نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 659401 / ڈاؤنلوڈ: 15971
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

والشَّفَقَةِ مِنْ سُخْطِه فَإِنَّه لَمْ يَأْمُرْكَ إِلَّا بِحَسَنٍ - ولَمْ يَنْهَكَ إِلَّا عَنْ قَبِيحٍ.

يَا بُنَيَّ إِنِّي قَدْ أَنْبَأْتُكَ عَنِ الدُّنْيَا وحَالِهَا - وزَوَالِهَا وانْتِقَالِهَا - وأَنْبَأْتُكَ عَنِ الآخِرَةِ ومَا أُعِدَّ لأَهْلِهَا فِيهَا - وضَرَبْتُ لَكَ فِيهِمَاالأَمْثَالَ - لِتَعْتَبِرَ بِهَا وتَحْذُوَ عَلَيْهَا - إِنَّمَا مَثَلُ مَنْ خَبَرَ الدُّنْيَا كَمَثَلِ قَوْمٍ سَفْرٍ - نَبَا بِهِمْ مَنْزِلٌ جَدِيبٌ - فَأَمُّوا مَنْزِلًا خَصِيباً وجَنَاباً مَرِيعاً - فَاحْتَمَلُوا وَعْثَاءَ الطَّرِيقِ وفِرَاقَ الصَّدِيقِ - وخُشُونَةَ السَّفَرِ وجُشُوبَةَ المَطْعَمِ - لِيَأْتُوا سَعَةَ دَارِهِمْ ومَنْزِلَ قَرَارِهِمْ - فَلَيْسَ يَجِدُونَ لِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ أَلَماً - ولَا يَرَوْنَ نَفَقَةً فِيه مَغْرَماً - ولَا شَيْءَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِمَّا قَرَّبَهُمْ مِنْ مَنْزِلِهِمْ - وأَدْنَاهُمْ مِنْ مَحَلَّتِهِمْ.

ومَثَلُ مَنِ اغْتَرَّ بِهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ كَانُوا بِمَنْزِلٍ خَصِيبٍ - فَنَبَا بِهِمْ إِلَى مَنْزِلٍ جَدِيبٍ

کے خوف اورناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں۔اس نے جس چیز کاحکم اطاعت کی طلب ' عتاب کے خوفاور ناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں۔اس نے جس چیزکا حکم دیا ہیوہ بہترین ہے اورجس سے منع کیا ہے وہ بد ترین ہے۔

فرزند! میں تمہیں دنیا۔اس کے حالات ۔ تصرفات ، زوال اور انتقال سب کے بارے میں با خبر کردیا ہے اورآخرت اور ا س میں صاحبان ایمان کے لئے مہیا نعمتوں کا بھی پتہ بتادیاہے اور دونوں کے لئے مثالیں بیان کردی ہیںتاکہ تم عبرت حاصل کرس کو اور اس سے ہوشیار رہو۔

یاد رکھو کہ جس نے دنیا کو بخوبی پہچان لیا ہے اس کی مثال اس مسافر قوم جیسی ہے۔جس کاحقط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوجائے اوروہ کسی سرسبز و شاداب علاقہ کا ارادہ کرے اورزحمت راہ۔فراق احباب ' دشواری سفر ' بدمزگی اطعام وغیرہ جیسی تمام مصیبتیں برداشت کرلے تاکہ وسیع گھر اور قرار کی منزل تک پہنچ جائے کہ ایسے لوگ ان تمام باتوں میں کسی تکلیف کا احساس نہیں کرتے اور نہ اس راہ میں خرچ کو نقصان تصور کرتے ہیں اور ان کی نظر میں اس سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں ہ جو انہیں منزل سے قریب تر کردے اور اپنے مرکز تک پہنچادے ۔

اوراس دنیا سے دھوکہ کھاجانے والوں کی مثال اس قوم کی ہے جو سرسبز و شاداب مقام پر رہے اور وہاں سے دلاچٹ جائے تو قحط زدہ علاقہ کی طرف چلی جائے

۵۲۱

- فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَه إِلَيْهِمْ ولَا أَفْظَعَ عِنْدَهُمْ - مِنْ مُفَارَقَةِ مَا كَانُوا فِيه - إِلَى مَا يَهْجُمُونَ عَلَيْه ويَصِيرُونَ إِلَيْه.

يَا بُنَيَّ اجْعَلْ نَفْسَكَ مِيزَاناً فِيمَا بَيْنَكَ وبَيْنَ غَيْرِكَ - فَأَحْبِبْ لِغَيْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ - واكْرَه لَه مَا تَكْرَه لَهَا - ولَا تَظْلِمْ كَمَا لَا تُحِبُّ أَنْ تُظْلَمَ - وأَحْسِنْ كَمَا تُحِبُّ أَنْ يُحْسَنَ إِلَيْكَ - واسْتَقْبِحْ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَسْتَقْبِحُه مِنْ غَيْرِكَ - وارْضَ مِنَ النَّاسِ بِمَا تَرْضَاه لَهُمْ مِنْ نَفْسِكَ - ولَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ وإِنْ قَلَّ مَا تَعْلَمُ - ولَا تَقُلْ مَا لَا تُحِبُّ أَنْ يُقَالَ لَكَ.

واعْلَمْ أَنَّ الإِعْجَابَ ضِدُّ الصَّوَابِ وآفَةُ الأَلْبَابِ - فَاسْعَ فِي كَدْحِكَ ولَا تَكُنْ خَازِناً لِغَيْرِكَ - وإِذَا أَنْتَ هُدِيتَ لِقَصْدِكَ فَكُنْ أَخْشَعَ مَا تَكُونُ لِرَبِّكَ.

واعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ طَرِيقاً ذَا مَسَافَةٍ بَعِيدَةٍ - ومَشَقَّةٍ شَدِيدَةٍ - وأَنَّه لَا غِنَى بِكَ فِيه عَنْ حُسْنِ الِارْتِيَادِ - وقَدْرِ بَلَاغِكَ مِنَ الزَّادِ

کہ اس کی نظرمیں قدیم حالات کے چھٹ جانے سے زیادہ نا گوار اوردشوار گذار کوئی شے نہیں ہے کہ اب جس منزل پروارد ہوئے ہیں اور جہاں تک پہنچے ہیں وہ کسی قیمت پر اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔

بیٹا! دیکھو اپنے اورغیرکے درمیان میزان اپنے نفس کو قرار دو اور دوسرے کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرسکتے ہو اور اس کے لئے بھی وہ بات نا پسند کرو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو۔کسی پر ظلم نہ کرناکہ اپنے اوپر ظلم پسند نہیں کرتے ہو اور ہرایک کے ساتھ نیکی کرنا جس طرح چاہتے ہو کہ سب تمہارے ساتھ نیک برتائو کریں اور جس چیز کو دوسرے سے برا سمجھتے ہواسے اپنے لئے بھی برا ہی تصور کرنا۔لوگوں کی اس بات سے راضی ہو جانا جس سے اپنی بات سے لوگوں کو راضی کرنا چاہتے ہو۔بلا علم کوئی بات زبان سے نہ نکالنا اگرچہ تمہارا علم بہت کم ہے اور کسی کے بارے میں وہ بات نہ کہنا جو اپنے بارے میں پسند نہ کرتے ہو۔

یاد رکھو کہ خود پسندی راہ صواب کے خلاف اورعقلوں کی بیماری ہے لہٰذا اپنی کوشش تیز تر کرواور اپنے مال کودوسروں کے لئے ذخیرہ نہ بنائو اور اگر درمیانی راستہ کی ہدایت مل جائے تو اپنے رب کے سامنے سب سے زیادہ خضو ع و خشوع سے پیش آنا۔

اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے وہ راستہ ہے جس کی مسافت بعید اورمشقت شدید ہے اس میں تم بہترین زاد راہ کی تلاش اوربقدر ضرورت زاد راہ کی فراہمی سے

۵۲۲

مَعَ خِفَّةِ الظَّهْرِ - فَلَا تَحْمِلَنَّ عَلَى ظَهْرِكَ فَوْقَ طَاقَتِكَ - فَيَكُونَ ثِقْلُ ذَلِكَ وَبَالًا عَلَيْكَ - وإِذَا وَجَدْتَ مِنْ أَهْلِ الْفَاقَةِ مَنْ يَحْمِلُ لَكَ زَادَكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - فَيُوَافِيكَ بِه غَداً حَيْثُ تَحْتَاجُ إِلَيْه - فَاغْتَنِمْه وحَمِّلْه إِيَّاه - وأَكْثِرْ مِنْ تَزْوِيدِه وأَنْتَ قَادِرٌ عَلَيْه - فَلَعَلَّكَ تَطْلُبُه فَلَا تَجِدُه - واغْتَنِمْ مَنِ اسْتَقْرَضَكَ فِي حَالِ غِنَاكَ - لِيَجْعَلَ قَضَاءَه لَكَ فِي يَوْمِ عُسْرَتِكَ.

واعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ عَقَبَةً كَئُوداً - الْمُخِفُّ فِيهَا أَحْسَنُ حَالًا مِنَ - والْمُبْطِئُ عَلَيْهَا أَقْبَحُ حَالًا مِنَ الْمُسْرِعِ - وأَنَّ مَهْبِطَكَ بِهَا لَا مَحَالَةَ - إِمَّا عَلَى جَنَّةٍ أَوْ عَلَى نَارٍ - فَارْتَدْ لِنَفْسِكَ قَبْلَ نُزُولِكَ ووَطِّئِ الْمَنْزِلَ قَبْلَ حُلُولِكَ - فَلَيْسَ بَعْدَ الْمَوْتِ مُسْتَعْتَبٌ ولَا إِلَى الدُّنْيَا مُنْصَرَفٌ

واعْلَمْ أَنَّ الَّذِي بِيَدِه خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ - قَدْ أَذِنَ لَكَ فِي الدُّعَاءِ - وتَكَفَّلَ لَكَ بِالإِجَابَةِ وأَمَرَكَ أَنْ تَسْأَلَه لِيُعْطِيَكَ - وتَسْتَرْحِمَه لِيَرْحَمَكَ،ولَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وبَيْنَه مَنْ يَحْجُبُكَ عَنْه - ولَمْ يُلْجِئْكَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكَ إِلَيْه

بے نیاز ہو سکتے ہو۔البتہ بوجھ ہلکا رکھو اور اپنی طاقت سے زیادہ اپنی پشت پر بوجھ مت لادو کہ یہ گراں باری ایک و بال بن جائے ۔اور پھر جب کوئی فقیر مل جائے اور تمہارے زاد راہ کو قیامت تک پہنچا سکتا ہو اور کل وقت ضرورت مکمل طریقہ سے تمہارے حوالے کر سکتا ہو تو اسے غنیمت سمجھو اورمال اسی کے حوالے کردو اور زیادہ سے زیادہ اس کو دے دو کہ شائد بعد میں تلاش کرو اور وہ نہ مل سکے اور اسے بھی غنیمت سمجھو جو تمہاری دولت مندی کے دورمیں تم سے قرض مانگے تاکہ اس دن ادا کردے جب تمہاری غربت کا دن ہو۔

اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے بڑی دشوار گزار منزل ہے جس میں ہلکے بوجھ والا سنگین بار والے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا اوردھیرے چلنے والا تیزرفتار سے کہیں زیادہ بدحال ہوگا اور تمہاری منزل بہرحال جنت یا جہنم ہے لہٰذا اپنے نفس کے لئے منزل سے پہلے جگہ تلاش کرلو اور ورود سے پہلے اسے ہموار کرلو کہ موت کے بعد نہ خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی امکان ہوگا اور نہ دنیا میں واپس آنے کا۔

یاد رکھو کہ جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کے تمام خزانے ہیں اسنے تم کو دعا کرنے کا حکم دیا ہے اورقبولیت کی ضمانت دی ہے اور تمہیں مامور کیا ہے کہ تم سوال کرو تاکہ وہ عطا کرے اور تم طلب رحمت کرو تاکہوہ تم پر رحم کرے اس نے تمہارے اور اپنے درمیان کوئی حاجب نہیں رکھا ہے اور نہ تمہیں کسی سفارش

۵۲۳

ولَمْ يَمْنَعْكَ إِنْ أَسَأْتَ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَمْ يُعَاجِلْكَ بِالنِّقْمَةِ - ولَمْ يُعَيِّرْكَ بِالإِنَابَةِ ولَمْ يَفْضَحْكَ حَيْثُ الْفَضِيحَةُ بِكَ أَوْلَى - ولَمْ يُشَدِّدْ عَلَيْكَ فِي قَبُولِ الإِنَابَةِ - ولَمْ يُنَاقِشْكَ بِالْجَرِيمَةِ - ولَمْ يُؤْيِسْكَ مِنَ الرَّحْمَةِ - بَلْ جَعَلَ نُزُوعَكَ عَنِ الذَّنْبِ حَسَنَةً - وحَسَبَ سَيِّئَتَكَ وَاحِدَةً - وحَسَبَ حَسَنَتَكَ عَشْراً - وفَتَحَ لَكَ بَابَ الْمَتَابِ وبَابَ الِاسْتِعْتَابِ - فَإِذَا نَادَيْتَه سَمِعَ نِدَاكَ - وإِذَا نَاجَيْتَه عَلِمَ نَجْوَاكَ - فَأَفْضَيْتَ إِلَيْه بِحَاجَتِكَ - وأَبْثَثْتَه ذَاتَ نَفْسِكَ وشَكَوْتَ إِلَيْه هُمُومَكَ - واسْتَكْشَفْتَه كُرُوبَكَ واسْتَعَنْتَه عَلَى أُمُورِكَ - وسَأَلْتَه مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَتِه مَا لَا يَقْدِرُ عَلَى إِعْطَائِه غَيْرُه - مِنْ زِيَادَةِ الأَعْمَارِ وصِحَّةِ الأَبْدَانِ - وسَعَةِ الأَرْزَاقِ - ثُمَّ جَعَلَ فِي يَدَيْكَ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِه - بِمَا أَذِنَ لَكَ فِيه مِنْ مَسْأَلَتِه - فَمَتَى شِئْتَ اسْتَفْتَحْتَ بِالدُّعَاءِ أَبْوَابَ نِعْمَتِه - واسْتَمْطَرْتَ شَآبِيبَ رَحْمَتِه - فَلَا يُقَنِّطَنَّكَ إِبْطَاءُ إِجَابَتِه - فَإِنَّ الْعَطِيَّةَ عَلَى قَدْرِ النِّيَّةِ - ورُبَّمَا أُخِّرَتْ عَنْكَ الإِجَابَةُ لِيَكُونَ ذَلِكَ أَعْظَمَ لأَجْرِ السَّائِلِ -

کرنے والے کا محتاج بنایا ہے ۔گناہ کرنے کی صورت میں توبہ سے بھی نہیں روکا ہے اور عذاب میں جلدی بھی نہیں کی ہے اور توبہ کرنے پر طعنے بھی نہیں دیتا ہے اور تمہیں رسوابھی نہیں کرتا ہے اگر تم اس کے حقدار ہو۔اس نے توبہ قبول کرنے میں بھی کسی سختی سے کام نہیں لیا ہے اور جرائم پر سخت محاسبہ کرکے رحمت سے مایوس بھی نہیں کیا ہے بلکہ گناہوں سے علیحدگی کو بھی ایک حسنہ بنادیا ہے اور پھرب رائی میں ایککو ایک شمار کیا ہے اورنیکیوں میں ایک کو دس بنادا ہے۔توبہ اور طلب رضا کا دروازہ کھول دیا ہے کہ جب بھی آواز دو فوراً سن لیتا ہے اور جب مناجات کرو تو اس سے بھی با خبر رہتا ہے تم اپنی حاجتیں اس کے حوالے کر سکتے ہو۔اسے اپنے حالات بتا سکتے ہو ۔اپنے رنج و غم کی شکایت کر سکتے ہو۔ اپنے حزن و الم کے زوال کا مطالبہ کرس کتے ہو۔انپے امور میں مدد مانگ سکتے ہو اور اس کے خزانہ رحمت سے اتنا سوال کر سکتے ہو جتنا کوئی دوسرا بہرحال نہیں دے سکتا ہے چاہے وہ عمر میں اضافہ ہو یا بدن کی صحت یا رزق کی وسعت۔اس کے بعد اس نے دعا کی اجازت دے کر گویا خزائن رحمت کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں کہ جب چاہو ان کنجیوں سے نعمت کے دروازے کھول سکتے ہواور رحمت کی بارشوں کو برسا سکتے ہو۔لہٰذا خبردار قبولیت کی تاخیرتمہیں مایوس نہ کردے کہ عطیہ ہمیشہ بقدر نیت ہوا کرتا ہے اور کبھی کبھی قبولیت میں اس لئے تاخیر کردی جاتی ہے کہ اس میں سائل کے اجرمیں اضافہ

۵۲۴

وأَجْزَلَ لِعَطَاءِ الآمِلِ - ورُبَّمَا سَأَلْتَ الشَّيْءَ فَلَا تُؤْتَاه - وأُوتِيتَ خَيْراً مِنْه عَاجِلًا أَوْ آجِلًا - أَوْ صُرِفَ عَنْكَ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ - فَلَرُبَّ أَمْرٍ قَدْ طَلَبْتَه فِيه هَلَاكُ دِينِكَ لَوْ أُوتِيتَه - فَلْتَكُنْ مَسْأَلَتُكَ فِيمَا يَبْقَ لَكَ جَمَالُه - ويُنْفَى عَنْكَ وَبَالُه - فَالْمَالُ لَا يَبْقَى لَكَ ولَا تَبْقَى لَه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّكَ إِنَّمَا خُلِقْتَ لِلآخِرَةِ لَا لِلدُّنْيَا - ولِلْفَنَاءِ لَا لِلْبَقَاءِ ولِلْمَوْتِ لَا لِلْحَيَاةِ - وأَنَّكَ فِي قُلْعَةٍ ودَارِ بُلْغَةٍ - وطَرِيقٍ إِلَى الآخِرَةِ - وأَنَّكَ طَرِيدُ الْمَوْتِ الَّذِي لَا يَنْجُو مِنْه هَارِبُه - ولَا يَفُوتُه طَالِبُه ولَا بُدَّ أَنَّه مُدْرِكُه فَكُنْ مِنْه عَلَى حَذَرِ أَنْ يُدْرِكَكَ وأَنْتَ عَلَى حَالٍ سَيِّئَةٍ - قَدْ كُنْتَ تُحَدِّثُ نَفْسَكَ مِنْهَا بِالتَّوْبَةِ - فَيَحُولَ بَيْنَكَ وبَيْنَ ذَلِكَ - فَإِذَا أَنْتَ قَدْ أَهْلَكْتَ نَفْسَكَ.

ذكر الموت

يَا بُنَيَّ أَكْثِرْ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ وذِكْرِ مَا تَهْجُمُ عَلَيْه - وتُفْضِي بَعْدَ الْمَوْتِ إِلَيْه - حَتَّى يَأْتِيَكَ

اور امیدوا ر کے عطیہ میں زیادتی کا امکان پایا جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کا سوال کرو اور وہ نہ ملے لیکن اس کے بعد جلد یا بدیر اس سے بہتر مل جائے یا اسے تمہاری بھلائی کے لئے روک دیا گیا ہو۔اس لئے کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو تم نے طلب کیا ہے وہاگر مل جائے تو دین کی بربادی کاخطرہ ہے۔لہٰذا اسی چیز کا سوال کرو جس میں تمہارا حسن باقی رہے اور تم وبال سے محفوظ رہو۔مال نہ باقی رہنے والا ہے اور نہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔

فرزند ! یاد رکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایا گیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں ۔تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے لئے نہیں اورتم اس گھر میں ہو جہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہے۔اور تم آخرت کے راستہ پر ہو۔موت مہارا پیچھا کئے ہوئے ہے جس سے کوئی بھاگنے والا بچ نہیں سکتا ہے اور اس کے ہاتھ سے نکل نہیں سکتا ہے۔وہ بہر حال اسے پالے گی۔لہٰذا اس کی طرف سے ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں کسی برے حال میں پکڑ لے اورتم خالی توبہ کے لئے سوچتے ہی رہ جائو اور وہ تمہارے اور توبہ کے درمیان حائل ہو جائے کہ اس طرح گویا تم نے اپنے نفس کو ہلاک کردیا۔

فرزند! موت کو برابر یاد کرتے رہو اور ان حالات کو یاد کرتے رہو جن پراچانک وارد ہونا ہے اور جہاں تک موت کے بعد جانا ہے تاکہ وہ تمہارے پاس آئے

۵۲۵

وقَدْ أَخَذْتَ مِنْه حِذْرَكَ - وشَدَدْتَ لَه أَزْرَكَ - ولَا يَأْتِيَكَ بَغْتَةً فَيَبْهَرَكَ - وإِيَّاكَ أَنْ تَغْتَرَّ بِمَا تَرَى مِنْ إِخْلَادِ أَهْلِ الدُّنْيَا إِلَيْهَا - وتَكَالُبِهِمْ عَلَيْهَا فَقَدْ نَبَّأَكَ اللَّه عَنْهَا - ونَعَتْ هِيَ لَكَ عَنْ نَفْسِهَا وتَكَشَّفَتْ لَكَ عَنْ مَسَاوِيهَا - فَإِنَّمَا أَهْلُهَا كِلَابٌ عَاوِيَةٌ وسِبَاعٌ ضَارِيَةٌ - يَهِرُّ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ ويَأْكُلُ عَزِيزُهَا ذَلِيلَهَا - ويَقْهَرُ كَبِيرُهَا صَغِيرَهَا - نَعَمٌ مُعَقَّلَةٌ وأُخْرَى مُهْمَلَةٌ - قَدْ أَضَلَّتْ عُقُولَهَا ورَكِبَتْ مَجْهُولَهَا - سُرُوحُ عَاهَةٍ بِوَادٍ وَعْثٍ ،لَيْسَ لَهَا رَاعٍ يُقِيمُهَا ولَا مُسِيمٌ يُسِيمُهَا - سَلَكَتْ بِهِمُ الدُّنْيَا طَرِيقَ الْعَمَى - وأَخَذَتْ بِأَبْصَارِهِمْ عَنْ مَنَارِ الْهُدَى - فَتَاهُوا فِي حَيْرَتِهَا وغَرِقُوا فِي نِعْمَتِهَا - واتَّخَذُوهَا رَبّاً فَلَعِبَتْ بِهِمْ ولَعِبُوا بِهَا - ونَسُوا مَا وَرَاءَهَا.

الترفق في الطلب

رُوَيْداً يُسْفِرُ الظَّلَامُ - كَأَنْ قَدْ وَرَدَتِ الأَظْعَانُ - يُوشِكُ مَنْ أَسْرَعَ أَنْ يَلْحَقَ

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّ مَنْ كَانَتْ مَطِيَّتُه اللَّيْلَ والنَّهَارَ - فَإِنَّه يُسَارُ بِه وإِنْ كَانَ وَاقِفاً

تو تم احتیاطی سامان کرچکے ہو اور اپنی طاقت کو مضبوط بنا چکے ہو اور وہ اچانک آکر تم پرقبضہ نہ کرلے اور خبردار اہل دنیا کو دنیا کی طرف جھکتے اور اس پرمرتے دیکھ کرتم دھوکہ میں نہ آجانا کہ پروردگار تمہیں اس کے بارے میں بتا چکا ہے اور وہ خود بھی اپنے مصائب سنا چکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح کر چکی ہے۔دنیا دار افراد صرف بھونکنے والے کتے اورپھاڑ کھانے والے درندے ہیں جہاں ایک دوسرے پر بھونکتا ہے اور طاقت والا کمزور کو کھا جاتا ہے اور بڑا چھوٹے کو کچل ڈالتا ہے۔یہ سب جانور ہیں جن میں بعض بندھے ہوئے ہیں اور بعض وارہ جنہوں نے اپنی عقلیں گم کردی ہیں اور نا معلوم راستہ پر چل پڑے ہیں۔گویا دشوار گذار وادیوں میں مصیبتوں میں چرنے والے ہیں جہاں نہ کوئی چرواہا ہے جو سیدھے راستہ پر لگا سکے اور نہکوئی چرانے والا ہے جو انہیں چرا سکے۔دنیا نے انہیں گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا ہے اور ان کی بصارت کو منارہ ٔ ہدایت کے مقابلہ میں سلب کرلیا ہے اوروہ حیرت کے عالم میں سر گرداں ہیں اورنعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔دنیا کو اپنا معبود بنالیا ہے اوروہ ان سے کھیل رہی ہے اوروہ اس سے کھیل روہے ہیں اور سب نے آخرت کو یکسر بھلا دیا ہے۔

ٹھہرو! اندھرے کو چھٹنے دو۔ایسا محسوس ہوگا جیسے قافلے آخرت کی منزل میں اتر چکے ہیں اور قریب ہے کہ تیز رفتار افراد اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائیں۔

فرزند ! یاد رکھو کہ جو شب و روز کی سواری پر سوار ہے وہ گویا سر گرم سفر ہے چاہے ٹھہرا ہی کیوں ن ہ

۵۲۶

ويَقْطَعُ الْمَسَافَةَ وإِنْ كَانَ مُقِيماً وَادِعاً

واعْلَمْ يَقِيناً أَنَّكَ لَنْ تَبْلُغَ أَمَلَكَ ولَنْ تَعْدُوَ أَجَلَكَ - وأَنَّكَ فِي سَبِيلِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ - فَخَفِّضْ فِي الطَّلَبِ وأَجْمِلْ فِي الْمُكْتَسَبِ - فَإِنَّه رُبَّ طَلَبٍ قَدْ جَرَّ إِلَى حَرَبٍ - ولَيْسَ كُلُّ طَالِبٍ بِمَرْزُوقٍ - ولَا كُلُّ مُجْمِلٍ بِمَحْرُومٍ - وأَكْرِمْ نَفْسَكَ عَنْ كُلِّ دَنِيَّةٍ - وإِنْ سَاقَتْكَ إِلَى الرَّغَائِبِ - فَإِنَّكَ لَنْ تَعْتَاضَ بِمَا تَبْذُلُ مِنْ نَفْسِكَ عِوَضاً - ولَا تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وقَدْ جَعَلَكَ اللَّه حُرّاً - ومَا خَيْرُ خَيْرٍ لَا يُنَالُ إِلَّا بِشَرٍّ - ويُسْرٍ لَا يُنَالُ إِلَّا بِعُسْرٍ

وإِيَّاكَ أَنْ تُوجِفَ بِكَ مَطَايَا الطَّمَعِ - فَتُورِدَكَ مَنَاهِلَ الْهَلَكَةِ - وإِنِ اسْتَطَعْتَ أَلَّا يَكُونَ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه ذُو نِعْمَةٍ فَافْعَلْ - فَإِنَّكَ مُدْرِكٌ قَسْمَكَ وآخِذٌ سَهْمَكَ - وإِنَّ الْيَسِيرَ مِنَ اللَّه سُبْحَانَه أَعْظَمُ وأَكْرَمُ مِنَ الْكَثِيرِ مِنْ خَلْقِه - وإِنْ كَانَ كُلٌّ مِنْه.

وصايا شتى

وتَلَافِيكَ مَا فَرَطَ مِنْ صَمْتِكَ

رہے اور مسافت قطع کررہا ہے چاہے اطمینان سے مقیم ہی کیوں نہ رہے۔یہ بات یقین کے ساتھ سمجھ لو کہ تم نہ ہر امید کو پا سکتے ہو اور نہ اجل سے آگے جاسکتے ہو تم اگلے لوگوں کے راستہ ہی پر چل رہے ہو لہٰذا طلب میں نرم رفتاری سے کام لو اور کسب معاش میں میانہ روی اختیار کرو۔ورنہ بہت سی طلب انسان کو مال کی محرومی تک پہنچا دیتی ہے اور ہر طلب کرنے والا کامیاب بھی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہر اعتدال سے کام لینے والا محروم ہی ہوت ہے۔اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے بلند تر رکھو چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہنچا ہی کیوں نہ دے ۔اس لئے کہ جو عزت نفس دے دو گے اس کا کوئی بدل نہیں مل سکتا اورخبردار کسی کے غلام نہبن جانا جب کہ پروردگار نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے۔دیکھو اس خیر میں کوئی خیر نہیں ہے جو شرکے ذریعہ حاصل ہو اوروہآسانی آسانی نہیں ہے جو دشواری کے راستہ سے ملے ۔

خبردار طمع کی سواریاں تیز رفتاری دکھلا کر تمہیں ہلاکت کے چشموں پرنہ وارد کردیں اور اگر ممکن ہو کہ تمہارے اور خدا کے درمیان کوئی صاحب نعمت نہ آنے پائے تو ایسا ہی کرو کہ تمہیں تمہارا حصہ بہر حال ملنے والا ہے۔اور اپنا نصیب بہر حال لینے والے ہو اوراللہ کی طرف سے تھوڑا بھی مخلوقات کے بہت سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔اگرچہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔

خاموشی سے پیدا ہونے والی کوتاہی کی تلافی

۵۲۷

أَيْسَرُ مِنْ إِدْرَاكِكَ مَا فَاتَ مِنْ مَنْطِقِكَ - وحِفْظُ مَا فِي الْوِعَاءِ بِشَدِّ الْوِكَاءِ - وحِفْظُ مَا فِي يَدَيْكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ طَلَبِ مَا فِي يَدَيْ غَيْرِكَ - ومَرَارَةُ الْيَأْسِ خَيْرٌ مِنَ الطَّلَبِ إِلَى النَّاسِ - والْحِرْفَةُ مَعَ الْعِفَّةِ خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى مَعَ الْفُجُورِ - والْمَرْءُ أَحْفَظُ لِسِرِّه ورُبَّ سَاعٍ فِيمَا يَضُرُّه - مَنْ أَكْثَرَ أَهْجَرَ ومَنْ تَفَكَّرَ أَبْصَرَ - قَارِنْ أَهْلَ الْخَيْرِ تَكُنْ مِنْهُمْ - وبَايِنْ أَهْلَ الشَّرِّ تَبِنْ عَنْهُمْ - بِئْسَ الطَّعَامُ الْحَرَامُ - وظُلْمُ الضَّعِيفِ أَفْحَشُ الظُّلْمِ - إِذَا كَانَ الرِّفْقُ خُرْقاً كَانَ الْخُرْقُ رِفْقاً - رُبَّمَا كَانَ الدَّوَاءُ دَاءً والدَّاءُ دَوَاءً - ورُبَّمَا نَصَحَ غَيْرُ النَّاصِحِ وغَشَّ الْمُسْتَنْصَحُ - وإِيَّاكَ والِاتِّكَالَ عَلَى الْمُنَى فَإِنَّهَا بَضَائِعُ النَّوْكَى - والْعَقْلُ حِفْظُ التَّجَارِبِ - وخَيْرُ مَا جَرَّبْتَ مَا وَعَظَكَ - بَادِرِ الْفُرْصَةَ قَبْلَ أَنْ تَكُونَ غُصَّةً - لَيْسَ كُلُّ طَالِبٍ يُصِيبُ ولَا كُلُّ غَائِبٍ يَئُوبُ –

ومِنَ الْفَسَادِ إِضَاعَةُ الزَّادِ ومَفْسَدَةُ الْمَعَادِ -

کرلینا گفتگو سے ہونے والے نقصان کے تدارک سے آسان ترہے برتن کے اندر کا سامان منہ بند کرکے محفوظ کیا جاتا ہے اور اپنے ہاتھ کی دولت کا محفوظ کرلینا دوسرے کے ہاتھ کی نعمت کے طلب کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔مایوسی کی تلخی کوبرداشت کرنا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے س بہتر ہے اور پاکدامانی کے ساتھ محنت مشقت کرنا فسق و فجور کے ساتھ مالداری سے بہتر ہے۔

ہر انسان اپنے راز کو دوسروں سے زیادہ محفوظ رکھ سکتا ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو اس امر کے لئے دوڑ رہے ہیں جوان کے لئے نقصان دہ ہے ۔زیادہ بات کرنے والا بکواس کرنے لگتا ہے اور غوروفکر کرنے والا بصیر ہو جاتا ہے۔اہل خیرکے ساتھ رہو تاکہ انہیں میں شمار ہواوراہل شر سے الگ رہو تاکہ ان سے الگ حساب کئے جائو۔بدترین طعام مال حرام ہے اوربد ترین ظلم کمزورآدمی پر ظلم ہے۔نرمی نا مناسب ہو تو سختی ہی مناسب ہے۔کبھی کبھی دوا مرض بن جاتی ہے اورمرض دوا اور کبھی کبھی غیر مخلص بھی نصیحت کی بات کردیتا ہے اورکبھی کبھی مخلص بھی خیانت سے کام لے لیتا ہے۔دیکھو خبر دار خواہشات پر اعتماد نہکرنا کہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہیں۔عقلمندی تجربات کے محفوظ رکھنے میں ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے نصیحت حاصل ہو۔فرصت سے فائدہ اٹھائو قبل اس کے کہ رنج و اندوہ کا سامنا کرنا پڑے۔ہر طلب گار مطلوب کو حاصل بھی نہیں کرتا ہے اور ہر غائب پلٹ کربھی نہیں آتا ہے۔

فساد کی ایک قسم زاد راہ کاضائع کردینا اورعاقبت

۵۲۸

ولِكُلِّ أَمْرٍ عَاقِبَةٌ سَوْفَ يَأْتِيكَ مَا قُدِّرَ لَكَ - التَّاجِرُ مُخَاطِرٌ ورُبَّ يَسِيرٍ أَنْمَى مِنْ كَثِيرٍ لَا خَيْرَ فِي مُعِينٍ مَهِينٍ ولَا فِي صَدِيقٍ ظَنِينٍ - سَاهِلِ الدَّهْرَ مَا ذَلَّ لَكَ قَعُودُه - ولَا تُخَاطِرْ بِشَيْءٍ رَجَاءَ أَكْثَرَ مِنْه - وإِيَّاكَ أَنْ تَجْمَحَ بِكَ مَطِيَّةُ اللَّجَاجِ

احْمِلْ نَفْسَكَ مِنْ أَخِيكَ عِنْدَ صَرْمِه عَلَى الصِّلَةِ - وعِنْدَ صُدُودِه عَلَى اللَّطَفِ والْمُقَارَبَةِ - وعِنْدَ جُمُودِه عَلَى الْبَذْلِ - وعِنْدَ تَبَاعُدِه عَلَى الدُّنُوِّ - وعِنْدَ شِدَّتِه عَلَى اللِّينِ - وعِنْدَ جُرْمِه عَلَى الْعُذْرِ - حَتَّى كَأَنَّكَ لَه عَبْدٌ وكَأَنَّه ذُو نِعْمَةٍ عَلَيْكَ - وإِيَّاكَ أَنْ تَضَعَ ذَلِكَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِه - أَوْ أَنْ تَفْعَلَه بِغَيْرِ أَهْلِه - لَا تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّ صَدِيقِكَ صَدِيقاً فَتُعَادِيَ صَدِيقَكَ - وامْحَضْ أَخَاكَ النَّصِيحَةَ - حَسَنَةً كَانَتْ أَوْ قَبِيحَةً - وتَجَرَّعِ الْغَيْظَ فَإِنِّي لَمْ أَرَ جُرْعَةً أَحْلَى مِنْهَا عَاقِبَةً - ولَا أَلَذَّ مَغَبَّةً - ولِنْ لِمَنْ غَالَظَكَ فَإِنَّه يُوشِكُ أَنْ يَلِينَ لَكَ - وخُذْ عَلَى عَدُوِّكَ بِالْفَضْلِ فَإِنَّه أَحْلَى الظَّفَرَيْنِ -

کو برباد کر دینا بھی ہے۔ہر امر کی ایک عاقبت ہے اور عنقریب وہ تمہیں مل جائے گا جو تمہارے لئے مقدر ہوا ہے۔تجارتکرنے والا وہی ہوتا ہے جو مال کو خطرہ میں ڈال سکے ۔بسا اوقات تھوڑا مال زیادہ سے زیادہ با برکت ہوتا ہے۔اس مدد گار میں کوئی خیر نہیں ہے جو ذلیل ہو اور وہ دوست بیکار ہے جوبدنام ہو۔زمانہ ک ساتھ سہولت کا برتائو کرو جب تک اس کا اونٹ قابو میں رہے اور کسی چیز کو اس سے زیادہ کی امید میں خطرہ میں مت ڈالو۔خبر دار کہیں دشمنی اور عناد کی سواری تم سے منہ زوری نہ کرنے لگے۔

اپنے نفس کو اپنے بھائی کے بارے میں قطع تعلق کے مقابلہ میں تعلقات ' اعراض کے مقابلہ میں مہربانی بخل کے مقابلہ میں عطا ' دوری کے مقابلہ میں قربت ' شدت کے مقابل میں نرمی اورجرم کے موقع پر معذرت کے لئے آمادہ کرو گویا کہ تم اس کے بندے ہو اوراس نے تم پر کوئی احسان کیا ہے اور خبردار احسان کوبھی بے محل نہ قرار دینا اورنہ کسی نا اہل کے ساتھ احسان کرنا۔اپنے دشمن کے دوست کو اپنا دوست نہ بنانا کہ تم اپنے دوست کے دشمن ہو جائو اور اپنے بھائی کو مخلصانہ نصیحت کرتے رہنا چاہے اسے اچھی لگیں یا بری۔غصہ کو پی جائو کہ میں نے انجام کارکے اعتبارسے اس سے زیادہ یریں کوئی گھونٹ نہیں دیکھا ہے اورنہ عاقبت کے لحاظ سے لذیذ تر۔اور جو تمہارے ساتھ سختی کرے اس کے لئے نرم ہو جائو شاید کبھی وہ بھی نرم ہو جائے ۔اپنے دشمن کے ساتھ احسان کرو کہ اس میں دو میں سے ایک کامیابی اور شیریں

۵۲۹

وإِنْ أَرَدْتَ قَطِيعَةَ أَخِيكَ فَاسْتَبْقِ لَه مِنْ نَفْسِكَ - بَقِيَّةً يَرْجِعُ إِلَيْهَا إِنْ بَدَا لَه ذَلِكَ يَوْماً مَا - ومَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْراً فَصَدِّقْ ظَنَّه - ولَا تُضِيعَنَّ حَقَّ أَخِيكَ اتِّكَالًا عَلَى مَا بَيْنَكَ وبَيْنَه - فَإِنَّه لَيْسَ لَكَ بِأَخٍ مَنْ أَضَعْتَ حَقَّه - ولَا يَكُنْ أَهْلُكَ أَشْقَى الْخَلْقِ بِكَ - ولَا تَرْغَبَنَّ فِيمَنْ زَهِدَ عَنْكَ - ولَا يَكُونَنَّ أَخُوكَ أَقْوَى عَلَى قَطِيعَتِكَ مِنْكَ عَلَى صِلَتِه - ولَا تَكُونَنَّ عَلَى الإِسَاءَةِ أَقْوَى مِنْكَ عَلَى الإِحْسَانِ - ولَا يَكْبُرَنَّ عَلَيْكَ ظُلْمُ مَنْ ظَلَمَكَ - فَإِنَّه يَسْعَى فِي مَضَرَّتِه ونَفْعِكَ - ولَيْسَ جَزَاءُ مَنْ سَرَّكَ أَنْ تَسُوءَه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّ الرِّزْقَ رِزْقَانِ - رِزْقٌ تَطْلُبُه ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - مَا أَقْبَحَ الْخُضُوعَ عِنْدَ الْحَاجَةِ -

ترین کامیابی ہے اور اگراپنے بھائی سے قطع تعلق کرنا چاہو تو اپنے نفس میں اتنی گنجائش رکھو کہاگراسے کسی دن واپسی کاخیال پیدا ہو تو واپس آسکے ۔جو تمہارے بارے میں اچھا خیال رکھے اس کے خیال کو غلط نہ ہونے دینا۔باہمی روابط کی بناپر کسی بھائی کے حق کو ضائع نہ کرنا کہ جس کے حق کو ضائع کردیا پھروہ واقعاً بھائی نہیں ہے اور دیکھو تمہارے گھر والے تمہاری وجہ سے بد بخت نہ ہونے پائیں اورجو تم سے کنارہ کش ہونا چاہے اس کے پیچھے نہ لگے رہو۔تمہارا کوئی بھائی تم سےقطع تعلقات میں تم پربازی نہ لے جائے اورتم تعلقات مضبوط کرلو اورخبردار برائی کرنے میں نیکی کرنے سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ نہ کرنا اور کسی ظالم کے ظلم کو بہت بڑا تصور نہ کرنا کہوہ اپنے کو نقصان پہنچا رہا ہے اور تمہیں فائدہ پہنچا رہا ہے اور جو تمہیں فائدہ پہنچائے(۱) اس کی جزا یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ برائی کرو۔

اور فرزند ! یاد رکھو کہ رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کررہے ہو اورایک رزق وہ ہے(۲) جوتم کو تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ جائو گے تو وہ خود تم تک آجائے گا۔ضرورت کے وقت خضوع وخشوع کا اظہار کس قدر ذلیل ترین بات ہے

(۱) اس مسئلہ کاتعلق دنیامیں اخلاقی برتائو سے ہے ۔جہاں ظالموں کو اسلامی اخلاقیات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور کبھی لشکر معاویہ پر بندش آب کو روکدیا جاتا ہے اور کبھی ابن ملجم کو سیراب کردیا جاتا ہے۔ورنہ اگر دین و مذہب خطرہ میں پڑ جائے تو مذہب سے زیادہ عزیز تر کوئی شے نہیں ہے اور ظالموں سے جہاد بھی واجب ہو جاتا ہے۔

(۲) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جہاں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جیسے انسان رزق کی تلاش میں نہیں ہے بلکہ رزق انسان کو تلاش کر رہاہے اور انسان جہاں جہاں جا رہا ہے اس کا رزق اس کے ساتھ جارہا ہے۔اور پروردگار نے ایسے واقعات کا انتظام اسی لئے کیا ہے کہ انسان کو اس کی رزاقیت اورایفائے وعدہ کا یقین ہو جائے اوروہ رزق کی راہ میں عزت نفس یادار آرت کو بیچے کے لئے تیار نہ ہو جائے ۔

۵۳۰

والْجَفَاءَ عِنْدَ الْغِنَى - إِنَّمَا لَكَ مِنْ دُنْيَاكَ مَا أَصْلَحْتَ بِه مَثْوَاكَ - وإِنْ كُنْتَ جَازِعاً عَلَى مَا تَفَلَّتَ مِنْ يَدَيْكَ - فَاجْزَعْ عَلَى كُلِّ مَا لَمْ يَصِلْ إِلَيْكَ - اسْتَدِلَّ عَلَى مَا لَمْ يَكُنْ بِمَا قَدْ كَانَ - فَإِنَّ الأُمُورَ أَشْبَاه - ولَا تَكُونَنَّ مِمَّنْ لَا تَنْفَعُه الْعِظَةُ إِلَّا إِذَا بَالَغْتَ فِي إِيلَامِه - فَإِنَّ الْعَاقِلَ يَتَّعِظُ بِالآدَابِ - والْبَهَائِمَ لَا تَتَّعِظُ إِلَّا بِالضَّرْبِ -. اطْرَحْ عَنْكَ وَارِدَاتِ الْهُمُومِ بِعَزَائِمِ الصَّبْرِ - وحُسْنِ الْيَقِينِ - مَنْ تَرَكَ الْقَصْدَ جَارَ - والصَّاحِبُ مُنَاسِبٌ - والصَّدِيقُ مَنْ صَدَقَ غَيْبُه - والْهَوَى شَرِيكُ الْعَمَى - ورُبَّ بَعِيدٍ أَقْرَبُ مِنْ قَرِيبٍ - وقَرِيبٍ أَبْعَدُ مِنْ بَعِيدٍ - والْغَرِيبُ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَه حَبِيبٌ - مَنْ تَعَدَّى الْحَقَّ ضَاقَ مَذْهَبُه - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى قَدْرِه كَانَ أَبْقَى لَه - وأَوْثَقُ سَبَبٍ أَخَذْتَ بِه - سَبَبٌ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه سُبْحَانَه - ومَنْ لَمْ يُبَالِكَ فَهُوَ عَدُوُّكَ

اور بے نیازی کے عالم میں بد سلوکی کس قدر قبیح حرکت ہے۔اس دنیامیں تمہارا حصہ اتنا ہی ہے جس سے اپنی عاقبت کا انتظام کرس کو۔اور کسی چیزکے ہاتھ سے نکل جانے پر پریشنی کا اظہار کرنا ہے تو ہر اس چیز پر بھی فریاد کرو جو تم تک نہیں پہنچی ہے۔جو کچھ ہو چکا ہے اس کے ذریعہ اس کاپتہ لگائو جو ہونے والا ہے کہ معاملات تمام کے تمام ایک ہی جیسے ہیں اور خبردار ان لوگوں میں نہ ہو جائو جن پر اس وقت تک نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی ہے جب تک پوری طرح تکلیف نہ پہنچائی جائے اس لئے کہ انسان عاقل ادب سے نصیحت حاصل کرتا ہے اور جانور مار پیٹ سے سیدھا ہوتا ہے ۔دنیا میں وارد ہونے والے ہموم و آلام کو صبر کے عزائم اور یقین کے حسن کے ذریعہ کردو۔یاد رکھو کہ جس نے بھی اعتدال کو چھوڑاوہ منحرف ہوگیا۔ساتھی ایک طرح کا شریک نسب ہوتا ہے اور دوست وہ ہے جو غیبت میں بھی سچا دوست رہے۔خواہش اندھے پن کی شریک کار ہوتی ہے۔بہت سے دور والے ایسے ہوتے ہیں جو قریب والوں سے قریب تر ہوتے ہیں اور بہت سے قریب والے دور والوں سے زیادہ دور تر ہوتے ہیں ۔غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔جو حق سے آگے بڑھ جائے اس کے راستے تنگ ہو جاتے ہیں اورجو اپنی حیثیت پر قائم رہتا ہے اس کی عزت باقی رہ جاتی ہے۔تمہارے ہاتھوں میں مضبوط ترین وسیلہ تمہارا اورخدا کا رشتہ ہے۔اورجو تمہاری پروانہ کرے وہی تمہارادشمن ہے

۵۳۱

- قَدْ يَكُونُ الْيَأْسُ إِدْرَاكاً إِذَا كَانَ الطَّمَعُ هَلَاكاً - لَيْسَ كُلُّ عَوْرَةٍ تَظْهَرُ ولَا كُلُّ فُرْصَةٍ تُصَابُ - ورُبَّمَا أَخْطَأَ الْبَصِيرُ قَصْدَه وأَصَابَ الأَعْمَى رُشْدَه - أَخِّرِ الشَّرَّ فَإِنَّكَ إِذَا شِئْتَ تَعَجَّلْتَه وقَطِيعَةُ الْجَاهِلِ تَعْدِلُ صِلَةَ الْعَاقِلِ - مَنْ أَمِنَ الزَّمَانَ خَانَه ومَنْ أَعْظَمَه أَهَانَه - لَيْسَ كُلُّ مَنْ رَمَى أَصَابَ - إِذَا تَغَيَّرَ السُّلْطَانُ تَغَيَّرَ الزَّمَانُ - سَلْ عَنِ الرَّفِيقِ قَبْلَ الطَّرِيقِ - وعَنِ الْجَارِ قَبْلَ الدَّارِ إِيَّاكَ أَنْ تَذْكُرَ مِنَ الْكَلَامِ مَا يَكُونُ مُضْحِكاً - وإِنْ حَكَيْتَ ذَلِكَ عَنْ غَيْرِكَ.

الرأي في المرأة

وإِيَّاكَ ومُشَاوَرَةَ النِّسَاءِ - فَإِنَّ رَأْيَهُنَّ إِلَى أَفْنٍ وعَزْمَهُنَّ إِلَى وَهْنٍ - واكْفُفْ عَلَيْهِنَّ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ بِحِجَابِكَ إِيَّاهُنَّ - فَإِنَّ شِدَّةَ الْحِجَابِ أَبْقَى عَلَيْهِنَّ

کبھی کبھی مایوسی بھی کامیابی بن جاتی ہے جب حرص و طمع موجب ہلاکت ہو۔ہر عیب ظاہرنہیں ہوا کرتا ہے اورنہ ہرفرصت کو موقع بار بار ملاکرتا ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھوں والا راستہ سے بھٹک جاتا ہے اور اندھا سیدھے راستہ کو پالیتاہے۔برائی کو پس پشت ڈالتے رہو کہ جب بھی چاہو اس کی طرف بڑھ سکتے ہو۔جاہل سے قطع تعلق عاقل سے تعلقات کے برابر ہے۔جو زمانہ کی طرف سے مطمئن ہوجات ہے زمانہ اس سے خیانت کرتا ہےاورجو اسے بڑا سمجھتا ہے اسے ذلیل کر دیتا ہے ہر تیر انداز کا تیر نشانہ پر نہیں بیٹھتا ہے جب حاکم بدل جاتا ہےتوزمانہ بد لجاتا ہےرفیق سفر کے بارے میں راستہ پر چلنے سے پہلے دریافت کرو اورہمسایہ کیبارے میں اپنے گھر سے پہلے خبر گیری کرو۔خبردار ایسی کوئی بات نہ کرنا جومضحکہ خیزہو چاہے دوسروں ہی کی طرفسے نقل کی جائے ۔

خبردار۔عورتوں(۱) سے مشورہ نہ کرنا کہ ان کی رائے کمزور اور ان کا ارادہ سست ہوتا ہے ۔انہیں پردہ میں رکھ کر ان کی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو کہ پردہ کی سختی ان کی عزت و آبرو کو باقی رکھنے والی ہے

(۱)اس کلام میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں :۔

ایک احتمال یہ ہے کہ یہ اس دورکے حالات کی طرف اشارہ ہے جب عورتیں ۹۹ فیصد ی جاہل ہوا کرتی تھیں اور ظاہر ہے کہ پڑھے لکھے انسان کا کسی جاہل سے مشورہ کرنا نادانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں عورت کی جذباتی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے مشورہ میں جذبات کی کارفرمائی کاخطرہ زیادہ ہے لہٰذا اگر کوئی عورت اس نقص سے بلند تر ہو جائے تو اس سے مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں ان مخصوص عورتوں کی طرف اشارہ ہو جن کی رائے پرعمل کرنے سے عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ تباہی کے گھاٹ اتر گیا ہے اورآج تک اس تباہی کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔

۵۳۲

- ولَيْسَ خُرُوجُهُنَّ بِأَشَدَّ - مِنْ إِدْخَالِكَ مَنْ لَا يُوثَقُ بِه عَلَيْهِنَّ - وإِنِ اسْتَطَعْتَ أَلَّا يَعْرِفْنَ غَيْرَكَ فَافْعَلْ - ولَا تُمَلِّكِ الْمَرْأَةَ مِنْ أَمْرِهَا مَا جَاوَزَ نَفْسَهَا - فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَيْحَانَةٌ ولَيْسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ - ولَا تَعْدُ بِكَرَامَتِهَا نَفْسَهَا ولَا تُطْمِعْهَا فِي أَنْ تَشْفَعَ لِغَيْرِهَا - وإِيَّاكَ والتَّغَايُرَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ غَيْرَةٍ - فَإِنَّ ذَلِكَ يَدْعُو الصَّحِيحَةَ إِلَى السَّقَمِ - والْبَرِيئَةَ إِلَى الرِّيَبِ - واجْعَلْ لِكُلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِكَ عَمَلًا تَأْخُذُه بِه - فَإِنَّه أَحْرَى أَلَّا يَتَوَاكَلُوا فِي خِدْمَتِكَ - وأَكْرِمْ عَشِيرَتَكَ - فَإِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِي بِه تَطِيرُ - وأَصْلُكَ الَّذِي إِلَيْه تَصِيرُ ويَدُكَ الَّتِي بِهَا تَصُولُ.

دعاء

اسْتَوْدِعِ اللَّه دِينَكَ ودُنْيَاكَ - واسْأَلْه خَيْرَ الْقَضَاءِ لَكَ فِي الْعَاجِلَةِ والآجِلَةِ - والدُّنْيَا والآخِرَةِ والسَّلَامُ.

(۳۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

وأَرْدَيْتَ جِيلًا مِنَ النَّاسِ كَثِيراً

اور ان کا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے گھرمیں داخل کرنے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔اگر ممکن ہوکہ وہ تمہارے علاوہ کسی کو نہ پچانیں توایسا ہی کرو اورخبردار انہیں ان کے ذاتی مسائل سے زیادہ اختیارات نہ دواس لئے کہ عورت ایک پھول ہے اور حاکم و متصرف نہیں ہے۔اس کے پاس ولحاظ کو اس کی ذات سے آگے نہ بڑھائو اور اس میں دوسروں کی سفارش کا حوصلہ نہ پیدا ہونے دو۔دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہارمت کرنا کہ اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستہ پرچلی جائے گی اور بے عیب بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔

اپنے ہر خادم کے لئے ایک عمل مقرر کردو جس کا محاسبہ کرسکو کہ یہ بات ایک دوسرے کے حوالہ کرنے کہیں زیادہ بہتر ہے۔اپنے قبیلہ کا احترام کرو کہ یہی تمہارے لئے پرپرواز کر مرتبہ رکھتے ہیں اور یہی تمہاری اصل ہیں جن کی طرف تمہاری باز گشت ہے اور تمہارے ہاتھ ہیں جن کے ذریعہ حملہ کرسکتے ہو۔

اپنے دین و دنیا کو پروردگار کے حوالہ کردو اور اس سے دعا کرو کہ تمہارے حق میں دنیا و آخرت میں بہترین فیصلہ کرے ۔والسلام

(۳۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

تم نے لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو ہلاک کردیا ہے کہ انہیں اپنی

۵۳۳

- خَدَعْتَهُمْ بِغَيِّكَ وأَلْقَيْتَهُمْ فِي مَوْجِ بَحْرِكَ - تَغْشَاهُمُ الظُّلُمَاتُ وتَتَلَاطَمُ بِهِمُ الشُّبُهَاتُ - فَجَازُوا عَنْ وِجْهَتِهِمْ ونَكَصُوا عَلَى أَعْقَابِهِمْ - وتَوَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ وعَوَّلُوا عَلَى أَحْسَابِهِمْ - إِلَّا مَنْ فَاءَ مِنْ أَهْلِ الْبَصَائِرِ - فَإِنَّهُمْ فَارَقُوكَ بَعْدَ مَعْرِفَتِكَ - وهَرَبُوا إِلَى اللَّه مِنْ مُوَازَرَتِكَ - إِذْ حَمَلْتَهُمْ عَلَى الصَّعْبِ وعَدَلْتَ بِهِمْ عَنِ الْقَصْدِ - فَاتَّقِ اللَّه يَا مُعَاوِيَةُ فِي نَفْسِكَ - وجَاذِبِ الشَّيْطَانَ قِيَادَكَ - فَإِنَّ الدُّنْيَا مُنْقَطِعَةٌ عَنْكَ والآخِرَةَ قَرِيبَةٌ مِنْكَ - والسَّلَامُ.

(۳۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى قثم بن العباس - وهو عامله على مكة

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ عَيْنِي بِالْمَغْرِبِ كَتَبَ إِلَيَّ يُعْلِمُنِي – أَنَّه وُجِّه إِلَى الْمَوْسِمِ أُنَاسٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - الْعُمْيِ الْقُلُوبِ الصُّمِّ الأَسْمَاعِ الْكُمْه الأَبْصَارِ - الَّذِينَ يَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ - ويُطِيعُونَ الْمَخْلُوقَ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ

گمراہی(۱) سے دھوکے میں رکھا ہے اور اپنے سمندر کی موجوں کے حوالہ کردیا ہے جہاں تاریکیاں انہیں ڈھانپے ہوئے ہیں اورشبہات کے تھپیڑے انہیں تہ و بالا کر رہے ہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ راہ حق سے ہٹ گئے اور الٹے پائوں پلٹ گئے اور پیٹھ پھیر کرچلتے بنے اوراپنے حسب و نسب پربھروسہ کر بیٹھے علاوہ ان چند اہل بصیرت کے جو واپس آگئے اور انہوں نے تمہیں پہچاننے کے بعد چھوڑ دیا اورتمہاری حمایت سے بھاگ کر اللہ کی طرف آگئے جب کہ تم نے انہیں دشواریوں میں مبتلا کردیا تھا اور راہ اعتدال سے ہٹا دیا تھا۔لہٰذا اسے معاویہ اپنے بارے میں خدا سے ڈرو اور شیطان سے جان چھڑائو کہ یہ دنیا بہر حال تم سے الگ ہونے والی ہے اور آخرت بہت قریب ہے ۔والسلام

(۳۳)

آپ کامکتوب گرامی

(مکہ کے عامل قثم(۲) بن عباس کے نام)

اما بعد! میرے مغربی علاقہ کے جاسوس نے مجھے لکھ کر اطلاع دی ہے کہ موسم حج کے لئے شام کی طرف سے کچھ ایسے لوگوں کو بھیجا گیا ہے جو دلوں کے اندھے ' کانوں کے بہرے اورآنکھوں کے محروم ضیاء ہیں۔یہ حق کو باطل سے مشتبہ کرنے والے ہیں اور خالق کی نافرمانی کرکے مخلوق کوخوش کرنے والے ہیں۔

(۱)طبری کا بیان ہے کہ حتات مجاشعی ایک جماعت کے ساتھ معاویہ کے دربار میں واردہوا معاویہ نے سب کو ایک ایک لاکھ انعام دیا اورحتات کو ستر ہزار۔تو اس نے اتعراض کیا معاویہ نے کہا کہ میں نے ان سے ان کا دین خریدا ہے۔حتات نے کہا تو مجھ سے بھی خرید لیجئے ؟ یہ سنناتھاکہ معاویہ نے ایک لاکھ پورا کردیا۔

(۲)قثم عبداللہ بن عباس کےبھائی تھےاورمکہ پر حضرت کےعامل تھےجوحضرت کی شہادت تک اپنے عہدہ پر فائز رہے اور اس کے بعد معاویہ کے دورمیں سمرقند میں قتل کر دئیے گئے

۵۳۴

ويَحْتَلِبُونَ الدُّنْيَا دَرَّهَا بِالدِّينِ - ويَشْتَرُونَ عَاجِلَهَا بِآجِلِ الأَبْرَارِ الْمُتَّقِينَ - ولَنْ يَفُوزَ بِالْخَيْرِ إِلَّا عَامِلُه - ولَا يُجْزَى جَزَاءَ الشَّرِّ إِلَّا فَاعِلُه - فَأَقِمْ عَلَى مَا فِي يَدَيْكَ قِيَامَ الْحَازِمِ الصَّلِيبِ - والنَّاصِحِ اللَّبِيبِ - التَّابِعِ لِسُلْطَانِه الْمُطِيعِ لإِمَامِه - وإِيَّاكَ ومَا يُعْتَذَرُ مِنْه - ولَا تَكُنْ عِنْدَ النَّعْمَاءِ بَطِراً - ولَا عِنْدَ الْبَأْسَاءِ فَشِلًا - والسَّلَامُ.

(۳۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى محمد بن أبي بكر لما بلغه توجده من عزله بالأشتر عن مصر،ثم توفي الأشتر في توجهه إلى هناك قبل وصوله إليها

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي مَوْجِدَتُكَ مِنْ تَسْرِيحِ الأَشْتَرِ إِلَى عَمَلِكَ - وإِنِّي لَمْ أَفْعَلْ ذَلِكَ اسْتِبْطَاءً لَكَ فِي الْجَهْدَ - ولَا ازْدِيَاداً لَكَ فِي الْجِدِّ - ولَوْ نَزَعْتُ مَا تَحْتَ يَدِكَ مِنْ سُلْطَانِكَ - لَوَلَّيْتُكَ مَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكَ مَئُونَةً - وأَعْجَبُ إِلَيْكَ وِلَايَةً.

إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي كُنْتُ وَلَّيْتُه أَمْرَ مِصْرَ -

ان کا کام دین کے ذریعہ دنیا کو دو ہنا ہے اوریہ نیک کردار' پرہیز گار افراد کی آخرت کو دنیا کے ذریعہ خریدنے والے ہیں جب کہ خیر اس کا حصہ ہے جوخیر کا کام کرے اورشر اس کے حصہ میں آتا ہے جو شرکاعمل کرتا ہے۔دیکھو اپنے منصبی فرائض کے سلسلہ میں ایک تجربہ کار' پختہ کار' مخلص ' ہوشیار انسان کی طرح قیام کرنا جو اپنے حاکم کا تابع اوراپنے امام کا اطاعت گذار ہواور خبردار کوئی ایسا کام نہ کرنا جس کی معذرت کرنا پڑے اورراحت وآرام میں مغرور نہ ہو جانا اورنہ شدت کے مواقع پرکمزوری کا مظاہرہ کرنا۔والسلام

(۳۴)

آپ کامکتوب گرامی

(محمدبن ابی بکرکے نام جب یہ اطلاع ملی کہ وہ اپنی معزولی اورمالک اشترکےتقریر سے رنجیدہ ہیں اور پھرمالک اشتر مصر پہنچنے سےپہلےانتقال بھی کرگئے )

اما بعد!مجھے مالک اشتر کےمصر کی طرف بھیجنے کے بارے میں تمہاری بد دلی کی اطلاع ملی ہے۔حالانکہ میں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا کہ تمہیں کام میں کمزور پایا تھا یا تم سے زیادہ محنت کامطالبہ کرناچاہا تھا بلکہ اگرمیں نے تم سے تمہارے زیر اثر اقتدار کولیا بھی تھا تو تمہیں ایسا کام دینا چاہتا تھا جو تمہارےلئےمشقت کے اعتبار سے آسان ہو اورتمہیں پسند بھی ہوجس شخص کو میں نے مصرکاعامل قراردیا تھا وہ

۵۳۵

كَانَ رَجُلًا لَنَا نَاصِحاً وعَلَى عَدُوِّنَا شَدِيداً نَاقِماً - فَرَحِمَه اللَّه فَلَقَدِ اسْتَكْمَلَ أَيَّامَه – ولَاقَى حِمَامَه ونَحْنُ عَنْه رَاضُونَ - أَوْلَاه اللَّه رِضْوَانَه وضَاعَفَ الثَّوَابَ لَه - فَأَصْحِرْ لِعَدُوِّكَ وامْضِ عَلَى بَصِيرَتِكَ - وشَمِّرْ لِحَرْبِ مَنْ حَارَبَكَ و( ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ ) - وأَكْثِرِ الِاسْتِعَانَةَ بِاللَّه يَكْفِكَ مَا أَهَمَّكَ - ويُعِنْكَ عَلَى مَا يُنْزِلُ بِكَ إِنْ شَاءَ اللَّه.

(۳۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس بعد مقتل محمد بن أبي بكر

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مِصْرَ قَدِ افْتُتِحَتْ - ومُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رحمهالله قَدِ اسْتُشْهِدَ - فَعِنْدَ اللَّه نَحْتَسِبُه وَلَداً نَاصِحاً وعَامِلًا كَادِحاً

میرا مردمخلص اورمیرےدشمن کے لئے سخت قسم کا دشمن تھا۔خدااس پر رحمت نازل کرےاس نے اپنے دن پورے کرلئے اوراپنی موت سے ملاقات کرلی۔ہم اس سے بہر حال راضی ہیں۔اللہ اسے اپنی رضا عنایت فرمائے اور اس کے ثواب کو مضاعف کردے اب تم دشمن کے مقابلہ میں نکل پڑو اوراپن بصیرت پرچل پڑو۔ جوتم سے جنگ کرے اس سے جنگ کرنے کے لئے کمر کو کس لو اوردشمن کو راہ خدا کی دعوت دے دو۔اس کے بعد اللہ سے مسلسل مدد مانگتے رہوکہ وہی تمہارےلئے ہر مہم میں کافی ہے اوروہی ہرنازل ہونے والی مصیبت میں مدد کرنے والا ہے۔انشاء اللہ

(۳۵)

آپ کامکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔محمد بن ابی بکر کی شہادت کے بعد )

امابعد! دیکھو مصر پر دشمن کا قبضہ ہوگیا ہے اور محمد(۱) بن ابی بکر شہید ہوگئے ہیں( خدا ان پر رحمت نازل کرے ) میں ان کی مصیبت کا اجر خدا سے چاہتا ہوں کہ وہ میرے مخلص فرزند اور محنت کش عامل تھے

(۱)مسعودی نے مروج الذیب میں ۳۵ھ کے حوادث میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ '' معاویہ نے عمرو ابن العاص کی سر کردگی میں ۴ ہزار کا لشکر مصر کی طرف روانہ کیا اور اس میں معاویہ بن خدیج اور ابو الا عور السلمی جیسے افراد کوبھی شامل کردیا۔مقام مسناة پرمحمد بن ابی بکرن اس لشکرکا مقابلہ کیا لیکن اصحاب کی بیوفائی کی بنا پرمیدان چھوڑنا پڑا۔اس کے بعد دوبارہ مصر کے علاقہ میں رن پڑا اور آخر کارمحمد بن ابی بکر کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں جیتے جی ایک گدھے کی کھال میں رکھ کرنذر آتش کردیا گیا '' جس کا حضرت کو بے حد صدمہ ہوا اور آپ نے اس واقعہ کی اطلاع بصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کو کی اور اپنے مکمل جذبات کا اظہار فرمادیا یہاں تک کہ اہل عراق کی بیوفائی کی بنیاد پر آرزئوئے موت تک کا تذکرہ فرمادیا کہ گویا ایسے افراد کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے ہیں جو راہ خدا میں جہاد کرنا نہ جانتے ہوں۔اور یہ مولائے کائنات کا درس عمل ہردور کے لئے ہے کہ جس قوم میں جذبہ قربانی نہیں ہے۔علی نہ انہیں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ انہیں اپنے شیعوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

۵۳۶

وسَيْفاً قَاطِعاً ورُكْناً دَافِعاً - وقَدْ كُنْتُ حَثَثْتُ النَّاسَ عَلَى لَحَاقِه - وأَمَرْتُهُمْ بِغِيَاثِه قَبْلَ الْوَقْعَةِ - ودَعَوْتُهُمْ سِرّاً وجَهْراً وعَوْداً وبَدْءاً - فَمِنْهُمُ الآتِي كَارِهاً ومِنْهُمُ الْمُعْتَلُّ كَاذِباً - ومِنْهُمُ الْقَاعِدُ خَاذِلًا - أَسْأَلُ اللَّه تَعَالَى أَنْ يَجْعَلَ لِي مِنْهُمْ فَرَجاً عَاجِلًا - فَوَاللَّه لَوْ لَا طَمَعِي عِنْدَ لِقَائِي عَدُوِّي فِي الشَّهَادَةِ - وتَوْطِينِي نَفْسِي عَلَى الْمَنِيَّةِ - لأَحْبَبْتُ أَلَّا أَلْقَى مَعَ هَؤُلَاءِ يَوْماً وَاحِداً - ولَا أَلْتَقِيَ بِهِمْ أَبَداً.

(۳۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أخيه عقيل بن أبي طالب - في ذكر جيش أنفذه إلى بعض الأعداء

وهو جواب كتاب كتبه إليه عقيل

فَسَرَّحْتُ إِلَيْه جَيْشاً كَثِيفاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ - فَلَمَّا بَلَغَه ذَلِكَ شَمَّرَ هَارِباً ونَكَصَ نَادِماً - فَلَحِقُوه بِبَعْضِ الطَّرِيقِ - وقَدْ طَفَّلَتِ الشَّمْسُ لِلإِيَابِ

میری تیغ بران اورمیرے دفاعی ستون میں نے لوگوں کو ان سے ملحق ہو جانے پرآمادہ کیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ سے پہلے ان کی مدد کو پہنچ جائیں اور انہیں خفیہ اورعلانیہ ہر طرح دعوتعمل دی تھی اور بار بار آوازدی تھی لیکن بعض افراد بادل نا خواستہ آئے اور بعض نے جھوٹے بہانے کردئیے ۔کچھ تو میرے حکم کو نظرانداز کر کے گھر ہی میں بیٹھے رہ گئے ۔اب میں پروردگار سے دعاکرتا ہوں کہ مجھے ان کی طرف سے جلد کشائش امر عنایت فرمادے کہ خدا کی قسم اگر مجھے دشمن سے ملاقات کرکے وقت شہادت کی آرزو نہ ہوتی اور میں نے اپنے نفس کو موت کے لئے آمادہ نہ کرلیا ہوتا تو میں ہرگز یہ پسند نہ کرتا کہ ان لوگوں کے ساتھ ایک دن بھی دشمن سے مقابلہ کروں یا خود ان لوگوں سے ملاقات کروں۔

(۳۶)

آپ کامکتوب گرامی

(اپنے بھائی عقیل کے نام جس میں اپنے بعض لشکروں کا ذکر فرمایا ہے اور یہ درحقیقت عقیل کے مکتوب کا جواب دے )

پس میں نے اس کی طرف مسلمانوں کا ایک لشکر عظیم روانہ کردیا اورجب اسے اس امرکی اطلاع ملی تو اس نے دامن سمیٹ کر فرار اختیار کیا۔اور پشیمان ہو کر پیچھے ہٹ گیا تو ہمارے لشکرنے اسے راستہ میں جالیا جب کہ سورج ڈوبنے

۵۳۷

فَاقْتَتَلُوا شَيْئاً كَلَا ولَا - فَمَا كَانَ إِلَّا كَمَوْقِفِ سَاعَةٍ حَتَّى نَجَا جَرِيضاً - بَعْدَ مَا أُخِذَ مِنْه بِالْمُخَنَّقِ - ولَمْ يَبْقَ مِنْه غَيْرُ الرَّمَقِ - فَلأْياً بِلأْيٍ مَا نَجَا - فَدَعْ عَنْكَ قُرَيْشاً وتَرْكَاضَهُمْ فِي الضَّلَالِ - وتَجْوَالَهُمْ فِي الشِّقَاقِ وجِمَاحَهُمْ فِي التِّيه - فَإِنَّهُمْ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَى حَرْبِي - كَإِجْمَاعِهِمْ عَلَى حَرْبِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قَبْلِي - فَجَزَتْ قُرَيْشاً عَنِّي الْجَوَازِي - فَقَدْ قَطَعُوا رَحِمِي وسَلَبُونِي سُلْطَانَ ابْنِ أُمِّي

وأَمَّا مَا سَأَلْتَ عَنْه مِنْ رَأْيِي فِي الْقِتَالِ - فَإِنَّ رَأْيِي قِتَالُ الْمُحِلِّينَ حَتَّى أَلْقَى اللَّه - لَا يَزِيدُنِي كَثْرَةُ النَّاسِ حَوْلِي عِزَّةً - ولَا تَفَرُّقُهُمْ عَنِّي وَحْشَةً - ولَا تَحْسَبَنَّ ابْنَ أَبِيكَ - ولَوْ أَسْلَمَه النَّاسُ مُتَضَرِّعاً مُتَخَشِّعاً - ولَا مُقِرّاً لِلضَّيْمِ وَاهِناً - ولَا سَلِسَ الزِّمَامِ لِلْقَائِدِ - ولَا وَطِيءَ الظَّهْرِ لِلرَّاكِبِ

کے قریب تھا نتیجہ یہ ہوا کہدونوں میں ایک مختصر جھڑپ ہوئی اورایک ساعت نہ گزرنے پائی تھی کہ اس نے بھاگ کر نجات حاصل کرلی جب کہ اسے گلے سے پکڑا جا چکا تھا اورچند سانسوں کے علاوہ کچھ باقی نہ رہ گیا تھا۔اس طرح بڑی مشکل سے اس نے جان بچائی لہٰذا اب قریش اور گمراہی میں ان کی تیز رفتاری اور تفرقہ میں ان کی گردش اور ضلالت میں ان کی منہ زوری کا ذکر چھوڑ دو کہ ان لوگوں نے مجھ سے جنگ پر ویسے ہی اتفاق کرلای ہے جس طرح رسول اکرم (ص) سے جنگ پر اتفاق کیا تھا ۔اب اللہ ہی قریش کو ان کے کئے کا بدلہدے کہ انہوں نے میر ی قرابت کا رشتہ توڑ دیا اور مجھ سے میرے ماں جائے(۱) کی حکومت سلب کرلی۔

اور یہ جو تم نے جنگ کے بارے میں میری رائے دریافت کی ہے تو میری رائے یہی ہے کہ جن لوگوں نے جنگ کو حلال بنا رکھا ہے ان سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ مالک کی بارگاہ میں حاضر ہو جائوں۔میرے گرد لوگوں کا اجتماع میری عزت میں اضافہ نہیں کر سکتا ہے اور نہ ان کا متفرق ہوجانا میری وحشت میں اضافہ کرسکتا ہے اور میرے برادر اگر تمام لوگ بھی میرا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ مجھے کمزوراورخوفزدہ نہ پائیں گے اورظلم کا اقرارکرنے والا۔کمزور اور کسی قائد کے ہاتھ میں آسانی سے زمام پکڑا دینے والا اور کسی سوارکے لئے سواری کی

(۱) مولائے کائنات نے سرکار دوعالم (ص) کو '' ابن امی '' کے لفظ سے یاد فرمایا ہے اس لئے کہ سرکاردوعالم (ص) مسلسل آپ کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد کو اپنی ماں کے لفظ سے یاد فرمایا کرتے تھے '' ھی امی بعد امی ''

۵۳۸

الْمُتَقَعِّدِ - ولَكِنَّه كَمَا قَالَ أَخُو بَنِي سَلِيمٍ:

فَإِنْ تَسْأَلِينِي كَيْفَ أَنْتَ فَإِنَّنِي

صَبُورٌ عَلَى رَيْبِ الزَّمَانِ صَلِيبُ

يَعِزُّ عَلَيَّ أَنْ تُرَى بِي كَآبَةٌ

فَيَشْمَتَ عَادٍ أَوْ يُسَاءَ حَبِيبُ

(۳۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَسُبْحَانَ اللَّه - مَا أَشَدَّ لُزُومَكَ لِلأَهْوَاءَ الْمُبْتَدَعَةِ والْحَيْرَةِ الْمُتَّبَعَةِ - مَعَ تَضْيِيعِ الْحَقَائِقِ واطِّرَاحِ الْوَثَائِقِ - الَّتِي هِيَ لِلَّه طِلْبَةٌ وعَلَى عِبَادِه حُجَّةٌ - فَأَمَّا إِكْثَارُكَ الْحِجَاجَ عَلَى عُثْمَانَ وقَتَلَتِه - فَإِنَّكَ إِنَّمَا نَصَرْتَ عُثْمَانَ حَيْثُ كَانَ النَّصْرُ لَكَ - وخَذَلْتَه حَيْثُ كَانَ النَّصْرُ لَه والسَّلَامُ.

سہولت دینے والا پائیں گے ۔بلکہ میری وہی صورت حال ہوگی جس کے بارے میں قبیلہ بنی سلیم والے نے کہا ہے۔:

'' اگر تو میری حالت کے بارے میں دریافت کر رہی ہے تو سمجھ لے کرمیں زمانہ کے مشکلات میں صبر کرنے والا اورمستحکم ارادہ والا ہوں میرے لئے نا قابل برداشت ہے کہ مجھے پریشان حال دیکھا جائے اوردشمن طعنے دے یا دوست اس صورت حال سے رنجیدہ ہو جائے ''

(۳۷)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام)

اے سبحان اللہ۔تو نئی نئی خواہشات اورزحمت میں ڈالنے والی حیرت و سر گردانی سے کس قدر چپکا ہوا ہے جب کہ تونے حقائق کو برباد کردیا ہے اوردلائل کو ٹھکرادیا ہے جو الہ کو مطلوب اوربندوں پر اس کی حجت ہیں۔ رہ گیا تمہارا عثمان اور ان کے قالوں کے بارے میں جھگڑا بڑھانا تواس کامختصر جواب یہ ہے کہ تم نے عثمان کی مدد اس وقت کی ہے جب مدد میں تمہارا فائدہ تھا اور اس وقت لاوارث چھوڑ دیا تھا جب(۱) مددمیں ان کا فائدہ تھا۔ والسلام

(۱) ابن ابی الحدید نے بلا ذری کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ عثمان کے محاصرہ کے دورمیں معاویہ نے شام سے ایک فوج یزید بن اسد قسری کی سرکردگی میں روانہ کی اور اسے ہدایت دیدی کہ مدینہ کے باہر مقام ذی خشب میں مقیم رہیں اورکسی بھی صورت میں میرے حکم کے بغیر مدینہ میں داخل نہ ہوں۔چنانچہ فوج اسی مقام پر حالات کا جائزہ لیتی رہی اورقتل عثمان کے بعد واپس شام بلا لی گئی۔جس کا کھلا ہوا مفہوم یہ تھا کہ اگرانقلابی جماعت کامیاب نہ ہو سکے تواس فوج کی مدد سے عثمان کاخاتمہ کرادیا جائے اور اس کے بعد خون عثمان کاہنگامہ کھڑا کرکے علی سے خلافت سلب کرلی جائے ۔

۵۳۹

(۳۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل مصر لما ولى عليهم الأشتر

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ - إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ غَضِبُوا لِلَّه – حِينَ عُصِيَ فِي أَرْضِه وذُهِبَ بِحَقِّه - فَضَرَبَ الْجَوْرُ سُرَادِقَه عَلَى الْبَرِّ والْفَاجِرِ - والْمُقِيمِ والظَّاعِنِ - فَلَا مَعْرُوفٌ يُسْتَرَاحُ إِلَيْه - ولَا مُنْكَرٌ يُتَنَاهَى عَنْه.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ إِلَيْكُمْ عَبْداً مِنْ عِبَادِ اللَّه - لَا يَنَامُ أَيَّامَ الْخَوْفِ - ولَا يَنْكُلُ عَنِ الأَعْدَاءِ سَاعَاتِ الرَّوْعِ - أَشَدَّ عَلَى الْفُجَّارِ مِنْ حَرِيقِ النَّارِ - وهُوَ مَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ أَخُو مَذْحِجٍ - فَاسْمَعُوا لَه وأَطِيعُوا أَمْرَه فِيمَا طَابَقَ الْحَقَّ - فَإِنَّه سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّه - لَا كَلِيلُ الظُّبَةِ ولَا نَابِي الضَّرِيبَةِ - فَإِنْ أَمَرَكُمْ أَنْ تَنْفِرُوا فَانْفِرُوا - وإِنْ أَمَرَكُمْ أَنْ تُقِيمُوا فَأَقِيمُوا -

(۳۸)

آپ کامکتوب گرامی

(مالک اشتر کی ولایت کےموقع پر اہل مصرکے نام )

بندۂ خدا ! امیر المومنین علی کی طرف سے۔ اس قوم کے نام جس نے خداکے لئے اپنے غضب کا اظہار کیا جب اس کی زمین میں اس کی معصیت کی گئی اور اس کے حق کو برباد کردیا گیا۔ظلم نے ہر نیک و بدکاراور مقیم و مسافر پراپنے شامیانے تان دئیے اور نہ کوئی نیکی رہ گئی جس کے زیر سایہ آرام لیا جا سکے اور نہ کوئی ایسی برائی رہگئی جس سے لوگ پرہیز کرتے ۔

امابعد! میں نے تمہاری طرف بندگان خدا میں سے ایک ایسے بندہ کو بھیجا ہے جو خوف کے دنوں میں سوتا نہیں ہے اوردہشت کے اوقات میں دشمنوں سے خوفزدہ نہیں ہوت ہے اور فاجروں کے لئے آگ کی گرمی سے زیادہ شدید تر ہے اور اس کا نام مالک بن اشتر مذحجی ہے لہٰذا تم لوگاس کی بات سنواوراس کے ان اوامرکی اطاعت کرو جو مطابق حق ہیں کہوہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے(۱) جس کی تلوار کند نہیں ہوتی ہے اور جس کا وار اچٹ نہیں سکتا ہے۔وہ اگرکوچ کرنے کاحکم دے تونکل کھڑے ہو اور اگر ٹھہرنے کے لئے کہے تو فوراً ٹھہر جائو اس لئے کہ

(۱) افسوس کہ عالم اسلام نے یہ لقب خالد بن الولید کو دے دیا ہے جس نے جناب مالک بن نویرہ کوبے گناہ قتل کرکے اسی رات کی زوجہ سے تعلقات قائم کرلئے اوراس پر حضرت عمر تک نے اپنی برہمی کا اظہار کیا لیکن حضرت ابو بکر نے سیاسی مصالح کے تحت انہیں ''سیف اللہ '' قرار دے کر اتنے سنگین جرم سے بری کردیا۔انا للہ

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863