نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630113
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630113 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

والشَّفَقَةِ مِنْ سُخْطِه فَإِنَّه لَمْ يَأْمُرْكَ إِلَّا بِحَسَنٍ - ولَمْ يَنْهَكَ إِلَّا عَنْ قَبِيحٍ.

يَا بُنَيَّ إِنِّي قَدْ أَنْبَأْتُكَ عَنِ الدُّنْيَا وحَالِهَا - وزَوَالِهَا وانْتِقَالِهَا - وأَنْبَأْتُكَ عَنِ الآخِرَةِ ومَا أُعِدَّ لأَهْلِهَا فِيهَا - وضَرَبْتُ لَكَ فِيهِمَاالأَمْثَالَ - لِتَعْتَبِرَ بِهَا وتَحْذُوَ عَلَيْهَا - إِنَّمَا مَثَلُ مَنْ خَبَرَ الدُّنْيَا كَمَثَلِ قَوْمٍ سَفْرٍ - نَبَا بِهِمْ مَنْزِلٌ جَدِيبٌ - فَأَمُّوا مَنْزِلًا خَصِيباً وجَنَاباً مَرِيعاً - فَاحْتَمَلُوا وَعْثَاءَ الطَّرِيقِ وفِرَاقَ الصَّدِيقِ - وخُشُونَةَ السَّفَرِ وجُشُوبَةَ المَطْعَمِ - لِيَأْتُوا سَعَةَ دَارِهِمْ ومَنْزِلَ قَرَارِهِمْ - فَلَيْسَ يَجِدُونَ لِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ أَلَماً - ولَا يَرَوْنَ نَفَقَةً فِيه مَغْرَماً - ولَا شَيْءَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِمَّا قَرَّبَهُمْ مِنْ مَنْزِلِهِمْ - وأَدْنَاهُمْ مِنْ مَحَلَّتِهِمْ.

ومَثَلُ مَنِ اغْتَرَّ بِهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ كَانُوا بِمَنْزِلٍ خَصِيبٍ - فَنَبَا بِهِمْ إِلَى مَنْزِلٍ جَدِيبٍ

کے خوف اورناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں۔اس نے جس چیز کاحکم اطاعت کی طلب ' عتاب کے خوفاور ناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں۔اس نے جس چیزکا حکم دیا ہیوہ بہترین ہے اورجس سے منع کیا ہے وہ بد ترین ہے۔

فرزند! میں تمہیں دنیا۔اس کے حالات ۔ تصرفات ، زوال اور انتقال سب کے بارے میں با خبر کردیا ہے اورآخرت اور ا س میں صاحبان ایمان کے لئے مہیا نعمتوں کا بھی پتہ بتادیاہے اور دونوں کے لئے مثالیں بیان کردی ہیںتاکہ تم عبرت حاصل کرس کو اور اس سے ہوشیار رہو۔

یاد رکھو کہ جس نے دنیا کو بخوبی پہچان لیا ہے اس کی مثال اس مسافر قوم جیسی ہے۔جس کاحقط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوجائے اوروہ کسی سرسبز و شاداب علاقہ کا ارادہ کرے اورزحمت راہ۔فراق احباب ' دشواری سفر ' بدمزگی اطعام وغیرہ جیسی تمام مصیبتیں برداشت کرلے تاکہ وسیع گھر اور قرار کی منزل تک پہنچ جائے کہ ایسے لوگ ان تمام باتوں میں کسی تکلیف کا احساس نہیں کرتے اور نہ اس راہ میں خرچ کو نقصان تصور کرتے ہیں اور ان کی نظر میں اس سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں ہ جو انہیں منزل سے قریب تر کردے اور اپنے مرکز تک پہنچادے ۔

اوراس دنیا سے دھوکہ کھاجانے والوں کی مثال اس قوم کی ہے جو سرسبز و شاداب مقام پر رہے اور وہاں سے دلاچٹ جائے تو قحط زدہ علاقہ کی طرف چلی جائے

۵۲۱

- فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَه إِلَيْهِمْ ولَا أَفْظَعَ عِنْدَهُمْ - مِنْ مُفَارَقَةِ مَا كَانُوا فِيه - إِلَى مَا يَهْجُمُونَ عَلَيْه ويَصِيرُونَ إِلَيْه.

يَا بُنَيَّ اجْعَلْ نَفْسَكَ مِيزَاناً فِيمَا بَيْنَكَ وبَيْنَ غَيْرِكَ - فَأَحْبِبْ لِغَيْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ - واكْرَه لَه مَا تَكْرَه لَهَا - ولَا تَظْلِمْ كَمَا لَا تُحِبُّ أَنْ تُظْلَمَ - وأَحْسِنْ كَمَا تُحِبُّ أَنْ يُحْسَنَ إِلَيْكَ - واسْتَقْبِحْ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَسْتَقْبِحُه مِنْ غَيْرِكَ - وارْضَ مِنَ النَّاسِ بِمَا تَرْضَاه لَهُمْ مِنْ نَفْسِكَ - ولَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ وإِنْ قَلَّ مَا تَعْلَمُ - ولَا تَقُلْ مَا لَا تُحِبُّ أَنْ يُقَالَ لَكَ.

واعْلَمْ أَنَّ الإِعْجَابَ ضِدُّ الصَّوَابِ وآفَةُ الأَلْبَابِ - فَاسْعَ فِي كَدْحِكَ ولَا تَكُنْ خَازِناً لِغَيْرِكَ - وإِذَا أَنْتَ هُدِيتَ لِقَصْدِكَ فَكُنْ أَخْشَعَ مَا تَكُونُ لِرَبِّكَ.

واعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ طَرِيقاً ذَا مَسَافَةٍ بَعِيدَةٍ - ومَشَقَّةٍ شَدِيدَةٍ - وأَنَّه لَا غِنَى بِكَ فِيه عَنْ حُسْنِ الِارْتِيَادِ - وقَدْرِ بَلَاغِكَ مِنَ الزَّادِ

کہ اس کی نظرمیں قدیم حالات کے چھٹ جانے سے زیادہ نا گوار اوردشوار گذار کوئی شے نہیں ہے کہ اب جس منزل پروارد ہوئے ہیں اور جہاں تک پہنچے ہیں وہ کسی قیمت پر اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔

بیٹا! دیکھو اپنے اورغیرکے درمیان میزان اپنے نفس کو قرار دو اور دوسرے کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرسکتے ہو اور اس کے لئے بھی وہ بات نا پسند کرو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو۔کسی پر ظلم نہ کرناکہ اپنے اوپر ظلم پسند نہیں کرتے ہو اور ہرایک کے ساتھ نیکی کرنا جس طرح چاہتے ہو کہ سب تمہارے ساتھ نیک برتائو کریں اور جس چیز کو دوسرے سے برا سمجھتے ہواسے اپنے لئے بھی برا ہی تصور کرنا۔لوگوں کی اس بات سے راضی ہو جانا جس سے اپنی بات سے لوگوں کو راضی کرنا چاہتے ہو۔بلا علم کوئی بات زبان سے نہ نکالنا اگرچہ تمہارا علم بہت کم ہے اور کسی کے بارے میں وہ بات نہ کہنا جو اپنے بارے میں پسند نہ کرتے ہو۔

یاد رکھو کہ خود پسندی راہ صواب کے خلاف اورعقلوں کی بیماری ہے لہٰذا اپنی کوشش تیز تر کرواور اپنے مال کودوسروں کے لئے ذخیرہ نہ بنائو اور اگر درمیانی راستہ کی ہدایت مل جائے تو اپنے رب کے سامنے سب سے زیادہ خضو ع و خشوع سے پیش آنا۔

اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے وہ راستہ ہے جس کی مسافت بعید اورمشقت شدید ہے اس میں تم بہترین زاد راہ کی تلاش اوربقدر ضرورت زاد راہ کی فراہمی سے

۵۲۲

مَعَ خِفَّةِ الظَّهْرِ - فَلَا تَحْمِلَنَّ عَلَى ظَهْرِكَ فَوْقَ طَاقَتِكَ - فَيَكُونَ ثِقْلُ ذَلِكَ وَبَالًا عَلَيْكَ - وإِذَا وَجَدْتَ مِنْ أَهْلِ الْفَاقَةِ مَنْ يَحْمِلُ لَكَ زَادَكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - فَيُوَافِيكَ بِه غَداً حَيْثُ تَحْتَاجُ إِلَيْه - فَاغْتَنِمْه وحَمِّلْه إِيَّاه - وأَكْثِرْ مِنْ تَزْوِيدِه وأَنْتَ قَادِرٌ عَلَيْه - فَلَعَلَّكَ تَطْلُبُه فَلَا تَجِدُه - واغْتَنِمْ مَنِ اسْتَقْرَضَكَ فِي حَالِ غِنَاكَ - لِيَجْعَلَ قَضَاءَه لَكَ فِي يَوْمِ عُسْرَتِكَ.

واعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ عَقَبَةً كَئُوداً - الْمُخِفُّ فِيهَا أَحْسَنُ حَالًا مِنَ - والْمُبْطِئُ عَلَيْهَا أَقْبَحُ حَالًا مِنَ الْمُسْرِعِ - وأَنَّ مَهْبِطَكَ بِهَا لَا مَحَالَةَ - إِمَّا عَلَى جَنَّةٍ أَوْ عَلَى نَارٍ - فَارْتَدْ لِنَفْسِكَ قَبْلَ نُزُولِكَ ووَطِّئِ الْمَنْزِلَ قَبْلَ حُلُولِكَ - فَلَيْسَ بَعْدَ الْمَوْتِ مُسْتَعْتَبٌ ولَا إِلَى الدُّنْيَا مُنْصَرَفٌ

واعْلَمْ أَنَّ الَّذِي بِيَدِه خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ - قَدْ أَذِنَ لَكَ فِي الدُّعَاءِ - وتَكَفَّلَ لَكَ بِالإِجَابَةِ وأَمَرَكَ أَنْ تَسْأَلَه لِيُعْطِيَكَ - وتَسْتَرْحِمَه لِيَرْحَمَكَ،ولَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وبَيْنَه مَنْ يَحْجُبُكَ عَنْه - ولَمْ يُلْجِئْكَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكَ إِلَيْه

بے نیاز ہو سکتے ہو۔البتہ بوجھ ہلکا رکھو اور اپنی طاقت سے زیادہ اپنی پشت پر بوجھ مت لادو کہ یہ گراں باری ایک و بال بن جائے ۔اور پھر جب کوئی فقیر مل جائے اور تمہارے زاد راہ کو قیامت تک پہنچا سکتا ہو اور کل وقت ضرورت مکمل طریقہ سے تمہارے حوالے کر سکتا ہو تو اسے غنیمت سمجھو اورمال اسی کے حوالے کردو اور زیادہ سے زیادہ اس کو دے دو کہ شائد بعد میں تلاش کرو اور وہ نہ مل سکے اور اسے بھی غنیمت سمجھو جو تمہاری دولت مندی کے دورمیں تم سے قرض مانگے تاکہ اس دن ادا کردے جب تمہاری غربت کا دن ہو۔

اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے بڑی دشوار گزار منزل ہے جس میں ہلکے بوجھ والا سنگین بار والے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا اوردھیرے چلنے والا تیزرفتار سے کہیں زیادہ بدحال ہوگا اور تمہاری منزل بہرحال جنت یا جہنم ہے لہٰذا اپنے نفس کے لئے منزل سے پہلے جگہ تلاش کرلو اور ورود سے پہلے اسے ہموار کرلو کہ موت کے بعد نہ خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی امکان ہوگا اور نہ دنیا میں واپس آنے کا۔

یاد رکھو کہ جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کے تمام خزانے ہیں اسنے تم کو دعا کرنے کا حکم دیا ہے اورقبولیت کی ضمانت دی ہے اور تمہیں مامور کیا ہے کہ تم سوال کرو تاکہ وہ عطا کرے اور تم طلب رحمت کرو تاکہوہ تم پر رحم کرے اس نے تمہارے اور اپنے درمیان کوئی حاجب نہیں رکھا ہے اور نہ تمہیں کسی سفارش

۵۲۳

ولَمْ يَمْنَعْكَ إِنْ أَسَأْتَ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَمْ يُعَاجِلْكَ بِالنِّقْمَةِ - ولَمْ يُعَيِّرْكَ بِالإِنَابَةِ ولَمْ يَفْضَحْكَ حَيْثُ الْفَضِيحَةُ بِكَ أَوْلَى - ولَمْ يُشَدِّدْ عَلَيْكَ فِي قَبُولِ الإِنَابَةِ - ولَمْ يُنَاقِشْكَ بِالْجَرِيمَةِ - ولَمْ يُؤْيِسْكَ مِنَ الرَّحْمَةِ - بَلْ جَعَلَ نُزُوعَكَ عَنِ الذَّنْبِ حَسَنَةً - وحَسَبَ سَيِّئَتَكَ وَاحِدَةً - وحَسَبَ حَسَنَتَكَ عَشْراً - وفَتَحَ لَكَ بَابَ الْمَتَابِ وبَابَ الِاسْتِعْتَابِ - فَإِذَا نَادَيْتَه سَمِعَ نِدَاكَ - وإِذَا نَاجَيْتَه عَلِمَ نَجْوَاكَ - فَأَفْضَيْتَ إِلَيْه بِحَاجَتِكَ - وأَبْثَثْتَه ذَاتَ نَفْسِكَ وشَكَوْتَ إِلَيْه هُمُومَكَ - واسْتَكْشَفْتَه كُرُوبَكَ واسْتَعَنْتَه عَلَى أُمُورِكَ - وسَأَلْتَه مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَتِه مَا لَا يَقْدِرُ عَلَى إِعْطَائِه غَيْرُه - مِنْ زِيَادَةِ الأَعْمَارِ وصِحَّةِ الأَبْدَانِ - وسَعَةِ الأَرْزَاقِ - ثُمَّ جَعَلَ فِي يَدَيْكَ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِه - بِمَا أَذِنَ لَكَ فِيه مِنْ مَسْأَلَتِه - فَمَتَى شِئْتَ اسْتَفْتَحْتَ بِالدُّعَاءِ أَبْوَابَ نِعْمَتِه - واسْتَمْطَرْتَ شَآبِيبَ رَحْمَتِه - فَلَا يُقَنِّطَنَّكَ إِبْطَاءُ إِجَابَتِه - فَإِنَّ الْعَطِيَّةَ عَلَى قَدْرِ النِّيَّةِ - ورُبَّمَا أُخِّرَتْ عَنْكَ الإِجَابَةُ لِيَكُونَ ذَلِكَ أَعْظَمَ لأَجْرِ السَّائِلِ -

کرنے والے کا محتاج بنایا ہے ۔گناہ کرنے کی صورت میں توبہ سے بھی نہیں روکا ہے اور عذاب میں جلدی بھی نہیں کی ہے اور توبہ کرنے پر طعنے بھی نہیں دیتا ہے اور تمہیں رسوابھی نہیں کرتا ہے اگر تم اس کے حقدار ہو۔اس نے توبہ قبول کرنے میں بھی کسی سختی سے کام نہیں لیا ہے اور جرائم پر سخت محاسبہ کرکے رحمت سے مایوس بھی نہیں کیا ہے بلکہ گناہوں سے علیحدگی کو بھی ایک حسنہ بنادیا ہے اور پھرب رائی میں ایککو ایک شمار کیا ہے اورنیکیوں میں ایک کو دس بنادا ہے۔توبہ اور طلب رضا کا دروازہ کھول دیا ہے کہ جب بھی آواز دو فوراً سن لیتا ہے اور جب مناجات کرو تو اس سے بھی با خبر رہتا ہے تم اپنی حاجتیں اس کے حوالے کر سکتے ہو۔اسے اپنے حالات بتا سکتے ہو ۔اپنے رنج و غم کی شکایت کر سکتے ہو۔ اپنے حزن و الم کے زوال کا مطالبہ کرس کتے ہو۔انپے امور میں مدد مانگ سکتے ہو اور اس کے خزانہ رحمت سے اتنا سوال کر سکتے ہو جتنا کوئی دوسرا بہرحال نہیں دے سکتا ہے چاہے وہ عمر میں اضافہ ہو یا بدن کی صحت یا رزق کی وسعت۔اس کے بعد اس نے دعا کی اجازت دے کر گویا خزائن رحمت کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں کہ جب چاہو ان کنجیوں سے نعمت کے دروازے کھول سکتے ہواور رحمت کی بارشوں کو برسا سکتے ہو۔لہٰذا خبردار قبولیت کی تاخیرتمہیں مایوس نہ کردے کہ عطیہ ہمیشہ بقدر نیت ہوا کرتا ہے اور کبھی کبھی قبولیت میں اس لئے تاخیر کردی جاتی ہے کہ اس میں سائل کے اجرمیں اضافہ

۵۲۴

وأَجْزَلَ لِعَطَاءِ الآمِلِ - ورُبَّمَا سَأَلْتَ الشَّيْءَ فَلَا تُؤْتَاه - وأُوتِيتَ خَيْراً مِنْه عَاجِلًا أَوْ آجِلًا - أَوْ صُرِفَ عَنْكَ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ - فَلَرُبَّ أَمْرٍ قَدْ طَلَبْتَه فِيه هَلَاكُ دِينِكَ لَوْ أُوتِيتَه - فَلْتَكُنْ مَسْأَلَتُكَ فِيمَا يَبْقَ لَكَ جَمَالُه - ويُنْفَى عَنْكَ وَبَالُه - فَالْمَالُ لَا يَبْقَى لَكَ ولَا تَبْقَى لَه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّكَ إِنَّمَا خُلِقْتَ لِلآخِرَةِ لَا لِلدُّنْيَا - ولِلْفَنَاءِ لَا لِلْبَقَاءِ ولِلْمَوْتِ لَا لِلْحَيَاةِ - وأَنَّكَ فِي قُلْعَةٍ ودَارِ بُلْغَةٍ - وطَرِيقٍ إِلَى الآخِرَةِ - وأَنَّكَ طَرِيدُ الْمَوْتِ الَّذِي لَا يَنْجُو مِنْه هَارِبُه - ولَا يَفُوتُه طَالِبُه ولَا بُدَّ أَنَّه مُدْرِكُه فَكُنْ مِنْه عَلَى حَذَرِ أَنْ يُدْرِكَكَ وأَنْتَ عَلَى حَالٍ سَيِّئَةٍ - قَدْ كُنْتَ تُحَدِّثُ نَفْسَكَ مِنْهَا بِالتَّوْبَةِ - فَيَحُولَ بَيْنَكَ وبَيْنَ ذَلِكَ - فَإِذَا أَنْتَ قَدْ أَهْلَكْتَ نَفْسَكَ.

ذكر الموت

يَا بُنَيَّ أَكْثِرْ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ وذِكْرِ مَا تَهْجُمُ عَلَيْه - وتُفْضِي بَعْدَ الْمَوْتِ إِلَيْه - حَتَّى يَأْتِيَكَ

اور امیدوا ر کے عطیہ میں زیادتی کا امکان پایا جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کا سوال کرو اور وہ نہ ملے لیکن اس کے بعد جلد یا بدیر اس سے بہتر مل جائے یا اسے تمہاری بھلائی کے لئے روک دیا گیا ہو۔اس لئے کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو تم نے طلب کیا ہے وہاگر مل جائے تو دین کی بربادی کاخطرہ ہے۔لہٰذا اسی چیز کا سوال کرو جس میں تمہارا حسن باقی رہے اور تم وبال سے محفوظ رہو۔مال نہ باقی رہنے والا ہے اور نہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔

فرزند ! یاد رکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایا گیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں ۔تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے لئے نہیں اورتم اس گھر میں ہو جہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہے۔اور تم آخرت کے راستہ پر ہو۔موت مہارا پیچھا کئے ہوئے ہے جس سے کوئی بھاگنے والا بچ نہیں سکتا ہے اور اس کے ہاتھ سے نکل نہیں سکتا ہے۔وہ بہر حال اسے پالے گی۔لہٰذا اس کی طرف سے ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں کسی برے حال میں پکڑ لے اورتم خالی توبہ کے لئے سوچتے ہی رہ جائو اور وہ تمہارے اور توبہ کے درمیان حائل ہو جائے کہ اس طرح گویا تم نے اپنے نفس کو ہلاک کردیا۔

فرزند! موت کو برابر یاد کرتے رہو اور ان حالات کو یاد کرتے رہو جن پراچانک وارد ہونا ہے اور جہاں تک موت کے بعد جانا ہے تاکہ وہ تمہارے پاس آئے

۵۲۵

وقَدْ أَخَذْتَ مِنْه حِذْرَكَ - وشَدَدْتَ لَه أَزْرَكَ - ولَا يَأْتِيَكَ بَغْتَةً فَيَبْهَرَكَ - وإِيَّاكَ أَنْ تَغْتَرَّ بِمَا تَرَى مِنْ إِخْلَادِ أَهْلِ الدُّنْيَا إِلَيْهَا - وتَكَالُبِهِمْ عَلَيْهَا فَقَدْ نَبَّأَكَ اللَّه عَنْهَا - ونَعَتْ هِيَ لَكَ عَنْ نَفْسِهَا وتَكَشَّفَتْ لَكَ عَنْ مَسَاوِيهَا - فَإِنَّمَا أَهْلُهَا كِلَابٌ عَاوِيَةٌ وسِبَاعٌ ضَارِيَةٌ - يَهِرُّ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ ويَأْكُلُ عَزِيزُهَا ذَلِيلَهَا - ويَقْهَرُ كَبِيرُهَا صَغِيرَهَا - نَعَمٌ مُعَقَّلَةٌ وأُخْرَى مُهْمَلَةٌ - قَدْ أَضَلَّتْ عُقُولَهَا ورَكِبَتْ مَجْهُولَهَا - سُرُوحُ عَاهَةٍ بِوَادٍ وَعْثٍ ،لَيْسَ لَهَا رَاعٍ يُقِيمُهَا ولَا مُسِيمٌ يُسِيمُهَا - سَلَكَتْ بِهِمُ الدُّنْيَا طَرِيقَ الْعَمَى - وأَخَذَتْ بِأَبْصَارِهِمْ عَنْ مَنَارِ الْهُدَى - فَتَاهُوا فِي حَيْرَتِهَا وغَرِقُوا فِي نِعْمَتِهَا - واتَّخَذُوهَا رَبّاً فَلَعِبَتْ بِهِمْ ولَعِبُوا بِهَا - ونَسُوا مَا وَرَاءَهَا.

الترفق في الطلب

رُوَيْداً يُسْفِرُ الظَّلَامُ - كَأَنْ قَدْ وَرَدَتِ الأَظْعَانُ - يُوشِكُ مَنْ أَسْرَعَ أَنْ يَلْحَقَ

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّ مَنْ كَانَتْ مَطِيَّتُه اللَّيْلَ والنَّهَارَ - فَإِنَّه يُسَارُ بِه وإِنْ كَانَ وَاقِفاً

تو تم احتیاطی سامان کرچکے ہو اور اپنی طاقت کو مضبوط بنا چکے ہو اور وہ اچانک آکر تم پرقبضہ نہ کرلے اور خبردار اہل دنیا کو دنیا کی طرف جھکتے اور اس پرمرتے دیکھ کرتم دھوکہ میں نہ آجانا کہ پروردگار تمہیں اس کے بارے میں بتا چکا ہے اور وہ خود بھی اپنے مصائب سنا چکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح کر چکی ہے۔دنیا دار افراد صرف بھونکنے والے کتے اورپھاڑ کھانے والے درندے ہیں جہاں ایک دوسرے پر بھونکتا ہے اور طاقت والا کمزور کو کھا جاتا ہے اور بڑا چھوٹے کو کچل ڈالتا ہے۔یہ سب جانور ہیں جن میں بعض بندھے ہوئے ہیں اور بعض وارہ جنہوں نے اپنی عقلیں گم کردی ہیں اور نا معلوم راستہ پر چل پڑے ہیں۔گویا دشوار گذار وادیوں میں مصیبتوں میں چرنے والے ہیں جہاں نہ کوئی چرواہا ہے جو سیدھے راستہ پر لگا سکے اور نہکوئی چرانے والا ہے جو انہیں چرا سکے۔دنیا نے انہیں گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا ہے اور ان کی بصارت کو منارہ ٔ ہدایت کے مقابلہ میں سلب کرلیا ہے اوروہ حیرت کے عالم میں سر گرداں ہیں اورنعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔دنیا کو اپنا معبود بنالیا ہے اوروہ ان سے کھیل رہی ہے اوروہ اس سے کھیل روہے ہیں اور سب نے آخرت کو یکسر بھلا دیا ہے۔

ٹھہرو! اندھرے کو چھٹنے دو۔ایسا محسوس ہوگا جیسے قافلے آخرت کی منزل میں اتر چکے ہیں اور قریب ہے کہ تیز رفتار افراد اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائیں۔

فرزند ! یاد رکھو کہ جو شب و روز کی سواری پر سوار ہے وہ گویا سر گرم سفر ہے چاہے ٹھہرا ہی کیوں ن ہ

۵۲۶

ويَقْطَعُ الْمَسَافَةَ وإِنْ كَانَ مُقِيماً وَادِعاً

واعْلَمْ يَقِيناً أَنَّكَ لَنْ تَبْلُغَ أَمَلَكَ ولَنْ تَعْدُوَ أَجَلَكَ - وأَنَّكَ فِي سَبِيلِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ - فَخَفِّضْ فِي الطَّلَبِ وأَجْمِلْ فِي الْمُكْتَسَبِ - فَإِنَّه رُبَّ طَلَبٍ قَدْ جَرَّ إِلَى حَرَبٍ - ولَيْسَ كُلُّ طَالِبٍ بِمَرْزُوقٍ - ولَا كُلُّ مُجْمِلٍ بِمَحْرُومٍ - وأَكْرِمْ نَفْسَكَ عَنْ كُلِّ دَنِيَّةٍ - وإِنْ سَاقَتْكَ إِلَى الرَّغَائِبِ - فَإِنَّكَ لَنْ تَعْتَاضَ بِمَا تَبْذُلُ مِنْ نَفْسِكَ عِوَضاً - ولَا تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وقَدْ جَعَلَكَ اللَّه حُرّاً - ومَا خَيْرُ خَيْرٍ لَا يُنَالُ إِلَّا بِشَرٍّ - ويُسْرٍ لَا يُنَالُ إِلَّا بِعُسْرٍ

وإِيَّاكَ أَنْ تُوجِفَ بِكَ مَطَايَا الطَّمَعِ - فَتُورِدَكَ مَنَاهِلَ الْهَلَكَةِ - وإِنِ اسْتَطَعْتَ أَلَّا يَكُونَ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه ذُو نِعْمَةٍ فَافْعَلْ - فَإِنَّكَ مُدْرِكٌ قَسْمَكَ وآخِذٌ سَهْمَكَ - وإِنَّ الْيَسِيرَ مِنَ اللَّه سُبْحَانَه أَعْظَمُ وأَكْرَمُ مِنَ الْكَثِيرِ مِنْ خَلْقِه - وإِنْ كَانَ كُلٌّ مِنْه.

وصايا شتى

وتَلَافِيكَ مَا فَرَطَ مِنْ صَمْتِكَ

رہے اور مسافت قطع کررہا ہے چاہے اطمینان سے مقیم ہی کیوں نہ رہے۔یہ بات یقین کے ساتھ سمجھ لو کہ تم نہ ہر امید کو پا سکتے ہو اور نہ اجل سے آگے جاسکتے ہو تم اگلے لوگوں کے راستہ ہی پر چل رہے ہو لہٰذا طلب میں نرم رفتاری سے کام لو اور کسب معاش میں میانہ روی اختیار کرو۔ورنہ بہت سی طلب انسان کو مال کی محرومی تک پہنچا دیتی ہے اور ہر طلب کرنے والا کامیاب بھی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہر اعتدال سے کام لینے والا محروم ہی ہوت ہے۔اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے بلند تر رکھو چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہنچا ہی کیوں نہ دے ۔اس لئے کہ جو عزت نفس دے دو گے اس کا کوئی بدل نہیں مل سکتا اورخبردار کسی کے غلام نہبن جانا جب کہ پروردگار نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے۔دیکھو اس خیر میں کوئی خیر نہیں ہے جو شرکے ذریعہ حاصل ہو اوروہآسانی آسانی نہیں ہے جو دشواری کے راستہ سے ملے ۔

خبردار طمع کی سواریاں تیز رفتاری دکھلا کر تمہیں ہلاکت کے چشموں پرنہ وارد کردیں اور اگر ممکن ہو کہ تمہارے اور خدا کے درمیان کوئی صاحب نعمت نہ آنے پائے تو ایسا ہی کرو کہ تمہیں تمہارا حصہ بہر حال ملنے والا ہے۔اور اپنا نصیب بہر حال لینے والے ہو اوراللہ کی طرف سے تھوڑا بھی مخلوقات کے بہت سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔اگرچہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔

خاموشی سے پیدا ہونے والی کوتاہی کی تلافی

۵۲۷

أَيْسَرُ مِنْ إِدْرَاكِكَ مَا فَاتَ مِنْ مَنْطِقِكَ - وحِفْظُ مَا فِي الْوِعَاءِ بِشَدِّ الْوِكَاءِ - وحِفْظُ مَا فِي يَدَيْكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ طَلَبِ مَا فِي يَدَيْ غَيْرِكَ - ومَرَارَةُ الْيَأْسِ خَيْرٌ مِنَ الطَّلَبِ إِلَى النَّاسِ - والْحِرْفَةُ مَعَ الْعِفَّةِ خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى مَعَ الْفُجُورِ - والْمَرْءُ أَحْفَظُ لِسِرِّه ورُبَّ سَاعٍ فِيمَا يَضُرُّه - مَنْ أَكْثَرَ أَهْجَرَ ومَنْ تَفَكَّرَ أَبْصَرَ - قَارِنْ أَهْلَ الْخَيْرِ تَكُنْ مِنْهُمْ - وبَايِنْ أَهْلَ الشَّرِّ تَبِنْ عَنْهُمْ - بِئْسَ الطَّعَامُ الْحَرَامُ - وظُلْمُ الضَّعِيفِ أَفْحَشُ الظُّلْمِ - إِذَا كَانَ الرِّفْقُ خُرْقاً كَانَ الْخُرْقُ رِفْقاً - رُبَّمَا كَانَ الدَّوَاءُ دَاءً والدَّاءُ دَوَاءً - ورُبَّمَا نَصَحَ غَيْرُ النَّاصِحِ وغَشَّ الْمُسْتَنْصَحُ - وإِيَّاكَ والِاتِّكَالَ عَلَى الْمُنَى فَإِنَّهَا بَضَائِعُ النَّوْكَى - والْعَقْلُ حِفْظُ التَّجَارِبِ - وخَيْرُ مَا جَرَّبْتَ مَا وَعَظَكَ - بَادِرِ الْفُرْصَةَ قَبْلَ أَنْ تَكُونَ غُصَّةً - لَيْسَ كُلُّ طَالِبٍ يُصِيبُ ولَا كُلُّ غَائِبٍ يَئُوبُ –

ومِنَ الْفَسَادِ إِضَاعَةُ الزَّادِ ومَفْسَدَةُ الْمَعَادِ -

کرلینا گفتگو سے ہونے والے نقصان کے تدارک سے آسان ترہے برتن کے اندر کا سامان منہ بند کرکے محفوظ کیا جاتا ہے اور اپنے ہاتھ کی دولت کا محفوظ کرلینا دوسرے کے ہاتھ کی نعمت کے طلب کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔مایوسی کی تلخی کوبرداشت کرنا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے س بہتر ہے اور پاکدامانی کے ساتھ محنت مشقت کرنا فسق و فجور کے ساتھ مالداری سے بہتر ہے۔

ہر انسان اپنے راز کو دوسروں سے زیادہ محفوظ رکھ سکتا ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو اس امر کے لئے دوڑ رہے ہیں جوان کے لئے نقصان دہ ہے ۔زیادہ بات کرنے والا بکواس کرنے لگتا ہے اور غوروفکر کرنے والا بصیر ہو جاتا ہے۔اہل خیرکے ساتھ رہو تاکہ انہیں میں شمار ہواوراہل شر سے الگ رہو تاکہ ان سے الگ حساب کئے جائو۔بدترین طعام مال حرام ہے اوربد ترین ظلم کمزورآدمی پر ظلم ہے۔نرمی نا مناسب ہو تو سختی ہی مناسب ہے۔کبھی کبھی دوا مرض بن جاتی ہے اورمرض دوا اور کبھی کبھی غیر مخلص بھی نصیحت کی بات کردیتا ہے اورکبھی کبھی مخلص بھی خیانت سے کام لے لیتا ہے۔دیکھو خبر دار خواہشات پر اعتماد نہکرنا کہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہیں۔عقلمندی تجربات کے محفوظ رکھنے میں ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے نصیحت حاصل ہو۔فرصت سے فائدہ اٹھائو قبل اس کے کہ رنج و اندوہ کا سامنا کرنا پڑے۔ہر طلب گار مطلوب کو حاصل بھی نہیں کرتا ہے اور ہر غائب پلٹ کربھی نہیں آتا ہے۔

فساد کی ایک قسم زاد راہ کاضائع کردینا اورعاقبت

۵۲۸

ولِكُلِّ أَمْرٍ عَاقِبَةٌ سَوْفَ يَأْتِيكَ مَا قُدِّرَ لَكَ - التَّاجِرُ مُخَاطِرٌ ورُبَّ يَسِيرٍ أَنْمَى مِنْ كَثِيرٍ لَا خَيْرَ فِي مُعِينٍ مَهِينٍ ولَا فِي صَدِيقٍ ظَنِينٍ - سَاهِلِ الدَّهْرَ مَا ذَلَّ لَكَ قَعُودُه - ولَا تُخَاطِرْ بِشَيْءٍ رَجَاءَ أَكْثَرَ مِنْه - وإِيَّاكَ أَنْ تَجْمَحَ بِكَ مَطِيَّةُ اللَّجَاجِ

احْمِلْ نَفْسَكَ مِنْ أَخِيكَ عِنْدَ صَرْمِه عَلَى الصِّلَةِ - وعِنْدَ صُدُودِه عَلَى اللَّطَفِ والْمُقَارَبَةِ - وعِنْدَ جُمُودِه عَلَى الْبَذْلِ - وعِنْدَ تَبَاعُدِه عَلَى الدُّنُوِّ - وعِنْدَ شِدَّتِه عَلَى اللِّينِ - وعِنْدَ جُرْمِه عَلَى الْعُذْرِ - حَتَّى كَأَنَّكَ لَه عَبْدٌ وكَأَنَّه ذُو نِعْمَةٍ عَلَيْكَ - وإِيَّاكَ أَنْ تَضَعَ ذَلِكَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِه - أَوْ أَنْ تَفْعَلَه بِغَيْرِ أَهْلِه - لَا تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّ صَدِيقِكَ صَدِيقاً فَتُعَادِيَ صَدِيقَكَ - وامْحَضْ أَخَاكَ النَّصِيحَةَ - حَسَنَةً كَانَتْ أَوْ قَبِيحَةً - وتَجَرَّعِ الْغَيْظَ فَإِنِّي لَمْ أَرَ جُرْعَةً أَحْلَى مِنْهَا عَاقِبَةً - ولَا أَلَذَّ مَغَبَّةً - ولِنْ لِمَنْ غَالَظَكَ فَإِنَّه يُوشِكُ أَنْ يَلِينَ لَكَ - وخُذْ عَلَى عَدُوِّكَ بِالْفَضْلِ فَإِنَّه أَحْلَى الظَّفَرَيْنِ -

کو برباد کر دینا بھی ہے۔ہر امر کی ایک عاقبت ہے اور عنقریب وہ تمہیں مل جائے گا جو تمہارے لئے مقدر ہوا ہے۔تجارتکرنے والا وہی ہوتا ہے جو مال کو خطرہ میں ڈال سکے ۔بسا اوقات تھوڑا مال زیادہ سے زیادہ با برکت ہوتا ہے۔اس مدد گار میں کوئی خیر نہیں ہے جو ذلیل ہو اور وہ دوست بیکار ہے جوبدنام ہو۔زمانہ ک ساتھ سہولت کا برتائو کرو جب تک اس کا اونٹ قابو میں رہے اور کسی چیز کو اس سے زیادہ کی امید میں خطرہ میں مت ڈالو۔خبر دار کہیں دشمنی اور عناد کی سواری تم سے منہ زوری نہ کرنے لگے۔

اپنے نفس کو اپنے بھائی کے بارے میں قطع تعلق کے مقابلہ میں تعلقات ' اعراض کے مقابلہ میں مہربانی بخل کے مقابلہ میں عطا ' دوری کے مقابلہ میں قربت ' شدت کے مقابل میں نرمی اورجرم کے موقع پر معذرت کے لئے آمادہ کرو گویا کہ تم اس کے بندے ہو اوراس نے تم پر کوئی احسان کیا ہے اور خبردار احسان کوبھی بے محل نہ قرار دینا اورنہ کسی نا اہل کے ساتھ احسان کرنا۔اپنے دشمن کے دوست کو اپنا دوست نہ بنانا کہ تم اپنے دوست کے دشمن ہو جائو اور اپنے بھائی کو مخلصانہ نصیحت کرتے رہنا چاہے اسے اچھی لگیں یا بری۔غصہ کو پی جائو کہ میں نے انجام کارکے اعتبارسے اس سے زیادہ یریں کوئی گھونٹ نہیں دیکھا ہے اورنہ عاقبت کے لحاظ سے لذیذ تر۔اور جو تمہارے ساتھ سختی کرے اس کے لئے نرم ہو جائو شاید کبھی وہ بھی نرم ہو جائے ۔اپنے دشمن کے ساتھ احسان کرو کہ اس میں دو میں سے ایک کامیابی اور شیریں

۵۲۹

وإِنْ أَرَدْتَ قَطِيعَةَ أَخِيكَ فَاسْتَبْقِ لَه مِنْ نَفْسِكَ - بَقِيَّةً يَرْجِعُ إِلَيْهَا إِنْ بَدَا لَه ذَلِكَ يَوْماً مَا - ومَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْراً فَصَدِّقْ ظَنَّه - ولَا تُضِيعَنَّ حَقَّ أَخِيكَ اتِّكَالًا عَلَى مَا بَيْنَكَ وبَيْنَه - فَإِنَّه لَيْسَ لَكَ بِأَخٍ مَنْ أَضَعْتَ حَقَّه - ولَا يَكُنْ أَهْلُكَ أَشْقَى الْخَلْقِ بِكَ - ولَا تَرْغَبَنَّ فِيمَنْ زَهِدَ عَنْكَ - ولَا يَكُونَنَّ أَخُوكَ أَقْوَى عَلَى قَطِيعَتِكَ مِنْكَ عَلَى صِلَتِه - ولَا تَكُونَنَّ عَلَى الإِسَاءَةِ أَقْوَى مِنْكَ عَلَى الإِحْسَانِ - ولَا يَكْبُرَنَّ عَلَيْكَ ظُلْمُ مَنْ ظَلَمَكَ - فَإِنَّه يَسْعَى فِي مَضَرَّتِه ونَفْعِكَ - ولَيْسَ جَزَاءُ مَنْ سَرَّكَ أَنْ تَسُوءَه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّ الرِّزْقَ رِزْقَانِ - رِزْقٌ تَطْلُبُه ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - مَا أَقْبَحَ الْخُضُوعَ عِنْدَ الْحَاجَةِ -

ترین کامیابی ہے اور اگراپنے بھائی سے قطع تعلق کرنا چاہو تو اپنے نفس میں اتنی گنجائش رکھو کہاگراسے کسی دن واپسی کاخیال پیدا ہو تو واپس آسکے ۔جو تمہارے بارے میں اچھا خیال رکھے اس کے خیال کو غلط نہ ہونے دینا۔باہمی روابط کی بناپر کسی بھائی کے حق کو ضائع نہ کرنا کہ جس کے حق کو ضائع کردیا پھروہ واقعاً بھائی نہیں ہے اور دیکھو تمہارے گھر والے تمہاری وجہ سے بد بخت نہ ہونے پائیں اورجو تم سے کنارہ کش ہونا چاہے اس کے پیچھے نہ لگے رہو۔تمہارا کوئی بھائی تم سےقطع تعلقات میں تم پربازی نہ لے جائے اورتم تعلقات مضبوط کرلو اورخبردار برائی کرنے میں نیکی کرنے سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ نہ کرنا اور کسی ظالم کے ظلم کو بہت بڑا تصور نہ کرنا کہوہ اپنے کو نقصان پہنچا رہا ہے اور تمہیں فائدہ پہنچا رہا ہے اور جو تمہیں فائدہ پہنچائے(۱) اس کی جزا یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ برائی کرو۔

اور فرزند ! یاد رکھو کہ رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کررہے ہو اورایک رزق وہ ہے(۲) جوتم کو تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ جائو گے تو وہ خود تم تک آجائے گا۔ضرورت کے وقت خضوع وخشوع کا اظہار کس قدر ذلیل ترین بات ہے

(۱) اس مسئلہ کاتعلق دنیامیں اخلاقی برتائو سے ہے ۔جہاں ظالموں کو اسلامی اخلاقیات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور کبھی لشکر معاویہ پر بندش آب کو روکدیا جاتا ہے اور کبھی ابن ملجم کو سیراب کردیا جاتا ہے۔ورنہ اگر دین و مذہب خطرہ میں پڑ جائے تو مذہب سے زیادہ عزیز تر کوئی شے نہیں ہے اور ظالموں سے جہاد بھی واجب ہو جاتا ہے۔

(۲) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جہاں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جیسے انسان رزق کی تلاش میں نہیں ہے بلکہ رزق انسان کو تلاش کر رہاہے اور انسان جہاں جہاں جا رہا ہے اس کا رزق اس کے ساتھ جارہا ہے۔اور پروردگار نے ایسے واقعات کا انتظام اسی لئے کیا ہے کہ انسان کو اس کی رزاقیت اورایفائے وعدہ کا یقین ہو جائے اوروہ رزق کی راہ میں عزت نفس یادار آرت کو بیچے کے لئے تیار نہ ہو جائے ۔

۵۳۰

والْجَفَاءَ عِنْدَ الْغِنَى - إِنَّمَا لَكَ مِنْ دُنْيَاكَ مَا أَصْلَحْتَ بِه مَثْوَاكَ - وإِنْ كُنْتَ جَازِعاً عَلَى مَا تَفَلَّتَ مِنْ يَدَيْكَ - فَاجْزَعْ عَلَى كُلِّ مَا لَمْ يَصِلْ إِلَيْكَ - اسْتَدِلَّ عَلَى مَا لَمْ يَكُنْ بِمَا قَدْ كَانَ - فَإِنَّ الأُمُورَ أَشْبَاه - ولَا تَكُونَنَّ مِمَّنْ لَا تَنْفَعُه الْعِظَةُ إِلَّا إِذَا بَالَغْتَ فِي إِيلَامِه - فَإِنَّ الْعَاقِلَ يَتَّعِظُ بِالآدَابِ - والْبَهَائِمَ لَا تَتَّعِظُ إِلَّا بِالضَّرْبِ -. اطْرَحْ عَنْكَ وَارِدَاتِ الْهُمُومِ بِعَزَائِمِ الصَّبْرِ - وحُسْنِ الْيَقِينِ - مَنْ تَرَكَ الْقَصْدَ جَارَ - والصَّاحِبُ مُنَاسِبٌ - والصَّدِيقُ مَنْ صَدَقَ غَيْبُه - والْهَوَى شَرِيكُ الْعَمَى - ورُبَّ بَعِيدٍ أَقْرَبُ مِنْ قَرِيبٍ - وقَرِيبٍ أَبْعَدُ مِنْ بَعِيدٍ - والْغَرِيبُ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَه حَبِيبٌ - مَنْ تَعَدَّى الْحَقَّ ضَاقَ مَذْهَبُه - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى قَدْرِه كَانَ أَبْقَى لَه - وأَوْثَقُ سَبَبٍ أَخَذْتَ بِه - سَبَبٌ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه سُبْحَانَه - ومَنْ لَمْ يُبَالِكَ فَهُوَ عَدُوُّكَ

اور بے نیازی کے عالم میں بد سلوکی کس قدر قبیح حرکت ہے۔اس دنیامیں تمہارا حصہ اتنا ہی ہے جس سے اپنی عاقبت کا انتظام کرس کو۔اور کسی چیزکے ہاتھ سے نکل جانے پر پریشنی کا اظہار کرنا ہے تو ہر اس چیز پر بھی فریاد کرو جو تم تک نہیں پہنچی ہے۔جو کچھ ہو چکا ہے اس کے ذریعہ اس کاپتہ لگائو جو ہونے والا ہے کہ معاملات تمام کے تمام ایک ہی جیسے ہیں اور خبردار ان لوگوں میں نہ ہو جائو جن پر اس وقت تک نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی ہے جب تک پوری طرح تکلیف نہ پہنچائی جائے اس لئے کہ انسان عاقل ادب سے نصیحت حاصل کرتا ہے اور جانور مار پیٹ سے سیدھا ہوتا ہے ۔دنیا میں وارد ہونے والے ہموم و آلام کو صبر کے عزائم اور یقین کے حسن کے ذریعہ کردو۔یاد رکھو کہ جس نے بھی اعتدال کو چھوڑاوہ منحرف ہوگیا۔ساتھی ایک طرح کا شریک نسب ہوتا ہے اور دوست وہ ہے جو غیبت میں بھی سچا دوست رہے۔خواہش اندھے پن کی شریک کار ہوتی ہے۔بہت سے دور والے ایسے ہوتے ہیں جو قریب والوں سے قریب تر ہوتے ہیں اور بہت سے قریب والے دور والوں سے زیادہ دور تر ہوتے ہیں ۔غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔جو حق سے آگے بڑھ جائے اس کے راستے تنگ ہو جاتے ہیں اورجو اپنی حیثیت پر قائم رہتا ہے اس کی عزت باقی رہ جاتی ہے۔تمہارے ہاتھوں میں مضبوط ترین وسیلہ تمہارا اورخدا کا رشتہ ہے۔اورجو تمہاری پروانہ کرے وہی تمہارادشمن ہے

۵۳۱

- قَدْ يَكُونُ الْيَأْسُ إِدْرَاكاً إِذَا كَانَ الطَّمَعُ هَلَاكاً - لَيْسَ كُلُّ عَوْرَةٍ تَظْهَرُ ولَا كُلُّ فُرْصَةٍ تُصَابُ - ورُبَّمَا أَخْطَأَ الْبَصِيرُ قَصْدَه وأَصَابَ الأَعْمَى رُشْدَه - أَخِّرِ الشَّرَّ فَإِنَّكَ إِذَا شِئْتَ تَعَجَّلْتَه وقَطِيعَةُ الْجَاهِلِ تَعْدِلُ صِلَةَ الْعَاقِلِ - مَنْ أَمِنَ الزَّمَانَ خَانَه ومَنْ أَعْظَمَه أَهَانَه - لَيْسَ كُلُّ مَنْ رَمَى أَصَابَ - إِذَا تَغَيَّرَ السُّلْطَانُ تَغَيَّرَ الزَّمَانُ - سَلْ عَنِ الرَّفِيقِ قَبْلَ الطَّرِيقِ - وعَنِ الْجَارِ قَبْلَ الدَّارِ إِيَّاكَ أَنْ تَذْكُرَ مِنَ الْكَلَامِ مَا يَكُونُ مُضْحِكاً - وإِنْ حَكَيْتَ ذَلِكَ عَنْ غَيْرِكَ.

الرأي في المرأة

وإِيَّاكَ ومُشَاوَرَةَ النِّسَاءِ - فَإِنَّ رَأْيَهُنَّ إِلَى أَفْنٍ وعَزْمَهُنَّ إِلَى وَهْنٍ - واكْفُفْ عَلَيْهِنَّ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ بِحِجَابِكَ إِيَّاهُنَّ - فَإِنَّ شِدَّةَ الْحِجَابِ أَبْقَى عَلَيْهِنَّ

کبھی کبھی مایوسی بھی کامیابی بن جاتی ہے جب حرص و طمع موجب ہلاکت ہو۔ہر عیب ظاہرنہیں ہوا کرتا ہے اورنہ ہرفرصت کو موقع بار بار ملاکرتا ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھوں والا راستہ سے بھٹک جاتا ہے اور اندھا سیدھے راستہ کو پالیتاہے۔برائی کو پس پشت ڈالتے رہو کہ جب بھی چاہو اس کی طرف بڑھ سکتے ہو۔جاہل سے قطع تعلق عاقل سے تعلقات کے برابر ہے۔جو زمانہ کی طرف سے مطمئن ہوجات ہے زمانہ اس سے خیانت کرتا ہےاورجو اسے بڑا سمجھتا ہے اسے ذلیل کر دیتا ہے ہر تیر انداز کا تیر نشانہ پر نہیں بیٹھتا ہے جب حاکم بدل جاتا ہےتوزمانہ بد لجاتا ہےرفیق سفر کے بارے میں راستہ پر چلنے سے پہلے دریافت کرو اورہمسایہ کیبارے میں اپنے گھر سے پہلے خبر گیری کرو۔خبردار ایسی کوئی بات نہ کرنا جومضحکہ خیزہو چاہے دوسروں ہی کی طرفسے نقل کی جائے ۔

خبردار۔عورتوں(۱) سے مشورہ نہ کرنا کہ ان کی رائے کمزور اور ان کا ارادہ سست ہوتا ہے ۔انہیں پردہ میں رکھ کر ان کی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو کہ پردہ کی سختی ان کی عزت و آبرو کو باقی رکھنے والی ہے

(۱)اس کلام میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں :۔

ایک احتمال یہ ہے کہ یہ اس دورکے حالات کی طرف اشارہ ہے جب عورتیں ۹۹ فیصد ی جاہل ہوا کرتی تھیں اور ظاہر ہے کہ پڑھے لکھے انسان کا کسی جاہل سے مشورہ کرنا نادانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں عورت کی جذباتی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے مشورہ میں جذبات کی کارفرمائی کاخطرہ زیادہ ہے لہٰذا اگر کوئی عورت اس نقص سے بلند تر ہو جائے تو اس سے مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں ان مخصوص عورتوں کی طرف اشارہ ہو جن کی رائے پرعمل کرنے سے عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ تباہی کے گھاٹ اتر گیا ہے اورآج تک اس تباہی کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔

۵۳۲

- ولَيْسَ خُرُوجُهُنَّ بِأَشَدَّ - مِنْ إِدْخَالِكَ مَنْ لَا يُوثَقُ بِه عَلَيْهِنَّ - وإِنِ اسْتَطَعْتَ أَلَّا يَعْرِفْنَ غَيْرَكَ فَافْعَلْ - ولَا تُمَلِّكِ الْمَرْأَةَ مِنْ أَمْرِهَا مَا جَاوَزَ نَفْسَهَا - فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَيْحَانَةٌ ولَيْسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ - ولَا تَعْدُ بِكَرَامَتِهَا نَفْسَهَا ولَا تُطْمِعْهَا فِي أَنْ تَشْفَعَ لِغَيْرِهَا - وإِيَّاكَ والتَّغَايُرَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ غَيْرَةٍ - فَإِنَّ ذَلِكَ يَدْعُو الصَّحِيحَةَ إِلَى السَّقَمِ - والْبَرِيئَةَ إِلَى الرِّيَبِ - واجْعَلْ لِكُلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِكَ عَمَلًا تَأْخُذُه بِه - فَإِنَّه أَحْرَى أَلَّا يَتَوَاكَلُوا فِي خِدْمَتِكَ - وأَكْرِمْ عَشِيرَتَكَ - فَإِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِي بِه تَطِيرُ - وأَصْلُكَ الَّذِي إِلَيْه تَصِيرُ ويَدُكَ الَّتِي بِهَا تَصُولُ.

دعاء

اسْتَوْدِعِ اللَّه دِينَكَ ودُنْيَاكَ - واسْأَلْه خَيْرَ الْقَضَاءِ لَكَ فِي الْعَاجِلَةِ والآجِلَةِ - والدُّنْيَا والآخِرَةِ والسَّلَامُ.

(۳۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

وأَرْدَيْتَ جِيلًا مِنَ النَّاسِ كَثِيراً

اور ان کا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے گھرمیں داخل کرنے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔اگر ممکن ہوکہ وہ تمہارے علاوہ کسی کو نہ پچانیں توایسا ہی کرو اورخبردار انہیں ان کے ذاتی مسائل سے زیادہ اختیارات نہ دواس لئے کہ عورت ایک پھول ہے اور حاکم و متصرف نہیں ہے۔اس کے پاس ولحاظ کو اس کی ذات سے آگے نہ بڑھائو اور اس میں دوسروں کی سفارش کا حوصلہ نہ پیدا ہونے دو۔دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہارمت کرنا کہ اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستہ پرچلی جائے گی اور بے عیب بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔

اپنے ہر خادم کے لئے ایک عمل مقرر کردو جس کا محاسبہ کرسکو کہ یہ بات ایک دوسرے کے حوالہ کرنے کہیں زیادہ بہتر ہے۔اپنے قبیلہ کا احترام کرو کہ یہی تمہارے لئے پرپرواز کر مرتبہ رکھتے ہیں اور یہی تمہاری اصل ہیں جن کی طرف تمہاری باز گشت ہے اور تمہارے ہاتھ ہیں جن کے ذریعہ حملہ کرسکتے ہو۔

اپنے دین و دنیا کو پروردگار کے حوالہ کردو اور اس سے دعا کرو کہ تمہارے حق میں دنیا و آخرت میں بہترین فیصلہ کرے ۔والسلام

(۳۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

تم نے لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو ہلاک کردیا ہے کہ انہیں اپنی

۵۳۳

- خَدَعْتَهُمْ بِغَيِّكَ وأَلْقَيْتَهُمْ فِي مَوْجِ بَحْرِكَ - تَغْشَاهُمُ الظُّلُمَاتُ وتَتَلَاطَمُ بِهِمُ الشُّبُهَاتُ - فَجَازُوا عَنْ وِجْهَتِهِمْ ونَكَصُوا عَلَى أَعْقَابِهِمْ - وتَوَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ وعَوَّلُوا عَلَى أَحْسَابِهِمْ - إِلَّا مَنْ فَاءَ مِنْ أَهْلِ الْبَصَائِرِ - فَإِنَّهُمْ فَارَقُوكَ بَعْدَ مَعْرِفَتِكَ - وهَرَبُوا إِلَى اللَّه مِنْ مُوَازَرَتِكَ - إِذْ حَمَلْتَهُمْ عَلَى الصَّعْبِ وعَدَلْتَ بِهِمْ عَنِ الْقَصْدِ - فَاتَّقِ اللَّه يَا مُعَاوِيَةُ فِي نَفْسِكَ - وجَاذِبِ الشَّيْطَانَ قِيَادَكَ - فَإِنَّ الدُّنْيَا مُنْقَطِعَةٌ عَنْكَ والآخِرَةَ قَرِيبَةٌ مِنْكَ - والسَّلَامُ.

(۳۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى قثم بن العباس - وهو عامله على مكة

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ عَيْنِي بِالْمَغْرِبِ كَتَبَ إِلَيَّ يُعْلِمُنِي – أَنَّه وُجِّه إِلَى الْمَوْسِمِ أُنَاسٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - الْعُمْيِ الْقُلُوبِ الصُّمِّ الأَسْمَاعِ الْكُمْه الأَبْصَارِ - الَّذِينَ يَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ - ويُطِيعُونَ الْمَخْلُوقَ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ

گمراہی(۱) سے دھوکے میں رکھا ہے اور اپنے سمندر کی موجوں کے حوالہ کردیا ہے جہاں تاریکیاں انہیں ڈھانپے ہوئے ہیں اورشبہات کے تھپیڑے انہیں تہ و بالا کر رہے ہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ راہ حق سے ہٹ گئے اور الٹے پائوں پلٹ گئے اور پیٹھ پھیر کرچلتے بنے اوراپنے حسب و نسب پربھروسہ کر بیٹھے علاوہ ان چند اہل بصیرت کے جو واپس آگئے اور انہوں نے تمہیں پہچاننے کے بعد چھوڑ دیا اورتمہاری حمایت سے بھاگ کر اللہ کی طرف آگئے جب کہ تم نے انہیں دشواریوں میں مبتلا کردیا تھا اور راہ اعتدال سے ہٹا دیا تھا۔لہٰذا اسے معاویہ اپنے بارے میں خدا سے ڈرو اور شیطان سے جان چھڑائو کہ یہ دنیا بہر حال تم سے الگ ہونے والی ہے اور آخرت بہت قریب ہے ۔والسلام

(۳۳)

آپ کامکتوب گرامی

(مکہ کے عامل قثم(۲) بن عباس کے نام)

اما بعد! میرے مغربی علاقہ کے جاسوس نے مجھے لکھ کر اطلاع دی ہے کہ موسم حج کے لئے شام کی طرف سے کچھ ایسے لوگوں کو بھیجا گیا ہے جو دلوں کے اندھے ' کانوں کے بہرے اورآنکھوں کے محروم ضیاء ہیں۔یہ حق کو باطل سے مشتبہ کرنے والے ہیں اور خالق کی نافرمانی کرکے مخلوق کوخوش کرنے والے ہیں۔

(۱)طبری کا بیان ہے کہ حتات مجاشعی ایک جماعت کے ساتھ معاویہ کے دربار میں واردہوا معاویہ نے سب کو ایک ایک لاکھ انعام دیا اورحتات کو ستر ہزار۔تو اس نے اتعراض کیا معاویہ نے کہا کہ میں نے ان سے ان کا دین خریدا ہے۔حتات نے کہا تو مجھ سے بھی خرید لیجئے ؟ یہ سنناتھاکہ معاویہ نے ایک لاکھ پورا کردیا۔

(۲)قثم عبداللہ بن عباس کےبھائی تھےاورمکہ پر حضرت کےعامل تھےجوحضرت کی شہادت تک اپنے عہدہ پر فائز رہے اور اس کے بعد معاویہ کے دورمیں سمرقند میں قتل کر دئیے گئے

۵۳۴

ويَحْتَلِبُونَ الدُّنْيَا دَرَّهَا بِالدِّينِ - ويَشْتَرُونَ عَاجِلَهَا بِآجِلِ الأَبْرَارِ الْمُتَّقِينَ - ولَنْ يَفُوزَ بِالْخَيْرِ إِلَّا عَامِلُه - ولَا يُجْزَى جَزَاءَ الشَّرِّ إِلَّا فَاعِلُه - فَأَقِمْ عَلَى مَا فِي يَدَيْكَ قِيَامَ الْحَازِمِ الصَّلِيبِ - والنَّاصِحِ اللَّبِيبِ - التَّابِعِ لِسُلْطَانِه الْمُطِيعِ لإِمَامِه - وإِيَّاكَ ومَا يُعْتَذَرُ مِنْه - ولَا تَكُنْ عِنْدَ النَّعْمَاءِ بَطِراً - ولَا عِنْدَ الْبَأْسَاءِ فَشِلًا - والسَّلَامُ.

(۳۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى محمد بن أبي بكر لما بلغه توجده من عزله بالأشتر عن مصر،ثم توفي الأشتر في توجهه إلى هناك قبل وصوله إليها

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي مَوْجِدَتُكَ مِنْ تَسْرِيحِ الأَشْتَرِ إِلَى عَمَلِكَ - وإِنِّي لَمْ أَفْعَلْ ذَلِكَ اسْتِبْطَاءً لَكَ فِي الْجَهْدَ - ولَا ازْدِيَاداً لَكَ فِي الْجِدِّ - ولَوْ نَزَعْتُ مَا تَحْتَ يَدِكَ مِنْ سُلْطَانِكَ - لَوَلَّيْتُكَ مَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكَ مَئُونَةً - وأَعْجَبُ إِلَيْكَ وِلَايَةً.

إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي كُنْتُ وَلَّيْتُه أَمْرَ مِصْرَ -

ان کا کام دین کے ذریعہ دنیا کو دو ہنا ہے اوریہ نیک کردار' پرہیز گار افراد کی آخرت کو دنیا کے ذریعہ خریدنے والے ہیں جب کہ خیر اس کا حصہ ہے جوخیر کا کام کرے اورشر اس کے حصہ میں آتا ہے جو شرکاعمل کرتا ہے۔دیکھو اپنے منصبی فرائض کے سلسلہ میں ایک تجربہ کار' پختہ کار' مخلص ' ہوشیار انسان کی طرح قیام کرنا جو اپنے حاکم کا تابع اوراپنے امام کا اطاعت گذار ہواور خبردار کوئی ایسا کام نہ کرنا جس کی معذرت کرنا پڑے اورراحت وآرام میں مغرور نہ ہو جانا اورنہ شدت کے مواقع پرکمزوری کا مظاہرہ کرنا۔والسلام

(۳۴)

آپ کامکتوب گرامی

(محمدبن ابی بکرکے نام جب یہ اطلاع ملی کہ وہ اپنی معزولی اورمالک اشترکےتقریر سے رنجیدہ ہیں اور پھرمالک اشتر مصر پہنچنے سےپہلےانتقال بھی کرگئے )

اما بعد!مجھے مالک اشتر کےمصر کی طرف بھیجنے کے بارے میں تمہاری بد دلی کی اطلاع ملی ہے۔حالانکہ میں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا کہ تمہیں کام میں کمزور پایا تھا یا تم سے زیادہ محنت کامطالبہ کرناچاہا تھا بلکہ اگرمیں نے تم سے تمہارے زیر اثر اقتدار کولیا بھی تھا تو تمہیں ایسا کام دینا چاہتا تھا جو تمہارےلئےمشقت کے اعتبار سے آسان ہو اورتمہیں پسند بھی ہوجس شخص کو میں نے مصرکاعامل قراردیا تھا وہ

۵۳۵

كَانَ رَجُلًا لَنَا نَاصِحاً وعَلَى عَدُوِّنَا شَدِيداً نَاقِماً - فَرَحِمَه اللَّه فَلَقَدِ اسْتَكْمَلَ أَيَّامَه – ولَاقَى حِمَامَه ونَحْنُ عَنْه رَاضُونَ - أَوْلَاه اللَّه رِضْوَانَه وضَاعَفَ الثَّوَابَ لَه - فَأَصْحِرْ لِعَدُوِّكَ وامْضِ عَلَى بَصِيرَتِكَ - وشَمِّرْ لِحَرْبِ مَنْ حَارَبَكَ و( ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ ) - وأَكْثِرِ الِاسْتِعَانَةَ بِاللَّه يَكْفِكَ مَا أَهَمَّكَ - ويُعِنْكَ عَلَى مَا يُنْزِلُ بِكَ إِنْ شَاءَ اللَّه.

(۳۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس بعد مقتل محمد بن أبي بكر

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مِصْرَ قَدِ افْتُتِحَتْ - ومُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رحمهالله قَدِ اسْتُشْهِدَ - فَعِنْدَ اللَّه نَحْتَسِبُه وَلَداً نَاصِحاً وعَامِلًا كَادِحاً

میرا مردمخلص اورمیرےدشمن کے لئے سخت قسم کا دشمن تھا۔خدااس پر رحمت نازل کرےاس نے اپنے دن پورے کرلئے اوراپنی موت سے ملاقات کرلی۔ہم اس سے بہر حال راضی ہیں۔اللہ اسے اپنی رضا عنایت فرمائے اور اس کے ثواب کو مضاعف کردے اب تم دشمن کے مقابلہ میں نکل پڑو اوراپن بصیرت پرچل پڑو۔ جوتم سے جنگ کرے اس سے جنگ کرنے کے لئے کمر کو کس لو اوردشمن کو راہ خدا کی دعوت دے دو۔اس کے بعد اللہ سے مسلسل مدد مانگتے رہوکہ وہی تمہارےلئے ہر مہم میں کافی ہے اوروہی ہرنازل ہونے والی مصیبت میں مدد کرنے والا ہے۔انشاء اللہ

(۳۵)

آپ کامکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔محمد بن ابی بکر کی شہادت کے بعد )

امابعد! دیکھو مصر پر دشمن کا قبضہ ہوگیا ہے اور محمد(۱) بن ابی بکر شہید ہوگئے ہیں( خدا ان پر رحمت نازل کرے ) میں ان کی مصیبت کا اجر خدا سے چاہتا ہوں کہ وہ میرے مخلص فرزند اور محنت کش عامل تھے

(۱)مسعودی نے مروج الذیب میں ۳۵ھ کے حوادث میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ '' معاویہ نے عمرو ابن العاص کی سر کردگی میں ۴ ہزار کا لشکر مصر کی طرف روانہ کیا اور اس میں معاویہ بن خدیج اور ابو الا عور السلمی جیسے افراد کوبھی شامل کردیا۔مقام مسناة پرمحمد بن ابی بکرن اس لشکرکا مقابلہ کیا لیکن اصحاب کی بیوفائی کی بنا پرمیدان چھوڑنا پڑا۔اس کے بعد دوبارہ مصر کے علاقہ میں رن پڑا اور آخر کارمحمد بن ابی بکر کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں جیتے جی ایک گدھے کی کھال میں رکھ کرنذر آتش کردیا گیا '' جس کا حضرت کو بے حد صدمہ ہوا اور آپ نے اس واقعہ کی اطلاع بصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کو کی اور اپنے مکمل جذبات کا اظہار فرمادیا یہاں تک کہ اہل عراق کی بیوفائی کی بنیاد پر آرزئوئے موت تک کا تذکرہ فرمادیا کہ گویا ایسے افراد کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے ہیں جو راہ خدا میں جہاد کرنا نہ جانتے ہوں۔اور یہ مولائے کائنات کا درس عمل ہردور کے لئے ہے کہ جس قوم میں جذبہ قربانی نہیں ہے۔علی نہ انہیں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ انہیں اپنے شیعوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

۵۳۶

وسَيْفاً قَاطِعاً ورُكْناً دَافِعاً - وقَدْ كُنْتُ حَثَثْتُ النَّاسَ عَلَى لَحَاقِه - وأَمَرْتُهُمْ بِغِيَاثِه قَبْلَ الْوَقْعَةِ - ودَعَوْتُهُمْ سِرّاً وجَهْراً وعَوْداً وبَدْءاً - فَمِنْهُمُ الآتِي كَارِهاً ومِنْهُمُ الْمُعْتَلُّ كَاذِباً - ومِنْهُمُ الْقَاعِدُ خَاذِلًا - أَسْأَلُ اللَّه تَعَالَى أَنْ يَجْعَلَ لِي مِنْهُمْ فَرَجاً عَاجِلًا - فَوَاللَّه لَوْ لَا طَمَعِي عِنْدَ لِقَائِي عَدُوِّي فِي الشَّهَادَةِ - وتَوْطِينِي نَفْسِي عَلَى الْمَنِيَّةِ - لأَحْبَبْتُ أَلَّا أَلْقَى مَعَ هَؤُلَاءِ يَوْماً وَاحِداً - ولَا أَلْتَقِيَ بِهِمْ أَبَداً.

(۳۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أخيه عقيل بن أبي طالب - في ذكر جيش أنفذه إلى بعض الأعداء

وهو جواب كتاب كتبه إليه عقيل

فَسَرَّحْتُ إِلَيْه جَيْشاً كَثِيفاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ - فَلَمَّا بَلَغَه ذَلِكَ شَمَّرَ هَارِباً ونَكَصَ نَادِماً - فَلَحِقُوه بِبَعْضِ الطَّرِيقِ - وقَدْ طَفَّلَتِ الشَّمْسُ لِلإِيَابِ

میری تیغ بران اورمیرے دفاعی ستون میں نے لوگوں کو ان سے ملحق ہو جانے پرآمادہ کیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ سے پہلے ان کی مدد کو پہنچ جائیں اور انہیں خفیہ اورعلانیہ ہر طرح دعوتعمل دی تھی اور بار بار آوازدی تھی لیکن بعض افراد بادل نا خواستہ آئے اور بعض نے جھوٹے بہانے کردئیے ۔کچھ تو میرے حکم کو نظرانداز کر کے گھر ہی میں بیٹھے رہ گئے ۔اب میں پروردگار سے دعاکرتا ہوں کہ مجھے ان کی طرف سے جلد کشائش امر عنایت فرمادے کہ خدا کی قسم اگر مجھے دشمن سے ملاقات کرکے وقت شہادت کی آرزو نہ ہوتی اور میں نے اپنے نفس کو موت کے لئے آمادہ نہ کرلیا ہوتا تو میں ہرگز یہ پسند نہ کرتا کہ ان لوگوں کے ساتھ ایک دن بھی دشمن سے مقابلہ کروں یا خود ان لوگوں سے ملاقات کروں۔

(۳۶)

آپ کامکتوب گرامی

(اپنے بھائی عقیل کے نام جس میں اپنے بعض لشکروں کا ذکر فرمایا ہے اور یہ درحقیقت عقیل کے مکتوب کا جواب دے )

پس میں نے اس کی طرف مسلمانوں کا ایک لشکر عظیم روانہ کردیا اورجب اسے اس امرکی اطلاع ملی تو اس نے دامن سمیٹ کر فرار اختیار کیا۔اور پشیمان ہو کر پیچھے ہٹ گیا تو ہمارے لشکرنے اسے راستہ میں جالیا جب کہ سورج ڈوبنے

۵۳۷

فَاقْتَتَلُوا شَيْئاً كَلَا ولَا - فَمَا كَانَ إِلَّا كَمَوْقِفِ سَاعَةٍ حَتَّى نَجَا جَرِيضاً - بَعْدَ مَا أُخِذَ مِنْه بِالْمُخَنَّقِ - ولَمْ يَبْقَ مِنْه غَيْرُ الرَّمَقِ - فَلأْياً بِلأْيٍ مَا نَجَا - فَدَعْ عَنْكَ قُرَيْشاً وتَرْكَاضَهُمْ فِي الضَّلَالِ - وتَجْوَالَهُمْ فِي الشِّقَاقِ وجِمَاحَهُمْ فِي التِّيه - فَإِنَّهُمْ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَى حَرْبِي - كَإِجْمَاعِهِمْ عَلَى حَرْبِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قَبْلِي - فَجَزَتْ قُرَيْشاً عَنِّي الْجَوَازِي - فَقَدْ قَطَعُوا رَحِمِي وسَلَبُونِي سُلْطَانَ ابْنِ أُمِّي

وأَمَّا مَا سَأَلْتَ عَنْه مِنْ رَأْيِي فِي الْقِتَالِ - فَإِنَّ رَأْيِي قِتَالُ الْمُحِلِّينَ حَتَّى أَلْقَى اللَّه - لَا يَزِيدُنِي كَثْرَةُ النَّاسِ حَوْلِي عِزَّةً - ولَا تَفَرُّقُهُمْ عَنِّي وَحْشَةً - ولَا تَحْسَبَنَّ ابْنَ أَبِيكَ - ولَوْ أَسْلَمَه النَّاسُ مُتَضَرِّعاً مُتَخَشِّعاً - ولَا مُقِرّاً لِلضَّيْمِ وَاهِناً - ولَا سَلِسَ الزِّمَامِ لِلْقَائِدِ - ولَا وَطِيءَ الظَّهْرِ لِلرَّاكِبِ

کے قریب تھا نتیجہ یہ ہوا کہدونوں میں ایک مختصر جھڑپ ہوئی اورایک ساعت نہ گزرنے پائی تھی کہ اس نے بھاگ کر نجات حاصل کرلی جب کہ اسے گلے سے پکڑا جا چکا تھا اورچند سانسوں کے علاوہ کچھ باقی نہ رہ گیا تھا۔اس طرح بڑی مشکل سے اس نے جان بچائی لہٰذا اب قریش اور گمراہی میں ان کی تیز رفتاری اور تفرقہ میں ان کی گردش اور ضلالت میں ان کی منہ زوری کا ذکر چھوڑ دو کہ ان لوگوں نے مجھ سے جنگ پر ویسے ہی اتفاق کرلای ہے جس طرح رسول اکرم (ص) سے جنگ پر اتفاق کیا تھا ۔اب اللہ ہی قریش کو ان کے کئے کا بدلہدے کہ انہوں نے میر ی قرابت کا رشتہ توڑ دیا اور مجھ سے میرے ماں جائے(۱) کی حکومت سلب کرلی۔

اور یہ جو تم نے جنگ کے بارے میں میری رائے دریافت کی ہے تو میری رائے یہی ہے کہ جن لوگوں نے جنگ کو حلال بنا رکھا ہے ان سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ مالک کی بارگاہ میں حاضر ہو جائوں۔میرے گرد لوگوں کا اجتماع میری عزت میں اضافہ نہیں کر سکتا ہے اور نہ ان کا متفرق ہوجانا میری وحشت میں اضافہ کرسکتا ہے اور میرے برادر اگر تمام لوگ بھی میرا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ مجھے کمزوراورخوفزدہ نہ پائیں گے اورظلم کا اقرارکرنے والا۔کمزور اور کسی قائد کے ہاتھ میں آسانی سے زمام پکڑا دینے والا اور کسی سوارکے لئے سواری کی

(۱) مولائے کائنات نے سرکار دوعالم (ص) کو '' ابن امی '' کے لفظ سے یاد فرمایا ہے اس لئے کہ سرکاردوعالم (ص) مسلسل آپ کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد کو اپنی ماں کے لفظ سے یاد فرمایا کرتے تھے '' ھی امی بعد امی ''

۵۳۸

الْمُتَقَعِّدِ - ولَكِنَّه كَمَا قَالَ أَخُو بَنِي سَلِيمٍ:

فَإِنْ تَسْأَلِينِي كَيْفَ أَنْتَ فَإِنَّنِي

صَبُورٌ عَلَى رَيْبِ الزَّمَانِ صَلِيبُ

يَعِزُّ عَلَيَّ أَنْ تُرَى بِي كَآبَةٌ

فَيَشْمَتَ عَادٍ أَوْ يُسَاءَ حَبِيبُ

(۳۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَسُبْحَانَ اللَّه - مَا أَشَدَّ لُزُومَكَ لِلأَهْوَاءَ الْمُبْتَدَعَةِ والْحَيْرَةِ الْمُتَّبَعَةِ - مَعَ تَضْيِيعِ الْحَقَائِقِ واطِّرَاحِ الْوَثَائِقِ - الَّتِي هِيَ لِلَّه طِلْبَةٌ وعَلَى عِبَادِه حُجَّةٌ - فَأَمَّا إِكْثَارُكَ الْحِجَاجَ عَلَى عُثْمَانَ وقَتَلَتِه - فَإِنَّكَ إِنَّمَا نَصَرْتَ عُثْمَانَ حَيْثُ كَانَ النَّصْرُ لَكَ - وخَذَلْتَه حَيْثُ كَانَ النَّصْرُ لَه والسَّلَامُ.

سہولت دینے والا پائیں گے ۔بلکہ میری وہی صورت حال ہوگی جس کے بارے میں قبیلہ بنی سلیم والے نے کہا ہے۔:

'' اگر تو میری حالت کے بارے میں دریافت کر رہی ہے تو سمجھ لے کرمیں زمانہ کے مشکلات میں صبر کرنے والا اورمستحکم ارادہ والا ہوں میرے لئے نا قابل برداشت ہے کہ مجھے پریشان حال دیکھا جائے اوردشمن طعنے دے یا دوست اس صورت حال سے رنجیدہ ہو جائے ''

(۳۷)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام)

اے سبحان اللہ۔تو نئی نئی خواہشات اورزحمت میں ڈالنے والی حیرت و سر گردانی سے کس قدر چپکا ہوا ہے جب کہ تونے حقائق کو برباد کردیا ہے اوردلائل کو ٹھکرادیا ہے جو الہ کو مطلوب اوربندوں پر اس کی حجت ہیں۔ رہ گیا تمہارا عثمان اور ان کے قالوں کے بارے میں جھگڑا بڑھانا تواس کامختصر جواب یہ ہے کہ تم نے عثمان کی مدد اس وقت کی ہے جب مدد میں تمہارا فائدہ تھا اور اس وقت لاوارث چھوڑ دیا تھا جب(۱) مددمیں ان کا فائدہ تھا۔ والسلام

(۱) ابن ابی الحدید نے بلا ذری کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ عثمان کے محاصرہ کے دورمیں معاویہ نے شام سے ایک فوج یزید بن اسد قسری کی سرکردگی میں روانہ کی اور اسے ہدایت دیدی کہ مدینہ کے باہر مقام ذی خشب میں مقیم رہیں اورکسی بھی صورت میں میرے حکم کے بغیر مدینہ میں داخل نہ ہوں۔چنانچہ فوج اسی مقام پر حالات کا جائزہ لیتی رہی اورقتل عثمان کے بعد واپس شام بلا لی گئی۔جس کا کھلا ہوا مفہوم یہ تھا کہ اگرانقلابی جماعت کامیاب نہ ہو سکے تواس فوج کی مدد سے عثمان کاخاتمہ کرادیا جائے اور اس کے بعد خون عثمان کاہنگامہ کھڑا کرکے علی سے خلافت سلب کرلی جائے ۔

۵۳۹

(۳۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل مصر لما ولى عليهم الأشتر

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ - إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ غَضِبُوا لِلَّه – حِينَ عُصِيَ فِي أَرْضِه وذُهِبَ بِحَقِّه - فَضَرَبَ الْجَوْرُ سُرَادِقَه عَلَى الْبَرِّ والْفَاجِرِ - والْمُقِيمِ والظَّاعِنِ - فَلَا مَعْرُوفٌ يُسْتَرَاحُ إِلَيْه - ولَا مُنْكَرٌ يُتَنَاهَى عَنْه.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ إِلَيْكُمْ عَبْداً مِنْ عِبَادِ اللَّه - لَا يَنَامُ أَيَّامَ الْخَوْفِ - ولَا يَنْكُلُ عَنِ الأَعْدَاءِ سَاعَاتِ الرَّوْعِ - أَشَدَّ عَلَى الْفُجَّارِ مِنْ حَرِيقِ النَّارِ - وهُوَ مَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ أَخُو مَذْحِجٍ - فَاسْمَعُوا لَه وأَطِيعُوا أَمْرَه فِيمَا طَابَقَ الْحَقَّ - فَإِنَّه سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّه - لَا كَلِيلُ الظُّبَةِ ولَا نَابِي الضَّرِيبَةِ - فَإِنْ أَمَرَكُمْ أَنْ تَنْفِرُوا فَانْفِرُوا - وإِنْ أَمَرَكُمْ أَنْ تُقِيمُوا فَأَقِيمُوا -

(۳۸)

آپ کامکتوب گرامی

(مالک اشتر کی ولایت کےموقع پر اہل مصرکے نام )

بندۂ خدا ! امیر المومنین علی کی طرف سے۔ اس قوم کے نام جس نے خداکے لئے اپنے غضب کا اظہار کیا جب اس کی زمین میں اس کی معصیت کی گئی اور اس کے حق کو برباد کردیا گیا۔ظلم نے ہر نیک و بدکاراور مقیم و مسافر پراپنے شامیانے تان دئیے اور نہ کوئی نیکی رہ گئی جس کے زیر سایہ آرام لیا جا سکے اور نہ کوئی ایسی برائی رہگئی جس سے لوگ پرہیز کرتے ۔

امابعد! میں نے تمہاری طرف بندگان خدا میں سے ایک ایسے بندہ کو بھیجا ہے جو خوف کے دنوں میں سوتا نہیں ہے اوردہشت کے اوقات میں دشمنوں سے خوفزدہ نہیں ہوت ہے اور فاجروں کے لئے آگ کی گرمی سے زیادہ شدید تر ہے اور اس کا نام مالک بن اشتر مذحجی ہے لہٰذا تم لوگاس کی بات سنواوراس کے ان اوامرکی اطاعت کرو جو مطابق حق ہیں کہوہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے(۱) جس کی تلوار کند نہیں ہوتی ہے اور جس کا وار اچٹ نہیں سکتا ہے۔وہ اگرکوچ کرنے کاحکم دے تونکل کھڑے ہو اور اگر ٹھہرنے کے لئے کہے تو فوراً ٹھہر جائو اس لئے کہ

(۱) افسوس کہ عالم اسلام نے یہ لقب خالد بن الولید کو دے دیا ہے جس نے جناب مالک بن نویرہ کوبے گناہ قتل کرکے اسی رات کی زوجہ سے تعلقات قائم کرلئے اوراس پر حضرت عمر تک نے اپنی برہمی کا اظہار کیا لیکن حضرت ابو بکر نے سیاسی مصالح کے تحت انہیں ''سیف اللہ '' قرار دے کر اتنے سنگین جرم سے بری کردیا۔انا للہ

۵۴۰