نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657019 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

نفسانی خواہش کی بناء پر دنیاوی ریاست و حکومت حاصل کرنے کی مذمت میں رسول خدا(ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے کافی حدیثیں مروی ہیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کا ارشاد ہے۔" حب الدنيارأس كل خطيئة" (یعنی دنیا کی محبت و رغبت ہر بدی کی سردار ہے) پس قطعا ابو عبداللہ علیہ السلام دنیاوی جاہ و ریاست کے طالب نہیں تھے اور نہ ایسی فانی حکومت کے لیے جانبازی کی تھی اور اپنے اہلبیت (ع) کی اسیری گوارا کی تھی۔اگر کوئی شخص اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ان حضرات کو دنیا طلب کہے تو وہ یقینا قرآن مجید کا منکر ہے۔

امام حسین(ع) کا قیام ریاست اور خلافت ظاہری کے لیے نہیں تھا

رہا دوسرا فرقہ جس میں وہ لوگ ہیں جو حسی دلائل چاہتے ہیں۔ ان کے لیے محسوس دلائل بہت ہیں جن کو اس تنگ وقت میں مکمل طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ نمونتہ چند چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

اول ۔ یزید پلید کے مقابلے میں حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کا قیام اگر جاہ طلبی اور حکومت کے شوق میں ہوتا تو رسول اللہ(ص) ان حضرت کی نصرت کا حکم دیتے چنانچہ آپ کے سلسلوں سے اس بارے میں بکثرت روایتیں مروی ہیں جن میں سے صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب60 میں تاریخ بخاری و بغوی و ابن السکین و ذخائر العقبی امام الحرم شافعی سے سیرۃ ملا وغیرہ سے بروایت انس بن حارث بن بعیہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ(ص) سے سنا کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

"إِنَ ابْنِي هَذَايَعْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِأَرْضٍ يُقالُ لها کَربَلا فَمَنْ شهد ذالک مِنْكُمْ فَلْيَنْصُرْهُ فخرج انس ابن الحارث الی کربلا فَقُتِلَ أَنَسٌ مَعَ الْحُسَيْن ِرَضِی الله عنه معهه"

یعنی بتحقیق میرا یہ فرزند حسین(ع) زمین کربلا پر قتل کیا جائے گا۔ پس تم میں سے جو شخص اس وقت موجود ہو وہ حسین(ع) کی مدد کرے ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ انس بن حارث کربلا پہنچے اور حکم رسول(ص) پر عمل کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت کربلا میں حق کے لیے کھڑے ہوئے تھے نہ کہ دنیاوی ریاست کی محبت میں۔

ان چیزوں سے قطع نظر اگر معترصین غور کریں تو خود حضرت کی روانگی سے لے کر شہادت اور اسیری اہلبیت (ع) تک حق اور حقیقت برابر نمایاں ہے، اس لیے کہ اگر کسی ملک میں کوئی شخص ریاست کو خواہش رکھتا ہے اور حکومت وقت کے خلاف خروج کرنا چاہتا ہے تو اپنے عیال و اطفال کو لے کر نہیں نکلتا ہے ، چھوٹ چھوٹے اور شیر خوار بچوں اور حاملہ عورتوں کو ہمراہ نہیں لے جاتا بلکہ بذات خود ایک لچنی ہوئی فوج لے کر بڑھتا ہے اور جب دشمن پر غالب آجاتا ہے حالات قابو میں آجاتے ہیں اور انتظامات درست ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بال بچوں کو بلواتا ہے۔

۳۴۱

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کا اپنی عورتوں اور خورد سال بچوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا قافلہ لے کر سفر کرنا خود اس کی مکمل دلیل ہے کہ حضرت ریاست و خلافت ظاہری اور دشمن کو شکست دینے کے خیال سے تشریف نہیں لائے تھے اگر ایسا ارادہ ہوتا تو آپ یقینا یمن کی طرف جاتے جہاں سب آپ کے اور آپ کے پدر بزرگوار کے دوست اور پختہ عقیدت رکھنے والے تھے، اور اس کو اپنا مرکزی مقام قرار دے کر پورے ساز و سامان کے ساتھ بنفس بفیس حملے شروع کرتے چنانچہ حضرت کے بنی دوستوں اور بھائیوں نے بار بار یہی مشہورہ دیا ور ان کو مایوس ہونا پڑا کیوں کہ وہ لوگ حضرت کے اصلی نقطہ نظر اور مقصد سے واقف نہیں تھے۔

امام حسین (ع) کا قیام شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی حفاظت کے لیے تھا

لیکن خود حضرت جانتے تھے کہ ظاہری غلبے کے اسباب فراہم نہ ہوں گے لہذا مع عورتوں بچوں کے چوراسی افراد کے ہمراہ حضرت کا سفر ایک آخری اور بنیادی نتیجے کے لیے تھا کیوںکہ امام دیکھ رہے تھے کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو ان کے جد بزرگوار خاتم الانبیاء نے اپنے خون جگر اور شہدائے بدر و احد و حنین کے لہو سے سینچا تھا اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے باغبان کے سپرد کیا تھا تاکہ یہ اس کی نگہداشت کریں لیکن اس ماہر فن اور واقفکار باغبان کو ظلم و تعدی ، تلوار اور قتل و آتشزنی کا دبائو دال کر الگ کردیا گیا تھا۔ اور شجرہ طیبہ کی آبیاری سے روک دیا گیا جس سے توحید و نبوت کی بہار خزاں کی صورت اختیار کر رہی تھی۔ پھر بھی باغبان اصلی کی توجہ سے کبھی کبھی حقیقی اور کامل طاقت نہ سہی لیکن تھوڑی بہت تقویت پہنچ جاتی تھی یہاں تک باغ کے کل اختیارات جاہل ہٹ دھرم اور کینہ پرور باغبانوں ( یعنی بنی امیہ) کے ہاتھوں میں پہنچ گئے۔

خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کے زمانہ خلافت سے جب بنی امیہ کےہاتھ پائوں کھلے اور یہی حکومت کے کرتا و دھرتا بنے، ابوسفیان کو جو اس وقت اندھا ہوچکا تھا۔ ہاتھ پکڑ کے دربار میں لائے اور اس نے بآواز بلند کہا۔" يابني أميةتداولوا الخلاف ة فانه لا جنةولانار" ( یعنی اے بنی امیہ اب دولت خلافت کو گھما کر اپنے ہی خاندان میں رکھو کیوںکہ جنت اور دوزخ کچھ بھی نہیں ہے۔ ( یعنی سب ڈھونگ ہے)

نیز کہا " يابني أميّةتلقّفوهاتلقّفالكرة،والذي يحلف به أبوسفيان مازلت أرجوهالكم ولتصيرنّ الىصبيانكم وراثة"

یعنی ابنی امیہ کوشش کر کے خلافت کے گیند کی طرح دبوچ لو۔ قسم اس چیز کی جس کی میں قسم کھاتا ہوں( اس سے مراویت ہیں جن کی یہ لوگ قسم کھاتے تھے) کہ میں ہمیشہ تمہارے لیے ایسی حکومت کا متمنی تھا اور تم بھی اس کی حفاظت کرو تاکہ تمہاری اولاد اس کی وارث ہو۔اس رسوائے زمانہ بد عقیدہ قوم نے تمام راستے

۳۴۲

مسدود کردئیے، حقیقی اور معنوی باغبانوں کی باغ سے بالکل بے دخل کردیا اور آب حیات پر پہرے بٹھادیئے۔ شجرہ طیبہ دھیرے دھیرے پژمردہ ہونے لگا یہاں تک کہ یزید پلید کے دور خلافت میں درخت شریعت کو کاٹ دیا گیا اور قریب تھا کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ بالکل خشک ہوجائے۔ خدا کا نام فراموش ہو جائے اور دین کی حقیقت مٹ جائے۔

بدیہی چیز ہے کہ کوئی ہوشیار باغبان جب دیکھے کہ اس کے باغ پر ہر طرف سے آفتیں نازل ہو رہی ہیں تو اس کو فورا حفاظتی تدابیر اور علاج کی فکر کرنا چاہئیے ورنہ اس کے منافع اور پھلوں سے بالکل ہی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس موقع پر بھی--گلستان توحید و رسالت ک باغبانی حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام جیسے عالم دین باغبان کے سپرد تھی جب آپ نے دیکھا کہ بنی امیہ کی ہٹ دھرمی اور الحاد و عناد نے بات کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ عنقریب توحید کا درخت خشک ہونے والا ہے بلکی وہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو آپ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور محض اور صرف محض باغ رسالت کی جڑوں کی آبیاری اور تقویت شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے لیے کربلا کی طرف سفر اختیار کیا۔ کیونکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ درخت کی جڑوں میں خشکی دوڑ چکی ہے اور معمولی آب پاشی سے کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ جب تک اس کو پوری طاقت نہ پہنچائی جائے۔

جیسا کہ فلاحت کے علم عملی میں طریقہ ہے کہ جس وقت ہوشیار باغبان اور فلاح دیکھتے ہیں کہ کوئی درخت بالکل کمزور ہوگیا ہے اور اس کو زیادہ طاقت پہنچانے کی ضرورت ہے تو اس کا علاج قربانی سے کرتے ہیں یعنی کوئی گوسفند یا دوسرا جانور اس کے پاس ذبح کر کے اس کا خون اور گوشت و پوست درخت کی جڑ میں دفن کر دیتے ہیں تاکہ اس میں سرنو قوت اور نشو و نما پیدا ہوجائے۔ ریحانہ رسول حضرت سید الشہداء (ع) بھی ایک ماہر و عالم باغبان تھے۔ آپ نے دیکھا کہ شجرہ طیبہ کو سیرابی سے اس قدر محروم رکھا ہے ( بالخصوص اخیری برسوں اور بنی امیہ کے اقتدار میں) کہ معمولی سی آبیاری اور علمی خدمت سے شادابی نہ آئے گی جب تک فداکاری سے کام نہ لیا جائے۔ شجرہ طیبہ اور درخت شریعت کی سر سبزی قطعا قومی خونابے کی محتاج ہے۔ لہذا اپنے بہترین جوانوں ، خورد سال بچوں اور اصحاب کو لے کر قربانی اور شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو سیراب کرنے کے لیے کربلا کی طرف روانہ ہوگئے۔ بعض کوتاہ نظر لوگ کہتے ہیں کہ مدینے سے نکلے ہی کیوں؟ وہیں رہ کر علم مخالفت بلند کرتے اور قربانیاں دیتے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اگر آپ مدینے میں رہتے تو آپ کا مقصد دانشمندان عالم سے پوشیدہ رہتا اور ان کو پتا نہ لگتا کہ حضرت کی مخالفت کس بنیاد پر تھی جس طرح اور ہزاروں حامیان دین کسی شہر میں حمایت حق کے لیے کھڑے ہوئے اور قتل ہوگئے لیکن کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا مقصد اور نقطہ نظر کیا تھا اور کیوں قتل ہوئے

۳۴۳

نیز دشمنوں نے بھی معاملہ کو دبا دینے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس امام حسین علیہ السلام جیسے یکتا دور اندیش مرد میدان حق و صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے ماہ رجب میں جس موقع پر لوگ عمرے کے لیے مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں تشریف لے گئے اور روز عرفہ تک خانہ خدا میں اکٹھا ہونے والے لاکھوں انسانوں کے سامنے اپنے خطبوں اور تقریروں کے ذریعے حق اور سچائی کو بے نقاب کیا اور سب کو بتایا کہ یزید پلید شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی جڑیں کاٹ رہا ہے اور یہ حقیقت عام مسلمانوں کے گوش گزار کردی کہ جو یزید اسلامی خلافت کا دعوے کرتا ہے وہ اپنے عمل سے دین کو ملیامٹ کر رہا ہے۔ شراب پیتا ہے ، جوا کھیلتا ہے،کتے اور بندر سے دل بہلاتا ہے احکام دین کو پامال کرتا ہے اور میرے نانا رسول خدا(ص) کی محنتوں کو برباد کر رہا ہے۔ میں اپنے جد بزرگوار کا دین مٹنے نہ دوں گا۔ مجھ پر واجب ہے کہ قربانی دے کر اور جان نثار کر کے اس کی حفاظت کروں۔ پس حضرت کا قیام اور مدینے سے مکے اور مکے سے کوفے اور عراق کی طرف خروج شعائر دین کی حفاظت اور بنی نوع انسان کو دین یزید پلید کے اطوار و کردار ، مفاسد اخلاق، بیہودہ عقائد اور نفرت انگیز جابرانہ حرکات سے روشناس کرانے کے لیے تھا۔ آپ کے بنی اعمام بھائی اور دوست جو منع کرنے کے لیے آتے تھے وہ عرض کرتے تھے کہ جن کوفے والوں نے آپ کا خیر مقدم کرنا چاہا ہے اور دعوت نامے بھیجے ہیں۔ وہ بے وفائی میں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ یزید کی سلطنت اور بنی امیہ کے اقتدار سے جنہوں نے سالہا سال سے اس ملک کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔ آپ مقابلہ نہیں کرسکتے ، چونکہ اہل حق کم ہیں، لوگ دنیا کےبندے ہیں اور بنی امیہ کے پاس ان کو دنیاوی خوشحالی ملتی ہے۔ لہذا ان کے گرد جمع ہیں اور آپ کو کوئی نفع یا غلبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس اس سفر کو ملتوی کیجئے اور اگر حجاز میں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھتے تو یمن چلے جائیں کیونکہ وہاں آپ کے ماننے والے بہت ہیں ، وہ لوگ غیرت مند ہیں آپ کوتنہا نہ چھوڑیں گے اور آپ ان اطراف میں آرام سے زندگی بسر کرسکیں گے لیکن حضرت سب کے سامنے پوری وضاحت نہیں کر سکتے تھے لہذا ہر ایک کو مختصر جوابات سے خاموش فرماتے تھے البتہ بعض ہمراز اور خاص اعزہ جیسے اپنے بھائی محمد حنفیہ اور ان عباس سے فرماتے تھے کہ تم سچ کہتے ہو میں بھی جانتا ہوں کہ مجھ کو ظاہری غلبہ نہ ہوگا اور نہ میں فتح اور غلبہ ظاہری کے لیے جا رہا ہوں بلکہ قتل ہونے جاتا ہوں یعنی مظلومیت کی طاقت سے ظلم و فساد کی بنیاد ہلانا چاہتا ہوں۔

بعض کی تسکین قلب کے لیے اصلیت کو ظاہر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ میں نے اپنے نانا رسول خدا(ص) کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرما رہے ہیں۔" اخرج إلى العراق فإنّ اللّه قدشاءأن يراك قتيلا" (یعنی عراق کی طرف سفر کرو کیوں کہ در اصل خدا تم کو شہید دیکھنا چاہتا ہے۔

محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے عرض کیا کہ اگر یہ بات ہے تو آپ عورتوں کو کیوں لیے جارہے ہیں؟ فرمایا

۳۴۴

میرے جد کا ارشاد ہے کہ " إنّ اللّه قدشاءأن يراهنّ سبايا" ( یعنی در حقیقت اللہ نے ان کو اسیر دیکھنا چاہا ہے۔) بحکم رسول (ص) میں ان کو اسیری کے واسطے لیے جارہا ہوں یعنی میری شہادت اور اہل بیت (ع) کی اسیری میں یہ رموز اسرار پوشیدہ ہیں کہ عورتوں کی اسیری میری شہادت کا تتمہ ہو جو مظلومیت کا علم اپنے کاندھوں پر لے کر یزید کے مرکز خلافت و اقتدار کی طرف جائیں گی وہاں اس کی بنیادیں ہلائیں گی اور اس کے ظلم وکفر کا پرچم سرنگوں کریں گی۔

چنانچہ عقیلہ بنی ہاشم صدیقہ صغری جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا نے یزید کے بھرے ہوئے دربار اور جشن فتح میں اشراف قوم، بزرگان بنی امیہ ، غیر ممالک کے سفراء اور اور رئوسا، یہود و نصاری کے سامنے جو تقریر کی اور سید الساجدین امام چہارم زین العابدین علی ابن الحسین علیہ السلام نے شام کی مسجد اموی میں بالائے منبر یزید کے مقابل جو مشہور و معروف خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس نے اس کے اقتدار کی طاقت کو زیر کر دیا، عظمت بنی امیہ کا پرچم سرنگوں کردیا۔ اور خواب غفلت سے لوگوں کی انکھیں کھول دیں۔

حضرت نے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا :

"ايّهاالناس! اعطيناستّاوفضّلنابسبع،اعطيناالعلم والحلم والسّماحةوالفصاحةوالشّجاعةوالمحبّةفي قلوب المؤمنين،وفضّلنابأنّ منّاالنّبىّ المختارمحمّدا صلی الله عليه و آله وسلم،ومنّاالصّدّيق،ومنّاالطيّار،ومنّااسداللَّه واسدرسوله،ومنّاسبطاهذه الامّة و منا مهدی هذه الامة"

یعنی اے لوگو ہم کو ( یعنی آل محمد(ص) کو خدائے تعالی کی طرف سے ) چھ خصلتیں عطاکی گئی ہیں اور سات فضیلتوں کے ذریعے ہم کو ساری مخلوق پر ترجیح دی گئی ہے۔ ہم کو علم ، بردباری، جوانمردی، خوشروئی، فصاحت، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے کہ رسول مختار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہین ، اسد اللہ اور اسد رسول (ص) ہم میں سے ہیں۔ اس امت کے و وسبط ( حسن و حسین(ع) ) ہم میں سے ہیں اور اس امت کے مہدی(عج) ( حضرت حجتہ ابن امام حسن العسکری عجل اللہ فرجہ ) ہم میں سے ہیں اس کے بعد اپنے کو پہچنواتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص مجھ کو پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ اب میرا حسب و نسب جان لے کہ میں صاحب صفات و فضائل مخصوصہ ( یہاں ان صفات کا طولانی بیان ہے جس کو مکمل طور سے بیان کرنے کا وقت نہیں) خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرزند ہوں۔ اس کے بعد اس منبر پر جہاں معاویہ کے زمانے سے شب و روز حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام پر کھلم کھلا لعنت اور سب وشتم کا سلسلہ قائم تھا اور حضرت پر جھوٹے الزامات عائد کئےجاتے تھے خود یزید اور رئوسائے بنی امیہ کے سے دشمن مجمع کے سامنے اپنے جدبزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب ( جن کو سننے کا اب تک شام والوں کو موقع ہی نہیں دیا گیا تھا) بیان کئے اور فرمایا ۔

"" أنا ابن من ضرب خراطين الخلق حتى قالوا: لا إله إلا الله.أنا أبن من ضرب بين يدي

۳۴۵

رسول الله نقرتين لعرض الصورة في صفحة مستقلة بسيفين وطعن برمحين، وهاجر الهجرتين، وبايع البيعتين، وقاتل ببدر وحنين، ولم يكفر بالله طرفة عين.

أنا أبن صالح المؤمنين، ووارث النبيين، وقامع الملحدين، ويعسوب المسلمين، ونور المجاهدين، وزين العابدين، وتاج البكائين، وأصبر الصابرين، وأفضل القائمين من آل ياسين، رسول رب العالمين.

أنا ابن المؤيد بجبرائيل، المنصور بميكائيل.

أنا ابن المحامي عن حرم المسلمين، وقاتل المارقين والناكثين والقاسطين والمجاهدين أعداءه الناصبين، وأفخر من مشى من قريش أجمعين، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنين، وأول السابقين، وقاصم المعتدين، ومبيد المشركين، وسهم من مرامي الله على المنافقين، ولسكان حكمة العابدين، وناصر دين الله وولي أمر الله، وبستان حكمة الله، وعيبة علمه.

سمح، سخي بهي، بهلول، زكي، أبطحي، رضي، مقدام، همام، صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الأصلاب، مفرق الأحزاب، أربطهم عناناً وأثبتهم جناناً، وأمضاهم عزيمة، وأشدهم شكيمة، أسد باسل، يطحنهم في الحروب إذا ازدلف الأسنة، وقربت الأعنة، طحن الرحا، ويذرهم فيها ذرو الريح الهشيم، ليث الحجاز وكبش العراق، مكي، مدني، خيفي، عقبي، بدري أحدي، شجري، مهاجري، من العرب سيدها، ومن الوغى ليثها، وارث المشعرين، وأبو السبطين: الحسن والحسين، ذك جدي علي بن أبي طالب (ع) " یعنی اس کا فرزند ہوں جس نے لوگوں کی ناکوں پر ضربیں لگائیں یہاں تک کہ انہوں نے لا الہ اللہ کہا میں اس کا فرزند ہوں جس نے رسول اللہ(ص) کے سامنے دو تلواروں سے جنگ کی ( یعنی ایک زمانے تک معمولی تلوار سے اور ایک مدت تک ذوالفقار سے ) دو نیزے چلائے، دو ہجرتیں کیں اور دوسری بیعتیں کیں، بدر وحنین میں کافروں سے جہاد کیا اور چشم زدن کے لیے بھی خدا سے کفر اختیار نہیں کیا۔ میں صالح المومنین انبیاء کے وارث، ملحدین کے سر توڑنے والے ، مسلمانوں کے بادشاہ جہاد کرنے والے کے نور اور عبادت کرنے والوں کی رونق و خوف خدا میں رونے والوں کے سرتاج، صبر کرنے والوں کے سردار اور اہلبیت(ع) رسول اللہ(ص) کے نماز گزاروں میں سب سے بہتر کا فرزند ہوں جس کی جبرئیل نے تائید کی اور میکائیل نے نصرت کی۔ میں فرزند ہوں مسلمانوں کی عزت بچانے والے، دین سے پھر جانے والوں (یعنی اہل نہروان) بیعت توڑنے والوں( یعنی اصحاب جمل) اور ظالموں اور باغیوں ( یعنی صفین والوں) کے قاتل اپنے ناصبی دشمنوں سے جہاد کرنے والے، طائفہ قریش کے سارے چلنے پھرنے والوں سے زیادہ صاحب فخر، سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول(ص) کی دعوت قبول کرنے والے ، ایمان کی طرف سبقت کرنے والوں کے پیش رو ظالمین کو توڑنے والے، مشرکین کو ہلاک کرنے والے

۳۴۶

منافقین پر خدا کے تیروں میں سے ایک تیر، پروردگار عالم کی زبان حکمت دین خدا کے مددگار ، امر الہی کے کفیل، حکمت خدا کے باغ، اس کے علم کے خزانے ، جوانمرد ، صاحب سخاوت ، کشادہ رو، نیک و پاکیزہ بطحا کے ساکن ، پسندیدہ صفات، میدان جنگ میں پیش قدمی کرنے والے، بزرگ سردار صبر کرنے والے، بلند اخلاق ، کثیر القیام، پشتوں کے قطع کرنے والے اور گمراہ گروہوں کے پراگندہ کرنے والے کا جس نے مستقل طور پر اپنے نفس کو ان سب سے زیادہ قابو میں رکھا جس کا دل سب سے زیادہ مضبوط اور جس کا شکم سب سے زیادہ محکم تھا ( یعنی مظلوموں کا حق ثابت کرنے میں جملہ افراد بشر سے زیادہ ثابت قدم تھا) میدان جنگ میں شیر زیاں تھا جو سواروں اور پیادوں کے اپنے نیزوں کے ساتھ قریب ہونے کے وقت مخالفین کو پیس کر رکھ دیتا تھا اور ان کو اس طرح ریزہ ریزہ اور متفرق کر دیتا تھا جیسے طوفانی آندھی خس و خاشاک کو منتشر کردیتی ہے ، حجاز والوں کا شیر، عراق والوں کا قائد، مکی، مدنی ، دین میں پاکیزہ ترین مسلم، عقبہ میں بیعت کرنے والا بدر و احد کا شہسوار ۔ بیعت شجرہ کا جوانمردہجرت کا یکتا فداکار ، عرب کا سید وسردار ، شیر پیشہ رہیجا۔ مشعرین کا وارث اور دو سبط پیغمبر حسن و حسین(ع) کا باپ، یہ ہیں میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل اس کے بعد فرمایا۔

"أناابن خديجةالكبرى ،أناابن فاطمةالزهراء،أناابن المزرحمن القفا،أناابن العطشان حتّى قضى،أناابن من منعه من الماء و احلوه علی سائر الوری. انا ابن من لا يغسل له و لا کفن يری. انا ابن من وقع راسه علی القنا. انا ابن من هتک حريمه بارضكربلا، انا ابن من جمه بارض و راسه باخری انا ابن من سبيت حريمه الی الشام تهدی. ثم انه صلوات الله عليه انتحب و بکی فلم يزل يقول انا انا حتی ضبع الناس بالبکاء والنحيب."

یعنی میں ہوں فرزند خدیجہ کبری(ع) کا، میں ہوں فرزند فاطمہ زہرا(ع) کا میں ہوں فرزند اس کا جو پشت گردن سے مذبوح ہوا۔ میں ہوں فرزند اس کا جو پیاسا دنیا سے اٹھا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس پر پانی بند کردیا گیا اور ساری مخلوق پر مباح رکھا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کو نہ غسل دیا گیا نہ کفن ملا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کا سر مطہر نیزے پر بلند کیا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کے حرم کو اسیر کر کے شام کی طرف لایا گیا۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے بہ آواز بلند گریہ فرمایا اور برابر انا انا فرماتے رہے یعنی یونہی مسلسل اپنے آبا و اجداد کے فضائل و مناقب اور پدر بزرگوار و اہلبیت (ع) کے مصائب بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگ چیخین مار مار کے روئے اور فریاد کرنے لگے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد بیان مصائب کی جو پہلی مجلس منعقد ہوئی وہ یہیں شام کی مسجد جامع اموی کے اندر تھی جس میں سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب نقل کرنے کے بعد دشمنوں کے مجمع میں اپنے پدر عالی قدر کے اس قدر مصائب بیان فرمائے کہ یزید پلید کی موجودگی میں شام والوں کی صدائے نالہ و بکا اس طرح بلند ہوئی جس سے یزید ڈر گیا اور وہاں بیٹھ نہیں سکا بلکہ گھبرا کر مسجد سے چلا گیا۔

اسی مسجد اور حضرت کی تقریر سے بنی امیہ کے خلاف لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہونے لگا ( جس سے مجبور ہو کر یزید نے سیاسی رنگ میں ندامت کا اظہار کیا اور عبید اللہ ابن مرجانہ ملعون پر لعنت کی کہ اس نے ایسی افسوسناک حرکت کی۔ آخر کار بنی امیہ کے کفر و ظلم اور الحاد کے

۳۴۷

محل کے اینٹ سے اینٹ بچ گئی۔ یہاں تک کہ آج اس نابکار قوم کے پایہ تخت شام کے اندر بنی امیہ قبر بھی موجود نہیں ہے البتہ بنی ہاشم کا قبرستان شامیوں کا مرکز توجہ ہے اور عترت و اہلبیت رسول(ص) کی کافی قبریں شیعہ و سنی عوام و خواص کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہیں۔

غرضیکہ تمام ارباب مقاتل اور تواریخ نے لکھا ہے کہ حضرت مدینے سے مکے اور کربلا تک برابر کنایہ اور صراحتا اپنی شہادت کی خبر دیتے رہے اور لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ میں قتل ہونے کے لیے جا رہا ہوں۔

من جملہ اور خطبوں کے ایک تفصیلی خطبہ ہے جو حضرت نے روز ترویہ مکہ معظمہ میں تمام مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایا اور جس میں صاف صاف اپنی شہادت کی خبر دی ۔ چنانچہ حمد الہی اور خاتم الانبیاء پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا :

" خط الموت على ولد آدم مخط القلادة على جيد الفتاة وما أولهني إلى أسلافي اشتياق يعقوب إلى يوسف ، وخير لي مصرع انا لاقيه ، كأني بأوصالي تقطعها عسلان الفلوات بين النواويس " (1)

یعنی اولاد آدم(ع) کے موت اس طرح گلوگیر ہے جیسے جوان عورت کی گردن میں گلو بند ہیں اپنے اسلاف سے جاملنے کا کس قدر مشتاق ہوں جیسے کہ یعقوب یوسف(ع) کے لیے بیچین تھے اور میرے

گرنے کے لیے وہ زمین منتخب کی گئی ہے جہاں مجھ کو پہنچنا ہے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرائی بھیڑئیے نواویس و کربلا کے درمیان میرے جسم کا بند بند جدا کررہے ہیں، حضرت اس قسم کے جملوں سے لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ میں کوفے اور مقام خلافت تک پہنچوں گا بلکہ نواویس اور کربلا کے درمیان خونخوار بھیڑیوں کے ہاتھوں قتل ہوجائوں گا ۔ بھیڑیوں سے مراد آپ کے قاتل اور بنی امیہ وغیرہ ہیں اور وہ خونخوار بھیڑیوں کے مانند مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کریں گے۔

اس قسم کی باتوں اور روایتوں سے آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے شہادت کے قصد سے سفر فرمایا تھا نہ کہ ریاست و خلافت کے خیال سے۔ آپ راستے بھر مختلف طریقوں سے اپنی موت کی خبر دیتے تھے اور برابر ہر منزل پر اپنے اصحاب و اعزہ کو جمع کر کے فرماتے تھے کہ دینا کی پستی اور بے وقعتی کے لیے یہی واقعہ کافی ہے کہ حضرت یحی (ع) کا سر قلم کر کے ایک زنا کار عورت کے سامنے ہدیہ لے گئے تھے اور عنقریب مجھ مظلوم کا سر بھی بدن سے جدا کر کے یزید شراب خوار کے پاس لے جاییں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جلیل القدر محدث ثقہ الاسلام حاجی شیخ عباس قمی طاب ثراہ نفس المہموم میں کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ محدث نوری رحمتہ اللہ نے کتاب نفس الرحمن میں کہا ہے کہ نواویس عیسائیوں کا قبرستان ۔ چنانچہ حواشی کفعمی میں لکھا ہے اور ہم نے سنا ہے کہ یہ قبرستان اس مقام پر واقع تھا جہان اب حر ابن یزید ریاحی کا مزار ہے یعنی شہر کربلا کے شمال جنوب میں اور کربلا جو لوگوں میں معروف ہے اور اس نہر کے کنارے ایک خطہ زمین ہے جو جنوب سے شہر کی طرف جارہی ہے اور مزار معروف بہ ابن حمزہ سے گزرتی ہے اس کے ایک حصے پر کھیت ہیں اور شہر کربلا ان دونوں کے درمیان ہے۔

۳۴۸

حضرات ذرا غور کیجئے کہ جس وقت کوفے سے دس فرسخ پر حر ابن یزید ریاحی نے ایک ہزار سواروں کے ساتھ حضرت کی راہ روکی اور عرض کیا کہ عبید اللہ ابن زیادکے حکم سے میں آپ کا نگران مقرر ہوا ہوں، نہ آپ کو کوفے جانے دوں گا اور نہ تا حکم ثانی ساتھ چھوڑوں گا تو حضرت کہنا مان کر کیوں اتر پڑَ اور اپنے کو حر کے قابو میں دے دیا۔

اگر حضرت امارت و خلافت کے خیال میں ہوتے تو لشکر حر کی خواہش ہرگز قبول نہ کرتے در آنحالیکہ حر کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ سپاہی نہیں تھے اور حضرت کے ہمراہ تیرہ سو سوار اور پیاے تھے جن میں قمر بنی ہاشم جناب عباس(ع) اور علی اکبر(ع) جیسے ہاشمی جوان بھی تھے جن میں سے ایک ایک فرد ایک ہزار سپاہیوں کو زیر کرنے کے لیے کافی تھا اور کوفے تک بھی دس فرسخ کچھ زیادہ نہیں تھے۔ قاعدے کے مطابق چاہئیے تو یہ تھا کہ ان کو شکست دے کر اپنے کو مرکز حکومت ( کوفہ) تک پہنچا دیتے جہاں لوگ آپ کے منتظر بھی تھے ۔ وہاں سازو سامان سے مضبوط ہو کر مقابلہ کرتے ۔۔۔۔ تاکہ غلبہ حاصل ہوتا ، نہ یہ کہ حر کی باتیں مان کے فورا ٹھہر جائیں اور اپنے کو ایک بیابیان میں دشمنوں کے اندر محصور کر لیں، کہ چار روز کے بعد جب دشمن کی کمک پہنچ جائے تو فرزند رسول (ص) کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑے ۔ حضرات اگر اس واقعے کے قرائن پر گہری نظر ڈالیے تو آپ کو خود ہی جواب مل جائے گا اور سمجھ میں آجائے گا کہ حضرت نے کسی اور ہی نیت سے یہ مسافت طے کی تھی ۔ اس لیے کہ اگر ریاست کی خواہش ہوتی تو جس وقت دشمنوں کا محاصرہ انتہائی شدت پر تھا اور چاروں طرف کوسوں تک دشمن کی فوجیں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ ایسے طریقے اختیار نہ فرماتے کہ اپنی چھوٹی سی جماعت اور موجودہ طاقت کو بھی منتشر کردیں۔

عاشورا کی شب میں حضرت کا خطبہ ہمارے دعوے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ اس لیے کہ شب عاشور تک حضرت کی خدمت میں تیرہ سو سپاہی موجود تھے جو لڑنے مرنے پر آمادہ تھے لیکن اسی رات کو نماز مغربین کے بعد حضرت کرسی پر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں صاف صاف ایسے کلمات بیان فرمائے کہ اس لشکر اور جاہ طلب اشخاص پر خوف طاری ہوگیا ، تمام ارباب مقاتل نے لکھا ہے کہ حضرت نے فرمایا جو لوگ دنیاوی ریاست و حکومت کے خیال میں آئے ہیں وہ جان لیں کہ کل جو شخص اس سر زمین پر رہے گا وہ قتل ہوجائے گا۔ یہ لوگ سوا میرے کسی اور کو نہیں چاہتے ۔ میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں، رات کا وقت ہے اٹھو اور چلے جائو ۔ ابھی حضرت کی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ساری جماعت روانہ ہوگئی اور صرف بیالیس نفر باقی رہ گئے ، جن میں اٹھارہ بنی ہاشم اور چوبیس اصحاب تھے۔ آدھی رات کے بعد دشمن کے لشکر سے تیس بہادر سپاہی شبخوں کے ارادے سے نکل کے آئے لیکن جب حضرت کے تلاوت قرآن کی آواز سنی تو وجد کے عالم میں آکر امام کی خدا پرست فوج سے مل گئے۔ چنانچہ بناء بر مشہور یہی کل بہتر افراد روز عاشور حق پر قربان ہوئے جن میں سے اکثر زہاد و عباد اور قاریان قرآن تھے۔

یہ سب ایسے واضح دلائل اور قرائن ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نے دنیاوی انقلاب کے قصد سے اور جاہ و سلطنت کی محبت میں مسند خلافت تک پہنچنے کے لیے سفر نہیں فرمایا تھا بلکہ آپ کا واحد مقصد ترویج دین حمایت حق اور حریم اسلام سے دفاع کرنا تھا۔ اور وہ بھی اس طریقے سے کہ جان نثار کر کے لا الہ الا اللہ کا پرچم بلند کریں اور کفر و فساد کا علم سر نگوں کردیں۔ کیونکہ دین

۳۴۹

کی نصرت و حمایت کبھی تو قتل کرنے سے ہوتی ہے اور کبھی قتل ہونے سے ۔ چنانچہ حضرت کمر باندھے مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور مظلومیت کی قوت سے نیز احباب و اعزاء بالخصوص چھوٹے چھوٹے بچوں کی قربانیوں کی طاقت سے بنی امیہ کے ظلم و فساد کی جڑ اس طرح اکھاڑی کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو بلند کرنے اور شجرہ مقدسہ اصلہا ثابت کو سیراب کرنے میں آپ کی جلیل القدر خدمات کا آج ہر دوست و دشمن کو اعتراف ہے کہ یہاں تک کہ دیں سے بیگانہ افراد بھی دلیل و برہان کے روسے اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں۔

امام حسین (ع) کی مظلومیت پر انگلینڈ کی خاتون کا مقالہ

فرانس کے انیسویں صدی کے دائرۃ المعارف میں تین شہید کے عنوان سے انگلینڈ کی ایک ذی علم خاتون کا مقالہ ہے جو بہت تفصیلی ہے لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لکھتی ہیں تاریخ انسانیت میں اعلائے کلمہ حق کے لیے تین شخصیتوں نے ایسی جانبازی اور فداکاری دکھائی کہ سارے جانبازوں اور فداکاروں سے گوئے سبقت لے گئیں۔

اول یونان کے حکیم سقراط نے ایتھنس میں دوسرے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام نے فلسطین میں ( یہ عقیدہ موصوفہ کا ہے جو عیسائی ہیں ۔ ورنہ ہم مسلمانوں کا اعتقاد تو یہ ے کہ حضرت مسیح مصلوب و مقتول نہیں ہوئے جیسا کہ سورہ نمبر4 ( نساء) آیت نمبر156 میں صریحی ارشاد ہے۔

"وَماقَتَلُوهُ وَماصَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِين َاخْتَلَفُوافِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّااتِّباعَ الظَّنّ ِوَماقَتَلُوه يَقِيناًبَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ"

یعنی عیسی بن مریم کو نہ قتل کیا نہ سولی دی بلکہ حقیقت ان پر مشتبہ ہوگئی اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا وہ در حقیقت شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کو سوا اپنے گمان کی پیروی کے کوئی علم حاصل نہیں تھا اور یقینی طور پر مسیح کو انہوں نے قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔

تیسرے مسلمانوں کے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ ) کے فرزند حضرت حسین علیہ السلام ، نے اس کے بعد لکھا ہے کہ جب ان تینوں بزرگ شہیدوں میں سے ہر ایک شہادت و جانبازی کی کیفیت اور تاریخی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ حضرت حسین (ع) کی جانبازی اور فداکاری ان دو ہستیوں ( یعنی سقراط و عیسی(ع)) سے کہیں وزنی اور اہم تحی اور اسی وجہ سے آپ کو سید الشہداء کا لقب حاصل ہوا کیوں کہ سقراط اور حضرت مسیح نے خدا کی راہ میں صرف اپنی اپنی جانیں قربان کیں، لیکن حضرت حسین علیہ السلام نے سفر غربت اختیار کر کے اپنی جماعت سے دور ایک بیابان میں دشمنوں کے محاصرے کے اندر اپنے ایسے عزیزترین اعزہ کو حق پر قربان کیا اور ان کو اپنے ہاتھوں دشمن کے سامنے بھیج کے دین خدا پر نثار کیا جن میں سے ایک ایک کو ہاتھ سے دینا خود اپنا سر دینے سے زیادہ سخت تھا۔

مظلومیت حسین (ع) کی سب سے بڑی دلیل مسلمانوں کے سامنے آپ کا اپنے شیر خوار کی قربانی دینا ہے۔ اس لیے کہ کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک شیر خوار بچے کو بے قدر و قیمت پانی طلب کرنے کے لیے لایا جائے اور مکار و غاباز قوم پانی دینے کے عوض اس کو تیر جفا کا نشانہ بنادے۔

۳۵۰

دشمن کے اس عمل نے حسین(ع) کی مظلومیت کو ثابت کردیا اور اسی مظلومیت کی طاقت نے بنی امیہ کے مقتدر خاندان کی بساط عزت پلٹ کے اس کو رسوائے زمانہ بنا دیا۔ آپ کی اور آپ کے محترم اہلبیت (ع) ہی کی جانبازیوں کا نتیجہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین کو از سر نو زندگی حاصل ہوئی۔ ( انتہی)

ڈاکٹر ماربین جرمنی، ڈاکٹر جوزف فرانسیسی اور دوسرے یورپین مورخین سب کے سب اپنی تاریخوں میں تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کا کردار اور ان بزرگوار کی فداکاری ہی مقدس دین اسلام کے لیے سبب حیات بنیں۔ یعنی آپ نے بنی امیہ کے ظلم و کفر کی رگیں کاٹ دیں، ورنہ اگر حضرت کے یہ خدمات اور نصرت حق میں ایسا ثابت قدم نہ ہوتا تو بنی امیہ دین توحید کی جڑیں بالکل ہی کاٹ دیتے اور خدا و رسول(ص) اور دین و شریعت کا نام ہی دنیا سے مٹا دیتے۔

نتیجہ مطلوب اور انکشاف حقیقت

پس میرے معروضات کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت سید الشہداء ارواحنا لہ الفداء کی مقاوست اور جنگ صرف دین کے لیے تھی جس کے انصاف پسند دوست و دشمن بھی معترف ہیں۔

لہذا حضرت کے زوار و عزادار اور دوستدار شیعہ جس وقت سنتے ہیں کہ آپ نے یزید سے اس لیے مقابلہ کیا کہ وہ حرام اور ناجائز افعال کا مرتکب تھا تو ان کو توجہ ہوجاتی ہے کہ بد اعمالیاں حضرت کی ناراضگی کا باعث ہیں اور پھر و محرمات و منکرات سے الگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو امام کو ناگوار ہیں، اور واجبات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جب وہ سنتے ہیں اور کتب مقاتل و تواریخ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت نے روز عاشورا بلائوں کے اس ہجوم اور مصائب کی اس شدت میں جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ عالم قاصر ہے اپنی نماز ترک نہیں کی بلکہ نماز ظہر با جامعت ادا فرمائی تو ادائے واجبات بلکہ نوافل و مستحبات میں بھی سعی بلیغ سے کام لیتے ہیں تاکہ حضرت کے نزدیک محبوب اور لائق توجہ قرار پائیں۔ اس لیے کہ حضرت کا محبوب یقینا خدائے تعالی کا محبوب ہے لہذا جو تصور آپ یا دوسرے لوگوں نے قائم کیا ہے وہ خلاف حقیقت اور مغالطہ بازی ہے۔ آپ دھوکے میں ہیں اور مطلب غلط نکالا ہے بلکہ آپ حضرات کے قول کے بر خلاف اس طرح کی حدیثیں شیعوں کی روحانی قوت کو بیدار کر کے ان کو اور زیادہ عمل پر آمادہ کرتی ہیں۔ خصوصا جب علماء و ذاکرین مطالب کی تشریح کرتے ہیں اور حضرت کے فلسفہ شہادت کو کما حقہ بیان کرتے ہیں تو بہت ہی اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے خود برابر ان حقائق کامشاہدہ کیا ہے کہ ہر سال محرم میں حضرت کے طفیل اور ان مجلسوں کی برکت سے جو آپ کے نام منعقد ہوتی ہیں اور لوگ ان میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ اکثر بہکے ہوئے نوجوان واعظین کرام اور مبلغین عظام کے تبلیغی بیانات سے متاثر ہو کر راہ راست اور صراط مستقیم پر آگئے اور جملہ افعال بد سے توبہ کر کے سچے شیعوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

( جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو اکثر حضرات اشکبار آنکھوں کے ساتھ سکوت کے عالم میں ںظر آئے اور ہم نے ارادہ کیا کہ اب جلسہ برخاست کریں۔)

۳۵۱

نواب : قبلہ صاحب باوجودیکہ وقت کافی گزرا لیکن آپ نے ہم لوگوں کو حد سے زیادہ متاثر فرمایا اور اس بزرگ و فداکار شخصیت کو جو ریحانہ رسول(ص) تھی اپنے اس مختصر بیان سے بخوبی پہچنواکر ہم سب کو ممنون کیا۔ آپ کے جد رسول خدا(ص) آپ کو اس کا صلہ عنایت فرمائیں۔ میں ہیں سمجھتا کہ آج کی شب اس جلسے میں کوئی ایسا شخص ہو جس پر جناب کا اثر نہ پڑا ہو۔ خدا آپ سے راضی رہے اور اپنا لطف و کرم آپ کے شامل حال رکھے ہم کو اس طرح مستفیض فرمایا۔ در حقیقت بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہم اب تک لوگوں کی باتوں میں آکر ان کی اندھی تقلید کرتے رہے اور ان مظلوم آقا کی زیارت اور مجالس عزا کی شرکت کے فیوض و برکات سے محروم رہے یہ محض اس غلط پروپیگینڈے کا اثر تھا جو وہ تعصب کی بناء پر ہمارے درمیان کرتے رہے اور کہتے رہے کہ زیارت امام حسین(ع) اور مجالس عزا میں جانا بدعت ہے۔ واقعی کیا اچھی بدعت ہے جو انسان کو بیدار اور صاحب معرفت بناتی ہے اور اہلبیت(ع) رسول(ص) و خدمت گزاران دین و شریعت کی حقیت سے روشناس کرتی ہے۔

زیارت کا ثواب اور اس کے فوائد

خیر طلب : یہ جو آپ نے اہلبیت و عترت رسول (ع) کی عزاداری اور ان کی زیارت قبور کے متعلق بدعت کا جملہ فرمایا تو اس کا سرچشمہ قطعی طور پر نواصب و خوارج کے عقائد ہیں اور علماء اہلسنت نے بھی بغیر اس پر غور کئے ہوئے کہ بدعت وہ چیز ہے جس کے بارے میں خدا و رسول(ص) یا اہلبیت رسول(ع) کی جانب سے جو عدیل قرآن ہیں کوئی ہدایت نہ ملی ہو۔ بر بنائے عادت ان کی پیروی کی ہے حالانکہ امام حسین علیہ السلام کے لیے رونے اور ان کی زیارت کے بارے میں علاوہ اس کے کہ شیعوں کی معتبر کتابوں میں تواتر کےساتھ وارد ہوا ہے۔ خود آپ کی معتبر کتب اور مقاتل میں بھی تمام بڑے بڑے علماء نے کافی روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں اس سے قبل اشارہ کرچکا ہوں۔ اس وقت تنگی وقت کے لحاظ سے زیارت کے متعلق ایک مشہور روایت پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جو تمام مقاتل اور حدیث کی کتابوں میں درج ہے۔ ایک روز رسول خدا(ص) ام المومنین عائشہ کے حجرے میں تشریف رکھتے تھے کہ حسین علیہ السلام حاضر ہوئے پیغمبر(ص) نے ان کو آغوش محبت میں لے کر کثرت سے بوسے دیئے اور سونگھا۔ عائشہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ(ص) حسین(ع) کو کس قدر چاہتے ہیں؟ آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ یہ میرا پارہ جگر اور میرا پھول ہے؟ اس کے بعد آنحضرت(ص) رونے لگے۔ عائشہ نے گریے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں تلواروں اور نیزوں کے مقامات چومتا ہوں جو بنی امیہ میرے حسین(ع) پ؛ر لگائیں گے۔ عائشہ نے عرض کای کیا ان کو قتل کرینگے؟ فرمایا ہاں ان کو بھوکا اور پیاسا شہید کریں گے۔ ان لوگوں کو ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں نہ ہوگی خوشا حال اس شخص کا جو بعد شہادت ان کی زیارت کرے۔ عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ان کے زائر کو کیا ثواب ملے گا؟ فرمایا میرے ایک حج کا ثواب۔ عائشہ نے تعجب سے کہا کہ آپ کا ایک حج؟ فرمایا میرے دو حج کا۔ عائشہ نے اور زیادہ تعجب کیا تو فرمایا میرے چار حج کا۔ عائشہ برابر تعجب ظاہر کرتی جاتی تھیں اور آنحضرت(ص) ثواب میں اضافہ فرماتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فرمایا عائشہ جو شخص میرے حسین(ع) کی زیارت کرے خدا اس کے نامہ اعمال میں میرے نوے حج اور نوے عمروں کا ثواب درج فرمائیگا۔ اس کے بعد عائشہ چپ ہوگئیں۔ خدا کے لیے آپ حضرات انصاف

۳۵۲

کیجئے کہ کیا ایسی زیارت بدعت ہے جو رسول اللہ (ص) کی سفارش اور توجہ کی مرکز ہو؟ حضرت کی زیارت اور مجالس عزا میں شرکت کی مخالفت اور اس کو بدعت سے تعبیر کرنا یقینا آںحضرت(ص) اور اہلبیت طاہرین(ع) کی دشمنی ہے۔

زیارت قبور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اثرات

باطنی فوائد اور اخروی اجر کے علاوہ قبور ائمہ طاہرین(ع) کی زیارت میں جو ظاہری منافع ملحوظ ہیں۔ وہ ہر عقل مند انسان کو اس بزرگ عبادت کی طرف راغب کرتے ہیں جو اور بہت سی عبادتوں کی باعث ہوتی ہے۔

آپ اگر ان عتبات عالیات سے مشرف ہوں تو کھلا ہوا مشاہدہ کریں گے کہ (رات کے درمیان چند گھنٹوں کے علاوہ جب کہ خدام کے آرام اور صفائی کے لیے حرم بند رہتا ہے طلوع صبح کے دو گھنٹے قبل سے تقریبا آدھی رات تک روز و شب وہ حرم اور قبروں کے پاس کی مسجدیں زائرین اور مجاورین اور خواص و عوام سے بھری رہتی ہیں اور یہ سب لوگ مختلف عبادتوں، واجب و مستحب نمازوں، تلاوت قرآن درورد و اداء وظائف می سرگرم رہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے گھروں اور وطنوں میں سوا واجبات ادا کرنے کے زیادہ عبادتوں کی توفیق نہیں رکھتے وہ بھی ان مقدس مقامات میں زیارت اور قربت محبوب کے شوق میں طلوع صبح سے دو گھنٹے پہلے مشرف ہو کر تہجد اور اپنے پروردگار سے مناجات میں مصروف رہتے ہیں اور تلاوت قرآن اور خوف خدا سے گریہ و زاری ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ وہاں سے واپسی کے بعد بھی عبادات میں مشغول اور گناہوں سے الگ رہتے ہیں اور بڑے اشتیاق کے ساتھ نوافل اور قضا نمازیں بجالاتے ہیں۔

آیا یہ عمل جو دوسرے بہت سے اعمال کا سبب بنتا ہے اور لوگ اس کے ذریعے توفیق حاصل کر کے طرح طرح کی عبادتوں میں منہمک ہوتے ہیں اور رات دن میں کم از کم صبح سے پہر اور رات کو دو تین گھنٹے نماز و دعا و تلاوت قرآن اور ورد وظائف میں مشغول رہ کر اپنے کو پروردگار کی رحمت و عنایت کا مستحق بناتے ہیں بدعت ہے؟

اگر زیارت مزارات ائمہ اطہار(ع) کا اور کوئی نتیجہ نہ ہوتا تو صرف یہی عبادتوں کی توفیق اور سرگرمی ہی اس کا شوق دلانے کے لیے کافی تھی تاکہ ان وسائل سے اپنے معبود کے ساتھ رابطہ مضبوط کر کے روحانی طہارت حاصل کریں جو تمام نیک بختیوں کی جڑ ہے۔( کیونکہ اپنے شہروں اور گھروں میں رہ کے دنیاوی مشاغل کی وجہ سے پورا میلان پیدا نہیں ہوتا۔)

کیا آپ بلاد اہل تسنن میں ہم کو کوئی ایسا مقدس مقام بتاسکتے ہیں جہاں عالم و جاہل اور عوام وخواص چوبیس گھنٹے عبادات میں مشغول رہتے ہوں سوا مسجدوں کے جہاں فقط نماز پڑھ کے فورا متفرق ہوجاتے ہیں؟ بغداد اور معظم میں جہاں شیخ عبدالقادر جیلانی اور امام ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ ہمیشہ ان کے دروازے بند رہتے ہیں ، صرف نماز کے وقت ان مزاروں کی مسجدیں کھولی جاتی ہیں اور چند مخصوص آدمی آکر نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ شہر سامراء میں جہاں شیعوں کے دو برحق امام حضرت ہادی علی نقی علیہ السلام ( امام دہم)

۳۵۳

اور حضرت حسن عسکری علیہ السلام ( امام یازدہم) مدفون ہیں تمام شہر کے باشندے یہاں تک کہ آستانہ مقدس کے خدام بھی جو برادران اہل سنت میں سے ہیں، طلوع فجر کے قریب بڑی زحمت سے جب شیعہ زائرین و مجاورین اور اہل علم چیخ پکار مچاتے ہیں۔ تب حرم کا پھاٹک کھولتے ہیں لیکن ہم کو ایک بھی بوڑھا جوان عالم و جاہل سنی ایسا نظر نہیں آتا جو اس مسجد کے کسی گوشے میں مشغول عبادت ہو۔ یہاں تک کہ خدام بھی دروازہ کھولنے کے بعد جا کر سوجاتے ہیں۔ البتہ شیعہ لوگ حرم کے اندر پورے ذوق و شوق کے ساتھ عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اثرات اور برکات جو ان مقدس مزارات سے شیعوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ خدا آپ کو مشرف ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ عراق عرب میں آپ کو دو شہر ایک دوسرے کے پہلو میں صرف دو فرسخ کے فاصلے سے نظر آئیں گے یعنی کاظمین اور بغداد ۔ اول الذکر شیعوں کا مرکز ہے جس میں امام ہفتم حضرت ابو ابراہیم موسی بن جعفر اور امام نہم ابو جعفر محمد ابن علی الجواد علیہم السلام کا مزار مبارک ہے اور دوسرا اہل سنت کا مرکز ہے جس میں شیخ عبدالقادر جیلانی اور آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ اگر اگر آپ غور کیجئے تو شیعوں کے برحق پیشوائوں اور اماموں کے بلند تعلیمات کا اندازہ ہوجائے گا اور بچشم خود دیکھئے گا کہ ان دونوں مقدس قبروں اور ان کی زیارت کے برکات سے کاظمین کے باشندے اور زوار شب میں جلد سوجاتے ہیں اور طلوع فجر سے دو گھنٹے قبل بیدار ہو کر پورے ذوق و شوق سے عبادت وتہجد کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے شیعہ تجار بھی جن کی دکانیں اور تجارتیں بغداد میں ہیں لیکن مکانات کاظمین میں ہیں سحر کے وقت حرم مطہر کے اندر عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں۔

لیکن اہ بغداد کس قدر گناہوں میں غرق، عیاشی اور شہوت پرستی کے دلدادہ اور خواب غفلت میں مدہوش ہیں۔

نواب : واقعی اس وقت اپنے اوپر لعنت کرنے کا موقع ہے کہ ہم لوگ بغیر تحقیق کئے کس لیے اںکھیں بند کر کے بہکانے والوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ چند سال قبل ایک قافلہ یہاں سے روانہ ہوا جس میں بدقسمتی سے میں بھی شامل تھا۔ ہم لوگ امام اعظم ابوحنیفہ اور جناب عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہما کی زیارت کے لیے بغداد گئے لیکن ایک روز میں گھومنے کے لیے کاظمین چلا گیا جب واپس ہوا تو میرے رفیقوں نے مجھ کو کچھ سخت و سست کہا۔ بڑے تعجب کا مقام ہے کہ معظم میں امام اعظم کی، بغداد میں شیخ عبدالقادر کی، ہندوستان میں خواجہ نظام الدین کی اور مصر میں شیخ اکبر مقبل الدین کی زیارتیں تو جائز اور موجب ثواب ہوں جن کے لیے ہر سال ہم لوگوں میں سے کافی اشخاص جاتے رہتے ہیں حالاکہ ان کے بارے میں رسول اللہ(ص) سے قطعا کوئی روایت بھی مروی نہیں ہے لیکن راہ خدا کے فدا کار مجاہد اور ریحانہ رسول(ص) کی زیارت جس کے لیے پیغمبر(ص) نے اس قدر ثواب بیان فرمایا ہے اور عقلا بھی یہ ایک مستحسن کام ہے بدعت ہوجائے۔ اس وقت میں نے قطعی اور پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ انشاء اللہ اگر زندہ رہا تو اس سال قربتہ الی اللہ اور خوشنودی خدا کے لیے رسول خدا(ص) کے فرزند عزیز جناب حسین شہید(ع) کی زیارت کے لیے جائوں گا اور خدا سے دعا کروں گا کہ میری پچھلی غلطیوں کو معاف فرمائے۔

اب آج کی شب میں دلی تاثر کے ساتھ انشاء اللہ کل رات تک کے لیے رخصت ہوتا ہوں۔

ختم شد

۳۵۴

فہرست

من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ 2

اشارہ 3

بسم اﷲ الرحمن الرحیم 4

آغازِ سفر 4

مجلسِ مناظرہ 6

پہلی نشست 6

شب جمعہ 23 رجب سنہ 1345 ہج 6

ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب 9

اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں 11

پیغمبر(ص)نماز ظہ ر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح س ے پ ڑھ ت ے ت ھے 13

بنی امیہ کے دلدوز حرکات 19

واقعہ شہادت زیدبن علی علیہ السلام 20

شہادت جناب یحیٰ 21

قبر علی علیہ السلام کا ظہور 22

مدفن امیرالمومنین علیہ السلام میں اختلاف 23

دوسری نشست 25

۳۵۵

شب شبنہ 24 رجب سنہ 1345 ھ 25

مذہب شیعہ پر اشکال پیدا کرنا 26

مخالفین کی اشکال تراشیوں کا جواب 27

شیعہ اور حقیقت تشیع کے معنی 29

مقام تشیع کی تشریح میں آیات و روایات 31

سلمان و ابوذر اور مقداد و عمار کی منزل 36

خلفاء دیالمہ اور غازاں خان اور شاہ خدا بندہ کے زمانہ میں 37

ایرانیوں کی توجہ اور تشیع کا سبب 37

مغلوں کے دور میں تشیع کا ظہور 40

قاضی القضاة کے ساتھ علامہ حلی کا مناظرہ 40

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا 43

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں 44

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا 45

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ 50

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے 51

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں 52

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے 54

۳۵۶

تیسری نشست 56

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ 56

عقائد زیدیہ 57

عقائد کیسانیہ 58

عقائد قداحیہ 59

عقائد غلات 59

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ 60

حدیث معرفت پر اعتراض 63

اعترض کا جواب 63

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں 65

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں 66

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار 68

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ 69

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا 71

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے 72

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا 75

شرک کے اقسام 76

۳۵۷

شرک جلی 77

شرک در ذات 77

عقائد نصاری 77

شرک درصفات 78

شرک در افعال 78

شرک در عبادت 79

نذر کے بار ے م یں 80

شرک خفی 82

شرک در اسباب 83

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں 83

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا 85

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں 86

حدیث ثقلین 87

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے 88

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں 90

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت 91

حدیث ثقلین کے اسناد 92

۳۵۸

حدیث سفینہ 94

دعائے توسل 98

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت 100

"قاضی صیدا" کی بد گوئی سے ش ہید ثانی کی شہ ادت 102

انصاف پسند لوگوں کی توجہ کیلئے عمدہ بحث 103

ایرانیوں کے ساتھ ترکیوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کا شرمناک رویہ 104

ایران مین خان خیوہ کے مظالم اور شیعوں کے قتل وغارت کے لئے علمائے اہل سنت کے فتوے 105

شیعوں کے قتل وغارت پر علمائے اہل سنت کے فتوے اور خراسان پر عبداللہ خاں ازبککے حملے 106

افغانستان کے شیعوں سے افعانی امیروں کا سلوک 106

شہید ثالث کی شہ ادت 107

شیخ کا اقدام، شبہہ ک ی ایجاد حملے ک ے لئ ے وس یلے کی تیاری-----اور---- اس کا دفاع 108

زیارت کے آداب 110

نماز زیارت اور دعائے بعد از نماز 110

ائمہ علیھ م السلام کے روضو ں پر آستان ہ بوس ی شرک نہیں ہے 112

بھائیوں کا یوسف(ع) کے لیے خاک پر گرنا اور سجدہ کرنا 114

جسم کی فنا کے بعد روح کی بقا 115

بقائے روح میں اشکال اور اس کا جواب 116

۳۵۹

اہل مادہ طبیعت کا ظہور اور حکیم سقراط سے ویمقراطیس کا مقابلہ 116

یورپ میں علمائے الہی کے اقوال 117

معاویہ و یزید کی خلافت اور ان کے کفر کی طرف سے مخالفین کا دفاع اور اس کا جواب 119

یزید کے کفر ارتداد پر دلائل 120

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت 123

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام 124

گمنام جاں نثار 127

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں 129

چوتھی نشست 131

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ 1345 ھ 131

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا 131

امامت کے بارے میں بحث 132

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت 132

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے 134

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے 134

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا 137

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے 139

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

أَحَداً عَنْ حَاجَتِه ولَا تَحْبِسُوه عَنْ طَلِبَتِه - ولَا تَبِيعُنَّ لِلنَّاسِ فِي الْخَرَاجِ كِسْوَةَ شِتَاءٍ ولَا صَيْفٍ - ولَا دَابَّةً يَعْتَمِلُونَ عَلَيْهَا ولَا عَبْداً - ولَا تَضْرِبُنَّ أَحَداً سَوْطاً لِمَكَانِ دِرْهَمٍ - ولَا تَمَسُّنَّ مَالَ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ مُصَلٍّ ولَا مُعَاهَدٍ - إِلَّا أَنْ تَجِدُوا فَرَساً أَوْ سِلَاحاً - يُعْدَى بِه عَلَى أَهْلِ الإِسْلَامِ - فَإِنَّه لَا يَنْبَغِي لِلْمُسْلِمِ أَنْ يَدَعَ ذَلِكَ فِي أَيْدِي أَعْدَاءِ الإِسْلَامِ - فَيَكُونَ شَوْكَةً عَلَيْه - ولَا تَدَّخِرُوا أَنْفُسَكُمْ نَصِيحَةً ولَا الْجُنْدَ حُسْنَ سِيرَةٍ - ولَا الرَّعِيَّةَ مَعُونَةً ولَا دِينَ اللَّه قُوَّةً - وأَبْلُوا فِي سَبِيلِ اللَّه مَا اسْتَوْجَبَ عَلَيْكُمْ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدِ اصْطَنَعَ عِنْدَنَا وعِنْدَكُمْ - أَنْ نَشْكُرَه بِجُهْدِنَا - وأَنْ نَنْصُرَه بِمَا بَلَغَتْ قُوَّتُنَا - ولَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.

(۵۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أمراء البلاد في معنى الصلاة

أَمَّا بَعْدُ فَصَلُّوا بِالنَّاسِ الظُّهْرَ - حَتَّى تَفِيءَ الشَّمْسُ مِنْ مَرْبِضِ الْعَنْزِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْعَصْرَ والشَّمْسُ بَيْضَاءُ حَيَّةٌ فِي عُضْوٍ مِنَ النَّهَارِ - حِينَ يُسَارُ فِيهَا فَرْسَخَانِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْمَغْرِبَ حِينَ

کی ضرورت سے روک نہ دینا اوراس کے مطلوب کی راہمیں رکاوٹ نہ پیدا کرنا اور خراج وصول کرنے کے لئے اس کے سردی یا گرمی کے کپڑے نہ بیچ ڈالنا اور نہاس جانور یا غلام پر قبضہ کرلینا جواس کے کام آتا ہے اور کسی کو پیسہ کی خاطر مارنے نہ لگنا اورکسی مسلمان یا کافر ذمی کے مال کو ہاتھ نہ لگانا مگریہ کہ اس کے پاس کوئی ایسا گھوڑا یا اسلحہ ہوجسے دشمنان اسلام کو دینا چاہتا ہے تو کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ یہاشیاء دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں چھوڑدے اور وہ اسلام پر غالب آجائیں۔دیکھو کسی نصیحت کو بچا کر نہ رکھنا۔نہ لشکر کے ساتھ اچھے برتائو میں کمی کرنا اورنہ رعایا کی امداد میں اورنہ دین خداکو قوت پہنچانے میں۔اللہ کی راہ میں اس کے تمام فرائض کوادا کردینا کہ اس نے ہمارے اورتمہارے ساتھ جو احسان کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہمم اس کے لشکر کی کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کے دین کی مدد کریں کہ قوت بھی تو بالآخر خدائے عظیم کا عطیہ ہے۔

(۵۲)

آپ کامکتوب گرامی

(امراء بلاد کے نام۔نماز کے بارے میں )

امابعد!ظہر کی نماز اس وقت تک اداکردینا(۱) جب آفتاب کا سایہ بکریوں کے باڑہ کیدیوار کے برابر ہو جائے اور عصر کی نماز اس وقت پڑھا دیناجب آفتاب روشن اور سفید رہے اوردن میں اتناوقت باقی رہجائے جب مسافر دو فرسخ جا سکتا ہو۔مغرب اس وقت ادا کرنا جب روزاہ دار

۵۶۱

يُفْطِرُ الصَّائِمُ - ويَدْفَعُ الْحَاجُّ إِلَى مِنًى - وصَلُّوا بِهِمُ الْعِشَاءَ حِينَ يَتَوَارَى الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْغَدَاةَ والرَّجُلُ يَعْرِفُ وَجْه صَاحِبِه - وصَلُّوا بِهِمْ صَلَاةَ أَضْعَفِهِمْ ولَا تَكُونُوا فَتَّانِينَ

(۵۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

كتبه للأشتر النخعي - لما ولاه على مصر وأعمالها حين اضطرب أمر أميرها محمد بن أبي بكر، وهو أطول عهد كتبه وأجمعه للمحاسن.

بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

هَذَا مَا أَمَرَ بِه عَبْدُ اللَّه عَلِيٌّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ - مَالِكَ بْنَ الْحَارِثِ الأَشْتَرَ فِي عَهْدِه إِلَيْه - حِينَ وَلَّاه مِصْرَ جِبَايَةَ خَرَاجِهَا وجِهَادَ عَدُوِّهَا - واسْتِصْلَاحَ أَهْلِهَا وعِمَارَةَ بِلَادِهَا.

أَمَرَه بِتَقْوَى اللَّه وإِيْثَارِ طَاعَتِه - واتِّبَاعِ مَا أَمَرَ بِه فِي كِتَابِه مِنْ فَرَائِضِه وسُنَنِه - الَّتِي لَا يَسْعَدُ أَحَدٌ إِلَّا بِاتِّبَاعِهَا -

افطارکرتا ہے اورحاجی عرفات سے کوچ کرتا ہے اور عشاء اس وقت پڑانا جب شفیق چھپ جائے اورایک تہائی رات نہ گزرنے پائے صبح کی نماز اس وقت ادا کرنا جب آدمی اپنے ساتھی کے چہرہ کو پہچان سکے ۔ ان کے ساتھ نماز پڑھو کمزور ترین آدمی کا لحاظ رکھ کر۔اور خبردار ان کے لئے صبر آزما نہ بن جائو۔

(۵۳)

آپ کامکتوب گرامی

(جسے مالک بن اشتر نخعی کے نام تحریر فرمایا ہے۔اس وقت جب انہیں محمد بن ابی بکرکے حالات کے خراب ہو جانے کے بعد مصر اور اس کے اطراف کاعامل مقرر فرمایا ۔اور یہ عہد نامہ حضرت ک تمام سرکاری خطوط سب سے زیادہ مفصل اورمحاسن کلام کا جامع ہے )

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ وہ قرآن ہے جو بندہ ٔ خدا امیرالمومنین علی نے مالک بن اشتر نخعی کے نام لکھا ہے جب انہیں خراج جمع کرنے ' دشمن سے جہاد کرنے ' حالات کی اصلاح کرنے اور شہروں کی آباد کاری کے لئے مصرکاعامل قرار دے کر روانہ کیا سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو ' اس کی اطاعت کواختیار کرو اورجن فرائض و سنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اورکوئی شخص

۵۶۲

ولَا يَشْقَى إِلَّا مَعَ جُحُودِهَا وإِضَاعَتِهَا - وأَنْ يَنْصُرَ اللَّه سُبْحَانَه بِقَلْبِه ويَدِه ولِسَانِه - فَإِنَّه جَلَّ اسْمُه قَدْ تَكَفَّلَ بِنَصْرِ مَنْ نَصَرَه وإِعْزَازِ مَنْ أَعَزَّه.

وأَمَرَه أَنْ يَكْسِرَ نَفْسَه مِنَ الشَّهَوَاتِ - ويَزَعَهَا عِنْدَ الْجَمَحَاتِ - فَإِنَّ النَّفْسَ أَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ اللَّه.

ثُمَّ اعْلَمْ يَا مَالِكُ - أَنِّي قَدْ وَجَّهْتُكَ إِلَى بِلَادٍ قَدْ جَرَتْ عَلَيْهَا دُوَلٌ قَبْلَكَ - مِنْ عَدْلٍ وجَوْرٍ - وأَنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ مِنْ أُمُورِكَ - فِي مِثْلِ مَا كُنْتَ تَنْظُرُ فِيه مِنْ أُمُورِ الْوُلَاةِ قَبْلَكَ - ويَقُولُونَ فِيكَ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِيهِمْ - وإِنَّمَا يُسْتَدَلُّ عَلَى الصَّالِحِينَ - بِمَا يُجْرِي اللَّه لَهُمْ عَلَى أَلْسُنِ عِبَادِه - فَلْيَكُنْ أَحَبَّ الذَّخَائِرِ إِلَيْكَ ذَخِيرَةُ الْعَمَلِ الصَّالِحِ - فَامْلِكْ هَوَاكَ وشُحَّ بِنَفْسِكَ عَمَّا لَا يَحِلُّ لَكَ - فَإِنَّ الشُّحَّ بِالنَّفْسِ الإِنْصَافُ مِنْهَا فِيمَا أَحَبَّتْ أَوْ كَرِهَتْ وأَشْعِرْ قَلْبَكَ الرَّحْمَةَ لِلرَّعِيَّةِ - والْمَحَبَّةَ لَهُمْ واللُّطْفَ بِهِمْ - ولَا تَكُونَنَّ عَلَيْهِمْ سَبُعاً ضَارِياً تَغْتَنِمُ أَكْلَهُمْ -

ان کے انکاراور بربادی کے بغیر بد بخت نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اپنے دل ہاتھ اور زبان سے دین خدا کی مدد کرتے رہنا کہ خدائے ''عزاسمہ '' نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ اپنے مدد گاروں کی مدد کرے گا اور اپنے دین کی حمایت کرنے والوں کو عزت و شرف عنایت کرے گا۔

دوسراحکم یہ ہے کہ اپنے نفس کے خواہشات کو کچل دواور اس یمنہ زوریوں سے رو کے رہو کہ نفس برائیوں کاحکم دینے والا ہے جب تک پروردگار کا رحم شامل نہ ہوجائے ۔اس کے بعد مالک یہ یاد رکھناکہ میں نے تم کو ایسے علاقہ کی طرف بھیجا ہے جہاں عدل و ظلم کی مختلف حکومتیں گذر چکی ہیں اور لوگ تمہارے معاملات کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جس نظر سے تم ان کے اعمال کو دیکھ رہے تھے اورتمہارے بارے میں وہی کہیں گے جو تم دوسروں کے بارے میں کہہ رہے تھے ۔نیک کردار بندوں کی شناخت اس ذکرخیر سے ہوتی ہے جو ان کے لئے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوتا ہے لہٰذا تمہارامحبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہونا چاہیے۔خواہشات کو روک کررکھو اور جو چیز حلالنہ ہو اس کے بارے میں نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو کہ یہی بخل اس کے حق میں انصاف ہے چاہے اسے اچھا لگے یا برا۔رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعاربنالو اورخبردار ان کے حق میں پھاڑ کھانے والے درندہ کے مثل نہ ہو جانا کہ انہیں کھاجانے ہی کو غنیمت سمجھنے لگو۔کہ مخلوقات

۵۶۳

فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي الدِّينِ - وإِمَّا نَظِيرٌ لَكَ فِي الْخَلْقِ - يَفْرُطُ مِنْهُمُ الزَّلَلُ وتَعْرِضُ لَهُمُ الْعِلَلُ - ويُؤْتَى عَلَى أَيْدِيهِمْ فِي الْعَمْدِ والْخَطَإِ - فَأَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وصَفْحِكَ - مِثْلِ الَّذِي تُحِبُّ وتَرْضَى أَنْ يُعْطِيَكَ اللَّه مِنْ عَفْوِه وصَفْحِه - فَإِنَّكَ فَوْقَهُمْ ووَالِي الأَمْرِ عَلَيْكَ فَوْقَكَ - واللَّه فَوْقَ مَنْ وَلَّاكَ - وقَدِ اسْتَكْفَاكَ أَمْرَهُمْ وابْتَلَاكَ بِهِمْ - ولَا تَنْصِبَنَّ نَفْسَكَ لِحَرْبِ اللَّه فَإِنَّه لَا يَدَ لَكَ بِنِقْمَتِه - ولَا غِنَى بِكَ عَنْ عَفْوِه ورَحْمَتِه - ولَا تَنْدَمَنَّ عَلَى عَفْوٍ ولَا تَبْجَحَنَّ بِعُقُوبَةٍ - ولَا تُسْرِعَنَّ إِلَى بَادِرَةٍ وَجَدْتَ مِنْهَا مَنْدُوحَةً ولَا تَقُولَنَّ إِنِّي مُؤَمَّرٌ آمُرُ فَأُطَاعُ

خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور(۱) بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشر ہیں جن سے لغزشیں بھی ہو جاتی ہیں اور انہیں خطائوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یاد ھوکے سے ان سے بھی ہوجاتی ہیں۔لہٰذا انہیں ویسے ہی معاف کریدنا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے درگزر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو اور تمہاراولی امرتم سے بالا تر ہے اور پروردگار تمہارے والی سے بھی بالاتر ہے اور اسنے تم سے ان کے معاملات کی انجام دہی کا مطالبہ کیا ہے اوراسے تمہارے لئے ذریعہ آزمائش بنادیا ہے اورخبردار اپنے نفس کو اللہ کے مقابلہ پرنہ اتاردینا۔کہ تمہارے پاس اس کے عذاب سے بچنے کی طاقت نہیں ہے اورتم اس کے عفو اور رحم سے بے نیازبھی نہیں ہو۔اور خبردار کسی کو معاف کردینے پر نادم نہ ہونا اور کسی کو سزا دے کراکڑ نہ جانا۔غیظ و غضب کے اظہار یں جلدی نہ کرنا اگر اس کے ٹال دینے کی گنجائش پائی جاتی ہو اورخبردار یہ نہ کہنا کہ مجھے حاکم بنایا گیا ہے لہٰذا میری شان یہ ہے کہ میں حکم دوں اور میری اطاعت کی

(۱) یہ اسلامی نظام کا امتیازی نکتہ ہے کہ اس نظام میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ ہر شخص کو برابر کے حقوق دئیے جاتے ہیں۔مسلمان کا احترام اس کے اسلم کی بنا پر ہوتا ہے اور غیرمسلم کے بارے میں انسانی حقوق کا تحفظ کیاجاتا ہے اور ان حقوق میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حاکم ہر غلطی کامواخذہ نہ کرے بلکہ انہیں انسان سمجھ کر ان کی غلطیوں کو برداشت کرے اور ان کی خطائوں سے در گزر کرے اوریہخیال رکھے کہ مذہب کا ایک مستقل نظام ہے '' رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ''اگر انسان اپنے سے کمزور افراد پر رحم نہیں کرتا ہے تو اسے جبار سماوات و ارض سے توقع نہیں کرنی چاہیے ۔قدرت کا اٹلقانون ہے کہ تم اپنے سے کمزور پر رحم کرو تاکہ پروردگارتم پر رحم کرے اور تمہاری خطائوں کو معاف کردے جس پر تمہاری عاقبت اور رنجش کادارومدار ہے۔

۵۶۴

فَإِنَّ ذَلِكَ إِدْغَالٌ فِي الْقَلْبِ - ومَنْهَكَةٌ لِلدِّينِ وتَقَرُّبٌ مِنَ الْغِيَرِ - وإِذَا أَحْدَثَ لَكَ مَا أَنْتَ فِيه مِنْ سُلْطَانِكَ أُبَّهَةً أَوْ مَخِيلَةً - فَانْظُرْ إِلَى عِظَمِ مُلْكِ اللَّه فَوْقَكَ - وقُدْرَتِه مِنْكَ عَلَى مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْه مِنْ نَفْسِكَ - فَإِنَّ ذَلِكَ يُطَامِنُ إِلَيْكَ مِنْ طِمَاحِكَ - ويَكُفُّ عَنْكَ مِنْ غَرْبِكَ - ويَفِيءُ إِلَيْكَ بِمَا عَزَبَ عَنْكَ مِنْ عَقْلِكَ!

إِيَّاكَ ومُسَامَاةَ اللَّه فِي عَظَمَتِه والتَّشَبُّه بِه فِي جَبَرُوتِه - فَإِنَّ اللَّه يُذِلُّ كُلَّ جَبَّارٍ ويُهِينُ كُلَّ مُخْتَالٍ.

أَنْصِفِ اللَّه وأَنْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِكَ - ومِنْ خَاصَّةِ أَهْلِكَ - ومَنْ لَكَ فِيه هَوًى مِنْ رَعِيَّتِكَ - فَإِنَّكَ إِلَّا تَفْعَلْ تَظْلِمْ - ومَنْ ظَلَمَ عِبَادَ اللَّه كَانَ اللَّه خَصْمَه دُونَ عِبَادِه - ومَنْ خَاصَمَه اللَّه أَدْحَضَ حُجَّتَه،وكَانَ لِلَّه حَرْباً حَتَّى يَنْزِعَ أَوْ يَتُوبَ - ولَيْسَ شَيْءٌ أَدْعَى إِلَى تَغْيِيرِ نِعْمَةِ اللَّه وتَعْجِيلِ نِقْمَتِه - مِنْ إِقَامَةٍ عَلَى ظُلْمٍ - فَإِنَّ اللَّه سَمِيعٌ دَعْوَةَ الْمُضْطَهَدِينَ - وهُوَ لِلظَّالِمِينَ بِالْمِرْصَادِ.

ولْيَكُنْ أَحَبَّ الأُمُورِ إِلَيْكَ

جائے کہ اس طرح دل میں فساد داخل ہو جائے گا اور دین کمزور پڑ جائے گا اور انسان تغیرات زمانہ سے قریب تر ہو جائے گا۔اوراگر کبھی سلطنت و حکومت کو دیکھ کر تمہارے دل میں عظمت و کبریائی اور غرور پیدا ہونے لگے تو پروردگار کے عظیم ترین ملک پرغور کرنا اور یہ دیکھنا کہ وہ تمہارے اوپر تم سے زیادہ قدرت رکھتا ہے کہ اس طرح تمہاری سر کشی دب جائے گی۔تمہاری طغیانی رک جائے گی اور تمہاری گئی ہوئی عقل واپس آجائے گی۔

دیکھوخبر دار اللہ سے اس کی عظمت میں مقابلہ اوراس کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہوہ ہر جبار کو ذلیل کردیتا ہے اور ہر مغرور کو پست بنا دیتا ہے۔ اپنی ذات ' اپنے اہل و عیال اوررعایا میں جن سے تمہیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اوراپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کرو گے تو ظالم ہو جائو گے اورجواللہ کے بندوں پر ظلم کرے گا اس کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا اورجس کا دشمن پروردگار ہو جائے گا اس کی ہردلیل باطل ہوجائے گی اور وہ پروردگار کامد مقابل شمارکیا جائے گا جب تک اپنے ظلم سے بازنہ آجائے یا تو بہ نہ کرلے۔اللہ کی نعمتوں کی بربادی اور اس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔اس لئے کہ وہ مظلومنین کی فریاد کا سننے والا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا انتظار کر رہا ہے۔

تمہارے لئے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو حق

۵۶۵

أَوْسَطُهَا فِي الْحَقِّ - وأَعَمُّهَا فِي الْعَدْلِ وأَجْمَعُهَا لِرِضَى الرَّعِيَّةِ - فَإِنَّ سُخْطَ الْعَامَّةِ يُجْحِفُ بِرِضَى الْخَاصَّةِ - وإِنَّ سُخْطَ الْخَاصَّةِ يُغْتَفَرُ مَعَ رِضَى الْعَامَّةِ - ولَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الرَّعِيَّةِ أَثْقَلَ عَلَى الْوَالِي مَئُونَةً فِي الرَّخَاءِ - وأَقَلَّ مَعُونَةً لَه فِي الْبَلَاءِ - وأَكْرَه لِلإِنْصَافِ وأَسْأَلَ بِالإِلْحَافِ - وأَقَلَّ شُكْراً عِنْدَ الإِعْطَاءِ وأَبْطَأَ عُذْراً عِنْدَ الْمَنْعِ - وأَضْعَفَ صَبْراً عِنْدَ مُلِمَّاتِ الدَّهْرِ - مِنْ أَهْلِ الْخَاصَّةِ - وإِنَّمَا عِمَادُ الدِّينِ وجِمَاعُ الْمُسْلِمِينَ - والْعُدَّةُ لِلأَعْدَاءِ الْعَامَّةُ مِنَ الأُمَّةِ - فَلْيَكُنْ صِغْوُكَ لَهُمْ ومَيْلُكَ مَعَهُمْ.

ولْيَكُنْ أَبْعَدَ رَعِيَّتِكَ مِنْكَ وأَشْنَأَهُمْ عِنْدَكَ - أَطْلَبُهُمْ لِمَعَايِبِ النَّاسِ

کے اعتبار سے بہترین ، انصاف کے اعتبارسے سب کو شامل اور رعایا کی مرضی سے اکثریت(۱) کے لئے پسندیدہ ہوکہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضا مندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی ناراضگی عام افراد کی رضا مندی کے ساتھ قابل معافی ہو جاتی ہے ۔رعایا میں خواص سے زیادہ والی پرخوشحالی میں بوجھ بننے والا اوربلائوں میں کم سے کم مدد کرنے والا۔انصاف کرنا پسند کرنے والا اور اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنے والا' عطا کے موقع پرکم سے کم شکریہ اداکرنے والا اور نہ دینے کے موقع پربمشکل عذر قبول کرنے والا۔زمانہ کے مصائب میں کم سے کم صبر کرنے والا۔کوئی نہیں ہوتا ہے

دین کا ستون ۔مسلمان کی اجتماعی طاقت ' دشمنو ں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں لہٰذا تمہارا جھکائو انہیں کی طرف ہونا چاہیے اور تمہارا رجحان انہیں کی طرف ضروری ہے۔رعایا میں سب سے زیادہ دور اور تمہارے نزدیک مبغوض اس شخص کو ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کا تلاش کرنے والا ہے

(۱)دنیاکے ہر سماج میں دو طرح کے افراد پائے جاتے ہیں : خواص اور عوام۔خواص وہ ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی بنیاد پر اپنے لئے امتیازات کے قائل ہوتے ہیں اور ان کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ انہیں قانون میں زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل ہواور ہر موقع پران کی حیثیت کو پیش نظر رکھاجائے۔اگرچہ مصائب اورآفات ک موقع پر ان کا کوئی مصرف نہیں ہوتا ہے اور نہ یہ کسی میدان حیات میں نظر آتے ہیں۔اس کے بر خلاف عوام الناس ہر مصیبت میں سینہ سپر رہتے ہیں۔ہر خدمت کے لئے آمادہ رہتے ہیں اورکم سے کم حقوق کامطالبہ کرتے ہیں۔

مولائے کائنات نے اسی نکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ حاکم کا فرض ہے کہ عوام الناس کے مفادات کا تحفظ کرے اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرے کہ یہی دین کا ستون اور اس کی قوت ہیں اور انہیں سے اسلام کی طاقت کا مظاہر ہ ہوتا ہے اس کے بعد خواص ناراض بھی ہوگئے تو ان کی ناراضگی کاکوئی اثر نہیں ہوگا اور امت کے کام چلتے رہیں گے لیکن اس کے بر خلاف اگر عوام الناس ہاتھ سے نکل گئے اور وہ بغاوت پرآمادہ ہوگئے تو پھر اس طوفان کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا ہے اوریہ سیلاب بڑے بڑے تخت و تاج کو اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔

۵۶۶

فَإِنَّ فِي النَّاسِ عُيُوباً الْوَالِي أَحَقُّ مَنْ سَتَرَهَا - فَلَا تَكْشِفَنَّ عَمَّا غَابَ عَنْكَ مِنْهَا - فَإِنَّمَا عَلَيْكَ تَطْهِيرُ مَا ظَهَرَ لَكَ - واللَّه يَحْكُمُ عَلَى مَا غَابَ عَنْكَ - فَاسْتُرِ الْعَوْرَةَ مَا اسْتَطَعْتَ - يَسْتُرِ اللَّه مِنْكَ مَا تُحِبُّ سَتْرَه مِنْ رَعِيَّتِكَ - أَطْلِقْ عَنِ النَّاسِ عُقْدَةَ كُلِّ حِقْدٍ - واقْطَعْ عَنْكَ سَبَبَ كُلِّ وِتْرٍ - وتَغَابَ عَنْ كُلِّ مَا لَا يَضِحُ لَكَ – ولَا تَعْجَلَنَّ إِلَى تَصْدِيقِ سَاعٍ - فَإِنَّ السَّاعِيَ غَاشٌّ وإِنْ تَشَبَّه بِالنَّاصِحِينَ.

ولَا تُدْخِلَنَّ فِي مَشُورَتِكَ بَخِيلًا يَعْدِلُ بِكَ عَنِ الْفَضْلِ - ويَعِدُكَ الْفَقْرَ - ولَا جَبَاناً يُضْعِفُكَ عَنِ الأُمُورِ - ولَا حَرِيصاً يُزَيِّنُ لَكَ الشَّرَه بِالْجَوْرِ - فَإِنَّ الْبُخْلَ والْجُبْنَ والْحِرْصَ غَرَائِزُ شَتَّى - يَجْمَعُهَا سُوءُ الظَّنِّ بِاللَّه.

۔اس لئے کہ لوگوں میں بہر حال کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری والی پر ہے لہٰذا خبر دار جو عیب تمہارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا۔ تمہاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کردینا ہے اورغائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے۔جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگارسے تمنا کرتے ہو۔ لوگوں کی طرف سے کینہ کی ہر گروہ کو کھول دواوردشمنی کی ہر رسی کو کاٹ دو اور جوبات تمہارے لئے واضح نہ ہو اس سے انجان بن جائو اور ہرچغل خور کی تصدیق میں عجلت سے کام نہ لو کہ چغل خور ہمیشہ خیانت کا ر ہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ آئے

(مشاورت)

دیکھو اپنے مشورہ(۱) میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستہ سے ہٹادے گا اورفقرو فاقہ کاخوف دلاتا رہے گا اور اسی طرح بزل سے مشورہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنادے گا۔ اور حریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقہ سے مال جمع کرنے کوبھی تمہارے نگاہوں میں آراستہ کردے گا۔یہ بخل بزدلی اور طمع اگرچہ الگ الگ جذبات و خصائل ہیں لیکن ان سب کا قدر مشترک پروردگار سے سوء ظن ہے جس کے بعد ان خصلتوں کاظہور ہوتا ہے۔

(۱)ان فقرات میں زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ہدایات کاذکر کیا گیا ہے اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ حاکم کو کسی شعبہ حیات سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور کسی محاذ پر بھی کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جو حکومت کو تباہ و برباد کردے اورعوامی مفادات کو نذرتغافل کرکے انہیں ظلم وستم کانشانہ بنادے ۔

۵۶۷

إِنَّ شَرَّ وُزَرَائِكَ مَنْ كَانَ لِلأَشْرَارِ قَبْلَكَ وَزِيراً - ومَنْ شَرِكَهُمْ فِي الآثَامِ فَلَا يَكُونَنَّ لَكَ بِطَانَةً - فَإِنَّهُمْ أَعْوَانُ الأَثَمَةِ وإِخْوَانُ الظَّلَمَةِ - وأَنْتَ وَاجِدٌ مِنْهُمْ خَيْرَ الْخَلَفِ - مِمَّنْ لَه مِثْلُ آرَائِهِمْ ونَفَاذِهِمْ - ولَيْسَ عَلَيْه مِثْلُ آصَارِهِمْ وأَوْزَارِهِمْ وآثَامِهِمْ - مِمَّنْ لَمْ يُعَاوِنْ ظَالِماً عَلَى ظُلْمِه ولَا آثِماً عَلَى إِثْمِه - أُولَئِكَ أَخَفُّ عَلَيْكَ مَئُونَةً وأَحْسَنُ لَكَ مَعُونَةً - وأَحْنَى عَلَيْكَ عَطْفاً وأَقَلُّ لِغَيْرِكَ إِلْفاً - فَاتَّخِذْ أُولَئِكَ خَاصَّةً لِخَلَوَاتِكَ وحَفَلَاتِكَ - ثُمَّ لْيَكُنْ آثَرُهُمْ عِنْدَكَ أَقْوَلَهُمْ بِمُرِّ الْحَقِّ لَكَ - وأَقَلَّهُمْ مُسَاعَدَةً فِيمَا يَكُونُ مِنْكَ مِمَّا كَرِه اللَّه لأَوْلِيَائِه - وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ هَوَاكَ حَيْثُ وَقَعَ

والْصَقْ بِأَهْلِ الْوَرَعِ والصِّدْقِ - ثُمَّ رُضْهُمْ عَلَى أَلَّا يُطْرُوكَ - ولَا

(وزارت)

اوردیکھو تمہارے وزراء میں سب سے زیادہ بدتر وہ ہے جو تم سے پہلے اشرار کا وزیر رہ چکا ہواور ان کے گناہوں میں شریک رہ چکا ہو۔لہٰذا خبردار! ایسے افراد کو اپنے خواص میں شامل نہ کرنا کہ یہ ظالموں کے مدد گار اورخیانت کاروں کے بھائی بند ہیں اور تمہیں ان کے بدلے بہترین افراد مل سکتے ہیں جن کے پاس انہیں کی جیسی عقل اور کار کردگی ہو اور ان کے جیسے گناہوکے بوجھ اورخطائوں کے انبار نہ ہوں۔نہ انہوں نے کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ کسی گناہ گار کا اس کے گناہمیں ساتھ دیا ہو۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا بوجھ تمہارے لئے ہلکا ہوگا اوریہ تمہارے بہترین مدد گار ہوں گے اورتمہاری طرف محبت کا جھکائو بھی رکھتے ہوں گے اور اغیار سے انس و الفت بھی نہ رکھتے ہوں گے۔انہیں کو اپنے مخصوص اجتماعات میں اپنامصاحب قرار دینا اور پھر ان میں بھی سب سے زیادہ حیثیت اسے دینا جو حق کے حرف تلخ کو کہنے کی زیادہ ہمت رکھتا ہو اور تمہارے کسی ایسے عمل میں تمہارا ساتھ نہ دے جسے پروردگار اپنے اولیاء کے لئے نا پسند کرتا ہو چاہے وہ تمہاری خواہشات سے کتنی زیادہ میل کیوں نہ کھاتی ہوں۔

(مصاحبت)

اپنا قریبی رابطہ اہل تقویٰ اور اہل صداقت سے رکھنا اور انہیں بھی اس امر کی تربت دینا کہ بلا سبب تمہاری تعریف نہ کریں اور کسی ایسے بے بنیاد

۵۶۸

يَبْجَحُوكَ بِبَاطِلٍ لَمْ تَفْعَلْه - فَإِنَّ كَثْرَةَ الإِطْرَاءِ تُحْدِثُ الزَّهْوَ وتُدْنِي مِنَ الْعِزَّةِ.

ولَا يَكُونَنَّ الْمُحْسِنُ والْمُسِيءُ عِنْدَكَ بِمَنْزِلَةٍ سَوَاءٍ - فَإِنَّ فِي ذَلِكَ تَزْهِيداً لأَهْلِ الإِحْسَانِ فِي الإِحْسَانِ - وتَدْرِيباً لأَهْلِ الإِسَاءَةِ عَلَى الإِسَاءَةِ - وأَلْزِمْ كُلاًّ مِنْهُمْ مَا أَلْزَمَ نَفْسَه واعْلَمْ أَنَّه لَيْسَ شَيْءٌ بِأَدْعَى - إِلَى حُسْنِ ظَنِّ رَاعٍ بِرَعِيَّتِه - مِنْ إِحْسَانِه إِلَيْهِمْ وتَخْفِيفِه الْمَئُونَاتِ عَلَيْهِمْ - وتَرْكِ اسْتِكْرَاهِه إِيَّاهُمْ عَلَى مَا لَيْسَ لَه قِبَلَهُمْ - فَلْيَكُنْ مِنْكَ فِي ذَلِكَ أَمْرٌ - يَجْتَمِعُ لَكَ بِه حُسْنُ الظَّنِّ بِرَعِيَّتِكَ - فَإِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ يَقْطَعُ عَنْكَ نَصَباً طَوِيلًا - وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ حَسُنَ ظَنُّكَ بِه لَمَنْ حَسُنَ بَلَاؤُكَ عِنْدَه

وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ سَاءَ ظَنُّكَ بِه لَمَنْ سَاءَ بَلَاؤُكَ عِنْدَه - ولَا تَنْقُضْ سُنَّةً صَالِحَةً عَمِلَ بِهَا صُدُورُ هَذِه الأُمَّةِ - واجْتَمَعَتْ بِهَا الأُلْفَةُ وصَلَحَتْ عَلَيْهَا الرَّعِيَّةُ - ولَا تُحْدِثَنَّ سُنَّةً تَضُرُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاضِي تِلْكَ السُّنَنِ - فَيَكُونَ الأَجْرُ لِمَنْ سَنَّهَا - والْوِزْرُ

عمل کا غرورنہ پیدا کرائیں جو تم نے انجام نہ دیا ہو کہ زیادہ تعریف سے غرور پیدا ہوتا ہے اورغرور انسان کو سر کشی سے قریب تر بنا دیتا ہے ۔

دیکھوخبر دار! نیک کردار اور بد کردار تمہارے نزدیک یکساں نہ ہونے پائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں نیکی سے بد دلی پیدا ہوگی اور بد کردار وں میں بد کرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ہر شخص کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرنا جس کے قابل اس نے اپنے کو بنایا ہے اور یاد رکھنا کہ حاکم میں رعایا سے حسن ظن کی اسی قدر توقع کرنی چاہیے جس قدر ان کے ساتھ احسان کیا ہے اور ان کے بوجھ کو ہلکا بنایا ہے اور ان کو کسی ایسے کام پر مجبور نہیں کیا ہے جو ان کے امکان میں نہ ہو۔لہٰذا تمہارا برتائو اس سلسلہ میں ایسا ہی ہونا چاہیے جس سے تم رعایا سے زیادہ سے زیادہ حسن ظن پیدا کر سکو کہ یہ حسن ظن بہت سی اندرونی زحمتوں کو قطع کردیتا ہے اور تمہارے حسن ظن کا بھی سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کے ساتھ تم نے بہترین سلوک کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ بد ظنی کا حقدار وہ ہے جس کا برتائو تمہارے ساتھ خراب رہا ہے۔

دیکھو کسی ایسی نیک سنتکو مت توڑ دینا جس پر اس امت کے بزرگوں نے عمل کیا ہے اور اسی کے ذریعہ سماج میں الفت قائم ہوتی ہے اور رعایا کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے اور کسی ایسی سنت کو رائج نہ کردینا جو گذشتہ سنتوں کے حق میں نقصان دہ ہو کہ اس طرح اجر اس کے لئے ہوگا جس نے سنت کو ایجاد کیا ہے اور گناہ

۵۶۹

عَلَيْكَ بِمَا نَقَضْتَ مِنْهَا.

وأَكْثِرْ مُدَارَسَةَ الْعُلَمَاءِ ومُنَاقَشَةَ الْحُكَمَاءِ - فِي تَثْبِيتِ مَا صَلَحَ عَلَيْه أَمْرُ بِلَادِكَ - وإِقَامَةِ مَا اسْتَقَامَ بِه النَّاسُ قَبْلَكَ.

واعْلَمْ أَنَّ الرَّعِيَّةَ طَبَقَاتٌ - لَا يَصْلُحُ بَعْضُهَا إِلَّا بِبَعْضٍ - ولَا غِنَى بِبَعْضِهَا عَنْ بَعْضٍ - فَمِنْهَا جُنُودُ اللَّه ومِنْهَا كُتَّابُ الْعَامَّةِ والْخَاصَّةِ - ومِنْهَا قُضَاةُ الْعَدْلِ ومِنْهَا عُمَّالُ الإِنْصَافِ والرِّفْقِ - ومِنْهَا أَهْلُ الْجِزْيَةِ والْخَرَاجِ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ ومُسْلِمَةِ النَّاسِ - ومِنْهَا التُّجَّارُ وأَهْلُ الصِّنَاعَاتِ ومِنْهَا الطَّبَقَةُ السُّفْلَى مِنْ ذَوِي الْحَاجَةِ والْمَسْكَنَةِ - وكُلٌّ قَدْ سَمَّى اللَّه لَه سَهْمَه - ووَضَعَ عَلَى حَدِّه فَرِيضَةً فِي كِتَابِه أَوْ سُنَّةِ نَبِيِّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَهْداً - مِنْه عِنْدَنَا مَحْفُوظاً.

فَالْجُنُودُ بِإِذْنِ اللَّه حُصُونُ الرَّعِيَّةِ وزَيْنُ الْوُلَاةِ - وعِزُّ الدِّينِ وسُبُلُ الأَمْنِ - ولَيْسَ تَقُومُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِهِمْ - ثُمَّ لَا قِوَامَ لِلْجُنُودِ

تمہاری گردن پر ہوگا کہ تم نے اسے توڑ دیا ہے۔

علماء کے ساتھ علمی مباحثہ اورحکما کے ساتھ سنجیدہ بحث جاری رکھنا ان مسائل کے بارے میں جن سے علاقہ کے امور کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ امور قائم رہتے ہیں جن سے گذشتہ افراد کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے۔

اوریاد رکھو کہ رعایا کے بہت سے طبقات(۱) ہو تے ہیں جن میں کسی کی اصلاح دوسرے کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے اور کوئی دوسرے سے مستغنی نہیں ہو سکتا ہے۔انہیں میں اللہ کے لشکرکے سپاہی ہیں اور انہیں میں عام اورخاص امور کے کاتب ہیں۔انہیں میں عدالت سے فیصلہ کرنے والے ہیں اور انہیں میں انصاف اور نرمی قائم کرنے والے عمال ہیں۔انہیں میں مسلمان اہل خراج اور کافر اہلذمہ ہیں اور انہیں میں تجارت اورصنعت وحرفت والے افراد ہیں اور پھر انہیں میں فقراء و مساکین کا پست ترین طبقہ بھی شامل ہے اور سب کے لئے پروردگار نے ایک حصہ معین کردیا ہے اور اپنی کتاب کے فرائض یا اپنے پیغمبرکی سنت میں اس کی حدیں قائم کردی ہیں اور یہ وہ عہد ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے ۔

فوجی دستے یہ حکم خدا سے رعایا کے محافظ اور والیوں کی زینت ہیں۔انہیں سے دین کی عزت ہے اور یہی امن وامان کے وسائل ہیں رعایا کے امور کا قیام ان کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور یہ دستے بھی قائم نہیں رہ سکتے

(۱)اس مقام پر امیر المومنین نے سماج کو ۹ حصوں پرتقسیم کیا ہے اور سب کے خصوصیات ' فرائض ، اہمیت اورذمہ ذاریوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ کسی کاکام دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ہے لہٰذا ہرایک کا فرض ہے کہ دوسرے کی مد کرے تاکہ سماج کی مکمل اصلاح ہو سکے اور معاشرہ چین اور سکون کی زندگی گزار سکے ورنہ اس کے بغیر سماج تباہ برباد ہو جائے گا اور اس کی ذمہ داری تمام طبقات پر یکساں طورپر عائد ہوگی۔

۵۷۰

إِلَّا بِمَا يُخْرِجُ اللَّه لَهُمْ مِنَ الْخَرَاجِ - الَّذِي يَقْوَوْنَ بِه عَلَى جِهَادِ عَدُوِّهِمْ - ويَعْتَمِدُونَ عَلَيْه فِيمَا يُصْلِحُهُمْ - ويَكُونُ مِنْ وَرَاءِ حَاجَتِهِمْ -

ثُمَّ لَا قِوَامَ لِهَذَيْنِ الصِّنْفَيْنِ إِلَّا بِالصِّنْفِ الثَّالِثِ - مِنَ الْقُضَاةِ والْعُمَّالِ والْكُتَّابِ - لِمَا يُحْكِمُونَ مِنَ الْمَعَاقِدِ ويَجْمَعُونَ مِنَ الْمَنَافِعِ - ويُؤْتَمَنُونَ عَلَيْه مِنْ خَوَاصِّ الأُمُورِ وعَوَامِّهَا - ولَا قِوَامَ لَهُمْ جَمِيعاً إِلَّا بِالتُّجَّارِ وذَوِي الصِّنَاعَاتِ - فِيمَا يَجْتَمِعُونَ عَلَيْه مِنْ مَرَافِقِهِمْ - ويُقِيمُونَه مِنْ أَسْوَاقِهِمْ - ويَكْفُونَهُمْ مِنَ التَّرَفُّقِ بِأَيْدِيهِمْ - مَا لَا يَبْلُغُه رِفْقُ غَيْرِهِمْ –

ثُمَّ الطَّبَقَةُ السُّفْلَى مِنْ أَهْلِ الْحَاجَةِ والْمَسْكَنَةِ - الَّذِينَ يَحِقُّ رِفْدُهُمْ ومَعُونَتُهُمْ - وفِي اللَّه لِكُلٍّ سَعَةٌ ولِكُلٍّ عَلَى الْوَالِي حَقٌّ بِقَدْرِ مَا يُصْلِحُه - ولَيْسَ يَخْرُجُ الْوَالِي - مِنْ حَقِيقَةِ مَا أَلْزَمَه اللَّه مِنْ ذَلِكَ - إِلَّا بِالِاهْتِمَامِ والِاسْتِعَانَةِ بِاللَّه - وتَوْطِينِ نَفْسِه عَلَى لُزُومِ الْحَقِّ والصَّبْرِ عَلَيْه فِيمَا خَفَّ عَلَيْه أَوْ ثَقُلَ: فَوَلِّ مِنْ جُنُودِكَ أَنْصَحَهُمْ فِي نَفْسِكَ لِلَّه ولِرَسُولِه ولإِمَامِكَ وأَنْقَاهُمْ جَيْباً وأَفْضَلَهُمْ حِلْماً مِمَّنْ يُبْطِئُ عَنِ الْغَضَبِ ويَسْتَرِيحُ إِلَى الْعُذْرِ - ويَرْأَفُ بِالضُّعَفَاءِ

ہیں جب تک وہ خراج نہ نکال دیاجائے جس کے ذریعہ دشمن سے جہاد کی طاقت فراہم ہوتی ہے اورجس پر حالات کی اصلاح میں اعتماد کیا جاتا ہے اوروہی ان کے حالات کے درست کرنے کاذریعہ ہے ۔

اس کے بعد ان دونوں صنفوں کا قیام قاضیوں ۔ عاملوں اور کاتبوں کے طبقہ کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ سب عہدو پیمان کو مستحکم بناتے ہیں۔منافع کو جمع کرتے ہیں اورمعمولی اورغیرمعمولی معاملات میں ان پر اعتاد کیا جاتا ہے۔اس کے بعد ان سب کا قیام تجاراور صنعت کا روں کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ وہ وسائل حیات کو فراہم کرتے ہیں۔بازاروں کوقائم رکھتے ہیں اور لوگوں کی ضرورت کا سامان ان کی زحمت کے بغیر فراہم کردیتے ہیں۔

اس کے بعد فقراء و مساکین کا پست طبقہ ہے جو اعانت و امداد کا حقدار ہے اور اللہ کے یہاں ہرایک کے لئے سامان حیات مقرر ہے اور ہر ایک کا والی پر اتنی مقدار میں حق ہے جس سے اس کے امر کی اصلاح ہو سکے اوروالی اس فریضہ سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا ہے جب تک ان مسائل کا اہتمام نہ کرے اور اللہ سے مدد طلب نہ کرے اوراپنے نفس کو حقوق کی ادائیگی اور اس راہ کے خفیف وثقیل پر صبر کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے لہٰذا لشکر کا سردار اسے قرار دینا جو اللہ، رسول اور امام کا سب سے زیادہ مخلص ' سب سے زیادہ پاکدامن اور سب سے زیادہ برداشت کرنے والا ہو ۔ غصہ کے موقع پرجلد بازی نہ کرتا ہو۔ عذر کوقبول کرلیتا ہو۔کمزروروں پر مہربانی کرت

۵۷۱

ويَنْبُو عَلَى الأَقْوِيَاءِ - ومِمَّنْ لَا يُثِيرُه الْعُنْفُ ولَا يَقْعُدُ بِه الضَّعْفُ.

ثُمَّ الْصَقْ بِذَوِي الْمُرُوءَاتِ والأَحْسَابِ - وأَهْلِ الْبُيُوتَاتِ الصَّالِحَةِ والسَّوَابِقِ الْحَسَنَةِ - ثُمَّ أَهْلِ النَّجْدَةِ والشَّجَاعَةِ والسَّخَاءِ والسَّمَاحَةِ - فَإِنَّهُمْ جِمَاعٌ مِنَ الْكَرَمِ وشُعَبٌ مِنَ الْعُرْفِ - ثُمَّ تَفَقَّدْ مِنْ أُمُورِهِمْ مَا يَتَفَقَّدُ الْوَالِدَانِ مِنْ وَلَدِهِمَا - ولَا يَتَفَاقَمَنَّ فِي نَفْسِكَ شَيْءٌ قَوَّيْتَهُمْ بِه - ولَا تَحْقِرَنَّ لُطْفاً تَعَاهَدْتَهُمْ بِه وإِنْ قَلَّ - فَإِنَّه دَاعِيَةٌ لَهُمْ إِلَى بَذْلِ النَّصِيحَةِ لَكَ وحُسْنِ الظَّنِّ بِكَ - ولَا تَدَعْ تَفَقُّدَ لَطِيفِ أُمُورِهِمُ اتِّكَالًا عَلَى جَسِيمِهَا - فَإِنَّ لِلْيَسِيرِ مِنْ لُطْفِكَ مَوْضِعاً يَنْتَفِعُونَ بِه - ولِلْجَسِيمِ مَوْقِعاً لَا يَسْتَغْنُونَ عَنْه.

ولْيَكُنْ آثَرُ رُءُوسِ جُنْدِكَ عِنْدَكَ مَنْ وَاسَاهُمْ فِي مَعُونَتِه - وأَفْضَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ جِدَتِه - بِمَا يَسَعُهُمْ ويَسَعُ مَنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ خُلُوفِ أَهْلِيهِمْ - حَتَّى يَكُونَ هَمُّهُمْ

ہو۔طاقتور افراد کے سامنے اکڑ جاتا ہو۔بد خوئی اسے جوش میں نہ لے آئے اور کمزوریاسے بٹھانہ دے ۔

علاقات عامہ :

پھراس کے بعد اپنا رابطہ بلندخاندان ، نیک گھرنے ۔عمدہ روایات والے اور صاحبان ہمت و شجاعت و سخاوت و کرم سے مضبوط رکھو کہ یہ لوگ کرم کا سرمایہ اورنیکیوں کا سرچشمہ ہیں۔ان کے حالات کی اسی طرح دیکھ بھال رکھنا جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کے حالات پرنظر رکھتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرنا جو انہیں قوت بخشتا ہوتواسے عظیم نہ خیال کرلینا اوراگر کوئی معمولی برتائو بھی کیا ہے تو اسے حقیر سمجھ کر روک نہ دینا۔اس لئے کہ اچھا سلوک انہیں اخلاص کی دعوت دے گا اوران میں سن ظن پیدا کرائے گا اورخبردار بڑے بڑے کاموں پر اعتبار کرکے چھوٹی چھوٹی ضروریات کی نگرانی کونظرانداز نہ کردینا کہ معمولی مہربانی کابھی ایک اثر ہے جس سے لوگوں کوفائدہ ہوتا ہے اوربڑے کرم کا بھی ایک مقام ہے جس سے لوگ مستغنی نہیں ہو سکتے ہیں۔

دفاع:

اوردیکھو تمام سرداران لشکرمیں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ افضل اسے ہونا چاہیے جو فوجیوں کی امداد میں ہاتھ بٹاتا ہو اور اپنے اضافی مال سے ان پر اس قدر کرم کرتا ہو کہ ان کے پسماندگان اور متعلقین کے لئے بھی کافی ہو جائے تاکہ سب کا ایک ہی مقصد رہ جائے اور

۵۷۲

هَمّاً وَاحِداً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - فَإِنَّ عَطْفَكَ عَلَيْهِمْ يَعْطِفُ قُلُوبَهُمْ عَلَيْكَ - وإِنَّ أَفْضَلَ قُرَّةِ عَيْنِ الْوُلَاةِ اسْتِقَامَةُ الْعَدْلِ فِي الْبِلَادِ وظُهُورُ مَوَدَّةِ الرَّعِيَّةِ وإِنَّه لَا تَظْهَرُ مَوَدَّتُهُمْ إِلَّا بِسَلَامَةِ صُدُورِهِمْ ولَا تَصِحُّ نَصِيحَتُهُمْ إِلَّا بِحِيطَتِهِمْ عَلَى وُلَاةِ الأُمُورِ - وقِلَّةِ اسْتِثْقَالِ دُوَلِهِمْ – وتَرْكِ اسْتِبْطَاءِ انْقِطَاعِ مُدَّتِهِمْ - فَافْسَحْ فِي آمَالِهِمْ ووَاصِلْ فِي حُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِمْ - وتَعْدِيدِ مَا أَبْلَى ذَوُو الْبَلَاءِ مِنْهُمْ - فَإِنَّ كَثْرَةَ الذِّكْرِ لِحُسْنِ أَفْعَالِهِمْ تَهُزُّ الشُّجَاعَ - وتُحَرِّضُ النَّاكِلَ إِنْ شَاءَ اللَّه.

ثُمَّ اعْرِفْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا أَبْلَى - ولَا تَضُمَّنَّ بَلَاءَ امْرِئٍ إِلَى غَيْرِه - ولَا تُقَصِّرَنَّ بِه دُونَ غَايَةِ بَلَائِه - ولَا يَدْعُوَنَّكَ شَرَفُ امْرِئٍ - إِلَى أَنْ تُعْظِمَ مِنْ بَلَائِه مَا كَانَ صَغِيراً - ولَا ضَعَةُ امْرِئٍ إِلَى أَنْ تَسْتَصْغِرَ مِنْ بَلَائِه مَا كَانَ عَظِيماً.

وارْدُدْ إِلَى اللَّه ورَسُولِه مَا يُضْلِعُكَ مِنَ الْخُطُوبِ - ويَشْتَبِه عَلَيْكَ مِنَ الأُمُورِ - فَقَدْ قَالَ اللَّه تَعَالَى لِقَوْمٍ أَحَبَّ إِرْشَادَهُمْ -( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله وأَطِيعُوا الرَّسُولَ - وأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ

وہ ہے دشمن سے جہاد۔اس لئے کہ ان سے تمہاری مہربانی ان کے دلوں کو تمہاری طرف موڑ دے گی۔اور والیوں کے حق میں بہترین خنکی چشم کا سامان یہ ہے کہ ملک بھر میں عدل و انصاف قائم ہو جائے اور رعایا میں محبت و الفت ظاہر ہو جائے اور یہکام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سینے سلامت نہ ہوں اور ان کی خیر خواہی مکمل نہیں ہو سکتی ہے جب تک اپنے حاکموں کے گرد گھیرا ڈال کر ان کی حفاظت نہ کریں اور پھر ان کے اقتدار کو سرکا بوجھ نہ سمجھیں اور ان کی حکومت کے خاتمہ کا انتظار نہ کریں لہٰذا ان کی امیدوں میں وسعت دینا اوربرابر کارناموں کی تعریف کرتے رہنا بلکہ عظیم لوگوں کے کارناموں کو شمار کرتے رہنا کہ ایسے تذکروں کی کثرت بہادروں کو جوش دلاتی ہے اور پیچھے ہٹ جانے والوں کو ابھار دیا کرتی ہے۔انشاء اللہ ۔

اس کے بعد ہر شخص کے کارنامہ کو پہچانتے رہنا اور کسی کے کارنامہ کو دوسرے کے نامہ اعمال میں نہ درج کردینا اوران کا مکمل بدلہ دینے میں کوتاہی نہ کرنا اور کسی شخص کی سماجی حیثیت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے معمولی کام کو بڑا قراردے دویا کسی چھوٹے آدمی کے بڑے کارنامہ کو معمولی بنادو۔

جو امور مشکل دکھائی دیں اورتمہارے لئے مشتبہ ہو جائیں۔انہیں اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو۔کہ پروردگار نے جس قوم کو ہدایت دینا چاہی ہے اس سے فرمایا ہے کہ ''ایمان والو! اللہ ' رسول اورصاحبان امر کی

۵۷۳

فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَالرَّدُّ إِلَى اللَّه الأَخْذُ بِمُحْكَمِ كِتَابِه - والرَّدُّ إِلَى الرَّسُولِ الأَخْذُ بِسُنَّتِه الْجَامِعَةِ غَيْرِ الْمُفَرِّقَةِ.

ثُمَّ اخْتَرْ لِلْحُكْمِ بَيْنَ النَّاسِ أَفْضَلَ رَعِيَّتِكَ فِي نَفْسِكَ - مِمَّنْ لَا تَضِيقُ بِه الأُمُورُ ولَا تُمَحِّكُه الْخُصُومُ - ولَا يَتَمَادَى فِي الزَّلَّةِ - ولَا يَحْصَرُ مِنَ الْفَيْءِ إِلَى الْحَقِّ إِذَا عَرَفَه - ولَا تُشْرِفُ نَفْسُه عَلَى طَمَعٍ - ولَا يَكْتَفِي بِأَدْنَى فَهْمٍ دُونَ أَقْصَاه وأَوْقَفَهُمْ فِي الشُّبُهَاتِ وآخَذَهُمْ بِالْحُجَجِ - وأَقَلَّهُمْ تَبَرُّماً بِمُرَاجَعَةِ الْخَصْمِ - وأَصْبَرَهُمْ عَلَى تَكَشُّفِ الأُمُورِ - وأَصْرَمَهُمْ عِنْدَ اتِّضَاحِ الْحُكْمِ -

اطاعت کرو۔اس کے بعد کسی شے میں تمہارا اختلاف ہو جا ئے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو ''تو اللہ کی طرف پلٹانے کا مطلب اس کی کتاب محکم کی طرف پلٹا نا ہے۔

قضاوت:

اس کے بعد لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب(۱) کرنا جو رعایا میںتمہارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میںتنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کرنے والوں پر غصہ کرتے ہوں۔نہ غلطی پر اڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کرآنے میں تکلف کرتے ہوں اورنہ ان کا نفس لالچ کی طرف جھکتا ہو اورنہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔شبہات میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔فریقین کی بحثوں سیاکتا نہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے

(۱)اس مقام پر قاضیوں کے حسب ذیل صفات کاتذکرہ کیا گیا ہے :

۱۔خود حاکم کی نگاہ میں قضاوت کرنے کے قابل ہو ۔۲۔تمام رعایا سے افضلیت کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ہو ۔۳۔ مسائل میں الجھ نہ جاتا ہو بلکہ بلکہ صاحب نظر و استباط ہو ۔۴۔فریقین کے جھگڑوں پر غصہ نہ کرتا ہو ۔۵۔غلطی ہو جائے تو اس پر اکڑتا نہ ہو۔۶۔لالچی نہ ہو۔۷۔معاملات کی مکمل تحقیق کرتا ہو اورکاہلی کا شکار نہ ہو ۔۸۔ شبہات کے موقع پر جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو بلکہ دیگر مقررہ قوانین کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہو ۔۹۔دلائل کوقبول کرنے والا ہو ۔۱۰۔فریقین کی طرف مراجعہ کرنے سے اکتاتا نہ ہو بلکہ پوری بحث سننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔۱۱۔تحقیقات میںبے پناہ قوت صبروتحمل کا مالک ہو۔۱۲۔بات واضح ہو جائے تو قطعی فیصلہ کرنے میں تکلف نہ کرتا ہو ۔۱۳۔تعریف سے مغرور نہ ہوتا ہو۔۱۴۔ لوگوں کے ابھارنے سے کسی کی طرف جھکائو نہ پیدا کرتا ہو۔

۵۷۴

مِمَّنْ لَا يَزْدَهِيه إِطْرَاءٌ ولَا يَسْتَمِيلُه إِغْرَاءٌ - وأُولَئِكَ قَلِيلٌ - ثُمَّ أَكْثِرْ تَعَاهُدَ قَضَائِه - وافْسَحْ لَه فِي الْبَذْلِ مَا يُزِيلُ عِلَّتَه - وتَقِلُّ مَعَه حَاجَتُه إِلَى النَّاسِ - وأَعْطِه مِنَ الْمَنْزِلَةِ لَدَيْكَ مَا لَا يَطْمَعُ فِيه غَيْرُه مِنْ خَاصَّتِكَ - لِيَأْمَنَ بِذَلِكَ اغْتِيَالَ الرِّجَالِ لَه عِنْدَكَ - فَانْظُرْ فِي ذَلِكَ نَظَراً بَلِيغاً - فَإِنَّ هَذَا الدِّينَ قَدْ كَانَ أَسِيراً فِي أَيْدِي الأَشْرَارِ - يُعْمَلُ فِيه بِالْهَوَى وتُطْلَبُ بِه الدُّنْيَا.

ثُمَّ انْظُرْ فِي أُمُورِ عُمَّالِكَ فَاسْتَعْمِلْهُمُ اخْتِبَاراً - ولَا تُوَلِّهِمْ مُحَابَاةً وأَثَرَةً - فَإِنَّهُمَا جِمَاعٌ مِنْ شُعَبِ الْجَوْرِ والْخِيَانَةِ - وتَوَخَّ مِنْهُمْ أَهْلَ التَّجْرِبَةِ والْحَيَاءِ - مِنْ أَهْلِ الْبُيُوتَاتِ الصَّالِحَةِ والْقَدَمِ فِي الإِسْلَامِ الْمُتَقَدِّمَةِ - فَإِنَّهُمْ أَكْرَمُ أَخْلَاقاً وأَصَحُّ أَعْرَاضاً - وأَقَلُّ فِي الْمَطَامِعِ إِشْرَاقاً - وأَبْلَغُ فِي عَوَاقِبِ الأُمُورِ نَظَراً - ثُمَّ أَسْبِغْ عَلَيْهِمُ الأَرْزَاقَ - فَإِنَّ ذَلِكَ قُوَّةٌ لَهُمْ عَلَى اسْتِصْلَاحِ أَنْفُسِهِمْ -

فیصلہ کر دیتے ہوں۔نہ کسی کی تعریف سے مغرور ہوتے ہوں اور نہ کسی کے ابھارنے پر اونچے ہو جاتے ہوں۔ایسے افراد یقینا کم ہیں۔لیکن ہیں ۔

پھر اس کے بعد تم خودبھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کر دینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں کے محتاج نہ رہ جائیںانہیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اورمقام عطا کرنا جس کی تمہارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہنچانے سے محفوظ ہو جائیںگے۔مگراس معاملہ پر بھی گہری نگاہ رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرار کے ہاتھوں می قیدی رہ چکا ہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہوتا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔

عمال:

اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پربھی نگاہ رکھنا اور انہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبر دار تعلقات یا جانبداری کی بنا پر عہدہ نہ دے دینا کہ یہ باتیں ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہیں۔اور دیکھوان میں بھی جو مخلص اورغیرت مند ہوں ان کو تلاش کرنا جواچھے گھرانے کے افراد ہوں اور ان کے اسلام میں سابق خدمات رہ چکے ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں۔ان ے اندر فضول خرچی کی لالچ کم ہوتی ہے اور یہ انجام کار پر زیادہ نر رکھتے ہیں۔اس کے بعدان کے بھی تمام اخراجات کا انتظام کردینا کہ اس سے انہیں اپنے نفس کی اصلاح کا بھی موقع ملتا ے اوردوسروں

۵۷۵

وغِنًى لَهُمْ عَنْ تَنَاوُلِ مَا تَحْتَ أَيْدِيهِمْ - وحُجَّةٌ عَلَيْهِمْ إِنْ خَالَفُوا أَمْرَكَ أَوْ ثَلَمُوا أَمَانَتَكَ - ثُمَّ تَفَقَّدْ أَعْمَالَهُمْ - وابْعَثِ الْعُيُونَ مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ والْوَفَاءِ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّ تَعَاهُدَكَ فِي السِّرِّ لأُمُورِهِمْ - حَدْوَةٌ لَهُمْ عَلَى اسْتِعْمَالِ الأَمَانَةِ والرِّفْقِ بِالرَّعِيَّةِ - وتَحَفَّظْ مِنَ الأَعْوَانِ - فَإِنْ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَسَطَ يَدَه إِلَى خِيَانَةٍ - اجْتَمَعَتْ بِهَا عَلَيْه عِنْدَكَ أَخْبَارُ عُيُونِكَ - اكْتَفَيْتَ بِذَلِكَ شَاهِداً - فَبَسَطْتَ عَلَيْه الْعُقُوبَةَ فِي بَدَنِه - وأَخَذْتَه بِمَا أَصَابَ مِنْ عَمَلِه - ثُمَّ نَصَبْتَه بِمَقَامِ الْمَذَلَّةِ ووَسَمْتَه بِالْخِيَانَةِ - وقَلَّدْتَه عَارَ التُّهَمَةِ.

وتَفَقَّدْ أَمْرَ الْخَرَاجِ بِمَا يُصْلِحُ أَهْلَه - فَإِنَّ فِي صَلَاحِه وصَلَاحِهِمْ صَلَاحاً لِمَنْ سِوَاهُمْ - ولَا صَلَاحَ لِمَنْ سِوَاهُمْ إِلَّا بِهِمْ - لأَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ عِيَالٌ عَلَى الْخَرَاجِ وأَهْلِه - ولْيَكُنْ نَظَرُكَ

کے اموال پر قبضہ کرنے سے بھی بے نیاز ہو جاتے ہیں اور پھر تمہارے امر کی مخالفت کریں یا امانت میں رخنہ پیدا کریں تو ان پر حجت بھی تمام ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد ان عمال کے اعمال کی بھی تفتیش کرتے رہنا اور نہایت معتبر قسم کے اہل صدق و صفا کو ان پر جاسوسی کے لئے مقرر کر دینا کہ یہ طرز عمل انہیں امانت داری کے استعمال پر اور رعایا کے ساتھ نرمی کے برتائو پرآمادہ کرے گا۔اوردیکھو اپنے مدد گاروں سے بھی اپنے کوبچا کر رکھنا کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمہارے جاسوس متفقہ طورپر یہ خبر دیں تو اس شبہات کو کافی سمجھ لینا اور اسے جسمانی اعتبار سے بھی سزا دینا اور جو مال حاصل کیا ہے اسے چھین بھی لینا اور سماج میں ذلت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی حیثیت سے روشناس کرانا اور ننگ و رسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔

خراج:

خراج اور مال گذاری کے بارے میں وہ طریقہ اختیار کرنا جو مال گذاروں کے حق میں زیادہ مناسب ہو کہ خراج اور اہل خراج کے صلاح ہی میں سارے معاشرہ کی صلاح ہے اور کسی کے حالات کی اصلاح خراج کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے ' لوگ سب کے سب اسی خراج کے بھروسے زندگی گذارتے ہیں۔خراج میں تمہاری نظر

۵۷۶

فِي عِمَارَةِ الأَرْضِ - أَبْلَغَ مِنْ نَظَرِكَ فِي اسْتِجْلَابِ الْخَرَاجِ - لأَنَّ ذَلِكَ لَا يُدْرَكُ إِلَّا بِالْعِمَارَةِ - ومَنْ طَلَبَ الْخَرَاجَ بِغَيْرِ عِمَارَةٍ أَخْرَبَ الْبِلَادَ - وأَهْلَكَ الْعِبَادَ ولَمْ يَسْتَقِمْ أَمْرُه إِلَّا قَلِيلًا - فَإِنْ شَكَوْا ثِقَلًا أَوْ عِلَّةً أَوِ انْقِطَاعَ شِرْبٍ أَوْ بَالَّةٍ - أَوْ إِحَالَةَ أَرْضٍ اغْتَمَرَهَا غَرَقٌ - أَوْ أَجْحَفَ بِهَا عَطَشٌ - خَفَّفْتَ عَنْهُمْ بِمَا تَرْجُو أَنْ يَصْلُحَ بِه أَمْرُهُمْ - ولَا يَثْقُلَنَّ عَلَيْكَ شَيْءٌ خَفَّفْتَ بِه الْمَئُونَةَ عَنْهُمْ - فَإِنَّه ذُخْرٌ يَعُودُونَ بِه عَلَيْكَ فِي عِمَارَةِ بِلَادِكَ - وتَزْيِينِ وِلَايَتِكَ مَعَ اسْتِجْلَابِكَ حُسْنَ ثَنَائِهِمْ - وتَبَجُّحِكَ بِاسْتِفَاضَةِ الْعَدْلِ فِيهِمْ - مُعْتَمِداً فَضْلَ قُوَّتِهِمْ - بِمَا ذَخَرْتَ عِنْدَهُمْ مِنْ إِجْمَامِكَ لَهُمْ - والثِّقَةَ مِنْهُمْ بِمَا عَوَّدْتَهُمْ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ ورِفْقِكَ بِهِمْ -

مال جمع کرنے سے زیادہ زمین کی آباد کاری(۱) پر ہونی چاہیے کہ مال کی جمع آوری زمین کی آبادکاری کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جس نے آباد کاری کے بغیر مال گدازی کا مطالبہ کیا اسنے شہروں کو برباد کردیا اور بندوں کو تباہ کردیا اور اس کی حکومت چند دنوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی ہے ۔ اس کے بعد اگر لوگ گرانباری۔آفت ناگہانی۔نہروں کی خشکی ' بارش کی کمی۔زمین کی غرقابی کی بناپ ر تباہی اورخشکی کی بنا پر بربادی کی کوئی فریاد کریں تو ان کے خراج میں اس قدرتخفیف کردینا کہ ان کے امور کی اصلاح ہو سکے اور خبر دار تخفیف تمہارے نفس پر گراں نہ گذ رے اس لئے کہ یہ تخفیف اور سہولت ایک ذخیرہ ہے جس کا اثر شہروں کی آبادی اور حکام کی زیب و زینت کی شکل میں تمہاری ہی طرف واپس آئے گا اور اس کے علاوہ تمہیں بہترین تعریف بھی حاصل ہوگی اورعدل و انصاف کے پھیل جانے سے مسرت بھی حاصل ہوگی' پھر ان کی راحت و رفاہیت اور عدل و انصاف ' نرمی و سہولت کی بنا پر جواعتماد حاصل کیا ہے اس سے ایک اضافی طاقت بھی حاصل ہوگی جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے۔اس لئے کہ بسا اوقات

(۱) یہ اسلامی نظام کا نقطہ امتیاز ہے کہ اس نے زمینوں پر ٹیکس ضرور رکھا ہے کہ پیداوار میں اگر ایک حصہ مالک زمین کی محنت اورآباد کاری کا ہے تو ایک حصہ مالک کائنات کے کرم کا بھی ہے جسنے زمین میں پیداوار کی صلاحیت ودیعت کی ہے اور وہ پوری کائنات کا مالک ہے وہ اپنے حصہ کو پورے سماج پرتقسیم کرنا چاہتا ہے اوراسے نظام کی تکمیل کا بنیادی عنصر قرار دینا چاہتا ہے۔لیکن اس ٹیکس کو حاکم کی صوابدید اور اس کی خواہش پر نہیں رکھا ہے جو دنیا کے تمام ظالم اورعیاش حکام کا طریقہ کار ہے۔بلکہ اسے زمین کے حالات سے وابستہ کردیا ہے تاکہ ٹیکس اور پیداوار میں رابطہ رہے اور مالکان زمین کے دلوں میں حاکم سے ہمدردی پیدا ہو۔پرسکون حالات میں جی لگا کر کاشت کریں اور حادثاتی مواقع پر مملکت کے کام آسکیں۔ورنہ اگر عوام میں بددلی اوربد ظنی پیداہوگئی تو نظام اور سماج کو بربادی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔

۵۷۷

فَرُبَّمَا حَدَثَ مِنَ الأُمُورِ - مَا إِذَا عَوَّلْتَ فِيه عَلَيْهِمْ مِنْ بَعْدُ احْتَمَلُوه - طَيِّبَةً أَنْفُسُهُمْ بِه - فَإِنَّ الْعُمْرَانَ مُحْتَمِلٌ مَا حَمَّلْتَه - وإِنَّمَا يُؤْتَى خَرَابُ الأَرْضِ مِنْ إِعْوَازِ أَهْلِهَا وإِنَّمَا يُعْوِزُ أَهْلُهَا لإِشْرَافِ أَنْفُسِ الْوُلَاةِ عَلَى الْجَمْعِ وسُوءِ ظَنِّهِمْ بِالْبَقَاءِ وقِلَّةِ انْتِفَاعِهِمْ بِالْعِبَرِ.

ثُمَّ انْظُرْ فِي حَالِ كُتَّابِكَ - فَوَلِّ عَلَى أُمُورِكَ خَيْرَهُمْ - واخْصُصْ رَسَائِلَكَ الَّتِي تُدْخِلُ فِيهَا مَكَايِدَكَ وأَسْرَارَكَ - بِأَجْمَعِهِمْ لِوُجُوه صَالِحِ الأَخْلَاقِ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه الْكَرَامَةُ - فَيَجْتَرِئَ بِهَا عَلَيْكَ فِي خِلَافٍ لَكَ بِحَضْرَةِ مَلإٍ - ولَا تَقْصُرُ بِه الْغَفْلَةُ عَنْ إِيرَادِ مُكَاتَبَاتِ عُمِّالِكَ عَلَيْكَ - وإِصْدَارِ جَوَابَاتِهَا عَلَى الصَّوَابِ عَنْكَ - فِيمَا يَأْخُذُ لَكَ ويُعْطِي مِنْكَ - ولَا يُضْعِفُ عَقْداً اعْتَقَدَه لَكَ ولَا يَعْجِزُ عَنْ إِطْلَاقِ مَا عُقِدَ عَلَيْكَ - ولَا يَجْهَلُ مَبْلَغَ قَدْرِ نَفْسِه فِي الأُمُورِ - فَإِنَّ الْجَاهِلَ بِقَدْرِ نَفْسِه يَكُونُ بِقَدْرِ غَيْرِه أَجْهَلَ - ثُمَّ لَا يَكُنِ اخْتِيَارُكَ

ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ جن میں اعتماد و حسن ظن کے بعد ان پر اعتماد کرو تو نہایت خوشی سے مصیبت کوبرداشت کر لیتے ہیں اور اس کا سبب زمینوں کی آباد کاری ہی ہوتا ہے۔زمینوں کی بربادی اہل زمین کی تنگدستی سے پیدا ہوتی ہے اورتنگدستی کا سبب حکام کے نفس کا جمعآوری کی طرف رجحان ہوتا ہے اور ان کی یہ بد ظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے اور وہدوسرے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں۔

کاتب:

اس کے بعد اپنے منشیوں کے حالات پر نظر رکھنا اور اپنے امور کو بہترین افراد کے حوالے کرنا اور پھروہ خطوط جن میں رموز سلطنت اوراسرارمملکت ہوںان افراد کے حوالے کرنا جو بہترین اخلاق و کردارکے مالک ہوں اور عزت پاکر اکڑ نہ جاتے ہوں کہ ایک دن لوگوں کے سامنے تمہاری مخالفت کی جرأت پیداکرلیں اور غفلت کی بناپ ر لین دین کے معاملات میں تمہارے عمال کے خطوط کے پیش کرنے اور ان کے جوابات دینے میں کوتاہی سے کام لینے لگیں اور تمہارے لئے جو عہدوپیمان باندھیں اسے کمزور کردیں اورتمہارے خلاف ساز باز کے توڑنے میں عاجزی کا مظاہرہ کرنے لگیں۔دیکھو یہ لوگ معاملات میں اپنے صحیح مقام سے نا واقف نہ ہوں کہ اپنی قدرو منزلت کا نہ پہچاننے والا دوسرے کے مقام و مرتبہ سے یقینا زیادہ ناواقف ہوگا۔

اس کے بعدان کاتقرر بھی صرف ذاتی

۵۷۸

إِيَّاهُمْ عَلَى فِرَاسَتِكَ - واسْتِنَامَتِكَ وحُسْنِ الظَّنِّ مِنْكَ - فَإِنَّ الرِّجَالَ يَتَعَرَّضُونَ لِفِرَاسَاتِ الْوُلَاةِ - بِتَصَنُّعِهِمْ وحُسْنِ خِدْمَتِهِمْ - ولَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ النَّصِيحَةِ والأَمَانَةِ شَيْءٌ - ولَكِنِ اخْتَبِرْهُمْ بِمَا وُلُّوا لِلصَّالِحِينَ قَبْلَكَ - فَاعْمِدْ لأَحْسَنِهِمْ كَانَ فِي الْعَامَّةِ أَثَراً - وأَعْرَفِهِمْ بِالأَمَانَةِ وَجْهاً - فَإِنَّ ذَلِكَ دَلِيلٌ عَلَى نَصِيحَتِكَ لِلَّه ولِمَنْ وُلِّيتَ أَمْرَه - واجْعَلْ لِرَأْسِ كُلِّ أَمْرٍ مِنْ أُمُورِكَ رَأْساً مِنْهُمْ - لَا يَقْهَرُه كَبِيرُهَا ولَا يَتَشَتَّتُ عَلَيْه كَثِيرُهَا - ومَهْمَا كَانَ فِي كُتَّابِكَ مِنْ عَيْبٍ فَتَغَابَيْتَ عَنْه أُلْزِمْتَه.

ثُمَّ اسْتَوْصِ بِالتُّجَّارِ وذَوِي الصِّنَاعَاتِ وأَوْصِ بِهِمْ خَيْراً - الْمُقِيمِ مِنْهُمْ والْمُضْطَرِبِ بِمَالِه والْمُتَرَفِّقِ بِبَدَنِه - فَإِنَّهُمْ مَوَادُّ الْمَنَافِعِ وأَسْبَابُ الْمَرَافِقِ

ہوشیاری ' خوش اعتمادی اور حسن ظن کی بنا پرنہ کرنا کہ اکثر لوگ حکام کے سامنے بناوٹی کردار اور بہترین خدمات کے ذریعہ اپنے کو بہترین بنا کر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ اس کے پس پشت نہ کوئی اخلاص ہوتا ہے اور نہ امانتداری پہلے ان کا امتحان لینا کہ تم سے پہلے والے نیک کردار حکام کے ساتھ ان کا برتائو کیا رہا ہے پھر جو عوام میں اچھے اثرات رکھتے ہوں اور امانتداری کی بنیاد پر پہچانے جاتے ہوں انہیں کا تقرر کردینا کہ یہ اسامر کی دلیل ہوگا کہ تم اپنے پروردگار کے بندۂ مخلصاوراپنے امام کے وفادار ہو۔اپنے جملہ شعبوں کے(۱) لئے ایک ایک افسر مقرر کردینا جو بڑے سے بڑے کام سے مقہور نہ ہوتا ہو اور کاموں کی زیادتی پر پراگندہ حواس نہ ہو جاتا ہو۔اور یہ یاد رکھنا کہ ان منشیوں میں جو بھی عیب ہوگا اور تم اس سے چشم پوشی کرو گے اس کا مواخذہ تمہیں سے کیا جائے گا۔

اس کے بعد تاجروں اور صنعت کاروں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور دوسروں کو ان کے ساتھ نیک برتائو کی نصیحت کرو چاہے وہ ایک مقام پر کام کرنے والے ہوں یا جا بجا گردش کرنے والے ہوں اورجسمانی محنت سے روزی کمانے والے ہوں۔اس لئے کہ یہی افراد منافع کا مرکز اور ضرورت زندگی کے مہیا

(۱)بعض شارحین کی نظرمیں اس حصہ کا تعلق صرف کتابت اور انشاء سے نہیں ہے بلکہ ہر شعبہ حیات سے ہے جس کی نگرانی کے لئے ایکذمہ دار کا ہونا ضروری ہے اور جس کا ادراک اہل سیاست کو سیکڑوں سال کے بعد ہوا ہے اورحکیم امت نے چودہ صدی قبل اس نکتہ جہانبانی کی طرف اشارہ کردیا تھا۔

۵۷۹

وجُلَّابُهَا مِنَ الْمَبَاعِدِ والْمَطَارِحِ - فِي بَرِّكَ وبَحْرِكَ وسَهْلِكَ وجَبَلِكَ - وحَيْثُ لَا يَلْتَئِمُ النَّاسُ لِمَوَاضِعِهَا ولَا يَجْتَرِءُونَ عَلَيْهَا فَإِنَّهُمْ سِلْمٌ لَا تُخَافُ بَائِقَتُه - وصُلْحٌ لَا تُخْشَى غَائِلَتُه - وتَفَقَّدْ أُمُورَهُمْ بِحَضْرَتِكَ وفِي حَوَاشِي بِلَادِكَ - واعْلَمْ مَعَ ذَلِكَ أَنَّ فِي كَثِيرٍ مِنْهُمْ ضِيقاً فَاحِشاً - وشُحّاً قَبِيحاً - واحْتِكَاراً لِلْمَنَافِعِ وتَحَكُّماً فِي الْبِيَاعَاتِ وذَلِكَ بَابُ مَضَرَّةٍ لِلْعَامَّةِ عَيْبٌ عَلَى الْوُلَاةِ فَامْنَعْ مِنَ الِاحْتِكَارِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنَعَ مِنْه - ولْيَكُنِ الْبَيْعُ بَيْعاً سَمْحاً بِمَوَازِينِ عَدْلٍ- وأَسْعَارٍ لَا تُجْحِفُ بِالْفَرِيقَيْنِ مِنَ الْبَائِعِ

کرنے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔یہی دور دراز(۱) مقامات بروبحر' کوہ میدان ہر جگہ سے ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اور جہاں تک جانے کی لوگ ہمت نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اورجہاں تک جانے کی لوگ ہمت نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ امن پسند لوگ ہیں جن سے فساد کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اوروہ صلح و آشتی والے ہوتے ہیں جن سے کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔

اپنے سامنے اور دوسرے شہروں میں پھیلے ہوئے ان کے معاملات کی نگرانی کرتے رہنا اور یہ خیال رکھنا کہ ان میں بہت سے لوگوں میں انتہائی تنگ نظری اور بد ترین قسم کی کنجوسی پائی جاتی ہے ۔یہ منافع کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اونچے اونچے دام خود ہی معین کر دیتے ہیں' جس سے عوام کو نقصان ہوتا ہے اور حکام کی بد نامی ہوتی ہے۔لوگوں کوذخیرہ اندوزی سے منع کرو کہ رسول اکرم (ص) نے اس سے منع فرمایا ہے ۔خریدو فروخت میں سہولت ضروری ہے جہاں عادلانہ میزان ہو اور وہ قیامت معین ہو جس سے خریدار یا بیچنے والے کسی فریق پر

(۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تجار اور صنعت کار معاشرہ کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں اور انہیں کے ذریعہ معاشرہ کی ندگی میں استقرار پیدا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولائے کائنات نے ان کے بارے میں خصوصی نصیحت فرمائی ہے اوران کے مفسدین کی اصلاح پر خصوصی زوردیا ہے ۔تاجر میں بعض امتیازی خصوصیات ہوتے ہیں جو دوسری قوموں میں نہیں پائے جاتے ہیں ۔(۱) یہ لوگ فطرتاً صلح پسند ہوتے ہیں کہ فساد اور ہنگامہ میں دکان کے بند ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ (۲) ان کی نگاہ کسی مالک اور اراب پر نہیں ہوتی ہے بلکہ پروردگار سے رزق کے طلب گار ہوتے ہیں (۳) دور درازکے خطر ناک موارد تک سفر کرنے کی بنا پر ان سے تبلیغ مذہب کا کام بھی لیا جا سکتا ہے ' جس کے شواہد آج ساری دنیا میں پائے جا رہے ہیں۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863