نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657168 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

لیکن ہماری گفتگو اس سلسلے میں ہے کہ ''عبادت'' اور غیر عبادت کی شناخت کا معیار کیا ہے؟

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے استاد اور ماں باپ یا علماء اور مجتہدین کے ہاتھوں کا بوسہ لے یا اپنے ذوی الحقوق کا احترام کرے تو کیا اس کا یہ عمل ان کی عبادت شمار ہوگا؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ کسی کے مقابلے میں خضوع و خشوع کو عبادت نہیں کہتے بلکہ عبادت کے لئے ایک خاص صفت کا ہونا ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر چاہے جس بھی طرح کا خضوع ہو عبادت نہیں کہلائے گااب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی بنیادی صفت ہے جو کسی بھی طرح کے خضوع کو عبادت بناسکتی ہے؟

لفظ عبادت کے غلط معنی

کچھ مصنفین نے اپنی کتابوں میں عبادت کے معنی خضوع اور یا زیادہ خضوع بیان کئے ہیں لیکن ان مصنفین کو قرآن مجید کی بعض آیات کے ترجمہ میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ ان آیتوں میں خداوندکریم نے صراحت سے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے فرشتوں کو جناب آدم کا سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا ملاحظہ ہو:

(وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیت:۳۴.

۲۸۱

اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو.

حضرت آدم کے لئے بعینہ اسی طرح سجدہ بجالایا گیا جس طرح خداوندکریم کے لئے سجدہ کیا جاتا تھا جبکہ جناب آدم کے سامنے یہ سجدہ خضوع اور تواضع کے اظہار کی خاطر انجام پایا تھا اور خدا کا سجدہ عبادت و پرستش کے طور پر بجالایا جاتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ایک ہی طرح کے سجدوں میں کیسے دومختلف حقیقتیں پیداہوگئیں؟

قرآن مجید ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ جناب یعقوب نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ جناب یوسف کے سامنے سجدہ کیا تھا:

(وَرَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاَبَتِ هَذَا تَاْوِیلُ رُؤْیَا مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّا'' ( ۱ )

اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب انکے سامنے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا: اے باباجان! یہی میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک میرے رب نے اسے سچ کردکھایا ہے.

یہاں پر اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ جناب یوسف نے پہلے خواب کی طرف اشارہ کیا تھا جس سے مراد وہی خواب تھا جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ چاند اور

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت:۱۰۰.

۲۸۲

سورج کے ہمراہ گیارہ ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں اس بات کو قرآن مجید نے یوں نقل کیا ہے:

انِّ رَاَیْتُ احَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِى سَاجِدِینَ )( ۱ )

میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور آفتاب و مہتاب کو دیکھا ہے کہ یہ میرے سامنے سجدہ کررہے ہیں

اس آیت میں گیارہ ستاروں سے جناب یوسف کے گیارہ بھائی اور چاند اور سورج سے ان کے ماں اور باپ مراد ہیں

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ نہ صرف حضرت یعقوب کے بیٹوں نے بلکہ خود جناب یعقوب نے بھی جناب یوسف کے سامنے سجدہ کیا تھا.

اب یہاں ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں :

اس قسم کے سجدہ کو عبادت میں شمارکیوں نہیں کیا جاتا جبکہ سجدہ نہایت خضوع اور تواضع کے ساتھ بجالایا گیا تھا؟

عذر بدتراز گناہ

یہاں پر چونکہ مذکورہ مصنفین اس سوال کا جواب نہیں دے پائے لہذا یوں کہتے ہیں :

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت :۴.

۲۸۳

چونکہ اس قسم کا خضوع و خشوع پروردگارعالم کے حکم سے انجام دیا گیا تھا لہذا اسے شرک شمار نہیں کیاجاسکتا .لیکن یہ بات معلوم ہے کہ ان کی یہ تاویل کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے اس لئے کہ اگر کوئی عمل باعث شرک ہو تو خداوندعالم ہرگز اس کا حکم نہیں دے سکتا.

قرآن مجید فرماتا ہے:

(قُلْ ِانَّ ﷲ لاَیَاْمُرُ بِالْفَحْشَائِ اَتَقُولُونَ عَلَی ﷲِ مَا لاتَعْلَمُون )( ۱ )

کہہ دیجئے اللہ یقینا برائی کا حکم نہیں دیتا کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں ؟

اصولی طور پر خداوندعالم کا حکم کسی چیز کی حقیقت کو نہیں بدلتا اگر ایک انسان کے مقابلے میں خضوع کرنا اس کی عبادت ہو اور خدائے بزرگ نیز اس کا حکم دے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا اپنی عبادت کا حکم دے رہا ہے.

مسئلے کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنی کی وضاحت

یہاں تک یہ واضح ہوگیا کہ ''غیر خدا کی عبادت کے ممنوع ہونے کے سلسلے میں '' دنیا کے تمام موحد متفق ہیں اور دوسری طرف سے یہ بھی روشن ہوچکا ہے کہ فرشتوں کا

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت:۲۸.

۲۸۴

حضرت آدم کے سامنے اور حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا حضرت یوسف کے سامنے سجدہ کرنا ان کی عبادت نہ تھا اب ضروری ہے کہ ہم اس نکتے کی طرف توجہ دلائیں کہ وہ کون سی خاص صفت ہے جس کے نہ ہونے سے ایک عمل عبادت نہیں بن پاتا جبکہ اگر وہ پائی جاتی ہو تو وہی عمل عبادت شمار ہوتاہے.

قرآنی آیات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ کسی موجود کو خدا سمجھ کر اس کے سامنے خضوع کرنا یا اس کی طرف خدائی امور کی نسبت دینا اس کی عبادت کہلاتا ہے اس بیان سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر کسی کو خدائی امور انجام دینے پر قادر سمجھتے ہوئے اس کے سامنے خضوع کیا جائے تو یہ عمل اسی کی عبادت شمار ہوگا .دنیا کے مشرک ایسے موجودات کے سامنے خضوع کیا کرتے تھے کہ جنہیں وہ مخلوق خدا تو سمجھتے تھے لیکن وہ اس بات کے معتقد تھے کہ کچھ خدائی امور جیسے کہ گناہوں کی بخشش ،

اور حق شفاعت انہیں موجودات کو سونپ دیئے گئے ہیں

سرزمین بابل کے کچھ مشرک آسمانی ستاروں کو اپنا رب اور دنیا اور انسانوں کی تدبیر کا مالک سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے لیکن انہیں اپنا خالق نہیں سمجھتے تھے حضرت ابراہیم نے بھی اسی اصل کی بنا پر اپنی قوم کے ساتھ مناظرہ کیا تھا کیونکہ سرزمین بابل کے مشرک ہرگزسورج چاند اور ستاروں کو اپنا خالق نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ انہیں ایسی باقدرت مخلوق سمجھتے تھ

۲۸۵

جنہیں ربوبیت اور دنیا کی تدبیر سونپ دی گئی تھی قرآنی آیات میں بھی حضرت ابراہیم اور مشرکین بابل کے درمیان مناظرے میں لفظ رب کو محور قرار دیتے ہوئے( ۱ ) بیان کیا گیا ہے اور یہ واضح ہے کہ لفظ رب کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنا صاحب اور اپنی مملوک کے امور کا مدبر قرار دیا جائے .عربی زبان میں گھر کے مالک کو'' رب البیت''اور کھیتی باڑی کے مالک کو رب الضیعہ کہتے ہیں اس لئے کہ گھر اور کھیتی باڑی کی تدبیر ان کے مالکوں کے ذمے ہوتی ہے

قرآن مجید مشرکین کے مقابلے میں صرف خداوندعالم کو اس نظام ہستی کا رب اور مدبر قرار دیتا ہے اور سب کو خدائے یگانہ کی پرستش کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے:

ِانَّ ﷲ رَبِّى وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطى مُسْتَقِیم ( ۲ )

اللہ میرا رب اور تمہارا بھی رب ہے لہذا اس کی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے.

ایک اور جگہ فرماتا ہے:

(ذَلِکُمْ ﷲ رَبُّکُمْ لا اِلٰهَ ا ِلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَْئٍ فَاعْبُدُوهُ )( ۳ )

وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ ہر چیز کا خالق ہے لہذا اس کی عبادت کرو.

____________________

(۱)سورہ انعام آیت ۷۶ تا ۷۸.

(۲)سورہ آل عمران آیت ۵۱.

(۳)سورہ انعام آیت: ۱۰۲.

۲۸۶

اس طرح قرآن مجید سورۂ دخان میں فرماتا ہے:

(لاَاِلَهَ اِلاَّ هُوَ یُحْى وَیُمِیتُ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمْ الْاَوَّلِینَ )( ۱ )

اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے آبائو اجداد کا بھی رب ہے.

اسی طرح قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کے قول کو یوں نقل کیا ہے:

(وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِى اِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا ﷲ رَبِّى وَرَبَّکُمْ )( ۲ )

اور مسیح نے کہا : اے بنی اسرائیل تم اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے.

گذشتہ بیانات کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ہروہ خضوع جو کسی مخلوق کے سامنے اسے رب اور خدا سمجھے بغیر یا اس کی طرف خدائی امور کی نسبت دئیے بغیر انجام دیا جائے وہ ہرگز عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ یہ خضوع حد سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوجائے اس اعتبار سے امت کا پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا اپنے والدین کے سامنے انہیں خدا قرارنہ دیتے ہوئے خضوع وخشوع کرنا ہرگز ان کی عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اسی بنیاد پر بہت

سے موضوعات جیسے اولیائے الہی سے منسوب چیزوں کو متبرک سمجھنا ،حرم کے دروازوں، دیواروں اور ضریحوں کو چومنا، خدا کی بارگاہ میں اولیائے الہی سے متوسل ہونا، اولیائے الہی کو پکارنا، ان کے ایام ولادت میں جشن منانا اور محفلیں برپا کرنا اور ان کے ایام وفات و شہادت میں مجلسیں منعقد کرنا ہرگز اولیائے الہی کی عبادت شمار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ بعض ناآگاہ افراد ان کاموں کو غیر خدا کی عبادت اور شرک سمجھتے ہیں جبکہ ان سارے کاموںکو کسی بھی طرح سے غیر خدا کی عبادت اور شرک شمار نہیں کیا جاسکتاہے۔

____________________

(۱)سورہ دخان آیت۸

(۲)سورہ مائدہ آیت:۷۲.

۲۸۷

فہرست

حرف اول ۵

پیش گفتار ۸

پہلا سوال ۱۰

''وعترتی اہل بیتی '' صحیح ہے یا ''وسنتی''؟ ۱۰

حدیث ''واہل بیتی'' کی سند ۱۱

لفظ ''و سنتی'' والی حدیث کی سند ۱۳

ان دو کے بارے میں علمائے رجال کا نظریہ ۱۴

حدیث''وسنتی'' کی دوسری سند ۱۷

حدیث ''وسنتی''کی تیسری سند ۱۹

سند کے بغیر متن کا نقل ۲۰

حدیث ثقلین کا مفہوم ۲۲

دوسرا سوال ۲۵

شیعہ سے کیا مراد ہے؟ ۲۵

تیسرا سوال ۲۷

کیوں حضرت علی ہی پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی اور جانشین ہیں ؟ ۲۷

۱۔ آغاز بعثت میں : ۲۷

۲۔ غزوۂ تبوک میں ۲۸

۳۔ دسویں ہجری میں ۲۹

چوتھا سوال ۳۲

۲۸۸

''ائمہ'' کون ہیں ؟ ۳۲

پانچواں سوال ۳۵

حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھتے وقت کیوں آل کا اضافہ کرتے ہیں اور: اللّھم صل علی محمد و آل محمد کہتے ہیں ؟ ۳۵

چھٹا سوال ۳۷

آپ اپنے اماموں کو معصوم کیوں کہتے ہیں ؟ ۳۷

ساتواں سوال ۴۰

اذان میں أشھد أن علیًّا ول اللّہ کیوں کہتے ہیں اور حضرت علی ـ کی ولایت کی شہادت کیوں دیتے ہیں ؟ ۴۰

آٹھواں سوال ۴۴

مہدی آل محمدعلیہ السلام کون ہیں اور انکا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ ۴۴

نواں سوال ۴۷

اگر شیعہ حق پر ہیں تو وہ اقلیت میں کیوں ہیں ؟ اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نہیں ماناہے؟ ۴۷

دسواں سوال ۵۱

رجعت کیا ہے اور آپ اس پر کیوں عقیدہ رکھتے ہیں ؟ ۵۱

۱۔رجعت کا فلسفہ ۵۶

۲۔رجعت اور تناسخ( ۱ ) کے درمیان واضح فرق ۵۷

گیارہواں سوال ۵۹

جس شفاعت کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کیا ہے؟ ۵۹

شفاعت کا دائرہ ۶۰

شفاعت کا فلسفہ ۶۲

۲۸۹

شفاعت کا نتیجہ ۶۲

بارہواں سوال ۶۳

کیا حقیقی شفاعت کرنے والوں سے بھی شفاعت کی درخواست کرنا شرک ہے؟ ۶۳

تیرہواں سوال ۶۹

کیا غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہے؟ ۶۹

چودہواں سوال ۷۳

کیا دوسروں کو پکارنا ان کی عبادت اور شرک ہے؟ ۷۳

پندرہواں سوال ۷۹

''بدائ'' کیا ہے اور آپ اس کا عقیدہ کیوںرکھتے ہیں ؟ ۷۹

بداء کا فلسفہ ۸۳

سولہواں سوال ۸۴

کیا شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں ؟ ۸۴

سترہواں سوال ۹۸

صحابۂ کرام کے بارے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟ ۹۸

صحابی قرآن مجید کی نگاہ میں ۱۰۰

پہلی قسم ۱۰۱

۱۔دوسروں پر سبقت لے جانے والے ۱۰۱

۲۔درخت کے نیچے بیعت کرنے والے ۱۰۲

۳۔مہاجرین ۱۰۲

۴۔اصحابِ فتح ۱۰۳

۲۹۰

دوسری قسم ۱۰۴

۱۔معروف منافقین ۱۰۴

۲۔غیر معروف منافقین ۱۰۴

۳۔دل کے کھوٹے ۱۰۵

۴۔گناہ گار ۱۰۵

اٹھارہواں سوال ۱۰۹

متعہ کیا ہے اور شیعہ اسے کیوں حلال سمجھتے ہیں ؟ ۱۰۹

انیسواں سوال ۱۱۹

شیعہ خاک پر کیوں سجدہ کرتے ہیں ؟ ۱۱۹

بیسواں سوال ۱۳۱

شیعہ حضرات زیارت کرتے وقت حرم کے دروازوں اور دیواروں کو کیوں چومتے ہیں اور انہیں باعث برکت کیوں سمجھتے ہیں ؟ ۱۳۱

اکیسواں سوال ۱۳۷

کیا اسلام کی نگاہ میں دین سیاست سے جدا نہیں ہے؟ ۱۳۷

پیغمبرخدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلامی حکومت کے بانی ہیں ۱۳۸

بائیسواں سوال ۱۴۶

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟ ۱۴۶

تیئیسواں سوال ۱۵۲

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟ ۱۵۲

۲۹۱

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے ۱۵۳

اس کی وضاحت ۱۵۳

رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں ۱۵۶

چوبیسواں سوال ۱۵۷

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟ ۱۵۷

پچیسواں سوال ۱۶۴

کیا اولیائے خدا سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے؟ ۱۶۴

توسل کی قسمیں ۱۶۵

۱۔نیک اعمال سے توسل؛ ۱۶۵

۲۔خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے توسل ! ۱۶۶

۳۔قرب الہی کے حصول کیلئے خداوند کریم کے محترم اور مقدس بندوں سے توسل: ۱۶۷

چھبیسواں سوال ۱۷۲

کیا اولیائے خدا کی ولادت کے موقع پر جشن منانا بدعت یا شرک ہے؟ ۱۷۲

۱۔ان کی یاد منانے میں محبت کا اظہار ہوتا ہے ۱۷۲

۲۔پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یاد منانا آنحضرت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعظیم کا اظہار ہے ۱۷۳

۴۔وحی کا نازل ہونا دسترخوان کے نازل ہونے سے کم نہیں ہے ۱۷۵

۵۔ مسلمانوں کی سیرت ۱۷۶

ستائیسواں سوال ۱۷۸

شیعہ پانچ نمازوں کو تین اوقات میں کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۱۷۸

نتیجہ: ۱۹۵

۲۹۲

اٹھائیسواں سوال ۲۰۰

شیعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہیں ؟ ۲۰۰

کتاب خدا؛ قرآن مجید ۲۰۰

سنت ۲۰۲

حضرت رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں ۲۰۲

احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل ۲۰۴

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت ۲۰۴

عترت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی حقیقت ۲۰۴

اہل بیت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل ۲۰۷

اہل بیت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں ؟ ۲۱۰

نتیجہ: ۲۱۴

انتیسواں سوال ۲۱۶

کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ؟ ۲۱۶

خاندان جناب ابوطالب ۲۱۶

عبدالمطلب کی نگاہ میں ابوطالب ۲۱۸

جناب ابوطالب کے مومن ہونے کی دلیلیں ۲۲۲

۱۔جناب ابوطالب کے علمی اور ادبی آثار ۲۲۲

۲۔جناب ابوطالب کا پیغمبراکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نیک سلوک ان کے ایمان کی علامت ہے ۲۲۵

۳۔ابوطالب کی وصیت ان کے ایمان کی گواہ ہے ۲۲۷

۴۔پیغمبر ۲۲۸

۲۹۳

۵۔حضرت علی ـ اور اصحاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گواہی ۲۳۱

۶۔ابوطالب اہل بیت کی نگاہ میں ۲۳۳

حدیث ضحضاح کا تحقیقی جائزہ ۲۳۶

حدیث ضحضاح کے سلسلہ سند کا باطل ہونا ۲۳۷

الف: ''سفیان بن سعید ثوری'' ۲۳۷

ب:عبدالملک بن عمیر ۲۳۸

ج:عبدالعزیز بن محمد دراوردی ۲۳۹

د:لیث بن سعد ۲۴۰

نتیجہ ۲۴۲

تیسواں سوال ۲۴۳

کیا شیعوں کی نظر میں جبرئیل ـ نے منصب رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ انہوں نے حضرت علی ـکے بجائے قرآن مجید کو رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا ہے؟ ۲۴۳

اس تہمت کا اصلی سبب ۲۴۳

شیعوں کی نگاہ میں منصب نبوت ۲۴۵

اکتیسواں سوال ۲۴۹

تقیہ کا معیارکیا ہے؟ ۲۴۹

قرآن کی نگاہ میں تقیہ ۲۴۹

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں ۲۵۱

نتیجہ ۲۵۲

بتیسواں سوال ۲۵۳

۲۹۴

ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب (شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟ ۲۵۳

جعفری مذہب کی تعیین کا معیار ۲۵۴

ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ ۲۵۴

تینتیسواں سوال ۲۵۶

کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں ؟ ۲۵۶

چونتیسواں سوال ۲۵۸

کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟ ۲۵۸

قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت ۲۶۰

۱۔حضرت موسیٰ کی غیبی طاقت ۲۶۱

حضرت عیسیٰ کی غیبی طاقت ۲۶۱

حضرت سلیمان کی غیبی طاقت ۲۶۲

پینتیسواں سوال ۲۶۳

کیوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟ ۲۶۳

۱۔منصب نبوت ۲۶۳

۲۔منصب رسالت ۲۶۴

۳۔منصب امامت ۲۶۵

منصب امامت کی برتری ۲۶۹

چھتیسواں سوال ۲۷۳

توحید اور شرک کی شناخت کا معیار کیاہے؟ ۲۷۳

۱۔توحید ذاتی ۲۷۴

۲۹۵

۲۔ خالقیت میں توحید ۲۷۵

۳۔تدبیرمیں توحید ۲۷۶

۴۔حاکمیت میں توحید ۲۷۷

۵۔اطاعت میں توحید ۲۷۹

۶۔شریعت قرار دینے اور قانون گزاری میں توحید ۲۷۹

۷۔عبادت میں توحید ۲۸۰

لفظ عبادت کے غلط معنی ۲۸۱

عذر بدتراز گناہ ۲۸۳

مسئلے کا جواب اور عبادت کے حقیقی معنی کی وضاحت ۲۸۴

۲۹۶

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

أَحَداً عَنْ حَاجَتِه ولَا تَحْبِسُوه عَنْ طَلِبَتِه - ولَا تَبِيعُنَّ لِلنَّاسِ فِي الْخَرَاجِ كِسْوَةَ شِتَاءٍ ولَا صَيْفٍ - ولَا دَابَّةً يَعْتَمِلُونَ عَلَيْهَا ولَا عَبْداً - ولَا تَضْرِبُنَّ أَحَداً سَوْطاً لِمَكَانِ دِرْهَمٍ - ولَا تَمَسُّنَّ مَالَ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ مُصَلٍّ ولَا مُعَاهَدٍ - إِلَّا أَنْ تَجِدُوا فَرَساً أَوْ سِلَاحاً - يُعْدَى بِه عَلَى أَهْلِ الإِسْلَامِ - فَإِنَّه لَا يَنْبَغِي لِلْمُسْلِمِ أَنْ يَدَعَ ذَلِكَ فِي أَيْدِي أَعْدَاءِ الإِسْلَامِ - فَيَكُونَ شَوْكَةً عَلَيْه - ولَا تَدَّخِرُوا أَنْفُسَكُمْ نَصِيحَةً ولَا الْجُنْدَ حُسْنَ سِيرَةٍ - ولَا الرَّعِيَّةَ مَعُونَةً ولَا دِينَ اللَّه قُوَّةً - وأَبْلُوا فِي سَبِيلِ اللَّه مَا اسْتَوْجَبَ عَلَيْكُمْ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدِ اصْطَنَعَ عِنْدَنَا وعِنْدَكُمْ - أَنْ نَشْكُرَه بِجُهْدِنَا - وأَنْ نَنْصُرَه بِمَا بَلَغَتْ قُوَّتُنَا - ولَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.

(۵۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أمراء البلاد في معنى الصلاة

أَمَّا بَعْدُ فَصَلُّوا بِالنَّاسِ الظُّهْرَ - حَتَّى تَفِيءَ الشَّمْسُ مِنْ مَرْبِضِ الْعَنْزِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْعَصْرَ والشَّمْسُ بَيْضَاءُ حَيَّةٌ فِي عُضْوٍ مِنَ النَّهَارِ - حِينَ يُسَارُ فِيهَا فَرْسَخَانِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْمَغْرِبَ حِينَ

کی ضرورت سے روک نہ دینا اوراس کے مطلوب کی راہمیں رکاوٹ نہ پیدا کرنا اور خراج وصول کرنے کے لئے اس کے سردی یا گرمی کے کپڑے نہ بیچ ڈالنا اور نہاس جانور یا غلام پر قبضہ کرلینا جواس کے کام آتا ہے اور کسی کو پیسہ کی خاطر مارنے نہ لگنا اورکسی مسلمان یا کافر ذمی کے مال کو ہاتھ نہ لگانا مگریہ کہ اس کے پاس کوئی ایسا گھوڑا یا اسلحہ ہوجسے دشمنان اسلام کو دینا چاہتا ہے تو کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ یہاشیاء دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں چھوڑدے اور وہ اسلام پر غالب آجائیں۔دیکھو کسی نصیحت کو بچا کر نہ رکھنا۔نہ لشکر کے ساتھ اچھے برتائو میں کمی کرنا اورنہ رعایا کی امداد میں اورنہ دین خداکو قوت پہنچانے میں۔اللہ کی راہ میں اس کے تمام فرائض کوادا کردینا کہ اس نے ہمارے اورتمہارے ساتھ جو احسان کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہمم اس کے لشکر کی کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کے دین کی مدد کریں کہ قوت بھی تو بالآخر خدائے عظیم کا عطیہ ہے۔

(۵۲)

آپ کامکتوب گرامی

(امراء بلاد کے نام۔نماز کے بارے میں )

امابعد!ظہر کی نماز اس وقت تک اداکردینا(۱) جب آفتاب کا سایہ بکریوں کے باڑہ کیدیوار کے برابر ہو جائے اور عصر کی نماز اس وقت پڑھا دیناجب آفتاب روشن اور سفید رہے اوردن میں اتناوقت باقی رہجائے جب مسافر دو فرسخ جا سکتا ہو۔مغرب اس وقت ادا کرنا جب روزاہ دار

۵۶۱

يُفْطِرُ الصَّائِمُ - ويَدْفَعُ الْحَاجُّ إِلَى مِنًى - وصَلُّوا بِهِمُ الْعِشَاءَ حِينَ يَتَوَارَى الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْغَدَاةَ والرَّجُلُ يَعْرِفُ وَجْه صَاحِبِه - وصَلُّوا بِهِمْ صَلَاةَ أَضْعَفِهِمْ ولَا تَكُونُوا فَتَّانِينَ

(۵۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

كتبه للأشتر النخعي - لما ولاه على مصر وأعمالها حين اضطرب أمر أميرها محمد بن أبي بكر، وهو أطول عهد كتبه وأجمعه للمحاسن.

بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

هَذَا مَا أَمَرَ بِه عَبْدُ اللَّه عَلِيٌّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ - مَالِكَ بْنَ الْحَارِثِ الأَشْتَرَ فِي عَهْدِه إِلَيْه - حِينَ وَلَّاه مِصْرَ جِبَايَةَ خَرَاجِهَا وجِهَادَ عَدُوِّهَا - واسْتِصْلَاحَ أَهْلِهَا وعِمَارَةَ بِلَادِهَا.

أَمَرَه بِتَقْوَى اللَّه وإِيْثَارِ طَاعَتِه - واتِّبَاعِ مَا أَمَرَ بِه فِي كِتَابِه مِنْ فَرَائِضِه وسُنَنِه - الَّتِي لَا يَسْعَدُ أَحَدٌ إِلَّا بِاتِّبَاعِهَا -

افطارکرتا ہے اورحاجی عرفات سے کوچ کرتا ہے اور عشاء اس وقت پڑانا جب شفیق چھپ جائے اورایک تہائی رات نہ گزرنے پائے صبح کی نماز اس وقت ادا کرنا جب آدمی اپنے ساتھی کے چہرہ کو پہچان سکے ۔ ان کے ساتھ نماز پڑھو کمزور ترین آدمی کا لحاظ رکھ کر۔اور خبردار ان کے لئے صبر آزما نہ بن جائو۔

(۵۳)

آپ کامکتوب گرامی

(جسے مالک بن اشتر نخعی کے نام تحریر فرمایا ہے۔اس وقت جب انہیں محمد بن ابی بکرکے حالات کے خراب ہو جانے کے بعد مصر اور اس کے اطراف کاعامل مقرر فرمایا ۔اور یہ عہد نامہ حضرت ک تمام سرکاری خطوط سب سے زیادہ مفصل اورمحاسن کلام کا جامع ہے )

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ وہ قرآن ہے جو بندہ ٔ خدا امیرالمومنین علی نے مالک بن اشتر نخعی کے نام لکھا ہے جب انہیں خراج جمع کرنے ' دشمن سے جہاد کرنے ' حالات کی اصلاح کرنے اور شہروں کی آباد کاری کے لئے مصرکاعامل قرار دے کر روانہ کیا سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو ' اس کی اطاعت کواختیار کرو اورجن فرائض و سنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اورکوئی شخص

۵۶۲

ولَا يَشْقَى إِلَّا مَعَ جُحُودِهَا وإِضَاعَتِهَا - وأَنْ يَنْصُرَ اللَّه سُبْحَانَه بِقَلْبِه ويَدِه ولِسَانِه - فَإِنَّه جَلَّ اسْمُه قَدْ تَكَفَّلَ بِنَصْرِ مَنْ نَصَرَه وإِعْزَازِ مَنْ أَعَزَّه.

وأَمَرَه أَنْ يَكْسِرَ نَفْسَه مِنَ الشَّهَوَاتِ - ويَزَعَهَا عِنْدَ الْجَمَحَاتِ - فَإِنَّ النَّفْسَ أَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ اللَّه.

ثُمَّ اعْلَمْ يَا مَالِكُ - أَنِّي قَدْ وَجَّهْتُكَ إِلَى بِلَادٍ قَدْ جَرَتْ عَلَيْهَا دُوَلٌ قَبْلَكَ - مِنْ عَدْلٍ وجَوْرٍ - وأَنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ مِنْ أُمُورِكَ - فِي مِثْلِ مَا كُنْتَ تَنْظُرُ فِيه مِنْ أُمُورِ الْوُلَاةِ قَبْلَكَ - ويَقُولُونَ فِيكَ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِيهِمْ - وإِنَّمَا يُسْتَدَلُّ عَلَى الصَّالِحِينَ - بِمَا يُجْرِي اللَّه لَهُمْ عَلَى أَلْسُنِ عِبَادِه - فَلْيَكُنْ أَحَبَّ الذَّخَائِرِ إِلَيْكَ ذَخِيرَةُ الْعَمَلِ الصَّالِحِ - فَامْلِكْ هَوَاكَ وشُحَّ بِنَفْسِكَ عَمَّا لَا يَحِلُّ لَكَ - فَإِنَّ الشُّحَّ بِالنَّفْسِ الإِنْصَافُ مِنْهَا فِيمَا أَحَبَّتْ أَوْ كَرِهَتْ وأَشْعِرْ قَلْبَكَ الرَّحْمَةَ لِلرَّعِيَّةِ - والْمَحَبَّةَ لَهُمْ واللُّطْفَ بِهِمْ - ولَا تَكُونَنَّ عَلَيْهِمْ سَبُعاً ضَارِياً تَغْتَنِمُ أَكْلَهُمْ -

ان کے انکاراور بربادی کے بغیر بد بخت نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اپنے دل ہاتھ اور زبان سے دین خدا کی مدد کرتے رہنا کہ خدائے ''عزاسمہ '' نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ اپنے مدد گاروں کی مدد کرے گا اور اپنے دین کی حمایت کرنے والوں کو عزت و شرف عنایت کرے گا۔

دوسراحکم یہ ہے کہ اپنے نفس کے خواہشات کو کچل دواور اس یمنہ زوریوں سے رو کے رہو کہ نفس برائیوں کاحکم دینے والا ہے جب تک پروردگار کا رحم شامل نہ ہوجائے ۔اس کے بعد مالک یہ یاد رکھناکہ میں نے تم کو ایسے علاقہ کی طرف بھیجا ہے جہاں عدل و ظلم کی مختلف حکومتیں گذر چکی ہیں اور لوگ تمہارے معاملات کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جس نظر سے تم ان کے اعمال کو دیکھ رہے تھے اورتمہارے بارے میں وہی کہیں گے جو تم دوسروں کے بارے میں کہہ رہے تھے ۔نیک کردار بندوں کی شناخت اس ذکرخیر سے ہوتی ہے جو ان کے لئے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوتا ہے لہٰذا تمہارامحبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہونا چاہیے۔خواہشات کو روک کررکھو اور جو چیز حلالنہ ہو اس کے بارے میں نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو کہ یہی بخل اس کے حق میں انصاف ہے چاہے اسے اچھا لگے یا برا۔رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعاربنالو اورخبردار ان کے حق میں پھاڑ کھانے والے درندہ کے مثل نہ ہو جانا کہ انہیں کھاجانے ہی کو غنیمت سمجھنے لگو۔کہ مخلوقات

۵۶۳

فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي الدِّينِ - وإِمَّا نَظِيرٌ لَكَ فِي الْخَلْقِ - يَفْرُطُ مِنْهُمُ الزَّلَلُ وتَعْرِضُ لَهُمُ الْعِلَلُ - ويُؤْتَى عَلَى أَيْدِيهِمْ فِي الْعَمْدِ والْخَطَإِ - فَأَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وصَفْحِكَ - مِثْلِ الَّذِي تُحِبُّ وتَرْضَى أَنْ يُعْطِيَكَ اللَّه مِنْ عَفْوِه وصَفْحِه - فَإِنَّكَ فَوْقَهُمْ ووَالِي الأَمْرِ عَلَيْكَ فَوْقَكَ - واللَّه فَوْقَ مَنْ وَلَّاكَ - وقَدِ اسْتَكْفَاكَ أَمْرَهُمْ وابْتَلَاكَ بِهِمْ - ولَا تَنْصِبَنَّ نَفْسَكَ لِحَرْبِ اللَّه فَإِنَّه لَا يَدَ لَكَ بِنِقْمَتِه - ولَا غِنَى بِكَ عَنْ عَفْوِه ورَحْمَتِه - ولَا تَنْدَمَنَّ عَلَى عَفْوٍ ولَا تَبْجَحَنَّ بِعُقُوبَةٍ - ولَا تُسْرِعَنَّ إِلَى بَادِرَةٍ وَجَدْتَ مِنْهَا مَنْدُوحَةً ولَا تَقُولَنَّ إِنِّي مُؤَمَّرٌ آمُرُ فَأُطَاعُ

خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور(۱) بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشر ہیں جن سے لغزشیں بھی ہو جاتی ہیں اور انہیں خطائوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یاد ھوکے سے ان سے بھی ہوجاتی ہیں۔لہٰذا انہیں ویسے ہی معاف کریدنا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے درگزر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو اور تمہاراولی امرتم سے بالا تر ہے اور پروردگار تمہارے والی سے بھی بالاتر ہے اور اسنے تم سے ان کے معاملات کی انجام دہی کا مطالبہ کیا ہے اوراسے تمہارے لئے ذریعہ آزمائش بنادیا ہے اورخبردار اپنے نفس کو اللہ کے مقابلہ پرنہ اتاردینا۔کہ تمہارے پاس اس کے عذاب سے بچنے کی طاقت نہیں ہے اورتم اس کے عفو اور رحم سے بے نیازبھی نہیں ہو۔اور خبردار کسی کو معاف کردینے پر نادم نہ ہونا اور کسی کو سزا دے کراکڑ نہ جانا۔غیظ و غضب کے اظہار یں جلدی نہ کرنا اگر اس کے ٹال دینے کی گنجائش پائی جاتی ہو اورخبردار یہ نہ کہنا کہ مجھے حاکم بنایا گیا ہے لہٰذا میری شان یہ ہے کہ میں حکم دوں اور میری اطاعت کی

(۱) یہ اسلامی نظام کا امتیازی نکتہ ہے کہ اس نظام میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ ہر شخص کو برابر کے حقوق دئیے جاتے ہیں۔مسلمان کا احترام اس کے اسلم کی بنا پر ہوتا ہے اور غیرمسلم کے بارے میں انسانی حقوق کا تحفظ کیاجاتا ہے اور ان حقوق میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حاکم ہر غلطی کامواخذہ نہ کرے بلکہ انہیں انسان سمجھ کر ان کی غلطیوں کو برداشت کرے اور ان کی خطائوں سے در گزر کرے اوریہخیال رکھے کہ مذہب کا ایک مستقل نظام ہے '' رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ''اگر انسان اپنے سے کمزور افراد پر رحم نہیں کرتا ہے تو اسے جبار سماوات و ارض سے توقع نہیں کرنی چاہیے ۔قدرت کا اٹلقانون ہے کہ تم اپنے سے کمزور پر رحم کرو تاکہ پروردگارتم پر رحم کرے اور تمہاری خطائوں کو معاف کردے جس پر تمہاری عاقبت اور رنجش کادارومدار ہے۔

۵۶۴

فَإِنَّ ذَلِكَ إِدْغَالٌ فِي الْقَلْبِ - ومَنْهَكَةٌ لِلدِّينِ وتَقَرُّبٌ مِنَ الْغِيَرِ - وإِذَا أَحْدَثَ لَكَ مَا أَنْتَ فِيه مِنْ سُلْطَانِكَ أُبَّهَةً أَوْ مَخِيلَةً - فَانْظُرْ إِلَى عِظَمِ مُلْكِ اللَّه فَوْقَكَ - وقُدْرَتِه مِنْكَ عَلَى مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْه مِنْ نَفْسِكَ - فَإِنَّ ذَلِكَ يُطَامِنُ إِلَيْكَ مِنْ طِمَاحِكَ - ويَكُفُّ عَنْكَ مِنْ غَرْبِكَ - ويَفِيءُ إِلَيْكَ بِمَا عَزَبَ عَنْكَ مِنْ عَقْلِكَ!

إِيَّاكَ ومُسَامَاةَ اللَّه فِي عَظَمَتِه والتَّشَبُّه بِه فِي جَبَرُوتِه - فَإِنَّ اللَّه يُذِلُّ كُلَّ جَبَّارٍ ويُهِينُ كُلَّ مُخْتَالٍ.

أَنْصِفِ اللَّه وأَنْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِكَ - ومِنْ خَاصَّةِ أَهْلِكَ - ومَنْ لَكَ فِيه هَوًى مِنْ رَعِيَّتِكَ - فَإِنَّكَ إِلَّا تَفْعَلْ تَظْلِمْ - ومَنْ ظَلَمَ عِبَادَ اللَّه كَانَ اللَّه خَصْمَه دُونَ عِبَادِه - ومَنْ خَاصَمَه اللَّه أَدْحَضَ حُجَّتَه،وكَانَ لِلَّه حَرْباً حَتَّى يَنْزِعَ أَوْ يَتُوبَ - ولَيْسَ شَيْءٌ أَدْعَى إِلَى تَغْيِيرِ نِعْمَةِ اللَّه وتَعْجِيلِ نِقْمَتِه - مِنْ إِقَامَةٍ عَلَى ظُلْمٍ - فَإِنَّ اللَّه سَمِيعٌ دَعْوَةَ الْمُضْطَهَدِينَ - وهُوَ لِلظَّالِمِينَ بِالْمِرْصَادِ.

ولْيَكُنْ أَحَبَّ الأُمُورِ إِلَيْكَ

جائے کہ اس طرح دل میں فساد داخل ہو جائے گا اور دین کمزور پڑ جائے گا اور انسان تغیرات زمانہ سے قریب تر ہو جائے گا۔اوراگر کبھی سلطنت و حکومت کو دیکھ کر تمہارے دل میں عظمت و کبریائی اور غرور پیدا ہونے لگے تو پروردگار کے عظیم ترین ملک پرغور کرنا اور یہ دیکھنا کہ وہ تمہارے اوپر تم سے زیادہ قدرت رکھتا ہے کہ اس طرح تمہاری سر کشی دب جائے گی۔تمہاری طغیانی رک جائے گی اور تمہاری گئی ہوئی عقل واپس آجائے گی۔

دیکھوخبر دار اللہ سے اس کی عظمت میں مقابلہ اوراس کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہوہ ہر جبار کو ذلیل کردیتا ہے اور ہر مغرور کو پست بنا دیتا ہے۔ اپنی ذات ' اپنے اہل و عیال اوررعایا میں جن سے تمہیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اوراپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کرو گے تو ظالم ہو جائو گے اورجواللہ کے بندوں پر ظلم کرے گا اس کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا اورجس کا دشمن پروردگار ہو جائے گا اس کی ہردلیل باطل ہوجائے گی اور وہ پروردگار کامد مقابل شمارکیا جائے گا جب تک اپنے ظلم سے بازنہ آجائے یا تو بہ نہ کرلے۔اللہ کی نعمتوں کی بربادی اور اس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔اس لئے کہ وہ مظلومنین کی فریاد کا سننے والا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا انتظار کر رہا ہے۔

تمہارے لئے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو حق

۵۶۵

أَوْسَطُهَا فِي الْحَقِّ - وأَعَمُّهَا فِي الْعَدْلِ وأَجْمَعُهَا لِرِضَى الرَّعِيَّةِ - فَإِنَّ سُخْطَ الْعَامَّةِ يُجْحِفُ بِرِضَى الْخَاصَّةِ - وإِنَّ سُخْطَ الْخَاصَّةِ يُغْتَفَرُ مَعَ رِضَى الْعَامَّةِ - ولَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الرَّعِيَّةِ أَثْقَلَ عَلَى الْوَالِي مَئُونَةً فِي الرَّخَاءِ - وأَقَلَّ مَعُونَةً لَه فِي الْبَلَاءِ - وأَكْرَه لِلإِنْصَافِ وأَسْأَلَ بِالإِلْحَافِ - وأَقَلَّ شُكْراً عِنْدَ الإِعْطَاءِ وأَبْطَأَ عُذْراً عِنْدَ الْمَنْعِ - وأَضْعَفَ صَبْراً عِنْدَ مُلِمَّاتِ الدَّهْرِ - مِنْ أَهْلِ الْخَاصَّةِ - وإِنَّمَا عِمَادُ الدِّينِ وجِمَاعُ الْمُسْلِمِينَ - والْعُدَّةُ لِلأَعْدَاءِ الْعَامَّةُ مِنَ الأُمَّةِ - فَلْيَكُنْ صِغْوُكَ لَهُمْ ومَيْلُكَ مَعَهُمْ.

ولْيَكُنْ أَبْعَدَ رَعِيَّتِكَ مِنْكَ وأَشْنَأَهُمْ عِنْدَكَ - أَطْلَبُهُمْ لِمَعَايِبِ النَّاسِ

کے اعتبار سے بہترین ، انصاف کے اعتبارسے سب کو شامل اور رعایا کی مرضی سے اکثریت(۱) کے لئے پسندیدہ ہوکہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضا مندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی ناراضگی عام افراد کی رضا مندی کے ساتھ قابل معافی ہو جاتی ہے ۔رعایا میں خواص سے زیادہ والی پرخوشحالی میں بوجھ بننے والا اوربلائوں میں کم سے کم مدد کرنے والا۔انصاف کرنا پسند کرنے والا اور اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنے والا' عطا کے موقع پرکم سے کم شکریہ اداکرنے والا اور نہ دینے کے موقع پربمشکل عذر قبول کرنے والا۔زمانہ کے مصائب میں کم سے کم صبر کرنے والا۔کوئی نہیں ہوتا ہے

دین کا ستون ۔مسلمان کی اجتماعی طاقت ' دشمنو ں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں لہٰذا تمہارا جھکائو انہیں کی طرف ہونا چاہیے اور تمہارا رجحان انہیں کی طرف ضروری ہے۔رعایا میں سب سے زیادہ دور اور تمہارے نزدیک مبغوض اس شخص کو ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کا تلاش کرنے والا ہے

(۱)دنیاکے ہر سماج میں دو طرح کے افراد پائے جاتے ہیں : خواص اور عوام۔خواص وہ ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی بنیاد پر اپنے لئے امتیازات کے قائل ہوتے ہیں اور ان کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ انہیں قانون میں زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل ہواور ہر موقع پران کی حیثیت کو پیش نظر رکھاجائے۔اگرچہ مصائب اورآفات ک موقع پر ان کا کوئی مصرف نہیں ہوتا ہے اور نہ یہ کسی میدان حیات میں نظر آتے ہیں۔اس کے بر خلاف عوام الناس ہر مصیبت میں سینہ سپر رہتے ہیں۔ہر خدمت کے لئے آمادہ رہتے ہیں اورکم سے کم حقوق کامطالبہ کرتے ہیں۔

مولائے کائنات نے اسی نکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ حاکم کا فرض ہے کہ عوام الناس کے مفادات کا تحفظ کرے اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرے کہ یہی دین کا ستون اور اس کی قوت ہیں اور انہیں سے اسلام کی طاقت کا مظاہر ہ ہوتا ہے اس کے بعد خواص ناراض بھی ہوگئے تو ان کی ناراضگی کاکوئی اثر نہیں ہوگا اور امت کے کام چلتے رہیں گے لیکن اس کے بر خلاف اگر عوام الناس ہاتھ سے نکل گئے اور وہ بغاوت پرآمادہ ہوگئے تو پھر اس طوفان کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا ہے اوریہ سیلاب بڑے بڑے تخت و تاج کو اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔

۵۶۶

فَإِنَّ فِي النَّاسِ عُيُوباً الْوَالِي أَحَقُّ مَنْ سَتَرَهَا - فَلَا تَكْشِفَنَّ عَمَّا غَابَ عَنْكَ مِنْهَا - فَإِنَّمَا عَلَيْكَ تَطْهِيرُ مَا ظَهَرَ لَكَ - واللَّه يَحْكُمُ عَلَى مَا غَابَ عَنْكَ - فَاسْتُرِ الْعَوْرَةَ مَا اسْتَطَعْتَ - يَسْتُرِ اللَّه مِنْكَ مَا تُحِبُّ سَتْرَه مِنْ رَعِيَّتِكَ - أَطْلِقْ عَنِ النَّاسِ عُقْدَةَ كُلِّ حِقْدٍ - واقْطَعْ عَنْكَ سَبَبَ كُلِّ وِتْرٍ - وتَغَابَ عَنْ كُلِّ مَا لَا يَضِحُ لَكَ – ولَا تَعْجَلَنَّ إِلَى تَصْدِيقِ سَاعٍ - فَإِنَّ السَّاعِيَ غَاشٌّ وإِنْ تَشَبَّه بِالنَّاصِحِينَ.

ولَا تُدْخِلَنَّ فِي مَشُورَتِكَ بَخِيلًا يَعْدِلُ بِكَ عَنِ الْفَضْلِ - ويَعِدُكَ الْفَقْرَ - ولَا جَبَاناً يُضْعِفُكَ عَنِ الأُمُورِ - ولَا حَرِيصاً يُزَيِّنُ لَكَ الشَّرَه بِالْجَوْرِ - فَإِنَّ الْبُخْلَ والْجُبْنَ والْحِرْصَ غَرَائِزُ شَتَّى - يَجْمَعُهَا سُوءُ الظَّنِّ بِاللَّه.

۔اس لئے کہ لوگوں میں بہر حال کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری والی پر ہے لہٰذا خبر دار جو عیب تمہارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا۔ تمہاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کردینا ہے اورغائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے۔جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگارسے تمنا کرتے ہو۔ لوگوں کی طرف سے کینہ کی ہر گروہ کو کھول دواوردشمنی کی ہر رسی کو کاٹ دو اور جوبات تمہارے لئے واضح نہ ہو اس سے انجان بن جائو اور ہرچغل خور کی تصدیق میں عجلت سے کام نہ لو کہ چغل خور ہمیشہ خیانت کا ر ہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ آئے

(مشاورت)

دیکھو اپنے مشورہ(۱) میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستہ سے ہٹادے گا اورفقرو فاقہ کاخوف دلاتا رہے گا اور اسی طرح بزل سے مشورہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنادے گا۔ اور حریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقہ سے مال جمع کرنے کوبھی تمہارے نگاہوں میں آراستہ کردے گا۔یہ بخل بزدلی اور طمع اگرچہ الگ الگ جذبات و خصائل ہیں لیکن ان سب کا قدر مشترک پروردگار سے سوء ظن ہے جس کے بعد ان خصلتوں کاظہور ہوتا ہے۔

(۱)ان فقرات میں زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ہدایات کاذکر کیا گیا ہے اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ حاکم کو کسی شعبہ حیات سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور کسی محاذ پر بھی کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جو حکومت کو تباہ و برباد کردے اورعوامی مفادات کو نذرتغافل کرکے انہیں ظلم وستم کانشانہ بنادے ۔

۵۶۷

إِنَّ شَرَّ وُزَرَائِكَ مَنْ كَانَ لِلأَشْرَارِ قَبْلَكَ وَزِيراً - ومَنْ شَرِكَهُمْ فِي الآثَامِ فَلَا يَكُونَنَّ لَكَ بِطَانَةً - فَإِنَّهُمْ أَعْوَانُ الأَثَمَةِ وإِخْوَانُ الظَّلَمَةِ - وأَنْتَ وَاجِدٌ مِنْهُمْ خَيْرَ الْخَلَفِ - مِمَّنْ لَه مِثْلُ آرَائِهِمْ ونَفَاذِهِمْ - ولَيْسَ عَلَيْه مِثْلُ آصَارِهِمْ وأَوْزَارِهِمْ وآثَامِهِمْ - مِمَّنْ لَمْ يُعَاوِنْ ظَالِماً عَلَى ظُلْمِه ولَا آثِماً عَلَى إِثْمِه - أُولَئِكَ أَخَفُّ عَلَيْكَ مَئُونَةً وأَحْسَنُ لَكَ مَعُونَةً - وأَحْنَى عَلَيْكَ عَطْفاً وأَقَلُّ لِغَيْرِكَ إِلْفاً - فَاتَّخِذْ أُولَئِكَ خَاصَّةً لِخَلَوَاتِكَ وحَفَلَاتِكَ - ثُمَّ لْيَكُنْ آثَرُهُمْ عِنْدَكَ أَقْوَلَهُمْ بِمُرِّ الْحَقِّ لَكَ - وأَقَلَّهُمْ مُسَاعَدَةً فِيمَا يَكُونُ مِنْكَ مِمَّا كَرِه اللَّه لأَوْلِيَائِه - وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ هَوَاكَ حَيْثُ وَقَعَ

والْصَقْ بِأَهْلِ الْوَرَعِ والصِّدْقِ - ثُمَّ رُضْهُمْ عَلَى أَلَّا يُطْرُوكَ - ولَا

(وزارت)

اوردیکھو تمہارے وزراء میں سب سے زیادہ بدتر وہ ہے جو تم سے پہلے اشرار کا وزیر رہ چکا ہواور ان کے گناہوں میں شریک رہ چکا ہو۔لہٰذا خبردار! ایسے افراد کو اپنے خواص میں شامل نہ کرنا کہ یہ ظالموں کے مدد گار اورخیانت کاروں کے بھائی بند ہیں اور تمہیں ان کے بدلے بہترین افراد مل سکتے ہیں جن کے پاس انہیں کی جیسی عقل اور کار کردگی ہو اور ان کے جیسے گناہوکے بوجھ اورخطائوں کے انبار نہ ہوں۔نہ انہوں نے کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ کسی گناہ گار کا اس کے گناہمیں ساتھ دیا ہو۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا بوجھ تمہارے لئے ہلکا ہوگا اوریہ تمہارے بہترین مدد گار ہوں گے اورتمہاری طرف محبت کا جھکائو بھی رکھتے ہوں گے اور اغیار سے انس و الفت بھی نہ رکھتے ہوں گے۔انہیں کو اپنے مخصوص اجتماعات میں اپنامصاحب قرار دینا اور پھر ان میں بھی سب سے زیادہ حیثیت اسے دینا جو حق کے حرف تلخ کو کہنے کی زیادہ ہمت رکھتا ہو اور تمہارے کسی ایسے عمل میں تمہارا ساتھ نہ دے جسے پروردگار اپنے اولیاء کے لئے نا پسند کرتا ہو چاہے وہ تمہاری خواہشات سے کتنی زیادہ میل کیوں نہ کھاتی ہوں۔

(مصاحبت)

اپنا قریبی رابطہ اہل تقویٰ اور اہل صداقت سے رکھنا اور انہیں بھی اس امر کی تربت دینا کہ بلا سبب تمہاری تعریف نہ کریں اور کسی ایسے بے بنیاد

۵۶۸

يَبْجَحُوكَ بِبَاطِلٍ لَمْ تَفْعَلْه - فَإِنَّ كَثْرَةَ الإِطْرَاءِ تُحْدِثُ الزَّهْوَ وتُدْنِي مِنَ الْعِزَّةِ.

ولَا يَكُونَنَّ الْمُحْسِنُ والْمُسِيءُ عِنْدَكَ بِمَنْزِلَةٍ سَوَاءٍ - فَإِنَّ فِي ذَلِكَ تَزْهِيداً لأَهْلِ الإِحْسَانِ فِي الإِحْسَانِ - وتَدْرِيباً لأَهْلِ الإِسَاءَةِ عَلَى الإِسَاءَةِ - وأَلْزِمْ كُلاًّ مِنْهُمْ مَا أَلْزَمَ نَفْسَه واعْلَمْ أَنَّه لَيْسَ شَيْءٌ بِأَدْعَى - إِلَى حُسْنِ ظَنِّ رَاعٍ بِرَعِيَّتِه - مِنْ إِحْسَانِه إِلَيْهِمْ وتَخْفِيفِه الْمَئُونَاتِ عَلَيْهِمْ - وتَرْكِ اسْتِكْرَاهِه إِيَّاهُمْ عَلَى مَا لَيْسَ لَه قِبَلَهُمْ - فَلْيَكُنْ مِنْكَ فِي ذَلِكَ أَمْرٌ - يَجْتَمِعُ لَكَ بِه حُسْنُ الظَّنِّ بِرَعِيَّتِكَ - فَإِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ يَقْطَعُ عَنْكَ نَصَباً طَوِيلًا - وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ حَسُنَ ظَنُّكَ بِه لَمَنْ حَسُنَ بَلَاؤُكَ عِنْدَه

وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ سَاءَ ظَنُّكَ بِه لَمَنْ سَاءَ بَلَاؤُكَ عِنْدَه - ولَا تَنْقُضْ سُنَّةً صَالِحَةً عَمِلَ بِهَا صُدُورُ هَذِه الأُمَّةِ - واجْتَمَعَتْ بِهَا الأُلْفَةُ وصَلَحَتْ عَلَيْهَا الرَّعِيَّةُ - ولَا تُحْدِثَنَّ سُنَّةً تَضُرُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاضِي تِلْكَ السُّنَنِ - فَيَكُونَ الأَجْرُ لِمَنْ سَنَّهَا - والْوِزْرُ

عمل کا غرورنہ پیدا کرائیں جو تم نے انجام نہ دیا ہو کہ زیادہ تعریف سے غرور پیدا ہوتا ہے اورغرور انسان کو سر کشی سے قریب تر بنا دیتا ہے ۔

دیکھوخبر دار! نیک کردار اور بد کردار تمہارے نزدیک یکساں نہ ہونے پائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں نیکی سے بد دلی پیدا ہوگی اور بد کردار وں میں بد کرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ہر شخص کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرنا جس کے قابل اس نے اپنے کو بنایا ہے اور یاد رکھنا کہ حاکم میں رعایا سے حسن ظن کی اسی قدر توقع کرنی چاہیے جس قدر ان کے ساتھ احسان کیا ہے اور ان کے بوجھ کو ہلکا بنایا ہے اور ان کو کسی ایسے کام پر مجبور نہیں کیا ہے جو ان کے امکان میں نہ ہو۔لہٰذا تمہارا برتائو اس سلسلہ میں ایسا ہی ہونا چاہیے جس سے تم رعایا سے زیادہ سے زیادہ حسن ظن پیدا کر سکو کہ یہ حسن ظن بہت سی اندرونی زحمتوں کو قطع کردیتا ہے اور تمہارے حسن ظن کا بھی سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کے ساتھ تم نے بہترین سلوک کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ بد ظنی کا حقدار وہ ہے جس کا برتائو تمہارے ساتھ خراب رہا ہے۔

دیکھو کسی ایسی نیک سنتکو مت توڑ دینا جس پر اس امت کے بزرگوں نے عمل کیا ہے اور اسی کے ذریعہ سماج میں الفت قائم ہوتی ہے اور رعایا کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے اور کسی ایسی سنت کو رائج نہ کردینا جو گذشتہ سنتوں کے حق میں نقصان دہ ہو کہ اس طرح اجر اس کے لئے ہوگا جس نے سنت کو ایجاد کیا ہے اور گناہ

۵۶۹

عَلَيْكَ بِمَا نَقَضْتَ مِنْهَا.

وأَكْثِرْ مُدَارَسَةَ الْعُلَمَاءِ ومُنَاقَشَةَ الْحُكَمَاءِ - فِي تَثْبِيتِ مَا صَلَحَ عَلَيْه أَمْرُ بِلَادِكَ - وإِقَامَةِ مَا اسْتَقَامَ بِه النَّاسُ قَبْلَكَ.

واعْلَمْ أَنَّ الرَّعِيَّةَ طَبَقَاتٌ - لَا يَصْلُحُ بَعْضُهَا إِلَّا بِبَعْضٍ - ولَا غِنَى بِبَعْضِهَا عَنْ بَعْضٍ - فَمِنْهَا جُنُودُ اللَّه ومِنْهَا كُتَّابُ الْعَامَّةِ والْخَاصَّةِ - ومِنْهَا قُضَاةُ الْعَدْلِ ومِنْهَا عُمَّالُ الإِنْصَافِ والرِّفْقِ - ومِنْهَا أَهْلُ الْجِزْيَةِ والْخَرَاجِ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ ومُسْلِمَةِ النَّاسِ - ومِنْهَا التُّجَّارُ وأَهْلُ الصِّنَاعَاتِ ومِنْهَا الطَّبَقَةُ السُّفْلَى مِنْ ذَوِي الْحَاجَةِ والْمَسْكَنَةِ - وكُلٌّ قَدْ سَمَّى اللَّه لَه سَهْمَه - ووَضَعَ عَلَى حَدِّه فَرِيضَةً فِي كِتَابِه أَوْ سُنَّةِ نَبِيِّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَهْداً - مِنْه عِنْدَنَا مَحْفُوظاً.

فَالْجُنُودُ بِإِذْنِ اللَّه حُصُونُ الرَّعِيَّةِ وزَيْنُ الْوُلَاةِ - وعِزُّ الدِّينِ وسُبُلُ الأَمْنِ - ولَيْسَ تَقُومُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِهِمْ - ثُمَّ لَا قِوَامَ لِلْجُنُودِ

تمہاری گردن پر ہوگا کہ تم نے اسے توڑ دیا ہے۔

علماء کے ساتھ علمی مباحثہ اورحکما کے ساتھ سنجیدہ بحث جاری رکھنا ان مسائل کے بارے میں جن سے علاقہ کے امور کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ امور قائم رہتے ہیں جن سے گذشتہ افراد کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے۔

اوریاد رکھو کہ رعایا کے بہت سے طبقات(۱) ہو تے ہیں جن میں کسی کی اصلاح دوسرے کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے اور کوئی دوسرے سے مستغنی نہیں ہو سکتا ہے۔انہیں میں اللہ کے لشکرکے سپاہی ہیں اور انہیں میں عام اورخاص امور کے کاتب ہیں۔انہیں میں عدالت سے فیصلہ کرنے والے ہیں اور انہیں میں انصاف اور نرمی قائم کرنے والے عمال ہیں۔انہیں میں مسلمان اہل خراج اور کافر اہلذمہ ہیں اور انہیں میں تجارت اورصنعت وحرفت والے افراد ہیں اور پھر انہیں میں فقراء و مساکین کا پست ترین طبقہ بھی شامل ہے اور سب کے لئے پروردگار نے ایک حصہ معین کردیا ہے اور اپنی کتاب کے فرائض یا اپنے پیغمبرکی سنت میں اس کی حدیں قائم کردی ہیں اور یہ وہ عہد ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے ۔

فوجی دستے یہ حکم خدا سے رعایا کے محافظ اور والیوں کی زینت ہیں۔انہیں سے دین کی عزت ہے اور یہی امن وامان کے وسائل ہیں رعایا کے امور کا قیام ان کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور یہ دستے بھی قائم نہیں رہ سکتے

(۱)اس مقام پر امیر المومنین نے سماج کو ۹ حصوں پرتقسیم کیا ہے اور سب کے خصوصیات ' فرائض ، اہمیت اورذمہ ذاریوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ کسی کاکام دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ہے لہٰذا ہرایک کا فرض ہے کہ دوسرے کی مد کرے تاکہ سماج کی مکمل اصلاح ہو سکے اور معاشرہ چین اور سکون کی زندگی گزار سکے ورنہ اس کے بغیر سماج تباہ برباد ہو جائے گا اور اس کی ذمہ داری تمام طبقات پر یکساں طورپر عائد ہوگی۔

۵۷۰

إِلَّا بِمَا يُخْرِجُ اللَّه لَهُمْ مِنَ الْخَرَاجِ - الَّذِي يَقْوَوْنَ بِه عَلَى جِهَادِ عَدُوِّهِمْ - ويَعْتَمِدُونَ عَلَيْه فِيمَا يُصْلِحُهُمْ - ويَكُونُ مِنْ وَرَاءِ حَاجَتِهِمْ -

ثُمَّ لَا قِوَامَ لِهَذَيْنِ الصِّنْفَيْنِ إِلَّا بِالصِّنْفِ الثَّالِثِ - مِنَ الْقُضَاةِ والْعُمَّالِ والْكُتَّابِ - لِمَا يُحْكِمُونَ مِنَ الْمَعَاقِدِ ويَجْمَعُونَ مِنَ الْمَنَافِعِ - ويُؤْتَمَنُونَ عَلَيْه مِنْ خَوَاصِّ الأُمُورِ وعَوَامِّهَا - ولَا قِوَامَ لَهُمْ جَمِيعاً إِلَّا بِالتُّجَّارِ وذَوِي الصِّنَاعَاتِ - فِيمَا يَجْتَمِعُونَ عَلَيْه مِنْ مَرَافِقِهِمْ - ويُقِيمُونَه مِنْ أَسْوَاقِهِمْ - ويَكْفُونَهُمْ مِنَ التَّرَفُّقِ بِأَيْدِيهِمْ - مَا لَا يَبْلُغُه رِفْقُ غَيْرِهِمْ –

ثُمَّ الطَّبَقَةُ السُّفْلَى مِنْ أَهْلِ الْحَاجَةِ والْمَسْكَنَةِ - الَّذِينَ يَحِقُّ رِفْدُهُمْ ومَعُونَتُهُمْ - وفِي اللَّه لِكُلٍّ سَعَةٌ ولِكُلٍّ عَلَى الْوَالِي حَقٌّ بِقَدْرِ مَا يُصْلِحُه - ولَيْسَ يَخْرُجُ الْوَالِي - مِنْ حَقِيقَةِ مَا أَلْزَمَه اللَّه مِنْ ذَلِكَ - إِلَّا بِالِاهْتِمَامِ والِاسْتِعَانَةِ بِاللَّه - وتَوْطِينِ نَفْسِه عَلَى لُزُومِ الْحَقِّ والصَّبْرِ عَلَيْه فِيمَا خَفَّ عَلَيْه أَوْ ثَقُلَ: فَوَلِّ مِنْ جُنُودِكَ أَنْصَحَهُمْ فِي نَفْسِكَ لِلَّه ولِرَسُولِه ولإِمَامِكَ وأَنْقَاهُمْ جَيْباً وأَفْضَلَهُمْ حِلْماً مِمَّنْ يُبْطِئُ عَنِ الْغَضَبِ ويَسْتَرِيحُ إِلَى الْعُذْرِ - ويَرْأَفُ بِالضُّعَفَاءِ

ہیں جب تک وہ خراج نہ نکال دیاجائے جس کے ذریعہ دشمن سے جہاد کی طاقت فراہم ہوتی ہے اورجس پر حالات کی اصلاح میں اعتماد کیا جاتا ہے اوروہی ان کے حالات کے درست کرنے کاذریعہ ہے ۔

اس کے بعد ان دونوں صنفوں کا قیام قاضیوں ۔ عاملوں اور کاتبوں کے طبقہ کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ سب عہدو پیمان کو مستحکم بناتے ہیں۔منافع کو جمع کرتے ہیں اورمعمولی اورغیرمعمولی معاملات میں ان پر اعتاد کیا جاتا ہے۔اس کے بعد ان سب کا قیام تجاراور صنعت کا روں کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ وہ وسائل حیات کو فراہم کرتے ہیں۔بازاروں کوقائم رکھتے ہیں اور لوگوں کی ضرورت کا سامان ان کی زحمت کے بغیر فراہم کردیتے ہیں۔

اس کے بعد فقراء و مساکین کا پست طبقہ ہے جو اعانت و امداد کا حقدار ہے اور اللہ کے یہاں ہرایک کے لئے سامان حیات مقرر ہے اور ہر ایک کا والی پر اتنی مقدار میں حق ہے جس سے اس کے امر کی اصلاح ہو سکے اوروالی اس فریضہ سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا ہے جب تک ان مسائل کا اہتمام نہ کرے اور اللہ سے مدد طلب نہ کرے اوراپنے نفس کو حقوق کی ادائیگی اور اس راہ کے خفیف وثقیل پر صبر کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے لہٰذا لشکر کا سردار اسے قرار دینا جو اللہ، رسول اور امام کا سب سے زیادہ مخلص ' سب سے زیادہ پاکدامن اور سب سے زیادہ برداشت کرنے والا ہو ۔ غصہ کے موقع پرجلد بازی نہ کرتا ہو۔ عذر کوقبول کرلیتا ہو۔کمزروروں پر مہربانی کرت

۵۷۱

ويَنْبُو عَلَى الأَقْوِيَاءِ - ومِمَّنْ لَا يُثِيرُه الْعُنْفُ ولَا يَقْعُدُ بِه الضَّعْفُ.

ثُمَّ الْصَقْ بِذَوِي الْمُرُوءَاتِ والأَحْسَابِ - وأَهْلِ الْبُيُوتَاتِ الصَّالِحَةِ والسَّوَابِقِ الْحَسَنَةِ - ثُمَّ أَهْلِ النَّجْدَةِ والشَّجَاعَةِ والسَّخَاءِ والسَّمَاحَةِ - فَإِنَّهُمْ جِمَاعٌ مِنَ الْكَرَمِ وشُعَبٌ مِنَ الْعُرْفِ - ثُمَّ تَفَقَّدْ مِنْ أُمُورِهِمْ مَا يَتَفَقَّدُ الْوَالِدَانِ مِنْ وَلَدِهِمَا - ولَا يَتَفَاقَمَنَّ فِي نَفْسِكَ شَيْءٌ قَوَّيْتَهُمْ بِه - ولَا تَحْقِرَنَّ لُطْفاً تَعَاهَدْتَهُمْ بِه وإِنْ قَلَّ - فَإِنَّه دَاعِيَةٌ لَهُمْ إِلَى بَذْلِ النَّصِيحَةِ لَكَ وحُسْنِ الظَّنِّ بِكَ - ولَا تَدَعْ تَفَقُّدَ لَطِيفِ أُمُورِهِمُ اتِّكَالًا عَلَى جَسِيمِهَا - فَإِنَّ لِلْيَسِيرِ مِنْ لُطْفِكَ مَوْضِعاً يَنْتَفِعُونَ بِه - ولِلْجَسِيمِ مَوْقِعاً لَا يَسْتَغْنُونَ عَنْه.

ولْيَكُنْ آثَرُ رُءُوسِ جُنْدِكَ عِنْدَكَ مَنْ وَاسَاهُمْ فِي مَعُونَتِه - وأَفْضَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ جِدَتِه - بِمَا يَسَعُهُمْ ويَسَعُ مَنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ خُلُوفِ أَهْلِيهِمْ - حَتَّى يَكُونَ هَمُّهُمْ

ہو۔طاقتور افراد کے سامنے اکڑ جاتا ہو۔بد خوئی اسے جوش میں نہ لے آئے اور کمزوریاسے بٹھانہ دے ۔

علاقات عامہ :

پھراس کے بعد اپنا رابطہ بلندخاندان ، نیک گھرنے ۔عمدہ روایات والے اور صاحبان ہمت و شجاعت و سخاوت و کرم سے مضبوط رکھو کہ یہ لوگ کرم کا سرمایہ اورنیکیوں کا سرچشمہ ہیں۔ان کے حالات کی اسی طرح دیکھ بھال رکھنا جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کے حالات پرنظر رکھتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرنا جو انہیں قوت بخشتا ہوتواسے عظیم نہ خیال کرلینا اوراگر کوئی معمولی برتائو بھی کیا ہے تو اسے حقیر سمجھ کر روک نہ دینا۔اس لئے کہ اچھا سلوک انہیں اخلاص کی دعوت دے گا اوران میں سن ظن پیدا کرائے گا اورخبردار بڑے بڑے کاموں پر اعتبار کرکے چھوٹی چھوٹی ضروریات کی نگرانی کونظرانداز نہ کردینا کہ معمولی مہربانی کابھی ایک اثر ہے جس سے لوگوں کوفائدہ ہوتا ہے اوربڑے کرم کا بھی ایک مقام ہے جس سے لوگ مستغنی نہیں ہو سکتے ہیں۔

دفاع:

اوردیکھو تمام سرداران لشکرمیں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ افضل اسے ہونا چاہیے جو فوجیوں کی امداد میں ہاتھ بٹاتا ہو اور اپنے اضافی مال سے ان پر اس قدر کرم کرتا ہو کہ ان کے پسماندگان اور متعلقین کے لئے بھی کافی ہو جائے تاکہ سب کا ایک ہی مقصد رہ جائے اور

۵۷۲

هَمّاً وَاحِداً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - فَإِنَّ عَطْفَكَ عَلَيْهِمْ يَعْطِفُ قُلُوبَهُمْ عَلَيْكَ - وإِنَّ أَفْضَلَ قُرَّةِ عَيْنِ الْوُلَاةِ اسْتِقَامَةُ الْعَدْلِ فِي الْبِلَادِ وظُهُورُ مَوَدَّةِ الرَّعِيَّةِ وإِنَّه لَا تَظْهَرُ مَوَدَّتُهُمْ إِلَّا بِسَلَامَةِ صُدُورِهِمْ ولَا تَصِحُّ نَصِيحَتُهُمْ إِلَّا بِحِيطَتِهِمْ عَلَى وُلَاةِ الأُمُورِ - وقِلَّةِ اسْتِثْقَالِ دُوَلِهِمْ – وتَرْكِ اسْتِبْطَاءِ انْقِطَاعِ مُدَّتِهِمْ - فَافْسَحْ فِي آمَالِهِمْ ووَاصِلْ فِي حُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِمْ - وتَعْدِيدِ مَا أَبْلَى ذَوُو الْبَلَاءِ مِنْهُمْ - فَإِنَّ كَثْرَةَ الذِّكْرِ لِحُسْنِ أَفْعَالِهِمْ تَهُزُّ الشُّجَاعَ - وتُحَرِّضُ النَّاكِلَ إِنْ شَاءَ اللَّه.

ثُمَّ اعْرِفْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا أَبْلَى - ولَا تَضُمَّنَّ بَلَاءَ امْرِئٍ إِلَى غَيْرِه - ولَا تُقَصِّرَنَّ بِه دُونَ غَايَةِ بَلَائِه - ولَا يَدْعُوَنَّكَ شَرَفُ امْرِئٍ - إِلَى أَنْ تُعْظِمَ مِنْ بَلَائِه مَا كَانَ صَغِيراً - ولَا ضَعَةُ امْرِئٍ إِلَى أَنْ تَسْتَصْغِرَ مِنْ بَلَائِه مَا كَانَ عَظِيماً.

وارْدُدْ إِلَى اللَّه ورَسُولِه مَا يُضْلِعُكَ مِنَ الْخُطُوبِ - ويَشْتَبِه عَلَيْكَ مِنَ الأُمُورِ - فَقَدْ قَالَ اللَّه تَعَالَى لِقَوْمٍ أَحَبَّ إِرْشَادَهُمْ -( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله وأَطِيعُوا الرَّسُولَ - وأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ

وہ ہے دشمن سے جہاد۔اس لئے کہ ان سے تمہاری مہربانی ان کے دلوں کو تمہاری طرف موڑ دے گی۔اور والیوں کے حق میں بہترین خنکی چشم کا سامان یہ ہے کہ ملک بھر میں عدل و انصاف قائم ہو جائے اور رعایا میں محبت و الفت ظاہر ہو جائے اور یہکام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سینے سلامت نہ ہوں اور ان کی خیر خواہی مکمل نہیں ہو سکتی ہے جب تک اپنے حاکموں کے گرد گھیرا ڈال کر ان کی حفاظت نہ کریں اور پھر ان کے اقتدار کو سرکا بوجھ نہ سمجھیں اور ان کی حکومت کے خاتمہ کا انتظار نہ کریں لہٰذا ان کی امیدوں میں وسعت دینا اوربرابر کارناموں کی تعریف کرتے رہنا بلکہ عظیم لوگوں کے کارناموں کو شمار کرتے رہنا کہ ایسے تذکروں کی کثرت بہادروں کو جوش دلاتی ہے اور پیچھے ہٹ جانے والوں کو ابھار دیا کرتی ہے۔انشاء اللہ ۔

اس کے بعد ہر شخص کے کارنامہ کو پہچانتے رہنا اور کسی کے کارنامہ کو دوسرے کے نامہ اعمال میں نہ درج کردینا اوران کا مکمل بدلہ دینے میں کوتاہی نہ کرنا اور کسی شخص کی سماجی حیثیت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے معمولی کام کو بڑا قراردے دویا کسی چھوٹے آدمی کے بڑے کارنامہ کو معمولی بنادو۔

جو امور مشکل دکھائی دیں اورتمہارے لئے مشتبہ ہو جائیں۔انہیں اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو۔کہ پروردگار نے جس قوم کو ہدایت دینا چاہی ہے اس سے فرمایا ہے کہ ''ایمان والو! اللہ ' رسول اورصاحبان امر کی

۵۷۳

فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَالرَّدُّ إِلَى اللَّه الأَخْذُ بِمُحْكَمِ كِتَابِه - والرَّدُّ إِلَى الرَّسُولِ الأَخْذُ بِسُنَّتِه الْجَامِعَةِ غَيْرِ الْمُفَرِّقَةِ.

ثُمَّ اخْتَرْ لِلْحُكْمِ بَيْنَ النَّاسِ أَفْضَلَ رَعِيَّتِكَ فِي نَفْسِكَ - مِمَّنْ لَا تَضِيقُ بِه الأُمُورُ ولَا تُمَحِّكُه الْخُصُومُ - ولَا يَتَمَادَى فِي الزَّلَّةِ - ولَا يَحْصَرُ مِنَ الْفَيْءِ إِلَى الْحَقِّ إِذَا عَرَفَه - ولَا تُشْرِفُ نَفْسُه عَلَى طَمَعٍ - ولَا يَكْتَفِي بِأَدْنَى فَهْمٍ دُونَ أَقْصَاه وأَوْقَفَهُمْ فِي الشُّبُهَاتِ وآخَذَهُمْ بِالْحُجَجِ - وأَقَلَّهُمْ تَبَرُّماً بِمُرَاجَعَةِ الْخَصْمِ - وأَصْبَرَهُمْ عَلَى تَكَشُّفِ الأُمُورِ - وأَصْرَمَهُمْ عِنْدَ اتِّضَاحِ الْحُكْمِ -

اطاعت کرو۔اس کے بعد کسی شے میں تمہارا اختلاف ہو جا ئے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو ''تو اللہ کی طرف پلٹانے کا مطلب اس کی کتاب محکم کی طرف پلٹا نا ہے۔

قضاوت:

اس کے بعد لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب(۱) کرنا جو رعایا میںتمہارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میںتنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کرنے والوں پر غصہ کرتے ہوں۔نہ غلطی پر اڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کرآنے میں تکلف کرتے ہوں اورنہ ان کا نفس لالچ کی طرف جھکتا ہو اورنہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔شبہات میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔فریقین کی بحثوں سیاکتا نہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے

(۱)اس مقام پر قاضیوں کے حسب ذیل صفات کاتذکرہ کیا گیا ہے :

۱۔خود حاکم کی نگاہ میں قضاوت کرنے کے قابل ہو ۔۲۔تمام رعایا سے افضلیت کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ہو ۔۳۔ مسائل میں الجھ نہ جاتا ہو بلکہ بلکہ صاحب نظر و استباط ہو ۔۴۔فریقین کے جھگڑوں پر غصہ نہ کرتا ہو ۔۵۔غلطی ہو جائے تو اس پر اکڑتا نہ ہو۔۶۔لالچی نہ ہو۔۷۔معاملات کی مکمل تحقیق کرتا ہو اورکاہلی کا شکار نہ ہو ۔۸۔ شبہات کے موقع پر جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو بلکہ دیگر مقررہ قوانین کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہو ۔۹۔دلائل کوقبول کرنے والا ہو ۔۱۰۔فریقین کی طرف مراجعہ کرنے سے اکتاتا نہ ہو بلکہ پوری بحث سننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔۱۱۔تحقیقات میںبے پناہ قوت صبروتحمل کا مالک ہو۔۱۲۔بات واضح ہو جائے تو قطعی فیصلہ کرنے میں تکلف نہ کرتا ہو ۔۱۳۔تعریف سے مغرور نہ ہوتا ہو۔۱۴۔ لوگوں کے ابھارنے سے کسی کی طرف جھکائو نہ پیدا کرتا ہو۔

۵۷۴

مِمَّنْ لَا يَزْدَهِيه إِطْرَاءٌ ولَا يَسْتَمِيلُه إِغْرَاءٌ - وأُولَئِكَ قَلِيلٌ - ثُمَّ أَكْثِرْ تَعَاهُدَ قَضَائِه - وافْسَحْ لَه فِي الْبَذْلِ مَا يُزِيلُ عِلَّتَه - وتَقِلُّ مَعَه حَاجَتُه إِلَى النَّاسِ - وأَعْطِه مِنَ الْمَنْزِلَةِ لَدَيْكَ مَا لَا يَطْمَعُ فِيه غَيْرُه مِنْ خَاصَّتِكَ - لِيَأْمَنَ بِذَلِكَ اغْتِيَالَ الرِّجَالِ لَه عِنْدَكَ - فَانْظُرْ فِي ذَلِكَ نَظَراً بَلِيغاً - فَإِنَّ هَذَا الدِّينَ قَدْ كَانَ أَسِيراً فِي أَيْدِي الأَشْرَارِ - يُعْمَلُ فِيه بِالْهَوَى وتُطْلَبُ بِه الدُّنْيَا.

ثُمَّ انْظُرْ فِي أُمُورِ عُمَّالِكَ فَاسْتَعْمِلْهُمُ اخْتِبَاراً - ولَا تُوَلِّهِمْ مُحَابَاةً وأَثَرَةً - فَإِنَّهُمَا جِمَاعٌ مِنْ شُعَبِ الْجَوْرِ والْخِيَانَةِ - وتَوَخَّ مِنْهُمْ أَهْلَ التَّجْرِبَةِ والْحَيَاءِ - مِنْ أَهْلِ الْبُيُوتَاتِ الصَّالِحَةِ والْقَدَمِ فِي الإِسْلَامِ الْمُتَقَدِّمَةِ - فَإِنَّهُمْ أَكْرَمُ أَخْلَاقاً وأَصَحُّ أَعْرَاضاً - وأَقَلُّ فِي الْمَطَامِعِ إِشْرَاقاً - وأَبْلَغُ فِي عَوَاقِبِ الأُمُورِ نَظَراً - ثُمَّ أَسْبِغْ عَلَيْهِمُ الأَرْزَاقَ - فَإِنَّ ذَلِكَ قُوَّةٌ لَهُمْ عَلَى اسْتِصْلَاحِ أَنْفُسِهِمْ -

فیصلہ کر دیتے ہوں۔نہ کسی کی تعریف سے مغرور ہوتے ہوں اور نہ کسی کے ابھارنے پر اونچے ہو جاتے ہوں۔ایسے افراد یقینا کم ہیں۔لیکن ہیں ۔

پھر اس کے بعد تم خودبھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کر دینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں کے محتاج نہ رہ جائیںانہیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اورمقام عطا کرنا جس کی تمہارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہنچانے سے محفوظ ہو جائیںگے۔مگراس معاملہ پر بھی گہری نگاہ رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرار کے ہاتھوں می قیدی رہ چکا ہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہوتا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔

عمال:

اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پربھی نگاہ رکھنا اور انہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبر دار تعلقات یا جانبداری کی بنا پر عہدہ نہ دے دینا کہ یہ باتیں ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہیں۔اور دیکھوان میں بھی جو مخلص اورغیرت مند ہوں ان کو تلاش کرنا جواچھے گھرانے کے افراد ہوں اور ان کے اسلام میں سابق خدمات رہ چکے ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں۔ان ے اندر فضول خرچی کی لالچ کم ہوتی ہے اور یہ انجام کار پر زیادہ نر رکھتے ہیں۔اس کے بعدان کے بھی تمام اخراجات کا انتظام کردینا کہ اس سے انہیں اپنے نفس کی اصلاح کا بھی موقع ملتا ے اوردوسروں

۵۷۵

وغِنًى لَهُمْ عَنْ تَنَاوُلِ مَا تَحْتَ أَيْدِيهِمْ - وحُجَّةٌ عَلَيْهِمْ إِنْ خَالَفُوا أَمْرَكَ أَوْ ثَلَمُوا أَمَانَتَكَ - ثُمَّ تَفَقَّدْ أَعْمَالَهُمْ - وابْعَثِ الْعُيُونَ مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ والْوَفَاءِ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّ تَعَاهُدَكَ فِي السِّرِّ لأُمُورِهِمْ - حَدْوَةٌ لَهُمْ عَلَى اسْتِعْمَالِ الأَمَانَةِ والرِّفْقِ بِالرَّعِيَّةِ - وتَحَفَّظْ مِنَ الأَعْوَانِ - فَإِنْ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَسَطَ يَدَه إِلَى خِيَانَةٍ - اجْتَمَعَتْ بِهَا عَلَيْه عِنْدَكَ أَخْبَارُ عُيُونِكَ - اكْتَفَيْتَ بِذَلِكَ شَاهِداً - فَبَسَطْتَ عَلَيْه الْعُقُوبَةَ فِي بَدَنِه - وأَخَذْتَه بِمَا أَصَابَ مِنْ عَمَلِه - ثُمَّ نَصَبْتَه بِمَقَامِ الْمَذَلَّةِ ووَسَمْتَه بِالْخِيَانَةِ - وقَلَّدْتَه عَارَ التُّهَمَةِ.

وتَفَقَّدْ أَمْرَ الْخَرَاجِ بِمَا يُصْلِحُ أَهْلَه - فَإِنَّ فِي صَلَاحِه وصَلَاحِهِمْ صَلَاحاً لِمَنْ سِوَاهُمْ - ولَا صَلَاحَ لِمَنْ سِوَاهُمْ إِلَّا بِهِمْ - لأَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ عِيَالٌ عَلَى الْخَرَاجِ وأَهْلِه - ولْيَكُنْ نَظَرُكَ

کے اموال پر قبضہ کرنے سے بھی بے نیاز ہو جاتے ہیں اور پھر تمہارے امر کی مخالفت کریں یا امانت میں رخنہ پیدا کریں تو ان پر حجت بھی تمام ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد ان عمال کے اعمال کی بھی تفتیش کرتے رہنا اور نہایت معتبر قسم کے اہل صدق و صفا کو ان پر جاسوسی کے لئے مقرر کر دینا کہ یہ طرز عمل انہیں امانت داری کے استعمال پر اور رعایا کے ساتھ نرمی کے برتائو پرآمادہ کرے گا۔اوردیکھو اپنے مدد گاروں سے بھی اپنے کوبچا کر رکھنا کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمہارے جاسوس متفقہ طورپر یہ خبر دیں تو اس شبہات کو کافی سمجھ لینا اور اسے جسمانی اعتبار سے بھی سزا دینا اور جو مال حاصل کیا ہے اسے چھین بھی لینا اور سماج میں ذلت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی حیثیت سے روشناس کرانا اور ننگ و رسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔

خراج:

خراج اور مال گذاری کے بارے میں وہ طریقہ اختیار کرنا جو مال گذاروں کے حق میں زیادہ مناسب ہو کہ خراج اور اہل خراج کے صلاح ہی میں سارے معاشرہ کی صلاح ہے اور کسی کے حالات کی اصلاح خراج کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے ' لوگ سب کے سب اسی خراج کے بھروسے زندگی گذارتے ہیں۔خراج میں تمہاری نظر

۵۷۶

فِي عِمَارَةِ الأَرْضِ - أَبْلَغَ مِنْ نَظَرِكَ فِي اسْتِجْلَابِ الْخَرَاجِ - لأَنَّ ذَلِكَ لَا يُدْرَكُ إِلَّا بِالْعِمَارَةِ - ومَنْ طَلَبَ الْخَرَاجَ بِغَيْرِ عِمَارَةٍ أَخْرَبَ الْبِلَادَ - وأَهْلَكَ الْعِبَادَ ولَمْ يَسْتَقِمْ أَمْرُه إِلَّا قَلِيلًا - فَإِنْ شَكَوْا ثِقَلًا أَوْ عِلَّةً أَوِ انْقِطَاعَ شِرْبٍ أَوْ بَالَّةٍ - أَوْ إِحَالَةَ أَرْضٍ اغْتَمَرَهَا غَرَقٌ - أَوْ أَجْحَفَ بِهَا عَطَشٌ - خَفَّفْتَ عَنْهُمْ بِمَا تَرْجُو أَنْ يَصْلُحَ بِه أَمْرُهُمْ - ولَا يَثْقُلَنَّ عَلَيْكَ شَيْءٌ خَفَّفْتَ بِه الْمَئُونَةَ عَنْهُمْ - فَإِنَّه ذُخْرٌ يَعُودُونَ بِه عَلَيْكَ فِي عِمَارَةِ بِلَادِكَ - وتَزْيِينِ وِلَايَتِكَ مَعَ اسْتِجْلَابِكَ حُسْنَ ثَنَائِهِمْ - وتَبَجُّحِكَ بِاسْتِفَاضَةِ الْعَدْلِ فِيهِمْ - مُعْتَمِداً فَضْلَ قُوَّتِهِمْ - بِمَا ذَخَرْتَ عِنْدَهُمْ مِنْ إِجْمَامِكَ لَهُمْ - والثِّقَةَ مِنْهُمْ بِمَا عَوَّدْتَهُمْ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ ورِفْقِكَ بِهِمْ -

مال جمع کرنے سے زیادہ زمین کی آباد کاری(۱) پر ہونی چاہیے کہ مال کی جمع آوری زمین کی آبادکاری کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جس نے آباد کاری کے بغیر مال گدازی کا مطالبہ کیا اسنے شہروں کو برباد کردیا اور بندوں کو تباہ کردیا اور اس کی حکومت چند دنوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی ہے ۔ اس کے بعد اگر لوگ گرانباری۔آفت ناگہانی۔نہروں کی خشکی ' بارش کی کمی۔زمین کی غرقابی کی بناپ ر تباہی اورخشکی کی بنا پر بربادی کی کوئی فریاد کریں تو ان کے خراج میں اس قدرتخفیف کردینا کہ ان کے امور کی اصلاح ہو سکے اور خبر دار تخفیف تمہارے نفس پر گراں نہ گذ رے اس لئے کہ یہ تخفیف اور سہولت ایک ذخیرہ ہے جس کا اثر شہروں کی آبادی اور حکام کی زیب و زینت کی شکل میں تمہاری ہی طرف واپس آئے گا اور اس کے علاوہ تمہیں بہترین تعریف بھی حاصل ہوگی اورعدل و انصاف کے پھیل جانے سے مسرت بھی حاصل ہوگی' پھر ان کی راحت و رفاہیت اور عدل و انصاف ' نرمی و سہولت کی بنا پر جواعتماد حاصل کیا ہے اس سے ایک اضافی طاقت بھی حاصل ہوگی جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے۔اس لئے کہ بسا اوقات

(۱) یہ اسلامی نظام کا نقطہ امتیاز ہے کہ اس نے زمینوں پر ٹیکس ضرور رکھا ہے کہ پیداوار میں اگر ایک حصہ مالک زمین کی محنت اورآباد کاری کا ہے تو ایک حصہ مالک کائنات کے کرم کا بھی ہے جسنے زمین میں پیداوار کی صلاحیت ودیعت کی ہے اور وہ پوری کائنات کا مالک ہے وہ اپنے حصہ کو پورے سماج پرتقسیم کرنا چاہتا ہے اوراسے نظام کی تکمیل کا بنیادی عنصر قرار دینا چاہتا ہے۔لیکن اس ٹیکس کو حاکم کی صوابدید اور اس کی خواہش پر نہیں رکھا ہے جو دنیا کے تمام ظالم اورعیاش حکام کا طریقہ کار ہے۔بلکہ اسے زمین کے حالات سے وابستہ کردیا ہے تاکہ ٹیکس اور پیداوار میں رابطہ رہے اور مالکان زمین کے دلوں میں حاکم سے ہمدردی پیدا ہو۔پرسکون حالات میں جی لگا کر کاشت کریں اور حادثاتی مواقع پر مملکت کے کام آسکیں۔ورنہ اگر عوام میں بددلی اوربد ظنی پیداہوگئی تو نظام اور سماج کو بربادی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔

۵۷۷

فَرُبَّمَا حَدَثَ مِنَ الأُمُورِ - مَا إِذَا عَوَّلْتَ فِيه عَلَيْهِمْ مِنْ بَعْدُ احْتَمَلُوه - طَيِّبَةً أَنْفُسُهُمْ بِه - فَإِنَّ الْعُمْرَانَ مُحْتَمِلٌ مَا حَمَّلْتَه - وإِنَّمَا يُؤْتَى خَرَابُ الأَرْضِ مِنْ إِعْوَازِ أَهْلِهَا وإِنَّمَا يُعْوِزُ أَهْلُهَا لإِشْرَافِ أَنْفُسِ الْوُلَاةِ عَلَى الْجَمْعِ وسُوءِ ظَنِّهِمْ بِالْبَقَاءِ وقِلَّةِ انْتِفَاعِهِمْ بِالْعِبَرِ.

ثُمَّ انْظُرْ فِي حَالِ كُتَّابِكَ - فَوَلِّ عَلَى أُمُورِكَ خَيْرَهُمْ - واخْصُصْ رَسَائِلَكَ الَّتِي تُدْخِلُ فِيهَا مَكَايِدَكَ وأَسْرَارَكَ - بِأَجْمَعِهِمْ لِوُجُوه صَالِحِ الأَخْلَاقِ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه الْكَرَامَةُ - فَيَجْتَرِئَ بِهَا عَلَيْكَ فِي خِلَافٍ لَكَ بِحَضْرَةِ مَلإٍ - ولَا تَقْصُرُ بِه الْغَفْلَةُ عَنْ إِيرَادِ مُكَاتَبَاتِ عُمِّالِكَ عَلَيْكَ - وإِصْدَارِ جَوَابَاتِهَا عَلَى الصَّوَابِ عَنْكَ - فِيمَا يَأْخُذُ لَكَ ويُعْطِي مِنْكَ - ولَا يُضْعِفُ عَقْداً اعْتَقَدَه لَكَ ولَا يَعْجِزُ عَنْ إِطْلَاقِ مَا عُقِدَ عَلَيْكَ - ولَا يَجْهَلُ مَبْلَغَ قَدْرِ نَفْسِه فِي الأُمُورِ - فَإِنَّ الْجَاهِلَ بِقَدْرِ نَفْسِه يَكُونُ بِقَدْرِ غَيْرِه أَجْهَلَ - ثُمَّ لَا يَكُنِ اخْتِيَارُكَ

ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ جن میں اعتماد و حسن ظن کے بعد ان پر اعتماد کرو تو نہایت خوشی سے مصیبت کوبرداشت کر لیتے ہیں اور اس کا سبب زمینوں کی آباد کاری ہی ہوتا ہے۔زمینوں کی بربادی اہل زمین کی تنگدستی سے پیدا ہوتی ہے اورتنگدستی کا سبب حکام کے نفس کا جمعآوری کی طرف رجحان ہوتا ہے اور ان کی یہ بد ظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے اور وہدوسرے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں۔

کاتب:

اس کے بعد اپنے منشیوں کے حالات پر نظر رکھنا اور اپنے امور کو بہترین افراد کے حوالے کرنا اور پھروہ خطوط جن میں رموز سلطنت اوراسرارمملکت ہوںان افراد کے حوالے کرنا جو بہترین اخلاق و کردارکے مالک ہوں اور عزت پاکر اکڑ نہ جاتے ہوں کہ ایک دن لوگوں کے سامنے تمہاری مخالفت کی جرأت پیداکرلیں اور غفلت کی بناپ ر لین دین کے معاملات میں تمہارے عمال کے خطوط کے پیش کرنے اور ان کے جوابات دینے میں کوتاہی سے کام لینے لگیں اور تمہارے لئے جو عہدوپیمان باندھیں اسے کمزور کردیں اورتمہارے خلاف ساز باز کے توڑنے میں عاجزی کا مظاہرہ کرنے لگیں۔دیکھو یہ لوگ معاملات میں اپنے صحیح مقام سے نا واقف نہ ہوں کہ اپنی قدرو منزلت کا نہ پہچاننے والا دوسرے کے مقام و مرتبہ سے یقینا زیادہ ناواقف ہوگا۔

اس کے بعدان کاتقرر بھی صرف ذاتی

۵۷۸

إِيَّاهُمْ عَلَى فِرَاسَتِكَ - واسْتِنَامَتِكَ وحُسْنِ الظَّنِّ مِنْكَ - فَإِنَّ الرِّجَالَ يَتَعَرَّضُونَ لِفِرَاسَاتِ الْوُلَاةِ - بِتَصَنُّعِهِمْ وحُسْنِ خِدْمَتِهِمْ - ولَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ النَّصِيحَةِ والأَمَانَةِ شَيْءٌ - ولَكِنِ اخْتَبِرْهُمْ بِمَا وُلُّوا لِلصَّالِحِينَ قَبْلَكَ - فَاعْمِدْ لأَحْسَنِهِمْ كَانَ فِي الْعَامَّةِ أَثَراً - وأَعْرَفِهِمْ بِالأَمَانَةِ وَجْهاً - فَإِنَّ ذَلِكَ دَلِيلٌ عَلَى نَصِيحَتِكَ لِلَّه ولِمَنْ وُلِّيتَ أَمْرَه - واجْعَلْ لِرَأْسِ كُلِّ أَمْرٍ مِنْ أُمُورِكَ رَأْساً مِنْهُمْ - لَا يَقْهَرُه كَبِيرُهَا ولَا يَتَشَتَّتُ عَلَيْه كَثِيرُهَا - ومَهْمَا كَانَ فِي كُتَّابِكَ مِنْ عَيْبٍ فَتَغَابَيْتَ عَنْه أُلْزِمْتَه.

ثُمَّ اسْتَوْصِ بِالتُّجَّارِ وذَوِي الصِّنَاعَاتِ وأَوْصِ بِهِمْ خَيْراً - الْمُقِيمِ مِنْهُمْ والْمُضْطَرِبِ بِمَالِه والْمُتَرَفِّقِ بِبَدَنِه - فَإِنَّهُمْ مَوَادُّ الْمَنَافِعِ وأَسْبَابُ الْمَرَافِقِ

ہوشیاری ' خوش اعتمادی اور حسن ظن کی بنا پرنہ کرنا کہ اکثر لوگ حکام کے سامنے بناوٹی کردار اور بہترین خدمات کے ذریعہ اپنے کو بہترین بنا کر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ اس کے پس پشت نہ کوئی اخلاص ہوتا ہے اور نہ امانتداری پہلے ان کا امتحان لینا کہ تم سے پہلے والے نیک کردار حکام کے ساتھ ان کا برتائو کیا رہا ہے پھر جو عوام میں اچھے اثرات رکھتے ہوں اور امانتداری کی بنیاد پر پہچانے جاتے ہوں انہیں کا تقرر کردینا کہ یہ اسامر کی دلیل ہوگا کہ تم اپنے پروردگار کے بندۂ مخلصاوراپنے امام کے وفادار ہو۔اپنے جملہ شعبوں کے(۱) لئے ایک ایک افسر مقرر کردینا جو بڑے سے بڑے کام سے مقہور نہ ہوتا ہو اور کاموں کی زیادتی پر پراگندہ حواس نہ ہو جاتا ہو۔اور یہ یاد رکھنا کہ ان منشیوں میں جو بھی عیب ہوگا اور تم اس سے چشم پوشی کرو گے اس کا مواخذہ تمہیں سے کیا جائے گا۔

اس کے بعد تاجروں اور صنعت کاروں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور دوسروں کو ان کے ساتھ نیک برتائو کی نصیحت کرو چاہے وہ ایک مقام پر کام کرنے والے ہوں یا جا بجا گردش کرنے والے ہوں اورجسمانی محنت سے روزی کمانے والے ہوں۔اس لئے کہ یہی افراد منافع کا مرکز اور ضرورت زندگی کے مہیا

(۱)بعض شارحین کی نظرمیں اس حصہ کا تعلق صرف کتابت اور انشاء سے نہیں ہے بلکہ ہر شعبہ حیات سے ہے جس کی نگرانی کے لئے ایکذمہ دار کا ہونا ضروری ہے اور جس کا ادراک اہل سیاست کو سیکڑوں سال کے بعد ہوا ہے اورحکیم امت نے چودہ صدی قبل اس نکتہ جہانبانی کی طرف اشارہ کردیا تھا۔

۵۷۹

وجُلَّابُهَا مِنَ الْمَبَاعِدِ والْمَطَارِحِ - فِي بَرِّكَ وبَحْرِكَ وسَهْلِكَ وجَبَلِكَ - وحَيْثُ لَا يَلْتَئِمُ النَّاسُ لِمَوَاضِعِهَا ولَا يَجْتَرِءُونَ عَلَيْهَا فَإِنَّهُمْ سِلْمٌ لَا تُخَافُ بَائِقَتُه - وصُلْحٌ لَا تُخْشَى غَائِلَتُه - وتَفَقَّدْ أُمُورَهُمْ بِحَضْرَتِكَ وفِي حَوَاشِي بِلَادِكَ - واعْلَمْ مَعَ ذَلِكَ أَنَّ فِي كَثِيرٍ مِنْهُمْ ضِيقاً فَاحِشاً - وشُحّاً قَبِيحاً - واحْتِكَاراً لِلْمَنَافِعِ وتَحَكُّماً فِي الْبِيَاعَاتِ وذَلِكَ بَابُ مَضَرَّةٍ لِلْعَامَّةِ عَيْبٌ عَلَى الْوُلَاةِ فَامْنَعْ مِنَ الِاحْتِكَارِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنَعَ مِنْه - ولْيَكُنِ الْبَيْعُ بَيْعاً سَمْحاً بِمَوَازِينِ عَدْلٍ- وأَسْعَارٍ لَا تُجْحِفُ بِالْفَرِيقَيْنِ مِنَ الْبَائِعِ

کرنے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔یہی دور دراز(۱) مقامات بروبحر' کوہ میدان ہر جگہ سے ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اور جہاں تک جانے کی لوگ ہمت نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اورجہاں تک جانے کی لوگ ہمت نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ امن پسند لوگ ہیں جن سے فساد کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اوروہ صلح و آشتی والے ہوتے ہیں جن سے کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔

اپنے سامنے اور دوسرے شہروں میں پھیلے ہوئے ان کے معاملات کی نگرانی کرتے رہنا اور یہ خیال رکھنا کہ ان میں بہت سے لوگوں میں انتہائی تنگ نظری اور بد ترین قسم کی کنجوسی پائی جاتی ہے ۔یہ منافع کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اونچے اونچے دام خود ہی معین کر دیتے ہیں' جس سے عوام کو نقصان ہوتا ہے اور حکام کی بد نامی ہوتی ہے۔لوگوں کوذخیرہ اندوزی سے منع کرو کہ رسول اکرم (ص) نے اس سے منع فرمایا ہے ۔خریدو فروخت میں سہولت ضروری ہے جہاں عادلانہ میزان ہو اور وہ قیامت معین ہو جس سے خریدار یا بیچنے والے کسی فریق پر

(۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تجار اور صنعت کار معاشرہ کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں اور انہیں کے ذریعہ معاشرہ کی ندگی میں استقرار پیدا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولائے کائنات نے ان کے بارے میں خصوصی نصیحت فرمائی ہے اوران کے مفسدین کی اصلاح پر خصوصی زوردیا ہے ۔تاجر میں بعض امتیازی خصوصیات ہوتے ہیں جو دوسری قوموں میں نہیں پائے جاتے ہیں ۔(۱) یہ لوگ فطرتاً صلح پسند ہوتے ہیں کہ فساد اور ہنگامہ میں دکان کے بند ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ (۲) ان کی نگاہ کسی مالک اور اراب پر نہیں ہوتی ہے بلکہ پروردگار سے رزق کے طلب گار ہوتے ہیں (۳) دور درازکے خطر ناک موارد تک سفر کرنے کی بنا پر ان سے تبلیغ مذہب کا کام بھی لیا جا سکتا ہے ' جس کے شواہد آج ساری دنیا میں پائے جا رہے ہیں۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863