نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656909 / ڈاؤنلوڈ: 15924
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

والْمُبْتَاعِ فَمَنْ قَارَفَ حُكْرَةً بَعْدَ نَهْيِكَ إِيَّاه فَنَكِّلْ بِه وعَاقِبْه فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ

ثُمَّ اللَّه اللَّه فِي الطَّبَقَةِ السُّفْلَى مِنَ الَّذِينَ لَا حِيلَةَ لَهُمْ - مِنَ الْمَسَاكِينِ والْمُحْتَاجِينَ وأَهْلِ الْبُؤْسَى والزَّمْنَى - فَإِنَّ فِي هَذِه الطَّبَقَةِ قَانِعاً ومُعْتَرّاً - واحْفَظِ لِلَّه مَا اسْتَحْفَظَكَ مِنْ حَقِّه فِيهِمْ - واجْعَلْ لَهُمْ قِسْماً مِنْ بَيْتِ مَالِكِ - وقِسْماً مِنْ غَلَّاتِ صَوَافِي الإِسْلَامِ فِي كُلِّ بَلَدٍ - فَإِنَّ لِلأَقْصَى مِنْهُمْ مِثْلَ الَّذِي لِلأَدْنَى – وكُلٌّ قَدِ اسْتُرْعِيتَ حَقَّه - ولَا يَشْغَلَنَّكَ عَنْهُمْ بَطَرٌ - فَإِنَّكَ لَا تُعْذَرُ بِتَضْيِيعِكَ التَّافِه لإِحْكَامِكَ الْكَثِيرَ الْمُهِمَّ - فَلَا تُشْخِصْ هَمَّكَ عَنْهُمْ ولَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لَهُمْ - وتَفَقَّدْ أُمُورَ مَنْ لَا يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْهُمْ - مِمَّنْ تَقْتَحِمُه الْعُيُونُ وتَحْقِرُه الرِّجَالُ - فَفَرِّغْ لأُولَئِكَ ثِقَتَكَ مِنْ أَهْلِ الْخَشْيَةِ والتَّوَاضُعِ - فَلْيَرْفَعْ إِلَيْكَ أُمُورَهُمْ - ثُمَّ اعْمَلْ فِيهِمْ بِالإِعْذَارِ إِلَى اللَّه يَوْمَ تَلْقَاه - فَإِنَّ هَؤُلَاءِ مِنْ بَيْنِ الرَّعِيَّةِ أَحْوَجُ إِلَى الإِنْصَافِ مِنْ غَيْرِهِمْ - وكُلٌّ فَأَعْذِرْ إِلَى اللَّه فِي تَأْدِيَةِ حَقِّه إِلَيْه

ظلم نہ ہو۔اس کے بعد تمہارے منع کرنے کے باوجود اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے تو اسے سزا دو لیکن اس میں بھی حد سے تجاوز نہ ہونے پائے ۔

اس کے بعد اللہ سے ڈرو اس پسماندہ طبقہ کے بارے میں جو مساکین 'محتاج ' فقراء اورمعذور افراد کا طبقہ ہے جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیں اور غیرت داربھی ہیں جن کی صورت سوال ہے۔ انکے جس حق کا اللہ نے تمہیں محافظ بنایا ہے اس کی حفاظت کرو اور ان کے لئے بیت المال اورارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کردو کہ ان کے دور افتادہ کا بھی وہی حق ہے جو قریب والوں کا ہے اورتمہیں سبکا نگراں بنایا گیا ہے لہٰذا خبردارکہیں غرور و تکبر تمہیں ان کی طرف سے غافل نہ بنادے کہ تمہیں بڑے کاموں کے مستحکم کر دینے سے چھوٹے کاموں کی بربادی سے معاف نہ کیا جائے گا۔لہٰذا نہ اپنی توجہ کو ان کی طرف سے ہٹانا اور نہ غرور کی بناپر اپنا منہ موڑ لینا۔جن لوگوں کی رسائی تم تک نہیں ہے اور انہیں نگاہوں نے گرادیا ہے اور شخصیتوں نے حقیر بنادیا ہے ان کے حالات کی دیکھ بھال بھی تمہارا ہی فریضہ ہے لہٰذا ان کے لئے متواضع اور خوف خدا رکھنے والے معتبر افراد کو مخصوص کردو جو تم تک ان کے معاملات کو پہنچاتے رہیں اورتم ایسے اعمال انجام دیتے رہو جن کی بناپر روز قیامت پیش پروردگار معذور کہے جا سکو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ انصاف کے محتاج ہیں اور پھر ہرایک کے حقوق کو ادا کرنے میں پیش پروردگار اپنے

۵۸۱

وتَعَهَّدْ أَهْلَ الْيُتْمِ وذَوِي الرِّقَّةِ فِي السِّنِّ مِمَّنْ لَا حِيلَةَ لَه ولَا يَنْصِبُ لِلْمَسْأَلَةِ نَفْسَه - وذَلِكَ عَلَى الْوُلَاةِ ثَقِيلٌ - والْحَقُّ كُلُّه ثَقِيلٌ وقَدْ يُخَفِّفُه اللَّه عَلَى أَقْوَامٍ - طَلَبُوا الْعَاقِبَةَ فَصَبَّرُوا أَنْفُسَهُمْ - ووَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللَّه لَهُمْ.

واجْعَلْ لِذَوِي الْحَاجَاتِ مِنْكَ قِسْماً تُفَرِّغُ لَهُمْ فِيه شَخْصَكَ - وتَجْلِسُ لَهُمْ مَجْلِساً عَامّاً - فَتَتَوَاضَعُ فِيه لِلَّه الَّذِي خَلَقَكَ - وتُقْعِدُ عَنْهُمْ جُنْدَكَ وأَعْوَانَكَ مِنْ أَحْرَاسِكَ وشُرَطِكَ - حَتَّى يُكَلِّمَكَ مُتَكَلِّمُهُمْ غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ - فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يَقُولُ فِي غَيْرِ مَوْطِنٍ - لَنْ تُقَدَّسَ

کو معذور ثابت کرو۔

اوریتیموں اور کبیر السن بوڑھوں کے حالات کی بھی نگرانی کرتے رہنا کہ ان کا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یہ سوال کرنے کے لئے کھڑے بھی نہیں ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کا خیال رکھنا حکام کے لئے بڑا سنگین مسئلہ ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے حق تو سب کا سب ثقیل ہی ہے۔البتہ کبھی کبھی پروردگار اسے ہلکا قرار دے دیتا ہے ان اقوام کے لئے جو عاقبت کی طلب گار ہوتی ہیں اور اس راہمیں اپنے نفس کو صبر کاخوگر بناتی ہیں اورخدا کے وعدہ پر اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

اور دیکھو صاحبان ضرورت کے لئے ایک وقت معین کردو جس میں اپنے کوان کے لئے خالی کرلو اور ایک عمومی مجلس میں بیٹھوں ۔اس خداکے سامنے متواضع رہو جس نے پیدا کیا ہے اور اپنے تمام نگہبان(۱) پولیس' فوج ' اعوان و انصار سب کو دوربٹھا دو تاکہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکارنہ ہو کہ میں نے رسول اکرم (ص) سے خود سنا ہے کہ آپ نے بار بار فرمایا ہے کہ ' 'وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہوسکتی ہے جس میں

(۱) مقصد یہ نہیں ہے کہ حاکم جلسہ عام میں لاوارث ہو کر بیٹھ جائے اور کوئی بھی مفسد ' ظالم فقیر کے بھیس میں آکر اس کا خاتمہ کردے ۔مقصد صرف یہ ہے کہ پولیس ' فوج ' محافظ ' دربان ' لوگوں کے ضروریات کی راہ میں حائل نہ ہونے پائیں کہ نہ انہیں تمہارے پاس آنے دیں اور نہ کھ لکر بات کرنے کاموقع دیں ۔چاہے اس سے پہلے بچاس مقامات پر تلاشی لی جائے کہ غرباء کی حاجت روائی کے نام پر حکام کی زندگیوں کو قربان نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ مفسدین کوبے لگام چھوڑا جاسکتا ہے۔حاکم کے لئے بنیادی مسئلہ اس کی شرافت ' دیانت ' امانت داری کا ہے اس کے بعد اس کا مرتبہ عام معاشرہ سے بہرحال بلند تر ہے اور اس کی زندگی عوام الناس سے یقینا زیادہ قیمتی ہے اور اس کا تحفظ عوام الناس پر اسی طرح واجب ہے جس طرح وہ خودان کے مفادات کاتحفظ کر رہا ہے۔

۵۸۲

أُمَّةٌ لَا يُؤْخَذُ لِلضَّعِيفِ فِيهَا حَقُّه مِنَ الْقَوِيِّ - غَيْرَ مُتَتَعْتِعٍ –

ثُمَّ احْتَمِلِ الْخُرْقَ مِنْهُمْ والْعِيَّ - ونَحِّ عَنْهُمُ الضِّيقَ والأَنَفَ - يَبْسُطِ اللَّه عَلَيْكَ بِذَلِكَ أَكْنَافَ رَحْمَتِه - ويُوجِبْ لَكَ ثَوَابَ طَاعَتِه - وأَعْطِ مَا أَعْطَيْتَ هَنِيئاً وامْنَعْ فِي إِجْمَالٍ وإِعْذَارٍ !

ثُمَّ أُمُورٌ مِنْ أُمُورِكَ لَا بُدَّ لَكَ مِنْ مُبَاشَرَتِهَا - مِنْهَا إِجَابَةُ عُمَّالِكَ بِمَا يَعْيَا عَنْه كُتَّابُكَ - ومِنْهَا إِصْدَارُ حَاجَاتِ النَّاسِ يَوْمَ وُرُودِهَا عَلَيْكَ - بِمَا تَحْرَجُ بِه صُدُورُ أَعْوَانِكَ - وأَمْضِ لِكُلِّ يَوْمٍ عَمَلَه فَإِنَّ لِكُلِّ يَوْمٍ مَا فِيه: واجْعَلْ لِنَفْسِكَ فِيمَا بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه - أَفْضَلَ تِلْكَ الْمَوَاقِيتِ وأَجْزَلَ تِلْكَ الأَقْسَامِ - وإِنْ كَانَتْ كُلُّهَا لِلَّه إِذَا صَلَحَتْ فِيهَا النِّيَّةُ - وسَلِمَتْ مِنْهَا الرَّعِيَّةُ.

ولْيَكُنْ فِي خَاصَّةِ مَا تُخْلِصُ بِه لِلَّه دِينَكَ إِقَامَةُ فَرَائِضِه - الَّتِي هِيَ لَه خَاصَّةً - فَأَعْطِ اللَّه مِنْ بَدَنِكَ فِي لَيْلِكَ ونَهَارِكَ - ووَفِّ مَا تَقَرَّبْتَ بِه إِلَى اللَّه -

کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ''

اس کے بعد ان سے بد کلامی یا عاجزی کلام کا مظاہرہ ہو تواسے برداشت کرو اور دل تنگی اور غرور کو دور رکھو کہ تاکہ خدا تمہارے لئے رحمت کے اطراف کشارہ کردے اور اطاعت کے ثواب کو لازم قرار دیدے جسے جو کچھ دو خوشگواری کے ساتھ دو اور جسے منع کرو اسے خوبصورتی کے ساتھ ٹال دو۔

اس کے بعد تمہارے معاملات میں بعض ایسے معاملات بھی ہیں جنہیںتمہیں خود براہ راست انجام دینا ہے۔جیسے حکام کے ان مسائل کے جوابات جن کے جوابات محرر افراد نہ دے سکیں یا لوگوں کے ان ضروریات کو پورا کرنا جن کے پورا کرنے سے تمہارے مدد گار افراد جی چراتے ہوں اوردیکھو ہر کام کو اسی کے دن مکمل کردینا کہ ہردن کا اپنا ایک کام ہوتا ہے۔اس کے بعد اپنے اور پروردگار کے روابط کے لئے بہترین وقت کا انتخاب کرنا جو تمام اوقات سے افضل اور بہتر ہو۔اگرچہ تمام ہی اوقات اللہ کے لئے شمار ہو سکتے ہیں اگر انسان کی نیت سالم رہے اور رعایا اس کے طفیل خوشحال ہو جائے ۔

اور تمہارے وہ اعمال جنہیں صرف اللہ کے لئے انجام دیتے ہو ان میں سے سب سے اہم کام ان فرائض کا قیام ہو جو صرف پروردگار کے لئے ہوتے ہیں۔اپنی جسمانی طاقت میں سے رات اور دن دونوں وقت ایک حصہ اللہ کے لئے قرار دینا اور جس کام کے ذریعہ اس کی قربت

۵۸۳

مِنْ ذَلِكَ كَامِلًا غَيْرَ مَثْلُومٍ ولَا مَنْقُوصٍ - بَالِغاً مِنْ بَدَنِكَ مَا بَلَغَ - وإِذَا قُمْتَ فِي صَلَاتِكَ لِلنَّاسِ - فَلَا تَكُونَنَّ مُنَفِّراً ولَا مُضَيِّعاً - فَإِنَّ فِي النَّاسِ مَنْ بِه الْعِلَّةُ ولَه الْحَاجَةُ - وقَدْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حِينَ وَجَّهَنِي إِلَى الْيَمَنِ - كَيْفَ أُصَلِّي بِهِمْ - فَقَالَ صَلِّ بِهِمْ كَصَلَاةِ أَضْعَفِهِمْ - وكُنْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً».

وأَمَّا بَعْدُ فَلَا تُطَوِّلَنَّ احْتِجَابَكَ عَنْ رَعِيَّتِكَ - فَإِنَّ احْتِجَابَ الْوُلَاةِ عَنِ الرَّعِيَّةِ شُعْبَةٌ مِنَ الضِّيقِ - وقِلَّةُ عِلْمٍ بِالأُمُورِ - والِاحْتِجَابُ مِنْهُمْ يَقْطَعُ عَنْهُمْ عِلْمَ مَا احْتَجَبُوا دُونَه - فَيَصْغُرُ عِنْدَهُمُ الْكَبِيرُ ويَعْظُمُ الصَّغِيرُ - ويَقْبُحُ الْحَسَنُ ويَحْسُنُ الْقَبِيحُ -

چاہتے ہو اسے مکمل طور سے انجام دینا نہ کوئی رخنہ پڑنے پائے اورنہ کوئی نقص پیدا ہو جائے بدن کو کسی قدرزحمت کیوں نہ ہو جائے۔اور جب لوگوں کے ساتھ جماعت کی نمازادا کرو تو نہ اس طرح پڑھو کہ لوگ بیزار ہو جائیں اور نہ اس طرح کہ نماز برباد ہو جائے اس لئے کہ لوگوں میں بیمار اور ضرورت مند افراد بھی ہوتے ہیں اور میں نے یمن کی مہم پر جاتے ہوئے حضور اکرم (ص) سے دریافت کیا تھا کہ نماز جماعت کا اندازہ کیا ہونا چاہیے تو آپ نے فرمایا تھا کہ کمزور ترین آدمی کے اعتبارسے نماز ادا کرنا اور مومنین کے حال پر مہربان رہنا۔

اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ اپنی رعایا سے دیر تک(۱) الگ نہ رہنا کہ حکام کا رعایا سے پس پردہ رہنا ایک طرح کی تنگ دلی پیداکرتا ہے اور ان کے معاملات کی اطلاع نہیں ہو پاتی ہے اور یہ پردہ داری انہیں بھی ان چیزوں کے جاننے سے روک دیتی ہے جن کے سامنے یہ حجابات قائم ہوگئے ہیں اور اس طرح بڑی چیز چھوٹی ہو جاتی ہے اورچھوٹی چیز بڑی ہو جاتی ہے۔اچھا برا بن جاتا ہے اوربرا اچھاہوجاتا ہے

(۱)یہ شاید اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سماج اور عوام سے الگ رہنا والی اورحاکم کے ضروریات زندگی میں شامل ہے ورنہ اس کی زندگی ۲۴گھنٹہ عوام الناس کی نذر ہوگئی تو نہ تنہائیوں می اپنے مالک سے مناجات کر سکتا ہے اور نہ خلوتوں میں اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کر سکتا ہے۔پردہ داری ایک انسانی ضرورت ہے جس سے کوئی انسان بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس پردہ داری کو طول نہ ہونے پائے کہ عوام الناس حاکم کی زیارت سے محروم ہو جائیں اور اس کا دیدار صرف ٹیلیویژن کے پردہ پر نصیب ہو جس سے نہ کوئی فریاد کی جا سکتی ہے اور نہ کسی درد دل کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ایسے شخص کو حاکم بننے کا یکا حق ہے جو عوام کے دکھ درد میں شریک نہ ہو سکے اور ان کی زندگی کی تلخیوں کو محسوس نہ کرسکے۔ایسے شخص کو دربار حکومت میں بیٹھ کر'' انا ربکم الا علی '' کا نعرہ لگانا چاہیے اور آخر میں کسی دریا میں ڈوب مرنا چاہیے۔اسلامی حکومت اس طرح کی لا پرواہی کو برداشت نہیں کر سکتی ہے۔اس کے لئے کوفہ میں بیٹھ کرحجاز اور یمامہکے فقراء کو دیکھنا پڑتا ہے اور ان کی حالت کے پیشنظر سو کھی روٹی کھانا پڑتی ہے۔

۵۸۴

ويُشَابُ الْحَقُّ بِالْبَاطِلِ - وإِنَّمَا الْوَالِي بَشَرٌ - لَا يَعْرِفُ مَا تَوَارَى عَنْه النَّاسُ بِه مِنَ الأُمُورِ - ولَيْسَتْ عَلَى الْحَقِّ سِمَاتٌ - تُعْرَفُ بِهَا ضُرُوبُ الصِّدْقِ مِنَ الْكَذِبِ - وإِنَّمَا أَنْتَ أَحَدُ رَجُلَيْنِ - إِمَّا امْرُؤٌ سَخَتْ نَفْسُكَ بِالْبَذْلِ فِي الْحَقِّ - فَفِيمَ احْتِجَابُكَ مِنْ وَاجِبِ حَقٍّ تُعْطِيه - أَوْ فِعْلٍ كَرِيمٍ تُسْدِيه أَوْ مُبْتَلًى بِالْمَنْعِ - فَمَا أَسْرَعَ كَفَّ النَّاسِ عَنْ مَسْأَلَتِكَ - إِذَا أَيِسُوا مِنْ بَذْلِكَ - مَعَ أَنَّ أَكْثَرَ حَاجَاتِ النَّاسِ إِلَيْكَ - مِمَّا لَا مَئُونَةَ فِيه عَلَيْكَ - مِنْ شَكَاةِ مَظْلِمَةٍ أَوْ طَلَبِ إِنْصَافٍ فِي مُعَامَلَةٍ.

ثُمَّ إِنَّ لِلْوَالِي خَاصَّةً وبِطَانَةً - فِيهِمُ اسْتِئْثَارٌ وتَطَاوُلٌ وقِلَّةُ إِنْصَافٍ فِي مُعَامَلَةٍ فَاحْسِمْ مَادَّةَ أُولَئِكَ بِقَطْعِ أَسْبَابِ تِلْكَ الأَحْوَالِ - ولَا تُقْطِعَنَّ لأَحَدٍ مِنْ حَاشِيَتِكَ وحَامَّتِكَ قَطِيعَةً - ولَا يَطْمَعَنَّ مِنْكَ فِي اعْتِقَادِ عُقْدَةٍ - تَضُرُّ بِمَنْ يَلِيهَا مِنَ النَّاسِ - فِي شِرْبٍ أَوْ عَمَلٍ مُشْتَرَكٍ - يَحْمِلُونَ مَئُونَتَه عَلَى غَيْرِهِمْ

اورحق باطل سے مخلوط ہو جاتا ہے۔اور حاکم بھی بالآخر ایک بشر ہے وہ پس پردہ امور کی اطلاع نہیں رکھتا ہے اور نہ حق کی پیشانی پر ایسے نشانات ہوتے ہیں جن کے ذریعہ صداقت کے اقسام کو غلط بیانی سے الگ کرکے پہچانا جاسکے۔

اور پھر تم دو میں سے ایک قسم کے ضرور ہوگے۔یا وہ شخص ہوگے جس کا نفس حق کی راہمیں بذل و عطا پر مائل ہے تو پھرتمہیں واجب حق عطا کرنے کی راہ میں پر وہ حائل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اور کریموں جیسا عمل کیوں نہیں انجام دیتے ہو۔یا تم بخل کی بیماری میں مبتلا ہوگے تو بہت جلدی لوگ تم سے مایوس ہوکرخود ہی اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے اور تمہیں پردہ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔حالانکہ لوگوں کے اکثر ضروریات وہ ہیں جن میں تمہیں کسی طرح کی زحمت نہیں ہے جیسے ظلم کی فریاد یا کسی معاملہ میں انصاف کا مطالبہ ۔

اس کے بعد یہ بھی خیال رہے کہ ہر والی کے کچھ مخصوص اور راز دار قسم کے افراد ہوتے ہیں جن میں خودغرضی ، دست درازی اورمعاملات میں بے انصافی پاء جاتی ہے لہٰذا خبردار ایسے افراد کے فساد کا علاج ان اسباب کے خاتمہ سے کرنا جن سے یہ حالات پیدا ہوتے ہیں۔اپنے کسی بھی حاشیہ نشین اورقرابت دار کو کوئی جاگیر مت بخش دینا اوراسے تم سے کوئی ایسی توقع نہ ہونی چاہیے کہ تم کسی ایسی زمین پر قبضہ دیدو گے جس کے سبب آبپاشی یا کی مشترک معاملہ میں شرکت رکھنے والے افراد کو نقصان پہنچ جائیکہ اپنے مصارف بھی دوسرے کے سرڈال دے اور

۵۸۵

فَيَكُونَ مَهْنَأُ ذَلِكَ لَهُمْ دُونَكَ - وعَيْبُه عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا والآخِرَةِ.

وأَلْزِمِ الْحَقَّ مَنْ لَزِمَه مِنَ الْقَرِيبِ والْبَعِيدِ - وكُنْ فِي ذَلِكَ صَابِراً مُحْتَسِباً - وَاقِعاً ذَلِكَ مِنْ قَرَابَتِكَ وخَاصَّتِكَ حَيْثُ وَقَعَ - وابْتَغِ عَاقِبَتَه بِمَا يَثْقُلُ عَلَيْكَ مِنْه - فَإِنَّ مَغَبَّةَ ذَلِكَ مَحْمُودَةٌ.

وإِنْ ظَنَّتِ الرَّعِيَّةُ بِكَ حَيْفاً فَأَصْحِرْ لَهُمْ بِعُذْرِكَ - واعْدِلْ عَنْكَ ظُنُونَهُمْ بِإِصْحَارِكَ - فَإِنَّ فِي ذَلِكَ رِيَاضَةً مِنْكَ لِنَفْسِكَ ورِفْقاً بِرَعِيَّتِكَ وإِعْذَاراً - تَبْلُغُ بِه حَاجَتَكَ مِنْ تَقْوِيمِهِمْ عَلَى الْحَقِّ.

ولَا تَدْفَعَنَّ صُلْحاً دَعَاكَ إِلَيْه عَدُوُّكَ ولِلَّه فِيه رِضًا فَإِنَّ فِي الصُّلْحِ دَعَةً لِجُنُودِكَ -

اس طرح اس معاملہ کا مزہ اس کے حصہ میں آئے اور اس کی ذمہ داری دنیا اور آخرت میں تمہارے ذمہ رہے۔

اور جس پر کوئی حق عائد ہو اس پر اس کے نافذ کرنے کی ذمہ داری ڈالو چاہے وہ تم سے نزدیک ہویا دور اوراس مسئلہ میں اللہ کی راہ میں صبرو تحمل سے کام لینا چاہے اس کی زد تمہاریقرابتداروں اورخاص افراد ہی پرکیوں نہ پڑتی ہواور اس سلسلہ میں تمہارے مزاج پر جو بار ہو اسے آخرت کی امید میں برداشت کرلینا کہ اس کا انجام بہتر ہوگا۔

اور اگر کبھی رعایا کو یہ خیال ہو جائے کہ تم نے ان پر ظلم کیا ہے توان کے لئے اپنے عذر کا اظہار کرواور اسی ذریعہ سے ان کی بد گمانی کاعلاج کرو کہ اس میں تمہارے نفس کی تربیت بھی ہے اور رعایا پر نرمی کا اظہار بھی ہے اوروہ عذر خواہی بھی وہے جس کے ذریعہ تمرعایا کو راہ حق پر چلانے کا مقصد بھی حاصل کرسکتے ہو۔

اور خبردار کسی ایسی دعوت صلح کا انکارنہ کرنا جس کی تحریک دشن کی طرف سے ہو اور جس میں مالک کی رضا مندی(۱) پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ فوجوں کو

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صلح ایک بہترین طریقہ کار ہے اور قرآن نے اسے ''خیر '' سے تعبیر کیاہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو شخص جن حالات میں جس طرح کی صلح کیدعوت دے تم قبول کرلو اور اس کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ جائو کہ ایسے نظام میں ہر ظالم اپنی ظالمانہ حرکتوں ہی پر صلح کرنا چاہیے گا اور تمہیں اسے تلیم کرنا ہوگا۔صلح کی بنیادی شرط یہ ہے کہاسے رضائے الٰہی کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی کسی دفعہ کو بھی مرضی پروردگار کے خلاف نہیں ہونا چاہیے جس طرح کہ سرکار دو عالم (ص) کی صلح میں دیکھا گیا ہے کہ آپ نے جس جس لفظ اور جس جس دفعہ پر صلح کی ہے سب کی سب مطابق حقیقت اور عین مرضی پروردگار تھیں اور کوئی حرف غلط درمیان میں نہیں تھا ''بسمک اللھم '' بھی ایک کلمہ صحیح تھا۔محمد بن عبداللہ بھی ایک حرف حق تھا اوردشمن کے افراد کاواپس کردینا بھی کوئیغلط اقدام نہیں تھا۔امام حسن مجتبیٰ کی صلح میں بھی یہی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کا مشاہدہ سرکار دو عالم (ص) کی صلح میں کیا جا چکا ہے۔اوریہ مولائے کائنات کی بنیادی تعلیم اور اسلام کاواقعی ہدف اور مقصد ہے۔

۵۸۶

ورَاحَةً مِنْ هُمُومِكَ وأَمْناً لِبِلَادِكَ - ولَكِنِ الْحَذَرَ كُلَّ الْحَذَرِ مِنْ عَدُوِّكَ بَعْدَ صُلْحِه - فَإِنَّ الْعَدُوَّ رُبَّمَا قَارَبَ لِيَتَغَفَّلَ - فَخُذْ بِالْحَزْمِ واتَّهِمْ فِي ذَلِكَ حُسْنَ الظَّنِّ - وإِنْ عَقَدْتَ بَيْنَكَ وبَيْنَ عَدُوِّكَ عُقْدَةً - أَوْ أَلْبَسْتَه مِنْكَ ذِمَّةً - فَحُطْ عَهْدَكَ بِالْوَفَاءِ وارْعَ ذِمَّتَكَ بِالأَمَانَةِ - واجْعَلْ نَفْسَكَ جُنَّةً دُونَ مَا أَعْطَيْتَ - فَإِنَّه لَيْسَ مِنْ فَرَائِضِ اللَّه شَيْءٌ - النَّاسُ أَشَدُّ عَلَيْه اجْتِمَاعاً مَعَ تَفَرُّقِ أَهْوَائِهِمْ - وتَشَتُّتِ آرَائِهِمْ - مِنْ تَعْظِيمِ الْوَفَاءِ بِالْعُهُودِ - وقَدْ لَزِمَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ فِيمَا بَيْنَهُمْ دُونَ الْمُسْلِمِينَ - لِمَا اسْتَوْبَلُوا مِنْ عَوَاقِبِ الْغَدْرِ - فَلَا تَغْدِرَنَّ بِذِمَّتِكَ ولَا تَخِيسَنَّ بِعَهْدِكَ ولَا تَخْتِلَنَّ عَدُوَّكَ - فَإِنَّه لَا يَجْتَرِئُ عَلَى اللَّه إِلَّا جَاهِلٌ شَقِيٌّ - وقَدْ جَعَلَ اللَّه عَهْدَه وذِمَّتَه أَمْناً أَفْضَاه بَيْنَ الْعِبَادِ بِرَحْمَتِه وحَرِيماً يَسْكُنُونَ إِلَى مَنَعَتِه ويَسْتَفِيضُونَ إِلَى جِوَارِه فَلَا إِدْغَالَ ولَا مُدَالَسَةَ ولَا خِدَاعَ فِيه -

قدرے سکون مل جاتا ہے اور تمہارے نفس کو بھی افکار سے نجات مل جائے گی اور شہروں میں بھی امن وامان ک فضا قائم ہو جائے گی۔البتہ صلح کے بعد دشمن کی طرف سے مکمل طور پر ہوشیار رہنا کہ کبھی کبھی وہ تمہیں غافل بنانے کے لئے تم سے قربت اختیار کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس مسئلہ میں مکمل ہو شیاری سے کام لینا اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا اوراگر اپنے اور اس کیدرمیان کوئی معاہدہ کرنایا اسے کسی طرح کی پناہ دینا تو اپنے عہد کی پاسداری و وفاداری کے ذریعہ کرنا اور اپنے ذمہ کو امانت داری کے ذریعہ محفوظ بنانا اور اپنے قول و قرارکی راہ میں اپنے نفس کو سپر بنادینا کہ اللہ کے فرائض میں ایفائے عہد جیسا کوئی فریضہ نہیں ہے جس پر تمام لوگ خواہشات کے اختلاف اورافکار کے تضاد کے باوجودمتحد ہیں اور اس کا مشرکین نے بھی اپنے معاملات میں لحاظ رکھا ہے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں تباہیوں کا انداہ کرلیا ہے۔تو خبردار تم اپنے عہدو پیمان سے غداری نہ کرنا اور اپنے قول و قرار میں خیانت سے کام نہ لینا اور اپنے دشمن پر اچانک حملہ نہ کردینا۔اس لئے کہ اللہ کے مقابلہ میں جاہل و بد بخت کے علاوہ کوئی جرأت نہیں کرتا ہے اور اللہ نے عہدو پیمان کو امن وامان کا وسیلہ قراردیا ہے جسے اپنی رحمت سے تمام بندو ں کے درمیان عام کردیا ہے اور ایسی پناہ گاہ بنادیا ہے جس کے دامن حفاظت میں پناہ لینے والے پناہ لیتے ہیں اور اسکے جوار میں منزل کرنے کے لئے تیز سے قدم آگے بڑھاتے ہیں لہٰذا اس میں کوئی جعل سازی ' فریب کاری اور مکاری نہ

۵۸۷

ولَا تَعْقِدْ عَقْداً تُجَوِّزُ فِيه الْعِلَلَ ولَا تُعَوِّلَنَّ عَلَى لَحْنِ قَوْلٍ بَعْدَ التَّأْكِيدِ والتَّوْثِقَةِ ولَا يَدْعُوَنَّكَ ضِيقُ أَمْرٍ لَزِمَكَ فِيه عَهْدُ اللَّه إِلَى طَلَبِ انْفِسَاخِه بِغَيْرِ الْحَقِّ - فَإِنَّ صَبْرَكَ عَلَى ضِيقِ أَمْرٍ تَرْجُو انْفِرَاجَه وفَضْلَ عَاقِبَتِه خَيْرٌ مِنْ غَدْرٍ تَخَافُ تَبِعَتَه - وأَنْ تُحِيطَ بِكَ مِنَ اللَّه فِيه طِلْبَةٌ - لَا تَسْتَقْبِلُ فِيهَا دُنْيَاكَ ولَا آخِرَتَكَ.

إِيَّاكَ والدِّمَاءَ وسَفْكَهَا بِغَيْرِ حِلِّهَا - فَإِنَّه لَيْسَ شَيْءٌ أَدْعَى لِنِقْمَةٍ ولَا أَعْظَمَ لِتَبِعَةٍ - ولَا أَحْرَى بِزَوَالِ نِعْمَةٍ وانْقِطَاعِ مُدَّةٍ - مِنْ سَفْكِ الدِّمَاءِ بِغَيْرِ حَقِّهَا - واللَّه سُبْحَانَه مُبْتَدِئٌ بِالْحُكْمِ بَيْنَ الْعِبَادِ - فِيمَا تَسَافَكُوا مِنَ الدِّمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - فَلَا تُقَوِّيَنَّ سُلْطَانَكَ بِسَفْكِ دَمٍ حَرَامٍ -

ہونی چاہیے اورکوئی ایسا معاہدہ نہ کرنا جس میں تاویل کی ضرورت پڑے اور معاہدہ کے پختہ ہو جانے کے بعد اس کے کسی مبہم لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرنا اور عہد الٰہی میںتنگی کا احساس غیر حق کے ساتھ وسعت کی جستجو پرآمادہ نہ کردے کہ کسی امر کی تنگی پر صبر کرلینا اور کشائش حال اور بہترین عاقبت کا انتظار کرنا اس غداری سے بہتر ہے جس کے اثرات خطرناک ہوں اور تمہیں اللہ کی طرف سے جواب دہی کی مصیبت گھیر لے اور دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جائیں ۔

دیکھو خبردار۔ناحق خون بہانے سے پرہیز کرنا کہ اس سے زیادہ عذاب الٰہی سے قریب تر اور پاداش کے اعتبارسے شدید تر اورنعمتوں کے زوال۔زندگی کے خاتمہ کے لئے مناسب تر کوئی سبب نہیں ہے اور پروردگار روز قیامت اپنے فیصلہ کاآغاز خونریزیوں کے معاملہ سے کرے گا۔لہٰذا خبردار اپنی حکومت کا استحکام(۱) ناحق خون ریزی کے ذریعہ نہ پیدا کرنا کہ یہ بات حکومت کو کمزوراور بے جان بنا دیتی ہے بلکہ تباہ کرکے دوسروں کی طرف منتقل کر دیتی ہے اور تمہارے پاس نہ خدا کے سامنے اور نہ میرے سامنے عمداً قتل کرنے کا کوئی عذرنہیں ہے اور اس میں

(۱) واضح رہے کہ دنیا میں حکومتوں کا قیام تو وراثت ' جمہوریت ' عسکری انقلاب اور ذہانت وفراست تمام اسباب سے ہو سکتا ہے لیکن حکومتوں میں استحکام عوام کی خوشی اور ملک کی خوشحالی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جن افراد نے یہ خیال کیا کہ وہ اپنی حکومتوں کو خونریزی کے ذریعہ مستحکم بنا سکتے ہیں انہوں نے جیتے جی اپنی غلط فہمی کا انجام دیکھ لیا اوہ ہٹلر جیسے شخص کو بھی خود کشی پر آمادہ ہونا پڑا۔اسی لئے کہا گیا ہے کہملک کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھب اقی نہیں رہ سکتا ہے اور انسانیت کاخون بہانے سے بڑا کوئی جرم قابل تصور نہیں ہے لہٰذا اس سے پرہیز ہر صاحب اقتداراور صاحب عقل و ہوش کا فریضہ ہے اور زمانہ کی گردش کے پلٹتے دیر نہیں لگتی ہے ۔

۵۸۸

فَإِنَّ ذَلِكَ مِمَّا يُضْعِفُه ويُوهِنُه بَلْ يُزِيلُه ويَنْقُلُه - ولَا عُذْرَ لَكَ عِنْدَ اللَّه ولَا عِنْدِي فِي قَتْلِ الْعَمْدِ - لأَنَّ فِيه قَوَدَ الْبَدَنِ - وإِنِ ابْتُلِيتَ بِخَطَإٍ - وأَفْرَطَ عَلَيْكَ سَوْطُكَ أَوْ سَيْفُكَ أَوْ يَدُكَ بِالْعُقُوبَةِ - فَإِنَّ فِي الْوَكْزَةِ فَمَا فَوْقَهَا مَقْتَلَةً - فَلَا تَطْمَحَنَّ بِكَ نَخْوَةُ سُلْطَانِكَ - عَنْ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ حَقَّهُمْ.

وإِيَّاكَ والإِعْجَابَ بِنَفْسِكَ - والثِّقَةَ بِمَا يُعْجِبُكَ مِنْهَا وحُبَّ الإِطْرَاءِ - فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَوْثَقِ فُرَصِ الشَّيْطَانِ فِي نَفْسِه - لِيَمْحَقَ مَا يَكُونُ مِنْ إِحْسَانِ الْمُحْسِنِينَ.

وإِيَّاكَ والْمَنَّ عَلَى رَعِيَّتِكَ بِإِحْسَانِكَ - أَوِ التَّزَيُّدَ فِيمَا كَانَ مِنْ فِعْلِكَ - أَوْ أَنْ تَعِدَهُمْ فَتُتْبِعَ مَوْعِدَكَ بِخُلْفِكَ - فَإِنَّ الْمَنَّ يُبْطِلُ الإِحْسَانَ والتَّزَيُّدَ يَذْهَبُ بِنُورِ الْحَقِّ - والْخُلْفَ يُوجِبُ الْمَقْتَ عِنْدَ اللَّه والنَّاسِ - قَالَ اللَّه تَعَالَى -( كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ الله أَنْ تَقُولُوا ما لا تَفْعَلُونَ ) .

وإِيَّاكَ والْعَجَلَةَ بِالأُمُورِ قَبْلَ أَوَانِهَا - أَوِ التَّسَقُّطَ فِيهَا عِنْدَ إِمْكَانِهَا - أَوِ اللَّجَاجَةَ فِيهَا إِذَا تَنَكَّرَتْ - أَوِ الْوَهْنَ عَنْهَا إِذَا اسْتَوْضَحَتْ - فَضَعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْضِعَه

زندگی کا قصاص بھی ثابت ہے۔البتہ اگر دھوکہ سے اس غلطی میں مبتلا ہو جائو اور تمہارا تازیانہ ' تلوار یا ہاتھ سزا دینے میں اپنی حد سے آگے بڑھ جائے کہ کبھی کبھی گھونسہ وغیرہ بھی قتل کا سبب بن جاتا ہے۔تو خبر دار تمہیں سلطنت کاغرور اتنا اونچا نہ بنادے کہ تم خون کے وارثوں کو ان کا حق خون بہا بھی ادا نہ کرو۔

اور دیکھو اپنے نفس کو خود پسندی سے بھی محفوظ رکھنا اور اپنی پسند پر بھروسہ بھی نہ کرنا اور زیادہ تعریف کا شوق بھی نہ پیداہوجائے کہ یہ سب باتیں شیطان کی فرصت کے بہترین وسائل ہیں جن کے ذریعہ وہ نیک کرداروں کے عمل کو ضائع اور برباد کردیا کرتا ہے۔

اور خبردار رعایا پراحسان بھی نہ جتانا اور جو سلوک کیا ہے اسے زیادہ سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا یا ان سے کوئی وعدہ کرکے اس کے بعد وعدہ خلافی بھی نہ کرنا کہ یہ طرز عمل احسان کو برباد کر دیتا ہے اور زیادتی عمل کاغرور حق کی نورانیت کو فنا کردیتا ہے اور وعدہ خلافی خدا اوربندگان خدا دونوں کینزدیک ناراضگی کاباعث ہوت یہ جیسا کہ اس نے ارشادفرمایا ہے کہ '' اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناراضگی کی بات ہے کہ تم کوئی بات کہو اور پھراس کے مطابق عمل نہ کرو ''

اورخبردار وقت سے پہلے کاموں میں جلدی نہ کرنا اور وقت آجانے کے بعد سستی کا مظاہرہ نہ کرنا اور بات سمجھ میں نہ آئے تو جھگڑا نہ کرنا اورواضح ہو جائے تو کمزوری کا اظہار نہ کرنا۔ہربات کو اس کی جگہ رکھواور

۵۸۹

وأَوْقِعْ كُلَّ أَمْرٍ مَوْقِعَه.

وإِيَّاكَ والِاسْتِئْثَارَ بِمَا النَّاسُ فِيه أُسْوَةٌ - والتَّغَابِيَ عَمَّا تُعْنَى بِه مِمَّا قَدْ وَضَحَ لِلْعُيُونِ - فَإِنَّه مَأْخُوذٌ مِنْكَ لِغَيْرِكَ - وعَمَّا قَلِيلٍ تَنْكَشِفُ عَنْكَ أَغْطِيَةُ الأُمُورِ - ويُنْتَصَفُ مِنْكَ لِلْمَظْلُومِ - امْلِكْ حَمِيَّةَ أَنْفِكَ وسَوْرَةَ حَدِّكَ - وسَطْوَةَ يَدِكَ وغَرْبَ لِسَانِكَ - واحْتَرِسْ مِنْ كُلِّ ذَلِكَ بِكَفِّ الْبَادِرَةِ وتَأْخِيرِ السَّطْوَةِ - حَتَّى يَسْكُنَ غَضَبُكَ فَتَمْلِكَ الِاخْتِيَارَ - ولَنْ تَحْكُمَ ذَلِكَ مِنْ نَفْسِكَ - حَتَّى تُكْثِرَ هُمُومَكَ بِذِكْرِ الْمَعَادِ إِلَى رَبِّكَ والْوَاجِبُ عَلَيْكَ أَنْ تَتَذَكَّرَ مَا مَضَى لِمَنْ تَقَدَّمَكَ - مِنْ حُكُومَةٍ عَادِلَةٍ أَوْ سُنَّةٍ فَاضِلَةٍ - أَوْ أَثَرٍ عَنْ نَبِيِّنَاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم أَوْ فَرِيضَةٍ فِي كِتَابِ اللَّه - فَتَقْتَدِيَ بِمَا شَاهَدْتَ مِمَّا عَمِلْنَا بِه فِيهَا - وتَجْتَهِدَ لِنَفْسِكَ فِي اتِّبَاعِ مَا عَهِدْتُ إِلَيْكَ فِي عَهْدِي هَذَا - واسْتَوْثَقْتُ بِه مِنَ الْحُجَّةِ لِنَفْسِي عَلَيْكَ - لِكَيْلَا تَكُونَ لَكَ عِلَّةٌ عِنْدَ تَسَرُّعِ نَفْسِكَ إِلَى هَوَاهَا: وأَنَا أَسْأَلُ

ہر امر کواس کے محل پر قرار دو۔

دیکھو جس چیز میںتمام لوگ برابر کے شریک ہیں اسے اپنے ساتھ مخصوص نہ کرلینا اورجوحق نگاہوں کے سامنے واضح ہوجائے اس سے غفلت نہ برتنا کہ دوسروں کے لئے یہی تمہاری ذمہ داری ہے اورعنقریب تمام امورسے پردے اٹھ جائیں گے اورتم سے مظلوم کاب دلہ لے لیا جائے گا۔اپے غضب کی تیزی 'اپنی سر کشی کے جوش ' اپنے ہاتھ کی جنبش اور اپنی زبان کی کاٹ پر قابو رکھنا اور ان تمام چیزوں سے اپنے کو اس طرح محفوظ رکھنا کہ جلدبازی سے کام نہ لینا اور سزا دینے میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ غصہ ٹھہر جائے اور اپنے اوپر قابو حاصل ہو جائے۔اوراس امرپ ربھی اختیار اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا ہے جب تک پروردگار کی بارگاہ میں واپسی کا خیال زیادہ سے زیادہ نہ ہوجائے ۔

تمہارا فریضہ ہے کہ ماضی میں گزر جانے والی عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد رکھو' رسول اکرم(ص) کے آثار اور کتاب خدا کے احکام کو نگاہ میں رکھواور جس طرح ہمیں عمل کرتے دیکھا ہے اسی طرح ہمارے نقش قدم پر چلو اور جو کچھ اس عہد نامہ میں ہم نے بتایا ہے اس پرعمل کرنے کی کوشش کرو کہ میں تمہارے اوپر اپنی حجت کو مستحکم کردیا ہے تاکہ جب تمہارا نفس خواہشات کی طرف تیزی سے بڑھے تو تمہارے پاس کوء یعذرنہ رہے۔ور میں پروردگار کی وسیع رحمت اور ہر مقصد کے عطا کرنے کی عظیم قدرت کے وسیلہ سے یہ سوال

۵۹۰

اللَّه بِسَعَةِ رَحْمَتِه - وعَظِيمِ قُدْرَتِه عَلَى إِعْطَاءِ كُلِّ رَغْبَةٍ - أَنْ يُوَفِّقَنِي وإِيَّاكَ لِمَا فِيه رِضَاه - مِنَ الإِقَامَةِ عَلَى الْعُذْرِ الْوَاضِحِ إِلَيْه وإِلَى خَلْقِه - مَعَ حُسْنِ الثَّنَاءِ فِي الْعِبَادِ وجَمِيلِ الأَثَرِ فِي الْبِلَادِ - وتَمَامِ النِّعْمَةِ وتَضْعِيفِ الْكَرَامَةِ - وأَنْ يَخْتِمَ لِي ولَكَ بِالسَّعَادَةِ والشَّهَادَةِ -( إِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - والسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ وسَلَّمَ تَسْلِيماً كَثِيراً والسَّلَامُ

(۵۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى طلحة والزبير (مع عمران بن الحصين الخزاعي) ذكره أبو جعفر الإسكافي في كتاب المقامات في مناقب أمير المؤمنينعليه‌السلام

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ عَلِمْتُمَا وإِنْ كَتَمْتُمَا - أَنِّي لَمْ أُرِدِ النَّاسَ حَتَّى أَرَادُونِي - ولَمْ أُبَايِعْهُمْ حَتَّى بَايَعُونِي - وإِنَّكُمَا مِمَّنْ أَرَادَنِي وبَايَعَنِي -

کرتا ہوں کہ مجھے اور تمہیںان کاموں کی توفیق دے جن می اس کی مرضی ہو اور ہم دونوں اس کی بارگاہ میں اوربندوں کے سامنے عذر پیش کرنے کے قابل ہو جائیں۔بندوں کی بہترین تعریف کے حقدار ہوں اور علاقوں میں بہترین آثار چھو ڑ کرجائیں۔نعمت کی فراوانی اور عزت کے روز افزوں اضافہ کوبرقرار رکھ سکیں اور ہم دونوں کا خاتمہ سعادت اور شہادت پر ہو کہ ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کرجانے والے ہیں۔سلام ہو رسول خدا (ص) پر اور ان کی طیب وطاہر آل پر اور سب پر سلام بے حساب۔والسلام

(۵۴)

آپ کا مکتوب گرامی

(طلحہ و زبیر کے نام جسے عمران بن الحصین الخزاعی کے ذریعہ بھیجا تھا اور جس کا ذکر ابو جعفر اسکافی ۱نے کتاب المقامات میں کیا ہے )

امابعد! اگرچہ تم دونوں چھپا رہے ہو لیکن تمہیں بہر حال معلوم ہے کہ میں نے خلافت کی خواہش نہیں کی۔لوگوں نے مجھ سے خواہش کی ہے اور میں نے بیعت کے لئے اقدام نہیں کیا ہے جب تک انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔تم دونوں بھی انہیں افراد میں شامل ہو جنہوں نے مجھے چاہا تھا اورمیری بیعت کی تھی

(۱)ابو جعفر اس کافی معتزلہ کے شیوخ میں شمار ہوتے تھے اور ان کے ستر ۷۰ تصنیفات تھیں جن میں ایک '' کتاب المقامات'' بھی تھی ۔اسی کتاب میں امیر المومنین کے اس مکتوب گرامی کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ حضرت نے اسے عمران کے ذریعہ بھیجا تھا جوفقہا صحابہ میں شمار ہوتیت ھے اورجنگ خیبر کے سال اسلام لائے تھے اور عہد معاویہ میں انتقال کیا تھا۔اسکافی جاحظ کے معاصروں میں تھے اور انہیں اسکاف کی نسبت سے اسکافی کہاجاتا ہے جونہروان اوربصرہ کے درمیان ایک شہر ہے۔

۵۹۱

وإِنَّ الْعَامَّةَ لَمْ تُبَايِعْنِي لِسُلْطَانٍ غَالِبٍ ولَا لِعَرَضٍ حَاضِرٍ – فَإِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي طَائِعَيْنِ - فَارْجِعَا وتُوبَا إِلَى اللَّه مِنْ قَرِيبٍ - وإِنْ كُنْتُمَا بَايَعْتُمَانِي كَارِهَيْنِ - فَقَدْ جَعَلْتُمَا لِي عَلَيْكُمَا السَّبِيلَ بِإِظْهَارِكُمَا الطَّاعَةَ - وإِسْرَارِكُمَا الْمَعْصِيَةَ - ولَعَمْرِي مَا كُنْتُمَا بِأَحَقِّ الْمُهَاجِرِينَ - بِالتَّقِيَّةِ والْكِتْمَانِ - وإِنَّ دَفْعَكُمَا هَذَا الأَمْرَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْخُلَا فِيه - كَانَ أَوْسَعَ عَلَيْكُمَا مِنْ خُرُوجِكُمَا مِنْه - بَعْدَ إِقْرَارِكُمَا بِه.

وقَدْ زَعَمْتُمَا أَنِّي قَتَلْتُ عُثْمَانَ - فَبَيْنِي وبَيْنَكُمَا مَنْ تَخَلَّفَ عَنِّي وعَنْكُمَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ - ثُمَّ يُلْزَمُ كُلُّ امْرِئٍ بِقَدْرِ مَا احْتَمَلَ - فَارْجِعَا أَيُّهَا الشَّيْخَانِ عَنْ رَأْيِكُمَا - فَإِنَّ الآنَ أَعْظَمَ أَمْرِكُمَا الْعَارُ - مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَجَمَّعَ الْعَارُ والنَّارُ - والسَّلَامُ.

اورعام لوگوں نے بھی میری بیعت نہ کسی سلطنت کے رعب داب سے کی ہے اور نہ کی مال دنیا کی لالچ میں کی ہے۔پس اگر تم دونوں نے میر ی بیعت اپنی خوشی سے کی تھی تو اب خدا کی طرف رجوع کرو اور فوراً توبہ کرلو۔اور اگرمجبوراً کی تھی تو تم نے اپنے اوپر میرا حق ثابت کردیا کہ تم نے اطاعت کا اظہار کیا تھا اورناف رمانی کودل میں چھپا کر رکھا تھا۔اورمیری جان کی قسم تم دونوں اس راز داری اوردل کی باتوں کے چھپانے میں مہاجرین سیزیادہ سزا وار نہیں تھے اور تمہارے لئے بعت سے نکلنے اور اس کے اقرار کے بعد انکار کردینے سے زیادہ آسان روز اول ہی اس کا انکار کردیناتھا۔تم لوگوں کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ میں نے عثمان کوقتل کیا ہے تو میرے اور تمہارے درمیان وہ اہل مدینہ موجود ہیں جنہوں نے ہم دونوں سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔اس کے بعد ہرشخص اسی کاذمہدار ہے جو اس نے ذمہداری قبول کی ہے۔ بزرگوارو! موقع غنیمت ہے اپنی رائے سے بازآجائو کہ آج تو صرف ننگ وعارکاخطرہ ہے لیکن اس کے بعد عارونار دونوں جمع ہو جائیں گے۔والسلام۔

۵۹۲

(۵۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه قَدْ جَعَلَ الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا - وابْتَلَى فِيهَا أَهْلَهَا لِيَعْلَمَ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا - ولَسْنَا لِلدُّنْيَا خُلِقْنَا ولَا بِالسَّعْيِ فِيهَا أُمِرْنَا - وإِنَّمَا وُضِعْنَا فِيهَا لِنُبْتَلَي بِهَا - وقَدِ ابْتَلَانِي اللَّه بِكَ وابْتَلَاكَ بِي - فَجَعَلَ أَحَدَنَا حُجَّةً عَلَى الآخَرِ - فَعَدَوْتَ عَلَى الدُّنْيَا بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ - فَطَلَبْتَنِي بِمَا لَمْ تَجْنِ يَدِي ولَا لِسَانِي - وعَصَيْتَه أَنْتَ وأَهْلُ الشَّامِ بِي - وأَلَّبَ عَالِمُكُمْ جَاهِلَكُمْ وقَائِمُكُمْ قَاعِدَكُمْ؛ فَاتَّقِ اللَّه فِي نَفْسِكَ ونَازِعِ الشَّيْطَانَ قِيَادَكَ - واصْرِفْ إِلَى الآخِرَةِ وَجْهَكَ - فَهِيَ طَرِيقُنَا وطَرِيقُكَ - واحْذَرْ أَنْ يُصِيبَكَ اللَّه مِنْه بِعَاجِلِ قَارِعَةٍ - تَمَسُّ الأَصْلَ وتَقْطَعُ الدَّابِرَ - فَإِنِّي أُولِي لَكَ بِاللَّه أَلِيَّةً غَيْرَ فَاجِرَةٍ - لَئِنْ جَمَعَتْنِي وإِيَّاكَ جَوَامِعُ الأَقْدَارِ لَا أَزَالُ بِبَاحَتِكَ -

(۵۵)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام)

اما بعد!خدائے بزرگ وبرتر نے دنیا کو آخرت کا مقدمہ قراردیا ہے اوراسے آزمائش کاذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ بہترین عمل کرنے والا کون ہے۔ہم نہ اس دنیاکے لئے پیداکئے گئے ہیں اور نہ ہمیں اس کے لئے دوڑ دھوپ کا حکم دیا گیا ہے۔ہم یہاں فقط اس لئے رکھے گئے ہیں کہ ہمارا امتحان لیاجائے اوراللہ نے تمہارے ذریعہ ہمارا ' اور ہماریذریعہ تمہارا امتحان لے لیا ہے اورایک کو دوسرے پرحجت قرا دے دیا ہے لیکن تم نے تاویل قرآن کاسہارا لے کردنیا پردھاوا بول دیا اور مجھ سے ایسے جرم کا محاسبہ کردیا جس کا نہ میرے ہاتھ سے کوئی تعلق تھا اورنہ زبان سے۔صرف اہل شام نے میرے سرڈال دیا تھا اور تمہارے جاننے والوں نے جاہلوں کو اور قیام کرنے والوں نے خانہ نشینوںکو اکسا دیا تھا لہٰذا اب بھی غنیمت ہے کہ اپنے نفس کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور شیطان سے اپنی زمام چھڑالو اورآخرت کی طرف رخ کرلو کہ وہی ہماری اورتمہاریآخری منزل ہے۔اس وقت سے ڈرو کہ اس دنیا میں پروردگار کوئی ایسی مصیبت نازل کردے کہ اصل بھی ختم ہو جائے اورنسل کابھی خاتمہ ہو جائے۔میں پروردگار کی ایسی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے غلط ہونے کا امکان نہیں ہے کہ اگرمقدر نے مجھے اور تمہیں ایک میدان میں جمع کردیا تو میں اس وقت تک میدان نہ

۵۹۳

( حَتَّى يَحْكُمَ الله بَيْنَنا وهُوَ خَيْرُ الْحاكِمِينَ ) .

(۵۶)

ومن وصية لهعليه‌السلام

وصى بها شريح بن هانئ - لما جعله على مقدمته إلى الشام

اتَّقِ اللَّه فِي كُلِّ صَبَاحٍ ومَسَاءٍ - وخَفْ عَلَى نَفْسِكَ الدُّنْيَا الْغَرُورَ - ولَا تَأْمَنْهَا عَلَى حَالٍ - واعْلَمْ أَنَّكَ إِنْ لَمْ تَرْدَعْ نَفْسَكَ عَنْ كَثِيرٍ مِمَّا تُحِبُّ - مَخَافَةَ مَكْرُوه - سَمَتْ بِكَ الأَهْوَاءُ إِلَى كَثِيرٍ مِنَ الضَّرَرِ - فَكُنْ لِنَفْسِكَ مَانِعاً رَادِعاً - ولِنَزْوَتِكَ عِنْدَ الْحَفِيظَةِ وَاقِماً قَامِعاً

(۵۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل الكوفة - عند مسيره من المدينة إلى البصرة

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي خَرَجْتُ مِنْ حَيِّي هَذَا - إِمَّا ظَالِماً وإِمَّا مَظْلُوماً وإِمَّا بَاغِياً وإِمَّا مَبْغِيّاً عَلَيْه - وإِنِّي أُذَكِّرُ اللَّه مَنْ بَلَغَه كِتَابِي هَذَا لَمَّا نَفَرَ إِلَيَّ - فَإِنْ كُنْتُ مُحْسِناً أَعَانَنِي -.

چھوڑوں گا جب تک میرے اور تمہارے دمیان فیصلہ نہ ہوجائے ۔

(۵۶)

آپ کی وصیت

(جو شریح ۱بن ہانی کو اس وقت فرمائی جب انہیں شام جانے والے ہر اول دستہ کا سردار مقرر فرمایا)

صبح و شاماللہ سے ڈرتے رہو اوراپنے نفس کو اس دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اور اس پر کسی حال میں اعتبارنہ کرنااور یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کوب ہت سی پسندیدہ چیزوں سے نہ روکا۔تو خواہشات تم کوب ہت سے نقصان وہ امور تک پہنچادیں گی لہٰذا ہمیشہ اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے رہو اورغصہ میں اپنے غیظ و غضب کو دباتے اورکچلتے رہو۔

(۵۷)

آپ کا مکتوب گرامی

(اہل کوفہ کےنام۔مدینہ سے بصرہ روانہ ہوتے وقت)

امابعد! میں اپنے قبیلہ سے نکل رہا ہوں یا ظلم کی حیثیت سے یا مظلوم کی حیثیت سے۔یامیں نے بغاوت کی ہے یا میرے خلاف بغاوت ہوئی ہے۔میں تمہیں خدا کاواسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جہاں تک میرا یہ خط پہنچ جائے تم سب نکل کرآجائو۔اس کے بعد مجھے نیکی پرپائو تومیری امداد کرو

(۱)یہ امیرالمومنین کے جلیل الدقر صحابی تھے ۔ابو مقداد کنیت تھی اور آپ کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے۔یہاں تک کہ حجاج کے زمانہ میں سجستان میں شہید ہوئے۔حضرت نے انہیں شام جانے والے ہر اول دستہ کا امیر مقرر کیا تو مذکورہ ہدایات سے سرفراز فرمایا تاکہ کوئی شخص اسلامی پابندی سے آزادی کا تصورنہ کرسکے ۔

۵۹۴

وإِنْ كُنْتُ مُسِيئاً اسْتَعْتَبَنِي

(۵۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

كتبه إلى أهل الأمصار - يقص فيه ما جرى بينه وبين أهل صفين

وكَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا والْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ - والظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ ونَبِيَّنَا وَاحِدٌ - ودَعْوَتَنَا فِي الإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ - ولَا نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الإِيمَانِ بِاللَّه والتَّصْدِيقِ بِرَسُولِه - ولَا يَسْتَزِيدُونَنَا - الأَمْرُ وَاحِدٌ إِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِيه مِنْ دَمِ عُثْمَانَ - ونَحْنُ مِنْه بَرَاءٌ - فَقُلْنَا تَعَالَوْا نُدَاوِ مَا لَا يُدْرَكُ الْيَوْمَ - بِإِطْفَاءِ النَّائِرَةِ وتَسْكِينِ الْعَامَّةِ - حَتَّى يَشْتَدَّ الأَمْرُ ويَسْتَجْمِعَ - فَنَقْوَى عَلَى وَضْعِ الْحَقِّ مَوَاضِعَه - فَقَالُوا بَلْ نُدَاوِيه بِالْمُكَابَرَةِ - فَأَبَوْا حَتَّى جَنَحَتِ الْحَرْبُ ورَكَدَتْ - ووَقَدَتْ نِيرَانُهَا وحَمِشَتْ -

اورغلطی پر دیکھو تو مجھے رضا کے راستہ پر لگا دو(۶۳) ۔

(۵۸)

آپ کامکتوب گرامی

(تمام شہروں کے نام۔جس میں صفین کی حقیقت کااظہار کیا گیا ہے )

ہمارے معاملہ کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوئے جب بظاہر(۱) دونو ں کاخدا ایک تھا۔رسول ایک تھا۔پیغام ایک تھا۔نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافہ کے طلب گار تھے ۔نہ وہ اپنے ایمان کوبڑھانا چاہتے تھے۔معاملہ بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمان کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے اورہم نے یہ حل پیش کیا کہ جو مقصد آج نہیں حاصل ہوسکتا ہے ' اس کاوقتی علاج یہ کیا جائے ہ آتش جنگ کو خاموش کردیاجائے اور لوگوں کے جذبات کوپرسکون بنادیا جائے۔اس کے بعد جب حکومت کو استحکام ہوجائے گا اورحالات ساز گار ہوجائیںگے تو ہم حق کو اس کی منزل تک لانے کی طاقت پیدا کرلیں گے۔لیکن قوم کا اصرار(۲) تھا۔کہ اس کا علاج صرف جنگ و جدال ہے۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ جنگ نے اپنے پائوںپھیلادئیے اورجم کر کھڑی ہوگئی۔شعلے بھڑک اٹھے اورٹھہرگئے اور قوم نے دیکھاکہ

(۱)یہ اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ حضرت نے معاویہ اور اس کے ساتھیوں کے اسلام و ایمان کا اقرارنہیں کیا ہے بلکہ صورت حال کا تذکرہ کیا ہے۔

(۲)حقیقت امری ہ ہے کہ معاویہ کوخون عثمان سے کوئی دلچسپی نہیںتھی۔وہ شام کی حکومت اور عالم اسلام کی خلافت کا طماع تھا لہٰذا کوئی سنجیدہ گفتگو قبول نہیں کر سکتا تھا۔حضرت نے بھی اتمام حجت کا حقادا کردیا اور اس کے بعد میدان جہاد میں قدم جمادئیے تاکہ دنیا پرواضح ہو جائے کہ جہاد راہ خدا فرزند ابو طالب کا کام ہے۔ابو سفیان کے بیٹے کانہیں ہے۔

۵۹۵

فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وإِيَّاهُمْ - ووَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِينَا وفِيهِمْ - أَجَابُوا عِنْدَ ذَلِكَ إِلَى الَّذِي دَعَوْنَاهُمْ إِلَيْه - فَأَجَبْنَاهُمْ إِلَى مَا دَعَوْا وسَارَعْنَاهُمْ إِلَى مَا طَلَبُوا - حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ - وانْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ - فَمَنْ تَمَّ عَلَى ذَلِكَ مِنْهُمْ - فَهُوَ الَّذِي أَنْقَذَه اللَّه مِنَ الْهَلَكَةِ - ومَنْ لَجَّ وتَمَادَى فَهُوَ الرَّاكِسُ - الَّذِي رَانَ اللَّه عَلَى قَلْبِه - وصَارَتْ دَائِرَةُ السَّوْءِ عَلَى رَأْسِه

جنگ نے دونوں کودانت کاٹنا شروع کردیا اور فریقین میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں تو وہ میری بات ماننے پرآمادہ ہوگئے اورمیں نے بھی ان کیبات کو مان لیا اورتیزی سے بڑھ کران کے مطالبہ صلح کو قبول کرلیا یہاں تک کہ ان پرحجت واضح ہوگئی اور ہر طرح کا عذر ختم ہوگیا۔اب اس کے بعد کوئی اس حق پر قائم رہ گیا توگویا اپنے نفس کو ہلاکت سے نکال لیا ورنہ اس گمراہی میں پڑا رہ گیا تو ایسا عہد شکن ہوگا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگادی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔

۵۹۶

(۵۹)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى الأسود بن قطبة صاحب جند حلوان

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْوَالِيَ إِذَا اخْتَلَفَ هَوَاه - مَنَعَه ذَلِكَ كَثِيراً مِنَ الْعَدْلِ - فَلْيَكُنْ أَمْرُ النَّاسِ عِنْدَكَ فِي الْحَقِّ سَوَاءً - فَإِنَّه لَيْسَ فِي الْجَوْرِ عِوَضٌ مِنَ الْعَدْلِ - فَاجْتَنِبْ مَا تُنْكِرُ أَمْثَالَه - وابْتَذِلْ نَفْسَكَ فِيمَا افْتَرَضَ اللَّه عَلَيْكَ - رَاجِياً ثَوَابَه ومُتَخَوِّفاً عِقَابَه.

واعْلَمْ أَنَّ الدُّنْيَا دَارُ بَلِيَّةٍ - لَمْ يَفْرُغْ صَاحِبُهَا فِيهَا قَطُّ سَاعَةً - إِلَّا كَانَتْ فَرْغَتُه عَلَيْه حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ - وأَنَّه لَنْ يُغْنِيَكَ عَنِ الْحَقِّ شَيْءٌ أَبَداً - ومِنَ الْحَقِّ عَلَيْكَ حِفْظُ نَفْسِكَ - والِاحْتِسَابُ عَلَى الرَّعِيَّةِ بِجُهْدِكَ - فَإِنَّ الَّذِي يَصِلُ إِلَيْكَ مِنْ ذَلِكَ - أَفْضَلُ مِنَ الَّذِي يَصِلُ بِكَ والسَّلَامُ.

(۶۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى العمال الذين يطأ الجيش عملهم

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ

(۵۹)

آپ کامکتوب گرامی

(اسود بن قطبہ والی حلوان کے نام)

اما بعد! دیکھواگر والی کے خواہشات مختلف قسم کے ہوں گے تویہ بات اسے اکثر اوقات انصاف سے روک دے گی لیکن تمہاری نگاہ میں تمام افراد کے معاملات کو ایک جیسا ہونا چاہیے کہ ظلم کبھی عدل کابدل نہیں ہوسکتا ہے۔ جس چیز کودوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو اس سے خودبھی اجتناب کرو اور اپنے نفس کو ان کاموں میں لگادو جنہیں خدانے تم پرواجب کیا ہے اوراس کے ثواب کیامید رکھواورعذاب سے ڈرتے رہو۔ اوریاد رکھو کہ دنیا دار آزمائش ہے یہاں انسان کی ایک گھڑی بھی خالی نہیں جاتی ہے مگر یہ کہ یہ بیکاری روز قیامت حسرت کا سبب بن جاتی ہے اورتم کو کوئی شے حق سے بے نیاز نہیں بنا سکتی ہے اور تمہارے اوپر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اپنے نفس کومحفوظ رکھو اوراپنے ا مکان بھر رعایاکا احتساب کرتے رہوکہ اس طرح جوفائدہ تمہیں پہنچے گا وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا جوفائدہ لوگوں کوتم سے پہنچے گا۔والسلام۔

(۶۰)

آپ کا مکتوب گرامی

(ان اعمال کے نام جن کا علقہ فوج کے راستہ میں پڑتا تھا)

بندۂ خدا امیر المومنین علی کی طرف سے ان

۵۹۷

إِلَى مَنْ مَرَّ بِه الْجَيْشُ - مِنْ جُبَاةِ الْخَرَاجِ وعُمَّالِ الْبِلَادِ.

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي قَدْ سَيَّرْتُ جُنُوداً - هِيَ مَارَّةٌ بِكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّه - وقَدْ أَوْصَيْتُهُمْ بِمَا يَجِبُ لِلَّه عَلَيْهِمْ - مِنْ كَفِّ الأَذَى وصَرْفِ الشَّذَا - وأَنَا أَبْرَأُ إِلَيْكُمْ وإِلَى ذِمَّتِكُمْ مِنْ مَعَرَّةِ الْجَيْشِ - إِلَّا مِنْ جَوْعَةِ الْمُضْطَرِّ لَا يَجِدُ عَنْهَا مَذْهَباً إِلَى شِبَعِه - فَنَكِّلُوا مَنْ تَنَاوَلَ مِنْهُمْ شَيْئاً ظُلْماً عَنْ ظُلْمِهِمْ - وكُفُّوا أَيْدِيَ سُفَهَائِكُمْ عَنْ مُضَارَّتِهِمْ - والتَّعَرُّضِ لَهُمْ فِيمَا اسْتَثْنَيْنَاه مِنْهُمْ - وأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِ الْجَيْشِ - فَارْفَعُوا إِلَيَّ مَظَالِمَكُمْ - ومَا عَرَاكُمْ مِمَّا يَغْلِبُكُمْ مِنْ أَمْرِهِمْ - ومَا لَا تُطِيقُونَ دَفْعَه إِلَّا بِاللَّه وبِي فَأَنَا أُغَيِّرُه بِمَعُونَةِ اللَّه إِنْ شَاءَ اللَّه.

خراج جمع کرنے والوں اور علاقوں کے والیوں کے نام جن کے علاوہ سے لشکروں کا گزر ہوتا ہے۔

امابعد میں نے کچھ فوجیں روانہ کی ہیںجو عنقریب تمہارے علاقہ سے گزرنے والی ہیں اورمیں نے انہیں ان تمام باتوں کی نصیحت کردی ہے جوان پرواجب ہیں کہ کی کواذیت نہ دیں اور تکلیف کودور رکھیں اورمیںتمہیں اورتمہارے اہل ذمہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ فوج والے کوئی دست درازی کریں گے تو میں ان سے بیزار رہوں گا مگر یہ کوی شخص(۱) بھوک سے مضطر ہو اور اس کے پاس پیٹ بھرنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔اس کے علاوہ کوئی ظالمانہ انداز سے ہاتھ لگائے تواس کو سزا دینا تمہارا فرض ہے۔لیکن اپنے سرپھروں کو سمجھا دینا کہ جن حالات کو میں نے مشتنیٰ قراردیا ہے ان میں کوئی شخص کسی چیز کو ہاتھ لگانا چاہے تو اس سے مقابلہ نہ کریں اورٹوکیں نہیں۔پھراس کے بعد میں لشکرکے اندر موجود ہوں اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں اور سختیوں کی فریاد مجھ سے کرو اگرتم دفع کرنے کے قابل نہیں ہو جب تک اللہ کی مدد اورمیری امداد شامل نہ ہو۔میں انشاء اللہ اللہ کی مدد سے حالات کوبدل دوںگا۔

(۱)اس خط میں حضرت نے دو طرح کے مسائل کاتذکرہ فرمایا ہے۔ایک کا تعلق لشکر سے ہے اوردوسرے کا اس علاقہ سے جہاں سے لشکر گزرنے والا ہے لشکروالوں کو توجہ دلائی ہے کہ خبردار رعایا پر کسی طرح کا ظلم نہ ہونے پائے کہ تمہارا کام ظلم و جور کا مقابلہ کرنا ہے۔ظلم کرنا نہیں ہے اورراستہ کے عوام کو متوجہ کیاہے کہ اگر لشکر میںکوئی شخص بربنائے اضطرار کسی چیز کو استعمال کرلے تو خبرداراسے منع نہ کرنا کہ یہ اس کا شرعی حق ہے اور اسلام میں کسی شخص کو اس کے حق سے محروم نہیںکیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد لشکرکی ذمہداری ہے کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو میری طرف رجوع کرے اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے مسائل کی فریاد میرے پاس پیش کریں اورس ارے معاملات کو خود طے کرنے کی کوشش نہ کریں ۔

۵۹۸

(۶۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى كميل بن زياد النخعي وهو عامله على هيت، ينكر عليه تركه دفع من يجتاز به من جيش العدو طالبا الغارة.

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ تَضْيِيعَ الْمَرْءِ مَا وُلِّيَ وتَكَلُّفَه مَا كُفِيَ - لَعَجْزٌ حَاضِرٌ ورَأْيٌ مُتَبَّرٌ - وإِنَّ تَعَاطِيَكَ الْغَارَةَ عَلَى أَهْلِ قِرْقِيسِيَا - وتَعْطِيلَكَ مَسَالِحَكَ الَّتِي وَلَّيْنَاكَ - لَيْسَ بِهَا مَنْ يَمْنَعُهَا ولَا يَرُدُّ الْجَيْشَ عَنْهَا - لَرَأْيٌ شَعَاعٌ - فَقَدْ صِرْتَ جِسْراً لِمَنْ أَرَادَ الْغَارَةَ - مِنْ أَعْدَائِكَ عَلَى أَوْلِيَائِكَ - غَيْرَ شَدِيدِ الْمَنْكِبِ ولَا مَهِيبِ الْجَانِبِ،ولَا سَادٍّ ثُغْرَةً ولَا كَاسِرٍ لِعَدُوٍّ شَوْكَةً -

(۶۱)

آپ کامکتوب گرامی

(کمیل بن زیاد۱النخعی کے نام جو بیت المال کے عامل تھے اورانہوں نے فوج دشمن کو لوٹ مارسے منع نہیں کیا )

امابعد! انسان کا اس کام کو نظرانداز کردینا جس کاذمہ داربنایا گیا ہے اور اس کام میں لگ جانا جواس کے فرائض میں شامل نہیں ہے ایک واضح کمزوری اور تباہ کن فکر ہے۔

اوردیکھو تمہارا اہل قبر قیسا پرحملہ کردینا اورخود اپنی سرحدوں کومعطل چھوڑدینا جن کا تم کوذمہ دار بنایا گا تھا۔اس عالم میں کہ انکا کوئی دفاع کرنے والا اور ان سے لشکروں کو ہٹانے والا نہیںتھا ایک انتہائی پراگندہ رائے ہے اور اس طرح تم دوستوں پرحملہ کرنے والے دشمنوں کے لئے ایک وسیلہ بن گئے جہاں نہ تمہارے کاندھے مضبوط تھے اور نہ تمہاری کوئی ہیبت تھی۔نہ تم نے دشمن

(۱)جناب کمیل مولائے کائنات کے مخصوص اصحاب میں تھے اوربڑے پایہ کے عالم و فاضل تھے لیکن بہر حال بشر تھے اور انہوںنے معاویہ کے مظالم کے جواب میں یہی مناسب سمجھا کہ جس طرح وہ ہمارے علاقہ میں فساد پھیلا رہا ہے ' ہم بھی اس کے علاقہ پر حملہ کردیں تاکہفوجوں کا رخ ادھرمڑ جائے مگری ہبات امامت کے مزاج کے خلاف تھی لہٰذا حضرت نے فوراً تنبیہ کردی اورمکیل نے بھی اپنے اقدام کے نا مناسب ہونے کا احساس کرلیا اور یہی انسان کا کمال کردار ہے کہ غلطی پراصرار نہ کرے ورنہ غلطی نہ کرنا شان عصمت ہے۔شان اسلام و ایمان نہیں ہے۔

جناب کمیل کی غیرت داری کایہ عالم تھا کہ جب حجاج نے انہیں تلاش کرنا شروع کیا اور گرفتارنہ کر سکا تو ان کی قوم پر دانہ پانی بند کردیا۔کمیل کو اس امر کی اطلاع ملی تو فوراً حجاج کے دربار میں پہنچ گئے اور فرمایا کہ میں اپنی ذات کی حفاظت کی خاطر ساری قوم کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا ہوں اورود محبت اہل بیت سے دستبردار بھی نہیں ہو سکتا ہوں لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اپنی سزا خود برداشت کروں جس کے نتیجہ میں حجاج نے ان کی زندگی کاخاتمہ کرادیا۔

۵۹۹

ولَا مُغْنٍ عَنْ أَهْلِ مِصْرِه ولَا مُجْزٍ عَنْ أَمِيرِه.

(۶۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أهل مصر مع مالك الأشتر - لما ولاه إمارتها

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - نَذِيراً لِلْعَالَمِينَ ومُهَيْمِناً عَلَى الْمُرْسَلِينَ - فَلَمَّا مَضَىعليه‌السلام تَنَازَعَ الْمُسْلِمُونَ الأَمْرَ مِنْ بَعْدِه - فَوَاللَّه مَا كَانَ يُلْقَى فِي رُوعِي - ولَا يَخْطُرُ بِبَالِي أَنَّ الْعَرَبَ تُزْعِجُ هَذَا الأَمْرَ - مِنْ بَعْدِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عَنْ أَهْلِ بَيْتِه - ولَا أَنَّهُمْ مُنَحُّوه عَنِّي مِنْ بَعْدِه - فَمَا رَاعَنِي إِلَّا انْثِيَالُ النَّاسِ عَلَى فُلَانٍ يُبَايِعُونَه - فَأَمْسَكْتُ يَدِي حَتَّى رَأَيْتُ رَاجِعَةَ النَّاسِ - قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الإِسْلَامِ - يَدْعُونَ إِلَى مَحْقِ دَيْنِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - فَخَشِيتُ إِنْ لَمْ أَنْصُرِ الإِسْلَامَ وأَهْلَه - أَنْ أَرَى فِيه ثَلْماً أَوْ هَدْماً - تَكُونُ الْمُصِيبَةُ بِه عَلَيَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَايَتِكُمُ - الَّتِي إِنَّمَا هِيَ مَتَاعُ أَيَّامٍ قَلَائِلَ - يَزُولُ مِنْهَا مَا كَانَ كَمَا يَزُولُ السَّرَابُ -

کا راستہ روکا اورنہ اس کی شوکت کو تواڑ۔نہ اہل شہر کے کام آئے اور نہ اپنے امیر کے فرض کو انجام دیا۔

(۶۲)

آپ کامکتوب گرامی

(اہل مصرکے نام۔مالک اشترکے ذریعہ جب ان کو والی مصر بناکر روانہ کیا)

اما بعد!پروردگار نے حضرت محمد (ص) کو عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اورمرسلین کے لئے گواہ اورنگراں بناکربھیجا تھا لیکن ان کے جانے کے بعد ہی مسلمانوں نے ان کے خلاف میں جھگڑا شروع کردیا۔خدا گواہ ہے کہ یہ بات میرے خیال میںبھی نہ تھی اور نہ میرے دل سے گزری تھی کہ عرب اس منصب کو ان کے اہل بیت سے اس طرح موڑ دیں گے اور مجھ سے اس طرح دور کردیں گے کہمیں نے اچانک یہ دیکھا کہ لوگ فلاں شخص کی بیعت کے لئے ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو میں نے اپنے ہاتھ کو روک لیا یہاں تک کہ یہ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس جا رہے ہیں اور پیغمبر کے قانون کو برباد کردینا چاہتے ہیں تومجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اوربربادی کو دیکھنے کے بعد بھی میں نے اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو اس کی مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جوآج اس حکومت کے چلے جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے اورایک دن اسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح سراب کی چمک

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863