نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630086
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630086 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

أَوْ كَمَا يَتَقَشَّعُ السَّحَابُ - فَنَهَضْتُ فِي تِلْكَ الأَحْدَاثِ حَتَّى زَاحَ الْبَاطِلُ وزَهَقَ - واطْمَأَنَّ الدِّينُ وتَنَهْنَه ومِنْه: إِنِّي واللَّه لَوْ لَقِيتُهُمْ وَاحِداً وهُمْ طِلَاعُ الأَرْضِ كُلِّهَا - مَا بَالَيْتُ ولَا اسْتَوْحَشْتُ - وإِنِّي مِنْ ضَلَالِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيه - والْهُدَى الَّذِي أَنَا عَلَيْه - لَعَلَى بَصِيرَةٍ مِنْ نَفْسِي ويَقِينٍ مِنْ رَبِّي - وإِنِّي إِلَى لِقَاءِ اللَّه لَمُشْتَاقٌ - وحُسْنِ ثَوَابِه لَمُنْتَظِرٌ رَاجٍ - ولَكِنَّنِي آسَى أَنْ يَلِيَ أَمْرَ هَذِه الأُمَّةِ سُفَهَاؤُهَا وفُجَّارُهَا - فَيَتَّخِذُوا مَالَ اللَّه دُوَلًا وعِبَادَه خَوَلًا - والصَّالِحِينَ حَرْباً والْفَاسِقِينَ حِزْباً - فَإِنَّ مِنْهُمُ الَّذِي قَدْ شَرِبَ فِيكُمُ الْحَرَامَ - وجُلِدَ حَدّاً فِي الإِسْلَامِ - وإِنَّ مِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُسْلِمْ حَتَّى رُضِخَتْ لَه عَلَى الإِسْلَامِ الرَّضَائِخُ - فَلَوْ لَا ذَلِكَ مَا أَكْثَرْتُ تَأْلِيبَكُمْ وتَأْنِيبَكُمْ - وجَمْعَكُمْ وتَحْرِيضَكُمْ -

دمک ختم ہوجاتی ہے با آسمان کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو میں نے ان حالات میں قیام کیا یہاں تک کہ باطل زائل ہوگیا۔اوردین مطمئن(۱) ہو کراپنی جگہ پر ثابت ہوگیا۔

خداکی قسم اگرمیں تن تنہا ان کے مقابلہ پر نکل پڑوں اور ان سے زمین چھلک رہی ہو تو بھی مجھے فکر اوروحشت نہ ہوگی کہ میں ان کی گمراہی کے بارے میں بھی اور اپنے ہدایت یافتہ ہونے کے بارے میں بھی بصیرت رکھتا ہوں اورپروردگار کی طرف سے منزل یقین پر بھی ہوں اور میں لقائے الٰہی کا اشتیاق بھی رکھتا ہوں اور اس کے بہترین اجرو ثواب کا منتظر اورامید وار بھی ہوں۔لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ امت کی زمام احمقوں اورفاجروں کے ہاتھ میں چلی جائے اور وہ مال خدا کو اپنی املاک اورب ندگان خدا کو اپنا غلام بنالیں نیک کرداروں سے جنگ کریں اورفاسقوں کواپنی جماعت میں شامل کرلیں ۔جن میں وہ بھی شامل ہیں جنہوںنے تمہارے سامنے شراب پی ہے اور ان پر اسلام میں حد جاری ہو چکی ہے اوربعض وہ بھی ہیں کہ جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے جب تک انہیں فوائد نہیں پیش کردئیے گئے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تمہیں اس طرح جہاد کی دعوت نہ دیتا اورسرزنش نہ کرتا اور قیام پرآمادہ نہ کرتا بلکہ

(۱)صورت حال یہ تھی کہ امت نے پیغمبر (ص) کے بتائے ہوئے راستہ کونظرانداز کردیا اور ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی لیکن امیر المومنین کی مشکل یہ تھی کہاگر مسلمانوں میں جنگ وجدال کاسلسلہ شروع کردیتے ہیں تو مسیلمہ کذاب اور طلحہ جیسے مدعیان نبوت کو موقع مل جائے گا اوروہ لوگوں کو گمراہ کرکے اسلام سے منحرف کردیں گے اس لئے آپ نے سکوت اختیار فرمایا اور خلافت کے بارے میں کوئی بحث نہیں کی لیکن جب مرتدوں کے ہاتھوں اسلام کی تباہی کامنظر دیکھ لیا تومجبوراً باہرنکل آئے کہ بالآخر اپنے حق کی بربادی پر سکوت اختیار کیا جاسکتا ہے۔اسلام کی بربادی پر صبر نہیں کیا جاسکتاہے ۔

۶۰۱

ولَتَرَكْتُكُمْ إِذْ أَبَيْتُمْ ووَنَيْتُمْ

أَلَا تَرَوْنَ إِلَى أَطْرَافِكُمْ قَدِ انْتَقَصَتْ - وإِلَى أَمْصَارِكُمْ قَدِ افْتُتِحَتْ - وإِلَى مَمَالِكِكُمْ تُزْوَى وإِلَى بِلَادِكُمْ تُغْزَى - انْفِرُوا رَحِمَكُمُ اللَّه إِلَى قِتَالِ عَدُوِّكُمْ - ولَا تَثَّاقَلُوا إِلَى الأَرْضِ فَتُقِرُّوا بِالْخَسْفِ - وتَبُوءُوا بِالذُّلِّ ويَكُونَ نَصِيبُكُمُ الأَخَسَّ - وإِنَّ أَخَا الْحَرْبِ الأَرِقُ ومَنْ نَامَ لَمْ يُنَمْ عَنْه والسَّلَامُ.

(۶۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أبي موسى الأشعري وهو عامله على الكوفة، وقد بلغه عنه تثبيطه الناس عن الخروج إليه لما ندبهم لحرب أصحاب الجمل.

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى عَبْدِ اللَّه بْنِ قَيْسٍ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي عَنْكَ قَوْلٌ هُوَ لَكَ وعَلَيْكَ - فَإِذَا قَدِمَ رَسُولِي عَلَيْكَ فَارْفَعْ ذَيْلَكَ - واشْدُدْ مِئْزَرَكَ واخْرُجْ مِنْ جُحْرِكَ وانْدُبْ مَنْ مَعَكَ - فَإِنْ حَقَّقْتَ فَانْفُذْ وإِنْ تَفَشَّلْتَ فَابْعُدْ - وايْمُ اللَّه لَتُؤْتَيَنَّ مِنْ حَيْثُ أَنْتَ

تمہیں تمہارے حال پرچھوڑ دیتا کہ تم سرتابی بھی کرتے ہواورسست بھی ہو۔ کیا تم خود نہیں دیکھتے ہو کہ تمہارے اطراف کم ہوتے جا رہے ہیں۔اور تمہارے شہروں پر قبضہ ہوا جا رہا ہے۔تمہارے ممالک کو چھینا جا رہا ہے اور تمہارے علاقوں پر دھاوابولا جا رہا ہے۔خدا تم پررحم کرے اب دشمن سے جنگ کے لئے نکل پڑو اورزمین سے چپک کر نہ رہ جائو ورنہ یوںہی ذلت کاشکار ہوگے ظلم سہتے رہوگے اور تمہارا حصہ انتہائی پست ہوگا۔اوریاد رکھو کہ جنگ آزما انسان ہمیشہ بیدار رہتا ہے اور اگر کوئی شخص سو جاتا ہے تواس کا دشمن ہرگز غافل نہیں ہوتا ہے ۔والسلام!

(۶۳)

آپ کا مکتوب گرامی

(کوفہ کے عامل ابو موسیٰ اشعری کے نام۔جب یہ خبر ملی کہ آپ لوگوں کوجنگ جمل کی دعوت دے رہے ہیں اور وہ روک رہا ہے )

بندہ خدا !امیر المومنین علی کاخط عبداللہ بن قیس کے نام

امابعد! مجھے ایک ایسے کلام کی خبرملی ہے جو تمہارے حق میں بھی ہو سکتا ہے اور تمہارے خلاف بھی۔ لہٰذا اب مناسب یہی ہے کہ میرے قاصد کے پہنچتے ہی دامن سمیٹ لو اور کمر کس لو اور فوراً بل سے باہرنکل آئو۔ ار اپنے ساتھیوں کو بھی بلالو۔اس کے بعد حق ثابت ہو جائے تو کھڑے ہو جائو اورکمزوری دکھلانا ہے تو میری نظروں سے دور ہوجائو خداکی قسم تم جہاں رہو گے گھیر کرلائے جائو گے

۶۰۲

ولَا تُتْرَكُ حَتَّى يُخْلَطَ زُبْدُكَ بِخَاثِرِكَ - وذَائِبُكَ بِجَامِدِكَ - وحَتَّى تُعْجَلُ عَنْ قِعْدَتِكَ - وتَحْذَرَ مِنْ أَمَامِكَ كَحَذَرِكَ مِنْ خَلْفِكَ - ومَا هِيَ بِالْهُوَيْنَى الَّتِي تَرْجُو - ولَكِنَّهَا الدَّاهِيَةُ الْكُبْرَى - يُرْكَبُ جَمَلُهَا ويُذَلَّلُّ صَعْبُهَا ويُسَهَّلُ جَبَلُهَا - فَاعْقِلْ عَقْلَكَ وامْلِكْ أَمْرَكَ وخُذْ نَصِيبَكَ وحَظَّكَ - فَإِنْ كَرِهْتَ فَتَنَحَّ إِلَى غَيْرِ رَحْبٍ ولَا فِي نَجَاةٍ - فَبِالْحَرِيِّ لَتُكْفَيَنَّ وأَنْتَ نَائِمٌ حَتَّى لَا يُقَالَ أَيْنَ فُلَانٌ - واللَّه إِنَّه لَحَقٌّ مَعَ مُحِقٍّ ومَا أُبَالِي مَا صَنَعَ الْمُلْحِدُونَ - والسَّلَامُ.

(۶۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية جوابا

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّا كُنَّا نَحْنُ وأَنْتُمْ عَلَى مَا ذَكَرْتَ

اورچھوڑے نہیں جائو گے یہاں تک کہ دودھ مکھن ساتھ اورپگھلا ہوامنجد کے ساتھ مخلوط ہو جائے اور تمہیں اطمینان سے بیٹھنا نصیب نہ ہوگا اور سامنے سے اس طرح ڈرو گے جس طرح اپنے پیچھے سے ڈرتے ہو۔اور یہ کام اس قدر آسان نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہے ہو۔یہ ایک مصیبت کبریٰ ہے جس کے اونٹ پر بہرحال سوار ہونا پڑے گا اور اس کی دشواریوں کو ہموار کرنا پڑے گا اور اس کے پہاڑ کو سرکرنا۔پڑے گا لہٰذا ہوش کے ناخن لو اورحالات پر قابو رکھو اور اپنا حصہ حاصل کرلو اور اگر یہ بات پسند نہیں ہے توادھر چلے جائو جدھر نہ کوئی آئو بھگت ہے اورنہ چھٹکارے کی صورت۔اوراب مناسب یہی ہے کہ تمہیں بیکار سمجھ کرچھوڑ دیا جائے کہ سوتے رہو اور کوئی یہ بھی نہ دریافت کرے کہ فلاں شخص کدھر چلا گیا خدا کی قسم یہ حق پرست کاواقعی اقدام ہے اور مجھ بے دینوں کے اعمال کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔والسلام!

(۶۴)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے جواب میں )

امابعد! یقینا ہم(۱) اور تم اسلام سے پہلے ایک ساتھ

(۱)معاویہ نے حسب عادت اپنے اس خط میں چند مسائل اٹھائے تھے ۔ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہم دونوں ایک خاندان کے ہیں تو اختلاف کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ اختلاف اسی دن شروع ہوگیا تھا جب ہم دائرہ اسلام میں تھے اورتم کفرکی زندگی گزار رہے تھے ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ جنگ جمل کی ساری ذمہ داری امیر المومنین پر ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا مسئلہکا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذااس کے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا مسئلہ اپنے لشکر کے مہاجرین و انصار میں ہونے کا تھا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ہجرت فتح مکہ کے بعد ختم ہوگئی اور فتح مکہ میںتیرا بھائی گرفتار ہوچکا ہے ۔جس کے بعد تیرے ساتھی اولاد طلقاء تو ہو سکتے ہیں۔مہاجرین کہے جانے کے قابل نہیں ہیں۔

۶۰۳

مِنَ الأُلْفَةِ والْجَمَاعَةِ - فَفَرَّقَ بَيْنَنَا وبَيْنَكُمْ أَمْسِ أَنَّا آمَنَّا وكَفَرْتُمْ - والْيَوْمَ أَنَّا اسْتَقَمْنَا وفُتِنْتُمْ - ومَا أَسْلَمَ مُسْلِمُكُمْ إِلَّا كَرْهاً - وبَعْدَ أَنْ كَانَ أَنْفُ الإِسْلَامِ كُلُّه لِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حِزْباً.

وذَكَرْتَ أَنِّي قَتَلْتُ طَلْحَةَ والزُّبَيْرَ - وشَرَّدْتُ بِعَائِشَةَ ونَزَلْتُ بَيْنَ الْمِصْرَيْنِ - وذَلِكَ أَمْرٌ غِبْتَ عَنْه فَلَا عَلَيْكَ ولَا الْعُذْرُ فِيه إِلَيْكَ.

وذَكَرْتَ أَنَّكَ زَائِرِي فِي الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - وقَدِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ يَوْمَ أُسِرَ أَخُوكَ - فَإِنْ كَانَ فِيه عَجَلٌ فَاسْتَرْفِه - فَإِنِّي إِنْ أَزُرْكَ فَذَلِكَ جَدِيرٌ - أَنْ يَكُونَ اللَّه إِنَّمَا بَعَثَنِي إِلَيْكَ لِلنِّقْمَةِ مِنْكَ - وإِنْ تَزُرْنِي فَكَمَا قَالَ أَخُو بَنِي أَسَدٍ:

مُسْتَقْبِلِينَ رِيَاحَ الصَّيْفِ تَضْرِبُهُمْ

بِحَاصِبٍ بَيْنَ أَغْوَارٍ وجُلْمُودِ

وعِنْدِي السَّيْفُ الَّذِي أَعْضَضْتُه بِجَدِّكَ - وخَالِكَ وأَخِيكَ فِيمَقَامٍ وَاحِدٍ - وإِنَّكَ واللَّه مَا عَلِمْتُ الأَغْلَفُ الْقَلْبِ

زندگی گزار رہے تھے لیکن کل یہ تفرقہ پیدا ہوگیا کہ ہم نے ایمان کا راستہ اختیار کرلیا اور تم کافر رہ گئے اورآج یہ اختلاف ہے کہ ہم راہ حق پر قائم ہیں اورتم فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہو۔تمہاا مسلمان بھی اس وقت مسلمان ہوا ہے جب مجبوری پیش آگئی اور سارے اشراف عرب اسلام میں داخل ہوکر رسول اکرم (ص) کی جماعت میں شامل ہوگئے ۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں نے طلحہ و زبیر کو قتل کیا ہے اورعائشہ کو گھر سے باہر نکال دیا ہے اور مدینہ چھوڑ کر کوفہ اوربصرہ میں قیام کیا ہے تو اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نہ تم پر کوئی ظلم ہوا ہے اورنہ تم سے معذرت کی کوئی ضرور ت ہے۔

اور تمہارا یہ کہنا کہ تم مہاجرین و انصارکے ساتھ میرے مقابلہ پرآرہے ہو تو ہجرت تو اس دن ختم ہوگئی جب تمہارا بھائی گرفتار ہواتھا اور اگر کوئی جلدی ہے تو ذرا انتظار کرلو کہ میں تم سے خود ملاقات کرلوں اوریہی زیادہ مناسب بھی ہے کہ اس طرح پروردگار مجھے تمہیں سزا دینے کے لئے بھیجے گا اوراگر تم خودبھی آگئے تو اس کا انجام ویسا ہی ہوگا جیسا کہ بنی اسد کے شاعرنے کہا تھا :

''وہ موسم گرما کی ایسی ہوائوں کا سامنا کرنے والے یں جو نشینوں اورچٹانوں میں ان پر سنگریزوں کی بارش کر رہی ہیں ''

اورمیرے پاس وہی تلوار ہے جس سے تمہارے نانا ماموںاوربھائی کو ایک ٹھکانے تک پہنچا چکا ہوں اور تم خدا کی قسم میرے علم کے مطابق وہ شخص جس کے دل پر

۶۰۴

الْمُقَارِبُ الْعَقْلِ - والأَوْلَى أَنْ يُقَالَ لَكَ - إِنَّكَ رَقِيتَ سُلَّماً أَطْلَعَكَ مَطْلَعَ سُوءٍ عَلَيْكَ لَا لَكَ - لأَنَّكَ نَشَدْتَ غَيْرَ ضَالَّتِكَ ورَعَيْتَ غَيْرَ سَائِمَتِكَ - وطَلَبْتَ أَمْراً لَسْتَ مِنْ أَهْلِه ولَا فِي مَعْدِنِه - فَمَا أَبْعَدَ قَوْلَكَ مِنْ فِعْلِكَ - وقَرِيبٌ مَا أَشْبَهْتَ مِنْ أَعْمَامٍ وأَخْوَالٍ - حَمَلَتْهُمُ الشَّقَاوَةُ وتَمَنِّي الْبَاطِلِ عَلَى الْجُحُودِ بِمُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَصُرِعُوا مَصَارِعَهُمْ حَيْثُ عَلِمْتَ - لَمْ يَدْفَعُوا عَظِيماً ولَمْ يَمْنَعُوا حَرِيماً - بِوَقْعِ سُيُوفٍ مَا خَلَا مِنْهَا الْوَغَى - ولَمْ تُمَاشِهَا الْهُوَيْنَى

وقَدْ أَكْثَرْتَ فِي قَتَلَةِ عُثْمَانَ - فَادْخُلْ فِيمَا دَخَلَ فِيه النَّاسُ ثُمَّ حَاكِمِ الْقَوْمَ إِلَيَّ - أَحْمِلْكَ وإِيَّاهُمْ عَلَى كِتَابِ اللَّه تَعَالَى - وأَمَّا تِلْكَ الَّتِي تُرِيدُ - فَإِنَّهَا خُدْعَةُ الصَّبِيِّ عَنِ اللَّبَنِ فِي أَوَّلِ الْفِصَالِ - والسَّلَامُ لأَهْلِه.

غلاف چڑھا ہوا ہے اور جس کی عقل کمزور ہے اور تمہارے حق میں مناسب یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے کہ تم ایسی سیڑھی چڑ گئے ہوجہاں سے بد ترین منظر ہی نظر آتا ہے کہ تم نے دوسرے کے گم شدہ کی جستجو کی ہے اوردوسرے کے جانور کو چرانا چاہا ہے اور ایسے امر کو طلب کیا ہے جس کے نہ اہل ہو اور نہ اس سے تمہارا کوئی بنیادی لگائو ہے۔تمہارے قول وفعل میں کس قدر فاصلہ پایا جاتا ہے اورتم اپنے چچا اور ماموں سے کس قدرمشابہ ہو جن کو بد بختی اور باطل کی تمنائے پیغمبر (ص) کے انکار پرآمادہ کیا اور اس کے نتیجہ میں اپنے اپنے مقتل میں مر مر کرگرے جیسا کہ تمہیں معلوم ہے۔نہ کسی مصیبت کو دفع کر سکے اور نہ کسی حریم کی حفاظت کرسکے۔ان تلواروں کی مار کی بناپ ر جن سے کوئی میدان جنگ خالی نہیں ہوتا اور جن میں سستی کا گزر نہیں ہے۔

اورت منے جو بار بار عثمان کے قاتلوں کاذکر کیا ہے تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ جس طرح سب نے بیعت کی ہے پہلے میری بیعت کرو۔اس کے بعد میرے پاس مقدمہ لے کرآئو۔میں تمہیں اورتمہارے مدعا علیہم کو کتاب خدا کے فیصلہ پرآمادہ کروں گا لیکن اس کے علاوہ جو تمہارا مدعا ہے وہ ایک دھوکہ ہے جوبچہ کو دودھ چھڑاتے وقت دیا جاتا ہے۔اور سلام ہو اس کے اہل پر۔

۶۰۵

(۶۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليه أيضا

أَمَّا بَعْدُ - فَقَدْ آنَ لَكَ أَنْ تَنْتَفِعَ بِاللَّمْحِ الْبَاصِرِ مِنْ عِيَانِ الأُمُورِ - فَقَدْ سَلَكْتَ مَدَارِجَ أَسْلَافِكَ بِادِّعَائِكَ الأَبَاطِيلَ، واقْتِحَامِكَ غُرُورَ الْمَيْنِ والأَكَاذِيبِ وبِانْتِحَالِكَ مَا قَدْ عَلَا عَنْكَ - وابْتِزَازِكَ لِمَا قَدِ اخْتُزِنَ دُونَكَ - فِرَاراً مِنَ الْحَقِّ - وجُحُوداً لِمَا هُوَ أَلْزَمُ لَكَ مِنْ لَحْمِكَ ودَمِكَ - مِمَّا قَدْ وَعَاه سَمْعُكَ - ومُلِئَ بِه صَدْرُكَ - فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ الْمُبِينُ - وبَعْدَ الْبَيَانِ إِلَّا اللَّبْسُ - فَاحْذَرِ الشُّبْهَةَ واشْتِمَالَهَا عَلَى لُبْسَتِهَا - فَإِنَّ الْفِتْنَةَ طَالَمَا أَغْدَفَتْ جَلَابِيبَهَا - وأَغْشَتِ الأَبْصَارَ ظُلْمَتُهَا.

وقَدْ أَتَانِي كِتَابٌ مِنْكَ ذُو أَفَانِينَ مِنَ الْقَوْلِ - ضَعُفَتْ قُوَاهَا عَنِ السِّلْمِ

(۶۵)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ ہی کے نام)

امابعد! اب وقت آگیا ہے کہ تم امور کامشاہدہ کرنے کے بعد ان سے فائدہ اٹھالو کہ تم نے باطل دعویٰ کرنے ۔جھوٹ اور غلط بیانی کے فریب میں کود پڑنے ۔جوچیز تمہاری اوقات سے بلند ہے اسے اختیار کرنے اور جو تمہارے لئے ممنوع ہے اس کو ہتھیار لینے میں اپنے اسلاف کا راستہ اختیارکرلیا ہے اور اس طرح حق سے فرار اورجوچیز گوشت وخون سے زیادہ تم چمٹی(۱) ہوئی ہے اس کا انکار کرنا چاہتے ہو جسے تمہارے کانوں سے سنا ہے اورتمہارے سینے میں بھری ہوئی ہے۔تواب حق کے بعد کھلی ہوئی گمراہی کے علاوہ کیا باقی رہ جاتا ہے۔اور وضاحت کے بعد دھوکہ کے علاوہ کیا ہے۔لہٰذا شبہ اور اس کے دسیسہ کاری پرمشتمل ہونے سے ڈرو کہ فتنہ ایک مدت سے اپنے دامن پھیلائے ہوئے ہے اوراس کی تاریکی نے آنکھوں کواندھا بنا رکھا ہے ۔

میرے پاس تمہارا وہ خط آیا ہے جس میں طرح طرح کے بے جوڑ باتیں پائی جاتی ہیں اور ان سے کسی صلح و

(۱)ابن ابی الحدید کا بیان ہے کہ معاویہ روزغدیر موجود تھا جب سرکار دو عالم (ص) نے حضرت علی کے موائے کائنات ہونے کا اعلان کیا تھااور اسنے اپنے کانوں سے سنا تھا اور اسی طرح روز تبوک بھی موجود تھا جب حضرت نے اعلان کیا تھا کہ علی کامرتبہ وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ ہے اوراسے معلوم تھا کہ حضورنے علی کو صلح کو اپنی صلح اور ان کی جنگ کو اپنی جنگ قراردیا ہے۔مگر اس کے باوجود اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوا کہ اس کا راستہ اس کی پھوپھی ام جمیل اور اس کے ماموں خالد بن ولید جیسے افراد کا تھا جن کے دل و دماغ میں نہ اسلام داخل ہوا تھا اورنہداخل ہونے کا کوئی امکان تھا۔

۶۰۶

وأَسَاطِيرَ لَمْ يَحُكْهَا مِنْكَ عِلْمٌ ولَا حِلْمٌ - أَصْبَحْتَ مِنْهَا كَالْخَائِضِ فِي الدَّهَاسِ - والْخَابِطِ فِي الدِّيمَاسِ - وتَرَقَّيْتَ إِلَى مَرْقَبَةٍ بَعِيدَةِ الْمَرَامِ - نَازِحَةِ الأَعْلَامِ - تَقْصُرُ دُونَهَا الأَنُوقُ - ويُحَاذَى بِهَا الْعَيُّوقُ

وحَاشَ لِلَّه أَنْ تَلِيَ لِلْمُسْلِمِينَ بَعْدِي صَدْراً أَوْ وِرْداً - أَوْ أُجْرِيَ لَكَ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ عَقْداً أَوْ عَهْداً - فَمِنَ الآنَ فَتَدَارَكْ نَفْسَكَ وانْظُرْ لَهَا - فَإِنَّكَ إِنْ فَرَّطْتَ حَتَّى يَنْهَدَ إِلَيْكَ عِبَادُ اللَّه - أُرْتِجَتْ عَلَيْكَ الأُمُورُ - ومُنِعْتَ أَمْراً هُوَ مِنْكَ الْيَوْمَ مَقْبُولٌ والسَّلَامُ.

(۶۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس وقد تقدم ذكره بخلاف هذه الرواية

آشتی کی تقویت نہیں مل سکتی ہے اور اس میں وہ خرافات ہیں جن کے تانے بانے نہ علم سے تیار ہوئے ہیں اورنہ حلم سے۔اس سلسلہ میں تمہاری مثال ا س شخص کی ہے جودلدل میں دھنس گیا ہواوراندھے کنویں میں ہاتھ پائوں مارہا ہو۔اورتم نے اپنے کو اس بلندی(۱) تک پہنچانا چاہا ہے جس کا حصول مشکل ہے اور جس کے نشانات گم ہوگئے ہیں اور جہاں تک عقاب پرواز نہیں کرسکتا ہے اور اس کی بلندی ستارہ عیوق سے ٹکر لے رہی ہے۔

حاشا و کلا یہ کہاں ممکن ہے کہ تم میرے اقتدار کے بعد مسلمانوں کے حل و عقد کے مالک بن جائو یا میں تمہیں کسی ایک شخص پر بھی حکومت کرنے کا پروانہ یا دستاویز دے دوں۔لہٰذا ابھی غنیمت ہے کہ اپنے نفس کا تدارک کرواور اس کے بارے میں غوروفکر کرو کہاگر تم نے اس وقت تک کوتاہی سے کام لیا جب اللہ کے بندے اٹھ کھڑے ہوں تو تمہارے سارے راستے بند ہوجائیں گے اور پھر اس بات کا بھی موقع نہ دیا جائے گا جوآج قابل قبول ہے ۔والسلام!

(۶۷)

آپ کامکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔جس کاتذکرہ پہلے بھی دوسرے الفاظ میں ہو چکا ہے )

(۱)معاویہ نے حضرت سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر اسے ولی عہدی کاعہدہ دے دیا جائے تو وہ بیعت کرنے کے لئے تیار ہے اور پھرخون عثمان کوئی مسئلہ نہ رہ جائے گا۔آپ نے بالکل واضح طر پر اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا ہے اور معاویہ پر روشن کردیا ہے کہ میری حکومت میں تیرے جیسے افراد کی کوئی جگہ نہیں ہے اورت و نے جس مقام کا ارادہ کیا ہے وہ تیریر پروازسے بہت بلند ہے اوروہاں تک جانا تیرے امکان میں نہیں ہے۔بہتر یہ ہے کہ اپنی اوقات کا ادراک کرلے اور راہ راست پرآجائے ۔

۶۰۷

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الْمَرْءَ لَيَفْرَحُ بِالشَّيْءِ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لِيَفُوتَه - ويَحْزَنُ عَلَى الشَّيْءِ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَه - فَلَا يَكُنْ أَفْضَلَ مَا نِلْتَ فِي نَفْسِكَ - مِنْ دُنْيَاكَ بُلُوغُ لَذَّةٍ - أَوْ شِفَاءُ غَيْظٍ - ولَكِنْ إِطْفَاءُ بَاطِلٍ أَوْ إِحْيَاءُ حَقٍّ - ولْيَكُنْ سُرُورُكَ بِمَا قَدَّمْتَ - وأَسَفُكَ عَلَى مَا خَلَّفْتَ - وهَمُّكَ فِيمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

(۶۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى قثم بن العباس - وهو عامله على مكة

أَمَّا بَعْدُ فَأَقِمْ لِلنَّاسِ الْحَجَّ -( وذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ الله ) واجْلِسْ لَهُمُ الْعَصْرَيْنِ - فَأَفْتِ الْمُسْتَفْتِيَ - وعَلِّمِ الْجَاهِلَ وذَاكِرِ الْعَالِمَ - ولَا يَكُنْ لَكَ إِلَى النَّاسِ سَفِيرٌ إِلَّا لِسَانُكَ - ولَا حَاجِبٌ إِلَّا وَجْهُكَ - ولَا تَحْجُبَنَّ ذَا حَاجَةٍ عَنْ لِقَائِكَ بِهَا - فَإِنَّهَا إِنْ ذِيدَتْ عَنْ أَبْوَابِكَ فِي أَوَّلِ وِرْدِهَا - لَمْ تُحْمَدْ فِيمَا بَعْدُ عَلَى قَضَائِهَا.وانْظُرْ إِلَى مَا اجْتَمَعَ عِنْدَكَ مِنْ مَالِ اللَّه - فَاصْرِفْه إِلَى مَنْ قِبَلَكَ مِنْ ذَوِي الْعِيَالِ والْمَجَاعَةِ - مُصِيباً بِه مَوَاضِعَ الْفَاقَةِ

امابعد!انسان کبھی کبھی ایسی چیز کو پاکربھی خوش ہو جاتا ہے جو جانے والی نہیں تھی۔اور ایسی چیز کو کھو کر رنجیدہ ہو جاتا ہے جو ملنے والی نہیں تھی لہٰذا خبردار تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت کسی لذت کا حصول یا جذبہ انتقام ہی نہ بن جائے بلکہ بہترین نعمت باطل کے مٹانے اورحق کے زندہ کرنے کوسمجھو اور تمہاراسرور ان اعمال سے ہو جنہیں پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارا افسوس ان امور پر ہو جسے چھوڑ کرچلے گئے ہو اورتمامتر فکر موت کے بعد کے مرحلہ کے بارے میں ہونی چاہیے ۔

(۶۷)

آپ کامکتوب گرامی

(مکہ کے عامل قثم بن العباس کے نام)

امابعد! لوگوں کے لئے حج کے قیام کا انتظار کرو اورانہیں اللہ کے یاد گار دنوں کی یاد دلائو۔صبح و شام عمومی جلسہ رکھو۔سوال کرنے والو ں کے سوالات کے جوابات دو۔جاہل کو علم دواورعلماء سے تذکرہ کرو۔لوگوں تک تمہارا کوئی ترجمان تمہاری زبان کے علاوہ نہ ہواور تمہارا کوئی دربان تمہارے چہرہ کے علاوہ نہ ہو۔کسی ضرورت مند کو ملاقات سے مت روکنا کہ اگر پہلی ہی مرتبہ اسے واپس کردیا گیا تو اس کے بعد کام کر بھی دوگے تو تمہاری تعریف نہ کی جائے گی۔جو اموال تمہارے پاس جمع ہو جائیں ان پر نظر رکھو اور تمہارے یہاں جو عیال دار اور بھوکے پیاسے لوگ ہیں ان پر صرف کردو بشرطیکہ انہیں

۶۰۸

والْخَلَّاتِ - ومَا فَضَلَ عَنْ ذَلِكَ فَاحْمِلْه إِلَيْنَا لِنَقْسِمَه فِيمَنْ قِبَلَنَا.

ومُرْ أَهْلَ مَكَّةَ أَلَّا يَأْخُذُوا مِنْ سَاكِنٍ أَجْراً - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ -( سَواءً الْعاكِفُ فِيه والْبادِ ) - فَالْعَاكِفُ الْمُقِيمُ بِه - والْبَادِي الَّذِي يَحُجُّ إِلَيْه مِنْ غَيْرِ أَهْلِه - وَفَّقَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ لِمَحَابِّه والسَّلَامُ.

(۶۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى سلمان الفارسي رحمهالله - قبل أيام خلافته

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا مَثَلُ الدُّنْيَا مَثَلُ الْحَيَّةِ - لَيِّنٌ مَسُّهَا قَاتِلٌ سَمُّهَا - فَأَعْرِضْ عَمَّا يُعْجِبُكَ فِيهَا - لِقِلَّةِ مَا يَصْحَبُكَ مِنْهَا - وضَعْ عَنْكَ هُمُومَهَا - لِمَا أَيْقَنْتَ بِه مِنْ فِرَاقِهَا - وتَصَرُّفِ حَالَاتِهَا -

واقعی محتاجوں اور ضرورت مندوں تک پہنچا دواور اس کے بعد جوبچ جائے وہ میرے پاس بھیج دوت اکہ یہاں کے محتاجوں پر تقسیم کردیا جائے ۔

اہل مکہ سے کہو کہ خبردار مکانات(۱) کا کرایہ نہ لیں کہ پروردگار نے مکہ کو مقیم اورمسافر دونوں کے لئے برابر قراردیاہے ( عاکف مقیم کو کہا جاتا ہے اوربادی جو باہرسے حج کرنے کے لئے آتا ہے ) اللہ ہمیں اورتمہیں اپنے پسندیدہ اعمال کی توفیق دے ۔والسلام!

(۶۸)

آپ کامکتوب گرامی

(جناب سلمان فارسی کے نام۔اپنے دور خلافت سے پہلے)

اما بعد! اسدنیا کی مثال صرف سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے لیکن اس کا زہر انتہائی قاتل ہوتا ہے اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی کرو کہ اس میں سے ساتھ جانے والا بہت کم ہے۔اس کے ہم و غم کو اپنے سے دور رکھو کہ اس سے جدا ہونا یقینی ہے اور اس کے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں۔اس سے جس وقت

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ امرو جوبی نہیں ہے اور صرف استحابی اور احترامی ہے ورنہ حضرت نے جس آیت کریمہ سے استدلال فرمایا ہے اس کاتعلق مسجد الحرام سے ہے۔سارے مکہ سے نہیں ہے اورمکہ کومسجد الحرام مجازاً کہا جاتا ہے جس طرح کہ آیت معراج میں جناب ام ہانی کے مکان کو مسجد الحرام قراردیا گیا ہے۔ویسے یہ مسئلہ علماء اسلام میں اختلافی حیثیت رکھتا ہے اورابو حنیفہ نے سارے مکہ کے مکانات کو کرایہ پر دینے کو حرام قراردیا ہے اوراسکی دلیل عبداللہ بن عمروبن العاص کی روایت کو قراردیا گیا ہے جوعلماء شیعہ کے نزدیک قطعاً معتبرنہیں ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو اہل مکہ اپنے کوحنفی کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں وہ بھی ایام حج کے دوران دگنا چوگنا بلکہ دسگنا کرایہ وصول کرنے ہی کو اسلام اورحرم الٰہی کی خدمت تصورکرتے ہیں۔اورحجاج کرام کو '' ضیوف الرحمان '' قراردے کر انہیں '' ارض الرحمان '' پر قیام کرنے کا حق نہیں دیتے ہیں۔

۶۰۹

وكُنْ آنَسَ مَا تَكُونُ بِهَا أَحْذَرَ مَا تَكُونُ مِنْهَا - فَإِنَّ صَاحِبَهَا كُلَّمَا اطْمَأَنَّ فِيهَا إِلَى سُرُورٍ - أَشْخَصَتْه عَنْه إِلَى مَحْذُورٍ - أَوْ إِلَى إِينَاسٍ أَزَالَتْه عَنْه إِلَى إِيحَاشٍ والسَّلَامُ.

( ۶۹ )

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى الحارث الهمذاني

وتَمَسَّكْ بِحَبْلِ الْقُرْآنِ واسْتَنْصِحْه - وأَحِلَّ حَلَالَه وحَرِّمْ حَرَامَه - وصَدِّقْ بِمَا سَلَفَ مِنَ الْحَقِّ - واعْتَبِرْ بِمَا مَضَى مِنَ الدُّنْيَا لِمَا بَقِيَ مِنْهَا - فَإِنَّ بَعْضَهَا يُشْبِه بَعْضاً - وآخِرَهَا لَاحِقٌ بِأَوَّلِهَا - وكُلُّهَا حَائِلٌ مُفَارِقٌ - وعَظِّمِ اسْمَ اللَّه أَنْ تَذْكُرَه إِلَّا عَلَى حَقٍّ - وأَكْثِرْ ذِكْرَ الْمَوْتِ ومَا بَعْدَ الْمَوْتِ - ولَا تَتَمَنَّ الْمَوْتَ إِلَّا بِشَرْطٍ وَثِيقٍ - واحْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ يَرْضَاه صَاحِبُه لِنَفْسِه - ويُكْرَه لِعَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ - واحْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ يُعْمَلُ بِه فِي السِّرِّ - ويُسْتَحَى مِنْه فِي الْعَلَانِيَةِ - واحْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ إِذَا سُئِلَ عَنْه صَاحِبُه أَنْكَرَه أَوْ اعْتَذَرَ مِنْه -

زیادہ انس محسوس کرواس وقت زیادہ ہوشیار رہو کہ اس کا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سے مطمئن ہوتا ہے یہ اسے کسی ناخوشگوار کے حوالے کردیتے ہے اور انس سے نکال کروحشت کے حالات تک پہنچادیتی ہے۔والسلام!

(۶۹)

آپ کا مکتوب گرامی

(حارث ہمدانی کے نام )

قرآن کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہو اور اس سے نصیحت حاصل کرو ۔اس کے حلال کو حلال قراردو اور حرام کو حرام حق کی گذشتہ باتوں کی تصدیق کرواوردنیا کے ماضی سے اس کے مستقبل کے لئے عبرت حاصل کرو کہ اس کا ایک حصہ دوسرے سے مشابہت رکھتا ہے اورآخر اول سے ملحق ہونے والا ہے اور سب کا سب زائل ہونے والا اورجدا ہو جانے والا ہے۔نام دا کو اس قدر عظیم قرار دو کہ سوائے حق کے کسی موقع پر استعمال نہ کرو۔موت اوراس کے بعد کے حالات کوبرابر یاد کرتے رہو اور اس کی آرزو اس وقت تک نہکر و جب تک مستحکم اسباب نہ فراہم ہو جائیں۔ہر اس کا م سے پرہیز کرو جسے آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہو اورعام مسلمانوں کے لئے نا پسند کرتا ہو اور ہراس کام سے بچتے رہو جو تنہائی میں کیاجا سکتا ہو اور علی الاعلان انجام دینے میں شرم محسوس کی جاتی ہو اور اسی طرح ہر اس کام سے پرہیز کروجس کے کرنے والے سے پوچھ لیا جائے تو یا انکارکردے یا معذرت

۶۱۰

ولَا تَجْعَلْ عِرْضَكَ غَرَضاً لِنِبَالِ الْقَوْلِ - ولَا تُحَدِّثِ النَّاسَ بِكُلِّ مَا سَمِعْتَ بِه - فَكَفَى بِذَلِكَ كَذِباً - ولَا تَرُدَّ عَلَى النَّاسِ كُلَّ مَا حَدَّثُوكَ بِه - فَكَفَى بِذَلِكَ جَهْلًا - واكْظِمِ الْغَيْظَ وتَجَاوَزْ عِنْدَ الْمَقْدَرَةِ واحْلُمْ عِنْدَ الْغَضَبِ - واصْفَحْ مَعَ الدَّوْلَةِ تَكُنْ لَكَ الْعَاقِبَةُ - واسْتَصْلِحْ كُلَّ نِعْمَةٍ أَنْعَمَهَا اللَّه عَلَيْكَ. ولَا تُضَيِّعَنَّ نِعْمَةً مِنْ نِعَمِ اللَّه عِنْدَكَ - ولْيُرَ عَلَيْكَ أَثَرُ مَا أَنْعَمَ اللَّه بِه عَلَيْكَ.

واعْلَمْ أَنَّ أَفْضَلَ الْمُؤْمِنِينَ - أَفْضَلُهُمْ تَقْدِمَةً مِنْ نَفْسِه وأَهْلِه ومَالِه - فَإِنَّكَ مَا تُقَدِّمْ مِنْ خَيْرٍ يَبْقَ لَكَ ذُخْرُه - ومَا تُؤَخِّرْه يَكُنْ لِغَيْرِكَ خَيْرُه - واحْذَرْ صَحَابَةَ مَنْ يَفِيلُ رَأْيُه - ويُنْكَرُ عَمَلُه فَإِنَّ الصَّاحِبَ مُعْتَبَرٌ بِصَاحِبِه - واسْكُنِ الأَمْصَارَ الْعِظَامَ فَإِنَّهَا جِمَاعُ الْمُسْلِمِينَ - واحْذَرْ مَنَازِلَ الْغَفْلَةِ والْجَفَاءِ - وقِلَّةَ الأَعْوَانِ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - واقْصُرْ رَأْيَكَ عَلَى مَا يَعْنِيكَ - وإِيَّاكَ ومَقَاعِدَ الأَسْوَاقِ - فَإِنَّهَا مَحَاضِرُ الشَّيْطَانِ ومَعَارِيضُ الْفِتَنِ - وأَكْثِرْ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى مَنْ فُضِّلْتَ عَلَيْه -

کرے۔اپنی آبرو کو لوگوں کے تیر ملامت کا نشانہ نہ بنائو اور ہر سنی ہوئی بات کو بیان نہ کردوکہ یہ حرکت بھی جھوٹ ہونے کے لئے کافی ہے۔اور اسی طرح لوگوں کی ہر بات کی تردید بھی نہ کردو کہ یہ امرجہالت کے لئے کافی ہے۔غصہ کو ضبط کرو۔طاقت رکھنے کے بعد لوگوں کو معا فکرو۔غضب میں حلم کا مظاہرہ کرو۔اقتدارپا کر درگزر کرناسیکھوتاکہ انجام کار تمہارے لئے رہے اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں انہیں درست رکھنے کی کوشش کرو اور اس کی کسی نعمت کو برباد نہ کرنا بلکہ ان نعمتوں کے آثار تمہاری زندگی میںواضح طور پر نظر آئیں ۔

اوریاد رکھو کہ تمام مومنین میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنے نفس ' اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کی طرف سے خیرات کرے کہ یہی پہلے جانے والا خیر وہاں جاکرذخیرہ ہو جاتا ہے اورتم جو کچھ چھوڑ کرچلے جائوگے وہ تمہارے غیر کے کام آئے گا۔ایسے شخص کی صحبت اختیار نہکرنا جس کیرائے کمزوراوراس کے اعمال نا پسندیدہ ہوں کہ ہر ساتھی کا قیاس اس کے ساتھی پر کیا جاتا ہے۔سکونت کے لئے بڑے شہروں کا انتخاب کرو کہ وہاں مسلمانوں کا اجتماع زیادہ ہوتا ہے اور ان جگہوں سے پرہیز کرو جوغفلت' بیوفائی اوراطاعت خدامیں مدد گاروں کی قلت کے مرکز ہوں۔اپنی فکر کو صرف کام کی باتوں میں استعمال کرواورخبردار بازاری اڈوں پرمت بیٹھنا کہ یہ شیطان کی حاضری کی جگہیں اورف تنوں کے مرکز ہیں۔زیادہ حصہ ان افراد پرنگاہ رکھوجن سے پروردگارنے

۶۱۱

فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَبْوَابِ الشُّكْرِ - ولَا تُسَافِرْ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ حَتَّى تَشْهَدَ الصَّلَاةَ - إِلَّا فَاصِلًا فِي سَبِيلِ اللَّه أَوْ فِي أَمْرٍ تُعْذَرُ بِه - وأَطِعِ اللَّه فِي جَمِيعِ أُمُورِكَ - فَإِنَّ طَاعَةَ اللَّه فَاضِلَةٌ عَلَى مَا سِوَاهَا - وخَادِعْ نَفْسَكَ فِي الْعِبَادَةِ وارْفُقْ بِهَا ولَا تَقْهَرْهَا - وخُذْ عَفْوَهَا ونَشَاطَهَا - إِلَّا مَا كَانَ مَكْتُوباً عَلَيْكَ مِنَ الْفَرِيضَةِ - فَإِنَّه لَا بُدَّ مِنْ قَضَائِهَا وتَعَاهُدِهَا عِنْدَ مَحَلِّهَا - وإِيَّاكَ أَنْ يَنْزِلَ بِكَ الْمَوْتُ - وأَنْتَ آبِقٌ مِنْ رَبِّكَ فِي طَلَبِ الدُّنْيَا - وإِيَّاكَ ومُصَاحَبَةَ الْفُسَّاقِ - فَإِنَّ الشَّرَّ بِالشَّرِّ مُلْحَقٌ - ووَقِّرِ اللَّه وأَحْبِبْ أَحِبَّاءَه - واحْذَرِ الْغَضَبَ فَإِنَّه جُنْدٌ عَظِيمٌ مِنْ جُنُودِ إِبْلِيسَ - والسَّلَامُ.

(۷۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى سهل بن حنيف الأنصاري - وهو عامله على المدينة - في معنى قوم

من أهلها لحقوا بمعاوية

تمہیں بہتر قراردیا ہے کہ یہ بھی شکر خدا کا یاراستہ ہے جمعہ کے(۱) دن نماز پڑے بغیر سفرنہ کرنا مگر یہ کہ راہ خدا میں جارہے ہو یا کسی ایسے کام میں جو تمہارے لئے عذر بن جائے اورتمام امور میں پروردگار کی اطاعت کرتے رہنا کہ اطاعت خدا دنیا کے تمام کاموں سے افضل اوربہتر ہے اپنے نفس کو بہانے کرکے عبادت کی طرف لے آئو اور اس کے ساتھ نرمی برتو۔جبرنہ کرو اوراس کی فرصت اور فارغ البالی سے فائدہ اٹھائو۔مگر جن فرائض کو پروردگار نے تمہارے ذمہ لکھ دیاہے انہیں بہرحال انجام دینا ہے اوران کا خیال رکھنا ہے اوردیکھوخبردار ایسا نہ ہو کہ تمہیں اس حال میں موت آجائے کہ تم طلب دنیا میں پروردگار سے بھاگ رہے ہو۔اورخبردار فاسقوں کی صحبت اختیار نہ کرنا کہ شربالآخر شر سے مل جاتا ہے۔اللہ کی عظمت کا اعتراف کرواوراس کے محبوب بندوں سے محبت کرو اور غصہ سے اجتناب کروکہ یہ یطان کے لشکروں میں سب سے عظیم تر لشکر ہے ۔والسلام!

(۷۰)

آپ کامکتوب گرامی

(عامل مدینہ سہل بن حنیف انصاری کے نام جب آپ کو خبر ملی کہ ایک قوم معاویہ سے جا ملی ہے)

(۱)واضح رہے کہ جمعہ کے دن تعطیل کوئی اسلامی قانون نہیں ہے۔صرف مسلمانوں کا ایک طریقہ ہے۔ورنہ اسلام نے صرف بقدر نمازکاروباربند کرنے کاحکم دیا ہے اور اس کے بعد فوراً یہ حکم دیا ہے کہ زمین میں منتشر ہو جائو اور رزق خدا تلاش کرو۔مگر افسوس کہ جمعہ کی تعطیل کے بہترین روز عبادت کو بھی عیاشیوں اوربدکاریوں کا دن بنادیا گیا اور انسان سب سے زیادہ نکما اورناکارہ اسی دن ہوت ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

۶۱۲

أَمَّا بَعْدُ - فَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِمَّنْ قِبَلَكَ يَتَسَلَّلُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ - فَلَا تَأْسَفْ عَلَى مَا يَفُوتُكَ مِنْ عَدَدِهِمْ - ويَذْهَبُ عَنْكَ مِنْ مَدَدِهِمْ - فَكَفَى لَهُمْ غَيّاً - ولَكَ مِنْهُمْ شَافِياً فِرَارُهُمْ مِنَ الْهُدَى والْحَقِّ - وإِيضَاعُهُمْ إِلَى الْعَمَى والْجَهْلِ - فَإِنَّمَا هُمْ أَهْلُ دُنْيَا مُقْبِلُونَ عَلَيْهَا ومُهْطِعُونَ إِلَيْهَا - وقَدْ عَرَفُوا الْعَدْلَ ورَأَوْه وسَمِعُوه ووَعَوْه - وعَلِمُوا أَنَّ النَّاسَ عِنْدَنَا فِي الْحَقِّ أُسْوَةٌ - فَهَرَبُوا إِلَى الأَثَرَةِ - فَبُعْداً لَهُمْ وسُحْقاً

إِنَّهُمْ واللَّه لَمْ يَنْفِرُوا مِنْ جَوْرٍ - ولَمْ يَلْحَقُوا بِعَدْلٍ - وإِنَّا لَنَطْمَعُ فِي هَذَا الأَمْرِ أَنْ يُذَلِّلَ اللَّه لَنَا صَعْبَه - ويُسَهِّلَ لَنَا حَزْنَه إِنْ شَاءَ اللَّه - والسَّلَامُ.

(۷۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى المنذر بن الجارود العبدي، وخان في بعض ما ولاه من أعماله

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ صَلَاحَ أَبِيكَ غَرَّنِي مِنْكَ - وظَنَنْتُ أَنَّكَ تَتَّبِعُ هَدْيَه - وتَسْلُكُ سَبِيلَه

اما بعد !مجھے یہ خبرملی ہے کہ تمہارے یہاں کے کچھ لوگ چپکے سے معاویہ کی طرف کھسک گئے ہیں توخبردار تم اس عدد کے کم ہوجانے اور اس طرقت کے چلے جانے پر ہر گز افسوس نہ کرنا کہ ان لوگوں کی گمراہی اور تمہارے سکون نفس کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ لوگ حق و ہدایت سے بھاگے ہیں اور گمراہی اور جہالت کی طرف دوڑ پڑے ہیں۔یہ اہل دنیاہیں لہٰذا اس کی طرف متوجہ ہیں اور دوڑ لگا رہے ہیں۔حالانکہ انہوں نے انصاف کوپہچانا بھی ہے اوردیکھا بھی ہے۔سنابھی ہے اور سمجھے بھی ہیں اورانہیں معلوم ہے کہ حق کے معاملہ میں ہمارے یہاں تمام لوگ برابر کی حیثیت رکھتے ہیں اسی لئے یہ لوگ خود غرضی کی طرف بھاگ نکلے ۔خدا انہیں غارت کرے اورتباہ کردے ۔

خداکی قسم ان لوگوں نے ظلم سے فرار نہیں کیا ہے اور نہ عدل سے ملحق ہوئے ہیں۔اور ہماری خواہش صرف یہ ہے کہ پروردگار اس معاملہ میں دشواریوں کوآسان بنادے اورنا ہمواری کو ہموار کردے ۔

(۷۱)

آپ کامکتوب گرامی

(منذر بن جارود عبدی کے نام۔ جس نے بعض اعمال میں خیانت سے کام لیا تھا)

امابعد! تیرے باپ کی شرافت نے مجھے تیرے بارے میں دھوکہ میں رکھا اور میں سمجھا کہ تواسی کے راستہ پرچل رہا ہے اوراسی کے

۶۱۳

فَإِذَا أَنْتَ فِيمَا رُقِّيَ إِلَيَّ عَنْكَ لَا تَدَعُ لِهَوَاكَ انْقِيَاداً - ولَا تُبْقِي لِآخِرَتِكَ عَتَاداً - تَعْمُرُ دُنْيَاكَ بِخَرَابِ آخِرَتِكَ - وتَصِلُ عَشِيرَتَكَ بِقَطِيعَةِ دِينِكَ - ولَئِنْ كَانَ مَا بَلَغَنِي عَنْكَ حَقّاً - لَجَمَلُ أَهْلِكَ وشِسْعُ نَعْلِكَ خَيْرٌ مِنْكَ - ومَنْ كَانَ بِصِفَتِكَ فَلَيْسَ بِأَهْلٍ أَنْ يُسَدَّ بِه ثَغْرٌ - أَوْ يُنْفَذَ بِه أَمْرٌ أَوْ يُعْلَى لَه قَدْرٌ - أَوْ يُشْرَكَ فِي أَمَانَةٍ أَوْ يُؤْمَنَ عَلَى جِبَايَةٍ - فَأَقْبِلْ إِلَيَّ حِينَ يَصِلُ إِلَيْكَ كِتَابِي هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّه.

قال الرضي والمنذر بن الجارود - هذا هو الذي قال فيه أمير المؤمنينعليه‌السلام - إنه لنظار في عطفيه مختال في برديه - تفال في شراكيه

(۷۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّكَ لَسْتَ بِسَابِقٍ أَجَلَكَ - ولَا مَرْزُوقٍ مَا لَيْسَ لَكَ - واعْلَمْ بِأَنَّ الدَّهْرَ يَوْمَانِ - يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ

طریقہ پر گامزن ہے لیکن تازہ ترین اخبار سے اندازہ ہوتا ہے کہ تو نے خواہشات کی پیروی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے اور آخرت کے لئے کوئی ذخیرہ نہیں کیا ہے۔آخرت کو برباد کرکے دنیا کو آباد کررہا ہے اوردین سے رشتہ توڑ کر قبیلہ سے رشتہ جوڑ رہا ہے۔اگرمیرے پاس آنے والی خبریں صحیح ہیں تو تیرے گھر والوں کا اونٹ اور تیرے جوتہ کا تسمہ بھی تجھ سے بہتر ہے اور جو تیرا جیسا ہو اس کے ذریعہ نہ رخنہ کوبند کیا جا سکتا ہے نہ کسی امرکونافد کیا جاسکتاہے اور نہ اس کے مرتبہ کو بلند کیاجاسکتا ہے نہ اسے کسی امانت میں شریک کیا جاسکتا ہے۔یا مال کی جمع آوری پر امین سمجھا جائے لہٰذا جیسے ہی میرا یہ خط ملے فوراً میری طرف چل پڑو۔انشاء اللہ

سید رضی : منذربن الجارود ۔یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں امیر المومنین نے فرمایا تھا کہ یہ اپنے بازئوں کو برابر دیکھتا رہتا ہے اور اپنی چادروں میں جھوم کر چلتا ہے اور جوتی کے تسموں کو پھونکتا رہتا ہے ( یعنی انتہائی مغرور اورمتکبر قسم کاآدمی ہے )

(۷۲)

آپ کامکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام )

اما بعد! نہ تم اپنی مدت حیات سے آگے بڑ ھ سکتے ہو اورنہ اپنے رزق سے زیادہ حاصل کرسکتے ہو۔اوریاد رکھو کہ زمانہ کے دو دن ہوتے ہیں ۔ایک تمہارے حق میں اور

۶۱۴

عَلَيْكَ - وأَنَّ الدُّنْيَا دَارُ دُوَلٍ - فَمَا كَانَ مِنْهَا لَكَ أَتَاكَ عَلَى ضَعْفِكَ - ومَا كَانَ مِنْهَا عَلَيْكَ لَمْ تَدْفَعْه بِقُوَّتِكَ.

(۷۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي عَلَى التَّرَدُّدِ فِي جَوَابِكَ - والِاسْتِمَاعِ إِلَى كِتَابِكَ - لَمُوَهِّنٌ رَأْيِي ومُخَطِّئٌ فِرَاسَتِي - وإِنَّكَ إِذْ تُحَاوِلُنِي الأُمُورَ - وتُرَاجِعُنِي السُّطُورَ - كَالْمُسْتَثْقِلِ النَّائِمِ تَكْذِبُه أَحْلَامُه - والْمُتَحَيِّرِ الْقَائِمِ يَبْهَظُه مَقَامُه - لَا يَدْرِي أَلَه مَا يَأْتِي أَمْ عَلَيْه - ولَسْتَ بِه غَيْرَ أَنَّه بِكَ شَبِيه - وأُقْسِمُ بِاللَّه إِنَّه لَوْ لَا بَعْضُ الِاسْتِبْقَاءِ - لَوَصَلَتْ إِلَيْكَ مِنِّي قَوَارِعُ تَقْرَعُ الْعَظْمَ - وتَهْلِسُ اللَّحْمَ - واعْلَمْ أَنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ ثَبَّطَكَ - عَنْ أَنْ تُرَاجِعَ أَحْسَنَ أُمُورِكَ - وتَأْذَنَ لِمَقَالِ نَصِيحَتِكَ والسَّلَامُ لأَهْلِه.

ایک تمہارے خلاف اور یہ دنیا ہمیشہ کروٹیں بدلتی رہتی ہے لہٰذا جو تمہارے حق میں ہے وہ کمزوری کے باوجود تم تک آجائے گا اور جو تمہارے خلاف ہے اسے طاقت کے باوجودتم نہیں ٹال سکتے ہو۔

(۷۳)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

امابعد! میں تم سے خط و کتابت کرنے اور تمہاری بات سننے میں اپنی رائے کی کمزوری اوراپنی دانش مندی کی غلطی کا احساس کر رہا ہوں اور تم بار بارمجھ سے اپنی بات منوانے اورخط و کتابت جاری رکھنے کی کوشش کرنے میں ایسے ہی ہو جیسے کوئی بستر پر لٹا خواب دیکھ رہا ہو اور اس کا خواب غلط ثابت ہو یا کوئی حیرت زدہ منہ اٹھائے کھڑا ہو اور یہ قیام بھی اسے مہنگا پڑے اوری ہی نہ معلوم ہو کہ آنے والی چیز اس کے حق میں مفید ہے یا مضر۔ تم بالکل یہی شخص نہیں ہو لیکن اسی کے جیسے ہو اورخداکی قسم کہ اگر کسی حد تک باقی رکھنا میری مصلحت نہ ہوتا تو تم تک ایسے حوادث آتے جو ہڈیوں کوتوڑ دیتے اور گوشت کا نام تک نہ چھوڑتے اوریاد رکھوکہ یہ شیطان نے تمہیں بہترین امور کی طرف رجوع کرنے اورعمدہ ترین نصیحتوں کے سننے سے روک رکھا ہے۔اور سلام اس کے اہل پر۔

۶۱۵

(۷۴)

ومن حلف لهعليه‌السلام

كتبه بين ربيعة واليمن ونقل من خط هشام بن الكلبي

هَذَا مَا اجْتَمَعَ عَلَيْه أَهْلُ الْيَمَنِ - حَاضِرُهَا وبَادِيهَا - ورَبِيعَةُ حَاضِرُهَا وبَادِيهَا - أَنَّهُمْ عَلَى كِتَابِ اللَّه يَدْعُونَ إِلَيْه - ويَأْمُرُونَ بِه ويُجِيبُونَ مَنْ دَعَا إِلَيْه وأَمَرَ بِه - لَا يَشْتَرُونَ بِه ثَمَناً - ولَا يَرْضَوْنَ بِه بَدَلًا - وأَنَّهُمْ يَدٌ وَاحِدَةٌ عَلَى مَنْ خَالَفَ ذَلِكَ وتَرَكَه - أَنْصَارٌ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ - دَعْوَتُهُمْ وَاحِدَةٌ - لَا يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ لِمَعْتَبَةِ عَاتِبٍ - ولَا لِغَضَبِ غَاضِبٍ - ولَا لِاسْتِذْلَالِ قَوْمٍ قَوْماً - ولَا لِمَسَبَّةِ قَوْمٍ قَوْماً - عَلَى ذَلِكَ شَاهِدُهُمْ وغَائِبُهُمْ - وسَفِيهُهُمْ وعَالِمُهُمْ وحَلِيمُهُمْ وجَاهِلُهُمْ - ثُمَّ إِنَّ عَلَيْهِمْ بِذَلِكَ عَهْدَ اللَّه ومِيثَاقَه - إِنَّ عَهْدَ اللَّه كَانَ مَسْئُولًا.

وكَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.

(۷۴)

آپ کا معاہدہ

(جسے ربیعہ اوراہل یمن کے درمیان تحریر فرمایا ہے اور یہ ہشام کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے )

یہ وہ عہد ہے جس پر اہل یمن(۱) کے شہری اور دیہاتی اورقبیلہ ربیعہ کے شہری اور دیہاتی سب نے اتفاق کیا ہے کہ سب کے سب کتاب خدا پر ثابت رہیں گے اور اسی کی دعوت دیں گے۔ جو اس کی طرف دعوت دے گا اوراس کے ذریعہ حکم دے گا اس کی دعوت پر لبیک کہیں گے ۔نہ اس کی کسی قیمت پرفروخت کریں گے اور نہ اس کے کسی بدل پر راضی ہوں گے ۔اس امر کے مخالف اوراس کے نظرانداز کرنے والے کے خلاف متحد رہیں گے اور کسی سرزنش کرنے والے کی سر زنش پر اس عہد کوت وڑیں گے اور نہ کسی غیظ و غضب سے اس راہ میں متاثر ہوں گے اور نہ کسی قوم کوذلیل کرنے یا گالی دینے کا وسیلہ قراردیں گے۔اسی بات پر حاضرین بھی قائم رہیں گے اور غائبین بھی اسی پر کم عقل بھی کاربند رہیں گے اور عالم بھی۔اسی کی پابندی صاحبان دانش بھی کریں گے اورجاہل بھی۔پھر اس کے بعد ان کے ذمہ عہد الٰہی اورمیثاق پروردگار کی پابندی بھی لازم ہوگئی ہے اور عہد الٰہی کے بارے میں روز قیامت بھی سوال کیا جائے گا ۔کاتب علی بن ابی طالب

(۱)عرب کے وہ قبائل جن کا سلسلہ نسب قحطان بن عامر تک پہنچتا ہے انہیں یمن سے تعبیر کیا جاتا ہے اورجن کا سلسلہ ربیعہ بن نزار سے ملتا ہے انہیں ربیعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔دور جاہلیت میں دونوں میں شدید اختلافات تھے لیکن اسلام لانے کے عد دونوں مستحد ہوگئے ۔والحمد للہ

۶۱۶

(۷۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية في أول ما بويع له

ذكره الواقدي في كتاب «الجمل»

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ - إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ:

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ عَلِمْتَ إِعْذَارِي فِيكُمْ - وإِعْرَاضِي عَنْكُمْ - حَتَّى كَانَ مَا لَا بُدَّ مِنْه ولَا دَفْعَ لَه - والْحَدِيثُ طَوِيلٌ والْكَلَامُ كَثِيرٌ - وقَدْ أَدْبَرَ مَا أَدْبَرَ - وأَقْبَلَ مَا أَقْبَلَ - فَبَايِعْ مَنْ قِبَلَكَ - وأَقْبِلْ إِلَيَّ فِي وَفْدٍ مِنْ أَصْحَابِكَ والسَّلَامُ.

(۷۶)

ومن وصية لهعليه‌السلام

لعبد الله بن العباس عند استخلافه إياه على البصرة

سَعِ النَّاسَ بِوَجْهِكَ ومَجْلِسِكَ وحُكْمِكَ - وإِيَّاكَ والْغَضَبَ فَإِنَّه طَيْرَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ - واعْلَمْ أَنَّ مَا قَرَّبَكَ مِنَ اللَّه يُبَاعِدُكَ مِنَ النَّارِ -

(۷۵)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام ۔اپنی بیعت کے ابتدائی دورمیں جس کا ذکر و اقدی نے کتاب الجمل میں کیا ہے )

بندہ خدا امیر المومنین علی کی طرف سے معاویہ بن ابی سفیان کے نام ۔

امابعد! تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اپنی طرف سے حجت تمام کردی ہے اورتم سے کنارہ کشی کرلی ہے۔مگر پھر بھی وہ بات ہو کر رہی جسے ہوناتھا اور جسے ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔یہ بات بہت لمبی ہے اور اس میں گفتگو بہت طویل ہے لیکن اب جسے گذر نا تھا وہ گذر گیا اور جسے آنا تھا وہ آگیا۔اب مناسب یہی ہے کہ اپنے یہاں کے لوگوں سے میری بیعت لے لو اور سب کولے کرمیرے پاس حاضر ہو جائو۔والسلام

(۷۶)

آپ کی وصیت

(عبداللہ بن عباس کے لئے ۔جب انہیں بصرہ کا والی قرار دیا)

لوگوں سے ملاقات کرنے میں۔انہیں اپنی بزم میں جگہ دینے میں اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے میں وسعت سے کام لو اورخبردار غیظ و غضب سے کام نہ لینا کہ یہ شیطان کی طرف سے ہلکے پن کا نتیجہ ہے اور یاد رکھوکہ جوچیز اللہ سے قریب بناتی ہے وہی جہنم سے

۶۱۷

ومَا بَاعَدَكَ مِنَ اللَّه يُقَرِّبُكَ مِنَ النَّارِ.

(۷۷)

ومن وصية لهعليه‌السلام

لعبد الله بن العباس لما بعثه للاحتجاج على الخوارج

لَا تُخَاصِمْهُمْ بِالْقُرْآنِ - فَإِنَّ الْقُرْآنَ حَمَّالٌ ذُو وُجُوه - تَقُولُ ويَقُولُونَ... ولَكِنْ حَاجِجْهُمْ بِالسُّنَّةِ - فَإِنَّهُمْ لَنْ يَجِدُوا عَنْهَا مَحِيصاً

(۷۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أبي موسى الأشعري جوابا في أمر الحكمين ذكره سعيد بن يحيى الأموي في كتاب «المغازي».

فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ تَغَيَّرَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ عَنْ كَثِيرٍ مِنْ حَظِّهِمْ - فَمَالُوا مَعَ الدُّنْيَا ونَطَقُوا بِالْهَوَى - وإِنِّي نَزَلْتُ مِنْ هَذَا الأَمْرِ مَنْزِلًا مُعْجِباً ،اجْتَمَعَ بِه أَقْوَامٌ أَعْجَبَتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ - وأَنَا أُدَاوِي مِنْهُمْ قَرْحاً أَخَافُ أَنْ يَكُونَ عَلَقاً

دورکرتی ہے اورجوچیز اللہ سے دورکرتی ہے وہی جہنم سے قریب بنا دیتی ہے ۔

(۷۷)

آپ کی وصیت

(عبداللہ بن عباس کے نام۔جب انہیں خوارج کے مقابلہ میں اتمام حجت کے لئے ارسال فرمایا)

دیکھو ان سے قرآن کے بارے میں بحث نہ کرنا کہ اس کے بہت سے وجوہ و احتمالات ہوتے ہیں اوراس طرح تم اپنی کہتے رہوگے اوروہ اپنی کہتے رہیں گے ۔بلکہ ان سے سنت کے ذریعہ بحث کرو کہ اس سے بچ کرنکل جانے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

(۷۸)

آپ کامکتوب گرامی

(ابو موسیٰ اشعری کے نام۔حکمین کے سلسلہ میں اس کے ایک خط کے جواب میں جس کا تذکرہ سعید بن یحییٰ نے ''مغاری'' میں کیا ہے )

کتنے ہی لوگ اسے ہیں جو آخرت کی بہت سی سعادتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔دنیا کی طرف جھک گئے ہیں اور خواہشات کے مطابق بولنے لگے ہیں۔میں اس امرکی وجہ سے ایک حیرت و استعجاب کی منزل میں ہوںجہاں ایسے لوگ جمع ہوگئے ہیں جنہیں اپنی ہی بات اچھی لگتی ہے ۔ میں ان کے زخم کا مداوا تو کررہا ہوں لیکن ڈر رہا ہوں کہ کہیں یہ منجمد خون کی شکل نہ اختیار کرلے۔

۶۱۸

ولَيْسَ رَجُلٌ فَاعْلَمْ أَحْرَصَ عَلَى جَمَاعَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وأُلْفَتِهَا مِنِّي - أَبْتَغِي بِذَلِكَ حُسْنَ الثَّوَابِ وكَرَمَ الْمَآبِ - وسَأَفِي بِالَّذِي وَأَيْتُ عَلَى نَفْسِي - وإِنْ تَغَيَّرْتَ عَنْ صَالِحِ مَا فَارَقْتَنِي عَلَيْه - فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ نَفْعَ مَا أُوتِيَ مِنَ الْعَقْلِ والتَّجْرِبَةِ - وإِنِّي لأَعْبَدُ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ بِبَاطِلٍ - وأَنْ أُفْسِدَ أَمْراً قَدْ أَصْلَحَه اللَّه - فَدَعْ مَا لَا تَعْرِفُ - فَإِنَّ شِرَارَ النَّاسِ طَائِرُونَ إِلَيْكَ بِأَقَاوِيلِ السُّوءِ - والسَّلَامُ.

(۷۹)

ومن كتاب كتبهعليه‌السلام

لما استخلف إلى أمراء الأجناد

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - أَنَّهُمْ مَنَعُوا النَّاسَ الْحَقَّ فَاشْتَرَوْه - وأَخَذُوهُمْ بِالْبَاطِلِ فَاقْتَدَوْه

اوریاد رکھو کہ امت پیغمبر (ص) کی شیرازہ بندی اوراس کے اتحاد کے لئے مجھ سے زیادہ خواہش مند کوئی نہیں ہے جس کے ذرعیہ میں بہترین ثواب اور سرف رازی آخرت چاہتا ہوں اورمیں بہرحال اپنے عہد کو پوراکروں گا چاہے تم اس بات سے پلٹ جائو جو آخری ملاقات تک تمہاری زبان پر تھی۔یقینا بد بخت وہ ے جو عقل و تجربہ کے ہوتے ہوئے بھی اس کے فوائد سے محروم رہے۔میں تواس بات پر ناراض ہوں کہ کوئی شخص حرف باطل زبان پر جاری کرے یا کسی ایسے امر کوفاسد کردے جس کی خدانے اصلاح کردی ہے۔لہٰذا جس بات کوتم نہیں جانتے ہو اس کو نظراندازکردو کہ شریر لوگ بڑی باتیں تم تک پہنچانے کے لئے اڑ کر پہنچاکریں گے ۔والسلام۔

(۷۹)

آپ کامکتوب گرامی

(خلاف کے بعد۔روساء لشکر کے نام)

امابعد! تم سے پہلے والے صرف اس بات سے ہلاک ہوگئے کہ انہوں نے لوگوں کے حق روک لئے اور انہیں رشوت دے کر خریدلیا اور انہیں باطل کا پابند بنایا تو سب انہیں کے راستوں پر چل پڑے ۔

۶۱۹

حكم أمير المؤمنينعليه‌السلام

باب المختار من حكم أمير المؤمنينعليه‌السلام ويدخل في ذلك المختار من أجوبه مسائله

والكلام القصير الخارج في سائر أغراضه

۱ - قَالَعليه‌السلام كُنْ فِي الْفِتْنَةِ كَابْنِ اللَّبُونِ - لَا ظَهْرٌ فَيُرْكَبَ ولَا ضَرْعٌ فَيُحْلَبَ.

بسمہ سبحانہ

امیر المومنین کے منتخب حکیمانہ کلمات

(اور اس باب میں سوالات کے جوبات اوران حکیمانہ کلمات کا انتخاب بھی شامل ہے جو مختلف اغراض کے تحت بیان کئے گئے ہیں )

(۱)

فتنہ وفساد کے زمانہ میں اس طرح رہو جس طرح دو سال کا اونٹنی کابچہ ہوتا ہے کہ نہ اس کی پشت سواری کے قابل ہوتی ہے اور نہ اس کے دوہنے کے لائق تھن ہوتے ہیں ۔

اس ارشاد کا مقصد فتنہ و فساد سے الگ رہ جانا نہیں ہے کہ یہ اسلام کے مجاہدانہ مزاج کے خلاف ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان اس قدر ہوشیار رہے کہ لوگ اسے استعمال نہ کرنے پائیں اور اس کے ذریعہ فتنہ کی ہوا کو تیز تر نہ کرنے پائیں ۔

۶۲۰