نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657032 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

نَمَّقْتَهَا بِضَلَالِكَ وأَمْضَيْتَهَا بِسُوءِ رَأْيِكَ - وكِتَابُ امْرِئٍ لَيْسَ لَه بَصَرٌ يَهْدِيه - ولَا قَائِدٌ يُرْشِدُه قَدْ دَعَاه الْهَوَى فَأَجَابَه - وقَادَه الضَّلَالُ فَاتَّبَعَه - فَهَجَرَ لَاغِطاً وضَلَّ خَابِطاً.

ومِنْه لأَنَّهَا بَيْعَةٌ وَاحِدَةٌ لَا يُثَنَّى فِيهَا النَّظَرُ - ولَا يُسْتَأْنَفُ فِيهَا الْخِيَارُ - الْخَارِجُ مِنْهَا طَاعِنٌ والْمُرَوِّي فِيهَا مُدَاهِنٌ

(۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى جرير بن عبد الله البجلي - لما أرسله إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِذَا أَتَاكَ كِتَابِي فَاحْمِلْ مُعَاوِيَةَ عَلَى الْفَصْلِ وخُذْه بِالأَمْرِ الْجَزْمِ - ثُمَّ خَيِّرْه بَيْنَ حَرْبٍ مُجْلِيَةٍ أَوْ سِلْمٍ مُخْزِيَةٍ - فَإِنِ اخْتَارَ الْحَرْبَ فَانْبِذْ إِلَيْه - وإِنِ اخْتَارَ السِّلْمَ فَخُذْ بَيْعَتَه والسَّلَامُ.

تیرے گمراہی کے قلم نے لکھا ہے اور اس پر تیری بے عقلی نے امضاء کیا ہے ۔یہ ایک ایس شخص کا خط ہے جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور نہراستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو اس نے لبیک کہہ دی اور گمراہینے کھینچا تو اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا۔

دیکھو یہ بیعت ایک مرتبہ ہوتی ہے جس کے بعد نہ کسی کو نظر ثانی کا حق ہوتا ہے اورنہ دوبارہ اختیار کرنے کا۔اس سے باہرنکل جانے والا اسلامی نظام پرمعترض شمار کیا جاتا ہے اوراس میں سوچ بچار کرنے والامنافق کہا جاتا ہے۔

(۸)

مکتوب

(جریر بن عبداللہ بجلی کے نام جب انہیں معاویہ کی فہمائش کے لئے روانہ فرمایا)

اما بعد(۶) ۔جب تمہیں یہ میراخط مل جائے تو معاویہ سے حتمی فیصلہ کا مطالبہ کردینا اورایک آخری بات طے کر لینا اوراسے خبردار کردینا کہاب دو ہی راستے ہیں۔یا فنا کردینے والی جنگ یا رسواکن صلح۔اب اگر وہ جنگ کو اختیار کرے توبات چیت ختم کردینا اور جنگ کی تیاری کرنا اور اگر صلح کی بات کرے تو فوراً اس سے بیعت لے لینا۔والسلام۔

۴۸۱

(۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَأَرَادَ قَوْمُنَا قَتْلَ نَبِيِّنَا واجْتِيَاحَ أَصْلِنَا - وهَمُّوا بِنَا الْهُمُومَ وفَعَلُوا بِنَا الأَفَاعِيلَ - ومَنَعُونَا الْعَذْبَ وأَحْلَسُونَا الْخَوْفَ - واضْطَرُّونَا إِلَى جَبَلٍ وَعْرٍ - وأَوْقَدُوا لَنَا نَارَ الْحَرْبِ - فَعَزَمَ اللَّه لَنَا عَلَى الذَّبِّ عَنْ حَوْزَتِه - والرَّمْيِ مِنْ وَرَاءِ حُرْمَتِه - مُؤْمِنُنَا يَبْغِي بِذَلِكَ الأَجْرَ وكَافِرُنَا يُحَامِي عَنِ الأَصْلِ - ومَنْ أَسْلَمَ مِنْ قُرَيْشٍ خِلْوٌ مِمَّا نَحْنُ فِيه بِحِلْفٍ يَمْنَعُه - أَوْ عَشِيرَةٍ تَقُومُ دُونَه فَهُوَ مِنَ الْقَتْلِ بِمَكَانِ أَمْنٍ

وكَانَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ ،

(۹)

مکتوب

(معاویہ کے نام )

ہماری قوم قریش(۱) کا ارادہ تھاکہ ہمارے پیغمبر (ص) کو قتل کردے اور ہمیں جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے۔انہوںنے ہمارے بارے میں رنج و غم کے اسباب فراہم کئے اور ہم سے طرح طرح کے برتائو کئے۔ہمیں راحت و آرام سے روک دیا اور ہمارے لئے مختلف قسم کے خوف کا انتظام کیا۔کبھی ہمیں نا ہموار پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا اور کبھی ہمارے لئے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔لیکن پروردگار نے ہمیں طاقت دی کہ ہم ان کے دین کی حفاظت کریں اوران کی حرمت سے ہر طرح سے دفاع کریں۔ہم میں صاحبان ایمان اجرآخرت کے طلب گارتھے اور کفار اپنی اصل کی حمایت کر رہے تھے ۔قریش میں جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے وہ ان مشکلات سے آزاد تھے۔یا اس لئے کہ انہوں نے کوئی حفاظتی معادہ کرلیا تھا یا ان کے پاس قبیلہ تھا جوان کے سامنے کھڑا ہو جاتاتھا اور وہ قتل سے محفوظ رہتے تھے۔اور رسول اکرم (ص) کا یہ عالم تھا کہ جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے تھے

(۱) قریش کی زندگی کا سارا نظام قبائلی بنیادوں پرچل رہا تھا اور ہر قبیلہ کو کوئی نہ کوئی حیثیت حاصل تھی لیکن اسلام کے آنے کے بعد ان تمام حیثیتوں کا خاتمہ ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں سب نے اسلام کے خلاف اتحاد کرلیا اورمختلف معرکے بھی سامنے آگئے لیکن پروردگار عالم نے رسول اکرم (ص)کے گھرانے کے ذریعہ اپنے دین کو بچا لیا اوراس میں کوئی قبیلہ بھی ان کا شریک نہیں ہے اورنہ کسی کو یہ شرف حاصل ہے ۔نہ کسی قبیلہ پمیں کوئی ابو طالب جیسا محافظ پیدا ہوا۔ اورنہ عبیدہ جیسا ہ مجاہد ۔ نہ کسی قبیلہ نے حمزہ جیسا سیدالشہداء پیدا کیا ہے اورنہ جعفر جیسا طیار۔

یہ صرف بنی ہاشم کا شرف ہے اور اسلام کی گردن پران کے علاوہ کسی کا کوئی احسان نہیں ہے۔

۴۸۲

وأَحْجَمَ النَّاسُ - قَدَّمَ أَهْلَ بَيْتِه - فَوَقَى بِهِمْ أَصْحَابَه حَرَّ السُّيُوفِ والأَسِنَّةِ - فَقُتِلَ عُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ يَوْمَ بَدْرٍ - وقُتِلَ حَمْزَةُ يَوْمَ أُحُدٍ - وقُتِلَ جَعْفَرٌ يَوْمَ مُؤْتَةَ - وأَرَادَ مَنْ لَوْ شِئْتُ ذَكَرْتُ اسْمَه - مِثْلَ الَّذِي أَرَادُوا مِنَ الشَّهَادَةِ - ولَكِنَّ آجَالَهُمْ عُجِّلَتْ ومَنِيَّتَه أُجِّلَتْ - فَيَا عَجَباً لِلدَّهْرِ - إِذْ صِرْتُ يُقْرَنُ بِي مَنْ لَمْ يَسْعَ بِقَدَمِي - ولَمْ تَكُنْ لَه كَسَابِقَتِي - الَّتِي لَا يُدْلِي أَحَدٌ بِمِثْلِهَا - إِلَّا أَنْ يَدَّعِيَ مُدَّعٍ مَا لَا أَعْرِفُه ولَا أَظُنُّ اللَّه يَعْرِفُه - والْحَمْدُ لِلَّه عَلَى كُلِّ حَالٍ.

وأَمَّا مَا سَأَلْتَ مِنْ دَفْعِ قَتَلَةِ عُثْمَانَ إِلَيْكَ - فَإِنِّي نَظَرْتُ فِي هَذَا الأَمْرِ - فَلَمْ أَرَه يَسَعُنِي دَفْعُهُمْ إِلَيْكَ ولَا إِلَى غَيْرِكَ - ولَعَمْرِي لَئِنْ لَمْ تَنْزِعْ عَنْ غَيِّكَ وشِقَاقِكَ - لَتَعْرِفَنَّهُمْ عَنْ قَلِيلٍ يَطْلُبُونَكَ - لَا يُكَلِّفُونَكَ طَلَبَهُمْ فِي بَرٍّ ولَا بَحْرٍ - ولَا جَبَلٍ ولَا سَهْلٍ - إِلَّا أَنَّه طَلَبٌ يَسُوءُكَ وِجْدَانُه - وزَوْرٌ لَا يَسُرُّكَ لُقْيَانُه والسَّلَامُ لأَهْلِه.

اور لوگ پیچھے ہٹنے لگے تھے تو آپ اپنے اہل بیت کو آگے بڑھا دیتے تھے اوروہ اپنے کو سپر بناکر اصحاب کو تلوار اورنیزوں کی گرمی سے محفوظ رکھتے تھے چنانچہ بدرکے دن جناب عبیدہ بن الحارث مارے گئے۔احد کے دن حمزہ شہید ہوئے اورموتہ میں جعفر کام آگئے ۔

ایک شخص نے جس کا نام بتا سکتا ہوںانہیں لوگوں جیسی شہادت کا قصد کیاتھا لیکن ان سب کی موت جلدی آگئی اور اس کی موت پیچھے ٹال دی گئی۔

کس قدر تعجب خیز ہے زمانہ کا یہ حال کہ میرا مقابلہ ایسے افراد سے ہوتا ہے جو کبھی میرے ساتھ قدم ملا کر نہیں چلے اورنہاس دین میں ان کا کوئی کارنامہ ہے جو مجھ سے موازنہ کیا جا سکے مگر یہ کہ کوئی مدعی کسی ایسے شرف کادعویٰ کرے جس کونہ میں جانتا ہوں۔اورنہ ''شائد ''خدا ہی جانتا ہے۔مگر بہر حال ہر حال میں خداکا شکرہے۔

رہ گیا تمہارا یہ مطالبہ کہ میں قاتلان عثمان کو تمہارے حوالے کردوں تو میں نے اس مسئلہ میں کافی غور کیا ے۔میرے امکان میں انہیں نہ تمہارے حوالہ کرنا ہے اورنہ کسی اور کے ۔میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اورعداوت سے بازنہ آئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ یہ تمہیں بھی ڈھونڈھ لیں گے اوراس بات کی زحمت نہ دیں گے کہ تم انہیں خشکی یا تری ۔پہاڑ یا صحرا میں تلاش کرو۔البتہ یہ وہ طلب ہوگی جس کا پالینا باعث مسرت نہ ہوگا اور وہ ملاقات ہوگی جس سے کسی طرح کی خوشی نہ ہوگی۔اور سلام اس کے اہل پر۔

۴۸۳

(۱۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليه أيضا

وكَيْفَ أَنْتَ صَانِعٌ - إِذَا تَكَشَّفَتْ عَنْكَ جَلَابِيبُ مَا أَنْتَ فِيه - مِنْ دُنْيَا قَدْ تَبَهَّجَتْ بِزِينَتِهَا وخَدَعَتْ بِلَذَّتِهَا - دَعَتْكَ فَأَجَبْتَهَا،

وقَادَتْكَ فَاتَّبَعْتَهَا - وأَمَرَتْكَ فَأَطَعْتَهَا - وإِنَّه يُوشِكُ أَنْ يَقِفَكَ وَاقِفٌ عَلَى مَا لَا يُنْجِيكَ مِنْه مِجَنٌّ - فَاقْعَسْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ - وخُذْ أُهْبَةَ الْحِسَابِ وشَمِّرْ لِمَا قَدْ نَزَلَ بِكَ - ولَا تُمَكِّنِ الْغُوَاةَ مِنْ سَمْعِكَ - وإِلَّا تَفْعَلْ أُعْلِمْكَ مَا أَغْفَلْتَ مِنْ نَفْسِكَ - فَإِنَّكَ مُتْرَفٌ قَدْ أَخَذَ الشَّيْطَانُ مِنْكَ مَأْخَذَه - وبَلَغَ فِيكَ أَمَلَه وجَرَى مِنْكَ مَجْرَى الرُّوحِ والدَّمِ.

ومَتَى كُنْتُمْ يَا مُعَاوِيَةُ سَاسَةَ الرَّعِيَّةِ - ووُلَاةَ أَمْرِ الأُمَّةِ -

(۱۰)

مکتوب

(معاویہ ہی کے نام )

اس وقت کیا کروگے جب اس دنیاکے یہ سارے لباس تم سے اترجائیں جس کی زینت سے تم نے اپنے کوآراستہ کر رکھا ہے اورجس کی لذت نے تم کودھوکہ میں ڈال دیا ہے۔اس دنیانے تم کوآوازدی تو تم نے لبیک کہہ دی اورتمہیں کھینچنا چاہا تو تم کھینچتے چلے گئے اوراس کے احکام کی اطاعت کرتے رہے۔قریب ہے کہ کوئی بتانے والا تمہیں ان چیزوں سے آگاہ کرے جن سے کوئی سپر بچانے والی نہیں ہے لہٰذا مناسب ہے کہ اس دعویٰ سے باز آجائواور حساب و کتاب کا سامان تیار کرلو۔آنے والی مصیبتوں کے لئے کمر بستہ ہو جائو اور گمراہوں کو اپنی سماعت پر حاوینہ بنائو ورنہ ایسا نہ کیا تو میں تہیں ان تمام چیزوں سے با خبر کردوں گا جن سے تم غافل ہو۔تم عیش و عشرت کے دلدادہ ہو۔شیطان نے تمہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اپنی امیدوں کو حاصل کرلیا ہے اورتمہارے رگ و پے میں روح اورخون کی طرح سرایت کرگیا ہے۔

معاویہ! آخر تم لوگ کب رعایا(۱) کی نگرانی کے قابل اور امت کے مسائل کے والی تھے جب کہ تمہارے

(۱) اس مقام پر سیاست سے مراد سیاست عادلہ اوررعایت کاملہ ہے کہ اس کام کا انجام دیناہر کس و ناکس کے بسکا نہیں ہے ورنہ سیاست سے مکاری ' عیاری اورغداری مرادلی جائے تو بنی امیہ ہمیشہ سے سیاست مدار تھے اورابو سفیان نے ہرمحاذ پر اسلام کے خلاف لشکرکشی کی ہے اور اس راہمیں کسی بھی حربہ کونظراندازنہیں کیا ہے ۔بکیھ میدانوں میں مقابلہ کیا ہے اورکبھی بیعت کرکے اسلام کا صفایا کیا ہے۔

۴۸۴

بِغَيْرِ قَدَمٍ سَابِقٍ ولَا شَرَفٍ بَاسِقٍ - ونَعُوذُ بِاللَّه مِنْ لُزُومِ سَوَابِقِ الشَّقَاءِ - وأُحَذِّرُكَ أَنْ تَكُونَ مُتَمَادِياً فِي غِرَّةِ الأُمْنِيِّةِ - مُخْتَلِفَ الْعَلَانِيَةِ والسَّرِيرَةِ.

وقَدْ دَعَوْتَ إِلَى الْحَرْبِ فَدَعِ النَّاسَ جَانِباً - واخْرُجْ إِلَيَّ وأَعْفِ الْفَرِيقَيْنِ مِنَ الْقِتَالِ - لِتَعْلَمَ أَيُّنَا الْمَرِينُ عَلَى قَلْبِه والْمُغَطَّى عَلَى بَصَرِه - فَأَنَا أَبُو حَسَنٍ - قَاتِلُ جَدِّكَ وأَخِيكَ وخَالِكَ شَدْخاً يَوْمَ بَدْرٍ - وذَلِكَ السَّيْفُ مَعِي - وبِذَلِكَ الْقَلْبِ أَلْقَى عَدُوِّي - مَا اسْتَبْدَلْتُ دِيناً ولَا اسْتَحْدَثْتُ نَبِيّاً - وإِنِّي لَعَلَى الْمِنْهَاجِ الَّذِي تَرَكْتُمُوه طَائِعِينَ - ودَخَلْتُمْ فِيه مُكْرَهِينَ.

وزَعَمْتَ أَنَّكَ جِئْتَ ثَائِراً بِدَمِ عُثْمَانَ - ولَقَدْ عَلِمْتَ حَيْثُ

وَقَعَ دَمُ عُثْمَانَ - فَاطْلُبْه مِنْ هُنَاكَ إِنْ كُنْتَ طَالِباً - فَكَأَنِّي قَدْ رَأَيْتُكَ تَضِجُّ مِنَ الْحَرْبِ - إِذَا عَضَّتْكَ ضَجِيجَ الْجِمَالِ بِالأَثْقَالِ - وكَأَنِّي بِجَمَاعَتِكَ

پاس نہ کوئی سابقہ شرف ہے اور نہ کوئی بلند و بالا عزت۔ہم اللہ سے تمام دیرینہ بد بختیوں سے پناہ مانگتے ہیں اورتمہیں باخبر کرتے ہیں کہ خبر دار امیدوں کے دھوکہ میں اور ظاہر و باطن کے اختلاف میں مبتلا ہوکر گمراہی میں دورتک مت چلے جائو۔تم نے مجھے جنگ کی دعوت دی ہے تو بہتر یہ ہے کہ لوگوں کوالگ کردو اور بذات خود میدان میں آجائو۔ فریقین کو جنگ سے معاف کردواور ہم(۱) تم براہ راست مقابلہ کرلیں تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ کس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اور کس کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے روز بدر تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ ) ماموں ( ولید بن عتبہ ) اور بھائی حنظلہ کا سر توڑ کرخاتمہ کردیا ہے۔ اورابھی وہ تلوار میرے پاس ہے اورمیں اسی ہمت قلب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کروں گا۔میں نےنہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ نیا نبی اختیار کیا ہے میں اسی راستہ پرچل رہا ہوں جسے تم نے اختیاری حدود تک چھوڑ رکھا تھا اورپھرمجبوراً داخل ہوگئے تھے ۔تمہارا خیال ہے کہ تم خون عثمان کا بدلہ لینے آئے ہو۔تو تمہیں تو معلوم ہےکہ اس خون کی جگہ کہاں ہے۔اگرواقعی مطالبہ کرنا ہے تو وہیں جا کرکرو۔مجھےتو یہ منظرنظر آرہا ہے(۸) کہ جنگ تمہیں دانتوں سےکاٹ رہی ہےاورتم اس طرح فریاد کر رہےہو جس طرح اونٹ سامان کی گرانی سےبلبلانے لگتے ہیں اورتمہاری جماعت

(۱)حضرت کا یہ وہ مطالبہ تھاجس کی عمرو عاص نے بھی تائید کردی تھی لیکن معاویہ فوراً تاڑ گیا اوراس نے کہا کہ تو خلافت کاامید وار دکھائی دے رہا ہے اور پھر میدان کا رخ کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا کہ علی کی تلوارسے بچ کرنکل جانا محالات میں سے ہے۔

۴۸۵

تَدْعُونِي جَزَعاً مِنَ الضَّرْبِ الْمُتَتَابِعِ - والْقَضَاءِ الْوَاقِعِ ومَصَارِعَ بَعْدَ مَصَارِعَ إِلَى كِتَابِ اللَّه - وهِيَ كَافِرَةٌ جَاحِدَةٌ أَوْ مُبَايِعَةٌ حَائِدَةٌ

(۱۱)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها جيشا بعثه إلى العدو

فَإِذَا نَزَلْتُمْ بِعَدُوٍّ أَوْ نَزَلَ بِكُمْ - فَلْيَكُنْ مُعَسْكَرُكُمْ فِي قُبُلِ الأَشْرَافِ - أَوْ سِفَاحِ الْجِبَالِ أَوْ أَثْنَاءِ الأَنْهَارِ - كَيْمَا يَكُونَ لَكُمْ رِدْءاً ودُونَكُمْ مَرَدّاً - ولْتَكُنْ مُقَاتَلَتُكُمْ مِنْ وَجْه وَاحِدٍ أَوِ اثْنَيْنِ - واجْعَلُوا لَكُمْ رُقَبَاءَ فِي صَيَاصِي الْجِبَالِ - ومَنَاكِبِ الْهِضَابِ - لِئَلَّا يَأْتِيَكُمُ الْعَدُوُّ مِنْ مَكَانِ مَخَافَةٍ أَوْ أَمْنٍ - واعْلَمُوا أَنَّ مُقَدِّمَةَ الْقَوْمِ عُيُونُهُمْ - وعُيُونَ الْمُقَدِّمَةِ طَلَائِعُهُمْ وإِيَّاكُمْ والتَّفَرُّقَ - فَإِذَا نَزَلْتُمْ فَانْزِلُوا جَمِيعاً - وإِذَا ارْتَحَلْتُمْ فَارْتَحِلُوا جَمِيعاً - وإِذَا غَشِيَكُمُ اللَّيْلُ فَاجْعَلُوا الرِّمَاحَ كِفَّةً - ولَا تَذُوقُوا النَّوْمَ إِلَّا غِرَاراً أَوْ مَضْمَضَةً

مسلسل تلوار کی ضرب اورموت کی گرم بازاری اور کشتوں کے پشتے لگ جانے کی بنا پر مجھے کتاب خداکی دعوت دے رہی ہے جب کہ خود اس کتاب کی دیدہ و دانستہ منکر ہے یا بیعت کرنے کے بعد بیعت شکنی کرنے والی ہے۔

(۱۱)

آپ کی نصیحت

(جو اپنےلشکرکودشمن کی طرف روانہ کرتےہوئےفرمائی ہے )

جب تم کسی دشمن پر واردہونا یا اگر وہ تم پر وارد ہو تو دیکھو(۱) تمہارے پڑائو ٹیلوں کے سامنے یا پہاڑوں کے دامن میں یا نہروں کے موڑ پر ہوں تاکہ یہ تمہارے لئے وسیلہ حفاظت بھی رہیں اوردشمن کو روک بھی سکیں۔اورجنگ ہمیشہ ایک یا دو محاذوں پر کرنا اور اپنے نگرانوں کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور ٹیلوں کی بلند سطحوںپرمعین کر دیناتاکہ دشمن نہ کسی خطرناک جگہ سے حملہ کر سکے اورنہ محفوظ جگہ سے اور یہ یاد رکھنا کہ فوج کاہر اول دستہ فوج کا نگراں ہوتا ہے اوراس کی اطلاعات کاذریعہ مخبر افراد ہوتے ہیں۔خبردار آپس میں منتشر نہ ہو جانا۔جہاں اترنا سب ایک ساتھ اترنا اور جب کوچ کرنا تو سب ساتھ کوچ کرنا۔اور جب رات ہو جائے تو نیزوں کو اپنے گرد گاڑ دینا اور خبردار نیند کا مزہ چکھنے کا ارادہ نہ کرنا مگر یہ کہ ایک آدھ جھپکی لگ جائے ۔

(۱)یہ وہ ہدایات ہیںجو ہردورمیں کام آنے والی ہیں اورقائد اسلام کا فرض ہے کہ جس دورمیں جس طرح کا میدان اورجس طرح کے اسلحہ ہوں ان سبکی تنظیم انہیں اصولوں کی نیاد پر کرے جن کی طر ف امیر المومنین نیدو رنیزہ و شمشیر میں اشارہ فرمایا ہے۔حالات اوراسلحوں کے بدل جانے سے اصول حرب و ضرب اور قوانین جہاد و قتال میں فرق نہیں ہوسکتا ہے۔

۴۸۶

(۱۲)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها معقل بن قيس الرياحي - حين أنفذه إلى الشام في ثلاثة آلاف مقدمة له

اتَّقِ اللَّه الَّذِي لَا بُدَّ لَكَ مِنْ لِقَائِه - ولَا مُنْتَهَى لَكَ دُونَه - ولَا تُقَاتِلَنَّ إِلَّا مَنْ قَاتَلَكَ - وسِرِ الْبَرْدَيْنِ وغَوِّرْ بِالنَّاسِ - ورَفِّه فِي السَّيْرِ ولَا تَسِرْ أَوَّلَ اللَّيْلِ - فَإِنَّ اللَّه جَعَلَه سَكَناً وقَدَّرَه مُقَاماً لَا ظَعْناً - فَأَرِحْ فِيه بَدَنَكَ ورَوِّحْ ظَهْرَكَ - فَإِذَا وَقَفْتَ حِينَ يَنْبَطِحُ السَّحَرُ - أَوْ حِينَ يَنْفَجِرُ الْفَجْرُ فَسِرْ عَلَى بَرَكَةِ اللَّه - فَإِذَا لَقِيتَ الْعَدُوَّ فَقِفْ مِنْ أَصْحَابِكَ وَسَطاً - ولَا تَدْنُ مِنَ الْقَوْمِ دُنُوَّ مَنْ يُرِيدُ أَنْ يُنْشِبَ الْحَرْبَ - ولَا تَبَاعَدْ عَنْهُمْ تَبَاعُدَ مَنْ يَهَابُ الْبَأْسَ - حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي - ولَا يَحْمِلَنَّكُمُ شَنَآنُهُمْ عَلَى قِتَالِهِمْ - قَبْلَ دُعَائِهِمْ والإِعْذَارِ إِلَيْهِمْ.

(۱۲)

آپ کی نصیحت

(جو معقل بن قیس ریاحی کواس وقت فرمائی ہے جب انہیں تین ہزار کا لشکر دے کرشام کی طرف روانہ فرمایا ہے )

اس اللہ سے ڈرتے رہنا جس کی بارگاہ میںبہر حال حاضر ہونا ہے اورجس کے علاوہ کوئی آخری منزل نہیں ہے۔جنگ اسی سے کرنا جو تم سے جنگ کرے۔ٹھنڈے اوقات میں صبح و شام سفر کرنا اور گرمی کے وقت میں قافلہ کو روک کر لوگوں کو آرام کرنے دینا۔آہستہ سفر کرنا اوراول شب میں سفرمت کرناکہ پروردگارنے رات کو سکون کے کے لئے بنایا ہے اور اسے قیام کے لئے قرار دیا ہے۔سفر کے لئے نہیں۔لہٰذا رات میں اپنے بدن کوآرام دینا اوراپنی سواری کے لئے سکون فراہم کرنا۔اس کیبعد جب دیکھ لینا کہ سحر طلوع ہو رہی ہے اور صبح روشن ہو رہی ہے تو برکت خدا کے سہارے اٹھ کھڑے ہونا۔ اورجب دشمن کا سامناہو جائے تو اپنے اصحاب کے درمیان ٹھہرنا اورنہ دشمن سے اس قدر قریب ہو جانا کہ جیسے جنگ چھیڑنا چاہیے ہو۔اور نہ اس قدر دور ہو جانا کہ جیسے جنگ سے خوفزدہ ہو۔یہاں تک کہ میرا حکم آجائے اوردیکھوخبردار دشمن کی دشمنی تمہیں اس بات پرآمادہ نہ کردے کہ اسے حق کی دعوت دینے اورحجت تمام کرنے سے پہلے جنگ کا آغاز کردو(۱)

(۱)یہ ساری ہدایات معقل بن قیس کے بارے میں ہیں جنہیں آپ نے تین ہزار افراد کا سردار لشکر بنا کر بھیجا تھا اورایسے ہدایات سے مسلح فرمادیا تھا جو صبح قیامت تک کام آنے والی ہوں اور ہر دور کا انسان ان سے استفادہ کرسکے۔

۴۸۷

(۱۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أميرين من أمراء جيشه

وقَدْ أَمَّرْتُ عَلَيْكُمَا - وعَلَى مَنْ فِي حَيِّزِكُمَا مَالِكَ بْنَ الْحَارِثِ الأَشْتَرَ - فَاسْمَعَا لَه وأَطِيعَا واجْعَلَاه دِرْعاً ومِجَنّاً - فَإِنَّه مِمَّنْ لَا يُخَافُ وَهْنُه ولَا سَقْطَتُه - ولَا بُطْؤُه عَمَّا الإِسْرَاعُ إِلَيْه أَحْزَمُ - ولَا إِسْرَاعُه إِلَى مَا الْبُطْءُ عَنْه أَمْثَلُ

(۱۴)

ومن وصية لهعليه‌السلام

لعسكره قبل لقاء العدو بصفين

لَا تُقَاتِلُوهُمْ حَتَّى يَبْدَءُوكُمْ - فَإِنَّكُمْ بِحَمْدِ اللَّه عَلَى حُجَّةٍ - وتَرْكُكُمْ إِيَّاهُمْ حَتَّى يَبْدَءُوكُمْ حُجَّةٌ أُخْرَى لَكُمْ عَلَيْهِمْ - فَإِذَا كَانَتِ الْهَزِيمَةُ بِإِذْنِ اللَّه - فَلَا تَقْتُلُوا مُدْبِراً ولَا تُصِيبُوا مُعْوِراً - ولَا تُجْهِزُوا عَلَى جَرِيحٍ

(۱۳)

آپ کامکتوب شریف

(اپنے سرداران لشکر میں ایک سردار کے نام)

میں نے تم پر اورتمہارے ماتحت لشکر پر مالک بن الحارث(۱) الاشترکو سردار قراردے دیا ہے لہٰذا ان کی باتوں پر توجہ دینا اور ان کی اطاعت کرنا اورانہیں کو اپنی زرہ اور سپر قراردینا کہ مالک ان لوگوں میں ہیں جن کی کمزوری اور لغزش کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ وہ اس موقع پر سستی کرسکتے ہیںجہاںتیز زیادہ مناسب ہو۔اورنہ وہاں تیزی کرس کتے ہیں جہاں سستی زیادہ قرین عقل ہو۔

(۱۴)

آپ کی نصیحت

(اپنے لشکر کے نام صفین کی جنگ کے آغاز سے پہلے )

خبردار! اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک وہ لوگ پہل نہ کردیں کہ تم بحمد اللہ اپنی دلیل(۲) رکھتے ہو اور انہیں اس وقت تک موقع دینا جب تک پہل نہ کردیں ایک دوسری حجت ہو جائے گی۔اس کے بعد جب حکم خدا سے دشمن کو شکست ہو جائے تو کسی بھاگنے والے کو قتل نہ کرنا اور کسی عاجز کو ہلاک نہ کرنا اور کسی زخمی

(۱)مالک اشتران لوگوں میں ہیں جنہوں نے ابو ذر کے غسل و کفن کا انتظام کیا تھا۔جن کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ میرا ایک صحابی عالم غربت میں انتقال کرے گا اورصاحبان ایمان کی ایک جماعت اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرے گی۔ (استیعاب ترجمہ جندب)

(۲)یہ دلیل سورہ ٔ حجرات کی آیت ۹ ہے جس میں باغی سے قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاویہ اوراس کی جماعت باغی تھی جس کی تصدیق جناب عمار یاسر کی شہادت سے ہوگئی جن کے قاتل کو سرکار دوعالم (ص) نے باغی قرر دیا تھا۔

۴۸۸

- ولَا تَهِيجُوا النِّسَاءَ بِأَذًى - وإِنْ شَتَمْنَ أَعْرَاضَكُمْ وسَبَبْنَ أُمَرَاءَكُمْ - فَإِنَّهُنَّ ضَعِيفَاتُ الْقُوَى والأَنْفُسِ والْعُقُولِ - إِنْ كُنَّا لَنُؤْمَرُ بِالْكَفِّ عَنْهُنَّ وإِنَّهُنَّ لَمُشْرِكَاتٌ - وإِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَتَنَاوَلُ الْمَرْأَةَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ - بِالْفَهْرِ أَوِ الْهِرَاوَةِ - فَيُعَيَّرُ بِهَا وعَقِبُه مِنْ بَعْدِه.

(۱۵)

ومن دعاء لهعليه‌السلام

كانعليه‌السلام يقول إذا لقي العدو محاربا

اللَّهُمَّ إِلَيْكَ أَفْضَتِ الْقُلُوبُ ومُدَّتِ الأَعْنَاقُ - وشَخَصَتِ الأَبْصَارُ ونُقِلَتِ الأَقْدَامُ وأُنْضِيَتِ الأَبْدَانُ - اللَّهُمَّ قَدْ صَرَّحَ مَكْنُونُ الشَّنَآنِ - وجَاشَتْ مَرَاجِلُ الأَضْغَانِ - اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْكُو إِلَيْكَ غَيْبَةَ نَبِيِّنَا - وكَثْرَةَ عَدُوِّنَا وتَشَتُّتَ أَهْوَائِنَا -( رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ - وأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ ) .

(۱۶)

وكان يقولعليه‌السلام

لأصحابه عند الحربك

پر قاتلانہ حملہ نہ کرنا۔اورعورتوں کو اذیت مت دینا چاہے وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دیں اور تمہارے حکام کوبرا بھلا ہی کیوں نہ کہیں۔کہ یہ قوت نفس اور عقل کے اعتبارسے کمزور ہیں اور ہم پیغمبر (ص) کے زمانے میں بھی ان کے بارے میں ہاتھ روک لینے پر مامور تھے ۔ جب کہ وہ مشرک تھیں اوراس وقت بھی اگر کوئی شخص عورتوں سے پتھر یالکڑی کے ذریعہ تعرض کرتا تھا تو اسے اور اس کی نسلوں کو مطعون کیا جاتا تھا۔

(۱۵)

آپ کی دعا

(جسے دشمن کے مقابلہ کے وقت دہرایا کرتے تھے)

خدایا تیری ہی طرف دل کھنچ رہے ہیں اور گردنیں اٹھی ہوئی ہیں اورآنکھیں لگی ہوئی ہیں اورقدم آگے بڑھ رہے ہیں اوربدن لاغر ہو چکے ہیں۔ خدایا چھپے ہوئے کینے سامنے آگئے ہیں اور عداوتوں کی دیگیں جوش کھانے لگی ہیں۔

خدایا ہم تیریر بارگاہ میں اپنے رسول کی غیبت اوردشمنوں کی کثرت کی اورخواہشات کے تفرقہ کی فریاد کر رہے ہیں ۔

خدایا ہمارے اوردشمنوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

(۱۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جو جنگ کے وقت اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے )

۴۸۹

لَا تَشْتَدَّنَّ عَلَيْكُمْ فَرَّةٌ بَعْدَهَا كَرَّةٌ - ولَا جَوْلَةٌ بَعْدَهَا حَمْلَةٌ - وأَعْطُوا السُّيُوفَ حُقُوقَهَا - ووَطِّئُوا لِلْجُنُوبِ مَصَارِعَهَا - واذْمُرُوا أَنْفُسَكُمْ عَلَى الطَّعْنِ الدَّعْسِيِّ والضَّرْبِ الطِّلَحْفِيِّ - وأَمِيتُوا الأَصْوَاتَ فَإِنَّه أَطْرَدُ لِلْفَشَلِ –

فَوَ الَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ - مَا أَسْلَمُوا ولَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وأَسَرُّوا الْكُفْرَ - فَلَمَّا وَجَدُوا أَعْوَاناً عَلَيْه أَظْهَرُوه.

(۱۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية - جوابا عن كتاب منه إليه

وأَمَّا طَلَبُكَ إِلَيَّ الشَّامَ - فَإِنِّي لَمْ أَكُنْ لأُعْطِيَكَ الْيَوْمَ مَا مَنَعْتُكَ أَمْسِ

خبردا رتم پروہ فرار(۱) گراں نہ گزرے جس کے بعد حملہ کرنے کا امکان ہو اور وہ پسپائی پریشان کن نہ ہوجس کے بعد دوبارہ واپسی کا امکان ہو۔تلواروں کوان کا حق دے دواور پہلو کے بھل گرنے والے دشمنوں کے لئے مقتل تیار رکھو۔اپنے نفس کو شدید نیزہ بازی اورسخت ترین شمشیر زنی کے لئے آمادہ رکھو اور آوازوں کومردہ بنا دو کہ اس سے کمزوری دور ہوجاتی ہے ۔

قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اورجاندار چیزوں کوپیدا کیا ہے کہ یہ لوگ اسلام نہیں لائے ہیں بلکہ حالات کے سامنے سپر انداختہ ہوگئے ہیں اور اپنے کفر کو چھپائے ہوئے ہیں اورجیسے ہی مددگار مل گئے ویسے ہی اظہار کردیا۔

(۱۷)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام۔اس کے ایک خط کے جواب میں )

تمہارا یہ مطالبہ(۲) کہ میں شام کا علاقہ تمہارے حوالے کردوں۔تو جس چیز سے کل انکار کرچکا ہوں وہ

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میدان جنگ میں ایسے حالات آجاتے ہیں جب سپاہی کو اپنی جگہ چھوڑنا پڑتی ہے۔ اور ایک طرح سے فرارکا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔لیکن اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔بشرطیکہ حوصلہ جہاد برقرار رہے اورجذبہ قربانی میں فرق نہ آنے پائے ۔ میدان احد کا سب سے بڑا عیب یہی تھا کہ '' صحابہ کرام '' جذبہ قربانی سے عاری ہوگئے تھے اور رسول اکرم (ص) کے پکارنے کے باوجود پلٹ کر آنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ایسی صورت حال یقینا اس قابل ہے کہ اس کی مذمت کی جائے اور یہ ننگ و عارنسلوں میں باقی رہ جائے ۔ورنہ افراد کے بعد حملہ یا پسپائی کے بعد واپسی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پرمذمت یا ملامت کی جائے ۔

(۲)معاویہ نے اپنے خط میں چار نکتے اٹھائے تھے اورحضرت نے سب کے الگ الگ جوابات دئیے ہیں اورحق و باطل کا ابدی فیصلہ کردیا ہے اورآخرمیں یہ بھی واضح کردیاہے کہ تمام معاملات میں مساوات فرض کرلینے کے بعد بھی شرفت نبوت کاکوئی مقام نہیں ہو سکتا ہے جوپروردگارنے بنی ہاشم کو عطا کیا ہے اوراسی کابنی امیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اورذاتی کردار کے اعتبار سے بھی بنی ہاشم اسلام کی منزل پر فائز تھے اور بنی امیہ نے فتح مکہ کے موقع پر مجبوراً کلمہ پڑھ لیا تھا اور ظاہر ہے کہ استسلام اسلام کے مانند نہیں ہو سکتا ہے ۔

۴۹۰

وأَمَّا قَوْلُكَ - إِنَّ الْحَرْبَ قَدْ أَكَلَتِ الْعَرَبَ إِلَّا حُشَاشَاتِ أَنْفُسٍ بَقِيَتْ - أَلَا ومَنْ أَكَلَه الْحَقُّ فَإِلَى الْجَنَّةِ - ومَنْ أَكَلَه الْبَاطِلُ فَإِلَى النَّارِ – وأَمَّا اسْتِوَاؤُنَا فِي الْحَرْبِ والرِّجَالِ - فَلَسْتَ بِأَمْضَى عَلَى الشَّكِّ مِنِّي عَلَى الْيَقِينِ - ولَيْسَ أَهْلُ الشَّامِ بِأَحْرَصَ عَلَى الدُّنْيَا - مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ عَلَى الآخِرَةِ - وأَمَّا قَوْلُكَ إِنَّا بَنُو عَبْدِ مَنَافٍ - فَكَذَلِكَ نَحْنُ ولَكِنْ لَيْسَ أُمَيَّةُ كَهَاشِمٍ - ولَا حَرْبٌ كَعَبْدِ الْمُطَّلِبِ ولَا أَبُو سُفْيَانَ كَأَبِي طَالِبٍ - ولَا الْمُهَاجِرُ كَالطَّلِيقِ ولَا الصَّرِيحُ كَاللَّصِيقِ - ولَا الْمُحِقُّ كَالْمُبْطِلِ ولَا الْمُؤْمِنُ كَالْمُدْغِلِ - ولَبِئْسَ الْخَلْفُ خَلْفٌ يَتْبَعُ سَلَفاً هَوَى فِي نَارِ جَهَنَّمَ.

وفِي أَيْدِينَا بَعْدُ فَضْلُ النُّبُوَّةِ الَّتِي أَذْلَلْنَا بِهَا الْعَزِيزَ - ونَعَشْنَا بِهَا الذَّلِيلَ - ولَمَّا أَدْخَلَ اللَّه الْعَرَبَ فِي دِينِه أَفْوَاجاً - وأَسْلَمَتْ لَه هَذِه الأُمَّةُ طَوْعاً وكَرْهاً - كُنْتُمْ مِمَّنْ دَخَلَ فِي الدِّينِ إِمَّا رَغْبَةً وإِمَّا رَهْبَةً - عَلَى حِينَ

آج عطا نہیں کرسکتا ہوں اور تمہارا یہ کہنا کہ جنگ نے عرب کاخاتمہ کردیا ہے اورچند ایک افراد کے علاوہ کچھ نہیں باقی رہ گیا ہے تو یاد رکھوکہ جس کا خاتمہ حق پر ہوا ہے اس کا انجام جنت ہے اورجسے باطل کھا گیا ہے اس کا انجام جہنم ہے۔ رہ گیا ہم دونوں کا جنگ اور شخصیات کے بارے میں برابر ہونا۔تو تم شک میں اس طرح تیز رفتاری سے کام نہیں کرسکتے ہو جتنامیں یقین میں کر سکتا ہوں اور اہل شام دنیاکے بارے میں اتنے حریص نہیں ہیں جس قدراہل عراق آخرت کے بارے میں فکر مند ہیں۔

اورتمہارا یہ کہنا کہ ہم سب عبد مناف کی اولاد ہیں تو یہ بات صحیح ہے لیکن نہ امیہ ہاشم جیسا ہو سکتا ہے اور نہ حرب عبدالمطلب جیسا۔نہ ابو سفیان ابو طالب کاہمسر ہو سکتا ہے اور نہ راہ خدا میں ہجرت کرنے والا آزاد کردہ افراد جیسا۔نہ واضح نسب والے کا قیاس شجرہ سے چپکائے جانے والے پر ہوسکتا ہے اور نہ حقدار کو باطل نواز جیسا قراردیا جاسکتا ہے ۔مومن کبھی منافق کے برابر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔بد ترین اولاد تو وہ ہے جو اس سلف کے نقش قدم پر چلے جو جہنم میں گر چکا ہے۔

اس کے بعد ہمارے ہاتھوں میں نبوت کا شرف ہے جس کے ذریعہ ہم نے باطل کے عزت داروں کو ذلیل بنایا ہے اور حق کے کمزوروں کو اوپر اٹھایا ہے۔اورجب پروردگارنے عرب کو اپنے دین میں فوج در فوج داخل کیا ہے اوری ہ قوم بخوشی یا بکراہت مسلمان ہوئی ہے تو تم انہیں دین کے دائرہ میں داخل ہونے والوں میں تھے یا بہ

۴۹۱

فَازَ أَهْلُ السَّبْقِ بِسَبْقِهِمْ - وذَهَبَ الْمُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ بِفَضْلِهِمْ - فَلَا تَجْعَلَنَّ لِلشَّيْطَانِ فِيكَ نَصِيباً - ولَا عَلَى نَفْسِكَ سَبِيلًا والسَّلَامُ.

(۱۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن عباس - وهو عامله على البصرة

واعْلَمْ أَنَّ الْبَصْرَةَ مَهْبِطُ إِبْلِيسَ ومَغْرِسُ الْفِتَنِ - فَحَادِثْ أَهْلَهَا بِالإِحْسَانِ إِلَيْهِمْ - واحْلُلْ عُقْدَةَ الْخَوْفِ عَنْ قُلُوبِهِمْ. وقَدْ بَلَغَنِي تَنَمُّرُكَ لِبَنِي تَمِيمٍ وغِلْظَتُك عَلَيْهِمْ - وإِنَّ بَنِي تَمِيمٍ لَمْ يَغِبْ لَهُمْ نَجْمٌ - إِلَّا طَلَعَ لَهُمْ آخَرُ - وإِنَّهُمْ لَمْ يُسْبَقُوا بِوَغْمٍ فِي جَاهِلِيَّةٍ ولَا إِسْلَامٍ - وإِنَّ لَهُمْ بِنَا رَحِماً مَاسَّةً وقَرَابَةً خَاصَّةً - نَحْنُ مَأْجُورُونَ عَلَى صِلَتِهَا - ومَأْزُورُونَ عَلَى قَطِيعَتِهَا - فَارْبَعْ أَبَا الْعَبَّاسِ رَحِمَكَ اللَّه - فِيمَا جَرَى عَلَى لِسَانِكَ ويَدِكَ مِنْ خَيْرٍ وشَرٍّ - فَإِنَّا شَرِيكَانِ فِي ذَلِكَ - وكُنْ عِنْدَ صَالِحِ ظَنِّي بِكَ - ولَا يَفِيلَنَّ رَأْيِي فِيكَ والسَّلَامُ.

رغبت یا بہ خوف جب کہ سبقت حاصل کرنے والے سبقت حاصل کرچکے تھے اور مہاجرین اولین اپنی فضلیت پاچکے تھے ۔دیکھوخبردار شیطان کواپنی زندگی کا حصہ دار مت بنائو اور اسے اپنے نفس پر راہمت دو۔والسلام ۔

(۱۸)

حضرت کا مکتوب گرامی

(بصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کے نام)

یاد رکھو کہ یہ بصرہ ابلیس کے اترنے اور فتنوں کے ابھرنے کی جگہ کا نام ہے لہٰذا یہاں کے لوگ کے ساتھ اچھابرتائو کرنا اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہ کھول دینا۔

مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم بنی تمیم کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہو اور ان سے سخت قسم کابرتائو کرتے ہو تو یاد رکھو کہ بنی تمیم وہ لوگ ہیں کہ جب ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو دوسرا ابھرآتا ہے۔یہ جنگ کے معاملہ میں جاہلیت یا اسلام کبھی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں اور پھر ہمارا ان سے رشتہ داری اورقرابت کا تعلق بھی ہے کہ اگرہم اس کاخیال رکھیں گے تواجرپائیں گے اور قطع تعلق کرلیں گے تو گناہ گار ہوں گے لہٰذا ابن عباس خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ان کے ساتھ اپنی زبان یا ہاتھ پر جاری ہونے والی اچھائی یا برائی میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا کہ ہم دونوں ان ذمہ داریوں میں شریک ہیں۔اور دیکھو تمہارے بارے میں میرا حسن ظن برقرار رہے اور میری رائے غلط ثابت ہونے پائے ۔

۴۹۲

(۱۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ دَهَاقِينَ أَهْلِ بَلَدِكَ شَكَوْا مِنْكَ غِلْظَةً وقَسْوَةً - واحْتِقَاراً وجَفْوَةً - ونَظَرْتُ فَلَمْ أَرَهُمْ أَهْلًا لأَنْ يُدْنَوْا لِشِرْكِهِمْ - ولَا أَنْ يُقْصَوْا ويُجْفَوْا لِعَهْدِهِمْ - فَالْبَسْ لَهُمْ جِلْبَاباً مِنَ اللِّينِ تَشُوبُه بِطَرَفٍ مِنَ الشِّدَّةِ - ودَاوِلْ لَهُمْ بَيْنَ الْقَسْوَةِ والرَّأْفَةِ - وامْزُجْ لَهُمْ بَيْنَ التَّقْرِيبِ والإِدْنَاءِ - والإِبْعَادِ والإِقْصَاءِ إِنْ شَاءَ اللَّه.

(۲۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد ابن أبيه - وهو خليفة عامله عبد الله بن عباس على البصرة وعبد الله عامل أمير المؤمنينعليه‌السلام يومئذ عليها - وعلى كور الأهواز وفارس وكرمان وغيرها:

(۱۹)

آپ کامکتوب گرامی

(اپنے بعض عمال کے نام )

اما بعد! تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہارے بارے میں سختی ۔سنگدلی ۔تحقیر و تذلیل اورتشدد کی شکایت کی ہے اورمیں نے ان کے بارے میں غورکرلیا ہے۔وہ اپنے شرک کی بنا پر قریب(۱) کرنے کے قابل تو نہیں ہیں لیکن عہدو پیمان کی بنا پرانہیں دوربھی نہیں کیا جاسکتا ہے اوران پر زیادتی بھی نہیں کی جا سکتی ہے لہٰذا تم ان کے بارے میں ایسی نرمی کاشعار اختیار کرو جس میں قدرے سختی بھی شامل ہو اور ان کے ساتھ سختی اور نرمی کے درمیان کا برتائو کرو کہ کبھی قریب کرلو۔کبھی دور کردو کبھی نزدیک بلا لو اور کبھی الگ رکھو۔انشاء اللہ ۔

(۲۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(زیاد بن ابیہ کے نام جوبصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کا نائب(۲) ہوگیا تھا اور ابن عباس بصرہ اور اہواز کے تمام اطراف کے عامل تھے )

(۱)واضح رہے کہ کسی کا قریب کر لینااورہے اور اس کے ساتھ عادلانہ اورمنصفانہ برتائو کرنا اور ہے۔اسلام عادلانہ برتائو کاحکم ہر ایک کے بارے میں دیتا ہے لیکن قربت کا جواز صرف صاحبان ایمان و کردار کے لئے ہے۔کفار و مشرکین کو تو اس نے حرم خدا سے بھی دور کردیا ہے اور ان کاداخلہ حدود حرم میں بند کردیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ آج عالم اسلام میں کفارو مشرکین ہی قریب بنائے جانے کے قابل ہیں اور کلمہ گو مسلمان اس لائق نہیں رہ گئے ہیں اور ان سے صبح و شام سرد جنگ صرف کفار و مشرکین سے قربت پیدا کرنے یا بر قرار رکھنے کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔اللہ اس اسلام پر رحم کرے اور اس امتکو عقل سلیم عنایت فرمائے ۔

(۲)واضح رہے کہ حضرت اختیاری طور پر کسی ایسے شخص کو عہدہ نہیں دے سکتے ہیں جس کا نسب مشکوک ہو۔یہکام ابن عباس نے ذاتی طورپر کیا تھا۔اسی لئے حضرت نے نہایت ہی سخت لہجہ میں خطاب فرمایا ہے۔

۴۹۳

وإِنِّي أُقْسِمُ بِاللَّه قَسَماً صَادِقاً - لَئِنْ بَلَغَنِي أَنَّكَ خُنْتَ مِنْ فَيْءِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئاً صَغِيراً أَوْ كَبِيراً - لأَشُدَّنَّ عَلَيْكَ شَدَّةً تَدَعُكَ قَلِيلَ الْوَفْرِ - ثَقِيلَ الظَّهْرِ ضَئِيلَ الأَمْرِ والسَّلَامُ

(۲۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد أيضا فَدَعِ الإِسْرَافَ مُقْتَصِداً - واذْكُرْ فِي الْيَوْمِ غَداً - وأَمْسِكْ مِنَ الْمَالِ بِقَدْرِ ضَرُورَتِكَ - وقَدِّمِ الْفَضْلَ لِيَوْمِ حَاجَتِكَ.

أَتَرْجُو أَنْ يُعْطِيَكَ اللَّه أَجْرَ الْمُتَوَاضِعِينَ - وأَنْتَ عِنْدَه مِنَ الْمُتَكَبِّرِينَ - وتَطْمَعُ وأَنْتَ مُتَمَرِّغٌ فِي النَّعِيمِ تَمْنَعُه الضَّعِيفَ والأَرْمَلَةَ - أَنْ يُوجِبَ لَكَ ثَوَابَ الْمُتَصَدِّقِينَ - وإِنَّمَا الْمَرْءُ مَجْزِيٌّ بِمَا أَسْلَفَ وقَادِمٌ عَلَى مَا قَدَّمَ والسَّلَامُ.

(۲۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس رحمه الله تعالى وكان عبد اللَّه يقول: «ما انتفعت بكلام بعد كلام رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،

میں اللہ کی سچی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مجھے خبر مل گئی کہ تم نے مسلمانوں کے مال غنیمت میں چھوٹی یا بڑی قسم کی خیانت کی ہے تو میں تم پر ایسی سختی کروں گا کہ تم نادار ۔بوجھل پیٹھ والے اور بے ننگ ونام ہو کر رہ جائو گے ۔والسلام )

(۲۱)

آپ کامکتوب گرامی

(زیاد ہی کے نام)

(اسراف کوچھوڑ کرمیانہ روی اختیار کرو اورآج کے دن کل کویاد رکھو۔بقدر ضرورت مال روک کر باقی روز حاجت کے لئے آگے بڑھا دو۔)

کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ تم متکبروں میں رہو گے اورخدا تمہیں متواضع افراد جیسا اجردے دے گا یا تمہارے واسطے صدقہ وخیرات کرنے والوں کا ثواب لازم قراردے دیگا اورتم نعمتوں میں کروٹیں بدلتے رہوگے نہ کسی کمزور کاخیال کرو گے اور نہ کسی بیوہ کا جب کہ انسان کو اسی کا اجرملتا ہے جو اس نے انجام دیا ہے اور وہ اسی پر وارد ہوتا ہے جو اس نے پہلے بھیج دیا ہے۔والسلام

(۲۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔جس کے بارے میں خود ابن عباس کا مقولہ تھا کہمیں نے رسول اکرم

۴۹۴

كانتفاعي بهذا الكلام!»

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الْمَرْءَ قَدْ يَسُرُّه دَرْكُ مَا لَمْ يَكُنْ لِيَفُوتَه - ويَسُوؤُه فَوْتُ مَا لَمْ يَكُنْ لِيُدْرِكَه - فَلْيَكُنْ سُرُورُكَ بِمَا نِلْتَ مِنْ آخِرَتِكَ - ولْيَكُنْ أَسَفُكَ عَلَى مَا فَاتَكَ مِنْهَا - ومَا نِلْتَ مِنْ دُنْيَاكَ فَلَا تُكْثِرْ بِه فَرَحاً - ومَا فَاتَكَ مِنْهَا فَلَا تَأْسَ عَلَيْه جَزَعاً - ولْيَكُنْ هَمُّكَ فِيمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

(۲۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

قاله قبل موته على سبيل الوصية - لما ضربه ابن ملجم لعنه الله:

وَصِيَّتِي لَكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِاللَّه شَيْئاً - ومُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَا تُضَيِّعُوا سُنَّتَه - أَقِيمُوا هَذَيْنِ الْعَمُودَيْنِ - وأَوْقِدُوا هَذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ وخَلَاكُمْ ذَمٌّ !

أَنَا بِالأَمْسِ صَاحِبُكُمْ - والْيَوْمَ عِبْرَةٌ لَكُمْ وغَداً مُفَارِقُكُمْ - إِنْ أَبْقَ فَأَنَا وَلِيُّ دَمِي - وإِنْ أَفْنَ فَالْفَنَاءُ مِيعَادِي -

کے بعد کسی کلام سے اس قدر استفادہ نہیں کیا ہے جس قدراس کلام سے کیا ہے )

امابعد! کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اسچیز کو پا کر بھی خوش ہو جاتا ہے جواس کے ہاتھ سے جانے والی نہیں تھی اور اس چیز کے چلے جانے سے بھی رنجیدہ ہو جاتا ہے جواسے ملنے والی نہیں تھی لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اس آخرت پر خوشی منائو جو حاصل ہو جائے اوراس پر افسوس کروجو اس میںسے حاصل نہ ہو سکے ۔دنیا حاصل ہوجائے تواس پر زیادہ خوشی کا اظہار نہ کرو اور ہاتھ سے نکل جائے تو بے قرار ہوکرافسوس نہ کرو۔تمہاری تمامتر فکر موت کے بعد کے بارے میں ہونی چاہیے ۔

(۲۳)

آپ کا ارشاد گرامی

(جسے اپنی شہادت سے پہلے بطور وصیت فرمایا ہے)

تم سب کے لئے میری وصیت یہ ہے کہ خبردار خداکے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ کرنا اور حضرت محمد (ص) کی سنت کو ضائع اور برباد نہ کرنا۔ان دونوں ستونوں کوقائم رکھو اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھو۔اس کے بعد کسی مذمت کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔

میں کل تمہارے ساتھ تھا اور آج تمہارے لئے عبرت بن گیا ہوں اور کل تم سے جدا ہو جائوں گا۔اس کے بعد میں باقی رہ گیا تو اپنے خون کاصاحب اختیار میں خود ہوں ورنہ اگرمیری مدت حیات پوری ہوگئی ہے تو میں دنیا

۴۹۵

وإِنْ أَعْفُ فَالْعَفْوُ لِي قُرْبَةٌ وهُوَ لَكُمْ حَسَنَةٌ - فَاعْفُوا:( أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ الله لَكُمْ ) .

واللَّه مَا فَجَأَنِي مِنَ الْمَوْتِ وَارِدٌ كَرِهْتُه - ولَا طَالِعٌ أَنْكَرْتُه – ومَاكُنْتُ إِلَّا كَقَارِبٍ وَرَدَ وطَالِبٍ وَجَدَ -( وما عِنْدَ الله خَيْرٌ لِلأَبْرارِ ) .

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - أقول وقد مضى بعض هذا الكلام - فيما تقدم من الخطب - إلا أن فيه هاهنا زيادة أوجبت تكريره»

(۲۴)

ومن وصية لهعليه‌السلام

بما يعمل في أمواله - كتبها بعد منصرفه من صفين:

هَذَا مَا أَمَرَ بِه عَبْدُ اللَّه عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ

سے چلا جائوںگا۔میں اگر معاف(۱) کردوں تو یہ میرے لئے قربت الٰہی کا ذریعہ ہوگا اور تمہارے حق میں بھی ایک نیکی ہوگی لہٰذا تم بھی معاف کردینا۔'' کیا تم نہیں چاہتے ہوکہ اللہ تمہیں بخش دے ''

خدا کی قسم یہ اچانک موت ایسی نہیں ہے جسے میں نا پسند کرتا ہوں اور نہ ایسا سانحہ ہے جسے میں برا سمجھتا ہوں ۔میں تو اس شخص کے مانند ہوں جو رات بھر پانی کی جستجو میں رہے اور صبح کو چشمہ پروار ہو جائے اورتلاش کے بعد اپنے مقصد کو پالے اور پھرخداکی بارگاہ میں جو کچھ بھی ہے وہ نیک کرداروں کے لئے بہتر ہی ہے۔

سید رضی : اس کلام کا ایک حصہ پہلے گزر چکا ہے لیکن یہاں کچھ اصنافات تھے لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ اسے دوبارہ نقل کردیا جائے ۔

(۲۴)

آپ کی وصیت

(اپنے اموال کے بارےمیں جسے جنگ صفین کی واپسی پر تحریر فرمایا ہے)

یہ بندۂ خدا ! علی بن ابی طالب امیر المومنین کاحکم

(۱)واضح رہے کہ اس معافی سے مراد دنیا میں انتقام نہ لینا ہے کہ قاتل کے جرم کی دوحیثیتیں ہوتی ہیں ۔وہ انسانی دنیا میں ایک خون کا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں قصاص کا قانون سامنے آتا ہے اور مذہبی دنیا میں حکم الٰہی کی مخالفت کامجرم ہوتا ہے جس کا انجام آتش جہنم ہے۔دنیا کے قصاص و انتقام میں فسادات کے اندیشے ہوتے ہیں اورعداوتوں کے شعلے مزید بھڑک اٹھتے ہیں لیکن آخرت کے عذاب میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ہے۔اس لئے صاحبان عقل و دانش یہاں کے انتقام کو نظراندازکردیتے ہیں تاکہ مزید فساد نہ پیدا ہو سکے اور اس بات سے مطمئن رہتے ہیں کہ مجرم کے لئیعذاب جہنم ہی کافی ہے اور خدا سے بہتر انتقام لینے والا کون ہے ۔

۴۹۶

- فِي مَالِه ابْتِغَاءَ وَجْه اللَّه - لِيُولِجَه بِه الْجَنَّةَ ويُعْطِيَه بِه الأَمَنَةَ

مِنْهَا فَإِنَّه يَقُومُ بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ - يَأْكُلُ مِنْه بِالْمَعْرُوفِ - ويُنْفِقُ مِنْه بِالْمَعْرُوفِ - فَإِنْ حَدَثَ بِحَسَنٍ حَدَثٌ وحُسَيْنٌ حَيٌّ - قَامَ بِالأَمْرِ بَعْدَه وأَصْدَرَه مَصْدَرَه.

وإِنَّ لِابْنَيْ فَاطِمَةَ مِنْ صَدَقَةِ عَلِيٍّ مِثْلَ الَّذِي لِبَنِي عَلِيٍّ - وإِنِّي إِنَّمَا جَعَلْتُ الْقِيَامَ بِذَلِكَ - إِلَى ابْنَيْ فَاطِمَةَ ابْتِغَاءَ وَجْه اللَّه - وقُرْبَةً إِلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وتَكْرِيماً لِحُرْمَتِه وتَشْرِيفاً لِوُصْلَتِه

ويَشْتَرِطُ عَلَى الَّذِي يَجْعَلُه إِلَيْه - أَنْ يَتْرُكَ الْمَالَ عَلَى أُصُولِه - ويُنْفِقَ مِنْ ثَمَرِه حَيْثُ أُمِرَ بِه وهُدِيَ لَه - وأَلَّا

ہے اپنے اموال(۱) کے بارے میں جس کا مقصد رضائے پروردگار ہے تاکہ اس کے ذریعہ جنت میں داخل ہو سکے اور روز محشر کے ہول سے امان پا سکے ۔

ان اموال کی نگرانی حسن بن علی کریں گے بقدر ضرورت استعمال کریں گے اور بقدر مناسب انفاق کریں گے۔اس کے بعد اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آگیا اور جبیں باقی رہ گئے تو ذمہ دار وہ ہوں گے اور اسی انداز پر کام کریں گے ۔

اولاد فاطمہ کا حق علی کے صدقات میں وہی ہے جودیگر اولاد علی کا ہے۔میں نے نگرانی کاکام اولاد فاطمہ کو صرف رضائے الٰہی اورقربت پیغمبر (ص) کے خیال سے سونپ دیاہے کہ اس طرح حضرت کی حرمت کا احترام بھی ہو جائے گا اور آپ کی قرابت کا اعزاز بھی بر قرار رہے گا۔

لیکن اس کے بعد بھی والی کے لئے یہ شرط ہے کہ مال کی اصل کوباقی رکھے اور صرف اس کے ثمرات کوخرچ کرے ۔وہ بھی ان راہوں میں جن کا حکم دیا گیا ہے اورجن کی ہدایت دی گئی ہے اور خبردار اس قریہ کے

(۱)مورخین کے بیان کے مطابق امیر المومنین نے اپنی زندگی میں صرف ارواح و نفوس کی سر زمینوں کو زندہ کرنے کا کام انام نہیں دیا ہے ۔بلکہ مادی زمینوں میں بھی مسلسل کام کرتے رہے ہیں۔زمینوں کو قابل کاشت بنایا ہے۔چشموں کو جاری کیا ہے۔درختوں کی سینچائی کی ہے اور ایک مزدورجیسی زندگی گذاری ہے اور پھر اپنی ساری زحمتوں اور محنتوں کے نتیجہ کو راہ خدا میں وقف کردیا ہے تاکہ بندگان خدا استفادہ کر سکیں اور اولاد علی بھی صرف بقدر ضرورت فائدہ اٹھا سکے۔ ایساکردار اب صرف کا غذات پر رہ گیا ہے۔ورنہ اس کا وجود دنیا سے عنقا ہو چکا ہے نہ علی والوں میں دیکھنے میں آتا ہے اور نہ اغیار میں سر براہان مملکت فوٹو کھنچوانے کے لئے ہاتھ میں پھاوڑا اورکدال لے لیتے ہیں ورنہ انہیں زراعت سے کیا تعلق ہے ۔زمینوں کازندہ رکھنا ابو تراب کاکام تھا اور انہوں نے اس کاحق ادا کردیا۔باقی سب داستانیں ہیں جو صفحہ قرطاس پرمحفوظ کردی گئی ہیں اور ان میں روشنائی کی چمک ہے۔کردار اورحقیقت کی روشنی نہیں ہے۔

۴۹۷

يَبِيعَ مِنْ أَوْلَادِ نَخِيلِ هَذِه الْقُرَى وَدِيَّةً - حَتَّى تُشْكِلَ أَرْضُهَا غِرَاساً.

ومَنْ كَانَ مِنْ إِمَائِي اللَّاتِي أَطُوفُ عَلَيْهِنَّ - لَهَا وَلَدٌ أَوْ هِيَ حَامِلٌ - فَتُمْسَكُ عَلَى وَلَدِهَا وهِيَ مِنْ حَظِّه - فَإِنْ مَاتَ وَلَدُهَا وهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ عَتِيقَةٌ - قَدْ أَفْرَجَ عَنْهَا الرِّقُّ وحَرَّرَهَا الْعِتْقُ.

قال الشريف - قولهعليه‌السلام في هذه الوصية - وألا يبيع من نخلها ودية الودية الفسيلة وجمعها ودي. وقولهعليه‌السلام حتى تشكل أرضها غراسا - هو من أفصح الكلام - والمراد به أن الأرض يكثر فيها غراس النخل - حتى يراها الناظر على غير تلك الصفة التي عرفها بها - فيشكل عليه أمرها ويحسبها غيرها.

(۲۵)

ومن وصية لهعليه‌السلام

كان يكتبها لمن يستعمله على الصدقات

قال الشريف: وإنما ذكرنا هنا جملا ليعلم بها أنهعليه‌السلام كان يقيم عماد الحق، ويشرع أمثلة العدل، في صغير الأمور وكبيرها

نخلستان میں سے ایک پودا بھی فروخت نہ کرے یہاں تک کہ زمین دوبارہ بونے کے لائق نہ رہ جائے ۔

میری وہ کنیزیں جن سے میرا تعلق رہ چکا ہے اور ان کی اولاد بھی موجود ہے یا وہ حاملہ ہیں۔ان کو ان کی اولاد کے حساب میں روک لیا جائے اور انہیں کا حصہ قرار دے دیا جائے ۔اس کے بعد اگربچہ مرجائے اور کنیز زندہ رہ جائے تو اسے آزاد کردیا جائے کہ گویا اس کی غلامی ختم ہوچکی ہے اور آزادی حاصل ہو چکی ہے ۔

سید رضی : اس وصیت میں حضرت کا ارشاد '' ودیہ بھی فروخت نہ کیا جائے '' اس میں ودیہ سے مراد خرمہ کے چھوٹے درخت ہیں جس کی جمع ودی ہوتی ہے اور '' حتی تشکل ارضھا غراسا ''ایک فصیح ترین کلام ہے جس کامقصد یہ ہے کہ زمین میں کھجور کی درخت کاری اتنی زیادہ ہو جائے کہ دیکھنے والا اس کی اصل ہئیت کا اندازہ نہ کر سکے اور اس کے لئے مسئلہ مشتبہ ہوجائے کہ شاید یہ کوئی دوسری زمین ہے۔

(۲۵)

آپ کی وصیت

(جسے ہر اس شخص کو لکھ کردیتے تھے جسے صدقات کاعامل قراردیتے تھے )

سید رضی :میں نے یہ چند جملے اس لئے نقل کردئیے ہیں تاکہ ہر شخص کو اندازہ ہو جائے کہ حضرت کس طرح ستون حق کو قائم رکھتے تھے اور چھوٹے بڑے

۴۹۸

ودقيقها وجليلها.

انْطَلِقْ عَلَى تَقْوَى اللَّه وَحْدَه لَا شَرِيكَ لَه - ولَا تُرَوِّعَنَّ مُسْلِماً ولَا تَجْتَازَنَّ عَلَيْه كَارِهاً - ولَا تَأْخُذَنَّ مِنْه أَكْثَرَ مِنْ حَقِّ اللَّه فِي مَالِه - فَإِذَا قَدِمْتَ عَلَى الْحَيِّ فَانْزِلْ بِمَائِهِمْ - مِنْ غَيْرِ أَنْ تُخَالِطَ أَبْيَاتَهُمْ - ثُمَّ امْضِ إِلَيْهِمْ بِالسَّكِينَةِ والْوَقَارِ - حَتَّى تَقُومَ بَيْنَهُمْ فَتُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ - ولَا تُخْدِجْ بِالتَّحِيَّةِ لَهُمْ ثُمَّ تَقُولَ عِبَادَ اللَّه - أَرْسَلَنِي إِلَيْكُمْ وَلِيُّ اللَّه وخَلِيفَتُه - لِآخُذَ مِنْكُمْ حَقَّ اللَّه فِي أَمْوَالِكُمْ - فَهَلْ لِلَّه فِي أَمْوَالِكُمْ مِنْ حَقٍّ فَتُؤَدُّوه إِلَى وَلِيِّه - فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ لَا فَلَا تُرَاجِعْه - وإِنْ أَنْعَمَ لَكَ مُنْعِمٌ فَانْطَلِقْ مَعَه - مِنْ غَيْرِ أَنْ تُخِيفَه أَوْ تُوعِدَه - أَوْتَعْسِفَه أَوْ تُرْهِقَه فَخُذْ مَا أَعْطَاكَ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ - فَإِنْ كَانَ لَه مَاشِيَةٌ

' اہم اور معمولی معاملات میں عدل و انصاف کی مثالیں قائم کرنا چاہتے تھے ۔

خدائے وحدہ لا شریک کا خوف لے کر آگے بڑھو اور خبردار(۱) نہ کسی مسلمان کوخوفزدہ کرنا اورنہ کسی کی زمین پر جبراً اپنا گزر کرنا۔مال میں سے حق خدا سے ذرہ برابر زیادہ مت لینا اور جب کسی قبیلہ پر وارد ہونا تو ان کے گھروں میں گھسنے کے بجائے چشمہ اورکنویں پر وارد ہونا۔اس کے بعد سکون و وقار کے ساتھ ان کی طرف جانا اوران کے درمیان کھڑے ہو کر سلام کرنا اور سلام کرنے میں بخل سے کام نہ لینا۔

اس کے بعد ان سے کہنا کہ بندگان خدا مجھے تمہاری طرف پروردگار کے ولی اورجانشین نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے اموال میں سے پروردگار کا حق لے لوں تو کیا تمہارے اموال میں کوئی حق اللہ ہے جسے میرے حوالے کر سکو ؟ اگر کوئی شخص انکار کردے تو اس سے دوبارہ تکرارنہ کرنا اور اگر کوئی شخص اقرار کرے تو اس کے ساتھ اس انداز سے جاناکہ نہ کی کو خوفزدہ کرنا نہ دھمکی دینا۔نہ سختی کا برتائو کرنااور نہ بیجا دبائو ڈالنا جو سونایا چاندی دے دیں وہ لے لینا اور اگر چوپایایہ کے مرکز تک

(۱) دنیا میں کون ایسا سر براہ مملکتہے جو اپنے احکام کو اتنی شدید پابندیوں میں جکڑ دے اور اپنی رعایا کو اس قدر سہولت دیدے ۔دنیا کے حکام میں تو اس کردار کا تصوربھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اسلام کے خلفاء میں بھی دور دورتک اس کردار کا پتہ نہیں ملتا ہے اور حکومت کا آغاز ہی جبرو تشدد اور اسیری و خانہ سوزی سے ہوتا ہے۔

ضرورت ہے کہ اس وصیت نامہ کوبغور پڑھا جائے اور اس کی ایک دفعہ پر غور کیاجائے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ اسلامی سلطنت میں رعایا کا کیا مرتبہ ہوتا ہے حقوق کی ادائیگی میں کس قدر سہولت فراہم کی جاتی ہے اورانسانوں کی طرح جانوروں کے ساتھ کس طرح کابرتائو کیا جاتا ہے۔

۴۹۹

أَوْ إِبِلٌ فَلَا تَدْخُلْهَا إِلَّا بِإِذْنِه - فَإِنَّ أَكْثَرَهَا لَه - فَإِذَا أَتَيْتَهَا فَلَا تَدْخُلْ عَلَيْهَا دُخُولَ مُتَسَلِّطٍ عَلَيْه - ولَا عَنِيفٍ بِه - ولَا تُنَفِّرَنَّ بَهِيمَةً ولَا تُفْزِعَنَّهَا - ولَا تَسُوأَنَّ صَاحِبَهَا فِيهَا - واصْدَعِ الْمَالَ صَدْعَيْنِ ثُمَّ خَيِّرْه - فَإِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعْرِضَنَّ لِمَا اخْتَارَه - ثُمَّ اصْدَعِ الْبَاقِيَ صَدْعَيْنِ ثُمَّ خَيِّرْه - فَإِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعْرِضَنَّ لِمَا اخْتَارَه - فَلَا تَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّى يَبْقَى مَا فِيه - وَفَاءٌ لِحَقِّ اللَّه فِي مَالِه - فَاقْبِضْ حَقَّ اللَّه مِنْه - فَإِنِ اسْتَقَالَكَ فَأَقِلْه - ثُمَّ اخْلِطْهُمَا ثُمَّ اصْنَعْ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتَ أَوَّلًا - حَتَّى تَأْخُذَ حَقَّ اللَّه فِي مَالِه - ولَا تَأْخُذَنَّ عَوْداً ولَا هَرِمَةً ولَا مَكْسُورَةً ولَا مَهْلُوسَةً ولَا ذَاتَ عَوَارٍ - ولَا تَأْمَنَنَّ عَلَيْهَا إِلَّا مَنْ تَثِقُ بِدِينِه - رَافِقاً بِمَالِ الْمُسْلِمِينَ - حَتَّى يُوَصِّلَه إِلَى وَلِيِّهِمْ فَيَقْسِمَه بَيْنَهُمْ - ولَا تُوَكِّلْ بِهَا إِلَّا نَاصِحاً شَفِيقاً وأَمِيناً حَفِيظاً - غَيْرَ مُعْنِفٍ ولَا مُجْحِفٍ ولَا مُلْغِبٍ ولَا مُتْعِبٍ - ثُمَّ احْدُرْ إِلَيْنَا مَا اجْتَمَعَ عِنْدَكَ - نُصَيِّرْه حَيْثُ أَمَرَ اللَّه - بِه فَإِذَا أَخَذَهَا أَمِينُكَ - فَأَوْعِزْ إِلَيْه أَلَّا يَحُولَ بَيْنَ نَاقَةٍ وبَيْنَ فَصِيلِهَا - ولَا يَمْصُرَ لَبَنَهَا فَيَضُرَّ [فَيُضِرَّ] ذَلِكَ بِوَلَدِهَا - ولَا يَجْهَدَنَّهَا رُكُوباً -

پہنچ جانا تو کسی ظالم و جابر کی طرح داخل نہ ہونا نہ کسی جانور کو بھڑکادینا اور نہ کسی کوخوفزدہ کردینا اور مالک کے ساتھ بھی غلط برتائو نہ کرنا بلکہ مال کو دوحصہ میں تقسیم کرکے مالک کو اختیار دینا اوروہ جس حصہ کو اختیار کرلے اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا۔پھر باقی کودوحصوں میں تقسیم کرنا اور اسے اختیار دینا اورپھراس کے اختیار پراعتراض نہ کرنا۔یہاں تک کہ اتنا ہی مال باقی رہ جائے جس سے حقخدا ادا ہوسکتا ہے تو اسی کو لے لینا۔بلکہ اگر کوئی شخص تقسیم پر نظرثانی کی درخواست کرے تو اسے بھی منظور کر لینا اور سارے مال کو ملا کر پھر پہلے کی طرح تقسیم کرنا اور آخرمیں اسے بچے مال میں سیحق اللہ لے لینا۔بس اس کا خیال رکھنا کہ بوڑھا ۔ضعیف ۔کمرشکستہ۔ کمزور اور عیب دار اونٹ نہ لینا اور ان اونٹوں کا امین بھی اسی کو بنانا جس کے دین کااعتبار ہو اور جو مسلمانوں کے مال میں نرمی کا برتائو کرتا ہو۔تاکہ وہ ولی تک مال پہنچادے اوروہ ان کے درمیان تقسیم کردے ۔اس موضوع پر صرف اسے وکیل بنایا جو مخلص ۔خدا ترس ۔ امانت دار اورنگراں ہو ' نہ سختی کرنے والا ہو نہ ظلم کرنے والا۔نہ تھکا دینے والا ہو نہ شدت سے دوڑانے والا۔اس کے بعد جس قدر مال جمع ہو جائے ۔وہ میرے پاس بھیج دینا تاکہ میں امر الٰہی کے مطابق اس کے مرکز تک پہنچا دوں۔

امانت دار کو مال دیتے وقت اس بات کی ہدایت دے دینا کہ خبردار اونٹنی اور اس کے بچہ کو جدا نہ کرے اورسارادودھ نہ نکال لے جو بچہ کے حق میں مضر ہو۔ سواری

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

۱۷۰ - وقَالَعليه‌السلام تَرْكُ الذَّنْبِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِ الْمَعُونَةِ.

۱۷۱ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ أَكْلَةٍ مَنَعَتْ أَكَلَاتٍ.

۱۷۲ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

۱۷۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوه الآرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَإِ.

۱۷۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلَّه قَوِيَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ.

(۱۷۰)

گناہ کا نہ کرنابعد(۱) میںمدد مانگنے سے آسان تر ہے۔

(۱۷۱)

اکثر اوقات ایک کھانا کئی کھانوں ے روک دیتا ہے۔

(۱۷۲)

لوگ ان چیزوں کے دشمن ہوتے ہیں جن سے بے خبر ہوتے ہیں ۔

(۱۷۳)

جومختلف(۲) آرائکا سامنا کرتا ہے وہ غلطی کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔

(۱۷۴)

جو اللہ کے لئے غضب کے سنان کو تیز کر لیتا ہے وہ باطل کے سور مائوں کے قتل پر بھی قادر ہو جاتا ہے۔

(۱)مثل مشہور ہے کہ پرہیز کرنا علاج کرنے سے بہتر ہے کہ پرہیز انسان کو بیماریوں سے بچا لیتاہے اور اس طرح اس کی فطری طاقت محفوظ رہتی ہے لیکن پزہیز نہ کرنے کی بنا پر اگر مرض نے حملہ کردیا تو طاقت خود بخود کمزور ہو جاتی ہے اور پھر علاج کے بعد بھی وہ فطری حالت واپس نہیںآتی لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ گناہوںکیذریعہ نفس کے آلودہ ہونے اورتوبہ کے ذریعہ اس کی تطہیر کرنے سے پہلے اس کی صحت کاخیال رکھے اور اسے آلودہ نہ ہونے دے تاکہ علاج کی زحمت سے محفوظ رہے۔

(۲)اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مشورہ کرنے والا غلطیوں سے محفوظ رہتا ہے کہ اسے کئی طرح کے افکارحاصل ہو جاتے ہیں اور ہر شخص کے ذریعہ دوسرے کی فکر کی کمزوری کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اور اس طرح صحیح رائے اختیار کرنے میں کوئی زحمت نہیں رہ جاتی ہے۔

۶۸۱

۱۷۵ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا هِبْتَ أَمْراً فَقَعْ فِيه - فَإِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّيه أَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْه.

۱۷۶ - وقَالَعليه‌السلام آلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ.

۱۷۷ - وقَالَعليه‌السلام ازْجُرِ الْمُسِيءَ بِثَوَابِ الْمُحْسِنِ

۱۷۸ - وقَالَعليه‌السلام احْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَيْرِكَ بِقَلْعِه مِنْ صَدْرِكَ.

۱۷۹ - وقَالَعليه‌السلام اللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّأْيَ.

(۱۷۵)

جب کسی امر سے دہشت محسوس کروتواس میں پھاند پڑو کہ زیادہ خوف و احتیاط خطرہ سے زیادہ خطر ناک ہوتی ہے۔

(۱۷۶)

ریاست کاوسیلہ وسعت صدر ہے۔

(۱۷۷)

بد عمل کے سرزنش کے لئے نیک عمل(۱) والے کو اجرو انعام دو۔

(۱۷۸)

دوسرے کے دل سے شر کا کاٹ دینا ہے تو پہلے اپنے دل سے اکھاڑ کر پھینک دو۔

(۱۷۹)

ہٹدھرمی صحیح رائے کو بھی دور کردیتی ہے۔

(۱)ہمارے معاشرہ کی کمزوریوں میں سے ایک اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ یہاں بدکرداروں پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن نیک کردار کی تائید و توصیف نہیں کی جاتی ہے۔آپ ایک دن غلط کام کریں تو سارے شہر میں ہنگامہ ہو جائے گا لیکن ایک سال تک بہترین کام کریں تو کوئی بیان کرنے والا بھی نہ پیدا ہوگا ۔حالانکہ اصول بات یہ ہے کہ نیکی کے پھیلانے کا طریقہ صرف برائی پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے بہتر طریقہ خود نیکی کی حوصہل افزائی کرنا ہے جس کے بعد ہر شخص میں نیکی کرنے کا شعور بیدار ہو جائے گا اور برائیوں کا قلع قمع ہو جائے گا۔

۶۸۲

۱۸۰ - وقَالَعليه‌السلام الطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَبَّدٌ.

۱۸۱ - وقَالَعليه‌السلام ثَمَرَةُ التَّفْرِيطِ النَّدَامَةُ وثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلَامَةُ.

۱۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ - كَمَا أَنَّه لَا خَيْرَ فِي الْقَوْلِ بِالْجَهْلِ.

۱۸۳ - وقَالَعليه‌السلام مَا اخْتَلَفَتْ دَعْوَتَانِ إِلَّا كَانَتْ إِحْدَاهُمَا ضَلَالَةً.

۱۸۴ - وقَالَعليه‌السلام مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُه.

(۱۸۰)

لالچ(۱) ہمیشہ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

(۱۸۱)

کوتاہی ہی کا نتیجہ شرمندگی ہے اورہوشیاری کا ثمرہ سلامتی ۔

(۱۸۲)

حکمت(۲) سے خاموشی میں کوئی یر نہیں ہے جس طرح کہ جہالت سے بولنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

(۱۸۳)

جب دو مختلف دعوتیں دی جائیں تو دو میں سے ایک یقینا گمراہی ہوگی۔

(۱۸۴)

مجھے جب سے حق دکھلا دیا گیا ہے میں کبھی شک کا شکار نہیں ہوا ہوں۔

(۱)یہ انسانی زندگی کی عظیم ترین حقیقت ہے کہ حرص و طمع رکھنے والا انسان نفس کا غلام اورخواہشات کا بندہ ہوجاتا ہے اور جو شخص خواہشات کی بندگی میں مبتلا ہوگیا وہ کسی قیمت پر اس غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔انسانیزندگی کی دانشمندی کا تقاضایہ ہے کہ انسان اپنے کو خواہشات دنیا اورحرص طمع سے دور رکھے تاکہ کسی غلامی میں مبتلا نہ ہونے پائے کہ یہاں ''شوق ہر رنگ رقیب سرو سمان '' ہواکرتا ہے اور یہاں کی غلامی سے نجات ممکن نہیں ہے۔

(۲)انسان کو حرف حکمت کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ دوسروے لوگ اس سے استفادہ کریں اور حرف جہالت سے پرہیز کرنا چاہیے کہ جہالت کی بات کرنے سے خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے۔انسان کی عزت بھی سلامت رہتی ہے اور دوسروں کی گمراہی کابھی کوئی اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔

۶۸۳

۱۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا كَذَبْتُ ولَا كُذِّبْتُ ولَا ضَلَلْتُ ولَا ضُلَّ بِي.

۱۸۶ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ الْبَادِي غَداً بِكَفِّه عَضَّةٌ

۱۸۷ - وقَالَعليه‌السلام الرَّحِيلُ وَشِيكٌ

۱۸۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْدَى صَفْحَتَه لِلْحَقِّ هَلَكَ

۱۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ لَمْ يُنْجِه الصَّبْرُ أَهْلَكَه الْجَزَعُ.

۱۹۰ - وقَالَعليه‌السلام وَا عَجَبَاه أَتَكُونُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ والْقَرَابَةِ؟

(۱۸۵)

میں نے نہ غلط بیانی کی ہے اور نہ مجھے جھوٹ خبردی گئی ہے ۔نہ میں گمراہ ہوا ہوں اورنہ مجھے گمراہ کیا جا سکا ہے۔

(۱۸۶)

ظلم(۱) کی ابتدا کرنے واے کو کل ندامت سے اپنا ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔

(۱۸۷)

کوچ کا وقت قریب آگیا ہے۔

(۱۸۸)

جس نے حق سے منہ موڑ لیا وہ ہلاک ہوگیا۔

(۱۸۹)

جسے صبر(۲) نجات نہیں دلا سکتا ہے اسے بے قراری مار ڈالتی ہے ۔

(۱۹۰)

واعجباہ!خلافت صرف صحابیت کی بناپ رمل سکتی ہے لیکن اگر صحابیت اور قرابت دونوں جمع ہو جائیں تونہیں مل سکتی ہے

(۱)اگریہ دنیا میں ہر ظلم کرنے والے کا انجام ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا جس نے عالم اسلام میں ظلم کی ابتدا کی ہے اور جس کے مظالم کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور اولاد رسول اکرم (ص) کسی آن بھی مظالم سے محفوظ نہیں ہے۔

(۲)دنیا میں کام آنے والا صرف صبر ہے کہ اس سے انسان کا حوصلہ بھی بڑھتا ہے اور اسے اجرو ثواب بھی ملتا ہے۔بے قراری میں ان میں سے کوئی صفت نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی مسئلہ حال ہونے والا ہے۔لہٰذا ارکسی شخص نے صبر کو چھوڑ کر بے قراری کا راستہ اختیار کرلیا توگویا اپنی تباہی کا آپ انتظام کرلیا اور پروردگار کی معیت سے بھی محروم ہوگیا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتا ہے جزع و فزع کرنے والوں کے ساتھ نہیں رہتا ہے۔

۶۸۴

قال الرضي - وروي له شعر في هذا المعنى:

فإن كنت بالشورى ملكت أمورهم

فكيف بهذا والمشيرون غيب

وإن كنت بالقربى حججت خصيمهم

فغيرك أولى بالنبي وأقرب

۱۹۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّمَا الْمَرْءُ فِي الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيه الْمَنَايَا - ونَهْبٌ تُبَادِرُه الْمَصَائِبُ - ومَعَ كُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ - وفِي كُلِّ أَكْلَةٍ غَصَصٌ - ولَا يَنَالُ الْعَبْدُ نِعْمَةً إِلَّا بِفِرَاقِ أُخْرَى - ولَا يَسْتَقْبِلُ يَوْماً مِنْ عُمُرِه إِلَّا بِفِرَاقِ آخَرَ مِنْ أَجَلِه - فَنَحْنُ أَعْوَانُ الْمَنُونِ وأَنْفُسُنَا نَصْبُ الْحُتُوفِ - فَمِنْ أَيْنَ نَرْجُو الْبَقَاءَ - وهَذَا اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَمْ يَرْفَعَا مِنْ شَيْءٍ شَرَفاً - إِلَّا أَسْرَعَا الْكَرَّةَ فِي هَدْمِ مَا بَنَيَا وتَفْرِيقِ مَا جَمَعَا.

سید رضی : اس معنی میں حضرت کا یہ شعر بھی ہے۔

''اگر تم نے شوریٰ سے اقتدار حاصل کیا ہے تو یہ شوریٰ کیسا ہے جس میں مشیر ہی سب غائب تھے۔

اور اگر تم نے قرابت سے اپنی خصوصیت کا اظہار کیا ہے تو تمہاراغیرتم سے زیادہ رسول اکرم (ص) کے لئے اولیٰ اور اقرب ہے ''

(۱۹۱)

انسان اس دنیا میں وہ نشانہ ہے جس پرموت اپنے تیر چلاتی ہے ۔اوروہ مصائب کی غارت گری کی جولانگاہ بنا رہتا ہے۔یہاں کے ہر گھونٹ پر اچھو ہے اور ہر لقمہ پر گلے میں ایک پھندہ ہے۔انسان ایک نعمت کوحاصل نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسری ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور زندگی کے ایک دن(۱) کا استقبال نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسرا دن ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

ہم موت کے مدد گار ہیں اور ہمارے نفس ہلاکت کانشانہ ہیں۔ہم کہاں سے بقاء کی امید کریں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو اونچا نہیں کرتے ہیں مگر یہ کہ حملہ کرکے اسے منہدم کردیتے ہیں اورجسے بھی یکجا کرتے ہیں اسے بکھیر دیتے ہیں۔

(۱)کس قدرغلط فہمی کاشکار ہے وہ انسان جو ہر آنے وایل دن کو اپنی زندگی میں ایک اضافہ تصور کرتا ہے۔حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کا کوئی اضافہ نہیں ہے بلکہ ایک دن نے جا کردوسرے دن کے لئے جگہ خالی ہے اور اس کی آمد کی زمین ہموار کی ہے تو اس طرح انسان کا حساب برابر ہی رہ گیا۔ایک دن جیب میں داخل ہوا اورایک دن جیب سے نکل گیا اور اس طرح ایکدن زندگی کاخاتمہ ہو جائے گا۔

۶۸۵

۱۹۲ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ مَا كَسَبْتَ فَوْقَ قُوتِكَ - فَأَنْتَ فِيه خَازِنٌ لِغَيْرِكَ.

۱۹۳ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْقُلُوبِ شَهْوَةً وإِقْبَالًا وإِدْبَاراً - فَأْتُوهَا مِنْ قِبَلِ شَهْوَتِهَا وإِقْبَالِهَا - فَإِنَّ الْقَلْبَ إِذَا أُكْرِه عَمِيَ.

۱۹۴ - وكَانَعليه‌السلام يَقُولُ: مَتَى أَشْفِي غَيْظِي إِذَا غَضِبْتُ؟ أَحِينَ أَعْجِزُ عَنِ الِانْتِقَامِ فَيُقَالُ لِي لَوْ صَبَرْتَ - أَمْ حِينَ أَقْدِرُ عَلَيْه فَيُقَالُ لِي لَوْ عَفَوْتَ.

.

(۱۹۲)

فرزند آدم ! اگر تونے اپنی(۱) غذا سے زیادہ کمایا ہے تو گویا اس مال میں دوسروں کا خزانچی ہے۔

(۱۹۳)

دلوں کے لئے رغبت و خواہش ۔آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا سبھی کچھ ہے لہٰذا جب میلان اور توجہ کا وقت ہوتو اس سے کام لے لو کہ دل کو مجبورکرکے کام لیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔

(۱۹۴)

مجھے غصہ(۲) آجائے تو میں اس سے تسکین کس طرح حاصل کروں ؟ انتقام سے عاجز ہو جائوں گا تو کہا جائے گا کہ صبرکرو اور انتقام کی طاقت پیداکرلوں گا تو کہا جائے گا کہ کاش معاف کردیتے ( ایسی حالت میں غصہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے )

(۱)یہ بات طے شدہ ہے کہ مالک کا نظام تقسیم غلط نہیں ہے اوراس نے ہر شخص کی طاقت ایک جیسی نہیں رکھی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس نے ذخائر کائنات میں حصہ سب کا رکھا ہے لیکن سب میں انہیں حاصل کرنے کی یکساں طاقت نہیں ہے بلکہ ایک کو دوسرے کے لئے وسیلہ اورذریعہ بنادیا ہے تو اگر تمہارے پاس تمہارای ضرورت سے زیادہ مال آجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک نے تمہیں دوسروں کے حقوق کا خازن بنادیا ہے اور اب تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی خیانت نہ کرو اور ہر ایک کو اس کا حصہ پہنچا دو۔

(۲)آپ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ لوگوں کو صبرو تحمل کی تلقین کرتے ہیں کہ جب طات نہیں تھی تو انتقام لینے کی ضرورت ہی کیا تھی اور طاقتور ثابت ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ کمزور آدمی سے کیا انتقام لینا ہے۔مقالہ کسی برابر والے سے کرنا چاہیے تھا۔ایسی صورت میں تقاضائے عقل و منطق یہی ہے کہ انسان صبرو تحمل سے کام لے اور جب تک انتقام فرض شرعی نہ بن جائے اس وقت تک اس کا ارادہ بھی نہ کرے اور پھر جب مالک کائنات انتقام لینے والا موجود ہے تو انسان کو اس قدر زحمت برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

۶۸۶

۱۹۵ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ مَرَّ بِقَذَرٍ عَلَى مَزْبَلَةٍ - هَذَا مَا بَخِلَ بِه الْبَاخِلُونَ.

ورُوِيَ فِي خَبَرٍ آخَرَ أَنَّه قَالَ - هَذَا مَا كُنْتُمْ تَتَنَافَسُونَ فِيه بِالأَمْسِ.

۱۹۶ - وقَالَعليه‌السلام لَمْ يَذْهَبْ مِنْ مَالِكَ مَا وَعَظَكَ.

۱۹۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ - فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ.

۱۹۸ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا سَمِعَ قَوْلَ الْخَوَارِجِ لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّه - كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ.

۱۹۹ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الْغَوْغَاءِ - هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا

(۱۹۵)

ایک مزبلہ سے گزرتے ہوئے فرمایا:'' یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا''یا دوسری روایت کی بنا پر''جس کے بارے میں کل ایک دوسرے سے رشک کر رہے تھے ''۔( یہ ہے انجام دنیا اور انجام لذات دنیا)

(۱۹۶)

جو مال نصیحت کاسامان فراہم کردے وہ برباد نہیں ہوا ہے ۔

(۱۹۷)

یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن۔لہٰذا ان کے لئے لطیف ترین حکمتیں فراہم کرو۔

(۱۹۸)

جب آپ نے خوارج کا یہ نعرہ سنا کہ '' خدا کے علاوہ کسی کے لئے حکم نہیں ہے '' تو فرمایا کہ '' یہ کلمہ حق ہے '' لیکن اس سے باطل معنی مراد لیے گئے ہیں۔

(۱۹۹)

بازاری لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا کہ ۔یہی وہ لوگ ہیں جو مجتمع ہو جاتے ہیں۔تو

۶۸۷

غَلَبُوا وإِذَا تَفَرَّقُوا لَمْ يُعْرَفُوا - وقِيلَ بَلْ قَالَعليه‌السلام - هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا ضَرُّوا وإِذَا تَفَرَّقُوا نَفَعُوا - فَقِيلَ قَدْ عَرَفْنَا مَضَرَّةَ اجْتِمَاعِهِمْ فَمَا مَنْفَعَةُ افْتِرَاقِهِمْ - فَقَالَ يَرْجِعُ أَصْحَابُ الْمِهَنِ إِلَى مِهْنَتِهِمْ - فَيَنْتَفِعُ النَّاسُ بِهِمْ كَرُجُوعِ الْبَنَّاءِ إِلَى بِنَائِه - والنَّسَّاجِ إِلَى مَنْسَجِه والْخَبَّازِ إِلَى مَخْبَزِه.

۲۰۰ - وقَالَعليه‌السلام وأُتِيَ بِجَانٍ ومَعَه غَوْغَاءُ فَقَالَ - لَا مَرْحَباً بِوُجُوه لَا تُرَى إِلَّا عِنْدَ كُلِّ سَوْأَةٍ

غالب(۱) آجاتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں تو پہچانے بھی نہیں جاتے ہیں۔

اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت نے اس طرح فرمایا تھا کہ ۔جب مجتمع ہو جاتے ہیں تو نقصان دہ ہوتے ہیں اور جب منتشر ہو جاتے ہیں تبھی فائدہ مند ہو تے ہیں۔تو لوگوں نے عرض کی کہ اجتماع میں نقصان تو سمجھ میں آگیا لیکن انتشار میں فائدہ کے کیا معنی ہیں ؟ تو فرمایا کہ سارے کاروبار والے اپنے کاروبار کی طرف پلٹجاتے ہیں اور لوگ ان سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں جس طرح معمار اپنی عمارت کی طرف چلا جاتا ہے۔کپڑا بننے والا کارخانہکی طرف چلا جاتا ہے اور روٹی پکانے والا تنور کی طرف پلٹ جاتا ہے۔

(۲۰۰)

آپ کے پاس ایک مجرم کو لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا تو فرمایا کہ '' ان چہروں پر پھٹکار ہوجو صرف(۲) برائی اور رسوائی کے موقع پر نظر آتے ہیں۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوامی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور دنیا کا کوئی نظام اس طاقت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا ہے اور اسی لئے مولائے کائنات نے بھی مختلف مقامات پر ان کی اہمیت کجی طرف اشارہ کیا ہے اور ان پر خاص توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔لیکن عوام الناس کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کی اکثریت عقل و منطق سے محروم اورجذبات و عواطف سے معمور ہوتی ہے اور ان کے اکثر کام صرف جذبات واحساسات کی بناپ رانجام پاتے ہیں اور اس طرح جونظام بھی ان کے جذباتو خواہشات کی ضمانت دے دیتا ہے وہ فوراً کامیاب ہوجاتا ہے اور عقل و منطق کا نظام پیچھے رہ جاتا ہے لہٰذا حضرت نے چاہا کہ اس کمزوری کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے تاکہ ارباب حل و عقد ہمیشہ ان کے جذباتی اور ہنگامی و جود پر اعتماد نہ کریں بلکہ اس کی کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھیں۔

(۲)عام طور سے انسانوں کا مزاج یہی ہوتا ہے کہ جہاں کسی برائی کا منظر نظرآتا ہے فوراً اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔مسجد کے نمازیوں کا دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا ہے لیکن قیدی کا تماشا دیکھنے والے ہزاروں نکلآتے ہیں اور اس طرح اس اجتماع کا کوئی مقصد بھی نہیں ہوتا ہے ۔آپ کامقصد یہ ہے کہ یہ اجتماع عبرت حاصل کرنے کے لئے ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی مگر افسوس کہ یہ صرف تماشا دیکھنے کے لئے ہوتا ہے اور انسان کے وقت کا اس سے کہیں زیادہ اہم مصرف موجود ہے لہٰذا اسے اسی مصرف میں صرف کرنا چاہیے۔

۶۸۸

۲۰۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ مَلَكَيْنِ يَحْفَظَانِه - فَإِذَا جَاءَ الْقَدَرُ خَلَّيَا بَيْنَه وبَيْنَه - وإِنَّ الأَجَلَ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ

۲۰۲ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ قَالَ لَه طَلْحَةُ والزُّبَيْرُ - نُبَايِعُكَ عَلَى أَنَّا شُرَكَاؤُكَ فِي هَذَا الأَمْرِ - لَا ولَكِنَّكُمَا شَرِيكَانِ فِي الْقُوَّةِ والِاسْتِعَانَةِ - وعَوْنَانِ عَلَى الْعَجْزِ والأَوَدِ

۲۰۳ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه الَّذِي إِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ - وإِنْ أَضْمَرْتُمْ عَلِمَ - وبَادِرُوا الْمَوْتَ الَّذِي إِنْ هَرَبْتُمْ مِنْه أَدْرَكَكُمْ - وإِنْ أَقَمْتُمْ أَخَذَكُمْ - وإِنْ نَسِيتُمُوه ذَكَرَكُمْ.

۲۰۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُزَهِّدَنَّكَ فِي الْمَعْرُوفِ مَنْ لَا يَشْكُرُه لَكَ

(۲۰۱)

ہر انسان کے ساتھ دو محافظ فرشتے رہتے ہیں لیکن جب موت کا قوت آجاتا ے تو دونوں ساتھ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں گویا کہ موت ہی بہترین سپر ہے۔

(۲۰۲)

جب طلحہ و زبیر نے یہ تقاضا کیا کہ ہم بیعت کر سکتے ہیںلیکن ہمیں شریک ار بنانا پڑے گا ؟ تو فرمایا کہ ہرگز نہیں تم صرف قوت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک ہو سکتے ہو اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مدد گار بن سکتے ہو۔

(۲۰۳)

لوگو! اس خدا سے ڈرو جو تمہاری ہر بات کو سنتا ہے اور ہر راز دل کا جاننے والا ہے اور اس موت کی طرف سبقت کرو جس سے بھاگنا بھی چاہو تو وہ تمہیں پالے گی اور ٹھہر جائو گے تو گرفت میں لے لی گی اورتم اسے بھول بھی جائو گے تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔

(۲۰۴)

خبردار کسی شکریہ ادا نہ کرنے والے کی نالائقی تمہیں کارخیر(۱) سے بد دل نہ بنادے۔ہو سکتا ہے کہ تمہارا

(۱)اولاً تو کار خیر میں شکریہ کا انتظار ہی انسان کے اخلاص کو مجروح بنادیتا ہے اور اس کے عمل کاوہ مرتبہ نہیں رہ جاتا ہے جو صرف فی سبیل اللہ عمل کرنے والے افراد کاہوتا ہے جس کی طرف قرآن مجید نے سورہ ٔ مبارکہ دہر میں اشارہ کیا ہے '' لا نرید منکم جزاء اولا شکورا ''اس کے بعد اگر انسان فطرت سے مجبور ہے اورف طری طور پرشکریہ کا خواہش مند ہے تو مولائے کائنات نے اس کابھی اشارہ دے دیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کمی دوسرے افراد کی طرف سے پوری ہوجائے اور وہ تمہارے کارخیرکی قدر دانی کرکے شکریہ کی کمی کا تدارک کردیں۔

۶۸۹

- فَقَدْ يَشْكُرُكَ عَلَيْه مَنْ لَا يَسْتَمْتِعُ بِشَيْءٍ مِنْه - وقَدْ تُدْرِكُ مِنْ شُكْرِ الشَّاكِرِ - أَكْثَرَ مِمَّا أَضَاعَ الْكَافِرُ -( والله يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) .

۲۰۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ وِعَاءٍ يَضِيقُ بِمَا جُعِلَ فِيه - إِلَّا وِعَاءَ الْعِلْمِ فَإِنَّه يَتَّسِعُ بِه.

۲۰۶ - وقَالَعليه‌السلام أَوَّلُ عِوَضِ الْحَلِيمِ مِنْ حِلْمِه - أَنَّ النَّاسَ أَنْصَارُه عَلَى الْجَاهِلِ.

۲۰۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنْ لَمْ تَكُنْ حَلِيماً فَتَحَلَّمْ - فَإِنَّه قَلَّ مَنْ تَشَبَّه بِقَوْمٍ - إِلَّا أَوْشَكَ أَنْ يَكُونَ مِنْهُمْ.

۲۰۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ حَاسَبَ نَفْسَه رَبِحَ ومَنْ غَفَلَ عَنْهَا خَسِرَ - ومَنْ خَافَ أَمِنَ ومَنِ اعْتَبَرَ أَبْصَرَ -

شکریہ وہ ادا کردے جس نے اس نعمت سے کوئی فائدہ بھی نہیں اٹھایا ہے اور جس قدر کفران نعمت کرنے والے نے تمہارا حق ضائع کیا ہے اس شکریہ اداکرنے والے کے شکریہ سے برابر ہو جائے اور ویسے بھی اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

(۲۰۵)

ہر ظرف اپنے سامان کے لئے تنگ ہو سکتا ہے لیکن علم ظرف(۱) علم کے اعتبار سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔

(۲۰۶)

صبر کرنے والے کا اس کی قوت برداشت پر پہلا اجریہ ملتا ہے کہ لوگ جاہل کے مقابلہمیں اس کے مدد گار ہو جاتے ہیں۔

(۲۰۷)

اگر تم واقعاً بردبار نہیں بھی ہو تو بردباری کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی سباہت اختیار کرے اوران میں سے نہ ہوجائے ۔

(۲۰۸)

جو اپنے نفس کاحساب کرتا رہتا ہے وہ فائدہ میں رہتا ہے اورجوغافل ہو جاتا ہے وہی خسارہ میں رہتا ہے خوف خدا رکھنے والا عذاب سے محفوظ رہتا ہے اور عبرت

(۱)علم کا ظرف عقل ہے اور عقل غیر مادی ہونے کے اعتبارسے یوں بھی بے پناہ وسعت کی مالک ہے۔اس کے بعد مالک نے اس میں یہ صلاحیت بھی رکھی ہے کہ جس قدر علم میں اضافہ ہوتا جائے گا اس کی وسعتوں پراضافہ ہوتا جائے گا اور اسکی وسعت کسی مرحلہ پر تمام ہونے والی نہیں ہے ۔

۶۹۰

ومَنْ أَبْصَرَ فَهِمَ ومَنْ فَهِمَ عَلِمَ.

۲۰۹ - وقَالَعليه‌السلام : لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْيَا عَلَيْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا - عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَى وَلَدِهَا - وتَلَا عَقِيبَ ذَلِكَ -( ونُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأَرْضِ - ونَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً ونَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ ) .

۲۱۰ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ شَمَّرَ تَجْرِيداً وجَدَّ تَشْمِيراً - وكَمَّشَ فِي مَهَلٍ وبَادَرَ عَنْ وَجَلٍ - ونَظَرَ فِي كَرَّةِ الْمَوْئِلِ - وعَاقِبَةِ الْمَصْدَرِ ومَغَبَّةِ الْمَرْجِعِ

کرنے والا صاحب بصیرت ہوتا ہے۔بصیرت والا فہیم ہوتا ہے اور فہیم ہی عالم ہو جاتا ہے۔

(۲۰۹)

یہ دنیا منہ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف(۱) بہرحال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کواپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے۔اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی۔'' ہم چاہتے ہیں کہ ان بندوں پراحسان کریں جنہیں روئے زمین میں کمزور بنادیا ہے۔اورانہیں پیشوا اقرار دیں اور زمین کا وارث بنادیں۔

(۲۱۰)

اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے دنیا چھوڑ کر دامن(۲) سمیٹ لیا ہو اور دامن سمیٹ کر کوشش میں لگ گیا ہو۔اچھائیوں کے لئے وقفہ مہلتمیں تیزی کے ساتھ چل پڑا ہو اورخطروں کے پیش نظر قدم تیز بڑھادیا ہو۔اور اپنی قرار گاہ اپنے اعمال کے نتیجہ اور اپنیانجام کار پرنظر رکھی ہو۔

(۱)یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ظالم میں اگر ادنیٰ انسانیت پائی جاتی ہے تو اسے ایک دن مظلوم کی مظلومیت کابہر حال احساس پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے حال پرمہربانی کا ارادہ کرنے لگتا ہے چاہے حالات اورمصالح اسے اس مہربانی کو منزل عمل تک لانے سے روک دیں۔دنیا کوئی ایسی جلاد اور ظالم نہیں ہے جسے دوسرے کو ہٹا کر اپنی جگہ بنانے کاخیال ہو لہٰذا اسے ایک نہایک دن مظلوم پر رحم کرنا ہے اور ظالموں کو منظر تاریخ سے ہٹا کر مظلوموں کو کرسی ریاست پر بٹھانا ہے یہی منشاء الٰہی ہے اور یہی وعدۂ قرآنی ہے جس کے خلاف کا کوئی امکان نہیں پایاجاتا ہے۔

(۲)یہ اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ تقویٰ کسی زبانی جمع خرچ کا نام ہے اور نہ لباس و غذا کی سادگی سے عبارت ہے۔تقویٰ ایک انتہائی منزل دشوار ہے جہاں انسان کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔پہلے دنیا کو خیر باد کہنا ہوتا ہے۔اس کے بعد دامن عمل کو سمیٹ کر کام شروع کرنا ہوتا ہے اوراچھائیوں کی طرف تیز قدم بڑھانا پڑتے ہیں۔اپنے انجام کا ر اور نتیجہ عمل پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے اور خطرات کے دفاع کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔یہ سارے مراحل طے ہو جائیں توانسان متقی اور پرہیز گار کہے جانے کے قابل ہوتا ہے۔

۶۹۱

۲۱۱ - وقَالَعليه‌السلام الْجُودُ حَارِسُ الأَعْرَاضِ - والْحِلْمُ فِدَامُ السَّفِيه - والْعَفْوُ زَكَاةُ الظَّفَرِ - والسُّلُوُّ عِوَضُكَ مِمَّنْ غَدَرَ - والِاسْتِشَارَةُ عَيْنُ الْهِدَايَةِ - وقَدْ خَاطَرَ مَنِ اسْتَغْنَى بِرَأْيِه - والصَّبْرُ يُنَاضِلُ الْحِدْثَانَ - والْجَزَعُ مِنْ أَعْوَانِ الزَّمَانِ - وأَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى - وكَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِيرٍ تَحْتَ هَوَى أَمِيرٍ - ومِنَ التَّوْفِيقِ حِفْظُ التَّجْرِبَةِ - والْمَوَدَّةُ قَرَابَةٌ مُسْتَفَادَةٌ ولَا تَأْمَنَنَّ مَلُولًا

۲۱۲ - وقَالَعليه‌السلام عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِه أَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِه.

۲۱۳ - وقَالَعليه‌السلام أَغْضِ عَلَى الْقَذَى والأَلَمِ تَرْضَ أَبَداً.

(۲۱۱)

سخاوت عزت(۱) وآبروکی نگہبان ہے اوربردباری احمق کے منہ کا تسمہ ہے۔معافی کامیابی کی زکوٰة ہے اور بھول جانا غداری کرنے والے کا بدل ہے اور مشورہ کرنا عین ہدایت ہے۔جس نے اپنی رائے ہی پر اعتماد کرلیا اسنے اپنے کوخطرہ میں ڈال دیا۔صبر حوادث کامقابلہ کرتا ہے اوربے قراری زمانہ کی مدد گار ثابت ہوتی ہے۔بہترین دولت مندی تمنائوں کا ترک کردینا ہے۔کتنی ہی غلام عقلیں ہیں جو روساء کی خواہشات کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ تجربات کومحفوظ رکھنا توفیق کی ایک قس ہے اور محبت ایک اکتسابی قرابت ہے اورخبردار کسی رنجیدہ ہو جانے والے پر اعتماد نہ کرنا۔

(۲۱۲)

انسان کا خود پسندی میں مبتلا ہو جانا خود اپنی عقل سے حسد کرنا ہے۔

(۲۱۳)

آنکھوں کے خس و خاشاک اور رنج و الم پر چشم(۱) پوشی کرو ہمیشہ خوش رہو گے۔

(۱)اس کلمہ حکمت میںمولائے کائنات نے تیرہ مختلف نصیحتوں کاذکر فرمایا ہے اوران میں ہر نصیحت انسانی زندگی کا بہترین جوہر ہے۔کا شانسان اس کے ایک ایک فقرہ پر غور کرے اور زندگی کی تجربہ گاہ میں استعمال کرے تو اسے اندازہ ہو گا کہ ایک مکمل زندگی گذارنے کا ضابطہ کیاہوتا ہے اور انسان کس طرح دنیا وآخرت کے خیر کو حاصل کرلیتا ہے۔

(۲)حقیقت امریہ ہے کہ ہر ظلم کا ایک علاج اور دنیا کی ہرمصیبت کا ایک توڑ ہے جس کا نام ہے صبرو تحمل۔انسان صرف یہ ایک جوہر پیداکرلے تو بڑی سے بڑی مصیبت کامقالہ کر سکتا ہے اور کسی مرحلہ پر پریشان نہیں ہوسکتا ہے۔رنجیدہ و غمزدہ وہی رہتے ہیں جن کے پاس یہ جوہر نہیں ہوتا ہے اورخوش حال و مطمئن وہی رہتے ہیں جن کے پاس یہ جوہر ہوتا ہے اوروہ اسے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔

۶۹۲

۲۱۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ لَانَ عُودُه كَثُفَتْ أَغْصَانُه

۲۱۵ - وقَالَعليه‌السلام الْخِلَافُ يَهْدِمُ الرَّأْيَ.

۲۱۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَالَ اسْتَطَالَ

۲۱۷ - وقَالَعليه‌السلام فِي تَقَلُّبِ الأَحْوَالِ عِلْمُ جَوَاهِرِ الرِّجَالِ.

۲۱۸ - وقَالَعليه‌السلام حَسَدُ الصَّدِيقِ مِنْ سُقْمِ الْمَوَدَّةِ

(۲۱۴)

جس درخت کی لکڑی(۱) نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں (لہٰذا انسان کو نرم دل ہو نا چاہیے )

(۲۱۵)

مخالفت صحیح رائے کوبھی برباد کر دیتی ہے۔

(۲۱۶)

جو منصب(۲) پالیتا ہے وہ دست درازی کرنے لگتا ہے۔

(۲۱۷)

لوگوں کے جوہر حالات کے انقلاب میں پہچانے جاتے ہیں۔

(۲۱۸)

دوست کاحسد کرنا محبت کی کمزوی ہے۔

(۱)کتنا حسین تجربہ حیات ہے جس سے ایک دیہاتی انسان بھی استفادہ کر سکتا ہے کہ اگر پروردگار نے درختوں میں یہ کمال رکھا ہے کہ جن درختوں کی شاخوں کو گھنا بنایا ہے ان کی لکڑیوں کو نرم بنا دیا ہے تو انسان کوبھی اس حقیقت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اگر اپنے اطراف مخلصین کا مجمع دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے کو بے سایہ درخت نہیں بنانا چاہتا ہے تو اپنی طبیعت کونرم بنادے تاکہ اس کے سہارے لوگ اس کے گردجمع ہوجائیں اور اس کی شخصیت ایک گھنیرے درخت کی ہوجائے ۔

(۲)کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انسان پروردگار کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت پر اتر آتا ہے اور اس کے دئیے ہوئے اقتدار کو دست درازی میں استعمال کرنے لگتا ہے حالانکہ شرافت و انسانیت کا تقاضا یہی تھا کہ جس طرح اس نے صاحب قدرت و قوت ہونے کے بعد اس کے حال پر حم کیا ہے اسی طرح اقتدار پانے کے بعد یہ دوسروں کے حال پر رحم کرے۔

۶۹۳

۲۱۹ - وقَالَعليه‌السلام أَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُولِ تَحْتَ بُرُوقِ الْمَطَامِعِ.

۲۲۰ - وقَالَعليه‌السلام لَيْسَ مِنَ الْعَدْلِ الْقَضَاءُ عَلَى الثِّقَةِ بِالظَّنِّ.

۲۲۱ - وقَالَعليه‌السلام بِئْسَ الزَّادُ إِلَى الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَى الْعِبَادِ.

۲۲۲ - وقَالَ عليهلامو مِنْ أَشْرَفِ أَعْمَالِ الْكَرِيمِ غَفْلَتُه عَمَّا يَعْلَمُ.

۲۲۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ كَسَاه الْحَيَاءُ ثَوْبَه لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَه.

۲۲۴ - وقَالَعليه‌السلام بِكَثْرَةِ الصَّمْتِ تَكُونُ الْهَيْبَةُ - وبِالنَّصَفَةِ يَكْثُرُ الْمُوَاصِلُونَ - وبِالإِفْضَالِ تَعْظُمُ الأَقْدَارُ

(۲۱۹)

عقلوں کی تباہی کی بیشتر منزلیں حرص و طمع کی بجلیوں(۱) کے نیچے ہیں۔

(۲۲۰)

یہ کوئی انصاف نہیں ہے کہ صرف ظن و گمان کے اعتماد پر فیصلہ کردیا جائے ۔

(۲۲۱)

روز قیامت کے لئے بد ترین زاد سفر بندگان خدا پر ظلم ہے۔

(۲۲۲)

کریم کے بہترین اعمال میں جان کر انجان بن جانا۔

(۲۲۳)

جسے حیا نے اپنا لباس اوڑھا دیا اس کے عیب کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے۔

(۲۲۴)

زیادہ خاموشی ہیبت کا سبب بنتی ہے اورانصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے۔فضل و کرم سے قدرو

(۱)حرص و طمع کی چمک دمک بعض اوقات عقل کی نگاہوں کو بھی ذخیرہ کر دیتی ہے اور انسان نیک وبد کے امتیاز سے محروم ہوجاتا ہے۔لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے کو حرص و طمع سے دور رکھے اورزندگی کا ہر قدم عقل کے زیر سایہ اٹھائے تاکہ کسی مرحلہ پر تباہ وبرباد نہ ونے پائے ۔

۶۹۴

وبِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ - وبِاحْتِمَالِ الْمُؤَنِ يَجِبُ السُّؤْدُدُ - وبِالسِّيرَةِ الْعَادِلَةِ يُقْهَرُ الْمُنَاوِئُ - وبِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيه تَكْثُرُ الأَنْصَارُ عَلَيْه.

۲۲۵ - وقَالَ علالسلام الْعَجَبُ لِغَفْلَةِ الْحُسَّادِ عَنْ سَلَامَةِ الأَجْسَادِ.

۲۲۶ - وقَالَعليه‌السلام الطَّامِعُ فِي وِثَاقِ الذُّلِّ.

۲۲۷ - وسُئِلَ عَنِ الإِيمَانِ - فَقَالَ الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ - وإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ.

منزلت بلند ہوتی ہے اور تواضع سے نعمت مکمل ہوتی ہے۔دوسروں کا بوجھ اٹھانے سے سرداری حاصل ہوتی ہے اور انصاف پسند کردار سے دشمن پر غلبہ حاصل کیا جاتا ہے۔احمق کے مقابلہ میں بردباری کے مظاہرہ سے انصار و اعوان(۱) میں اضافہ ہوتا ہے۔

(۲۲۵)

حیرت کی بات ہے کہ حسد کرنے والے جسموں کی سلامتی پرحسد کیوں نہیں کرتے ہیں ( دولت مند کی دولت سے حسد ہوتا ہے اور مزدورکی صحت سے حسد نہیں ہوتا ہے حالانکہ یہ اس سے بڑی نعمت ہے۔

(۲۲۶)

لالچی(۲) ہمیشہ ذلت کی قید میں گرفتار رہتا ہے۔

(۲۲۷)

آپ سے ایمان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہایمان دل کا عقیدہ ' زبان کا اقرار اوراعضاء و جوارح کے عمل(۳) کا نام ہے۔

(۱)اس نصیحت میں بھی زندگی کے سات مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اوریہ بتایا گیا ہے کہ انسان ایک کامیاب زندگی کس طرح گزار سکتا ہے اور اسے اس دنیا میں باعزت زندگی کے لئے کن اصول و قوانین کو اختیار کرنا چاہیے۔

(۲)لالچ میں دو طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک طرف انسان نفسیاتی ذلت کاشکار رہتا ہے کہ اپنے کو حقیر فقیر تصورکرتا ہے اوراپنی کسی بھی دولت کا احساس نہیں کرتا ہے اور دوسری طرف دوسرے ارفاد کے سامنے حقارت و ذلت کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ شائد اسی طرح کسی کو اس کے حال پر رحم آجائے اوروہ اس کے مدعا کے حصول کی راہ ہموار کردے

(۳)علی والوں کو اس جملہ کو بغور دیکھنا چاہیے کہ کل ایمان نے ایمان کو اپنی زندگی کے سانچہ میں ڈھال دیا ہے کہ جس طرح آپ کی زندگی میں اقرار ' تصدیق اور عمل کے تینوں زخ پائے جاتے تھے ویسے ہی آپ ہر صاحب ایمان کو اس کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بغیر کسی کو صاحب ایمان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ بے عمل اگر صاحب ایمان نہیں ہو سکتا ہے تو کل ایمان کا شیعہ اور ان کا مخلص کیسے ہو سکتا ہے ۔

۶۹۵

۲۲۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً - فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللَّه سَاخِطاً - ومَنْ أَصْبَحَ يَشْكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِه - فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّه - ومَنْ أَتَى غَنِيّاً فَتَوَاضَعَ لَه لِغِنَاه ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِه - ومَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ - فَهُوَ مِمَّنْ كَانَ يَتَّخِذُ آيَاتِ اللَّه هُزُواً - ومَنْ لَهِجَ قَلْبُه بِحُبِّ الدُّنْيَا الْتَاطَ قَلْبُه مِنْهَا بِثَلَاثٍ - هَمٍّ لَا يُغِبُّه وحِرْصٍ لَا يَتْرُكُه وأَمَلٍ لَا يُدْرِكُه.

۲۲۹ - وقَالَعليه‌السلام كَفَى بِالْقَنَاعَةِ مُلْكاً وبِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِيماً وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قَوْلِه تَعَالَى -( فَلَنُحْيِيَنَّه حَياةً طَيِّبَةً ) فَقَالَ هِيَ الْقَنَاعَةُ.

۲۳۰ - وقَالَعليه‌السلام شَارِكُوا الَّذِي قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْه الرِّزْقُ - فَإِنَّه أَخْلَقُ لِلْغِنَى وأَجْدَرُ بِإِقْبَالِ الْحَظِّ عَلَيْه.

(۲۲۸)

جودنیاکے بارے(۱) میں رنجیدہ ہو کرصبح کرے وہ درحقیقت قضائے الٰہی سے ناراض ہے اور جو صبح اٹھتے ہی کسی نازل ہونے والی مصیبت کاشکوہ شروع کردے اس نے درحقیقت پروردگار کی شکایت کی ہے۔جوکسی دولت مند کے سامنے دولت کی بنا پرجھک جائے اس کا دو تہائیدین بابرباد ہوگیا۔اورجوشخص قرآن پڑنے کے باوجود مرکر جہنم واصل ہوجائے گویا اسنے آیات الٰہی کامذاق اڑایا ہے۔جس کا دل محبت دنیامیں وارفتہ ہو جاء اس کے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہو جاتی ہیں۔وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ' وہ لالچ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اوروہ امید جسے کبھی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔

(۲۲۹)

قناعت سے بڑی کوئی سلطنت اور حسن اخلاق سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔آپ سے دریافت کیا گیا کہ '' ہم حیات طیبہ عنایت کریں گے ''اس آیت میں حیات طیبہ سے مراد کیا ہے ؟۔فرمایا : قناعت۔

(۲۳۰)

جس کی طرف روزی کا رخ ہو اس کے ساتھ شریک ہو جائو کہ یہ دولت مندی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ اور خوش نصیبی کا بہترین قرینہ ہے۔

(۱)اس مقام پر چار عظیم نکات زندگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لہٰذا انسان کو ان کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور صبرو شکر کے ساتھ زندگی گذارنی چاہیے۔نہ شکوہ و فریاد شروع کردے اورنہ دولت کی غلامی پر آمادہ ہوجائے ۔قرآن پڑھے تواس پر عمل بھی کرے اور دنیا میں رہے تو اس سے ہوشیار بھی رہے۔

۶۹۶

۲۳۱ - وقَالَعليه‌السلام : فِي قَوْلِه تَعَالَى( إِنَّ الله يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ والإِحْسانِ ) - الْعَدْلُ الإِنْصَافُ والإِحْسَانُ التَّفَضُّلُ.

۲۳۲ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ يُعْطِ بِالْيَدِ الْقَصِيرَةِ يُعْطَ بِالْيَدِ الطَّوِيلَةِ.

قال الرضي - ومعنى ذلك أن ما ينفقه المرء من ماله - في سبيل الخير والبر وإن كان يسيرا - فإن الله تعالى يجعل الجزاء عليه عظيما كثيرا - واليدان هاهنا عبارة عن النعمتين - ففرقعليه‌السلام بين نعمة العبد - ونعمة الرب تعالى ذكره بالقصيرة والطويلة - فجعل تلك قصيرة وهذه طويلة - لأن نعم الله أبدا - تضعف على نعم المخلوق أضعافا كثيرة - إذ كانت نعم الله أصل النعم كلها - فكل نعمة إليها ترجع ومنها تنزع.

(۲۳۱)

آیت کریمہ'' ان اللہ یا مر بالعدل(۱) '' میں عدل ' انصاف ہے اوراحسان فضل و کرم۔

(۲۳۲)

جو عاجز ہاتھ سے دیتا ہے اسے صاحب اقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔

سید رضی : جوشخص کسی کا رخیر میں مختصر مال بھی خرچ کرتا ہے پروردگار اس کی جزاء کوعظیم و کثیر بنا دیتا ہے۔یہاں دونوں '' ید '' سے مراد دونوں نعمتیں ہیں۔بندہ کی نعمت کو ید قصیرہ کہا گیا ہے اورخدائی نعمت کو یدطویلہ ۔اس لئے کہ اللہ کی نعمتیں بندوں کے مقابلہ میں ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہیں۔اور وہی تمام نعمتوں کی اصل اور سب کامرجع و منشاء ہوتی ہے۔

(۱)حضرت عثمان بن مظعون کا بیان ہے کہ میرے اسلام میں استحکام اس دن پیداہوا جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور میں نے جناب ابو طالب سے اس آیت کا ذکر کیا اور انہوں نے فرمایا کہ میرا فرزند محمد (ص) ہمیشہ بلند ترین اخلاق کی باتیں کرتا ہے لہٰذا اس کا اتباع اور اس سے ہدایت حاصل کرنا تمام قریش کا فریضہ ہے۔

۶۹۷

۲۳۳ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه الْحَسَنِ -عليه‌السلام لَا تَدْعُوَنَّ إِلَى مُبَارَزَةٍ وإِنْ دُعِيتَ إِلَيْهَا فَأَجِبْ - فَإِنَّ الدَّاعِيَ إِلَيْهَا بَاغٍ والْبَاغِيَ مَصْرُوعٌ

۲۳۴ - وقَالَعليه‌السلام خِيَارُ خِصَالِ النِّسَاءِ شِرَارُ خِصَالِ الرِّجَالِ - الزَّهْوُ والْجُبْنُ والْبُخْلُ - فَإِذَا كَانَتِ الْمَرْأَةُ مَزْهُوَّةً .لَمْ تُمَكِّنْ مِنْ نَفْسِهَا - وإِذَا كَانَتْ بَخِيلَةً حَفِظَتْ مَالَهَا ومَالَ بَعْلِهَا - وإِذَا كَانَتْ جَبَانَةً فَرِقَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يَعْرِضُ لَهَا.

۲۳۵ - وقِيلَ لَه صِفْ لَنَا الْعَاقِلَ - فَقَالَعليه‌السلام هُوَ الَّذِي يَضَعُ الشَّيْءَ مَوَاضِعَه - فَقِيلَ فَصِفْ لَنَا الْجَاهِلَ

(۲۳۳)

اپنے فرزند امام حسن سے فرمایا: تم کسی کو جنگ کی دعوت(۱) نہ دینالیکن جب کوئی للکار دے تو فوراً جواب دے دینا کہ جنگ کی دعوت دینے والا باغی ہوتا ہے اور باغی بہرحال ہلاک ہونے والا ہے۔

(۲۳۴)

عورتوں کی بہترین خصلتیں جو مردوں کی بد ترین خصلتیں شمار ہوتی ہیں۔ان میں غرور۔بزدلی اور بخل ہے کہ عورت(۲) اگر مغرورہوگی تو کوئی اس پر قابو نہ پاسکے گا اوراگربخیل ہوگی تو اپنے اور اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اوراگر بزدل ہوگی تو ہر پیش آنے والے خطرہ سے خوفزدہ رہے گی۔

(۲۳۵)

آپ سے گزارش کی گئی کہ عاقل کی توصیف فرمائیں۔تو فرمایا کہ عاقل وہ ہے جو ہرشے کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے۔عرض کیا گیا پھر جاہل کی تعریف کیا

(۱)اسلام کا توازن عمل یہی ہے کہ جنگ میں پہل نہ کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو اس کو نظرانداز کیا جائے لیکن اس کے بعد اگر دشمن جنگ کی دعوت دیدے تو اسے نظرانداز بھی نہ کیا جائے کہ اس طرح اسے اسلام کی کمزوری کا احساس پیداہو جائے گا اوراس کے حوصلے بلند ہو جائیں گے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہاسے یہ محسوس کرادیا جائے کہ اسلام کمزور نہیں ہے لیکن پہل کرنا اس کے اخلاقی اصول و آئین کے خلاف ہے۔

(۲)یہ تفصیل اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں صفات انہیں بلند ترین مقاصد راہ میں محبوب ہیں ورنہ ذاتی طور پر نہ غرور محبوب ہو سکتا ہے اور نہ بخل و بزدلی۔ہر صفت اپنے مصرف کے اعتبار سے خوبی یا خراجی پیدا کرتی ہے اور عورت کے یہ صفات انہیں مقاصد کے اعتبار سے پسندیدہ ہیں مطلق طور پر یہ صفات کسی کے لئے بھی پسندیدہ نہیں ہو سکتے ہیں۔

۶۹۸

فَقَالَ قَدْ فَعَلْتُ.

قال الرضي - يعني أن الجاهل هو الذي لا يضع الشيء مواضعه - فكأن ترك صفته صفة له - إذ كان بخلاف وصف العاقل.

۲۳۶ - وقَالَعليه‌السلام واللَّه لَدُنْيَاكُمْ هَذِه - أَهْوَنُ فِي عَيْنِي مِنْ عِرَاقِ خِنْزِيرٍ فِي يَدِ مَجْذُومٍ

۲۳۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ - وإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ - وإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الأَحْرَارِ.

۲۳۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْأَةُ شَرٌّ كُلُّهَا وشَرُّ مَا فِيهَا أَنَّه لَا بُدَّ مِنْهَا.

ہے۔ فرمایا یہ تو میں بیان کر چکا ۔

سید رضی : مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو ہرشے کو بے محل رکھتا ہے اور اس کا بیان نہ کرنا ہی ایک طرح کا بیان ہے کہ وہ عاقل کی ضد ہے۔

(۲۳۶)

خداکی قسم یہ تمہاری دنیا میری نظر کوڑھی کے ہاتھ میں سور(۱) کی ہڈی سے بھی بد تر ہے۔

(۲۳۷)

ایک قوم ثواب کی لالچ میں عبادت کرتی ہے تو یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قوم عذاب کے خوف سے عبادت کرتی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے۔اصل وہ قوم ہے جو شکرخدا کے عنوان سے عبادت کرتی ہے اور یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔

(۲۳۸)

عورت سرپا شر(۲) ہےاور اس کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس کے بغیر کام بھی نہیں چل سکتا ہے۔

(۱)ایک تو سور جیسے نجس العین جانورکی ہڈی اوروہ بھی کوڑھی انسان کے ہاتھ میں۔اس سے زیادہ نفرت انگیز شے دنیا میں کیا ہو سکتی ہے۔امیر المومنین نے اس تعبیر سے اسلام اور عقل دونوں کے تعلیمات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اسلام نجس العین سے اجتناب کیدعوت دیتا ہے اور عقل متعدی امراض کے مریضوں سے بچنے کی دعوت دیتی ہے۔ایسے حالات میں اگر کوئی شخص دنیا پر ٹوٹ پڑے تو نہ مسلمان کہے جانے کے قابل ہے اور نہ صاحب عقل۔

(۲)بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت کا یہ اشارہ کسی '' خاص عورت '' کی طرف ہے ورنہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ عورت کی صنف کو شر قرار دے دیا جائے اور اسے اس حقارت کی نظر سے دیکھا جائے '' لا بد منھا '' اس رشتہ کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا ہے اور ان کے بغیر زندگی کو ادھورا اور نامکمل قراردیا گیا ہے ۔

۶۹۹

۲۳۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَطَاعَ التَّوَانِيَ ضَيَّعَ الْحُقُوقَ - ومَنْ أَطَاعَ الْوَاشِيَ ضَيَّعَ الصَّدِيقَ.

۲۴۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحَجَرُ الْغَصِيبُ فِي الدَّارِ رَهْنٌ عَلَى خَرَابِهَا.

قال الرضي - ويروى هذا الكلام عن النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولا عجب أن يشتبه الكلامان - لأن مستقاهما من قليب ومفرغهما من ذنوب

۲۴۱ - وقَالَعليه‌السلام يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ - أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظَّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.

۲۴۲ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقِ اللَّه بَعْضَ التُّقَى وإِنْ قَلَّ - واجْعَلْ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه سِتْراً وإِنْ رَقَّ.

۲۴۳ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا ازْدَحَمَ الْجَوَابُ خَفِيَ الصَّوَابُ.

(۲۳۹)

جوشخص کاہلی اور سستی سے کام لیتا ہے وہ اپنے حقوق کوبھی برباد کردیتا ہے اورجوچغل خور کی بات مان لیتا ہے وہ دوستوں کوبھی کھو بیٹھتا ہے۔

(۲۴۰)

گھرمیں ایک پتھر بھی غصبی لگا ہوتو وہ اس کی بربادی کی ضمانت ہے۔

سیدرضی : اس کلام کو رسول اکرم (ص) سے بھی نقل کیا گیا ہے اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ دونوں کا سر چ شمہ علم ایک ہی ہے۔

(۲۴۱)

مظلوم کا دن (قیامت ) ظالم کے لئے اس دن سے سخت تر ہوتا ہے جو ظالم کا مظلوم کے لئے ہوتا ہے۔

(۲۴۲)

اللہ کا ہر نعمت میں ایک حق ہے۔جو اسے ادا کردے گا۔اللہ اس کی نعمت کو بڑھا دے گا اورکو کوتاہی کرے گا وہموجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا۔

(۲۴۳)

جب جوابات کی کثرت ہو جاتی ہے تو اصل بات گم ہو جاتی ہے۔

۷۰۰

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863