نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657151 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

ولْيَعْدِلْ بَيْنَ صَوَاحِبَاتِهَا فِي ذَلِكَ وبَيْنَهَا - ولْيُرَفِّه عَلَى اللَّاغِبِ - ولْيَسْتَأْنِ بِالنَّقِبِ والظَّالِعِ - ولْيُورِدْهَا مَا تَمُرُّ بِه مِنَ الْغُدُرِ - ولَا يَعْدِلْ بِهَا عَنْ نَبْتِ الأَرْضِ إِلَى جَوَادِّ الطُّرُقِ - ولْيُرَوِّحْهَا فِي السَّاعَاتِ - ولْيُمْهِلْهَا عِنْدَ النِّطَافِ والأَعْشَابِ - حَتَّى تَأْتِيَنَا بِإِذْنِ اللَّه بُدَّناً مُنْقِيَاتٍ - غَيْرَ مُتْعَبَاتٍ ولَا مَجْهُودَاتٍ - لِنَقْسِمَهَا عَلَى كِتَابِ اللَّه وسُنَّةِ نَبِيِّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَإِنَّ ذَلِكَ أَعْظَمُ لأَجْرِكَ - وأَقْرَبُ لِرُشْدِكَ إِنْ شَاءَ اللَّه

(۲۶)

ومن عهد لهعليه‌السلام

إلى بعض عماله - وقد بعثه على الصدقة

أَمَرَه بِتَقْوَى اللَّه فِي سَرَائِرِ أَمْرِه وخَفِيَّاتِ عَمَلِه - حَيْثُ لَا شَهِيدَ غَيْرُه ولَا وَكِيلَ دُونَه - وأَمَرَه أَلَّا يَعْمَلَ بِشَيْءٍ مِنْ طَاعَةِ اللَّه فِيمَا ظَهَرَ - فَيُخَالِفَ إِلَى غَيْرِه فِيمَا أَسَرَّ - ومَنْ لَمْ يَخْتَلِفْ سِرُّه وعَلَانِيَتُه وفِعْلُه ومَقَالَتُه - فَقَدْ أَدَّى الأَمَانَةَ وأَخْلَصَ الْعِبَادَةَ.

میں بھی شدت سے کام نہ لے اور اس کے اوردوسری اونٹنیوں کے درمیان عدل و مساوات سے کام لے۔تھکے ماندے اونٹ کو دم لینے کاموقع دے اورجس کے کھر گھس گئے ہوں یا پائوں شکستہ ہوں ان کے ساتھ نرمی کا برتائو کرے۔راستے میں تالاب پڑیں تو انہیں پانی پینے کے لئے لے جائے اور سر سبز راستوں کو چھوڑ کربے آب و گیاہ راستوں پر نہ لے جائے وقتا ً فوقتاً آرام دیتا رہے اور پانی اورسبزہ کے مقامات پر ٹھہرنے کی مہلت دے یہاں تک کہ ہمارے پاس اس عالم میں پہنچیں توحکم خدا سے تندرست و تگڑے ہوں۔تھکے ماندے اوردرماندہ نہ ہوں تاکہ ہم کتاب خدا اورسنت رسول (ص) کے مطابق انہیں تقسیم کرسکیں کہ یہ بات تمہارے لئے بھی اجر عظیم کا باعث اور ہدایت سے قریب تر ہے ۔انشاء اللہ

(۲۶)

آپ کا عہد نامہ

(بعض عمال کے لئے جنہیں صدقات کی جمع آوری کے لئے روانہ فرمایا تھا )

میں انہیں حکم دیتا ہوں کہ اپنے پوشیدہ اموراورمخفی اعمال میں بھی اللہ سے ڈرتے رہیں جہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا گواہ اورنگراں نہیں وتا ہے اورخبردار ایسا نہ ہو کہ ظاہری معاملات میں خدا کی اطاعت کریں اورمخفی مسائل میں اس کی مخالفت کریں۔اس لئے کہ جس کے ظاہر وباطن اور فعل و قول میں اختلاف نہیں ہوتا ہے وہی امانت الٰہی کا ادا کرنے والا اورعبادت الٰہی میں مخلص ہوتا ہے۔

۵۰۱

وأَمَرَه أَلَّا يَجْبَهَهُمْ ولَا يَعْضَهَهُمْ - ولَا يَرْغَبَ عَنْهُمْ تَفَضُّلًا بِالإِمَارَةِ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّهُمُ الإِخْوَانُ فِي الدِّينِ - والأَعْوَانُ عَلَى اسْتِخْرَاجِ الْحُقُوقِ.

وإِنَّ لَكَ فِي هَذِه الصَّدَقَةِ نَصِيباً مَفْرُوضاً وحَقّاً مَعْلُوماً - وشُرَكَاءَ أَهْلَ مَسْكَنَةٍ وضُعَفَاءَ ذَوِي فَاقَةٍ - وإِنَّا مُوَفُّوكَ حَقَّكَ فَوَفِّهِمْ حُقُوقَهُمْ - وإِلَّا تَفْعَلْ فَإِنَّكَ مِنْ أَكْثَرِ النَّاسِ خُصُوماً يَوْمَ الْقِيَامَةِ،وبُؤْسَى لِمَنْ خَصْمُه عِنْدَ اللَّه الْفُقَرَاءُ والْمَسَاكِينُ - والسَّائِلُونَ والْمَدْفُوعُونَ والْغَارِمُونَ وابْنُ السَّبِيلِ - ومَنِ اسْتَهَانَ بِالأَمَانَةِ ورَتَعَ فِي الْخِيَانَةِ - ولَمْ يُنَزِّه نَفْسَه ودِينَه عَنْهَا - فَقَدْ أَحَلَّ بِنَفْسِه الذُّلَّ والْخِزْيَ فِي الدُّنْيَا - وهُوَ فِي الآخِرَةِ أَذَلُّ وأَخْزَى - وإِنَّ أَعْظَمَ الْخِيَانَةِ خِيَانَةُ الأُمَّةِ - وأَفْظَعَ الْغِشِّ غِشُّ الأَئِمَّةِ والسَّلَامُ.

اور پھر حکم دیتا ہوں کہ خبر دار لوگوں سے برے طریقہ سے پیش نہ آئیں۔اور انہیں پریشان نہ کریں اور نہ ان سے اظہار اقتدار کے لئے کنارہ کشی کریں کہ بہرحال یہ سب بھی دینی بھائی ہیں اورحقوق کی ادائیگی میں مدد کرنے والے ہیں۔

دیکھو ان صدقات میں تمہارا حصہ معین ہے اور تمہارا حق معلوم ہے ۔لیکن فقراء و مساکین اورفاقہ کش افراد بھی اس حق میںتمہارے شریک ہیں۔ہم تمہیں تمہارا پورا حق دینے والے ہیں ۔لہٰذا تمہیں بھی ان کا پورا حق دینا ہوگا کہ اگر ایسا نہیں کروگے تو قیامت کے دن سب سے زیادہ دشمن تمہارے ہوں گے اور سب سے زیادہ بد بختی اسی کے لئے ہے جس کے دشمن بارگاہ الٰہی میں فقرار مساکین(۱) ، سائلین،محرو مین، مقروض اور غربت زدہ مسافر ہوں اور جس شخص نے بھی امانت کو معمولی تصور کیا اورخیانت کی چراگاہ میں داخل ہوگیا اوراپنے نفس اور دین کی خیانت کاری سے نہیں بچایا۔اس نے دنیا میں بھی اپنے کوذلت اور رسوائی کی منزل میں اتار دیا اورآخرت میں تو ذلت و رسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اور یاد رکھو کہ بد ترین خیانت امت کےساتھ خیانت ہے اوربد ترین فریب کاری سربراہ دین کے ساتھ فریب کاری کا برتائو ہے۔

(۱)کاش دنیا کے تمام حکام کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ فقراء و مساکین اس دنیا میں بے آسرا اوربے سہارا ہیں لیکن آخرت میں ان کا بھی والی و وارث موجود ہے اور وہاں کسی صاحب اقتدار کا اقتدار کامآنے والا نہیں ہے۔عدالت الہیہ میں شخصیات کا کوئی اثر نہیں ہے ہر شخص کو اپنے اعمال کاحساب دینا ہوگا اوراس کے مواخذہ اور محاسب کا سامنا کرنا ہوگا۔وہاں نہ کسی کی کرسی کام آسکتی ہے اور نہ کسی کا تخت وتاج۔ افراد کے ساتھ خیانت تو برداشت بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ انفرادی معاملہ ہوتا ہے اور اسے افراد معاف کر سکتے ہیں لیکن قوم و ملت کے ساتھ خیانت ناقابل برداشت ہے کہ اس کی مدعی تمام امت ہوگی اوراتنے بڑے مقدمہ کاسامنا کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں ہے ۔

۵۰۲

(۲۷)

ومن عهد لهعليه‌السلام

إلى محمد بن أبي بكررضي‌الله‌عنه - حين قلده مصر

فَاخْفِضْ لَهُمْ جَنَاحَكَ وأَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ - وابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ وآسِ بَيْنَهُمْ فِي اللَّحْظَةِ والنَّظْرَةِ - حَتَّى لَا يَطْمَعَ الْعُظَمَاءُ فِي حَيْفِكَ لَهُمْ - ولَا يَيْأَسَ الضُّعَفَاءُ مِنْ عَدْلِكَ عَلَيْهِمْ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى يُسَائِلُكُمْ مَعْشَرَ عِبَادِه - عَنِ الصَّغِيرَةِ مِنْ أَعْمَالِكُمْ والْكَبِيرَةِ والظَّاهِرَةِ والْمَسْتُورَةِ - فَإِنْ يُعَذِّبْ فَأَنْتُمْ أَظْلَمُ وإِنْ يَعْفُ فَهُوَ أَكْرَمُ.

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه - أَنَّ الْمُتَّقِينَ ذَهَبُوا بِعَاجِلِ الدُّنْيَا وآجِلِ الآخِرَةِ - فَشَارَكُوا أَهْلَ الدُّنْيَا فِي دُنْيَاهُمْ - ولَمْ يُشَارِكُوا أَهْلَ الدُّنْيَا فِي آخِرَتِهِمْ - سَكَنُوا الدُّنْيَا بِأَفْضَلِ مَا سُكِنَتْ وأَكَلُوهَا بِأَفْضَلِ مَا أُكِلَتْ - فَحَظُوا مِنَ الدُّنْيَا بِمَا حَظِيَ بِه الْمُتْرَفُونَ - وأَخَذُوا مِنْهَا مَا أَخَذَه الْجَبَابِرَةُ

(۲۷)

آپ کا عہد نامہ

(محمد بن ابی بکرکے نام ۔جب انہیں مصر کا حاکم بنایا گیا )

لوگوں کے سامنے اپنیشانوں کو جھکا دینا اور اپنے برتائوکونرم رکھنا۔کشادہ روئی سے پیش آنا اور نگاہ وہ نظر میں بھی سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا تاکہ بڑے آدمیوں کو یہ خیال نہ پیدا ہو جائے کہ تم ان کے مفاد میں ظلم کر سکتے ہو اور کمزوروں کو تمہارے انصاف کی طرف سے مایوسی نہ ہو جائے ۔پروردگار روز قیامت تمام بندوں سے ان کے تمام چھوٹے اور بڑے ظاہر اورمخفی اعمال کے بارے میں محاسبہ کرے گا۔اس کے بعد اگروہ عذاب کرے گا تو تمہارے ظلم کانتیجہ ہوگا اور اگر معاف کردے گا تو اس کے کرم کا نتیجہ ہوگا۔

بندگان خدا! یادرکھو کہ پرہیز گار افراد دنیا اورآخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہو سکے ۔وہ دنیا میں بہترین انداز(۱) سے زندگی گزارتے رہے۔جو سب نے کھایا اس سے اچھا پاکیزہ کھاناکھایا اور وہتمام لذتیں حاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اوروہ سب کچھ پالیا جو جابر

(۱)بہترین زندگی سے مراد قصر شاہی میں قیام اورلذیذ ترین غذائیں نہیں ہیں ۔بہترین زندگی سے مراد وہ تمام اسباب ہیں جن سے زندگی گزر جائے اور انسان کسی حرام اورناجائز کام میں مبتلا نہ ہو۔

۵۰۳

الْمُتَكَبِّرُونَ - ثُمَّ انْقَلَبُوا عَنْهَا بِالزَّادِ الْمُبَلِّغِ والْمَتْجَرِ الرَّابِحِ - أَصَابُوا لَذَّةَ زُهْدِ الدُّنْيَا فِي دُنْيَاهُمْ - وتَيَقَّنُوا أَنَّهُمْ جِيرَانُ اللَّه غَداً فِي آخِرَتِهِمْ - لَا تُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَةٌ ولَا يَنْقُصُ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنْ لَذَّةٍ - فَاحْذَرُوا عِبَادَ اللَّه الْمَوْتَ وقُرْبَه - وأَعِدُّوا لَه عُدَّتَه - فَإِنَّه يَأْتِي بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وخَطْبٍ جَلِيلٍ - بِخَيْرٍ لَا يَكُونُ مَعَه شَرٌّ أَبَداً - أَوْ شَرٍّ لَا يَكُونُ مَعَه خَيْرٌ أَبَداً - فَمَنْ أَقْرَبُ إِلَى الْجَنَّةِ مِنْ عَامِلِهَا - ومَنْ أَقْرَبُ إِلَى النَّارِ مِنْ عَامِلِهَا - وأَنْتُمْ طُرَدَاءُ الْمَوْتِ - إِنْ أَقَمْتُمْ لَه أَخَذَكُمْ وإِنْ فَرَرْتُمْ مِنْه أَدْرَكَكُمْ - وهُوَ أَلْزَمُ لَكُمْ مِنْ ظِلِّكُمْ - الْمَوْتُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِيكُمْ والدُّنْيَا تُطْوَى مِنْ خَلْفِكُمْ - فَاحْذَرُوا نَاراً قَعْرُهَا بَعِيدٌ وحَرُّهَا شَدِيدٌ وعَذَابُهَا جَدِيدٌ -

اورمتکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے اس کے بعد وہ زاد راہ لے کر گئے جو منزل تک پہنچا دے اور وہ تجارتکرکے گئے جس میں فائدہ ہی فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اوریہ یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے ۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی۔ بندگان خدا! موت اوراس کے قریب سے ڈرو اور اس کے لئے سرو سامان مہیا کرلو۔کہ وہ ایک عظیم امر اوربڑے حادثہ کے ساتھ آنے والی ہے ۔ایسے خیر کے ساتھ جس میں کوئی شر(۱) نہ ہویا ایسے شر کے ساتھ جس میں کوئی خیر نہ ہو۔جنت یا جہنم کی طرف ان کے لئے عمل کرنے والوں سے زیادہ قریب تر کون ہو سکتا ہے۔تم وہ ہو جس کا موت مسلسل پیچھا کئے ہوئے ہیں۔تم ٹھہرجائو گے تب بھی تمہیں پکڑ لے گی اور فرار کرو گے تب بھی اپنی گرفت میں لے لے گی ۔وہ تمہارے ساتھ تمہارے سایہ سے زیادہ چپکی ہوئی ہے۔اسے تمہاری پیشانیوں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے اور دنیا تمہارے پیچھے سے برابر لپیٹی جارہی ہے۔اس جہنم سے ڈرو جس کی گہرائی بہت دور تک ہے اوراس کی گرمی بے حد شدید ہے اور اس کا عذاب بھی برابر تازہ بہ تازہ ہوتا رہے گا۔

(۱)اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ آخرتمیں یا صرف خیر ہے یا صرف شراور مخلوط اعمال والوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔مقصد صرف یہ ہے کہ آخرت کے ثواب و عذاب کا فلسفہ یہی ہے کہ اس میں کسی طرح کا اختلاط و امتزاج نہیں ہے۔دنیا کے ہر آرام میں تکلیف شامل ہے اور ہر تکلیف میں آرام کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور ہے لیکن آخرت میں عذاب کا ایک لمحہ بھی وہ ہے جس میں کسی راحت کا تصور نہیں ہے اور ثواب کا ایک لمحہ بھی وہ ہے جس میں کسی تکلیف کا کوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس عذاب سے ڈرے اوراس ثواب کا انتظام کرے ۔

۵۰۴

دَارٌ لَيْسَ فِيهَا رَحْمَةٌ - ولَا تُسْمَعُ فِيهَا دَعْوَةٌ ولَا تُفَرَّجُ فِيهَا كُرْبَةٌ - وإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ يَشْتَدَّ خَوْفُكُمْ مِنَ اللَّه - وأَنْ يَحْسُنَ ظَنُّكُمْ بِه فَاجْمَعُوا بَيْنَهُمَا - فَإِنَّ الْعَبْدَ إِنَّمَا يَكُونُ حُسْنُ ظَنِّه بِرَبِّه - عَلَى قَدْرِ خَوْفِه مِنْ رَبِّه - وإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ ظَنّاً بِاللَّه أَشَدُّهُمْ خَوْفاً لِلَّه.

واعْلَمْ يَا مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ - أَنِّي قَدْ وَلَّيْتُكَ أَعْظَمَ أَجْنَادِي فِي نَفْسِي أَهْلَ مِصْرَ - فَأَنْتَ مَحْقُوقٌ أَنْ تُخَالِفَ عَلَى نَفْسِكَ - وأَنْ تُنَافِحَ عَنْ دِينِكَ - ولَوْ لَمْ يَكُنْ لَكَ إِلَّا سَاعَةٌ مِنَ الدَّهْرِ - ولَا تُسْخِطِ اللَّه بِرِضَا أَحَدٍ مِنْ خَلْقِه - فَإِنَّ فِي اللَّه خَلَفاً مِنْ غَيْرِه - ولَيْسَ مِنَ اللَّه خَلَفٌ فِي غَيْرِه.

صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا الْمُؤَقَّتِ لَهَا - ولَا تُعَجِّلْ وَقْتَهَا لِفَرَاغٍ - ولَاتُؤَخِّرْهَا عَنْ وَقْتِهَا لِاشْتِغَالٍ - واعْلَمْ أَنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ عَمَلِكَ تَبَعٌ لِصَلَاتِكَ.

ومِنْه - فَإِنَّه لَا سَوَاءَ إِمَامُ الْهُدَى وإِمَامُ الرَّدَى - ووَلِيُّ النَّبِيِّ وعَدُوُّ النَّبِيِّ - ولَقَدْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إِنِّي لَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي مُؤْمِناً

وہ گھر ایسا ہے جہاں نہ رحمت کا گذر ہے اور نہ وہاں کوئی فریاد سنی جاتی ہے اور نہ کسی رنج و غم کی کشائش کا کوئی امکان ہے اگر تم لوگ یہ کرس کتے ہو کہ تمہارے دل میں خوف خدا شدید ہو جائے اورتمہیں اس سے حسن ظن حاصل ہو جائے تو ان دونوں کوجمع کرلو کہ بندہ کا حسن ظن اتنا ہی ہوتا ہے جتناخوف خدا ہوتاہے اوربہترین حسن ظن رکھنے والا وہی ہے جس کے دل میں شدید ترین خوف خدا پایا جاتا ہو ۔

محمد بن ابی بکر ! یاد رکھو کہ میں نے تم کو اپنے بہترین لشکر۔اہل مصر پر حاکم قراردیاہے ۔اب تم سے مطالبہ یہ ہے کہ اپنے نفس کی مخالفت کرنااور اپنے دین کی حفاظت کرنا چاہے تمہارے لئے دنیا میں صرف ایک ہی ساعت باقی رہ جائے اور کسی مخلوق کو خوش کرکے خالق کوناراض نہ کرنا کہ خدا ہر ایک کے بدلے کام آسکتا ہے لیکن اس کے بدلے کوئی کام نہیں آسکتا ہے۔

نماز اس کے مقررہ اوقات میں ادا کرنا۔نہ ایسا ہو کہ فرصت حاصل کرنے کے لئے پہلے ادا کرلو اور نہ ایسا ہو کہ مشغولیت کی بنا پر تاخیر کردو۔یاد رکھو کہ تمہارے ہر عمل کو نماز کا پابند ہونا چاہیے ۔

یاد رکھو کہ امام ہدایت اور پیشوا ئے ہلاکت ایک جیسے نہیں ہو سکتے ہیں۔نبی کا دوست اور دشمن یکساں نہیں ہوتا ہے۔رسول اکرم (ص) نے خود مجھ سے فرمایا ہے کہ ''میں اپنی امت کے بارے میں نہ کسی مومن سے خوفزدہ

۵۰۵

ولَا مُشْرِكاً - أَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَمْنَعُه اللَّه بِإِيمَانِه - وأَمَّا الْمُشْرِكُ فَيَقْمَعُه اللَّه بِشِرْكِه - ولَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ كُلَّ مُنَافِقِ الْجَنَانِ - عَالِمِ اللِّسَانِ - يَقُولُ مَا تَعْرِفُونَ ويَفْعَلُ مَا تُنْكِرُونَ.

(۲۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية جوابا قال الشريف: وهو من محاسن الكتب

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَتَانِي كِتَابُكَ - تَذْكُرُ فِيه اصْطِفَاءَ اللَّه مُحَمَّداً صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لِدِينِه - وتَأْيِيدَه إِيَّاه لِمَنْ أَيَّدَه مِنْ أَصْحَابِه - فَلَقَدْ خَبَّأَ لَنَا الدَّهْرُ مِنْكَ عَجَباً - إِذْ طَفِقْتَ تُخْبِرُنَا بِبَلَاءِ اللَّه تَعَالَى عِنْدَنَا - ونِعْمَتِه عَلَيْنَا فِي نَبِيِّنَا - فَكُنْتَ فِي ذَلِكَ كَنَاقِلِ التَّمْرِ إِلَى هَجَرَ - أَوْ دَاعِي مُسَدِّدِه إِلَى النِّضَالِ - وزَعَمْتَ أَنَّ أَفْضَلَ النَّاسِ فِي الإِسْلَامِ فُلَانٌ وفُلَانٌ -

ہوں اورنہ مشرک سے۔مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اورمشرک کو اس کے شرک کی بنا پرمغلوب کردے گا سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم ہوں اوردل کے منافق کہتے وہی ہیں جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہ ہیں جسے تم برا سمجھتے ہو۔

(۲۸)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے خط کے جواب میں جو بقول سید رضی آپ کا بہترین خط)

امابعد!میرے پاس تمہارا خطآیا ہےجدجسےتم نےرسولاکرم کے دین خداکےلئےمنتخب ہونےاورآپکے پروردگارکی طرفسے اصحاب کےذریعہ مویدہونےکاذکرکیاہےلیکن یہ توایک بڑی عجیب و غریب بات ہےجو زمانےنےتمہارےطرف چھپا کررکھی تھی کہ تم ہم کو ان احسانات کی اطلاع دے رہے ہو جو پروردگارنےہمارےہی ساتھ کئے ہیں اوراس نعمت کی خبردےرہےہوجو ہمارےہی پیغمبر(ص) کوملی ہےگویاکہ تم مقام ہجرکی طرف خرمےبھیج رہےہویا استادکو تیراندازی کی دعوت دےرہےہواسکےبعدتمہاراخیال ہےکہ فلاں(۱)

(۱)معاویہ نے یہ خط ابو امامہ باہلی کے ذریعہ بھیجا تھا اور اس میں متعدد مسائل کی طرف اشارہ کیا تھا۔سب سے بڑا مسئلہ حضرات شیخین کے فضائل کا تھا کہ حضرت علی کے ساتھ اکثریت انہیں افراد کی تھی جو آپ کو سلسلہ سے چوتھا خلیفہ تسلیم کرتے تھے۔اب اگر آپ ان کے باے میں اپنی صحیح رائے کا اظہار کردیں تو قوم بد ظن ہو جائے گی اور معاشرہ میں ایک نیا فتنہ کھڑا ہو جائے گا اوراگر ان کے فضائل کا اقرار کرلیں تو گویا ان تمام کلمات کی تکذیب کردی جو کل تک اپنی فضیلت یا مظلومیت کے بارے میں بیان کرتے تھے حضرت نے اس حساس صورت حالکا بخوبی اندازہ کرلیا اورواضح جواب دینے کے بجائے معاویہ کو اس مسئلہ سے الگ رہنے کی تلقین فرمائی اور سے اس کی اوقات سے بھی با خبر کردیا کہ یہ مسئلہ صدر اسلام کا ہے اور اس وقت تو تمہارا باپ بھی مسلمان نہیں تھا تمہارا کیا ذکر ہے؟ لہٰذا ایسے مسائل میں تمہیں رائے دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔البتہ یہ بہر حال ثابت ہو جاتا ہے کہ ان فضائل میں تمہارے خاندان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

۵۰۶

فَذَكَرْتَ أَمْراً إِنْ تَمَّ اعْتَزَلَكَ كُلُّه - وإِنْ نَقَصَ لَمْ يَلْحَقْكَ ثَلْمُه - ومَا أَنْتَ والْفَاضِلَ والْمَفْضُولَ والسَّائِسَ والْمَسُوسَ - ومَا لِلطُّلَقَاءِ وأَبْنَاءِ الطُّلَقَاءِ - والتَّمْيِيزَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ الأَوَّلِينَ - وتَرْتِيبَ دَرَجَاتِهِمْ وتَعْرِيفَ طَبَقَاتِهِمْ - هَيْهَاتَ لَقَدْ حَنَّ قِدْحٌ لَيْسَ مِنْهَا - وطَفِقَ يَحْكُمُ فِيهَا مَنْ عَلَيْه الْحُكْمُ لَهَا - أَلَا تَرْبَعُ أَيُّهَا الإِنْسَانُ عَلَى ظَلْعِكَ - وتَعْرِفُ قُصُورَ ذَرْعِكَ - وتَتَأَخَّرُ حَيْثُ أَخَّرَكَ الْقَدَرُ - فَمَا عَلَيْكَ غَلَبَةُ الْمَغْلُوبِ ولَا ظَفَرُ الظَّافِرِ.

وإِنَّكَ لَذَهَّابٌ فِي التِّيه رَوَّاغٌ عَنِ الْقَصْدِ - أَلَا تَرَى غَيْرَ مُخْبِرٍ لَكَ - ولَكِنْ بِنِعْمَةِ اللَّه أُحَدِّثُ - أَنَّ قَوْماً اسْتُشْهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّه تَعَالَى مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - ولِكُلٍّ فَضْلٌ - حَتَّى إِذَا اسْتُشْهِدَ شَهِيدُنَا قِيلَ سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ - وخَصَّه رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بِسَبْعِينَ تَكْبِيرَةً عِنْدَ صَلَاتِه عَلَيْه - أَولَا تَرَى أَنَّ قَوْماً قُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّه - ولِكُلٍّ

اورفلاں افراد سے بہتر تھے تو یہ تو ایسی بات ہے کہ اگر ایسی بات ہے کہ اگر صیح بھی ہو تو اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر غلط بھی ہو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔تمہارا اس فاضل و مفضول، حاکم و رعایا کے مسئلہ سے کیاتعلق ہے۔بھلا آزاد کردہ اور ان کی اولاد کومہاجرین اولین کے درمیان امتیاز قائم کرنے۔ان کے درجات کا تعین کرنے اور ان کے طبقات کے پہنچوانے کا حق کیا ہے(یہ تو اس وقت مسلمان بھی نہیں تھے ) افسوس کہ جوئے کے تیروں کے ساتھ باہر کے تیر بھی آواز نکالنے لگے اور مسائل میں و لوگ بھی کرنے لگے جن کے خلاف خود ہی فیصلہ ہونے والا ہے۔اے شخص تو اپنے لنگڑے پن کو دیکھ کر اپنی حد پرٹھہرتاکیوں نہیں ہے اور اپنی کوتاہ دستی کو سمجھتا کیوں نہیں ہے اور جہاں قضا و قدر نے تجھے رکھ دیا ہے وہیں پیچھے ہٹ کرجاتا کیوں نہیں ہے۔تجھے کسی مغلوب کی شکست یا غالب کی فتح سے کیا تعلق ہے۔

تو تو ہمیشہ گمراہیوں میں ہاتھ پائوں مارنے والا اوردرمیانی راہسے انحراف کرنے والا ہے۔میں تجھے با خبر نہیں کررہا ہوں بلکہ نعمتخدا کا تذکرہ کر رہا ہوں ورنہ کیا تجھے نہیں معلوم ہے کہ مہاجرین وانصار کی ایک بڑی جماعت نے راہ خدا میں جانیں دی ہیں اور سب صاحبان فضل ہیں لیکن جب ہمارا کوئی شہید ہوا ہے تو اسے سید الشہدا کہا گیا ہے اور رسول اکرم (ص) نے اس کے جنازہ کی نمازمیں ستر تکبیریں کہی ہیں۔اسی طرح تجھے معلوم ہے کہ راہ خدا میں بہت سوں کے ہاتھ کٹے ہیں اورصاحبان

۵۰۷

فَضْلٌ - حَتَّى إِذَا فُعِلَ بِوَاحِدِنَا مَا فُعِلَ بِوَاحِدِهِمْ - قِيلَ الطَّيَّارُ فِي الْجَنَّةِ وذُو الْجَنَاحَيْنِ - ولَوْ لَا مَا نَهَى اللَّه عَنْه مِنْ تَزْكِيَةِ الْمَرْءِ نَفْسَه - لَذَكَرَ ذَاكِرٌ فَضَائِلَ جَمَّةً تَعْرِفُهَا قُلُوبُ الْمُؤْمِنِينَ - ولَا تَمُجُّهَا آذَانُ السَّامِعِينَ - فَدَعْ عَنْكَ مَنْ مَالَتْ بِه الرَّمِيَّةُ - فَإِنَّا صَنَائِعُ رَبِّنَا والنَّاسُ بَعْدُ صَنَائِعُ لَنَا - لَمْ يَمْنَعْنَا قَدِيمُ عِزِّنَا - ولَا عَادِيُّ طَوْلِنَا عَلَى قَوْمِكَ أَنْ خَلَطْنَاكُمْ بِأَنْفُسِنَا - فَنَكَحْنَا وأَنْكَحْنَا - فِعْلَ الأَكْفَاءِ ولَسْتُمْ هُنَاكَ - وأَنَّى يَكُونُ ذَلِكَ ومِنَّا النَّبِيُّ ومِنْكُمُ الْمُكَذِّبُ - ومِنَّا أَسَدُ اللَّه ومِنْكُمْ أَسَدُ الأَحْلَافِ - ومِنَّا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ومِنْكُمْ صِبْيَةُ النَّارِ - ومِنَّا خَيْرُ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ومِنْكُمْ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ - فِي كَثِيرٍ مِمَّا لَنَا وعَلَيْكُمْ.

فَإِسْلَامُنَا قَدْ سُمِعَ وجَاهِلِيَّتُنَا لَا تُدْفَعُ - وكِتَابُ اللَّه يَجْمَعُ لَنَا مَا شَذَّ عَنَّا -

شرف ہیں لیکن جب ہمارے آدمی کے ہاتھ کاٹے گئے تواسے جنت میں طیار اورذوالجناحین بنادیا گیا اور اگر پروردگار نے اپنے منہ سے اپنی تعریف سے منع نہ کیا ہو تو بیان کرنے والا بے شمار فضائل بیان کرتا جنہیں صاحبان ایمان کے دل پہچانتے ہیں اور سننے والوں کے کان بھی الگ نہیں کرنا چاہتے چھوڑو ان کاذکر جن کا تیرنشانہسے خطا کرنے والا ہے۔ہمیں دیکھو جو پروردگار کے براہ راست ساختہ پر داختہ ہیں اورباقی لوگ ہمارے احسانات کا نتیجہ ہیں ہماری قدیمی عزت اور تمہاری قوم پر برتری ہمارے لئے اس امر سے مانع نہیں ہوئی کہ ہم نے تم کو اپنے ساتھ شامل کرلیا تو تم سے رشتے(۱) لئے اور تمہیں رشتے دئیے جو عام سے برابر کے لوگوں میں کیا جاتا ہے اور تم ہمارے برابر کے نہیں ہو اور ہو بھی کس طرح سکتے ہو جب کہ ہم میں سے رسول اکرم (ص) ہیں اور تم میں سے ان کی تکذیب کرنے والا۔ہم میں اسد اللہ ہیں اور تم میں اسد الاحلاف۔ہم میں سرداران جوانان جنت ہیں اورتم میں جہنمی لڑکے۔ہم میں سیدة نساء العالمین ہیں اور تم میں حمالتہ الحطب اور ایسی بے شمار چیزیں ہی جوہمارے حق میں ہیں اور تمہارے خلاف۔ ہمارا اسلام بھی مشہور ہے اور ہمارا قبل اسلام کاشرف بھی نا قابل انکار ہے اور کتاب خدا نے ہمارے منتشر اوصاف کو جمع کردیا ہے۔یہ کہہ کر کہ

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اپنے ہاتھ کی پروردہ لڑکیوں کا عقد بنی امیہ میں کردیا اور ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے خود عقد کرلیا حالانکہ عام طور سے لوگ رشتوں کے لئے برابری تلاش کرتے ہیں۔مگر چونکہ اسلام نے ظاہری کلمہ کو کافی قراردیا ہے لہٰذا ہم نے بھی رشتہ داری قائم کرلی او ر تمہاری اوقات کا خیال نہیں کیا تاکہ مذہب سماج پر حاکم رہے اور سماج مذہب پرحکومت نہ کرنے پائے ۔

۵۰۸

وهُوَ قَوْلُه سُبْحَانَه وتَعَالَى -( وأُولُوا الأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ فِي كِتابِ الله ) - وقَوْلُه تَعَالَى:( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوه - وهذَا النَّبِيُّ والَّذِينَ آمَنُوا - والله وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ) - فَنَحْنُ مَرَّةً أَوْلَى بِالْقَرَابَةِ وتَارَةً أَوْلَى بِالطَّاعَةِ - ولَمَّا احْتَجَّ الْمُهَاجِرُونَ عَلَى الأَنْصَارِ - يَوْمَ السَّقِيفَةِ بِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَجُوا عَلَيْهِمْ - فَإِنْ يَكُنِ الْفَلَجُ بِه فَالْحَقُّ لَنَا دُونَكُمْ - وإِنْ يَكُنْ بِغَيْرِه فَالأَنْصَارُ عَلَى دَعْوَاهُمْ. وزَعَمْتَ أَنِّي لِكُلِّ الْخُلَفَاءِ حَسَدْتُ وعَلَى كُلِّهِمْ بَغَيْتُ - فَإِنْ يَكُنْ ذَلِكَ كَذَلِكَ فَلَيْسَتِ الْجِنَايَةُ عَلَيْكَ - فَيَكُونَ الْعُذْرُ إِلَيْكَ. وتِلْكَ شَكَاةٌ ظَاهِرٌ عَنْكَ عَارُهَا

وقُلْتَ إِنِّي كُنْتُ أُقَادُ - كَمَا يُقَادُ الْجَمَلُ الْمَخْشُوشُ حَتَّى أُبَايِعَ؛ ولَعَمْرُ اللَّه لَقَدْ أَرَدْتَ أَنْ تَذُمَّ فَمَدَحْتَ - وأَنْ تَفْضَحَ فَافْتَضَحْتَ - ومَا عَلَى الْمُسْلِمِ مِنْ غَضَاضَةٍ فِي أَنْ يَكُونَ مَظْلُوماً - مَا لَمْ يَكُنْ شَاكَّاً فِي دِينِه

''قرابت دار بعض بعض کے لئے اولیٰ ہیں '' اور یہ کہہ کر کہ '' ابراہیم کے لئے زیادہ قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا اتباع کیا ہے اور پیغمبر (ص) اور صاحبان ایمان اور اللہ صاحبان ایمان کاولی ہے '' یعنی ہم قرابت کے اعتبارسے بھی اولیٰ ہیں اوراطاعت و اتباع کے اعتبار سے بھی اس کے بعد جب مہاجرین نے انصار کے خلاف روز سقیفہ قرابت پیغمبر(ص) سے استدلال کیا اور کامیاب بھی ہوگئے ۔تواگر کامیابی کا راز یہی ہے تو حق ہمارے ساتھ ہے نہ کہ تمہارے ساتھ اوراگر کوئی اور دلیل ہے تو انصار کا دعویٰ باقی ہے۔

تمہارا خیال ہے کہ میں تمام خلفاء سے حسد رکھتا ہوں اورمیں نے سب کے خلاف بغاوت کی ہے تو اگر یہ صحیح بھی ہے تو اس کاظلم تم پر نہیں ہے کہ تم سے معذرت کی جائے ( یہ وہ غلطی ہے جس سے تم پر کوئی حرف نہیں آتا) بقول شاعر

اورتمہارا یہ کہنا کہ میں اس طرح کھینچا جا رہا تھا جس طرح نکیل ڈال کر اونٹ کو کھینچا جاتا ہے تاکہ مجھ سے بیعت لی جائے تو خدا کی قس تم نے میری مذمت کرنا چاہی اور نا دانستہ طور پر تعریف کر بیٹھے اور مجھے رسوا کرنا چاہا تھا مگرخودرسوا ہوگئے ۔

مسلمان کے لئے اس بات میں کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ مظلوم ہو جائے جب تک کہ وہ دین کے معاملہ میں شک میں مبتلا نہ ہو اور اس کا یقین شبہ میں نہ پڑ

۵۰۹

ولَا مُرْتَاباً بِيَقِينِه - وهَذِه حُجَّتِي إِلَى غَيْرِكَ قَصْدُهَا - ولَكِنِّي أَطْلَقْتُ لَكَ مِنْهَا بِقَدْرِ مَا سَنَحَ مِنْ ذِكْرِهَا.

ثُمَّ ذَكَرْتَ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِي وأَمْرِ عُثْمَانَ - فَلَكَ أَنْ تُجَابَ عَنْ هَذِه لِرَحِمِكَ مِنْه - فَأَيُّنَا كَانَ أَعْدَى لَه وأَهْدَى إِلَى مَقَاتِلِه أَمَنْ بَذَلَ لَه نُصْرَتَه فَاسْتَقْعَدَه واسْتَكَفَّه - أَمْ مَنِ اسْتَنْصَرَه فَتَرَاخَى عَنْه وبَثَّ الْمَنُونَ إِلَيْه - حَتَّى أَتَى قَدَرُه عَلَيْه - كَلَّا واللَّه لَاَّه( قَدْ يَعْلَمُ الله الْمُعَوِّقِينَ مِنْكُمْ - والْقائِلِينَ لإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا - ولا يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلَّا قَلِيلًا ) -.

ومَا كُنْتُ لأَعْتَذِرَ مِنْ أَنِّي كُنْتُ أَنْقِمُ عَلَيْه أَحْدَاثاً - فَإِنْ كَانَ الذَّنْبُ إِلَيْه إِرْشَادِي وهِدَايَتِي لَه - فَرُبَّ مَلُومٍ لَا ذَنْبَ لَه -

وقَدْ يَسْتَفِيدُ الظِّنَّةَ الْمُتَنَصِّحُ

ومَا أَرَدْتُ( إِلَّا الإِصْلاحَ مَا اسْتَطَعْتُ - وما تَوْفِيقِي إِلَّا بِالله عَلَيْه تَوَكَّلْتُ وإِلَيْه أُنِيبُ )

وذَكَرْتَ أَنَّه لَيْسَ لِي ولأَصْحَابِي عِنْدَكَ

جائے۔میری دلیل اصل میں دوسروں کے مقابلہ میں ہے لیکن جس قدر مناسب تھا میں نے تم سے بھی بیان کردیا۔

اس کے بعد تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ذکرکیا ہے تو اس میں تمہارا حق ہے کہ تمہیں جواب دیا جائے اس لئے کہ تم ان کے قرابت دار ہو لیکن یہ سچ سچ بتائو کہ ہم دونوں میں ان کا زیادہ دشمن کون تھا اورکس نے ان کے قتل کا سامان فراہم کیا تھا۔اسنے جس نے نصرت کی پیشکش کی اوراسے بٹھا دیا گیا اور روکدیا گیا یا اسنے جس سے نصرت کا مطالبہ کیاگیا اور اس نے سستی برتی اورموت کا رخ ان کی طرف موڑ دیا۔یہاں تک کہ قضا و قدرنے اپنا کام پورا کردیا۔خدا کی قسم میں ہرگز اس کا مجرم نہیں ہوں اور اللہ ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو روکنے والے تھے اور اپنے بھائیوں سے کہہ رہے تھے کہ ہماری طرف چلے آئو اور جنگ میں بہت کم حصہ لینے والے تھے۔

میں اس بات کی معذرت نہیں کر سکتا کہ میں ان کی بدعتوں پر برابر اعتراض کر رہا تھا کہ اگر یہ ارشاد اور ہدایت بھی کوئی گناہ تھا تو بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی بے گناہ بھی ملامت کی جاتی ہے اور ''کبھی کبھی واقعی نصیحت کرنے والے بھی بد نام ہو جاتے ہیں ' ' میں نے اپنے امکان بھر اصلاح کی کوشش کی اور میری توفیق صرف اللہ کے سہارے ہے۔اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میری توجہ ہے ''

تم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تمہارے پاس

۵۱۰

إِلَّا السَّيْفُ - فَلَقَدْ أَضْحَكْتَ بَعْدَ اسْتِعْبَارٍ مَتَى أَلْفَيْتَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنِ الأَعْدَاءِ نَاكِلِينَ - وبِالسَّيْفِ مُخَوَّفِينَ؟! فَلَبِّثْ قَلِيلًا يَلْحَقِ الْهَيْجَا حَمَلْ

فَسَيَطْلُبُكَ مَنْ تَطْلُبُ - ويَقْرُبُ مِنْكَ مَا تَسْتَبْعِدُ - وأَنَا مُرْقِلٌ نَحْوَكَ فِي جَحْفَلٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - والتَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ - شَدِيدٍ زِحَامُهُمْ سَاطِعٍ قَتَامُهُمْ - مُتَسَرْبِلِينَ سَرَابِيلَ الْمَوْتِ - أَحَبُّ اللِّقَاءِ إِلَيْهِمْ لِقَاءُ رَبِّهِمْ - وقَدْ صَحِبَتْهُمْ ذُرِّيَّةٌ بَدْرِيَّةٌ وسُيُوفٌ هَاشِمِيَّةٌ - قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نِصَالِهَا - فِي أَخِيكَ وخَالِكَ وجَدِّكَ وأَهْلِكَ -( وما هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ )

(۲۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل البصرة

میرے اور میرے اصحاب کے لئے(۱) تلوار کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو یہ کہہ کر تم نے روتے کو ہنسا دیا ہے بھلا تم نے اولاد عبدالمطلب کو کب دشمنوں سے پیچھے ہٹتے یا تلوار سے خوفزدہ ہوتے دیکھا ہے ؟

''ذرا ٹھہر جائو کہ حمل میدان جنگ تک پہنچ جائے ''

عنقریب جسے تم ڈھونڈ رہے ہو وہ تمہیں خود ہی تلاش کرلے گا اور جس چیز کو بعید خیال کر رہے ہو اسے قریب کردے گا۔اب میں تمہاری طرف مہاجرین و انصار کے لشکر کے ساتھ بہت جلد آرہا ہوں اور میرے ساتھ وہ بھی ہیں جو ان کے نقش قدم پر ٹھیک طریقہ سے چلنے والے ہیں۔ان کا حملہ شدید ہوگااور غبار جنگ ساری فضا میں منتشر ہوگا۔یہ موت کا لباس پہنے ہوں گے اور ان کی نظر میں بہترین ملاقات پروردگار کی ملاقات ہوگی۔ان کے ساتھ اصحاب بدر کی ذریت اوربنی ہاشم کی تلواریں ہوں گی۔تم نے ان کی تلواروں کی کاٹ اپنے بھائی ماموں ،نانا اور خاندان والوں میں دیکھ لی ہے اور وہ ظالموں سے اب بھی دور نہیں ہے ''

(۲۹)

آپ کا مکتوب گرامی

(اہل بصرہ کے نام)

(۱)قیامت کی بات ہے کہ معاویہ تلوار کی دھمکی صاحب ذوالفقار کو دے رہا ہے جب کہ اسے معلوم ہے کہ علی اس بہادر کا نام ہے جس نے دس برس کی عمرمیں تمام کفارو مشرکین سے رسول اکرم (ص) کو بچانے کاوعدہ کیاتھا اور ہجرت کی رات تلوار کی چھائوں میں نہایت سکون و اطمینان سے سویا ہے اور بدرکے میدان میں تمام روسا ء کفار و مشرکین اور زعماء بنی امیہ کا تن تنہاخاتمہ کردیا ہے۔ایں چہ بوالعجی است

۵۱۱

وقَدْ كَانَ مِنِ انْتِشَارِ حَبْلِكُمْ وشِقَاقِكُمْ - مَا لَمْ تَغْبَوْا عَنْه - فَعَفَوْتُ عَنْ مُجْرِمِكُمْ ورَفَعْتُ السَّيْفَ عَنْ مُدْبِرِكُمْ - وقَبِلْتُ مِنْ مُقْبِلِكُمْ - فَإِنْ خَطَتْ بِكُمُ الأُمُورُ الْمُرْدِيَةُ - وسَفَه الآرَاءِ الْجَائِرَةِ إِلَى مُنَابَذَتِي وخِلَافِي - فَهَا أَنَا ذَا قَدْ قَرَّبْتُ جِيَادِي ورَحَلْتُ رِكَابِي - ولَئِنْ أَلْجَأْتُمُونِي إِلَى الْمَسِيرِ إِلَيْكُمْ - لأُوقِعَنَّ بِكُمْ وَقْعَةً - لَا يَكُونُ يَوْمُ الْجَمَلِ إِلَيْهَا إِلَّا كَلَعْقَةِ لَاعِقٍ - مَعَ أَنِّي عَارِفٌ لِذِي الطَّاعَةِ مِنْكُمْ فَضْلَه - ولِذِي النَّصِيحَةِ حَقَّه - غَيْرُ مُتَجَاوِزٍ مُتَّهَماً إِلَى بَرِيٍّ ولَا نَاكِثاً إِلَى وَفِيٍّ.

(۳۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

فَاتَّقِ اللَّه فِيمَا لَدَيْكَ - وانْظُرْ فِي حَقِّه عَلَيْكَ - وارْجِعْ إِلَى مَعْرِفَةِ مَا

تمہاری تفرقہ(۲) پردازی اورمخالفت کا جو عالم تھا وہ تم سے مخفی نہیں ہے لیکن میں نے تمہارے مجرموں کو معاف کردیا۔بھاگنے والوں سے تلوار اٹھالی۔آنے والوں کو بڑھ کرگلے لگالیا۔اب اس کے بعد بھی اگر تمہاری تباہ کن راء اور تمہارے ظالمانہ افکار کی حماقت تمہیں میری مخالفت اورعہد شکنی پر آمادہ کر رہی ہے تو یاد رکھو کہمیں نے گھوڑوں کو قریب کرلیا ہے۔اونٹوں پر سامان بار کرلیا ہے اوراگر تم نے گھرسے نکلنے پر مجبور کردیا تو ایسی معرکہ آرائی کروں گا کہ جنگ جمل فقط زبان کی چاٹ رہ جائے گی۔

میں تمہارے اطاعت گذاروں کے شرف کو پہچانتا ہوں اورمخلصین کے حق کو جانتا ہوں ۔میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ مجرم سے آگے بڑھ کربے خطا پر حملہ کردوں یا عہد شکن سے تجاوز کرکے وفادار سے بھی تعرض کروں۔

(۳۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

جو کچھ سازو سامان تمہارے پاس ہے اس میں اللہ سے ڈرو اور جواس کاحق تمہارے اوپر ہے اس پر نگاہ رکھو۔ اس حق کی معرفت کی طرف پلٹ آئو جس سے نا

(۱) پہلے اہل بصرہنے وفاداری کا اعلان کیا تو حضرت نے عثمان بن حنیف کو عامل بنا کربھیج دیا ۔اس کے بعد عائشہ وارد ہوئیں تواکثریت منحرف ہوگئی اور جنگ جمل کی نوبت آگئی لیکن آپ نے عام طور سے سب کو معاف کردیا اور عائشہ بھی مدینہ واپس چلی گئیں۔لیکن معاویہ نے پھر دوبارہ ورغلانا شروع کردیا تو آپ نے یہ تنبیہی خط روانہ فرمایا کہ جنگ جمل تو صرف مزہ چکھانے کے لئے تھی جنگ تو اب ہونے والی ہے۔لہٰذا ہوش میںآجائو اورمعاویہ کے بہکانے پر راہ حق سے انحراف نہ کرو۔

۵۱۲

لَا تُعْذَرُ بِجَهَالَتِه - فَإِنَّ لِلطَّاعَةِ أَعْلَاماً وَاضِحَةً - وسُبُلًا نَيِّرَةً ومَحَجَّةً نَهْجَةً وغَايَةً مُطَّلَبَةً - يَرِدُهَا الأَكْيَاسُ ويُخَالِفُهَا الأَنْكَاسُ - مَنْ نَكَبَ عَنْهَا جَارَ عَنِ الْحَقِّ وخَبَطَ فِي التِّيه - وغَيَّرَ اللَّه نِعْمَتَه وأَحَلَّ بِه نِقْمَتَه - فَنَفْسَكَ نَفْسَكَ فَقَدْ بَيَّنَ اللَّه لَكَ سَبِيلَكَ - وحَيْثُ تَنَاهَتْ بِكَ أُمُورُكَ - فَقَدْ أَجْرَيْتَ إِلَى غَايَةِ خُسْرٍ ومَحَلَّةِ كُفْرٍ - فَإِنَّ نَفْسَكَ قَدْ أَوْلَجَتْكَ شَرّاً وأَقْحَمَتْكَ غَيّاً - وأَوْرَدَتْكَ الْمَهَالِكَ وأَوْعَرَتْ عَلَيْكَ الْمَسَالِكَ.

(۳۱)

ومن وصية لهعليه‌السلام

للحسن بن عليعليه‌السلام - كتبها إليه بحاضرين عند انصرافه من صفين:

مِنَ الْوَالِدِ الْفَانِ الْمُقِرِّ لِلزَّمَانِ الْمُدْبِرِ الْعُمُرِ - الْمُسْتَسْلِمِ لِلدُّنْيَا

واقفیت قابل معافی نہیں ہے۔دیکھو اطاعت کے نشانات واضح، راستے روشن ، شاہراہیں سیدھی ہیں اور منزل مقصود سامنے ہے جس پر تمام عقل والے وارد ہوتے ہیں۔اور پست فطرت اس کی مخالفت کرتے ہیں۔جو اس ہدف سے منحرف ہوگیا وہ راہ حق سے ہٹ گیا اور گمراہی میںٹھوکر کھانے لگا۔اللہ نے اس کی نعمتوں کو سلب کرلیا اور اپناعذاب اس پروارد کردیا۔لہٰذا اپنے نفس کاخیال رکھو اوراسے ہلاکت سے بچائو کہ پروردگار نے تمہارے لئے راستہ کو واضح کردیا ہے اور وہ منزل بتادی ہے جہاں تک امور کو جانا ہے۔تم نہایت تیزی سے بدترین خسارہ اور کفر کی منزل کی طرف بھاگے جا رہے ہو۔تمہارے نفس نے تمہیں بدبختی میں ڈال دیا ہے اور گمراہی میں جھونک دیا ہے۔ہلاکت کی منزلوں میں وارد کردیا ہے اور صحیح راستوں کودشوار گزار بنادیاہے۔

(۳۱)

آپ کا وصیت نامہ

( جسے امام حسن کے نام صفین سے واپسی پر مقام حاضرین میں تحریر فرمایا ہے )

یہ وصیت ایک ایسے باپ(۱) کی ہے۔جو فنا ہونے والا اور زمانہ کے تصرفات کا اقرار کرنے والا ہے۔جس کی عمرخاتمہ کے قریب ہے اور وہ دنیا کے مصائب کے سامنے

(۱)بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ وصیت نامہ جناب محمد حنیفہ کے نام ہے اور سید رضی علیہ الرحمہ نے اسے امام حسن کے نام بتایا ہے۔بہرحال یہ ایک عام وصیت نامہ ہے جس سے ہر باپ کو استفادہ کرنا چاہیے اور اپنی اولاد کو انہیں خطوط پر وصیت و نصیحت کرنا چاہیے ورنہ اس کا مکمل مضمون مولائے کائنات پرمنطبق ہوتا ہے اور نہ امام حسن پر۔ اورنہ ایسے وصیت نامے کسی ایک فرد سے مخصوص ہواکرتے ہیں۔یہ انسانیت کا عظیم ترین منشور ہے جس میں عظیم ترین باپ نے عظیم ترین بیٹے کو مخاطب قرار دیا ہے تاکہ دیگر افراد ملت اس سے استفادہ کریں بلکہ عبرت حاصل کریں ۔

۵۱۳

السَّاكِنِ مَسَاكِنَ الْمَوْتَى والظَّاعِنِ عَنْهَا غَداً - إِلَى الْمَوْلُودِ الْمُؤَمِّلِ مَا لَا يُدْرِكُ - السَّالِكِ سَبِيلَ مَنْ قَدْ هَلَكَ - غَرَضِ الأَسْقَامِ ورَهِينَةِ الأَيَّامِ - ورَمِيَّةِ الْمَصَائِبِ وعَبْدِ الدُّنْيَا وتَاجِرِ الْغُرُورِ - وغَرِيمِ الْمَنَايَا وأَسِيرِ الْمَوْتِ - وحَلِيفِ الْهُمُومِ وقَرِينِ الأَحْزَانِ - ونُصُبِ الآفَاتِ وصَرِيعِ الشَّهَوَاتِ وخَلِيفَةِ الأَمْوَاتِ.

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ فِيمَا تَبَيَّنْتُ مِنْ إِدْبَارِ الدُّنْيَا عَنِّي - وجُمُوحِ الدَّهْرِ عَلَيَّ وإِقْبَالِ الآخِرَةِ إِلَيَّ - مَا يَزَعُنِي عَنْ ذِكْرِ مَنْ سِوَايَ - والِاهْتِمَامِ بِمَا وَرَائِي - غَيْرَ أَنِّي حَيْثُ تَفَرَّدَ بِي دُونَ هُمُومِ النَّاسِ هَمُّ نَفْسِي - فَصَدَفَنِي رَأْيِي وصَرَفَنِي عَنْ هَوَايَ - وصَرَّحَ لِي مَحْضُ أَمْرِي - فَأَفْضَى بِي إِلَى جِدٍّ لَا يَكُونُ فِيه لَعِبٌ - وصِدْقٍ لَا يَشُوبُه كَذِبٌ ووَجَدْتُكَ بَعْضِي - بَلْ وَجَدْتُكَ كُلِّي - حَتَّى كَأَنَّ شَيْئاً لَوْ أَصَابَكَ أَصَابَنِي - وكَأَنَّ الْمَوْتَ لَوْ أَتَاكَ أَتَانِي – فَعَنَانِي مِنْ أَمْرِكَ مَا يَعْنِينِي مِنْ أَمْرِ نَفْسِي - فَكَتَبْتُ إِلَيْكَ كِتَابِي - مُسْتَظْهِراً بِه

سپرانداختہ ہے۔مرنے والوں کی بستی میں مقیم ہے اور کل یہاں سے کوچ کرنے والا ہے ۔ اس فرزند کے نام جو دنیا میں وہ امیدیں رکھے ہوئے ہے جو حاصل ہونے والی نہیں ہیں اورہلاک ہوجانے والوں کے راستے پر گامزن ہے ' بیماریوں کا نشانہ اور روز گار کے ہاتھوں گوی ہے۔مصائب زمانہ کا ہدف اور دنیا کا پابند ہے۔اس کا فریب کاریوں کا تاجر اوروت کا قرضدار ہے۔اجل کا قیدی اور رنج و غم کا ساتھی مصیبتوں کاہمنشیں ہے اورآفتوں کا نشانہ ' خواہشات کامارا ہوا ہے اورمرنے والوں کا جانشین۔

اما بعد! میرے لئے دنیا کے منہ پھیر لینے ۔زمانہ کے ظلم و زیادتی کرنے اورآخرت کے میری طرف آنے کی وجہ سے جن باتوں کا انکشاف ہوگیا ہے انہوں نے مجھے دوسروں کے ذکر اوراغیار کے اندیشہ سے روک دیا ہے۔مگر جب میں تمام لوگوں کی فکرسے الگ ہو کر اپنی فکر میں پڑا تو میریرائے نے مجھے خواہشات سے روک دیا اور مجھ پرواقعی حقیقت منکشف ہوگئی جس نے مجھے اس محنت و مشقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کا کیل نہیں ہے اور اس صداقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کی غلط بیانی نہیں ہے۔میں نے تم کو اپنا ہی ایک حصہ پایا بلکہ تم کو اپنا سراپا وجود سمجھا کہ تمہاری تکلیف میری تکلیف ہے اور تمہاری موت میری موت ہے اس لئے مجھے تمہارے معاملات کی اتنی ہی فکر ہے جتنی اپنے معاملات کی ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے یہ تحریر لکھی دی ہے جس کے ذریعہ تمہاری امداد کرنا چاہتا ہوں

۵۱۴

إِنْ أَنَا بَقِيتُ لَكَ أَوْ فَنِيتُ.

فَإِنِّي أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّه أَيْ بُنَيَّ ولُزُومِ أَمْرِه - وعِمَارَةِ قَلْبِكَ بِذِكْرِه والِاعْتِصَامِ بِحَبْلِه - وأَيُّ سَبَبٍ أَوْثَقُ مِنْ سَبَبٍ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه - إِنْ أَنْتَ أَخَذْتَ بِه.

أَحْيِ قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ وأَمِتْه بِالزَّهَادَةِ - وقَوِّه بِالْيَقِينِ ونَوِّرْه بِالْحِكْمَةِ - وذَلِّلْه بِذِكْرِ الْمَوْتِ وقَرِّرْه بِالْفَنَاءِ - وبَصِّرْه فَجَائِعَ الدُّنْيَا - وحَذِّرْه صَوْلَةَ الدَّهْرِ وفُحْشَ تَقَلُّبِ اللَّيَالِي والأَيَّامِ - واعْرِضْ عَلَيْه أَخْبَارَ الْمَاضِينَ - وذَكِّرْه بِمَا أَصَابَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ مِنَ الأَوَّلِينَ - وسِرْ فِي دِيَارِهِمْ وآثَارِهِمْ - فَانْظُرْ فِيمَا فَعَلُوا وعَمَّا انْتَقَلُوا وأَيْنَ حَلُّوا ونَزَلُوا - فَإِنَّكَ تَجِدُهُمْ قَدِ انْتَقَلُوا عَنِ الأَحِبَّةِ - وحَلُّوا دِيَارَ الْغُرْبَةِ - وكَأَنَّكَ عَنْ قَلِيلٍ قَدْ صِرْتَ كَأَحَدِهِمْ - فَأَصْلِحْ مَثْوَاكَ ولَا تَبِعْ آخِرَتَكَ بِدُنْيَاكَ - ودَعِ الْقَوْلَ فِيمَا لَا تَعْرِفُ والْخِطَابَ فِيمَا لَمْ تُكَلَّفْ - وأَمْسِكْ عَنْ طَرِيقٍ إِذَا خِفْتَ ضَلَالَتَه - فَإِنَّ الْكَفَّ عِنْدَ حَيْرَةِ الضَّلَالِ خَيْرٌ مِنْ رُكُوبِ الأَهْوَالِ وأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ تَكُنْ

چاہیے میں زندہ رہوں یا مرجائوں۔

فرزند! میں تم کو خوف خدا اور اس کے احکام کی پابندی کی وصیت کرتا ہوں۔اپنے دل کواس کی یاد سے آباد رکھنا اوراس کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہنا کہ اس سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ تمہارے اور خداا کے درمیان نہیں ہے۔

اپنے دل کو موعظہ سے زندہ رکھنا اور اس کے خواہشات کو زہد سے مردہ بنادینا۔اسے یقین کے ذریعہ قوی رکھنا اورحکمت کے ذریعہ نورانی رکھنا۔ذکر موت کے ذریعہ رام کرنااورفناکے ذریعہ قابو میں رکھنا۔دنیا کے حوادث سے آگاہ رکھنا اور زمانہ کے حملہ اور لیل ونہار کے تصرفات سے ہوشیار رکھنا۔اس پر گذشتہ لوگوں کے اخبار کو پیش کرتے رہنا اور پہلے والوں پر پڑنے والے مصائبکویاد دلاتے رہنا۔ان کے دیار و آثار میں سر گرم سفر رہنا اور دیکھتے رہنا کہ انہوں نے کیا کیا ہے اور کہاں سے کہاں چل گئے ہیں۔کہاں واردہوئے ہیں اورکہاں ڈیرہ ڈالا ہے۔پھر تم دیکھو گے کہ وہ احباب کی دنیا سے منتقل ہوگئے ہیں اور دیار غربت میں وارد ہوگئے ہیں اور گویا کہ عنقریت تم بھی انہیں میں شامل ہو جائو گے لہٰذا اپنی منزل کو ٹھیک کرلو اورخبردارآخرت کو دنیا کے عوض فروخت نہ کرنا ۔جن باتوں کو نہیں جانتے ہو ان کے بارے میں بات نہ کرنا اور جن کے مکلف نہیں ہوان کے بارے میں گفتگو نہکرنا جس راستہ میں گمراہی کا خوف ہو ادھر قدم آگینہ بڑھانا کہ گمراہی کے تحیر سے پہلے ٹھہر جانا ہولناک مرحلوں میں وارد ہو جانے سے بہترہے۔نیکیوں کا حکم دیتے رہنا تاکہ اس کے

۵۱۵

مِنْ أَهْلِه - وأَنْكِرِ الْمُنْكَرَ بِيَدِكَ ولِسَانِكَ - وبَايِنْ مَنْ فَعَلَه بِجُهْدِكَ - وجَاهِدْ فِي اللَّه حَقَّ جِهَادِه - ولَا تَأْخُذْكَ فِي اللَّه لَوْمَةُ لَائِمٍ - وخُضِ الْغَمَرَاتِ لِلْحَقِّ حَيْثُ كَانَ وتَفَقَّه فِي الدِّينِ - وعَوِّدْ نَفْسَكَ التَّصَبُّرَ عَلَى الْمَكْرُوه - ونِعْمَ الْخُلُقُ التَّصَبُرُ فِي الْحَقِّ - وأَلْجِئْ نَفْسَكَ فِي أُمُورِكَ كُلِّهَا إِلَى إِلَهِكَ - فَإِنَّكَ تُلْجِئُهَا إِلَى كَهْفٍ حَرِيزٍ ومَانِعٍ عَزِيزٍ - وأَخْلِصْ فِي الْمَسْأَلَةِ لِرَبِّكَ - فَإِنَّ بِيَدِه الْعَطَاءَ والْحِرْمَانَ - وأَكْثِرِ الِاسْتِخَارَةَ وتَفَهَّمْ وَصِيَّتِي - ولَا تَذْهَبَنَّ عَنْكَ صَفْحاً - فَإِنَّ خَيْرَ الْقَوْلِ مَا نَفَعَ - واعْلَمْ أَنَّه لَا خَيْرَ فِي عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ - ولَا يُنْتَفَعُ بِعِلْمٍ لَا يَحِقُّ تَعَلُّمُه.

أَيْ بُنَيَّ إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُنِي قَدْ بَلَغْتُ سِنّاً - ورَأَيْتُنِي أَزْدَادُ وَهْناً - بَادَرْتُ بِوَصِيَّتِي إِلَيْكَ - وأَوْرَدْتُ خِصَالًا مِنْهَا قَبْلَ أَنْ يَعْجَلَ بِي أَجَلِي - دُونَ أَنْ أُفْضِيَ إِلَيْكَ بِمَا فِي نَفْسِي - أَوْ أَنْ أُنْقَصَ فِي رَأْيِي كَمَا نُقِصْتُ فِي جِسْمِي - أَوْ يَسْبِقَنِي إِلَيْكَ بَعْضُ غَلَبَاتِ الْهَوَى وفِتَنِ الدُّنْيَا - فَتَكُونَ

اہل میں شمار ہو اور برائیوں سے اپنے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے منع کرتے رہنا اور برائی کرنے والوں سے اپنے امکان بھر دور رہنا۔راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کردینا اور خبردار اس راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔حق کی خاطر جہاد بھی ہو سختیوں میں کود پڑنا۔اور دین کا علم حاصل کرنا اپنے نفس کو نا خوشگوار حالات میں صبر کا عادی بادینا اوریاد رکھنا کہ بہترین اخلاق حق کی راہ میں صبر کرنا ہے۔اپنے تمام امورمیں پروردگار کی طرف رجوع کرنا کہ اس طرح ایک محفوظ ترین پناہ گاہ کاسہارا لو گے اور بہترین محافظ کی پناہ میں رہوگے۔پروردگار سے سوال کرنے میں مخلص رہنا کہ عطا کرنا اور محروم کردینا اسی کے ہاتھ میں ہے مالک سے مسلسل طلب خیرکرتے رہنا اور میری وصیت پر غور کرتے رہنا۔اس سے پہلو بچا کر گذر نہ جانا کہ بہترین کلام وہی ہے جو فائدہ مند ہواور یاد رکھو کہ جس علم میں فائدہ نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور جو علم سیکھنے کے لائق نہ ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

فرزند! میں نے دیکھا کہ اب میرا سن بہت زیادہ ہو چکا ہے اور مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہوں لہٰذا میں نے فوراً یہ وصیت لکھ دی اور ان مضامین کو درج کردیا کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے دل کی بات تمہارے حوالہ کرنے سے پہلے مجھے موت آجائے یا جسم کے نقص کی طرح رائے کو کمزور تصور کیا جانے لگے یا وصیت سے پہلے ہی خواہشات کے غلبے اوردنیا کے فتنے تم تک نہ پہنچ جائیں۔ اور تمہارا حال

۵۱۶

كَالصَّعْبِ النَّفُورِ - وإِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كَالأَرْضِ الْخَالِيَةِ - مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْءٍ قَبِلَتْه - فَبَادَرْتُكَ بِالأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ - ويَشْتَغِلَ لُبُّكَ لِتَسْتَقْبِلَ بِجِدِّ رَأْيِكَ مِنَ الأَمْرِ - مَا قَدْ كَفَاكَ أَهْلُ التَّجَارِبِ بُغْيَتَه وتَجْرِبَتَه - فَتَكُونَ قَدْ كُفِيتَ مَئُونَةَ الطَّلَبِ - وعُوفِيتَ مِنْ عِلَاجِ التَّجْرِبَةِ - فَأَتَاكَ مِنْ ذَلِكَ مَا قَدْ كُنَّا نَأْتِيه - واسْتَبَانَ لَكَ مَا رُبَّمَا أَظْلَمَ عَلَيْنَا مِنْه أَيْ بُنَيَّ إِنِّي وإِنْ لَمْ أَكُنْ عُمِّرْتُ عُمُرَ مَنْ كَانَ قَبْلِي - فَقَدْ نَظَرْتُ فِي أَعْمَالِهِمْ وفَكَّرْتُ فِي أَخْبَارِهِمْ - وسِرْتُ فِي آثَارِهِمْ حَتَّى عُدْتُ كَأَحَدِهِمْ - بَلْ كَأَنِّي بِمَا انْتَهَى إِلَيَّ مِنْ أُمُورِهِمْ - قَدْ عُمِّرْتُ مَعَ أَوَّلِهِمْ إِلَى آخِرِهِمْ - فَعَرَفْتُ صَفْوَ ذَلِكَ مِنْ كَدَرِه ونَفْعَه مِنْ ضَرَرِه - فَاسْتَخْلَصْتُ لَكَ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ نَخِيلَه - وتَوَخَّيْتُ لَكَ جَمِيلَه وصَرَفْتُ عَنْكَ مَجْهُولَه - ورَأَيْتُ حَيْثُ عَنَانِي مِنْ أَمْرِكَ مَا يَعْنِي الْوَالِدَ الشَّفِيقَ -

بھڑک اٹھنے والے اونٹ جیسا ہو جائے۔ یقینا نوجوان کادل ایک خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ جو چیز اس میں ڈال دی جائے اسے قبول کرلیتا ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ تمہیں دل کے سخت ہونے اور عقل کے مشغول ہو جانے سے پہلے وصیت کردوں تاکہ تم سنجیدہ فکر کے ساتھ اس امر کو قبول کرلو جس کی تلاش اور جس کے تجربہ کی زحمت سے تمہیں تجربہ کار لوگوں نے بچا لیا ہے۔اب تمہاری طلب کی زحمت ختم ہوچکی ہے اورتمہیں تجربہ کی مشکل سے نجات مل چکی ہے۔تمہارے پاس وہ حقائق ازخود آگئے ہیں جن کو ہم تلاش کیا کرتے تھے اور تمہارے لئے وہ تمام باتیں واضح ہوچکی ہیں جو ہمارے لئے مبہم تھیں۔

فرزند! اگرچہ میں نے اتنی عمرنہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہواکرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور کیا ہے اور ان کے اخبارمیں فکر کی ہے اور ان کے آثار میںسیرو سیاحت کی ہے اور میں صاف اور گندہ کی خوب پہچانتا ہوں۔نفع و ضرر میں امتیاز رکھتا ہوں۔میں نے ہر امر کی چھان پھٹک کر اس کا خالص نکال لیا ہے۔اور بہترین تلاش کرلیا ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کردیا ہے اوری ہ چاہا ہے کہ تمہیں اسی وقت ادب کی تعلیم دے دوں جب کہ تم عمر کے ابتدائی حصہ میں ہو اور زمانہ کے حالات کا سامنا کر رہے ہو۔تمہاری نیت سالم ہے اورنفس صاف و پاکیزہ ہے اس لئے کہ مجھے تمہارے بارے میں اتنی ہی فکر ہے جتنی ایک مہربان باپ کو اپنی اولاد کی ہوتی ہے۔

۵۱۷

وأَجْمَعْتُ عَلَيْه مِنْ أَدَبِكَ أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ - وأَنْتَ مُقْبِلُ الْعُمُرِ ومُقْتَبَلُ الدَّهْرِ - ذُو نِيَّةٍ سَلِيمَةٍ ونَفْسٍ صَافِيَةٍ - وأَنْ أَبْتَدِئَكَ بِتَعْلِيمِ كِتَابِ اللَّه عَزَّ وجَلَّ - وتَأْوِيلِه وشَرَائِعِ الإِسْلَامِ وأَحْكَامِه وحَلَالِه وحَرَامِه - لَا أُجَاوِزُ ذَلِكَ بِكَ إِلَى غَيْرِه - ثُمَّ أَشْفَقْتُ أَنْ يَلْتَبِسَ عَلَيْكَ - مَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فِيه مِنْ أَهْوَائِهِمْ وآرَائِهِمْ - مِثْلَ الَّذِي الْتَبَسَ عَلَيْهِمْ - فَكَانَ إِحْكَامُ ذَلِكَ عَلَى مَا كَرِهْتُ مِنْ تَنْبِيهِكَ لَه أَحَبَّ إِلَيَّ - مِنْ إِسْلَامِكَ إِلَى أَمْرٍ لَا آمَنُ عَلَيْكَ بِه الْهَلَكَةَ - ورَجَوْتُ أَنْ يُوَفِّقَكَ اللَّه فِيه لِرُشْدِكَ - وأَنْ يَهْدِيَكَ لِقَصْدِكَ فَعَهِدْتُ إِلَيْكَ وَصِيَّتِي هَذِه.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّ أَحَبَّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِه إِلَيَّ مِنْ وَصِيَّتِي تَقْوَى اللَّه - والِاقْتِصَارُ عَلَى مَا فَرَضَه اللَّه عَلَيْكَ - والأَخْذُ بِمَا مَضَى عَلَيْه الأَوَّلُونَ مِنْ آبَائِكَ - والصَّالِحُونَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ - فَإِنَّهُمْ لَمْ يَدَعُوا أَنْ نَظَرُوا لأَنْفُسِهِمْ كَمَا أَنْتَ نَاظِرٌ - وفَكَّرُوا كَمَا أَنْتَ مُفَكِّرٌ - ثُمَّ رَدَّهُمْ آخِرُ ذَلِكَ إِلَى الأَخْذِ بِمَا عَرَفُوا - والإِمْسَاكِ عَمَّا لَمْ يُكَلَّفُوا - فَإِنْ أَبَتْ نَفْسُكَ أَنْ تَقْبَلَ ذَلِكَ دُونَ أَنْ تَعْلَمَ كَمَا عَلِمُوا - فَلْيَكُنْ طَلَبُكَ ذَلِكَ بِتَفَهُّمٍ وتَعَلُّمٍ - لَا بِتَوَرُّطِ الشُّبُهَاتِ

اب میں اپنی تربیت کا آغاز کتاب خدا اور اس کی تاویل ۔قوانین اسلام اور اس کے احکام حلال و حرام سے کر رہا ہوں اور تمہیں چھوڑ کردوسرے کی طرف نہیں جانا۔پھر مجھے یہخوف بھی ہے کہ کہیں لوگوں کے عقائد و افکار و خواہشات کااختلاف تمہارے لئے اسی طرح مشتبہ نہ ہو جائے جس طرح ان لوگوں کے لئے ہوگیا ہے لہٰذا ان کا مستحکم کردینا میری نظرمیں ا سے زیادہ محبوب ہے کہ تمہیں ایسے حالات کے حوالے کردوں جن میں ہلاکت سے محفوظ رہنے کا اطمینان نہیں ہے۔اگرچہ مجھے یہ تعلیم دیتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔لیکن مجھے امید ہے کہ پروردگار تمہیں نیکی کی توفیق دے گا اور سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرے گا۔اسی بنیاد پر یہ وصیت نامہ لکھ دیا ہے۔

فرزند! یاد رکھو کہ میری بہترین وصیت جسے تمہیں اخذ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اس کے فرائض پر اکتفا کرو اوروہ تمام طریقے جن پر تمہارے باپ دادا اور تمہارے گھرانے کے نیکج کردار افراد چلتے رہے ہیں انہیں پر چلتے رہو کہ انہوں نے اپنے بارے میں کسی ایسی فکر کونظرانداز نہیںکیا جو تمہاری نظر میں ہے اور کسی خیال کو فرو گذاشت نہیں کیا ہے اور اسی فکرونظر نے ہی انہیں اس نتیجہ تک پہنچا یا ہے کہ معروف چیزوں کوحاصل کرلیں اور لا یعنی چیزوں سے پرہیز کریں۔اب اگر تمہارا نفس ان چیزوں کو بغیر جانے پہچانے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اس کی تحقیق باقاعدہ علم و فہم کے ساتھ ہونی چاہیے اور شبہات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے

۵۱۸

وعُلَقِ الْخُصُومَاتِ - وابْدَأْ قَبْلَ نَظَرِكَ فِي ذَلِكَ بِالِاسْتِعَانَةِ بِإِلَهِكَ - والرَّغْبَةِ إِلَيْه فِي تَوْفِيقِكَ - وتَرْكِ كُلِّ شَائِبَةٍ أَوْلَجَتْكَ فِي شُبْهَةٍ أَوْ أَسْلَمَتْكَ إِلَى ضَلَالَةٍ - فَإِنْ أَيْقَنْتَ أَنْ قَدْ صَفَا قَلْبُكَ فَخَشَعَ - وتَمَّ رَأْيُكَ فَاجْتَمَعَ - وكَانَ هَمُّكَ فِي ذَلِكَ هَمّاً وَاحِداً - فَانْظُرْ فِيمَا فَسَّرْتُ لَكَ - وإِنْ لَمْ يَجْتَمِعْ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْ نَفْسِكَ - وفَرَاغِ نَظَرِكَ وفِكْرِكَ - فَاعْلَمْ أَنَّكَ إِنَّمَا تَخْبِطُ الْعَشْوَاءَ وتَتَوَرَّطُ الظَّلْمَاءَ - ولَيْسَ طَالِبُ الدِّينِ مَنْ خَبَطَ أَوْ خَلَطَ - والإِمْسَاكُ عَنْ ذَلِكَ أَمْثَلُ

فَتَفَهَّمْ يَا بُنَيَّ وَصِيَّتِي - واعْلَمْ أَنَّ مَالِكَ الْمَوْتِ هُوَ مَالِكُ الْحَيَاةِ - وأَنَّ الْخَالِقَ هُوَ الْمُمِيتُ - وأَنَّ الْمُفْنِيَ هُوَ الْمُعِيدُ وأَنَّ الْمُبْتَلِيَ هُوَ الْمُعَافِي - وأَنَّ الدُّنْيَا لَمْ تَكُنْ لِتَسْتَقِرَّ - إِلَّا عَلَى مَا جَعَلَهَا اللَّه عَلَيْه مِنَ النَّعْمَاءِ والِابْتِلَاءِ - والْجَزَاءِ فِي الْمَعَادِ - أَوْ مَا شَاءَ مِمَّا لَا تَعْلَمُ - فَإِنْ أَشْكَلَ عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ فَاحْمِلْه عَلَى جَهَالَتِكَ - فَإِنَّكَ أَوَّلُ مَا خُلِقْتَ بِه جَاهِلًا ثُمَّ عُلِّمْتَ - ومَا أَكْثَرَ مَا تَجْهَلُ

اورنہ جھگڑوں کا شکار ہونا چاہیے اور ان مسائل میں نظر کرنے سے پہلے اپنے پروردگار سے مدد طلب کرو اور توفیق کے ئے اس کی طرف توجہ کرو اور ہر اس شائبہ کو چھوڑ دو جو کسی شبہ میں ڈال دے یا کسی گمراہی کے حوالے کردے ۔پھر اگر تمہیں اطمینان ہو جائے کہ تمہارا دل صاف اور خاشع ہوگیا ہے اور تمہاری رائے تام دکامل ہوگئی ہے اور تمہارے پاس صرف یہی ایک فکر رہ گئی ہے تو جن باتوں کو میں نے واضح کیا ہے ان میں غورو فکر کرنا ورنہ اگر حسب منشاء فکرونظر کا فراغ حاصل نہیں ہوا ہے تو یاد رکھو کہ اس طرف صرف شبکور اونٹنی کی طرح ہاتھ پیر مارتے رہو گے اور اندھیرے میں بھٹکتے رہوگے اور دین کا طلب گار وہ نہیں ہے جواندھیروں میں ہاتھ پائوں مارے اورباتوں کومخلوط کردے۔اس سے تو ٹھہرجانا ہی بہتر ہے۔

فرزند! میری وصیت کو سمجھو اور یہ جان لو کہ جو موت کا مالک ہے وہی زندگی کا مالک ہے اور جو خالق ہے وہی موت دینے والا ہے اور جوفناکرنے والا ے وہی دوبارہ واپس لانے والا ہے اور جو مبتلا کرنے والا ہے وہی عافیت دینے والا ہے اور یہ دنیا اسی حالت میں مستقررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قراردیا ہے یعنی نعمت، آزمائش ، آخرت کی جزا یا وہ بات جو تم نہیں جانتے ہو۔اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس اپنی جہالت پر محمول کرنا کہ تم ابتدا میں جب پیدا ہو ئے ہو تو جاہل ہی پیداہوئے ہو بعد میں علم حاصل کیا ہے اور اسی بنا پر مجہولات

۵۱۹

مِنَ الأَمْرِ ويَتَحَيَّرُ فِيه رَأْيُكَ - ويَضِلُّ فِيه بَصَرُكَ ثُمَّ تُبْصِرُه بَعْدَ ذَلِكَ فَاعْتَصِمْ بِالَّذِي خَلَقَكَ ورَزَقَكَ وسَوَّاكَ - ولْيَكُنْ لَه تَعَبُّدُكَ - وإِلَيْه رَغْبَتُكَ ومِنْه شَفَقَتُكَ

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّ أَحَداً لَمْ يُنْبِئْ عَنِ اللَّه سُبْحَانَه - كَمَا أَنْبَأَ عَنْه الرَّسُولُصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَارْضَ بِه رَائِداً وإِلَى النَّجَاةِ قَائِداً - فَإِنِّي لَمْ آلُكَ نَصِيحَةً - وإِنَّكَ لَنْ تَبْلُغَ فِي النَّظَرِ لِنَفْسِكَ - وإِنِ اجْتَهَدْتَ مَبْلَغَ نَظَرِي لَكَ.

واعْلَمْ يَا بُنَيَّ - أَنَّه لَوْ كَانَ لِرَبِّكَ شَرِيكٌ لأَتَتْكَ رُسُلُه - ولَرَأَيْتَ آثَارَ مُلْكِه وسُلْطَانِه - ولَعَرَفْتَ أَفْعَالَه وصِفَاتِه - ولَكِنَّه إِلَه وَاحِدٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَه - لَا يُضَادُّه فِي مُلْكِه أَحَدٌ ولَا يَزُولُ أَبَداً ولَمْ يَزَلْ - أَوَّلٌ قَبْلَ الأَشْيَاءِ بِلَا أَوَّلِيَّةٍ - وآخِرٌ بَعْدَ الأَشْيَاءِ بِلَا نِهَايَةٍ - عَظُمَ عَنْ أَنْ تَثْبُتَ رُبُوبِيَّتُه بِإِحَاطَةِ قَلْبٍ أَوْ بَصَرٍ - فَإِذَا عَرَفْتَ ذَلِكَ فَافْعَلْ - كَمَا يَنْبَغِي لِمِثْلِكَ أَنْ يَفْعَلَه فِي صِغَرِ خَطَرِه - وقِلَّةِ مَقْدِرَتِه وكَثْرَةِ عَجْزِه - وعَظِيمِ حَاجَتِه إِلَى رَبِّه فِي طَلَبِ طَاعَتِه - والْخَشْيَةِ مِنْ عُقُوبَتِه -

کی تعداد کثیر ہے جس میں انسانی رائے متحیر رہ جاتی ہے اورنگاہ بہک جاتی ہے اوربعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے۔لہٰذا اس مالک سے وابستہ رہو جس نے پیدا کیا ہے۔روزی دی ہے اورمعتدل بنایا ہے۔اسی کی عبادت کرو' اسی کی طرف توجہ کرو اور اسی سے ڈرتے رہو۔

بیٹا! یہ یاد رکھو کہ تمہیں خدا ے بارے میں اس طرح کی خبریں کوئی نہیں دے سکتا ہے جس طرح رسول اکرم (ص) نے دی ہیں لہٰذا ان کو بخوشی اپنا پیشوا اور راہ نجات کا قائد تسلیم کرو۔میں نے تمہاری نصیحت میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور نہ تم کوشش کے باوجود اپنے بارے میں اتنا سوچ سکتے ہو جتنا میں نے دیکھ لیا ہے۔

فرزند ! یاد رکھو اگر خدا کے لئے کوئی شریک بھی ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے اور اس کی سلطنت اورحکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اس کے افعال وصفات کاب ھی کچھ پتہ ہوتا۔لیکن ایسا کچھ نہں ہے لہٰذا خدا ایک ہے جیسا کہاس نے خود بیان کیا ہے۔اس کے ملک میں اس سے کوئی ٹکرانے والا نہیں ہے اور نہاس کے لئے کسی طرح کا زوال ہے۔وہ اولیت کی حدوں کے بغیر سب سے اول ہے اور کسی انتہا کے بغیر سب سے آخرتک رہنے والا ہے وہ اس بات سے عظیم تر ہے کہ اس کی ربوبیت کا اثبات فکرو نظر کے احاطہ سے کیاجائے اگرتم نے اس حقیقت کو پہچان لیا ہے تو اس طرح عمل کرو جس طرحتم جیسے معمولی حیثیت ' قلیل طاقت ' کثیر عاجزی اور پروردگار کی طرف اطاعت کی طلب' عتاب

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

والْمُبْتَاعِ فَمَنْ قَارَفَ حُكْرَةً بَعْدَ نَهْيِكَ إِيَّاه فَنَكِّلْ بِه وعَاقِبْه فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ

ثُمَّ اللَّه اللَّه فِي الطَّبَقَةِ السُّفْلَى مِنَ الَّذِينَ لَا حِيلَةَ لَهُمْ - مِنَ الْمَسَاكِينِ والْمُحْتَاجِينَ وأَهْلِ الْبُؤْسَى والزَّمْنَى - فَإِنَّ فِي هَذِه الطَّبَقَةِ قَانِعاً ومُعْتَرّاً - واحْفَظِ لِلَّه مَا اسْتَحْفَظَكَ مِنْ حَقِّه فِيهِمْ - واجْعَلْ لَهُمْ قِسْماً مِنْ بَيْتِ مَالِكِ - وقِسْماً مِنْ غَلَّاتِ صَوَافِي الإِسْلَامِ فِي كُلِّ بَلَدٍ - فَإِنَّ لِلأَقْصَى مِنْهُمْ مِثْلَ الَّذِي لِلأَدْنَى – وكُلٌّ قَدِ اسْتُرْعِيتَ حَقَّه - ولَا يَشْغَلَنَّكَ عَنْهُمْ بَطَرٌ - فَإِنَّكَ لَا تُعْذَرُ بِتَضْيِيعِكَ التَّافِه لإِحْكَامِكَ الْكَثِيرَ الْمُهِمَّ - فَلَا تُشْخِصْ هَمَّكَ عَنْهُمْ ولَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لَهُمْ - وتَفَقَّدْ أُمُورَ مَنْ لَا يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْهُمْ - مِمَّنْ تَقْتَحِمُه الْعُيُونُ وتَحْقِرُه الرِّجَالُ - فَفَرِّغْ لأُولَئِكَ ثِقَتَكَ مِنْ أَهْلِ الْخَشْيَةِ والتَّوَاضُعِ - فَلْيَرْفَعْ إِلَيْكَ أُمُورَهُمْ - ثُمَّ اعْمَلْ فِيهِمْ بِالإِعْذَارِ إِلَى اللَّه يَوْمَ تَلْقَاه - فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ بَيْنِ الرَّعِيَّةِ أَحْوَجُ إِلَى الإِنْصَافِ مِنْ غَيْرِهِمْ - وكُلٌّ فَأَعْذِرْ إِلَى اللَّه فِي تَأْدِيَةِ حَقِّه إِلَيْه

ظلم نہ ہو۔اس کے بعد تمہارے منع کرنے کے باوجود اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے تو اسے سزا دو لیکن اس میں بھی حد سے تجاوز نہ ہونے پائے ۔

اس کے بعد اللہ سے ڈرو اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں جو مساکین 'محتاج ' فقراء اورمعذور افراد کا طبقہ ہے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔ انکے جس حق کا اللہ نے تمہیں محافظ بنایا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کردو کہ ان کے دور افتادہ کا بھی وہی حق ہے جو قریب والوں کا ہے اورتمہیں سبکا نگراں بنایا گیا ہے لہٰذا خبردارکہیں غرور و تکبر تمہیں ان کی طرف سے غافل نہ بنادے کہ تمہیں بڑے کاموں کے مستحکم کر دینے سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے گا۔لہٰذا نہ اپنی توجہ کو ان کی طرف سے ہٹانا اور نہ غرور کی بناپر اپنا منہ موڑ لینا۔جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انہیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور شخصیتوں نے حقیر بنادیا ہے ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمہارا ہی فریضہ ہے لہٰذا ان کے لئے متواضع اور خوف خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جو تم تک ان کے معاملات کو پہنچاتے رہیں اورتم ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بناپر روز قیامت پیش پروردگار معذور کہے جا سکو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں اور پھر ہرایک کے حقوق کو ادا کرنے میں پیش پروردگار اپنے

۵۸۱

وتَعَهَّدْ أَهْلَ الْيُتْمِ وذَوِي الرِّقَّةِ فِي السِّنِّ مِمَّنْ لَا حِيلَةَ لَه ولَا يَنْصِبُ لِلْمَسْأَلَةِ نَفْسَه - وذَلِكَ عَلَى الْوُلَاةِ ثَقِيلٌ - والْحَقُّ كُلُّه ثَقِيلٌ وقَدْ يُخَفِّفُه اللَّه عَلَى أَقْوَامٍ - طَلَبُوا الْعَاقِبَةَ فَصَبَّرُوا أَنْفُسَهُمْ - ووَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللَّه لَهُمْ.

واجْعَلْ لِذَوِي الْحَاجَاتِ مِنْكَ قِسْماً تُفَرِّغُ لَهُمْ فِيه شَخْصَكَ - وتَجْلِسُ لَهُمْ مَجْلِساً عَامّاً - فَتَتَوَاضَعُ فِيه لِلَّه الَّذِي خَلَقَكَ - وتُقْعِدُ عَنْهُمْ جُنْدَكَ وأَعْوَانَكَ مِنْ أَحْرَاسِكَ وشُرَطِكَ - حَتَّى يُكَلِّمَكَ مُتَكَلِّمُهُمْ غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ - فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ فِي غَيْرِ مَوْطِنٍ - لَنْ تُقَدَّسَ

کو معذور ثابت کرو۔

اوریتیموں اور کبیر السن بوڑھوں کے حالات کی بھی نگرانی کرتے رہنا کہ ان کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یہ سوال کرنے کے لئے کھڑے بھی نہیں ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کا خیال رکھنا حکام کے لئے بڑا سنگین مسئلہ ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے حق تو سب کا سب ثقیل ہی ہے۔البتہ کبھی کبھی پروردگار اسے ہلکا قرار دے دیتا ہے ان اقوام کے لئے جو عاقبت کی طلب گار ہوتی ہیں اور اس راہمیں اپنے نفس کو صبر کاخوگر بناتی ہیں اورخدا کے وعدہ پر اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

اور دیکھو صاحبان ضرورت کے لئے ایک وقت معین کردو جس میں اپنے کوان کے لئے خالی کرلو اور ایک عمومی مجلس میں بیٹھوں ۔اس خداکے سامنے متواضع رہو جس نے پیدا کیا ہے اور اپنے تمام نگہبان(۱) پولیس' فوج ' اعوان و انصار سب کو دوربٹھا دو تاکہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکارنہ ہو کہ میں نے رسول اکرم (ص) سے خود سنا ہے کہ آپ نے بار بار فرمایا ہے کہ ' 'وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہوسکتی ہے جس میں

(۱) مقصد یہ نہیں ہے کہ حاکم جلسہ عام میں لاوارث ہو کر بیٹھ جائے اور کوئی بھی مفسد ' ظالم فقیر کے بھیس میں آکر اس کا خاتمہ کردے ۔مقصد صرف یہ ہے کہ پولیس ' فوج ' محافظ ' دربان ' لوگوں کے ضروریات کی راہ میں حائل نہ ہونے پائیں کہ نہ انہیں تمہارے پاس آنے دیں اور نہ کھ لکر بات کرنے کاموقع دیں ۔چاہے اس سے پہلے بچاس مقامات پر تلاشی لی جائے کہ غرباء کی حاجت روائی کے نام پر حکام کی زندگیوں کو قربان نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ مفسدین کوبے لگام چھوڑا جاسکتا ہے۔حاکم کے لئے بنیادی مسئلہ اس کی شرافت ' دیانت ' امانت داری کا ہے اس کے بعد اس کا مرتبہ عام معاشرہ سے بہرحال بلند تر ہے اور اس کی زندگی عوام الناس سے یقینا زیادہ قیمتی ہے اور اس کا تحفظ عوام الناس پر اسی طرح واجب ہے جس طرح وہ خودان کے مفادات کاتحفظ کر رہا ہے۔

۵۸۲

أُمَّةٌ لَا يُؤْخَذُ لِلضَّعِيفِ فِيهَا حَقُّه مِنَ الْقَوِيِّ - غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ –

ثُمَّ احْتَمِلِ الْخُرْقَ مِنْهُمْ والْعِيَّ - ونَحِّ عَنْهُمُ الضِّيقَ والأَنَفَ - يَبْسُطِ اللَّه عَلَيْكَ بِذَلِكَ أَكْنَافَ رَحْمَتِه - ويُوجِبْ لَكَ ثَوَابَ طَاعَتِه - وأَعْطِ مَا أَعْطَيْتَ هَنِيئاً وامْنَعْ فِي إِجْمَالٍ وإِعْذَارٍ !

ثُمَّ أُمُورٌ مِنْ أُمُورِكَ لَا بُدَّ لَكَ مِنْ مُبَاشَرَتِهَا - مِنْهَا إِجَابَةُ عُمَّالِكَ بِمَا يَعْيَا عَنْه كُتَّابُكَ - ومِنْهَا إِصْدَارُ حَاجَاتِ النَّاسِ يَوْمَ وُرُودِهَا عَلَيْكَ - بِمَا تَحْرَجُ بِه صُدُورُ أَعْوَانِكَ - وأَمْضِ لِكُلِّ يَوْمٍ عَمَلَه فَإِنَّ لِكُلِّ يَوْمٍ مَا فِيه: واجْعَلْ لِنَفْسِكَ فِيمَا بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه - أَفْضَلَ تِلْكَ الْمَوَاقِيتِ وأَجْزَلَ تِلْكَ الأَقْسَامِ - وإِنْ كَانَتْ كُلُّهَا لِلَّه إِذَا صَلَحَتْ فِيهَا النِّيَّةُ - وسَلِمَتْ مِنْهَا الرَّعِيَّةُ.

ولْيَكُنْ فِي خَاصَّةِ مَا تُخْلِصُ بِه لِلَّه دِينَكَ إِقَامَةُ فَرَائِضِه - الَّتِي هِيَ لَه خَاصَّةً - فَأَعْطِ اللَّه مِنْ بَدَنِكَ فِي لَيْلِكَ ونَهَارِكَ - ووَفِّ مَا تَقَرَّبْتَ بِه إِلَى اللَّه -

کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ''

اس کے بعد ان سے بد کلامی یا عاجزی کلام کا مظاہرہ ہو تواسے برداشت کرو اور دل تنگی اور غرور کو دور رکھو کہ تاکہ خدا تمہارے لئے رحمت کے اطراف کشارہ کردے اور اطاعت کے ثواب کو لازم قرار دیدے جسے جو کچھ دو خوشگواری کے ساتھ دو اور جسے منع کرو اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دو۔

اس کے بعد تمہارے معاملات میں بعض ایسے معاملات بھی ہیں جنہیںتمہیں خود براہ راست انجام دینا ہے۔جیسے حکام کے ان مسائل کے جوابات جن کے جوابات محرر افراد نہ دے سکیں یا لوگوں کے ان ضروریات کو پورا کرنا جن کے پورا کرنے سے تمہارے مدد گار افراد جی چراتے ہوں اوردیکھو ہر کام کو اسی کے دن مکمل کردینا کہ ہردن کا اپنا ایک کام ہوتا ہے۔اس کے بعد اپنے اور پروردگار کے روابط کے لئے بہترین وقت کا انتخاب کرنا جو تمام اوقات سے افضل اور بہتر ہو۔اگرچہ تمام ہی اوقات اللہ کے لئے شمار ہو سکتے ہیں اگر انسان کی نیت سالم رہے اور رعایا اس کے طفیل خوشحال ہو جائے ۔

اور تمہارے وہ اعمال جنہیں صرف اللہ کے لئے انجام دیتے ہو ان میں سے سب سے اہم کام ان فرائض کا قیام ہو جو صرف پروردگار کے لئے ہوتے ہیں۔اپنی جسمانی طاقت میں سے رات اور دن دونوں وقت ایک حصہ اللہ کے لئے قرار دینا اور جس کام کے ذریعہ اس کی قربت

۵۸۳

مِنْ ذَلِكَ كَامِلًا غَيْرَ مَثْلُومٍ ولَا مَنْقُوصٍ - بَالِغاً مِنْ بَدَنِكَ مَا بَلَغَ - وإِذَا قُمْتَ فِي صَلَاتِكَ لِلنَّاسِ - فَلَا تَكُونَنَّ مُنَفِّراً ولَا مُضَيِّعاً - فَإِنَّ فِي النَّاسِ مَنْ بِه الْعِلَّةُ ولَه الْحَاجَةُ - وقَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حِينَ وَجَّهَنِي إِلَى الْيَمَنِ - كَيْفَ أُصَلِّي بِهِمْ - فَقَالَ صَلِّ بِهِمْ كَصَلَاةِ أَضْعَفِهِمْ - وكُنْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً».

وأَمَّا بَعْدُ فَلَا تُطَوِّلَنَّ احْتِجَابَكَ عَنْ رَعِيَّتِكَ - فَإِنَّ احْتِجَابَ الْوُلَاةِ عَنِ الرَّعِيَّةِ شُعْبَةٌ مِنَ الضِّيقِ - وقِلَّةُ عِلْمٍ بِالأُمُورِ - والِاحْتِجَابُ مِنْهُمْ يَقْطَعُ عَنْهُمْ عِلْمَ مَا احْتَجَبُوا دُونَه - فَيَصْغُرُ عِنْدَهُمُ الْكَبِيرُ ويَعْظُمُ الصَّغِيرُ - ويَقْبُحُ الْحَسَنُ ويَحْسُنُ الْقَبِيحُ -

چاہتے ہو اسے مکمل طور سے انجام دینا نہ کوئی رخنہ پڑنے پائے اورنہ کوئی نقص پیدا ہو جائے بدن کو کسی قدرزحمت کیوں نہ ہو جائے۔اور جب لوگوں کے ساتھ جماعت کی نمازادا کرو تو نہ اس طرح پڑھو کہ لوگ بیزار ہو جائیں اور نہ اس طرح کہ نماز برباد ہو جائے اس لئے کہ لوگوں میں بیمار اور ضرورت مند افراد بھی ہوتے ہیں اور میں نے یمن کی مہم پر جاتے ہوئے حضور اکرم (ص) سے دریافت کیا تھا کہ نماز جماعت کا اندازہ کیا ہونا چاہیے تو آپ نے فرمایا تھا کہ کمزور ترین آدمی کے اعتبارسے نماز ادا کرنا اور مومنین کے حال پر مہربان رہنا۔

اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ اپنی رعایا سے دیر تک(۱) الگ نہ رہنا کہ حکام کا رعایا سے پس پردہ رہنا ایک طرح کی تنگ دلی پیداکرتا ہے اور ان کے معاملات کی اطلاع نہیں ہو پاتی ہے اور یہ پردہ داری انہیں بھی ان چیزوں کے جاننے سے روک دیتی ہے جن کے سامنے یہ حجابات قائم ہوگئے ہیں اور اس طرح بڑی چیز چھوٹی ہو جاتی ہے اورچھوٹی چیز بڑی ہو جاتی ہے۔اچھا برا بن جاتا ہے اوربرا اچھاہوجاتا ہے

(۱)یہ شاید اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سماج اور عوام سے الگ رہنا والی اورحاکم کے ضروریات زندگی میں شامل ہے ورنہ اس کی زندگی ۲۴گھنٹہ عوام الناس کی نذر ہوگئی تو نہ تنہائیوں می اپنے مالک سے مناجات کر سکتا ہے اور نہ خلوتوں میں اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کر سکتا ہے۔پردہ داری ایک انسانی ضرورت ہے جس سے کوئی انسان بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس پردہ داری کو طول نہ ہونے پائے کہ عوام الناس حاکم کی زیارت سے محروم ہو جائیں اور اس کا دیدار صرف ٹیلیویژن کے پردہ پر نصیب ہو جس سے نہ کوئی فریاد کی جا سکتی ہے اور نہ کسی درد دل کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ایسے شخص کو حاکم بننے کا یکا حق ہے جو عوام کے دکھ درد میں شریک نہ ہو سکے اور ان کی زندگی کی تلخیوں کو محسوس نہ کرسکے۔ایسے شخص کو دربار حکومت میں بیٹھ کر'' انا ربکم الا علی '' کا نعرہ لگانا چاہیے اور آخر میں کسی دریا میں ڈوب مرنا چاہیے۔اسلامی حکومت اس طرح کی لا پرواہی کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔اس کے لئے کوفہ میں بیٹھ کرحجاز اور یمامہکے فقراء کو دیکھنا پڑتا ہے اور ان کی حالت کے پیشنظر سو کھی روٹی کھانا پڑتی ہے۔

۵۸۴

ويُشَابُ الْحَقُّ بِالْبَاطِلِ - وإِنَّمَا الْوَالِي بَشَرٌ - لَا يَعْرِفُ مَا تَوَارَى عَنْه النَّاسُ بِه مِنَ الأُمُورِ - ولَيْسَتْ عَلَى الْحَقِّ سِمَاتٌ - تُعْرَفُ بِهَا ضُرُوبُ الصِّدْقِ مِنَ الْكَذِبِ - وإِنَّمَا أَنْتَ أَحَدُ رَجُلَيْنِ - إِمَّا امْرُؤٌ سَخَتْ نَفْسُكَ بِالْبَذْلِ فِي الْحَقِّ - فَفِيمَ احْتِجَابُكَ مِنْ وَاجِبِ حَقٍّ تُعْطِيه - أَوْ فِعْلٍ كَرِيمٍ تُسْدِيه أَوْ مُبْتَلًى بِالْمَنْعِ - فَمَا أَسْرَعَ كَفَّ النَّاسِ عَنْ مَسْأَلَتِكَ - إِذَا أَيِسُوا مِنْ بَذْلِكَ - مَعَ أَنَّ أَكْثَرَ حَاجَاتِ النَّاسِ إِلَيْكَ - مِمَّا لَا مَئُونَةَ فِيه عَلَيْكَ - مِنْ شَكَاةِ مَظْلِمَةٍ أَوْ طَلَبِ إِنْصَافٍ فِي مُعَامَلَةٍ.

ثُمَّ إِنَّ لِلْوَالِي خَاصَّةً وبِطَانَةً - فِيهِمُ اسْتِئْثَارٌ وتَطَاوُلٌ وقِلَّةُ إِنْصَافٍ فِي مُعَامَلَةٍ فَاحْسِمْ مَادَّةَ أُولَئِكَ بِقَطْعِ أَسْبَابِ تِلْكَ الأَحْوَالِ - ولَا تُقْطِعَنَّ لأَحَدٍ مِنْ حَاشِيَتِكَ وحَامَّتِكَ قَطِيعَةً - ولَا يَطْمَعَنَّ مِنْكَ فِي اعْتِقَادِ عُقْدَةٍ - تَضُرُّ بِمَنْ يَلِيهَا مِنَ النَّاسِ - فِي شِرْبٍ أَوْ عَمَلٍ مُشْتَرَكٍ - يَحْمِلُونَ مَئُونَتَه عَلَى غَيْرِهِمْ

اورحق باطل سے مخلوط ہو جاتا ہے۔اور حاکم بھی بالآخر ایک بشر ہے وہ پس پردہ امور کی اطلاع نہیں رکھتا ہے اور نہ حق کی پیشانی پر ایسے نشانات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ صداقت کے اقسام کو غلط بیانی سے الگ کرکے پہچانا جاسکے۔

اور پھر تم دو میں سے ایک قسم کے ضرور ہوگے۔یا وہ شخص ہوگے جس کا نفس حق کی راہمیں بذل و عطا پر مائل ہے تو پھرتمہیں واجب حق عطا کرنے کی راہ میں پر وہ حائل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اور کریموں جیسا عمل کیوں نہیں انجام دیتے ہو۔یا تم بخل کی بیماری میں مبتلا ہوگے تو بہت جلدی لوگ تم سے مایوس ہوکرخود ہی اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے اور تمہیں پردہ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔حالانکہ لوگوں کے اکثر ضروریات وہ ہیں جن میں تمہیں کسی طرح کی زحمت نہیں ہے جیسے ظلم کی فریاد یا کسی معاملہ میں انصاف کا مطالبہ ۔

اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ ہر والی کے کچھ مخصوص اور راز دار قسم کے افراد ہوتے ہیں جن میں خودغرضی ، دست درازی اورمعاملات میں بے انصافی پاء جاتی ہے لہٰذا خبردار ایسے افراد کے فساد کا علاج ان اسباب کے خاتمہ سے کرنا جن سے یہ حالات پیدا ہوتے ہیں۔اپنے کسی بھی حاشیہ نشین اورقرابت دار کو کوئی جاگیر مت بخش دینا اوراسے تم سے کوئی ایسی توقع نہ ہونی چاہیے کہ تم کسی ایسی زمین پر قبضہ دیدو گے جس کے سبب آبپاشی یا کی مشترک معاملہ میں شرکت رکھنے والے افراد کو نقصان پہنچ جائیکہ اپنے مصارف بھی دوسرے کے سرڈال دے اور

۵۸۵

فَيَكُونَ مَهْنَأُ ذَلِكَ لَهُمْ دُونَكَ - وعَيْبُه عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا والآخِرَةِ.

وأَلْزِمِ الْحَقَّ مَنْ لَزِمَه مِنَ الْقَرِيبِ والْبَعِيدِ - وكُنْ فِي ذَلِكَ صَابِراً مُحْتَسِباً - وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ قَرَابَتِكَ وخَاصَّتِكَ حَيْثُ وَقَعَ - وابْتَغِ عَاقِبَتَه بِمَا يَثْقُلُ عَلَيْكَ مِنْه - فَإِنَّ مَغَبَّةَ ذَلِكَ مَحْمُودَةٌ.

وإِنْ ظَنَّتِ الرَّعِيَّةُ بِكَ حَيْفاً فَأَصْحِرْ لَهُمْ بِعُذْرِكَ - واعْدِلْ عَنْكَ ظُنُونَهُمْ بِإِصْحَارِكَ - فَإِنَّ فِي ذَلِكَ رِيَاضَةً مِنْكَ لِنَفْسِكَ ورِفْقاً بِرَعِيَّتِكَ وإِعْذَاراً - تَبْلُغُ بِه حَاجَتَكَ مِنْ تَقْوِيمِهِمْ عَلَى الْحَقِّ.

ولَا تَدْفَعَنَّ صُلْحاً دَعَاكَ إِلَيْه عَدُوُّكَ ولِلَّه فِيه رِضًا فَإِنَّ فِي الصُّلْحِ دَعَةً لِجُنُودِكَ -

اس طرح اس معاملہ کا مزہ اس کے حصہ میں آئے اور اس کی ذمہ داری دنیا اور آخرت میں تمہارے ذمہ رہے۔

اور جس پر کوئی حق عائد ہو اس پر اس کے نافذ کرنے کی ذمہ داری ڈالو چاہے وہ تم سے نزدیک ہویا دور اوراس مسئلہ میں اللہ کی راہ میں صبرو تحمل سے کام لینا چاہے اس کی زد تمہاریقرابتداروں اورخاص افراد ہی پرکیوں نہ پڑتی ہواور اس سلسلہ میں تمہارے مزاج پر جو بار ہو اسے آخرت کی امید میں برداشت کرلینا کہ اس کا انجام بہتر ہوگا۔

اور اگر کبھی رعایا کو یہ خیال ہو جائے کہ تم نے ان پر ظلم کیا ہے توان کے لئے اپنے عذر کا اظہار کرواور اسی ذریعہ سے ان کی بد گمانی کاعلاج کرو کہ اس میں تمہارے نفس کی تربیت بھی ہے اور رعایا پر نرمی کا اظہار بھی ہے اوروہ عذر خواہی بھی وہے جس کے ذریعہ تمرعایا کو راہ حق پر چلانے کا مقصد بھی حاصل کرسکتے ہو۔

اور خبردار کسی ایسی دعوت صلح کا انکارنہ کرنا جس کی تحریک دشن کی طرف سے ہو اور جس میں مالک کی رضا مندی(۱) پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ فوجوں کو

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صلح ایک بہترین طریقہ کار ہے اور قرآن نے اسے ''خیر '' سے تعبیر کیاہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو شخص جن حالات میں جس طرح کی صلح کیدعوت دے تم قبول کرلو اور اس کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ جائو کہ ایسے نظام میں ہر ظالم اپنی ظالمانہ حرکتوں ہی پر صلح کرنا چاہیے گا اور تمہیں اسے تلیم کرنا ہوگا۔صلح کی بنیادی شرط یہ ہے کہاسے رضائے الٰہی کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی کسی دفعہ کو بھی مرضی پروردگار کے خلاف نہیں ہونا چاہیے جس طرح کہ سرکار دو عالم (ص) کی صلح میں دیکھا گیا ہے کہ آپ نے جس جس لفظ اور جس جس دفعہ پر صلح کی ہے سب کی سب مطابق حقیقت اور عین مرضی پروردگار تھیں اور کوئی حرف غلط درمیان میں نہیں تھا ''بسمک اللھم '' بھی ایک کلمہ صحیح تھا۔محمد بن عبداللہ بھی ایک حرف حق تھا اوردشمن کے افراد کاواپس کردینا بھی کوئیغلط اقدام نہیں تھا۔امام حسن مجتبیٰ کی صلح میں بھی یہی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کا مشاہدہ سرکار دو عالم (ص) کی صلح میں کیا جا چکا ہے۔اوریہ مولائے کائنات کی بنیادی تعلیم اور اسلام کاواقعی ہدف اور مقصد ہے۔

۵۸۶

ورَاحَةً مِنْ هُمُومِكَ وأَمْناً لِبِلَادِكَ - ولَكِنِ الْحَذَرَ كُلَّ الْحَذَرِ مِنْ عَدُوِّكَ بَعْدَ صُلْحِه - فَإِنَّ الْعَدُوَّ رُبَّمَا قَارَبَ لِيَتَغَفَّلَ - فَخُذْ بِالْحَزْمِ واتَّهِمْ فِي ذَلِكَ حُسْنَ الظَّنِّ - وإِنْ عَقَدْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَ عَدُوِّكَ عُقْدَةً - أَوْ أَلْبَسْتَه مِنْكَ ذِمَّةً - فَحُطْ عَهْدَكَ بِالْوَفَاءِ وارْعَ ذِمَّتَكَ بِالأَمَانَةِ - واجْعَلْ نَفْسَكَ جُنَّةً دُونَ مَا أَعْطَيْتَ - فَإِنَّه لَيْسَ مِنْ فَرَائِضِ اللَّه شَيْءٌ - النَّاسُ أَشَدُّ عَلَيْه اجْتِمَاعاً مَعَ تَفَرُّقِ أَهْوَائِهِمْ - وتَشَتُّتِ آرَائِهِمْ - مِنْ تَعْظِيمِ الْوَفَاءِ بِالْعُهُودِ - وقَدْ لَزِمَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ فِيمَا بَيْنَهُمْ دُونَ الْمُسْلِمِينَ - لِمَا اسْتَوْبَلُوا مِنْ عَوَاقِبِ الْغَدْرِ - فَلَا تَغْدِرَنَّ بِذِمَّتِكَ ولَا تَخِيسَنَّ بِعَهْدِكَ ولَا تَخْتِلَنَّ عَدُوَّكَ - فَإِنَّه لَا يَجْتَرِئُ عَلَى اللَّه إِلَّا جَاهِلٌ شَقِيٌّ - وقَدْ جَعَلَ اللَّه عَهْدَه وذِمَّتَه أَمْناً أَفْضَاه بَيْنَ الْعِبَادِ بِرَحْمَتِه وحَرِيماً يَسْكُنُونَ إِلَى مَنَعَتِه ويَسْتَفِيضُونَ إِلَى جِوَارِه فَلَا إِدْغَالَ ولَا مُدَالَسَةَ ولَا خِدَاعَ فِيه -

قدرے سکون مل جاتا ہے اور تمہارے نفس کو بھی افکار سے نجات مل جائے گی اور شہروں میں بھی امن وامان ک فضا قائم ہو جائے گی۔البتہ صلح کے بعد دشمن کی طرف سے مکمل طور پر ہوشیار رہنا کہ کبھی کبھی وہ تمہیں غافل بنانے کے لئے تم سے قربت اختیار کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس مسئلہ میں مکمل ہو شیاری سے کام لینا اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا اوراگر اپنے اور اس کیدرمیان کوئی معاہدہ کرنایا اسے کسی طرح کی پناہ دینا تو اپنے عہد کی پاسداری و وفاداری کے ذریعہ کرنا اور اپنے ذمہ کو امانت داری کے ذریعہ محفوظ بنانا اور اپنے قول و قرارکی راہ میں اپنے نفس کو سپر بنادینا کہ اللہ کے فرائض میں ایفائے عہد جیسا کوئی فریضہ نہیں ہے جس پر تمام لوگ خواہشات کے اختلاف اورافکار کے تضاد کے باوجودمتحد ہیں اور اس کا مشرکین نے بھی اپنے معاملات میں لحاظ رکھا ہے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں تباہیوں کا انداہ کرلیا ہے۔تو خبردار تم اپنے عہدو پیمان سے غداری نہ کرنا اور اپنے قول و قرار میں خیانت سے کام نہ لینا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کردینا۔اس لئے کہ اللہ کے مقابلہ میں جاہل و بد بخت کے علاوہ کوئی جرأت نہیں کرتا ہے اور اللہ نے عہدو پیمان کو امن وامان کا وسیلہ قراردیا ہے جسے اپنی رحمت سے تمام بندو ں کے درمیان عام کردیا ہے اور ایسی پناہ گاہ بنادیا ہے جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے والے پناہ لیتے ہیں اور اسکے جوار میں منزل کرنے کے لئے تیز سے قدم آگے بڑھاتے ہیں لہٰذا اس میں کوئی جعل سازی ' فریب کاری اور مکاری نہ

۵۸۷

ولَا تَعْقِدْ عَقْداً تُجَوِّزُ فِيه الْعِلَلَ ولَا تُعَوِّلَنَّ عَلَى لَحْنِ قَوْلٍ بَعْدَ التَّأْكِيدِ والتَّوْثِقَةِ ولَا يَدْعُوَنَّكَ ضِيقُ أَمْرٍ لَزِمَكَ فِيه عَهْدُ اللَّه إِلَى طَلَبِ انْفِسَاخِه بِغَيْرِ الْحَقِّ - فَإِنَّ صَبْرَكَ عَلَى ضِيقِ أَمْرٍ تَرْجُو انْفِرَاجَه وفَضْلَ عَاقِبَتِه خَيْرٌ مِنْ غَدْرٍ تَخَافُ تَبِعَتَه - وأَنْ تُحِيطَ بِكَ مِنَ اللَّه فِيه طِلْبَةٌ - لَا تَسْتَقْبِلُ فِيهَا دُنْيَاكَ ولَا آخِرَتَكَ.

إِيَّاكَ والدِّمَاءَ وسَفْكَهَا بِغَيْرِ حِلِّهَا - فَإِنَّه لَيْسَ شَيْءٌ أَدْعَى لِنِقْمَةٍ ولَا أَعْظَمَ لِتَبِعَةٍ - ولَا أَحْرَى بِزَوَالِ نِعْمَةٍ وانْقِطَاعِ مُدَّةٍ - مِنْ سَفْكِ الدِّمَاءِ بِغَيْرِ حَقِّهَا - واللَّه سُبْحَانَه مُبْتَدِئٌ بِالْحُكْمِ بَيْنَ الْعِبَادِ - فِيمَا تَسَافَكُوا مِنَ الدِّمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - فَلَا تُقَوِّيَنَّ سُلْطَانَكَ بِسَفْكِ دَمٍ حَرَامٍ -

ہونی چاہیے اورکوئی ایسا معاہدہ نہ کرنا جس میں تاویل کی ضرورت پڑے اور معاہدہ کے پختہ ہو جانے کے بعد اس کے کسی مبہم لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرنا اور عہد الٰہی میںتنگی کا احساس غیر حق کے ساتھ وسعت کی جستجو پرآمادہ نہ کردے کہ کسی امر کی تنگی پر صبر کرلینا اور کشائش حال اور بہترین عاقبت کا انتظار کرنا اس غداری سے بہتر ہے جس کے اثرات خطرناک ہوں اور تمہیں اللہ کی طرف سے جواب دہی کی مصیبت گھیر لے اور دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جائیں ۔

دیکھو خبردار۔ناحق خون بہانے سے پرہیز کرنا کہ اس سے زیادہ عذاب الٰہی سے قریب تر اور پاداش کے اعتبارسے شدید تر اورنعمتوں کے زوال۔زندگی کے خاتمہ کے لئے مناسب تر کوئی سبب نہیں ہے اور پروردگار روز قیامت اپنے فیصلہ کاآغاز خونریزیوں کے معاملہ سے کرے گا۔لہٰذا خبردار اپنی حکومت کا استحکام(۱) ناحق خون ریزی کے ذریعہ نہ پیدا کرنا کہ یہ بات حکومت کو کمزوراور بے جان بنا دیتی ہے بلکہ تباہ کرکے دوسروں کی طرف منتقل کر دیتی ہے اور تمہارے پاس نہ خدا کے سامنے اور نہ میرے سامنے عمداً قتل کرنے کا کوئی عذرنہیں ہے اور اس میں

(۱) واضح رہے کہ دنیا میں حکومتوں کا قیام تو وراثت ' جمہوریت ' عسکری انقلاب اور ذہانت وفراست تمام اسباب سے ہو سکتا ہے لیکن حکومتوں میں استحکام عوام کی خوشی اور ملک کی خوشحالی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جن افراد نے یہ خیال کیا کہ وہ اپنی حکومتوں کو خونریزی کے ذریعہ مستحکم بنا سکتے ہیں انہوں نے جیتے جی اپنی غلط فہمی کا انجام دیکھ لیا اوہ ہٹلر جیسے شخص کو بھی خود کشی پر آمادہ ہونا پڑا۔اسی لئے کہا گیا ہے کہملک کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھب اقی نہیں رہ سکتا ہے اور انسانیت کاخون بہانے سے بڑا کوئی جرم قابل تصور نہیں ہے لہٰذا اس سے پرہیز ہر صاحب اقتداراور صاحب عقل و ہوش کا فریضہ ہے اور زمانہ کی گردش کے پلٹتے دیر نہیں لگتی ہے ۔

۵۸۸

فَإِنَّ ذَلِكَ مِمَّا يُضْعِفُه ويُوهِنُه بَلْ يُزِيلُه ويَنْقُلُه - ولَا عُذْرَ لَكَ عِنْدَ اللَّه ولَا عِنْدِي فِي قَتْلِ الْعَمْدِ - لأَنَّ فِيه قَوَدَ الْبَدَنِ - وإِنِ ابْتُلِيتَ بِخَطَإٍ - وأَفْرَطَ عَلَيْكَ سَوْطُكَ أَوْ سَيْفُكَ أَوْ يَدُكَ بِالْعُقُوبَةِ - فَإِنَّ فِي الْوَكْزَةِ فَمَا فَوْقَهَا مَقْتَلَةً - فَلَا تَطْمَحَنَّ بِكَ نَخْوَةُ سُلْطَانِكَ - عَنْ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ حَقَّهُمْ.

وإِيَّاكَ والإِعْجَابَ بِنَفْسِكَ - والثِّقَةَ بِمَا يُعْجِبُكَ مِنْهَا وحُبَّ الإِطْرَاءِ - فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَوْثَقِ فُرَصِ الشَّيْطَانِ فِي نَفْسِه - لِيَمْحَقَ مَا يَكُونُ مِنْ إِحْسَانِ الْمُحْسِنِينَ.

وإِيَّاكَ والْمَنَّ عَلَى رَعِيَّتِكَ بِإِحْسَانِكَ - أَوِ التَّزَيُّدَ فِيمَا كَانَ مِنْ فِعْلِكَ - أَوْ أَنْ تَعِدَهُمْ فَتُتْبِعَ مَوْعِدَكَ بِخُلْفِكَ - فَإِنَّ الْمَنَّ يُبْطِلُ الإِحْسَانَ والتَّزَيُّدَ يَذْهَبُ بِنُورِ الْحَقِّ - والْخُلْفَ يُوجِبُ الْمَقْتَ عِنْدَ اللَّه والنَّاسِ - قَالَ اللَّه تَعَالَى -( كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ الله أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُونَ ) .

وإِيَّاكَ والْعَجَلَةَ بِالأُمُورِ قَبْلَ أَوَانِهَا - أَوِ التَّسَقُّطَ فِيهَا عِنْدَ إِمْكَانِهَا - أَوِ اللَّجَاجَةَ فِيهَا إِذَا تَنَكَّرَتْ - أَوِ الْوَهْنَ عَنْهَا إِذَا اسْتَوْضَحَتْ - فَضَعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْضِعَه

زندگی کا قصاص بھی ثابت ہے۔البتہ اگر دھوکہ سے اس غلطی میں مبتلا ہو جائو اور تمہارا تازیانہ ' تلوار یا ہاتھ سزا دینے میں اپنی حد سے آگے بڑھ جائے کہ کبھی کبھی گھونسہ وغیرہ بھی قتل کا سبب بن جاتا ہے۔تو خبر دار تمہیں سلطنت کاغرور اتنا اونچا نہ بنادے کہ تم خون کے وارثوں کو ان کا حق خون بہا بھی ادا نہ کرو۔

اور دیکھو اپنے نفس کو خود پسندی سے بھی محفوظ رکھنا اور اپنی پسند پر بھروسہ بھی نہ کرنا اور زیادہ تعریف کا شوق بھی نہ پیداہوجائے کہ یہ سب باتیں شیطان کی فرصت کے بہترین وسائل ہیں جن کے ذریعہ وہ نیک کرداروں کے عمل کو ضائع اور برباد کردیا کرتا ہے۔

اور خبردار رعایا پراحسان بھی نہ جتانا اور جو سلوک کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ان سے کوئی وعدہ کرکے اس کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کر دیتا ہے اور زیادتی عمل کاغرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے اور وعدہ خلافی خدا اوربندگان خدا دونوں کینزدیک ناراضگی کاباعث ہوت یہ جیسا کہ اس نے ارشادفرمایا ہے کہ '' اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناراضگی کی بات ہے کہ تم کوئی بات کہو اور پھراس کے مطابق عمل نہ کرو ''

اورخبردار وقت سے پہلے کاموں میں جلدی نہ کرنا اور وقت آجانے کے بعد سستی کا مظاہرہ نہ کرنا اور بات سمجھ میں نہ آئے تو جھگڑا نہ کرنا اورواضح ہو جائے تو کمزوری کا اظہار نہ کرنا۔ہربات کو اس کی جگہ رکھواور

۵۸۹

وأَوْقِعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْقِعَه.

وإِيَّاكَ والِاسْتِئْثَارَ بِمَا النَّاسُ فِيه أُسْوَةٌ - والتَّغَابِيَ عَمَّا تُعْنَى بِه مِمَّا قَدْ وَضَحَ لِلْعُيُونِ - فَإِنَّه مَأْخُوذٌ مِنْكَ لِغَيْرِكَ - وعَمَّا قَلِيلٍ تَنْكَشِفُ عَنْكَ أَغْطِيَةُ الأُمُورِ - ويُنْتَصَفُ مِنْكَ لِلْمَظْلُومِ - امْلِكْ حَمِيَّةَ أَنْفِكَ وسَوْرَةَ حَدِّكَ - وسَطْوَةَ يَدِكَ وغَرْبَ لِسَانِكَ - واحْتَرِسْ مِنْ كُلِّ ذَلِكَ بِكَفِّ الْبَادِرَةِ وتَأْخِيرِ السَّطْوَةِ - حَتَّى يَسْكُنَ غَضَبُكَ فَتَمْلِكَ الِاخْتِيَارَ - ولَنْ تَحْكُمَ ذَلِكَ مِنْ نَفْسِكَ - حَتَّى تُكْثِرَ هُمُومَكَ بِذِكْرِ الْمَعَادِ إِلَى رَبِّكَ والْوَاجِبُ عَلَيْكَ أَنْ تَتَذَكَّرَ مَا مَضَى لِمَنْ تَقَدَّمَكَ - مِنْ حُكُومَةٍ عَادِلَةٍ أَوْ سُنَّةٍ فَاضِلَةٍ - أَوْ أَثَرٍ عَنْ نَبِيِّنَاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أَوْ فَرِيضَةٍ فِي كِتَابِ اللَّه - فَتَقْتَدِيَ بِمَا شَاهَدْتَ مِمَّا عَمِلْنَا بِه فِيهَا - وتَجْتَهِدَ لِنَفْسِكَ فِي اتِّبَاعِ مَا عَهِدْتُ إِلَيْكَ فِي عَهْدِي هَذَا - واسْتَوْثَقْتُ بِه مِنَ الْحُجَّةِ لِنَفْسِي عَلَيْكَ - لِكَيْلَا تَكُونَ لَكَ عِلَّةٌ عِنْدَ تَسَرُّعِ نَفْسِكَ إِلَى هَوَاهَا: وأَنَا أَسْأَلُ

ہر امر کواس کے محل پر قرار دو۔

دیکھو جس چیز میںتمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا اورجوحق نگاہوں کے سامنے واضح ہوجائے اس سے غفلت نہ برتنا کہ دوسروں کے لئے یہی تمہاری ذمہ داری ہے اورعنقریب تمام امورسے پردے اٹھ جائیں گے اورتم سے مظلوم کاب دلہ لے لیا جائے گا۔اپے غضب کی تیزی 'اپنی سر کشی کے جوش ' اپنے ہاتھ کی جنبش اور اپنی زبان کی کاٹ پر قابو رکھنا اور ان تمام چیزوں سے اپنے کو اس طرح محفوظ رکھنا کہ جلدبازی سے کام نہ لینا اور سزا دینے میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ غصہ ٹھہر جائے اور اپنے اوپر قابو حاصل ہو جائے۔اوراس امرپ ربھی اختیار اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا ہے جب تک پروردگار کی بارگاہ میں واپسی کا خیال زیادہ سے زیادہ نہ ہوجائے ۔

تمہارا فریضہ ہے کہ ماضی میں گزر جانے والی عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد رکھو' رسول اکرم(ص) کے آثار اور کتاب خدا کے احکام کو نگاہ میں رکھواور جس طرح ہمیں عمل کرتے دیکھا ہے اسی طرح ہمارے نقش قدم پر چلو اور جو کچھ اس عہد نامہ میں ہم نے بتایا ہے اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو کہ میں تمہارے اوپر اپنی حجت کو مستحکم کردیا ہے تاکہ جب تمہارا نفس خواہشات کی طرف تیزی سے بڑھے تو تمہارے پاس کوء یعذرنہ رہے۔ور میں پروردگار کی وسیع رحمت اور ہر مقصد کے عطا کرنے کی عظیم قدرت کے وسیلہ سے یہ سوال

۵۹۰

اللَّه بِسَعَةِ رَحْمَتِه - وعَظِيمِ قُدْرَتِه عَلَى إِعْطَاءِ كُلِّ رَغْبَةٍ - أَنْ يُوَفِّقَنِي وإِيَّاكَ لِمَا فِيه رِضَاه - مِنَ الإِقَامَةِ عَلَى الْعُذْرِ الْوَاضِحِ إِلَيْه وإِلَى خَلْقِه - مَعَ حُسْنِ الثَّنَاءِ فِي الْعِبَادِ وجَمِيلِ الأَثَرِ فِي الْبِلَادِ - وتَمَامِ النِّعْمَةِ وتَضْعِيفِ الْكَرَامَةِ - وأَنْ يَخْتِمَ لِي ولَكَ بِالسَّعَادَةِ والشَّهَادَةِ -( إِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - والسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ وسَلَّمَ تَسْلِيماً كَثِيراً والسَّلَامُ

(۵۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى طلحة والزبير (مع عمران بن الحصين الخزاعي) ذكره أبو جعفر الإسكافي في كتاب المقامات في مناقب أمير المؤمنينعليه‌السلام

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ عَلِمْتُمَا وإِنْ كَتَمْتُمَا - أَنِّي لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى أَرَادُونِي - ولَمْ أُبَايِعْهُمْ حَتَّى بَايَعُونِي - وإِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِي وبَايَعَنِي -

کرتا ہوں کہ مجھے اور تمہیںان کاموں کی توفیق دے جن می اس کی مرضی ہو اور ہم دونوں اس کی بارگاہ میں اوربندوں کے سامنے عذر پیش کرنے کے قابل ہو جائیں۔بندوں کی بہترین تعریف کے حقدار ہوں اور علاقوں میں بہترین آثار چھو ڑ کرجائیں۔نعمت کی فراوانی اور عزت کے روز افزوں اضافہ کوبرقرار رکھ سکیں اور ہم دونوں کا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو کہ ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانے والے ہیں۔سلام ہو رسول خدا (ص) پر اور ان کی طیب وطاہر آل پر اور سب پر سلام بے حساب۔والسلام

(۵۴)

آپ کا مکتوب گرامی

(طلحہ و زبیر کے نام جسے عمران بن الحصین الخزاعی کے ذریعہ بھیجا تھا اور جس کا ذکر ابو جعفر اسکافی ۱نے کتاب المقامات میں کیا ہے )

امابعد! اگرچہ تم دونوں چھپا رہے ہو لیکن تمہیں بہر حال معلوم ہے کہ میں نے خلافت کی خواہش نہیں کی۔لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور میں نے بیعت کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔تم دونوں بھی انہیں افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے چاہا تھا اورمیری بیعت کی تھی

(۱)ابو جعفر اس کافی معتزلہ کے شیوخ میں شمار ہوتے تھے اور ان کے ستر ۷۰ تصنیفات تھیں جن میں ایک '' کتاب المقامات'' بھی تھی ۔اسی کتاب میں امیر المومنین کے اس مکتوب گرامی کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ حضرت نے اسے عمران کے ذریعہ بھیجا تھا جوفقہا صحابہ میں شمار ہوتیت ھے اورجنگ خیبر کے سال اسلام لائے تھے اور عہد معاویہ میں انتقال کیا تھا۔اسکافی جاحظ کے معاصروں میں تھے اور انہیں اسکاف کی نسبت سے اسکافی کہاجاتا ہے جونہروان اوربصرہ کے درمیان ایک شہر ہے۔

۵۹۱

وإِنَّ الْعَامَّةَ لَمْ تُبَايِعْنِي لِسُلْطَانٍ غَالِبٍ ولَا لِعَرَضٍ حَاضِرٍ – فَإِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي طَائِعَيْنِ - فَارْجِعَا وتُوبَا إِلَى اللَّه مِنْ قَرِيبٍ - وإِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي كَارِهَيْنِ - فَقَدْ جَعَلْتُمَا لِي عَلَيْكُمَا السَّبِيلَ بِإِظْهَارِكُمَا الطَّاعَةَ - وإِسْرَارِكُمَا الْمَعْصِيَةَ - ولَعَمْرِي مَا كُنْتُمَا بِأَحَقِّ الْمُهَاجِرِينَ - بِالتَّقِيَّةِ والْكِتْمَانِ - وإِنَّ دَفْعَكُمَا هَذَا الأَمْرَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْخُلَا فِيه - كَانَ أَوْسَعَ عَلَيْكُمَا مِنْ خُرُوجِكُمَا مِنْه - بَعْدَ إِقْرَارِكُمَا بِه.

وقَدْ زَعَمْتُمَا أَنِّي قَتَلْتُ عُثْمَانَ - فَبَيْنِي وبَيْنَكُمَا مَنْ تَخَلَّفَ عَنِّي وعَنْكُمَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ - ثُمَّ يُلْزَمُ كُلُّ امْرِئٍ بِقَدْرِ مَا احْتَمَلَ - فَارْجِعَا أَيُّهَا الشَّيْخَانِ عَنْ رَأْيِكُمَا - فَإِنَّ الآنَ أَعْظَمَ أَمْرِكُمَا الْعَارُ - مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَجَمَّعَ الْعَارُ والنَّارُ - والسَّلَامُ.

اورعام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت کے رعب داب سے کی ہے اور نہ کی مال دنیا کی لالچ میں کی ہے۔پس اگر تم دونوں نے میر ی بیعت اپنی خوشی سے کی تھی تو اب خدا کی طرف رجوع کرو اور فوراً توبہ کرلو۔اور اگرمجبوراً کی تھی تو تم نے اپنے اوپر میرا حق ثابت کردیا کہ تم نے اطاعت کا اظہار کیا تھا اورناف رمانی کودل میں چھپا کر رکھا تھا۔اورمیری جان کی قسم تم دونوں اس راز داری اوردل کی باتوں کے چھپانے میں مہاجرین سیزیادہ سزا وار نہیں تھے اور تمہارے لئے بعت سے نکلنے اور اس کے اقرار کے بعد انکار کردینے سے زیادہ آسان روز اول ہی اس کا انکار کردیناتھا۔تم لوگوں کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ میں نے عثمان کوقتل کیا ہے تو میرے اور تمہارے درمیان وہ اہل مدینہ موجود ہیں جنہوں نے ہم دونوں سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔اس کے بعد ہرشخص اسی کاذمہدار ہے جو اس نے ذمہداری قبول کی ہے۔ بزرگوارو! موقع غنیمت ہے اپنی رائے سے بازآجائو کہ آج تو صرف ننگ وعارکاخطرہ ہے لیکن اس کے بعد عارونار دونوں جمع ہو جائیں گے۔والسلام۔

۵۹۲

(۵۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدْ جَعَلَ الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا - وابْتَلَى فِيهَا أَهْلَهَا لِيَعْلَمَ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا - ولَسْنَا لِلدُّنْيَا خُلِقْنَا ولَا بِالسَّعْيِ فِيهَا أُمِرْنَا - وإِنَّمَا وُضِعْنَا فِيهَا لِنُبْتَلَي بِهَا - وقَدِ ابْتَلَانِي اللَّه بِكَ وابْتَلَاكَ بِي - فَجَعَلَ أَحَدَنَا حُجَّةً عَلَى الآخَرِ - فَعَدَوْتَ عَلَى الدُّنْيَا بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ - فَطَلَبْتَنِي بِمَا لَمْ تَجْنِ يَدِي ولَا لِسَانِي - وعَصَيْتَه أَنْتَ وأَهْلُ الشَّامِ بِي - وأَلَّبَ عَالِمُكُمْ جَاهِلَكُمْ وقَائِمُكُمْ قَاعِدَكُمْ؛ فَاتَّقِ اللَّه فِي نَفْسِكَ ونَازِعِ الشَّيْطَانَ قِيَادَكَ - واصْرِفْ إِلَى الآخِرَةِ وَجْهَكَ - فَهِيَ طَرِيقُنَا وطَرِيقُكَ - واحْذَرْ أَنْ يُصِيبَكَ اللَّه مِنْه بِعَاجِلِ قَارِعَةٍ - تَمَسُّ الأَصْلَ وتَقْطَعُ الدَّابِرَ - فَإِنِّي أُولِي لَكَ بِاللَّه أَلِيَّةً غَيْرَ فَاجِرَةٍ - لَئِنْ جَمَعَتْنِي وإِيَّاكَ جَوَامِعُ الأَقْدَارِ لَا أَزَالُ بِبَاحَتِكَ -

(۵۵)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام)

اما بعد!خدائے بزرگ وبرتر نے دنیا کو آخرت کا مقدمہ قراردیا ہے اوراسے آزمائش کاذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ بہترین عمل کرنے والا کون ہے۔ہم نہ اس دنیاکے لئے پیداکئے گئے ہیں اور نہ ہمیں اس کے لئے دوڑ دھوپ کا حکم دیا گیا ہے۔ہم یہاں فقط اس لئے رکھے گئے ہیں کہ ہمارا امتحان لیاجائے اوراللہ نے تمہارے ذریعہ ہمارا ' اور ہماریذریعہ تمہارا امتحان لے لیا ہے اورایک کو دوسرے پرحجت قرا دے دیا ہے لیکن تم نے تاویل قرآن کاسہارا لے کردنیا پردھاوا بول دیا اور مجھ سے ایسے جرم کا محاسبہ کردیا جس کا نہ میرے ہاتھ سے کوئی تعلق تھا اورنہ زبان سے۔صرف اہل شام نے میرے سرڈال دیا تھا اور تمہارے جاننے والوں نے جاہلوں کو اور قیام کرنے والوں نے خانہ نشینوںکو اکسا دیا تھا لہٰذا اب بھی غنیمت ہے کہ اپنے نفس کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور شیطان سے اپنی زمام چھڑالو اورآخرت کی طرف رخ کرلو کہ وہی ہماری اورتمہاریآخری منزل ہے۔اس وقت سے ڈرو کہ اس دنیا میں پروردگار کوئی ایسی مصیبت نازل کردے کہ اصل بھی ختم ہو جائے اورنسل کابھی خاتمہ ہو جائے۔میں پروردگار کی ایسی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے غلط ہونے کا امکان نہیں ہے کہ اگرمقدر نے مجھے اور تمہیں ایک میدان میں جمع کردیا تو میں اس وقت تک میدان نہ

۵۹۳

( حَتَّى يَحْكُمَ الله بَيْنَنا وهُوَ خَيْرُ الْحاكِمِينَ ) .

(۵۶)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها شريح بن هانئ - لما جعله على مقدمته إلى الشام

اتَّقِ اللَّه فِي كُلِّ صَبَاحٍ ومَسَاءٍ - وخَفْ عَلَى نَفْسِكَ الدُّنْيَا الْغَرُورَ - ولَا تَأْمَنْهَا عَلَى حَالٍ - واعْلَمْ أَنَّكَ إِنْ لَمْ تَرْدَعْ نَفْسَكَ عَنْ كَثِيرٍ مِمَّا تُحِبُّ - مَخَافَةَ مَكْرُوه - سَمَتْ بِكَ الأَهْوَاءُ إِلَى كَثِيرٍ مِنَ الضَّرَرِ - فَكُنْ لِنَفْسِكَ مَانِعاً رَادِعاً - ولِنَزْوَتِكَ عِنْدَ الْحَفِيظَةِ وَاقِماً قَامِعاً

(۵۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل الكوفة - عند مسيره من المدينة إلى البصرة

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي خَرَجْتُ مِنْ حَيِّي هَذَا - إِمَّا ظَالِماً وإِمَّا مَظْلُوماً وإِمَّا بَاغِياً وإِمَّا مَبْغِيّاً عَلَيْه - وإِنِّي أُذَكِّرُ اللَّه مَنْ بَلَغَه كِتَابِي هَذَا لَمَّا نَفَرَ إِلَيَّ - فَإِنْ كُنْتُ مُحْسِناً أَعَانَنِي -.

چھوڑوں گا جب تک میرے اور تمہارے دمیان فیصلہ نہ ہوجائے ۔

(۵۶)

آپ کی وصیت

(جو شریح ۱بن ہانی کو اس وقت فرمائی جب انہیں شام جانے والے ہر اول دستہ کا سردار مقرر فرمایا)

صبح و شاماللہ سے ڈرتے رہو اوراپنے نفس کو اس دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اور اس پر کسی حال میں اعتبارنہ کرنااور یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کوب ہت سی پسندیدہ چیزوں سے نہ روکا۔تو خواہشات تم کوب ہت سے نقصان وہ امور تک پہنچادیں گی لہٰذا ہمیشہ اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے رہو اورغصہ میں اپنے غیظ و غضب کو دباتے اورکچلتے رہو۔

(۵۷)

آپ کا مکتوب گرامی

(اہل کوفہ کےنام۔مدینہ سے بصرہ روانہ ہوتے وقت)

امابعد! میں اپنے قبیلہ سے نکل رہا ہوں یا ظلم کی حیثیت سے یا مظلوم کی حیثیت سے۔یامیں نے بغاوت کی ہے یا میرے خلاف بغاوت ہوئی ہے۔میں تمہیں خدا کاواسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جہاں تک میرا یہ خط پہنچ جائے تم سب نکل کرآجائو۔اس کے بعد مجھے نیکی پرپائو تومیری امداد کرو

(۱)یہ امیرالمومنین کے جلیل الدقر صحابی تھے ۔ابو مقداد کنیت تھی اور آپ کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے۔یہاں تک کہ حجاج کے زمانہ میں سجستان میں شہید ہوئے۔حضرت نے انہیں شام جانے والے ہر اول دستہ کا امیر مقرر کیا تو مذکورہ ہدایات سے سرفراز فرمایا تاکہ کوئی شخص اسلامی پابندی سے آزادی کا تصورنہ کرسکے ۔

۵۹۴

وإِنْ كُنْتُ مُسِيئاً اسْتَعْتَبَنِي

(۵۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

كتبه إلى أهل الأمصار - يقص فيه ما جرى بينه وبين أهل صفين

وكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا والْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - والظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ ونَبِيَّنَا وَاحِدٌ - ودَعْوَتَنَا فِي الإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ - ولَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الإِيمَانِ بِاللَّه والتَّصْدِيقِ بِرَسُولِه - ولَا يَسْتَزِيدُونَنَا - الأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيه مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ونَحْنُ مِنْه بَرَاءٌ - فَقُلْنَا تَعَالَوْا نُدَاوِ مَا لَا يُدْرَكُ الْيَوْمَ - بِإِطْفَاءِ النَّائِرَةِ وتَسْكِينِ الْعَامَّةِ - حَتَّى يَشْتَدَّ الأَمْرُ ويَسْتَجْمِعَ - فَنَقْوَى عَلَى وَضْعِ الْحَقِّ مَوَاضِعَه - فَقَالُوا بَلْ نُدَاوِيه بِالْمُكَابَرَةِ - فَأَبَوْا حَتَّى جَنَحَتِ الْحَرْبُ ورَكَدَتْ - ووَقَدَتْ نِيرَانُهَا وحَمِشَتْ -

اورغلطی پر دیکھو تو مجھے رضا کے راستہ پر لگا دو(۶۳) ۔

(۵۸)

آپ کامکتوب گرامی

(تمام شہروں کے نام۔جس میں صفین کی حقیقت کااظہار کیا گیا ہے )

ہمارے معاملہ کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب بظاہر(۱) دونو ں کاخدا ایک تھا۔رسول ایک تھا۔پیغام ایک تھا۔نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلب گار تھے ۔نہ وہ اپنے ایمان کوبڑھانا چاہتے تھے۔معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے اورہم نے یہ حل پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہوسکتا ہے ' اس کاوقتی علاج یہ کیا جائے ہ آتش جنگ کو خاموش کردیاجائے اور لوگوں کے جذبات کوپرسکون بنادیا جائے۔اس کے بعد جب حکومت کو استحکام ہوجائے گا اورحالات ساز گار ہوجائیںگے تو ہم حق کو اس کی منزل تک لانے کی طاقت پیدا کرلیں گے۔لیکن قوم کا اصرار(۲) تھا۔کہ اس کا علاج صرف جنگ و جدال ہے۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ جنگ نے اپنے پائوںپھیلادئیے اورجم کر کھڑی ہوگئی۔شعلے بھڑک اٹھے اورٹھہرگئے اور قوم نے دیکھاکہ

(۱)یہ اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ حضرت نے معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے اسلام و ایمان کا اقرارنہیں کیا ہے بلکہ صورت حال کا تذکرہ کیا ہے۔

(۲)حقیقت امری ہ ہے کہ معاویہ کوخون عثمان سے کوئی دلچسپی نہیںتھی۔وہ شام کی حکومت اور عالم اسلام کی خلافت کا طماع تھا لہٰذا کوئی سنجیدہ گفتگو قبول نہیں کر سکتا تھا۔حضرت نے بھی اتمام حجت کا حقادا کردیا اور اس کے بعد میدان جہاد میں قدم جمادئیے تاکہ دنیا پرواضح ہو جائے کہ جہاد راہ خدا فرزند ابو طالب کا کام ہے۔ابو سفیان کے بیٹے کانہیں ہے۔

۵۹۵

فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وإِيَّاهُمْ - ووَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِينَا وفِيهِمْ - أَجَابُوا عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى الَّذِي دَعَوْنَاهُمْ إِلَيْه - فَأَجَبْنَاهُمْ إِلَى مَا دَعَوْا وسَارَعْنَاهُمْ إِلَى مَا طَلَبُوا - حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ - فَمَنْ تَمَّ عَلَى ذَلِكَ مِنْهُمْ - فَهُوَ الَّذِي أَنْقَذَه اللَّه مِنَ الْهَلَكَةِ - ومَنْ لَجَّ وتَمَادَى فَهُوَ الرَّاكِسُ - الَّذِي رَانَ اللَّه عَلَى قَلْبِه - وصَارَتْ دَائِرَةُ السَّوْءِ عَلَى رَأْسِه

جنگ نے دونوں کودانت کاٹنا شروع کردیا اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پرآمادہ ہوگئے اورمیں نے بھی ان کیبات کو مان لیا اورتیزی سے بڑھ کران کے مطالبہ صلح کو قبول کرلیا یہاں تک کہ ان پرحجت واضح ہوگئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہوگیا۔اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا توگویا اپنے نفس کو ہلاکت سے نکال لیا ورنہ اس گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہوگا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔

۵۹۶

(۵۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى الأسود بن قطبة صاحب جند حلوان

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْوَالِيَ إِذَا اخْتَلَفَ هَوَاه - مَنَعَه ذَلِكَ كَثِيراً مِنَ الْعَدْلِ - فَلْيَكُنْ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَكَ فِي الْحَقِّ سَوَاءً - فَإِنَّه لَيْسَ فِي الْجَوْرِ عِوَضٌ مِنَ الْعَدْلِ - فَاجْتَنِبْ مَا تُنْكِرُ أَمْثَالَه - وابْتَذِلْ نَفْسَكَ فِيمَا افْتَرَضَ اللَّه عَلَيْكَ - رَاجِياً ثَوَابَه ومُتَخَوِّفاً عِقَابَه.

واعْلَمْ أَنَّ الدُّنْيَا دَارُ بَلِيَّةٍ - لَمْ يَفْرُغْ صَاحِبُهَا فِيهَا قَطُّ سَاعَةً - إِلَّا كَانَتْ فَرْغَتُه عَلَيْه حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ - وأَنَّه لَنْ يُغْنِيَكَ عَنِ الْحَقِّ شَيْءٌ أَبَداً - ومِنَ الْحَقِّ عَلَيْكَ حِفْظُ نَفْسِكَ - والِاحْتِسَابُ عَلَى الرَّعِيَّةِ بِجُهْدِكَ - فَإِنَّ الَّذِي يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْ ذَلِكَ - أَفْضَلُ مِنَ الَّذِي يَصِلُ بِكَ والسَّلَامُ.

(۶۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى العمال الذين يطأ الجيش عملهم

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ

(۵۹)

آپ کامکتوب گرامی

(اسود بن قطبہ والی حلوان کے نام)

اما بعد! دیکھواگر والی کے خواہشات مختلف قسم کے ہوں گے تویہ بات اسے اکثر اوقات انصاف سے روک دے گی لیکن تمہاری نگاہ میں تمام افراد کے معاملات کو ایک جیسا ہونا چاہیے کہ ظلم کبھی عدل کابدل نہیں ہوسکتا ہے۔ جس چیز کودوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو اس سے خودبھی اجتناب کرو اور اپنے نفس کو ان کاموں میں لگادو جنہیں خدانے تم پرواجب کیا ہے اوراس کے ثواب کیامید رکھواورعذاب سے ڈرتے رہو۔ اوریاد رکھو کہ دنیا دار آزمائش ہے یہاں انسان کی ایک گھڑی بھی خالی نہیں جاتی ہے مگر یہ کہ یہ بیکاری روز قیامت حسرت کا سبب بن جاتی ہے اورتم کو کوئی شے حق سے بے نیاز نہیں بنا سکتی ہے اور تمہارے اوپر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اپنے نفس کومحفوظ رکھو اوراپنے ا مکان بھر رعایاکا احتساب کرتے رہوکہ اس طرح جوفائدہ تمہیں پہنچے گا وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا جوفائدہ لوگوں کوتم سے پہنچے گا۔والسلام۔

(۶۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(ان اعمال کے نام جن کا علقہ فوج کے راستہ میں پڑتا تھا)

بندۂ خدا امیر المومنین علی کی طرف سے ان

۵۹۷

إِلَى مَنْ مَرَّ بِه الْجَيْشُ - مِنْ جُبَاةِ الْخَرَاجِ وعُمَّالِ الْبِلَادِ.

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي قَدْ سَيَّرْتُ جُنُوداً - هِيَ مَارَّةٌ بِكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه - وقَدْ أَوْصَيْتُهُمْ بِمَا يَجِبُ لِلَّه عَلَيْهِمْ - مِنْ كَفِّ الأَذَى وصَرْفِ الشَّذَا - وأَنَا أَبْرَأُ إِلَيْكُمْ وإِلَى ذِمَّتِكُمْ مِنْ مَعَرَّةِ الْجَيْشِ - إِلَّا مِنْ جَوْعَةِ الْمُضْطَرِّ لَا يَجِدُ عَنْهَا مَذْهَباً إِلَى شِبَعِه - فَنَكِّلُوا مَنْ تَنَاوَلَ مِنْهُمْ شَيْئاً ظُلْماً عَنْ ظُلْمِهِمْ - وكُفُّوا أَيْدِيَ سُفَهَائِكُمْ عَنْ مُضَارَّتِهِمْ - والتَّعَرُّضِ لَهُمْ فِيمَا اسْتَثْنَيْنَاه مِنْهُمْ - وأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِ الْجَيْشِ - فَارْفَعُوا إِلَيَّ مَظَالِمَكُمْ - ومَا عَرَاكُمْ مِمَّا يَغْلِبُكُمْ مِنْ أَمْرِهِمْ - ومَا لَا تُطِيقُونَ دَفْعَه إِلَّا بِاللَّه وبِي فَأَنَا أُغَيِّرُه بِمَعُونَةِ اللَّه إِنْ شَاءَ اللَّه.

خراج جمع کرنے والوں اور علاقوں کے والیوں کے نام جن کے علاوہ سے لشکروں کا گزر ہوتا ہے۔

امابعد میں نے کچھ فوجیں روانہ کی ہیںجو عنقریب تمہارے علاقہ سے گزرنے والی ہیں اورمیں نے انہیں ان تمام باتوں کی نصیحت کردی ہے جوان پرواجب ہیں کہ کی کواذیت نہ دیں اور تکلیف کودور رکھیں اورمیںتمہیں اورتمہارے اہل ذمہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ فوج والے کوئی دست درازی کریں گے تو میں ان سے بیزار رہوں گا مگر یہ کوی شخص(۱) بھوک سے مضطر ہو اور اس کے پاس پیٹ بھرنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔اس کے علاوہ کوئی ظالمانہ انداز سے ہاتھ لگائے تواس کو سزا دینا تمہارا فرض ہے۔لیکن اپنے سرپھروں کو سمجھا دینا کہ جن حالات کو میں نے مشتنیٰ قراردیا ہے ان میں کوئی شخص کسی چیز کو ہاتھ لگانا چاہے تو اس سے مقابلہ نہ کریں اورٹوکیں نہیں۔پھراس کے بعد میں لشکرکے اندر موجود ہوں اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور سختیوں کی فریاد مجھ سے کرو اگرتم دفع کرنے کے قابل نہیں ہو جب تک اللہ کی مدد اورمیری امداد شامل نہ ہو۔میں انشاء اللہ اللہ کی مدد سے حالات کوبدل دوںگا۔

(۱)اس خط میں حضرت نے دو طرح کے مسائل کاتذکرہ فرمایا ہے۔ایک کا تعلق لشکر سے ہے اوردوسرے کا اس علاقہ سے جہاں سے لشکر گزرنے والا ہے لشکروالوں کو توجہ دلائی ہے کہ خبردار رعایا پر کسی طرح کا ظلم نہ ہونے پائے کہ تمہارا کام ظلم و جور کا مقابلہ کرنا ہے۔ظلم کرنا نہیں ہے اورراستہ کے عوام کو متوجہ کیاہے کہ اگر لشکر میںکوئی شخص بربنائے اضطرار کسی چیز کو استعمال کرلے تو خبرداراسے منع نہ کرنا کہ یہ اس کا شرعی حق ہے اور اسلام میں کسی شخص کو اس کے حق سے محروم نہیںکیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد لشکرکی ذمہداری ہے کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو میری طرف رجوع کرے اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے مسائل کی فریاد میرے پاس پیش کریں اورس ارے معاملات کو خود طے کرنے کی کوشش نہ کریں ۔

۵۹۸

(۶۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى كميل بن زياد النخعي وهو عامله على هيت، ينكر عليه تركه دفع من يجتاز به من جيش العدو طالبا الغارة.

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ تَضْيِيعَ الْمَرْءِ مَا وُلِّيَ وتَكَلُّفَه مَا كُفِيَ - لَعَجْزٌ حَاضِرٌ ورَأْيٌ مُتَبَّرٌ - وإِنَّ تَعَاطِيَكَ الْغَارَةَ عَلَى أَهْلِ قِرْقِيسِيَا - وتَعْطِيلَكَ مَسَالِحَكَ الَّتِي وَلَّيْنَاكَ - لَيْسَ بِهَا مَنْ يَمْنَعُهَا ولَا يَرُدُّ الْجَيْشَ عَنْهَا - لَرَأْيٌ شَعَاعٌ - فَقَدْ صِرْتَ جِسْراً لِمَنْ أَرَادَ الْغَارَةَ - مِنْ أَعْدَائِكَ عَلَى أَوْلِيَائِكَ - غَيْرَ شَدِيدِ الْمَنْكِبِ ولَا مَهِيبِ الْجَانِبِ،ولَا سَادٍّ ثُغْرَةً ولَا كَاسِرٍ لِعَدُوٍّ شَوْكَةً -

(۶۱)

آپ کامکتوب گرامی

(کمیل بن زیاد۱النخعی کے نام جو بیت المال کے عامل تھے اورانہوں نے فوج دشمن کو لوٹ مارسے منع نہیں کیا )

امابعد! انسان کا اس کام کو نظرانداز کردینا جس کاذمہ داربنایا گیا ہے اور اس کام میں لگ جانا جواس کے فرائض میں شامل نہیں ہے ایک واضح کمزوری اور تباہ کن فکر ہے۔

اوردیکھو تمہارا اہل قبر قیسا پرحملہ کردینا اورخود اپنی سرحدوں کومعطل چھوڑدینا جن کا تم کوذمہ دار بنایا گا تھا۔اس عالم میں کہ انکا کوئی دفاع کرنے والا اور ان سے لشکروں کو ہٹانے والا نہیںتھا ایک انتہائی پراگندہ رائے ہے اور اس طرح تم دوستوں پرحملہ کرنے والے دشمنوں کے لئے ایک وسیلہ بن گئے جہاں نہ تمہارے کاندھے مضبوط تھے اور نہ تمہاری کوئی ہیبت تھی۔نہ تم نے دشمن

(۱)جناب کمیل مولائے کائنات کے مخصوص اصحاب میں تھے اوربڑے پایہ کے عالم و فاضل تھے لیکن بہر حال بشر تھے اور انہوںنے معاویہ کے مظالم کے جواب میں یہی مناسب سمجھا کہ جس طرح وہ ہمارے علاقہ میں فساد پھیلا رہا ہے ' ہم بھی اس کے علاقہ پر حملہ کردیں تاکہفوجوں کا رخ ادھرمڑ جائے مگری ہبات امامت کے مزاج کے خلاف تھی لہٰذا حضرت نے فوراً تنبیہ کردی اورمکیل نے بھی اپنے اقدام کے نا مناسب ہونے کا احساس کرلیا اور یہی انسان کا کمال کردار ہے کہ غلطی پراصرار نہ کرے ورنہ غلطی نہ کرنا شان عصمت ہے۔شان اسلام و ایمان نہیں ہے۔

جناب کمیل کی غیرت داری کایہ عالم تھا کہ جب حجاج نے انہیں تلاش کرنا شروع کیا اور گرفتارنہ کر سکا تو ان کی قوم پر دانہ پانی بند کردیا۔کمیل کو اس امر کی اطلاع ملی تو فوراً حجاج کے دربار میں پہنچ گئے اور فرمایا کہ میں اپنی ذات کی حفاظت کی خاطر ساری قوم کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا ہوں اورود محبت اہل بیت سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتا ہوں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اپنی سزا خود برداشت کروں جس کے نتیجہ میں حجاج نے ان کی زندگی کاخاتمہ کرادیا۔

۵۹۹

ولَا مُغْنٍ عَنْ أَهْلِ مِصْرِه ولَا مُجْزٍ عَنْ أَمِيرِه.

(۶۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل مصر مع مالك الأشتر - لما ولاه إمارتها

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَذِيراً لِلْعَالَمِينَ ومُهَيْمِناً عَلَى الْمُرْسَلِينَ - فَلَمَّا مَضَىعليه‌السلام تَنَازَعَ الْمُسْلِمُونَ الأَمْرَ مِنْ بَعْدِه - فَوَاللَّه مَا كَانَ يُلْقَى فِي رُوعِي - ولَا يَخْطُرُ بِبَالِي أَنَّ الْعَرَبَ تُزْعِجُ هَذَا الأَمْرَ - مِنْ بَعْدِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَنْ أَهْلِ بَيْتِه - ولَا أَنَّهُمْ مُنَحُّوه عَنِّي مِنْ بَعْدِه - فَمَا رَاعَنِي إِلَّا انْثِيَالُ النَّاسِ عَلَى فُلَانٍ يُبَايِعُونَه - فَأَمْسَكْتُ يَدِي حَتَّى رَأَيْتُ رَاجِعَةَ النَّاسِ - قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الإِسْلَامِ - يَدْعُونَ إِلَى مَحْقِ دَيْنِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَخَشِيتُ إِنْ لَمْ أَنْصُرِ الإِسْلَامَ وأَهْلَه - أَنْ أَرَى فِيه ثَلْماً أَوْ هَدْماً - تَكُونُ الْمُصِيبَةُ بِه عَلَيَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَايَتِكُمُ - الَّتِي إِنَّمَا هِيَ مَتَاعُ أَيَّامٍ قَلَائِلَ - يَزُولُ مِنْهَا مَا كَانَ كَمَا يَزُولُ السَّرَابُ -

کا راستہ روکا اورنہ اس کی شوکت کو تواڑ۔نہ اہل شہر کے کام آئے اور نہ اپنے امیر کے فرض کو انجام دیا۔

(۶۲)

آپ کامکتوب گرامی

(اہل مصرکے نام۔مالک اشترکے ذریعہ جب ان کو والی مصر بناکر روانہ کیا)

اما بعد!پروردگار نے حضرت محمد (ص) کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اورمرسلین کے لئے گواہ اورنگراں بناکربھیجا تھا لیکن ان کے جانے کے بعد ہی مسلمانوں نے ان کے خلاف میں جھگڑا شروع کردیا۔خدا گواہ ہے کہ یہ بات میرے خیال میںبھی نہ تھی اور نہ میرے دل سے گزری تھی کہ عرب اس منصب کو ان کے اہل بیت سے اس طرح موڑ دیں گے اور مجھ سے اس طرح دور کردیں گے کہمیں نے اچانک یہ دیکھا کہ لوگ فلاں شخص کی بیعت کے لئے ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو میں نے اپنے ہاتھ کو روک لیا یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس جا رہے ہیں اور پیغمبر کے قانون کو برباد کردینا چاہتے ہیں تومجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اوربربادی کو دیکھنے کے بعد بھی میں نے اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اس کی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جوآج اس حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے اورایک دن اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح سراب کی چمک

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863