نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 564946
ڈاؤنلوڈ: 13191

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 564946 / ڈاؤنلوڈ: 13191
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

والْمُبْتَاعِ فَمَنْ قَارَفَ حُكْرَةً بَعْدَ نَهْيِكَ إِيَّاه فَنَكِّلْ بِه وعَاقِبْه فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ

ثُمَّ اللَّه اللَّه فِي الطَّبَقَةِ السُّفْلَى مِنَ الَّذِينَ لَا حِيلَةَ لَهُمْ - مِنَ الْمَسَاكِينِ والْمُحْتَاجِينَ وأَهْلِ الْبُؤْسَى والزَّمْنَى - فَإِنَّ فِي هَذِه الطَّبَقَةِ قَانِعاً ومُعْتَرّاً - واحْفَظِ لِلَّه مَا اسْتَحْفَظَكَ مِنْ حَقِّه فِيهِمْ - واجْعَلْ لَهُمْ قِسْماً مِنْ بَيْتِ مَالِكِ - وقِسْماً مِنْ غَلَّاتِ صَوَافِي الإِسْلَامِ فِي كُلِّ بَلَدٍ - فَإِنَّ لِلأَقْصَى مِنْهُمْ مِثْلَ الَّذِي لِلأَدْنَى – وكُلٌّ قَدِ اسْتُرْعِيتَ حَقَّه - ولَا يَشْغَلَنَّكَ عَنْهُمْ بَطَرٌ - فَإِنَّكَ لَا تُعْذَرُ بِتَضْيِيعِكَ التَّافِه لإِحْكَامِكَ الْكَثِيرَ الْمُهِمَّ - فَلَا تُشْخِصْ هَمَّكَ عَنْهُمْ ولَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لَهُمْ - وتَفَقَّدْ أُمُورَ مَنْ لَا يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْهُمْ - مِمَّنْ تَقْتَحِمُه الْعُيُونُ وتَحْقِرُه الرِّجَالُ - فَفَرِّغْ لأُولَئِكَ ثِقَتَكَ مِنْ أَهْلِ الْخَشْيَةِ والتَّوَاضُعِ - فَلْيَرْفَعْ إِلَيْكَ أُمُورَهُمْ - ثُمَّ اعْمَلْ فِيهِمْ بِالإِعْذَارِ إِلَى اللَّه يَوْمَ تَلْقَاه - فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ بَيْنِ الرَّعِيَّةِ أَحْوَجُ إِلَى الإِنْصَافِ مِنْ غَيْرِهِمْ - وكُلٌّ فَأَعْذِرْ إِلَى اللَّه فِي تَأْدِيَةِ حَقِّه إِلَيْه

ظلم نہ ہو۔اس کے بعد تمہارے منع کرنے کے باوجود اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے تو اسے سزا دو لیکن اس میں بھی حد سے تجاوز نہ ہونے پائے ۔

اس کے بعد اللہ سے ڈرو اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں جو مساکین 'محتاج ' فقراء اورمعذور افراد کا طبقہ ہے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔ انکے جس حق کا اللہ نے تمہیں محافظ بنایا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کردو کہ ان کے دور افتادہ کا بھی وہی حق ہے جو قریب والوں کا ہے اورتمہیں سبکا نگراں بنایا گیا ہے لہٰذا خبردارکہیں غرور و تکبر تمہیں ان کی طرف سے غافل نہ بنادے کہ تمہیں بڑے کاموں کے مستحکم کر دینے سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے گا۔لہٰذا نہ اپنی توجہ کو ان کی طرف سے ہٹانا اور نہ غرور کی بناپر اپنا منہ موڑ لینا۔جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انہیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور شخصیتوں نے حقیر بنادیا ہے ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمہارا ہی فریضہ ہے لہٰذا ان کے لئے متواضع اور خوف خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جو تم تک ان کے معاملات کو پہنچاتے رہیں اورتم ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بناپر روز قیامت پیش پروردگار معذور کہے جا سکو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں اور پھر ہرایک کے حقوق کو ادا کرنے میں پیش پروردگار اپنے

۵۸۱

وتَعَهَّدْ أَهْلَ الْيُتْمِ وذَوِي الرِّقَّةِ فِي السِّنِّ مِمَّنْ لَا حِيلَةَ لَه ولَا يَنْصِبُ لِلْمَسْأَلَةِ نَفْسَه - وذَلِكَ عَلَى الْوُلَاةِ ثَقِيلٌ - والْحَقُّ كُلُّه ثَقِيلٌ وقَدْ يُخَفِّفُه اللَّه عَلَى أَقْوَامٍ - طَلَبُوا الْعَاقِبَةَ فَصَبَّرُوا أَنْفُسَهُمْ - ووَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللَّه لَهُمْ.

واجْعَلْ لِذَوِي الْحَاجَاتِ مِنْكَ قِسْماً تُفَرِّغُ لَهُمْ فِيه شَخْصَكَ - وتَجْلِسُ لَهُمْ مَجْلِساً عَامّاً - فَتَتَوَاضَعُ فِيه لِلَّه الَّذِي خَلَقَكَ - وتُقْعِدُ عَنْهُمْ جُنْدَكَ وأَعْوَانَكَ مِنْ أَحْرَاسِكَ وشُرَطِكَ - حَتَّى يُكَلِّمَكَ مُتَكَلِّمُهُمْ غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ - فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ فِي غَيْرِ مَوْطِنٍ - لَنْ تُقَدَّسَ

کو معذور ثابت کرو۔

اوریتیموں اور کبیر السن بوڑھوں کے حالات کی بھی نگرانی کرتے رہنا کہ ان کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یہ سوال کرنے کے لئے کھڑے بھی نہیں ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کا خیال رکھنا حکام کے لئے بڑا سنگین مسئلہ ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے حق تو سب کا سب ثقیل ہی ہے۔البتہ کبھی کبھی پروردگار اسے ہلکا قرار دے دیتا ہے ان اقوام کے لئے جو عاقبت کی طلب گار ہوتی ہیں اور اس راہمیں اپنے نفس کو صبر کاخوگر بناتی ہیں اورخدا کے وعدہ پر اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

اور دیکھو صاحبان ضرورت کے لئے ایک وقت معین کردو جس میں اپنے کوان کے لئے خالی کرلو اور ایک عمومی مجلس میں بیٹھوں ۔اس خداکے سامنے متواضع رہو جس نے پیدا کیا ہے اور اپنے تمام نگہبان(۱) پولیس' فوج ' اعوان و انصار سب کو دوربٹھا دو تاکہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکارنہ ہو کہ میں نے رسول اکرم (ص) سے خود سنا ہے کہ آپ نے بار بار فرمایا ہے کہ ' 'وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہوسکتی ہے جس میں

(۱) مقصد یہ نہیں ہے کہ حاکم جلسہ عام میں لاوارث ہو کر بیٹھ جائے اور کوئی بھی مفسد ' ظالم فقیر کے بھیس میں آکر اس کا خاتمہ کردے ۔مقصد صرف یہ ہے کہ پولیس ' فوج ' محافظ ' دربان ' لوگوں کے ضروریات کی راہ میں حائل نہ ہونے پائیں کہ نہ انہیں تمہارے پاس آنے دیں اور نہ کھ لکر بات کرنے کاموقع دیں ۔چاہے اس سے پہلے بچاس مقامات پر تلاشی لی جائے کہ غرباء کی حاجت روائی کے نام پر حکام کی زندگیوں کو قربان نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ مفسدین کوبے لگام چھوڑا جاسکتا ہے۔حاکم کے لئے بنیادی مسئلہ اس کی شرافت ' دیانت ' امانت داری کا ہے اس کے بعد اس کا مرتبہ عام معاشرہ سے بہرحال بلند تر ہے اور اس کی زندگی عوام الناس سے یقینا زیادہ قیمتی ہے اور اس کا تحفظ عوام الناس پر اسی طرح واجب ہے جس طرح وہ خودان کے مفادات کاتحفظ کر رہا ہے۔

۵۸۲

أُمَّةٌ لَا يُؤْخَذُ لِلضَّعِيفِ فِيهَا حَقُّه مِنَ الْقَوِيِّ - غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ –

ثُمَّ احْتَمِلِ الْخُرْقَ مِنْهُمْ والْعِيَّ - ونَحِّ عَنْهُمُ الضِّيقَ والأَنَفَ - يَبْسُطِ اللَّه عَلَيْكَ بِذَلِكَ أَكْنَافَ رَحْمَتِه - ويُوجِبْ لَكَ ثَوَابَ طَاعَتِه - وأَعْطِ مَا أَعْطَيْتَ هَنِيئاً وامْنَعْ فِي إِجْمَالٍ وإِعْذَارٍ !

ثُمَّ أُمُورٌ مِنْ أُمُورِكَ لَا بُدَّ لَكَ مِنْ مُبَاشَرَتِهَا - مِنْهَا إِجَابَةُ عُمَّالِكَ بِمَا يَعْيَا عَنْه كُتَّابُكَ - ومِنْهَا إِصْدَارُ حَاجَاتِ النَّاسِ يَوْمَ وُرُودِهَا عَلَيْكَ - بِمَا تَحْرَجُ بِه صُدُورُ أَعْوَانِكَ - وأَمْضِ لِكُلِّ يَوْمٍ عَمَلَه فَإِنَّ لِكُلِّ يَوْمٍ مَا فِيه: واجْعَلْ لِنَفْسِكَ فِيمَا بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه - أَفْضَلَ تِلْكَ الْمَوَاقِيتِ وأَجْزَلَ تِلْكَ الأَقْسَامِ - وإِنْ كَانَتْ كُلُّهَا لِلَّه إِذَا صَلَحَتْ فِيهَا النِّيَّةُ - وسَلِمَتْ مِنْهَا الرَّعِيَّةُ.

ولْيَكُنْ فِي خَاصَّةِ مَا تُخْلِصُ بِه لِلَّه دِينَكَ إِقَامَةُ فَرَائِضِه - الَّتِي هِيَ لَه خَاصَّةً - فَأَعْطِ اللَّه مِنْ بَدَنِكَ فِي لَيْلِكَ ونَهَارِكَ - ووَفِّ مَا تَقَرَّبْتَ بِه إِلَى اللَّه -

کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ''

اس کے بعد ان سے بد کلامی یا عاجزی کلام کا مظاہرہ ہو تواسے برداشت کرو اور دل تنگی اور غرور کو دور رکھو کہ تاکہ خدا تمہارے لئے رحمت کے اطراف کشارہ کردے اور اطاعت کے ثواب کو لازم قرار دیدے جسے جو کچھ دو خوشگواری کے ساتھ دو اور جسے منع کرو اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دو۔

اس کے بعد تمہارے معاملات میں بعض ایسے معاملات بھی ہیں جنہیںتمہیں خود براہ راست انجام دینا ہے۔جیسے حکام کے ان مسائل کے جوابات جن کے جوابات محرر افراد نہ دے سکیں یا لوگوں کے ان ضروریات کو پورا کرنا جن کے پورا کرنے سے تمہارے مدد گار افراد جی چراتے ہوں اوردیکھو ہر کام کو اسی کے دن مکمل کردینا کہ ہردن کا اپنا ایک کام ہوتا ہے۔اس کے بعد اپنے اور پروردگار کے روابط کے لئے بہترین وقت کا انتخاب کرنا جو تمام اوقات سے افضل اور بہتر ہو۔اگرچہ تمام ہی اوقات اللہ کے لئے شمار ہو سکتے ہیں اگر انسان کی نیت سالم رہے اور رعایا اس کے طفیل خوشحال ہو جائے ۔

اور تمہارے وہ اعمال جنہیں صرف اللہ کے لئے انجام دیتے ہو ان میں سے سب سے اہم کام ان فرائض کا قیام ہو جو صرف پروردگار کے لئے ہوتے ہیں۔اپنی جسمانی طاقت میں سے رات اور دن دونوں وقت ایک حصہ اللہ کے لئے قرار دینا اور جس کام کے ذریعہ اس کی قربت

۵۸۳

مِنْ ذَلِكَ كَامِلًا غَيْرَ مَثْلُومٍ ولَا مَنْقُوصٍ - بَالِغاً مِنْ بَدَنِكَ مَا بَلَغَ - وإِذَا قُمْتَ فِي صَلَاتِكَ لِلنَّاسِ - فَلَا تَكُونَنَّ مُنَفِّراً ولَا مُضَيِّعاً - فَإِنَّ فِي النَّاسِ مَنْ بِه الْعِلَّةُ ولَه الْحَاجَةُ - وقَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حِينَ وَجَّهَنِي إِلَى الْيَمَنِ - كَيْفَ أُصَلِّي بِهِمْ - فَقَالَ صَلِّ بِهِمْ كَصَلَاةِ أَضْعَفِهِمْ - وكُنْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً».

وأَمَّا بَعْدُ فَلَا تُطَوِّلَنَّ احْتِجَابَكَ عَنْ رَعِيَّتِكَ - فَإِنَّ احْتِجَابَ الْوُلَاةِ عَنِ الرَّعِيَّةِ شُعْبَةٌ مِنَ الضِّيقِ - وقِلَّةُ عِلْمٍ بِالأُمُورِ - والِاحْتِجَابُ مِنْهُمْ يَقْطَعُ عَنْهُمْ عِلْمَ مَا احْتَجَبُوا دُونَه - فَيَصْغُرُ عِنْدَهُمُ الْكَبِيرُ ويَعْظُمُ الصَّغِيرُ - ويَقْبُحُ الْحَسَنُ ويَحْسُنُ الْقَبِيحُ -

چاہتے ہو اسے مکمل طور سے انجام دینا نہ کوئی رخنہ پڑنے پائے اورنہ کوئی نقص پیدا ہو جائے بدن کو کسی قدرزحمت کیوں نہ ہو جائے۔اور جب لوگوں کے ساتھ جماعت کی نمازادا کرو تو نہ اس طرح پڑھو کہ لوگ بیزار ہو جائیں اور نہ اس طرح کہ نماز برباد ہو جائے اس لئے کہ لوگوں میں بیمار اور ضرورت مند افراد بھی ہوتے ہیں اور میں نے یمن کی مہم پر جاتے ہوئے حضور اکرم (ص) سے دریافت کیا تھا کہ نماز جماعت کا اندازہ کیا ہونا چاہیے تو آپ نے فرمایا تھا کہ کمزور ترین آدمی کے اعتبارسے نماز ادا کرنا اور مومنین کے حال پر مہربان رہنا۔

اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ اپنی رعایا سے دیر تک(۱) الگ نہ رہنا کہ حکام کا رعایا سے پس پردہ رہنا ایک طرح کی تنگ دلی پیداکرتا ہے اور ان کے معاملات کی اطلاع نہیں ہو پاتی ہے اور یہ پردہ داری انہیں بھی ان چیزوں کے جاننے سے روک دیتی ہے جن کے سامنے یہ حجابات قائم ہوگئے ہیں اور اس طرح بڑی چیز چھوٹی ہو جاتی ہے اورچھوٹی چیز بڑی ہو جاتی ہے۔اچھا برا بن جاتا ہے اوربرا اچھاہوجاتا ہے

(۱)یہ شاید اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سماج اور عوام سے الگ رہنا والی اورحاکم کے ضروریات زندگی میں شامل ہے ورنہ اس کی زندگی ۲۴گھنٹہ عوام الناس کی نذر ہوگئی تو نہ تنہائیوں می اپنے مالک سے مناجات کر سکتا ہے اور نہ خلوتوں میں اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کر سکتا ہے۔پردہ داری ایک انسانی ضرورت ہے جس سے کوئی انسان بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس پردہ داری کو طول نہ ہونے پائے کہ عوام الناس حاکم کی زیارت سے محروم ہو جائیں اور اس کا دیدار صرف ٹیلیویژن کے پردہ پر نصیب ہو جس سے نہ کوئی فریاد کی جا سکتی ہے اور نہ کسی درد دل کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ایسے شخص کو حاکم بننے کا یکا حق ہے جو عوام کے دکھ درد میں شریک نہ ہو سکے اور ان کی زندگی کی تلخیوں کو محسوس نہ کرسکے۔ایسے شخص کو دربار حکومت میں بیٹھ کر'' انا ربکم الا علی '' کا نعرہ لگانا چاہیے اور آخر میں کسی دریا میں ڈوب مرنا چاہیے۔اسلامی حکومت اس طرح کی لا پرواہی کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔اس کے لئے کوفہ میں بیٹھ کرحجاز اور یمامہکے فقراء کو دیکھنا پڑتا ہے اور ان کی حالت کے پیشنظر سو کھی روٹی کھانا پڑتی ہے۔

۵۸۴

ويُشَابُ الْحَقُّ بِالْبَاطِلِ - وإِنَّمَا الْوَالِي بَشَرٌ - لَا يَعْرِفُ مَا تَوَارَى عَنْه النَّاسُ بِه مِنَ الأُمُورِ - ولَيْسَتْ عَلَى الْحَقِّ سِمَاتٌ - تُعْرَفُ بِهَا ضُرُوبُ الصِّدْقِ مِنَ الْكَذِبِ - وإِنَّمَا أَنْتَ أَحَدُ رَجُلَيْنِ - إِمَّا امْرُؤٌ سَخَتْ نَفْسُكَ بِالْبَذْلِ فِي الْحَقِّ - فَفِيمَ احْتِجَابُكَ مِنْ وَاجِبِ حَقٍّ تُعْطِيه - أَوْ فِعْلٍ كَرِيمٍ تُسْدِيه أَوْ مُبْتَلًى بِالْمَنْعِ - فَمَا أَسْرَعَ كَفَّ النَّاسِ عَنْ مَسْأَلَتِكَ - إِذَا أَيِسُوا مِنْ بَذْلِكَ - مَعَ أَنَّ أَكْثَرَ حَاجَاتِ النَّاسِ إِلَيْكَ - مِمَّا لَا مَئُونَةَ فِيه عَلَيْكَ - مِنْ شَكَاةِ مَظْلِمَةٍ أَوْ طَلَبِ إِنْصَافٍ فِي مُعَامَلَةٍ.

ثُمَّ إِنَّ لِلْوَالِي خَاصَّةً وبِطَانَةً - فِيهِمُ اسْتِئْثَارٌ وتَطَاوُلٌ وقِلَّةُ إِنْصَافٍ فِي مُعَامَلَةٍ فَاحْسِمْ مَادَّةَ أُولَئِكَ بِقَطْعِ أَسْبَابِ تِلْكَ الأَحْوَالِ - ولَا تُقْطِعَنَّ لأَحَدٍ مِنْ حَاشِيَتِكَ وحَامَّتِكَ قَطِيعَةً - ولَا يَطْمَعَنَّ مِنْكَ فِي اعْتِقَادِ عُقْدَةٍ - تَضُرُّ بِمَنْ يَلِيهَا مِنَ النَّاسِ - فِي شِرْبٍ أَوْ عَمَلٍ مُشْتَرَكٍ - يَحْمِلُونَ مَئُونَتَه عَلَى غَيْرِهِمْ

اورحق باطل سے مخلوط ہو جاتا ہے۔اور حاکم بھی بالآخر ایک بشر ہے وہ پس پردہ امور کی اطلاع نہیں رکھتا ہے اور نہ حق کی پیشانی پر ایسے نشانات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ صداقت کے اقسام کو غلط بیانی سے الگ کرکے پہچانا جاسکے۔

اور پھر تم دو میں سے ایک قسم کے ضرور ہوگے۔یا وہ شخص ہوگے جس کا نفس حق کی راہمیں بذل و عطا پر مائل ہے تو پھرتمہیں واجب حق عطا کرنے کی راہ میں پر وہ حائل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اور کریموں جیسا عمل کیوں نہیں انجام دیتے ہو۔یا تم بخل کی بیماری میں مبتلا ہوگے تو بہت جلدی لوگ تم سے مایوس ہوکرخود ہی اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے اور تمہیں پردہ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔حالانکہ لوگوں کے اکثر ضروریات وہ ہیں جن میں تمہیں کسی طرح کی زحمت نہیں ہے جیسے ظلم کی فریاد یا کسی معاملہ میں انصاف کا مطالبہ ۔

اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ ہر والی کے کچھ مخصوص اور راز دار قسم کے افراد ہوتے ہیں جن میں خودغرضی ، دست درازی اورمعاملات میں بے انصافی پاء جاتی ہے لہٰذا خبردار ایسے افراد کے فساد کا علاج ان اسباب کے خاتمہ سے کرنا جن سے یہ حالات پیدا ہوتے ہیں۔اپنے کسی بھی حاشیہ نشین اورقرابت دار کو کوئی جاگیر مت بخش دینا اوراسے تم سے کوئی ایسی توقع نہ ہونی چاہیے کہ تم کسی ایسی زمین پر قبضہ دیدو گے جس کے سبب آبپاشی یا کی مشترک معاملہ میں شرکت رکھنے والے افراد کو نقصان پہنچ جائیکہ اپنے مصارف بھی دوسرے کے سرڈال دے اور

۵۸۵

فَيَكُونَ مَهْنَأُ ذَلِكَ لَهُمْ دُونَكَ - وعَيْبُه عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا والآخِرَةِ.

وأَلْزِمِ الْحَقَّ مَنْ لَزِمَه مِنَ الْقَرِيبِ والْبَعِيدِ - وكُنْ فِي ذَلِكَ صَابِراً مُحْتَسِباً - وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ قَرَابَتِكَ وخَاصَّتِكَ حَيْثُ وَقَعَ - وابْتَغِ عَاقِبَتَه بِمَا يَثْقُلُ عَلَيْكَ مِنْه - فَإِنَّ مَغَبَّةَ ذَلِكَ مَحْمُودَةٌ.

وإِنْ ظَنَّتِ الرَّعِيَّةُ بِكَ حَيْفاً فَأَصْحِرْ لَهُمْ بِعُذْرِكَ - واعْدِلْ عَنْكَ ظُنُونَهُمْ بِإِصْحَارِكَ - فَإِنَّ فِي ذَلِكَ رِيَاضَةً مِنْكَ لِنَفْسِكَ ورِفْقاً بِرَعِيَّتِكَ وإِعْذَاراً - تَبْلُغُ بِه حَاجَتَكَ مِنْ تَقْوِيمِهِمْ عَلَى الْحَقِّ.

ولَا تَدْفَعَنَّ صُلْحاً دَعَاكَ إِلَيْه عَدُوُّكَ ولِلَّه فِيه رِضًا فَإِنَّ فِي الصُّلْحِ دَعَةً لِجُنُودِكَ -

اس طرح اس معاملہ کا مزہ اس کے حصہ میں آئے اور اس کی ذمہ داری دنیا اور آخرت میں تمہارے ذمہ رہے۔

اور جس پر کوئی حق عائد ہو اس پر اس کے نافذ کرنے کی ذمہ داری ڈالو چاہے وہ تم سے نزدیک ہویا دور اوراس مسئلہ میں اللہ کی راہ میں صبرو تحمل سے کام لینا چاہے اس کی زد تمہاریقرابتداروں اورخاص افراد ہی پرکیوں نہ پڑتی ہواور اس سلسلہ میں تمہارے مزاج پر جو بار ہو اسے آخرت کی امید میں برداشت کرلینا کہ اس کا انجام بہتر ہوگا۔

اور اگر کبھی رعایا کو یہ خیال ہو جائے کہ تم نے ان پر ظلم کیا ہے توان کے لئے اپنے عذر کا اظہار کرواور اسی ذریعہ سے ان کی بد گمانی کاعلاج کرو کہ اس میں تمہارے نفس کی تربیت بھی ہے اور رعایا پر نرمی کا اظہار بھی ہے اوروہ عذر خواہی بھی وہے جس کے ذریعہ تمرعایا کو راہ حق پر چلانے کا مقصد بھی حاصل کرسکتے ہو۔

اور خبردار کسی ایسی دعوت صلح کا انکارنہ کرنا جس کی تحریک دشن کی طرف سے ہو اور جس میں مالک کی رضا مندی(۱) پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ فوجوں کو

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صلح ایک بہترین طریقہ کار ہے اور قرآن نے اسے ''خیر '' سے تعبیر کیاہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو شخص جن حالات میں جس طرح کی صلح کیدعوت دے تم قبول کرلو اور اس کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ جائو کہ ایسے نظام میں ہر ظالم اپنی ظالمانہ حرکتوں ہی پر صلح کرنا چاہیے گا اور تمہیں اسے تلیم کرنا ہوگا۔صلح کی بنیادی شرط یہ ہے کہاسے رضائے الٰہی کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی کسی دفعہ کو بھی مرضی پروردگار کے خلاف نہیں ہونا چاہیے جس طرح کہ سرکار دو عالم (ص) کی صلح میں دیکھا گیا ہے کہ آپ نے جس جس لفظ اور جس جس دفعہ پر صلح کی ہے سب کی سب مطابق حقیقت اور عین مرضی پروردگار تھیں اور کوئی حرف غلط درمیان میں نہیں تھا ''بسمک اللھم '' بھی ایک کلمہ صحیح تھا۔محمد بن عبداللہ بھی ایک حرف حق تھا اوردشمن کے افراد کاواپس کردینا بھی کوئیغلط اقدام نہیں تھا۔امام حسن مجتبیٰ کی صلح میں بھی یہی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کا مشاہدہ سرکار دو عالم (ص) کی صلح میں کیا جا چکا ہے۔اوریہ مولائے کائنات کی بنیادی تعلیم اور اسلام کاواقعی ہدف اور مقصد ہے۔

۵۸۶

ورَاحَةً مِنْ هُمُومِكَ وأَمْناً لِبِلَادِكَ - ولَكِنِ الْحَذَرَ كُلَّ الْحَذَرِ مِنْ عَدُوِّكَ بَعْدَ صُلْحِه - فَإِنَّ الْعَدُوَّ رُبَّمَا قَارَبَ لِيَتَغَفَّلَ - فَخُذْ بِالْحَزْمِ واتَّهِمْ فِي ذَلِكَ حُسْنَ الظَّنِّ - وإِنْ عَقَدْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَ عَدُوِّكَ عُقْدَةً - أَوْ أَلْبَسْتَه مِنْكَ ذِمَّةً - فَحُطْ عَهْدَكَ بِالْوَفَاءِ وارْعَ ذِمَّتَكَ بِالأَمَانَةِ - واجْعَلْ نَفْسَكَ جُنَّةً دُونَ مَا أَعْطَيْتَ - فَإِنَّه لَيْسَ مِنْ فَرَائِضِ اللَّه شَيْءٌ - النَّاسُ أَشَدُّ عَلَيْه اجْتِمَاعاً مَعَ تَفَرُّقِ أَهْوَائِهِمْ - وتَشَتُّتِ آرَائِهِمْ - مِنْ تَعْظِيمِ الْوَفَاءِ بِالْعُهُودِ - وقَدْ لَزِمَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ فِيمَا بَيْنَهُمْ دُونَ الْمُسْلِمِينَ - لِمَا اسْتَوْبَلُوا مِنْ عَوَاقِبِ الْغَدْرِ - فَلَا تَغْدِرَنَّ بِذِمَّتِكَ ولَا تَخِيسَنَّ بِعَهْدِكَ ولَا تَخْتِلَنَّ عَدُوَّكَ - فَإِنَّه لَا يَجْتَرِئُ عَلَى اللَّه إِلَّا جَاهِلٌ شَقِيٌّ - وقَدْ جَعَلَ اللَّه عَهْدَه وذِمَّتَه أَمْناً أَفْضَاه بَيْنَ الْعِبَادِ بِرَحْمَتِه وحَرِيماً يَسْكُنُونَ إِلَى مَنَعَتِه ويَسْتَفِيضُونَ إِلَى جِوَارِه فَلَا إِدْغَالَ ولَا مُدَالَسَةَ ولَا خِدَاعَ فِيه -

قدرے سکون مل جاتا ہے اور تمہارے نفس کو بھی افکار سے نجات مل جائے گی اور شہروں میں بھی امن وامان ک فضا قائم ہو جائے گی۔البتہ صلح کے بعد دشمن کی طرف سے مکمل طور پر ہوشیار رہنا کہ کبھی کبھی وہ تمہیں غافل بنانے کے لئے تم سے قربت اختیار کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس مسئلہ میں مکمل ہو شیاری سے کام لینا اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا اوراگر اپنے اور اس کیدرمیان کوئی معاہدہ کرنایا اسے کسی طرح کی پناہ دینا تو اپنے عہد کی پاسداری و وفاداری کے ذریعہ کرنا اور اپنے ذمہ کو امانت داری کے ذریعہ محفوظ بنانا اور اپنے قول و قرارکی راہ میں اپنے نفس کو سپر بنادینا کہ اللہ کے فرائض میں ایفائے عہد جیسا کوئی فریضہ نہیں ہے جس پر تمام لوگ خواہشات کے اختلاف اورافکار کے تضاد کے باوجودمتحد ہیں اور اس کا مشرکین نے بھی اپنے معاملات میں لحاظ رکھا ہے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں تباہیوں کا انداہ کرلیا ہے۔تو خبردار تم اپنے عہدو پیمان سے غداری نہ کرنا اور اپنے قول و قرار میں خیانت سے کام نہ لینا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کردینا۔اس لئے کہ اللہ کے مقابلہ میں جاہل و بد بخت کے علاوہ کوئی جرأت نہیں کرتا ہے اور اللہ نے عہدو پیمان کو امن وامان کا وسیلہ قراردیا ہے جسے اپنی رحمت سے تمام بندو ں کے درمیان عام کردیا ہے اور ایسی پناہ گاہ بنادیا ہے جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے والے پناہ لیتے ہیں اور اسکے جوار میں منزل کرنے کے لئے تیز سے قدم آگے بڑھاتے ہیں لہٰذا اس میں کوئی جعل سازی ' فریب کاری اور مکاری نہ

۵۸۷

ولَا تَعْقِدْ عَقْداً تُجَوِّزُ فِيه الْعِلَلَ ولَا تُعَوِّلَنَّ عَلَى لَحْنِ قَوْلٍ بَعْدَ التَّأْكِيدِ والتَّوْثِقَةِ ولَا يَدْعُوَنَّكَ ضِيقُ أَمْرٍ لَزِمَكَ فِيه عَهْدُ اللَّه إِلَى طَلَبِ انْفِسَاخِه بِغَيْرِ الْحَقِّ - فَإِنَّ صَبْرَكَ عَلَى ضِيقِ أَمْرٍ تَرْجُو انْفِرَاجَه وفَضْلَ عَاقِبَتِه خَيْرٌ مِنْ غَدْرٍ تَخَافُ تَبِعَتَه - وأَنْ تُحِيطَ بِكَ مِنَ اللَّه فِيه طِلْبَةٌ - لَا تَسْتَقْبِلُ فِيهَا دُنْيَاكَ ولَا آخِرَتَكَ.

إِيَّاكَ والدِّمَاءَ وسَفْكَهَا بِغَيْرِ حِلِّهَا - فَإِنَّه لَيْسَ شَيْءٌ أَدْعَى لِنِقْمَةٍ ولَا أَعْظَمَ لِتَبِعَةٍ - ولَا أَحْرَى بِزَوَالِ نِعْمَةٍ وانْقِطَاعِ مُدَّةٍ - مِنْ سَفْكِ الدِّمَاءِ بِغَيْرِ حَقِّهَا - واللَّه سُبْحَانَه مُبْتَدِئٌ بِالْحُكْمِ بَيْنَ الْعِبَادِ - فِيمَا تَسَافَكُوا مِنَ الدِّمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - فَلَا تُقَوِّيَنَّ سُلْطَانَكَ بِسَفْكِ دَمٍ حَرَامٍ -

ہونی چاہیے اورکوئی ایسا معاہدہ نہ کرنا جس میں تاویل کی ضرورت پڑے اور معاہدہ کے پختہ ہو جانے کے بعد اس کے کسی مبہم لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرنا اور عہد الٰہی میںتنگی کا احساس غیر حق کے ساتھ وسعت کی جستجو پرآمادہ نہ کردے کہ کسی امر کی تنگی پر صبر کرلینا اور کشائش حال اور بہترین عاقبت کا انتظار کرنا اس غداری سے بہتر ہے جس کے اثرات خطرناک ہوں اور تمہیں اللہ کی طرف سے جواب دہی کی مصیبت گھیر لے اور دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جائیں ۔

دیکھو خبردار۔ناحق خون بہانے سے پرہیز کرنا کہ اس سے زیادہ عذاب الٰہی سے قریب تر اور پاداش کے اعتبارسے شدید تر اورنعمتوں کے زوال۔زندگی کے خاتمہ کے لئے مناسب تر کوئی سبب نہیں ہے اور پروردگار روز قیامت اپنے فیصلہ کاآغاز خونریزیوں کے معاملہ سے کرے گا۔لہٰذا خبردار اپنی حکومت کا استحکام(۱) ناحق خون ریزی کے ذریعہ نہ پیدا کرنا کہ یہ بات حکومت کو کمزوراور بے جان بنا دیتی ہے بلکہ تباہ کرکے دوسروں کی طرف منتقل کر دیتی ہے اور تمہارے پاس نہ خدا کے سامنے اور نہ میرے سامنے عمداً قتل کرنے کا کوئی عذرنہیں ہے اور اس میں

(۱) واضح رہے کہ دنیا میں حکومتوں کا قیام تو وراثت ' جمہوریت ' عسکری انقلاب اور ذہانت وفراست تمام اسباب سے ہو سکتا ہے لیکن حکومتوں میں استحکام عوام کی خوشی اور ملک کی خوشحالی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جن افراد نے یہ خیال کیا کہ وہ اپنی حکومتوں کو خونریزی کے ذریعہ مستحکم بنا سکتے ہیں انہوں نے جیتے جی اپنی غلط فہمی کا انجام دیکھ لیا اوہ ہٹلر جیسے شخص کو بھی خود کشی پر آمادہ ہونا پڑا۔اسی لئے کہا گیا ہے کہملک کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھب اقی نہیں رہ سکتا ہے اور انسانیت کاخون بہانے سے بڑا کوئی جرم قابل تصور نہیں ہے لہٰذا اس سے پرہیز ہر صاحب اقتداراور صاحب عقل و ہوش کا فریضہ ہے اور زمانہ کی گردش کے پلٹتے دیر نہیں لگتی ہے ۔

۵۸۸

فَإِنَّ ذَلِكَ مِمَّا يُضْعِفُه ويُوهِنُه بَلْ يُزِيلُه ويَنْقُلُه - ولَا عُذْرَ لَكَ عِنْدَ اللَّه ولَا عِنْدِي فِي قَتْلِ الْعَمْدِ - لأَنَّ فِيه قَوَدَ الْبَدَنِ - وإِنِ ابْتُلِيتَ بِخَطَإٍ - وأَفْرَطَ عَلَيْكَ سَوْطُكَ أَوْ سَيْفُكَ أَوْ يَدُكَ بِالْعُقُوبَةِ - فَإِنَّ فِي الْوَكْزَةِ فَمَا فَوْقَهَا مَقْتَلَةً - فَلَا تَطْمَحَنَّ بِكَ نَخْوَةُ سُلْطَانِكَ - عَنْ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ حَقَّهُمْ.

وإِيَّاكَ والإِعْجَابَ بِنَفْسِكَ - والثِّقَةَ بِمَا يُعْجِبُكَ مِنْهَا وحُبَّ الإِطْرَاءِ - فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَوْثَقِ فُرَصِ الشَّيْطَانِ فِي نَفْسِه - لِيَمْحَقَ مَا يَكُونُ مِنْ إِحْسَانِ الْمُحْسِنِينَ.

وإِيَّاكَ والْمَنَّ عَلَى رَعِيَّتِكَ بِإِحْسَانِكَ - أَوِ التَّزَيُّدَ فِيمَا كَانَ مِنْ فِعْلِكَ - أَوْ أَنْ تَعِدَهُمْ فَتُتْبِعَ مَوْعِدَكَ بِخُلْفِكَ - فَإِنَّ الْمَنَّ يُبْطِلُ الإِحْسَانَ والتَّزَيُّدَ يَذْهَبُ بِنُورِ الْحَقِّ - والْخُلْفَ يُوجِبُ الْمَقْتَ عِنْدَ اللَّه والنَّاسِ - قَالَ اللَّه تَعَالَى -( كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ الله أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُونَ ) .

وإِيَّاكَ والْعَجَلَةَ بِالأُمُورِ قَبْلَ أَوَانِهَا - أَوِ التَّسَقُّطَ فِيهَا عِنْدَ إِمْكَانِهَا - أَوِ اللَّجَاجَةَ فِيهَا إِذَا تَنَكَّرَتْ - أَوِ الْوَهْنَ عَنْهَا إِذَا اسْتَوْضَحَتْ - فَضَعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْضِعَه

زندگی کا قصاص بھی ثابت ہے۔البتہ اگر دھوکہ سے اس غلطی میں مبتلا ہو جائو اور تمہارا تازیانہ ' تلوار یا ہاتھ سزا دینے میں اپنی حد سے آگے بڑھ جائے کہ کبھی کبھی گھونسہ وغیرہ بھی قتل کا سبب بن جاتا ہے۔تو خبر دار تمہیں سلطنت کاغرور اتنا اونچا نہ بنادے کہ تم خون کے وارثوں کو ان کا حق خون بہا بھی ادا نہ کرو۔

اور دیکھو اپنے نفس کو خود پسندی سے بھی محفوظ رکھنا اور اپنی پسند پر بھروسہ بھی نہ کرنا اور زیادہ تعریف کا شوق بھی نہ پیداہوجائے کہ یہ سب باتیں شیطان کی فرصت کے بہترین وسائل ہیں جن کے ذریعہ وہ نیک کرداروں کے عمل کو ضائع اور برباد کردیا کرتا ہے۔

اور خبردار رعایا پراحسان بھی نہ جتانا اور جو سلوک کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ان سے کوئی وعدہ کرکے اس کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کر دیتا ہے اور زیادتی عمل کاغرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے اور وعدہ خلافی خدا اوربندگان خدا دونوں کینزدیک ناراضگی کاباعث ہوت یہ جیسا کہ اس نے ارشادفرمایا ہے کہ '' اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناراضگی کی بات ہے کہ تم کوئی بات کہو اور پھراس کے مطابق عمل نہ کرو ''

اورخبردار وقت سے پہلے کاموں میں جلدی نہ کرنا اور وقت آجانے کے بعد سستی کا مظاہرہ نہ کرنا اور بات سمجھ میں نہ آئے تو جھگڑا نہ کرنا اورواضح ہو جائے تو کمزوری کا اظہار نہ کرنا۔ہربات کو اس کی جگہ رکھواور

۵۸۹

وأَوْقِعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْقِعَه.

وإِيَّاكَ والِاسْتِئْثَارَ بِمَا النَّاسُ فِيه أُسْوَةٌ - والتَّغَابِيَ عَمَّا تُعْنَى بِه مِمَّا قَدْ وَضَحَ لِلْعُيُونِ - فَإِنَّه مَأْخُوذٌ مِنْكَ لِغَيْرِكَ - وعَمَّا قَلِيلٍ تَنْكَشِفُ عَنْكَ أَغْطِيَةُ الأُمُورِ - ويُنْتَصَفُ مِنْكَ لِلْمَظْلُومِ - امْلِكْ حَمِيَّةَ أَنْفِكَ وسَوْرَةَ حَدِّكَ - وسَطْوَةَ يَدِكَ وغَرْبَ لِسَانِكَ - واحْتَرِسْ مِنْ كُلِّ ذَلِكَ بِكَفِّ الْبَادِرَةِ وتَأْخِيرِ السَّطْوَةِ - حَتَّى يَسْكُنَ غَضَبُكَ فَتَمْلِكَ الِاخْتِيَارَ - ولَنْ تَحْكُمَ ذَلِكَ مِنْ نَفْسِكَ - حَتَّى تُكْثِرَ هُمُومَكَ بِذِكْرِ الْمَعَادِ إِلَى رَبِّكَ والْوَاجِبُ عَلَيْكَ أَنْ تَتَذَكَّرَ مَا مَضَى لِمَنْ تَقَدَّمَكَ - مِنْ حُكُومَةٍ عَادِلَةٍ أَوْ سُنَّةٍ فَاضِلَةٍ - أَوْ أَثَرٍ عَنْ نَبِيِّنَاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أَوْ فَرِيضَةٍ فِي كِتَابِ اللَّه - فَتَقْتَدِيَ بِمَا شَاهَدْتَ مِمَّا عَمِلْنَا بِه فِيهَا - وتَجْتَهِدَ لِنَفْسِكَ فِي اتِّبَاعِ مَا عَهِدْتُ إِلَيْكَ فِي عَهْدِي هَذَا - واسْتَوْثَقْتُ بِه مِنَ الْحُجَّةِ لِنَفْسِي عَلَيْكَ - لِكَيْلَا تَكُونَ لَكَ عِلَّةٌ عِنْدَ تَسَرُّعِ نَفْسِكَ إِلَى هَوَاهَا: وأَنَا أَسْأَلُ

ہر امر کواس کے محل پر قرار دو۔

دیکھو جس چیز میںتمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا اورجوحق نگاہوں کے سامنے واضح ہوجائے اس سے غفلت نہ برتنا کہ دوسروں کے لئے یہی تمہاری ذمہ داری ہے اورعنقریب تمام امورسے پردے اٹھ جائیں گے اورتم سے مظلوم کاب دلہ لے لیا جائے گا۔اپے غضب کی تیزی 'اپنی سر کشی کے جوش ' اپنے ہاتھ کی جنبش اور اپنی زبان کی کاٹ پر قابو رکھنا اور ان تمام چیزوں سے اپنے کو اس طرح محفوظ رکھنا کہ جلدبازی سے کام نہ لینا اور سزا دینے میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ غصہ ٹھہر جائے اور اپنے اوپر قابو حاصل ہو جائے۔اوراس امرپ ربھی اختیار اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا ہے جب تک پروردگار کی بارگاہ میں واپسی کا خیال زیادہ سے زیادہ نہ ہوجائے ۔

تمہارا فریضہ ہے کہ ماضی میں گزر جانے والی عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد رکھو' رسول اکرم(ص) کے آثار اور کتاب خدا کے احکام کو نگاہ میں رکھواور جس طرح ہمیں عمل کرتے دیکھا ہے اسی طرح ہمارے نقش قدم پر چلو اور جو کچھ اس عہد نامہ میں ہم نے بتایا ہے اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو کہ میں تمہارے اوپر اپنی حجت کو مستحکم کردیا ہے تاکہ جب تمہارا نفس خواہشات کی طرف تیزی سے بڑھے تو تمہارے پاس کوء یعذرنہ رہے۔ور میں پروردگار کی وسیع رحمت اور ہر مقصد کے عطا کرنے کی عظیم قدرت کے وسیلہ سے یہ سوال

۵۹۰

اللَّه بِسَعَةِ رَحْمَتِه - وعَظِيمِ قُدْرَتِه عَلَى إِعْطَاءِ كُلِّ رَغْبَةٍ - أَنْ يُوَفِّقَنِي وإِيَّاكَ لِمَا فِيه رِضَاه - مِنَ الإِقَامَةِ عَلَى الْعُذْرِ الْوَاضِحِ إِلَيْه وإِلَى خَلْقِه - مَعَ حُسْنِ الثَّنَاءِ فِي الْعِبَادِ وجَمِيلِ الأَثَرِ فِي الْبِلَادِ - وتَمَامِ النِّعْمَةِ وتَضْعِيفِ الْكَرَامَةِ - وأَنْ يَخْتِمَ لِي ولَكَ بِالسَّعَادَةِ والشَّهَادَةِ -( إِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - والسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ وسَلَّمَ تَسْلِيماً كَثِيراً والسَّلَامُ

(۵۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى طلحة والزبير (مع عمران بن الحصين الخزاعي) ذكره أبو جعفر الإسكافي في كتاب المقامات في مناقب أمير المؤمنينعليه‌السلام

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ عَلِمْتُمَا وإِنْ كَتَمْتُمَا - أَنِّي لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى أَرَادُونِي - ولَمْ أُبَايِعْهُمْ حَتَّى بَايَعُونِي - وإِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِي وبَايَعَنِي -

کرتا ہوں کہ مجھے اور تمہیںان کاموں کی توفیق دے جن می اس کی مرضی ہو اور ہم دونوں اس کی بارگاہ میں اوربندوں کے سامنے عذر پیش کرنے کے قابل ہو جائیں۔بندوں کی بہترین تعریف کے حقدار ہوں اور علاقوں میں بہترین آثار چھو ڑ کرجائیں۔نعمت کی فراوانی اور عزت کے روز افزوں اضافہ کوبرقرار رکھ سکیں اور ہم دونوں کا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو کہ ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانے والے ہیں۔سلام ہو رسول خدا (ص) پر اور ان کی طیب وطاہر آل پر اور سب پر سلام بے حساب۔والسلام

(۵۴)

آپ کا مکتوب گرامی

(طلحہ و زبیر کے نام جسے عمران بن الحصین الخزاعی کے ذریعہ بھیجا تھا اور جس کا ذکر ابو جعفر اسکافی ۱نے کتاب المقامات میں کیا ہے )

امابعد! اگرچہ تم دونوں چھپا رہے ہو لیکن تمہیں بہر حال معلوم ہے کہ میں نے خلافت کی خواہش نہیں کی۔لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور میں نے بیعت کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔تم دونوں بھی انہیں افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے چاہا تھا اورمیری بیعت کی تھی

(۱)ابو جعفر اس کافی معتزلہ کے شیوخ میں شمار ہوتے تھے اور ان کے ستر ۷۰ تصنیفات تھیں جن میں ایک '' کتاب المقامات'' بھی تھی ۔اسی کتاب میں امیر المومنین کے اس مکتوب گرامی کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ حضرت نے اسے عمران کے ذریعہ بھیجا تھا جوفقہا صحابہ میں شمار ہوتیت ھے اورجنگ خیبر کے سال اسلام لائے تھے اور عہد معاویہ میں انتقال کیا تھا۔اسکافی جاحظ کے معاصروں میں تھے اور انہیں اسکاف کی نسبت سے اسکافی کہاجاتا ہے جونہروان اوربصرہ کے درمیان ایک شہر ہے۔

۵۹۱

وإِنَّ الْعَامَّةَ لَمْ تُبَايِعْنِي لِسُلْطَانٍ غَالِبٍ ولَا لِعَرَضٍ حَاضِرٍ – فَإِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي طَائِعَيْنِ - فَارْجِعَا وتُوبَا إِلَى اللَّه مِنْ قَرِيبٍ - وإِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي كَارِهَيْنِ - فَقَدْ جَعَلْتُمَا لِي عَلَيْكُمَا السَّبِيلَ بِإِظْهَارِكُمَا الطَّاعَةَ - وإِسْرَارِكُمَا الْمَعْصِيَةَ - ولَعَمْرِي مَا كُنْتُمَا بِأَحَقِّ الْمُهَاجِرِينَ - بِالتَّقِيَّةِ والْكِتْمَانِ - وإِنَّ دَفْعَكُمَا هَذَا الأَمْرَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْخُلَا فِيه - كَانَ أَوْسَعَ عَلَيْكُمَا مِنْ خُرُوجِكُمَا مِنْه - بَعْدَ إِقْرَارِكُمَا بِه.

وقَدْ زَعَمْتُمَا أَنِّي قَتَلْتُ عُثْمَانَ - فَبَيْنِي وبَيْنَكُمَا مَنْ تَخَلَّفَ عَنِّي وعَنْكُمَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ - ثُمَّ يُلْزَمُ كُلُّ امْرِئٍ بِقَدْرِ مَا احْتَمَلَ - فَارْجِعَا أَيُّهَا الشَّيْخَانِ عَنْ رَأْيِكُمَا - فَإِنَّ الآنَ أَعْظَمَ أَمْرِكُمَا الْعَارُ - مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَجَمَّعَ الْعَارُ والنَّارُ - والسَّلَامُ.

اورعام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت کے رعب داب سے کی ہے اور نہ کی مال دنیا کی لالچ میں کی ہے۔پس اگر تم دونوں نے میر ی بیعت اپنی خوشی سے کی تھی تو اب خدا کی طرف رجوع کرو اور فوراً توبہ کرلو۔اور اگرمجبوراً کی تھی تو تم نے اپنے اوپر میرا حق ثابت کردیا کہ تم نے اطاعت کا اظہار کیا تھا اورناف رمانی کودل میں چھپا کر رکھا تھا۔اورمیری جان کی قسم تم دونوں اس راز داری اوردل کی باتوں کے چھپانے میں مہاجرین سیزیادہ سزا وار نہیں تھے اور تمہارے لئے بعت سے نکلنے اور اس کے اقرار کے بعد انکار کردینے سے زیادہ آسان روز اول ہی اس کا انکار کردیناتھا۔تم لوگوں کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ میں نے عثمان کوقتل کیا ہے تو میرے اور تمہارے درمیان وہ اہل مدینہ موجود ہیں جنہوں نے ہم دونوں سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔اس کے بعد ہرشخص اسی کاذمہدار ہے جو اس نے ذمہداری قبول کی ہے۔ بزرگوارو! موقع غنیمت ہے اپنی رائے سے بازآجائو کہ آج تو صرف ننگ وعارکاخطرہ ہے لیکن اس کے بعد عارونار دونوں جمع ہو جائیں گے۔والسلام۔

۵۹۲

(۵۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدْ جَعَلَ الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا - وابْتَلَى فِيهَا أَهْلَهَا لِيَعْلَمَ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا - ولَسْنَا لِلدُّنْيَا خُلِقْنَا ولَا بِالسَّعْيِ فِيهَا أُمِرْنَا - وإِنَّمَا وُضِعْنَا فِيهَا لِنُبْتَلَي بِهَا - وقَدِ ابْتَلَانِي اللَّه بِكَ وابْتَلَاكَ بِي - فَجَعَلَ أَحَدَنَا حُجَّةً عَلَى الآخَرِ - فَعَدَوْتَ عَلَى الدُّنْيَا بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ - فَطَلَبْتَنِي بِمَا لَمْ تَجْنِ يَدِي ولَا لِسَانِي - وعَصَيْتَه أَنْتَ وأَهْلُ الشَّامِ بِي - وأَلَّبَ عَالِمُكُمْ جَاهِلَكُمْ وقَائِمُكُمْ قَاعِدَكُمْ؛ فَاتَّقِ اللَّه فِي نَفْسِكَ ونَازِعِ الشَّيْطَانَ قِيَادَكَ - واصْرِفْ إِلَى الآخِرَةِ وَجْهَكَ - فَهِيَ طَرِيقُنَا وطَرِيقُكَ - واحْذَرْ أَنْ يُصِيبَكَ اللَّه مِنْه بِعَاجِلِ قَارِعَةٍ - تَمَسُّ الأَصْلَ وتَقْطَعُ الدَّابِرَ - فَإِنِّي أُولِي لَكَ بِاللَّه أَلِيَّةً غَيْرَ فَاجِرَةٍ - لَئِنْ جَمَعَتْنِي وإِيَّاكَ جَوَامِعُ الأَقْدَارِ لَا أَزَالُ بِبَاحَتِكَ -

(۵۵)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام)

اما بعد!خدائے بزرگ وبرتر نے دنیا کو آخرت کا مقدمہ قراردیا ہے اوراسے آزمائش کاذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ بہترین عمل کرنے والا کون ہے۔ہم نہ اس دنیاکے لئے پیداکئے گئے ہیں اور نہ ہمیں اس کے لئے دوڑ دھوپ کا حکم دیا گیا ہے۔ہم یہاں فقط اس لئے رکھے گئے ہیں کہ ہمارا امتحان لیاجائے اوراللہ نے تمہارے ذریعہ ہمارا ' اور ہماریذریعہ تمہارا امتحان لے لیا ہے اورایک کو دوسرے پرحجت قرا دے دیا ہے لیکن تم نے تاویل قرآن کاسہارا لے کردنیا پردھاوا بول دیا اور مجھ سے ایسے جرم کا محاسبہ کردیا جس کا نہ میرے ہاتھ سے کوئی تعلق تھا اورنہ زبان سے۔صرف اہل شام نے میرے سرڈال دیا تھا اور تمہارے جاننے والوں نے جاہلوں کو اور قیام کرنے والوں نے خانہ نشینوںکو اکسا دیا تھا لہٰذا اب بھی غنیمت ہے کہ اپنے نفس کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور شیطان سے اپنی زمام چھڑالو اورآخرت کی طرف رخ کرلو کہ وہی ہماری اورتمہاریآخری منزل ہے۔اس وقت سے ڈرو کہ اس دنیا میں پروردگار کوئی ایسی مصیبت نازل کردے کہ اصل بھی ختم ہو جائے اورنسل کابھی خاتمہ ہو جائے۔میں پروردگار کی ایسی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے غلط ہونے کا امکان نہیں ہے کہ اگرمقدر نے مجھے اور تمہیں ایک میدان میں جمع کردیا تو میں اس وقت تک میدان نہ

۵۹۳

( حَتَّى يَحْكُمَ الله بَيْنَنا وهُوَ خَيْرُ الْحاكِمِينَ ) .

(۵۶)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها شريح بن هانئ - لما جعله على مقدمته إلى الشام

اتَّقِ اللَّه فِي كُلِّ صَبَاحٍ ومَسَاءٍ - وخَفْ عَلَى نَفْسِكَ الدُّنْيَا الْغَرُورَ - ولَا تَأْمَنْهَا عَلَى حَالٍ - واعْلَمْ أَنَّكَ إِنْ لَمْ تَرْدَعْ نَفْسَكَ عَنْ كَثِيرٍ مِمَّا تُحِبُّ - مَخَافَةَ مَكْرُوه - سَمَتْ بِكَ الأَهْوَاءُ إِلَى كَثِيرٍ مِنَ الضَّرَرِ - فَكُنْ لِنَفْسِكَ مَانِعاً رَادِعاً - ولِنَزْوَتِكَ عِنْدَ الْحَفِيظَةِ وَاقِماً قَامِعاً

(۵۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل الكوفة - عند مسيره من المدينة إلى البصرة

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي خَرَجْتُ مِنْ حَيِّي هَذَا - إِمَّا ظَالِماً وإِمَّا مَظْلُوماً وإِمَّا بَاغِياً وإِمَّا مَبْغِيّاً عَلَيْه - وإِنِّي أُذَكِّرُ اللَّه مَنْ بَلَغَه كِتَابِي هَذَا لَمَّا نَفَرَ إِلَيَّ - فَإِنْ كُنْتُ مُحْسِناً أَعَانَنِي -.

چھوڑوں گا جب تک میرے اور تمہارے دمیان فیصلہ نہ ہوجائے ۔

(۵۶)

آپ کی وصیت

(جو شریح ۱بن ہانی کو اس وقت فرمائی جب انہیں شام جانے والے ہر اول دستہ کا سردار مقرر فرمایا)

صبح و شاماللہ سے ڈرتے رہو اوراپنے نفس کو اس دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اور اس پر کسی حال میں اعتبارنہ کرنااور یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کوب ہت سی پسندیدہ چیزوں سے نہ روکا۔تو خواہشات تم کوب ہت سے نقصان وہ امور تک پہنچادیں گی لہٰذا ہمیشہ اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے رہو اورغصہ میں اپنے غیظ و غضب کو دباتے اورکچلتے رہو۔

(۵۷)

آپ کا مکتوب گرامی

(اہل کوفہ کےنام۔مدینہ سے بصرہ روانہ ہوتے وقت)

امابعد! میں اپنے قبیلہ سے نکل رہا ہوں یا ظلم کی حیثیت سے یا مظلوم کی حیثیت سے۔یامیں نے بغاوت کی ہے یا میرے خلاف بغاوت ہوئی ہے۔میں تمہیں خدا کاواسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جہاں تک میرا یہ خط پہنچ جائے تم سب نکل کرآجائو۔اس کے بعد مجھے نیکی پرپائو تومیری امداد کرو

(۱)یہ امیرالمومنین کے جلیل الدقر صحابی تھے ۔ابو مقداد کنیت تھی اور آپ کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے۔یہاں تک کہ حجاج کے زمانہ میں سجستان میں شہید ہوئے۔حضرت نے انہیں شام جانے والے ہر اول دستہ کا امیر مقرر کیا تو مذکورہ ہدایات سے سرفراز فرمایا تاکہ کوئی شخص اسلامی پابندی سے آزادی کا تصورنہ کرسکے ۔

۵۹۴

وإِنْ كُنْتُ مُسِيئاً اسْتَعْتَبَنِي

(۵۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

كتبه إلى أهل الأمصار - يقص فيه ما جرى بينه وبين أهل صفين

وكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا والْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - والظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ ونَبِيَّنَا وَاحِدٌ - ودَعْوَتَنَا فِي الإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ - ولَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الإِيمَانِ بِاللَّه والتَّصْدِيقِ بِرَسُولِه - ولَا يَسْتَزِيدُونَنَا - الأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيه مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ونَحْنُ مِنْه بَرَاءٌ - فَقُلْنَا تَعَالَوْا نُدَاوِ مَا لَا يُدْرَكُ الْيَوْمَ - بِإِطْفَاءِ النَّائِرَةِ وتَسْكِينِ الْعَامَّةِ - حَتَّى يَشْتَدَّ الأَمْرُ ويَسْتَجْمِعَ - فَنَقْوَى عَلَى وَضْعِ الْحَقِّ مَوَاضِعَه - فَقَالُوا بَلْ نُدَاوِيه بِالْمُكَابَرَةِ - فَأَبَوْا حَتَّى جَنَحَتِ الْحَرْبُ ورَكَدَتْ - ووَقَدَتْ نِيرَانُهَا وحَمِشَتْ -

اورغلطی پر دیکھو تو مجھے رضا کے راستہ پر لگا دو(۶۳) ۔

(۵۸)

آپ کامکتوب گرامی

(تمام شہروں کے نام۔جس میں صفین کی حقیقت کااظہار کیا گیا ہے )

ہمارے معاملہ کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب بظاہر(۱) دونو ں کاخدا ایک تھا۔رسول ایک تھا۔پیغام ایک تھا۔نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلب گار تھے ۔نہ وہ اپنے ایمان کوبڑھانا چاہتے تھے۔معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے اورہم نے یہ حل پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہوسکتا ہے ' اس کاوقتی علاج یہ کیا جائے ہ آتش جنگ کو خاموش کردیاجائے اور لوگوں کے جذبات کوپرسکون بنادیا جائے۔اس کے بعد جب حکومت کو استحکام ہوجائے گا اورحالات ساز گار ہوجائیںگے تو ہم حق کو اس کی منزل تک لانے کی طاقت پیدا کرلیں گے۔لیکن قوم کا اصرار(۲) تھا۔کہ اس کا علاج صرف جنگ و جدال ہے۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ جنگ نے اپنے پائوںپھیلادئیے اورجم کر کھڑی ہوگئی۔شعلے بھڑک اٹھے اورٹھہرگئے اور قوم نے دیکھاکہ

(۱)یہ اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ حضرت نے معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے اسلام و ایمان کا اقرارنہیں کیا ہے بلکہ صورت حال کا تذکرہ کیا ہے۔

(۲)حقیقت امری ہ ہے کہ معاویہ کوخون عثمان سے کوئی دلچسپی نہیںتھی۔وہ شام کی حکومت اور عالم اسلام کی خلافت کا طماع تھا لہٰذا کوئی سنجیدہ گفتگو قبول نہیں کر سکتا تھا۔حضرت نے بھی اتمام حجت کا حقادا کردیا اور اس کے بعد میدان جہاد میں قدم جمادئیے تاکہ دنیا پرواضح ہو جائے کہ جہاد راہ خدا فرزند ابو طالب کا کام ہے۔ابو سفیان کے بیٹے کانہیں ہے۔

۵۹۵

فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وإِيَّاهُمْ - ووَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِينَا وفِيهِمْ - أَجَابُوا عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى الَّذِي دَعَوْنَاهُمْ إِلَيْه - فَأَجَبْنَاهُمْ إِلَى مَا دَعَوْا وسَارَعْنَاهُمْ إِلَى مَا طَلَبُوا - حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ - فَمَنْ تَمَّ عَلَى ذَلِكَ مِنْهُمْ - فَهُوَ الَّذِي أَنْقَذَه اللَّه مِنَ الْهَلَكَةِ - ومَنْ لَجَّ وتَمَادَى فَهُوَ الرَّاكِسُ - الَّذِي رَانَ اللَّه عَلَى قَلْبِه - وصَارَتْ دَائِرَةُ السَّوْءِ عَلَى رَأْسِه

جنگ نے دونوں کودانت کاٹنا شروع کردیا اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پرآمادہ ہوگئے اورمیں نے بھی ان کیبات کو مان لیا اورتیزی سے بڑھ کران کے مطالبہ صلح کو قبول کرلیا یہاں تک کہ ان پرحجت واضح ہوگئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہوگیا۔اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا توگویا اپنے نفس کو ہلاکت سے نکال لیا ورنہ اس گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہوگا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔

۵۹۶

(۵۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى الأسود بن قطبة صاحب جند حلوان

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْوَالِيَ إِذَا اخْتَلَفَ هَوَاه - مَنَعَه ذَلِكَ كَثِيراً مِنَ الْعَدْلِ - فَلْيَكُنْ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَكَ فِي الْحَقِّ سَوَاءً - فَإِنَّه لَيْسَ فِي الْجَوْرِ عِوَضٌ مِنَ الْعَدْلِ - فَاجْتَنِبْ مَا تُنْكِرُ أَمْثَالَه - وابْتَذِلْ نَفْسَكَ فِيمَا افْتَرَضَ اللَّه عَلَيْكَ - رَاجِياً ثَوَابَه ومُتَخَوِّفاً عِقَابَه.

واعْلَمْ أَنَّ الدُّنْيَا دَارُ بَلِيَّةٍ - لَمْ يَفْرُغْ صَاحِبُهَا فِيهَا قَطُّ سَاعَةً - إِلَّا كَانَتْ فَرْغَتُه عَلَيْه حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ - وأَنَّه لَنْ يُغْنِيَكَ عَنِ الْحَقِّ شَيْءٌ أَبَداً - ومِنَ الْحَقِّ عَلَيْكَ حِفْظُ نَفْسِكَ - والِاحْتِسَابُ عَلَى الرَّعِيَّةِ بِجُهْدِكَ - فَإِنَّ الَّذِي يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْ ذَلِكَ - أَفْضَلُ مِنَ الَّذِي يَصِلُ بِكَ والسَّلَامُ.

(۶۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى العمال الذين يطأ الجيش عملهم

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ

(۵۹)

آپ کامکتوب گرامی

(اسود بن قطبہ والی حلوان کے نام)

اما بعد! دیکھواگر والی کے خواہشات مختلف قسم کے ہوں گے تویہ بات اسے اکثر اوقات انصاف سے روک دے گی لیکن تمہاری نگاہ میں تمام افراد کے معاملات کو ایک جیسا ہونا چاہیے کہ ظلم کبھی عدل کابدل نہیں ہوسکتا ہے۔ جس چیز کودوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو اس سے خودبھی اجتناب کرو اور اپنے نفس کو ان کاموں میں لگادو جنہیں خدانے تم پرواجب کیا ہے اوراس کے ثواب کیامید رکھواورعذاب سے ڈرتے رہو۔ اوریاد رکھو کہ دنیا دار آزمائش ہے یہاں انسان کی ایک گھڑی بھی خالی نہیں جاتی ہے مگر یہ کہ یہ بیکاری روز قیامت حسرت کا سبب بن جاتی ہے اورتم کو کوئی شے حق سے بے نیاز نہیں بنا سکتی ہے اور تمہارے اوپر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اپنے نفس کومحفوظ رکھو اوراپنے ا مکان بھر رعایاکا احتساب کرتے رہوکہ اس طرح جوفائدہ تمہیں پہنچے گا وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا جوفائدہ لوگوں کوتم سے پہنچے گا۔والسلام۔

(۶۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(ان اعمال کے نام جن کا علقہ فوج کے راستہ میں پڑتا تھا)

بندۂ خدا امیر المومنین علی کی طرف سے ان

۵۹۷

إِلَى مَنْ مَرَّ بِه الْجَيْشُ - مِنْ جُبَاةِ الْخَرَاجِ وعُمَّالِ الْبِلَادِ.

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي قَدْ سَيَّرْتُ جُنُوداً - هِيَ مَارَّةٌ بِكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه - وقَدْ أَوْصَيْتُهُمْ بِمَا يَجِبُ لِلَّه عَلَيْهِمْ - مِنْ كَفِّ الأَذَى وصَرْفِ الشَّذَا - وأَنَا أَبْرَأُ إِلَيْكُمْ وإِلَى ذِمَّتِكُمْ مِنْ مَعَرَّةِ الْجَيْشِ - إِلَّا مِنْ جَوْعَةِ الْمُضْطَرِّ لَا يَجِدُ عَنْهَا مَذْهَباً إِلَى شِبَعِه - فَنَكِّلُوا مَنْ تَنَاوَلَ مِنْهُمْ شَيْئاً ظُلْماً عَنْ ظُلْمِهِمْ - وكُفُّوا أَيْدِيَ سُفَهَائِكُمْ عَنْ مُضَارَّتِهِمْ - والتَّعَرُّضِ لَهُمْ فِيمَا اسْتَثْنَيْنَاه مِنْهُمْ - وأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِ الْجَيْشِ - فَارْفَعُوا إِلَيَّ مَظَالِمَكُمْ - ومَا عَرَاكُمْ مِمَّا يَغْلِبُكُمْ مِنْ أَمْرِهِمْ - ومَا لَا تُطِيقُونَ دَفْعَه إِلَّا بِاللَّه وبِي فَأَنَا أُغَيِّرُه بِمَعُونَةِ اللَّه إِنْ شَاءَ اللَّه.

خراج جمع کرنے والوں اور علاقوں کے والیوں کے نام جن کے علاوہ سے لشکروں کا گزر ہوتا ہے۔

امابعد میں نے کچھ فوجیں روانہ کی ہیںجو عنقریب تمہارے علاقہ سے گزرنے والی ہیں اورمیں نے انہیں ان تمام باتوں کی نصیحت کردی ہے جوان پرواجب ہیں کہ کی کواذیت نہ دیں اور تکلیف کودور رکھیں اورمیںتمہیں اورتمہارے اہل ذمہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ فوج والے کوئی دست درازی کریں گے تو میں ان سے بیزار رہوں گا مگر یہ کوی شخص(۱) بھوک سے مضطر ہو اور اس کے پاس پیٹ بھرنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔اس کے علاوہ کوئی ظالمانہ انداز سے ہاتھ لگائے تواس کو سزا دینا تمہارا فرض ہے۔لیکن اپنے سرپھروں کو سمجھا دینا کہ جن حالات کو میں نے مشتنیٰ قراردیا ہے ان میں کوئی شخص کسی چیز کو ہاتھ لگانا چاہے تو اس سے مقابلہ نہ کریں اورٹوکیں نہیں۔پھراس کے بعد میں لشکرکے اندر موجود ہوں اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور سختیوں کی فریاد مجھ سے کرو اگرتم دفع کرنے کے قابل نہیں ہو جب تک اللہ کی مدد اورمیری امداد شامل نہ ہو۔میں انشاء اللہ اللہ کی مدد سے حالات کوبدل دوںگا۔

(۱)اس خط میں حضرت نے دو طرح کے مسائل کاتذکرہ فرمایا ہے۔ایک کا تعلق لشکر سے ہے اوردوسرے کا اس علاقہ سے جہاں سے لشکر گزرنے والا ہے لشکروالوں کو توجہ دلائی ہے کہ خبردار رعایا پر کسی طرح کا ظلم نہ ہونے پائے کہ تمہارا کام ظلم و جور کا مقابلہ کرنا ہے۔ظلم کرنا نہیں ہے اورراستہ کے عوام کو متوجہ کیاہے کہ اگر لشکر میںکوئی شخص بربنائے اضطرار کسی چیز کو استعمال کرلے تو خبرداراسے منع نہ کرنا کہ یہ اس کا شرعی حق ہے اور اسلام میں کسی شخص کو اس کے حق سے محروم نہیںکیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد لشکرکی ذمہداری ہے کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو میری طرف رجوع کرے اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے مسائل کی فریاد میرے پاس پیش کریں اورس ارے معاملات کو خود طے کرنے کی کوشش نہ کریں ۔

۵۹۸

(۶۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى كميل بن زياد النخعي وهو عامله على هيت، ينكر عليه تركه دفع من يجتاز به من جيش العدو طالبا الغارة.

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ تَضْيِيعَ الْمَرْءِ مَا وُلِّيَ وتَكَلُّفَه مَا كُفِيَ - لَعَجْزٌ حَاضِرٌ ورَأْيٌ مُتَبَّرٌ - وإِنَّ تَعَاطِيَكَ الْغَارَةَ عَلَى أَهْلِ قِرْقِيسِيَا - وتَعْطِيلَكَ مَسَالِحَكَ الَّتِي وَلَّيْنَاكَ - لَيْسَ بِهَا مَنْ يَمْنَعُهَا ولَا يَرُدُّ الْجَيْشَ عَنْهَا - لَرَأْيٌ شَعَاعٌ - فَقَدْ صِرْتَ جِسْراً لِمَنْ أَرَادَ الْغَارَةَ - مِنْ أَعْدَائِكَ عَلَى أَوْلِيَائِكَ - غَيْرَ شَدِيدِ الْمَنْكِبِ ولَا مَهِيبِ الْجَانِبِ،ولَا سَادٍّ ثُغْرَةً ولَا كَاسِرٍ لِعَدُوٍّ شَوْكَةً -

(۶۱)

آپ کامکتوب گرامی

(کمیل بن زیاد۱النخعی کے نام جو بیت المال کے عامل تھے اورانہوں نے فوج دشمن کو لوٹ مارسے منع نہیں کیا )

امابعد! انسان کا اس کام کو نظرانداز کردینا جس کاذمہ داربنایا گیا ہے اور اس کام میں لگ جانا جواس کے فرائض میں شامل نہیں ہے ایک واضح کمزوری اور تباہ کن فکر ہے۔

اوردیکھو تمہارا اہل قبر قیسا پرحملہ کردینا اورخود اپنی سرحدوں کومعطل چھوڑدینا جن کا تم کوذمہ دار بنایا گا تھا۔اس عالم میں کہ انکا کوئی دفاع کرنے والا اور ان سے لشکروں کو ہٹانے والا نہیںتھا ایک انتہائی پراگندہ رائے ہے اور اس طرح تم دوستوں پرحملہ کرنے والے دشمنوں کے لئے ایک وسیلہ بن گئے جہاں نہ تمہارے کاندھے مضبوط تھے اور نہ تمہاری کوئی ہیبت تھی۔نہ تم نے دشمن

(۱)جناب کمیل مولائے کائنات کے مخصوص اصحاب میں تھے اوربڑے پایہ کے عالم و فاضل تھے لیکن بہر حال بشر تھے اور انہوںنے معاویہ کے مظالم کے جواب میں یہی مناسب سمجھا کہ جس طرح وہ ہمارے علاقہ میں فساد پھیلا رہا ہے ' ہم بھی اس کے علاقہ پر حملہ کردیں تاکہفوجوں کا رخ ادھرمڑ جائے مگری ہبات امامت کے مزاج کے خلاف تھی لہٰذا حضرت نے فوراً تنبیہ کردی اورمکیل نے بھی اپنے اقدام کے نا مناسب ہونے کا احساس کرلیا اور یہی انسان کا کمال کردار ہے کہ غلطی پراصرار نہ کرے ورنہ غلطی نہ کرنا شان عصمت ہے۔شان اسلام و ایمان نہیں ہے۔

جناب کمیل کی غیرت داری کایہ عالم تھا کہ جب حجاج نے انہیں تلاش کرنا شروع کیا اور گرفتارنہ کر سکا تو ان کی قوم پر دانہ پانی بند کردیا۔کمیل کو اس امر کی اطلاع ملی تو فوراً حجاج کے دربار میں پہنچ گئے اور فرمایا کہ میں اپنی ذات کی حفاظت کی خاطر ساری قوم کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا ہوں اورود محبت اہل بیت سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتا ہوں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اپنی سزا خود برداشت کروں جس کے نتیجہ میں حجاج نے ان کی زندگی کاخاتمہ کرادیا۔

۵۹۹

ولَا مُغْنٍ عَنْ أَهْلِ مِصْرِه ولَا مُجْزٍ عَنْ أَمِيرِه.

(۶۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل مصر مع مالك الأشتر - لما ولاه إمارتها

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَذِيراً لِلْعَالَمِينَ ومُهَيْمِناً عَلَى الْمُرْسَلِينَ - فَلَمَّا مَضَىعليه‌السلام تَنَازَعَ الْمُسْلِمُونَ الأَمْرَ مِنْ بَعْدِه - فَوَاللَّه مَا كَانَ يُلْقَى فِي رُوعِي - ولَا يَخْطُرُ بِبَالِي أَنَّ الْعَرَبَ تُزْعِجُ هَذَا الأَمْرَ - مِنْ بَعْدِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَنْ أَهْلِ بَيْتِه - ولَا أَنَّهُمْ مُنَحُّوه عَنِّي مِنْ بَعْدِه - فَمَا رَاعَنِي إِلَّا انْثِيَالُ النَّاسِ عَلَى فُلَانٍ يُبَايِعُونَه - فَأَمْسَكْتُ يَدِي حَتَّى رَأَيْتُ رَاجِعَةَ النَّاسِ - قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الإِسْلَامِ - يَدْعُونَ إِلَى مَحْقِ دَيْنِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَخَشِيتُ إِنْ لَمْ أَنْصُرِ الإِسْلَامَ وأَهْلَه - أَنْ أَرَى فِيه ثَلْماً أَوْ هَدْماً - تَكُونُ الْمُصِيبَةُ بِه عَلَيَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَايَتِكُمُ - الَّتِي إِنَّمَا هِيَ مَتَاعُ أَيَّامٍ قَلَائِلَ - يَزُولُ مِنْهَا مَا كَانَ كَمَا يَزُولُ السَّرَابُ -

کا راستہ روکا اورنہ اس کی شوکت کو تواڑ۔نہ اہل شہر کے کام آئے اور نہ اپنے امیر کے فرض کو انجام دیا۔

(۶۲)

آپ کامکتوب گرامی

(اہل مصرکے نام۔مالک اشترکے ذریعہ جب ان کو والی مصر بناکر روانہ کیا)

اما بعد!پروردگار نے حضرت محمد (ص) کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اورمرسلین کے لئے گواہ اورنگراں بناکربھیجا تھا لیکن ان کے جانے کے بعد ہی مسلمانوں نے ان کے خلاف میں جھگڑا شروع کردیا۔خدا گواہ ہے کہ یہ بات میرے خیال میںبھی نہ تھی اور نہ میرے دل سے گزری تھی کہ عرب اس منصب کو ان کے اہل بیت سے اس طرح موڑ دیں گے اور مجھ سے اس طرح دور کردیں گے کہمیں نے اچانک یہ دیکھا کہ لوگ فلاں شخص کی بیعت کے لئے ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو میں نے اپنے ہاتھ کو روک لیا یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس جا رہے ہیں اور پیغمبر کے قانون کو برباد کردینا چاہتے ہیں تومجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اوربربادی کو دیکھنے کے بعد بھی میں نے اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اس کی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جوآج اس حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے اورایک دن اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح سراب کی چمک

۶۰۰