر مومن اپنے بھائی سے احتشام کرے تو سمجھو کہ اس سے جدا ہوگیا۔

سید رضی :حشمہ۔احشمہ:اس وقت استعمال ہوتا ہے جب یہ کہنا ہوتا ہے کہ اسے غضب ناک کردیا یا بقولے شرمندہ کردیا۔اس طرح احتشمہ کے معنی ہوں گے۔ اس سے غضب یا شرمندگی کا تقاضا کیا۔ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں جدائی لازمی ہے۔

یہ ہمارے عمل کی آخری منزل ہے جس کا مقصد امیر المومنین کے منتخب کلام کاجمع کرنا تھا اورخدا کا شکرہے کہ اس نے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں آپ کے منتشر کلمات کو جمع کرنے اور دور دست ارشادات کو قریب کرنے کی توفیق عنایت فرمائی اورہمارا روز اول سے یہ عزم رہا ہے کہ ہر باب کے آخرمیں کچھ سادہ اوراق چھوڑدیں تاکہ جو کلمات اس وقت ہاتھ نہیں لگے انہیں بھی گرفت میں لا سکیں اور جونئے ارشادات مل جائیں انہیں ملحق کر سکیں ۔شائد کہ کوئی چیز نگاہوں سے اوجھل

۷۸۶

ويقع إلينا بعد الشذوذ، وما توفيقنا إلا باللَّه: عليه توكلنا، وهو حسبنا ونعم الوكيل.

وذلك في رجب سنة أربع مائة من الهجرة، وصلى اللَّه على سيدنا محمد خاتم الرسل، والهادي إلى خير السبل، وآله الطاهرين، وأصحابه نجوم اليقين.

تم - والحمد لله -

نهج البلاغة

من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام

ہونے کے بعد ظہورپذیر ہو جائے اور ہاتھ سے نکل جانے کے بعد ہاتھ آجائے۔

ہماری توفیق صرف پروردگار سے وابستہ ہے اوراسی پر ہمارابھروسہ ہے۔وہی ہمارے لئے کافی ہے اوروہی ہماراکارساز ہے۔اور یہ کتاب۴۰۰ ھ میں اختتام کو پہنچی ہے۔اللہ ہمارے سردار حضرت خاتم المرسلین اورہادی الی خیرالسبل اور ان کی اولاد طاہرین اوران اصحاب پر رحمت نازل کرے جوآسمان یقین کے نجوم ہدایت ہیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین

۷۸۷

فہرست

امیر المومنین کے منتخب خطبات ۴

اور احکام کا سلسلہ کلام ۴

(۱) ۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴

(جس میں آسمان کی خلقت کی ابتدا اور خلقت آدم ۔ کے تذکرہ کے ساتھ حج بیت اللہ کی عظمت کا بھی ذکر کیا گیاہے) ۴

تخلیق جناب آدم کی کیفیت ۱۰

انبیاء کرام کا انتخاب ۱۲

بعثت رسول اکرم (ص) ۱۳

قرآن اور احکام شرعیہ ۱۴

ذکر حج بیت اللہ ۱۵

(۲) ۱۶

صفیں سے واپسی پرآپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۶

جس میں بعثت پیغمبر(ص) کے وقت لوگوں کے حالات' آل رسول (ص) کے اوصاف اور دوسرے افراد کے کیفیات کاذکر کیا گیا ہے۔ ۱۶

آل رسول اکرم (ص) ۱۸

ایک دوسری قوم ۱۸

(۳) ۱۹

آپ کے ایک خطبہ کا حصہ ۱۹

جسے شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۱۹

۷۸۸

(۴) ۲۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۴

جوفصیح ترین کلمات میں شمار ہوتا ہے اور جس میں لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کے راستہ پرلایا گیا ہے۔(طلحہ و زبیر کی بغاوت اورقتل عثمان کے پس منظر میں فرمایا) ۲۴

(۵) ۲۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۵

جو آپ کے وفات پیغمبراسلام(ص) کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا جب عباس اورابو سفیان نے آپ سے بیعت لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ ۲۵

(۶) ۲۶

حضرت کا ارشاد گرامی ۲۶

جب آپ کو مشورہ دیا گیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں اور ان سے جنگ کا بندو بست نہ کریں ۲۶

(۷) ۲۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۷

جس میں شیطان کے پیروکاروں کی مذمت کی گئی ہے ۲۷

(۸) ۲۸

آپ کا ارشاد گرامی ۲۸

زبیر کے بارے میں ۲۸

جب ایسے حالات پیدا ہوگئے اور اسے دوبارہ بیعت کے دائرہ میں داخل ہونا پڑے گا جس سے نکل گیا ہے ۲۸

(۹) ۲۸

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۲۸

جس میں اپنے اوربعض مخالفین کے اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اور شاید اس سے مراد اہل جمل ہیں۔ ۲۸

۷۸۹

(۱۰) ۲۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۲۹

جس کا مقصد شیطان ہے یا شیطان صفت کوئی گروہ ۲۹

(۱۱) ۲۹

آپ کا ارشاد گرامی ۲۹

اپنے فرزند محمد بن الخفیہ سے ۲۹

( میدان جمل میں علم لشکر دیتے ہوئے) ۲۹

(۱۲) ۳۰

آپ کا ارشاد گرامی ۳۰

(۱۳) ۳۱

آپ کا ارشاد گرامی ۳۱

جس میں جنگ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت فرمائی ہے ۳۱

(۱۴) ۳۲

آپ کا ارشاد گرامی ۳۲

(ایسے ہی ایک موقع پر) ۳۲

(۱۵) ۳۳

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۳۳

اس موضوع سے متعلق کہ آپ نے عثمان کی جاگیروں کو مسلمانوں کو واپس دے دیا ۳۳

۷۹۰

(۱۶) ۳۳

آپ کے کلام کا ایک حصہ ۳۳

(اس وقت جب آپ کی مدینہ میں بیعت کی گئی اور آپ نے لوگوں کو بیعت کے مستقبل سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی قسمیں بیان فرمائی) ۳۳

اسی خطبہ کا ایک حصہ جس میں لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۳۵

(۱۷) ۳۷

(ان نا اہلوں کے بارے میں جوصلاحیت کے بغیر فیصلہ کا کام شروع کر دیتے ہیں اور اسی ذیل میں دوبد ترین اقسام مخلوقات کا ذکربھی ہے) ۳۷

(۱۸) ۳۹

آپ کا ارشاد گرامی ۳۹

(علماء کے درمیان اختلاف فتویٰ کے بارے میں اور اسی میں اہل رائے کی مذمت اور قرآن کی مرجعت کا ذکر کیا گیا ہے) ۳۹

مذمت اہل رائے: ۴۰

(۱۹) ۴۱

آپ کا ارشاد گرامی ۴۱

جسے اس وقت فرمایا جب منبر کوفہ پر خطبہ دے رہے تھے اوراشعث بن قیس نے ٹوک دیا کہ یہ بیان آپ خود اپنے خلاف دے رہے ہیں۔ آپ نے پہلے نگاہوں کونیچا کرکے سکوت فرمایا اور پھرپر جلال انداز سے فرمایا: ۴۱

(۲۰) ۴۲

آپ کا ارشاد گرامی ۴۲

جس میں غفلت سے بیدار کیا گیا ہے اور خدا کی طرف دوڑ کرآنے کی دعوت دی گئی ہے ۴۲

(۲۱) ۴۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۲

۷۹۱

(۲۲) ۴۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۳

جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت توڑدی ہے ۴۳

(۲۳) ۴۵

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ ۴۵

یہ خطبہ فقراء کی تہذیب اور ثروت مندوں کی شفقت پر مشتمل ہے ۴۵

(۲۴) ۴۸

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۸

جس میں اطاعت خداکی دعوت دی گئی ہے ۴۸

(۲۵) ۴۸

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۴۸

جب آپ کو مسلسل(۱) خبردی گئی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے اور آپ کے دو عامل یمن عبید اللہ بن عباس اورسعید بن نمران بسر بن ابی ارطاة کے مظالم سے پریشان ہو کرآپ کی خدمت میں آگئے۔ ۴۸

(۲۶) ۵۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۱

(جس میں بعثت سے پہلے عرب کی حالت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اپنی بیعت سے پہلے کیے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے) ۵۱

(بیعت کے ہنگام) ۵۱

(۲۷) ۵۲

(جو اس وقت ارشد فرمایا جب آپ کو خبر ملی کہ ۵۲

معاویہ(۱) کے لشکرنے انبار پر حملہ کردیا ہے ۔اس خطبہ میں جہاد کی فضیلت کا ذکر کرکے لوگوں کو جنگ پر آمادہ کیا گیا ہے اوراپنی جنگی مہارت کا تذکرہ کرکے نا فرمانی کی ذمہ داری لشکر والوں پر ڈالی گئی ہے) ۵۲

۷۹۲

(۲۸) ۵۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۶

(جو اس خطبہ کی ایک فصل کی حیثیت رکھتا ہے جس کاآغاز'' الحمد للہ غیر مقنوط من رحمة '' سے ہوا ہے اور اس میں گیارہ تنبیہات ہیں) ۵۶

(۲۹) ۵۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۵۹

جب تحکیم کے بعد معاویہ(۱) کے سپاہی ضحاک بن قیس نے حجاج کے قابلہ پر حملہ کردیا اور حضرت کواس کی خبر دی گئی تو آپ نے لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: ۵۹

(۳۰) ۶۰

آپ کا ارشاد گرامی ۶۰

قتل عثمان کی حقیقت کے بارے میں ۶۰

(۳۱) ۶۱

آپ کا ارشاد گرامی ۶۱

جب آپ نے عبداللہ بن عباس کو زبیر کے پاس بھیجا کہ اسے جنگ سے پہلے اطاعت امام کی طرف واپس لے آئیں۔ ۶۱

(۳۲) ۶۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۲

جس میں زمانہ کے ظلم کاتذکرہ ہے اورلوگوں کی پانچ قسموں کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد زہد کی دعوت دی گئی ہے۔ ۶۲

(پانچویں قسم) ۶۳

(۳۲) ۶۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۴

(اہل بصرہ سے جہاد کے لئے نکلتے وقت جس میں آپ نے رسولوں کی بعثت کی حکمت اورپھر اپنی فضیلت اورخوارج کی رذیلت کاذکر کیا ہے) ۶۴

۷۹۳

(۳۴) ۶۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۶

(جس میں خوارج کےقصہ کےبعد لوگوں کو اہل شام سےجہادکےلئےآمادہ کیاگیا ہےاور انکے حالات پرافسوس کا اظہار کرتےہوئےانہیں نصیحت کی گئی ہے) ۶۶

(۳۵) ۶۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۶۹

(جب تحکیم کے بعد اس کے نتیجہ کی اطلاع دی گئی تو آپ نے حمدو ثنائے الٰہی کے بعد اس بلا کا سبب بیان فرمایا) ۶۹

(۳۶) ۷۰

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۰

(اہل نہروان کو انجام کارسے ڈرانےکے سلسلہ میں) ۷۰

(۳۷) ۷۱

آپ کا ارشاد گرامی(جو بمنزلہ' خطبہ ہے اور اس میں نہر وان کے واقعہ کےبعدآپ نےاپنے فضائل اورکارناموں کا تذکرہ کیا ہے) ۷۱

(۳۹) ۷۲

(۳۸) ۷۲

آپ کا ارشاد گرامی ۷۲

(جس میں شبہ کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اور لوگوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے) ۷۲

(۳۹) ۷۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۲

(جو معاویہ کے سردار لشکر نعمان بن(۱) بشیرکے عین التمر پرحملہ کے وقت ارشاد فرمایا اور لوگوں کو اپنی نصرت پرآمادہ کیا ) ۷۲

۷۹۴

(۴۰) ۷۴

آپ کا ارشاد گرامی ۷۴

(خوارج کے بارے میں ان کا یہ مقولہ سن کر کہ'' حکم اللہ کے علاوہ کسی کے لئے نہیں ہے) ۷۴

(۴۱) ۷۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۵

(جس میں غداری سے روکا گیا ہے اور اس کے نتائج سے ڈرایا گیا ہے) ۷۵

(۴۲) ۷۶

آپ کا ارشاد گرامی ۷۶

(جس میں اتباع خواہشات اور طول امل سے ڈرایا گیا ہے) ۷۶

(۴۳) ۷۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۷

(جب جریربن عبداللہ البجلی کو معاویہ کے پاس بھیجنے اور معاویہ کے انکار بیعت کے بعد اصحاب کو اہل شام سے جنگ پرآمادہ کرنا چاہا ) ۷۷

(۴۴) ۷۸

حضرت کا ارشاد گرامی ۷۸

(اس موقع پر جب مصقلہ(۱) بن ہیرہ شیبانی نے آپ کے عامل سبے بنی ناجیہ کے اسیرکو خرید کر آزاد کردیا اور جب حضرت نے اس سے قیمت کامطالبہ کیا تو بد دیانتی کرتے ہوئے شام کی طرف فرار کر گیا) ۷۸

(۴۵) ۷۹

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۷۹

(یہ عید الفطر کے موقع پرآپ کے طویل خطبہ کا ایک جز ہے جس میں حمد خدا اور مذمت دنیا کا ذکر کیا گیا ہے) ۷۹

۷۹۵

(۴۶) ۷۹

آپ کا ارشاد گرامی ۷۹

(جب شام کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور اس دعا کو رکاب میں پائوں رکھتے ہوئے درد زبان فرمایا) ۷۹

(۴۷) ۸۰

آپ کا ارشاد گرامی ۸۰

(کوفہ کے بارے میں ) ۸۰

(۴۸) ۸۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۱

(جو صفین کے لئے کوفہ سے نکلتے ہوئے مقام نخیلہ پر ارشاد فرمایا تھا) ۸۱

(۴۹) ۸۲

آپ کا ارشاد گرامی ۸۲

(جس میں پروردگار کے مختلف صفات اور اس کے علم کا تذکرہ کیا گیا ہے) ۸۲

(۵۰) ۸۳

آپ کا ارشاد گرامی ۸۳

(اس میں ان فتنوں کا تذکرہ ہے جو لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ان کے اثرات کا بھی تذکرہ ہے) ۸۳

(۵۱) ۸۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۴

(جب معاویہ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھیوں کو ہٹا کر صفین کے قریب فرات پرغلبہ حاصل کرلیا اور پانی بند کردیا) ۸۴

(۵۲) ۸۴

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۴

(جس میں دنیا میں زہد کی ترغیب اور پیش پروردگاراس کے ثواب اور مخلوقات پر خالق کی نعمتوں کاتذکرہ کیا گیا ہے ) ۸۴

۷۹۶

(۵۳) ۸۶

(جس میں روز عید الضحیٰ کا تذکرہ ہے اورقربانی کے صفات کاذکر کیا گیا ہے) ۸۶

(۵۴) ۸۶

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۸۶

(جس میں آپ نے اپنی بیعت کا تذکرہ کیا ہے) ۸۶

(۵۵) ۸۷

آپ کا ارشاد گرامی ۸۷

(جب آپ کے اصحاب نے یہ اظہار کیا کہ اہل صفین سے جہاد کی اجازت میں تاخیر سے کام لے رہے ہیں) ۸۷

(۵۶) ۸۸

آپ کا ارشاد گرامی ۸۸

(جس میں اصحاب رسول (ص) کویاد کیا گیا ہے اس وقت جب صفین کے موقع پر آپنے لوگوں کو صلح کا حکم دیا تھا) ۸۸

(۵۷) ۸۹

آپ کا ارشاد گرامی ۸۹

(ایک قابل مذمت شخص کے بارے میں) ۸۹

(۵۸) ۹۰

آپ کا ارشاد گرامی ۹۰

(جس کا مخاطب ان خوارج کو بنایا گیا ہے جو تحکیم سے کنارہ کش ہوگئے اور '' لاحکم الا اللہ '' کا نعرہ لگانے لگے) ۹۰

(۵۹) ۹۱

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا ۹۱

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا ۹۱

۷۹۷

(۶۰) ۹۲

آپ نے فرمایا ۹۲

(اس وقت جب خوارج کے قتل کے بعد لوگوں نے کہا کہ اب تو قوم کاخاتمہ ہوچکا ہے) ۹۲

(۶۱) ۹۲

آپ نے فرمایا ۹۲

(۶۲) ۹۲

آپ کا ارشاد گرامی ۹۲

(جب آپ کو اچانک قتل سے ڈرایا گیا ) ۹۲

(۶۳) ۹۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۹۳

(جس میں دنیا کے فتنوں سے ڈرایا گیا ہے) ۹۳

(۶۴) ۹۳

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۹۳

(نیک اعمال کی طرف سبقت کے بارے میں ) ۹۳

(۶۵) ۹۵

(جس میں علم الٰہی کے لطیف ترین مباحث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے) ۹۵

(۶۶) ۹۷

آپ کا ارشاد گرامی ۹۷

(تعلیم جنگ کے بارے میں ) ۹۷

۷۹۸

(۶۷) ۹۸

آپ کا ارشاد گرامی ۹۸

جب رسول اکرم (ص)کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ(۱) کی خبریں پہنچیں اور آپ نے پوچھا کہ انصار نے کیا احتجاج کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ایک امیر ہمارا ہوگا اور ایک تمہارا۔تو آپ نے فرمایا:۔ ۹۸

(۶۸) ۹۹

آپ کا ارشاد گرامی ۹۹

(جب آپ نے محمدبن ابی بکر کو مصر کی ذمہ داری حوالہ کی اور انہیں قتل کردیا گیا) ۹۹

(۶۹) ۱۰۰

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۰

(اپنے اصحاب کو سر زنش کرتے ہوئے) ۱۰۰

(۷۰) ۱۰۱

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۱

(اس سحرکے ہنگام جب آپکےسر اقدس پر ضربت لگائی گئی) ۱۰۱

(۷۱) ۱۰۱

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۱

(اہل عراق کی مذمت کے بارے میں) ۱۰۱

(۷۲) ۱۰۲

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۲

(جس میں لوگوں کو صلوات کی تعلیم دی گئی ہے اور صفات خدا و رسول (ص) کا ذکر کیا گیا ہے ) ۱۰۲

(۷۳) ۱۰۵

(جو مروان بن الحکم سے بصرہ میں فرمایا) ۱۰۵

۷۹۹

(۷۴) ۱۰۵

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۵

(جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا) ۱۰۵

(۷۵) ۱۰۶

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۶

(جب آپ کو خبر ملی کہ بنی امیہ آپ پر خون عثمان کا الزام لگا رہے ہیں) ۱۰۶

(۷۶) ۱۰۷

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ ۱۰۷

(جس میں عمل صالح پرآمادہ کیا گیا ہے) ۱۰۷

(۷۷) ۱۰۸

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۸

(جب سعید بن العاص نے آپ کو آپ کے حق سے محروم کردیا) ۱۰۸

(۷۸) ۱۰۸

آپ کی دعا ۱۰۸

(جسے برابر تکرار فرمایا کرتے تھے) ۱۰۸

(۷۹) ۱۰۹

آپ کا ارشاد گرامی ۱۰۹

(جب جنگ خوارج کے لئے نکلتے وقت بعض اصحاب نے کہا کہ امیر المومنین اس سفر کے لئے کوئی دوسرا وقت اختیار فرمائیں۔اس وقت کامیابی کے امکانات نہیں ہیں کہ علم نجوم کے حسابات سے یہی اندازہ ہوتا ہے) ۱۰۹

۸۰۰

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863