نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 683699 / ڈاؤنلوڈ: 16597
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

والشَّفَقَةِ مِنْ سُخْطِه فَإِنَّه لَمْ يَأْمُرْكَ إِلَّا بِحَسَنٍ - ولَمْ يَنْهَكَ إِلَّا عَنْ قَبِيحٍ.

يَا بُنَيَّ إِنِّي قَدْ أَنْبَأْتُكَ عَنِ الدُّنْيَا وحَالِهَا - وزَوَالِهَا وانْتِقَالِهَا - وأَنْبَأْتُكَ عَنِ الآخِرَةِ ومَا أُعِدَّ لأَهْلِهَا فِيهَا - وضَرَبْتُ لَكَ فِيهِمَاالأَمْثَالَ - لِتَعْتَبِرَ بِهَا وتَحْذُوَ عَلَيْهَا - إِنَّمَا مَثَلُ مَنْ خَبَرَ الدُّنْيَا كَمَثَلِ قَوْمٍ سَفْرٍ - نَبَا بِهِمْ مَنْزِلٌ جَدِيبٌ - فَأَمُّوا مَنْزِلًا خَصِيباً وجَنَاباً مَرِيعاً - فَاحْتَمَلُوا وَعْثَاءَ الطَّرِيقِ وفِرَاقَ الصَّدِيقِ - وخُشُونَةَ السَّفَرِ وجُشُوبَةَ المَطْعَمِ - لِيَأْتُوا سَعَةَ دَارِهِمْ ومَنْزِلَ قَرَارِهِمْ - فَلَيْسَ يَجِدُونَ لِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ أَلَماً - ولَا يَرَوْنَ نَفَقَةً فِيه مَغْرَماً - ولَا شَيْءَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِمَّا قَرَّبَهُمْ مِنْ مَنْزِلِهِمْ - وأَدْنَاهُمْ مِنْ مَحَلَّتِهِمْ.

ومَثَلُ مَنِ اغْتَرَّ بِهَا كَمَثَلِ قَوْمٍ كَانُوا بِمَنْزِلٍ خَصِيبٍ - فَنَبَا بِهِمْ إِلَى مَنْزِلٍ جَدِيبٍ

کے خوف اورناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں۔اس نے جس چیز کاحکم اطاعت کی طلب ' عتاب کے خوفاور ناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں۔اس نے جس چیزکا حکم دیا ہیوہ بہترین ہے اورجس سے منع کیا ہے وہ بد ترین ہے۔

فرزند! میں تمہیں دنیا۔اس کے حالات ۔ تصرفات ، زوال اور انتقال سب کے بارے میں با خبر کردیا ہے اورآخرت اور ا س میں صاحبان ایمان کے لئے مہیا نعمتوں کا بھی پتہ بتادیاہے اور دونوں کے لئے مثالیں بیان کردی ہیںتاکہ تم عبرت حاصل کرس کو اور اس سے ہوشیار رہو۔

یاد رکھو کہ جس نے دنیا کو بخوبی پہچان لیا ہے اس کی مثال اس مسافر قوم جیسی ہے۔جس کاحقط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوجائے اوروہ کسی سرسبز و شاداب علاقہ کا ارادہ کرے اورزحمت راہ۔فراق احباب ' دشواری سفر ' بدمزگی اطعام وغیرہ جیسی تمام مصیبتیں برداشت کرلے تاکہ وسیع گھر اور قرار کی منزل تک پہنچ جائے کہ ایسے لوگ ان تمام باتوں میں کسی تکلیف کا احساس نہیں کرتے اور نہ اس راہ میں خرچ کو نقصان تصور کرتے ہیں اور ان کی نظر میں اس سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں ہ جو انہیں منزل سے قریب تر کردے اور اپنے مرکز تک پہنچادے ۔

اوراس دنیا سے دھوکہ کھاجانے والوں کی مثال اس قوم کی ہے جو سرسبز و شاداب مقام پر رہے اور وہاں سے دلاچٹ جائے تو قحط زدہ علاقہ کی طرف چلی جائے

۵۲۱

- فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَه إِلَيْهِمْ ولَا أَفْظَعَ عِنْدَهُمْ - مِنْ مُفَارَقَةِ مَا كَانُوا فِيه - إِلَى مَا يَهْجُمُونَ عَلَيْه ويَصِيرُونَ إِلَيْه.

يَا بُنَيَّ اجْعَلْ نَفْسَكَ مِيزَاناً فِيمَا بَيْنَكَ وبَيْنَ غَيْرِكَ - فَأَحْبِبْ لِغَيْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ - واكْرَه لَه مَا تَكْرَه لَهَا - ولَا تَظْلِمْ كَمَا لَا تُحِبُّ أَنْ تُظْلَمَ - وأَحْسِنْ كَمَا تُحِبُّ أَنْ يُحْسَنَ إِلَيْكَ - واسْتَقْبِحْ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَسْتَقْبِحُه مِنْ غَيْرِكَ - وارْضَ مِنَ النَّاسِ بِمَا تَرْضَاه لَهُمْ مِنْ نَفْسِكَ - ولَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ وإِنْ قَلَّ مَا تَعْلَمُ - ولَا تَقُلْ مَا لَا تُحِبُّ أَنْ يُقَالَ لَكَ.

واعْلَمْ أَنَّ الإِعْجَابَ ضِدُّ الصَّوَابِ وآفَةُ الأَلْبَابِ - فَاسْعَ فِي كَدْحِكَ ولَا تَكُنْ خَازِناً لِغَيْرِكَ - وإِذَا أَنْتَ هُدِيتَ لِقَصْدِكَ فَكُنْ أَخْشَعَ مَا تَكُونُ لِرَبِّكَ.

واعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ طَرِيقاً ذَا مَسَافَةٍ بَعِيدَةٍ - ومَشَقَّةٍ شَدِيدَةٍ - وأَنَّه لَا غِنَى بِكَ فِيه عَنْ حُسْنِ الِارْتِيَادِ - وقَدْرِ بَلَاغِكَ مِنَ الزَّادِ

کہ اس کی نظرمیں قدیم حالات کے چھٹ جانے سے زیادہ نا گوار اوردشوار گذار کوئی شے نہیں ہے کہ اب جس منزل پروارد ہوئے ہیں اور جہاں تک پہنچے ہیں وہ کسی قیمت پر اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔

بیٹا! دیکھو اپنے اورغیرکے درمیان میزان اپنے نفس کو قرار دو اور دوسرے کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرسکتے ہو اور اس کے لئے بھی وہ بات نا پسند کرو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو۔کسی پر ظلم نہ کرناکہ اپنے اوپر ظلم پسند نہیں کرتے ہو اور ہرایک کے ساتھ نیکی کرنا جس طرح چاہتے ہو کہ سب تمہارے ساتھ نیک برتائو کریں اور جس چیز کو دوسرے سے برا سمجھتے ہواسے اپنے لئے بھی برا ہی تصور کرنا۔لوگوں کی اس بات سے راضی ہو جانا جس سے اپنی بات سے لوگوں کو راضی کرنا چاہتے ہو۔بلا علم کوئی بات زبان سے نہ نکالنا اگرچہ تمہارا علم بہت کم ہے اور کسی کے بارے میں وہ بات نہ کہنا جو اپنے بارے میں پسند نہ کرتے ہو۔

یاد رکھو کہ خود پسندی راہ صواب کے خلاف اورعقلوں کی بیماری ہے لہٰذا اپنی کوشش تیز تر کرواور اپنے مال کودوسروں کے لئے ذخیرہ نہ بنائو اور اگر درمیانی راستہ کی ہدایت مل جائے تو اپنے رب کے سامنے سب سے زیادہ خضو ع و خشوع سے پیش آنا۔

اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے وہ راستہ ہے جس کی مسافت بعید اورمشقت شدید ہے اس میں تم بہترین زاد راہ کی تلاش اوربقدر ضرورت زاد راہ کی فراہمی سے

۵۲۲

مَعَ خِفَّةِ الظَّهْرِ - فَلَا تَحْمِلَنَّ عَلَى ظَهْرِكَ فَوْقَ طَاقَتِكَ - فَيَكُونَ ثِقْلُ ذَلِكَ وَبَالًا عَلَيْكَ - وإِذَا وَجَدْتَ مِنْ أَهْلِ الْفَاقَةِ مَنْ يَحْمِلُ لَكَ زَادَكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ - فَيُوَافِيكَ بِه غَداً حَيْثُ تَحْتَاجُ إِلَيْه - فَاغْتَنِمْه وحَمِّلْه إِيَّاه - وأَكْثِرْ مِنْ تَزْوِيدِه وأَنْتَ قَادِرٌ عَلَيْه - فَلَعَلَّكَ تَطْلُبُه فَلَا تَجِدُه - واغْتَنِمْ مَنِ اسْتَقْرَضَكَ فِي حَالِ غِنَاكَ - لِيَجْعَلَ قَضَاءَه لَكَ فِي يَوْمِ عُسْرَتِكَ.

واعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ عَقَبَةً كَئُوداً - الْمُخِفُّ فِيهَا أَحْسَنُ حَالًا مِنَ - والْمُبْطِئُ عَلَيْهَا أَقْبَحُ حَالًا مِنَ الْمُسْرِعِ - وأَنَّ مَهْبِطَكَ بِهَا لَا مَحَالَةَ - إِمَّا عَلَى جَنَّةٍ أَوْ عَلَى نَارٍ - فَارْتَدْ لِنَفْسِكَ قَبْلَ نُزُولِكَ ووَطِّئِ الْمَنْزِلَ قَبْلَ حُلُولِكَ - فَلَيْسَ بَعْدَ الْمَوْتِ مُسْتَعْتَبٌ ولَا إِلَى الدُّنْيَا مُنْصَرَفٌ

واعْلَمْ أَنَّ الَّذِي بِيَدِه خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضِ - قَدْ أَذِنَ لَكَ فِي الدُّعَاءِ - وتَكَفَّلَ لَكَ بِالإِجَابَةِ وأَمَرَكَ أَنْ تَسْأَلَه لِيُعْطِيَكَ - وتَسْتَرْحِمَه لِيَرْحَمَكَ،ولَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وبَيْنَه مَنْ يَحْجُبُكَ عَنْه - ولَمْ يُلْجِئْكَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكَ إِلَيْه

بے نیاز ہو سکتے ہو۔البتہ بوجھ ہلکا رکھو اور اپنی طاقت سے زیادہ اپنی پشت پر بوجھ مت لادو کہ یہ گراں باری ایک و بال بن جائے ۔اور پھر جب کوئی فقیر مل جائے اور تمہارے زاد راہ کو قیامت تک پہنچا سکتا ہو اور کل وقت ضرورت مکمل طریقہ سے تمہارے حوالے کر سکتا ہو تو اسے غنیمت سمجھو اورمال اسی کے حوالے کردو اور زیادہ سے زیادہ اس کو دے دو کہ شائد بعد میں تلاش کرو اور وہ نہ مل سکے اور اسے بھی غنیمت سمجھو جو تمہاری دولت مندی کے دورمیں تم سے قرض مانگے تاکہ اس دن ادا کردے جب تمہاری غربت کا دن ہو۔

اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے بڑی دشوار گزار منزل ہے جس میں ہلکے بوجھ والا سنگین بار والے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا اوردھیرے چلنے والا تیزرفتار سے کہیں زیادہ بدحال ہوگا اور تمہاری منزل بہرحال جنت یا جہنم ہے لہٰذا اپنے نفس کے لئے منزل سے پہلے جگہ تلاش کرلو اور ورود سے پہلے اسے ہموار کرلو کہ موت کے بعد نہ خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی امکان ہوگا اور نہ دنیا میں واپس آنے کا۔

یاد رکھو کہ جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کے تمام خزانے ہیں اسنے تم کو دعا کرنے کا حکم دیا ہے اورقبولیت کی ضمانت دی ہے اور تمہیں مامور کیا ہے کہ تم سوال کرو تاکہ وہ عطا کرے اور تم طلب رحمت کرو تاکہوہ تم پر رحم کرے اس نے تمہارے اور اپنے درمیان کوئی حاجب نہیں رکھا ہے اور نہ تمہیں کسی سفارش

۵۲۳

ولَمْ يَمْنَعْكَ إِنْ أَسَأْتَ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَمْ يُعَاجِلْكَ بِالنِّقْمَةِ - ولَمْ يُعَيِّرْكَ بِالإِنَابَةِ ولَمْ يَفْضَحْكَ حَيْثُ الْفَضِيحَةُ بِكَ أَوْلَى - ولَمْ يُشَدِّدْ عَلَيْكَ فِي قَبُولِ الإِنَابَةِ - ولَمْ يُنَاقِشْكَ بِالْجَرِيمَةِ - ولَمْ يُؤْيِسْكَ مِنَ الرَّحْمَةِ - بَلْ جَعَلَ نُزُوعَكَ عَنِ الذَّنْبِ حَسَنَةً - وحَسَبَ سَيِّئَتَكَ وَاحِدَةً - وحَسَبَ حَسَنَتَكَ عَشْراً - وفَتَحَ لَكَ بَابَ الْمَتَابِ وبَابَ الِاسْتِعْتَابِ - فَإِذَا نَادَيْتَه سَمِعَ نِدَاكَ - وإِذَا نَاجَيْتَه عَلِمَ نَجْوَاكَ - فَأَفْضَيْتَ إِلَيْه بِحَاجَتِكَ - وأَبْثَثْتَه ذَاتَ نَفْسِكَ وشَكَوْتَ إِلَيْه هُمُومَكَ - واسْتَكْشَفْتَه كُرُوبَكَ واسْتَعَنْتَه عَلَى أُمُورِكَ - وسَأَلْتَه مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَتِه مَا لَا يَقْدِرُ عَلَى إِعْطَائِه غَيْرُه - مِنْ زِيَادَةِ الأَعْمَارِ وصِحَّةِ الأَبْدَانِ - وسَعَةِ الأَرْزَاقِ - ثُمَّ جَعَلَ فِي يَدَيْكَ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِه - بِمَا أَذِنَ لَكَ فِيه مِنْ مَسْأَلَتِه - فَمَتَى شِئْتَ اسْتَفْتَحْتَ بِالدُّعَاءِ أَبْوَابَ نِعْمَتِه - واسْتَمْطَرْتَ شَآبِيبَ رَحْمَتِه - فَلَا يُقَنِّطَنَّكَ إِبْطَاءُ إِجَابَتِه - فَإِنَّ الْعَطِيَّةَ عَلَى قَدْرِ النِّيَّةِ - ورُبَّمَا أُخِّرَتْ عَنْكَ الإِجَابَةُ لِيَكُونَ ذَلِكَ أَعْظَمَ لأَجْرِ السَّائِلِ -

کرنے والے کا محتاج بنایا ہے ۔گناہ کرنے کی صورت میں توبہ سے بھی نہیں روکا ہے اور عذاب میں جلدی بھی نہیں کی ہے اور توبہ کرنے پر طعنے بھی نہیں دیتا ہے اور تمہیں رسوابھی نہیں کرتا ہے اگر تم اس کے حقدار ہو۔اس نے توبہ قبول کرنے میں بھی کسی سختی سے کام نہیں لیا ہے اور جرائم پر سخت محاسبہ کرکے رحمت سے مایوس بھی نہیں کیا ہے بلکہ گناہوں سے علیحدگی کو بھی ایک حسنہ بنادیا ہے اور پھرب رائی میں ایککو ایک شمار کیا ہے اورنیکیوں میں ایک کو دس بنادا ہے۔توبہ اور طلب رضا کا دروازہ کھول دیا ہے کہ جب بھی آواز دو فوراً سن لیتا ہے اور جب مناجات کرو تو اس سے بھی با خبر رہتا ہے تم اپنی حاجتیں اس کے حوالے کر سکتے ہو۔اسے اپنے حالات بتا سکتے ہو ۔اپنے رنج و غم کی شکایت کر سکتے ہو۔ اپنے حزن و الم کے زوال کا مطالبہ کرس کتے ہو۔انپے امور میں مدد مانگ سکتے ہو اور اس کے خزانہ رحمت سے اتنا سوال کر سکتے ہو جتنا کوئی دوسرا بہرحال نہیں دے سکتا ہے چاہے وہ عمر میں اضافہ ہو یا بدن کی صحت یا رزق کی وسعت۔اس کے بعد اس نے دعا کی اجازت دے کر گویا خزائن رحمت کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں کہ جب چاہو ان کنجیوں سے نعمت کے دروازے کھول سکتے ہواور رحمت کی بارشوں کو برسا سکتے ہو۔لہٰذا خبردار قبولیت کی تاخیرتمہیں مایوس نہ کردے کہ عطیہ ہمیشہ بقدر نیت ہوا کرتا ہے اور کبھی کبھی قبولیت میں اس لئے تاخیر کردی جاتی ہے کہ اس میں سائل کے اجرمیں اضافہ

۵۲۴

وأَجْزَلَ لِعَطَاءِ الآمِلِ - ورُبَّمَا سَأَلْتَ الشَّيْءَ فَلَا تُؤْتَاه - وأُوتِيتَ خَيْراً مِنْه عَاجِلًا أَوْ آجِلًا - أَوْ صُرِفَ عَنْكَ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ - فَلَرُبَّ أَمْرٍ قَدْ طَلَبْتَه فِيه هَلَاكُ دِينِكَ لَوْ أُوتِيتَه - فَلْتَكُنْ مَسْأَلَتُكَ فِيمَا يَبْقَ لَكَ جَمَالُه - ويُنْفَى عَنْكَ وَبَالُه - فَالْمَالُ لَا يَبْقَى لَكَ ولَا تَبْقَى لَه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّكَ إِنَّمَا خُلِقْتَ لِلآخِرَةِ لَا لِلدُّنْيَا - ولِلْفَنَاءِ لَا لِلْبَقَاءِ ولِلْمَوْتِ لَا لِلْحَيَاةِ - وأَنَّكَ فِي قُلْعَةٍ ودَارِ بُلْغَةٍ - وطَرِيقٍ إِلَى الآخِرَةِ - وأَنَّكَ طَرِيدُ الْمَوْتِ الَّذِي لَا يَنْجُو مِنْه هَارِبُه - ولَا يَفُوتُه طَالِبُه ولَا بُدَّ أَنَّه مُدْرِكُه فَكُنْ مِنْه عَلَى حَذَرِ أَنْ يُدْرِكَكَ وأَنْتَ عَلَى حَالٍ سَيِّئَةٍ - قَدْ كُنْتَ تُحَدِّثُ نَفْسَكَ مِنْهَا بِالتَّوْبَةِ - فَيَحُولَ بَيْنَكَ وبَيْنَ ذَلِكَ - فَإِذَا أَنْتَ قَدْ أَهْلَكْتَ نَفْسَكَ.

ذكر الموت

يَا بُنَيَّ أَكْثِرْ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ وذِكْرِ مَا تَهْجُمُ عَلَيْه - وتُفْضِي بَعْدَ الْمَوْتِ إِلَيْه - حَتَّى يَأْتِيَكَ

اور امیدوا ر کے عطیہ میں زیادتی کا امکان پایا جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کا سوال کرو اور وہ نہ ملے لیکن اس کے بعد جلد یا بدیر اس سے بہتر مل جائے یا اسے تمہاری بھلائی کے لئے روک دیا گیا ہو۔اس لئے کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو تم نے طلب کیا ہے وہاگر مل جائے تو دین کی بربادی کاخطرہ ہے۔لہٰذا اسی چیز کا سوال کرو جس میں تمہارا حسن باقی رہے اور تم وبال سے محفوظ رہو۔مال نہ باقی رہنے والا ہے اور نہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔

فرزند ! یاد رکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایا گیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں ۔تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے لئے نہیں اورتم اس گھر میں ہو جہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہے۔اور تم آخرت کے راستہ پر ہو۔موت مہارا پیچھا کئے ہوئے ہے جس سے کوئی بھاگنے والا بچ نہیں سکتا ہے اور اس کے ہاتھ سے نکل نہیں سکتا ہے۔وہ بہر حال اسے پالے گی۔لہٰذا اس کی طرف سے ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں کسی برے حال میں پکڑ لے اورتم خالی توبہ کے لئے سوچتے ہی رہ جائو اور وہ تمہارے اور توبہ کے درمیان حائل ہو جائے کہ اس طرح گویا تم نے اپنے نفس کو ہلاک کردیا۔

فرزند! موت کو برابر یاد کرتے رہو اور ان حالات کو یاد کرتے رہو جن پراچانک وارد ہونا ہے اور جہاں تک موت کے بعد جانا ہے تاکہ وہ تمہارے پاس آئے

۵۲۵

وقَدْ أَخَذْتَ مِنْه حِذْرَكَ - وشَدَدْتَ لَه أَزْرَكَ - ولَا يَأْتِيَكَ بَغْتَةً فَيَبْهَرَكَ - وإِيَّاكَ أَنْ تَغْتَرَّ بِمَا تَرَى مِنْ إِخْلَادِ أَهْلِ الدُّنْيَا إِلَيْهَا - وتَكَالُبِهِمْ عَلَيْهَا فَقَدْ نَبَّأَكَ اللَّه عَنْهَا - ونَعَتْ هِيَ لَكَ عَنْ نَفْسِهَا وتَكَشَّفَتْ لَكَ عَنْ مَسَاوِيهَا - فَإِنَّمَا أَهْلُهَا كِلَابٌ عَاوِيَةٌ وسِبَاعٌ ضَارِيَةٌ - يَهِرُّ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ ويَأْكُلُ عَزِيزُهَا ذَلِيلَهَا - ويَقْهَرُ كَبِيرُهَا صَغِيرَهَا - نَعَمٌ مُعَقَّلَةٌ وأُخْرَى مُهْمَلَةٌ - قَدْ أَضَلَّتْ عُقُولَهَا ورَكِبَتْ مَجْهُولَهَا - سُرُوحُ عَاهَةٍ بِوَادٍ وَعْثٍ ،لَيْسَ لَهَا رَاعٍ يُقِيمُهَا ولَا مُسِيمٌ يُسِيمُهَا - سَلَكَتْ بِهِمُ الدُّنْيَا طَرِيقَ الْعَمَى - وأَخَذَتْ بِأَبْصَارِهِمْ عَنْ مَنَارِ الْهُدَى - فَتَاهُوا فِي حَيْرَتِهَا وغَرِقُوا فِي نِعْمَتِهَا - واتَّخَذُوهَا رَبّاً فَلَعِبَتْ بِهِمْ ولَعِبُوا بِهَا - ونَسُوا مَا وَرَاءَهَا.

الترفق في الطلب

رُوَيْداً يُسْفِرُ الظَّلَامُ - كَأَنْ قَدْ وَرَدَتِ الأَظْعَانُ - يُوشِكُ مَنْ أَسْرَعَ أَنْ يَلْحَقَ

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّ مَنْ كَانَتْ مَطِيَّتُه اللَّيْلَ والنَّهَارَ - فَإِنَّه يُسَارُ بِه وإِنْ كَانَ وَاقِفاً

تو تم احتیاطی سامان کرچکے ہو اور اپنی طاقت کو مضبوط بنا چکے ہو اور وہ اچانک آکر تم پرقبضہ نہ کرلے اور خبردار اہل دنیا کو دنیا کی طرف جھکتے اور اس پرمرتے دیکھ کرتم دھوکہ میں نہ آجانا کہ پروردگار تمہیں اس کے بارے میں بتا چکا ہے اور وہ خود بھی اپنے مصائب سنا چکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح کر چکی ہے۔دنیا دار افراد صرف بھونکنے والے کتے اورپھاڑ کھانے والے درندے ہیں جہاں ایک دوسرے پر بھونکتا ہے اور طاقت والا کمزور کو کھا جاتا ہے اور بڑا چھوٹے کو کچل ڈالتا ہے۔یہ سب جانور ہیں جن میں بعض بندھے ہوئے ہیں اور بعض وارہ جنہوں نے اپنی عقلیں گم کردی ہیں اور نا معلوم راستہ پر چل پڑے ہیں۔گویا دشوار گذار وادیوں میں مصیبتوں میں چرنے والے ہیں جہاں نہ کوئی چرواہا ہے جو سیدھے راستہ پر لگا سکے اور نہکوئی چرانے والا ہے جو انہیں چرا سکے۔دنیا نے انہیں گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا ہے اور ان کی بصارت کو منارہ ٔ ہدایت کے مقابلہ میں سلب کرلیا ہے اوروہ حیرت کے عالم میں سر گرداں ہیں اورنعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔دنیا کو اپنا معبود بنالیا ہے اوروہ ان سے کھیل رہی ہے اوروہ اس سے کھیل روہے ہیں اور سب نے آخرت کو یکسر بھلا دیا ہے۔

ٹھہرو! اندھرے کو چھٹنے دو۔ایسا محسوس ہوگا جیسے قافلے آخرت کی منزل میں اتر چکے ہیں اور قریب ہے کہ تیز رفتار افراد اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائیں۔

فرزند ! یاد رکھو کہ جو شب و روز کی سواری پر سوار ہے وہ گویا سر گرم سفر ہے چاہے ٹھہرا ہی کیوں ن ہ

۵۲۶

ويَقْطَعُ الْمَسَافَةَ وإِنْ كَانَ مُقِيماً وَادِعاً

واعْلَمْ يَقِيناً أَنَّكَ لَنْ تَبْلُغَ أَمَلَكَ ولَنْ تَعْدُوَ أَجَلَكَ - وأَنَّكَ فِي سَبِيلِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ - فَخَفِّضْ فِي الطَّلَبِ وأَجْمِلْ فِي الْمُكْتَسَبِ - فَإِنَّه رُبَّ طَلَبٍ قَدْ جَرَّ إِلَى حَرَبٍ - ولَيْسَ كُلُّ طَالِبٍ بِمَرْزُوقٍ - ولَا كُلُّ مُجْمِلٍ بِمَحْرُومٍ - وأَكْرِمْ نَفْسَكَ عَنْ كُلِّ دَنِيَّةٍ - وإِنْ سَاقَتْكَ إِلَى الرَّغَائِبِ - فَإِنَّكَ لَنْ تَعْتَاضَ بِمَا تَبْذُلُ مِنْ نَفْسِكَ عِوَضاً - ولَا تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وقَدْ جَعَلَكَ اللَّه حُرّاً - ومَا خَيْرُ خَيْرٍ لَا يُنَالُ إِلَّا بِشَرٍّ - ويُسْرٍ لَا يُنَالُ إِلَّا بِعُسْرٍ

وإِيَّاكَ أَنْ تُوجِفَ بِكَ مَطَايَا الطَّمَعِ - فَتُورِدَكَ مَنَاهِلَ الْهَلَكَةِ - وإِنِ اسْتَطَعْتَ أَلَّا يَكُونَ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه ذُو نِعْمَةٍ فَافْعَلْ - فَإِنَّكَ مُدْرِكٌ قَسْمَكَ وآخِذٌ سَهْمَكَ - وإِنَّ الْيَسِيرَ مِنَ اللَّه سُبْحَانَه أَعْظَمُ وأَكْرَمُ مِنَ الْكَثِيرِ مِنْ خَلْقِه - وإِنْ كَانَ كُلٌّ مِنْه.

وصايا شتى

وتَلَافِيكَ مَا فَرَطَ مِنْ صَمْتِكَ

رہے اور مسافت قطع کررہا ہے چاہے اطمینان سے مقیم ہی کیوں نہ رہے۔یہ بات یقین کے ساتھ سمجھ لو کہ تم نہ ہر امید کو پا سکتے ہو اور نہ اجل سے آگے جاسکتے ہو تم اگلے لوگوں کے راستہ ہی پر چل رہے ہو لہٰذا طلب میں نرم رفتاری سے کام لو اور کسب معاش میں میانہ روی اختیار کرو۔ورنہ بہت سی طلب انسان کو مال کی محرومی تک پہنچا دیتی ہے اور ہر طلب کرنے والا کامیاب بھی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہر اعتدال سے کام لینے والا محروم ہی ہوت ہے۔اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے بلند تر رکھو چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہنچا ہی کیوں نہ دے ۔اس لئے کہ جو عزت نفس دے دو گے اس کا کوئی بدل نہیں مل سکتا اورخبردار کسی کے غلام نہبن جانا جب کہ پروردگار نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے۔دیکھو اس خیر میں کوئی خیر نہیں ہے جو شرکے ذریعہ حاصل ہو اوروہآسانی آسانی نہیں ہے جو دشواری کے راستہ سے ملے ۔

خبردار طمع کی سواریاں تیز رفتاری دکھلا کر تمہیں ہلاکت کے چشموں پرنہ وارد کردیں اور اگر ممکن ہو کہ تمہارے اور خدا کے درمیان کوئی صاحب نعمت نہ آنے پائے تو ایسا ہی کرو کہ تمہیں تمہارا حصہ بہر حال ملنے والا ہے۔اور اپنا نصیب بہر حال لینے والے ہو اوراللہ کی طرف سے تھوڑا بھی مخلوقات کے بہت سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔اگرچہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔

خاموشی سے پیدا ہونے والی کوتاہی کی تلافی

۵۲۷

أَيْسَرُ مِنْ إِدْرَاكِكَ مَا فَاتَ مِنْ مَنْطِقِكَ - وحِفْظُ مَا فِي الْوِعَاءِ بِشَدِّ الْوِكَاءِ - وحِفْظُ مَا فِي يَدَيْكَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ طَلَبِ مَا فِي يَدَيْ غَيْرِكَ - ومَرَارَةُ الْيَأْسِ خَيْرٌ مِنَ الطَّلَبِ إِلَى النَّاسِ - والْحِرْفَةُ مَعَ الْعِفَّةِ خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى مَعَ الْفُجُورِ - والْمَرْءُ أَحْفَظُ لِسِرِّه ورُبَّ سَاعٍ فِيمَا يَضُرُّه - مَنْ أَكْثَرَ أَهْجَرَ ومَنْ تَفَكَّرَ أَبْصَرَ - قَارِنْ أَهْلَ الْخَيْرِ تَكُنْ مِنْهُمْ - وبَايِنْ أَهْلَ الشَّرِّ تَبِنْ عَنْهُمْ - بِئْسَ الطَّعَامُ الْحَرَامُ - وظُلْمُ الضَّعِيفِ أَفْحَشُ الظُّلْمِ - إِذَا كَانَ الرِّفْقُ خُرْقاً كَانَ الْخُرْقُ رِفْقاً - رُبَّمَا كَانَ الدَّوَاءُ دَاءً والدَّاءُ دَوَاءً - ورُبَّمَا نَصَحَ غَيْرُ النَّاصِحِ وغَشَّ الْمُسْتَنْصَحُ - وإِيَّاكَ والِاتِّكَالَ عَلَى الْمُنَى فَإِنَّهَا بَضَائِعُ النَّوْكَى - والْعَقْلُ حِفْظُ التَّجَارِبِ - وخَيْرُ مَا جَرَّبْتَ مَا وَعَظَكَ - بَادِرِ الْفُرْصَةَ قَبْلَ أَنْ تَكُونَ غُصَّةً - لَيْسَ كُلُّ طَالِبٍ يُصِيبُ ولَا كُلُّ غَائِبٍ يَئُوبُ –

ومِنَ الْفَسَادِ إِضَاعَةُ الزَّادِ ومَفْسَدَةُ الْمَعَادِ -

کرلینا گفتگو سے ہونے والے نقصان کے تدارک سے آسان ترہے برتن کے اندر کا سامان منہ بند کرکے محفوظ کیا جاتا ہے اور اپنے ہاتھ کی دولت کا محفوظ کرلینا دوسرے کے ہاتھ کی نعمت کے طلب کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔مایوسی کی تلخی کوبرداشت کرنا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے س بہتر ہے اور پاکدامانی کے ساتھ محنت مشقت کرنا فسق و فجور کے ساتھ مالداری سے بہتر ہے۔

ہر انسان اپنے راز کو دوسروں سے زیادہ محفوظ رکھ سکتا ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو اس امر کے لئے دوڑ رہے ہیں جوان کے لئے نقصان دہ ہے ۔زیادہ بات کرنے والا بکواس کرنے لگتا ہے اور غوروفکر کرنے والا بصیر ہو جاتا ہے۔اہل خیرکے ساتھ رہو تاکہ انہیں میں شمار ہواوراہل شر سے الگ رہو تاکہ ان سے الگ حساب کئے جائو۔بدترین طعام مال حرام ہے اوربد ترین ظلم کمزورآدمی پر ظلم ہے۔نرمی نا مناسب ہو تو سختی ہی مناسب ہے۔کبھی کبھی دوا مرض بن جاتی ہے اورمرض دوا اور کبھی کبھی غیر مخلص بھی نصیحت کی بات کردیتا ہے اورکبھی کبھی مخلص بھی خیانت سے کام لے لیتا ہے۔دیکھو خبر دار خواہشات پر اعتماد نہکرنا کہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہیں۔عقلمندی تجربات کے محفوظ رکھنے میں ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے نصیحت حاصل ہو۔فرصت سے فائدہ اٹھائو قبل اس کے کہ رنج و اندوہ کا سامنا کرنا پڑے۔ہر طلب گار مطلوب کو حاصل بھی نہیں کرتا ہے اور ہر غائب پلٹ کربھی نہیں آتا ہے۔

فساد کی ایک قسم زاد راہ کاضائع کردینا اورعاقبت

۵۲۸

ولِكُلِّ أَمْرٍ عَاقِبَةٌ سَوْفَ يَأْتِيكَ مَا قُدِّرَ لَكَ - التَّاجِرُ مُخَاطِرٌ ورُبَّ يَسِيرٍ أَنْمَى مِنْ كَثِيرٍ لَا خَيْرَ فِي مُعِينٍ مَهِينٍ ولَا فِي صَدِيقٍ ظَنِينٍ - سَاهِلِ الدَّهْرَ مَا ذَلَّ لَكَ قَعُودُه - ولَا تُخَاطِرْ بِشَيْءٍ رَجَاءَ أَكْثَرَ مِنْه - وإِيَّاكَ أَنْ تَجْمَحَ بِكَ مَطِيَّةُ اللَّجَاجِ

احْمِلْ نَفْسَكَ مِنْ أَخِيكَ عِنْدَ صَرْمِه عَلَى الصِّلَةِ - وعِنْدَ صُدُودِه عَلَى اللَّطَفِ والْمُقَارَبَةِ - وعِنْدَ جُمُودِه عَلَى الْبَذْلِ - وعِنْدَ تَبَاعُدِه عَلَى الدُّنُوِّ - وعِنْدَ شِدَّتِه عَلَى اللِّينِ - وعِنْدَ جُرْمِه عَلَى الْعُذْرِ - حَتَّى كَأَنَّكَ لَه عَبْدٌ وكَأَنَّه ذُو نِعْمَةٍ عَلَيْكَ - وإِيَّاكَ أَنْ تَضَعَ ذَلِكَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِه - أَوْ أَنْ تَفْعَلَه بِغَيْرِ أَهْلِه - لَا تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّ صَدِيقِكَ صَدِيقاً فَتُعَادِيَ صَدِيقَكَ - وامْحَضْ أَخَاكَ النَّصِيحَةَ - حَسَنَةً كَانَتْ أَوْ قَبِيحَةً - وتَجَرَّعِ الْغَيْظَ فَإِنِّي لَمْ أَرَ جُرْعَةً أَحْلَى مِنْهَا عَاقِبَةً - ولَا أَلَذَّ مَغَبَّةً - ولِنْ لِمَنْ غَالَظَكَ فَإِنَّه يُوشِكُ أَنْ يَلِينَ لَكَ - وخُذْ عَلَى عَدُوِّكَ بِالْفَضْلِ فَإِنَّه أَحْلَى الظَّفَرَيْنِ -

کو برباد کر دینا بھی ہے۔ہر امر کی ایک عاقبت ہے اور عنقریب وہ تمہیں مل جائے گا جو تمہارے لئے مقدر ہوا ہے۔تجارتکرنے والا وہی ہوتا ہے جو مال کو خطرہ میں ڈال سکے ۔بسا اوقات تھوڑا مال زیادہ سے زیادہ با برکت ہوتا ہے۔اس مدد گار میں کوئی خیر نہیں ہے جو ذلیل ہو اور وہ دوست بیکار ہے جوبدنام ہو۔زمانہ ک ساتھ سہولت کا برتائو کرو جب تک اس کا اونٹ قابو میں رہے اور کسی چیز کو اس سے زیادہ کی امید میں خطرہ میں مت ڈالو۔خبر دار کہیں دشمنی اور عناد کی سواری تم سے منہ زوری نہ کرنے لگے۔

اپنے نفس کو اپنے بھائی کے بارے میں قطع تعلق کے مقابلہ میں تعلقات ' اعراض کے مقابلہ میں مہربانی بخل کے مقابلہ میں عطا ' دوری کے مقابلہ میں قربت ' شدت کے مقابل میں نرمی اورجرم کے موقع پر معذرت کے لئے آمادہ کرو گویا کہ تم اس کے بندے ہو اوراس نے تم پر کوئی احسان کیا ہے اور خبردار احسان کوبھی بے محل نہ قرار دینا اورنہ کسی نا اہل کے ساتھ احسان کرنا۔اپنے دشمن کے دوست کو اپنا دوست نہ بنانا کہ تم اپنے دوست کے دشمن ہو جائو اور اپنے بھائی کو مخلصانہ نصیحت کرتے رہنا چاہے اسے اچھی لگیں یا بری۔غصہ کو پی جائو کہ میں نے انجام کارکے اعتبارسے اس سے زیادہ یریں کوئی گھونٹ نہیں دیکھا ہے اورنہ عاقبت کے لحاظ سے لذیذ تر۔اور جو تمہارے ساتھ سختی کرے اس کے لئے نرم ہو جائو شاید کبھی وہ بھی نرم ہو جائے ۔اپنے دشمن کے ساتھ احسان کرو کہ اس میں دو میں سے ایک کامیابی اور شیریں

۵۲۹

وإِنْ أَرَدْتَ قَطِيعَةَ أَخِيكَ فَاسْتَبْقِ لَه مِنْ نَفْسِكَ - بَقِيَّةً يَرْجِعُ إِلَيْهَا إِنْ بَدَا لَه ذَلِكَ يَوْماً مَا - ومَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْراً فَصَدِّقْ ظَنَّه - ولَا تُضِيعَنَّ حَقَّ أَخِيكَ اتِّكَالًا عَلَى مَا بَيْنَكَ وبَيْنَه - فَإِنَّه لَيْسَ لَكَ بِأَخٍ مَنْ أَضَعْتَ حَقَّه - ولَا يَكُنْ أَهْلُكَ أَشْقَى الْخَلْقِ بِكَ - ولَا تَرْغَبَنَّ فِيمَنْ زَهِدَ عَنْكَ - ولَا يَكُونَنَّ أَخُوكَ أَقْوَى عَلَى قَطِيعَتِكَ مِنْكَ عَلَى صِلَتِه - ولَا تَكُونَنَّ عَلَى الإِسَاءَةِ أَقْوَى مِنْكَ عَلَى الإِحْسَانِ - ولَا يَكْبُرَنَّ عَلَيْكَ ظُلْمُ مَنْ ظَلَمَكَ - فَإِنَّه يَسْعَى فِي مَضَرَّتِه ونَفْعِكَ - ولَيْسَ جَزَاءُ مَنْ سَرَّكَ أَنْ تَسُوءَه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّ الرِّزْقَ رِزْقَانِ - رِزْقٌ تَطْلُبُه ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - مَا أَقْبَحَ الْخُضُوعَ عِنْدَ الْحَاجَةِ -

ترین کامیابی ہے اور اگراپنے بھائی سے قطع تعلق کرنا چاہو تو اپنے نفس میں اتنی گنجائش رکھو کہاگراسے کسی دن واپسی کاخیال پیدا ہو تو واپس آسکے ۔جو تمہارے بارے میں اچھا خیال رکھے اس کے خیال کو غلط نہ ہونے دینا۔باہمی روابط کی بناپر کسی بھائی کے حق کو ضائع نہ کرنا کہ جس کے حق کو ضائع کردیا پھروہ واقعاً بھائی نہیں ہے اور دیکھو تمہارے گھر والے تمہاری وجہ سے بد بخت نہ ہونے پائیں اورجو تم سے کنارہ کش ہونا چاہے اس کے پیچھے نہ لگے رہو۔تمہارا کوئی بھائی تم سےقطع تعلقات میں تم پربازی نہ لے جائے اورتم تعلقات مضبوط کرلو اورخبردار برائی کرنے میں نیکی کرنے سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ نہ کرنا اور کسی ظالم کے ظلم کو بہت بڑا تصور نہ کرنا کہوہ اپنے کو نقصان پہنچا رہا ہے اور تمہیں فائدہ پہنچا رہا ہے اور جو تمہیں فائدہ پہنچائے(۱) اس کی جزا یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ برائی کرو۔

اور فرزند ! یاد رکھو کہ رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کررہے ہو اورایک رزق وہ ہے(۲) جوتم کو تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ جائو گے تو وہ خود تم تک آجائے گا۔ضرورت کے وقت خضوع وخشوع کا اظہار کس قدر ذلیل ترین بات ہے

(۱) اس مسئلہ کاتعلق دنیامیں اخلاقی برتائو سے ہے ۔جہاں ظالموں کو اسلامی اخلاقیات سے آگاہ کیا جاتا ہے اور کبھی لشکر معاویہ پر بندش آب کو روکدیا جاتا ہے اور کبھی ابن ملجم کو سیراب کردیا جاتا ہے۔ورنہ اگر دین و مذہب خطرہ میں پڑ جائے تو مذہب سے زیادہ عزیز تر کوئی شے نہیں ہے اور ظالموں سے جہاد بھی واجب ہو جاتا ہے۔

(۲) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جہاں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ جیسے انسان رزق کی تلاش میں نہیں ہے بلکہ رزق انسان کو تلاش کر رہاہے اور انسان جہاں جہاں جا رہا ہے اس کا رزق اس کے ساتھ جارہا ہے۔اور پروردگار نے ایسے واقعات کا انتظام اسی لئے کیا ہے کہ انسان کو اس کی رزاقیت اورایفائے وعدہ کا یقین ہو جائے اوروہ رزق کی راہ میں عزت نفس یادار آرت کو بیچے کے لئے تیار نہ ہو جائے ۔

۵۳۰

والْجَفَاءَ عِنْدَ الْغِنَى - إِنَّمَا لَكَ مِنْ دُنْيَاكَ مَا أَصْلَحْتَ بِه مَثْوَاكَ - وإِنْ كُنْتَ جَازِعاً عَلَى مَا تَفَلَّتَ مِنْ يَدَيْكَ - فَاجْزَعْ عَلَى كُلِّ مَا لَمْ يَصِلْ إِلَيْكَ - اسْتَدِلَّ عَلَى مَا لَمْ يَكُنْ بِمَا قَدْ كَانَ - فَإِنَّ الأُمُورَ أَشْبَاه - ولَا تَكُونَنَّ مِمَّنْ لَا تَنْفَعُه الْعِظَةُ إِلَّا إِذَا بَالَغْتَ فِي إِيلَامِه - فَإِنَّ الْعَاقِلَ يَتَّعِظُ بِالآدَابِ - والْبَهَائِمَ لَا تَتَّعِظُ إِلَّا بِالضَّرْبِ -. اطْرَحْ عَنْكَ وَارِدَاتِ الْهُمُومِ بِعَزَائِمِ الصَّبْرِ - وحُسْنِ الْيَقِينِ - مَنْ تَرَكَ الْقَصْدَ جَارَ - والصَّاحِبُ مُنَاسِبٌ - والصَّدِيقُ مَنْ صَدَقَ غَيْبُه - والْهَوَى شَرِيكُ الْعَمَى - ورُبَّ بَعِيدٍ أَقْرَبُ مِنْ قَرِيبٍ - وقَرِيبٍ أَبْعَدُ مِنْ بَعِيدٍ - والْغَرِيبُ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَه حَبِيبٌ - مَنْ تَعَدَّى الْحَقَّ ضَاقَ مَذْهَبُه - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى قَدْرِه كَانَ أَبْقَى لَه - وأَوْثَقُ سَبَبٍ أَخَذْتَ بِه - سَبَبٌ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه سُبْحَانَه - ومَنْ لَمْ يُبَالِكَ فَهُوَ عَدُوُّكَ

اور بے نیازی کے عالم میں بد سلوکی کس قدر قبیح حرکت ہے۔اس دنیامیں تمہارا حصہ اتنا ہی ہے جس سے اپنی عاقبت کا انتظام کرس کو۔اور کسی چیزکے ہاتھ سے نکل جانے پر پریشنی کا اظہار کرنا ہے تو ہر اس چیز پر بھی فریاد کرو جو تم تک نہیں پہنچی ہے۔جو کچھ ہو چکا ہے اس کے ذریعہ اس کاپتہ لگائو جو ہونے والا ہے کہ معاملات تمام کے تمام ایک ہی جیسے ہیں اور خبردار ان لوگوں میں نہ ہو جائو جن پر اس وقت تک نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی ہے جب تک پوری طرح تکلیف نہ پہنچائی جائے اس لئے کہ انسان عاقل ادب سے نصیحت حاصل کرتا ہے اور جانور مار پیٹ سے سیدھا ہوتا ہے ۔دنیا میں وارد ہونے والے ہموم و آلام کو صبر کے عزائم اور یقین کے حسن کے ذریعہ کردو۔یاد رکھو کہ جس نے بھی اعتدال کو چھوڑاوہ منحرف ہوگیا۔ساتھی ایک طرح کا شریک نسب ہوتا ہے اور دوست وہ ہے جو غیبت میں بھی سچا دوست رہے۔خواہش اندھے پن کی شریک کار ہوتی ہے۔بہت سے دور والے ایسے ہوتے ہیں جو قریب والوں سے قریب تر ہوتے ہیں اور بہت سے قریب والے دور والوں سے زیادہ دور تر ہوتے ہیں ۔غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔جو حق سے آگے بڑھ جائے اس کے راستے تنگ ہو جاتے ہیں اورجو اپنی حیثیت پر قائم رہتا ہے اس کی عزت باقی رہ جاتی ہے۔تمہارے ہاتھوں میں مضبوط ترین وسیلہ تمہارا اورخدا کا رشتہ ہے۔اورجو تمہاری پروانہ کرے وہی تمہارادشمن ہے

۵۳۱

- قَدْ يَكُونُ الْيَأْسُ إِدْرَاكاً إِذَا كَانَ الطَّمَعُ هَلَاكاً - لَيْسَ كُلُّ عَوْرَةٍ تَظْهَرُ ولَا كُلُّ فُرْصَةٍ تُصَابُ - ورُبَّمَا أَخْطَأَ الْبَصِيرُ قَصْدَه وأَصَابَ الأَعْمَى رُشْدَه - أَخِّرِ الشَّرَّ فَإِنَّكَ إِذَا شِئْتَ تَعَجَّلْتَه وقَطِيعَةُ الْجَاهِلِ تَعْدِلُ صِلَةَ الْعَاقِلِ - مَنْ أَمِنَ الزَّمَانَ خَانَه ومَنْ أَعْظَمَه أَهَانَه - لَيْسَ كُلُّ مَنْ رَمَى أَصَابَ - إِذَا تَغَيَّرَ السُّلْطَانُ تَغَيَّرَ الزَّمَانُ - سَلْ عَنِ الرَّفِيقِ قَبْلَ الطَّرِيقِ - وعَنِ الْجَارِ قَبْلَ الدَّارِ إِيَّاكَ أَنْ تَذْكُرَ مِنَ الْكَلَامِ مَا يَكُونُ مُضْحِكاً - وإِنْ حَكَيْتَ ذَلِكَ عَنْ غَيْرِكَ.

الرأي في المرأة

وإِيَّاكَ ومُشَاوَرَةَ النِّسَاءِ - فَإِنَّ رَأْيَهُنَّ إِلَى أَفْنٍ وعَزْمَهُنَّ إِلَى وَهْنٍ - واكْفُفْ عَلَيْهِنَّ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ بِحِجَابِكَ إِيَّاهُنَّ - فَإِنَّ شِدَّةَ الْحِجَابِ أَبْقَى عَلَيْهِنَّ

کبھی کبھی مایوسی بھی کامیابی بن جاتی ہے جب حرص و طمع موجب ہلاکت ہو۔ہر عیب ظاہرنہیں ہوا کرتا ہے اورنہ ہرفرصت کو موقع بار بار ملاکرتا ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھوں والا راستہ سے بھٹک جاتا ہے اور اندھا سیدھے راستہ کو پالیتاہے۔برائی کو پس پشت ڈالتے رہو کہ جب بھی چاہو اس کی طرف بڑھ سکتے ہو۔جاہل سے قطع تعلق عاقل سے تعلقات کے برابر ہے۔جو زمانہ کی طرف سے مطمئن ہوجات ہے زمانہ اس سے خیانت کرتا ہےاورجو اسے بڑا سمجھتا ہے اسے ذلیل کر دیتا ہے ہر تیر انداز کا تیر نشانہ پر نہیں بیٹھتا ہے جب حاکم بدل جاتا ہےتوزمانہ بد لجاتا ہےرفیق سفر کے بارے میں راستہ پر چلنے سے پہلے دریافت کرو اورہمسایہ کیبارے میں اپنے گھر سے پہلے خبر گیری کرو۔خبردار ایسی کوئی بات نہ کرنا جومضحکہ خیزہو چاہے دوسروں ہی کی طرفسے نقل کی جائے ۔

خبردار۔عورتوں(۱) سے مشورہ نہ کرنا کہ ان کی رائے کمزور اور ان کا ارادہ سست ہوتا ہے ۔انہیں پردہ میں رکھ کر ان کی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو کہ پردہ کی سختی ان کی عزت و آبرو کو باقی رکھنے والی ہے

(۱)اس کلام میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں :۔

ایک احتمال یہ ہے کہ یہ اس دورکے حالات کی طرف اشارہ ہے جب عورتیں ۹۹ فیصد ی جاہل ہوا کرتی تھیں اور ظاہر ہے کہ پڑھے لکھے انسان کا کسی جاہل سے مشورہ کرنا نادانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں عورت کی جذباتی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے مشورہ میں جذبات کی کارفرمائی کاخطرہ زیادہ ہے لہٰذا اگر کوئی عورت اس نقص سے بلند تر ہو جائے تو اس سے مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں ان مخصوص عورتوں کی طرف اشارہ ہو جن کی رائے پرعمل کرنے سے عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ تباہی کے گھاٹ اتر گیا ہے اورآج تک اس تباہی کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔

۵۳۲

- ولَيْسَ خُرُوجُهُنَّ بِأَشَدَّ - مِنْ إِدْخَالِكَ مَنْ لَا يُوثَقُ بِه عَلَيْهِنَّ - وإِنِ اسْتَطَعْتَ أَلَّا يَعْرِفْنَ غَيْرَكَ فَافْعَلْ - ولَا تُمَلِّكِ الْمَرْأَةَ مِنْ أَمْرِهَا مَا جَاوَزَ نَفْسَهَا - فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَيْحَانَةٌ ولَيْسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ - ولَا تَعْدُ بِكَرَامَتِهَا نَفْسَهَا ولَا تُطْمِعْهَا فِي أَنْ تَشْفَعَ لِغَيْرِهَا - وإِيَّاكَ والتَّغَايُرَ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ غَيْرَةٍ - فَإِنَّ ذَلِكَ يَدْعُو الصَّحِيحَةَ إِلَى السَّقَمِ - والْبَرِيئَةَ إِلَى الرِّيَبِ - واجْعَلْ لِكُلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِكَ عَمَلًا تَأْخُذُه بِه - فَإِنَّه أَحْرَى أَلَّا يَتَوَاكَلُوا فِي خِدْمَتِكَ - وأَكْرِمْ عَشِيرَتَكَ - فَإِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِي بِه تَطِيرُ - وأَصْلُكَ الَّذِي إِلَيْه تَصِيرُ ويَدُكَ الَّتِي بِهَا تَصُولُ.

دعاء

اسْتَوْدِعِ اللَّه دِينَكَ ودُنْيَاكَ - واسْأَلْه خَيْرَ الْقَضَاءِ لَكَ فِي الْعَاجِلَةِ والآجِلَةِ - والدُّنْيَا والآخِرَةِ والسَّلَامُ.

(۳۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

وأَرْدَيْتَ جِيلًا مِنَ النَّاسِ كَثِيراً

اور ان کا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے گھرمیں داخل کرنے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔اگر ممکن ہوکہ وہ تمہارے علاوہ کسی کو نہ پچانیں توایسا ہی کرو اورخبردار انہیں ان کے ذاتی مسائل سے زیادہ اختیارات نہ دواس لئے کہ عورت ایک پھول ہے اور حاکم و متصرف نہیں ہے۔اس کے پاس ولحاظ کو اس کی ذات سے آگے نہ بڑھائو اور اس میں دوسروں کی سفارش کا حوصلہ نہ پیدا ہونے دو۔دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہارمت کرنا کہ اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستہ پرچلی جائے گی اور بے عیب بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔

اپنے ہر خادم کے لئے ایک عمل مقرر کردو جس کا محاسبہ کرسکو کہ یہ بات ایک دوسرے کے حوالہ کرنے کہیں زیادہ بہتر ہے۔اپنے قبیلہ کا احترام کرو کہ یہی تمہارے لئے پرپرواز کر مرتبہ رکھتے ہیں اور یہی تمہاری اصل ہیں جن کی طرف تمہاری باز گشت ہے اور تمہارے ہاتھ ہیں جن کے ذریعہ حملہ کرسکتے ہو۔

اپنے دین و دنیا کو پروردگار کے حوالہ کردو اور اس سے دعا کرو کہ تمہارے حق میں دنیا و آخرت میں بہترین فیصلہ کرے ۔والسلام

(۳۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

تم نے لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو ہلاک کردیا ہے کہ انہیں اپنی

۵۳۳

- خَدَعْتَهُمْ بِغَيِّكَ وأَلْقَيْتَهُمْ فِي مَوْجِ بَحْرِكَ - تَغْشَاهُمُ الظُّلُمَاتُ وتَتَلَاطَمُ بِهِمُ الشُّبُهَاتُ - فَجَازُوا عَنْ وِجْهَتِهِمْ ونَكَصُوا عَلَى أَعْقَابِهِمْ - وتَوَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ وعَوَّلُوا عَلَى أَحْسَابِهِمْ - إِلَّا مَنْ فَاءَ مِنْ أَهْلِ الْبَصَائِرِ - فَإِنَّهُمْ فَارَقُوكَ بَعْدَ مَعْرِفَتِكَ - وهَرَبُوا إِلَى اللَّه مِنْ مُوَازَرَتِكَ - إِذْ حَمَلْتَهُمْ عَلَى الصَّعْبِ وعَدَلْتَ بِهِمْ عَنِ الْقَصْدِ - فَاتَّقِ اللَّه يَا مُعَاوِيَةُ فِي نَفْسِكَ - وجَاذِبِ الشَّيْطَانَ قِيَادَكَ - فَإِنَّ الدُّنْيَا مُنْقَطِعَةٌ عَنْكَ والآخِرَةَ قَرِيبَةٌ مِنْكَ - والسَّلَامُ.

(۳۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى قثم بن العباس - وهو عامله على مكة

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ عَيْنِي بِالْمَغْرِبِ كَتَبَ إِلَيَّ يُعْلِمُنِي – أَنَّه وُجِّه إِلَى الْمَوْسِمِ أُنَاسٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - الْعُمْيِ الْقُلُوبِ الصُّمِّ الأَسْمَاعِ الْكُمْه الأَبْصَارِ - الَّذِينَ يَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ - ويُطِيعُونَ الْمَخْلُوقَ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ

گمراہی(۱) سے دھوکے میں رکھا ہے اور اپنے سمندر کی موجوں کے حوالہ کردیا ہے جہاں تاریکیاں انہیں ڈھانپے ہوئے ہیں اورشبہات کے تھپیڑے انہیں تہ و بالا کر رہے ہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ راہ حق سے ہٹ گئے اور الٹے پائوں پلٹ گئے اور پیٹھ پھیر کرچلتے بنے اوراپنے حسب و نسب پربھروسہ کر بیٹھے علاوہ ان چند اہل بصیرت کے جو واپس آگئے اور انہوں نے تمہیں پہچاننے کے بعد چھوڑ دیا اورتمہاری حمایت سے بھاگ کر اللہ کی طرف آگئے جب کہ تم نے انہیں دشواریوں میں مبتلا کردیا تھا اور راہ اعتدال سے ہٹا دیا تھا۔لہٰذا اسے معاویہ اپنے بارے میں خدا سے ڈرو اور شیطان سے جان چھڑائو کہ یہ دنیا بہر حال تم سے الگ ہونے والی ہے اور آخرت بہت قریب ہے ۔والسلام

(۳۳)

آپ کامکتوب گرامی

(مکہ کے عامل قثم(۲) بن عباس کے نام)

اما بعد! میرے مغربی علاقہ کے جاسوس نے مجھے لکھ کر اطلاع دی ہے کہ موسم حج کے لئے شام کی طرف سے کچھ ایسے لوگوں کو بھیجا گیا ہے جو دلوں کے اندھے ' کانوں کے بہرے اورآنکھوں کے محروم ضیاء ہیں۔یہ حق کو باطل سے مشتبہ کرنے والے ہیں اور خالق کی نافرمانی کرکے مخلوق کوخوش کرنے والے ہیں۔

(۱)طبری کا بیان ہے کہ حتات مجاشعی ایک جماعت کے ساتھ معاویہ کے دربار میں واردہوا معاویہ نے سب کو ایک ایک لاکھ انعام دیا اورحتات کو ستر ہزار۔تو اس نے اتعراض کیا معاویہ نے کہا کہ میں نے ان سے ان کا دین خریدا ہے۔حتات نے کہا تو مجھ سے بھی خرید لیجئے ؟ یہ سنناتھاکہ معاویہ نے ایک لاکھ پورا کردیا۔

(۲)قثم عبداللہ بن عباس کےبھائی تھےاورمکہ پر حضرت کےعامل تھےجوحضرت کی شہادت تک اپنے عہدہ پر فائز رہے اور اس کے بعد معاویہ کے دورمیں سمرقند میں قتل کر دئیے گئے

۵۳۴

ويَحْتَلِبُونَ الدُّنْيَا دَرَّهَا بِالدِّينِ - ويَشْتَرُونَ عَاجِلَهَا بِآجِلِ الأَبْرَارِ الْمُتَّقِينَ - ولَنْ يَفُوزَ بِالْخَيْرِ إِلَّا عَامِلُه - ولَا يُجْزَى جَزَاءَ الشَّرِّ إِلَّا فَاعِلُه - فَأَقِمْ عَلَى مَا فِي يَدَيْكَ قِيَامَ الْحَازِمِ الصَّلِيبِ - والنَّاصِحِ اللَّبِيبِ - التَّابِعِ لِسُلْطَانِه الْمُطِيعِ لإِمَامِه - وإِيَّاكَ ومَا يُعْتَذَرُ مِنْه - ولَا تَكُنْ عِنْدَ النَّعْمَاءِ بَطِراً - ولَا عِنْدَ الْبَأْسَاءِ فَشِلًا - والسَّلَامُ.

(۳۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى محمد بن أبي بكر لما بلغه توجده من عزله بالأشتر عن مصر،ثم توفي الأشتر في توجهه إلى هناك قبل وصوله إليها

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي مَوْجِدَتُكَ مِنْ تَسْرِيحِ الأَشْتَرِ إِلَى عَمَلِكَ - وإِنِّي لَمْ أَفْعَلْ ذَلِكَ اسْتِبْطَاءً لَكَ فِي الْجَهْدَ - ولَا ازْدِيَاداً لَكَ فِي الْجِدِّ - ولَوْ نَزَعْتُ مَا تَحْتَ يَدِكَ مِنْ سُلْطَانِكَ - لَوَلَّيْتُكَ مَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكَ مَئُونَةً - وأَعْجَبُ إِلَيْكَ وِلَايَةً.

إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي كُنْتُ وَلَّيْتُه أَمْرَ مِصْرَ -

ان کا کام دین کے ذریعہ دنیا کو دو ہنا ہے اوریہ نیک کردار' پرہیز گار افراد کی آخرت کو دنیا کے ذریعہ خریدنے والے ہیں جب کہ خیر اس کا حصہ ہے جوخیر کا کام کرے اورشر اس کے حصہ میں آتا ہے جو شرکاعمل کرتا ہے۔دیکھو اپنے منصبی فرائض کے سلسلہ میں ایک تجربہ کار' پختہ کار' مخلص ' ہوشیار انسان کی طرح قیام کرنا جو اپنے حاکم کا تابع اوراپنے امام کا اطاعت گذار ہواور خبردار کوئی ایسا کام نہ کرنا جس کی معذرت کرنا پڑے اورراحت وآرام میں مغرور نہ ہو جانا اورنہ شدت کے مواقع پرکمزوری کا مظاہرہ کرنا۔والسلام

(۳۴)

آپ کامکتوب گرامی

(محمدبن ابی بکرکے نام جب یہ اطلاع ملی کہ وہ اپنی معزولی اورمالک اشترکےتقریر سے رنجیدہ ہیں اور پھرمالک اشتر مصر پہنچنے سےپہلےانتقال بھی کرگئے )

اما بعد!مجھے مالک اشتر کےمصر کی طرف بھیجنے کے بارے میں تمہاری بد دلی کی اطلاع ملی ہے۔حالانکہ میں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا کہ تمہیں کام میں کمزور پایا تھا یا تم سے زیادہ محنت کامطالبہ کرناچاہا تھا بلکہ اگرمیں نے تم سے تمہارے زیر اثر اقتدار کولیا بھی تھا تو تمہیں ایسا کام دینا چاہتا تھا جو تمہارےلئےمشقت کے اعتبار سے آسان ہو اورتمہیں پسند بھی ہوجس شخص کو میں نے مصرکاعامل قراردیا تھا وہ

۵۳۵

كَانَ رَجُلًا لَنَا نَاصِحاً وعَلَى عَدُوِّنَا شَدِيداً نَاقِماً - فَرَحِمَه اللَّه فَلَقَدِ اسْتَكْمَلَ أَيَّامَه – ولَاقَى حِمَامَه ونَحْنُ عَنْه رَاضُونَ - أَوْلَاه اللَّه رِضْوَانَه وضَاعَفَ الثَّوَابَ لَه - فَأَصْحِرْ لِعَدُوِّكَ وامْضِ عَلَى بَصِيرَتِكَ - وشَمِّرْ لِحَرْبِ مَنْ حَارَبَكَ و( ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ ) - وأَكْثِرِ الِاسْتِعَانَةَ بِاللَّه يَكْفِكَ مَا أَهَمَّكَ - ويُعِنْكَ عَلَى مَا يُنْزِلُ بِكَ إِنْ شَاءَ اللَّه.

(۳۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس بعد مقتل محمد بن أبي بكر

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مِصْرَ قَدِ افْتُتِحَتْ - ومُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رحمهالله قَدِ اسْتُشْهِدَ - فَعِنْدَ اللَّه نَحْتَسِبُه وَلَداً نَاصِحاً وعَامِلًا كَادِحاً

میرا مردمخلص اورمیرےدشمن کے لئے سخت قسم کا دشمن تھا۔خدااس پر رحمت نازل کرےاس نے اپنے دن پورے کرلئے اوراپنی موت سے ملاقات کرلی۔ہم اس سے بہر حال راضی ہیں۔اللہ اسے اپنی رضا عنایت فرمائے اور اس کے ثواب کو مضاعف کردے اب تم دشمن کے مقابلہ میں نکل پڑو اوراپن بصیرت پرچل پڑو۔ جوتم سے جنگ کرے اس سے جنگ کرنے کے لئے کمر کو کس لو اوردشمن کو راہ خدا کی دعوت دے دو۔اس کے بعد اللہ سے مسلسل مدد مانگتے رہوکہ وہی تمہارےلئے ہر مہم میں کافی ہے اوروہی ہرنازل ہونے والی مصیبت میں مدد کرنے والا ہے۔انشاء اللہ

(۳۵)

آپ کامکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔محمد بن ابی بکر کی شہادت کے بعد )

امابعد! دیکھو مصر پر دشمن کا قبضہ ہوگیا ہے اور محمد(۱) بن ابی بکر شہید ہوگئے ہیں( خدا ان پر رحمت نازل کرے ) میں ان کی مصیبت کا اجر خدا سے چاہتا ہوں کہ وہ میرے مخلص فرزند اور محنت کش عامل تھے

(۱)مسعودی نے مروج الذیب میں ۳۵ھ کے حوادث میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ '' معاویہ نے عمرو ابن العاص کی سر کردگی میں ۴ ہزار کا لشکر مصر کی طرف روانہ کیا اور اس میں معاویہ بن خدیج اور ابو الا عور السلمی جیسے افراد کوبھی شامل کردیا۔مقام مسناة پرمحمد بن ابی بکرن اس لشکرکا مقابلہ کیا لیکن اصحاب کی بیوفائی کی بنا پرمیدان چھوڑنا پڑا۔اس کے بعد دوبارہ مصر کے علاقہ میں رن پڑا اور آخر کارمحمد بن ابی بکر کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں جیتے جی ایک گدھے کی کھال میں رکھ کرنذر آتش کردیا گیا '' جس کا حضرت کو بے حد صدمہ ہوا اور آپ نے اس واقعہ کی اطلاع بصرہ کے عامل عبداللہ بن عباس کو کی اور اپنے مکمل جذبات کا اظہار فرمادیا یہاں تک کہ اہل عراق کی بیوفائی کی بنیاد پر آرزئوئے موت تک کا تذکرہ فرمادیا کہ گویا ایسے افراد کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے ہیں جو راہ خدا میں جہاد کرنا نہ جانتے ہوں۔اور یہ مولائے کائنات کا درس عمل ہردور کے لئے ہے کہ جس قوم میں جذبہ قربانی نہیں ہے۔علی نہ انہیں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ انہیں اپنے شیعوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

۵۳۶

وسَيْفاً قَاطِعاً ورُكْناً دَافِعاً - وقَدْ كُنْتُ حَثَثْتُ النَّاسَ عَلَى لَحَاقِه - وأَمَرْتُهُمْ بِغِيَاثِه قَبْلَ الْوَقْعَةِ - ودَعَوْتُهُمْ سِرّاً وجَهْراً وعَوْداً وبَدْءاً - فَمِنْهُمُ الآتِي كَارِهاً ومِنْهُمُ الْمُعْتَلُّ كَاذِباً - ومِنْهُمُ الْقَاعِدُ خَاذِلًا - أَسْأَلُ اللَّه تَعَالَى أَنْ يَجْعَلَ لِي مِنْهُمْ فَرَجاً عَاجِلًا - فَوَاللَّه لَوْ لَا طَمَعِي عِنْدَ لِقَائِي عَدُوِّي فِي الشَّهَادَةِ - وتَوْطِينِي نَفْسِي عَلَى الْمَنِيَّةِ - لأَحْبَبْتُ أَلَّا أَلْقَى مَعَ هَؤُلَاءِ يَوْماً وَاحِداً - ولَا أَلْتَقِيَ بِهِمْ أَبَداً.

(۳۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أخيه عقيل بن أبي طالب - في ذكر جيش أنفذه إلى بعض الأعداء

وهو جواب كتاب كتبه إليه عقيل

فَسَرَّحْتُ إِلَيْه جَيْشاً كَثِيفاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ - فَلَمَّا بَلَغَه ذَلِكَ شَمَّرَ هَارِباً ونَكَصَ نَادِماً - فَلَحِقُوه بِبَعْضِ الطَّرِيقِ - وقَدْ طَفَّلَتِ الشَّمْسُ لِلإِيَابِ

میری تیغ بران اورمیرے دفاعی ستون میں نے لوگوں کو ان سے ملحق ہو جانے پرآمادہ کیا تھا اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ سے پہلے ان کی مدد کو پہنچ جائیں اور انہیں خفیہ اورعلانیہ ہر طرح دعوتعمل دی تھی اور بار بار آوازدی تھی لیکن بعض افراد بادل نا خواستہ آئے اور بعض نے جھوٹے بہانے کردئیے ۔کچھ تو میرے حکم کو نظرانداز کر کے گھر ہی میں بیٹھے رہ گئے ۔اب میں پروردگار سے دعاکرتا ہوں کہ مجھے ان کی طرف سے جلد کشائش امر عنایت فرمادے کہ خدا کی قسم اگر مجھے دشمن سے ملاقات کرکے وقت شہادت کی آرزو نہ ہوتی اور میں نے اپنے نفس کو موت کے لئے آمادہ نہ کرلیا ہوتا تو میں ہرگز یہ پسند نہ کرتا کہ ان لوگوں کے ساتھ ایک دن بھی دشمن سے مقابلہ کروں یا خود ان لوگوں سے ملاقات کروں۔

(۳۶)

آپ کامکتوب گرامی

(اپنے بھائی عقیل کے نام جس میں اپنے بعض لشکروں کا ذکر فرمایا ہے اور یہ درحقیقت عقیل کے مکتوب کا جواب دے )

پس میں نے اس کی طرف مسلمانوں کا ایک لشکر عظیم روانہ کردیا اورجب اسے اس امرکی اطلاع ملی تو اس نے دامن سمیٹ کر فرار اختیار کیا۔اور پشیمان ہو کر پیچھے ہٹ گیا تو ہمارے لشکرنے اسے راستہ میں جالیا جب کہ سورج ڈوبنے

۵۳۷

فَاقْتَتَلُوا شَيْئاً كَلَا ولَا - فَمَا كَانَ إِلَّا كَمَوْقِفِ سَاعَةٍ حَتَّى نَجَا جَرِيضاً - بَعْدَ مَا أُخِذَ مِنْه بِالْمُخَنَّقِ - ولَمْ يَبْقَ مِنْه غَيْرُ الرَّمَقِ - فَلأْياً بِلأْيٍ مَا نَجَا - فَدَعْ عَنْكَ قُرَيْشاً وتَرْكَاضَهُمْ فِي الضَّلَالِ - وتَجْوَالَهُمْ فِي الشِّقَاقِ وجِمَاحَهُمْ فِي التِّيه - فَإِنَّهُمْ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَى حَرْبِي - كَإِجْمَاعِهِمْ عَلَى حَرْبِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قَبْلِي - فَجَزَتْ قُرَيْشاً عَنِّي الْجَوَازِي - فَقَدْ قَطَعُوا رَحِمِي وسَلَبُونِي سُلْطَانَ ابْنِ أُمِّي

وأَمَّا مَا سَأَلْتَ عَنْه مِنْ رَأْيِي فِي الْقِتَالِ - فَإِنَّ رَأْيِي قِتَالُ الْمُحِلِّينَ حَتَّى أَلْقَى اللَّه - لَا يَزِيدُنِي كَثْرَةُ النَّاسِ حَوْلِي عِزَّةً - ولَا تَفَرُّقُهُمْ عَنِّي وَحْشَةً - ولَا تَحْسَبَنَّ ابْنَ أَبِيكَ - ولَوْ أَسْلَمَه النَّاسُ مُتَضَرِّعاً مُتَخَشِّعاً - ولَا مُقِرّاً لِلضَّيْمِ وَاهِناً - ولَا سَلِسَ الزِّمَامِ لِلْقَائِدِ - ولَا وَطِيءَ الظَّهْرِ لِلرَّاكِبِ

کے قریب تھا نتیجہ یہ ہوا کہدونوں میں ایک مختصر جھڑپ ہوئی اورایک ساعت نہ گزرنے پائی تھی کہ اس نے بھاگ کر نجات حاصل کرلی جب کہ اسے گلے سے پکڑا جا چکا تھا اورچند سانسوں کے علاوہ کچھ باقی نہ رہ گیا تھا۔اس طرح بڑی مشکل سے اس نے جان بچائی لہٰذا اب قریش اور گمراہی میں ان کی تیز رفتاری اور تفرقہ میں ان کی گردش اور ضلالت میں ان کی منہ زوری کا ذکر چھوڑ دو کہ ان لوگوں نے مجھ سے جنگ پر ویسے ہی اتفاق کرلای ہے جس طرح رسول اکرم (ص) سے جنگ پر اتفاق کیا تھا ۔اب اللہ ہی قریش کو ان کے کئے کا بدلہدے کہ انہوں نے میر ی قرابت کا رشتہ توڑ دیا اور مجھ سے میرے ماں جائے(۱) کی حکومت سلب کرلی۔

اور یہ جو تم نے جنگ کے بارے میں میری رائے دریافت کی ہے تو میری رائے یہی ہے کہ جن لوگوں نے جنگ کو حلال بنا رکھا ہے ان سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ مالک کی بارگاہ میں حاضر ہو جائوں۔میرے گرد لوگوں کا اجتماع میری عزت میں اضافہ نہیں کر سکتا ہے اور نہ ان کا متفرق ہوجانا میری وحشت میں اضافہ کرسکتا ہے اور میرے برادر اگر تمام لوگ بھی میرا ساتھ چھوڑ دیں تو آپ مجھے کمزوراورخوفزدہ نہ پائیں گے اورظلم کا اقرارکرنے والا۔کمزور اور کسی قائد کے ہاتھ میں آسانی سے زمام پکڑا دینے والا اور کسی سوارکے لئے سواری کی

(۱) مولائے کائنات نے سرکار دوعالم (ص) کو '' ابن امی '' کے لفظ سے یاد فرمایا ہے اس لئے کہ سرکاردوعالم (ص) مسلسل آپ کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد کو اپنی ماں کے لفظ سے یاد فرمایا کرتے تھے '' ھی امی بعد امی ''

۵۳۸

الْمُتَقَعِّدِ - ولَكِنَّه كَمَا قَالَ أَخُو بَنِي سَلِيمٍ:

فَإِنْ تَسْأَلِينِي كَيْفَ أَنْتَ فَإِنَّنِي

صَبُورٌ عَلَى رَيْبِ الزَّمَانِ صَلِيبُ

يَعِزُّ عَلَيَّ أَنْ تُرَى بِي كَآبَةٌ

فَيَشْمَتَ عَادٍ أَوْ يُسَاءَ حَبِيبُ

(۳۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَسُبْحَانَ اللَّه - مَا أَشَدَّ لُزُومَكَ لِلأَهْوَاءَ الْمُبْتَدَعَةِ والْحَيْرَةِ الْمُتَّبَعَةِ - مَعَ تَضْيِيعِ الْحَقَائِقِ واطِّرَاحِ الْوَثَائِقِ - الَّتِي هِيَ لِلَّه طِلْبَةٌ وعَلَى عِبَادِه حُجَّةٌ - فَأَمَّا إِكْثَارُكَ الْحِجَاجَ عَلَى عُثْمَانَ وقَتَلَتِه - فَإِنَّكَ إِنَّمَا نَصَرْتَ عُثْمَانَ حَيْثُ كَانَ النَّصْرُ لَكَ - وخَذَلْتَه حَيْثُ كَانَ النَّصْرُ لَه والسَّلَامُ.

سہولت دینے والا پائیں گے ۔بلکہ میری وہی صورت حال ہوگی جس کے بارے میں قبیلہ بنی سلیم والے نے کہا ہے۔:

'' اگر تو میری حالت کے بارے میں دریافت کر رہی ہے تو سمجھ لے کرمیں زمانہ کے مشکلات میں صبر کرنے والا اورمستحکم ارادہ والا ہوں میرے لئے نا قابل برداشت ہے کہ مجھے پریشان حال دیکھا جائے اوردشمن طعنے دے یا دوست اس صورت حال سے رنجیدہ ہو جائے ''

(۳۷)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام)

اے سبحان اللہ۔تو نئی نئی خواہشات اورزحمت میں ڈالنے والی حیرت و سر گردانی سے کس قدر چپکا ہوا ہے جب کہ تونے حقائق کو برباد کردیا ہے اوردلائل کو ٹھکرادیا ہے جو الہ کو مطلوب اوربندوں پر اس کی حجت ہیں۔ رہ گیا تمہارا عثمان اور ان کے قالوں کے بارے میں جھگڑا بڑھانا تواس کامختصر جواب یہ ہے کہ تم نے عثمان کی مدد اس وقت کی ہے جب مدد میں تمہارا فائدہ تھا اور اس وقت لاوارث چھوڑ دیا تھا جب(۱) مددمیں ان کا فائدہ تھا۔ والسلام

(۱) ابن ابی الحدید نے بلا ذری کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ عثمان کے محاصرہ کے دورمیں معاویہ نے شام سے ایک فوج یزید بن اسد قسری کی سرکردگی میں روانہ کی اور اسے ہدایت دیدی کہ مدینہ کے باہر مقام ذی خشب میں مقیم رہیں اورکسی بھی صورت میں میرے حکم کے بغیر مدینہ میں داخل نہ ہوں۔چنانچہ فوج اسی مقام پر حالات کا جائزہ لیتی رہی اورقتل عثمان کے بعد واپس شام بلا لی گئی۔جس کا کھلا ہوا مفہوم یہ تھا کہ اگرانقلابی جماعت کامیاب نہ ہو سکے تواس فوج کی مدد سے عثمان کاخاتمہ کرادیا جائے اور اس کے بعد خون عثمان کاہنگامہ کھڑا کرکے علی سے خلافت سلب کرلی جائے ۔

۵۳۹

(۳۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل مصر لما ولى عليهم الأشتر

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ - إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ غَضِبُوا لِلَّه – حِينَ عُصِيَ فِي أَرْضِه وذُهِبَ بِحَقِّه - فَضَرَبَ الْجَوْرُ سُرَادِقَه عَلَى الْبَرِّ والْفَاجِرِ - والْمُقِيمِ والظَّاعِنِ - فَلَا مَعْرُوفٌ يُسْتَرَاحُ إِلَيْه - ولَا مُنْكَرٌ يُتَنَاهَى عَنْه.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَعَثْتُ إِلَيْكُمْ عَبْداً مِنْ عِبَادِ اللَّه - لَا يَنَامُ أَيَّامَ الْخَوْفِ - ولَا يَنْكُلُ عَنِ الأَعْدَاءِ سَاعَاتِ الرَّوْعِ - أَشَدَّ عَلَى الْفُجَّارِ مِنْ حَرِيقِ النَّارِ - وهُوَ مَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ أَخُو مَذْحِجٍ - فَاسْمَعُوا لَه وأَطِيعُوا أَمْرَه فِيمَا طَابَقَ الْحَقَّ - فَإِنَّه سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّه - لَا كَلِيلُ الظُّبَةِ ولَا نَابِي الضَّرِيبَةِ - فَإِنْ أَمَرَكُمْ أَنْ تَنْفِرُوا فَانْفِرُوا - وإِنْ أَمَرَكُمْ أَنْ تُقِيمُوا فَأَقِيمُوا -

(۳۸)

آپ کامکتوب گرامی

(مالک اشتر کی ولایت کےموقع پر اہل مصرکے نام )

بندۂ خدا ! امیر المومنین علی کی طرف سے۔ اس قوم کے نام جس نے خداکے لئے اپنے غضب کا اظہار کیا جب اس کی زمین میں اس کی معصیت کی گئی اور اس کے حق کو برباد کردیا گیا۔ظلم نے ہر نیک و بدکاراور مقیم و مسافر پراپنے شامیانے تان دئیے اور نہ کوئی نیکی رہ گئی جس کے زیر سایہ آرام لیا جا سکے اور نہ کوئی ایسی برائی رہگئی جس سے لوگ پرہیز کرتے ۔

امابعد! میں نے تمہاری طرف بندگان خدا میں سے ایک ایسے بندہ کو بھیجا ہے جو خوف کے دنوں میں سوتا نہیں ہے اوردہشت کے اوقات میں دشمنوں سے خوفزدہ نہیں ہوت ہے اور فاجروں کے لئے آگ کی گرمی سے زیادہ شدید تر ہے اور اس کا نام مالک بن اشتر مذحجی ہے لہٰذا تم لوگاس کی بات سنواوراس کے ان اوامرکی اطاعت کرو جو مطابق حق ہیں کہوہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے(۱) جس کی تلوار کند نہیں ہوتی ہے اور جس کا وار اچٹ نہیں سکتا ہے۔وہ اگرکوچ کرنے کاحکم دے تونکل کھڑے ہو اور اگر ٹھہرنے کے لئے کہے تو فوراً ٹھہر جائو اس لئے کہ

(۱) افسوس کہ عالم اسلام نے یہ لقب خالد بن الولید کو دے دیا ہے جس نے جناب مالک بن نویرہ کوبے گناہ قتل کرکے اسی رات کی زوجہ سے تعلقات قائم کرلئے اوراس پر حضرت عمر تک نے اپنی برہمی کا اظہار کیا لیکن حضرت ابو بکر نے سیاسی مصالح کے تحت انہیں ''سیف اللہ '' قرار دے کر اتنے سنگین جرم سے بری کردیا۔انا للہ

۵۴۰

فَإِنَّه لَا يُقْدِمُ ولَا يُحْجِمُ - ولَا يُؤَخِّرُ ولَا يُقَدِّمُ إِلَّا عَنْ أَمْرِي - وقَدْ آثَرْتُكُمْ بِه عَلَى نَفْسِي لِنَصِيحَتِه لَكُمْ - وشِدَّةِ شَكِيمَتِه عَلَى عَدُوِّكُمْ.

(۳۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عمرو بن العاص

فَإِنَّكَ قَدْ جَعَلْتَ دِينَكَ تَبَعاً لِدُنْيَا امْرِئٍ - ظَاهِرٍ غَيُّه مَهْتُوكٍ سِتْرُه - يَشِينُ الْكَرِيمَ بِمَجْلِسِه ويُسَفِّه الْحَلِيمَ بِخِلْطَتِه - فَاتَّبَعْتَ أَثَرَه وطَلَبْتَ فَضْلَه - اتِّبَاعَ الْكَلْبِ لِلضِّرْغَامِ يَلُوذُ بِمَخَالِبِه - ويَنْتَظِرُ مَا يُلْقَى إِلَيْه مِنْ فَضْلِ فَرِيسَتِه - فَأَذْهَبْتَ دُنْيَاكَ وآخِرَتَكَ – ولَوْ بِالْحَقِّ أَخَذْتَ أَدْرَكْتَ مَا طَلَبْتَ - فَإِنْ يُمَكِّنِّي اللَّه مِنْكَ ومِنِ ابْنِ أَبِي سُفْيَانَ - أَجْزِكُمَا بِمَا قَدَّمْتُمَا - وإِنْ تُعْجِزَا وتَبْقَيَا فَمَا أَمَامَكُمَا شَرٌّ لَكُمَا - والسَّلَامُ.

وہ میرے امر کے بغیرنہ آگے بڑھا سکتا ہے اورنہ پیچھے ہٹا سکتا ہے۔نہ حملہ کر سکتا ہےاور نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے میں نے اس کے معاملہ میں تمہیں اپنے اوپر مقدم کردیا ہے اور اپنے پاس سے جدا کردیا ہے کہ وہ تمہارا مخلص ثابت ہوگا اور تمہارے دشمن کے مقابلہ میں انتہائی سخت گیر ہوگا۔

(۳۹)

آپ کامکتوب گرامی

(عمروبن العاص کے نام)

تونے اپنے دین کوایک ایسے شخص کی دنیا کا تابع بنادیا ہے جس کی گمراہی واضح ہے اورا س کا پردہ ٔ عیوب چاک ہوچکا ہے۔وہ شریف انسان کو اپنی بزم میں بٹھا کرعیب دار اورعقل مند کو اپنی مصاحبت سے احمق بنادیتا ہے ۔تونے اس کے نقش پر قدم جمائے ہیں۔اوراس کے بچے کھچے کی جستجو کی ہے جس طرح کہ کتاشیرکے پیچھے لگ جاتا ہے کہ اس کے پنجوں کی پناہ میں رہتا ہے اوراس وقت کا منتظر رہتا ہے جب شیر اپنے شکار کا بچا کھچا پھینک دے اور وہ اسے کھالے۔تم نے تو اپنی دنیا اورآخرت دونوں کوگنوادیا ہے۔حالانکہ اگر حق کی راہ پر رہے ہوتے جب بھی یہ مدعا حاصل ہو سکتا تھا۔بہر حال اب خدانے مجھے تم پر اور ابو سفیان کے بیٹے پر قابو دے دیا تو میں تمہارے حرکات کا صحیح بدلہ دے دوں گا اور اگرتم بچ کرنکل گئے اور میرے بعد تک باقی رہ گئے تو تمہارا آئندہ دور تمہارے لئے سخت ترین ہوگا۔والسلام

۵۴۱

(۴۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي عَنْكَ أَمْرٌ - إِنْ كُنْتَ فَعَلْتَه فَقَدْ أَسْخَطْتَ رَبَّكَ - وعَصَيْتَ إِمَامَكَ وأَخْزَيْتَ أَمَانَتَكَ .بَلَغَنِي أَنَّكَ جَرَّدْتَ الأَرْضَ فَأَخَذْتَ مَا تَحْتَ قَدَمَيْكَ - وأَكَلْتَ مَا تَحْتَ يَدَيْكَ فَارْفَعْ إِلَيَّ حِسَابَكَ - واعْلَمْ أَنَّ حِسَابَ اللَّه أَعْظَمُ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ والسَّلَامُ.

(۴۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي كُنْتُ أَشْرَكْتُكَ فِي أَمَانَتِي - وجَعَلْتُكَ شِعَارِي وبِطَانَتِي - ولَمْ يَكُنْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِي أَوْثَقَ مِنْكَ فِي نَفْسِي - لِمُوَاسَاتِي ومُوَازَرَتِي وأَدَاءِ الأَمَانَةِ إِلَيَّ - فَلَمَّا رَأَيْتَ الزَّمَانَ عَلَى ابْنِ عَمِّكَ

(۴۰)

آپ کامکتوب گرامی

(بعض عمال کے نام)

امابعد!مجھے تمہارے بارے میں ایک بات کی اطلاع ملی ہے۔اگر تم نے ایسا کیا ہے تو اپنے پروردگار کوناراض کیا ہے۔اپنے امام کی نا فرمانی کی ہے اور اپنی امانتداری کوبھی رسوا کیا ہے۔مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم نے بیت المال کی زمین کو صاف کردیا ہے اور جو کچھ زیر قدم تھا اس پر قبضہ کرلیا ہے اور جو کچھ ہاتھوں میں تھااسے کھاگئے ہو لہٰذا فوراً اپناحساب بھیج دواوریہ یاد رکھوکہ اللہ کا حساب لوگوں کے حساب سے زیادہ سخت تر ہے ۔والسلام

(۴۱)

آپ کامکتوب گرامی

(بعض عمال کے نام)

اما بعد!میں نےتم کواپنی امانت میں شریک کا ر بنایاتھا اورظاہرو باطن میں اپنا قرار دیا تھا اورہمدردی اورمدد گاری اور امانتداری کےاعتبارسے میرےگھروالوں میں تم سے زیادہ معتبر کوئی نہیں تھالیکن جب تم نے دیکھا کہ زمانہ تمہارے ابن(۱) عم

(۱)یہ بات تو واضح ہے کہ حضرت نے یہ خط اپنی کسی چچا زاد بھائی کے نام لکھاہے۔لیکن اس سے کون مراد ہے ؟ اس میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے بعض حضرات کاخیال ہے کہ عبداللہ بن عباس مراد ہیں جو بصرہکے عامل تھے لیکن جب مصرمیں محمد بن ابی بکرکا حشر دیکھ لیا تو بیت المال کا سارامال لے کر مکہ چلے گئے اور وہیں زندگی گزارنے لگے جس پرحضرتنے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ابن عباس کے تمام کارناموں پر خط نسخ کھینچ دیا اوربعض حضرات کاکہنا ہے کہ ابن عباس جیسے جبر الامتہ اورمفسر قرآن کے بارے میں اس طرح کے کردارکا امکان نہیں ہے لہٰذا اس سے مراد ان کے بھائی عبید اللہ بن عباس ہیں جو یمن میں حضرت کے عامل تھے لیکن بعض حضرات نے اس پربھی اعتراض کیا ہے کہ یمن کے حالات میں ان کی خیانت کاری کاکوئی تذکرہ نہیں ہے توایک بھائی کو بچانے کے لئے دوسرے کو نشانہ ستم کیوں بنایا جا رہا ہے ۔ عبداللہ بن عباس لاکھ عالم و فاضل اور مفسر قرآن کیوں نہ ہوں۔امام معصوم نہیں ہیں اوربعض معاملات میں امام یا مکمل پیرو امام کے علاوہ کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا ہے چاہے مرد عامی ہو یا مفسر قرآن ۔!

۵۴۲

قَدْ كَلِبَ - والْعَدُوَّ قَدْ حَرِبَ وأَمَانَةَ النَّاسِ قَدْ خَزِيَتْ - وهَذِه الأُمَّةَ قَدْ فَنَكَتْ وشَغَرَتْ - قَلَبْتَ لِابْنِ عَمِّكَ ظَهْرَ الْمِجَنِّ - فَفَارَقْتَه مَعَ الْمُفَارِقِينَ وخَذَلْتَه مَعَ الْخَاذِلِينَ - وخُنْتَه مَعَ الْخَائِنِينَ - فَلَا ابْنَ عَمِّكَ آسَيْتَ ولَا الأَمَانَةَ أَدَّيْتَ - وكَأَنَّكَ لَمْ تَكُنِ اللَّه تُرِيدُ بِجِهَادِكَ - وكَأَنَّكَ لَمْ تَكُنْ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّكَ - وكَأَنَّكَ إِنَّمَا كُنْتَ تَكِيدُ هَذِه الأُمَّةَ عَنْ دُنْيَاهُمْ - وتَنْوِي غِرَّتَهُمْ عَنْ فَيْئِهِمْ - فَلَمَّا أَمْكَنَتْكَ الشِّدَّةُ فِي خِيَانَةِ الأُمَّةِ أَسْرَعْتَ الْكَرَّةَ - وعَاجَلْتَ الْوَثْبَةَ واخْتَطَفْتَ مَا قَدَرْتَ عَلَيْه مِنْ أَمْوَالِهِمُ - الْمَصُونَةِ لأَرَامِلِهِمْ وأَيْتَامِهِمُ - اخْتِطَافَ الذِّئْبِ الأَزَلِّ دَامِيَةَ الْمِعْزَى الْكَسِيرَةَ - فَحَمَلْتَه إِلَى الْحِجَازِ رَحِيبَ الصَّدْرِ بِحَمْلِه - غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ مِنْ أَخْذِه - كَأَنَّكَ لَا أَبَا لِغَيْرِكَ - حَدَرْتَ إِلَى أَهْلِكَ تُرَاثَكَ مِنْ أَبِيكَ وأُمِّكَ –

فَسُبْحَانَ اللَّه أَمَا تُؤْمِنُ بِالْمَعَادِ - أَومَا تَخَافُ نِقَاشَ الْحِسَابِ - أَيُّهَا الْمَعْدُودُ كَانَ عِنْدَنَا مِنْ أُولِي الأَلْبَابِ - كَيْفَ تُسِيغُ شَرَاباً وطَعَاماً -

پر حملہ آور ہے اوردشمن آمادۂ جنگ ہے اور لوگوں کی امانت رسواہو رہی ہے اور امت بے راہ اور لاوارث ہوگئی ہے تو تم نے بھی اپنے ابن عم سے منہ موڑ لیا اورجدا ہونے والوں کے ساتھ مجھ سے جدا ہوگئے اور ساتھ چھوڑنے والوں کے ساتھ الگ ہوگئے اورخیانت کاروں کے ساتھ خائن ہوگئے۔نہ اپنے ابن عم کا ساتھ دیا اورنہ امانتداری کاخیال کیا۔گویا کہ تم نے اپنے جہاد سے خدا کا ارادہ بھی نہیں کیا تھا۔اور گویا تمہارے پاس پروردگارکی طرف سے کوئی حجت نہیں تھی اورگویا کہ تم اس امت کودھوکہ دے کراس کی دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور تمہاری نیت تھی کہ ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا کران کے اموال پر قبضہ کرلیں۔چنانچہ جیسے ہی امت سے خیانت کرنے کی طاقت پیدا ہوگئی تم نے تیزی سے حملہ کردیا اور فوراً کود پڑے اور ان تمام اموال کو اچ لیا جو یتیموں اوربیوائوں کے لئے محفوظ کئے گئے تھے جیسے کوئی تیز رفتار بھیڑیا شکستہ یا زخمی بکریوں پرحملہ کردیتا ہے ۔پھر تم ان اموال کو حجاز کی طرف اٹھالے گئے اور اس حرکت سے بے حد مطمئن اورخوش تھے اوراس کے لینے میں کسی گناہ کا احساس بھی نہ تھا جیسے ( خدا تمہارے دشمنوں کا براکرے ) اپنے گھر کی طرف اپنے ماں باپ کی میراث کامال لا رہے ہو۔

اے سبحان اللہ ! کیا تمہارا آخرت پر ایمان ہی نہیں ہے اور کیا روز قیامت کے شدید حساب کا خوف بھی ختم ہوگیا ہے اے وہ شخص جو کل ہمارے نزدیک صاحبان عقل میں شمار ہوتا تھا۔تمہارے یہ کھانا پینا کس طرح گوارا ہوتا ہے

۵۴۳

وأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ تَأْكُلُ حَرَاماً وتَشْرَبُ حَرَاماً - وتَبْتَاعُ الإِمَاءَ وتَنْكِحُ النِّسَاءَ - مِنْ أَمْوَالِ الْيَتَامَى والْمَسَاكِينِ والْمُؤْمِنِينَ والْمُجَاهِدِينَ - الَّذِينَ أَفَاءَ اللَّه عَلَيْهِمْ هَذِه الأَمْوَالَ - وأَحْرَزَ بِهِمْ هَذِه الْبِلَادَ - فَاتَّقِ اللَّه وارْدُدْ إِلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ أَمْوَالَهُمْ - فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ ثُمَّ أَمْكَنَنِي اللَّه مِنْكَ - لأُعْذِرَنَّ إِلَى اللَّه فِيكَ - ولأَضْرِبَنَّكَ بِسَيْفِي الَّذِي مَا ضَرَبْتُ بِه أَحَداً - إِلَّا دَخَلَ النَّارَ - ووَ اللَّه لَوْ أَنَّ الْحَسَنَ والْحُسَيْنَ فَعَلَا مِثْلَ الَّذِي فَعَلْتَ - مَا كَانَتْ لَهُمَا عِنْدِي هَوَادَةٌ ولَا ظَفِرَا مِنِّي بِإِرَادَةٍ - حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ مِنْهُمَا وأُزِيحَ الْبَاطِلَ عَنْ مَظْلَمَتِهِمَا - وأُقْسِمُ بِاللَّه رَبِّ الْعَالَمِينَ - مَا يَسُرُّنِي أَنَّ مَا أَخَذْتَه مِنْ أَمْوَالِهِمْ حَلَالٌ لِي.

جب کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم مال حرام کھا رہے ہو اورحرام ہی پی رہے ہو اور پھر ایتام، مساکین، مومنین اورمجاہدین جنہیں اللہ نے یہ مال دیا ہے اور جن کے ذریعہ ان شہروں کا تحفظ کیا ہے۔ان کے اموال سے کنیزیں خرید رہے ہو اورشادیاں رچا رہے ہو۔

خدارا۔خدا سے ڈرو اوران لوگوں کے اموال واپس کردو کہ اگرایسا نہ کروگے اورخدانے کبھی تم پر اختیار دے دیا تو تمہارے بارے میں وہ فیصلہ کروں گا جو مجھے معذور بنا سکے اورتمہاراخاتمہ اسی تلوار سے کروں گا جس کے مارے(۱) ہوئے کا کوئی ٹھکانہ جہنم کے علاوہ نہیں ہے۔

خدا کی قسم! اگر یہی کام(۲) حسن و حسین نے کیا ہوتا تو ان کے لئے بھی میرے پاس کسی نرمی کا امکان نہیںتھا اور نہ وہ میرے ارادہ پرقابو پا سکتے تھے جب تک کہ ان سے حق حاصل نہ کرلوں اور ان کے ظلم کے آثار کو مٹا نہ دوں ۔

خدائے رب العالمین کی قسم میرے لئے یہ بات ہرگز خوش کن نہیں تھی اگر یہ سارے اموال میرے لئے حلال ہوتے

(۱)حضرت علی کے مجاہدات کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ جس کی تلوارآپ پرچل جائے وہ بھی جہنمی ہے اور جس پر آپ کی تلوارچل جائے وہ بھی جہنمی ہے اس لئے کہ آپ امام معصوم اورید اللہ ہیں اور امام معصوم سے کسی غلطی کا امکان نہیں ہے اور اللہ کاہاتھ کسی بے گناہ اوربے خطا پرنہیں اٹھ سکتا ہے۔

کاش مولائے کائنات کے مقابلہ میں آنے والے جمل و صفین کے فوجی یا سر براہ اس حقیقت سے با خبر ہوتے اور انہیں اس نکتہ کاہوش رہ جاتا تو کبھی نفس پیغمبر (ص) سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ کرتے۔

(۲)یہ کسی ذاتی امتیاز کا اعلان نہیں ہے۔یہی بات پروردگارنے پیغمبر(ص) سے کہی ہے کہ تم شرک اختیار کرلو گے تو تمہارے اعمال بھی برباد کردئیے جائیں گے اوریہی بات پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی دختر نیک اختر کے بارے میں فرمائی تھی اور یہی بات مولائے کائنات نے امام حسن اور امام حسین کے بارے میں فرمائی ہے۔گویا کہ یہ ایک صحیح اسلامی کردار ہے جو صرف انہیں بندگان خدا میں پایا جاتا ہے جو مشیت الٰہی کے ترجمان اور احکام الہیہ کی تمثیل ہیں ورنہ اس طرح کے کردارکا پیشکرنا ہرانسان کے بس کاکام نہیں ہے۔

۵۴۴

أَتْرُكُه مِيرَاثاً لِمَنْ بَعْدِي فَضَحِّ رُوَيْداً - فَكَأَنَّكَ قَدْ بَلَغْتَ الْمَدَى ودُفِنْتَ تَحْتَ الثَّرَى - وعُرِضَتْ عَلَيْكَ أَعْمَالُكَ بِالْمَحَلِّ - الَّذِي يُنَادِي الظَّالِمُ فِيه بِالْحَسْرَةِ - ويَتَمَنَّى الْمُضَيِّعُ فِيه الرَّجْعَةَ( ولاتَ حِينَ مَناصٍ )

(۴۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عمر بن أبي سلمة المخزومي وكان عامله على البحرين،فعزله، واستعمل نعمان بن عجلان الزّرقي مكانه

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنِّي قَدْ وَلَّيْتُ النُّعْمَانَ بْنِ عَجْلَانَ الزُّرَقِيَّ عَلَى الْبَحْرَيْنِ - ونَزَعْتُ يَدَكَ بِلَا ذَمٍّ لَكَ ولَا تَثْرِيبٍ عَلَيْكَ - فَلَقَدْ أَحْسَنْتَ الْوِلَايَةَ وأَدَّيْتَ الأَمَانَةَ - فَأَقْبِلْ غَيْرَ ظَنِينٍ ولَا مَلُومٍ - ولَا مُتَّهَمٍ ولَا مَأْثُومٍ - فَلَقَدْ أَرَدْتُ الْمَسِيرَ إِلَى ظَلَمَةِ أَهْلِ الشَّامِ - وأَحْبَبْتُ أَنْ تَشْهَدَ مَعِي - فَإِنَّكَ مِمَّنْ أَسْتَظْهِرُ بِه عَلَى جِهَادِ الْعَدُوِّ - وإِقَامَةِ عَمُودِ الدِّينِ إِنْ شَاءَ اللَّه.

اور میں بعد والوں کے لئے میراث بنا کر چھوڑ جاتا ۔ذرا ہوش میں آئو کہ اب تم زندگی کی آخری حدوں تک پہنچ چکے ہو اورگویا کہ زیرخاک دفن ہوچکے ہو اور تم پرتمہارے اعمال پیش کردئیے گئے ہیں۔اس منزل پر جہاں ظالم حسرت سے آوازدیں گے۔اور زندگی برباد کرنے والے واپسی کی آرزو کر رہے ہوں گے اورچھٹکارے کا کوئی امکان نہ ہوگا۔

(۴۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(بحرین کے عامل عمر بن ابی سلمہ مخزومی کے نام جنہیں معزول کرکے نعمان بن عجلان الرزقی کومعین کیا تھا)

اما بعد! میں نے نعمان بن عجلان الزرقی کو بحرین کاعامل بنادیا ہے اورتمہیں اس سے بے دخل کردیا ہے لیکن نہ اس میں تمہاری کوئی برائی ہے اور نہ ملامت۔تم نے حکومت کا کام بہت ٹھیک طریقہ سے چلایا ہے اور امانت کوادا کردیا ہے لیکن اب واپس چلے آئو نہ تمہارے بارے میں کوئی بد گمانی ہے نہ ملامت۔نہ الزام ہے نہ گناہ۔ اصل میں میرا ارادہ شام کے ظالموں سے مقابلہ کرنے کا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ رہو کہ میں تم جیسے افرادسے دشمن سے جنگ کرنے اور ستون دین قائم کرنے میں مدد لینا چاہتا ہوں۔انشاء اللہ

۵۴۵

(۴۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى مصقلة بن هبيرة الشيباني - وهو عامله على أردشيرخرة

بَلَغَنِي عَنْكَ أَمْرٌ إِنْ كُنْتَ فَعَلْتَه فَقَدْ أَسْخَطْتَ إِلَهَكَ - وعَصَيْتَ إِمَامَكَ - أَنَّكَ تَقْسِمُ فَيْءَ الْمُسْلِمِينَ - الَّذِي حَازَتْه رِمَاحُهُمْ وخُيُولُهُمْ وأُرِيقَتْ عَلَيْه دِمَاؤُهُمْ - فِيمَنِ اعْتَامَكَ مِنْ أَعْرَابِ قَوْمِكَ - فَوَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ - لَئِنْ كَانَ ذَلِكَ حَقّاً - لَتَجِدَنَّ لَكَ عَلَيَّ هَوَاناً ولَتَخِفَّنَّ عِنْدِي مِيزَاناً - فَلَا تَسْتَهِنْ بِحَقِّ رَبِّكَ - ولَا تُصْلِحْ دُنْيَاكَ بِمَحْقِ دِينِكَ - فَتَكُونَ مِنَ الأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا.

أَلَا وإِنَّ حَقَّ مَنْ قِبَلَكَ وقِبَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - فِي قِسْمَةِ هَذَا الْفَيْءِ سَوَاءٌ - يَرِدُونَ عِنْدِي عَلَيْه ويَصْدُرُونَ عَنْه.

(۴۳)

آپ کامکتوب گرامی

(مصقلہ(۱) ہبیرہ الشیبانی کے نام جوارد شیر خرہ میں آپ کے عامل تھے )

مجھے تمہارے بارے میں ایک خبر ملی جو اگر واقعاً صحیح ہے تو تم نے اپنے پروردگار کوناراض کیا ہے اور اپنے امام کی نا فرمانی کی ہے۔خیر یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے مال غنیمت کو جسے ان کے نیزوں اور گھوڑوں نے جمع کیا ہے اورجس کی راہ میں ان کاخون بہایا گیا ہے۔اپنی قوم کے ان بدوں میں تقسیم کر رہے ہو جوتمہارے ہوا خواہ ہیں۔قسم اس ذات کی جسنے دانہ کوشگافتہ کیا ہے اورجانداروں کو پیداکیا ہے۔اگر یہ بات صحیح ہے تو تم میری نظروں میں انتہائی ذلیل ہو گے اور تمہارے اعمال کا پلہ ہلکا ہوجائے گا لہٰذا خبردار اپنے رب کے حقوق کو معمولی مت سمجھنا اور اپنے دین کوبرباد کرکے دنیا آراستہ کرنے کی فکر نہ کرنا کہ تمہارا شماران لوگوں میں ہو جائے جن کے اعمال میں خسارہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یاد رکھو! جو مسلمان تمہارے پاس یا میرے پاس ہیں ان سب کا حصہ اس مال غنیمت ایک ہی جیسا ہے اور اسی اعتبارسے وہ میرے پاس وارد ہوتے ہیں اور اپناحق لے کر چلے جاتے ہیں۔

(۱)امیرالمومنین کا اصول حکومت تھا کہ اپنے عمال پر ہمیشہ کڑی نگاہ رکھتے تھے اور ان کے تصرفات کی نگرانی کیا کرتے تھے اور جہاں کسی نے حدود اسلامیہ سے تجاوز کیا فوراً تنبیہی خط تحریر فرما دیا کرتے تھے اور یہی وہ طرز عمل تھا جس کی بنا پر بہت سے افراد ٹوٹ کر معاویہ کے ساتھ چلے گئے اور دین و دنیا دونوں کو برباد کرلیا۔ہبیرہ انہیں افراد میں تھا اور جب حضرت نے اس کے تصرفات پر تنقید فرمائی تومنحرف ہو کر شام چلا گیا اور معاویہ سے ملحق ہو گیا لیکن آپ کا کردار شام کے اندھیرے میں چمکتا رہا اورآج تک دنیا کو اسلام کی روشنی دکھلا رہا ہے ۔

۵۴۶

(۴۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد ابن أبيه وقد بلغه أن معاوية كتب إليه يريد خديعته باستلحاقه

وقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ كَتَبَ إِلَيْكَ - يَسْتَزِلُّ لُبَّكَ ويَسْتَفِلُّ غَرْبَكَ - فَاحْذَرْه فَإِنَّمَا هُوَ الشَّيْطَانُ - يَأْتِي الْمَرْءَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْه ومِنْ خَلْفِه - وعَنْ يَمِينِه وعَنْ شِمَالِه - لِيَقْتَحِمَ غَفْلَتَه ويَسْتَلِبَ غِرَّتَه

وقَدْ كَانَ مِنْ أَبِي سُفْيَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلْتَةٌ - مِنْ حَدِيثِ النَّفْسِ - ونَزْغَةٌ مِنْ نَزَغَاتِ الشَّيْطَانِ - لَا يَثْبُتُ بِهَا نَسَبٌ ولَا يُسْتَحَقُّ بِهَا إِرْثٌ - والْمُتَعَلِّقُ بِهَا كَالْوَاغِلِ الْمُدَفَّعِ والنَّوْطِ الْمُذَبْذَبِ.

فَلَمَّا قَرَأَ زِيَادٌ الْكِتَابَ قَالَ - شَهِدَ بِهَا ورَبِّ الْكَعْبَةِ - ولَمْ تَزَلْ فِي نَفْسِه حَتَّى ادَّعَاه مُعَاوِيَةُ.

قال الرضي - قولهعليه‌السلام الواغل - هو الذي يهجم على الشرب - ليشرب معهم وليس منهم - فلا يزال مدفعا محاجزا - والنوط المذبذب هو ما يناط برحل الراكب - من قعب أو قدح أو ما أشبه ذلك -.

(۴۴)

آپ کامکتوب گرامی

(زیاد بن ابیہ کے نام جب آپ کو خبر ملی کہ معاویہ اسے اپنے نسب میں شامل کرکے دھوکہ دینا چاہتا ہے )

مجھے معلوم ہوا ہے کہ معاویہ نے تمہیں خط لکھ کر تمہاری عقل کو پھسلانا چاہا ہے اور تمہاری دھار کو کند بنانے کا ارادہ کرلیا ہے۔لہٰذا خبردار ہوشیار رہنا۔یہ شیطان ہے جو انسان کے پاس آگے پیچھے ۔دہنے ' بائیں ہر طرف سے آتا ہے تاکہ اسے غافل پاکراس پر ٹوٹ پڑے اورغفلت کی حالت میں اس کی عقل کو سلب کرلے ۔

واقعہ یہ ہے کہ ابو سفیان نے عمربن الخطاب کے زمانہ میں ایک بے سمجھی بوجھی بات کہہ دی تھی جو شیطانی وسوسوں میں سے ایک وسوسہ کی حیثیت رکھتی تھی جس سے نہ کوئی نسب ثابت ہوتا ہے اور نہ کسی میراث کا استحقاق پیدا ہوتا ہے اوراس سے تمسک کرنے والا ایک بن بلایا شرابی ہے جسے دھکے دے کر نکال دیا جائے یا پیالہ ہے جو زین فرس میں لٹکا دیا جائے اور ادھر ادھرڈھلکتا رہے۔

سید رضی :اس خط کو پڑھنے کے بعد زیاد نے کہا کہ رب کعبہ کی قسم علی نے اس امر کی گواہی دے دی اور یہ بات اس کے دل سے لگی رہی یہاں تک کہمعاویہ نے اس کے بھائی ہونے کا اعادہ کردیا۔ واغل اس شخص کو کہاجاتا ہے جو بزم شراب میں بن بلائے داخل ہو جائے اوردھکے

۵۴۷

فهو أبدا يتقلقل إذا حث ظهره واستعجل سيره

(۴۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عثمان بن حنيف الأنصاري - وكان عامله على البصرة وقد بلغه أنه دعي إلى وليمة قوم من أهلها، فمضى إليها - قوله:

أَمَّا بَعْدُ يَا ابْنَ حُنَيْفٍ - فَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ رَجُلًا مِنْ فِتْيَةِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ - دَعَاكَ إِلَى مَأْدُبَةٍ فَأَسْرَعْتَ إِلَيْهَا - تُسْتَطَابُ لَكَ الأَلْوَانُ وتُنْقَلُ إِلَيْكَ الْجِفَانُ - ومَا ظَنَنْتُ أَنَّكَ تُجِيبُ إِلَى طَعَامِ قَوْمٍ - عَائِلُهُمْ مَجْفُوٌّ وغَنِيُّهُمْ مَدْعُوٌّ - فَانْظُرْ إِلَى مَا تَقْضَمُه مِنْ هَذَا الْمَقْضَمِ

دے کرنکال دیا جائے ۔اورنوط مذبذب وہ پیالہ وغیرہ ہے جو مسافر کے سامان سے باندھ کر لٹکا دیاجاتا ہے اورمسلسل ادھر ادھر ڈھلکتا رہتا ہے۔

(۴۵)

آپ کا مکتوب گرامی

(اپنے بصرہ کے عامل عثمان ۱بن حنیف کے نام جب آپ کو اطلاع ملی کہ وہ ایک بڑیدعوت میں شریک ہوئے ہیں )

اما بعد! ابن حنیف ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ بصرہ کے بعض جوانوں نے تم کوایک دعوت میں مدعو کیا تھا جس میں طرح طرح کے خوشگوار کھانے تھے اور تمہاری طرف بڑے بڑے پیالے بڑھا ئے جا رہے تھے اورتم تیزی سے وہاں پہنچ گئے تھے ۔مجھے تو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ تم ایسی قوم کی دعوت میں شرکت کرو گے جس کے غریبوں پر ظلم ہو رہا ہو اور جس کے دولت مند مدعو کئے جاتے ہوں۔دیکھو جو لقمے چباتے ہو اسے دیکھ لیا کرو اوراگر

(۱)عثمان بن حنیف انصار کے قبیلہ اوس کی ایک نمایاں شخصیت تھے اوریہ وجہ ہے کہ جب خلافت دوم میں عراق کے والی کی تلاش ہوئی تو سب نے بالاتفاق عثمان بن حنیف کا نام لیا اورانہیں ارض عراق کی پیمائش اور اس کے خراج کی تعین کاذمہ دار بنادیا گیا۔امیر المومنین نے اپنے دورحکومت میں انہیں بصرہ کا والی بنا دیاتھا اوروہ طلحہ و زبیر کے وارد ہونے تک برابرمصروف عمل رہے اوراس کے بعد ان لوگوں نے سارے حالات خراب کردئیے اوربالآخر حضرت کی شہادت کے بعد کوفہ منتقل ہوگئے اوروہیں انتقال فرمایا۔

عثمان کے کردارمیں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن امیرالمومنین کا اسلامی نظام عمل یہ تھا کہ حکام کو عوام کے حالات کو نگاہ میں رکھ کر زندگی گزارنی چاہیے اورکسی حاکم کی زندگی کو عوام کے حالات سے بالاتر نہیں ہونی چاہیے جس طرح کہ حضرت نے خود اپنی زندگی گزاری ہے اور معمولی لباس و غذا پرپورا دور حکومت گزاردیا ہے ۔

۵۴۸

فَمَا اشْتَبَه عَلَيْكَ عِلْمُه فَالْفِظْه - ومَا أَيْقَنْتَ بِطِيبِ وُجُوهِه فَنَلْ مِنْه.

أَلَا وإِنَّ لِكُلِّ مَأْمُومٍ إِمَاماً يَقْتَدِي بِه - ويَسْتَضِيءُ بِنُورِ عِلْمِه - أَلَا وإِنَّ إِمَامَكُمْ قَدِ اكْتَفَى مِنْ دُنْيَاه بِطِمْرَيْه - ومِنْ طُعْمِه بِقُرْصَيْه - أَلَا وإِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ - ولَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ واجْتِهَادٍ وعِفَّةٍ وسَدَادٍ - فَوَاللَّه مَا كَنَزْتُ مِنْ دُنْيَاكُمْ تِبْراً - ولَا ادَّخَرْتُ مِنْ غَنَائِمِهَا وَفْراً - ولَا أَعْدَدْتُ لِبَالِي ثَوْبِي طِمْراً - ولَا حُزْتُ مِنْ أَرْضِهَا شِبْراً - ولَا أَخَذْتُ مِنْه إِلَّا كَقُوتِ أَتَانٍ دَبِرَةٍ - ولَهِيَ فِي عَيْنِي أَوْهَى وأَوْهَنُ مِنْ عَفْصَةٍ مَقِرَةٍ بَلَى كَانَتْ فِي أَيْدِينَا فَدَكٌ مِنْ كُلِّ مَا أَظَلَّتْه السَّمَاءُ - فَشَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ - وسَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِينَ - ونِعْمَ الْحَكَمُ اللَّه - ومَا أَصْنَعُ بِفَدَكٍ وغَيْرِ فَدَكٍ - والنَّفْسُ مَظَانُّهَا فِي غَدٍ جَدَثٌ تَنْقَطِعُ فِي ظُلْمَتِه آثَارُهَا وتَغِيبُ أَخْبَارُهَا وحُفْرَةٌ لَوْ زِيدَ فِي فُسْحَتِهَا وأَوْسَعَتْ يَدَا حَافِرِهَا - لأَضْغَطَهَا الْحَجَرُ والْمَدَرُ وسَدَّ فُرَجَهَا التُّرَابُ الْمُتَرَاكِمُ -

اس کی حقیقت مشتبہ ہو تواسے پھینک دیا کرو اور جس کے بارے میں یقین ہو کہ پاکیزہ ہے اسی کو استعمال کیا کرو۔

یاد رکھو کہ ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ اقتدا کرتا ہے اور اسی کے نورعلم سے کسب ضیاء کرتا ہے اور تمہارے امام نے تو اس دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اوردو روٹیوں میں گزارا کیا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ تم لوگایسا نہیں کرس کتے ہو لیکن کم سے کم اپنی احتیاط کوشش ' عفت اور سلامت روی سے میری مدد کرو۔خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا میں سے نہ کوئی سونا جمع کیا ہے اور نہ اس مال و متاع میں سے کوء یذخیرہ اکٹھا کیاہے اور نہ ان دو بوسیدہ کپڑوںکے بدلے کوئی اور معمولی کپڑا مہیا کیا ہے۔اورنہ ایک بالشت پرقبضہ کیا ہے اور نہ ایک بیمار جانور سے زیادہ کوئی قوت ( غذا) حاصل کیا ہے۔ یہ دنیا میری نگاہ میں کڑوی چھال سے بھی زیادہ حقیر اورب ے قیمت ہے۔ہاں ہمارے ہاتھوں میں اس آسمان کے نیچے صرفایک فدک تھا مگر اس پر بھی ایک قوم نے اپنی لالچ کا مظاہرہ کیا اوردوسری قوم نے اس کے جانے کی پرواہنہ کی اور بہر حال بہترین فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے اور ویسے بھی مجھے فدک یا غیر فدک سے کیا لینا دینا ہے جب کہ نفس کی منزل اصلی کل کے دن قبر ہے جہاں کی تاریکی میں تمام آثار منقطع ہو جائیں گے اور کوئی خبر نہ آئے گی۔یہ ایک ایسا گڑھا ہے جس کی وسعت زیادہ بھی کردی جائے اور کھودنے والا اسے وسیع بھی بنادے تو بالآخر پتھر اور ڈھیلے اسے تنگ بنادیں گے اور تہ بہ تہ مٹی اس

۵۴۹

وإِنَّمَا هِيَ نَفْسِي أَرُوضُهَا بِالتَّقْوَى - لِتَأْتِيَ آمِنَةً يَوْمَ الْخَوْفِ الأَكْبَرِ - وتَثْبُتَ عَلَى جَوَانِبِ الْمَزْلَقِ ولَوْ شِئْتُ لَاهْتَدَيْتُ الطَّرِيقَ إِلَى مُصَفَّى هَذَا الْعَسَلِ ولُبَابِ هَذَا الْقَمْحِ ونَسَائِجِ هَذَا الْقَزِّ - ولَكِنْ هَيْهَاتَ أَنْ يَغْلِبَنِي هَوَايَ - ويَقُودَنِي جَشَعِي إِلَى تَخَيُّرِ الأَطْعِمَةِ - ولَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوْ الْيَمَامَةِ مَنْ لَا طَمَعَ لَه فِي الْقُرْصِ - ولَا عَهْدَ لَه بِالشِّبَعِ - أَوْ أَبِيتَ مِبْطَاناً وحَوْلِي بُطُونٌ غَرْثَى - وأَكْبَادٌ حَرَّى أَوْ أَكُونَ كَمَا قَالَ الْقَائِلُ:

وحَسْبُكَ دَاءً أَنْ تَبِيتَ بِبِطْنَةٍ

وحَوْلَكَ أَكْبَادٌ تَحِنُّ إِلَى الْقِدِّ

أَأَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي

کے شگاف کو بند کردے گی۔میں تو اپنے نفس کو تقویٰ کی تربیت دے رہا ہوں تاکہ عظیم ترین خوف کے دن مطمئن ہوکرمیدان میں آئے اور پھسلنے کے مقامات پر ثابت قدم رہے۔

میں(۱) اگر چاہتا تو اس خالص شہد ' بہترین صافشدہ گندم اور ریشمی کپڑوں کے راستے بھی پیدا کر سکتا تھا لیکن خدانہ کرے کہ مجھ پر خواہشات کا غلبہ ہو جائے اور مجھے حرص و طمع اچھے کھانوں کے اختیار کرنے کی طف کھینچ کرلے جائیں جب کہ بہت ممکن ہے کہ چچا زیایمامہ میں اسے افراد بھی ہوں جن کے لئے ایک روٹی کا سہارا نہ ہو اور شکم مسیری کا کوئی سامان نہ ہو۔بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں شکم سیر ہو کر سو جائوں اور میرے اطراف بھوکے پیٹ اور پیاسے جگرتڑپ رہے ہوں۔کیا میں شاعرکے اس شعر کا مصداق ہو سکتا ہوں۔

'' تیری بیماری کے لئے یہی کافی ہے کہ تو پیٹ بھر کر سو جائے اور تیرے اطراف وہ جگر بھی ہوں جو سوکھے چمڑے کو بھی ترس رہے ہوں ''

کیا میرا نفس اس بات سے مطمئن ہو سکتا ہے کہ

(۱) آج دنیا کے زہد و تقویٰ کا بشتر حصہ مجبوریوں کی پیداوار ہے اور انسان کو جب دنیا حاصل نہیں ہو تی ہے تو وہ دین کے زیر سایہ پناہ لے لیتا ہے اور ذکر آخرت سے اپنے نفس کو بہلاتا ہے لیکن امیر المومنین کا کردار اس سے بالکل مختلف ہے۔آپ کے ہاتھوں میں دنیا و آخرت کا اختیار تھا۔آپ کے بازوئوں میں زور خیبر شکنی اورآپ کی انگلیوں میں قوت ردڈ شمس تھی لیکن اس کے باوجود فاقے کر رہے تھے تاکہ اسلام میں ریاست اورحکومت عیش پرستی کاذریعہ نہ بن جائے اورحکام اپنی مسئولیت کا احساس کریں اور اپنی زندگی کو غرباء کے معیار پرگزار یں تاکہ ان کادل نہ ٹوٹنے پائے ۔اوران کینفس میں غرور نہ پیدا ہونے پائے ۔ مگر افسوس کہ دنیا سے یہ تصور یکسر غائب ہوگیا اور ریاستو حکومت صرف راحت و آرام اور عیاشی و عیش پرستی کاوسیلہ بن کر رہ گئی۔

ان حالات کی جزئی اصلاح غلامان علی کے اسلامی نظام سے ہو سکتی ہے اورکلی اصلاح فرزند علی کے ظہور سے ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ بنی امیہ اور بنی عباس پر ناز کرنے والے سلاطین ان حالات کی اصلاح نہیں کرسکتے ہیں ۔

۵۵۰

بِأَنْ يُقَالَ - هَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ - ولَا أُشَارِكُهُمْ فِي مَكَارِه الدَّهْرِ - أَوْ أَكُونَ أُسْوَةً لَهُمْ فِي جُشُوبَةِ الْعَيْشِ - فَمَا خُلِقْتُ لِيَشْغَلَنِي أَكْلُ الطَّيِّبَاتِ - كَالْبَهِيمَةِ الْمَرْبُوطَةِ هَمُّهَا عَلَفُهَا - أَوِ الْمُرْسَلَةِ شُغُلُهَا تَقَمُّمُهَا - تَكْتَرِشُ مِنْ أَعْلَافِهَا وتَلْهُو عَمَّا يُرَادُ بِهَا - أَوْ أُتْرَكَ سُدًى أَوْ أُهْمَلَ عَابِثاً - أَوْ أَجُرَّ حَبْلَ الضَّلَالَةِ أَوْ أَعْتَسِفَ طَرِيقَ الْمَتَاهَةِ وكَأَنِّي بِقَائِلِكُمْ يَقُولُ - إِذَا كَانَ هَذَا قُوتُ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ - فَقَدْ قَعَدَ بِه الضَّعْفُ عَنْ قِتَالِ الأَقْرَانِ - ومُنَازَلَةِ الشُّجْعَانِ - أَلَا وإِنَّ الشَّجَرَةَ الْبَرِّيَّةَ أَصْلَبُ عُوداً - والرَّوَاتِعَ الْخَضِرَةَ أَرَقُّ جُلُوداً

مجھے ''امیر المومنین '' کہا جائے اور میں زمانے کے نا خوشگوار حالات میں مومنین کا ریک حال نہ بنوں اور معمولی غذا کے استعمال میں ان کے واسطے نمونہ نہ پیش کرسکوں ۔ میں اس لئے تو نہیں پیدا کیا گیا ہوں کہ مجھے بہترین غذائوں کا کھانا مشغول کرلے اورمیں جانوروں(۱) کے مانندہو جائوں کہ وہ بندھے ہوتے ہیں تو ان کا کل مقصد چارہ ہوتا ہے اور آزاد ہوتے ہیں تو کل مشغلہ ادھرادھر چرنا ہے جہاں گھاس پھوس سے اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں اور انہیں اس بات کی فکر بھی نہیں ہوتی ہے کہ ان کا مقصد کیا ہے۔کیا میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہوں۔یامجھے بیکار آزاد کردیا گیا ہے یا مقصد یہ ہے کہ میں گمراہی کی رسی میں باندھ کرکھینچا جائوں ۔یا پھٹکنے کی جگہ پر منہ اٹھائے پھر تا رہوں۔گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب ابو طالب کے فرزند کی غذ ا(۲) ایسی معمولی ہے تو انہیں ضعف نے دشمنوں سے جنگ کرنے اوربہادروں کے ساتھ میدان میں اترنے سے بٹھا دیا ہوگا۔تو یہ یاد رکھنا کہ جنگل کے درختوں کی لکڑیاں زیادہ مضبوطً ہوتی ہے اور ترو تازہ درختوں کی چھال کمزورہوتی

(۱) انسان اور جانور کا نقطہ امتیاز یہی ہے کہ جانور کے یہاں کھانا اورچارہ مقصد حیات ہے اور انسان کے یہاں یہ اشیاء وسیلہ حیات ہیں۔لہٰذا انسان جب تک مقصد حیات اور بندگی پروردگار کا تحفظ کرتا رہے گا انسان رہے گا اورجس دن اس نکتہ سے غافل ہو جائے گا اس کا شمار حیوانات میں ہو جائے گا۔

(۲) بعض افراد کاخیال ہے کہ انسانی زندگی میں طاقت کا سر چشمہ اس کی غذا ہوتی ہے اور انسان کی غذا جس قدر لذیذ اور خوشذائقہ ہوگی انسان اسی قدر ہمت اور طاقت والا ہوگا الانکہ یہ بات بالکل غلط اور مہمل ہے۔طاقت کا تعلق لذت و ذائقہ سے نہیں ہے۔قوت نفس اور ہمت قلب سے اور اس سے بالاتر تائید پروردگار سے کہ دست قدرت سے سیراب ہونے والا صحرائی درخت زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور امکانات کے اندر تربیت پانے والے اشجار انتہائی کمزور ہوتے ہں کہ دست بشر وہ طاقت نہیں پیدا کرسکتا ہے جو دست قدرت سے پیدا ہوتی ہے۔

۵۵۱

والنَّابِتَاتِ الْعِذْيَةَ أَقْوَى وَقُوداً وأَبْطَأُ خُمُوداً -. وأَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّه كَالضَّوْءِ مِنَ الضَّوْءِ - والذِّرَاعِ مِنَ الْعَضُدِ - واللَّه لَوْ تَظَاهَرَتِ الْعَرَبُ عَلَى قِتَالِي لَمَا وَلَّيْتُ عَنْهَا - ولَوْ أَمْكَنَتِ الْفُرَصُ مِنْ رِقَابِهَا لَسَارَعْتُ إِلَيْهَا - وسَأَجْهَدُ فِي أَنْ أُطَهِّرَ الأَرْضَ مِنْ هَذَا الشَّخْصِ الْمَعْكُوسِ - والْجِسْمِ الْمَرْكُوسِ - حَتَّى تَخْرُجَ الْمَدَرَةُ مِنْ بَيْنِ حَبِّ الْحَصِيدِ

ومِنْ هَذَا الْكِتَابِ وهُوَ آخِرُه:

إِلَيْكِ عَنِّي يَا دُنْيَا فَحَبْلُكِ عَلَى غَارِبِكِ - قَدِ انْسَلَلْتُ مِنْ مَخَالِبِكِ - وأَفْلَتُّ مِنْ حَبَائِلِكِ - واجْتَنَبْتُ الذَّهَابَ فِي مَدَاحِضِكِ - أَيْنَ الْقُرُونُ الَّذِينَ غَرَرْتِهِمْ بِمَدَاعِبِكِ - أَيْنَ الأُمَمُ الَّذِينَ فَتَنْتِهِمْ بِزَخَارِفِكِ - فَهَا هُمْ رَهَائِنُ الْقُبُورِ ومَضَامِينُ اللُّحُودِ - واللَّه لَوْ كُنْتِ شَخْصاً مَرْئِيّاً وقَالَباً حِسِّيّاً - لأَقَمْتُ عَلَيْكِ حُدُودَ اللَّه

ہے ۔صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا بھی ہے اور اسکے شعلے دیر میں بجھتے بھی ہیں۔میرا رشتہ رسول اکرم (ص) سے وہی ہے ۔جو نور کا رشتہ نورسے ہوتا ہے یا ہاتھ کا رشتہ بازئوں سے ہوتا ہے ۔

خداکی قسم اگر تمام عرب مجھ سے جنگ کرنے پر اتفاق کرلیں تو بھی میں میدان سے منہ نہیں پھرا سکتا اور اگرمجھے ذرا بھی موقع مل جائے تو میں ان کی گردنیں اڑا دوں گا اوراس بات کی کوشش کروں گا کہ زمین کو اس الٹی کھوپڑی اور بے ہنگم ڈیل ڈول والے سے پاک کردوں تاکہ کھلیان کے دانوں میں سے کنکر پتھر نکل جائیں۔

(اس خطبہ کا آخری حصہ )

اے دنیا مجھ سے دور(۱) ہو جا۔میں نے تیری باگ دوڑ تیرے ہی کاندھے پر ڈال دی ہے اور تیرے چنگل سے باہر آچکا ہوں اور تیرے جال سے نکل چکا ہوں اور تیری ے پھسلنے کے مقامات کی طرف جانے سے بھی پرہیز کرتا ہوں۔کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تونے اپنی ہنسی مذاق کی باتوں سے لبھا لیا تھا اور کہاں ہیں وہ قومیں جن کی اپنی زینت و آرائش سے مبتلائے فتنہ کردیا تھا۔دیکھو اب وہ سب قبروں میں رہن ہوچکے ہیں اور لحد میں دبکے پڑے ہوئے ہیں ۔خدا کی قسم اگر تو کوئی دیکھنے والی شے اور محسوس ہونے والا ڈھانچہ ہوتی تو میں تیرے اوپر ضرور حد جاری

(۱) لفظوں میں یہ بات بہت آسان ہے لیکن سجی سجائی دنیا کو تین مرتبہ طلاق دے کر اپنے سے جدا کردینا صرف نفس پیغمبر (ص) کا کارنامہ ہے اور امت کے بس کا کام نہیں ہے۔یہ کام وہی انجام دے سکتا ہے جو نفس کے چنگل سے آزاد ہو۔خواہشات کے پھندوں میں گرفتار نہ ہو اور ہر طرح کی زینت و آرائش کو اپنی نگاہوں سے گراچکا ہو۔

۵۵۲

فِي عِبَادٍ غَرَرْتِهِمْ بِالأَمَانِيِّ - وأُمَمٍ أَلْقَيْتِهِمْ فِي الْمَهَاوِي - ومُلُوكٍ أَسْلَمْتِهِمْ إِلَى التَّلَفِ - وأَوْرَدْتِهِمْ مَوَارِدَ الْبَلَاءِ إِذْ لَا وِرْدَ ولَا صَدَرَ -

هَيْهَاتَ مَنْ وَطِئَ دَحْضَكِ زَلِقَ - ومَنْ رَكِبَ لُجَجَكِ غَرِقَ - ومَنِ ازْوَرَّ عَنْ حَبَائِلِكِ وُفِّقَ - والسَّالِمُ مِنْكِ لَا يُبَالِي إِنْ ضَاقَ بِه مُنَاخُه - والدُّنْيَا عِنْدَه كَيَوْمٍ حَانَ انْسِلَاخُه

اعْزُبِي عَنِّي فَوَاللَّه لَا أَذِلُّ لَكِ فَتَسْتَذِلِّينِي - ولَا أَسْلَسُ لَكِ فَتَقُودِينِي - وايْمُ اللَّه يَمِيناً أَسْتَثْنِي فِيهَا بِمَشِيئَةِ اللَّه - لأَرُوضَنَّ نَفْسِي رِيَاضَةً تَهِشُّ مَعَهَا إِلَى الْقُرْصِ - إِذَا قَدَرْتُ عَلَيْه مَطْعُوماً - وتَقْنَعُ بِالْمِلْحِ مَأْدُوماً - ولأَدَعَنَّ مُقْلَتِي كَعَيْنِ مَاءٍ، نَضَبَ مَعِينُهَا - مُسْتَفْرِغَةً دُمُوعَهَا - أَتَمْتَلِئُ السَّائِمَةُ مِنْ رِعْيِهَا فَتَبْرُكَ - وتَشْبَعُ الرَّبِيضَةُ مِنْ عُشْبِهَا فَتَرْبِضَ - ويَأْكُلُ عَلِيٌّ مِنْ زَادِه فَيَهْجَعَ -

کرتا کہ تونے اللہ کے بندوں کو آرزئوں کے سہارے دھوکہ دیا ہے اور قوموں کو گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیا ہے ۔ بادشاہوں کو بربادی کے حوالے کردیا ہے اور انہیں بلائوں کی منزل پر اتاردیا ہے جہاں نہ کوئی وارد ہونے والا ہے اور نہ صادر ہونے والا۔

افسوس !جس نے بھی تیری لغزش گاہوں پرقدم رکھا وہ پھسل گیا اورجو تیریر موجوں پر سوار ہواوہ غرق ہوگیا۔بس جس نے تیرے پھندوں سے کنارہ کشی اختیار کی اس کو توفیق حاصل ہوگئی۔تجھ سے بچنے والا اس بات کی پرواہ نہیں کرتا ہے کہ اس کی منزل کس قدرتنگ ہوگئی ہے۔اس لئے کہ دنیا اس کی نگاہ میں صرف ایک دن کے برابر ہے جس کے اختتام کاوقت ہو چکا ہے۔

تو مجھ سے دور ہو جا۔میں تیرے قبضہ میں آنے والا نہیں ہوں کہ تو مجھے ذلیل کر سکے اورنہ اپنی زمام تیرے ہاتھ میں دینے والا ہوں کہ جدھر چاہے کھینچ سکے ۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔اور اس قسم میں مشیت خداکے علاوہ کسی صورت کو مشتنیٰ نہیںکرتا ۔ کہ اس نفس کو ایسی تربیت دوں گا کہ ایک روٹی پربھی خوش رہے اگروہ بطور طعام اورنمک بطور ادام مل جائے اورمیں اپنی آنکھوں کے سوتے کو ایسا بنادوں گا جیسے وہ چشمہ جس کا پانی تقریباً خشک ہو چکا ہو اورسارے آنسو بہہ گئے ہوں۔کیا یہ ممکن ہے کہ جس طرح جانورچارہ کھا کر بیٹھ جاتے ہیں اوربکریاں گھاس سے سیر ہوکر اپنے باڑہ میں لیٹ جاتی ہیں۔اسی طرح علی بھی اپنے پاس کا کھانا کھا سو جائے۔ اس

۵۵۳

قَرَّتْ إِذاً عَيْنُه إِذَا اقْتَدَى بَعْدَ السِّنِينَ الْمُتَطَاوِلَةِ - بِالْبَهِيمَةِ الْهَامِلَةِ والسَّائِمَةِ الْمَرْعِيَّةِ

طُوبَى لِنَفْسٍ أَدَّتْ إِلَى رَبِّهَا فَرْضَهَا - وعَرَكَتْ بِجَنْبِهَا بُؤْسَهَا وهَجَرَتْ فِي اللَّيْلِ غُمْضَهَا - حَتَّى إِذَا غَلَبَ الْكَرَى عَلَيْهَا افْتَرَشَتْ أَرْضَهَا - وتَوَسَّدَتْ كَفَّهَا - فِي مَعْشَرٍ أَسْهَرَ عُيُونَهُمْ خَوْفُ مَعَادِهِمْ - وتَجَافَتْ عَنْ مَضَاجِعِهِمْ جُنُوبُهُمْ - وهَمْهَمَتْ بِذِكْرِ رَبِّهِمْ شِفَاهُهُمْ - وتَقَشَّعَتْ بِطُولِ اسْتِغْفَارِهِمْ ذُنُوبُهُمْ -( أُولئِكَ حِزْبُ الله أَلا إِنَّ حِزْبَ الله هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) .

فَاتَّقِ اللَّه يَا ابْنَ حُنَيْفٍ ولْتَكْفُفْ أَقْرَاصُكَ - لِيَكُونَ مِنَ النَّارِ خَلَاصُكَ.

کی آنکھیں پھوٹ جائیں جوایک طویل زمانہگزارنے کے بعد آوارہ جانور اور چرواہے ہوئے حیوانات کی پیروی کرنے لگے۔

خوش نصیب اس نفس کے لئے جو اپنے رب کے فرض کو ادا کردے اور سختیوں کے عالم میں صبر سے کام لے ۔راتوں کو اپنی آنکھوں کو کھلا رکھے ۔یہاں تک کہ نیند کا غلبہ ہونے لگے توزمین کو بستر(۱) بنالے اور ہاتھوں کوتکیہ۔ان لوگوں کے درمیان جن کی آنکھوں کو خوف محشر نے بیدار رکھا ہے اور جن کے پہلو بستروں سے الگ رہے ہیں ۔ان کے ہونٹوں پر ذکر خدا کے زمزمے رہے ہیں اور ان کے طول استغفار سے گناہوں کے بادل چھٹ گئے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں و اللہ کے گروہ میں ہیں اوریاد رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والا ہے۔

ابن حنیف اللہ سے ڈرو۔اور تمہاری یہ روٹیاں تمہیں حرص و طمع سے روکے رہیں تاکہ آتش جہنم سے آزادی حاصل کر سکو۔

(۱) کہاں دنیا میں ایسا کوئی انسان ہے جو صاحب جاہو جلال ۔اقتدار و بیت المال ہو۔دنیا میں اس کا سکہ چل رہا ہو اور عالم اسلام اس کی زیر نگیں ہو اور اسکے بعد یا تو راتوں کو بیداری اورعبادت الٰہی میں گزاردے یا سونے کا ارادہ کرے تو خاک کا بستراور ہاتھ کا تکیہ بنالے سیلاطین زمانہ اورحکام مسلمین تواس صورتحال کا تصوربھی نہیں کرس کتے ہیں۔اس کردار کے پیدا کرنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ مولائے کائنات کی شخصی زندگی کا نقشہ نہیں ہے۔یہ حاکم اسلامی اورخلیفہ اللہ کامنصبی کردار ہے کہ جسے عوامی مفادات اور اسلامی مقدرات کاذمہ دار بنایا جاتا ہے۔اس کے کردار کو ایسا ہونا چاہیے اور اس کی زندگی میں اسی قسم کی سادگی درگار ہے انسان ایسے نفس قدسی کے پیدا کرنے کا عزم محکم کرے ورنہ اسلمی تخت اقتدار کو چھوڑ کر ظلم و ستم کی بساط پر زندگی گزاردے اور اپنے کو عالم اسلام کا حاکم کہنے کا ارادہ نہ کرے۔وما توفیقی الا باللہ

۵۵۴

(۴۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّكَ مِمَّنْ أَسْتَظْهِرُ بِه عَلَى إِقَامَةِ الدِّينِ - وأَقْمَعُ بِه نَخْوَةَ الأَثِيمِ - وأَسُدُّ بِه لَهَاةَ الثَّغْرِ الْمَخُوفِ - فَاسْتَعِنْ بِاللَّه عَلَى مَا أَهَمَّكَ - واخْلِطِ الشِّدَّةَ بِضِغْثٍ مِنَ اللِّينِ، وارْفُقْ مَا كَانَ الرِّفْقُ أَرْفَقَ - واعْتَزِمْ بِالشِّدَّةِ حِينَ لَا تُغْنِي عَنْكَ إِلَّا الشِّدَّةُ - واخْفِضْ لِلرَّعِيَّةِ جَنَاحَكَ وابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ - وأَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ - وآسِ بَيْنَهُمْ فِي اللَّحْظَةِ والنَّظْرَةِ والإِشَارَةِ والتَّحِيَّةِ - حَتَّى لَا يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيْفِكَ - ولَا يَيْأَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ والسَّلَامُ

(۴۷)

ومن وصية لهعليه‌السلام

للحسن والحسينعليه‌السلام - لما ضربه ابن ملجم لعنه الله

أُوصِيكُمَا بِتَقْوَى اللَّه وأَلَّا تَبْغِيَا الدُّنْيَا وإِنْ بَغَتْكُمَا - ولَا تَأْسَفَا عَلَى شَيْءٍ مِنْهَا زُوِيَ عَنْكُمَا - وقُولَا بِالْحَقِّ واعْمَلَا لِلأَجْرِ

(۴۶)

آپ کا مکتوب گرامی

(بعض عمال کے نام )

اما بعد۔تم ان لوگوں میں ہو جن سے میں دین کے قیام کے لئے مدد لیتا ہوں اور گناہ گاروں کی نخوت کو توڑ دیتاہوں اور سرحدوں کے خطرات کی حفاظت کرتا ہوں لہٰذا اپنے اہم امور میں اللہ سے مدد طلب کرنا اور اپنی شدت میں تھوڑی نرمی بھی شامل کرلینا۔جہاں تک نرمی مناسب ہو نرمی ہی سے کام لینا اور جہاں سختی کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ ہو۔وہاں سختی ہی کرنا۔رعایا کے ساتھ تواضع سے پیش آنا اورکشادہ روئی کابرتائو کرنا۔اپنا رویہ نرم رکھنا اور نظربھرکے دیکھنے یا کنکھیوں سے دیکھنے میں بھی برابر کا سلوک کرنا اوراشارہ و سلام میں بھی مساوات سے کام لینا تاکہ بڑے لوگ تمہاری نا انصافی سے امید نہلگا بیٹھیں اور کمزور افراد تمہارے انصاف سے مایوس نہ ہو جائیں ۔ والسلام

(۴۷)

آپ کی وصیت

(امام حسن اور امام حسین سے۔ابن ملجم کی تلوار سے زخمی ہونے کے بعد )

میں تم دونوں کویہ وصیت کرتا ہوں کہ تقویٰ الٰہی اختیار کئے رہنااورخبردار دنیا لاکھ تمہیں چاہے اس سے دل نہ لگانا اور نہ اس کی کسی شے سے محروم ہو جانے پرافسوس کرنا۔ہمیشہ حرف حق کہنا اور ہمیشہ آخرت کے لئے عمل کرنا

۵۵۵

وكُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً ولِلْمَظْلُومِ عَوْناً.

أُوصِيكُمَا وجَمِيعَ وَلَدِي وأَهْلِي ومَنْ بَلَغَه كِتَابِي - بِتَقْوَى اللَّه ونَظْمِ أَمْرِكُمْ وصَلَاحِ ذَاتِ بَيْنِكُمْ - فَإِنِّي سَمِعْتُ جَدَّكُمَاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ - صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلَاةِ والصِّيَامِ.

اللَّه اللَّه فِي الأَيْتَامِ فَلَا تُغِبُّوا أَفْوَاهَهُمْ - ولَا يَضِيعُوا بِحَضْرَتِكُمْ.

واللَّه اللَّه فِي جِيرَانِكُمْ فَإِنَّهُمْ وَصِيَّةُ نَبِيِّكُمْ - مَا زَالَ يُوصِي بِهِمْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّه سَيُوَرِّثُهُمْ

واللَّه اللَّه فِي الْقُرْآنِ - لَا يَسْبِقُكُمْ بِالْعَمَلِ بِه غَيْرُكُمْ.

واللَّه اللَّه فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّهَا عَمُودُ دِينِكُمْ.

اور دیکھو ظالم کے دشمن رہنااور مظلوم کیساتھ رہنا۔

میں تم دونوں کو اوراپنے تمام اہل و عیال کو اور جہاں تک میرا یہ پیغام پہنچے ۔سب کو وصیت کرتا ہوںکہ تقوائے الٰہی اختیار کریں۔اپنے امور کو منظم رکھیں ۔ اپنے درمیان تعلقات کو سدھارے رکھیں کہ میں نے اپنے جد بزرگوار سے سنا ہے کہ آپس کے معاملات کو سلجھا کر رکھنا عام نماز(۱) اور روزہ سے بھی بہتر ہے۔

دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور ان کے فاقوں کی نوبت نہ آجائے اوروہ تمہاری نگاہوں کے سامنے برباد نہ ہو جائیں اور دیکھو ہمسایہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ ان کے بارے میں تمہارے پیغمبر (ص) کی وصیت ہے اور آپ (ص) برابر ان کے بارے میں نصیحت فرماتے رہتے تھے ۔یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شائد آپ وارث بھی بنانے والے ہیں۔

دیکھو اللہ سے ڈرو قرآن کے بارے میں کہ اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آگے نہ نکل جائیں۔

اوراللہ سے ڈرو نماز کے بارے میں کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

(۱)یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسلام کا بنیادی مقصد معاشرہ کی اصلاح۔سماج کی تنظیم اورامت کے معاملات کی ترتیب ہے اورنماز روزہ کوبھی در حقیقت اس کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے ورنہ پروردگار کسی کی عبادت اوربندگی کا محتاج نہیں ہے اور اس کا تمامتر مقصد یہ ہے کہ انسان پیش پروردگار اپنے کو حقیر وفقیر سمجھے اور اس میں یہ احساس پیداہو کہ میں بھی تمام بندگان خدا میں سے ایک بندہ ہوں اور جب سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں اوراس کے بارگاہ میں جانے والے ہیں تو آپس کے تفرقہ کاجواز کیا ہے اوریہ تفرقہ کب تک بر قرار رہے گا۔بالآخر سب کو ایکدن اسکی بارگاہ میں ایک دوسرے کا سامنا کرنا ہے۔

اس کے بعد اگر کوئی شخص اس جذبہ سے محروم ہو جائے اور شیطان اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جائے تو دوسرے افراد کا فرض ہے کہ اصلاحی قدم اٹھائیں اور معاشرہ میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کریں کہ یہ مقصد الٰہی کی تکمیل اورارتقائے بشریت کی بہترین علامت ہے ۔نماز روزہ انسان کی ذاتی اعمال ہے۔اور سماج کے فساد سے آنکھیں بند کرکے ذاتی اعمال کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔ورنہ اللہ کے معصوم بندے کبھی گھرسے باہر ہی نہ نکلتے اور ہمیشہ سجدہ ٔ پروردگار ہی میں پڑے رہتے ۔

۵۵۶

واللَّه اللَّه فِي بَيْتِ رَبِّكُمْ لَا تُخَلُّوه مَا بَقِيتُمْ - فَإِنَّه إِنْ تُرِكَ لَمْ تُنَاظَرُوا

واللَّه اللَّه فِي الْجِهَادِ بِأَمْوَالِكُمْ وأَنْفُسِكُمْ - وأَلْسِنَتِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّه.

وعَلَيْكُمْ بِالتَّوَاصُلِ والتَّبَاذُلِ - وإِيَّاكُمْ والتَّدَابُرَ والتَّقَاطُعَ - لَا تَتْرُكُوا الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - فَيُوَلَّى عَلَيْكُمْ شِرَارُكُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ.

ثُمَّ قَالَ:

يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ - لَا أُلْفِيَنَّكُمْ تَخُوضُونَ دِمَاءَ الْمُسْلِمِينَ خَوْضاً - تَقُولُونَ قُتِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ - أَلَا لَا تَقْتُلُنَّ بِي إِلَّا قَاتِلِي.

انْظُرُوا إِذَا أَنَا مِتُّ مِنْ ضَرْبَتِه هَذِه - فَاضْرِبُوه ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ - ولَا تُمَثِّلُوا بِالرَّجُلِ - فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ - إِيَّاكُمْ والْمُثْلَةَ ولَوْ بِالْكَلْبِ الْعَقُورِ».

اور اللہ سے ڈرو اپنے پروردگار کے گھر کے بارے میں کہ جب تک زندہ رہو اسے خالی نہ ہونے دوکہ اگر اسے چھوڑ دیاگیا تو تم دیکھنے کے لائق بھی نہ رہ جائو گے ۔

اوراللہ سے ڈرواپنے جان اور مال اور زبان سے جہاد کے بارے میں اور آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات رکھو۔ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور خبردار ایک دوسرے سے منہ نہ پھرا لینا۔اور تعلقات توڑ نہ لینا اورامربالمعروف اور نہی عن المنکر کو نظر انداز نہ کردینا کہ تم پر اشرار کی حکومت قائم ہوجائے اور تم فریاد بھی کرو تو اس کی سماعت نہ ہو۔

اے ااولاد عبدالمطلب ! خبردار میںیہ نہ دیکھوں کہ تم مسلمانوں کاخون بہانا شروع کردو صرف اس نعرہ پر کہ '' امیر المومنین مارے گئے ہیں '' میر بدلہ میں میرے قاتل کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

دیکھو اگرمیں اس ضربت سے جانبر نہ ہو سکا توایک ضربت کا جواب ایک ہی ضربت(۱) ہے اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کے ٹکڑے نہ کرنا کہمیں نے خود سرکار دو عالم (ص) سے سنا ہے کہ خبردار کاٹنے والے کتے کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹنا۔

(۱)کون دنیا میں ایسا شریف الفنس اوربلند کردار ہے جو قانون کی سر بلندی کے لئے اپنے نفس کاموازنہ اپنے دشمن سے کرے اوریہ اعلان کردے کہ اگرچہ مجھے مالک نے نفس اللہ اورنفس پیغمبر (ص) قرار دیا ہے اور میرے نفس کے مقابلہ میں کائنات کے جملہ نفوس کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن جہاں تک اس دنیامیں قصاص کا تعلق ہے۔میرا نفس بھی ایک ہی نفس شمار کیا جائے گا اور میرے دشمن کوبھی ایک ہی ضرب لگائی جائے گی تاکہ دنیا کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ مذہب کی ترجمانی کے لئے کس بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے اور سماج میں خون ریزی اور فساد کے روکنے کا واقعی راستہ کیاہوتا ہے۔یہی وہ افراد ہیں جو خلافت الہیہ کے حقدار ہیں اور انہیں کے کردار سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ انسانیت کا کام فساد اورخون یزی نہیں ہے بلکہ انسان اس سر زمین پر فساد اور خونریزی کی روک تھام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کامنصب واقعی خلافت الہیہ ہے۔

۵۵۷

(۴۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَإِنَّ الْبَغْيَ والزُّورَ يُوتِغَانِ الْمَرْءَ فِي دِينِه ودُنْيَاه - ويُبْدِيَانِ خَلَلَه عِنْدَ مَنْ يَعِيبُه - وقَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ غَيْرُ مُدْرِكٍ مَا قُضِيَ فَوَاتُه - وقَدْ رَامَ أَقْوَامٌ أَمْراً بِغَيْرِ الْحَقِّ - فَتَأَلَّوْا عَلَى اللَّه فَأَكْذَبَهُمْ - فَاحْذَرْ يَوْماً يَغْتَبِطُ فِيه مَنْ أَحْمَدَ عَاقِبَةَ عَمَلِه - ويَنْدَمُ مَنْ أَمْكَنَ الشَّيْطَانَ مِنْ قِيَادِه فَلَمْ يُجَاذِبْه.

وقَدْ دَعَوْتَنَا إِلَى حُكْمِ الْقُرْآنِ ولَسْتَ مِنْ أَهْلِه - ولَسْنَا إِيَّاكَ أَجَبْنَا ولَكِنَّا أَجَبْنَا الْقُرْآنَ فِي حُكْمِه - والسَّلَامُ.

(۴۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية أيضا

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا مَشْغَلَةٌ عَنْ غَيْرِهَا - ولَمْ يُصِبْ صَاحِبُهَا مِنْهَا شَيْئاً - إِلَّا فَتَحَتْ لَه حِرْصاً عَلَيْهَا ولَهَجاً بِهَا - ولَنْ يَسْتَغْنِيَ صَاحِبُهَا

(۴۸)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

بیشک بغاوت اور دورغ گوئی انسان کو دین اوردنیا دونوں میں ذلیل کردیتی ہے اوراس کے عیب کو نکتہ چینی کرنے والے کے سامنے واضح کردیتی ہے۔مجھے معلوم ہے کہ تواس چیز کو حاصل نہیں کرسکتا ہے جس کے نہ ملنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ بہت سی قوموں(۲) نے حق کے بغیر مقصد کو حاصل کرنا چاہا اور اللہ کوگواہ بنایا تو اللہ نے ان کے جھوٹ کو واضح کردیا۔اسدن سے ڈرو جس دن خوشی صرف اسی کا حصہ ہوگی جس نے اپنے عمل کے انجام کو بہتر بنالیا ہے اورندامت اس کے لئے ہوگی جس نے اپنی مہار شیطان کے اختیار میں دے دی اور اسے کھینچ کر نہیں رکھا۔تم نے مجھے قرآنی فیصلہ کیدعوت دی ہے حالانکہ تم اس کے اہل نہیں تھے اورمیں نے بھی تمہاری آواز پر لبیک نہیں کہی ہے بلکہ قرآن کے حکم پر لبیک کہی ہے۔

(۴۹)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ ہی کے نام)

امابعد!دنیاآخرت سےرو گردانی کردینے والی ہےاوراس کا ساتھی جب بھی کوئی چیزپا لیتا ہےتواس کےلئے حرص کے دوسرےدروازےکھول دیتی ہےاوروہ کبھی کوئی چیز حاصل کرکےاس سےبے نیاز نہیں ہوسکتا ہےجس کوحاصل نہیں

۵۵۸

بِمَا نَالَ فِيهَا عَمَّا لَمْ يَبْلُغْه مِنْهَا - ومِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ فِرَاقُ مَا جَمَعَ ونَقْضُ مَا أَبْرَمَ - ولَوِ اعْتَبَرْتَ بِمَا مَضَى حَفِظْتَ مَا بَقِيَ والسَّلَامُ.

(۵۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أمرائه على الجيش

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَصْحَابِ الْمَسَالِحِ

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ حَقّاً عَلَى الْوَالِي أَلَّا يُغَيِّرَه عَلَى رَعِيَّتِه فَضْلٌ نَالَه - ولَا طَوْلٌ خُصَّ بِه - وأَنْ يَزِيدَه مَا قَسَمَ اللَّه لَه مِنْ نِعَمِه دُنُوّاً مِنْ عِبَادِه - وعَطْفاً عَلَى إِخْوَانِه.

أَلَا وإِنَّ لَكُمْ عِنْدِي أَلَّا أَحْتَجِزَ دُونَكُمْ سِرّاً إِلَّا فِي حَرْبٍ - ولَا أَطْوِيَ دُونَكُمْ أَمْراً إِلَّا فِي حُكْمٍ - ولَا أُؤَخِّرَ لَكُمْ حَقّاً عَنْ مَحَلِّه - ولَا أَقِفَ بِه دُونَ مَقْطَعِه - وأَنْ تَكُونُوا عِنْدِي فِي الْحَقِّ سَوَاءً - فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ وَجَبَتْ لِلَّه عَلَيْكُمُ النِّعْمَةُ - ولِي عَلَيْكُمُ الطَّاعَةُ

کر سکا ہے حالانکہ ان سب کے بعد جو کچھ جمع کیاہے اس سے الگ ہونا ہے اور جو کچھ بندوبست کیاہے اسے توڑ دیناہے اور تواگر گذشتہ لوگوں سے ذرا بھی عبرت حاصل کرتا تو باقی زندگی کو محفوظ کر سکتا تھا۔والسلام

(۵۰)

آپ کامکتوب گرامی

(روساء لشکر کے نام)

بندۂ خدا! امیرالمومنین علی بن ابی طالب کی طرف سے سرحدوں کےمحافظوں کے نام۔یادرکھنا کہ والی پر قوم کاحق یہ ہےکہ اس نےجس برتری کو پالیاہےیاجس فارغ البالی کی منزل تک پہنچ گیا ہےاس کی بنا پر قوم کےساتھ اپنے رویہ میں تبدیلی نہ پدا کرے اوراللہ نےجو نعمت اسے عطا کی ہے اس کی بنا پربندگان خدا سےزیادہ قریب تر ہو جائے اور اپنے بھائیوںپر زیادہ ہی مہربانی کرے۔یاد رکھو مجھ پر تمہارا ایک حق یہ بھی ہےکہ جنگ کےعلاوہ کسی موقع پرکسی رازکوچھپا کر نہ رکھوں اورحکم شریعت کے علاوہ کسی مسئلہ میں تم سے مشورہ کرنےسے پہلو تہی نہ کروں۔نہ تمہارے کسی حق کو اس کی جگہ سے پیچھے ہٹائوں اور نہ کسی معاملہ کو آخری حد تک پہنچائے بغیردم لوں اورتم سب میرے نزدیک حق کےمعاملہ میں برابررہواس کےبعد جب میںان حقوق(۱) کوادا

(۱)یہ اسلامی قانون کا سب سے بڑا امتیاز ہے کہ اسلام حق لینے سے پہلے حق ادا کرنے کی بات کرتاہے اورکسی شخص کو اس وقت تک صاحب حق نہیں قراردیتا ہے جب تک وہ دوسروں کے حقوق ادا نہ کردےاوریہ ثابت نہ کردےکہ وہ خود بھی بندۂ خدا ہے اوراحکام الہیہ کا احترام کرناجانتا ہے۔اسکے بغیر حقوق کا مطالبہ کرنا بشرکو مالک سے آگے بڑھا دینے کے مترادف ہے کہانپےواسطےمالک کائنات بھی قابلاطاعت نہیں ہے اوردوسروںکے واسطے اپنی ذات بھی قابل اطاعت ہے یہ فرعونیت اورنمرودیت کی وہ قسم ہےجودور قدیم کےفراعنہ میں بھی نہیں دیکھی گئیاورآجکےہرفرعون میں پائی جا رہی ہےکل کا فرعون اپنے کوفرائض سےبالاترسمجھتا تھااورآج والےفرائض کوفرائض سمجھتے ہیں اوراس کے بعد بھی ادا کرنے کی فکر نہیں کرتے ہیں۔

۵۵۹

وأَلَّا تَنْكُصُوا عَنْ دَعْوَةٍ ولَا تُفَرِّطُوا فِي صَلَاحٍ - وأَنْ تَخُوضُوا الْغَمَرَاتِ إِلَى الْحَقِّ - فَإِنْ أَنْتُمْ لَمْ تَسْتَقِيمُوا لِي عَلَى ذَلِكَ - لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِمَّنِ اعْوَجَّ مِنْكُمْ - ثُمَّ أُعْظِمُ لَه الْعُقُوبَةَ ولَا يَجِدُ عِنْدِي فِيهَا رُخْصَةً - فَخُذُوا هَذَا مِنْ أُمَرَائِكُمْ - وأَعْطُوهُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ مَا يُصْلِحُ اللَّه بِه أَمْرَكُمْ والسَّلَامُ

(۵۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عماله على الخراج

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَصْحَابِ الْخَرَاجِ:

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مَنْ لَمْ يَحْذَرْ مَا هُوَ صَائِرٌ إِلَيْه - لَمْ يُقَدِّمْ لِنَفْسِه مَا يُحْرِزُهَا - واعْلَمُوا أَنَّ مَا كُلِّفْتُمْ بِه يَسِيرٌ وأَنَّ ثَوَابَه كَثِيرٌ - ولَوْ لَمْ يَكُنْ فِيمَا نَهَى اللَّه عَنْه - مِنَ الْبَغْيِ والْعُدْوَانِ عِقَابٌ يُخَافُ - لَكَانَ فِي ثَوَابِ اجْتِنَابِه مَا لَا عُذْرَ فِي تَرْكِ طَلَبِه - فَأَنْصِفُوا النَّاسَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ واصْبِرُوا لِحَوَائِجِهِمْ - فَإِنَّكُمْ خُزَّانُ الرَّعِيَّةِ - ووُكَلَاءُ الأُمَّةِ وسُفَرَاءُ الأَئِمَّةِ - ولَا تُحْشِمُوا

کردوں گا تو تم پر اللہ کے لئے شکر اور میرے لئے اطاعت واجب ہوجائے گی اور یہ لازم ہوگا کہ میری دعوت سے پیچھے نہ ہٹو اور کسی اصلاح میں کوتاہی نہ کرو حق تک پہنچنے کے لئے سختیوں میں کود پڑو کہ تم ان معاملات میں سیدھے نہ رہے تو میری نظر میں تم میں سے ٹیڑھے ہو جانے والے سے زیادہ کوئی حقیر و ذلیل نہ ہوگا اس کے بعد میں اسے سخت سزا دوں گا اور میرے پاس کوئی رعایت نہ پائے گا۔تو اپنے زیر نگرانی امراء سے یہی عہدو پیمان لو اور اپنی طرف سے انہیں وہ حقوق عطا کرو جن سے پروردگار تمہارے امور کی اصلاح کر سکے ۔والسلام ۔

(۵۱)

آپ کامکتوب گرامی

(خراج وصول کرنے والوں کے نام )

بندہ خدا ! امیر المومنین علی کی طرف سے خراج وصول کرنے والوں کی طرف۔ اما بعد! جو شخص اپنےانجام کارسے نہیں ڈرتا ہےوہ اپنے نفس کی حفاظت کا سامان بھی فراہم نہیں کرتا ہے۔یاد رکھو تمہارے فرائض بہت مختصر ہیں اور ان کاث واب بہت زیادہ ہے اوراگر پروردگار نےبغاوت اور ظلم سے روکنے کے بعد اس پر عذاب بھی نہ رکھا ہوتا تو اس سے پرہیز کرنے کا ثواب ہی اتنا زیادہ تھاکہ اس کے ترک کرنے میں کوئی شخص معذور نہیں ہو سکتا تھا۔لہٰذا لوگوں کے ساتھ انصاف کرو۔ان کےضرورت کےلئے صبرو تحملسے کام لو کہ تم رعایا کےخزانہ دار۔امت کے نمائندے اور ائمہ کے سفیر ہو۔خبردار کسی شخص کو اس

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863