نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657127 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

نَمَّقْتَهَا بِضَلَالِكَ وأَمْضَيْتَهَا بِسُوءِ رَأْيِكَ - وكِتَابُ امْرِئٍ لَيْسَ لَه بَصَرٌ يَهْدِيه - ولَا قَائِدٌ يُرْشِدُه قَدْ دَعَاه الْهَوَى فَأَجَابَه - وقَادَه الضَّلَالُ فَاتَّبَعَه - فَهَجَرَ لَاغِطاً وضَلَّ خَابِطاً.

ومِنْه لأَنَّهَا بَيْعَةٌ وَاحِدَةٌ لَا يُثَنَّى فِيهَا النَّظَرُ - ولَا يُسْتَأْنَفُ فِيهَا الْخِيَارُ - الْخَارِجُ مِنْهَا طَاعِنٌ والْمُرَوِّي فِيهَا مُدَاهِنٌ

(۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى جرير بن عبد الله البجلي - لما أرسله إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِذَا أَتَاكَ كِتَابِي فَاحْمِلْ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْفَصْلِ وخُذْه بِالأَمْرِ الْجَزْمِ - ثُمَّ خَيِّرْه بَيْنَ حَرْبٍ مُجْلِيَةٍ أَوْ سِلْمٍ مُخْزِيَةٍ - فَإِنِ اخْتَارَ الْحَرْبَ فَانْبِذْ إِلَيْه - وإِنِ اخْتَارَ السِّلْمَ فَخُذْ بَيْعَتَه والسَّلَامُ.

تیرے گمراہی کے قلم نے لکھا ہے اور اس پر تیری بے عقلی نے امضاء کیا ہے ۔یہ ایک ایس شخص کا خط ہے جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور نہراستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو اس نے لبیک کہہ دی اور گمراہینے کھینچا تو اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا۔

دیکھو یہ بیعت ایک مرتبہ ہوتی ہے جس کے بعد نہ کسی کو نظر ثانی کا حق ہوتا ہے اورنہ دوبارہ اختیار کرنے کا۔اس سے باہرنکل جانے والا اسلامی نظام پرمعترض شمار کیا جاتا ہے اوراس میں سوچ بچار کرنے والامنافق کہا جاتا ہے۔

(۸)

مکتوب

(جریر بن عبداللہ بجلی کے نام جب انہیں معاویہ کی فہمائش کے لئے روانہ فرمایا)

اما بعد(۶) ۔جب تمہیں یہ میراخط مل جائے تو معاویہ سے حتمی فیصلہ کا مطالبہ کردینا اورایک آخری بات طے کر لینا اوراسے خبردار کردینا کہاب دو ہی راستے ہیں۔یا فنا کردینے والی جنگ یا رسواکن صلح۔اب اگر وہ جنگ کو اختیار کرے توبات چیت ختم کردینا اور جنگ کی تیاری کرنا اور اگر صلح کی بات کرے تو فوراً اس سے بیعت لے لینا۔والسلام۔

۴۸۱

(۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَأَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِيِّنَا واجْتِيَاحَ أَصْلِنَا - وهَمُّوا بِنَا الْهُمُومَ وفَعَلُوا بِنَا الأَفَاعِيلَ - ومَنَعُونَا الْعَذْبَ وأَحْلَسُونَا الْخَوْفَ - واضْطَرُّونَا إِلَى جَبَلٍ وَعْرٍ - وأَوْقَدُوا لَنَا نَارَ الْحَرْبِ - فَعَزَمَ اللَّه لَنَا عَلَى الذَّبِّ عَنْ حَوْزَتِه - والرَّمْيِ مِنْ وَرَاءِ حُرْمَتِه - مُؤْمِنُنَا يَبْغِي بِذَلِكَ الأَجْرَ وكَافِرُنَا يُحَامِي عَنِ الأَصْلِ - ومَنْ أَسْلَمَ مِنْ قُرَيْشٍ خِلْوٌ مِمَّا نَحْنُ فِيه بِحِلْفٍ يَمْنَعُه - أَوْ عَشِيرَةٍ تَقُومُ دُونَه فَهُوَ مِنَ الْقَتْلِ بِمَكَانِ أَمْنٍ

وكَانَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ ،

(۹)

مکتوب

(معاویہ کے نام )

ہماری قوم قریش(۱) کا ارادہ تھاکہ ہمارے پیغمبر (ص) کو قتل کردے اور ہمیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے۔انہوںنے ہمارے بارے میں رنج و غم کے اسباب فراہم کئے اور ہم سے طرح طرح کے برتائو کئے۔ہمیں راحت و آرام سے روک دیا اور ہمارے لئے مختلف قسم کے خوف کا انتظام کیا۔کبھی ہمیں نا ہموار پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا اور کبھی ہمارے لئے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔لیکن پروردگار نے ہمیں طاقت دی کہ ہم ان کے دین کی حفاظت کریں اوران کی حرمت سے ہر طرح سے دفاع کریں۔ہم میں صاحبان ایمان اجرآخرت کے طلب گارتھے اور کفار اپنی اصل کی حمایت کر رہے تھے ۔قریش میں جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ ان مشکلات سے آزاد تھے۔یا اس لئے کہ انہوں نے کوئی حفاظتی معادہ کرلیا تھا یا ان کے پاس قبیلہ تھا جوان کے سامنے کھڑا ہو جاتاتھا اور وہ قتل سے محفوظ رہتے تھے۔اور رسول اکرم (ص) کا یہ عالم تھا کہ جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے تھے

(۱) قریش کی زندگی کا سارا نظام قبائلی بنیادوں پرچل رہا تھا اور ہر قبیلہ کو کوئی نہ کوئی حیثیت حاصل تھی لیکن اسلام کے آنے کے بعد ان تمام حیثیتوں کا خاتمہ ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں سب نے اسلام کے خلاف اتحاد کرلیا اورمختلف معرکے بھی سامنے آگئے لیکن پروردگار عالم نے رسول اکرم (ص)کے گھرانے کے ذریعہ اپنے دین کو بچا لیا اوراس میں کوئی قبیلہ بھی ان کا شریک نہیں ہے اورنہ کسی کو یہ شرف حاصل ہے ۔نہ کسی قبیلہ پمیں کوئی ابو طالب جیسا محافظ پیدا ہوا۔ اورنہ عبیدہ جیسا ہ مجاہد ۔ نہ کسی قبیلہ نے حمزہ جیسا سیدالشہداء پیدا کیا ہے اورنہ جعفر جیسا طیار۔

یہ صرف بنی ہاشم کا شرف ہے اور اسلام کی گردن پران کے علاوہ کسی کا کوئی احسان نہیں ہے۔

۴۸۲

وأَحْجَمَ النَّاسُ - قَدَّمَ أَهْلَ بَيْتِه - فَوَقَى بِهِمْ أَصْحَابَه حَرَّ السُّيُوفِ والأَسِنَّةِ - فَقُتِلَ عُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ يَوْمَ بَدْرٍ - وقُتِلَ حَمْزَةُ يَوْمَ أُحُدٍ - وقُتِلَ جَعْفَرٌ يَوْمَ مُؤْتَةَ - وأَرَادَ مَنْ لَوْ شِئْتُ ذَكَرْتُ اسْمَه - مِثْلَ الَّذِي أَرَادُوا مِنَ الشَّهَادَةِ - ولَكِنَّ آجَالَهُمْ عُجِّلَتْ ومَنِيَّتَه أُجِّلَتْ - فَيَا عَجَباً لِلدَّهْرِ - إِذْ صِرْتُ يُقْرَنُ بِي مَنْ لَمْ يَسْعَ بِقَدَمِي - ولَمْ تَكُنْ لَه كَسَابِقَتِي - الَّتِي لَا يُدْلِي أَحَدٌ بِمِثْلِهَا - إِلَّا أَنْ يَدَّعِيَ مُدَّعٍ مَا لَا أَعْرِفُه ولَا أَظُنُّ اللَّه يَعْرِفُه - والْحَمْدُ لِلَّه عَلَى كُلِّ حَالٍ.

وأَمَّا مَا سَأَلْتَ مِنْ دَفْعِ قَتَلَةِ عُثْمَانَ إِلَيْكَ - فَإِنِّي نَظَرْتُ فِي هَذَا الأَمْرِ - فَلَمْ أَرَه يَسَعُنِي دَفْعُهُمْ إِلَيْكَ ولَا إِلَى غَيْرِكَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ لَمْ تَنْزِعْ عَنْ غَيِّكَ وشِقَاقِكَ - لَتَعْرِفَنَّهُمْ عَنْ قَلِيلٍ يَطْلُبُونَكَ - لَا يُكَلِّفُونَكَ طَلَبَهُمْ فِي بَرٍّ ولَا بَحْرٍ - ولَا جَبَلٍ ولَا سَهْلٍ - إِلَّا أَنَّه طَلَبٌ يَسُوءُكَ وِجْدَانُه - وزَوْرٌ لَا يَسُرُّكَ لُقْيَانُه والسَّلَامُ لأَهْلِه.

اور لوگ پیچھے ہٹنے لگے تھے تو آپ اپنے اہل بیت کو آگے بڑھا دیتے تھے اوروہ اپنے کو سپر بناکر اصحاب کو تلوار اورنیزوں کی گرمی سے محفوظ رکھتے تھے چنانچہ بدرکے دن جناب عبیدہ بن الحارث مارے گئے۔احد کے دن حمزہ شہید ہوئے اورموتہ میں جعفر کام آگئے ۔

ایک شخص نے جس کا نام بتا سکتا ہوںانہیں لوگوں جیسی شہادت کا قصد کیاتھا لیکن ان سب کی موت جلدی آگئی اور اس کی موت پیچھے ٹال دی گئی۔

کس قدر تعجب خیز ہے زمانہ کا یہ حال کہ میرا مقابلہ ایسے افراد سے ہوتا ہے جو کبھی میرے ساتھ قدم ملا کر نہیں چلے اورنہاس دین میں ان کا کوئی کارنامہ ہے جو مجھ سے موازنہ کیا جا سکے مگر یہ کہ کوئی مدعی کسی ایسے شرف کادعویٰ کرے جس کونہ میں جانتا ہوں۔اورنہ ''شائد ''خدا ہی جانتا ہے۔مگر بہر حال ہر حال میں خداکا شکرہے۔

رہ گیا تمہارا یہ مطالبہ کہ میں قاتلان عثمان کو تمہارے حوالے کردوں تو میں نے اس مسئلہ میں کافی غور کیا ے۔میرے امکان میں انہیں نہ تمہارے حوالہ کرنا ہے اورنہ کسی اور کے ۔میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اورعداوت سے بازنہ آئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ یہ تمہیں بھی ڈھونڈھ لیں گے اوراس بات کی زحمت نہ دیں گے کہ تم انہیں خشکی یا تری ۔پہاڑ یا صحرا میں تلاش کرو۔البتہ یہ وہ طلب ہوگی جس کا پالینا باعث مسرت نہ ہوگا اور وہ ملاقات ہوگی جس سے کسی طرح کی خوشی نہ ہوگی۔اور سلام اس کے اہل پر۔

۴۸۳

(۱۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليه أيضا

وكَيْفَ أَنْتَ صَانِعٌ - إِذَا تَكَشَّفَتْ عَنْكَ جَلَابِيبُ مَا أَنْتَ فِيه - مِنْ دُنْيَا قَدْ تَبَهَّجَتْ بِزِينَتِهَا وخَدَعَتْ بِلَذَّتِهَا - دَعَتْكَ فَأَجَبْتَهَا،

وقَادَتْكَ فَاتَّبَعْتَهَا - وأَمَرَتْكَ فَأَطَعْتَهَا - وإِنَّه يُوشِكُ أَنْ يَقِفَكَ وَاقِفٌ عَلَى مَا لَا يُنْجِيكَ مِنْه مِجَنٌّ - فَاقْعَسْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ - وخُذْ أُهْبَةَ الْحِسَابِ وشَمِّرْ لِمَا قَدْ نَزَلَ بِكَ - ولَا تُمَكِّنِ الْغُوَاةَ مِنْ سَمْعِكَ - وإِلَّا تَفْعَلْ أُعْلِمْكَ مَا أَغْفَلْتَ مِنْ نَفْسِكَ - فَإِنَّكَ مُتْرَفٌ قَدْ أَخَذَ الشَّيْطَانُ مِنْكَ مَأْخَذَه - وبَلَغَ فِيكَ أَمَلَه وجَرَى مِنْكَ مَجْرَى الرُّوحِ والدَّمِ.

ومَتَى كُنْتُمْ يَا مُعَاوِيَةُ سَاسَةَ الرَّعِيَّةِ - ووُلَاةَ أَمْرِ الأُمَّةِ -

(۱۰)

مکتوب

(معاویہ ہی کے نام )

اس وقت کیا کروگے جب اس دنیاکے یہ سارے لباس تم سے اترجائیں جس کی زینت سے تم نے اپنے کوآراستہ کر رکھا ہے اورجس کی لذت نے تم کودھوکہ میں ڈال دیا ہے۔اس دنیانے تم کوآوازدی تو تم نے لبیک کہہ دی اورتمہیں کھینچنا چاہا تو تم کھینچتے چلے گئے اوراس کے احکام کی اطاعت کرتے رہے۔قریب ہے کہ کوئی بتانے والا تمہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے جن سے کوئی سپر بچانے والی نہیں ہے لہٰذا مناسب ہے کہ اس دعویٰ سے باز آجائواور حساب و کتاب کا سامان تیار کرلو۔آنے والی مصیبتوں کے لئے کمر بستہ ہو جائو اور گمراہوں کو اپنی سماعت پر حاوینہ بنائو ورنہ ایسا نہ کیا تو میں تہیں ان تمام چیزوں سے با خبر کردوں گا جن سے تم غافل ہو۔تم عیش و عشرت کے دلدادہ ہو۔شیطان نے تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اپنی امیدوں کو حاصل کرلیا ہے اورتمہارے رگ و پے میں روح اورخون کی طرح سرایت کرگیا ہے۔

معاویہ! آخر تم لوگ کب رعایا(۱) کی نگرانی کے قابل اور امت کے مسائل کے والی تھے جب کہ تمہارے

(۱) اس مقام پر سیاست سے مراد سیاست عادلہ اوررعایت کاملہ ہے کہ اس کام کا انجام دیناہر کس و ناکس کے بسکا نہیں ہے ورنہ سیاست سے مکاری ' عیاری اورغداری مرادلی جائے تو بنی امیہ ہمیشہ سے سیاست مدار تھے اورابو سفیان نے ہرمحاذ پر اسلام کے خلاف لشکرکشی کی ہے اور اس راہمیں کسی بھی حربہ کونظراندازنہیں کیا ہے ۔بکیھ میدانوں میں مقابلہ کیا ہے اورکبھی بیعت کرکے اسلام کا صفایا کیا ہے۔

۴۸۴

بِغَيْرِ قَدَمٍ سَابِقٍ ولَا شَرَفٍ بَاسِقٍ - ونَعُوذُ بِاللَّه مِنْ لُزُومِ سَوَابِقِ الشَّقَاءِ - وأُحَذِّرُكَ أَنْ تَكُونَ مُتَمَادِياً فِي غِرَّةِ الأُمْنِيِّةِ - مُخْتَلِفَ الْعَلَانِيَةِ والسَّرِيرَةِ.

وقَدْ دَعَوْتَ إِلَى الْحَرْبِ فَدَعِ النَّاسَ جَانِباً - واخْرُجْ إِلَيَّ وأَعْفِ الْفَرِيقَيْنِ مِنَ الْقِتَالِ - لِتَعْلَمَ أَيُّنَا الْمَرِينُ عَلَى قَلْبِه والْمُغَطَّى عَلَى بَصَرِه - فَأَنَا أَبُو حَسَنٍ - قَاتِلُ جَدِّكَ وأَخِيكَ وخَالِكَ شَدْخاً يَوْمَ بَدْرٍ - وذَلِكَ السَّيْفُ مَعِي - وبِذَلِكَ الْقَلْبِ أَلْقَى عَدُوِّي - مَا اسْتَبْدَلْتُ دِيناً ولَا اسْتَحْدَثْتُ نَبِيّاً - وإِنِّي لَعَلَى الْمِنْهَاجِ الَّذِي تَرَكْتُمُوه طَائِعِينَ - ودَخَلْتُمْ فِيه مُكْرَهِينَ.

وزَعَمْتَ أَنَّكَ جِئْتَ ثَائِراً بِدَمِ عُثْمَانَ - ولَقَدْ عَلِمْتَ حَيْثُ

وَقَعَ دَمُ عُثْمَانَ - فَاطْلُبْه مِنْ هُنَاكَ إِنْ كُنْتَ طَالِباً - فَكَأَنِّي قَدْ رَأَيْتُكَ تَضِجُّ مِنَ الْحَرْبِ - إِذَا عَضَّتْكَ ضَجِيجَ الْجِمَالِ بِالأَثْقَالِ - وكَأَنِّي بِجَمَاعَتِكَ

پاس نہ کوئی سابقہ شرف ہے اور نہ کوئی بلند و بالا عزت۔ہم اللہ سے تمام دیرینہ بد بختیوں سے پناہ مانگتے ہیں اورتمہیں باخبر کرتے ہیں کہ خبر دار امیدوں کے دھوکہ میں اور ظاہر و باطن کے اختلاف میں مبتلا ہوکر گمراہی میں دورتک مت چلے جائو۔تم نے مجھے جنگ کی دعوت دی ہے تو بہتر یہ ہے کہ لوگوں کوالگ کردو اور بذات خود میدان میں آجائو۔ فریقین کو جنگ سے معاف کردواور ہم(۱) تم براہ راست مقابلہ کرلیں تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ کس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اور کس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے روز بدر تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ ) ماموں ( ولید بن عتبہ ) اور بھائی حنظلہ کا سر توڑ کرخاتمہ کردیا ہے۔ اورابھی وہ تلوار میرے پاس ہے اورمیں اسی ہمت قلب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کروں گا۔میں نےنہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ نیا نبی اختیار کیا ہے میں اسی راستہ پرچل رہا ہوں جسے تم نے اختیاری حدود تک چھوڑ رکھا تھا اورپھرمجبوراً داخل ہوگئے تھے ۔تمہارا خیال ہے کہ تم خون عثمان کا بدلہ لینے آئے ہو۔تو تمہیں تو معلوم ہےکہ اس خون کی جگہ کہاں ہے۔اگرواقعی مطالبہ کرنا ہے تو وہیں جا کرکرو۔مجھےتو یہ منظرنظر آرہا ہے(۸) کہ جنگ تمہیں دانتوں سےکاٹ رہی ہےاورتم اس طرح فریاد کر رہےہو جس طرح اونٹ سامان کی گرانی سےبلبلانے لگتے ہیں اورتمہاری جماعت

(۱)حضرت کا یہ وہ مطالبہ تھاجس کی عمرو عاص نے بھی تائید کردی تھی لیکن معاویہ فوراً تاڑ گیا اوراس نے کہا کہ تو خلافت کاامید وار دکھائی دے رہا ہے اور پھر میدان کا رخ کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا کہ علی کی تلوارسے بچ کرنکل جانا محالات میں سے ہے۔

۴۸۵

تَدْعُونِي جَزَعاً مِنَ الضَّرْبِ الْمُتَتَابِعِ - والْقَضَاءِ الْوَاقِعِ ومَصَارِعَ بَعْدَ مَصَارِعَ إِلَى كِتَابِ اللَّه - وهِيَ كَافِرَةٌ جَاحِدَةٌ أَوْ مُبَايِعَةٌ حَائِدَةٌ

(۱۱)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها جيشا بعثه إلى العدو

فَإِذَا نَزَلْتُمْ بِعَدُوٍّ أَوْ نَزَلَ بِكُمْ - فَلْيَكُنْ مُعَسْكَرُكُمْ فِي قُبُلِ الأَشْرَافِ - أَوْ سِفَاحِ الْجِبَالِ أَوْ أَثْنَاءِ الأَنْهَارِ - كَيْمَا يَكُونَ لَكُمْ رِدْءاً ودُونَكُمْ مَرَدّاً - ولْتَكُنْ مُقَاتَلَتُكُمْ مِنْ وَجْه وَاحِدٍ أَوِ اثْنَيْنِ - واجْعَلُوا لَكُمْ رُقَبَاءَ فِي صَيَاصِي الْجِبَالِ - ومَنَاكِبِ الْهِضَابِ - لِئَلَّا يَأْتِيَكُمُ الْعَدُوُّ مِنْ مَكَانِ مَخَافَةٍ أَوْ أَمْنٍ - واعْلَمُوا أَنَّ مُقَدِّمَةَ الْقَوْمِ عُيُونُهُمْ - وعُيُونَ الْمُقَدِّمَةِ طَلَائِعُهُمْ وإِيَّاكُمْ والتَّفَرُّقَ - فَإِذَا نَزَلْتُمْ فَانْزِلُوا جَمِيعاً - وإِذَا ارْتَحَلْتُمْ فَارْتَحِلُوا جَمِيعاً - وإِذَا غَشِيَكُمُ اللَّيْلُ فَاجْعَلُوا الرِّمَاحَ كِفَّةً - ولَا تَذُوقُوا النَّوْمَ إِلَّا غِرَاراً أَوْ مَضْمَضَةً

مسلسل تلوار کی ضرب اورموت کی گرم بازاری اور کشتوں کے پشتے لگ جانے کی بنا پر مجھے کتاب خداکی دعوت دے رہی ہے جب کہ خود اس کتاب کی دیدہ و دانستہ منکر ہے یا بیعت کرنے کے بعد بیعت شکنی کرنے والی ہے۔

(۱۱)

آپ کی نصیحت

(جو اپنےلشکرکودشمن کی طرف روانہ کرتےہوئےفرمائی ہے )

جب تم کسی دشمن پر واردہونا یا اگر وہ تم پر وارد ہو تو دیکھو(۱) تمہارے پڑائو ٹیلوں کے سامنے یا پہاڑوں کے دامن میں یا نہروں کے موڑ پر ہوں تاکہ یہ تمہارے لئے وسیلہ حفاظت بھی رہیں اوردشمن کو روک بھی سکیں۔اورجنگ ہمیشہ ایک یا دو محاذوں پر کرنا اور اپنے نگرانوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور ٹیلوں کی بلند سطحوںپرمعین کر دیناتاکہ دشمن نہ کسی خطرناک جگہ سے حملہ کر سکے اورنہ محفوظ جگہ سے اور یہ یاد رکھنا کہ فوج کاہر اول دستہ فوج کا نگراں ہوتا ہے اوراس کی اطلاعات کاذریعہ مخبر افراد ہوتے ہیں۔خبردار آپس میں منتشر نہ ہو جانا۔جہاں اترنا سب ایک ساتھ اترنا اور جب کوچ کرنا تو سب ساتھ کوچ کرنا۔اور جب رات ہو جائے تو نیزوں کو اپنے گرد گاڑ دینا اور خبردار نیند کا مزہ چکھنے کا ارادہ نہ کرنا مگر یہ کہ ایک آدھ جھپکی لگ جائے ۔

(۱)یہ وہ ہدایات ہیںجو ہردورمیں کام آنے والی ہیں اورقائد اسلام کا فرض ہے کہ جس دورمیں جس طرح کا میدان اورجس طرح کے اسلحہ ہوں ان سبکی تنظیم انہیں اصولوں کی نیاد پر کرے جن کی طر ف امیر المومنین نیدو رنیزہ و شمشیر میں اشارہ فرمایا ہے۔حالات اوراسلحوں کے بدل جانے سے اصول حرب و ضرب اور قوانین جہاد و قتال میں فرق نہیں ہوسکتا ہے۔

۴۸۶

(۱۲)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها معقل بن قيس الرياحي - حين أنفذه إلى الشام في ثلاثة آلاف مقدمة له

اتَّقِ اللَّه الَّذِي لَا بُدَّ لَكَ مِنْ لِقَائِه - ولَا مُنْتَهَى لَكَ دُونَه - ولَا تُقَاتِلَنَّ إِلَّا مَنْ قَاتَلَكَ - وسِرِ الْبَرْدَيْنِ وغَوِّرْ بِالنَّاسِ - ورَفِّه فِي السَّيْرِ ولَا تَسِرْ أَوَّلَ اللَّيْلِ - فَإِنَّ اللَّه جَعَلَه سَكَناً وقَدَّرَه مُقَاماً لَا ظَعْناً - فَأَرِحْ فِيه بَدَنَكَ ورَوِّحْ ظَهْرَكَ - فَإِذَا وَقَفْتَ حِينَ يَنْبَطِحُ السَّحَرُ - أَوْ حِينَ يَنْفَجِرُ الْفَجْرُ فَسِرْ عَلَى بَرَكَةِ اللَّه - فَإِذَا لَقِيتَ الْعَدُوَّ فَقِفْ مِنْ أَصْحَابِكَ وَسَطاً - ولَا تَدْنُ مِنَ الْقَوْمِ دُنُوَّ مَنْ يُرِيدُ أَنْ يُنْشِبَ الْحَرْبَ - ولَا تَبَاعَدْ عَنْهُمْ تَبَاعُدَ مَنْ يَهَابُ الْبَأْسَ - حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي - ولَا يَحْمِلَنَّكُمُ شَنَآنُهُمْ عَلَى قِتَالِهِمْ - قَبْلَ دُعَائِهِمْ والإِعْذَارِ إِلَيْهِمْ.

(۱۲)

آپ کی نصیحت

(جو معقل بن قیس ریاحی کواس وقت فرمائی ہے جب انہیں تین ہزار کا لشکر دے کرشام کی طرف روانہ فرمایا ہے )

اس اللہ سے ڈرتے رہنا جس کی بارگاہ میںبہر حال حاضر ہونا ہے اورجس کے علاوہ کوئی آخری منزل نہیں ہے۔جنگ اسی سے کرنا جو تم سے جنگ کرے۔ٹھنڈے اوقات میں صبح و شام سفر کرنا اور گرمی کے وقت میں قافلہ کو روک کر لوگوں کو آرام کرنے دینا۔آہستہ سفر کرنا اوراول شب میں سفرمت کرناکہ پروردگارنے رات کو سکون کے کے لئے بنایا ہے اور اسے قیام کے لئے قرار دیا ہے۔سفر کے لئے نہیں۔لہٰذا رات میں اپنے بدن کوآرام دینا اوراپنی سواری کے لئے سکون فراہم کرنا۔اس کیبعد جب دیکھ لینا کہ سحر طلوع ہو رہی ہے اور صبح روشن ہو رہی ہے تو برکت خدا کے سہارے اٹھ کھڑے ہونا۔ اورجب دشمن کا سامناہو جائے تو اپنے اصحاب کے درمیان ٹھہرنا اورنہ دشمن سے اس قدر قریب ہو جانا کہ جیسے جنگ چھیڑنا چاہیے ہو۔اور نہ اس قدر دور ہو جانا کہ جیسے جنگ سے خوفزدہ ہو۔یہاں تک کہ میرا حکم آجائے اوردیکھوخبردار دشمن کی دشمنی تمہیں اس بات پرآمادہ نہ کردے کہ اسے حق کی دعوت دینے اورحجت تمام کرنے سے پہلے جنگ کا آغاز کردو(۱)

(۱)یہ ساری ہدایات معقل بن قیس کے بارے میں ہیں جنہیں آپ نے تین ہزار افراد کا سردار لشکر بنا کر بھیجا تھا اورایسے ہدایات سے مسلح فرمادیا تھا جو صبح قیامت تک کام آنے والی ہوں اور ہر دور کا انسان ان سے استفادہ کرسکے۔

۴۸۷

(۱۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أميرين من أمراء جيشه

وقَدْ أَمَّرْتُ عَلَيْكُمَا - وعَلَى مَنْ فِي حَيِّزِكُمَا مَالِكَ بْنَ الْحَارِثِ الأَشْتَرَ - فَاسْمَعَا لَه وأَطِيعَا واجْعَلَاه دِرْعاً ومِجَنّاً - فَإِنَّه مِمَّنْ لَا يُخَافُ وَهْنُه ولَا سَقْطَتُه - ولَا بُطْؤُه عَمَّا الإِسْرَاعُ إِلَيْه أَحْزَمُ - ولَا إِسْرَاعُه إِلَى مَا الْبُطْءُ عَنْه أَمْثَلُ

(۱۴)

ومن وصية لهعليه‌السلام

لعسكره قبل لقاء العدو بصفين

لَا تُقَاتِلُوهُمْ حَتَّى يَبْدَءُوكُمْ - فَإِنَّكُمْ بِحَمْدِ اللَّه عَلَى حُجَّةٍ - وتَرْكُكُمْ إِيَّاهُمْ حَتَّى يَبْدَءُوكُمْ حُجَّةٌ أُخْرَى لَكُمْ عَلَيْهِمْ - فَإِذَا كَانَتِ الْهَزِيمَةُ بِإِذْنِ اللَّه - فَلَا تَقْتُلُوا مُدْبِراً ولَا تُصِيبُوا مُعْوِراً - ولَا تُجْهِزُوا عَلَى جَرِيحٍ

(۱۳)

آپ کامکتوب شریف

(اپنے سرداران لشکر میں ایک سردار کے نام)

میں نے تم پر اورتمہارے ماتحت لشکر پر مالک بن الحارث(۱) الاشترکو سردار قراردے دیا ہے لہٰذا ان کی باتوں پر توجہ دینا اور ان کی اطاعت کرنا اورانہیں کو اپنی زرہ اور سپر قراردینا کہ مالک ان لوگوں میں ہیں جن کی کمزوری اور لغزش کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ وہ اس موقع پر سستی کرسکتے ہیںجہاںتیز زیادہ مناسب ہو۔اورنہ وہاں تیزی کرس کتے ہیں جہاں سستی زیادہ قرین عقل ہو۔

(۱۴)

آپ کی نصیحت

(اپنے لشکر کے نام صفین کی جنگ کے آغاز سے پہلے )

خبردار! اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک وہ لوگ پہل نہ کردیں کہ تم بحمد اللہ اپنی دلیل(۲) رکھتے ہو اور انہیں اس وقت تک موقع دینا جب تک پہل نہ کردیں ایک دوسری حجت ہو جائے گی۔اس کے بعد جب حکم خدا سے دشمن کو شکست ہو جائے تو کسی بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اور کسی عاجز کو ہلاک نہ کرنا اور کسی زخمی

(۱)مالک اشتران لوگوں میں ہیں جنہوں نے ابو ذر کے غسل و کفن کا انتظام کیا تھا۔جن کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ میرا ایک صحابی عالم غربت میں انتقال کرے گا اورصاحبان ایمان کی ایک جماعت اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرے گی۔ (استیعاب ترجمہ جندب)

(۲)یہ دلیل سورہ ٔ حجرات کی آیت ۹ ہے جس میں باغی سے قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاویہ اوراس کی جماعت باغی تھی جس کی تصدیق جناب عمار یاسر کی شہادت سے ہوگئی جن کے قاتل کو سرکار دوعالم (ص) نے باغی قرر دیا تھا۔

۴۸۸

- ولَا تَهِيجُوا النِّسَاءَ بِأَذًى - وإِنْ شَتَمْنَ أَعْرَاضَكُمْ وسَبَبْنَ أُمَرَاءَكُمْ - فَإِنَّهُنَّ ضَعِيفَاتُ الْقُوَى والأَنْفُسِ والْعُقُولِ - إِنْ كُنَّا لَنُؤْمَرُ بِالْكَفِّ عَنْهُنَّ وإِنَّهُنَّ لَمُشْرِكَاتٌ - وإِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَتَنَاوَلُ الْمَرْأَةَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ - بِالْفَهْرِ أَوِ الْهِرَاوَةِ - فَيُعَيَّرُ بِهَا وعَقِبُه مِنْ بَعْدِه.

(۱۵)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

كانعليه‌السلام يقول إذا لقي العدو محاربا

اللَّهُمَّ إِلَيْكَ أَفْضَتِ الْقُلُوبُ ومُدَّتِ الأَعْنَاقُ - وشَخَصَتِ الأَبْصَارُ ونُقِلَتِ الأَقْدَامُ وأُنْضِيَتِ الأَبْدَانُ - اللَّهُمَّ قَدْ صَرَّحَ مَكْنُونُ الشَّنَآنِ - وجَاشَتْ مَرَاجِلُ الأَضْغَانِ - اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْكُو إِلَيْكَ غَيْبَةَ نَبِيِّنَا - وكَثْرَةَ عَدُوِّنَا وتَشَتُّتَ أَهْوَائِنَا -( رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ - وأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ ) .

(۱۶)

وكان يقولعليه‌السلام

لأصحابه عند الحربك

پر قاتلانہ حملہ نہ کرنا۔اورعورتوں کو اذیت مت دینا چاہے وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دیں اور تمہارے حکام کوبرا بھلا ہی کیوں نہ کہیں۔کہ یہ قوت نفس اور عقل کے اعتبارسے کمزور ہیں اور ہم پیغمبر (ص) کے زمانے میں بھی ان کے بارے میں ہاتھ روک لینے پر مامور تھے ۔ جب کہ وہ مشرک تھیں اوراس وقت بھی اگر کوئی شخص عورتوں سے پتھر یالکڑی کے ذریعہ تعرض کرتا تھا تو اسے اور اس کی نسلوں کو مطعون کیا جاتا تھا۔

(۱۵)

آپ کی دعا

(جسے دشمن کے مقابلہ کے وقت دہرایا کرتے تھے)

خدایا تیری ہی طرف دل کھنچ رہے ہیں اور گردنیں اٹھی ہوئی ہیں اورآنکھیں لگی ہوئی ہیں اورقدم آگے بڑھ رہے ہیں اوربدن لاغر ہو چکے ہیں۔ خدایا چھپے ہوئے کینے سامنے آگئے ہیں اور عداوتوں کی دیگیں جوش کھانے لگی ہیں۔

خدایا ہم تیریر بارگاہ میں اپنے رسول کی غیبت اوردشمنوں کی کثرت کی اورخواہشات کے تفرقہ کی فریاد کر رہے ہیں ۔

خدایا ہمارے اوردشمنوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

(۱۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو جنگ کے وقت اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے )

۴۸۹

لَا تَشْتَدَّنَّ عَلَيْكُمْ فَرَّةٌ بَعْدَهَا كَرَّةٌ - ولَا جَوْلَةٌ بَعْدَهَا حَمْلَةٌ - وأَعْطُوا السُّيُوفَ حُقُوقَهَا - ووَطِّئُوا لِلْجُنُوبِ مَصَارِعَهَا - واذْمُرُوا أَنْفُسَكُمْ عَلَى الطَّعْنِ الدَّعْسِيِّ والضَّرْبِ الطِّلَحْفِيِّ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ –

فَوَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ - مَا أَسْلَمُوا ولَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وأَسَرُّوا الْكُفْرَ - فَلَمَّا وَجَدُوا أَعْوَاناً عَلَيْه أَظْهَرُوه.

(۱۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية - جوابا عن كتاب منه إليه

وأَمَّا طَلَبُكَ إِلَيَّ الشَّامَ - فَإِنِّي لَمْ أَكُنْ لأُعْطِيَكَ الْيَوْمَ مَا مَنَعْتُكَ أَمْسِ

خبردا رتم پروہ فرار(۱) گراں نہ گزرے جس کے بعد حملہ کرنے کا امکان ہو اور وہ پسپائی پریشان کن نہ ہوجس کے بعد دوبارہ واپسی کا امکان ہو۔تلواروں کوان کا حق دے دواور پہلو کے بھل گرنے والے دشمنوں کے لئے مقتل تیار رکھو۔اپنے نفس کو شدید نیزہ بازی اورسخت ترین شمشیر زنی کے لئے آمادہ رکھو اور آوازوں کومردہ بنا دو کہ اس سے کمزوری دور ہوجاتی ہے ۔

قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورجاندار چیزوں کوپیدا کیا ہے کہ یہ لوگ اسلام نہیں لائے ہیں بلکہ حالات کے سامنے سپر انداختہ ہوگئے ہیں اور اپنے کفر کو چھپائے ہوئے ہیں اورجیسے ہی مددگار مل گئے ویسے ہی اظہار کردیا۔

(۱۷)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام۔اس کے ایک خط کے جواب میں )

تمہارا یہ مطالبہ(۲) کہ میں شام کا علاقہ تمہارے حوالے کردوں۔تو جس چیز سے کل انکار کرچکا ہوں وہ

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میدان جنگ میں ایسے حالات آجاتے ہیں جب سپاہی کو اپنی جگہ چھوڑنا پڑتی ہے۔ اور ایک طرح سے فرارکا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔لیکن اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔بشرطیکہ حوصلہ جہاد برقرار رہے اورجذبہ قربانی میں فرق نہ آنے پائے ۔ میدان احد کا سب سے بڑا عیب یہی تھا کہ '' صحابہ کرام '' جذبہ قربانی سے عاری ہوگئے تھے اور رسول اکرم (ص) کے پکارنے کے باوجود پلٹ کر آنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ایسی صورت حال یقینا اس قابل ہے کہ اس کی مذمت کی جائے اور یہ ننگ و عارنسلوں میں باقی رہ جائے ۔ورنہ افراد کے بعد حملہ یا پسپائی کے بعد واپسی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پرمذمت یا ملامت کی جائے ۔

(۲)معاویہ نے اپنے خط میں چار نکتے اٹھائے تھے اورحضرت نے سب کے الگ الگ جوابات دئیے ہیں اورحق و باطل کا ابدی فیصلہ کردیا ہے اورآخرمیں یہ بھی واضح کردیاہے کہ تمام معاملات میں مساوات فرض کرلینے کے بعد بھی شرفت نبوت کاکوئی مقام نہیں ہو سکتا ہے جوپروردگارنے بنی ہاشم کو عطا کیا ہے اوراسی کابنی امیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اورذاتی کردار کے اعتبار سے بھی بنی ہاشم اسلام کی منزل پر فائز تھے اور بنی امیہ نے فتح مکہ کے موقع پر مجبوراً کلمہ پڑھ لیا تھا اور ظاہر ہے کہ استسلام اسلام کے مانند نہیں ہو سکتا ہے ۔

۴۹۰

وأَمَّا قَوْلُكَ - إِنَّ الْحَرْبَ قَدْ أَكَلَتِ الْعَرَبَ إِلَّا حُشَاشَاتِ أَنْفُسٍ بَقِيَتْ - أَلَا ومَنْ أَكَلَه الْحَقُّ فَإِلَى الْجَنَّةِ - ومَنْ أَكَلَه الْبَاطِلُ فَإِلَى النَّارِ – وأَمَّا اسْتِوَاؤُنَا فِي الْحَرْبِ والرِّجَالِ - فَلَسْتَ بِأَمْضَى عَلَى الشَّكِّ مِنِّي عَلَى الْيَقِينِ - ولَيْسَ أَهْلُ الشَّامِ بِأَحْرَصَ عَلَى الدُّنْيَا - مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ عَلَى الآخِرَةِ - وأَمَّا قَوْلُكَ إِنَّا بَنُو عَبْدِ مَنَافٍ - فَكَذَلِكَ نَحْنُ ولَكِنْ لَيْسَ أُمَيَّةُ كَهَاشِمٍ - ولَا حَرْبٌ كَعَبْدِ الْمُطَّلِبِ ولَا أَبُو سُفْيَانَ كَأَبِي طَالِبٍ - ولَا الْمُهَاجِرُ كَالطَّلِيقِ ولَا الصَّرِيحُ كَاللَّصِيقِ - ولَا الْمُحِقُّ كَالْمُبْطِلِ ولَا الْمُؤْمِنُ كَالْمُدْغِلِ - ولَبِئْسَ الْخَلْفُ خَلْفٌ يَتْبَعُ سَلَفاً هَوَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ.

وفِي أَيْدِينَا بَعْدُ فَضْلُ النُّبُوَّةِ الَّتِي أَذْلَلْنَا بِهَا الْعَزِيزَ - ونَعَشْنَا بِهَا الذَّلِيلَ - ولَمَّا أَدْخَلَ اللَّه الْعَرَبَ فِي دِينِه أَفْوَاجاً - وأَسْلَمَتْ لَه هَذِه الأُمَّةُ طَوْعاً وكَرْهاً - كُنْتُمْ مِمَّنْ دَخَلَ فِي الدِّينِ إِمَّا رَغْبَةً وإِمَّا رَهْبَةً - عَلَى حِينَ

آج عطا نہیں کرسکتا ہوں اور تمہارا یہ کہنا کہ جنگ نے عرب کاخاتمہ کردیا ہے اورچند ایک افراد کے علاوہ کچھ نہیں باقی رہ گیا ہے تو یاد رکھوکہ جس کا خاتمہ حق پر ہوا ہے اس کا انجام جنت ہے اورجسے باطل کھا گیا ہے اس کا انجام جہنم ہے۔ رہ گیا ہم دونوں کا جنگ اور شخصیات کے بارے میں برابر ہونا۔تو تم شک میں اس طرح تیز رفتاری سے کام نہیں کرسکتے ہو جتنامیں یقین میں کر سکتا ہوں اور اہل شام دنیاکے بارے میں اتنے حریص نہیں ہیں جس قدراہل عراق آخرت کے بارے میں فکر مند ہیں۔

اورتمہارا یہ کہنا کہ ہم سب عبد مناف کی اولاد ہیں تو یہ بات صحیح ہے لیکن نہ امیہ ہاشم جیسا ہو سکتا ہے اور نہ حرب عبدالمطلب جیسا۔نہ ابو سفیان ابو طالب کاہمسر ہو سکتا ہے اور نہ راہ خدا میں ہجرت کرنے والا آزاد کردہ افراد جیسا۔نہ واضح نسب والے کا قیاس شجرہ سے چپکائے جانے والے پر ہوسکتا ہے اور نہ حقدار کو باطل نواز جیسا قراردیا جاسکتا ہے ۔مومن کبھی منافق کے برابر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔بد ترین اولاد تو وہ ہے جو اس سلف کے نقش قدم پر چلے جو جہنم میں گر چکا ہے۔

اس کے بعد ہمارے ہاتھوں میں نبوت کا شرف ہے جس کے ذریعہ ہم نے باطل کے عزت داروں کو ذلیل بنایا ہے اور حق کے کمزوروں کو اوپر اٹھایا ہے۔اورجب پروردگارنے عرب کو اپنے دین میں فوج در فوج داخل کیا ہے اوری ہ قوم بخوشی یا بکراہت مسلمان ہوئی ہے تو تم انہیں دین کے دائرہ میں داخل ہونے والوں میں تھے یا بہ

۴۹۱

فَازَ أَهْلُ السَّبْقِ بِسَبْقِهِمْ - وذَهَبَ الْمُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ بِفَضْلِهِمْ - فَلَا تَجْعَلَنَّ لِلشَّيْطَانِ فِيكَ نَصِيباً - ولَا عَلَى نَفْسِكَ سَبِيلًا والسَّلَامُ.

(۱۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن عباس - وهو عامله على البصرة

واعْلَمْ أَنَّ الْبَصْرَةَ مَهْبِطُ إِبْلِيسَ ومَغْرِسُ الْفِتَنِ - فَحَادِثْ أَهْلَهَا بِالإِحْسَانِ إِلَيْهِمْ - واحْلُلْ عُقْدَةَ الْخَوْفِ عَنْ قُلُوبِهِمْ. وقَدْ بَلَغَنِي تَنَمُّرُكَ لِبَنِي تَمِيمٍ وغِلْظَتُك عَلَيْهِمْ - وإِنَّ بَنِي تَمِيمٍ لَمْ يَغِبْ لَهُمْ نَجْمٌ - إِلَّا طَلَعَ لَهُمْ آخَرُ - وإِنَّهُمْ لَمْ يُسْبَقُوا بِوَغْمٍ فِي جَاهِلِيَّةٍ ولَا إِسْلَامٍ - وإِنَّ لَهُمْ بِنَا رَحِماً مَاسَّةً وقَرَابَةً خَاصَّةً - نَحْنُ مَأْجُورُونَ عَلَى صِلَتِهَا - ومَأْزُورُونَ عَلَى قَطِيعَتِهَا - فَارْبَعْ أَبَا الْعَبَّاسِ رَحِمَكَ اللَّه - فِيمَا جَرَى عَلَى لِسَانِكَ ويَدِكَ مِنْ خَيْرٍ وشَرٍّ - فَإِنَّا شَرِيكَانِ فِي ذَلِكَ - وكُنْ عِنْدَ صَالِحِ ظَنِّي بِكَ - ولَا يَفِيلَنَّ رَأْيِي فِيكَ والسَّلَامُ.

رغبت یا بہ خوف جب کہ سبقت حاصل کرنے والے سبقت حاصل کرچکے تھے اور مہاجرین اولین اپنی فضلیت پاچکے تھے ۔دیکھوخبردار شیطان کواپنی زندگی کا حصہ دار مت بنائو اور اسے اپنے نفس پر راہمت دو۔والسلام ۔

(۱۸)

حضرت کا مکتوب گرامی

(بصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کے نام)

یاد رکھو کہ یہ بصرہ ابلیس کے اترنے اور فتنوں کے ابھرنے کی جگہ کا نام ہے لہٰذا یہاں کے لوگ کے ساتھ اچھابرتائو کرنا اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہ کھول دینا۔

مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم بنی تمیم کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہو اور ان سے سخت قسم کابرتائو کرتے ہو تو یاد رکھو کہ بنی تمیم وہ لوگ ہیں کہ جب ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو دوسرا ابھرآتا ہے۔یہ جنگ کے معاملہ میں جاہلیت یا اسلام کبھی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں اور پھر ہمارا ان سے رشتہ داری اورقرابت کا تعلق بھی ہے کہ اگرہم اس کاخیال رکھیں گے تواجرپائیں گے اور قطع تعلق کرلیں گے تو گناہ گار ہوں گے لہٰذا ابن عباس خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ان کے ساتھ اپنی زبان یا ہاتھ پر جاری ہونے والی اچھائی یا برائی میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا کہ ہم دونوں ان ذمہ داریوں میں شریک ہیں۔اور دیکھو تمہارے بارے میں میرا حسن ظن برقرار رہے اور میری رائے غلط ثابت ہونے پائے ۔

۴۹۲

(۱۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ دَهَاقِينَ أَهْلِ بَلَدِكَ شَكَوْا مِنْكَ غِلْظَةً وقَسْوَةً - واحْتِقَاراً وجَفْوَةً - ونَظَرْتُ فَلَمْ أَرَهُمْ أَهْلًا لأَنْ يُدْنَوْا لِشِرْكِهِمْ - ولَا أَنْ يُقْصَوْا ويُجْفَوْا لِعَهْدِهِمْ - فَالْبَسْ لَهُمْ جِلْبَاباً مِنَ اللِّينِ تَشُوبُه بِطَرَفٍ مِنَ الشِّدَّةِ - ودَاوِلْ لَهُمْ بَيْنَ الْقَسْوَةِ والرَّأْفَةِ - وامْزُجْ لَهُمْ بَيْنَ التَّقْرِيبِ والإِدْنَاءِ - والإِبْعَادِ والإِقْصَاءِ إِنْ شَاءَ اللَّه.

(۲۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد ابن أبيه - وهو خليفة عامله عبد الله بن عباس على البصرة وعبد الله عامل أمير المؤمنينعليه‌السلام يومئذ عليها - وعلى كور الأهواز وفارس وكرمان وغيرها:

(۱۹)

آپ کامکتوب گرامی

(اپنے بعض عمال کے نام )

اما بعد! تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہارے بارے میں سختی ۔سنگدلی ۔تحقیر و تذلیل اورتشدد کی شکایت کی ہے اورمیں نے ان کے بارے میں غورکرلیا ہے۔وہ اپنے شرک کی بنا پر قریب(۱) کرنے کے قابل تو نہیں ہیں لیکن عہدو پیمان کی بنا پرانہیں دوربھی نہیں کیا جاسکتا ہے اوران پر زیادتی بھی نہیں کی جا سکتی ہے لہٰذا تم ان کے بارے میں ایسی نرمی کاشعار اختیار کرو جس میں قدرے سختی بھی شامل ہو اور ان کے ساتھ سختی اور نرمی کے درمیان کا برتائو کرو کہ کبھی قریب کرلو۔کبھی دور کردو کبھی نزدیک بلا لو اور کبھی الگ رکھو۔انشاء اللہ ۔

(۲۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(زیاد بن ابیہ کے نام جوبصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کا نائب(۲) ہوگیا تھا اور ابن عباس بصرہ اور اہواز کے تمام اطراف کے عامل تھے )

(۱)واضح رہے کہ کسی کا قریب کر لینااورہے اور اس کے ساتھ عادلانہ اورمنصفانہ برتائو کرنا اور ہے۔اسلام عادلانہ برتائو کاحکم ہر ایک کے بارے میں دیتا ہے لیکن قربت کا جواز صرف صاحبان ایمان و کردار کے لئے ہے۔کفار و مشرکین کو تو اس نے حرم خدا سے بھی دور کردیا ہے اور ان کاداخلہ حدود حرم میں بند کردیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ آج عالم اسلام میں کفارو مشرکین ہی قریب بنائے جانے کے قابل ہیں اور کلمہ گو مسلمان اس لائق نہیں رہ گئے ہیں اور ان سے صبح و شام سرد جنگ صرف کفار و مشرکین سے قربت پیدا کرنے یا بر قرار رکھنے کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔اللہ اس اسلام پر رحم کرے اور اس امتکو عقل سلیم عنایت فرمائے ۔

(۲)واضح رہے کہ حضرت اختیاری طور پر کسی ایسے شخص کو عہدہ نہیں دے سکتے ہیں جس کا نسب مشکوک ہو۔یہکام ابن عباس نے ذاتی طورپر کیا تھا۔اسی لئے حضرت نے نہایت ہی سخت لہجہ میں خطاب فرمایا ہے۔

۴۹۳

وإِنِّي أُقْسِمُ بِاللَّه قَسَماً صَادِقاً - لَئِنْ بَلَغَنِي أَنَّكَ خُنْتَ مِنْ فَيْءِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئاً صَغِيراً أَوْ كَبِيراً - لأَشُدَّنَّ عَلَيْكَ شَدَّةً تَدَعُكَ قَلِيلَ الْوَفْرِ - ثَقِيلَ الظَّهْرِ ضَئِيلَ الأَمْرِ والسَّلَامُ

(۲۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد أيضا فَدَعِ الإِسْرَافَ مُقْتَصِداً - واذْكُرْ فِي الْيَوْمِ غَداً - وأَمْسِكْ مِنَ الْمَالِ بِقَدْرِ ضَرُورَتِكَ - وقَدِّمِ الْفَضْلَ لِيَوْمِ حَاجَتِكَ.

أَتَرْجُو أَنْ يُعْطِيَكَ اللَّه أَجْرَ الْمُتَوَاضِعِينَ - وأَنْتَ عِنْدَه مِنَ الْمُتَكَبِّرِينَ - وتَطْمَعُ وأَنْتَ مُتَمَرِّغٌ فِي النَّعِيمِ تَمْنَعُه الضَّعِيفَ والأَرْمَلَةَ - أَنْ يُوجِبَ لَكَ ثَوَابَ الْمُتَصَدِّقِينَ - وإِنَّمَا الْمَرْءُ مَجْزِيٌّ بِمَا أَسْلَفَ وقَادِمٌ عَلَى مَا قَدَّمَ والسَّلَامُ.

(۲۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس رحمه الله تعالى وكان عبد اللَّه يقول: «ما انتفعت بكلام بعد كلام رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،

میں اللہ کی سچی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مجھے خبر مل گئی کہ تم نے مسلمانوں کے مال غنیمت میں چھوٹی یا بڑی قسم کی خیانت کی ہے تو میں تم پر ایسی سختی کروں گا کہ تم نادار ۔بوجھل پیٹھ والے اور بے ننگ ونام ہو کر رہ جائو گے ۔والسلام )

(۲۱)

آپ کامکتوب گرامی

(زیاد ہی کے نام)

(اسراف کوچھوڑ کرمیانہ روی اختیار کرو اورآج کے دن کل کویاد رکھو۔بقدر ضرورت مال روک کر باقی روز حاجت کے لئے آگے بڑھا دو۔)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تم متکبروں میں رہو گے اورخدا تمہیں متواضع افراد جیسا اجردے دے گا یا تمہارے واسطے صدقہ وخیرات کرنے والوں کا ثواب لازم قراردے دیگا اورتم نعمتوں میں کروٹیں بدلتے رہوگے نہ کسی کمزور کاخیال کرو گے اور نہ کسی بیوہ کا جب کہ انسان کو اسی کا اجرملتا ہے جو اس نے انجام دیا ہے اور وہ اسی پر وارد ہوتا ہے جو اس نے پہلے بھیج دیا ہے۔والسلام

(۲۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔جس کے بارے میں خود ابن عباس کا مقولہ تھا کہمیں نے رسول اکرم

۴۹۴

كانتفاعي بهذا الكلام!»

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الْمَرْءَ قَدْ يَسُرُّه دَرْكُ مَا لَمْ يَكُنْ لِيَفُوتَه - ويَسُوؤُه فَوْتُ مَا لَمْ يَكُنْ لِيُدْرِكَه - فَلْيَكُنْ سُرُورُكَ بِمَا نِلْتَ مِنْ آخِرَتِكَ - ولْيَكُنْ أَسَفُكَ عَلَى مَا فَاتَكَ مِنْهَا - ومَا نِلْتَ مِنْ دُنْيَاكَ فَلَا تُكْثِرْ بِه فَرَحاً - ومَا فَاتَكَ مِنْهَا فَلَا تَأْسَ عَلَيْه جَزَعاً - ولْيَكُنْ هَمُّكَ فِيمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

(۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله قبل موته على سبيل الوصية - لما ضربه ابن ملجم لعنه الله:

وَصِيَّتِي لَكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِاللَّه شَيْئاً - ومُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَا تُضَيِّعُوا سُنَّتَه - أَقِيمُوا هَذَيْنِ الْعَمُودَيْنِ - وأَوْقِدُوا هَذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ وخَلَاكُمْ ذَمٌّ !

أَنَا بِالأَمْسِ صَاحِبُكُمْ - والْيَوْمَ عِبْرَةٌ لَكُمْ وغَداً مُفَارِقُكُمْ - إِنْ أَبْقَ فَأَنَا وَلِيُّ دَمِي - وإِنْ أَفْنَ فَالْفَنَاءُ مِيعَادِي -

کے بعد کسی کلام سے اس قدر استفادہ نہیں کیا ہے جس قدراس کلام سے کیا ہے )

امابعد! کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اسچیز کو پا کر بھی خوش ہو جاتا ہے جواس کے ہاتھ سے جانے والی نہیں تھی اور اس چیز کے چلے جانے سے بھی رنجیدہ ہو جاتا ہے جواسے ملنے والی نہیں تھی لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اس آخرت پر خوشی منائو جو حاصل ہو جائے اوراس پر افسوس کروجو اس میںسے حاصل نہ ہو سکے ۔دنیا حاصل ہوجائے تواس پر زیادہ خوشی کا اظہار نہ کرو اور ہاتھ سے نکل جائے تو بے قرار ہوکرافسوس نہ کرو۔تمہاری تمامتر فکر موت کے بعد کے بارے میں ہونی چاہیے ۔

(۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے اپنی شہادت سے پہلے بطور وصیت فرمایا ہے)

تم سب کے لئے میری وصیت یہ ہے کہ خبردار خداکے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ کرنا اور حضرت محمد (ص) کی سنت کو ضائع اور برباد نہ کرنا۔ان دونوں ستونوں کوقائم رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھو۔اس کے بعد کسی مذمت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔

میں کل تمہارے ساتھ تھا اور آج تمہارے لئے عبرت بن گیا ہوں اور کل تم سے جدا ہو جائوں گا۔اس کے بعد میں باقی رہ گیا تو اپنے خون کاصاحب اختیار میں خود ہوں ورنہ اگرمیری مدت حیات پوری ہوگئی ہے تو میں دنیا

۴۹۵

وإِنْ أَعْفُ فَالْعَفْوُ لِي قُرْبَةٌ وهُوَ لَكُمْ حَسَنَةٌ - فَاعْفُوا:( أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ الله لَكُمْ ) .

واللَّه مَا فَجَأَنِي مِنَ الْمَوْتِ وَارِدٌ كَرِهْتُه - ولَا طَالِعٌ أَنْكَرْتُه – ومَاكُنْتُ إِلَّا كَقَارِبٍ وَرَدَ وطَالِبٍ وَجَدَ -( وما عِنْدَ الله خَيْرٌ لِلأَبْرارِ ) .

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - أقول وقد مضى بعض هذا الكلام - فيما تقدم من الخطب - إلا أن فيه هاهنا زيادة أوجبت تكريره»

(۲۴)

ومن وصية لهعليه‌السلام

بما يعمل في أمواله - كتبها بعد منصرفه من صفين:

هَذَا مَا أَمَرَ بِه عَبْدُ اللَّه عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ

سے چلا جائوںگا۔میں اگر معاف(۱) کردوں تو یہ میرے لئے قربت الٰہی کا ذریعہ ہوگا اور تمہارے حق میں بھی ایک نیکی ہوگی لہٰذا تم بھی معاف کردینا۔'' کیا تم نہیں چاہتے ہوکہ اللہ تمہیں بخش دے ''

خدا کی قسم یہ اچانک موت ایسی نہیں ہے جسے میں نا پسند کرتا ہوں اور نہ ایسا سانحہ ہے جسے میں برا سمجھتا ہوں ۔میں تو اس شخص کے مانند ہوں جو رات بھر پانی کی جستجو میں رہے اور صبح کو چشمہ پروار ہو جائے اورتلاش کے بعد اپنے مقصد کو پالے اور پھرخداکی بارگاہ میں جو کچھ بھی ہے وہ نیک کرداروں کے لئے بہتر ہی ہے۔

سید رضی : اس کلام کا ایک حصہ پہلے گزر چکا ہے لیکن یہاں کچھ اصنافات تھے لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ اسے دوبارہ نقل کردیا جائے ۔

(۲۴)

آپ کی وصیت

(اپنے اموال کے بارےمیں جسے جنگ صفین کی واپسی پر تحریر فرمایا ہے)

یہ بندۂ خدا ! علی بن ابی طالب امیر المومنین کاحکم

(۱)واضح رہے کہ اس معافی سے مراد دنیا میں انتقام نہ لینا ہے کہ قاتل کے جرم کی دوحیثیتیں ہوتی ہیں ۔وہ انسانی دنیا میں ایک خون کا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں قصاص کا قانون سامنے آتا ہے اور مذہبی دنیا میں حکم الٰہی کی مخالفت کامجرم ہوتا ہے جس کا انجام آتش جہنم ہے۔دنیا کے قصاص و انتقام میں فسادات کے اندیشے ہوتے ہیں اورعداوتوں کے شعلے مزید بھڑک اٹھتے ہیں لیکن آخرت کے عذاب میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہے۔اس لئے صاحبان عقل و دانش یہاں کے انتقام کو نظراندازکردیتے ہیں تاکہ مزید فساد نہ پیدا ہو سکے اور اس بات سے مطمئن رہتے ہیں کہ مجرم کے لئیعذاب جہنم ہی کافی ہے اور خدا سے بہتر انتقام لینے والا کون ہے ۔

۴۹۶

- فِي مَالِه ابْتِغَاءَ وَجْه اللَّه - لِيُولِجَه بِه الْجَنَّةَ ويُعْطِيَه بِه الأَمَنَةَ

مِنْهَا فَإِنَّه يَقُومُ بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ - يَأْكُلُ مِنْه بِالْمَعْرُوفِ - ويُنْفِقُ مِنْه بِالْمَعْرُوفِ - فَإِنْ حَدَثَ بِحَسَنٍ حَدَثٌ وحُسَيْنٌ حَيٌّ - قَامَ بِالأَمْرِ بَعْدَه وأَصْدَرَه مَصْدَرَه.

وإِنَّ لِابْنَيْ فَاطِمَةَ مِنْ صَدَقَةِ عَلِيٍّ مِثْلَ الَّذِي لِبَنِي عَلِيٍّ - وإِنِّي إِنَّمَا جَعَلْتُ الْقِيَامَ بِذَلِكَ - إِلَى ابْنَيْ فَاطِمَةَ ابْتِغَاءَ وَجْه اللَّه - وقُرْبَةً إِلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وتَكْرِيماً لِحُرْمَتِه وتَشْرِيفاً لِوُصْلَتِه

ويَشْتَرِطُ عَلَى الَّذِي يَجْعَلُه إِلَيْه - أَنْ يَتْرُكَ الْمَالَ عَلَى أُصُولِه - ويُنْفِقَ مِنْ ثَمَرِه حَيْثُ أُمِرَ بِه وهُدِيَ لَه - وأَلَّا

ہے اپنے اموال(۱) کے بارے میں جس کا مقصد رضائے پروردگار ہے تاکہ اس کے ذریعہ جنت میں داخل ہو سکے اور روز محشر کے ہول سے امان پا سکے ۔

ان اموال کی نگرانی حسن بن علی کریں گے بقدر ضرورت استعمال کریں گے اور بقدر مناسب انفاق کریں گے۔اس کے بعد اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آگیا اور جبیں باقی رہ گئے تو ذمہ دار وہ ہوں گے اور اسی انداز پر کام کریں گے ۔

اولاد فاطمہ کا حق علی کے صدقات میں وہی ہے جودیگر اولاد علی کا ہے۔میں نے نگرانی کاکام اولاد فاطمہ کو صرف رضائے الٰہی اورقربت پیغمبر (ص) کے خیال سے سونپ دیاہے کہ اس طرح حضرت کی حرمت کا احترام بھی ہو جائے گا اور آپ کی قرابت کا اعزاز بھی بر قرار رہے گا۔

لیکن اس کے بعد بھی والی کے لئے یہ شرط ہے کہ مال کی اصل کوباقی رکھے اور صرف اس کے ثمرات کوخرچ کرے ۔وہ بھی ان راہوں میں جن کا حکم دیا گیا ہے اورجن کی ہدایت دی گئی ہے اور خبردار اس قریہ کے

(۱)مورخین کے بیان کے مطابق امیر المومنین نے اپنی زندگی میں صرف ارواح و نفوس کی سر زمینوں کو زندہ کرنے کا کام انام نہیں دیا ہے ۔بلکہ مادی زمینوں میں بھی مسلسل کام کرتے رہے ہیں۔زمینوں کو قابل کاشت بنایا ہے۔چشموں کو جاری کیا ہے۔درختوں کی سینچائی کی ہے اور ایک مزدورجیسی زندگی گذاری ہے اور پھر اپنی ساری زحمتوں اور محنتوں کے نتیجہ کو راہ خدا میں وقف کردیا ہے تاکہ بندگان خدا استفادہ کر سکیں اور اولاد علی بھی صرف بقدر ضرورت فائدہ اٹھا سکے۔ ایساکردار اب صرف کا غذات پر رہ گیا ہے۔ورنہ اس کا وجود دنیا سے عنقا ہو چکا ہے نہ علی والوں میں دیکھنے میں آتا ہے اور نہ اغیار میں سر براہان مملکت فوٹو کھنچوانے کے لئے ہاتھ میں پھاوڑا اورکدال لے لیتے ہیں ورنہ انہیں زراعت سے کیا تعلق ہے ۔زمینوں کازندہ رکھنا ابو تراب کاکام تھا اور انہوں نے اس کاحق ادا کردیا۔باقی سب داستانیں ہیں جو صفحہ قرطاس پرمحفوظ کردی گئی ہیں اور ان میں روشنائی کی چمک ہے۔کردار اورحقیقت کی روشنی نہیں ہے۔

۴۹۷

يَبِيعَ مِنْ أَوْلَادِ نَخِيلِ هَذِه الْقُرَى وَدِيَّةً - حَتَّى تُشْكِلَ أَرْضُهَا غِرَاساً.

ومَنْ كَانَ مِنْ إِمَائِي اللَّاتِي أَطُوفُ عَلَيْهِنَّ - لَهَا وَلَدٌ أَوْ هِيَ حَامِلٌ - فَتُمْسَكُ عَلَى وَلَدِهَا وهِيَ مِنْ حَظِّه - فَإِنْ مَاتَ وَلَدُهَا وهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ عَتِيقَةٌ - قَدْ أَفْرَجَ عَنْهَا الرِّقُّ وحَرَّرَهَا الْعِتْقُ.

قال الشريف - قولهعليه‌السلام في هذه الوصية - وألا يبيع من نخلها ودية الودية الفسيلة وجمعها ودي. وقولهعليه‌السلام حتى تشكل أرضها غراسا - هو من أفصح الكلام - والمراد به أن الأرض يكثر فيها غراس النخل - حتى يراها الناظر على غير تلك الصفة التي عرفها بها - فيشكل عليه أمرها ويحسبها غيرها.

(۲۵)

ومن وصية لهعليه‌السلام

كان يكتبها لمن يستعمله على الصدقات

قال الشريف: وإنما ذكرنا هنا جملا ليعلم بها أنهعليه‌السلام كان يقيم عماد الحق، ويشرع أمثلة العدل، في صغير الأمور وكبيرها

نخلستان میں سے ایک پودا بھی فروخت نہ کرے یہاں تک کہ زمین دوبارہ بونے کے لائق نہ رہ جائے ۔

میری وہ کنیزیں جن سے میرا تعلق رہ چکا ہے اور ان کی اولاد بھی موجود ہے یا وہ حاملہ ہیں۔ان کو ان کی اولاد کے حساب میں روک لیا جائے اور انہیں کا حصہ قرار دے دیا جائے ۔اس کے بعد اگربچہ مرجائے اور کنیز زندہ رہ جائے تو اسے آزاد کردیا جائے کہ گویا اس کی غلامی ختم ہوچکی ہے اور آزادی حاصل ہو چکی ہے ۔

سید رضی : اس وصیت میں حضرت کا ارشاد '' ودیہ بھی فروخت نہ کیا جائے '' اس میں ودیہ سے مراد خرمہ کے چھوٹے درخت ہیں جس کی جمع ودی ہوتی ہے اور '' حتی تشکل ارضھا غراسا ''ایک فصیح ترین کلام ہے جس کامقصد یہ ہے کہ زمین میں کھجور کی درخت کاری اتنی زیادہ ہو جائے کہ دیکھنے والا اس کی اصل ہئیت کا اندازہ نہ کر سکے اور اس کے لئے مسئلہ مشتبہ ہوجائے کہ شاید یہ کوئی دوسری زمین ہے۔

(۲۵)

آپ کی وصیت

(جسے ہر اس شخص کو لکھ کردیتے تھے جسے صدقات کاعامل قراردیتے تھے )

سید رضی :میں نے یہ چند جملے اس لئے نقل کردئیے ہیں تاکہ ہر شخص کو اندازہ ہو جائے کہ حضرت کس طرح ستون حق کو قائم رکھتے تھے اور چھوٹے بڑے

۴۹۸

ودقيقها وجليلها.

انْطَلِقْ عَلَى تَقْوَى اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - ولَا تُرَوِّعَنَّ مُسْلِماً ولَا تَجْتَازَنَّ عَلَيْه كَارِهاً - ولَا تَأْخُذَنَّ مِنْه أَكْثَرَ مِنْ حَقِّ اللَّه فِي مَالِه - فَإِذَا قَدِمْتَ عَلَى الْحَيِّ فَانْزِلْ بِمَائِهِمْ - مِنْ غَيْرِ أَنْ تُخَالِطَ أَبْيَاتَهُمْ - ثُمَّ امْضِ إِلَيْهِمْ بِالسَّكِينَةِ والْوَقَارِ - حَتَّى تَقُومَ بَيْنَهُمْ فَتُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ - ولَا تُخْدِجْ بِالتَّحِيَّةِ لَهُمْ ثُمَّ تَقُولَ عِبَادَ اللَّه - أَرْسَلَنِي إِلَيْكُمْ وَلِيُّ اللَّه وخَلِيفَتُه - لِآخُذَ مِنْكُمْ حَقَّ اللَّه فِي أَمْوَالِكُمْ - فَهَلْ لِلَّه فِي أَمْوَالِكُمْ مِنْ حَقٍّ فَتُؤَدُّوه إِلَى وَلِيِّه - فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ لَا فَلَا تُرَاجِعْه - وإِنْ أَنْعَمَ لَكَ مُنْعِمٌ فَانْطَلِقْ مَعَه - مِنْ غَيْرِ أَنْ تُخِيفَه أَوْ تُوعِدَه - أَوْتَعْسِفَه أَوْ تُرْهِقَه فَخُذْ مَا أَعْطَاكَ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ - فَإِنْ كَانَ لَه مَاشِيَةٌ

' اہم اور معمولی معاملات میں عدل و انصاف کی مثالیں قائم کرنا چاہتے تھے ۔

خدائے وحدہ لا شریک کا خوف لے کر آگے بڑھو اور خبردار(۱) نہ کسی مسلمان کوخوفزدہ کرنا اورنہ کسی کی زمین پر جبراً اپنا گزر کرنا۔مال میں سے حق خدا سے ذرہ برابر زیادہ مت لینا اور جب کسی قبیلہ پر وارد ہونا تو ان کے گھروں میں گھسنے کے بجائے چشمہ اورکنویں پر وارد ہونا۔اس کے بعد سکون و وقار کے ساتھ ان کی طرف جانا اوران کے درمیان کھڑے ہو کر سلام کرنا اور سلام کرنے میں بخل سے کام نہ لینا۔

اس کے بعد ان سے کہنا کہ بندگان خدا مجھے تمہاری طرف پروردگار کے ولی اورجانشین نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے اموال میں سے پروردگار کا حق لے لوں تو کیا تمہارے اموال میں کوئی حق اللہ ہے جسے میرے حوالے کر سکو ؟ اگر کوئی شخص انکار کردے تو اس سے دوبارہ تکرارنہ کرنا اور اگر کوئی شخص اقرار کرے تو اس کے ساتھ اس انداز سے جاناکہ نہ کی کو خوفزدہ کرنا نہ دھمکی دینا۔نہ سختی کا برتائو کرنااور نہ بیجا دبائو ڈالنا جو سونایا چاندی دے دیں وہ لے لینا اور اگر چوپایایہ کے مرکز تک

(۱) دنیا میں کون ایسا سر براہ مملکتہے جو اپنے احکام کو اتنی شدید پابندیوں میں جکڑ دے اور اپنی رعایا کو اس قدر سہولت دیدے ۔دنیا کے حکام میں تو اس کردار کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اسلام کے خلفاء میں بھی دور دورتک اس کردار کا پتہ نہیں ملتا ہے اور حکومت کا آغاز ہی جبرو تشدد اور اسیری و خانہ سوزی سے ہوتا ہے۔

ضرورت ہے کہ اس وصیت نامہ کوبغور پڑھا جائے اور اس کی ایک دفعہ پر غور کیاجائے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ اسلامی سلطنت میں رعایا کا کیا مرتبہ ہوتا ہے حقوق کی ادائیگی میں کس قدر سہولت فراہم کی جاتی ہے اورانسانوں کی طرح جانوروں کے ساتھ کس طرح کابرتائو کیا جاتا ہے۔

۴۹۹

أَوْ إِبِلٌ فَلَا تَدْخُلْهَا إِلَّا بِإِذْنِه - فَإِنَّ أَكْثَرَهَا لَه - فَإِذَا أَتَيْتَهَا فَلَا تَدْخُلْ عَلَيْهَا دُخُولَ مُتَسَلِّطٍ عَلَيْه - ولَا عَنِيفٍ بِه - ولَا تُنَفِّرَنَّ بَهِيمَةً ولَا تُفْزِعَنَّهَا - ولَا تَسُوأَنَّ صَاحِبَهَا فِيهَا - واصْدَعِ الْمَالَ صَدْعَيْنِ ثُمَّ خَيِّرْه - فَإِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعْرِضَنَّ لِمَا اخْتَارَه - ثُمَّ اصْدَعِ الْبَاقِيَ صَدْعَيْنِ ثُمَّ خَيِّرْه - فَإِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعْرِضَنَّ لِمَا اخْتَارَه - فَلَا تَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يَبْقَى مَا فِيه - وَفَاءٌ لِحَقِّ اللَّه فِي مَالِه - فَاقْبِضْ حَقَّ اللَّه مِنْه - فَإِنِ اسْتَقَالَكَ فَأَقِلْه - ثُمَّ اخْلِطْهُمَا ثُمَّ اصْنَعْ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتَ أَوَّلًا - حَتَّى تَأْخُذَ حَقَّ اللَّه فِي مَالِه - ولَا تَأْخُذَنَّ عَوْداً ولَا هَرِمَةً ولَا مَكْسُورَةً ولَا مَهْلُوسَةً ولَا ذَاتَ عَوَارٍ - ولَا تَأْمَنَنَّ عَلَيْهَا إِلَّا مَنْ تَثِقُ بِدِينِه - رَافِقاً بِمَالِ الْمُسْلِمِينَ - حَتَّى يُوَصِّلَه إِلَى وَلِيِّهِمْ فَيَقْسِمَه بَيْنَهُمْ - ولَا تُوَكِّلْ بِهَا إِلَّا نَاصِحاً شَفِيقاً وأَمِيناً حَفِيظاً - غَيْرَ مُعْنِفٍ ولَا مُجْحِفٍ ولَا مُلْغِبٍ ولَا مُتْعِبٍ - ثُمَّ احْدُرْ إِلَيْنَا مَا اجْتَمَعَ عِنْدَكَ - نُصَيِّرْه حَيْثُ أَمَرَ اللَّه - بِه فَإِذَا أَخَذَهَا أَمِينُكَ - فَأَوْعِزْ إِلَيْه أَلَّا يَحُولَ بَيْنَ نَاقَةٍ وبَيْنَ فَصِيلِهَا - ولَا يَمْصُرَ لَبَنَهَا فَيَضُرَّ [فَيُضِرَّ] ذَلِكَ بِوَلَدِهَا - ولَا يَجْهَدَنَّهَا رُكُوباً -

پہنچ جانا تو کسی ظالم و جابر کی طرح داخل نہ ہونا نہ کسی جانور کو بھڑکادینا اور نہ کسی کوخوفزدہ کردینا اور مالک کے ساتھ بھی غلط برتائو نہ کرنا بلکہ مال کو دوحصہ میں تقسیم کرکے مالک کو اختیار دینا اوروہ جس حصہ کو اختیار کرلے اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا۔پھر باقی کودوحصوں میں تقسیم کرنا اور اسے اختیار دینا اورپھراس کے اختیار پراعتراض نہ کرنا۔یہاں تک کہ اتنا ہی مال باقی رہ جائے جس سے حقخدا ادا ہوسکتا ہے تو اسی کو لے لینا۔بلکہ اگر کوئی شخص تقسیم پر نظرثانی کی درخواست کرے تو اسے بھی منظور کر لینا اور سارے مال کو ملا کر پھر پہلے کی طرح تقسیم کرنا اور آخرمیں اسے بچے مال میں سیحق اللہ لے لینا۔بس اس کا خیال رکھنا کہ بوڑھا ۔ضعیف ۔کمرشکستہ۔ کمزور اور عیب دار اونٹ نہ لینا اور ان اونٹوں کا امین بھی اسی کو بنانا جس کے دین کااعتبار ہو اور جو مسلمانوں کے مال میں نرمی کا برتائو کرتا ہو۔تاکہ وہ ولی تک مال پہنچادے اوروہ ان کے درمیان تقسیم کردے ۔اس موضوع پر صرف اسے وکیل بنایا جو مخلص ۔خدا ترس ۔ امانت دار اورنگراں ہو ' نہ سختی کرنے والا ہو نہ ظلم کرنے والا۔نہ تھکا دینے والا ہو نہ شدت سے دوڑانے والا۔اس کے بعد جس قدر مال جمع ہو جائے ۔وہ میرے پاس بھیج دینا تاکہ میں امر الٰہی کے مطابق اس کے مرکز تک پہنچا دوں۔

امانت دار کو مال دیتے وقت اس بات کی ہدایت دے دینا کہ خبردار اونٹنی اور اس کے بچہ کو جدا نہ کرے اورسارادودھ نہ نکال لے جو بچہ کے حق میں مضر ہو۔ سواری

۵۰۰

ولْيَعْدِلْ بَيْنَ صَوَاحِبَاتِهَا فِي ذَلِكَ وبَيْنَهَا - ولْيُرَفِّه عَلَى اللَّاغِبِ - ولْيَسْتَأْنِ بِالنَّقِبِ والظَّالِعِ - ولْيُورِدْهَا مَا تَمُرُّ بِه مِنَ الْغُدُرِ - ولَا يَعْدِلْ بِهَا عَنْ نَبْتِ الأَرْضِ إِلَى جَوَادِّ الطُّرُقِ - ولْيُرَوِّحْهَا فِي السَّاعَاتِ - ولْيُمْهِلْهَا عِنْدَ النِّطَافِ والأَعْشَابِ - حَتَّى تَأْتِيَنَا بِإِذْنِ اللَّه بُدَّناً مُنْقِيَاتٍ - غَيْرَ مُتْعَبَاتٍ ولَا مَجْهُودَاتٍ - لِنَقْسِمَهَا عَلَى كِتَابِ اللَّه وسُنَّةِ نَبِيِّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَإِنَّ ذَلِكَ أَعْظَمُ لأَجْرِكَ - وأَقْرَبُ لِرُشْدِكَ إِنْ شَاءَ اللَّه

(۲۶)

ومن عهد لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله - وقد بعثه على الصدقة

أَمَرَه بِتَقْوَى اللَّه فِي سَرَائِرِ أَمْرِه وخَفِيَّاتِ عَمَلِه - حَيْثُ لَا شَهِيدَ غَيْرُه ولَا وَكِيلَ دُونَه - وأَمَرَه أَلَّا يَعْمَلَ بِشَيْءٍ مِنْ طَاعَةِ اللَّه فِيمَا ظَهَرَ - فَيُخَالِفَ إِلَى غَيْرِه فِيمَا أَسَرَّ - ومَنْ لَمْ يَخْتَلِفْ سِرُّه وعَلَانِيَتُه وفِعْلُه ومَقَالَتُه - فَقَدْ أَدَّى الأَمَانَةَ وأَخْلَصَ الْعِبَادَةَ.

میں بھی شدت سے کام نہ لے اور اس کے اوردوسری اونٹنیوں کے درمیان عدل و مساوات سے کام لے۔تھکے ماندے اونٹ کو دم لینے کاموقع دے اورجس کے کھر گھس گئے ہوں یا پائوں شکستہ ہوں ان کے ساتھ نرمی کا برتائو کرے۔راستے میں تالاب پڑیں تو انہیں پانی پینے کے لئے لے جائے اور سر سبز راستوں کو چھوڑ کربے آب و گیاہ راستوں پر نہ لے جائے وقتا ً فوقتاً آرام دیتا رہے اور پانی اورسبزہ کے مقامات پر ٹھہرنے کی مہلت دے یہاں تک کہ ہمارے پاس اس عالم میں پہنچیں توحکم خدا سے تندرست و تگڑے ہوں۔تھکے ماندے اوردرماندہ نہ ہوں تاکہ ہم کتاب خدا اورسنت رسول (ص) کے مطابق انہیں تقسیم کرسکیں کہ یہ بات تمہارے لئے بھی اجر عظیم کا باعث اور ہدایت سے قریب تر ہے ۔انشاء اللہ

(۲۶)

آپ کا عہد نامہ

(بعض عمال کے لئے جنہیں صدقات کی جمع آوری کے لئے روانہ فرمایا تھا )

میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ اپنے پوشیدہ اموراورمخفی اعمال میں بھی اللہ سے ڈرتے رہیں جہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا گواہ اورنگراں نہیں وتا ہے اورخبردار ایسا نہ ہو کہ ظاہری معاملات میں خدا کی اطاعت کریں اورمخفی مسائل میں اس کی مخالفت کریں۔اس لئے کہ جس کے ظاہر وباطن اور فعل و قول میں اختلاف نہیں ہوتا ہے وہی امانت الٰہی کا ادا کرنے والا اورعبادت الٰہی میں مخلص ہوتا ہے۔

۵۰۱

وأَمَرَه أَلَّا يَجْبَهَهُمْ ولَا يَعْضَهَهُمْ - ولَا يَرْغَبَ عَنْهُمْ تَفَضُّلًا بِالإِمَارَةِ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّهُمُ الإِخْوَانُ فِي الدِّينِ - والأَعْوَانُ عَلَى اسْتِخْرَاجِ الْحُقُوقِ.

وإِنَّ لَكَ فِي هَذِه الصَّدَقَةِ نَصِيباً مَفْرُوضاً وحَقّاً مَعْلُوماً - وشُرَكَاءَ أَهْلَ مَسْكَنَةٍ وضُعَفَاءَ ذَوِي فَاقَةٍ - وإِنَّا مُوَفُّوكَ حَقَّكَ فَوَفِّهِمْ حُقُوقَهُمْ - وإِلَّا تَفْعَلْ فَإِنَّكَ مِنْ أَكْثَرِ النَّاسِ خُصُوماً يَوْمَ الْقِيَامَةِ،وبُؤْسَى لِمَنْ خَصْمُه عِنْدَ اللَّه الْفُقَرَاءُ والْمَسَاكِينُ - والسَّائِلُونَ والْمَدْفُوعُونَ والْغَارِمُونَ وابْنُ السَّبِيلِ - ومَنِ اسْتَهَانَ بِالأَمَانَةِ ورَتَعَ فِي الْخِيَانَةِ - ولَمْ يُنَزِّه نَفْسَه ودِينَه عَنْهَا - فَقَدْ أَحَلَّ بِنَفْسِه الذُّلَّ والْخِزْيَ فِي الدُّنْيَا - وهُوَ فِي الآخِرَةِ أَذَلُّ وأَخْزَى - وإِنَّ أَعْظَمَ الْخِيَانَةِ خِيَانَةُ الأُمَّةِ - وأَفْظَعَ الْغِشِّ غِشُّ الأَئِمَّةِ والسَّلَامُ.

اور پھر حکم دیتا ہوں کہ خبر دار لوگوں سے برے طریقہ سے پیش نہ آئیں۔اور انہیں پریشان نہ کریں اور نہ ان سے اظہار اقتدار کے لئے کنارہ کشی کریں کہ بہرحال یہ سب بھی دینی بھائی ہیں اورحقوق کی ادائیگی میں مدد کرنے والے ہیں۔

دیکھو ان صدقات میں تمہارا حصہ معین ہے اور تمہارا حق معلوم ہے ۔لیکن فقراء و مساکین اورفاقہ کش افراد بھی اس حق میںتمہارے شریک ہیں۔ہم تمہیں تمہارا پورا حق دینے والے ہیں ۔لہٰذا تمہیں بھی ان کا پورا حق دینا ہوگا کہ اگر ایسا نہیں کروگے تو قیامت کے دن سب سے زیادہ دشمن تمہارے ہوں گے اور سب سے زیادہ بد بختی اسی کے لئے ہے جس کے دشمن بارگاہ الٰہی میں فقرار مساکین(۱) ، سائلین،محرو مین، مقروض اور غربت زدہ مسافر ہوں اور جس شخص نے بھی امانت کو معمولی تصور کیا اورخیانت کی چراگاہ میں داخل ہوگیا اوراپنے نفس اور دین کی خیانت کاری سے نہیں بچایا۔اس نے دنیا میں بھی اپنے کوذلت اور رسوائی کی منزل میں اتار دیا اورآخرت میں تو ذلت و رسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اور یاد رکھو کہ بد ترین خیانت امت کےساتھ خیانت ہے اوربد ترین فریب کاری سربراہ دین کے ساتھ فریب کاری کا برتائو ہے۔

(۱)کاش دنیا کے تمام حکام کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ فقراء و مساکین اس دنیا میں بے آسرا اوربے سہارا ہیں لیکن آخرت میں ان کا بھی والی و وارث موجود ہے اور وہاں کسی صاحب اقتدار کا اقتدار کامآنے والا نہیں ہے۔عدالت الہیہ میں شخصیات کا کوئی اثر نہیں ہے ہر شخص کو اپنے اعمال کاحساب دینا ہوگا اوراس کے مواخذہ اور محاسب کا سامنا کرنا ہوگا۔وہاں نہ کسی کی کرسی کام آسکتی ہے اور نہ کسی کا تخت وتاج۔ افراد کے ساتھ خیانت تو برداشت بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ انفرادی معاملہ ہوتا ہے اور اسے افراد معاف کر سکتے ہیں لیکن قوم و ملت کے ساتھ خیانت ناقابل برداشت ہے کہ اس کی مدعی تمام امت ہوگی اوراتنے بڑے مقدمہ کاسامنا کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں ہے ۔

۵۰۲

(۲۷)

ومن عهد لهعليه‌السلام

إلى محمد بن أبي بكررضي‌الله‌عنه - حين قلده مصر

فَاخْفِضْ لَهُمْ جَنَاحَكَ وأَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ - وابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ وآسِ بَيْنَهُمْ فِي اللَّحْظَةِ والنَّظْرَةِ - حَتَّى لَا يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيْفِكَ لَهُمْ - ولَا يَيْأَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى يُسَائِلُكُمْ مَعْشَرَ عِبَادِه - عَنِ الصَّغِيرَةِ مِنْ أَعْمَالِكُمْ والْكَبِيرَةِ والظَّاهِرَةِ والْمَسْتُورَةِ - فَإِنْ يُعَذِّبْ فَأَنْتُمْ أَظْلَمُ وإِنْ يَعْفُ فَهُوَ أَكْرَمُ.

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ الْمُتَّقِينَ ذَهَبُوا بِعَاجِلِ الدُّنْيَا وآجِلِ الآخِرَةِ - فَشَارَكُوا أَهْلَ الدُّنْيَا فِي دُنْيَاهُمْ - ولَمْ يُشَارِكُوا أَهْلَ الدُّنْيَا فِي آخِرَتِهِمْ - سَكَنُوا الدُّنْيَا بِأَفْضَلِ مَا سُكِنَتْ وأَكَلُوهَا بِأَفْضَلِ مَا أُكِلَتْ - فَحَظُوا مِنَ الدُّنْيَا بِمَا حَظِيَ بِه الْمُتْرَفُونَ - وأَخَذُوا مِنْهَا مَا أَخَذَه الْجَبَابِرَةُ

(۲۷)

آپ کا عہد نامہ

(محمد بن ابی بکرکے نام ۔جب انہیں مصر کا حاکم بنایا گیا )

لوگوں کے سامنے اپنیشانوں کو جھکا دینا اور اپنے برتائوکونرم رکھنا۔کشادہ روئی سے پیش آنا اور نگاہ وہ نظر میں بھی سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا تاکہ بڑے آدمیوں کو یہ خیال نہ پیدا ہو جائے کہ تم ان کے مفاد میں ظلم کر سکتے ہو اور کمزوروں کو تمہارے انصاف کی طرف سے مایوسی نہ ہو جائے ۔پروردگار روز قیامت تمام بندوں سے ان کے تمام چھوٹے اور بڑے ظاہر اورمخفی اعمال کے بارے میں محاسبہ کرے گا۔اس کے بعد اگروہ عذاب کرے گا تو تمہارے ظلم کانتیجہ ہوگا اور اگر معاف کردے گا تو اس کے کرم کا نتیجہ ہوگا۔

بندگان خدا! یادرکھو کہ پرہیز گار افراد دنیا اورآخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہو سکے ۔وہ دنیا میں بہترین انداز(۱) سے زندگی گزارتے رہے۔جو سب نے کھایا اس سے اچھا پاکیزہ کھاناکھایا اور وہتمام لذتیں حاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اوروہ سب کچھ پالیا جو جابر

(۱)بہترین زندگی سے مراد قصر شاہی میں قیام اورلذیذ ترین غذائیں نہیں ہیں ۔بہترین زندگی سے مراد وہ تمام اسباب ہیں جن سے زندگی گزر جائے اور انسان کسی حرام اورناجائز کام میں مبتلا نہ ہو۔

۵۰۳

الْمُتَكَبِّرُونَ - ثُمَّ انْقَلَبُوا عَنْهَا بِالزَّادِ الْمُبَلِّغِ والْمَتْجَرِ الرَّابِحِ - أَصَابُوا لَذَّةَ زُهْدِ الدُّنْيَا فِي دُنْيَاهُمْ - وتَيَقَّنُوا أَنَّهُمْ جِيرَانُ اللَّه غَداً فِي آخِرَتِهِمْ - لَا تُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَةٌ ولَا يَنْقُصُ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنْ لَذَّةٍ - فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه الْمَوْتَ وقُرْبَه - وأَعِدُّوا لَه عُدَّتَه - فَإِنَّه يَأْتِي بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وخَطْبٍ جَلِيلٍ - بِخَيْرٍ لَا يَكُونُ مَعَه شَرٌّ أَبَداً - أَوْ شَرٍّ لَا يَكُونُ مَعَه خَيْرٌ أَبَداً - فَمَنْ أَقْرَبُ إِلَى الْجَنَّةِ مِنْ عَامِلِهَا - ومَنْ أَقْرَبُ إِلَى النَّارِ مِنْ عَامِلِهَا - وأَنْتُمْ طُرَدَاءُ الْمَوْتِ - إِنْ أَقَمْتُمْ لَه أَخَذَكُمْ وإِنْ فَرَرْتُمْ مِنْه أَدْرَكَكُمْ - وهُوَ أَلْزَمُ لَكُمْ مِنْ ظِلِّكُمْ - الْمَوْتُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِيكُمْ والدُّنْيَا تُطْوَى مِنْ خَلْفِكُمْ - فَاحْذَرُوا نَاراً قَعْرُهَا بَعِيدٌ وحَرُّهَا شَدِيدٌ وعَذَابُهَا جَدِيدٌ -

اورمتکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے اس کے بعد وہ زاد راہ لے کر گئے جو منزل تک پہنچا دے اور وہ تجارتکرکے گئے جس میں فائدہ ہی فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اوریہ یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے ۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی۔ بندگان خدا! موت اوراس کے قریب سے ڈرو اور اس کے لئے سرو سامان مہیا کرلو۔کہ وہ ایک عظیم امر اوربڑے حادثہ کے ساتھ آنے والی ہے ۔ایسے خیر کے ساتھ جس میں کوئی شر(۱) نہ ہویا ایسے شر کے ساتھ جس میں کوئی خیر نہ ہو۔جنت یا جہنم کی طرف ان کے لئے عمل کرنے والوں سے زیادہ قریب تر کون ہو سکتا ہے۔تم وہ ہو جس کا موت مسلسل پیچھا کئے ہوئے ہیں۔تم ٹھہرجائو گے تب بھی تمہیں پکڑ لے گی اور فرار کرو گے تب بھی اپنی گرفت میں لے لے گی ۔وہ تمہارے ساتھ تمہارے سایہ سے زیادہ چپکی ہوئی ہے۔اسے تمہاری پیشانیوں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے اور دنیا تمہارے پیچھے سے برابر لپیٹی جارہی ہے۔اس جہنم سے ڈرو جس کی گہرائی بہت دور تک ہے اوراس کی گرمی بے حد شدید ہے اور اس کا عذاب بھی برابر تازہ بہ تازہ ہوتا رہے گا۔

(۱)اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ آخرتمیں یا صرف خیر ہے یا صرف شراور مخلوط اعمال والوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔مقصد صرف یہ ہے کہ آخرت کے ثواب و عذاب کا فلسفہ یہی ہے کہ اس میں کسی طرح کا اختلاط و امتزاج نہیں ہے۔دنیا کے ہر آرام میں تکلیف شامل ہے اور ہر تکلیف میں آرام کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہے لیکن آخرت میں عذاب کا ایک لمحہ بھی وہ ہے جس میں کسی راحت کا تصور نہیں ہے اور ثواب کا ایک لمحہ بھی وہ ہے جس میں کسی تکلیف کا کوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس عذاب سے ڈرے اوراس ثواب کا انتظام کرے ۔

۵۰۴

دَارٌ لَيْسَ فِيهَا رَحْمَةٌ - ولَا تُسْمَعُ فِيهَا دَعْوَةٌ ولَا تُفَرَّجُ فِيهَا كُرْبَةٌ - وإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ يَشْتَدَّ خَوْفُكُمْ مِنَ اللَّه - وأَنْ يَحْسُنَ ظَنُّكُمْ بِه فَاجْمَعُوا بَيْنَهُمَا - فَإِنَّ الْعَبْدَ إِنَّمَا يَكُونُ حُسْنُ ظَنِّه بِرَبِّه - عَلَى قَدْرِ خَوْفِه مِنْ رَبِّه - وإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ ظَنّاً بِاللَّه أَشَدُّهُمْ خَوْفاً لِلَّه.

واعْلَمْ يَا مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ - أَنِّي قَدْ وَلَّيْتُكَ أَعْظَمَ أَجْنَادِي فِي نَفْسِي أَهْلَ مِصْرَ - فَأَنْتَ مَحْقُوقٌ أَنْ تُخَالِفَ عَلَى نَفْسِكَ - وأَنْ تُنَافِحَ عَنْ دِينِكَ - ولَوْ لَمْ يَكُنْ لَكَ إِلَّا سَاعَةٌ مِنَ الدَّهْرِ - ولَا تُسْخِطِ اللَّه بِرِضَا أَحَدٍ مِنْ خَلْقِه - فَإِنَّ فِي اللَّه خَلَفاً مِنْ غَيْرِه - ولَيْسَ مِنَ اللَّه خَلَفٌ فِي غَيْرِه.

صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا الْمُؤَقَّتِ لَهَا - ولَا تُعَجِّلْ وَقْتَهَا لِفَرَاغٍ - ولَاتُؤَخِّرْهَا عَنْ وَقْتِهَا لِاشْتِغَالٍ - واعْلَمْ أَنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ عَمَلِكَ تَبَعٌ لِصَلَاتِكَ.

ومِنْه - فَإِنَّه لَا سَوَاءَ إِمَامُ الْهُدَى وإِمَامُ الرَّدَى - ووَلِيُّ النَّبِيِّ وعَدُوُّ النَّبِيِّ - ولَقَدْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِنِّي لَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي مُؤْمِناً

وہ گھر ایسا ہے جہاں نہ رحمت کا گذر ہے اور نہ وہاں کوئی فریاد سنی جاتی ہے اور نہ کسی رنج و غم کی کشائش کا کوئی امکان ہے اگر تم لوگ یہ کرس کتے ہو کہ تمہارے دل میں خوف خدا شدید ہو جائے اورتمہیں اس سے حسن ظن حاصل ہو جائے تو ان دونوں کوجمع کرلو کہ بندہ کا حسن ظن اتنا ہی ہوتا ہے جتناخوف خدا ہوتاہے اوربہترین حسن ظن رکھنے والا وہی ہے جس کے دل میں شدید ترین خوف خدا پایا جاتا ہو ۔

محمد بن ابی بکر ! یاد رکھو کہ میں نے تم کو اپنے بہترین لشکر۔اہل مصر پر حاکم قراردیاہے ۔اب تم سے مطالبہ یہ ہے کہ اپنے نفس کی مخالفت کرنااور اپنے دین کی حفاظت کرنا چاہے تمہارے لئے دنیا میں صرف ایک ہی ساعت باقی رہ جائے اور کسی مخلوق کو خوش کرکے خالق کوناراض نہ کرنا کہ خدا ہر ایک کے بدلے کام آسکتا ہے لیکن اس کے بدلے کوئی کام نہیں آسکتا ہے۔

نماز اس کے مقررہ اوقات میں ادا کرنا۔نہ ایسا ہو کہ فرصت حاصل کرنے کے لئے پہلے ادا کرلو اور نہ ایسا ہو کہ مشغولیت کی بنا پر تاخیر کردو۔یاد رکھو کہ تمہارے ہر عمل کو نماز کا پابند ہونا چاہیے ۔

یاد رکھو کہ امام ہدایت اور پیشوا ئے ہلاکت ایک جیسے نہیں ہو سکتے ہیں۔نبی کا دوست اور دشمن یکساں نہیں ہوتا ہے۔رسول اکرم (ص) نے خود مجھ سے فرمایا ہے کہ ''میں اپنی امت کے بارے میں نہ کسی مومن سے خوفزدہ

۵۰۵

ولَا مُشْرِكاً - أَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَمْنَعُه اللَّه بِإِيمَانِه - وأَمَّا الْمُشْرِكُ فَيَقْمَعُه اللَّه بِشِرْكِه - ولَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ كُلَّ مُنَافِقِ الْجَنَانِ - عَالِمِ اللِّسَانِ - يَقُولُ مَا تَعْرِفُونَ ويَفْعَلُ مَا تُنْكِرُونَ.

(۲۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية جوابا قال الشريف: وهو من محاسن الكتب

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَانِي كِتَابُكَ - تَذْكُرُ فِيه اصْطِفَاءَ اللَّه مُحَمَّداً صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لِدِينِه - وتَأْيِيدَه إِيَّاه لِمَنْ أَيَّدَه مِنْ أَصْحَابِه - فَلَقَدْ خَبَّأَ لَنَا الدَّهْرُ مِنْكَ عَجَباً - إِذْ طَفِقْتَ تُخْبِرُنَا بِبَلَاءِ اللَّه تَعَالَى عِنْدَنَا - ونِعْمَتِه عَلَيْنَا فِي نَبِيِّنَا - فَكُنْتَ فِي ذَلِكَ كَنَاقِلِ التَّمْرِ إِلَى هَجَرَ - أَوْ دَاعِي مُسَدِّدِه إِلَى النِّضَالِ - وزَعَمْتَ أَنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ فِي الإِسْلَامِ فُلَانٌ وفُلَانٌ -

ہوں اورنہ مشرک سے۔مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اورمشرک کو اس کے شرک کی بنا پرمغلوب کردے گا سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم ہوں اوردل کے منافق کہتے وہی ہیں جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہ ہیں جسے تم برا سمجھتے ہو۔

(۲۸)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے خط کے جواب میں جو بقول سید رضی آپ کا بہترین خط)

امابعد!میرے پاس تمہارا خطآیا ہےجدجسےتم نےرسولاکرم کے دین خداکےلئےمنتخب ہونےاورآپکے پروردگارکی طرفسے اصحاب کےذریعہ مویدہونےکاذکرکیاہےلیکن یہ توایک بڑی عجیب و غریب بات ہےجو زمانےنےتمہارےطرف چھپا کررکھی تھی کہ تم ہم کو ان احسانات کی اطلاع دے رہے ہو جو پروردگارنےہمارےہی ساتھ کئے ہیں اوراس نعمت کی خبردےرہےہوجو ہمارےہی پیغمبر(ص) کوملی ہےگویاکہ تم مقام ہجرکی طرف خرمےبھیج رہےہویا استادکو تیراندازی کی دعوت دےرہےہواسکےبعدتمہاراخیال ہےکہ فلاں(۱)

(۱)معاویہ نے یہ خط ابو امامہ باہلی کے ذریعہ بھیجا تھا اور اس میں متعدد مسائل کی طرف اشارہ کیا تھا۔سب سے بڑا مسئلہ حضرات شیخین کے فضائل کا تھا کہ حضرت علی کے ساتھ اکثریت انہیں افراد کی تھی جو آپ کو سلسلہ سے چوتھا خلیفہ تسلیم کرتے تھے۔اب اگر آپ ان کے باے میں اپنی صحیح رائے کا اظہار کردیں تو قوم بد ظن ہو جائے گی اور معاشرہ میں ایک نیا فتنہ کھڑا ہو جائے گا اوراگر ان کے فضائل کا اقرار کرلیں تو گویا ان تمام کلمات کی تکذیب کردی جو کل تک اپنی فضیلت یا مظلومیت کے بارے میں بیان کرتے تھے حضرت نے اس حساس صورت حالکا بخوبی اندازہ کرلیا اورواضح جواب دینے کے بجائے معاویہ کو اس مسئلہ سے الگ رہنے کی تلقین فرمائی اور سے اس کی اوقات سے بھی با خبر کردیا کہ یہ مسئلہ صدر اسلام کا ہے اور اس وقت تو تمہارا باپ بھی مسلمان نہیں تھا تمہارا کیا ذکر ہے؟ لہٰذا ایسے مسائل میں تمہیں رائے دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔البتہ یہ بہر حال ثابت ہو جاتا ہے کہ ان فضائل میں تمہارے خاندان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

۵۰۶

فَذَكَرْتَ أَمْراً إِنْ تَمَّ اعْتَزَلَكَ كُلُّه - وإِنْ نَقَصَ لَمْ يَلْحَقْكَ ثَلْمُه - ومَا أَنْتَ والْفَاضِلَ والْمَفْضُولَ والسَّائِسَ والْمَسُوسَ - ومَا لِلطُّلَقَاءِ وأَبْنَاءِ الطُّلَقَاءِ - والتَّمْيِيزَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ - وتَرْتِيبَ دَرَجَاتِهِمْ وتَعْرِيفَ طَبَقَاتِهِمْ - هَيْهَاتَ لَقَدْ حَنَّ قِدْحٌ لَيْسَ مِنْهَا - وطَفِقَ يَحْكُمُ فِيهَا مَنْ عَلَيْه الْحُكْمُ لَهَا - أَلَا تَرْبَعُ أَيُّهَا الإِنْسَانُ عَلَى ظَلْعِكَ - وتَعْرِفُ قُصُورَ ذَرْعِكَ - وتَتَأَخَّرُ حَيْثُ أَخَّرَكَ الْقَدَرُ - فَمَا عَلَيْكَ غَلَبَةُ الْمَغْلُوبِ ولَا ظَفَرُ الظَّافِرِ.

وإِنَّكَ لَذَهَّابٌ فِي التِّيه رَوَّاغٌ عَنِ الْقَصْدِ - أَلَا تَرَى غَيْرَ مُخْبِرٍ لَكَ - ولَكِنْ بِنِعْمَةِ اللَّه أُحَدِّثُ - أَنَّ قَوْماً اسْتُشْهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّه تَعَالَى مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - ولِكُلٍّ فَضْلٌ - حَتَّى إِذَا اسْتُشْهِدَ شَهِيدُنَا قِيلَ سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ - وخَصَّه رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِسَبْعِينَ تَكْبِيرَةً عِنْدَ صَلَاتِه عَلَيْه - أَولَا تَرَى أَنَّ قَوْماً قُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّه - ولِكُلٍّ

اورفلاں افراد سے بہتر تھے تو یہ تو ایسی بات ہے کہ اگر ایسی بات ہے کہ اگر صیح بھی ہو تو اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر غلط بھی ہو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔تمہارا اس فاضل و مفضول، حاکم و رعایا کے مسئلہ سے کیاتعلق ہے۔بھلا آزاد کردہ اور ان کی اولاد کومہاجرین اولین کے درمیان امتیاز قائم کرنے۔ان کے درجات کا تعین کرنے اور ان کے طبقات کے پہنچوانے کا حق کیا ہے(یہ تو اس وقت مسلمان بھی نہیں تھے ) افسوس کہ جوئے کے تیروں کے ساتھ باہر کے تیر بھی آواز نکالنے لگے اور مسائل میں و لوگ بھی کرنے لگے جن کے خلاف خود ہی فیصلہ ہونے والا ہے۔اے شخص تو اپنے لنگڑے پن کو دیکھ کر اپنی حد پرٹھہرتاکیوں نہیں ہے اور اپنی کوتاہ دستی کو سمجھتا کیوں نہیں ہے اور جہاں قضا و قدر نے تجھے رکھ دیا ہے وہیں پیچھے ہٹ کرجاتا کیوں نہیں ہے۔تجھے کسی مغلوب کی شکست یا غالب کی فتح سے کیا تعلق ہے۔

تو تو ہمیشہ گمراہیوں میں ہاتھ پائوں مارنے والا اوردرمیانی راہسے انحراف کرنے والا ہے۔میں تجھے با خبر نہیں کررہا ہوں بلکہ نعمتخدا کا تذکرہ کر رہا ہوں ورنہ کیا تجھے نہیں معلوم ہے کہ مہاجرین وانصار کی ایک بڑی جماعت نے راہ خدا میں جانیں دی ہیں اور سب صاحبان فضل ہیں لیکن جب ہمارا کوئی شہید ہوا ہے تو اسے سید الشہدا کہا گیا ہے اور رسول اکرم (ص) نے اس کے جنازہ کی نمازمیں ستر تکبیریں کہی ہیں۔اسی طرح تجھے معلوم ہے کہ راہ خدا میں بہت سوں کے ہاتھ کٹے ہیں اورصاحبان

۵۰۷

فَضْلٌ - حَتَّى إِذَا فُعِلَ بِوَاحِدِنَا مَا فُعِلَ بِوَاحِدِهِمْ - قِيلَ الطَّيَّارُ فِي الْجَنَّةِ وذُو الْجَنَاحَيْنِ - ولَوْ لَا مَا نَهَى اللَّه عَنْه مِنْ تَزْكِيَةِ الْمَرْءِ نَفْسَه - لَذَكَرَ ذَاكِرٌ فَضَائِلَ جَمَّةً تَعْرِفُهَا قُلُوبُ الْمُؤْمِنِينَ - ولَا تَمُجُّهَا آذَانُ السَّامِعِينَ - فَدَعْ عَنْكَ مَنْ مَالَتْ بِه الرَّمِيَّةُ - فَإِنَّا صَنَائِعُ رَبِّنَا والنَّاسُ بَعْدُ صَنَائِعُ لَنَا - لَمْ يَمْنَعْنَا قَدِيمُ عِزِّنَا - ولَا عَادِيُّ طَوْلِنَا عَلَى قَوْمِكَ أَنْ خَلَطْنَاكُمْ بِأَنْفُسِنَا - فَنَكَحْنَا وأَنْكَحْنَا - فِعْلَ الأَكْفَاءِ ولَسْتُمْ هُنَاكَ - وأَنَّى يَكُونُ ذَلِكَ ومِنَّا النَّبِيُّ ومِنْكُمُ الْمُكَذِّبُ - ومِنَّا أَسَدُ اللَّه ومِنْكُمْ أَسَدُ الأَحْلَافِ - ومِنَّا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ومِنْكُمْ صِبْيَةُ النَّارِ - ومِنَّا خَيْرُ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ومِنْكُمْ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ - فِي كَثِيرٍ مِمَّا لَنَا وعَلَيْكُمْ.

فَإِسْلَامُنَا قَدْ سُمِعَ وجَاهِلِيَّتُنَا لَا تُدْفَعُ - وكِتَابُ اللَّه يَجْمَعُ لَنَا مَا شَذَّ عَنَّا -

شرف ہیں لیکن جب ہمارے آدمی کے ہاتھ کاٹے گئے تواسے جنت میں طیار اورذوالجناحین بنادیا گیا اور اگر پروردگار نے اپنے منہ سے اپنی تعریف سے منع نہ کیا ہو تو بیان کرنے والا بے شمار فضائل بیان کرتا جنہیں صاحبان ایمان کے دل پہچانتے ہیں اور سننے والوں کے کان بھی الگ نہیں کرنا چاہتے چھوڑو ان کاذکر جن کا تیرنشانہسے خطا کرنے والا ہے۔ہمیں دیکھو جو پروردگار کے براہ راست ساختہ پر داختہ ہیں اورباقی لوگ ہمارے احسانات کا نتیجہ ہیں ہماری قدیمی عزت اور تمہاری قوم پر برتری ہمارے لئے اس امر سے مانع نہیں ہوئی کہ ہم نے تم کو اپنے ساتھ شامل کرلیا تو تم سے رشتے(۱) لئے اور تمہیں رشتے دئیے جو عام سے برابر کے لوگوں میں کیا جاتا ہے اور تم ہمارے برابر کے نہیں ہو اور ہو بھی کس طرح سکتے ہو جب کہ ہم میں سے رسول اکرم (ص) ہیں اور تم میں سے ان کی تکذیب کرنے والا۔ہم میں اسد اللہ ہیں اور تم میں اسد الاحلاف۔ہم میں سرداران جوانان جنت ہیں اورتم میں جہنمی لڑکے۔ہم میں سیدة نساء العالمین ہیں اور تم میں حمالتہ الحطب اور ایسی بے شمار چیزیں ہی جوہمارے حق میں ہیں اور تمہارے خلاف۔ ہمارا اسلام بھی مشہور ہے اور ہمارا قبل اسلام کاشرف بھی نا قابل انکار ہے اور کتاب خدا نے ہمارے منتشر اوصاف کو جمع کردیا ہے۔یہ کہہ کر کہ

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اپنے ہاتھ کی پروردہ لڑکیوں کا عقد بنی امیہ میں کردیا اور ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے خود عقد کرلیا حالانکہ عام طور سے لوگ رشتوں کے لئے برابری تلاش کرتے ہیں۔مگر چونکہ اسلام نے ظاہری کلمہ کو کافی قراردیا ہے لہٰذا ہم نے بھی رشتہ داری قائم کرلی او ر تمہاری اوقات کا خیال نہیں کیا تاکہ مذہب سماج پر حاکم رہے اور سماج مذہب پرحکومت نہ کرنے پائے ۔

۵۰۸

وهُوَ قَوْلُه سُبْحَانَه وتَعَالَى -( وأُولُوا الأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ الله ) - وقَوْلُه تَعَالَى:( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوه - وهذَا النَّبِيُّ والَّذِينَ آمَنُوا - والله وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ) - فَنَحْنُ مَرَّةً أَوْلَى بِالْقَرَابَةِ وتَارَةً أَوْلَى بِالطَّاعَةِ - ولَمَّا احْتَجَّ الْمُهَاجِرُونَ عَلَى الأَنْصَارِ - يَوْمَ السَّقِيفَةِ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَجُوا عَلَيْهِمْ - فَإِنْ يَكُنِ الْفَلَجُ بِه فَالْحَقُّ لَنَا دُونَكُمْ - وإِنْ يَكُنْ بِغَيْرِه فَالأَنْصَارُ عَلَى دَعْوَاهُمْ. وزَعَمْتَ أَنِّي لِكُلِّ الْخُلَفَاءِ حَسَدْتُ وعَلَى كُلِّهِمْ بَغَيْتُ - فَإِنْ يَكُنْ ذَلِكَ كَذَلِكَ فَلَيْسَتِ الْجِنَايَةُ عَلَيْكَ - فَيَكُونَ الْعُذْرُ إِلَيْكَ. وتِلْكَ شَكَاةٌ ظَاهِرٌ عَنْكَ عَارُهَا

وقُلْتَ إِنِّي كُنْتُ أُقَادُ - كَمَا يُقَادُ الْجَمَلُ الْمَخْشُوشُ حَتَّى أُبَايِعَ؛ ولَعَمْرُ اللَّه لَقَدْ أَرَدْتَ أَنْ تَذُمَّ فَمَدَحْتَ - وأَنْ تَفْضَحَ فَافْتَضَحْتَ - ومَا عَلَى الْمُسْلِمِ مِنْ غَضَاضَةٍ فِي أَنْ يَكُونَ مَظْلُوماً - مَا لَمْ يَكُنْ شَاكَّاً فِي دِينِه

''قرابت دار بعض بعض کے لئے اولیٰ ہیں '' اور یہ کہہ کر کہ '' ابراہیم کے لئے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا اتباع کیا ہے اور پیغمبر (ص) اور صاحبان ایمان اور اللہ صاحبان ایمان کاولی ہے '' یعنی ہم قرابت کے اعتبارسے بھی اولیٰ ہیں اوراطاعت و اتباع کے اعتبار سے بھی اس کے بعد جب مہاجرین نے انصار کے خلاف روز سقیفہ قرابت پیغمبر(ص) سے استدلال کیا اور کامیاب بھی ہوگئے ۔تواگر کامیابی کا راز یہی ہے تو حق ہمارے ساتھ ہے نہ کہ تمہارے ساتھ اوراگر کوئی اور دلیل ہے تو انصار کا دعویٰ باقی ہے۔

تمہارا خیال ہے کہ میں تمام خلفاء سے حسد رکھتا ہوں اورمیں نے سب کے خلاف بغاوت کی ہے تو اگر یہ صحیح بھی ہے تو اس کاظلم تم پر نہیں ہے کہ تم سے معذرت کی جائے ( یہ وہ غلطی ہے جس سے تم پر کوئی حرف نہیں آتا) بقول شاعر

اورتمہارا یہ کہنا کہ میں اس طرح کھینچا جا رہا تھا جس طرح نکیل ڈال کر اونٹ کو کھینچا جاتا ہے تاکہ مجھ سے بیعت لی جائے تو خدا کی قس تم نے میری مذمت کرنا چاہی اور نا دانستہ طور پر تعریف کر بیٹھے اور مجھے رسوا کرنا چاہا تھا مگرخودرسوا ہوگئے ۔

مسلمان کے لئے اس بات میں کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ مظلوم ہو جائے جب تک کہ وہ دین کے معاملہ میں شک میں مبتلا نہ ہو اور اس کا یقین شبہ میں نہ پڑ

۵۰۹

ولَا مُرْتَاباً بِيَقِينِه - وهَذِه حُجَّتِي إِلَى غَيْرِكَ قَصْدُهَا - ولَكِنِّي أَطْلَقْتُ لَكَ مِنْهَا بِقَدْرِ مَا سَنَحَ مِنْ ذِكْرِهَا.

ثُمَّ ذَكَرْتَ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِي وأَمْرِ عُثْمَانَ - فَلَكَ أَنْ تُجَابَ عَنْ هَذِه لِرَحِمِكَ مِنْه - فَأَيُّنَا كَانَ أَعْدَى لَه وأَهْدَى إِلَى مَقَاتِلِه أَمَنْ بَذَلَ لَه نُصْرَتَه فَاسْتَقْعَدَه واسْتَكَفَّه - أَمْ مَنِ اسْتَنْصَرَه فَتَرَاخَى عَنْه وبَثَّ الْمَنُونَ إِلَيْه - حَتَّى أَتَى قَدَرُه عَلَيْه - كَلَّا واللَّه لَاَّه( قَدْ يَعْلَمُ الله الْمُعَوِّقِينَ مِنْكُمْ - والْقائِلِينَ لإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا - ولا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا ) -.

ومَا كُنْتُ لأَعْتَذِرَ مِنْ أَنِّي كُنْتُ أَنْقِمُ عَلَيْه أَحْدَاثاً - فَإِنْ كَانَ الذَّنْبُ إِلَيْه إِرْشَادِي وهِدَايَتِي لَه - فَرُبَّ مَلُومٍ لَا ذَنْبَ لَه -

وقَدْ يَسْتَفِيدُ الظِّنَّةَ الْمُتَنَصِّحُ

ومَا أَرَدْتُ( إِلَّا الإِصْلاحَ مَا اسْتَطَعْتُ - وما تَوْفِيقِي إِلَّا بِالله عَلَيْه تَوَكَّلْتُ وإِلَيْه أُنِيبُ )

وذَكَرْتَ أَنَّه لَيْسَ لِي ولأَصْحَابِي عِنْدَكَ

جائے۔میری دلیل اصل میں دوسروں کے مقابلہ میں ہے لیکن جس قدر مناسب تھا میں نے تم سے بھی بیان کردیا۔

اس کے بعد تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ذکرکیا ہے تو اس میں تمہارا حق ہے کہ تمہیں جواب دیا جائے اس لئے کہ تم ان کے قرابت دار ہو لیکن یہ سچ سچ بتائو کہ ہم دونوں میں ان کا زیادہ دشمن کون تھا اورکس نے ان کے قتل کا سامان فراہم کیا تھا۔اسنے جس نے نصرت کی پیشکش کی اوراسے بٹھا دیا گیا اور روکدیا گیا یا اسنے جس سے نصرت کا مطالبہ کیاگیا اور اس نے سستی برتی اورموت کا رخ ان کی طرف موڑ دیا۔یہاں تک کہ قضا و قدرنے اپنا کام پورا کردیا۔خدا کی قسم میں ہرگز اس کا مجرم نہیں ہوں اور اللہ ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو روکنے والے تھے اور اپنے بھائیوں سے کہہ رہے تھے کہ ہماری طرف چلے آئو اور جنگ میں بہت کم حصہ لینے والے تھے۔

میں اس بات کی معذرت نہیں کر سکتا کہ میں ان کی بدعتوں پر برابر اعتراض کر رہا تھا کہ اگر یہ ارشاد اور ہدایت بھی کوئی گناہ تھا تو بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی بے گناہ بھی ملامت کی جاتی ہے اور ''کبھی کبھی واقعی نصیحت کرنے والے بھی بد نام ہو جاتے ہیں ' ' میں نے اپنے امکان بھر اصلاح کی کوشش کی اور میری توفیق صرف اللہ کے سہارے ہے۔اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میری توجہ ہے ''

تم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تمہارے پاس

۵۱۰

إِلَّا السَّيْفُ - فَلَقَدْ أَضْحَكْتَ بَعْدَ اسْتِعْبَارٍ مَتَى أَلْفَيْتَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنِ الأَعْدَاءِ نَاكِلِينَ - وبِالسَّيْفِ مُخَوَّفِينَ؟! فَلَبِّثْ قَلِيلًا يَلْحَقِ الْهَيْجَا حَمَلْ

فَسَيَطْلُبُكَ مَنْ تَطْلُبُ - ويَقْرُبُ مِنْكَ مَا تَسْتَبْعِدُ - وأَنَا مُرْقِلٌ نَحْوَكَ فِي جَحْفَلٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - والتَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ - شَدِيدٍ زِحَامُهُمْ سَاطِعٍ قَتَامُهُمْ - مُتَسَرْبِلِينَ سَرَابِيلَ الْمَوْتِ - أَحَبُّ اللِّقَاءِ إِلَيْهِمْ لِقَاءُ رَبِّهِمْ - وقَدْ صَحِبَتْهُمْ ذُرِّيَّةٌ بَدْرِيَّةٌ وسُيُوفٌ هَاشِمِيَّةٌ - قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نِصَالِهَا - فِي أَخِيكَ وخَالِكَ وجَدِّكَ وأَهْلِكَ -( وما هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ )

(۲۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل البصرة

میرے اور میرے اصحاب کے لئے(۱) تلوار کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو یہ کہہ کر تم نے روتے کو ہنسا دیا ہے بھلا تم نے اولاد عبدالمطلب کو کب دشمنوں سے پیچھے ہٹتے یا تلوار سے خوفزدہ ہوتے دیکھا ہے ؟

''ذرا ٹھہر جائو کہ حمل میدان جنگ تک پہنچ جائے ''

عنقریب جسے تم ڈھونڈ رہے ہو وہ تمہیں خود ہی تلاش کرلے گا اور جس چیز کو بعید خیال کر رہے ہو اسے قریب کردے گا۔اب میں تمہاری طرف مہاجرین و انصار کے لشکر کے ساتھ بہت جلد آرہا ہوں اور میرے ساتھ وہ بھی ہیں جو ان کے نقش قدم پر ٹھیک طریقہ سے چلنے والے ہیں۔ان کا حملہ شدید ہوگااور غبار جنگ ساری فضا میں منتشر ہوگا۔یہ موت کا لباس پہنے ہوں گے اور ان کی نظر میں بہترین ملاقات پروردگار کی ملاقات ہوگی۔ان کے ساتھ اصحاب بدر کی ذریت اوربنی ہاشم کی تلواریں ہوں گی۔تم نے ان کی تلواروں کی کاٹ اپنے بھائی ماموں ،نانا اور خاندان والوں میں دیکھ لی ہے اور وہ ظالموں سے اب بھی دور نہیں ہے ''

(۲۹)

آپ کا مکتوب گرامی

(اہل بصرہ کے نام)

(۱)قیامت کی بات ہے کہ معاویہ تلوار کی دھمکی صاحب ذوالفقار کو دے رہا ہے جب کہ اسے معلوم ہے کہ علی اس بہادر کا نام ہے جس نے دس برس کی عمرمیں تمام کفارو مشرکین سے رسول اکرم (ص) کو بچانے کاوعدہ کیاتھا اور ہجرت کی رات تلوار کی چھائوں میں نہایت سکون و اطمینان سے سویا ہے اور بدرکے میدان میں تمام روسا ء کفار و مشرکین اور زعماء بنی امیہ کا تن تنہاخاتمہ کردیا ہے۔ایں چہ بوالعجی است

۵۱۱

وقَدْ كَانَ مِنِ انْتِشَارِ حَبْلِكُمْ وشِقَاقِكُمْ - مَا لَمْ تَغْبَوْا عَنْه - فَعَفَوْتُ عَنْ مُجْرِمِكُمْ ورَفَعْتُ السَّيْفَ عَنْ مُدْبِرِكُمْ - وقَبِلْتُ مِنْ مُقْبِلِكُمْ - فَإِنْ خَطَتْ بِكُمُ الأُمُورُ الْمُرْدِيَةُ - وسَفَه الآرَاءِ الْجَائِرَةِ إِلَى مُنَابَذَتِي وخِلَافِي - فَهَا أَنَا ذَا قَدْ قَرَّبْتُ جِيَادِي ورَحَلْتُ رِكَابِي - ولَئِنْ أَلْجَأْتُمُونِي إِلَى الْمَسِيرِ إِلَيْكُمْ - لأُوقِعَنَّ بِكُمْ وَقْعَةً - لَا يَكُونُ يَوْمُ الْجَمَلِ إِلَيْهَا إِلَّا كَلَعْقَةِ لَاعِقٍ - مَعَ أَنِّي عَارِفٌ لِذِي الطَّاعَةِ مِنْكُمْ فَضْلَه - ولِذِي النَّصِيحَةِ حَقَّه - غَيْرُ مُتَجَاوِزٍ مُتَّهَماً إِلَى بَرِيٍّ ولَا نَاكِثاً إِلَى وَفِيٍّ.

(۳۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَاتَّقِ اللَّه فِيمَا لَدَيْكَ - وانْظُرْ فِي حَقِّه عَلَيْكَ - وارْجِعْ إِلَى مَعْرِفَةِ مَا

تمہاری تفرقہ(۲) پردازی اورمخالفت کا جو عالم تھا وہ تم سے مخفی نہیں ہے لیکن میں نے تمہارے مجرموں کو معاف کردیا۔بھاگنے والوں سے تلوار اٹھالی۔آنے والوں کو بڑھ کرگلے لگالیا۔اب اس کے بعد بھی اگر تمہاری تباہ کن راء اور تمہارے ظالمانہ افکار کی حماقت تمہیں میری مخالفت اورعہد شکنی پر آمادہ کر رہی ہے تو یاد رکھو کہمیں نے گھوڑوں کو قریب کرلیا ہے۔اونٹوں پر سامان بار کرلیا ہے اوراگر تم نے گھرسے نکلنے پر مجبور کردیا تو ایسی معرکہ آرائی کروں گا کہ جنگ جمل فقط زبان کی چاٹ رہ جائے گی۔

میں تمہارے اطاعت گذاروں کے شرف کو پہچانتا ہوں اورمخلصین کے حق کو جانتا ہوں ۔میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ مجرم سے آگے بڑھ کربے خطا پر حملہ کردوں یا عہد شکن سے تجاوز کرکے وفادار سے بھی تعرض کروں۔

(۳۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

جو کچھ سازو سامان تمہارے پاس ہے اس میں اللہ سے ڈرو اور جواس کاحق تمہارے اوپر ہے اس پر نگاہ رکھو۔ اس حق کی معرفت کی طرف پلٹ آئو جس سے نا

(۱) پہلے اہل بصرہنے وفاداری کا اعلان کیا تو حضرت نے عثمان بن حنیف کو عامل بنا کربھیج دیا ۔اس کے بعد عائشہ وارد ہوئیں تواکثریت منحرف ہوگئی اور جنگ جمل کی نوبت آگئی لیکن آپ نے عام طور سے سب کو معاف کردیا اور عائشہ بھی مدینہ واپس چلی گئیں۔لیکن معاویہ نے پھر دوبارہ ورغلانا شروع کردیا تو آپ نے یہ تنبیہی خط روانہ فرمایا کہ جنگ جمل تو صرف مزہ چکھانے کے لئے تھی جنگ تو اب ہونے والی ہے۔لہٰذا ہوش میںآجائو اورمعاویہ کے بہکانے پر راہ حق سے انحراف نہ کرو۔

۵۱۲

لَا تُعْذَرُ بِجَهَالَتِه - فَإِنَّ لِلطَّاعَةِ أَعْلَاماً وَاضِحَةً - وسُبُلًا نَيِّرَةً ومَحَجَّةً نَهْجَةً وغَايَةً مُطَّلَبَةً - يَرِدُهَا الأَكْيَاسُ ويُخَالِفُهَا الأَنْكَاسُ - مَنْ نَكَبَ عَنْهَا جَارَ عَنِ الْحَقِّ وخَبَطَ فِي التِّيه - وغَيَّرَ اللَّه نِعْمَتَه وأَحَلَّ بِه نِقْمَتَه - فَنَفْسَكَ نَفْسَكَ فَقَدْ بَيَّنَ اللَّه لَكَ سَبِيلَكَ - وحَيْثُ تَنَاهَتْ بِكَ أُمُورُكَ - فَقَدْ أَجْرَيْتَ إِلَى غَايَةِ خُسْرٍ ومَحَلَّةِ كُفْرٍ - فَإِنَّ نَفْسَكَ قَدْ أَوْلَجَتْكَ شَرّاً وأَقْحَمَتْكَ غَيّاً - وأَوْرَدَتْكَ الْمَهَالِكَ وأَوْعَرَتْ عَلَيْكَ الْمَسَالِكَ.

(۳۱)

ومن وصية لهعليه‌السلام

للحسن بن عليعليه‌السلام - كتبها إليه بحاضرين عند انصرافه من صفين:

مِنَ الْوَالِدِ الْفَانِ الْمُقِرِّ لِلزَّمَانِ الْمُدْبِرِ الْعُمُرِ - الْمُسْتَسْلِمِ لِلدُّنْيَا

واقفیت قابل معافی نہیں ہے۔دیکھو اطاعت کے نشانات واضح، راستے روشن ، شاہراہیں سیدھی ہیں اور منزل مقصود سامنے ہے جس پر تمام عقل والے وارد ہوتے ہیں۔اور پست فطرت اس کی مخالفت کرتے ہیں۔جو اس ہدف سے منحرف ہوگیا وہ راہ حق سے ہٹ گیا اور گمراہی میںٹھوکر کھانے لگا۔اللہ نے اس کی نعمتوں کو سلب کرلیا اور اپناعذاب اس پروارد کردیا۔لہٰذا اپنے نفس کاخیال رکھو اوراسے ہلاکت سے بچائو کہ پروردگار نے تمہارے لئے راستہ کو واضح کردیا ہے اور وہ منزل بتادی ہے جہاں تک امور کو جانا ہے۔تم نہایت تیزی سے بدترین خسارہ اور کفر کی منزل کی طرف بھاگے جا رہے ہو۔تمہارے نفس نے تمہیں بدبختی میں ڈال دیا ہے اور گمراہی میں جھونک دیا ہے۔ہلاکت کی منزلوں میں وارد کردیا ہے اور صحیح راستوں کودشوار گزار بنادیاہے۔

(۳۱)

آپ کا وصیت نامہ

( جسے امام حسن کے نام صفین سے واپسی پر مقام حاضرین میں تحریر فرمایا ہے )

یہ وصیت ایک ایسے باپ(۱) کی ہے۔جو فنا ہونے والا اور زمانہ کے تصرفات کا اقرار کرنے والا ہے۔جس کی عمرخاتمہ کے قریب ہے اور وہ دنیا کے مصائب کے سامنے

(۱)بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ وصیت نامہ جناب محمد حنیفہ کے نام ہے اور سید رضی علیہ الرحمہ نے اسے امام حسن کے نام بتایا ہے۔بہرحال یہ ایک عام وصیت نامہ ہے جس سے ہر باپ کو استفادہ کرنا چاہیے اور اپنی اولاد کو انہیں خطوط پر وصیت و نصیحت کرنا چاہیے ورنہ اس کا مکمل مضمون مولائے کائنات پرمنطبق ہوتا ہے اور نہ امام حسن پر۔ اورنہ ایسے وصیت نامے کسی ایک فرد سے مخصوص ہواکرتے ہیں۔یہ انسانیت کا عظیم ترین منشور ہے جس میں عظیم ترین باپ نے عظیم ترین بیٹے کو مخاطب قرار دیا ہے تاکہ دیگر افراد ملت اس سے استفادہ کریں بلکہ عبرت حاصل کریں ۔

۵۱۳

السَّاكِنِ مَسَاكِنَ الْمَوْتَى والظَّاعِنِ عَنْهَا غَداً - إِلَى الْمَوْلُودِ الْمُؤَمِّلِ مَا لَا يُدْرِكُ - السَّالِكِ سَبِيلَ مَنْ قَدْ هَلَكَ - غَرَضِ الأَسْقَامِ ورَهِينَةِ الأَيَّامِ - ورَمِيَّةِ الْمَصَائِبِ وعَبْدِ الدُّنْيَا وتَاجِرِ الْغُرُورِ - وغَرِيمِ الْمَنَايَا وأَسِيرِ الْمَوْتِ - وحَلِيفِ الْهُمُومِ وقَرِينِ الأَحْزَانِ - ونُصُبِ الآفَاتِ وصَرِيعِ الشَّهَوَاتِ وخَلِيفَةِ الأَمْوَاتِ.

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ فِيمَا تَبَيَّنْتُ مِنْ إِدْبَارِ الدُّنْيَا عَنِّي - وجُمُوحِ الدَّهْرِ عَلَيَّ وإِقْبَالِ الآخِرَةِ إِلَيَّ - مَا يَزَعُنِي عَنْ ذِكْرِ مَنْ سِوَايَ - والِاهْتِمَامِ بِمَا وَرَائِي - غَيْرَ أَنِّي حَيْثُ تَفَرَّدَ بِي دُونَ هُمُومِ النَّاسِ هَمُّ نَفْسِي - فَصَدَفَنِي رَأْيِي وصَرَفَنِي عَنْ هَوَايَ - وصَرَّحَ لِي مَحْضُ أَمْرِي - فَأَفْضَى بِي إِلَى جِدٍّ لَا يَكُونُ فِيه لَعِبٌ - وصِدْقٍ لَا يَشُوبُه كَذِبٌ ووَجَدْتُكَ بَعْضِي - بَلْ وَجَدْتُكَ كُلِّي - حَتَّى كَأَنَّ شَيْئاً لَوْ أَصَابَكَ أَصَابَنِي - وكَأَنَّ الْمَوْتَ لَوْ أَتَاكَ أَتَانِي – فَعَنَانِي مِنْ أَمْرِكَ مَا يَعْنِينِي مِنْ أَمْرِ نَفْسِي - فَكَتَبْتُ إِلَيْكَ كِتَابِي - مُسْتَظْهِراً بِه

سپرانداختہ ہے۔مرنے والوں کی بستی میں مقیم ہے اور کل یہاں سے کوچ کرنے والا ہے ۔ اس فرزند کے نام جو دنیا میں وہ امیدیں رکھے ہوئے ہے جو حاصل ہونے والی نہیں ہیں اورہلاک ہوجانے والوں کے راستے پر گامزن ہے ' بیماریوں کا نشانہ اور روز گار کے ہاتھوں گوی ہے۔مصائب زمانہ کا ہدف اور دنیا کا پابند ہے۔اس کا فریب کاریوں کا تاجر اوروت کا قرضدار ہے۔اجل کا قیدی اور رنج و غم کا ساتھی مصیبتوں کاہمنشیں ہے اورآفتوں کا نشانہ ' خواہشات کامارا ہوا ہے اورمرنے والوں کا جانشین۔

اما بعد! میرے لئے دنیا کے منہ پھیر لینے ۔زمانہ کے ظلم و زیادتی کرنے اورآخرت کے میری طرف آنے کی وجہ سے جن باتوں کا انکشاف ہوگیا ہے انہوں نے مجھے دوسروں کے ذکر اوراغیار کے اندیشہ سے روک دیا ہے۔مگر جب میں تمام لوگوں کی فکرسے الگ ہو کر اپنی فکر میں پڑا تو میریرائے نے مجھے خواہشات سے روک دیا اور مجھ پرواقعی حقیقت منکشف ہوگئی جس نے مجھے اس محنت و مشقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کا کیل نہیں ہے اور اس صداقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کی غلط بیانی نہیں ہے۔میں نے تم کو اپنا ہی ایک حصہ پایا بلکہ تم کو اپنا سراپا وجود سمجھا کہ تمہاری تکلیف میری تکلیف ہے اور تمہاری موت میری موت ہے اس لئے مجھے تمہارے معاملات کی اتنی ہی فکر ہے جتنی اپنے معاملات کی ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے یہ تحریر لکھی دی ہے جس کے ذریعہ تمہاری امداد کرنا چاہتا ہوں

۵۱۴

إِنْ أَنَا بَقِيتُ لَكَ أَوْ فَنِيتُ.

فَإِنِّي أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّه أَيْ بُنَيَّ ولُزُومِ أَمْرِه - وعِمَارَةِ قَلْبِكَ بِذِكْرِه والِاعْتِصَامِ بِحَبْلِه - وأَيُّ سَبَبٍ أَوْثَقُ مِنْ سَبَبٍ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه - إِنْ أَنْتَ أَخَذْتَ بِه.

أَحْيِ قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ وأَمِتْه بِالزَّهَادَةِ - وقَوِّه بِالْيَقِينِ ونَوِّرْه بِالْحِكْمَةِ - وذَلِّلْه بِذِكْرِ الْمَوْتِ وقَرِّرْه بِالْفَنَاءِ - وبَصِّرْه فَجَائِعَ الدُّنْيَا - وحَذِّرْه صَوْلَةَ الدَّهْرِ وفُحْشَ تَقَلُّبِ اللَّيَالِي والأَيَّامِ - واعْرِضْ عَلَيْه أَخْبَارَ الْمَاضِينَ - وذَكِّرْه بِمَا أَصَابَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ مِنَ الأَوَّلِينَ - وسِرْ فِي دِيَارِهِمْ وآثَارِهِمْ - فَانْظُرْ فِيمَا فَعَلُوا وعَمَّا انْتَقَلُوا وأَيْنَ حَلُّوا ونَزَلُوا - فَإِنَّكَ تَجِدُهُمْ قَدِ انْتَقَلُوا عَنِ الأَحِبَّةِ - وحَلُّوا دِيَارَ الْغُرْبَةِ - وكَأَنَّكَ عَنْ قَلِيلٍ قَدْ صِرْتَ كَأَحَدِهِمْ - فَأَصْلِحْ مَثْوَاكَ ولَا تَبِعْ آخِرَتَكَ بِدُنْيَاكَ - ودَعِ الْقَوْلَ فِيمَا لَا تَعْرِفُ والْخِطَابَ فِيمَا لَمْ تُكَلَّفْ - وأَمْسِكْ عَنْ طَرِيقٍ إِذَا خِفْتَ ضَلَالَتَه - فَإِنَّ الْكَفَّ عِنْدَ حَيْرَةِ الضَّلَالِ خَيْرٌ مِنْ رُكُوبِ الأَهْوَالِ وأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ تَكُنْ

چاہیے میں زندہ رہوں یا مرجائوں۔

فرزند! میں تم کو خوف خدا اور اس کے احکام کی پابندی کی وصیت کرتا ہوں۔اپنے دل کواس کی یاد سے آباد رکھنا اوراس کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہنا کہ اس سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ تمہارے اور خداا کے درمیان نہیں ہے۔

اپنے دل کو موعظہ سے زندہ رکھنا اور اس کے خواہشات کو زہد سے مردہ بنادینا۔اسے یقین کے ذریعہ قوی رکھنا اورحکمت کے ذریعہ نورانی رکھنا۔ذکر موت کے ذریعہ رام کرنااورفناکے ذریعہ قابو میں رکھنا۔دنیا کے حوادث سے آگاہ رکھنا اور زمانہ کے حملہ اور لیل ونہار کے تصرفات سے ہوشیار رکھنا۔اس پر گذشتہ لوگوں کے اخبار کو پیش کرتے رہنا اور پہلے والوں پر پڑنے والے مصائبکویاد دلاتے رہنا۔ان کے دیار و آثار میں سر گرم سفر رہنا اور دیکھتے رہنا کہ انہوں نے کیا کیا ہے اور کہاں سے کہاں چل گئے ہیں۔کہاں واردہوئے ہیں اورکہاں ڈیرہ ڈالا ہے۔پھر تم دیکھو گے کہ وہ احباب کی دنیا سے منتقل ہوگئے ہیں اور دیار غربت میں وارد ہوگئے ہیں اور گویا کہ عنقریت تم بھی انہیں میں شامل ہو جائو گے لہٰذا اپنی منزل کو ٹھیک کرلو اورخبردارآخرت کو دنیا کے عوض فروخت نہ کرنا ۔جن باتوں کو نہیں جانتے ہو ان کے بارے میں بات نہ کرنا اور جن کے مکلف نہیں ہوان کے بارے میں گفتگو نہکرنا جس راستہ میں گمراہی کا خوف ہو ادھر قدم آگینہ بڑھانا کہ گمراہی کے تحیر سے پہلے ٹھہر جانا ہولناک مرحلوں میں وارد ہو جانے سے بہترہے۔نیکیوں کا حکم دیتے رہنا تاکہ اس کے

۵۱۵

مِنْ أَهْلِه - وأَنْكِرِ الْمُنْكَرَ بِيَدِكَ ولِسَانِكَ - وبَايِنْ مَنْ فَعَلَه بِجُهْدِكَ - وجَاهِدْ فِي اللَّه حَقَّ جِهَادِه - ولَا تَأْخُذْكَ فِي اللَّه لَوْمَةُ لَائِمٍ - وخُضِ الْغَمَرَاتِ لِلْحَقِّ حَيْثُ كَانَ وتَفَقَّه فِي الدِّينِ - وعَوِّدْ نَفْسَكَ التَّصَبُّرَ عَلَى الْمَكْرُوه - ونِعْمَ الْخُلُقُ التَّصَبُرُ فِي الْحَقِّ - وأَلْجِئْ نَفْسَكَ فِي أُمُورِكَ كُلِّهَا إِلَى إِلَهِكَ - فَإِنَّكَ تُلْجِئُهَا إِلَى كَهْفٍ حَرِيزٍ ومَانِعٍ عَزِيزٍ - وأَخْلِصْ فِي الْمَسْأَلَةِ لِرَبِّكَ - فَإِنَّ بِيَدِه الْعَطَاءَ والْحِرْمَانَ - وأَكْثِرِ الِاسْتِخَارَةَ وتَفَهَّمْ وَصِيَّتِي - ولَا تَذْهَبَنَّ عَنْكَ صَفْحاً - فَإِنَّ خَيْرَ الْقَوْلِ مَا نَفَعَ - واعْلَمْ أَنَّه لَا خَيْرَ فِي عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ - ولَا يُنْتَفَعُ بِعِلْمٍ لَا يَحِقُّ تَعَلُّمُه.

أَيْ بُنَيَّ إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُنِي قَدْ بَلَغْتُ سِنّاً - ورَأَيْتُنِي أَزْدَادُ وَهْناً - بَادَرْتُ بِوَصِيَّتِي إِلَيْكَ - وأَوْرَدْتُ خِصَالًا مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَعْجَلَ بِي أَجَلِي - دُونَ أَنْ أُفْضِيَ إِلَيْكَ بِمَا فِي نَفْسِي - أَوْ أَنْ أُنْقَصَ فِي رَأْيِي كَمَا نُقِصْتُ فِي جِسْمِي - أَوْ يَسْبِقَنِي إِلَيْكَ بَعْضُ غَلَبَاتِ الْهَوَى وفِتَنِ الدُّنْيَا - فَتَكُونَ

اہل میں شمار ہو اور برائیوں سے اپنے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے منع کرتے رہنا اور برائی کرنے والوں سے اپنے امکان بھر دور رہنا۔راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کردینا اور خبردار اس راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔حق کی خاطر جہاد بھی ہو سختیوں میں کود پڑنا۔اور دین کا علم حاصل کرنا اپنے نفس کو نا خوشگوار حالات میں صبر کا عادی بادینا اوریاد رکھنا کہ بہترین اخلاق حق کی راہ میں صبر کرنا ہے۔اپنے تمام امورمیں پروردگار کی طرف رجوع کرنا کہ اس طرح ایک محفوظ ترین پناہ گاہ کاسہارا لو گے اور بہترین محافظ کی پناہ میں رہوگے۔پروردگار سے سوال کرنے میں مخلص رہنا کہ عطا کرنا اور محروم کردینا اسی کے ہاتھ میں ہے مالک سے مسلسل طلب خیرکرتے رہنا اور میری وصیت پر غور کرتے رہنا۔اس سے پہلو بچا کر گذر نہ جانا کہ بہترین کلام وہی ہے جو فائدہ مند ہواور یاد رکھو کہ جس علم میں فائدہ نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور جو علم سیکھنے کے لائق نہ ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

فرزند! میں نے دیکھا کہ اب میرا سن بہت زیادہ ہو چکا ہے اور مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہوں لہٰذا میں نے فوراً یہ وصیت لکھ دی اور ان مضامین کو درج کردیا کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی بات تمہارے حوالہ کرنے سے پہلے مجھے موت آجائے یا جسم کے نقص کی طرح رائے کو کمزور تصور کیا جانے لگے یا وصیت سے پہلے ہی خواہشات کے غلبے اوردنیا کے فتنے تم تک نہ پہنچ جائیں۔ اور تمہارا حال

۵۱۶

كَالصَّعْبِ النَّفُورِ - وإِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كَالأَرْضِ الْخَالِيَةِ - مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْءٍ قَبِلَتْه - فَبَادَرْتُكَ بِالأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ - ويَشْتَغِلَ لُبُّكَ لِتَسْتَقْبِلَ بِجِدِّ رَأْيِكَ مِنَ الأَمْرِ - مَا قَدْ كَفَاكَ أَهْلُ التَّجَارِبِ بُغْيَتَه وتَجْرِبَتَه - فَتَكُونَ قَدْ كُفِيتَ مَئُونَةَ الطَّلَبِ - وعُوفِيتَ مِنْ عِلَاجِ التَّجْرِبَةِ - فَأَتَاكَ مِنْ ذَلِكَ مَا قَدْ كُنَّا نَأْتِيه - واسْتَبَانَ لَكَ مَا رُبَّمَا أَظْلَمَ عَلَيْنَا مِنْه أَيْ بُنَيَّ إِنِّي وإِنْ لَمْ أَكُنْ عُمِّرْتُ عُمُرَ مَنْ كَانَ قَبْلِي - فَقَدْ نَظَرْتُ فِي أَعْمَالِهِمْ وفَكَّرْتُ فِي أَخْبَارِهِمْ - وسِرْتُ فِي آثَارِهِمْ حَتَّى عُدْتُ كَأَحَدِهِمْ - بَلْ كَأَنِّي بِمَا انْتَهَى إِلَيَّ مِنْ أُمُورِهِمْ - قَدْ عُمِّرْتُ مَعَ أَوَّلِهِمْ إِلَى آخِرِهِمْ - فَعَرَفْتُ صَفْوَ ذَلِكَ مِنْ كَدَرِه ونَفْعَه مِنْ ضَرَرِه - فَاسْتَخْلَصْتُ لَكَ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ نَخِيلَه - وتَوَخَّيْتُ لَكَ جَمِيلَه وصَرَفْتُ عَنْكَ مَجْهُولَه - ورَأَيْتُ حَيْثُ عَنَانِي مِنْ أَمْرِكَ مَا يَعْنِي الْوَالِدَ الشَّفِيقَ -

بھڑک اٹھنے والے اونٹ جیسا ہو جائے۔ یقینا نوجوان کادل ایک خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ جو چیز اس میں ڈال دی جائے اسے قبول کرلیتا ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ تمہیں دل کے سخت ہونے اور عقل کے مشغول ہو جانے سے پہلے وصیت کردوں تاکہ تم سنجیدہ فکر کے ساتھ اس امر کو قبول کرلو جس کی تلاش اور جس کے تجربہ کی زحمت سے تمہیں تجربہ کار لوگوں نے بچا لیا ہے۔اب تمہاری طلب کی زحمت ختم ہوچکی ہے اورتمہیں تجربہ کی مشکل سے نجات مل چکی ہے۔تمہارے پاس وہ حقائق ازخود آگئے ہیں جن کو ہم تلاش کیا کرتے تھے اور تمہارے لئے وہ تمام باتیں واضح ہوچکی ہیں جو ہمارے لئے مبہم تھیں۔

فرزند! اگرچہ میں نے اتنی عمرنہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہواکرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور کیا ہے اور ان کے اخبارمیں فکر کی ہے اور ان کے آثار میںسیرو سیاحت کی ہے اور میں صاف اور گندہ کی خوب پہچانتا ہوں۔نفع و ضرر میں امتیاز رکھتا ہوں۔میں نے ہر امر کی چھان پھٹک کر اس کا خالص نکال لیا ہے۔اور بہترین تلاش کرلیا ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کردیا ہے اوری ہ چاہا ہے کہ تمہیں اسی وقت ادب کی تعلیم دے دوں جب کہ تم عمر کے ابتدائی حصہ میں ہو اور زمانہ کے حالات کا سامنا کر رہے ہو۔تمہاری نیت سالم ہے اورنفس صاف و پاکیزہ ہے اس لئے کہ مجھے تمہارے بارے میں اتنی ہی فکر ہے جتنی ایک مہربان باپ کو اپنی اولاد کی ہوتی ہے۔

۵۱۷

وأَجْمَعْتُ عَلَيْه مِنْ أَدَبِكَ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ - وأَنْتَ مُقْبِلُ الْعُمُرِ ومُقْتَبَلُ الدَّهْرِ - ذُو نِيَّةٍ سَلِيمَةٍ ونَفْسٍ صَافِيَةٍ - وأَنْ أَبْتَدِئَكَ بِتَعْلِيمِ كِتَابِ اللَّه عَزَّ وجَلَّ - وتَأْوِيلِه وشَرَائِعِ الإِسْلَامِ وأَحْكَامِه وحَلَالِه وحَرَامِه - لَا أُجَاوِزُ ذَلِكَ بِكَ إِلَى غَيْرِه - ثُمَّ أَشْفَقْتُ أَنْ يَلْتَبِسَ عَلَيْكَ - مَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فِيه مِنْ أَهْوَائِهِمْ وآرَائِهِمْ - مِثْلَ الَّذِي الْتَبَسَ عَلَيْهِمْ - فَكَانَ إِحْكَامُ ذَلِكَ عَلَى مَا كَرِهْتُ مِنْ تَنْبِيهِكَ لَه أَحَبَّ إِلَيَّ - مِنْ إِسْلَامِكَ إِلَى أَمْرٍ لَا آمَنُ عَلَيْكَ بِه الْهَلَكَةَ - ورَجَوْتُ أَنْ يُوَفِّقَكَ اللَّه فِيه لِرُشْدِكَ - وأَنْ يَهْدِيَكَ لِقَصْدِكَ فَعَهِدْتُ إِلَيْكَ وَصِيَّتِي هَذِه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّ أَحَبَّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِه إِلَيَّ مِنْ وَصِيَّتِي تَقْوَى اللَّه - والِاقْتِصَارُ عَلَى مَا فَرَضَه اللَّه عَلَيْكَ - والأَخْذُ بِمَا مَضَى عَلَيْه الأَوَّلُونَ مِنْ آبَائِكَ - والصَّالِحُونَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ - فَإِنَّهُمْ لَمْ يَدَعُوا أَنْ نَظَرُوا لأَنْفُسِهِمْ كَمَا أَنْتَ نَاظِرٌ - وفَكَّرُوا كَمَا أَنْتَ مُفَكِّرٌ - ثُمَّ رَدَّهُمْ آخِرُ ذَلِكَ إِلَى الأَخْذِ بِمَا عَرَفُوا - والإِمْسَاكِ عَمَّا لَمْ يُكَلَّفُوا - فَإِنْ أَبَتْ نَفْسُكَ أَنْ تَقْبَلَ ذَلِكَ دُونَ أَنْ تَعْلَمَ كَمَا عَلِمُوا - فَلْيَكُنْ طَلَبُكَ ذَلِكَ بِتَفَهُّمٍ وتَعَلُّمٍ - لَا بِتَوَرُّطِ الشُّبُهَاتِ

اب میں اپنی تربیت کا آغاز کتاب خدا اور اس کی تاویل ۔قوانین اسلام اور اس کے احکام حلال و حرام سے کر رہا ہوں اور تمہیں چھوڑ کردوسرے کی طرف نہیں جانا۔پھر مجھے یہخوف بھی ہے کہ کہیں لوگوں کے عقائد و افکار و خواہشات کااختلاف تمہارے لئے اسی طرح مشتبہ نہ ہو جائے جس طرح ان لوگوں کے لئے ہوگیا ہے لہٰذا ان کا مستحکم کردینا میری نظرمیں ا سے زیادہ محبوب ہے کہ تمہیں ایسے حالات کے حوالے کردوں جن میں ہلاکت سے محفوظ رہنے کا اطمینان نہیں ہے۔اگرچہ مجھے یہ تعلیم دیتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔لیکن مجھے امید ہے کہ پروردگار تمہیں نیکی کی توفیق دے گا اور سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرے گا۔اسی بنیاد پر یہ وصیت نامہ لکھ دیا ہے۔

فرزند! یاد رکھو کہ میری بہترین وصیت جسے تمہیں اخذ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اس کے فرائض پر اکتفا کرو اوروہ تمام طریقے جن پر تمہارے باپ دادا اور تمہارے گھرانے کے نیکج کردار افراد چلتے رہے ہیں انہیں پر چلتے رہو کہ انہوں نے اپنے بارے میں کسی ایسی فکر کونظرانداز نہیںکیا جو تمہاری نظر میں ہے اور کسی خیال کو فرو گذاشت نہیں کیا ہے اور اسی فکرونظر نے ہی انہیں اس نتیجہ تک پہنچا یا ہے کہ معروف چیزوں کوحاصل کرلیں اور لا یعنی چیزوں سے پرہیز کریں۔اب اگر تمہارا نفس ان چیزوں کو بغیر جانے پہچانے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اس کی تحقیق باقاعدہ علم و فہم کے ساتھ ہونی چاہیے اور شبہات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے

۵۱۸

وعُلَقِ الْخُصُومَاتِ - وابْدَأْ قَبْلَ نَظَرِكَ فِي ذَلِكَ بِالِاسْتِعَانَةِ بِإِلَهِكَ - والرَّغْبَةِ إِلَيْه فِي تَوْفِيقِكَ - وتَرْكِ كُلِّ شَائِبَةٍ أَوْلَجَتْكَ فِي شُبْهَةٍ أَوْ أَسْلَمَتْكَ إِلَى ضَلَالَةٍ - فَإِنْ أَيْقَنْتَ أَنْ قَدْ صَفَا قَلْبُكَ فَخَشَعَ - وتَمَّ رَأْيُكَ فَاجْتَمَعَ - وكَانَ هَمُّكَ فِي ذَلِكَ هَمّاً وَاحِداً - فَانْظُرْ فِيمَا فَسَّرْتُ لَكَ - وإِنْ لَمْ يَجْتَمِعْ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْ نَفْسِكَ - وفَرَاغِ نَظَرِكَ وفِكْرِكَ - فَاعْلَمْ أَنَّكَ إِنَّمَا تَخْبِطُ الْعَشْوَاءَ وتَتَوَرَّطُ الظَّلْمَاءَ - ولَيْسَ طَالِبُ الدِّينِ مَنْ خَبَطَ أَوْ خَلَطَ - والإِمْسَاكُ عَنْ ذَلِكَ أَمْثَلُ

فَتَفَهَّمْ يَا بُنَيَّ وَصِيَّتِي - واعْلَمْ أَنَّ مَالِكَ الْمَوْتِ هُوَ مَالِكُ الْحَيَاةِ - وأَنَّ الْخَالِقَ هُوَ الْمُمِيتُ - وأَنَّ الْمُفْنِيَ هُوَ الْمُعِيدُ وأَنَّ الْمُبْتَلِيَ هُوَ الْمُعَافِي - وأَنَّ الدُّنْيَا لَمْ تَكُنْ لِتَسْتَقِرَّ - إِلَّا عَلَى مَا جَعَلَهَا اللَّه عَلَيْه مِنَ النَّعْمَاءِ والِابْتِلَاءِ - والْجَزَاءِ فِي الْمَعَادِ - أَوْ مَا شَاءَ مِمَّا لَا تَعْلَمُ - فَإِنْ أَشْكَلَ عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ فَاحْمِلْه عَلَى جَهَالَتِكَ - فَإِنَّكَ أَوَّلُ مَا خُلِقْتَ بِه جَاهِلًا ثُمَّ عُلِّمْتَ - ومَا أَكْثَرَ مَا تَجْهَلُ

اورنہ جھگڑوں کا شکار ہونا چاہیے اور ان مسائل میں نظر کرنے سے پہلے اپنے پروردگار سے مدد طلب کرو اور توفیق کے ئے اس کی طرف توجہ کرو اور ہر اس شائبہ کو چھوڑ دو جو کسی شبہ میں ڈال دے یا کسی گمراہی کے حوالے کردے ۔پھر اگر تمہیں اطمینان ہو جائے کہ تمہارا دل صاف اور خاشع ہوگیا ہے اور تمہاری رائے تام دکامل ہوگئی ہے اور تمہارے پاس صرف یہی ایک فکر رہ گئی ہے تو جن باتوں کو میں نے واضح کیا ہے ان میں غورو فکر کرنا ورنہ اگر حسب منشاء فکرونظر کا فراغ حاصل نہیں ہوا ہے تو یاد رکھو کہ اس طرف صرف شبکور اونٹنی کی طرح ہاتھ پیر مارتے رہو گے اور اندھیرے میں بھٹکتے رہوگے اور دین کا طلب گار وہ نہیں ہے جواندھیروں میں ہاتھ پائوں مارے اورباتوں کومخلوط کردے۔اس سے تو ٹھہرجانا ہی بہتر ہے۔

فرزند! میری وصیت کو سمجھو اور یہ جان لو کہ جو موت کا مالک ہے وہی زندگی کا مالک ہے اور جو خالق ہے وہی موت دینے والا ہے اور جوفناکرنے والا ے وہی دوبارہ واپس لانے والا ہے اور جو مبتلا کرنے والا ہے وہی عافیت دینے والا ہے اور یہ دنیا اسی حالت میں مستقررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قراردیا ہے یعنی نعمت، آزمائش ، آخرت کی جزا یا وہ بات جو تم نہیں جانتے ہو۔اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس اپنی جہالت پر محمول کرنا کہ تم ابتدا میں جب پیدا ہو ئے ہو تو جاہل ہی پیداہوئے ہو بعد میں علم حاصل کیا ہے اور اسی بنا پر مجہولات

۵۱۹

مِنَ الأَمْرِ ويَتَحَيَّرُ فِيه رَأْيُكَ - ويَضِلُّ فِيه بَصَرُكَ ثُمَّ تُبْصِرُه بَعْدَ ذَلِكَ فَاعْتَصِمْ بِالَّذِي خَلَقَكَ ورَزَقَكَ وسَوَّاكَ - ولْيَكُنْ لَه تَعَبُّدُكَ - وإِلَيْه رَغْبَتُكَ ومِنْه شَفَقَتُكَ

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّ أَحَداً لَمْ يُنْبِئْ عَنِ اللَّه سُبْحَانَه - كَمَا أَنْبَأَ عَنْه الرَّسُولُصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَارْضَ بِه رَائِداً وإِلَى النَّجَاةِ قَائِداً - فَإِنِّي لَمْ آلُكَ نَصِيحَةً - وإِنَّكَ لَنْ تَبْلُغَ فِي النَّظَرِ لِنَفْسِكَ - وإِنِ اجْتَهَدْتَ مَبْلَغَ نَظَرِي لَكَ.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّه لَوْ كَانَ لِرَبِّكَ شَرِيكٌ لأَتَتْكَ رُسُلُه - ولَرَأَيْتَ آثَارَ مُلْكِه وسُلْطَانِه - ولَعَرَفْتَ أَفْعَالَه وصِفَاتِه - ولَكِنَّه إِلَه وَاحِدٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَه - لَا يُضَادُّه فِي مُلْكِه أَحَدٌ ولَا يَزُولُ أَبَداً ولَمْ يَزَلْ - أَوَّلٌ قَبْلَ الأَشْيَاءِ بِلَا أَوَّلِيَّةٍ - وآخِرٌ بَعْدَ الأَشْيَاءِ بِلَا نِهَايَةٍ - عَظُمَ عَنْ أَنْ تَثْبُتَ رُبُوبِيَّتُه بِإِحَاطَةِ قَلْبٍ أَوْ بَصَرٍ - فَإِذَا عَرَفْتَ ذَلِكَ فَافْعَلْ - كَمَا يَنْبَغِي لِمِثْلِكَ أَنْ يَفْعَلَه فِي صِغَرِ خَطَرِه - وقِلَّةِ مَقْدِرَتِه وكَثْرَةِ عَجْزِه - وعَظِيمِ حَاجَتِه إِلَى رَبِّه فِي طَلَبِ طَاعَتِه - والْخَشْيَةِ مِنْ عُقُوبَتِه -

کی تعداد کثیر ہے جس میں انسانی رائے متحیر رہ جاتی ہے اورنگاہ بہک جاتی ہے اوربعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے۔لہٰذا اس مالک سے وابستہ رہو جس نے پیدا کیا ہے۔روزی دی ہے اورمعتدل بنایا ہے۔اسی کی عبادت کرو' اسی کی طرف توجہ کرو اور اسی سے ڈرتے رہو۔

بیٹا! یہ یاد رکھو کہ تمہیں خدا ے بارے میں اس طرح کی خبریں کوئی نہیں دے سکتا ہے جس طرح رسول اکرم (ص) نے دی ہیں لہٰذا ان کو بخوشی اپنا پیشوا اور راہ نجات کا قائد تسلیم کرو۔میں نے تمہاری نصیحت میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور نہ تم کوشش کے باوجود اپنے بارے میں اتنا سوچ سکتے ہو جتنا میں نے دیکھ لیا ہے۔

فرزند ! یاد رکھو اگر خدا کے لئے کوئی شریک بھی ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے اور اس کی سلطنت اورحکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اس کے افعال وصفات کاب ھی کچھ پتہ ہوتا۔لیکن ایسا کچھ نہں ہے لہٰذا خدا ایک ہے جیسا کہاس نے خود بیان کیا ہے۔اس کے ملک میں اس سے کوئی ٹکرانے والا نہیں ہے اور نہاس کے لئے کسی طرح کا زوال ہے۔وہ اولیت کی حدوں کے بغیر سب سے اول ہے اور کسی انتہا کے بغیر سب سے آخرتک رہنے والا ہے وہ اس بات سے عظیم تر ہے کہ اس کی ربوبیت کا اثبات فکرو نظر کے احاطہ سے کیاجائے اگرتم نے اس حقیقت کو پہچان لیا ہے تو اس طرح عمل کرو جس طرحتم جیسے معمولی حیثیت ' قلیل طاقت ' کثیر عاجزی اور پروردگار کی طرف اطاعت کی طلب' عتاب

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863