نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657229 / ڈاؤنلوڈ: 15931
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

أَحَداً عَنْ حَاجَتِه ولَا تَحْبِسُوه عَنْ طَلِبَتِه - ولَا تَبِيعُنَّ لِلنَّاسِ فِي الْخَرَاجِ كِسْوَةَ شِتَاءٍ ولَا صَيْفٍ - ولَا دَابَّةً يَعْتَمِلُونَ عَلَيْهَا ولَا عَبْداً - ولَا تَضْرِبُنَّ أَحَداً سَوْطاً لِمَكَانِ دِرْهَمٍ - ولَا تَمَسُّنَّ مَالَ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ مُصَلٍّ ولَا مُعَاهَدٍ - إِلَّا أَنْ تَجِدُوا فَرَساً أَوْ سِلَاحاً - يُعْدَى بِه عَلَى أَهْلِ الإِسْلَامِ - فَإِنَّه لَا يَنْبَغِي لِلْمُسْلِمِ أَنْ يَدَعَ ذَلِكَ فِي أَيْدِي أَعْدَاءِ الإِسْلَامِ - فَيَكُونَ شَوْكَةً عَلَيْه - ولَا تَدَّخِرُوا أَنْفُسَكُمْ نَصِيحَةً ولَا الْجُنْدَ حُسْنَ سِيرَةٍ - ولَا الرَّعِيَّةَ مَعُونَةً ولَا دِينَ اللَّه قُوَّةً - وأَبْلُوا فِي سَبِيلِ اللَّه مَا اسْتَوْجَبَ عَلَيْكُمْ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدِ اصْطَنَعَ عِنْدَنَا وعِنْدَكُمْ - أَنْ نَشْكُرَه بِجُهْدِنَا - وأَنْ نَنْصُرَه بِمَا بَلَغَتْ قُوَّتُنَا - ولَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.

(۵۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أمراء البلاد في معنى الصلاة

أَمَّا بَعْدُ فَصَلُّوا بِالنَّاسِ الظُّهْرَ - حَتَّى تَفِيءَ الشَّمْسُ مِنْ مَرْبِضِ الْعَنْزِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْعَصْرَ والشَّمْسُ بَيْضَاءُ حَيَّةٌ فِي عُضْوٍ مِنَ النَّهَارِ - حِينَ يُسَارُ فِيهَا فَرْسَخَانِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْمَغْرِبَ حِينَ

کی ضرورت سے روک نہ دینا اوراس کے مطلوب کی راہمیں رکاوٹ نہ پیدا کرنا اور خراج وصول کرنے کے لئے اس کے سردی یا گرمی کے کپڑے نہ بیچ ڈالنا اور نہاس جانور یا غلام پر قبضہ کرلینا جواس کے کام آتا ہے اور کسی کو پیسہ کی خاطر مارنے نہ لگنا اورکسی مسلمان یا کافر ذمی کے مال کو ہاتھ نہ لگانا مگریہ کہ اس کے پاس کوئی ایسا گھوڑا یا اسلحہ ہوجسے دشمنان اسلام کو دینا چاہتا ہے تو کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ یہاشیاء دشمنان اسلام کے ہاتھوں میں چھوڑدے اور وہ اسلام پر غالب آجائیں۔دیکھو کسی نصیحت کو بچا کر نہ رکھنا۔نہ لشکر کے ساتھ اچھے برتائو میں کمی کرنا اورنہ رعایا کی امداد میں اورنہ دین خداکو قوت پہنچانے میں۔اللہ کی راہ میں اس کے تمام فرائض کوادا کردینا کہ اس نے ہمارے اورتمہارے ساتھ جو احسان کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہمم اس کے لشکر کی کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کے دین کی مدد کریں کہ قوت بھی تو بالآخر خدائے عظیم کا عطیہ ہے۔

(۵۲)

آپ کامکتوب گرامی

(امراء بلاد کے نام۔نماز کے بارے میں )

امابعد!ظہر کی نماز اس وقت تک اداکردینا(۱) جب آفتاب کا سایہ بکریوں کے باڑہ کیدیوار کے برابر ہو جائے اور عصر کی نماز اس وقت پڑھا دیناجب آفتاب روشن اور سفید رہے اوردن میں اتناوقت باقی رہجائے جب مسافر دو فرسخ جا سکتا ہو۔مغرب اس وقت ادا کرنا جب روزاہ دار

۵۶۱

يُفْطِرُ الصَّائِمُ - ويَدْفَعُ الْحَاجُّ إِلَى مِنًى - وصَلُّوا بِهِمُ الْعِشَاءَ حِينَ يَتَوَارَى الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ - وصَلُّوا بِهِمُ الْغَدَاةَ والرَّجُلُ يَعْرِفُ وَجْه صَاحِبِه - وصَلُّوا بِهِمْ صَلَاةَ أَضْعَفِهِمْ ولَا تَكُونُوا فَتَّانِينَ

(۵۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

كتبه للأشتر النخعي - لما ولاه على مصر وأعمالها حين اضطرب أمر أميرها محمد بن أبي بكر، وهو أطول عهد كتبه وأجمعه للمحاسن.

بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

هَذَا مَا أَمَرَ بِه عَبْدُ اللَّه عَلِيٌّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ - مَالِكَ بْنَ الْحَارِثِ الأَشْتَرَ فِي عَهْدِه إِلَيْه - حِينَ وَلَّاه مِصْرَ جِبَايَةَ خَرَاجِهَا وجِهَادَ عَدُوِّهَا - واسْتِصْلَاحَ أَهْلِهَا وعِمَارَةَ بِلَادِهَا.

أَمَرَه بِتَقْوَى اللَّه وإِيْثَارِ طَاعَتِه - واتِّبَاعِ مَا أَمَرَ بِه فِي كِتَابِه مِنْ فَرَائِضِه وسُنَنِه - الَّتِي لَا يَسْعَدُ أَحَدٌ إِلَّا بِاتِّبَاعِهَا -

افطارکرتا ہے اورحاجی عرفات سے کوچ کرتا ہے اور عشاء اس وقت پڑانا جب شفیق چھپ جائے اورایک تہائی رات نہ گزرنے پائے صبح کی نماز اس وقت ادا کرنا جب آدمی اپنے ساتھی کے چہرہ کو پہچان سکے ۔ ان کے ساتھ نماز پڑھو کمزور ترین آدمی کا لحاظ رکھ کر۔اور خبردار ان کے لئے صبر آزما نہ بن جائو۔

(۵۳)

آپ کامکتوب گرامی

(جسے مالک بن اشتر نخعی کے نام تحریر فرمایا ہے۔اس وقت جب انہیں محمد بن ابی بکرکے حالات کے خراب ہو جانے کے بعد مصر اور اس کے اطراف کاعامل مقرر فرمایا ۔اور یہ عہد نامہ حضرت ک تمام سرکاری خطوط سب سے زیادہ مفصل اورمحاسن کلام کا جامع ہے )

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ وہ قرآن ہے جو بندہ ٔ خدا امیرالمومنین علی نے مالک بن اشتر نخعی کے نام لکھا ہے جب انہیں خراج جمع کرنے ' دشمن سے جہاد کرنے ' حالات کی اصلاح کرنے اور شہروں کی آباد کاری کے لئے مصرکاعامل قرار دے کر روانہ کیا سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو ' اس کی اطاعت کواختیار کرو اورجن فرائض و سنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کے اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہوسکتا ہے اورکوئی شخص

۵۶۲

ولَا يَشْقَى إِلَّا مَعَ جُحُودِهَا وإِضَاعَتِهَا - وأَنْ يَنْصُرَ اللَّه سُبْحَانَه بِقَلْبِه ويَدِه ولِسَانِه - فَإِنَّه جَلَّ اسْمُه قَدْ تَكَفَّلَ بِنَصْرِ مَنْ نَصَرَه وإِعْزَازِ مَنْ أَعَزَّه.

وأَمَرَه أَنْ يَكْسِرَ نَفْسَه مِنَ الشَّهَوَاتِ - ويَزَعَهَا عِنْدَ الْجَمَحَاتِ - فَإِنَّ النَّفْسَ أَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ اللَّه.

ثُمَّ اعْلَمْ يَا مَالِكُ - أَنِّي قَدْ وَجَّهْتُكَ إِلَى بِلَادٍ قَدْ جَرَتْ عَلَيْهَا دُوَلٌ قَبْلَكَ - مِنْ عَدْلٍ وجَوْرٍ - وأَنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ مِنْ أُمُورِكَ - فِي مِثْلِ مَا كُنْتَ تَنْظُرُ فِيه مِنْ أُمُورِ الْوُلَاةِ قَبْلَكَ - ويَقُولُونَ فِيكَ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِيهِمْ - وإِنَّمَا يُسْتَدَلُّ عَلَى الصَّالِحِينَ - بِمَا يُجْرِي اللَّه لَهُمْ عَلَى أَلْسُنِ عِبَادِه - فَلْيَكُنْ أَحَبَّ الذَّخَائِرِ إِلَيْكَ ذَخِيرَةُ الْعَمَلِ الصَّالِحِ - فَامْلِكْ هَوَاكَ وشُحَّ بِنَفْسِكَ عَمَّا لَا يَحِلُّ لَكَ - فَإِنَّ الشُّحَّ بِالنَّفْسِ الإِنْصَافُ مِنْهَا فِيمَا أَحَبَّتْ أَوْ كَرِهَتْ وأَشْعِرْ قَلْبَكَ الرَّحْمَةَ لِلرَّعِيَّةِ - والْمَحَبَّةَ لَهُمْ واللُّطْفَ بِهِمْ - ولَا تَكُونَنَّ عَلَيْهِمْ سَبُعاً ضَارِياً تَغْتَنِمُ أَكْلَهُمْ -

ان کے انکاراور بربادی کے بغیر بد بخت نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اپنے دل ہاتھ اور زبان سے دین خدا کی مدد کرتے رہنا کہ خدائے ''عزاسمہ '' نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ اپنے مدد گاروں کی مدد کرے گا اور اپنے دین کی حمایت کرنے والوں کو عزت و شرف عنایت کرے گا۔

دوسراحکم یہ ہے کہ اپنے نفس کے خواہشات کو کچل دواور اس یمنہ زوریوں سے رو کے رہو کہ نفس برائیوں کاحکم دینے والا ہے جب تک پروردگار کا رحم شامل نہ ہوجائے ۔اس کے بعد مالک یہ یاد رکھناکہ میں نے تم کو ایسے علاقہ کی طرف بھیجا ہے جہاں عدل و ظلم کی مختلف حکومتیں گذر چکی ہیں اور لوگ تمہارے معاملات کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جس نظر سے تم ان کے اعمال کو دیکھ رہے تھے اورتمہارے بارے میں وہی کہیں گے جو تم دوسروں کے بارے میں کہہ رہے تھے ۔نیک کردار بندوں کی شناخت اس ذکرخیر سے ہوتی ہے جو ان کے لئے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوتا ہے لہٰذا تمہارامحبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہونا چاہیے۔خواہشات کو روک کررکھو اور جو چیز حلالنہ ہو اس کے بارے میں نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو کہ یہی بخل اس کے حق میں انصاف ہے چاہے اسے اچھا لگے یا برا۔رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعاربنالو اورخبردار ان کے حق میں پھاڑ کھانے والے درندہ کے مثل نہ ہو جانا کہ انہیں کھاجانے ہی کو غنیمت سمجھنے لگو۔کہ مخلوقات

۵۶۳

فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي الدِّينِ - وإِمَّا نَظِيرٌ لَكَ فِي الْخَلْقِ - يَفْرُطُ مِنْهُمُ الزَّلَلُ وتَعْرِضُ لَهُمُ الْعِلَلُ - ويُؤْتَى عَلَى أَيْدِيهِمْ فِي الْعَمْدِ والْخَطَإِ - فَأَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وصَفْحِكَ - مِثْلِ الَّذِي تُحِبُّ وتَرْضَى أَنْ يُعْطِيَكَ اللَّه مِنْ عَفْوِه وصَفْحِه - فَإِنَّكَ فَوْقَهُمْ ووَالِي الأَمْرِ عَلَيْكَ فَوْقَكَ - واللَّه فَوْقَ مَنْ وَلَّاكَ - وقَدِ اسْتَكْفَاكَ أَمْرَهُمْ وابْتَلَاكَ بِهِمْ - ولَا تَنْصِبَنَّ نَفْسَكَ لِحَرْبِ اللَّه فَإِنَّه لَا يَدَ لَكَ بِنِقْمَتِه - ولَا غِنَى بِكَ عَنْ عَفْوِه ورَحْمَتِه - ولَا تَنْدَمَنَّ عَلَى عَفْوٍ ولَا تَبْجَحَنَّ بِعُقُوبَةٍ - ولَا تُسْرِعَنَّ إِلَى بَادِرَةٍ وَجَدْتَ مِنْهَا مَنْدُوحَةً ولَا تَقُولَنَّ إِنِّي مُؤَمَّرٌ آمُرُ فَأُطَاعُ

خدا کی دو قسمیں ہیں بعض تمہارے دینی بھائی ہیں اور(۱) بعض خلقت میں تمہارے جیسے بشر ہیں جن سے لغزشیں بھی ہو جاتی ہیں اور انہیں خطائوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یاد ھوکے سے ان سے بھی ہوجاتی ہیں۔لہٰذا انہیں ویسے ہی معاف کریدنا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمہاری غلطیوں سے درگزر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو اور تمہاراولی امرتم سے بالا تر ہے اور پروردگار تمہارے والی سے بھی بالاتر ہے اور اسنے تم سے ان کے معاملات کی انجام دہی کا مطالبہ کیا ہے اوراسے تمہارے لئے ذریعہ آزمائش بنادیا ہے اورخبردار اپنے نفس کو اللہ کے مقابلہ پرنہ اتاردینا۔کہ تمہارے پاس اس کے عذاب سے بچنے کی طاقت نہیں ہے اورتم اس کے عفو اور رحم سے بے نیازبھی نہیں ہو۔اور خبردار کسی کو معاف کردینے پر نادم نہ ہونا اور کسی کو سزا دے کراکڑ نہ جانا۔غیظ و غضب کے اظہار یں جلدی نہ کرنا اگر اس کے ٹال دینے کی گنجائش پائی جاتی ہو اورخبردار یہ نہ کہنا کہ مجھے حاکم بنایا گیا ہے لہٰذا میری شان یہ ہے کہ میں حکم دوں اور میری اطاعت کی

(۱) یہ اسلامی نظام کا امتیازی نکتہ ہے کہ اس نظام میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیا جاتا ہے بلکہ ہر شخص کو برابر کے حقوق دئیے جاتے ہیں۔مسلمان کا احترام اس کے اسلم کی بنا پر ہوتا ہے اور غیرمسلم کے بارے میں انسانی حقوق کا تحفظ کیاجاتا ہے اور ان حقوق میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حاکم ہر غلطی کامواخذہ نہ کرے بلکہ انہیں انسان سمجھ کر ان کی غلطیوں کو برداشت کرے اور ان کی خطائوں سے در گزر کرے اوریہخیال رکھے کہ مذہب کا ایک مستقل نظام ہے '' رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ''اگر انسان اپنے سے کمزور افراد پر رحم نہیں کرتا ہے تو اسے جبار سماوات و ارض سے توقع نہیں کرنی چاہیے ۔قدرت کا اٹلقانون ہے کہ تم اپنے سے کمزور پر رحم کرو تاکہ پروردگارتم پر رحم کرے اور تمہاری خطائوں کو معاف کردے جس پر تمہاری عاقبت اور رنجش کادارومدار ہے۔

۵۶۴

فَإِنَّ ذَلِكَ إِدْغَالٌ فِي الْقَلْبِ - ومَنْهَكَةٌ لِلدِّينِ وتَقَرُّبٌ مِنَ الْغِيَرِ - وإِذَا أَحْدَثَ لَكَ مَا أَنْتَ فِيه مِنْ سُلْطَانِكَ أُبَّهَةً أَوْ مَخِيلَةً - فَانْظُرْ إِلَى عِظَمِ مُلْكِ اللَّه فَوْقَكَ - وقُدْرَتِه مِنْكَ عَلَى مَا لَا تَقْدِرُ عَلَيْه مِنْ نَفْسِكَ - فَإِنَّ ذَلِكَ يُطَامِنُ إِلَيْكَ مِنْ طِمَاحِكَ - ويَكُفُّ عَنْكَ مِنْ غَرْبِكَ - ويَفِيءُ إِلَيْكَ بِمَا عَزَبَ عَنْكَ مِنْ عَقْلِكَ!

إِيَّاكَ ومُسَامَاةَ اللَّه فِي عَظَمَتِه والتَّشَبُّه بِه فِي جَبَرُوتِه - فَإِنَّ اللَّه يُذِلُّ كُلَّ جَبَّارٍ ويُهِينُ كُلَّ مُخْتَالٍ.

أَنْصِفِ اللَّه وأَنْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِكَ - ومِنْ خَاصَّةِ أَهْلِكَ - ومَنْ لَكَ فِيه هَوًى مِنْ رَعِيَّتِكَ - فَإِنَّكَ إِلَّا تَفْعَلْ تَظْلِمْ - ومَنْ ظَلَمَ عِبَادَ اللَّه كَانَ اللَّه خَصْمَه دُونَ عِبَادِه - ومَنْ خَاصَمَه اللَّه أَدْحَضَ حُجَّتَه،وكَانَ لِلَّه حَرْباً حَتَّى يَنْزِعَ أَوْ يَتُوبَ - ولَيْسَ شَيْءٌ أَدْعَى إِلَى تَغْيِيرِ نِعْمَةِ اللَّه وتَعْجِيلِ نِقْمَتِه - مِنْ إِقَامَةٍ عَلَى ظُلْمٍ - فَإِنَّ اللَّه سَمِيعٌ دَعْوَةَ الْمُضْطَهَدِينَ - وهُوَ لِلظَّالِمِينَ بِالْمِرْصَادِ.

ولْيَكُنْ أَحَبَّ الأُمُورِ إِلَيْكَ

جائے کہ اس طرح دل میں فساد داخل ہو جائے گا اور دین کمزور پڑ جائے گا اور انسان تغیرات زمانہ سے قریب تر ہو جائے گا۔اوراگر کبھی سلطنت و حکومت کو دیکھ کر تمہارے دل میں عظمت و کبریائی اور غرور پیدا ہونے لگے تو پروردگار کے عظیم ترین ملک پرغور کرنا اور یہ دیکھنا کہ وہ تمہارے اوپر تم سے زیادہ قدرت رکھتا ہے کہ اس طرح تمہاری سر کشی دب جائے گی۔تمہاری طغیانی رک جائے گی اور تمہاری گئی ہوئی عقل واپس آجائے گی۔

دیکھوخبر دار اللہ سے اس کی عظمت میں مقابلہ اوراس کے جبروت سے تشابہ کی کوشش نہ کرنا کہوہ ہر جبار کو ذلیل کردیتا ہے اور ہر مغرور کو پست بنا دیتا ہے۔ اپنی ذات ' اپنے اہل و عیال اوررعایا میں جن سے تمہیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اوراپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کرو گے تو ظالم ہو جائو گے اورجواللہ کے بندوں پر ظلم کرے گا اس کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا اورجس کا دشمن پروردگار ہو جائے گا اس کی ہردلیل باطل ہوجائے گی اور وہ پروردگار کامد مقابل شمارکیا جائے گا جب تک اپنے ظلم سے بازنہ آجائے یا تو بہ نہ کرلے۔اللہ کی نعمتوں کی بربادی اور اس کے عذاب میں عجلت کا کوئی سبب ظلم پر قائم رہنے سے بڑا نہیں ہے۔اس لئے کہ وہ مظلومنین کی فریاد کا سننے والا ہے اور ظالموں کے لئے موقع کا انتظار کر رہا ہے۔

تمہارے لئے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو حق

۵۶۵

أَوْسَطُهَا فِي الْحَقِّ - وأَعَمُّهَا فِي الْعَدْلِ وأَجْمَعُهَا لِرِضَى الرَّعِيَّةِ - فَإِنَّ سُخْطَ الْعَامَّةِ يُجْحِفُ بِرِضَى الْخَاصَّةِ - وإِنَّ سُخْطَ الْخَاصَّةِ يُغْتَفَرُ مَعَ رِضَى الْعَامَّةِ - ولَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الرَّعِيَّةِ أَثْقَلَ عَلَى الْوَالِي مَئُونَةً فِي الرَّخَاءِ - وأَقَلَّ مَعُونَةً لَه فِي الْبَلَاءِ - وأَكْرَه لِلإِنْصَافِ وأَسْأَلَ بِالإِلْحَافِ - وأَقَلَّ شُكْراً عِنْدَ الإِعْطَاءِ وأَبْطَأَ عُذْراً عِنْدَ الْمَنْعِ - وأَضْعَفَ صَبْراً عِنْدَ مُلِمَّاتِ الدَّهْرِ - مِنْ أَهْلِ الْخَاصَّةِ - وإِنَّمَا عِمَادُ الدِّينِ وجِمَاعُ الْمُسْلِمِينَ - والْعُدَّةُ لِلأَعْدَاءِ الْعَامَّةُ مِنَ الأُمَّةِ - فَلْيَكُنْ صِغْوُكَ لَهُمْ ومَيْلُكَ مَعَهُمْ.

ولْيَكُنْ أَبْعَدَ رَعِيَّتِكَ مِنْكَ وأَشْنَأَهُمْ عِنْدَكَ - أَطْلَبُهُمْ لِمَعَايِبِ النَّاسِ

کے اعتبار سے بہترین ، انصاف کے اعتبارسے سب کو شامل اور رعایا کی مرضی سے اکثریت(۱) کے لئے پسندیدہ ہوکہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضا مندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی ناراضگی عام افراد کی رضا مندی کے ساتھ قابل معافی ہو جاتی ہے ۔رعایا میں خواص سے زیادہ والی پرخوشحالی میں بوجھ بننے والا اوربلائوں میں کم سے کم مدد کرنے والا۔انصاف کرنا پسند کرنے والا اور اصرار کے ساتھ مطالبہ کرنے والا' عطا کے موقع پرکم سے کم شکریہ اداکرنے والا اور نہ دینے کے موقع پربمشکل عذر قبول کرنے والا۔زمانہ کے مصائب میں کم سے کم صبر کرنے والا۔کوئی نہیں ہوتا ہے

دین کا ستون ۔مسلمان کی اجتماعی طاقت ' دشمنو ں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں لہٰذا تمہارا جھکائو انہیں کی طرف ہونا چاہیے اور تمہارا رجحان انہیں کی طرف ضروری ہے۔رعایا میں سب سے زیادہ دور اور تمہارے نزدیک مبغوض اس شخص کو ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کا تلاش کرنے والا ہے

(۱)دنیاکے ہر سماج میں دو طرح کے افراد پائے جاتے ہیں : خواص اور عوام۔خواص وہ ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی بنیاد پر اپنے لئے امتیازات کے قائل ہوتے ہیں اور ان کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ انہیں قانون میں زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل ہواور ہر موقع پران کی حیثیت کو پیش نظر رکھاجائے۔اگرچہ مصائب اورآفات ک موقع پر ان کا کوئی مصرف نہیں ہوتا ہے اور نہ یہ کسی میدان حیات میں نظر آتے ہیں۔اس کے بر خلاف عوام الناس ہر مصیبت میں سینہ سپر رہتے ہیں۔ہر خدمت کے لئے آمادہ رہتے ہیں اورکم سے کم حقوق کامطالبہ کرتے ہیں۔

مولائے کائنات نے اسی نکتہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ حاکم کا فرض ہے کہ عوام الناس کے مفادات کا تحفظ کرے اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرے کہ یہی دین کا ستون اور اس کی قوت ہیں اور انہیں سے اسلام کی طاقت کا مظاہر ہ ہوتا ہے اس کے بعد خواص ناراض بھی ہوگئے تو ان کی ناراضگی کاکوئی اثر نہیں ہوگا اور امت کے کام چلتے رہیں گے لیکن اس کے بر خلاف اگر عوام الناس ہاتھ سے نکل گئے اور وہ بغاوت پرآمادہ ہوگئے تو پھر اس طوفان کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا ہے اوریہ سیلاب بڑے بڑے تخت و تاج کو اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔

۵۶۶

فَإِنَّ فِي النَّاسِ عُيُوباً الْوَالِي أَحَقُّ مَنْ سَتَرَهَا - فَلَا تَكْشِفَنَّ عَمَّا غَابَ عَنْكَ مِنْهَا - فَإِنَّمَا عَلَيْكَ تَطْهِيرُ مَا ظَهَرَ لَكَ - واللَّه يَحْكُمُ عَلَى مَا غَابَ عَنْكَ - فَاسْتُرِ الْعَوْرَةَ مَا اسْتَطَعْتَ - يَسْتُرِ اللَّه مِنْكَ مَا تُحِبُّ سَتْرَه مِنْ رَعِيَّتِكَ - أَطْلِقْ عَنِ النَّاسِ عُقْدَةَ كُلِّ حِقْدٍ - واقْطَعْ عَنْكَ سَبَبَ كُلِّ وِتْرٍ - وتَغَابَ عَنْ كُلِّ مَا لَا يَضِحُ لَكَ – ولَا تَعْجَلَنَّ إِلَى تَصْدِيقِ سَاعٍ - فَإِنَّ السَّاعِيَ غَاشٌّ وإِنْ تَشَبَّه بِالنَّاصِحِينَ.

ولَا تُدْخِلَنَّ فِي مَشُورَتِكَ بَخِيلًا يَعْدِلُ بِكَ عَنِ الْفَضْلِ - ويَعِدُكَ الْفَقْرَ - ولَا جَبَاناً يُضْعِفُكَ عَنِ الأُمُورِ - ولَا حَرِيصاً يُزَيِّنُ لَكَ الشَّرَه بِالْجَوْرِ - فَإِنَّ الْبُخْلَ والْجُبْنَ والْحِرْصَ غَرَائِزُ شَتَّى - يَجْمَعُهَا سُوءُ الظَّنِّ بِاللَّه.

۔اس لئے کہ لوگوں میں بہر حال کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری والی پر ہے لہٰذا خبر دار جو عیب تمہارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا۔ تمہاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کردینا ہے اورغائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے۔جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگارسے تمنا کرتے ہو۔ لوگوں کی طرف سے کینہ کی ہر گروہ کو کھول دواوردشمنی کی ہر رسی کو کاٹ دو اور جوبات تمہارے لئے واضح نہ ہو اس سے انجان بن جائو اور ہرچغل خور کی تصدیق میں عجلت سے کام نہ لو کہ چغل خور ہمیشہ خیانت کا ر ہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ آئے

(مشاورت)

دیکھو اپنے مشورہ(۱) میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستہ سے ہٹادے گا اورفقرو فاقہ کاخوف دلاتا رہے گا اور اسی طرح بزل سے مشورہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنادے گا۔ اور حریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقہ سے مال جمع کرنے کوبھی تمہارے نگاہوں میں آراستہ کردے گا۔یہ بخل بزدلی اور طمع اگرچہ الگ الگ جذبات و خصائل ہیں لیکن ان سب کا قدر مشترک پروردگار سے سوء ظن ہے جس کے بعد ان خصلتوں کاظہور ہوتا ہے۔

(۱)ان فقرات میں زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں ہدایات کاذکر کیا گیا ہے اور اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ حاکم کو کسی شعبہ حیات سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور کسی محاذ پر بھی کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جو حکومت کو تباہ و برباد کردے اورعوامی مفادات کو نذرتغافل کرکے انہیں ظلم وستم کانشانہ بنادے ۔

۵۶۷

إِنَّ شَرَّ وُزَرَائِكَ مَنْ كَانَ لِلأَشْرَارِ قَبْلَكَ وَزِيراً - ومَنْ شَرِكَهُمْ فِي الآثَامِ فَلَا يَكُونَنَّ لَكَ بِطَانَةً - فَإِنَّهُمْ أَعْوَانُ الأَثَمَةِ وإِخْوَانُ الظَّلَمَةِ - وأَنْتَ وَاجِدٌ مِنْهُمْ خَيْرَ الْخَلَفِ - مِمَّنْ لَه مِثْلُ آرَائِهِمْ ونَفَاذِهِمْ - ولَيْسَ عَلَيْه مِثْلُ آصَارِهِمْ وأَوْزَارِهِمْ وآثَامِهِمْ - مِمَّنْ لَمْ يُعَاوِنْ ظَالِماً عَلَى ظُلْمِه ولَا آثِماً عَلَى إِثْمِه - أُولَئِكَ أَخَفُّ عَلَيْكَ مَئُونَةً وأَحْسَنُ لَكَ مَعُونَةً - وأَحْنَى عَلَيْكَ عَطْفاً وأَقَلُّ لِغَيْرِكَ إِلْفاً - فَاتَّخِذْ أُولَئِكَ خَاصَّةً لِخَلَوَاتِكَ وحَفَلَاتِكَ - ثُمَّ لْيَكُنْ آثَرُهُمْ عِنْدَكَ أَقْوَلَهُمْ بِمُرِّ الْحَقِّ لَكَ - وأَقَلَّهُمْ مُسَاعَدَةً فِيمَا يَكُونُ مِنْكَ مِمَّا كَرِه اللَّه لأَوْلِيَائِه - وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ هَوَاكَ حَيْثُ وَقَعَ

والْصَقْ بِأَهْلِ الْوَرَعِ والصِّدْقِ - ثُمَّ رُضْهُمْ عَلَى أَلَّا يُطْرُوكَ - ولَا

(وزارت)

اوردیکھو تمہارے وزراء میں سب سے زیادہ بدتر وہ ہے جو تم سے پہلے اشرار کا وزیر رہ چکا ہواور ان کے گناہوں میں شریک رہ چکا ہو۔لہٰذا خبردار! ایسے افراد کو اپنے خواص میں شامل نہ کرنا کہ یہ ظالموں کے مدد گار اورخیانت کاروں کے بھائی بند ہیں اور تمہیں ان کے بدلے بہترین افراد مل سکتے ہیں جن کے پاس انہیں کی جیسی عقل اور کار کردگی ہو اور ان کے جیسے گناہوکے بوجھ اورخطائوں کے انبار نہ ہوں۔نہ انہوں نے کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ کسی گناہ گار کا اس کے گناہمیں ساتھ دیا ہو۔یہ وہ لوگ ہیں جن کا بوجھ تمہارے لئے ہلکا ہوگا اوریہ تمہارے بہترین مدد گار ہوں گے اورتمہاری طرف محبت کا جھکائو بھی رکھتے ہوں گے اور اغیار سے انس و الفت بھی نہ رکھتے ہوں گے۔انہیں کو اپنے مخصوص اجتماعات میں اپنامصاحب قرار دینا اور پھر ان میں بھی سب سے زیادہ حیثیت اسے دینا جو حق کے حرف تلخ کو کہنے کی زیادہ ہمت رکھتا ہو اور تمہارے کسی ایسے عمل میں تمہارا ساتھ نہ دے جسے پروردگار اپنے اولیاء کے لئے نا پسند کرتا ہو چاہے وہ تمہاری خواہشات سے کتنی زیادہ میل کیوں نہ کھاتی ہوں۔

(مصاحبت)

اپنا قریبی رابطہ اہل تقویٰ اور اہل صداقت سے رکھنا اور انہیں بھی اس امر کی تربت دینا کہ بلا سبب تمہاری تعریف نہ کریں اور کسی ایسے بے بنیاد

۵۶۸

يَبْجَحُوكَ بِبَاطِلٍ لَمْ تَفْعَلْه - فَإِنَّ كَثْرَةَ الإِطْرَاءِ تُحْدِثُ الزَّهْوَ وتُدْنِي مِنَ الْعِزَّةِ.

ولَا يَكُونَنَّ الْمُحْسِنُ والْمُسِيءُ عِنْدَكَ بِمَنْزِلَةٍ سَوَاءٍ - فَإِنَّ فِي ذَلِكَ تَزْهِيداً لأَهْلِ الإِحْسَانِ فِي الإِحْسَانِ - وتَدْرِيباً لأَهْلِ الإِسَاءَةِ عَلَى الإِسَاءَةِ - وأَلْزِمْ كُلاًّ مِنْهُمْ مَا أَلْزَمَ نَفْسَه واعْلَمْ أَنَّه لَيْسَ شَيْءٌ بِأَدْعَى - إِلَى حُسْنِ ظَنِّ رَاعٍ بِرَعِيَّتِه - مِنْ إِحْسَانِه إِلَيْهِمْ وتَخْفِيفِه الْمَئُونَاتِ عَلَيْهِمْ - وتَرْكِ اسْتِكْرَاهِه إِيَّاهُمْ عَلَى مَا لَيْسَ لَه قِبَلَهُمْ - فَلْيَكُنْ مِنْكَ فِي ذَلِكَ أَمْرٌ - يَجْتَمِعُ لَكَ بِه حُسْنُ الظَّنِّ بِرَعِيَّتِكَ - فَإِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ يَقْطَعُ عَنْكَ نَصَباً طَوِيلًا - وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ حَسُنَ ظَنُّكَ بِه لَمَنْ حَسُنَ بَلَاؤُكَ عِنْدَه

وإِنَّ أَحَقَّ مَنْ سَاءَ ظَنُّكَ بِه لَمَنْ سَاءَ بَلَاؤُكَ عِنْدَه - ولَا تَنْقُضْ سُنَّةً صَالِحَةً عَمِلَ بِهَا صُدُورُ هَذِه الأُمَّةِ - واجْتَمَعَتْ بِهَا الأُلْفَةُ وصَلَحَتْ عَلَيْهَا الرَّعِيَّةُ - ولَا تُحْدِثَنَّ سُنَّةً تَضُرُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاضِي تِلْكَ السُّنَنِ - فَيَكُونَ الأَجْرُ لِمَنْ سَنَّهَا - والْوِزْرُ

عمل کا غرورنہ پیدا کرائیں جو تم نے انجام نہ دیا ہو کہ زیادہ تعریف سے غرور پیدا ہوتا ہے اورغرور انسان کو سر کشی سے قریب تر بنا دیتا ہے ۔

دیکھوخبر دار! نیک کردار اور بد کردار تمہارے نزدیک یکساں نہ ہونے پائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں نیکی سے بد دلی پیدا ہوگی اور بد کردار وں میں بد کرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ہر شخص کے ساتھ ویسا ہی برتائو کرنا جس کے قابل اس نے اپنے کو بنایا ہے اور یاد رکھنا کہ حاکم میں رعایا سے حسن ظن کی اسی قدر توقع کرنی چاہیے جس قدر ان کے ساتھ احسان کیا ہے اور ان کے بوجھ کو ہلکا بنایا ہے اور ان کو کسی ایسے کام پر مجبور نہیں کیا ہے جو ان کے امکان میں نہ ہو۔لہٰذا تمہارا برتائو اس سلسلہ میں ایسا ہی ہونا چاہیے جس سے تم رعایا سے زیادہ سے زیادہ حسن ظن پیدا کر سکو کہ یہ حسن ظن بہت سی اندرونی زحمتوں کو قطع کردیتا ہے اور تمہارے حسن ظن کا بھی سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کے ساتھ تم نے بہترین سلوک کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ بد ظنی کا حقدار وہ ہے جس کا برتائو تمہارے ساتھ خراب رہا ہے۔

دیکھو کسی ایسی نیک سنتکو مت توڑ دینا جس پر اس امت کے بزرگوں نے عمل کیا ہے اور اسی کے ذریعہ سماج میں الفت قائم ہوتی ہے اور رعایا کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے اور کسی ایسی سنت کو رائج نہ کردینا جو گذشتہ سنتوں کے حق میں نقصان دہ ہو کہ اس طرح اجر اس کے لئے ہوگا جس نے سنت کو ایجاد کیا ہے اور گناہ

۵۶۹

عَلَيْكَ بِمَا نَقَضْتَ مِنْهَا.

وأَكْثِرْ مُدَارَسَةَ الْعُلَمَاءِ ومُنَاقَشَةَ الْحُكَمَاءِ - فِي تَثْبِيتِ مَا صَلَحَ عَلَيْه أَمْرُ بِلَادِكَ - وإِقَامَةِ مَا اسْتَقَامَ بِه النَّاسُ قَبْلَكَ.

واعْلَمْ أَنَّ الرَّعِيَّةَ طَبَقَاتٌ - لَا يَصْلُحُ بَعْضُهَا إِلَّا بِبَعْضٍ - ولَا غِنَى بِبَعْضِهَا عَنْ بَعْضٍ - فَمِنْهَا جُنُودُ اللَّه ومِنْهَا كُتَّابُ الْعَامَّةِ والْخَاصَّةِ - ومِنْهَا قُضَاةُ الْعَدْلِ ومِنْهَا عُمَّالُ الإِنْصَافِ والرِّفْقِ - ومِنْهَا أَهْلُ الْجِزْيَةِ والْخَرَاجِ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ ومُسْلِمَةِ النَّاسِ - ومِنْهَا التُّجَّارُ وأَهْلُ الصِّنَاعَاتِ ومِنْهَا الطَّبَقَةُ السُّفْلَى مِنْ ذَوِي الْحَاجَةِ والْمَسْكَنَةِ - وكُلٌّ قَدْ سَمَّى اللَّه لَه سَهْمَه - ووَضَعَ عَلَى حَدِّه فَرِيضَةً فِي كِتَابِه أَوْ سُنَّةِ نَبِيِّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَهْداً - مِنْه عِنْدَنَا مَحْفُوظاً.

فَالْجُنُودُ بِإِذْنِ اللَّه حُصُونُ الرَّعِيَّةِ وزَيْنُ الْوُلَاةِ - وعِزُّ الدِّينِ وسُبُلُ الأَمْنِ - ولَيْسَ تَقُومُ الرَّعِيَّةُ إِلَّا بِهِمْ - ثُمَّ لَا قِوَامَ لِلْجُنُودِ

تمہاری گردن پر ہوگا کہ تم نے اسے توڑ دیا ہے۔

علماء کے ساتھ علمی مباحثہ اورحکما کے ساتھ سنجیدہ بحث جاری رکھنا ان مسائل کے بارے میں جن سے علاقہ کے امور کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ امور قائم رہتے ہیں جن سے گذشتہ افراد کے حالات کی اصلاح ہوئی ہے۔

اوریاد رکھو کہ رعایا کے بہت سے طبقات(۱) ہو تے ہیں جن میں کسی کی اصلاح دوسرے کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے اور کوئی دوسرے سے مستغنی نہیں ہو سکتا ہے۔انہیں میں اللہ کے لشکرکے سپاہی ہیں اور انہیں میں عام اورخاص امور کے کاتب ہیں۔انہیں میں عدالت سے فیصلہ کرنے والے ہیں اور انہیں میں انصاف اور نرمی قائم کرنے والے عمال ہیں۔انہیں میں مسلمان اہل خراج اور کافر اہلذمہ ہیں اور انہیں میں تجارت اورصنعت وحرفت والے افراد ہیں اور پھر انہیں میں فقراء و مساکین کا پست ترین طبقہ بھی شامل ہے اور سب کے لئے پروردگار نے ایک حصہ معین کردیا ہے اور اپنی کتاب کے فرائض یا اپنے پیغمبرکی سنت میں اس کی حدیں قائم کردی ہیں اور یہ وہ عہد ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے ۔

فوجی دستے یہ حکم خدا سے رعایا کے محافظ اور والیوں کی زینت ہیں۔انہیں سے دین کی عزت ہے اور یہی امن وامان کے وسائل ہیں رعایا کے امور کا قیام ان کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور یہ دستے بھی قائم نہیں رہ سکتے

(۱)اس مقام پر امیر المومنین نے سماج کو ۹ حصوں پرتقسیم کیا ہے اور سب کے خصوصیات ' فرائض ، اہمیت اورذمہ ذاریوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ کسی کاکام دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا ہے لہٰذا ہرایک کا فرض ہے کہ دوسرے کی مد کرے تاکہ سماج کی مکمل اصلاح ہو سکے اور معاشرہ چین اور سکون کی زندگی گزار سکے ورنہ اس کے بغیر سماج تباہ برباد ہو جائے گا اور اس کی ذمہ داری تمام طبقات پر یکساں طورپر عائد ہوگی۔

۵۷۰

إِلَّا بِمَا يُخْرِجُ اللَّه لَهُمْ مِنَ الْخَرَاجِ - الَّذِي يَقْوَوْنَ بِه عَلَى جِهَادِ عَدُوِّهِمْ - ويَعْتَمِدُونَ عَلَيْه فِيمَا يُصْلِحُهُمْ - ويَكُونُ مِنْ وَرَاءِ حَاجَتِهِمْ -

ثُمَّ لَا قِوَامَ لِهَذَيْنِ الصِّنْفَيْنِ إِلَّا بِالصِّنْفِ الثَّالِثِ - مِنَ الْقُضَاةِ والْعُمَّالِ والْكُتَّابِ - لِمَا يُحْكِمُونَ مِنَ الْمَعَاقِدِ ويَجْمَعُونَ مِنَ الْمَنَافِعِ - ويُؤْتَمَنُونَ عَلَيْه مِنْ خَوَاصِّ الأُمُورِ وعَوَامِّهَا - ولَا قِوَامَ لَهُمْ جَمِيعاً إِلَّا بِالتُّجَّارِ وذَوِي الصِّنَاعَاتِ - فِيمَا يَجْتَمِعُونَ عَلَيْه مِنْ مَرَافِقِهِمْ - ويُقِيمُونَه مِنْ أَسْوَاقِهِمْ - ويَكْفُونَهُمْ مِنَ التَّرَفُّقِ بِأَيْدِيهِمْ - مَا لَا يَبْلُغُه رِفْقُ غَيْرِهِمْ –

ثُمَّ الطَّبَقَةُ السُّفْلَى مِنْ أَهْلِ الْحَاجَةِ والْمَسْكَنَةِ - الَّذِينَ يَحِقُّ رِفْدُهُمْ ومَعُونَتُهُمْ - وفِي اللَّه لِكُلٍّ سَعَةٌ ولِكُلٍّ عَلَى الْوَالِي حَقٌّ بِقَدْرِ مَا يُصْلِحُه - ولَيْسَ يَخْرُجُ الْوَالِي - مِنْ حَقِيقَةِ مَا أَلْزَمَه اللَّه مِنْ ذَلِكَ - إِلَّا بِالِاهْتِمَامِ والِاسْتِعَانَةِ بِاللَّه - وتَوْطِينِ نَفْسِه عَلَى لُزُومِ الْحَقِّ والصَّبْرِ عَلَيْه فِيمَا خَفَّ عَلَيْه أَوْ ثَقُلَ: فَوَلِّ مِنْ جُنُودِكَ أَنْصَحَهُمْ فِي نَفْسِكَ لِلَّه ولِرَسُولِه ولإِمَامِكَ وأَنْقَاهُمْ جَيْباً وأَفْضَلَهُمْ حِلْماً مِمَّنْ يُبْطِئُ عَنِ الْغَضَبِ ويَسْتَرِيحُ إِلَى الْعُذْرِ - ويَرْأَفُ بِالضُّعَفَاءِ

ہیں جب تک وہ خراج نہ نکال دیاجائے جس کے ذریعہ دشمن سے جہاد کی طاقت فراہم ہوتی ہے اورجس پر حالات کی اصلاح میں اعتماد کیا جاتا ہے اوروہی ان کے حالات کے درست کرنے کاذریعہ ہے ۔

اس کے بعد ان دونوں صنفوں کا قیام قاضیوں ۔ عاملوں اور کاتبوں کے طبقہ کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ سب عہدو پیمان کو مستحکم بناتے ہیں۔منافع کو جمع کرتے ہیں اورمعمولی اورغیرمعمولی معاملات میں ان پر اعتاد کیا جاتا ہے۔اس کے بعد ان سب کا قیام تجاراور صنعت کا روں کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ وہ وسائل حیات کو فراہم کرتے ہیں۔بازاروں کوقائم رکھتے ہیں اور لوگوں کی ضرورت کا سامان ان کی زحمت کے بغیر فراہم کردیتے ہیں۔

اس کے بعد فقراء و مساکین کا پست طبقہ ہے جو اعانت و امداد کا حقدار ہے اور اللہ کے یہاں ہرایک کے لئے سامان حیات مقرر ہے اور ہر ایک کا والی پر اتنی مقدار میں حق ہے جس سے اس کے امر کی اصلاح ہو سکے اوروالی اس فریضہ سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا ہے جب تک ان مسائل کا اہتمام نہ کرے اور اللہ سے مدد طلب نہ کرے اوراپنے نفس کو حقوق کی ادائیگی اور اس راہ کے خفیف وثقیل پر صبر کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے لہٰذا لشکر کا سردار اسے قرار دینا جو اللہ، رسول اور امام کا سب سے زیادہ مخلص ' سب سے زیادہ پاکدامن اور سب سے زیادہ برداشت کرنے والا ہو ۔ غصہ کے موقع پرجلد بازی نہ کرتا ہو۔ عذر کوقبول کرلیتا ہو۔کمزروروں پر مہربانی کرت

۵۷۱

ويَنْبُو عَلَى الأَقْوِيَاءِ - ومِمَّنْ لَا يُثِيرُه الْعُنْفُ ولَا يَقْعُدُ بِه الضَّعْفُ.

ثُمَّ الْصَقْ بِذَوِي الْمُرُوءَاتِ والأَحْسَابِ - وأَهْلِ الْبُيُوتَاتِ الصَّالِحَةِ والسَّوَابِقِ الْحَسَنَةِ - ثُمَّ أَهْلِ النَّجْدَةِ والشَّجَاعَةِ والسَّخَاءِ والسَّمَاحَةِ - فَإِنَّهُمْ جِمَاعٌ مِنَ الْكَرَمِ وشُعَبٌ مِنَ الْعُرْفِ - ثُمَّ تَفَقَّدْ مِنْ أُمُورِهِمْ مَا يَتَفَقَّدُ الْوَالِدَانِ مِنْ وَلَدِهِمَا - ولَا يَتَفَاقَمَنَّ فِي نَفْسِكَ شَيْءٌ قَوَّيْتَهُمْ بِه - ولَا تَحْقِرَنَّ لُطْفاً تَعَاهَدْتَهُمْ بِه وإِنْ قَلَّ - فَإِنَّه دَاعِيَةٌ لَهُمْ إِلَى بَذْلِ النَّصِيحَةِ لَكَ وحُسْنِ الظَّنِّ بِكَ - ولَا تَدَعْ تَفَقُّدَ لَطِيفِ أُمُورِهِمُ اتِّكَالًا عَلَى جَسِيمِهَا - فَإِنَّ لِلْيَسِيرِ مِنْ لُطْفِكَ مَوْضِعاً يَنْتَفِعُونَ بِه - ولِلْجَسِيمِ مَوْقِعاً لَا يَسْتَغْنُونَ عَنْه.

ولْيَكُنْ آثَرُ رُءُوسِ جُنْدِكَ عِنْدَكَ مَنْ وَاسَاهُمْ فِي مَعُونَتِه - وأَفْضَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ جِدَتِه - بِمَا يَسَعُهُمْ ويَسَعُ مَنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ خُلُوفِ أَهْلِيهِمْ - حَتَّى يَكُونَ هَمُّهُمْ

ہو۔طاقتور افراد کے سامنے اکڑ جاتا ہو۔بد خوئی اسے جوش میں نہ لے آئے اور کمزوریاسے بٹھانہ دے ۔

علاقات عامہ :

پھراس کے بعد اپنا رابطہ بلندخاندان ، نیک گھرنے ۔عمدہ روایات والے اور صاحبان ہمت و شجاعت و سخاوت و کرم سے مضبوط رکھو کہ یہ لوگ کرم کا سرمایہ اورنیکیوں کا سرچشمہ ہیں۔ان کے حالات کی اسی طرح دیکھ بھال رکھنا جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کے حالات پرنظر رکھتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرنا جو انہیں قوت بخشتا ہوتواسے عظیم نہ خیال کرلینا اوراگر کوئی معمولی برتائو بھی کیا ہے تو اسے حقیر سمجھ کر روک نہ دینا۔اس لئے کہ اچھا سلوک انہیں اخلاص کی دعوت دے گا اوران میں سن ظن پیدا کرائے گا اورخبردار بڑے بڑے کاموں پر اعتبار کرکے چھوٹی چھوٹی ضروریات کی نگرانی کونظرانداز نہ کردینا کہ معمولی مہربانی کابھی ایک اثر ہے جس سے لوگوں کوفائدہ ہوتا ہے اوربڑے کرم کا بھی ایک مقام ہے جس سے لوگ مستغنی نہیں ہو سکتے ہیں۔

دفاع:

اوردیکھو تمام سرداران لشکرمیں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ افضل اسے ہونا چاہیے جو فوجیوں کی امداد میں ہاتھ بٹاتا ہو اور اپنے اضافی مال سے ان پر اس قدر کرم کرتا ہو کہ ان کے پسماندگان اور متعلقین کے لئے بھی کافی ہو جائے تاکہ سب کا ایک ہی مقصد رہ جائے اور

۵۷۲

هَمّاً وَاحِداً فِي جِهَادِ الْعَدُوِّ - فَإِنَّ عَطْفَكَ عَلَيْهِمْ يَعْطِفُ قُلُوبَهُمْ عَلَيْكَ - وإِنَّ أَفْضَلَ قُرَّةِ عَيْنِ الْوُلَاةِ اسْتِقَامَةُ الْعَدْلِ فِي الْبِلَادِ وظُهُورُ مَوَدَّةِ الرَّعِيَّةِ وإِنَّه لَا تَظْهَرُ مَوَدَّتُهُمْ إِلَّا بِسَلَامَةِ صُدُورِهِمْ ولَا تَصِحُّ نَصِيحَتُهُمْ إِلَّا بِحِيطَتِهِمْ عَلَى وُلَاةِ الأُمُورِ - وقِلَّةِ اسْتِثْقَالِ دُوَلِهِمْ – وتَرْكِ اسْتِبْطَاءِ انْقِطَاعِ مُدَّتِهِمْ - فَافْسَحْ فِي آمَالِهِمْ ووَاصِلْ فِي حُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِمْ - وتَعْدِيدِ مَا أَبْلَى ذَوُو الْبَلَاءِ مِنْهُمْ - فَإِنَّ كَثْرَةَ الذِّكْرِ لِحُسْنِ أَفْعَالِهِمْ تَهُزُّ الشُّجَاعَ - وتُحَرِّضُ النَّاكِلَ إِنْ شَاءَ اللَّه.

ثُمَّ اعْرِفْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا أَبْلَى - ولَا تَضُمَّنَّ بَلَاءَ امْرِئٍ إِلَى غَيْرِه - ولَا تُقَصِّرَنَّ بِه دُونَ غَايَةِ بَلَائِه - ولَا يَدْعُوَنَّكَ شَرَفُ امْرِئٍ - إِلَى أَنْ تُعْظِمَ مِنْ بَلَائِه مَا كَانَ صَغِيراً - ولَا ضَعَةُ امْرِئٍ إِلَى أَنْ تَسْتَصْغِرَ مِنْ بَلَائِه مَا كَانَ عَظِيماً.

وارْدُدْ إِلَى اللَّه ورَسُولِه مَا يُضْلِعُكَ مِنَ الْخُطُوبِ - ويَشْتَبِه عَلَيْكَ مِنَ الأُمُورِ - فَقَدْ قَالَ اللَّه تَعَالَى لِقَوْمٍ أَحَبَّ إِرْشَادَهُمْ -( يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله وأَطِيعُوا الرَّسُولَ - وأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ

وہ ہے دشمن سے جہاد۔اس لئے کہ ان سے تمہاری مہربانی ان کے دلوں کو تمہاری طرف موڑ دے گی۔اور والیوں کے حق میں بہترین خنکی چشم کا سامان یہ ہے کہ ملک بھر میں عدل و انصاف قائم ہو جائے اور رعایا میں محبت و الفت ظاہر ہو جائے اور یہکام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک سینے سلامت نہ ہوں اور ان کی خیر خواہی مکمل نہیں ہو سکتی ہے جب تک اپنے حاکموں کے گرد گھیرا ڈال کر ان کی حفاظت نہ کریں اور پھر ان کے اقتدار کو سرکا بوجھ نہ سمجھیں اور ان کی حکومت کے خاتمہ کا انتظار نہ کریں لہٰذا ان کی امیدوں میں وسعت دینا اوربرابر کارناموں کی تعریف کرتے رہنا بلکہ عظیم لوگوں کے کارناموں کو شمار کرتے رہنا کہ ایسے تذکروں کی کثرت بہادروں کو جوش دلاتی ہے اور پیچھے ہٹ جانے والوں کو ابھار دیا کرتی ہے۔انشاء اللہ ۔

اس کے بعد ہر شخص کے کارنامہ کو پہچانتے رہنا اور کسی کے کارنامہ کو دوسرے کے نامہ اعمال میں نہ درج کردینا اوران کا مکمل بدلہ دینے میں کوتاہی نہ کرنا اور کسی شخص کی سماجی حیثیت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس کے معمولی کام کو بڑا قراردے دویا کسی چھوٹے آدمی کے بڑے کارنامہ کو معمولی بنادو۔

جو امور مشکل دکھائی دیں اورتمہارے لئے مشتبہ ہو جائیں۔انہیں اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو۔کہ پروردگار نے جس قوم کو ہدایت دینا چاہی ہے اس سے فرمایا ہے کہ ''ایمان والو! اللہ ' رسول اورصاحبان امر کی

۵۷۳

فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَالرَّدُّ إِلَى اللَّه الأَخْذُ بِمُحْكَمِ كِتَابِه - والرَّدُّ إِلَى الرَّسُولِ الأَخْذُ بِسُنَّتِه الْجَامِعَةِ غَيْرِ الْمُفَرِّقَةِ.

ثُمَّ اخْتَرْ لِلْحُكْمِ بَيْنَ النَّاسِ أَفْضَلَ رَعِيَّتِكَ فِي نَفْسِكَ - مِمَّنْ لَا تَضِيقُ بِه الأُمُورُ ولَا تُمَحِّكُه الْخُصُومُ - ولَا يَتَمَادَى فِي الزَّلَّةِ - ولَا يَحْصَرُ مِنَ الْفَيْءِ إِلَى الْحَقِّ إِذَا عَرَفَه - ولَا تُشْرِفُ نَفْسُه عَلَى طَمَعٍ - ولَا يَكْتَفِي بِأَدْنَى فَهْمٍ دُونَ أَقْصَاه وأَوْقَفَهُمْ فِي الشُّبُهَاتِ وآخَذَهُمْ بِالْحُجَجِ - وأَقَلَّهُمْ تَبَرُّماً بِمُرَاجَعَةِ الْخَصْمِ - وأَصْبَرَهُمْ عَلَى تَكَشُّفِ الأُمُورِ - وأَصْرَمَهُمْ عِنْدَ اتِّضَاحِ الْحُكْمِ -

اطاعت کرو۔اس کے بعد کسی شے میں تمہارا اختلاف ہو جا ئے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو ''تو اللہ کی طرف پلٹانے کا مطلب اس کی کتاب محکم کی طرف پلٹا نا ہے۔

قضاوت:

اس کے بعد لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب(۱) کرنا جو رعایا میںتمہارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میںتنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کرنے والوں پر غصہ کرتے ہوں۔نہ غلطی پر اڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کرآنے میں تکلف کرتے ہوں اورنہ ان کا نفس لالچ کی طرف جھکتا ہو اورنہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔شبہات میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔فریقین کی بحثوں سیاکتا نہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے

(۱)اس مقام پر قاضیوں کے حسب ذیل صفات کاتذکرہ کیا گیا ہے :

۱۔خود حاکم کی نگاہ میں قضاوت کرنے کے قابل ہو ۔۲۔تمام رعایا سے افضلیت کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ہو ۔۳۔ مسائل میں الجھ نہ جاتا ہو بلکہ بلکہ صاحب نظر و استباط ہو ۔۴۔فریقین کے جھگڑوں پر غصہ نہ کرتا ہو ۔۵۔غلطی ہو جائے تو اس پر اکڑتا نہ ہو۔۶۔لالچی نہ ہو۔۷۔معاملات کی مکمل تحقیق کرتا ہو اورکاہلی کا شکار نہ ہو ۔۸۔ شبہات کے موقع پر جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو بلکہ دیگر مقررہ قوانین کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہو ۔۹۔دلائل کوقبول کرنے والا ہو ۔۱۰۔فریقین کی طرف مراجعہ کرنے سے اکتاتا نہ ہو بلکہ پوری بحث سننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔۱۱۔تحقیقات میںبے پناہ قوت صبروتحمل کا مالک ہو۔۱۲۔بات واضح ہو جائے تو قطعی فیصلہ کرنے میں تکلف نہ کرتا ہو ۔۱۳۔تعریف سے مغرور نہ ہوتا ہو۔۱۴۔ لوگوں کے ابھارنے سے کسی کی طرف جھکائو نہ پیدا کرتا ہو۔

۵۷۴

مِمَّنْ لَا يَزْدَهِيه إِطْرَاءٌ ولَا يَسْتَمِيلُه إِغْرَاءٌ - وأُولَئِكَ قَلِيلٌ - ثُمَّ أَكْثِرْ تَعَاهُدَ قَضَائِه - وافْسَحْ لَه فِي الْبَذْلِ مَا يُزِيلُ عِلَّتَه - وتَقِلُّ مَعَه حَاجَتُه إِلَى النَّاسِ - وأَعْطِه مِنَ الْمَنْزِلَةِ لَدَيْكَ مَا لَا يَطْمَعُ فِيه غَيْرُه مِنْ خَاصَّتِكَ - لِيَأْمَنَ بِذَلِكَ اغْتِيَالَ الرِّجَالِ لَه عِنْدَكَ - فَانْظُرْ فِي ذَلِكَ نَظَراً بَلِيغاً - فَإِنَّ هَذَا الدِّينَ قَدْ كَانَ أَسِيراً فِي أَيْدِي الأَشْرَارِ - يُعْمَلُ فِيه بِالْهَوَى وتُطْلَبُ بِه الدُّنْيَا.

ثُمَّ انْظُرْ فِي أُمُورِ عُمَّالِكَ فَاسْتَعْمِلْهُمُ اخْتِبَاراً - ولَا تُوَلِّهِمْ مُحَابَاةً وأَثَرَةً - فَإِنَّهُمَا جِمَاعٌ مِنْ شُعَبِ الْجَوْرِ والْخِيَانَةِ - وتَوَخَّ مِنْهُمْ أَهْلَ التَّجْرِبَةِ والْحَيَاءِ - مِنْ أَهْلِ الْبُيُوتَاتِ الصَّالِحَةِ والْقَدَمِ فِي الإِسْلَامِ الْمُتَقَدِّمَةِ - فَإِنَّهُمْ أَكْرَمُ أَخْلَاقاً وأَصَحُّ أَعْرَاضاً - وأَقَلُّ فِي الْمَطَامِعِ إِشْرَاقاً - وأَبْلَغُ فِي عَوَاقِبِ الأُمُورِ نَظَراً - ثُمَّ أَسْبِغْ عَلَيْهِمُ الأَرْزَاقَ - فَإِنَّ ذَلِكَ قُوَّةٌ لَهُمْ عَلَى اسْتِصْلَاحِ أَنْفُسِهِمْ -

فیصلہ کر دیتے ہوں۔نہ کسی کی تعریف سے مغرور ہوتے ہوں اور نہ کسی کے ابھارنے پر اونچے ہو جاتے ہوں۔ایسے افراد یقینا کم ہیں۔لیکن ہیں ۔

پھر اس کے بعد تم خودبھی ان کے فیصلوں کی نگرانی کرتے رہنا اور ان کے عطا یا میں اتنی وسعت پیدا کر دینا کہ ان کی ضرورت ختم ہو جائے اور پھر لوگوں کے محتاج نہ رہ جائیںانہیں اپنے پاس ایسا مرتبہ اورمقام عطا کرنا جس کی تمہارے خواص بھی طمع نہ کرتے ہوں کہ اس طرح وہ لوگوں کے ضرر پہنچانے سے محفوظ ہو جائیںگے۔مگراس معاملہ پر بھی گہری نگاہ رکھنا کہ یہ دین بہت دنوں اشرار کے ہاتھوں می قیدی رہ چکا ہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہوتا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔

عمال:

اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پربھی نگاہ رکھنا اور انہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبر دار تعلقات یا جانبداری کی بنا پر عہدہ نہ دے دینا کہ یہ باتیں ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہیں۔اور دیکھوان میں بھی جو مخلص اورغیرت مند ہوں ان کو تلاش کرنا جواچھے گھرانے کے افراد ہوں اور ان کے اسلام میں سابق خدمات رہ چکے ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں۔ان ے اندر فضول خرچی کی لالچ کم ہوتی ہے اور یہ انجام کار پر زیادہ نر رکھتے ہیں۔اس کے بعدان کے بھی تمام اخراجات کا انتظام کردینا کہ اس سے انہیں اپنے نفس کی اصلاح کا بھی موقع ملتا ے اوردوسروں

۵۷۵

وغِنًى لَهُمْ عَنْ تَنَاوُلِ مَا تَحْتَ أَيْدِيهِمْ - وحُجَّةٌ عَلَيْهِمْ إِنْ خَالَفُوا أَمْرَكَ أَوْ ثَلَمُوا أَمَانَتَكَ - ثُمَّ تَفَقَّدْ أَعْمَالَهُمْ - وابْعَثِ الْعُيُونَ مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ والْوَفَاءِ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّ تَعَاهُدَكَ فِي السِّرِّ لأُمُورِهِمْ - حَدْوَةٌ لَهُمْ عَلَى اسْتِعْمَالِ الأَمَانَةِ والرِّفْقِ بِالرَّعِيَّةِ - وتَحَفَّظْ مِنَ الأَعْوَانِ - فَإِنْ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَسَطَ يَدَه إِلَى خِيَانَةٍ - اجْتَمَعَتْ بِهَا عَلَيْه عِنْدَكَ أَخْبَارُ عُيُونِكَ - اكْتَفَيْتَ بِذَلِكَ شَاهِداً - فَبَسَطْتَ عَلَيْه الْعُقُوبَةَ فِي بَدَنِه - وأَخَذْتَه بِمَا أَصَابَ مِنْ عَمَلِه - ثُمَّ نَصَبْتَه بِمَقَامِ الْمَذَلَّةِ ووَسَمْتَه بِالْخِيَانَةِ - وقَلَّدْتَه عَارَ التُّهَمَةِ.

وتَفَقَّدْ أَمْرَ الْخَرَاجِ بِمَا يُصْلِحُ أَهْلَه - فَإِنَّ فِي صَلَاحِه وصَلَاحِهِمْ صَلَاحاً لِمَنْ سِوَاهُمْ - ولَا صَلَاحَ لِمَنْ سِوَاهُمْ إِلَّا بِهِمْ - لأَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ عِيَالٌ عَلَى الْخَرَاجِ وأَهْلِه - ولْيَكُنْ نَظَرُكَ

کے اموال پر قبضہ کرنے سے بھی بے نیاز ہو جاتے ہیں اور پھر تمہارے امر کی مخالفت کریں یا امانت میں رخنہ پیدا کریں تو ان پر حجت بھی تمام ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد ان عمال کے اعمال کی بھی تفتیش کرتے رہنا اور نہایت معتبر قسم کے اہل صدق و صفا کو ان پر جاسوسی کے لئے مقرر کر دینا کہ یہ طرز عمل انہیں امانت داری کے استعمال پر اور رعایا کے ساتھ نرمی کے برتائو پرآمادہ کرے گا۔اوردیکھو اپنے مدد گاروں سے بھی اپنے کوبچا کر رکھنا کہ اگر ان میں کوئی ایک بھی خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمہارے جاسوس متفقہ طورپر یہ خبر دیں تو اس شبہات کو کافی سمجھ لینا اور اسے جسمانی اعتبار سے بھی سزا دینا اور جو مال حاصل کیا ہے اسے چھین بھی لینا اور سماج میں ذلت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی حیثیت سے روشناس کرانا اور ننگ و رسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔

خراج:

خراج اور مال گذاری کے بارے میں وہ طریقہ اختیار کرنا جو مال گذاروں کے حق میں زیادہ مناسب ہو کہ خراج اور اہل خراج کے صلاح ہی میں سارے معاشرہ کی صلاح ہے اور کسی کے حالات کی اصلاح خراج کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے ' لوگ سب کے سب اسی خراج کے بھروسے زندگی گذارتے ہیں۔خراج میں تمہاری نظر

۵۷۶

فِي عِمَارَةِ الأَرْضِ - أَبْلَغَ مِنْ نَظَرِكَ فِي اسْتِجْلَابِ الْخَرَاجِ - لأَنَّ ذَلِكَ لَا يُدْرَكُ إِلَّا بِالْعِمَارَةِ - ومَنْ طَلَبَ الْخَرَاجَ بِغَيْرِ عِمَارَةٍ أَخْرَبَ الْبِلَادَ - وأَهْلَكَ الْعِبَادَ ولَمْ يَسْتَقِمْ أَمْرُه إِلَّا قَلِيلًا - فَإِنْ شَكَوْا ثِقَلًا أَوْ عِلَّةً أَوِ انْقِطَاعَ شِرْبٍ أَوْ بَالَّةٍ - أَوْ إِحَالَةَ أَرْضٍ اغْتَمَرَهَا غَرَقٌ - أَوْ أَجْحَفَ بِهَا عَطَشٌ - خَفَّفْتَ عَنْهُمْ بِمَا تَرْجُو أَنْ يَصْلُحَ بِه أَمْرُهُمْ - ولَا يَثْقُلَنَّ عَلَيْكَ شَيْءٌ خَفَّفْتَ بِه الْمَئُونَةَ عَنْهُمْ - فَإِنَّه ذُخْرٌ يَعُودُونَ بِه عَلَيْكَ فِي عِمَارَةِ بِلَادِكَ - وتَزْيِينِ وِلَايَتِكَ مَعَ اسْتِجْلَابِكَ حُسْنَ ثَنَائِهِمْ - وتَبَجُّحِكَ بِاسْتِفَاضَةِ الْعَدْلِ فِيهِمْ - مُعْتَمِداً فَضْلَ قُوَّتِهِمْ - بِمَا ذَخَرْتَ عِنْدَهُمْ مِنْ إِجْمَامِكَ لَهُمْ - والثِّقَةَ مِنْهُمْ بِمَا عَوَّدْتَهُمْ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ ورِفْقِكَ بِهِمْ -

مال جمع کرنے سے زیادہ زمین کی آباد کاری(۱) پر ہونی چاہیے کہ مال کی جمع آوری زمین کی آبادکاری کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جس نے آباد کاری کے بغیر مال گدازی کا مطالبہ کیا اسنے شہروں کو برباد کردیا اور بندوں کو تباہ کردیا اور اس کی حکومت چند دنوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی ہے ۔ اس کے بعد اگر لوگ گرانباری۔آفت ناگہانی۔نہروں کی خشکی ' بارش کی کمی۔زمین کی غرقابی کی بناپ ر تباہی اورخشکی کی بنا پر بربادی کی کوئی فریاد کریں تو ان کے خراج میں اس قدرتخفیف کردینا کہ ان کے امور کی اصلاح ہو سکے اور خبر دار تخفیف تمہارے نفس پر گراں نہ گذ رے اس لئے کہ یہ تخفیف اور سہولت ایک ذخیرہ ہے جس کا اثر شہروں کی آبادی اور حکام کی زیب و زینت کی شکل میں تمہاری ہی طرف واپس آئے گا اور اس کے علاوہ تمہیں بہترین تعریف بھی حاصل ہوگی اورعدل و انصاف کے پھیل جانے سے مسرت بھی حاصل ہوگی' پھر ان کی راحت و رفاہیت اور عدل و انصاف ' نرمی و سہولت کی بنا پر جواعتماد حاصل کیا ہے اس سے ایک اضافی طاقت بھی حاصل ہوگی جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے۔اس لئے کہ بسا اوقات

(۱) یہ اسلامی نظام کا نقطہ امتیاز ہے کہ اس نے زمینوں پر ٹیکس ضرور رکھا ہے کہ پیداوار میں اگر ایک حصہ مالک زمین کی محنت اورآباد کاری کا ہے تو ایک حصہ مالک کائنات کے کرم کا بھی ہے جسنے زمین میں پیداوار کی صلاحیت ودیعت کی ہے اور وہ پوری کائنات کا مالک ہے وہ اپنے حصہ کو پورے سماج پرتقسیم کرنا چاہتا ہے اوراسے نظام کی تکمیل کا بنیادی عنصر قرار دینا چاہتا ہے۔لیکن اس ٹیکس کو حاکم کی صوابدید اور اس کی خواہش پر نہیں رکھا ہے جو دنیا کے تمام ظالم اورعیاش حکام کا طریقہ کار ہے۔بلکہ اسے زمین کے حالات سے وابستہ کردیا ہے تاکہ ٹیکس اور پیداوار میں رابطہ رہے اور مالکان زمین کے دلوں میں حاکم سے ہمدردی پیدا ہو۔پرسکون حالات میں جی لگا کر کاشت کریں اور حادثاتی مواقع پر مملکت کے کام آسکیں۔ورنہ اگر عوام میں بددلی اوربد ظنی پیداہوگئی تو نظام اور سماج کو بربادی سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔

۵۷۷

فَرُبَّمَا حَدَثَ مِنَ الأُمُورِ - مَا إِذَا عَوَّلْتَ فِيه عَلَيْهِمْ مِنْ بَعْدُ احْتَمَلُوه - طَيِّبَةً أَنْفُسُهُمْ بِه - فَإِنَّ الْعُمْرَانَ مُحْتَمِلٌ مَا حَمَّلْتَه - وإِنَّمَا يُؤْتَى خَرَابُ الأَرْضِ مِنْ إِعْوَازِ أَهْلِهَا وإِنَّمَا يُعْوِزُ أَهْلُهَا لإِشْرَافِ أَنْفُسِ الْوُلَاةِ عَلَى الْجَمْعِ وسُوءِ ظَنِّهِمْ بِالْبَقَاءِ وقِلَّةِ انْتِفَاعِهِمْ بِالْعِبَرِ.

ثُمَّ انْظُرْ فِي حَالِ كُتَّابِكَ - فَوَلِّ عَلَى أُمُورِكَ خَيْرَهُمْ - واخْصُصْ رَسَائِلَكَ الَّتِي تُدْخِلُ فِيهَا مَكَايِدَكَ وأَسْرَارَكَ - بِأَجْمَعِهِمْ لِوُجُوه صَالِحِ الأَخْلَاقِ مِمَّنْ لَا تُبْطِرُه الْكَرَامَةُ - فَيَجْتَرِئَ بِهَا عَلَيْكَ فِي خِلَافٍ لَكَ بِحَضْرَةِ مَلإٍ - ولَا تَقْصُرُ بِه الْغَفْلَةُ عَنْ إِيرَادِ مُكَاتَبَاتِ عُمِّالِكَ عَلَيْكَ - وإِصْدَارِ جَوَابَاتِهَا عَلَى الصَّوَابِ عَنْكَ - فِيمَا يَأْخُذُ لَكَ ويُعْطِي مِنْكَ - ولَا يُضْعِفُ عَقْداً اعْتَقَدَه لَكَ ولَا يَعْجِزُ عَنْ إِطْلَاقِ مَا عُقِدَ عَلَيْكَ - ولَا يَجْهَلُ مَبْلَغَ قَدْرِ نَفْسِه فِي الأُمُورِ - فَإِنَّ الْجَاهِلَ بِقَدْرِ نَفْسِه يَكُونُ بِقَدْرِ غَيْرِه أَجْهَلَ - ثُمَّ لَا يَكُنِ اخْتِيَارُكَ

ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ جن میں اعتماد و حسن ظن کے بعد ان پر اعتماد کرو تو نہایت خوشی سے مصیبت کوبرداشت کر لیتے ہیں اور اس کا سبب زمینوں کی آباد کاری ہی ہوتا ہے۔زمینوں کی بربادی اہل زمین کی تنگدستی سے پیدا ہوتی ہے اورتنگدستی کا سبب حکام کے نفس کا جمعآوری کی طرف رجحان ہوتا ہے اور ان کی یہ بد ظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے اور وہدوسرے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں۔

کاتب:

اس کے بعد اپنے منشیوں کے حالات پر نظر رکھنا اور اپنے امور کو بہترین افراد کے حوالے کرنا اور پھروہ خطوط جن میں رموز سلطنت اوراسرارمملکت ہوںان افراد کے حوالے کرنا جو بہترین اخلاق و کردارکے مالک ہوں اور عزت پاکر اکڑ نہ جاتے ہوں کہ ایک دن لوگوں کے سامنے تمہاری مخالفت کی جرأت پیداکرلیں اور غفلت کی بناپ ر لین دین کے معاملات میں تمہارے عمال کے خطوط کے پیش کرنے اور ان کے جوابات دینے میں کوتاہی سے کام لینے لگیں اور تمہارے لئے جو عہدوپیمان باندھیں اسے کمزور کردیں اورتمہارے خلاف ساز باز کے توڑنے میں عاجزی کا مظاہرہ کرنے لگیں۔دیکھو یہ لوگ معاملات میں اپنے صحیح مقام سے نا واقف نہ ہوں کہ اپنی قدرو منزلت کا نہ پہچاننے والا دوسرے کے مقام و مرتبہ سے یقینا زیادہ ناواقف ہوگا۔

اس کے بعدان کاتقرر بھی صرف ذاتی

۵۷۸

إِيَّاهُمْ عَلَى فِرَاسَتِكَ - واسْتِنَامَتِكَ وحُسْنِ الظَّنِّ مِنْكَ - فَإِنَّ الرِّجَالَ يَتَعَرَّضُونَ لِفِرَاسَاتِ الْوُلَاةِ - بِتَصَنُّعِهِمْ وحُسْنِ خِدْمَتِهِمْ - ولَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ النَّصِيحَةِ والأَمَانَةِ شَيْءٌ - ولَكِنِ اخْتَبِرْهُمْ بِمَا وُلُّوا لِلصَّالِحِينَ قَبْلَكَ - فَاعْمِدْ لأَحْسَنِهِمْ كَانَ فِي الْعَامَّةِ أَثَراً - وأَعْرَفِهِمْ بِالأَمَانَةِ وَجْهاً - فَإِنَّ ذَلِكَ دَلِيلٌ عَلَى نَصِيحَتِكَ لِلَّه ولِمَنْ وُلِّيتَ أَمْرَه - واجْعَلْ لِرَأْسِ كُلِّ أَمْرٍ مِنْ أُمُورِكَ رَأْساً مِنْهُمْ - لَا يَقْهَرُه كَبِيرُهَا ولَا يَتَشَتَّتُ عَلَيْه كَثِيرُهَا - ومَهْمَا كَانَ فِي كُتَّابِكَ مِنْ عَيْبٍ فَتَغَابَيْتَ عَنْه أُلْزِمْتَه.

ثُمَّ اسْتَوْصِ بِالتُّجَّارِ وذَوِي الصِّنَاعَاتِ وأَوْصِ بِهِمْ خَيْراً - الْمُقِيمِ مِنْهُمْ والْمُضْطَرِبِ بِمَالِه والْمُتَرَفِّقِ بِبَدَنِه - فَإِنَّهُمْ مَوَادُّ الْمَنَافِعِ وأَسْبَابُ الْمَرَافِقِ

ہوشیاری ' خوش اعتمادی اور حسن ظن کی بنا پرنہ کرنا کہ اکثر لوگ حکام کے سامنے بناوٹی کردار اور بہترین خدمات کے ذریعہ اپنے کو بہترین بنا کر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ اس کے پس پشت نہ کوئی اخلاص ہوتا ہے اور نہ امانتداری پہلے ان کا امتحان لینا کہ تم سے پہلے والے نیک کردار حکام کے ساتھ ان کا برتائو کیا رہا ہے پھر جو عوام میں اچھے اثرات رکھتے ہوں اور امانتداری کی بنیاد پر پہچانے جاتے ہوں انہیں کا تقرر کردینا کہ یہ اسامر کی دلیل ہوگا کہ تم اپنے پروردگار کے بندۂ مخلصاوراپنے امام کے وفادار ہو۔اپنے جملہ شعبوں کے(۱) لئے ایک ایک افسر مقرر کردینا جو بڑے سے بڑے کام سے مقہور نہ ہوتا ہو اور کاموں کی زیادتی پر پراگندہ حواس نہ ہو جاتا ہو۔اور یہ یاد رکھنا کہ ان منشیوں میں جو بھی عیب ہوگا اور تم اس سے چشم پوشی کرو گے اس کا مواخذہ تمہیں سے کیا جائے گا۔

اس کے بعد تاجروں اور صنعت کاروں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور دوسروں کو ان کے ساتھ نیک برتائو کی نصیحت کرو چاہے وہ ایک مقام پر کام کرنے والے ہوں یا جا بجا گردش کرنے والے ہوں اورجسمانی محنت سے روزی کمانے والے ہوں۔اس لئے کہ یہی افراد منافع کا مرکز اور ضرورت زندگی کے مہیا

(۱)بعض شارحین کی نظرمیں اس حصہ کا تعلق صرف کتابت اور انشاء سے نہیں ہے بلکہ ہر شعبہ حیات سے ہے جس کی نگرانی کے لئے ایکذمہ دار کا ہونا ضروری ہے اور جس کا ادراک اہل سیاست کو سیکڑوں سال کے بعد ہوا ہے اورحکیم امت نے چودہ صدی قبل اس نکتہ جہانبانی کی طرف اشارہ کردیا تھا۔

۵۷۹

وجُلَّابُهَا مِنَ الْمَبَاعِدِ والْمَطَارِحِ - فِي بَرِّكَ وبَحْرِكَ وسَهْلِكَ وجَبَلِكَ - وحَيْثُ لَا يَلْتَئِمُ النَّاسُ لِمَوَاضِعِهَا ولَا يَجْتَرِءُونَ عَلَيْهَا فَإِنَّهُمْ سِلْمٌ لَا تُخَافُ بَائِقَتُه - وصُلْحٌ لَا تُخْشَى غَائِلَتُه - وتَفَقَّدْ أُمُورَهُمْ بِحَضْرَتِكَ وفِي حَوَاشِي بِلَادِكَ - واعْلَمْ مَعَ ذَلِكَ أَنَّ فِي كَثِيرٍ مِنْهُمْ ضِيقاً فَاحِشاً - وشُحّاً قَبِيحاً - واحْتِكَاراً لِلْمَنَافِعِ وتَحَكُّماً فِي الْبِيَاعَاتِ وذَلِكَ بَابُ مَضَرَّةٍ لِلْعَامَّةِ عَيْبٌ عَلَى الْوُلَاةِ فَامْنَعْ مِنَ الِاحْتِكَارِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مَنَعَ مِنْه - ولْيَكُنِ الْبَيْعُ بَيْعاً سَمْحاً بِمَوَازِينِ عَدْلٍ- وأَسْعَارٍ لَا تُجْحِفُ بِالْفَرِيقَيْنِ مِنَ الْبَائِعِ

کرنے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔یہی دور دراز(۱) مقامات بروبحر' کوہ میدان ہر جگہ سے ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اور جہاں تک جانے کی لوگ ہمت نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ ان ضروریات کے فراہم کرنے والے ہوتے ہیں جہاں لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی ہے اورجہاں تک جانے کی لوگ ہمت نہیں کرتے ہیں۔یہ وہ امن پسند لوگ ہیں جن سے فساد کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اوروہ صلح و آشتی والے ہوتے ہیں جن سے کسی شورش کا اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔

اپنے سامنے اور دوسرے شہروں میں پھیلے ہوئے ان کے معاملات کی نگرانی کرتے رہنا اور یہ خیال رکھنا کہ ان میں بہت سے لوگوں میں انتہائی تنگ نظری اور بد ترین قسم کی کنجوسی پائی جاتی ہے ۔یہ منافع کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور اونچے اونچے دام خود ہی معین کر دیتے ہیں' جس سے عوام کو نقصان ہوتا ہے اور حکام کی بد نامی ہوتی ہے۔لوگوں کوذخیرہ اندوزی سے منع کرو کہ رسول اکرم (ص) نے اس سے منع فرمایا ہے ۔خریدو فروخت میں سہولت ضروری ہے جہاں عادلانہ میزان ہو اور وہ قیامت معین ہو جس سے خریدار یا بیچنے والے کسی فریق پر

(۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تجار اور صنعت کار معاشرہ کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں اور انہیں کے ذریعہ معاشرہ کی ندگی میں استقرار پیدا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولائے کائنات نے ان کے بارے میں خصوصی نصیحت فرمائی ہے اوران کے مفسدین کی اصلاح پر خصوصی زوردیا ہے ۔تاجر میں بعض امتیازی خصوصیات ہوتے ہیں جو دوسری قوموں میں نہیں پائے جاتے ہیں ۔(۱) یہ لوگ فطرتاً صلح پسند ہوتے ہیں کہ فساد اور ہنگامہ میں دکان کے بند ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ (۲) ان کی نگاہ کسی مالک اور اراب پر نہیں ہوتی ہے بلکہ پروردگار سے رزق کے طلب گار ہوتے ہیں (۳) دور درازکے خطر ناک موارد تک سفر کرنے کی بنا پر ان سے تبلیغ مذہب کا کام بھی لیا جا سکتا ہے ' جس کے شواہد آج ساری دنیا میں پائے جا رہے ہیں۔

۵۸۰

والْمُبْتَاعِ فَمَنْ قَارَفَ حُكْرَةً بَعْدَ نَهْيِكَ إِيَّاه فَنَكِّلْ بِه وعَاقِبْه فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ

ثُمَّ اللَّه اللَّه فِي الطَّبَقَةِ السُّفْلَى مِنَ الَّذِينَ لَا حِيلَةَ لَهُمْ - مِنَ الْمَسَاكِينِ والْمُحْتَاجِينَ وأَهْلِ الْبُؤْسَى والزَّمْنَى - فَإِنَّ فِي هَذِه الطَّبَقَةِ قَانِعاً ومُعْتَرّاً - واحْفَظِ لِلَّه مَا اسْتَحْفَظَكَ مِنْ حَقِّه فِيهِمْ - واجْعَلْ لَهُمْ قِسْماً مِنْ بَيْتِ مَالِكِ - وقِسْماً مِنْ غَلَّاتِ صَوَافِي الإِسْلَامِ فِي كُلِّ بَلَدٍ - فَإِنَّ لِلأَقْصَى مِنْهُمْ مِثْلَ الَّذِي لِلأَدْنَى – وكُلٌّ قَدِ اسْتُرْعِيتَ حَقَّه - ولَا يَشْغَلَنَّكَ عَنْهُمْ بَطَرٌ - فَإِنَّكَ لَا تُعْذَرُ بِتَضْيِيعِكَ التَّافِه لإِحْكَامِكَ الْكَثِيرَ الْمُهِمَّ - فَلَا تُشْخِصْ هَمَّكَ عَنْهُمْ ولَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لَهُمْ - وتَفَقَّدْ أُمُورَ مَنْ لَا يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْهُمْ - مِمَّنْ تَقْتَحِمُه الْعُيُونُ وتَحْقِرُه الرِّجَالُ - فَفَرِّغْ لأُولَئِكَ ثِقَتَكَ مِنْ أَهْلِ الْخَشْيَةِ والتَّوَاضُعِ - فَلْيَرْفَعْ إِلَيْكَ أُمُورَهُمْ - ثُمَّ اعْمَلْ فِيهِمْ بِالإِعْذَارِ إِلَى اللَّه يَوْمَ تَلْقَاه - فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ بَيْنِ الرَّعِيَّةِ أَحْوَجُ إِلَى الإِنْصَافِ مِنْ غَيْرِهِمْ - وكُلٌّ فَأَعْذِرْ إِلَى اللَّه فِي تَأْدِيَةِ حَقِّه إِلَيْه

ظلم نہ ہو۔اس کے بعد تمہارے منع کرنے کے باوجود اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے تو اسے سزا دو لیکن اس میں بھی حد سے تجاوز نہ ہونے پائے ۔

اس کے بعد اللہ سے ڈرو اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں جو مساکین 'محتاج ' فقراء اورمعذور افراد کا طبقہ ہے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔ انکے جس حق کا اللہ نے تمہیں محافظ بنایا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کردو کہ ان کے دور افتادہ کا بھی وہی حق ہے جو قریب والوں کا ہے اورتمہیں سبکا نگراں بنایا گیا ہے لہٰذا خبردارکہیں غرور و تکبر تمہیں ان کی طرف سے غافل نہ بنادے کہ تمہیں بڑے کاموں کے مستحکم کر دینے سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے گا۔لہٰذا نہ اپنی توجہ کو ان کی طرف سے ہٹانا اور نہ غرور کی بناپر اپنا منہ موڑ لینا۔جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انہیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور شخصیتوں نے حقیر بنادیا ہے ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمہارا ہی فریضہ ہے لہٰذا ان کے لئے متواضع اور خوف خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جو تم تک ان کے معاملات کو پہنچاتے رہیں اورتم ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بناپر روز قیامت پیش پروردگار معذور کہے جا سکو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں اور پھر ہرایک کے حقوق کو ادا کرنے میں پیش پروردگار اپنے

۵۸۱

وتَعَهَّدْ أَهْلَ الْيُتْمِ وذَوِي الرِّقَّةِ فِي السِّنِّ مِمَّنْ لَا حِيلَةَ لَه ولَا يَنْصِبُ لِلْمَسْأَلَةِ نَفْسَه - وذَلِكَ عَلَى الْوُلَاةِ ثَقِيلٌ - والْحَقُّ كُلُّه ثَقِيلٌ وقَدْ يُخَفِّفُه اللَّه عَلَى أَقْوَامٍ - طَلَبُوا الْعَاقِبَةَ فَصَبَّرُوا أَنْفُسَهُمْ - ووَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللَّه لَهُمْ.

واجْعَلْ لِذَوِي الْحَاجَاتِ مِنْكَ قِسْماً تُفَرِّغُ لَهُمْ فِيه شَخْصَكَ - وتَجْلِسُ لَهُمْ مَجْلِساً عَامّاً - فَتَتَوَاضَعُ فِيه لِلَّه الَّذِي خَلَقَكَ - وتُقْعِدُ عَنْهُمْ جُنْدَكَ وأَعْوَانَكَ مِنْ أَحْرَاسِكَ وشُرَطِكَ - حَتَّى يُكَلِّمَكَ مُتَكَلِّمُهُمْ غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ - فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ فِي غَيْرِ مَوْطِنٍ - لَنْ تُقَدَّسَ

کو معذور ثابت کرو۔

اوریتیموں اور کبیر السن بوڑھوں کے حالات کی بھی نگرانی کرتے رہنا کہ ان کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یہ سوال کرنے کے لئے کھڑے بھی نہیں ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کا خیال رکھنا حکام کے لئے بڑا سنگین مسئلہ ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے حق تو سب کا سب ثقیل ہی ہے۔البتہ کبھی کبھی پروردگار اسے ہلکا قرار دے دیتا ہے ان اقوام کے لئے جو عاقبت کی طلب گار ہوتی ہیں اور اس راہمیں اپنے نفس کو صبر کاخوگر بناتی ہیں اورخدا کے وعدہ پر اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

اور دیکھو صاحبان ضرورت کے لئے ایک وقت معین کردو جس میں اپنے کوان کے لئے خالی کرلو اور ایک عمومی مجلس میں بیٹھوں ۔اس خداکے سامنے متواضع رہو جس نے پیدا کیا ہے اور اپنے تمام نگہبان(۱) پولیس' فوج ' اعوان و انصار سب کو دوربٹھا دو تاکہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکارنہ ہو کہ میں نے رسول اکرم (ص) سے خود سنا ہے کہ آپ نے بار بار فرمایا ہے کہ ' 'وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہوسکتی ہے جس میں

(۱) مقصد یہ نہیں ہے کہ حاکم جلسہ عام میں لاوارث ہو کر بیٹھ جائے اور کوئی بھی مفسد ' ظالم فقیر کے بھیس میں آکر اس کا خاتمہ کردے ۔مقصد صرف یہ ہے کہ پولیس ' فوج ' محافظ ' دربان ' لوگوں کے ضروریات کی راہ میں حائل نہ ہونے پائیں کہ نہ انہیں تمہارے پاس آنے دیں اور نہ کھ لکر بات کرنے کاموقع دیں ۔چاہے اس سے پہلے بچاس مقامات پر تلاشی لی جائے کہ غرباء کی حاجت روائی کے نام پر حکام کی زندگیوں کو قربان نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ مفسدین کوبے لگام چھوڑا جاسکتا ہے۔حاکم کے لئے بنیادی مسئلہ اس کی شرافت ' دیانت ' امانت داری کا ہے اس کے بعد اس کا مرتبہ عام معاشرہ سے بہرحال بلند تر ہے اور اس کی زندگی عوام الناس سے یقینا زیادہ قیمتی ہے اور اس کا تحفظ عوام الناس پر اسی طرح واجب ہے جس طرح وہ خودان کے مفادات کاتحفظ کر رہا ہے۔

۵۸۲

أُمَّةٌ لَا يُؤْخَذُ لِلضَّعِيفِ فِيهَا حَقُّه مِنَ الْقَوِيِّ - غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ –

ثُمَّ احْتَمِلِ الْخُرْقَ مِنْهُمْ والْعِيَّ - ونَحِّ عَنْهُمُ الضِّيقَ والأَنَفَ - يَبْسُطِ اللَّه عَلَيْكَ بِذَلِكَ أَكْنَافَ رَحْمَتِه - ويُوجِبْ لَكَ ثَوَابَ طَاعَتِه - وأَعْطِ مَا أَعْطَيْتَ هَنِيئاً وامْنَعْ فِي إِجْمَالٍ وإِعْذَارٍ !

ثُمَّ أُمُورٌ مِنْ أُمُورِكَ لَا بُدَّ لَكَ مِنْ مُبَاشَرَتِهَا - مِنْهَا إِجَابَةُ عُمَّالِكَ بِمَا يَعْيَا عَنْه كُتَّابُكَ - ومِنْهَا إِصْدَارُ حَاجَاتِ النَّاسِ يَوْمَ وُرُودِهَا عَلَيْكَ - بِمَا تَحْرَجُ بِه صُدُورُ أَعْوَانِكَ - وأَمْضِ لِكُلِّ يَوْمٍ عَمَلَه فَإِنَّ لِكُلِّ يَوْمٍ مَا فِيه: واجْعَلْ لِنَفْسِكَ فِيمَا بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه - أَفْضَلَ تِلْكَ الْمَوَاقِيتِ وأَجْزَلَ تِلْكَ الأَقْسَامِ - وإِنْ كَانَتْ كُلُّهَا لِلَّه إِذَا صَلَحَتْ فِيهَا النِّيَّةُ - وسَلِمَتْ مِنْهَا الرَّعِيَّةُ.

ولْيَكُنْ فِي خَاصَّةِ مَا تُخْلِصُ بِه لِلَّه دِينَكَ إِقَامَةُ فَرَائِضِه - الَّتِي هِيَ لَه خَاصَّةً - فَأَعْطِ اللَّه مِنْ بَدَنِكَ فِي لَيْلِكَ ونَهَارِكَ - ووَفِّ مَا تَقَرَّبْتَ بِه إِلَى اللَّه -

کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ''

اس کے بعد ان سے بد کلامی یا عاجزی کلام کا مظاہرہ ہو تواسے برداشت کرو اور دل تنگی اور غرور کو دور رکھو کہ تاکہ خدا تمہارے لئے رحمت کے اطراف کشارہ کردے اور اطاعت کے ثواب کو لازم قرار دیدے جسے جو کچھ دو خوشگواری کے ساتھ دو اور جسے منع کرو اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دو۔

اس کے بعد تمہارے معاملات میں بعض ایسے معاملات بھی ہیں جنہیںتمہیں خود براہ راست انجام دینا ہے۔جیسے حکام کے ان مسائل کے جوابات جن کے جوابات محرر افراد نہ دے سکیں یا لوگوں کے ان ضروریات کو پورا کرنا جن کے پورا کرنے سے تمہارے مدد گار افراد جی چراتے ہوں اوردیکھو ہر کام کو اسی کے دن مکمل کردینا کہ ہردن کا اپنا ایک کام ہوتا ہے۔اس کے بعد اپنے اور پروردگار کے روابط کے لئے بہترین وقت کا انتخاب کرنا جو تمام اوقات سے افضل اور بہتر ہو۔اگرچہ تمام ہی اوقات اللہ کے لئے شمار ہو سکتے ہیں اگر انسان کی نیت سالم رہے اور رعایا اس کے طفیل خوشحال ہو جائے ۔

اور تمہارے وہ اعمال جنہیں صرف اللہ کے لئے انجام دیتے ہو ان میں سے سب سے اہم کام ان فرائض کا قیام ہو جو صرف پروردگار کے لئے ہوتے ہیں۔اپنی جسمانی طاقت میں سے رات اور دن دونوں وقت ایک حصہ اللہ کے لئے قرار دینا اور جس کام کے ذریعہ اس کی قربت

۵۸۳

مِنْ ذَلِكَ كَامِلًا غَيْرَ مَثْلُومٍ ولَا مَنْقُوصٍ - بَالِغاً مِنْ بَدَنِكَ مَا بَلَغَ - وإِذَا قُمْتَ فِي صَلَاتِكَ لِلنَّاسِ - فَلَا تَكُونَنَّ مُنَفِّراً ولَا مُضَيِّعاً - فَإِنَّ فِي النَّاسِ مَنْ بِه الْعِلَّةُ ولَه الْحَاجَةُ - وقَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حِينَ وَجَّهَنِي إِلَى الْيَمَنِ - كَيْفَ أُصَلِّي بِهِمْ - فَقَالَ صَلِّ بِهِمْ كَصَلَاةِ أَضْعَفِهِمْ - وكُنْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً».

وأَمَّا بَعْدُ فَلَا تُطَوِّلَنَّ احْتِجَابَكَ عَنْ رَعِيَّتِكَ - فَإِنَّ احْتِجَابَ الْوُلَاةِ عَنِ الرَّعِيَّةِ شُعْبَةٌ مِنَ الضِّيقِ - وقِلَّةُ عِلْمٍ بِالأُمُورِ - والِاحْتِجَابُ مِنْهُمْ يَقْطَعُ عَنْهُمْ عِلْمَ مَا احْتَجَبُوا دُونَه - فَيَصْغُرُ عِنْدَهُمُ الْكَبِيرُ ويَعْظُمُ الصَّغِيرُ - ويَقْبُحُ الْحَسَنُ ويَحْسُنُ الْقَبِيحُ -

چاہتے ہو اسے مکمل طور سے انجام دینا نہ کوئی رخنہ پڑنے پائے اورنہ کوئی نقص پیدا ہو جائے بدن کو کسی قدرزحمت کیوں نہ ہو جائے۔اور جب لوگوں کے ساتھ جماعت کی نمازادا کرو تو نہ اس طرح پڑھو کہ لوگ بیزار ہو جائیں اور نہ اس طرح کہ نماز برباد ہو جائے اس لئے کہ لوگوں میں بیمار اور ضرورت مند افراد بھی ہوتے ہیں اور میں نے یمن کی مہم پر جاتے ہوئے حضور اکرم (ص) سے دریافت کیا تھا کہ نماز جماعت کا اندازہ کیا ہونا چاہیے تو آپ نے فرمایا تھا کہ کمزور ترین آدمی کے اعتبارسے نماز ادا کرنا اور مومنین کے حال پر مہربان رہنا۔

اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ اپنی رعایا سے دیر تک(۱) الگ نہ رہنا کہ حکام کا رعایا سے پس پردہ رہنا ایک طرح کی تنگ دلی پیداکرتا ہے اور ان کے معاملات کی اطلاع نہیں ہو پاتی ہے اور یہ پردہ داری انہیں بھی ان چیزوں کے جاننے سے روک دیتی ہے جن کے سامنے یہ حجابات قائم ہوگئے ہیں اور اس طرح بڑی چیز چھوٹی ہو جاتی ہے اورچھوٹی چیز بڑی ہو جاتی ہے۔اچھا برا بن جاتا ہے اوربرا اچھاہوجاتا ہے

(۱)یہ شاید اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سماج اور عوام سے الگ رہنا والی اورحاکم کے ضروریات زندگی میں شامل ہے ورنہ اس کی زندگی ۲۴گھنٹہ عوام الناس کی نذر ہوگئی تو نہ تنہائیوں می اپنے مالک سے مناجات کر سکتا ہے اور نہ خلوتوں میں اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کر سکتا ہے۔پردہ داری ایک انسانی ضرورت ہے جس سے کوئی انسان بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس پردہ داری کو طول نہ ہونے پائے کہ عوام الناس حاکم کی زیارت سے محروم ہو جائیں اور اس کا دیدار صرف ٹیلیویژن کے پردہ پر نصیب ہو جس سے نہ کوئی فریاد کی جا سکتی ہے اور نہ کسی درد دل کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ایسے شخص کو حاکم بننے کا یکا حق ہے جو عوام کے دکھ درد میں شریک نہ ہو سکے اور ان کی زندگی کی تلخیوں کو محسوس نہ کرسکے۔ایسے شخص کو دربار حکومت میں بیٹھ کر'' انا ربکم الا علی '' کا نعرہ لگانا چاہیے اور آخر میں کسی دریا میں ڈوب مرنا چاہیے۔اسلامی حکومت اس طرح کی لا پرواہی کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔اس کے لئے کوفہ میں بیٹھ کرحجاز اور یمامہکے فقراء کو دیکھنا پڑتا ہے اور ان کی حالت کے پیشنظر سو کھی روٹی کھانا پڑتی ہے۔

۵۸۴

ويُشَابُ الْحَقُّ بِالْبَاطِلِ - وإِنَّمَا الْوَالِي بَشَرٌ - لَا يَعْرِفُ مَا تَوَارَى عَنْه النَّاسُ بِه مِنَ الأُمُورِ - ولَيْسَتْ عَلَى الْحَقِّ سِمَاتٌ - تُعْرَفُ بِهَا ضُرُوبُ الصِّدْقِ مِنَ الْكَذِبِ - وإِنَّمَا أَنْتَ أَحَدُ رَجُلَيْنِ - إِمَّا امْرُؤٌ سَخَتْ نَفْسُكَ بِالْبَذْلِ فِي الْحَقِّ - فَفِيمَ احْتِجَابُكَ مِنْ وَاجِبِ حَقٍّ تُعْطِيه - أَوْ فِعْلٍ كَرِيمٍ تُسْدِيه أَوْ مُبْتَلًى بِالْمَنْعِ - فَمَا أَسْرَعَ كَفَّ النَّاسِ عَنْ مَسْأَلَتِكَ - إِذَا أَيِسُوا مِنْ بَذْلِكَ - مَعَ أَنَّ أَكْثَرَ حَاجَاتِ النَّاسِ إِلَيْكَ - مِمَّا لَا مَئُونَةَ فِيه عَلَيْكَ - مِنْ شَكَاةِ مَظْلِمَةٍ أَوْ طَلَبِ إِنْصَافٍ فِي مُعَامَلَةٍ.

ثُمَّ إِنَّ لِلْوَالِي خَاصَّةً وبِطَانَةً - فِيهِمُ اسْتِئْثَارٌ وتَطَاوُلٌ وقِلَّةُ إِنْصَافٍ فِي مُعَامَلَةٍ فَاحْسِمْ مَادَّةَ أُولَئِكَ بِقَطْعِ أَسْبَابِ تِلْكَ الأَحْوَالِ - ولَا تُقْطِعَنَّ لأَحَدٍ مِنْ حَاشِيَتِكَ وحَامَّتِكَ قَطِيعَةً - ولَا يَطْمَعَنَّ مِنْكَ فِي اعْتِقَادِ عُقْدَةٍ - تَضُرُّ بِمَنْ يَلِيهَا مِنَ النَّاسِ - فِي شِرْبٍ أَوْ عَمَلٍ مُشْتَرَكٍ - يَحْمِلُونَ مَئُونَتَه عَلَى غَيْرِهِمْ

اورحق باطل سے مخلوط ہو جاتا ہے۔اور حاکم بھی بالآخر ایک بشر ہے وہ پس پردہ امور کی اطلاع نہیں رکھتا ہے اور نہ حق کی پیشانی پر ایسے نشانات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ صداقت کے اقسام کو غلط بیانی سے الگ کرکے پہچانا جاسکے۔

اور پھر تم دو میں سے ایک قسم کے ضرور ہوگے۔یا وہ شخص ہوگے جس کا نفس حق کی راہمیں بذل و عطا پر مائل ہے تو پھرتمہیں واجب حق عطا کرنے کی راہ میں پر وہ حائل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اور کریموں جیسا عمل کیوں نہیں انجام دیتے ہو۔یا تم بخل کی بیماری میں مبتلا ہوگے تو بہت جلدی لوگ تم سے مایوس ہوکرخود ہی اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے اور تمہیں پردہ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔حالانکہ لوگوں کے اکثر ضروریات وہ ہیں جن میں تمہیں کسی طرح کی زحمت نہیں ہے جیسے ظلم کی فریاد یا کسی معاملہ میں انصاف کا مطالبہ ۔

اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ ہر والی کے کچھ مخصوص اور راز دار قسم کے افراد ہوتے ہیں جن میں خودغرضی ، دست درازی اورمعاملات میں بے انصافی پاء جاتی ہے لہٰذا خبردار ایسے افراد کے فساد کا علاج ان اسباب کے خاتمہ سے کرنا جن سے یہ حالات پیدا ہوتے ہیں۔اپنے کسی بھی حاشیہ نشین اورقرابت دار کو کوئی جاگیر مت بخش دینا اوراسے تم سے کوئی ایسی توقع نہ ہونی چاہیے کہ تم کسی ایسی زمین پر قبضہ دیدو گے جس کے سبب آبپاشی یا کی مشترک معاملہ میں شرکت رکھنے والے افراد کو نقصان پہنچ جائیکہ اپنے مصارف بھی دوسرے کے سرڈال دے اور

۵۸۵

فَيَكُونَ مَهْنَأُ ذَلِكَ لَهُمْ دُونَكَ - وعَيْبُه عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا والآخِرَةِ.

وأَلْزِمِ الْحَقَّ مَنْ لَزِمَه مِنَ الْقَرِيبِ والْبَعِيدِ - وكُنْ فِي ذَلِكَ صَابِراً مُحْتَسِباً - وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ قَرَابَتِكَ وخَاصَّتِكَ حَيْثُ وَقَعَ - وابْتَغِ عَاقِبَتَه بِمَا يَثْقُلُ عَلَيْكَ مِنْه - فَإِنَّ مَغَبَّةَ ذَلِكَ مَحْمُودَةٌ.

وإِنْ ظَنَّتِ الرَّعِيَّةُ بِكَ حَيْفاً فَأَصْحِرْ لَهُمْ بِعُذْرِكَ - واعْدِلْ عَنْكَ ظُنُونَهُمْ بِإِصْحَارِكَ - فَإِنَّ فِي ذَلِكَ رِيَاضَةً مِنْكَ لِنَفْسِكَ ورِفْقاً بِرَعِيَّتِكَ وإِعْذَاراً - تَبْلُغُ بِه حَاجَتَكَ مِنْ تَقْوِيمِهِمْ عَلَى الْحَقِّ.

ولَا تَدْفَعَنَّ صُلْحاً دَعَاكَ إِلَيْه عَدُوُّكَ ولِلَّه فِيه رِضًا فَإِنَّ فِي الصُّلْحِ دَعَةً لِجُنُودِكَ -

اس طرح اس معاملہ کا مزہ اس کے حصہ میں آئے اور اس کی ذمہ داری دنیا اور آخرت میں تمہارے ذمہ رہے۔

اور جس پر کوئی حق عائد ہو اس پر اس کے نافذ کرنے کی ذمہ داری ڈالو چاہے وہ تم سے نزدیک ہویا دور اوراس مسئلہ میں اللہ کی راہ میں صبرو تحمل سے کام لینا چاہے اس کی زد تمہاریقرابتداروں اورخاص افراد ہی پرکیوں نہ پڑتی ہواور اس سلسلہ میں تمہارے مزاج پر جو بار ہو اسے آخرت کی امید میں برداشت کرلینا کہ اس کا انجام بہتر ہوگا۔

اور اگر کبھی رعایا کو یہ خیال ہو جائے کہ تم نے ان پر ظلم کیا ہے توان کے لئے اپنے عذر کا اظہار کرواور اسی ذریعہ سے ان کی بد گمانی کاعلاج کرو کہ اس میں تمہارے نفس کی تربیت بھی ہے اور رعایا پر نرمی کا اظہار بھی ہے اوروہ عذر خواہی بھی وہے جس کے ذریعہ تمرعایا کو راہ حق پر چلانے کا مقصد بھی حاصل کرسکتے ہو۔

اور خبردار کسی ایسی دعوت صلح کا انکارنہ کرنا جس کی تحریک دشن کی طرف سے ہو اور جس میں مالک کی رضا مندی(۱) پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ فوجوں کو

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صلح ایک بہترین طریقہ کار ہے اور قرآن نے اسے ''خیر '' سے تعبیر کیاہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو شخص جن حالات میں جس طرح کی صلح کیدعوت دے تم قبول کرلو اور اس کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ جائو کہ ایسے نظام میں ہر ظالم اپنی ظالمانہ حرکتوں ہی پر صلح کرنا چاہیے گا اور تمہیں اسے تلیم کرنا ہوگا۔صلح کی بنیادی شرط یہ ہے کہاسے رضائے الٰہی کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی کسی دفعہ کو بھی مرضی پروردگار کے خلاف نہیں ہونا چاہیے جس طرح کہ سرکار دو عالم (ص) کی صلح میں دیکھا گیا ہے کہ آپ نے جس جس لفظ اور جس جس دفعہ پر صلح کی ہے سب کی سب مطابق حقیقت اور عین مرضی پروردگار تھیں اور کوئی حرف غلط درمیان میں نہیں تھا ''بسمک اللھم '' بھی ایک کلمہ صحیح تھا۔محمد بن عبداللہ بھی ایک حرف حق تھا اوردشمن کے افراد کاواپس کردینا بھی کوئیغلط اقدام نہیں تھا۔امام حسن مجتبیٰ کی صلح میں بھی یہی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کا مشاہدہ سرکار دو عالم (ص) کی صلح میں کیا جا چکا ہے۔اوریہ مولائے کائنات کی بنیادی تعلیم اور اسلام کاواقعی ہدف اور مقصد ہے۔

۵۸۶

ورَاحَةً مِنْ هُمُومِكَ وأَمْناً لِبِلَادِكَ - ولَكِنِ الْحَذَرَ كُلَّ الْحَذَرِ مِنْ عَدُوِّكَ بَعْدَ صُلْحِه - فَإِنَّ الْعَدُوَّ رُبَّمَا قَارَبَ لِيَتَغَفَّلَ - فَخُذْ بِالْحَزْمِ واتَّهِمْ فِي ذَلِكَ حُسْنَ الظَّنِّ - وإِنْ عَقَدْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَ عَدُوِّكَ عُقْدَةً - أَوْ أَلْبَسْتَه مِنْكَ ذِمَّةً - فَحُطْ عَهْدَكَ بِالْوَفَاءِ وارْعَ ذِمَّتَكَ بِالأَمَانَةِ - واجْعَلْ نَفْسَكَ جُنَّةً دُونَ مَا أَعْطَيْتَ - فَإِنَّه لَيْسَ مِنْ فَرَائِضِ اللَّه شَيْءٌ - النَّاسُ أَشَدُّ عَلَيْه اجْتِمَاعاً مَعَ تَفَرُّقِ أَهْوَائِهِمْ - وتَشَتُّتِ آرَائِهِمْ - مِنْ تَعْظِيمِ الْوَفَاءِ بِالْعُهُودِ - وقَدْ لَزِمَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ فِيمَا بَيْنَهُمْ دُونَ الْمُسْلِمِينَ - لِمَا اسْتَوْبَلُوا مِنْ عَوَاقِبِ الْغَدْرِ - فَلَا تَغْدِرَنَّ بِذِمَّتِكَ ولَا تَخِيسَنَّ بِعَهْدِكَ ولَا تَخْتِلَنَّ عَدُوَّكَ - فَإِنَّه لَا يَجْتَرِئُ عَلَى اللَّه إِلَّا جَاهِلٌ شَقِيٌّ - وقَدْ جَعَلَ اللَّه عَهْدَه وذِمَّتَه أَمْناً أَفْضَاه بَيْنَ الْعِبَادِ بِرَحْمَتِه وحَرِيماً يَسْكُنُونَ إِلَى مَنَعَتِه ويَسْتَفِيضُونَ إِلَى جِوَارِه فَلَا إِدْغَالَ ولَا مُدَالَسَةَ ولَا خِدَاعَ فِيه -

قدرے سکون مل جاتا ہے اور تمہارے نفس کو بھی افکار سے نجات مل جائے گی اور شہروں میں بھی امن وامان ک فضا قائم ہو جائے گی۔البتہ صلح کے بعد دشمن کی طرف سے مکمل طور پر ہوشیار رہنا کہ کبھی کبھی وہ تمہیں غافل بنانے کے لئے تم سے قربت اختیار کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس مسئلہ میں مکمل ہو شیاری سے کام لینا اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا اوراگر اپنے اور اس کیدرمیان کوئی معاہدہ کرنایا اسے کسی طرح کی پناہ دینا تو اپنے عہد کی پاسداری و وفاداری کے ذریعہ کرنا اور اپنے ذمہ کو امانت داری کے ذریعہ محفوظ بنانا اور اپنے قول و قرارکی راہ میں اپنے نفس کو سپر بنادینا کہ اللہ کے فرائض میں ایفائے عہد جیسا کوئی فریضہ نہیں ہے جس پر تمام لوگ خواہشات کے اختلاف اورافکار کے تضاد کے باوجودمتحد ہیں اور اس کا مشرکین نے بھی اپنے معاملات میں لحاظ رکھا ہے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں تباہیوں کا انداہ کرلیا ہے۔تو خبردار تم اپنے عہدو پیمان سے غداری نہ کرنا اور اپنے قول و قرار میں خیانت سے کام نہ لینا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کردینا۔اس لئے کہ اللہ کے مقابلہ میں جاہل و بد بخت کے علاوہ کوئی جرأت نہیں کرتا ہے اور اللہ نے عہدو پیمان کو امن وامان کا وسیلہ قراردیا ہے جسے اپنی رحمت سے تمام بندو ں کے درمیان عام کردیا ہے اور ایسی پناہ گاہ بنادیا ہے جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے والے پناہ لیتے ہیں اور اسکے جوار میں منزل کرنے کے لئے تیز سے قدم آگے بڑھاتے ہیں لہٰذا اس میں کوئی جعل سازی ' فریب کاری اور مکاری نہ

۵۸۷

ولَا تَعْقِدْ عَقْداً تُجَوِّزُ فِيه الْعِلَلَ ولَا تُعَوِّلَنَّ عَلَى لَحْنِ قَوْلٍ بَعْدَ التَّأْكِيدِ والتَّوْثِقَةِ ولَا يَدْعُوَنَّكَ ضِيقُ أَمْرٍ لَزِمَكَ فِيه عَهْدُ اللَّه إِلَى طَلَبِ انْفِسَاخِه بِغَيْرِ الْحَقِّ - فَإِنَّ صَبْرَكَ عَلَى ضِيقِ أَمْرٍ تَرْجُو انْفِرَاجَه وفَضْلَ عَاقِبَتِه خَيْرٌ مِنْ غَدْرٍ تَخَافُ تَبِعَتَه - وأَنْ تُحِيطَ بِكَ مِنَ اللَّه فِيه طِلْبَةٌ - لَا تَسْتَقْبِلُ فِيهَا دُنْيَاكَ ولَا آخِرَتَكَ.

إِيَّاكَ والدِّمَاءَ وسَفْكَهَا بِغَيْرِ حِلِّهَا - فَإِنَّه لَيْسَ شَيْءٌ أَدْعَى لِنِقْمَةٍ ولَا أَعْظَمَ لِتَبِعَةٍ - ولَا أَحْرَى بِزَوَالِ نِعْمَةٍ وانْقِطَاعِ مُدَّةٍ - مِنْ سَفْكِ الدِّمَاءِ بِغَيْرِ حَقِّهَا - واللَّه سُبْحَانَه مُبْتَدِئٌ بِالْحُكْمِ بَيْنَ الْعِبَادِ - فِيمَا تَسَافَكُوا مِنَ الدِّمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - فَلَا تُقَوِّيَنَّ سُلْطَانَكَ بِسَفْكِ دَمٍ حَرَامٍ -

ہونی چاہیے اورکوئی ایسا معاہدہ نہ کرنا جس میں تاویل کی ضرورت پڑے اور معاہدہ کے پختہ ہو جانے کے بعد اس کے کسی مبہم لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرنا اور عہد الٰہی میںتنگی کا احساس غیر حق کے ساتھ وسعت کی جستجو پرآمادہ نہ کردے کہ کسی امر کی تنگی پر صبر کرلینا اور کشائش حال اور بہترین عاقبت کا انتظار کرنا اس غداری سے بہتر ہے جس کے اثرات خطرناک ہوں اور تمہیں اللہ کی طرف سے جواب دہی کی مصیبت گھیر لے اور دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جائیں ۔

دیکھو خبردار۔ناحق خون بہانے سے پرہیز کرنا کہ اس سے زیادہ عذاب الٰہی سے قریب تر اور پاداش کے اعتبارسے شدید تر اورنعمتوں کے زوال۔زندگی کے خاتمہ کے لئے مناسب تر کوئی سبب نہیں ہے اور پروردگار روز قیامت اپنے فیصلہ کاآغاز خونریزیوں کے معاملہ سے کرے گا۔لہٰذا خبردار اپنی حکومت کا استحکام(۱) ناحق خون ریزی کے ذریعہ نہ پیدا کرنا کہ یہ بات حکومت کو کمزوراور بے جان بنا دیتی ہے بلکہ تباہ کرکے دوسروں کی طرف منتقل کر دیتی ہے اور تمہارے پاس نہ خدا کے سامنے اور نہ میرے سامنے عمداً قتل کرنے کا کوئی عذرنہیں ہے اور اس میں

(۱) واضح رہے کہ دنیا میں حکومتوں کا قیام تو وراثت ' جمہوریت ' عسکری انقلاب اور ذہانت وفراست تمام اسباب سے ہو سکتا ہے لیکن حکومتوں میں استحکام عوام کی خوشی اور ملک کی خوشحالی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جن افراد نے یہ خیال کیا کہ وہ اپنی حکومتوں کو خونریزی کے ذریعہ مستحکم بنا سکتے ہیں انہوں نے جیتے جی اپنی غلط فہمی کا انجام دیکھ لیا اوہ ہٹلر جیسے شخص کو بھی خود کشی پر آمادہ ہونا پڑا۔اسی لئے کہا گیا ہے کہملک کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھب اقی نہیں رہ سکتا ہے اور انسانیت کاخون بہانے سے بڑا کوئی جرم قابل تصور نہیں ہے لہٰذا اس سے پرہیز ہر صاحب اقتداراور صاحب عقل و ہوش کا فریضہ ہے اور زمانہ کی گردش کے پلٹتے دیر نہیں لگتی ہے ۔

۵۸۸

فَإِنَّ ذَلِكَ مِمَّا يُضْعِفُه ويُوهِنُه بَلْ يُزِيلُه ويَنْقُلُه - ولَا عُذْرَ لَكَ عِنْدَ اللَّه ولَا عِنْدِي فِي قَتْلِ الْعَمْدِ - لأَنَّ فِيه قَوَدَ الْبَدَنِ - وإِنِ ابْتُلِيتَ بِخَطَإٍ - وأَفْرَطَ عَلَيْكَ سَوْطُكَ أَوْ سَيْفُكَ أَوْ يَدُكَ بِالْعُقُوبَةِ - فَإِنَّ فِي الْوَكْزَةِ فَمَا فَوْقَهَا مَقْتَلَةً - فَلَا تَطْمَحَنَّ بِكَ نَخْوَةُ سُلْطَانِكَ - عَنْ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ حَقَّهُمْ.

وإِيَّاكَ والإِعْجَابَ بِنَفْسِكَ - والثِّقَةَ بِمَا يُعْجِبُكَ مِنْهَا وحُبَّ الإِطْرَاءِ - فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَوْثَقِ فُرَصِ الشَّيْطَانِ فِي نَفْسِه - لِيَمْحَقَ مَا يَكُونُ مِنْ إِحْسَانِ الْمُحْسِنِينَ.

وإِيَّاكَ والْمَنَّ عَلَى رَعِيَّتِكَ بِإِحْسَانِكَ - أَوِ التَّزَيُّدَ فِيمَا كَانَ مِنْ فِعْلِكَ - أَوْ أَنْ تَعِدَهُمْ فَتُتْبِعَ مَوْعِدَكَ بِخُلْفِكَ - فَإِنَّ الْمَنَّ يُبْطِلُ الإِحْسَانَ والتَّزَيُّدَ يَذْهَبُ بِنُورِ الْحَقِّ - والْخُلْفَ يُوجِبُ الْمَقْتَ عِنْدَ اللَّه والنَّاسِ - قَالَ اللَّه تَعَالَى -( كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ الله أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُونَ ) .

وإِيَّاكَ والْعَجَلَةَ بِالأُمُورِ قَبْلَ أَوَانِهَا - أَوِ التَّسَقُّطَ فِيهَا عِنْدَ إِمْكَانِهَا - أَوِ اللَّجَاجَةَ فِيهَا إِذَا تَنَكَّرَتْ - أَوِ الْوَهْنَ عَنْهَا إِذَا اسْتَوْضَحَتْ - فَضَعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْضِعَه

زندگی کا قصاص بھی ثابت ہے۔البتہ اگر دھوکہ سے اس غلطی میں مبتلا ہو جائو اور تمہارا تازیانہ ' تلوار یا ہاتھ سزا دینے میں اپنی حد سے آگے بڑھ جائے کہ کبھی کبھی گھونسہ وغیرہ بھی قتل کا سبب بن جاتا ہے۔تو خبر دار تمہیں سلطنت کاغرور اتنا اونچا نہ بنادے کہ تم خون کے وارثوں کو ان کا حق خون بہا بھی ادا نہ کرو۔

اور دیکھو اپنے نفس کو خود پسندی سے بھی محفوظ رکھنا اور اپنی پسند پر بھروسہ بھی نہ کرنا اور زیادہ تعریف کا شوق بھی نہ پیداہوجائے کہ یہ سب باتیں شیطان کی فرصت کے بہترین وسائل ہیں جن کے ذریعہ وہ نیک کرداروں کے عمل کو ضائع اور برباد کردیا کرتا ہے۔

اور خبردار رعایا پراحسان بھی نہ جتانا اور جو سلوک کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ان سے کوئی وعدہ کرکے اس کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کر دیتا ہے اور زیادتی عمل کاغرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے اور وعدہ خلافی خدا اوربندگان خدا دونوں کینزدیک ناراضگی کاباعث ہوت یہ جیسا کہ اس نے ارشادفرمایا ہے کہ '' اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناراضگی کی بات ہے کہ تم کوئی بات کہو اور پھراس کے مطابق عمل نہ کرو ''

اورخبردار وقت سے پہلے کاموں میں جلدی نہ کرنا اور وقت آجانے کے بعد سستی کا مظاہرہ نہ کرنا اور بات سمجھ میں نہ آئے تو جھگڑا نہ کرنا اورواضح ہو جائے تو کمزوری کا اظہار نہ کرنا۔ہربات کو اس کی جگہ رکھواور

۵۸۹

وأَوْقِعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْقِعَه.

وإِيَّاكَ والِاسْتِئْثَارَ بِمَا النَّاسُ فِيه أُسْوَةٌ - والتَّغَابِيَ عَمَّا تُعْنَى بِه مِمَّا قَدْ وَضَحَ لِلْعُيُونِ - فَإِنَّه مَأْخُوذٌ مِنْكَ لِغَيْرِكَ - وعَمَّا قَلِيلٍ تَنْكَشِفُ عَنْكَ أَغْطِيَةُ الأُمُورِ - ويُنْتَصَفُ مِنْكَ لِلْمَظْلُومِ - امْلِكْ حَمِيَّةَ أَنْفِكَ وسَوْرَةَ حَدِّكَ - وسَطْوَةَ يَدِكَ وغَرْبَ لِسَانِكَ - واحْتَرِسْ مِنْ كُلِّ ذَلِكَ بِكَفِّ الْبَادِرَةِ وتَأْخِيرِ السَّطْوَةِ - حَتَّى يَسْكُنَ غَضَبُكَ فَتَمْلِكَ الِاخْتِيَارَ - ولَنْ تَحْكُمَ ذَلِكَ مِنْ نَفْسِكَ - حَتَّى تُكْثِرَ هُمُومَكَ بِذِكْرِ الْمَعَادِ إِلَى رَبِّكَ والْوَاجِبُ عَلَيْكَ أَنْ تَتَذَكَّرَ مَا مَضَى لِمَنْ تَقَدَّمَكَ - مِنْ حُكُومَةٍ عَادِلَةٍ أَوْ سُنَّةٍ فَاضِلَةٍ - أَوْ أَثَرٍ عَنْ نَبِيِّنَاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أَوْ فَرِيضَةٍ فِي كِتَابِ اللَّه - فَتَقْتَدِيَ بِمَا شَاهَدْتَ مِمَّا عَمِلْنَا بِه فِيهَا - وتَجْتَهِدَ لِنَفْسِكَ فِي اتِّبَاعِ مَا عَهِدْتُ إِلَيْكَ فِي عَهْدِي هَذَا - واسْتَوْثَقْتُ بِه مِنَ الْحُجَّةِ لِنَفْسِي عَلَيْكَ - لِكَيْلَا تَكُونَ لَكَ عِلَّةٌ عِنْدَ تَسَرُّعِ نَفْسِكَ إِلَى هَوَاهَا: وأَنَا أَسْأَلُ

ہر امر کواس کے محل پر قرار دو۔

دیکھو جس چیز میںتمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا اورجوحق نگاہوں کے سامنے واضح ہوجائے اس سے غفلت نہ برتنا کہ دوسروں کے لئے یہی تمہاری ذمہ داری ہے اورعنقریب تمام امورسے پردے اٹھ جائیں گے اورتم سے مظلوم کاب دلہ لے لیا جائے گا۔اپے غضب کی تیزی 'اپنی سر کشی کے جوش ' اپنے ہاتھ کی جنبش اور اپنی زبان کی کاٹ پر قابو رکھنا اور ان تمام چیزوں سے اپنے کو اس طرح محفوظ رکھنا کہ جلدبازی سے کام نہ لینا اور سزا دینے میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ غصہ ٹھہر جائے اور اپنے اوپر قابو حاصل ہو جائے۔اوراس امرپ ربھی اختیار اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا ہے جب تک پروردگار کی بارگاہ میں واپسی کا خیال زیادہ سے زیادہ نہ ہوجائے ۔

تمہارا فریضہ ہے کہ ماضی میں گزر جانے والی عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد رکھو' رسول اکرم(ص) کے آثار اور کتاب خدا کے احکام کو نگاہ میں رکھواور جس طرح ہمیں عمل کرتے دیکھا ہے اسی طرح ہمارے نقش قدم پر چلو اور جو کچھ اس عہد نامہ میں ہم نے بتایا ہے اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو کہ میں تمہارے اوپر اپنی حجت کو مستحکم کردیا ہے تاکہ جب تمہارا نفس خواہشات کی طرف تیزی سے بڑھے تو تمہارے پاس کوء یعذرنہ رہے۔ور میں پروردگار کی وسیع رحمت اور ہر مقصد کے عطا کرنے کی عظیم قدرت کے وسیلہ سے یہ سوال

۵۹۰

اللَّه بِسَعَةِ رَحْمَتِه - وعَظِيمِ قُدْرَتِه عَلَى إِعْطَاءِ كُلِّ رَغْبَةٍ - أَنْ يُوَفِّقَنِي وإِيَّاكَ لِمَا فِيه رِضَاه - مِنَ الإِقَامَةِ عَلَى الْعُذْرِ الْوَاضِحِ إِلَيْه وإِلَى خَلْقِه - مَعَ حُسْنِ الثَّنَاءِ فِي الْعِبَادِ وجَمِيلِ الأَثَرِ فِي الْبِلَادِ - وتَمَامِ النِّعْمَةِ وتَضْعِيفِ الْكَرَامَةِ - وأَنْ يَخْتِمَ لِي ولَكَ بِالسَّعَادَةِ والشَّهَادَةِ -( إِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - والسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ وسَلَّمَ تَسْلِيماً كَثِيراً والسَّلَامُ

(۵۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى طلحة والزبير (مع عمران بن الحصين الخزاعي) ذكره أبو جعفر الإسكافي في كتاب المقامات في مناقب أمير المؤمنينعليه‌السلام

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ عَلِمْتُمَا وإِنْ كَتَمْتُمَا - أَنِّي لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى أَرَادُونِي - ولَمْ أُبَايِعْهُمْ حَتَّى بَايَعُونِي - وإِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِي وبَايَعَنِي -

کرتا ہوں کہ مجھے اور تمہیںان کاموں کی توفیق دے جن می اس کی مرضی ہو اور ہم دونوں اس کی بارگاہ میں اوربندوں کے سامنے عذر پیش کرنے کے قابل ہو جائیں۔بندوں کی بہترین تعریف کے حقدار ہوں اور علاقوں میں بہترین آثار چھو ڑ کرجائیں۔نعمت کی فراوانی اور عزت کے روز افزوں اضافہ کوبرقرار رکھ سکیں اور ہم دونوں کا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو کہ ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانے والے ہیں۔سلام ہو رسول خدا (ص) پر اور ان کی طیب وطاہر آل پر اور سب پر سلام بے حساب۔والسلام

(۵۴)

آپ کا مکتوب گرامی

(طلحہ و زبیر کے نام جسے عمران بن الحصین الخزاعی کے ذریعہ بھیجا تھا اور جس کا ذکر ابو جعفر اسکافی ۱نے کتاب المقامات میں کیا ہے )

امابعد! اگرچہ تم دونوں چھپا رہے ہو لیکن تمہیں بہر حال معلوم ہے کہ میں نے خلافت کی خواہش نہیں کی۔لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور میں نے بیعت کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔تم دونوں بھی انہیں افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے چاہا تھا اورمیری بیعت کی تھی

(۱)ابو جعفر اس کافی معتزلہ کے شیوخ میں شمار ہوتے تھے اور ان کے ستر ۷۰ تصنیفات تھیں جن میں ایک '' کتاب المقامات'' بھی تھی ۔اسی کتاب میں امیر المومنین کے اس مکتوب گرامی کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ حضرت نے اسے عمران کے ذریعہ بھیجا تھا جوفقہا صحابہ میں شمار ہوتیت ھے اورجنگ خیبر کے سال اسلام لائے تھے اور عہد معاویہ میں انتقال کیا تھا۔اسکافی جاحظ کے معاصروں میں تھے اور انہیں اسکاف کی نسبت سے اسکافی کہاجاتا ہے جونہروان اوربصرہ کے درمیان ایک شہر ہے۔

۵۹۱

وإِنَّ الْعَامَّةَ لَمْ تُبَايِعْنِي لِسُلْطَانٍ غَالِبٍ ولَا لِعَرَضٍ حَاضِرٍ – فَإِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي طَائِعَيْنِ - فَارْجِعَا وتُوبَا إِلَى اللَّه مِنْ قَرِيبٍ - وإِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي كَارِهَيْنِ - فَقَدْ جَعَلْتُمَا لِي عَلَيْكُمَا السَّبِيلَ بِإِظْهَارِكُمَا الطَّاعَةَ - وإِسْرَارِكُمَا الْمَعْصِيَةَ - ولَعَمْرِي مَا كُنْتُمَا بِأَحَقِّ الْمُهَاجِرِينَ - بِالتَّقِيَّةِ والْكِتْمَانِ - وإِنَّ دَفْعَكُمَا هَذَا الأَمْرَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْخُلَا فِيه - كَانَ أَوْسَعَ عَلَيْكُمَا مِنْ خُرُوجِكُمَا مِنْه - بَعْدَ إِقْرَارِكُمَا بِه.

وقَدْ زَعَمْتُمَا أَنِّي قَتَلْتُ عُثْمَانَ - فَبَيْنِي وبَيْنَكُمَا مَنْ تَخَلَّفَ عَنِّي وعَنْكُمَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ - ثُمَّ يُلْزَمُ كُلُّ امْرِئٍ بِقَدْرِ مَا احْتَمَلَ - فَارْجِعَا أَيُّهَا الشَّيْخَانِ عَنْ رَأْيِكُمَا - فَإِنَّ الآنَ أَعْظَمَ أَمْرِكُمَا الْعَارُ - مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَجَمَّعَ الْعَارُ والنَّارُ - والسَّلَامُ.

اورعام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت کے رعب داب سے کی ہے اور نہ کی مال دنیا کی لالچ میں کی ہے۔پس اگر تم دونوں نے میر ی بیعت اپنی خوشی سے کی تھی تو اب خدا کی طرف رجوع کرو اور فوراً توبہ کرلو۔اور اگرمجبوراً کی تھی تو تم نے اپنے اوپر میرا حق ثابت کردیا کہ تم نے اطاعت کا اظہار کیا تھا اورناف رمانی کودل میں چھپا کر رکھا تھا۔اورمیری جان کی قسم تم دونوں اس راز داری اوردل کی باتوں کے چھپانے میں مہاجرین سیزیادہ سزا وار نہیں تھے اور تمہارے لئے بعت سے نکلنے اور اس کے اقرار کے بعد انکار کردینے سے زیادہ آسان روز اول ہی اس کا انکار کردیناتھا۔تم لوگوں کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ میں نے عثمان کوقتل کیا ہے تو میرے اور تمہارے درمیان وہ اہل مدینہ موجود ہیں جنہوں نے ہم دونوں سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔اس کے بعد ہرشخص اسی کاذمہدار ہے جو اس نے ذمہداری قبول کی ہے۔ بزرگوارو! موقع غنیمت ہے اپنی رائے سے بازآجائو کہ آج تو صرف ننگ وعارکاخطرہ ہے لیکن اس کے بعد عارونار دونوں جمع ہو جائیں گے۔والسلام۔

۵۹۲

(۵۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدْ جَعَلَ الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا - وابْتَلَى فِيهَا أَهْلَهَا لِيَعْلَمَ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا - ولَسْنَا لِلدُّنْيَا خُلِقْنَا ولَا بِالسَّعْيِ فِيهَا أُمِرْنَا - وإِنَّمَا وُضِعْنَا فِيهَا لِنُبْتَلَي بِهَا - وقَدِ ابْتَلَانِي اللَّه بِكَ وابْتَلَاكَ بِي - فَجَعَلَ أَحَدَنَا حُجَّةً عَلَى الآخَرِ - فَعَدَوْتَ عَلَى الدُّنْيَا بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ - فَطَلَبْتَنِي بِمَا لَمْ تَجْنِ يَدِي ولَا لِسَانِي - وعَصَيْتَه أَنْتَ وأَهْلُ الشَّامِ بِي - وأَلَّبَ عَالِمُكُمْ جَاهِلَكُمْ وقَائِمُكُمْ قَاعِدَكُمْ؛ فَاتَّقِ اللَّه فِي نَفْسِكَ ونَازِعِ الشَّيْطَانَ قِيَادَكَ - واصْرِفْ إِلَى الآخِرَةِ وَجْهَكَ - فَهِيَ طَرِيقُنَا وطَرِيقُكَ - واحْذَرْ أَنْ يُصِيبَكَ اللَّه مِنْه بِعَاجِلِ قَارِعَةٍ - تَمَسُّ الأَصْلَ وتَقْطَعُ الدَّابِرَ - فَإِنِّي أُولِي لَكَ بِاللَّه أَلِيَّةً غَيْرَ فَاجِرَةٍ - لَئِنْ جَمَعَتْنِي وإِيَّاكَ جَوَامِعُ الأَقْدَارِ لَا أَزَالُ بِبَاحَتِكَ -

(۵۵)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام)

اما بعد!خدائے بزرگ وبرتر نے دنیا کو آخرت کا مقدمہ قراردیا ہے اوراسے آزمائش کاذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ بہترین عمل کرنے والا کون ہے۔ہم نہ اس دنیاکے لئے پیداکئے گئے ہیں اور نہ ہمیں اس کے لئے دوڑ دھوپ کا حکم دیا گیا ہے۔ہم یہاں فقط اس لئے رکھے گئے ہیں کہ ہمارا امتحان لیاجائے اوراللہ نے تمہارے ذریعہ ہمارا ' اور ہماریذریعہ تمہارا امتحان لے لیا ہے اورایک کو دوسرے پرحجت قرا دے دیا ہے لیکن تم نے تاویل قرآن کاسہارا لے کردنیا پردھاوا بول دیا اور مجھ سے ایسے جرم کا محاسبہ کردیا جس کا نہ میرے ہاتھ سے کوئی تعلق تھا اورنہ زبان سے۔صرف اہل شام نے میرے سرڈال دیا تھا اور تمہارے جاننے والوں نے جاہلوں کو اور قیام کرنے والوں نے خانہ نشینوںکو اکسا دیا تھا لہٰذا اب بھی غنیمت ہے کہ اپنے نفس کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور شیطان سے اپنی زمام چھڑالو اورآخرت کی طرف رخ کرلو کہ وہی ہماری اورتمہاریآخری منزل ہے۔اس وقت سے ڈرو کہ اس دنیا میں پروردگار کوئی ایسی مصیبت نازل کردے کہ اصل بھی ختم ہو جائے اورنسل کابھی خاتمہ ہو جائے۔میں پروردگار کی ایسی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے غلط ہونے کا امکان نہیں ہے کہ اگرمقدر نے مجھے اور تمہیں ایک میدان میں جمع کردیا تو میں اس وقت تک میدان نہ

۵۹۳

( حَتَّى يَحْكُمَ الله بَيْنَنا وهُوَ خَيْرُ الْحاكِمِينَ ) .

(۵۶)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها شريح بن هانئ - لما جعله على مقدمته إلى الشام

اتَّقِ اللَّه فِي كُلِّ صَبَاحٍ ومَسَاءٍ - وخَفْ عَلَى نَفْسِكَ الدُّنْيَا الْغَرُورَ - ولَا تَأْمَنْهَا عَلَى حَالٍ - واعْلَمْ أَنَّكَ إِنْ لَمْ تَرْدَعْ نَفْسَكَ عَنْ كَثِيرٍ مِمَّا تُحِبُّ - مَخَافَةَ مَكْرُوه - سَمَتْ بِكَ الأَهْوَاءُ إِلَى كَثِيرٍ مِنَ الضَّرَرِ - فَكُنْ لِنَفْسِكَ مَانِعاً رَادِعاً - ولِنَزْوَتِكَ عِنْدَ الْحَفِيظَةِ وَاقِماً قَامِعاً

(۵۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل الكوفة - عند مسيره من المدينة إلى البصرة

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي خَرَجْتُ مِنْ حَيِّي هَذَا - إِمَّا ظَالِماً وإِمَّا مَظْلُوماً وإِمَّا بَاغِياً وإِمَّا مَبْغِيّاً عَلَيْه - وإِنِّي أُذَكِّرُ اللَّه مَنْ بَلَغَه كِتَابِي هَذَا لَمَّا نَفَرَ إِلَيَّ - فَإِنْ كُنْتُ مُحْسِناً أَعَانَنِي -.

چھوڑوں گا جب تک میرے اور تمہارے دمیان فیصلہ نہ ہوجائے ۔

(۵۶)

آپ کی وصیت

(جو شریح ۱بن ہانی کو اس وقت فرمائی جب انہیں شام جانے والے ہر اول دستہ کا سردار مقرر فرمایا)

صبح و شاماللہ سے ڈرتے رہو اوراپنے نفس کو اس دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اور اس پر کسی حال میں اعتبارنہ کرنااور یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کوب ہت سی پسندیدہ چیزوں سے نہ روکا۔تو خواہشات تم کوب ہت سے نقصان وہ امور تک پہنچادیں گی لہٰذا ہمیشہ اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے رہو اورغصہ میں اپنے غیظ و غضب کو دباتے اورکچلتے رہو۔

(۵۷)

آپ کا مکتوب گرامی

(اہل کوفہ کےنام۔مدینہ سے بصرہ روانہ ہوتے وقت)

امابعد! میں اپنے قبیلہ سے نکل رہا ہوں یا ظلم کی حیثیت سے یا مظلوم کی حیثیت سے۔یامیں نے بغاوت کی ہے یا میرے خلاف بغاوت ہوئی ہے۔میں تمہیں خدا کاواسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جہاں تک میرا یہ خط پہنچ جائے تم سب نکل کرآجائو۔اس کے بعد مجھے نیکی پرپائو تومیری امداد کرو

(۱)یہ امیرالمومنین کے جلیل الدقر صحابی تھے ۔ابو مقداد کنیت تھی اور آپ کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے۔یہاں تک کہ حجاج کے زمانہ میں سجستان میں شہید ہوئے۔حضرت نے انہیں شام جانے والے ہر اول دستہ کا امیر مقرر کیا تو مذکورہ ہدایات سے سرفراز فرمایا تاکہ کوئی شخص اسلامی پابندی سے آزادی کا تصورنہ کرسکے ۔

۵۹۴

وإِنْ كُنْتُ مُسِيئاً اسْتَعْتَبَنِي

(۵۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

كتبه إلى أهل الأمصار - يقص فيه ما جرى بينه وبين أهل صفين

وكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا والْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - والظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ ونَبِيَّنَا وَاحِدٌ - ودَعْوَتَنَا فِي الإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ - ولَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الإِيمَانِ بِاللَّه والتَّصْدِيقِ بِرَسُولِه - ولَا يَسْتَزِيدُونَنَا - الأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيه مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ونَحْنُ مِنْه بَرَاءٌ - فَقُلْنَا تَعَالَوْا نُدَاوِ مَا لَا يُدْرَكُ الْيَوْمَ - بِإِطْفَاءِ النَّائِرَةِ وتَسْكِينِ الْعَامَّةِ - حَتَّى يَشْتَدَّ الأَمْرُ ويَسْتَجْمِعَ - فَنَقْوَى عَلَى وَضْعِ الْحَقِّ مَوَاضِعَه - فَقَالُوا بَلْ نُدَاوِيه بِالْمُكَابَرَةِ - فَأَبَوْا حَتَّى جَنَحَتِ الْحَرْبُ ورَكَدَتْ - ووَقَدَتْ نِيرَانُهَا وحَمِشَتْ -

اورغلطی پر دیکھو تو مجھے رضا کے راستہ پر لگا دو(۶۳) ۔

(۵۸)

آپ کامکتوب گرامی

(تمام شہروں کے نام۔جس میں صفین کی حقیقت کااظہار کیا گیا ہے )

ہمارے معاملہ کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب بظاہر(۱) دونو ں کاخدا ایک تھا۔رسول ایک تھا۔پیغام ایک تھا۔نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلب گار تھے ۔نہ وہ اپنے ایمان کوبڑھانا چاہتے تھے۔معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے اورہم نے یہ حل پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہوسکتا ہے ' اس کاوقتی علاج یہ کیا جائے ہ آتش جنگ کو خاموش کردیاجائے اور لوگوں کے جذبات کوپرسکون بنادیا جائے۔اس کے بعد جب حکومت کو استحکام ہوجائے گا اورحالات ساز گار ہوجائیںگے تو ہم حق کو اس کی منزل تک لانے کی طاقت پیدا کرلیں گے۔لیکن قوم کا اصرار(۲) تھا۔کہ اس کا علاج صرف جنگ و جدال ہے۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ جنگ نے اپنے پائوںپھیلادئیے اورجم کر کھڑی ہوگئی۔شعلے بھڑک اٹھے اورٹھہرگئے اور قوم نے دیکھاکہ

(۱)یہ اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ حضرت نے معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے اسلام و ایمان کا اقرارنہیں کیا ہے بلکہ صورت حال کا تذکرہ کیا ہے۔

(۲)حقیقت امری ہ ہے کہ معاویہ کوخون عثمان سے کوئی دلچسپی نہیںتھی۔وہ شام کی حکومت اور عالم اسلام کی خلافت کا طماع تھا لہٰذا کوئی سنجیدہ گفتگو قبول نہیں کر سکتا تھا۔حضرت نے بھی اتمام حجت کا حقادا کردیا اور اس کے بعد میدان جہاد میں قدم جمادئیے تاکہ دنیا پرواضح ہو جائے کہ جہاد راہ خدا فرزند ابو طالب کا کام ہے۔ابو سفیان کے بیٹے کانہیں ہے۔

۵۹۵

فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وإِيَّاهُمْ - ووَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِينَا وفِيهِمْ - أَجَابُوا عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى الَّذِي دَعَوْنَاهُمْ إِلَيْه - فَأَجَبْنَاهُمْ إِلَى مَا دَعَوْا وسَارَعْنَاهُمْ إِلَى مَا طَلَبُوا - حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ - فَمَنْ تَمَّ عَلَى ذَلِكَ مِنْهُمْ - فَهُوَ الَّذِي أَنْقَذَه اللَّه مِنَ الْهَلَكَةِ - ومَنْ لَجَّ وتَمَادَى فَهُوَ الرَّاكِسُ - الَّذِي رَانَ اللَّه عَلَى قَلْبِه - وصَارَتْ دَائِرَةُ السَّوْءِ عَلَى رَأْسِه

جنگ نے دونوں کودانت کاٹنا شروع کردیا اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پرآمادہ ہوگئے اورمیں نے بھی ان کیبات کو مان لیا اورتیزی سے بڑھ کران کے مطالبہ صلح کو قبول کرلیا یہاں تک کہ ان پرحجت واضح ہوگئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہوگیا۔اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا توگویا اپنے نفس کو ہلاکت سے نکال لیا ورنہ اس گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہوگا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔

۵۹۶

(۵۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى الأسود بن قطبة صاحب جند حلوان

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْوَالِيَ إِذَا اخْتَلَفَ هَوَاه - مَنَعَه ذَلِكَ كَثِيراً مِنَ الْعَدْلِ - فَلْيَكُنْ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَكَ فِي الْحَقِّ سَوَاءً - فَإِنَّه لَيْسَ فِي الْجَوْرِ عِوَضٌ مِنَ الْعَدْلِ - فَاجْتَنِبْ مَا تُنْكِرُ أَمْثَالَه - وابْتَذِلْ نَفْسَكَ فِيمَا افْتَرَضَ اللَّه عَلَيْكَ - رَاجِياً ثَوَابَه ومُتَخَوِّفاً عِقَابَه.

واعْلَمْ أَنَّ الدُّنْيَا دَارُ بَلِيَّةٍ - لَمْ يَفْرُغْ صَاحِبُهَا فِيهَا قَطُّ سَاعَةً - إِلَّا كَانَتْ فَرْغَتُه عَلَيْه حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ - وأَنَّه لَنْ يُغْنِيَكَ عَنِ الْحَقِّ شَيْءٌ أَبَداً - ومِنَ الْحَقِّ عَلَيْكَ حِفْظُ نَفْسِكَ - والِاحْتِسَابُ عَلَى الرَّعِيَّةِ بِجُهْدِكَ - فَإِنَّ الَّذِي يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْ ذَلِكَ - أَفْضَلُ مِنَ الَّذِي يَصِلُ بِكَ والسَّلَامُ.

(۶۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى العمال الذين يطأ الجيش عملهم

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ

(۵۹)

آپ کامکتوب گرامی

(اسود بن قطبہ والی حلوان کے نام)

اما بعد! دیکھواگر والی کے خواہشات مختلف قسم کے ہوں گے تویہ بات اسے اکثر اوقات انصاف سے روک دے گی لیکن تمہاری نگاہ میں تمام افراد کے معاملات کو ایک جیسا ہونا چاہیے کہ ظلم کبھی عدل کابدل نہیں ہوسکتا ہے۔ جس چیز کودوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو اس سے خودبھی اجتناب کرو اور اپنے نفس کو ان کاموں میں لگادو جنہیں خدانے تم پرواجب کیا ہے اوراس کے ثواب کیامید رکھواورعذاب سے ڈرتے رہو۔ اوریاد رکھو کہ دنیا دار آزمائش ہے یہاں انسان کی ایک گھڑی بھی خالی نہیں جاتی ہے مگر یہ کہ یہ بیکاری روز قیامت حسرت کا سبب بن جاتی ہے اورتم کو کوئی شے حق سے بے نیاز نہیں بنا سکتی ہے اور تمہارے اوپر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اپنے نفس کومحفوظ رکھو اوراپنے ا مکان بھر رعایاکا احتساب کرتے رہوکہ اس طرح جوفائدہ تمہیں پہنچے گا وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا جوفائدہ لوگوں کوتم سے پہنچے گا۔والسلام۔

(۶۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(ان اعمال کے نام جن کا علقہ فوج کے راستہ میں پڑتا تھا)

بندۂ خدا امیر المومنین علی کی طرف سے ان

۵۹۷

إِلَى مَنْ مَرَّ بِه الْجَيْشُ - مِنْ جُبَاةِ الْخَرَاجِ وعُمَّالِ الْبِلَادِ.

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي قَدْ سَيَّرْتُ جُنُوداً - هِيَ مَارَّةٌ بِكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه - وقَدْ أَوْصَيْتُهُمْ بِمَا يَجِبُ لِلَّه عَلَيْهِمْ - مِنْ كَفِّ الأَذَى وصَرْفِ الشَّذَا - وأَنَا أَبْرَأُ إِلَيْكُمْ وإِلَى ذِمَّتِكُمْ مِنْ مَعَرَّةِ الْجَيْشِ - إِلَّا مِنْ جَوْعَةِ الْمُضْطَرِّ لَا يَجِدُ عَنْهَا مَذْهَباً إِلَى شِبَعِه - فَنَكِّلُوا مَنْ تَنَاوَلَ مِنْهُمْ شَيْئاً ظُلْماً عَنْ ظُلْمِهِمْ - وكُفُّوا أَيْدِيَ سُفَهَائِكُمْ عَنْ مُضَارَّتِهِمْ - والتَّعَرُّضِ لَهُمْ فِيمَا اسْتَثْنَيْنَاه مِنْهُمْ - وأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِ الْجَيْشِ - فَارْفَعُوا إِلَيَّ مَظَالِمَكُمْ - ومَا عَرَاكُمْ مِمَّا يَغْلِبُكُمْ مِنْ أَمْرِهِمْ - ومَا لَا تُطِيقُونَ دَفْعَه إِلَّا بِاللَّه وبِي فَأَنَا أُغَيِّرُه بِمَعُونَةِ اللَّه إِنْ شَاءَ اللَّه.

خراج جمع کرنے والوں اور علاقوں کے والیوں کے نام جن کے علاوہ سے لشکروں کا گزر ہوتا ہے۔

امابعد میں نے کچھ فوجیں روانہ کی ہیںجو عنقریب تمہارے علاقہ سے گزرنے والی ہیں اورمیں نے انہیں ان تمام باتوں کی نصیحت کردی ہے جوان پرواجب ہیں کہ کی کواذیت نہ دیں اور تکلیف کودور رکھیں اورمیںتمہیں اورتمہارے اہل ذمہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ فوج والے کوئی دست درازی کریں گے تو میں ان سے بیزار رہوں گا مگر یہ کوی شخص(۱) بھوک سے مضطر ہو اور اس کے پاس پیٹ بھرنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔اس کے علاوہ کوئی ظالمانہ انداز سے ہاتھ لگائے تواس کو سزا دینا تمہارا فرض ہے۔لیکن اپنے سرپھروں کو سمجھا دینا کہ جن حالات کو میں نے مشتنیٰ قراردیا ہے ان میں کوئی شخص کسی چیز کو ہاتھ لگانا چاہے تو اس سے مقابلہ نہ کریں اورٹوکیں نہیں۔پھراس کے بعد میں لشکرکے اندر موجود ہوں اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور سختیوں کی فریاد مجھ سے کرو اگرتم دفع کرنے کے قابل نہیں ہو جب تک اللہ کی مدد اورمیری امداد شامل نہ ہو۔میں انشاء اللہ اللہ کی مدد سے حالات کوبدل دوںگا۔

(۱)اس خط میں حضرت نے دو طرح کے مسائل کاتذکرہ فرمایا ہے۔ایک کا تعلق لشکر سے ہے اوردوسرے کا اس علاقہ سے جہاں سے لشکر گزرنے والا ہے لشکروالوں کو توجہ دلائی ہے کہ خبردار رعایا پر کسی طرح کا ظلم نہ ہونے پائے کہ تمہارا کام ظلم و جور کا مقابلہ کرنا ہے۔ظلم کرنا نہیں ہے اورراستہ کے عوام کو متوجہ کیاہے کہ اگر لشکر میںکوئی شخص بربنائے اضطرار کسی چیز کو استعمال کرلے تو خبرداراسے منع نہ کرنا کہ یہ اس کا شرعی حق ہے اور اسلام میں کسی شخص کو اس کے حق سے محروم نہیںکیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد لشکرکی ذمہداری ہے کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو میری طرف رجوع کرے اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے مسائل کی فریاد میرے پاس پیش کریں اورس ارے معاملات کو خود طے کرنے کی کوشش نہ کریں ۔

۵۹۸

(۶۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى كميل بن زياد النخعي وهو عامله على هيت، ينكر عليه تركه دفع من يجتاز به من جيش العدو طالبا الغارة.

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ تَضْيِيعَ الْمَرْءِ مَا وُلِّيَ وتَكَلُّفَه مَا كُفِيَ - لَعَجْزٌ حَاضِرٌ ورَأْيٌ مُتَبَّرٌ - وإِنَّ تَعَاطِيَكَ الْغَارَةَ عَلَى أَهْلِ قِرْقِيسِيَا - وتَعْطِيلَكَ مَسَالِحَكَ الَّتِي وَلَّيْنَاكَ - لَيْسَ بِهَا مَنْ يَمْنَعُهَا ولَا يَرُدُّ الْجَيْشَ عَنْهَا - لَرَأْيٌ شَعَاعٌ - فَقَدْ صِرْتَ جِسْراً لِمَنْ أَرَادَ الْغَارَةَ - مِنْ أَعْدَائِكَ عَلَى أَوْلِيَائِكَ - غَيْرَ شَدِيدِ الْمَنْكِبِ ولَا مَهِيبِ الْجَانِبِ،ولَا سَادٍّ ثُغْرَةً ولَا كَاسِرٍ لِعَدُوٍّ شَوْكَةً -

(۶۱)

آپ کامکتوب گرامی

(کمیل بن زیاد۱النخعی کے نام جو بیت المال کے عامل تھے اورانہوں نے فوج دشمن کو لوٹ مارسے منع نہیں کیا )

امابعد! انسان کا اس کام کو نظرانداز کردینا جس کاذمہ داربنایا گیا ہے اور اس کام میں لگ جانا جواس کے فرائض میں شامل نہیں ہے ایک واضح کمزوری اور تباہ کن فکر ہے۔

اوردیکھو تمہارا اہل قبر قیسا پرحملہ کردینا اورخود اپنی سرحدوں کومعطل چھوڑدینا جن کا تم کوذمہ دار بنایا گا تھا۔اس عالم میں کہ انکا کوئی دفاع کرنے والا اور ان سے لشکروں کو ہٹانے والا نہیںتھا ایک انتہائی پراگندہ رائے ہے اور اس طرح تم دوستوں پرحملہ کرنے والے دشمنوں کے لئے ایک وسیلہ بن گئے جہاں نہ تمہارے کاندھے مضبوط تھے اور نہ تمہاری کوئی ہیبت تھی۔نہ تم نے دشمن

(۱)جناب کمیل مولائے کائنات کے مخصوص اصحاب میں تھے اوربڑے پایہ کے عالم و فاضل تھے لیکن بہر حال بشر تھے اور انہوںنے معاویہ کے مظالم کے جواب میں یہی مناسب سمجھا کہ جس طرح وہ ہمارے علاقہ میں فساد پھیلا رہا ہے ' ہم بھی اس کے علاقہ پر حملہ کردیں تاکہفوجوں کا رخ ادھرمڑ جائے مگری ہبات امامت کے مزاج کے خلاف تھی لہٰذا حضرت نے فوراً تنبیہ کردی اورمکیل نے بھی اپنے اقدام کے نا مناسب ہونے کا احساس کرلیا اور یہی انسان کا کمال کردار ہے کہ غلطی پراصرار نہ کرے ورنہ غلطی نہ کرنا شان عصمت ہے۔شان اسلام و ایمان نہیں ہے۔

جناب کمیل کی غیرت داری کایہ عالم تھا کہ جب حجاج نے انہیں تلاش کرنا شروع کیا اور گرفتارنہ کر سکا تو ان کی قوم پر دانہ پانی بند کردیا۔کمیل کو اس امر کی اطلاع ملی تو فوراً حجاج کے دربار میں پہنچ گئے اور فرمایا کہ میں اپنی ذات کی حفاظت کی خاطر ساری قوم کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا ہوں اورود محبت اہل بیت سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتا ہوں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اپنی سزا خود برداشت کروں جس کے نتیجہ میں حجاج نے ان کی زندگی کاخاتمہ کرادیا۔

۵۹۹

ولَا مُغْنٍ عَنْ أَهْلِ مِصْرِه ولَا مُجْزٍ عَنْ أَمِيرِه.

(۶۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل مصر مع مالك الأشتر - لما ولاه إمارتها

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَذِيراً لِلْعَالَمِينَ ومُهَيْمِناً عَلَى الْمُرْسَلِينَ - فَلَمَّا مَضَىعليه‌السلام تَنَازَعَ الْمُسْلِمُونَ الأَمْرَ مِنْ بَعْدِه - فَوَاللَّه مَا كَانَ يُلْقَى فِي رُوعِي - ولَا يَخْطُرُ بِبَالِي أَنَّ الْعَرَبَ تُزْعِجُ هَذَا الأَمْرَ - مِنْ بَعْدِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَنْ أَهْلِ بَيْتِه - ولَا أَنَّهُمْ مُنَحُّوه عَنِّي مِنْ بَعْدِه - فَمَا رَاعَنِي إِلَّا انْثِيَالُ النَّاسِ عَلَى فُلَانٍ يُبَايِعُونَه - فَأَمْسَكْتُ يَدِي حَتَّى رَأَيْتُ رَاجِعَةَ النَّاسِ - قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الإِسْلَامِ - يَدْعُونَ إِلَى مَحْقِ دَيْنِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَخَشِيتُ إِنْ لَمْ أَنْصُرِ الإِسْلَامَ وأَهْلَه - أَنْ أَرَى فِيه ثَلْماً أَوْ هَدْماً - تَكُونُ الْمُصِيبَةُ بِه عَلَيَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَايَتِكُمُ - الَّتِي إِنَّمَا هِيَ مَتَاعُ أَيَّامٍ قَلَائِلَ - يَزُولُ مِنْهَا مَا كَانَ كَمَا يَزُولُ السَّرَابُ -

کا راستہ روکا اورنہ اس کی شوکت کو تواڑ۔نہ اہل شہر کے کام آئے اور نہ اپنے امیر کے فرض کو انجام دیا۔

(۶۲)

آپ کامکتوب گرامی

(اہل مصرکے نام۔مالک اشترکے ذریعہ جب ان کو والی مصر بناکر روانہ کیا)

اما بعد!پروردگار نے حضرت محمد (ص) کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اورمرسلین کے لئے گواہ اورنگراں بناکربھیجا تھا لیکن ان کے جانے کے بعد ہی مسلمانوں نے ان کے خلاف میں جھگڑا شروع کردیا۔خدا گواہ ہے کہ یہ بات میرے خیال میںبھی نہ تھی اور نہ میرے دل سے گزری تھی کہ عرب اس منصب کو ان کے اہل بیت سے اس طرح موڑ دیں گے اور مجھ سے اس طرح دور کردیں گے کہمیں نے اچانک یہ دیکھا کہ لوگ فلاں شخص کی بیعت کے لئے ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو میں نے اپنے ہاتھ کو روک لیا یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس جا رہے ہیں اور پیغمبر کے قانون کو برباد کردینا چاہتے ہیں تومجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اوربربادی کو دیکھنے کے بعد بھی میں نے اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اس کی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جوآج اس حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے اورایک دن اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح سراب کی چمک

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863