نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656929 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

فَإِنَّه لَا يُقْدِمُ ولَا يُحْجِمُ - ولَا يُؤَخِّرُ ولَا يُقَدِّمُ إِلَّا عَنْ أَمْرِي - وقَدْ آثَرْتُكُمْ بِه عَلَى نَفْسِي لِنَصِيحَتِه لَكُمْ - وشِدَّةِ شَكِيمَتِه عَلَى عَدُوِّكُمْ.

(۳۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عمرو بن العاص

فَإِنَّكَ قَدْ جَعَلْتَ دِينَكَ تَبَعاً لِدُنْيَا امْرِئٍ - ظَاهِرٍ غَيُّه مَهْتُوكٍ سِتْرُه - يَشِينُ الْكَرِيمَ بِمَجْلِسِه ويُسَفِّه الْحَلِيمَ بِخِلْطَتِه - فَاتَّبَعْتَ أَثَرَه وطَلَبْتَ فَضْلَه - اتِّبَاعَ الْكَلْبِ لِلضِّرْغَامِ يَلُوذُ بِمَخَالِبِه - ويَنْتَظِرُ مَا يُلْقَى إِلَيْه مِنْ فَضْلِ فَرِيسَتِه - فَأَذْهَبْتَ دُنْيَاكَ وآخِرَتَكَ – ولَوْ بِالْحَقِّ أَخَذْتَ أَدْرَكْتَ مَا طَلَبْتَ - فَإِنْ يُمَكِّنِّي اللَّه مِنْكَ ومِنِ ابْنِ أَبِي سُفْيَانَ - أَجْزِكُمَا بِمَا قَدَّمْتُمَا - وإِنْ تُعْجِزَا وتَبْقَيَا فَمَا أَمَامَكُمَا شَرٌّ لَكُمَا - والسَّلَامُ.

وہ میرے امر کے بغیرنہ آگے بڑھا سکتا ہے اورنہ پیچھے ہٹا سکتا ہے۔نہ حملہ کر سکتا ہےاور نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے میں نے اس کے معاملہ میں تمہیں اپنے اوپر مقدم کردیا ہے اور اپنے پاس سے جدا کردیا ہے کہ وہ تمہارا مخلص ثابت ہوگا اور تمہارے دشمن کے مقابلہ میں انتہائی سخت گیر ہوگا۔

(۳۹)

آپ کامکتوب گرامی

(عمروبن العاص کے نام)

تونے اپنے دین کوایک ایسے شخص کی دنیا کا تابع بنادیا ہے جس کی گمراہی واضح ہے اورا س کا پردہ ٔ عیوب چاک ہوچکا ہے۔وہ شریف انسان کو اپنی بزم میں بٹھا کرعیب دار اورعقل مند کو اپنی مصاحبت سے احمق بنادیتا ہے ۔تونے اس کے نقش پر قدم جمائے ہیں۔اوراس کے بچے کھچے کی جستجو کی ہے جس طرح کہ کتاشیرکے پیچھے لگ جاتا ہے کہ اس کے پنجوں کی پناہ میں رہتا ہے اوراس وقت کا منتظر رہتا ہے جب شیر اپنے شکار کا بچا کھچا پھینک دے اور وہ اسے کھالے۔تم نے تو اپنی دنیا اورآخرت دونوں کوگنوادیا ہے۔حالانکہ اگر حق کی راہ پر رہے ہوتے جب بھی یہ مدعا حاصل ہو سکتا تھا۔بہر حال اب خدانے مجھے تم پر اور ابو سفیان کے بیٹے پر قابو دے دیا تو میں تمہارے حرکات کا صحیح بدلہ دے دوں گا اور اگرتم بچ کرنکل گئے اور میرے بعد تک باقی رہ گئے تو تمہارا آئندہ دور تمہارے لئے سخت ترین ہوگا۔والسلام

۵۴۱

(۴۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي عَنْكَ أَمْرٌ - إِنْ كُنْتَ فَعَلْتَه فَقَدْ أَسْخَطْتَ رَبَّكَ - وعَصَيْتَ إِمَامَكَ وأَخْزَيْتَ أَمَانَتَكَ .بَلَغَنِي أَنَّكَ جَرَّدْتَ الأَرْضَ فَأَخَذْتَ مَا تَحْتَ قَدَمَيْكَ - وأَكَلْتَ مَا تَحْتَ يَدَيْكَ فَارْفَعْ إِلَيَّ حِسَابَكَ - واعْلَمْ أَنَّ حِسَابَ اللَّه أَعْظَمُ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ والسَّلَامُ.

(۴۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي كُنْتُ أَشْرَكْتُكَ فِي أَمَانَتِي - وجَعَلْتُكَ شِعَارِي وبِطَانَتِي - ولَمْ يَكُنْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِي أَوْثَقَ مِنْكَ فِي نَفْسِي - لِمُوَاسَاتِي ومُوَازَرَتِي وأَدَاءِ الأَمَانَةِ إِلَيَّ - فَلَمَّا رَأَيْتَ الزَّمَانَ عَلَى ابْنِ عَمِّكَ

(۴۰)

آپ کامکتوب گرامی

(بعض عمال کے نام)

امابعد!مجھے تمہارے بارے میں ایک بات کی اطلاع ملی ہے۔اگر تم نے ایسا کیا ہے تو اپنے پروردگار کوناراض کیا ہے۔اپنے امام کی نا فرمانی کی ہے اور اپنی امانتداری کوبھی رسوا کیا ہے۔مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم نے بیت المال کی زمین کو صاف کردیا ہے اور جو کچھ زیر قدم تھا اس پر قبضہ کرلیا ہے اور جو کچھ ہاتھوں میں تھااسے کھاگئے ہو لہٰذا فوراً اپناحساب بھیج دواوریہ یاد رکھوکہ اللہ کا حساب لوگوں کے حساب سے زیادہ سخت تر ہے ۔والسلام

(۴۱)

آپ کامکتوب گرامی

(بعض عمال کے نام)

اما بعد!میں نےتم کواپنی امانت میں شریک کا ر بنایاتھا اورظاہرو باطن میں اپنا قرار دیا تھا اورہمدردی اورمدد گاری اور امانتداری کےاعتبارسے میرےگھروالوں میں تم سے زیادہ معتبر کوئی نہیں تھالیکن جب تم نے دیکھا کہ زمانہ تمہارے ابن(۱) عم

(۱)یہ بات تو واضح ہے کہ حضرت نے یہ خط اپنی کسی چچا زاد بھائی کے نام لکھاہے۔لیکن اس سے کون مراد ہے ؟ اس میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے بعض حضرات کاخیال ہے کہ عبداللہ بن عباس مراد ہیں جو بصرہکے عامل تھے لیکن جب مصرمیں محمد بن ابی بکرکا حشر دیکھ لیا تو بیت المال کا سارامال لے کر مکہ چلے گئے اور وہیں زندگی گزارنے لگے جس پرحضرتنے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ابن عباس کے تمام کارناموں پر خط نسخ کھینچ دیا اوربعض حضرات کاکہنا ہے کہ ابن عباس جیسے جبر الامتہ اورمفسر قرآن کے بارے میں اس طرح کے کردارکا امکان نہیں ہے لہٰذا اس سے مراد ان کے بھائی عبید اللہ بن عباس ہیں جو یمن میں حضرت کے عامل تھے لیکن بعض حضرات نے اس پربھی اعتراض کیا ہے کہ یمن کے حالات میں ان کی خیانت کاری کاکوئی تذکرہ نہیں ہے توایک بھائی کو بچانے کے لئے دوسرے کو نشانہ ستم کیوں بنایا جا رہا ہے ۔ عبداللہ بن عباس لاکھ عالم و فاضل اور مفسر قرآن کیوں نہ ہوں۔امام معصوم نہیں ہیں اوربعض معاملات میں امام یا مکمل پیرو امام کے علاوہ کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا ہے چاہے مرد عامی ہو یا مفسر قرآن ۔!

۵۴۲

قَدْ كَلِبَ - والْعَدُوَّ قَدْ حَرِبَ وأَمَانَةَ النَّاسِ قَدْ خَزِيَتْ - وهَذِه الأُمَّةَ قَدْ فَنَكَتْ وشَغَرَتْ - قَلَبْتَ لِابْنِ عَمِّكَ ظَهْرَ الْمِجَنِّ - فَفَارَقْتَه مَعَ الْمُفَارِقِينَ وخَذَلْتَه مَعَ الْخَاذِلِينَ - وخُنْتَه مَعَ الْخَائِنِينَ - فَلَا ابْنَ عَمِّكَ آسَيْتَ ولَا الأَمَانَةَ أَدَّيْتَ - وكَأَنَّكَ لَمْ تَكُنِ اللَّه تُرِيدُ بِجِهَادِكَ - وكَأَنَّكَ لَمْ تَكُنْ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّكَ - وكَأَنَّكَ إِنَّمَا كُنْتَ تَكِيدُ هَذِه الأُمَّةَ عَنْ دُنْيَاهُمْ - وتَنْوِي غِرَّتَهُمْ عَنْ فَيْئِهِمْ - فَلَمَّا أَمْكَنَتْكَ الشِّدَّةُ فِي خِيَانَةِ الأُمَّةِ أَسْرَعْتَ الْكَرَّةَ - وعَاجَلْتَ الْوَثْبَةَ واخْتَطَفْتَ مَا قَدَرْتَ عَلَيْه مِنْ أَمْوَالِهِمُ - الْمَصُونَةِ لأَرَامِلِهِمْ وأَيْتَامِهِمُ - اخْتِطَافَ الذِّئْبِ الأَزَلِّ دَامِيَةَ الْمِعْزَى الْكَسِيرَةَ - فَحَمَلْتَه إِلَى الْحِجَازِ رَحِيبَ الصَّدْرِ بِحَمْلِه - غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ مِنْ أَخْذِه - كَأَنَّكَ لَا أَبَا لِغَيْرِكَ - حَدَرْتَ إِلَى أَهْلِكَ تُرَاثَكَ مِنْ أَبِيكَ وأُمِّكَ –

فَسُبْحَانَ اللَّه أَمَا تُؤْمِنُ بِالْمَعَادِ - أَومَا تَخَافُ نِقَاشَ الْحِسَابِ - أَيُّهَا الْمَعْدُودُ كَانَ عِنْدَنَا مِنْ أُولِي الأَلْبَابِ - كَيْفَ تُسِيغُ شَرَاباً وطَعَاماً -

پر حملہ آور ہے اوردشمن آمادۂ جنگ ہے اور لوگوں کی امانت رسواہو رہی ہے اور امت بے راہ اور لاوارث ہوگئی ہے تو تم نے بھی اپنے ابن عم سے منہ موڑ لیا اورجدا ہونے والوں کے ساتھ مجھ سے جدا ہوگئے اور ساتھ چھوڑنے والوں کے ساتھ الگ ہوگئے اورخیانت کاروں کے ساتھ خائن ہوگئے۔نہ اپنے ابن عم کا ساتھ دیا اورنہ امانتداری کاخیال کیا۔گویا کہ تم نے اپنے جہاد سے خدا کا ارادہ بھی نہیں کیا تھا۔اور گویا تمہارے پاس پروردگارکی طرف سے کوئی حجت نہیں تھی اورگویا کہ تم اس امت کودھوکہ دے کراس کی دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور تمہاری نیت تھی کہ ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا کران کے اموال پر قبضہ کرلیں۔چنانچہ جیسے ہی امت سے خیانت کرنے کی طاقت پیدا ہوگئی تم نے تیزی سے حملہ کردیا اور فوراً کود پڑے اور ان تمام اموال کو اچ لیا جو یتیموں اوربیوائوں کے لئے محفوظ کئے گئے تھے جیسے کوئی تیز رفتار بھیڑیا شکستہ یا زخمی بکریوں پرحملہ کردیتا ہے ۔پھر تم ان اموال کو حجاز کی طرف اٹھالے گئے اور اس حرکت سے بے حد مطمئن اورخوش تھے اوراس کے لینے میں کسی گناہ کا احساس بھی نہ تھا جیسے ( خدا تمہارے دشمنوں کا براکرے ) اپنے گھر کی طرف اپنے ماں باپ کی میراث کامال لا رہے ہو۔

اے سبحان اللہ ! کیا تمہارا آخرت پر ایمان ہی نہیں ہے اور کیا روز قیامت کے شدید حساب کا خوف بھی ختم ہوگیا ہے اے وہ شخص جو کل ہمارے نزدیک صاحبان عقل میں شمار ہوتا تھا۔تمہارے یہ کھانا پینا کس طرح گوارا ہوتا ہے

۵۴۳

وأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ تَأْكُلُ حَرَاماً وتَشْرَبُ حَرَاماً - وتَبْتَاعُ الإِمَاءَ وتَنْكِحُ النِّسَاءَ - مِنْ أَمْوَالِ الْيَتَامَى والْمَسَاكِينِ والْمُؤْمِنِينَ والْمُجَاهِدِينَ - الَّذِينَ أَفَاءَ اللَّه عَلَيْهِمْ هَذِه الأَمْوَالَ - وأَحْرَزَ بِهِمْ هَذِه الْبِلَادَ - فَاتَّقِ اللَّه وارْدُدْ إِلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ أَمْوَالَهُمْ - فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ ثُمَّ أَمْكَنَنِي اللَّه مِنْكَ - لأُعْذِرَنَّ إِلَى اللَّه فِيكَ - ولأَضْرِبَنَّكَ بِسَيْفِي الَّذِي مَا ضَرَبْتُ بِه أَحَداً - إِلَّا دَخَلَ النَّارَ - ووَ اللَّه لَوْ أَنَّ الْحَسَنَ والْحُسَيْنَ فَعَلَا مِثْلَ الَّذِي فَعَلْتَ - مَا كَانَتْ لَهُمَا عِنْدِي هَوَادَةٌ ولَا ظَفِرَا مِنِّي بِإِرَادَةٍ - حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ مِنْهُمَا وأُزِيحَ الْبَاطِلَ عَنْ مَظْلَمَتِهِمَا - وأُقْسِمُ بِاللَّه رَبِّ الْعَالَمِينَ - مَا يَسُرُّنِي أَنَّ مَا أَخَذْتَه مِنْ أَمْوَالِهِمْ حَلَالٌ لِي.

جب کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم مال حرام کھا رہے ہو اورحرام ہی پی رہے ہو اور پھر ایتام، مساکین، مومنین اورمجاہدین جنہیں اللہ نے یہ مال دیا ہے اور جن کے ذریعہ ان شہروں کا تحفظ کیا ہے۔ان کے اموال سے کنیزیں خرید رہے ہو اورشادیاں رچا رہے ہو۔

خدارا۔خدا سے ڈرو اوران لوگوں کے اموال واپس کردو کہ اگرایسا نہ کروگے اورخدانے کبھی تم پر اختیار دے دیا تو تمہارے بارے میں وہ فیصلہ کروں گا جو مجھے معذور بنا سکے اورتمہاراخاتمہ اسی تلوار سے کروں گا جس کے مارے(۱) ہوئے کا کوئی ٹھکانہ جہنم کے علاوہ نہیں ہے۔

خدا کی قسم! اگر یہی کام(۲) حسن و حسین نے کیا ہوتا تو ان کے لئے بھی میرے پاس کسی نرمی کا امکان نہیںتھا اور نہ وہ میرے ارادہ پرقابو پا سکتے تھے جب تک کہ ان سے حق حاصل نہ کرلوں اور ان کے ظلم کے آثار کو مٹا نہ دوں ۔

خدائے رب العالمین کی قسم میرے لئے یہ بات ہرگز خوش کن نہیں تھی اگر یہ سارے اموال میرے لئے حلال ہوتے

(۱)حضرت علی کے مجاہدات کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ جس کی تلوارآپ پرچل جائے وہ بھی جہنمی ہے اور جس پر آپ کی تلوارچل جائے وہ بھی جہنمی ہے اس لئے کہ آپ امام معصوم اورید اللہ ہیں اور امام معصوم سے کسی غلطی کا امکان نہیں ہے اور اللہ کاہاتھ کسی بے گناہ اوربے خطا پرنہیں اٹھ سکتا ہے۔

کاش مولائے کائنات کے مقابلہ میں آنے والے جمل و صفین کے فوجی یا سر براہ اس حقیقت سے با خبر ہوتے اور انہیں اس نکتہ کاہوش رہ جاتا تو کبھی نفس پیغمبر (ص) سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ کرتے۔

(۲)یہ کسی ذاتی امتیاز کا اعلان نہیں ہے۔یہی بات پروردگارنے پیغمبر(ص) سے کہی ہے کہ تم شرک اختیار کرلو گے تو تمہارے اعمال بھی برباد کردئیے جائیں گے اوریہی بات پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی دختر نیک اختر کے بارے میں فرمائی تھی اور یہی بات مولائے کائنات نے امام حسن اور امام حسین کے بارے میں فرمائی ہے۔گویا کہ یہ ایک صحیح اسلامی کردار ہے جو صرف انہیں بندگان خدا میں پایا جاتا ہے جو مشیت الٰہی کے ترجمان اور احکام الہیہ کی تمثیل ہیں ورنہ اس طرح کے کردارکا پیشکرنا ہرانسان کے بس کاکام نہیں ہے۔

۵۴۴

أَتْرُكُه مِيرَاثاً لِمَنْ بَعْدِي فَضَحِّ رُوَيْداً - فَكَأَنَّكَ قَدْ بَلَغْتَ الْمَدَى ودُفِنْتَ تَحْتَ الثَّرَى - وعُرِضَتْ عَلَيْكَ أَعْمَالُكَ بِالْمَحَلِّ - الَّذِي يُنَادِي الظَّالِمُ فِيه بِالْحَسْرَةِ - ويَتَمَنَّى الْمُضَيِّعُ فِيه الرَّجْعَةَ( ولاتَ حِينَ مَناصٍ )

(۴۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عمر بن أبي سلمة المخزومي وكان عامله على البحرين،فعزله، واستعمل نعمان بن عجلان الزّرقي مكانه

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنِّي قَدْ وَلَّيْتُ النُّعْمَانَ بْنِ عَجْلَانَ الزُّرَقِيَّ عَلَى الْبَحْرَيْنِ - ونَزَعْتُ يَدَكَ بِلَا ذَمٍّ لَكَ ولَا تَثْرِيبٍ عَلَيْكَ - فَلَقَدْ أَحْسَنْتَ الْوِلَايَةَ وأَدَّيْتَ الأَمَانَةَ - فَأَقْبِلْ غَيْرَ ظَنِينٍ ولَا مَلُومٍ - ولَا مُتَّهَمٍ ولَا مَأْثُومٍ - فَلَقَدْ أَرَدْتُ الْمَسِيرَ إِلَى ظَلَمَةِ أَهْلِ الشَّامِ - وأَحْبَبْتُ أَنْ تَشْهَدَ مَعِي - فَإِنَّكَ مِمَّنْ أَسْتَظْهِرُ بِه عَلَى جِهَادِ الْعَدُوِّ - وإِقَامَةِ عَمُودِ الدِّينِ إِنْ شَاءَ اللَّه.

اور میں بعد والوں کے لئے میراث بنا کر چھوڑ جاتا ۔ذرا ہوش میں آئو کہ اب تم زندگی کی آخری حدوں تک پہنچ چکے ہو اورگویا کہ زیرخاک دفن ہوچکے ہو اور تم پرتمہارے اعمال پیش کردئیے گئے ہیں۔اس منزل پر جہاں ظالم حسرت سے آوازدیں گے۔اور زندگی برباد کرنے والے واپسی کی آرزو کر رہے ہوں گے اورچھٹکارے کا کوئی امکان نہ ہوگا۔

(۴۲)

آپ کا مکتوب گرامی

(بحرین کے عامل عمر بن ابی سلمہ مخزومی کے نام جنہیں معزول کرکے نعمان بن عجلان الرزقی کومعین کیا تھا)

اما بعد! میں نے نعمان بن عجلان الزرقی کو بحرین کاعامل بنادیا ہے اورتمہیں اس سے بے دخل کردیا ہے لیکن نہ اس میں تمہاری کوئی برائی ہے اور نہ ملامت۔تم نے حکومت کا کام بہت ٹھیک طریقہ سے چلایا ہے اور امانت کوادا کردیا ہے لیکن اب واپس چلے آئو نہ تمہارے بارے میں کوئی بد گمانی ہے نہ ملامت۔نہ الزام ہے نہ گناہ۔ اصل میں میرا ارادہ شام کے ظالموں سے مقابلہ کرنے کا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ رہو کہ میں تم جیسے افرادسے دشمن سے جنگ کرنے اور ستون دین قائم کرنے میں مدد لینا چاہتا ہوں۔انشاء اللہ

۵۴۵

(۴۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى مصقلة بن هبيرة الشيباني - وهو عامله على أردشيرخرة

بَلَغَنِي عَنْكَ أَمْرٌ إِنْ كُنْتَ فَعَلْتَه فَقَدْ أَسْخَطْتَ إِلَهَكَ - وعَصَيْتَ إِمَامَكَ - أَنَّكَ تَقْسِمُ فَيْءَ الْمُسْلِمِينَ - الَّذِي حَازَتْه رِمَاحُهُمْ وخُيُولُهُمْ وأُرِيقَتْ عَلَيْه دِمَاؤُهُمْ - فِيمَنِ اعْتَامَكَ مِنْ أَعْرَابِ قَوْمِكَ - فَوَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وبَرَأَ النَّسَمَةَ - لَئِنْ كَانَ ذَلِكَ حَقّاً - لَتَجِدَنَّ لَكَ عَلَيَّ هَوَاناً ولَتَخِفَّنَّ عِنْدِي مِيزَاناً - فَلَا تَسْتَهِنْ بِحَقِّ رَبِّكَ - ولَا تُصْلِحْ دُنْيَاكَ بِمَحْقِ دِينِكَ - فَتَكُونَ مِنَ الأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا.

أَلَا وإِنَّ حَقَّ مَنْ قِبَلَكَ وقِبَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - فِي قِسْمَةِ هَذَا الْفَيْءِ سَوَاءٌ - يَرِدُونَ عِنْدِي عَلَيْه ويَصْدُرُونَ عَنْه.

(۴۳)

آپ کامکتوب گرامی

(مصقلہ(۱) ہبیرہ الشیبانی کے نام جوارد شیر خرہ میں آپ کے عامل تھے )

مجھے تمہارے بارے میں ایک خبر ملی جو اگر واقعاً صحیح ہے تو تم نے اپنے پروردگار کوناراض کیا ہے اور اپنے امام کی نا فرمانی کی ہے۔خیر یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے مال غنیمت کو جسے ان کے نیزوں اور گھوڑوں نے جمع کیا ہے اورجس کی راہ میں ان کاخون بہایا گیا ہے۔اپنی قوم کے ان بدوں میں تقسیم کر رہے ہو جوتمہارے ہوا خواہ ہیں۔قسم اس ذات کی جسنے دانہ کوشگافتہ کیا ہے اورجانداروں کو پیداکیا ہے۔اگر یہ بات صحیح ہے تو تم میری نظروں میں انتہائی ذلیل ہو گے اور تمہارے اعمال کا پلہ ہلکا ہوجائے گا لہٰذا خبردار اپنے رب کے حقوق کو معمولی مت سمجھنا اور اپنے دین کوبرباد کرکے دنیا آراستہ کرنے کی فکر نہ کرنا کہ تمہارا شماران لوگوں میں ہو جائے جن کے اعمال میں خسارہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یاد رکھو! جو مسلمان تمہارے پاس یا میرے پاس ہیں ان سب کا حصہ اس مال غنیمت ایک ہی جیسا ہے اور اسی اعتبارسے وہ میرے پاس وارد ہوتے ہیں اور اپناحق لے کر چلے جاتے ہیں۔

(۱)امیرالمومنین کا اصول حکومت تھا کہ اپنے عمال پر ہمیشہ کڑی نگاہ رکھتے تھے اور ان کے تصرفات کی نگرانی کیا کرتے تھے اور جہاں کسی نے حدود اسلامیہ سے تجاوز کیا فوراً تنبیہی خط تحریر فرما دیا کرتے تھے اور یہی وہ طرز عمل تھا جس کی بنا پر بہت سے افراد ٹوٹ کر معاویہ کے ساتھ چلے گئے اور دین و دنیا دونوں کو برباد کرلیا۔ہبیرہ انہیں افراد میں تھا اور جب حضرت نے اس کے تصرفات پر تنقید فرمائی تومنحرف ہو کر شام چلا گیا اور معاویہ سے ملحق ہو گیا لیکن آپ کا کردار شام کے اندھیرے میں چمکتا رہا اورآج تک دنیا کو اسلام کی روشنی دکھلا رہا ہے ۔

۵۴۶

(۴۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى زياد ابن أبيه وقد بلغه أن معاوية كتب إليه يريد خديعته باستلحاقه

وقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ كَتَبَ إِلَيْكَ - يَسْتَزِلُّ لُبَّكَ ويَسْتَفِلُّ غَرْبَكَ - فَاحْذَرْه فَإِنَّمَا هُوَ الشَّيْطَانُ - يَأْتِي الْمَرْءَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْه ومِنْ خَلْفِه - وعَنْ يَمِينِه وعَنْ شِمَالِه - لِيَقْتَحِمَ غَفْلَتَه ويَسْتَلِبَ غِرَّتَه

وقَدْ كَانَ مِنْ أَبِي سُفْيَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلْتَةٌ - مِنْ حَدِيثِ النَّفْسِ - ونَزْغَةٌ مِنْ نَزَغَاتِ الشَّيْطَانِ - لَا يَثْبُتُ بِهَا نَسَبٌ ولَا يُسْتَحَقُّ بِهَا إِرْثٌ - والْمُتَعَلِّقُ بِهَا كَالْوَاغِلِ الْمُدَفَّعِ والنَّوْطِ الْمُذَبْذَبِ.

فَلَمَّا قَرَأَ زِيَادٌ الْكِتَابَ قَالَ - شَهِدَ بِهَا ورَبِّ الْكَعْبَةِ - ولَمْ تَزَلْ فِي نَفْسِه حَتَّى ادَّعَاه مُعَاوِيَةُ.

قال الرضي - قولهعليه‌السلام الواغل - هو الذي يهجم على الشرب - ليشرب معهم وليس منهم - فلا يزال مدفعا محاجزا - والنوط المذبذب هو ما يناط برحل الراكب - من قعب أو قدح أو ما أشبه ذلك -.

(۴۴)

آپ کامکتوب گرامی

(زیاد بن ابیہ کے نام جب آپ کو خبر ملی کہ معاویہ اسے اپنے نسب میں شامل کرکے دھوکہ دینا چاہتا ہے )

مجھے معلوم ہوا ہے کہ معاویہ نے تمہیں خط لکھ کر تمہاری عقل کو پھسلانا چاہا ہے اور تمہاری دھار کو کند بنانے کا ارادہ کرلیا ہے۔لہٰذا خبردار ہوشیار رہنا۔یہ شیطان ہے جو انسان کے پاس آگے پیچھے ۔دہنے ' بائیں ہر طرف سے آتا ہے تاکہ اسے غافل پاکراس پر ٹوٹ پڑے اورغفلت کی حالت میں اس کی عقل کو سلب کرلے ۔

واقعہ یہ ہے کہ ابو سفیان نے عمربن الخطاب کے زمانہ میں ایک بے سمجھی بوجھی بات کہہ دی تھی جو شیطانی وسوسوں میں سے ایک وسوسہ کی حیثیت رکھتی تھی جس سے نہ کوئی نسب ثابت ہوتا ہے اور نہ کسی میراث کا استحقاق پیدا ہوتا ہے اوراس سے تمسک کرنے والا ایک بن بلایا شرابی ہے جسے دھکے دے کر نکال دیا جائے یا پیالہ ہے جو زین فرس میں لٹکا دیا جائے اور ادھر ادھرڈھلکتا رہے۔

سید رضی :اس خط کو پڑھنے کے بعد زیاد نے کہا کہ رب کعبہ کی قسم علی نے اس امر کی گواہی دے دی اور یہ بات اس کے دل سے لگی رہی یہاں تک کہمعاویہ نے اس کے بھائی ہونے کا اعادہ کردیا۔ واغل اس شخص کو کہاجاتا ہے جو بزم شراب میں بن بلائے داخل ہو جائے اوردھکے

۵۴۷

فهو أبدا يتقلقل إذا حث ظهره واستعجل سيره

(۴۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عثمان بن حنيف الأنصاري - وكان عامله على البصرة وقد بلغه أنه دعي إلى وليمة قوم من أهلها، فمضى إليها - قوله:

أَمَّا بَعْدُ يَا ابْنَ حُنَيْفٍ - فَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ رَجُلًا مِنْ فِتْيَةِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ - دَعَاكَ إِلَى مَأْدُبَةٍ فَأَسْرَعْتَ إِلَيْهَا - تُسْتَطَابُ لَكَ الأَلْوَانُ وتُنْقَلُ إِلَيْكَ الْجِفَانُ - ومَا ظَنَنْتُ أَنَّكَ تُجِيبُ إِلَى طَعَامِ قَوْمٍ - عَائِلُهُمْ مَجْفُوٌّ وغَنِيُّهُمْ مَدْعُوٌّ - فَانْظُرْ إِلَى مَا تَقْضَمُه مِنْ هَذَا الْمَقْضَمِ

دے کرنکال دیا جائے ۔اورنوط مذبذب وہ پیالہ وغیرہ ہے جو مسافر کے سامان سے باندھ کر لٹکا دیاجاتا ہے اورمسلسل ادھر ادھر ڈھلکتا رہتا ہے۔

(۴۵)

آپ کا مکتوب گرامی

(اپنے بصرہ کے عامل عثمان ۱بن حنیف کے نام جب آپ کو اطلاع ملی کہ وہ ایک بڑیدعوت میں شریک ہوئے ہیں )

اما بعد! ابن حنیف ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ بصرہ کے بعض جوانوں نے تم کوایک دعوت میں مدعو کیا تھا جس میں طرح طرح کے خوشگوار کھانے تھے اور تمہاری طرف بڑے بڑے پیالے بڑھا ئے جا رہے تھے اورتم تیزی سے وہاں پہنچ گئے تھے ۔مجھے تو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ تم ایسی قوم کی دعوت میں شرکت کرو گے جس کے غریبوں پر ظلم ہو رہا ہو اور جس کے دولت مند مدعو کئے جاتے ہوں۔دیکھو جو لقمے چباتے ہو اسے دیکھ لیا کرو اوراگر

(۱)عثمان بن حنیف انصار کے قبیلہ اوس کی ایک نمایاں شخصیت تھے اوریہ وجہ ہے کہ جب خلافت دوم میں عراق کے والی کی تلاش ہوئی تو سب نے بالاتفاق عثمان بن حنیف کا نام لیا اورانہیں ارض عراق کی پیمائش اور اس کے خراج کی تعین کاذمہ دار بنادیا گیا۔امیر المومنین نے اپنے دورحکومت میں انہیں بصرہ کا والی بنا دیاتھا اوروہ طلحہ و زبیر کے وارد ہونے تک برابرمصروف عمل رہے اوراس کے بعد ان لوگوں نے سارے حالات خراب کردئیے اوربالآخر حضرت کی شہادت کے بعد کوفہ منتقل ہوگئے اوروہیں انتقال فرمایا۔

عثمان کے کردارمیں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن امیرالمومنین کا اسلامی نظام عمل یہ تھا کہ حکام کو عوام کے حالات کو نگاہ میں رکھ کر زندگی گزارنی چاہیے اورکسی حاکم کی زندگی کو عوام کے حالات سے بالاتر نہیں ہونی چاہیے جس طرح کہ حضرت نے خود اپنی زندگی گزاری ہے اور معمولی لباس و غذا پرپورا دور حکومت گزاردیا ہے ۔

۵۴۸

فَمَا اشْتَبَه عَلَيْكَ عِلْمُه فَالْفِظْه - ومَا أَيْقَنْتَ بِطِيبِ وُجُوهِه فَنَلْ مِنْه.

أَلَا وإِنَّ لِكُلِّ مَأْمُومٍ إِمَاماً يَقْتَدِي بِه - ويَسْتَضِيءُ بِنُورِ عِلْمِه - أَلَا وإِنَّ إِمَامَكُمْ قَدِ اكْتَفَى مِنْ دُنْيَاه بِطِمْرَيْه - ومِنْ طُعْمِه بِقُرْصَيْه - أَلَا وإِنَّكُمْ لَا تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ - ولَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ واجْتِهَادٍ وعِفَّةٍ وسَدَادٍ - فَوَاللَّه مَا كَنَزْتُ مِنْ دُنْيَاكُمْ تِبْراً - ولَا ادَّخَرْتُ مِنْ غَنَائِمِهَا وَفْراً - ولَا أَعْدَدْتُ لِبَالِي ثَوْبِي طِمْراً - ولَا حُزْتُ مِنْ أَرْضِهَا شِبْراً - ولَا أَخَذْتُ مِنْه إِلَّا كَقُوتِ أَتَانٍ دَبِرَةٍ - ولَهِيَ فِي عَيْنِي أَوْهَى وأَوْهَنُ مِنْ عَفْصَةٍ مَقِرَةٍ بَلَى كَانَتْ فِي أَيْدِينَا فَدَكٌ مِنْ كُلِّ مَا أَظَلَّتْه السَّمَاءُ - فَشَحَّتْ عَلَيْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ - وسَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِينَ - ونِعْمَ الْحَكَمُ اللَّه - ومَا أَصْنَعُ بِفَدَكٍ وغَيْرِ فَدَكٍ - والنَّفْسُ مَظَانُّهَا فِي غَدٍ جَدَثٌ تَنْقَطِعُ فِي ظُلْمَتِه آثَارُهَا وتَغِيبُ أَخْبَارُهَا وحُفْرَةٌ لَوْ زِيدَ فِي فُسْحَتِهَا وأَوْسَعَتْ يَدَا حَافِرِهَا - لأَضْغَطَهَا الْحَجَرُ والْمَدَرُ وسَدَّ فُرَجَهَا التُّرَابُ الْمُتَرَاكِمُ -

اس کی حقیقت مشتبہ ہو تواسے پھینک دیا کرو اور جس کے بارے میں یقین ہو کہ پاکیزہ ہے اسی کو استعمال کیا کرو۔

یاد رکھو کہ ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ اقتدا کرتا ہے اور اسی کے نورعلم سے کسب ضیاء کرتا ہے اور تمہارے امام نے تو اس دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اوردو روٹیوں میں گزارا کیا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ تم لوگایسا نہیں کرس کتے ہو لیکن کم سے کم اپنی احتیاط کوشش ' عفت اور سلامت روی سے میری مدد کرو۔خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا میں سے نہ کوئی سونا جمع کیا ہے اور نہ اس مال و متاع میں سے کوء یذخیرہ اکٹھا کیاہے اور نہ ان دو بوسیدہ کپڑوںکے بدلے کوئی اور معمولی کپڑا مہیا کیا ہے۔اورنہ ایک بالشت پرقبضہ کیا ہے اور نہ ایک بیمار جانور سے زیادہ کوئی قوت ( غذا) حاصل کیا ہے۔ یہ دنیا میری نگاہ میں کڑوی چھال سے بھی زیادہ حقیر اورب ے قیمت ہے۔ہاں ہمارے ہاتھوں میں اس آسمان کے نیچے صرفایک فدک تھا مگر اس پر بھی ایک قوم نے اپنی لالچ کا مظاہرہ کیا اوردوسری قوم نے اس کے جانے کی پرواہنہ کی اور بہر حال بہترین فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے اور ویسے بھی مجھے فدک یا غیر فدک سے کیا لینا دینا ہے جب کہ نفس کی منزل اصلی کل کے دن قبر ہے جہاں کی تاریکی میں تمام آثار منقطع ہو جائیں گے اور کوئی خبر نہ آئے گی۔یہ ایک ایسا گڑھا ہے جس کی وسعت زیادہ بھی کردی جائے اور کھودنے والا اسے وسیع بھی بنادے تو بالآخر پتھر اور ڈھیلے اسے تنگ بنادیں گے اور تہ بہ تہ مٹی اس

۵۴۹

وإِنَّمَا هِيَ نَفْسِي أَرُوضُهَا بِالتَّقْوَى - لِتَأْتِيَ آمِنَةً يَوْمَ الْخَوْفِ الأَكْبَرِ - وتَثْبُتَ عَلَى جَوَانِبِ الْمَزْلَقِ ولَوْ شِئْتُ لَاهْتَدَيْتُ الطَّرِيقَ إِلَى مُصَفَّى هَذَا الْعَسَلِ ولُبَابِ هَذَا الْقَمْحِ ونَسَائِجِ هَذَا الْقَزِّ - ولَكِنْ هَيْهَاتَ أَنْ يَغْلِبَنِي هَوَايَ - ويَقُودَنِي جَشَعِي إِلَى تَخَيُّرِ الأَطْعِمَةِ - ولَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوْ الْيَمَامَةِ مَنْ لَا طَمَعَ لَه فِي الْقُرْصِ - ولَا عَهْدَ لَه بِالشِّبَعِ - أَوْ أَبِيتَ مِبْطَاناً وحَوْلِي بُطُونٌ غَرْثَى - وأَكْبَادٌ حَرَّى أَوْ أَكُونَ كَمَا قَالَ الْقَائِلُ:

وحَسْبُكَ دَاءً أَنْ تَبِيتَ بِبِطْنَةٍ

وحَوْلَكَ أَكْبَادٌ تَحِنُّ إِلَى الْقِدِّ

أَأَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي

کے شگاف کو بند کردے گی۔میں تو اپنے نفس کو تقویٰ کی تربیت دے رہا ہوں تاکہ عظیم ترین خوف کے دن مطمئن ہوکرمیدان میں آئے اور پھسلنے کے مقامات پر ثابت قدم رہے۔

میں(۱) اگر چاہتا تو اس خالص شہد ' بہترین صافشدہ گندم اور ریشمی کپڑوں کے راستے بھی پیدا کر سکتا تھا لیکن خدانہ کرے کہ مجھ پر خواہشات کا غلبہ ہو جائے اور مجھے حرص و طمع اچھے کھانوں کے اختیار کرنے کی طف کھینچ کرلے جائیں جب کہ بہت ممکن ہے کہ چچا زیایمامہ میں اسے افراد بھی ہوں جن کے لئے ایک روٹی کا سہارا نہ ہو اور شکم مسیری کا کوئی سامان نہ ہو۔بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں شکم سیر ہو کر سو جائوں اور میرے اطراف بھوکے پیٹ اور پیاسے جگرتڑپ رہے ہوں۔کیا میں شاعرکے اس شعر کا مصداق ہو سکتا ہوں۔

'' تیری بیماری کے لئے یہی کافی ہے کہ تو پیٹ بھر کر سو جائے اور تیرے اطراف وہ جگر بھی ہوں جو سوکھے چمڑے کو بھی ترس رہے ہوں ''

کیا میرا نفس اس بات سے مطمئن ہو سکتا ہے کہ

(۱) آج دنیا کے زہد و تقویٰ کا بشتر حصہ مجبوریوں کی پیداوار ہے اور انسان کو جب دنیا حاصل نہیں ہو تی ہے تو وہ دین کے زیر سایہ پناہ لے لیتا ہے اور ذکر آخرت سے اپنے نفس کو بہلاتا ہے لیکن امیر المومنین کا کردار اس سے بالکل مختلف ہے۔آپ کے ہاتھوں میں دنیا و آخرت کا اختیار تھا۔آپ کے بازوئوں میں زور خیبر شکنی اورآپ کی انگلیوں میں قوت ردڈ شمس تھی لیکن اس کے باوجود فاقے کر رہے تھے تاکہ اسلام میں ریاست اورحکومت عیش پرستی کاذریعہ نہ بن جائے اورحکام اپنی مسئولیت کا احساس کریں اور اپنی زندگی کو غرباء کے معیار پرگزار یں تاکہ ان کادل نہ ٹوٹنے پائے ۔اوران کینفس میں غرور نہ پیدا ہونے پائے ۔ مگر افسوس کہ دنیا سے یہ تصور یکسر غائب ہوگیا اور ریاستو حکومت صرف راحت و آرام اور عیاشی و عیش پرستی کاوسیلہ بن کر رہ گئی۔

ان حالات کی جزئی اصلاح غلامان علی کے اسلامی نظام سے ہو سکتی ہے اورکلی اصلاح فرزند علی کے ظہور سے ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ بنی امیہ اور بنی عباس پر ناز کرنے والے سلاطین ان حالات کی اصلاح نہیں کرسکتے ہیں ۔

۵۵۰

بِأَنْ يُقَالَ - هَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ - ولَا أُشَارِكُهُمْ فِي مَكَارِه الدَّهْرِ - أَوْ أَكُونَ أُسْوَةً لَهُمْ فِي جُشُوبَةِ الْعَيْشِ - فَمَا خُلِقْتُ لِيَشْغَلَنِي أَكْلُ الطَّيِّبَاتِ - كَالْبَهِيمَةِ الْمَرْبُوطَةِ هَمُّهَا عَلَفُهَا - أَوِ الْمُرْسَلَةِ شُغُلُهَا تَقَمُّمُهَا - تَكْتَرِشُ مِنْ أَعْلَافِهَا وتَلْهُو عَمَّا يُرَادُ بِهَا - أَوْ أُتْرَكَ سُدًى أَوْ أُهْمَلَ عَابِثاً - أَوْ أَجُرَّ حَبْلَ الضَّلَالَةِ أَوْ أَعْتَسِفَ طَرِيقَ الْمَتَاهَةِ وكَأَنِّي بِقَائِلِكُمْ يَقُولُ - إِذَا كَانَ هَذَا قُوتُ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ - فَقَدْ قَعَدَ بِه الضَّعْفُ عَنْ قِتَالِ الأَقْرَانِ - ومُنَازَلَةِ الشُّجْعَانِ - أَلَا وإِنَّ الشَّجَرَةَ الْبَرِّيَّةَ أَصْلَبُ عُوداً - والرَّوَاتِعَ الْخَضِرَةَ أَرَقُّ جُلُوداً

مجھے ''امیر المومنین '' کہا جائے اور میں زمانے کے نا خوشگوار حالات میں مومنین کا ریک حال نہ بنوں اور معمولی غذا کے استعمال میں ان کے واسطے نمونہ نہ پیش کرسکوں ۔ میں اس لئے تو نہیں پیدا کیا گیا ہوں کہ مجھے بہترین غذائوں کا کھانا مشغول کرلے اورمیں جانوروں(۱) کے مانندہو جائوں کہ وہ بندھے ہوتے ہیں تو ان کا کل مقصد چارہ ہوتا ہے اور آزاد ہوتے ہیں تو کل مشغلہ ادھرادھر چرنا ہے جہاں گھاس پھوس سے اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں اور انہیں اس بات کی فکر بھی نہیں ہوتی ہے کہ ان کا مقصد کیا ہے۔کیا میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہوں۔یامجھے بیکار آزاد کردیا گیا ہے یا مقصد یہ ہے کہ میں گمراہی کی رسی میں باندھ کرکھینچا جائوں ۔یا پھٹکنے کی جگہ پر منہ اٹھائے پھر تا رہوں۔گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب ابو طالب کے فرزند کی غذ ا(۲) ایسی معمولی ہے تو انہیں ضعف نے دشمنوں سے جنگ کرنے اوربہادروں کے ساتھ میدان میں اترنے سے بٹھا دیا ہوگا۔تو یہ یاد رکھنا کہ جنگل کے درختوں کی لکڑیاں زیادہ مضبوطً ہوتی ہے اور ترو تازہ درختوں کی چھال کمزورہوتی

(۱) انسان اور جانور کا نقطہ امتیاز یہی ہے کہ جانور کے یہاں کھانا اورچارہ مقصد حیات ہے اور انسان کے یہاں یہ اشیاء وسیلہ حیات ہیں۔لہٰذا انسان جب تک مقصد حیات اور بندگی پروردگار کا تحفظ کرتا رہے گا انسان رہے گا اورجس دن اس نکتہ سے غافل ہو جائے گا اس کا شمار حیوانات میں ہو جائے گا۔

(۲) بعض افراد کاخیال ہے کہ انسانی زندگی میں طاقت کا سر چشمہ اس کی غذا ہوتی ہے اور انسان کی غذا جس قدر لذیذ اور خوشذائقہ ہوگی انسان اسی قدر ہمت اور طاقت والا ہوگا الانکہ یہ بات بالکل غلط اور مہمل ہے۔طاقت کا تعلق لذت و ذائقہ سے نہیں ہے۔قوت نفس اور ہمت قلب سے اور اس سے بالاتر تائید پروردگار سے کہ دست قدرت سے سیراب ہونے والا صحرائی درخت زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور امکانات کے اندر تربیت پانے والے اشجار انتہائی کمزور ہوتے ہں کہ دست بشر وہ طاقت نہیں پیدا کرسکتا ہے جو دست قدرت سے پیدا ہوتی ہے۔

۵۵۱

والنَّابِتَاتِ الْعِذْيَةَ أَقْوَى وَقُوداً وأَبْطَأُ خُمُوداً -. وأَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّه كَالضَّوْءِ مِنَ الضَّوْءِ - والذِّرَاعِ مِنَ الْعَضُدِ - واللَّه لَوْ تَظَاهَرَتِ الْعَرَبُ عَلَى قِتَالِي لَمَا وَلَّيْتُ عَنْهَا - ولَوْ أَمْكَنَتِ الْفُرَصُ مِنْ رِقَابِهَا لَسَارَعْتُ إِلَيْهَا - وسَأَجْهَدُ فِي أَنْ أُطَهِّرَ الأَرْضَ مِنْ هَذَا الشَّخْصِ الْمَعْكُوسِ - والْجِسْمِ الْمَرْكُوسِ - حَتَّى تَخْرُجَ الْمَدَرَةُ مِنْ بَيْنِ حَبِّ الْحَصِيدِ

ومِنْ هَذَا الْكِتَابِ وهُوَ آخِرُه:

إِلَيْكِ عَنِّي يَا دُنْيَا فَحَبْلُكِ عَلَى غَارِبِكِ - قَدِ انْسَلَلْتُ مِنْ مَخَالِبِكِ - وأَفْلَتُّ مِنْ حَبَائِلِكِ - واجْتَنَبْتُ الذَّهَابَ فِي مَدَاحِضِكِ - أَيْنَ الْقُرُونُ الَّذِينَ غَرَرْتِهِمْ بِمَدَاعِبِكِ - أَيْنَ الأُمَمُ الَّذِينَ فَتَنْتِهِمْ بِزَخَارِفِكِ - فَهَا هُمْ رَهَائِنُ الْقُبُورِ ومَضَامِينُ اللُّحُودِ - واللَّه لَوْ كُنْتِ شَخْصاً مَرْئِيّاً وقَالَباً حِسِّيّاً - لأَقَمْتُ عَلَيْكِ حُدُودَ اللَّه

ہے ۔صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا بھی ہے اور اسکے شعلے دیر میں بجھتے بھی ہیں۔میرا رشتہ رسول اکرم (ص) سے وہی ہے ۔جو نور کا رشتہ نورسے ہوتا ہے یا ہاتھ کا رشتہ بازئوں سے ہوتا ہے ۔

خداکی قسم اگر تمام عرب مجھ سے جنگ کرنے پر اتفاق کرلیں تو بھی میں میدان سے منہ نہیں پھرا سکتا اور اگرمجھے ذرا بھی موقع مل جائے تو میں ان کی گردنیں اڑا دوں گا اوراس بات کی کوشش کروں گا کہ زمین کو اس الٹی کھوپڑی اور بے ہنگم ڈیل ڈول والے سے پاک کردوں تاکہ کھلیان کے دانوں میں سے کنکر پتھر نکل جائیں۔

(اس خطبہ کا آخری حصہ )

اے دنیا مجھ سے دور(۱) ہو جا۔میں نے تیری باگ دوڑ تیرے ہی کاندھے پر ڈال دی ہے اور تیرے چنگل سے باہر آچکا ہوں اور تیرے جال سے نکل چکا ہوں اور تیری ے پھسلنے کے مقامات کی طرف جانے سے بھی پرہیز کرتا ہوں۔کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تونے اپنی ہنسی مذاق کی باتوں سے لبھا لیا تھا اور کہاں ہیں وہ قومیں جن کی اپنی زینت و آرائش سے مبتلائے فتنہ کردیا تھا۔دیکھو اب وہ سب قبروں میں رہن ہوچکے ہیں اور لحد میں دبکے پڑے ہوئے ہیں ۔خدا کی قسم اگر تو کوئی دیکھنے والی شے اور محسوس ہونے والا ڈھانچہ ہوتی تو میں تیرے اوپر ضرور حد جاری

(۱) لفظوں میں یہ بات بہت آسان ہے لیکن سجی سجائی دنیا کو تین مرتبہ طلاق دے کر اپنے سے جدا کردینا صرف نفس پیغمبر (ص) کا کارنامہ ہے اور امت کے بس کا کام نہیں ہے۔یہ کام وہی انجام دے سکتا ہے جو نفس کے چنگل سے آزاد ہو۔خواہشات کے پھندوں میں گرفتار نہ ہو اور ہر طرح کی زینت و آرائش کو اپنی نگاہوں سے گراچکا ہو۔

۵۵۲

فِي عِبَادٍ غَرَرْتِهِمْ بِالأَمَانِيِّ - وأُمَمٍ أَلْقَيْتِهِمْ فِي الْمَهَاوِي - ومُلُوكٍ أَسْلَمْتِهِمْ إِلَى التَّلَفِ - وأَوْرَدْتِهِمْ مَوَارِدَ الْبَلَاءِ إِذْ لَا وِرْدَ ولَا صَدَرَ -

هَيْهَاتَ مَنْ وَطِئَ دَحْضَكِ زَلِقَ - ومَنْ رَكِبَ لُجَجَكِ غَرِقَ - ومَنِ ازْوَرَّ عَنْ حَبَائِلِكِ وُفِّقَ - والسَّالِمُ مِنْكِ لَا يُبَالِي إِنْ ضَاقَ بِه مُنَاخُه - والدُّنْيَا عِنْدَه كَيَوْمٍ حَانَ انْسِلَاخُه

اعْزُبِي عَنِّي فَوَاللَّه لَا أَذِلُّ لَكِ فَتَسْتَذِلِّينِي - ولَا أَسْلَسُ لَكِ فَتَقُودِينِي - وايْمُ اللَّه يَمِيناً أَسْتَثْنِي فِيهَا بِمَشِيئَةِ اللَّه - لأَرُوضَنَّ نَفْسِي رِيَاضَةً تَهِشُّ مَعَهَا إِلَى الْقُرْصِ - إِذَا قَدَرْتُ عَلَيْه مَطْعُوماً - وتَقْنَعُ بِالْمِلْحِ مَأْدُوماً - ولأَدَعَنَّ مُقْلَتِي كَعَيْنِ مَاءٍ، نَضَبَ مَعِينُهَا - مُسْتَفْرِغَةً دُمُوعَهَا - أَتَمْتَلِئُ السَّائِمَةُ مِنْ رِعْيِهَا فَتَبْرُكَ - وتَشْبَعُ الرَّبِيضَةُ مِنْ عُشْبِهَا فَتَرْبِضَ - ويَأْكُلُ عَلِيٌّ مِنْ زَادِه فَيَهْجَعَ -

کرتا کہ تونے اللہ کے بندوں کو آرزئوں کے سہارے دھوکہ دیا ہے اور قوموں کو گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیا ہے ۔ بادشاہوں کو بربادی کے حوالے کردیا ہے اور انہیں بلائوں کی منزل پر اتاردیا ہے جہاں نہ کوئی وارد ہونے والا ہے اور نہ صادر ہونے والا۔

افسوس !جس نے بھی تیری لغزش گاہوں پرقدم رکھا وہ پھسل گیا اورجو تیریر موجوں پر سوار ہواوہ غرق ہوگیا۔بس جس نے تیرے پھندوں سے کنارہ کشی اختیار کی اس کو توفیق حاصل ہوگئی۔تجھ سے بچنے والا اس بات کی پرواہ نہیں کرتا ہے کہ اس کی منزل کس قدرتنگ ہوگئی ہے۔اس لئے کہ دنیا اس کی نگاہ میں صرف ایک دن کے برابر ہے جس کے اختتام کاوقت ہو چکا ہے۔

تو مجھ سے دور ہو جا۔میں تیرے قبضہ میں آنے والا نہیں ہوں کہ تو مجھے ذلیل کر سکے اورنہ اپنی زمام تیرے ہاتھ میں دینے والا ہوں کہ جدھر چاہے کھینچ سکے ۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔اور اس قسم میں مشیت خداکے علاوہ کسی صورت کو مشتنیٰ نہیںکرتا ۔ کہ اس نفس کو ایسی تربیت دوں گا کہ ایک روٹی پربھی خوش رہے اگروہ بطور طعام اورنمک بطور ادام مل جائے اورمیں اپنی آنکھوں کے سوتے کو ایسا بنادوں گا جیسے وہ چشمہ جس کا پانی تقریباً خشک ہو چکا ہو اورسارے آنسو بہہ گئے ہوں۔کیا یہ ممکن ہے کہ جس طرح جانورچارہ کھا کر بیٹھ جاتے ہیں اوربکریاں گھاس سے سیر ہوکر اپنے باڑہ میں لیٹ جاتی ہیں۔اسی طرح علی بھی اپنے پاس کا کھانا کھا سو جائے۔ اس

۵۵۳

قَرَّتْ إِذاً عَيْنُه إِذَا اقْتَدَى بَعْدَ السِّنِينَ الْمُتَطَاوِلَةِ - بِالْبَهِيمَةِ الْهَامِلَةِ والسَّائِمَةِ الْمَرْعِيَّةِ

طُوبَى لِنَفْسٍ أَدَّتْ إِلَى رَبِّهَا فَرْضَهَا - وعَرَكَتْ بِجَنْبِهَا بُؤْسَهَا وهَجَرَتْ فِي اللَّيْلِ غُمْضَهَا - حَتَّى إِذَا غَلَبَ الْكَرَى عَلَيْهَا افْتَرَشَتْ أَرْضَهَا - وتَوَسَّدَتْ كَفَّهَا - فِي مَعْشَرٍ أَسْهَرَ عُيُونَهُمْ خَوْفُ مَعَادِهِمْ - وتَجَافَتْ عَنْ مَضَاجِعِهِمْ جُنُوبُهُمْ - وهَمْهَمَتْ بِذِكْرِ رَبِّهِمْ شِفَاهُهُمْ - وتَقَشَّعَتْ بِطُولِ اسْتِغْفَارِهِمْ ذُنُوبُهُمْ -( أُولئِكَ حِزْبُ الله أَلا إِنَّ حِزْبَ الله هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) .

فَاتَّقِ اللَّه يَا ابْنَ حُنَيْفٍ ولْتَكْفُفْ أَقْرَاصُكَ - لِيَكُونَ مِنَ النَّارِ خَلَاصُكَ.

کی آنکھیں پھوٹ جائیں جوایک طویل زمانہگزارنے کے بعد آوارہ جانور اور چرواہے ہوئے حیوانات کی پیروی کرنے لگے۔

خوش نصیب اس نفس کے لئے جو اپنے رب کے فرض کو ادا کردے اور سختیوں کے عالم میں صبر سے کام لے ۔راتوں کو اپنی آنکھوں کو کھلا رکھے ۔یہاں تک کہ نیند کا غلبہ ہونے لگے توزمین کو بستر(۱) بنالے اور ہاتھوں کوتکیہ۔ان لوگوں کے درمیان جن کی آنکھوں کو خوف محشر نے بیدار رکھا ہے اور جن کے پہلو بستروں سے الگ رہے ہیں ۔ان کے ہونٹوں پر ذکر خدا کے زمزمے رہے ہیں اور ان کے طول استغفار سے گناہوں کے بادل چھٹ گئے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں و اللہ کے گروہ میں ہیں اوریاد رکھو کہ اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والا ہے۔

ابن حنیف اللہ سے ڈرو۔اور تمہاری یہ روٹیاں تمہیں حرص و طمع سے روکے رہیں تاکہ آتش جہنم سے آزادی حاصل کر سکو۔

(۱) کہاں دنیا میں ایسا کوئی انسان ہے جو صاحب جاہو جلال ۔اقتدار و بیت المال ہو۔دنیا میں اس کا سکہ چل رہا ہو اور عالم اسلام اس کی زیر نگیں ہو اور اسکے بعد یا تو راتوں کو بیداری اورعبادت الٰہی میں گزاردے یا سونے کا ارادہ کرے تو خاک کا بستراور ہاتھ کا تکیہ بنالے سیلاطین زمانہ اورحکام مسلمین تواس صورتحال کا تصوربھی نہیں کرس کتے ہیں۔اس کردار کے پیدا کرنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ مولائے کائنات کی شخصی زندگی کا نقشہ نہیں ہے۔یہ حاکم اسلامی اورخلیفہ اللہ کامنصبی کردار ہے کہ جسے عوامی مفادات اور اسلامی مقدرات کاذمہ دار بنایا جاتا ہے۔اس کے کردار کو ایسا ہونا چاہیے اور اس کی زندگی میں اسی قسم کی سادگی درگار ہے انسان ایسے نفس قدسی کے پیدا کرنے کا عزم محکم کرے ورنہ اسلمی تخت اقتدار کو چھوڑ کر ظلم و ستم کی بساط پر زندگی گزاردے اور اپنے کو عالم اسلام کا حاکم کہنے کا ارادہ نہ کرے۔وما توفیقی الا باللہ

۵۵۴

(۴۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّكَ مِمَّنْ أَسْتَظْهِرُ بِه عَلَى إِقَامَةِ الدِّينِ - وأَقْمَعُ بِه نَخْوَةَ الأَثِيمِ - وأَسُدُّ بِه لَهَاةَ الثَّغْرِ الْمَخُوفِ - فَاسْتَعِنْ بِاللَّه عَلَى مَا أَهَمَّكَ - واخْلِطِ الشِّدَّةَ بِضِغْثٍ مِنَ اللِّينِ، وارْفُقْ مَا كَانَ الرِّفْقُ أَرْفَقَ - واعْتَزِمْ بِالشِّدَّةِ حِينَ لَا تُغْنِي عَنْكَ إِلَّا الشِّدَّةُ - واخْفِضْ لِلرَّعِيَّةِ جَنَاحَكَ وابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ - وأَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ - وآسِ بَيْنَهُمْ فِي اللَّحْظَةِ والنَّظْرَةِ والإِشَارَةِ والتَّحِيَّةِ - حَتَّى لَا يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيْفِكَ - ولَا يَيْأَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ والسَّلَامُ

(۴۷)

ومن وصية لهعليه‌السلام

للحسن والحسينعليه‌السلام - لما ضربه ابن ملجم لعنه الله

أُوصِيكُمَا بِتَقْوَى اللَّه وأَلَّا تَبْغِيَا الدُّنْيَا وإِنْ بَغَتْكُمَا - ولَا تَأْسَفَا عَلَى شَيْءٍ مِنْهَا زُوِيَ عَنْكُمَا - وقُولَا بِالْحَقِّ واعْمَلَا لِلأَجْرِ

(۴۶)

آپ کا مکتوب گرامی

(بعض عمال کے نام )

اما بعد۔تم ان لوگوں میں ہو جن سے میں دین کے قیام کے لئے مدد لیتا ہوں اور گناہ گاروں کی نخوت کو توڑ دیتاہوں اور سرحدوں کے خطرات کی حفاظت کرتا ہوں لہٰذا اپنے اہم امور میں اللہ سے مدد طلب کرنا اور اپنی شدت میں تھوڑی نرمی بھی شامل کرلینا۔جہاں تک نرمی مناسب ہو نرمی ہی سے کام لینا اور جہاں سختی کے علاوہ کوئی چارہ کارنہ ہو۔وہاں سختی ہی کرنا۔رعایا کے ساتھ تواضع سے پیش آنا اورکشادہ روئی کابرتائو کرنا۔اپنا رویہ نرم رکھنا اور نظربھرکے دیکھنے یا کنکھیوں سے دیکھنے میں بھی برابر کا سلوک کرنا اوراشارہ و سلام میں بھی مساوات سے کام لینا تاکہ بڑے لوگ تمہاری نا انصافی سے امید نہلگا بیٹھیں اور کمزور افراد تمہارے انصاف سے مایوس نہ ہو جائیں ۔ والسلام

(۴۷)

آپ کی وصیت

(امام حسن اور امام حسین سے۔ابن ملجم کی تلوار سے زخمی ہونے کے بعد )

میں تم دونوں کویہ وصیت کرتا ہوں کہ تقویٰ الٰہی اختیار کئے رہنااورخبردار دنیا لاکھ تمہیں چاہے اس سے دل نہ لگانا اور نہ اس کی کسی شے سے محروم ہو جانے پرافسوس کرنا۔ہمیشہ حرف حق کہنا اور ہمیشہ آخرت کے لئے عمل کرنا

۵۵۵

وكُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً ولِلْمَظْلُومِ عَوْناً.

أُوصِيكُمَا وجَمِيعَ وَلَدِي وأَهْلِي ومَنْ بَلَغَه كِتَابِي - بِتَقْوَى اللَّه ونَظْمِ أَمْرِكُمْ وصَلَاحِ ذَاتِ بَيْنِكُمْ - فَإِنِّي سَمِعْتُ جَدَّكُمَاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ - صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلَاةِ والصِّيَامِ.

اللَّه اللَّه فِي الأَيْتَامِ فَلَا تُغِبُّوا أَفْوَاهَهُمْ - ولَا يَضِيعُوا بِحَضْرَتِكُمْ.

واللَّه اللَّه فِي جِيرَانِكُمْ فَإِنَّهُمْ وَصِيَّةُ نَبِيِّكُمْ - مَا زَالَ يُوصِي بِهِمْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّه سَيُوَرِّثُهُمْ

واللَّه اللَّه فِي الْقُرْآنِ - لَا يَسْبِقُكُمْ بِالْعَمَلِ بِه غَيْرُكُمْ.

واللَّه اللَّه فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّهَا عَمُودُ دِينِكُمْ.

اور دیکھو ظالم کے دشمن رہنااور مظلوم کیساتھ رہنا۔

میں تم دونوں کو اوراپنے تمام اہل و عیال کو اور جہاں تک میرا یہ پیغام پہنچے ۔سب کو وصیت کرتا ہوںکہ تقوائے الٰہی اختیار کریں۔اپنے امور کو منظم رکھیں ۔ اپنے درمیان تعلقات کو سدھارے رکھیں کہ میں نے اپنے جد بزرگوار سے سنا ہے کہ آپس کے معاملات کو سلجھا کر رکھنا عام نماز(۱) اور روزہ سے بھی بہتر ہے۔

دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور ان کے فاقوں کی نوبت نہ آجائے اوروہ تمہاری نگاہوں کے سامنے برباد نہ ہو جائیں اور دیکھو ہمسایہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ ان کے بارے میں تمہارے پیغمبر (ص) کی وصیت ہے اور آپ (ص) برابر ان کے بارے میں نصیحت فرماتے رہتے تھے ۔یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شائد آپ وارث بھی بنانے والے ہیں۔

دیکھو اللہ سے ڈرو قرآن کے بارے میں کہ اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آگے نہ نکل جائیں۔

اوراللہ سے ڈرو نماز کے بارے میں کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

(۱)یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسلام کا بنیادی مقصد معاشرہ کی اصلاح۔سماج کی تنظیم اورامت کے معاملات کی ترتیب ہے اورنماز روزہ کوبھی در حقیقت اس کا ایک ذریعہ بنایا گیا ہے ورنہ پروردگار کسی کی عبادت اوربندگی کا محتاج نہیں ہے اور اس کا تمامتر مقصد یہ ہے کہ انسان پیش پروردگار اپنے کو حقیر وفقیر سمجھے اور اس میں یہ احساس پیداہو کہ میں بھی تمام بندگان خدا میں سے ایک بندہ ہوں اور جب سب ایک ہی خدا کے بندے ہیں اوراس کے بارگاہ میں جانے والے ہیں تو آپس کے تفرقہ کاجواز کیا ہے اوریہ تفرقہ کب تک بر قرار رہے گا۔بالآخر سب کو ایکدن اسکی بارگاہ میں ایک دوسرے کا سامنا کرنا ہے۔

اس کے بعد اگر کوئی شخص اس جذبہ سے محروم ہو جائے اور شیطان اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جائے تو دوسرے افراد کا فرض ہے کہ اصلاحی قدم اٹھائیں اور معاشرہ میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کریں کہ یہ مقصد الٰہی کی تکمیل اورارتقائے بشریت کی بہترین علامت ہے ۔نماز روزہ انسان کی ذاتی اعمال ہے۔اور سماج کے فساد سے آنکھیں بند کرکے ذاتی اعمال کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔ورنہ اللہ کے معصوم بندے کبھی گھرسے باہر ہی نہ نکلتے اور ہمیشہ سجدہ ٔ پروردگار ہی میں پڑے رہتے ۔

۵۵۶

واللَّه اللَّه فِي بَيْتِ رَبِّكُمْ لَا تُخَلُّوه مَا بَقِيتُمْ - فَإِنَّه إِنْ تُرِكَ لَمْ تُنَاظَرُوا

واللَّه اللَّه فِي الْجِهَادِ بِأَمْوَالِكُمْ وأَنْفُسِكُمْ - وأَلْسِنَتِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّه.

وعَلَيْكُمْ بِالتَّوَاصُلِ والتَّبَاذُلِ - وإِيَّاكُمْ والتَّدَابُرَ والتَّقَاطُعَ - لَا تَتْرُكُوا الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - فَيُوَلَّى عَلَيْكُمْ شِرَارُكُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ.

ثُمَّ قَالَ:

يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ - لَا أُلْفِيَنَّكُمْ تَخُوضُونَ دِمَاءَ الْمُسْلِمِينَ خَوْضاً - تَقُولُونَ قُتِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ - أَلَا لَا تَقْتُلُنَّ بِي إِلَّا قَاتِلِي.

انْظُرُوا إِذَا أَنَا مِتُّ مِنْ ضَرْبَتِه هَذِه - فَاضْرِبُوه ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ - ولَا تُمَثِّلُوا بِالرَّجُلِ - فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ - إِيَّاكُمْ والْمُثْلَةَ ولَوْ بِالْكَلْبِ الْعَقُورِ».

اور اللہ سے ڈرو اپنے پروردگار کے گھر کے بارے میں کہ جب تک زندہ رہو اسے خالی نہ ہونے دوکہ اگر اسے چھوڑ دیاگیا تو تم دیکھنے کے لائق بھی نہ رہ جائو گے ۔

اوراللہ سے ڈرواپنے جان اور مال اور زبان سے جہاد کے بارے میں اور آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات رکھو۔ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور خبردار ایک دوسرے سے منہ نہ پھرا لینا۔اور تعلقات توڑ نہ لینا اورامربالمعروف اور نہی عن المنکر کو نظر انداز نہ کردینا کہ تم پر اشرار کی حکومت قائم ہوجائے اور تم فریاد بھی کرو تو اس کی سماعت نہ ہو۔

اے ااولاد عبدالمطلب ! خبردار میںیہ نہ دیکھوں کہ تم مسلمانوں کاخون بہانا شروع کردو صرف اس نعرہ پر کہ '' امیر المومنین مارے گئے ہیں '' میر بدلہ میں میرے قاتل کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

دیکھو اگرمیں اس ضربت سے جانبر نہ ہو سکا توایک ضربت کا جواب ایک ہی ضربت(۱) ہے اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کے ٹکڑے نہ کرنا کہمیں نے خود سرکار دو عالم (ص) سے سنا ہے کہ خبردار کاٹنے والے کتے کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹنا۔

(۱)کون دنیا میں ایسا شریف الفنس اوربلند کردار ہے جو قانون کی سر بلندی کے لئے اپنے نفس کاموازنہ اپنے دشمن سے کرے اوریہ اعلان کردے کہ اگرچہ مجھے مالک نے نفس اللہ اورنفس پیغمبر (ص) قرار دیا ہے اور میرے نفس کے مقابلہ میں کائنات کے جملہ نفوس کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن جہاں تک اس دنیامیں قصاص کا تعلق ہے۔میرا نفس بھی ایک ہی نفس شمار کیا جائے گا اور میرے دشمن کوبھی ایک ہی ضرب لگائی جائے گی تاکہ دنیا کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ مذہب کی ترجمانی کے لئے کس بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے اور سماج میں خون ریزی اور فساد کے روکنے کا واقعی راستہ کیاہوتا ہے۔یہی وہ افراد ہیں جو خلافت الہیہ کے حقدار ہیں اور انہیں کے کردار سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے کہ انسانیت کا کام فساد اورخون یزی نہیں ہے بلکہ انسان اس سر زمین پر فساد اور خونریزی کی روک تھام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کامنصب واقعی خلافت الہیہ ہے۔

۵۵۷

(۴۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَإِنَّ الْبَغْيَ والزُّورَ يُوتِغَانِ الْمَرْءَ فِي دِينِه ودُنْيَاه - ويُبْدِيَانِ خَلَلَه عِنْدَ مَنْ يَعِيبُه - وقَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ غَيْرُ مُدْرِكٍ مَا قُضِيَ فَوَاتُه - وقَدْ رَامَ أَقْوَامٌ أَمْراً بِغَيْرِ الْحَقِّ - فَتَأَلَّوْا عَلَى اللَّه فَأَكْذَبَهُمْ - فَاحْذَرْ يَوْماً يَغْتَبِطُ فِيه مَنْ أَحْمَدَ عَاقِبَةَ عَمَلِه - ويَنْدَمُ مَنْ أَمْكَنَ الشَّيْطَانَ مِنْ قِيَادِه فَلَمْ يُجَاذِبْه.

وقَدْ دَعَوْتَنَا إِلَى حُكْمِ الْقُرْآنِ ولَسْتَ مِنْ أَهْلِه - ولَسْنَا إِيَّاكَ أَجَبْنَا ولَكِنَّا أَجَبْنَا الْقُرْآنَ فِي حُكْمِه - والسَّلَامُ.

(۴۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية أيضا

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْيَا مَشْغَلَةٌ عَنْ غَيْرِهَا - ولَمْ يُصِبْ صَاحِبُهَا مِنْهَا شَيْئاً - إِلَّا فَتَحَتْ لَه حِرْصاً عَلَيْهَا ولَهَجاً بِهَا - ولَنْ يَسْتَغْنِيَ صَاحِبُهَا

(۴۸)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

بیشک بغاوت اور دورغ گوئی انسان کو دین اوردنیا دونوں میں ذلیل کردیتی ہے اوراس کے عیب کو نکتہ چینی کرنے والے کے سامنے واضح کردیتی ہے۔مجھے معلوم ہے کہ تواس چیز کو حاصل نہیں کرسکتا ہے جس کے نہ ملنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ بہت سی قوموں(۲) نے حق کے بغیر مقصد کو حاصل کرنا چاہا اور اللہ کوگواہ بنایا تو اللہ نے ان کے جھوٹ کو واضح کردیا۔اسدن سے ڈرو جس دن خوشی صرف اسی کا حصہ ہوگی جس نے اپنے عمل کے انجام کو بہتر بنالیا ہے اورندامت اس کے لئے ہوگی جس نے اپنی مہار شیطان کے اختیار میں دے دی اور اسے کھینچ کر نہیں رکھا۔تم نے مجھے قرآنی فیصلہ کیدعوت دی ہے حالانکہ تم اس کے اہل نہیں تھے اورمیں نے بھی تمہاری آواز پر لبیک نہیں کہی ہے بلکہ قرآن کے حکم پر لبیک کہی ہے۔

(۴۹)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ ہی کے نام)

امابعد!دنیاآخرت سےرو گردانی کردینے والی ہےاوراس کا ساتھی جب بھی کوئی چیزپا لیتا ہےتواس کےلئے حرص کے دوسرےدروازےکھول دیتی ہےاوروہ کبھی کوئی چیز حاصل کرکےاس سےبے نیاز نہیں ہوسکتا ہےجس کوحاصل نہیں

۵۵۸

بِمَا نَالَ فِيهَا عَمَّا لَمْ يَبْلُغْه مِنْهَا - ومِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ فِرَاقُ مَا جَمَعَ ونَقْضُ مَا أَبْرَمَ - ولَوِ اعْتَبَرْتَ بِمَا مَضَى حَفِظْتَ مَا بَقِيَ والسَّلَامُ.

(۵۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أمرائه على الجيش

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَصْحَابِ الْمَسَالِحِ

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ حَقّاً عَلَى الْوَالِي أَلَّا يُغَيِّرَه عَلَى رَعِيَّتِه فَضْلٌ نَالَه - ولَا طَوْلٌ خُصَّ بِه - وأَنْ يَزِيدَه مَا قَسَمَ اللَّه لَه مِنْ نِعَمِه دُنُوّاً مِنْ عِبَادِه - وعَطْفاً عَلَى إِخْوَانِه.

أَلَا وإِنَّ لَكُمْ عِنْدِي أَلَّا أَحْتَجِزَ دُونَكُمْ سِرّاً إِلَّا فِي حَرْبٍ - ولَا أَطْوِيَ دُونَكُمْ أَمْراً إِلَّا فِي حُكْمٍ - ولَا أُؤَخِّرَ لَكُمْ حَقّاً عَنْ مَحَلِّه - ولَا أَقِفَ بِه دُونَ مَقْطَعِه - وأَنْ تَكُونُوا عِنْدِي فِي الْحَقِّ سَوَاءً - فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ وَجَبَتْ لِلَّه عَلَيْكُمُ النِّعْمَةُ - ولِي عَلَيْكُمُ الطَّاعَةُ

کر سکا ہے حالانکہ ان سب کے بعد جو کچھ جمع کیاہے اس سے الگ ہونا ہے اور جو کچھ بندوبست کیاہے اسے توڑ دیناہے اور تواگر گذشتہ لوگوں سے ذرا بھی عبرت حاصل کرتا تو باقی زندگی کو محفوظ کر سکتا تھا۔والسلام

(۵۰)

آپ کامکتوب گرامی

(روساء لشکر کے نام)

بندۂ خدا! امیرالمومنین علی بن ابی طالب کی طرف سے سرحدوں کےمحافظوں کے نام۔یادرکھنا کہ والی پر قوم کاحق یہ ہےکہ اس نےجس برتری کو پالیاہےیاجس فارغ البالی کی منزل تک پہنچ گیا ہےاس کی بنا پر قوم کےساتھ اپنے رویہ میں تبدیلی نہ پدا کرے اوراللہ نےجو نعمت اسے عطا کی ہے اس کی بنا پربندگان خدا سےزیادہ قریب تر ہو جائے اور اپنے بھائیوںپر زیادہ ہی مہربانی کرے۔یاد رکھو مجھ پر تمہارا ایک حق یہ بھی ہےکہ جنگ کےعلاوہ کسی موقع پرکسی رازکوچھپا کر نہ رکھوں اورحکم شریعت کے علاوہ کسی مسئلہ میں تم سے مشورہ کرنےسے پہلو تہی نہ کروں۔نہ تمہارے کسی حق کو اس کی جگہ سے پیچھے ہٹائوں اور نہ کسی معاملہ کو آخری حد تک پہنچائے بغیردم لوں اورتم سب میرے نزدیک حق کےمعاملہ میں برابررہواس کےبعد جب میںان حقوق(۱) کوادا

(۱)یہ اسلامی قانون کا سب سے بڑا امتیاز ہے کہ اسلام حق لینے سے پہلے حق ادا کرنے کی بات کرتاہے اورکسی شخص کو اس وقت تک صاحب حق نہیں قراردیتا ہے جب تک وہ دوسروں کے حقوق ادا نہ کردےاوریہ ثابت نہ کردےکہ وہ خود بھی بندۂ خدا ہے اوراحکام الہیہ کا احترام کرناجانتا ہے۔اسکے بغیر حقوق کا مطالبہ کرنا بشرکو مالک سے آگے بڑھا دینے کے مترادف ہے کہانپےواسطےمالک کائنات بھی قابلاطاعت نہیں ہے اوردوسروںکے واسطے اپنی ذات بھی قابل اطاعت ہے یہ فرعونیت اورنمرودیت کی وہ قسم ہےجودور قدیم کےفراعنہ میں بھی نہیں دیکھی گئیاورآجکےہرفرعون میں پائی جا رہی ہےکل کا فرعون اپنے کوفرائض سےبالاترسمجھتا تھااورآج والےفرائض کوفرائض سمجھتے ہیں اوراس کے بعد بھی ادا کرنے کی فکر نہیں کرتے ہیں۔

۵۵۹

وأَلَّا تَنْكُصُوا عَنْ دَعْوَةٍ ولَا تُفَرِّطُوا فِي صَلَاحٍ - وأَنْ تَخُوضُوا الْغَمَرَاتِ إِلَى الْحَقِّ - فَإِنْ أَنْتُمْ لَمْ تَسْتَقِيمُوا لِي عَلَى ذَلِكَ - لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَهْوَنَ عَلَيَّ مِمَّنِ اعْوَجَّ مِنْكُمْ - ثُمَّ أُعْظِمُ لَه الْعُقُوبَةَ ولَا يَجِدُ عِنْدِي فِيهَا رُخْصَةً - فَخُذُوا هَذَا مِنْ أُمَرَائِكُمْ - وأَعْطُوهُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ مَا يُصْلِحُ اللَّه بِه أَمْرَكُمْ والسَّلَامُ

(۵۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عماله على الخراج

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى أَصْحَابِ الْخَرَاجِ:

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مَنْ لَمْ يَحْذَرْ مَا هُوَ صَائِرٌ إِلَيْه - لَمْ يُقَدِّمْ لِنَفْسِه مَا يُحْرِزُهَا - واعْلَمُوا أَنَّ مَا كُلِّفْتُمْ بِه يَسِيرٌ وأَنَّ ثَوَابَه كَثِيرٌ - ولَوْ لَمْ يَكُنْ فِيمَا نَهَى اللَّه عَنْه - مِنَ الْبَغْيِ والْعُدْوَانِ عِقَابٌ يُخَافُ - لَكَانَ فِي ثَوَابِ اجْتِنَابِه مَا لَا عُذْرَ فِي تَرْكِ طَلَبِه - فَأَنْصِفُوا النَّاسَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ واصْبِرُوا لِحَوَائِجِهِمْ - فَإِنَّكُمْ خُزَّانُ الرَّعِيَّةِ - ووُكَلَاءُ الأُمَّةِ وسُفَرَاءُ الأَئِمَّةِ - ولَا تُحْشِمُوا

کردوں گا تو تم پر اللہ کے لئے شکر اور میرے لئے اطاعت واجب ہوجائے گی اور یہ لازم ہوگا کہ میری دعوت سے پیچھے نہ ہٹو اور کسی اصلاح میں کوتاہی نہ کرو حق تک پہنچنے کے لئے سختیوں میں کود پڑو کہ تم ان معاملات میں سیدھے نہ رہے تو میری نظر میں تم میں سے ٹیڑھے ہو جانے والے سے زیادہ کوئی حقیر و ذلیل نہ ہوگا اس کے بعد میں اسے سخت سزا دوں گا اور میرے پاس کوئی رعایت نہ پائے گا۔تو اپنے زیر نگرانی امراء سے یہی عہدو پیمان لو اور اپنی طرف سے انہیں وہ حقوق عطا کرو جن سے پروردگار تمہارے امور کی اصلاح کر سکے ۔والسلام ۔

(۵۱)

آپ کامکتوب گرامی

(خراج وصول کرنے والوں کے نام )

بندہ خدا ! امیر المومنین علی کی طرف سے خراج وصول کرنے والوں کی طرف۔ اما بعد! جو شخص اپنےانجام کارسے نہیں ڈرتا ہےوہ اپنے نفس کی حفاظت کا سامان بھی فراہم نہیں کرتا ہے۔یاد رکھو تمہارے فرائض بہت مختصر ہیں اور ان کاث واب بہت زیادہ ہے اوراگر پروردگار نےبغاوت اور ظلم سے روکنے کے بعد اس پر عذاب بھی نہ رکھا ہوتا تو اس سے پرہیز کرنے کا ثواب ہی اتنا زیادہ تھاکہ اس کے ترک کرنے میں کوئی شخص معذور نہیں ہو سکتا تھا۔لہٰذا لوگوں کے ساتھ انصاف کرو۔ان کےضرورت کےلئے صبرو تحملسے کام لو کہ تم رعایا کےخزانہ دار۔امت کے نمائندے اور ائمہ کے سفیر ہو۔خبردار کسی شخص کو اس

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863