نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657133 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تھا ممکن ہے کہ وہ پہلے امیرالمومنین ؑ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہوں،اس امید پر کہ شاید اس کے بدلے میں امیرالمومنین ؑ انہیں معاف کردیں لیکن سابقہ روایت میں گذرچکا(کہ امیرالمومنین ؑ نے معاف کرنے کی ٹیڑھی شرط رکھ دی)تو جب عمر امیرالمومنین ؑ سے مایوس ہوگئے تو ان کے دل میں بدخیالی آئی(اور وہ جنت کے خواب دیکھنے لگے)انہوں نے امیرالمومنین ؑ کو اس جماعت میں قرار دیا جو دنیا کے بندے تھے اور خدا پر جسارت کرنےوالے تھے پھر ایسی کہ امیرالمومنین ؑ کی خلافت کے ہر راستے کو مسدود کردیا گیا اور کچھ ایسی تدبیر کی خلافت پھر عثمان ہی کے خاندان میں رہے اس خاندان میں جو حکومت کے لئےکچھ بھی کرسکتا تھا اور دنیا حاصل کرنے ے لئے کسی گناہ سے پرہیز نہیں کرتا تھا عمر کی تدبیر کا یہ منشا بھی یہی تھا کہ خلافت مولا علی ؑ اور آپ ک اہل بیت ؑ تک کبھی پہنچ ہی نہ سکے ۔

عمر نے یہ حرکت یا تو عثمان کی محبت میں کی تھی یا امیرالمومنین علیہ السلام کے اعراض کرنے کے لئے کہ ان کے دل میں آپ کی طرف سے بہت پرانا کینہ تھا یا اس لئے کہ آپ نے انہیں معاف نہیں کیا تھا یا اس لئے کہ وہ ڈ ر رہے تھے کہ حکومت اگر علی ؑ اور ان کے اہلبیت ؑ تک پہنچ گئی تو ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائےگی اور ان کی ناانصافی جو انہوں نے اہلبیت ؑ کے ساتھ کی تھی تا کہ حکومت ان تک نہ پہنچے تو ظاہر ہوجائےگی اور لوگ اہل بیت ؑ کی بات سننے لگیں گے ۔

بہرحال جو بھی ہو یہ روایت سچی ہو یا جھوٹی ایک بات تو سمجھ میں آرہی ہے کہ امیرالمومنین ؑ کو اہمیت دیکے خلافت کے معاملات سے خودبخود پردہ اٹھایا جارہا ہے اور یہ کہ لوگوں کے سامنے حکم الٰہی بالکل ظاہر تھا(اور سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مولا علی ؑ خلافت کے مستحق ہیں)اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں اور یہی باتیں امیرالمومنین ؑ کے لئے قوی تر مانع ہیں جو آپ کو اور اہل بیت ؑ کو غیروں کی خلافت کے اقرار سے روکتی ہیں اور خلیفہ غاصب کی شرعیت سے انکار کرتی ہیں کاش کہ انہیں اقرار کا حق ملا ہوتا ۔

۱۲۱

اسلام کی اعلی ظرفی اجازت نہیں دیتی کہ شریعت الٰہیہ کی پیروی قہر و غلبہ اور بزور کروائی جائے

ثانیاً ۔ اسلام کی اعلیٰ مزاجی اس کے پیغام کی بلندی اور مثالی تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ شریع الٰہیہ کی پیروی قوت کے ذریعہ کرائی جائے اور نہ اس کی اجازت دیتی ہے کہ حقدار اپنا حق زبردستی حاصل کرے جب کہ شریعت اسلامی میں خلافت الٰہیہ کا مقام بہت بلند اور بےپناہ قدامت و عظمت کا حامل ہے بخصوص قہر و غلبہ اور زور و زبردستی کی بدولت اپنے حق پر تسلط،حسد و غیرہ کی طرح نفسانی خواہشات کی پیروی اور پسندیدہ صفات اخلاقی کے منافی ہے جس کا تذکرہ دوسرے سوال کے جواب میں بھی کچھ حد تک کیا جاچکا ہے ۔

(اسلام کے بارے میں تو کم از کم یہ بات نہیں کہی جاسکتی)البتہ اسلام ہی کے معاصر اس وقت عرب میں دودین تھے یہودی اور نصرانی،ان کے بیان کے مطابق شریعت مقدسہ کی پابندی قہر و غلبہ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور دینی مناصب قوت کے ذریعہ حاصل کرنا جائز ہے لیکن یہ جواز بھی ان خرافاتی قصّوں کی بنیاد پر تھا جنہیں دین میں تحریف و تاویل کرکے بنایا گیا تھا اور انھیں باتوں کو وہ دونوں قومیں دین سمجھتی تھیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ہی دین چونکہ آسمانی تھے اس لئے حقیقت میں ان فضول باتوں سے پاک تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دین اسلام جیسا عظیم دین جو تمام ادیان کا خاتم ہے اور اپنی تشریع میں مثالیت اور ہر کمال کا جامع ہےس کے اندر یہ غلط بات جائز ہوجائے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ طے ہوگیا کہ ائمہ اہل بیت ؑ ہی امامت کے حق دار ہیں اور ان کے حق پر خدا کی طرف سے نص ہے جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں تو پھر ان حضرات کی طرف سے دونوں خلیفہ کی خلافت کے اقرار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور شریعت کی جانب داری کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں باتیں نص الٰہی کے منافی ہیں اور دونوں ہی باتیں اسلامی شریعت کے تقدس اور اس کی اعلی ظرفی اور مثالی کردار کو نقصان پہنچاتی ہیں ۔

۱۲۲

خلیفہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امت کے کاروبار کو چلانے کے لئے اپنا نائب بنائے

ہاں خلیفہ شرعی کو اس بات کا حق حاصل ہے یہ کہ وہ امت کے امور کی دیکھ ریکھ کے لئے خاص خاص شہروں میں یا خاص حالات کے تحت کسی کو اپنا نائب بنادے اسی طرح کہ یہ شخص اس کا نائب ہو اس کی زیرنگرانی ہو اور اس کا ماتحت ہو،لیکن خلیفہ وہی(مصوص من اللہ)رہےگا،یہ نیابت خلافت کا بدل ہرگز نہیں ہوگی کہ خلیفہ اس کے حق میں دست بردار ہوگیا ہو یا اس کو ہبہ کردیا ہو یا اس کے ہاتھوں خلافت کو بیج دیا ہو ۔

سب کو معلوم ہے کہ مذکورہ بالا معنی میں نیابت ان دونوں خلفا کو بہرحال حاصل نہیں تھی نہ کسی دوسرے خلیفہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی وہ لوگ تو بس خود ہی حکومت کے ولی بن بیٹھے تھے خود کو حاکم اور خلیفہ اور ائمہ اہل بیت ؑ کو اپنی رعایا اور محکوم سمجھتے تھے ۔

شیعہ اچھی طرح اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردا رنہیں ہوئے

شیعوں کو اس بات کی کامل بصیرت ہے کہ ائمہ اہل بیت ؑ اپنے حق سے دست بردار نہٰں ہوئے تھے بلکہ ان حضرات نے ہر دور میں اس بات کی شکایت کی ہے کہ ان کا حق غصب کرلیا گیا ہے اور ان پر ظلم کیا گیا ہے،ہر عہد میں وہ ظالموں کا انکار کرتے رہے،ان سے اظہار برائت کرتے رہے اور ان کی مخالفت میں بولتے رہے وہ لوگ اس اظہار برائت اور انکار کو دین واجب التُّمسُّک کا تتمّہ مانتے تھے اور نجات کو اس پر موقوف سمجھتے تھے اس بات کی تائید میں شیعوں نے اپنے اماموں سے بیشمار حدیثیں روایت کی ہیں جو استفاضہ کی حد اور تواتر کے مرتبے کو پہنچی ہوئی ہیں،نتیجے میں صورت

۱۲۳

حال یہ ہوگئی کہ یہ عقیدہ ان کے ضروریات دین میں شامل ہوگیا وہ اس میں نہ اختلاف کرتے ہیں نہ ہی اس عقیدے کو چھوڑنے پر تیار ہیں ۔

یہ دعویٰ کرنا کہ شیعہ اپنے اماموں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں کہاںتک حقیقت پر مبنی ہے؟

ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ دعویٰ کرے کہ شیعہ اپنے اماموں کی طرف جھوٹے افعال کی نسبت دیتے ہیں اس معاملے میں شیعہ خطاکار ہیں اور اماموں پر بہتان باندھتے ہیں یہ دعویٰ خاص طور سے ان لوگوں کا ہے جو شیعیت کے چہرے کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے اوپر بڑے بڑے گناہوں کی تہمت رکھتے ہیں لگتا ہے وہ لوگ دین اور حق کو پہچانتے ہی نہیں اور انہوں نے اپنے دینی عقیدے اور مسلک کی بنیاد محض افترا پردازی،گمراہی،بدعت اور خرافات پر رکھی ہے ۔

مذکورہ دعوی کی تردید اور شیعوں کی صداقت کے شواہد

حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ دعویٰ اس لئے ہے کہ شیعہ حق پر ہیں اور ان کی دلیلوں کی کوئی کاٹ دشمن کے پاس موجود نہیں ہے شیعوں نے اپنی دلیلوں کو ڈ ھال بناکے ان دشمنوں کی خُصومت برداشت کی اور ان کے تمام راستے بند کردیئے،مجبور ہو کے دشمنوں نے ہٹ دھرمی اور بہتان کا سہارا لیا تا کہ شیعوں کے لئے نفرت پیدا کرسکیں اور اتنی نفرت پیدا کردیں کہ ان کا دعویٰ اور ان کی دلیلوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دے ورنہ اگر ذوق جستجو رکھنےوالا انسان اپنے مسلمات و جذبات سے الگ ہو کے از نگاہ انصاف دیکھے اور دلائل و شواہد کا مطالعہ کرے تو شیعوں کی صداقت اس پر مشکوک نہیں رہےگی وہ سمجھ لےگا کہ شیعوں نے اپنے

۱۲۴

اماموں کی طرف کوئی جھوٹ نہیں منسوب کیا ہے اس لئے کہ شیعہ اماموں سے بہت محبت رکھتے ہیں بڑی عقیدت رکھتے ہیں ان کی سیرت کو مقام استدلال میں پیش کرتے ہیں اور ان کی سیرت سے سبق لےکے اسی پر زندگی گذراتے ہیں ۔

جھوٹ بولنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ شیعہ انھیں عقیدوں کی وجہ سے ہمیشہ بلاؤں کا سامنا کرتے رہے

1 ۔ اگر یہ باتیں ان کے اماموں سے صادر نہیں ہوتیں تو شیعہ ان باتوں کو محض افترا کے طور پر ان کی طرف منسوب نہیں کرتے،نہ انھیں دین سمجھ کے مانتے،نہ ان پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے اس لئے کہ محض جھوٹ اور افترا کے لئے بلائیں جھیلنے اور مصیبتیں اٹھانے پر کوئی تیار نہیں ہوتا ہے،شیعہ صرف انہیں عقائد کی وجہ سے شروع ہی سے دنیا بھر کی سختیاں جھیلتے رہے اور مصیبتیں اٹھاتے رہے ہیں ۔

پھر یہ سوچیئے کہ عقائد اور معلومات میں غلطی کب ہوتی ہے جب انسان مرکز سے دور ہو مثلاً انبیائے کرام ؐ کے بارے میں یا ان کی تعلیمات کے بارے میں غلطی کا امکان اس لئے ہے کہ انبیاء ؐ اور امت کے درمیان ہزاروں صدیوں کے پردے حائل ہیں صاحب دعوت اور مبشرین اور ان کی سیرت کے ناقلین کے درمیان ایک بُعد زمانی پایا جاتا ہے،لیکن شیعہ اور سنیوں کے اماموں کے درمیان اس بُعد زمانی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ یہ عقائد تو شیعوں کے یہاں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے دور ہی میں جانے پہچانے جاچکے تھے جیسا کہ ابھی پیش کئے جائیں گے ان عقیدوں کی مزید وضاحت شہادت حسین ؑ کے بعد ہوگئی اس لئے کہ ہمارے اماموں نے یہ سمجھ لیا کہ ابھی ہمیں سلطنت کا مطالبہ نہیں کرنا ہے اور مستقبل قریب میں حکومت ہمیں نہیں ملنےوالی ہے تو آپ حضرات نے شیعہ ثقافت کی تہذیب و تربیت پر بھرپور توجہ دی اور اپنے علوم و معارف کو شیعوں کے درمیان پھیلانا شروع کیا تا کہ شیعوں کا ایک ماحول اور شیعہ طرز زندگی کا ایک خاکہ لوگوں کے سامنے آجائے شیعہ عقائد

۱۲۵

ایسے دور میں سامنے آرہے تھے جس وقت شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ رہ رہے تھے انہیں یکے بعد دیگر اپنے ائمہ ؑ سے دوسو سال تک اختصاص حاصل رہا بلکہ غیبت صغریٰ کے زمانے کو بھی اس سے ملا لیا جائے تو یہ مدت اور بڑھ جاتی ہے جس میں شیعہ اپنے اماموں کے ساتھ وقت گذارتے رہے اور بلاواسطہ ان سے مستفید ہوت رہے پھر ملاوٹ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،میں نے غیبت صغریٰ سے نواب اربعہ کے توسط سے بہرحال لگاؤ بنا ہوا تھا دوسوستر( 270) سال تک شیعہ اپنے اماموں سے ملتے جلتے رہے پھر ممکن نہیں ہے کہ ہر امام کی کوئی رائے یا کوئی نظریہ ان کے شیعوں سے پوشیدہ رہا یا کوئی اختلاف پیدا ہوا ہو ۔

اگر شیعہ مفتری ہوتے تو ان کے امام ان سے الگ ہوجاتے

اگر شیعوں کے پاس ان کے معصوم اماموں کا بنایا ہوا مذہب نہ ہوتا بلکہ ان کا خود ساختہ مذہب ہوتا تو اماموں پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کا انکار کردیتے اور اگر شیعہ اپنے افترا اور بہتان پر اصرار کررہے ہوتے تو معصوم امام پر واجب تھا کہ وہ شیعوں کو چھوڑ دیتے انھیں خود سے دور کردیتے ان سے الگ ہوجاتے اور ان کے ساتھ مل جل کے ہرگز نہ رہتے جب کہ غلط کاروں کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی سلوک کیا،مثلاً امیرالمومنین علیہ السلام نے انھیں چھوڑ دیا جو آپ کی ذات میں غلو کرتے تھے،امام صادق علیہ السلام ابوالخطاب اور اس کی جماعت سے الگ ہوگئے بعد کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے بھی ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جو اماموں کے طریقوں سے الگ ہو کے اپنا راستہ بنارہے تھے اور معصوموں کی ذات کو ملوث کررہے تھے لیکن شیعوں کے ساتھ ان حضرات کا لگاؤ ہمیشہ بنارہا،آپ حضرات اپنے شیعوں کے ماحول میں پائے جاتے تھے شیعہ فرقہ ان سے طاقت حاصل کرتا رہا،ان کی محبت شیعوں کی پہیچان بن گئی،شیعہ انھیں کی طرف متوجہ رہے،ان کی خوشی میں خوش اور ان کے غم سے رنجیدہ،ان کی سیرت کے جویا اور ان کے طرز زندگی سے واقف ہونے کے لئے کوشاں،ان کے فقہ

۱۲۶

احادیث اور تعلیمات پر عمل پیراں رہے اور ان گرانقدر چیزوں کے اپنے مکتوبات اور کتابوں میں محافظ رہے،ان کی حدیث اور سیرت کا تذکرہ اپنی مجلسوں میں کرتے رہے،انہیں پر بھروسہ کرتے رہے اور ان کو اپنے لئے عزت کا سبب سمجھتے رہے بلکہ انھیں آثار و معالم کے ذریعہ دشمن پہ حملہ کرتے رہے۔

دنیا کا طریقہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے امام کی رائے اور خیالات کا علم اس امام کے اصحاب کے واسطے سے اور اس کے خاص لوگوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے پھر ائمہ اہل بیتؑ کے مذہب کا علم ان حضرات کے شیعوں کے واسطے سے کیوں نہیں ہوگا؟جب کہ یہ شیعہ ان حضرات کے آس پاس ہمیشہ موجود رہے،ان کے مخصوص افراد بنتے رہے اور ان کے افعال میں مدد کرتے رہے،یہ سلسلہ طویل مدت تک چلتا رہا اور سب کے سامنے یہ عمل ہوتا رہا جب کہ اس دور کے رئیسوں اور بادشاہوں سے شیعہ اتنے قریب نہیں تھے جتنا اپنے اماموں سے تھے۔

ائمہ اہل بیتؑ کی میراث کا تحفظ شیعوں ہی نے کیا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شیعہ ان حضرات سے مخصوص تھے

اس کے باوجود اگر کوئی ہٹ دھرم اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شیعہ اہل بیت ؑ کے اماموں سے مخصوص نہیں تھے اور ان سے مذہبی معاملات میں ہدایتیں نہیں لیتے تھے اور یہ کہ شیعوں نے اہل بیت ؑ سے جھوٹی حدیثیں منسوب کی ہیں تو میں اس سے کہوں گا کہ پھر ان دعاؤں(1) اور زیارتوں(2) کا کیا کرو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)جیسے دعائے کمیل،صباح،عشرات،نیز وہ دعائیں جو حضرت امیرالمومنینؑ سے مروی ہیں اور عرفہ کے دن امام حسینؑ کی دعا،صحیفہ سجادیہ کی دعائیں،دعائے افتتاح،ابوحمزہ ثمالی جو رمضان میں پڑھی جاتی ہے نیز باقی ماہ رمضان کے روز و شب اور سحر کی دعائیں اور رجب و شعبان کی دعائیں،شب جمعہ کی دعائیں نیز اس کے علاوہ بےشمار دعائیں،مضامین عالیہ جو اللہ کی تمجید سے متعلق ہے اور اس کی تقدیس اور ثناء سے متعلق ہے۔

(2)جیسے حضرت امیرالمومنینؑ کی زیارت جو(امین اللہ)کے نام سے معروف ہے اور آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں،زیارت وارثہ،نصب شعبان کی شب میں امام حسینؑ کے لئے نیز آپ کی باقی زیارتیں جو مختلف مناسبتوں سے پڑھی جاتی ہیں تمام ائمہؑ کے لئے زیارت جامعہ کبیرہ اور باقی معصومینؑ کی زیارتیں جو بلند و بالا مضامین کا دفتر ہے۔

۱۲۷

گے جو صرف شیعوں کے پاس ہیں اور ان کے اماموں سے مروی ہیں دعاؤں اور زیارتوں کی ایک بڑی مقدار ہے جو مختلف مواقع پر مختلف الفاظ میں ائمہ اہل بیت ؑ سے وارد ہوئی ہے وہ دعائیں اور زیارتیں حکمت،موعظہ،خطابت اور دوسرے مضامین عالیہ پر مشتمل ہیں جن کو پڑھ کے پتہ چلتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ہیں جو ائمہ اہل بیت ؑ کو حاصل تھیں اور علم الٰہی کے یہ خزانے صرف شیعوں کے پاس ہیں جو شیعوں کو دوسرے فرقوں سے ممتاز کرتے ہیں اس لئے کہ ان دعاؤں اور زیارتوں کی زبان اور ان کے مضامین پکار پکار کے کہہ رہے ہیں کہ یہ مضامین صرف وہی وارد کرسکتا ہے جس کو ادھر سے علم ملا ہے اور یہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں ہے ۔ نگاہ انصاف سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے شیعوں کو جو دعائیں ودیعت کیں یا جو زیارتیں وارد فرمائیں اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ شیعہ ان سے مخصوص تھے شیعوں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دینا ضروری سمجھا اور شیعہ ان کی رضا کے طالب اور ان کے پسندیدہ افراد تھے ۔

ورنہ یہ دعائیں اور زیارتیں سینوں کے پاس کیوں نہیں ہیں؟انہوں نے کیوں نہیں نقل کیا یا اگر نقل کیا تھا تو کیوں نہیں حفاظت سے رکھا اور اس کےحق کی رعایت کیوں نہیں کی؟(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)ہمعصر دینی مرجع سید شہاب الدین مرعشیؒ صحیفہ سجادیہ کے مقدمہ میں اپنی استدراک جو1361سنہ میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے اور ہم1353سنہگذار رہے ہیں میں نے اس کا ایک نسخہ علامہ معاصر شیخ جوہری طنطاوی کی خدمت میں ارسال کیا جو صاحب التفسیر بھی ہیں جس کی شہرت مفتی اسکندریہ کے نام سے ہوئی ہے تا کہ وہ مطالعہ کریں پھر انھوں نے صحیفہ پہنچنے کی قاہرہ سے مجھے اطلاع دی اور میرا اس گرانقدر ہدیہ پر شکریہ ادا کیا اور اس کی مدح و ثنا میں رطب اللسان ہوگئے یہاں تک کہ آپ نے کہا:اس وقت ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم اس اثر جاوید تک رسائی نہیں رکھتے جو نبوت اور اہل بیتؑ کی میراث کا ایک جزء ہے اور میں نے جتنا غور و خوض کیا اسے مخلوق کے کلام سے بالا اور خالق کے کلام کے بعد ہی پایا،پھر مجھے سے اس کے بارے میں سوال کیا کہ آیا علماء اسلام میں سے کسی نے اس کی شرح کی ہے پھر میں نے شارحین کے اسماء درج کئے جسے میں بھی جانتا تھا پھر میں نے ریاض السالکین سید علی خان کی خدمت پیش کیا تو انھوں نے بھی اس کے پہنچنے کی خبر دی،اور لکھا کہ میں عزم مصمم رکھتا ہوں کہ اس گرانقدر صحیفہ کی شرح کروں،اگر شیخ جوہری طنطاوی اپنی کثیر معلومات اور کثیر اطلاع کے باوجود اس صحیفہ سجادیہ سے بےخبر رہے جب کہ اس کی شہرت اور اس کا چرچا،مکتب خیال کے الگ ہونے کے باوجود شیعوں کے درمیان تھی تو پھر جو کم اطلاع رکھتے ہیں ان کے لئے کیسے ممکن ہے پھر ان کا کیا حال ہوگا جو صحیفہ سجادیہ سے کم رتبہ اور اہمیت کتاب رکھتے ہوں گے۔

۱۲۸

یہ بات ماننی پڑےگی کہ جس طرح قرآن مجید صداقت نبوت کی گواہی دیتا ہے اسی طرح یہ اور وضائف اس بات کی گوہی دیتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ؑ کو یہ نبی ؐ کی طرف سے میراث میں ملے ہیں اور شیعوں کو یہ علم ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف سے درحقیقت نبی ؐ کی ہدایت سے ملا ہے ۔ ائمہ اہل بیت ؑ کی واردہ کردہ دعاؤں اور زیارتوں کو دیکھئے پھر غور کیجئے کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی عظیم المرتبہ دعائیں اور اتنی معنی خیز زیارتیں شیعہ یا کوئی انسان اپنی طرف سے بنالے اور پھر اس کو اہل بیت ؑ کی طرف منسوب کردے،عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً یہ مشکل ہے کہ اتنے بڑے مجموعہ کی بنیاد کذب اور بہتان پر ہو اور ان ارشادت کو وارد کرنےوالا کوئی نہ ہو جو ان کو حق پر جمع کرسکے بلکہ حق تو یہ ہے کہ عادۃً ان دعاؤں کا صدور ائمہ اہل بیت ؑ کے علاوہ کسی سے بھی ناممکن ہے اس لئے کہ اہل بیت ؑ نبی کریم ؐ کے وارث ہیں اور انھوں نے سرکار سے علم لیا ہے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اہل بیت ؑ اطہار گفتگو کے بادشاہ تھے(1) اور انہیں کے پاس حکمت اور فصل خطاب تھا ۔(2) ایک طرف تو یہ علمی ذخیرہ شیعوں کی صداقت کا گواہ ہے اس لئے کہ شیعہ اس خزانے کے تنہا وارث ہیں اس خزانے کی معرفت شیعوں کو ہے اور اسی خزانے کی وجہ سے وہ عالم اسلام میں قابل عزت ہیں دوسری طرف یہ علمی خزانہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ شیعوں اپنے اماموں کی طرف جو نسبت دی ہے وہ سب کی سب صحیح ہے اور شیعہ اپنے اماموں سے مخصوص ہیں ان کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں،ان کے علوم و معارف کے حامل ہیں اور اماموں کی خاص عنایت کے مستحق ہیں شیعوں کو ان کے اماموں نے اپنے مقدس مبارک اور شریف علوم سے فیضیاب کیا ہے ۔

شیعوں کے کردار میں اماموں کے اخلاق کی جھلک

خیال وہ ہے جو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں امیرالمومنینؑ کی سوانح حیات میں لکھا ہے،وہ لکھتے ہیں جہاں تک وسعت اخلاق خندہ پیشانی،زندہ دلی،اور تبسم کا سوال ہے تو مولائے کائنات کی ان صفات میں مثال دی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ کے دشمن ان صفات حسنہ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:266 (2)بحارالانوارج:9ص:209،ج:28ص:53

۱۲۹

عیب کہہ کے پیش کرتے تھے،عمروعاص نے اہل شما سے کہا علی ؑ بہت زیادہ پر مذاق آدمی ہیں(ہنسنے ہنسانےوالا)حلانکہ عمروعاص کا یہ جملہ بھی اس کا نہیں ہے بلکہ اس کا نہیں ہے بلکہ اس نے یہ جملہ عمر بن خطاب سے لیا ہے،جب عمر نے مولا علی ؑ کو خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا تھا تو یہ کہا تھا کہ خدا تمہارے باپ کو بخشے اگر تم پر مذاق نہ ہوتے تو عمر تم ہی پر اقتصار کرتا عمروعاص نے اس میں کچھ اضافہ کیا ہے اور مقام مذمت میں وارد کیا ہے صعصعہ ابن صوحان اور آپ کے دوسرے شیعہ اور اصحاب آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ ؑ ہمارے درمیان ہم ہی جیسے بن کے رہتے تھے،نرم دل منکسر مزاج اور سہل القیادۃ تھے،پھر بھی ہم پر آپ کی ہیبت اس طرح طاری رہتی تھی جیسے ایک قطار میں بندھے ہوئے قیدیوں پر ان کے سامنے کوئی تلوار لےکے کھڑا ہو ۔

یہ اخلاق حسنہ آپ کے اولیا اور آپ کے چاہنےوالوں میں میراث کے طور پر منتقل ہوئے اور اب تک ان کے اندر باقی ہیں جس طرح آپ کے دشمنوں کو جفا بدروی اور بداخلاقی ان کے بزرگوں سے میراث میں ملی ہے اور اب تک باقی ہے جو اخلاقیات میں سطحی نظر بھی رکھتا ہے وہ اس فرق کو ضرر محسوس کرلےگا ۔(1)

ظاہر ہے کہ جب ائمہ اہل بیت ؑ کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ اپنے شیعوں کو اپنے اخلاق و کردار کے سانچے میں ڈ ھال سکتے تھے اور ان کے اندر اپنے اخلاق عالیہ کو منتقل کرسکتے تھے جیسے نرم دلی،وسعت اخلاق و غیرہ تو پھر ان کے اندر یہ صلاحیت بھی ماننی پڑےگی کہ وہ شیعوں کو امامت و خلافت کے بارے میں اپنے مذہب سے باخبر رکھتے اور انہیں حکم دیتے کہ وہ امامت کے معاملے میں ان کے مذہب کی پیروی کریں اور چونکہ شیعہ ذاتی طور پر ان حضرات سے متاثر تھے اور اخلاق میں ان کے نقش قدم پر چلتے تھے تو وہ بہرحال عقیدہ امامت و خلافت میں بھی ان کی پیروی کرتے تھے اور ان کے مزہب سے الگ نہیں تھے اس لئے کہ یہ تو ایک علمی مسئلہ تھا اور اس کا جان لینا اور مان لینا تو اخلاق و سیرت کی عملی پیروی سے زیادہ آسان ہے شیعہ ایک زمانے سے سنی بھائیوں کی بےرحمی ظلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)شرح نہج البلاغہ ج:1ص:25۔26،علیؑ کے ایک قول اور ان کے فضائل کا ذکر۔

۱۳۰

اور زیادتی جھیلتے چلے آرہے ہیں اس کے باوجود ان کے اندر اخلاقی وسعت طبیعت کی نرمی اور خوش خلقی پائی جاتی ہے ورنہ حالات کا تو تقاضا یہ تھا کہ وہ سنیوں کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ان کی طرف سے دل میں کینہ رکھتے اور ان سے بداخلاقی سے پیش آتے یہ صرف ائمہ اہل بیت ؑ کی سیرت کا اثر ہے کہ شیعہ دشمنی کینہ اور حسد جھیل رہے ہیں لیکن اپنے اماموں کی سیرت چھوڑنے پر تیار نہیں ۔

اہل سنت کی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے کنارہ کشی

حالات کا نگاہ انصاف سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلےگا کہ جمہور اہل سنت نے اپنے عقائد و ثقافت میں ائمہ اہل بیت ؑ سے کچھ نہیں لیا ہے اور ہمیشہ ان حضرات کو معزول سمجھا ہے،ہر دور میں سنی سماج چاہے عوام ہوں یا خواص،چاہے فقہا ہوں یا روات،سب کے سب اہل بیت سے ہمیشہ الگ رہے خاص طور سے متاخر،ائمہ ؑ کو سنیوں نے بالکل ہی نظرانداز کردیا جن کے دور میں شیعہ امامیہ کے عقائد اور معالم نکھر کر سامنے آئے اور شیعوں کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت ملی حالانکہ سنی حضرات اس تاریخی حقیقت سے انکار کی کوشش کرتے بہرحال اہل بیت ؑ کا احترام تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ انکار قابل قبول نہیں ہے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اصول دین میں یہ لوگ اشاعرہ،ماتریدی اور معتزلی فرقہ کی پیروی کرتے ہیں،جب کہ فروع میں مذہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب پر عمل کرتے ہیں وہ اپنے عقائد و فقہ میں سے کسی بات کو ائمہ اہل بیت ؑ کی طرف منسوب نہیں کرتے حلانکہ اہل بیت ؑ کی طرف سے فقہ و اصول اور اقوال جو بھی وارد ہوئے ہیں ان میں سے اکثر مذکورہ بالا فرقوں کے نظریہ سے بالکل ہی الگ ہیں ائمہ اہل بیت ؑ کی باتوں پر صرف ائمہ اہل بیت ؑ کے شیعہ عامل ہیں،سنی ان کو سرے سے نہیں مانتے ۔

شیعیان اہل بیت ع اور دشمنان اہل بیت ع کے بارے میں سنیوں کا نظریہ

جمہور اہل سنت کے ان لوگوں سے خوب دوستی کرتے ہیں جنہوں نے اہل بیت ع سے جنگ کی یا ان کو برا بھلا کہا ایسے افراد کا یہ لوگ بہت احترام کرتے ہیں ، ان کی غلط حرکتوں سے تجاہل برتتے ہوئے انہیں کی

۱۳۱

روایتوں سے احتجاج کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غلطیوں کی یا تو توجیہ کریں یا ان کی صفائی پیش کرکے ان کی طرف سے معذرت کرلیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اہل بیت ؑ کے شیعہ ایسے لوگوں سے ہمیشہ الگ رہے اور شروع ہی سے ان کی سخت مخالفت کی اور کڑا رویہ اپنایا(لیکن دشمنان اہل بیت ؑ کی حمایت)یہ حضرات صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کبھی اہل بیت ؑ کی پیروی نہیں کی ان سے کوئی سروکار نہیں رکھا اور اہل بیت ؑ کے نقش قدم پر اس طرح نہیں چلے جس طرح وہ اوّلین یعنی عمر،ابوبکر کے نقش قدم پر چلتے آئے اور انہوں نے اہل بیت ؑ سے ویسی محبت بھی کبھی نہیں کی جیسی ان دونوں سے وہ محبت کرتے رہے ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو اہل سنت کے خواص و عوام کے دل میں اہل بیت ؑ کی طرف سے جو کینہ ہے وہ ان کی تحریروں میں ظاہر بھی ہوگیا ہے،افسوس کی بات یہ ہے کہ جوش و جذبہ کے عالم میں انہوں نے اپنے دل کے حالات کھول کے بیان کردئے اور چھپانے کی کوشش کی مگر چھپا نہیں سکے ۔

ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں علما اہل سنت کے کچھ نظریے

1 ۔ علامہ ذہبی سُنّی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں،ابوجعفر محمد بن علی امام بھی تھے اور مجتہد بھی یعنی کتاب خدا کی تلاوت کرنےوالے،شان میں بڑے تھے،لیکن علم قرآن میں ان کا درجہ ابن کثیر اور ان کے جیسے علما تک نہیں پہنچتا تھا،فقہ میں وہ ابوزنا اور ربیعہ سے کم تھے اور سنت نبوی کی معرفت اور اس کا تحفظ ابن شہاب اور قتادہ سے کم درجہ پر تھا ۔(1)

افسوس!ذرا دنیا کی زبوں حالی اور پستی دیکھئے یہ لوگ کس سے مقابلہ کررہے ہیں حد ہوگئی کہ ایسے(نچلے طبقے کے)لوگ محمد باقر علیہ السلام سے افضل بتائے جارہے ہیں حالانکہ امام محمد باقر ؑ کے لئے آپ کے جد کی سیرت میں نمونہ عمل ہے امیرالمومنین ؑ فرمایا کرتے تھے کہ((میری ذات اوّل ہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سیرہ اعلام النبلاءج:4ص:402ترجمہ ابی جعفر باقر

۱۳۲

کے مقابلے میں مقام شک میں کب تھی کہ مجھے ایسے لوگوں کا مقارن بنایا جارہا ہے ۔(1)

2 ۔ اور سنیوں کے امام الحدیث بخاری،انہوں نے کبھی امام جعفر صادق علیہ السلام کی کسی حدیث سے احتجاج نہیں کیا اپنی صحیح میں آپ سے کوئی روایت بھی نہیں لی(2) حالانکہ مروان بن حکم(3) ( ملعون پیغمبر ؐ )اور عمران بن حطان(4) خارجی(جس نے مولیٰ امیرالمومنین علی ؑ کے قاتل ابن مجلم کی بڑی تعریف کی ہے اور ابن ملجم کو متقی پرہیزگار اور عنداللہ ماجور قرار دیا ہے)تک سے روایتیں لی ہیں ۔

امام بخاری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن اسود نے ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ:اگر جعفر ابن محمد کا معاملہ یہ ہے کہ اگر تم ان سے معافی مانگوگے تو وہ کوئی ہرج نہیں محسوس کریں گےاور اگر تم ان پر محمول کروگے تو وہ خود پر محمول کرلیں گے ۔(5)

3 ۔ یحییٰ بن سعید کہتا ہے کہ جعفر ابن محمد نے مجھے ایک لمبی حدیث لکھوائی وہ حدیث حج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:35

(2)تذکرۃ الحفاظ،ج:1ص:167،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،سیر اعلام النبلاءج:6ص:269

میزان الاعتدال،ج:2ص:144،امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات کے ضمن میں،المگنی فی الضعفاء،ص:134،تہذیب التہذیب ج:2ص:90امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں۔

(3)صحیح بخاری ج:1ص:265،کتاب صفۃ الصلاۃ،باب مغرب میں قرات کا بیان ج:2ص:567،کتاب الحج،حج تمتع افراد قرآن اور نسخ حج کے بیان میں اگر قربانی ہمراہ نہ ہو،ج:2ص:810،کتاب الوکالۃ باب اگر وکیل کو کوئی چیز ہبہ کردے یا قوم کے شفیع کو تو نبیؐ کے بقول جائز ہے جو آپ نے ہوازن گروہ کے جواب میں فرمایا تھا کہ انھوں غنیمتوں کے بارے میں سوال کیا تھا اس پر رسولؐ نے کہا میرا حصہ تمہارے لئے ہےج:3ص:1042،کتاب الجہاد و السیر،ج:3ص:1362،کتاب فضائل الصحابۃ،ج:4ص:1532،کتاب المغازی،غزوہ حدیبیہ کے باب میں ج:4ص:1677،کتاب التفسیر باب جنگ میں جانےوالوں راہ خدا میں جہاد کرنےوالوں کے برابر نہیں ہیں ج:5ص:2039،کتاب طلاق

(4)صحیح بخاری ج:5ص:کتاب اللباس ص:2194،ریشمی لباس کے باب ص:2220،باب نقص صور

(5)تاریخ کبیرج:2ص:198حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

۱۳۳

کے بارے میں تھی لیکن ان کی لکھوائی ہوئی حدیث کے خلاف میرے دل میں پھانس ہے میرے نزدیک مجالدان سے زیادہ پیارا ہے ۔(1)

4 ۔ ابوحاتم محمد بن حبان تمیمی نے امام صادق علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کا ان روایتوں سے احتجاج کیا جاسکتا ہے جو ان کی اولاد کے علاوہ لوگوں نے نقل کی ہیں،اس لئے کہ ان کی اولاد سے جو حدیثیں آئی ہیں ان میں تو بہت سے مناکیر(قابل انکار)باتیں ہیں،ہمارے اماموں میں سے جن لگوں نے ان کی اولاد کی حدیث دیکھی ہے وہی لوگ ان کے اقوال کو کمزور بتاتے ہیں(2)

حالانکہ آپ کی اولاد مسلمانوں میں سادات کا درجہ رکھتی ہے اور انہیں اولاد میں ائمہ اہل بیت ؑ بھی ہیں ۔

5 ۔ مصعب بن عبداللہ زبیری کہتے ہیں کہ مالک ابن انس جعفر بن محمد ؑ سے روایت لیتے تو تھے لیکن جب بلند مرتبہ راویوں کی حدیثیں لکھ لیتے تھے تو سب سے آخر میں امام جعفر صادق ؑ حدیث رکھتے تھے ۔(4)

6 ۔ احمد بن حنبل سے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں پوچھا گیا تو کہنے لگے ان سے یحییٰ نے روایت کی ہے لیکن انہیں کمزور بتایا ہے ۔(5)

7 ۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں،امام صادق علیہ السلام قابل اعتبار تھے،صاحب عقل تھے صاحب حکمت،بڑے پرہیزگار اور فاضل تھے،جعفری فقہ انھیں کی طرف منسوب ہے اور شیعہ امامیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(2)سیر اعلام النبلاءج:6ص:256،جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کی سوانح حیات میں،الکامل فی ضعفاءالرجال،ج:2ص:131۔132۔133،جعفر بن محمد صادقؑ کی سوانح حیات میں،اور کتاب نصب الرایۃ،ج:2ص:413،اور تہذیب التہذیب ج:2ص:88،

(4)تھذیب الکمال ج:5ص:76،حالات جعفر بن محمد الصادق،الکامل فی ضعفاءالرجال ج:2ص:131،حالات جعفر بن محمد الصادقؑ۔

(5)العلل و معرفۃ الرجال ص:52بحرم الدم ص:97

۱۳۴

انھیں کی فقہ پر عمل کرتے ہیں،لیکن شیعوں نے ان کے بارے میں بہت سے جھوٹ منسوب کر رکھے ہیں مجھے تو یاد نہیں ہے ابن عینیہ نے کہا ہے ان جھوٹی باتوں میں سے اس کے پاس کچھ محفوظ ہیں۔(1)

8۔ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صادقؑ کے بارے میں سعد نے کہا ہے کہ آپ کثیرالحدیث تو ہیں لیکن آپ کی روایتوں سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ وہ ضعیف راوی ہیں،ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا آپ نے یہ حدیثیں اپنے والد سے لی ہیں تو بولے ہاں پھر دوسری بار پوچھا گیا تو کہنے لگے میں نے اپنے والد کے مخطوطات میں دیکھا ہے۔(2)

9۔ابوحاتم نے حضرت امام ابوالحسن علی رضا علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے واجب ہے کہ ان کی حدیثوں کا اعتبار کیا جائے لیکن صرف ان حدیثوں کا جن کو ان کی اولاد یا ان کے شیعوں نے روایت نہیں کیا ہو،خاص طور سے ابوصلت نے۔(3)

حالانکہ امام رضا علیہ السلام کے صرف ایک ہی بیٹے تھے یعنی ابوجعفر محمد الجوادؑ۔

ابوحاتم کہتا ہے کہ ان کے صاحبزادے ان کے حوالے سے عجیب و غریب روایتیں بیان کرتے تھے اباصلت و غیرہ بھی عجائب کے راوی تھے لگتا ہے ان کو وہم ہوتا تھا یا غلطی کرتے تھے(4)

10۔ابن طاہر کہتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام اپنے آبا و اجداد کے حوالے سے عجائب بیان کیا کرتے تھے۔(5)

11۔نباتی نے امام رضا علیہ السلام کی طرف منسوب حدیث کا انکار کرتے ہوئے کہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)التمھید،ابن عبدالبرج ج:2ص:66،حالات جعفر بن محمد بن علیؑ،

(2)تھذیب التہذیب ج:2ص:88حالات جعفر بن محمد بن علیؑ

(3)الثقات ج:8ص:456حالات علی بن موسی رضاؑ

(4)المجروحین ج:2ص:106حالات علی بن موسی الرضاؑ،تھذیب التھذیب ج:7ص:339حالات علی بن موسی الرضا،سیرہ اعلام نبلاءج:9ص:389حالات علی الرضاؑ

(5)المغنی فی الضعفاء،ج:2ص:456،میزان الاعتدال ج:5ص:192حالات علی بن موسی الرضاؑ

۱۳۵

کہ جو ایسی حدیثوں کی روایت کرتا ہے ہمیں حق پہنچتا ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے اور ان سے بچا جائے۔(1)

12۔اور ابن خلدون نے بہت سخت باتیں لکھی ہیں،لکھتا ہے کہ اہل بیت کا مذہب بالکل اکیلا ہے جس کو انہوں نے بدعۃً ایجاد کیا ہے،ان کی فقہ منفرد ہے،ان کے مذہب کی بنیاد قدح صحابہ اور اپنے اماموں کی عصمت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اماموں میں اختلاف ہو ہی نہیں سکتا حالانکہ یہ سارے اصول بالکل واہیات ہیں اس طرح کی شاذ باتیں خوارج بھی کیا کرتے ہیں،ہمارے علما جمہور کا اس مذہب اور ایسے عقائد میں کوئی رول نہیں ہے بلکہ ہمارے علما نے ان عقائد سے شدت سے انکار کیا ہے اور بڑے پیمانے پر مخالفت کی ہے ہم ان کے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ ان سے کوئی روایت لیتے ہیں اسلامی ملکوں میں ان کے آثار بھی نہین پائے جاتے مگر ان کے وطن میں ملتے ہیں،شیعہ کتابیں ان کے ہی شہروں میں ملیں گی جہاں ان کو حکومت چل رہی ہے۔(2)

مذکورہ بالا بیان ابن خلدون کے قلم سے اگر چہ اہل بیتؑ کی دشمنی اور ان کے بغض میں ڈوب کے نکلا ہے بلکہ خود حضرت نبیؐ کی دشمنی میں ڈوبا ہوا ہے اس لئے کہ آپؐ نے ہی اہلبیتؑ کو اپنی امت کا مرجع قرار دیا تھا جو انہیں گمراہی اور ہلاکت سے بچانے کے ذمہ دار تھے لیکن ایک بات اس بیان سے بہرحال صاف ہوگئی وہ یہ کہ علما جمہور بلکہ جمہور اہل سنت کو اہل بیتؑ سے کوئی مطلب نہیں ہے یہ لوگ اہل بیتؑ سے ہمیشہ کنارہ کشی کرتے رہے۔

مذکورہ بالا بیان اس بات کی بھی شہادت دیتا ہے کہ شیعہ ہمیشہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے رہے انہیں اپنا امام سمجھتے رہے اور ان کی پیروی کرتے رہے جب کہ سنی ان پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہ لوگ خواہ مخواہ خود کو اہل بیتؑ سے منسوب کرتے ہیں اور جھوٹ باتیں منسوب کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تہذیب التہذیب ج:7ص:339،حالات علی بن موسی الرضّا

(2)مقدمہ ابن خلدون ج:1ص:446ساتویں فصل،علم فقہ اور اس کی اتباع و فرائض

۱۳۶

کاش میں سمجھ سکتا کہ جب یہ بڑے بڑے علما اہل بیتؑ کے لوگوں کو علم میں کمتر،حدیث میں ضعیف اور شاذ و غیرہ بتارہے ہیں تو وہ کون سے اہل بیتؑ تھے جنھیں نبیؐ نے(حدیث عترت و اہل بیت میں)گمراہی سے بچنے کا ذریعہ اور ہلاکت سے نجات کا وسیلہ بتایا تھا۔(1)

کسی بھی صاحب عقل کے لئے میرا یہ سوال قابل غور ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس سوال کے جواب سے انسان اطمینان بخش نتیجہ تک پہنچ سکے اور خدا کے سامنے عذر پیش کرنے کے لائق بن سکے اس دن جب وہ خدا کے سامنے کھڑا ہوگا،((یوم لا یغنی مولی عن مولی شیئاً ولا ہم ینصرون))(2)

ترجمہ آیت:((جس دن کوئی بھی دوست اپنے دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکےگا اور نہ ان کی مدد کی جائےگی))۔

ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں عام سنیوں کے کچھ نظریئے

عام اہل سنت بھی اہل بیتؑ کے بارے میں اپنے علما کی پیروی کرتے ہیں کبھی اپنے علما کا دفاع بھی کرتے ہیں اور کبھی عجیب و غریب انداز میں صفائیاں پیش کرتے ہیں لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے یعنی جب اہل بیتؑ کا معاملہ آتا ہے تو وہ بالکل الگ ہوجاتے ہیں اور شدت سے اہل بیتؑ سے کنارہ کشی کرتے ہیں،تاریخ کے واقعات اور مسلمان ملکوں کے حالات میرے مذکورہ بالا بیان پر شاہد ہیں۔

میں نمونے کے طور پر کچھ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

1۔ابن اثیر363سنہکے بغداد کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ابوتغلب بغداد کا کوتوال تھا کہ سرکشی کرنےوالے اور شرپسند عناصر نے بغداد کے مغربی علاقے میں فساد برپا کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)جیسا کہ حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ و غیرہ میں آیا ہے

(2)سورہ دخان آیت:41

۱۳۷

سنی شیعہ فساد شہر میں بہت تیزی سے پھوٹ پڑا،سوق طعام کے کچھ اہل سنت نے ایک عورت کو ناقہ پر بٹھا دیا اور اس کا نام عائشہ رکھا خود ان کے مردوں میں کسی کا نام طلحہ اور کسی کا نام زبیر رکھا گیا اور پھر دوسرے فرقے سے انہوں نے قتال شروع کیا اور کہنے لگے ہم علی بن ابی طالبؑ سے لڑرہے ہیں اسی طرح کی شرانگیز باتیں کرنے لگے۔(1)

ابن کثیر لکھتا ہے کہ عاشور کے دن بغداد میں رافضیوں کی طرح بہت سی شنیع(غلیظ)بدعتوں پر عمل کیا گیا اہل سنت اور رافضیوں کے درمیان ایک بڑا فتنہ ہوا دونوں ہی عقل سے کورے یا کم عقل تھے ان پر کسی کا کنٹرول نہیں تھا فتنہ یہ تھا کہ اہل سنت نے ایک عورت کو اونٹ پر بٹھایا اور اس کا نام عائشہ رکھا مردوں میں کسی نے اپنا نام طلحہ رکھا تو کسی نے زبیر اور کہنے لگے ہم علیؑ کیا صحاب سے جنگ کررہے ہیں نتیجہ میں بغداد کی گلیوں میں بہت خون بہا اور دونوں فرقوں میں سے بہت سے لوگ مارے گئے۔(2)

2۔جب جمہور اہل سنت نے دیکھا کہ وہ عزائے حسینؑ کو روکنے سے عاجز ہیں اور شیعوں کو حسین شہید پر ماتم کرنے سے نیہں روکا جاسکتا نہ آپ کی زیارت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے تو انہوں نے غم حسینؑ کی ضد میں ایسے طریقے قائم کئے جن سے ان کے رجحان فکر کا پتہ چلتا ہے،کاش کسی کی سمجھ میں یہ بات آجاتی کہ وہ شیعوں سے کہتے ہیں کہ ہم تم سے زیادہ حسینؑ اور اہل بیتؑ پر حق رکھتے ہیں پھر وہ اپنے طریقے پر عزائے مولا اور زیارت حسینؑ کا دستور بناتے اور اس طرح زیارت کرتے جو ان کے عقیدے کے مطابق ہوتا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے مقابلہ میں دشمنان اہل بیتؑ کی عزاداری قائم کی اور ان کی بزرگی کا اعلان کیا وہ مصعب ابن زبیر کا ماتم ٹھیک شیعوں کی طرح کرنے لگے اور جس طرح شیعہ حسینؑ مظلوم کی زیارت کرتے ہیں اسی طرح وہ مصعب ابن زبیر کی زیارت کرنے لگے یہ سلسلہ ان میں برسوں چلتا رہا۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکامل فی التاریخ ج:7ص:363،340سنہکے حادثات۔

(2)البدایہ و النھایہ ج:11ص:363،275سنہکے حادثات۔

(3)البدایہ و النھایہ ج:11ص:363،323،326سنہکے حادثات،الکامل فی التاریخ ج:8ص:363،10سنہکے حادثات

۱۳۸

ظاہر ہے کہ مصعب ابن زبیر کوئی ایسی شخصیت تو ہے نہیں کہ جس کا احترام کیا جائے نہ اس کی اندر ایسی کوئی صفت پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھا جائے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں نے مصعب ابن زبیر کا غم عزاداری کے لئے کیوں منتخب کیا،ایک بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ اور اس کے مسلک کے لوگ جو زبیریوں کے نام سے جانے جاتے ہیں اہل بیتؑ سے کھلی ہوئی دشمنی رکھتے تھے جمہور اہل سنت کے دل میں اہل بیتؑ سے جو کینہ اور بغض بھرا ہوا ہے اس کا مظاہرہ اسی طرح ہوسکتا تھا کہ کسی دشمن اہل بیتؑ کی عزاداری کا اہتمام کیا جائے اور انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے دل کینہ کا اظہار اس وسلیہ سے کیا۔

3۔ابن اثیر کے حوالہ سے عرض کرتا ہوں کہ شیعہ کے خلاف بغداد میں جو فتنہ اٹھا تھا وہ بھی اہل بیتؑ سے دشمنی کا ایک مظاہرہ تھا جو اہل سنت کی طرف سے کیا جارہا تھا اس فتنہ کا سبب یہ تھا کہ اہل کرخ(شیعوں)نے باب سماکین کو قلائین نے باب مسعود کی باقی ماندہ عمارت کو تعمیر کیا اور اس میں بہت سے گنبد بنائے ان گنبدوں پر سونے کے پانی سے ایک کتبہ لکھا کتبہ کا مضمون تھا(محمد و علی خیرالبشر)اہل سنت نے کہا یہ تحریر غلط ہے انہوں نے کہا کہ ان گنبدوں پر لکھا ہوا ہے:(محمد و علی خیر البشر فمن رضی فقد شکر و من ابیٰ فقد کفَرَ)یعنی محمد و علی خیر بشر ہیں جو اس پر راضی ہے اس نے شکر ادا کیا اور جو اس کا منکر ہے وہ کافر ہے،اہل کرخ(شیعہ)نے کہا ہم نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے ہم اپنی مسجدوں پر یہی لکھتے چلے آئے ہیں بات خلیفہ تک پہنچ گئی اس دور میں خلیفہ عباسی قائم بامراللہ تھا اس نے عباسیوں کے نقیب ابوتمام اور علویین کے نقیب عدنان بن رضی کو دریافت حال کے لئے بھیجا اور فتنہ کو روکنے کی بھی ہدایت کی یہ دونوں آئے حالات کا جائزہ لیا اور دونون نے شیعوں کے عمل کو صحیح قرار دیا اور ان کی تصدیق کی،خلیفہ نے حکم دیا اور نواب رحیم نے بھی کہ جنگ و جدال بند کردی جائے لیکن اہل سنت نے نہیں مانا،قاضی ابن مذہب زہری اور دوسرے حنبلیوں نے لکھا ہے ان میں عبدالصمد کے اصحاب بھی شامل ہیں کہ اہل سنت نے بہت طوفان مچایا اور

۱۳۹

شہر کے رئیس الرؤسا نے شیعوں پر بہت تشدد کیا آخر شیعوں نے اس کتبے سے خیرالبشر ہٹا کر وہاں علیہما السلام لکھ دیا لیکن سنی اس پر بھی راضی نہین ہوئے ان کا مطالبہ تھا کہ ہم وہ تختی ہی اکھیڑ دیں گے جس پر محمدؐ و علیؑ لکھا ہوا ہے اور یہ کہ شیعہ اذان میں(حی علیٰ خیر العمل)نہ پکاریں شیعوں نے یہ مطالبہ رد کردیا جس کی وجہ سے فتنہ بڑھتا رہا اور تین ربیع الاول تک آپس میں قتل و غارت اور حربیہ اور باب بصرہ کے علاوہ تمام سنی محلوں میں گھوم کر لوگوں کو اس کے خون کا بدلہ لینے پر ابھارتے رہے جب دفن کرکے واپس پلٹے تو مشہد کے باب سوم پر حملہ کردیا(کاظمین پر حملہ کردیا)لوگوں نے اس کا دروازہ بند کردیا تو انہوں نے دیوار میں نقب لگانی شروع کردی اور دربانوں کو ڈرایا،دھمکایا ان غریبوں نے مارے ڈر کے دروازے کھول دیئے یہ لوگ مشہد میں درّانہ گھسے اور تمام قندیلیں لوغ لیں،محرابوں میں جو کچھ سونا چاندی تھا سب کو لوٹ لیا،سارے پردے لوٹ لئے،تربت اور دیواروں پر جو قیمتی سامان تھے وہ بھی لوٹ لیا یہاں تک کہ راہ ہوگئی تو یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس ہوئے،دوسرے دن پہلے سے زیادہ(بڑا)مجمع آیا اور مشہد(کاظمین)میں آگ لگادی گئی سارے کمروں میں اور برامدوں کو جلا ڈالا،موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی علیہما السلام کی ضریح میں آگ لگادی اور ان دونوں قبوں میں بھی آگ لگادی جو ان کی ضریح کے اوپر بنائے گئے تھے پھر اس ضریح کے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا دیا اور اتنے گندم کام کئے کہ اس سے پہلے دنیا میں ایسے کام نہیں ہوئے تھے۔

(ربیع الاوّل)مہینہ کی پانچویں تاریخ کو وہ لوگ پھر آئے اور دونوں مظلوم اماموں(یعنی موسیٰ بن جعفر اور محمد بن علی رضا علیہما السلام)کی قبر کھودنی شروع کی تا کہ دونوں حضرات کے جسم اطہر کو حنبلیوں کے قبرستان میں لے جائیں لیکن ملبہ بہت تا اس لئے نشان قبر نہیں پاسکے تو پھر آس پاس میں نقب لگا کے قبر تک پہنچنا چاہا عباسیوں کے نقیب ابوتمام نے جب یہ حرکت دیکھی اور دوسرے ہاشمیوں اور کچھ سنیوں کو یہ خبر ملی تو وہ لوگ آئے اور اپنے لوگوں کو اس فعل قبیح سے روکا۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الکام فی التاریخ ج:8ص:301۔302بغداد میں جو جھگڑا ہوا اور مشہد کو جلایا یہ حادثہ سال443سنہمیں ہوا۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

أَوْ كَمَا يَتَقَشَّعُ السَّحَابُ - فَنَهَضْتُ فِي تِلْكَ الأَحْدَاثِ حَتَّى زَاحَ الْبَاطِلُ وزَهَقَ - واطْمَأَنَّ الدِّينُ وتَنَهْنَه ومِنْه: إِنِّي واللَّه لَوْ لَقِيتُهُمْ وَاحِداً وهُمْ طِلَاعُ الأَرْضِ كُلِّهَا - مَا بَالَيْتُ ولَا اسْتَوْحَشْتُ - وإِنِّي مِنْ ضَلَالِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيه - والْهُدَى الَّذِي أَنَا عَلَيْه - لَعَلَى بَصِيرَةٍ مِنْ نَفْسِي ويَقِينٍ مِنْ رَبِّي - وإِنِّي إِلَى لِقَاءِ اللَّه لَمُشْتَاقٌ - وحُسْنِ ثَوَابِه لَمُنْتَظِرٌ رَاجٍ - ولَكِنَّنِي آسَى أَنْ يَلِيَ أَمْرَ هَذِه الأُمَّةِ سُفَهَاؤُهَا وفُجَّارُهَا - فَيَتَّخِذُوا مَالَ اللَّه دُوَلًا وعِبَادَه خَوَلًا - والصَّالِحِينَ حَرْباً والْفَاسِقِينَ حِزْباً - فَإِنَّ مِنْهُمُ الَّذِي قَدْ شَرِبَ فِيكُمُ الْحَرَامَ - وجُلِدَ حَدّاً فِي الإِسْلَامِ - وإِنَّ مِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُسْلِمْ حَتَّى رُضِخَتْ لَه عَلَى الإِسْلَامِ الرَّضَائِخُ - فَلَوْ لَا ذَلِكَ مَا أَكْثَرْتُ تَأْلِيبَكُمْ وتَأْنِيبَكُمْ - وجَمْعَكُمْ وتَحْرِيضَكُمْ -

دمک ختم ہوجاتی ہے با آسمان کے بادل چھٹ جاتے ہیں تو میں نے ان حالات میں قیام کیا یہاں تک کہ باطل زائل ہوگیا۔اوردین مطمئن(۱) ہو کراپنی جگہ پر ثابت ہوگیا۔

خداکی قسم اگرمیں تن تنہا ان کے مقابلہ پر نکل پڑوں اور ان سے زمین چھلک رہی ہو تو بھی مجھے فکر اوروحشت نہ ہوگی کہ میں ان کی گمراہی کے بارے میں بھی اور اپنے ہدایت یافتہ ہونے کے بارے میں بھی بصیرت رکھتا ہوں اورپروردگار کی طرف سے منزل یقین پر بھی ہوں اور میں لقائے الٰہی کا اشتیاق بھی رکھتا ہوں اور اس کے بہترین اجرو ثواب کا منتظر اورامید وار بھی ہوں۔لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ امت کی زمام احمقوں اورفاجروں کے ہاتھ میں چلی جائے اور وہ مال خدا کو اپنی املاک اورب ندگان خدا کو اپنا غلام بنالیں نیک کرداروں سے جنگ کریں اورفاسقوں کواپنی جماعت میں شامل کرلیں ۔جن میں وہ بھی شامل ہیں جنہوںنے تمہارے سامنے شراب پی ہے اور ان پر اسلام میں حد جاری ہو چکی ہے اوربعض وہ بھی ہیں کہ جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے جب تک انہیں فوائد نہیں پیش کردئیے گئے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تمہیں اس طرح جہاد کی دعوت نہ دیتا اورسرزنش نہ کرتا اور قیام پرآمادہ نہ کرتا بلکہ

(۱)صورت حال یہ تھی کہ امت نے پیغمبر (ص) کے بتائے ہوئے راستہ کونظرانداز کردیا اور ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی لیکن امیر المومنین کی مشکل یہ تھی کہاگر مسلمانوں میں جنگ وجدال کاسلسلہ شروع کردیتے ہیں تو مسیلمہ کذاب اور طلحہ جیسے مدعیان نبوت کو موقع مل جائے گا اوروہ لوگوں کو گمراہ کرکے اسلام سے منحرف کردیں گے اس لئے آپ نے سکوت اختیار فرمایا اور خلافت کے بارے میں کوئی بحث نہیں کی لیکن جب مرتدوں کے ہاتھوں اسلام کی تباہی کامنظر دیکھ لیا تومجبوراً باہرنکل آئے کہ بالآخر اپنے حق کی بربادی پر سکوت اختیار کیا جاسکتا ہے۔اسلام کی بربادی پر صبر نہیں کیا جاسکتاہے ۔

۶۰۱

ولَتَرَكْتُكُمْ إِذْ أَبَيْتُمْ ووَنَيْتُمْ

أَلَا تَرَوْنَ إِلَى أَطْرَافِكُمْ قَدِ انْتَقَصَتْ - وإِلَى أَمْصَارِكُمْ قَدِ افْتُتِحَتْ - وإِلَى مَمَالِكِكُمْ تُزْوَى وإِلَى بِلَادِكُمْ تُغْزَى - انْفِرُوا رَحِمَكُمُ اللَّه إِلَى قِتَالِ عَدُوِّكُمْ - ولَا تَثَّاقَلُوا إِلَى الأَرْضِ فَتُقِرُّوا بِالْخَسْفِ - وتَبُوءُوا بِالذُّلِّ ويَكُونَ نَصِيبُكُمُ الأَخَسَّ - وإِنَّ أَخَا الْحَرْبِ الأَرِقُ ومَنْ نَامَ لَمْ يُنَمْ عَنْه والسَّلَامُ.

(۶۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أبي موسى الأشعري وهو عامله على الكوفة، وقد بلغه عنه تثبيطه الناس عن الخروج إليه لما ندبهم لحرب أصحاب الجمل.

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى عَبْدِ اللَّه بْنِ قَيْسٍ.

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ بَلَغَنِي عَنْكَ قَوْلٌ هُوَ لَكَ وعَلَيْكَ - فَإِذَا قَدِمَ رَسُولِي عَلَيْكَ فَارْفَعْ ذَيْلَكَ - واشْدُدْ مِئْزَرَكَ واخْرُجْ مِنْ جُحْرِكَ وانْدُبْ مَنْ مَعَكَ - فَإِنْ حَقَّقْتَ فَانْفُذْ وإِنْ تَفَشَّلْتَ فَابْعُدْ - وايْمُ اللَّه لَتُؤْتَيَنَّ مِنْ حَيْثُ أَنْتَ

تمہیں تمہارے حال پرچھوڑ دیتا کہ تم سرتابی بھی کرتے ہواورسست بھی ہو۔ کیا تم خود نہیں دیکھتے ہو کہ تمہارے اطراف کم ہوتے جا رہے ہیں۔اور تمہارے شہروں پر قبضہ ہوا جا رہا ہے۔تمہارے ممالک کو چھینا جا رہا ہے اور تمہارے علاقوں پر دھاوابولا جا رہا ہے۔خدا تم پررحم کرے اب دشمن سے جنگ کے لئے نکل پڑو اورزمین سے چپک کر نہ رہ جائو ورنہ یوںہی ذلت کاشکار ہوگے ظلم سہتے رہوگے اور تمہارا حصہ انتہائی پست ہوگا۔اوریاد رکھو کہ جنگ آزما انسان ہمیشہ بیدار رہتا ہے اور اگر کوئی شخص سو جاتا ہے تواس کا دشمن ہرگز غافل نہیں ہوتا ہے ۔والسلام!

(۶۳)

آپ کا مکتوب گرامی

(کوفہ کے عامل ابو موسیٰ اشعری کے نام۔جب یہ خبر ملی کہ آپ لوگوں کوجنگ جمل کی دعوت دے رہے ہیں اور وہ روک رہا ہے )

بندہ خدا !امیر المومنین علی کاخط عبداللہ بن قیس کے نام

امابعد! مجھے ایک ایسے کلام کی خبرملی ہے جو تمہارے حق میں بھی ہو سکتا ہے اور تمہارے خلاف بھی۔ لہٰذا اب مناسب یہی ہے کہ میرے قاصد کے پہنچتے ہی دامن سمیٹ لو اور کمر کس لو اور فوراً بل سے باہرنکل آئو۔ ار اپنے ساتھیوں کو بھی بلالو۔اس کے بعد حق ثابت ہو جائے تو کھڑے ہو جائو اورکمزوری دکھلانا ہے تو میری نظروں سے دور ہوجائو خداکی قسم تم جہاں رہو گے گھیر کرلائے جائو گے

۶۰۲

ولَا تُتْرَكُ حَتَّى يُخْلَطَ زُبْدُكَ بِخَاثِرِكَ - وذَائِبُكَ بِجَامِدِكَ - وحَتَّى تُعْجَلُ عَنْ قِعْدَتِكَ - وتَحْذَرَ مِنْ أَمَامِكَ كَحَذَرِكَ مِنْ خَلْفِكَ - ومَا هِيَ بِالْهُوَيْنَى الَّتِي تَرْجُو - ولَكِنَّهَا الدَّاهِيَةُ الْكُبْرَى - يُرْكَبُ جَمَلُهَا ويُذَلَّلُّ صَعْبُهَا ويُسَهَّلُ جَبَلُهَا - فَاعْقِلْ عَقْلَكَ وامْلِكْ أَمْرَكَ وخُذْ نَصِيبَكَ وحَظَّكَ - فَإِنْ كَرِهْتَ فَتَنَحَّ إِلَى غَيْرِ رَحْبٍ ولَا فِي نَجَاةٍ - فَبِالْحَرِيِّ لَتُكْفَيَنَّ وأَنْتَ نَائِمٌ حَتَّى لَا يُقَالَ أَيْنَ فُلَانٌ - واللَّه إِنَّه لَحَقٌّ مَعَ مُحِقٍّ ومَا أُبَالِي مَا صَنَعَ الْمُلْحِدُونَ - والسَّلَامُ.

(۶۴)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية جوابا

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّا كُنَّا نَحْنُ وأَنْتُمْ عَلَى مَا ذَكَرْتَ

اورچھوڑے نہیں جائو گے یہاں تک کہ دودھ مکھن ساتھ اورپگھلا ہوامنجد کے ساتھ مخلوط ہو جائے اور تمہیں اطمینان سے بیٹھنا نصیب نہ ہوگا اور سامنے سے اس طرح ڈرو گے جس طرح اپنے پیچھے سے ڈرتے ہو۔اور یہ کام اس قدر آسان نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہے ہو۔یہ ایک مصیبت کبریٰ ہے جس کے اونٹ پر بہرحال سوار ہونا پڑے گا اور اس کی دشواریوں کو ہموار کرنا پڑے گا اور اس کے پہاڑ کو سرکرنا۔پڑے گا لہٰذا ہوش کے ناخن لو اورحالات پر قابو رکھو اور اپنا حصہ حاصل کرلو اور اگر یہ بات پسند نہیں ہے توادھر چلے جائو جدھر نہ کوئی آئو بھگت ہے اورنہ چھٹکارے کی صورت۔اوراب مناسب یہی ہے کہ تمہیں بیکار سمجھ کرچھوڑ دیا جائے کہ سوتے رہو اور کوئی یہ بھی نہ دریافت کرے کہ فلاں شخص کدھر چلا گیا خدا کی قسم یہ حق پرست کاواقعی اقدام ہے اور مجھ بے دینوں کے اعمال کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔والسلام!

(۶۴)

آپ کا مکتوب گرامی

(معاویہ کے جواب میں )

امابعد! یقینا ہم(۱) اور تم اسلام سے پہلے ایک ساتھ

(۱)معاویہ نے حسب عادت اپنے اس خط میں چند مسائل اٹھائے تھے ۔ایک مسئلہ یہ تھا کہ ہم دونوں ایک خاندان کے ہیں تو اختلاف کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ اختلاف اسی دن شروع ہوگیا تھا جب ہم دائرہ اسلام میں تھے اورتم کفرکی زندگی گزار رہے تھے ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ جنگ جمل کی ساری ذمہ داری امیر المومنین پر ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا مسئلہکا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذااس کے اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا مسئلہ اپنے لشکر کے مہاجرین و انصار میں ہونے کا تھا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ہجرت فتح مکہ کے بعد ختم ہوگئی اور فتح مکہ میںتیرا بھائی گرفتار ہوچکا ہے ۔جس کے بعد تیرے ساتھی اولاد طلقاء تو ہو سکتے ہیں۔مہاجرین کہے جانے کے قابل نہیں ہیں۔

۶۰۳

مِنَ الأُلْفَةِ والْجَمَاعَةِ - فَفَرَّقَ بَيْنَنَا وبَيْنَكُمْ أَمْسِ أَنَّا آمَنَّا وكَفَرْتُمْ - والْيَوْمَ أَنَّا اسْتَقَمْنَا وفُتِنْتُمْ - ومَا أَسْلَمَ مُسْلِمُكُمْ إِلَّا كَرْهاً - وبَعْدَ أَنْ كَانَ أَنْفُ الإِسْلَامِ كُلُّه لِرَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حِزْباً.

وذَكَرْتَ أَنِّي قَتَلْتُ طَلْحَةَ والزُّبَيْرَ - وشَرَّدْتُ بِعَائِشَةَ ونَزَلْتُ بَيْنَ الْمِصْرَيْنِ - وذَلِكَ أَمْرٌ غِبْتَ عَنْه فَلَا عَلَيْكَ ولَا الْعُذْرُ فِيه إِلَيْكَ.

وذَكَرْتَ أَنَّكَ زَائِرِي فِي الْمُهَاجِرِينَ والأَنْصَارِ - وقَدِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ يَوْمَ أُسِرَ أَخُوكَ - فَإِنْ كَانَ فِيه عَجَلٌ فَاسْتَرْفِه - فَإِنِّي إِنْ أَزُرْكَ فَذَلِكَ جَدِيرٌ - أَنْ يَكُونَ اللَّه إِنَّمَا بَعَثَنِي إِلَيْكَ لِلنِّقْمَةِ مِنْكَ - وإِنْ تَزُرْنِي فَكَمَا قَالَ أَخُو بَنِي أَسَدٍ:

مُسْتَقْبِلِينَ رِيَاحَ الصَّيْفِ تَضْرِبُهُمْ

بِحَاصِبٍ بَيْنَ أَغْوَارٍ وجُلْمُودِ

وعِنْدِي السَّيْفُ الَّذِي أَعْضَضْتُه بِجَدِّكَ - وخَالِكَ وأَخِيكَ فِيمَقَامٍ وَاحِدٍ - وإِنَّكَ واللَّه مَا عَلِمْتُ الأَغْلَفُ الْقَلْبِ

زندگی گزار رہے تھے لیکن کل یہ تفرقہ پیدا ہوگیا کہ ہم نے ایمان کا راستہ اختیار کرلیا اور تم کافر رہ گئے اورآج یہ اختلاف ہے کہ ہم راہ حق پر قائم ہیں اورتم فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہو۔تمہاا مسلمان بھی اس وقت مسلمان ہوا ہے جب مجبوری پیش آگئی اور سارے اشراف عرب اسلام میں داخل ہوکر رسول اکرم (ص) کی جماعت میں شامل ہوگئے ۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں نے طلحہ و زبیر کو قتل کیا ہے اورعائشہ کو گھر سے باہر نکال دیا ہے اور مدینہ چھوڑ کر کوفہ اوربصرہ میں قیام کیا ہے تو اس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نہ تم پر کوئی ظلم ہوا ہے اورنہ تم سے معذرت کی کوئی ضرور ت ہے۔

اور تمہارا یہ کہنا کہ تم مہاجرین و انصارکے ساتھ میرے مقابلہ پرآرہے ہو تو ہجرت تو اس دن ختم ہوگئی جب تمہارا بھائی گرفتار ہواتھا اور اگر کوئی جلدی ہے تو ذرا انتظار کرلو کہ میں تم سے خود ملاقات کرلوں اوریہی زیادہ مناسب بھی ہے کہ اس طرح پروردگار مجھے تمہیں سزا دینے کے لئے بھیجے گا اوراگر تم خودبھی آگئے تو اس کا انجام ویسا ہی ہوگا جیسا کہ بنی اسد کے شاعرنے کہا تھا :

''وہ موسم گرما کی ایسی ہوائوں کا سامنا کرنے والے یں جو نشینوں اورچٹانوں میں ان پر سنگریزوں کی بارش کر رہی ہیں ''

اورمیرے پاس وہی تلوار ہے جس سے تمہارے نانا ماموںاوربھائی کو ایک ٹھکانے تک پہنچا چکا ہوں اور تم خدا کی قسم میرے علم کے مطابق وہ شخص جس کے دل پر

۶۰۴

الْمُقَارِبُ الْعَقْلِ - والأَوْلَى أَنْ يُقَالَ لَكَ - إِنَّكَ رَقِيتَ سُلَّماً أَطْلَعَكَ مَطْلَعَ سُوءٍ عَلَيْكَ لَا لَكَ - لأَنَّكَ نَشَدْتَ غَيْرَ ضَالَّتِكَ ورَعَيْتَ غَيْرَ سَائِمَتِكَ - وطَلَبْتَ أَمْراً لَسْتَ مِنْ أَهْلِه ولَا فِي مَعْدِنِه - فَمَا أَبْعَدَ قَوْلَكَ مِنْ فِعْلِكَ - وقَرِيبٌ مَا أَشْبَهْتَ مِنْ أَعْمَامٍ وأَخْوَالٍ - حَمَلَتْهُمُ الشَّقَاوَةُ وتَمَنِّي الْبَاطِلِ عَلَى الْجُحُودِ بِمُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَصُرِعُوا مَصَارِعَهُمْ حَيْثُ عَلِمْتَ - لَمْ يَدْفَعُوا عَظِيماً ولَمْ يَمْنَعُوا حَرِيماً - بِوَقْعِ سُيُوفٍ مَا خَلَا مِنْهَا الْوَغَى - ولَمْ تُمَاشِهَا الْهُوَيْنَى

وقَدْ أَكْثَرْتَ فِي قَتَلَةِ عُثْمَانَ - فَادْخُلْ فِيمَا دَخَلَ فِيه النَّاسُ ثُمَّ حَاكِمِ الْقَوْمَ إِلَيَّ - أَحْمِلْكَ وإِيَّاهُمْ عَلَى كِتَابِ اللَّه تَعَالَى - وأَمَّا تِلْكَ الَّتِي تُرِيدُ - فَإِنَّهَا خُدْعَةُ الصَّبِيِّ عَنِ اللَّبَنِ فِي أَوَّلِ الْفِصَالِ - والسَّلَامُ لأَهْلِه.

غلاف چڑھا ہوا ہے اور جس کی عقل کمزور ہے اور تمہارے حق میں مناسب یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے کہ تم ایسی سیڑھی چڑ گئے ہوجہاں سے بد ترین منظر ہی نظر آتا ہے کہ تم نے دوسرے کے گم شدہ کی جستجو کی ہے اوردوسرے کے جانور کو چرانا چاہا ہے اور ایسے امر کو طلب کیا ہے جس کے نہ اہل ہو اور نہ اس سے تمہارا کوئی بنیادی لگائو ہے۔تمہارے قول وفعل میں کس قدر فاصلہ پایا جاتا ہے اورتم اپنے چچا اور ماموں سے کس قدرمشابہ ہو جن کو بد بختی اور باطل کی تمنائے پیغمبر (ص) کے انکار پرآمادہ کیا اور اس کے نتیجہ میں اپنے اپنے مقتل میں مر مر کرگرے جیسا کہ تمہیں معلوم ہے۔نہ کسی مصیبت کو دفع کر سکے اور نہ کسی حریم کی حفاظت کرسکے۔ان تلواروں کی مار کی بناپ ر جن سے کوئی میدان جنگ خالی نہیں ہوتا اور جن میں سستی کا گزر نہیں ہے۔

اورت منے جو بار بار عثمان کے قاتلوں کاذکر کیا ہے تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ جس طرح سب نے بیعت کی ہے پہلے میری بیعت کرو۔اس کے بعد میرے پاس مقدمہ لے کرآئو۔میں تمہیں اورتمہارے مدعا علیہم کو کتاب خدا کے فیصلہ پرآمادہ کروں گا لیکن اس کے علاوہ جو تمہارا مدعا ہے وہ ایک دھوکہ ہے جوبچہ کو دودھ چھڑاتے وقت دیا جاتا ہے۔اور سلام ہو اس کے اہل پر۔

۶۰۵

(۶۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إليه أيضا

أَمَّا بَعْدُ - فَقَدْ آنَ لَكَ أَنْ تَنْتَفِعَ بِاللَّمْحِ الْبَاصِرِ مِنْ عِيَانِ الأُمُورِ - فَقَدْ سَلَكْتَ مَدَارِجَ أَسْلَافِكَ بِادِّعَائِكَ الأَبَاطِيلَ، واقْتِحَامِكَ غُرُورَ الْمَيْنِ والأَكَاذِيبِ وبِانْتِحَالِكَ مَا قَدْ عَلَا عَنْكَ - وابْتِزَازِكَ لِمَا قَدِ اخْتُزِنَ دُونَكَ - فِرَاراً مِنَ الْحَقِّ - وجُحُوداً لِمَا هُوَ أَلْزَمُ لَكَ مِنْ لَحْمِكَ ودَمِكَ - مِمَّا قَدْ وَعَاه سَمْعُكَ - ومُلِئَ بِه صَدْرُكَ - فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ الْمُبِينُ - وبَعْدَ الْبَيَانِ إِلَّا اللَّبْسُ - فَاحْذَرِ الشُّبْهَةَ واشْتِمَالَهَا عَلَى لُبْسَتِهَا - فَإِنَّ الْفِتْنَةَ طَالَمَا أَغْدَفَتْ جَلَابِيبَهَا - وأَغْشَتِ الأَبْصَارَ ظُلْمَتُهَا.

وقَدْ أَتَانِي كِتَابٌ مِنْكَ ذُو أَفَانِينَ مِنَ الْقَوْلِ - ضَعُفَتْ قُوَاهَا عَنِ السِّلْمِ

(۶۵)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ ہی کے نام)

امابعد! اب وقت آگیا ہے کہ تم امور کامشاہدہ کرنے کے بعد ان سے فائدہ اٹھالو کہ تم نے باطل دعویٰ کرنے ۔جھوٹ اور غلط بیانی کے فریب میں کود پڑنے ۔جوچیز تمہاری اوقات سے بلند ہے اسے اختیار کرنے اور جو تمہارے لئے ممنوع ہے اس کو ہتھیار لینے میں اپنے اسلاف کا راستہ اختیارکرلیا ہے اور اس طرح حق سے فرار اورجوچیز گوشت وخون سے زیادہ تم چمٹی(۱) ہوئی ہے اس کا انکار کرنا چاہتے ہو جسے تمہارے کانوں سے سنا ہے اورتمہارے سینے میں بھری ہوئی ہے۔تواب حق کے بعد کھلی ہوئی گمراہی کے علاوہ کیا باقی رہ جاتا ہے۔اور وضاحت کے بعد دھوکہ کے علاوہ کیا ہے۔لہٰذا شبہ اور اس کے دسیسہ کاری پرمشتمل ہونے سے ڈرو کہ فتنہ ایک مدت سے اپنے دامن پھیلائے ہوئے ہے اوراس کی تاریکی نے آنکھوں کواندھا بنا رکھا ہے ۔

میرے پاس تمہارا وہ خط آیا ہے جس میں طرح طرح کے بے جوڑ باتیں پائی جاتی ہیں اور ان سے کسی صلح و

(۱)ابن ابی الحدید کا بیان ہے کہ معاویہ روزغدیر موجود تھا جب سرکار دو عالم (ص) نے حضرت علی کے موائے کائنات ہونے کا اعلان کیا تھااور اسنے اپنے کانوں سے سنا تھا اور اسی طرح روز تبوک بھی موجود تھا جب حضرت نے اعلان کیا تھا کہ علی کامرتبہ وہی ہے جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ ہے اوراسے معلوم تھا کہ حضورنے علی کو صلح کو اپنی صلح اور ان کی جنگ کو اپنی جنگ قراردیا ہے۔مگر اس کے باوجود اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوا کہ اس کا راستہ اس کی پھوپھی ام جمیل اور اس کے ماموں خالد بن ولید جیسے افراد کا تھا جن کے دل و دماغ میں نہ اسلام داخل ہوا تھا اورنہداخل ہونے کا کوئی امکان تھا۔

۶۰۶

وأَسَاطِيرَ لَمْ يَحُكْهَا مِنْكَ عِلْمٌ ولَا حِلْمٌ - أَصْبَحْتَ مِنْهَا كَالْخَائِضِ فِي الدَّهَاسِ - والْخَابِطِ فِي الدِّيمَاسِ - وتَرَقَّيْتَ إِلَى مَرْقَبَةٍ بَعِيدَةِ الْمَرَامِ - نَازِحَةِ الأَعْلَامِ - تَقْصُرُ دُونَهَا الأَنُوقُ - ويُحَاذَى بِهَا الْعَيُّوقُ

وحَاشَ لِلَّه أَنْ تَلِيَ لِلْمُسْلِمِينَ بَعْدِي صَدْراً أَوْ وِرْداً - أَوْ أُجْرِيَ لَكَ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ عَقْداً أَوْ عَهْداً - فَمِنَ الآنَ فَتَدَارَكْ نَفْسَكَ وانْظُرْ لَهَا - فَإِنَّكَ إِنْ فَرَّطْتَ حَتَّى يَنْهَدَ إِلَيْكَ عِبَادُ اللَّه - أُرْتِجَتْ عَلَيْكَ الأُمُورُ - ومُنِعْتَ أَمْراً هُوَ مِنْكَ الْيَوْمَ مَقْبُولٌ والسَّلَامُ.

(۶۶)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس وقد تقدم ذكره بخلاف هذه الرواية

آشتی کی تقویت نہیں مل سکتی ہے اور اس میں وہ خرافات ہیں جن کے تانے بانے نہ علم سے تیار ہوئے ہیں اورنہ حلم سے۔اس سلسلہ میں تمہاری مثال ا س شخص کی ہے جودلدل میں دھنس گیا ہواوراندھے کنویں میں ہاتھ پائوں مارہا ہو۔اورتم نے اپنے کو اس بلندی(۱) تک پہنچانا چاہا ہے جس کا حصول مشکل ہے اور جس کے نشانات گم ہوگئے ہیں اور جہاں تک عقاب پرواز نہیں کرسکتا ہے اور اس کی بلندی ستارہ عیوق سے ٹکر لے رہی ہے۔

حاشا و کلا یہ کہاں ممکن ہے کہ تم میرے اقتدار کے بعد مسلمانوں کے حل و عقد کے مالک بن جائو یا میں تمہیں کسی ایک شخص پر بھی حکومت کرنے کا پروانہ یا دستاویز دے دوں۔لہٰذا ابھی غنیمت ہے کہ اپنے نفس کا تدارک کرواور اس کے بارے میں غوروفکر کرو کہاگر تم نے اس وقت تک کوتاہی سے کام لیا جب اللہ کے بندے اٹھ کھڑے ہوں تو تمہارے سارے راستے بند ہوجائیں گے اور پھر اس بات کا بھی موقع نہ دیا جائے گا جوآج قابل قبول ہے ۔والسلام!

(۶۷)

آپ کامکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام۔جس کاتذکرہ پہلے بھی دوسرے الفاظ میں ہو چکا ہے )

(۱)معاویہ نے حضرت سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر اسے ولی عہدی کاعہدہ دے دیا جائے تو وہ بیعت کرنے کے لئے تیار ہے اور پھرخون عثمان کوئی مسئلہ نہ رہ جائے گا۔آپ نے بالکل واضح طر پر اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا ہے اور معاویہ پر روشن کردیا ہے کہ میری حکومت میں تیرے جیسے افراد کی کوئی جگہ نہیں ہے اورت و نے جس مقام کا ارادہ کیا ہے وہ تیریر پروازسے بہت بلند ہے اوروہاں تک جانا تیرے امکان میں نہیں ہے۔بہتر یہ ہے کہ اپنی اوقات کا ادراک کرلے اور راہ راست پرآجائے ۔

۶۰۷

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الْمَرْءَ لَيَفْرَحُ بِالشَّيْءِ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لِيَفُوتَه - ويَحْزَنُ عَلَى الشَّيْءِ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَه - فَلَا يَكُنْ أَفْضَلَ مَا نِلْتَ فِي نَفْسِكَ - مِنْ دُنْيَاكَ بُلُوغُ لَذَّةٍ - أَوْ شِفَاءُ غَيْظٍ - ولَكِنْ إِطْفَاءُ بَاطِلٍ أَوْ إِحْيَاءُ حَقٍّ - ولْيَكُنْ سُرُورُكَ بِمَا قَدَّمْتَ - وأَسَفُكَ عَلَى مَا خَلَّفْتَ - وهَمُّكَ فِيمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

(۶۷)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى قثم بن العباس - وهو عامله على مكة

أَمَّا بَعْدُ فَأَقِمْ لِلنَّاسِ الْحَجَّ -( وذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ الله ) واجْلِسْ لَهُمُ الْعَصْرَيْنِ - فَأَفْتِ الْمُسْتَفْتِيَ - وعَلِّمِ الْجَاهِلَ وذَاكِرِ الْعَالِمَ - ولَا يَكُنْ لَكَ إِلَى النَّاسِ سَفِيرٌ إِلَّا لِسَانُكَ - ولَا حَاجِبٌ إِلَّا وَجْهُكَ - ولَا تَحْجُبَنَّ ذَا حَاجَةٍ عَنْ لِقَائِكَ بِهَا - فَإِنَّهَا إِنْ ذِيدَتْ عَنْ أَبْوَابِكَ فِي أَوَّلِ وِرْدِهَا - لَمْ تُحْمَدْ فِيمَا بَعْدُ عَلَى قَضَائِهَا.وانْظُرْ إِلَى مَا اجْتَمَعَ عِنْدَكَ مِنْ مَالِ اللَّه - فَاصْرِفْه إِلَى مَنْ قِبَلَكَ مِنْ ذَوِي الْعِيَالِ والْمَجَاعَةِ - مُصِيباً بِه مَوَاضِعَ الْفَاقَةِ

امابعد!انسان کبھی کبھی ایسی چیز کو پاکربھی خوش ہو جاتا ہے جو جانے والی نہیں تھی۔اور ایسی چیز کو کھو کر رنجیدہ ہو جاتا ہے جو ملنے والی نہیں تھی لہٰذا خبردار تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت کسی لذت کا حصول یا جذبہ انتقام ہی نہ بن جائے بلکہ بہترین نعمت باطل کے مٹانے اورحق کے زندہ کرنے کوسمجھو اور تمہاراسرور ان اعمال سے ہو جنہیں پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارا افسوس ان امور پر ہو جسے چھوڑ کرچلے گئے ہو اورتمامتر فکر موت کے بعد کے مرحلہ کے بارے میں ہونی چاہیے ۔

(۶۷)

آپ کامکتوب گرامی

(مکہ کے عامل قثم بن العباس کے نام)

امابعد! لوگوں کے لئے حج کے قیام کا انتظار کرو اورانہیں اللہ کے یاد گار دنوں کی یاد دلائو۔صبح و شام عمومی جلسہ رکھو۔سوال کرنے والو ں کے سوالات کے جوابات دو۔جاہل کو علم دواورعلماء سے تذکرہ کرو۔لوگوں تک تمہارا کوئی ترجمان تمہاری زبان کے علاوہ نہ ہواور تمہارا کوئی دربان تمہارے چہرہ کے علاوہ نہ ہو۔کسی ضرورت مند کو ملاقات سے مت روکنا کہ اگر پہلی ہی مرتبہ اسے واپس کردیا گیا تو اس کے بعد کام کر بھی دوگے تو تمہاری تعریف نہ کی جائے گی۔جو اموال تمہارے پاس جمع ہو جائیں ان پر نظر رکھو اور تمہارے یہاں جو عیال دار اور بھوکے پیاسے لوگ ہیں ان پر صرف کردو بشرطیکہ انہیں

۶۰۸

والْخَلَّاتِ - ومَا فَضَلَ عَنْ ذَلِكَ فَاحْمِلْه إِلَيْنَا لِنَقْسِمَه فِيمَنْ قِبَلَنَا.

ومُرْ أَهْلَ مَكَّةَ أَلَّا يَأْخُذُوا مِنْ سَاكِنٍ أَجْراً - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ -( سَواءً الْعاكِفُ فِيه والْبادِ ) - فَالْعَاكِفُ الْمُقِيمُ بِه - والْبَادِي الَّذِي يَحُجُّ إِلَيْه مِنْ غَيْرِ أَهْلِه - وَفَّقَنَا اللَّه وإِيَّاكُمْ لِمَحَابِّه والسَّلَامُ.

(۶۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى سلمان الفارسي رحمهالله - قبل أيام خلافته

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا مَثَلُ الدُّنْيَا مَثَلُ الْحَيَّةِ - لَيِّنٌ مَسُّهَا قَاتِلٌ سَمُّهَا - فَأَعْرِضْ عَمَّا يُعْجِبُكَ فِيهَا - لِقِلَّةِ مَا يَصْحَبُكَ مِنْهَا - وضَعْ عَنْكَ هُمُومَهَا - لِمَا أَيْقَنْتَ بِه مِنْ فِرَاقِهَا - وتَصَرُّفِ حَالَاتِهَا -

واقعی محتاجوں اور ضرورت مندوں تک پہنچا دواور اس کے بعد جوبچ جائے وہ میرے پاس بھیج دوت اکہ یہاں کے محتاجوں پر تقسیم کردیا جائے ۔

اہل مکہ سے کہو کہ خبردار مکانات(۱) کا کرایہ نہ لیں کہ پروردگار نے مکہ کو مقیم اورمسافر دونوں کے لئے برابر قراردیاہے ( عاکف مقیم کو کہا جاتا ہے اوربادی جو باہرسے حج کرنے کے لئے آتا ہے ) اللہ ہمیں اورتمہیں اپنے پسندیدہ اعمال کی توفیق دے ۔والسلام!

(۶۸)

آپ کامکتوب گرامی

(جناب سلمان فارسی کے نام۔اپنے دور خلافت سے پہلے)

اما بعد! اسدنیا کی مثال صرف سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے لیکن اس کا زہر انتہائی قاتل ہوتا ہے اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی کرو کہ اس میں سے ساتھ جانے والا بہت کم ہے۔اس کے ہم و غم کو اپنے سے دور رکھو کہ اس سے جدا ہونا یقینی ہے اور اس کے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں۔اس سے جس وقت

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ امرو جوبی نہیں ہے اور صرف استحابی اور احترامی ہے ورنہ حضرت نے جس آیت کریمہ سے استدلال فرمایا ہے اس کاتعلق مسجد الحرام سے ہے۔سارے مکہ سے نہیں ہے اورمکہ کومسجد الحرام مجازاً کہا جاتا ہے جس طرح کہ آیت معراج میں جناب ام ہانی کے مکان کو مسجد الحرام قراردیا گیا ہے۔ویسے یہ مسئلہ علماء اسلام میں اختلافی حیثیت رکھتا ہے اورابو حنیفہ نے سارے مکہ کے مکانات کو کرایہ پر دینے کو حرام قراردیا ہے اوراسکی دلیل عبداللہ بن عمروبن العاص کی روایت کو قراردیا گیا ہے جوعلماء شیعہ کے نزدیک قطعاً معتبرنہیں ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو اہل مکہ اپنے کوحنفی کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں وہ بھی ایام حج کے دوران دگنا چوگنا بلکہ دسگنا کرایہ وصول کرنے ہی کو اسلام اورحرم الٰہی کی خدمت تصورکرتے ہیں۔اورحجاج کرام کو '' ضیوف الرحمان '' قراردے کر انہیں '' ارض الرحمان '' پر قیام کرنے کا حق نہیں دیتے ہیں۔

۶۰۹

وكُنْ آنَسَ مَا تَكُونُ بِهَا أَحْذَرَ مَا تَكُونُ مِنْهَا - فَإِنَّ صَاحِبَهَا كُلَّمَا اطْمَأَنَّ فِيهَا إِلَى سُرُورٍ - أَشْخَصَتْه عَنْه إِلَى مَحْذُورٍ - أَوْ إِلَى إِينَاسٍ أَزَالَتْه عَنْه إِلَى إِيحَاشٍ والسَّلَامُ.

( ۶۹ )

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى الحارث الهمذاني

وتَمَسَّكْ بِحَبْلِ الْقُرْآنِ واسْتَنْصِحْه - وأَحِلَّ حَلَالَه وحَرِّمْ حَرَامَه - وصَدِّقْ بِمَا سَلَفَ مِنَ الْحَقِّ - واعْتَبِرْ بِمَا مَضَى مِنَ الدُّنْيَا لِمَا بَقِيَ مِنْهَا - فَإِنَّ بَعْضَهَا يُشْبِه بَعْضاً - وآخِرَهَا لَاحِقٌ بِأَوَّلِهَا - وكُلُّهَا حَائِلٌ مُفَارِقٌ - وعَظِّمِ اسْمَ اللَّه أَنْ تَذْكُرَه إِلَّا عَلَى حَقٍّ - وأَكْثِرْ ذِكْرَ الْمَوْتِ ومَا بَعْدَ الْمَوْتِ - ولَا تَتَمَنَّ الْمَوْتَ إِلَّا بِشَرْطٍ وَثِيقٍ - واحْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ يَرْضَاه صَاحِبُه لِنَفْسِه - ويُكْرَه لِعَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ - واحْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ يُعْمَلُ بِه فِي السِّرِّ - ويُسْتَحَى مِنْه فِي الْعَلَانِيَةِ - واحْذَرْ كُلَّ عَمَلٍ إِذَا سُئِلَ عَنْه صَاحِبُه أَنْكَرَه أَوْ اعْتَذَرَ مِنْه -

زیادہ انس محسوس کرواس وقت زیادہ ہوشیار رہو کہ اس کا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سے مطمئن ہوتا ہے یہ اسے کسی ناخوشگوار کے حوالے کردیتے ہے اور انس سے نکال کروحشت کے حالات تک پہنچادیتی ہے۔والسلام!

(۶۹)

آپ کا مکتوب گرامی

(حارث ہمدانی کے نام )

قرآن کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہو اور اس سے نصیحت حاصل کرو ۔اس کے حلال کو حلال قراردو اور حرام کو حرام حق کی گذشتہ باتوں کی تصدیق کرواوردنیا کے ماضی سے اس کے مستقبل کے لئے عبرت حاصل کرو کہ اس کا ایک حصہ دوسرے سے مشابہت رکھتا ہے اورآخر اول سے ملحق ہونے والا ہے اور سب کا سب زائل ہونے والا اورجدا ہو جانے والا ہے۔نام دا کو اس قدر عظیم قرار دو کہ سوائے حق کے کسی موقع پر استعمال نہ کرو۔موت اوراس کے بعد کے حالات کوبرابر یاد کرتے رہو اور اس کی آرزو اس وقت تک نہکر و جب تک مستحکم اسباب نہ فراہم ہو جائیں۔ہر اس کا م سے پرہیز کرو جسے آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہو اورعام مسلمانوں کے لئے نا پسند کرتا ہو اور ہراس کام سے بچتے رہو جو تنہائی میں کیاجا سکتا ہو اور علی الاعلان انجام دینے میں شرم محسوس کی جاتی ہو اور اسی طرح ہر اس کام سے پرہیز کروجس کے کرنے والے سے پوچھ لیا جائے تو یا انکارکردے یا معذرت

۶۱۰

ولَا تَجْعَلْ عِرْضَكَ غَرَضاً لِنِبَالِ الْقَوْلِ - ولَا تُحَدِّثِ النَّاسَ بِكُلِّ مَا سَمِعْتَ بِه - فَكَفَى بِذَلِكَ كَذِباً - ولَا تَرُدَّ عَلَى النَّاسِ كُلَّ مَا حَدَّثُوكَ بِه - فَكَفَى بِذَلِكَ جَهْلًا - واكْظِمِ الْغَيْظَ وتَجَاوَزْ عِنْدَ الْمَقْدَرَةِ واحْلُمْ عِنْدَ الْغَضَبِ - واصْفَحْ مَعَ الدَّوْلَةِ تَكُنْ لَكَ الْعَاقِبَةُ - واسْتَصْلِحْ كُلَّ نِعْمَةٍ أَنْعَمَهَا اللَّه عَلَيْكَ. ولَا تُضَيِّعَنَّ نِعْمَةً مِنْ نِعَمِ اللَّه عِنْدَكَ - ولْيُرَ عَلَيْكَ أَثَرُ مَا أَنْعَمَ اللَّه بِه عَلَيْكَ.

واعْلَمْ أَنَّ أَفْضَلَ الْمُؤْمِنِينَ - أَفْضَلُهُمْ تَقْدِمَةً مِنْ نَفْسِه وأَهْلِه ومَالِه - فَإِنَّكَ مَا تُقَدِّمْ مِنْ خَيْرٍ يَبْقَ لَكَ ذُخْرُه - ومَا تُؤَخِّرْه يَكُنْ لِغَيْرِكَ خَيْرُه - واحْذَرْ صَحَابَةَ مَنْ يَفِيلُ رَأْيُه - ويُنْكَرُ عَمَلُه فَإِنَّ الصَّاحِبَ مُعْتَبَرٌ بِصَاحِبِه - واسْكُنِ الأَمْصَارَ الْعِظَامَ فَإِنَّهَا جِمَاعُ الْمُسْلِمِينَ - واحْذَرْ مَنَازِلَ الْغَفْلَةِ والْجَفَاءِ - وقِلَّةَ الأَعْوَانِ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - واقْصُرْ رَأْيَكَ عَلَى مَا يَعْنِيكَ - وإِيَّاكَ ومَقَاعِدَ الأَسْوَاقِ - فَإِنَّهَا مَحَاضِرُ الشَّيْطَانِ ومَعَارِيضُ الْفِتَنِ - وأَكْثِرْ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى مَنْ فُضِّلْتَ عَلَيْه -

کرے۔اپنی آبرو کو لوگوں کے تیر ملامت کا نشانہ نہ بنائو اور ہر سنی ہوئی بات کو بیان نہ کردوکہ یہ حرکت بھی جھوٹ ہونے کے لئے کافی ہے۔اور اسی طرح لوگوں کی ہر بات کی تردید بھی نہ کردو کہ یہ امرجہالت کے لئے کافی ہے۔غصہ کو ضبط کرو۔طاقت رکھنے کے بعد لوگوں کو معا فکرو۔غضب میں حلم کا مظاہرہ کرو۔اقتدارپا کر درگزر کرناسیکھوتاکہ انجام کار تمہارے لئے رہے اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں انہیں درست رکھنے کی کوشش کرو اور اس کی کسی نعمت کو برباد نہ کرنا بلکہ ان نعمتوں کے آثار تمہاری زندگی میںواضح طور پر نظر آئیں ۔

اوریاد رکھو کہ تمام مومنین میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنے نفس ' اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کی طرف سے خیرات کرے کہ یہی پہلے جانے والا خیر وہاں جاکرذخیرہ ہو جاتا ہے اورتم جو کچھ چھوڑ کرچلے جائوگے وہ تمہارے غیر کے کام آئے گا۔ایسے شخص کی صحبت اختیار نہکرنا جس کیرائے کمزوراوراس کے اعمال نا پسندیدہ ہوں کہ ہر ساتھی کا قیاس اس کے ساتھی پر کیا جاتا ہے۔سکونت کے لئے بڑے شہروں کا انتخاب کرو کہ وہاں مسلمانوں کا اجتماع زیادہ ہوتا ہے اور ان جگہوں سے پرہیز کرو جوغفلت' بیوفائی اوراطاعت خدامیں مدد گاروں کی قلت کے مرکز ہوں۔اپنی فکر کو صرف کام کی باتوں میں استعمال کرواورخبردار بازاری اڈوں پرمت بیٹھنا کہ یہ شیطان کی حاضری کی جگہیں اورف تنوں کے مرکز ہیں۔زیادہ حصہ ان افراد پرنگاہ رکھوجن سے پروردگارنے

۶۱۱

فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ أَبْوَابِ الشُّكْرِ - ولَا تُسَافِرْ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ حَتَّى تَشْهَدَ الصَّلَاةَ - إِلَّا فَاصِلًا فِي سَبِيلِ اللَّه أَوْ فِي أَمْرٍ تُعْذَرُ بِه - وأَطِعِ اللَّه فِي جَمِيعِ أُمُورِكَ - فَإِنَّ طَاعَةَ اللَّه فَاضِلَةٌ عَلَى مَا سِوَاهَا - وخَادِعْ نَفْسَكَ فِي الْعِبَادَةِ وارْفُقْ بِهَا ولَا تَقْهَرْهَا - وخُذْ عَفْوَهَا ونَشَاطَهَا - إِلَّا مَا كَانَ مَكْتُوباً عَلَيْكَ مِنَ الْفَرِيضَةِ - فَإِنَّه لَا بُدَّ مِنْ قَضَائِهَا وتَعَاهُدِهَا عِنْدَ مَحَلِّهَا - وإِيَّاكَ أَنْ يَنْزِلَ بِكَ الْمَوْتُ - وأَنْتَ آبِقٌ مِنْ رَبِّكَ فِي طَلَبِ الدُّنْيَا - وإِيَّاكَ ومُصَاحَبَةَ الْفُسَّاقِ - فَإِنَّ الشَّرَّ بِالشَّرِّ مُلْحَقٌ - ووَقِّرِ اللَّه وأَحْبِبْ أَحِبَّاءَه - واحْذَرِ الْغَضَبَ فَإِنَّه جُنْدٌ عَظِيمٌ مِنْ جُنُودِ إِبْلِيسَ - والسَّلَامُ.

(۷۰)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى سهل بن حنيف الأنصاري - وهو عامله على المدينة - في معنى قوم

من أهلها لحقوا بمعاوية

تمہیں بہتر قراردیا ہے کہ یہ بھی شکر خدا کا یاراستہ ہے جمعہ کے(۱) دن نماز پڑے بغیر سفرنہ کرنا مگر یہ کہ راہ خدا میں جارہے ہو یا کسی ایسے کام میں جو تمہارے لئے عذر بن جائے اورتمام امور میں پروردگار کی اطاعت کرتے رہنا کہ اطاعت خدا دنیا کے تمام کاموں سے افضل اوربہتر ہے اپنے نفس کو بہانے کرکے عبادت کی طرف لے آئو اور اس کے ساتھ نرمی برتو۔جبرنہ کرو اوراس کی فرصت اور فارغ البالی سے فائدہ اٹھائو۔مگر جن فرائض کو پروردگار نے تمہارے ذمہ لکھ دیاہے انہیں بہرحال انجام دینا ہے اوران کا خیال رکھنا ہے اوردیکھوخبردار ایسا نہ ہو کہ تمہیں اس حال میں موت آجائے کہ تم طلب دنیا میں پروردگار سے بھاگ رہے ہو۔اورخبردار فاسقوں کی صحبت اختیار نہ کرنا کہ شربالآخر شر سے مل جاتا ہے۔اللہ کی عظمت کا اعتراف کرواوراس کے محبوب بندوں سے محبت کرو اور غصہ سے اجتناب کروکہ یہ یطان کے لشکروں میں سب سے عظیم تر لشکر ہے ۔والسلام!

(۷۰)

آپ کامکتوب گرامی

(عامل مدینہ سہل بن حنیف انصاری کے نام جب آپ کو خبر ملی کہ ایک قوم معاویہ سے جا ملی ہے)

(۱)واضح رہے کہ جمعہ کے دن تعطیل کوئی اسلامی قانون نہیں ہے۔صرف مسلمانوں کا ایک طریقہ ہے۔ورنہ اسلام نے صرف بقدر نمازکاروباربند کرنے کاحکم دیا ہے اور اس کے بعد فوراً یہ حکم دیا ہے کہ زمین میں منتشر ہو جائو اور رزق خدا تلاش کرو۔مگر افسوس کہ جمعہ کی تعطیل کے بہترین روز عبادت کو بھی عیاشیوں اوربدکاریوں کا دن بنادیا گیا اور انسان سب سے زیادہ نکما اورناکارہ اسی دن ہوت ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

۶۱۲

أَمَّا بَعْدُ - فَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ رِجَالًا مِمَّنْ قِبَلَكَ يَتَسَلَّلُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ - فَلَا تَأْسَفْ عَلَى مَا يَفُوتُكَ مِنْ عَدَدِهِمْ - ويَذْهَبُ عَنْكَ مِنْ مَدَدِهِمْ - فَكَفَى لَهُمْ غَيّاً - ولَكَ مِنْهُمْ شَافِياً فِرَارُهُمْ مِنَ الْهُدَى والْحَقِّ - وإِيضَاعُهُمْ إِلَى الْعَمَى والْجَهْلِ - فَإِنَّمَا هُمْ أَهْلُ دُنْيَا مُقْبِلُونَ عَلَيْهَا ومُهْطِعُونَ إِلَيْهَا - وقَدْ عَرَفُوا الْعَدْلَ ورَأَوْه وسَمِعُوه ووَعَوْه - وعَلِمُوا أَنَّ النَّاسَ عِنْدَنَا فِي الْحَقِّ أُسْوَةٌ - فَهَرَبُوا إِلَى الأَثَرَةِ - فَبُعْداً لَهُمْ وسُحْقاً

إِنَّهُمْ واللَّه لَمْ يَنْفِرُوا مِنْ جَوْرٍ - ولَمْ يَلْحَقُوا بِعَدْلٍ - وإِنَّا لَنَطْمَعُ فِي هَذَا الأَمْرِ أَنْ يُذَلِّلَ اللَّه لَنَا صَعْبَه - ويُسَهِّلَ لَنَا حَزْنَه إِنْ شَاءَ اللَّه - والسَّلَامُ.

(۷۱)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى المنذر بن الجارود العبدي، وخان في بعض ما ولاه من أعماله

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ صَلَاحَ أَبِيكَ غَرَّنِي مِنْكَ - وظَنَنْتُ أَنَّكَ تَتَّبِعُ هَدْيَه - وتَسْلُكُ سَبِيلَه

اما بعد !مجھے یہ خبرملی ہے کہ تمہارے یہاں کے کچھ لوگ چپکے سے معاویہ کی طرف کھسک گئے ہیں توخبردار تم اس عدد کے کم ہوجانے اور اس طرقت کے چلے جانے پر ہر گز افسوس نہ کرنا کہ ان لوگوں کی گمراہی اور تمہارے سکون نفس کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ لوگ حق و ہدایت سے بھاگے ہیں اور گمراہی اور جہالت کی طرف دوڑ پڑے ہیں۔یہ اہل دنیاہیں لہٰذا اس کی طرف متوجہ ہیں اور دوڑ لگا رہے ہیں۔حالانکہ انہوں نے انصاف کوپہچانا بھی ہے اوردیکھا بھی ہے۔سنابھی ہے اور سمجھے بھی ہیں اورانہیں معلوم ہے کہ حق کے معاملہ میں ہمارے یہاں تمام لوگ برابر کی حیثیت رکھتے ہیں اسی لئے یہ لوگ خود غرضی کی طرف بھاگ نکلے ۔خدا انہیں غارت کرے اورتباہ کردے ۔

خداکی قسم ان لوگوں نے ظلم سے فرار نہیں کیا ہے اور نہ عدل سے ملحق ہوئے ہیں۔اور ہماری خواہش صرف یہ ہے کہ پروردگار اس معاملہ میں دشواریوں کوآسان بنادے اورنا ہمواری کو ہموار کردے ۔

(۷۱)

آپ کامکتوب گرامی

(منذر بن جارود عبدی کے نام۔ جس نے بعض اعمال میں خیانت سے کام لیا تھا)

امابعد! تیرے باپ کی شرافت نے مجھے تیرے بارے میں دھوکہ میں رکھا اور میں سمجھا کہ تواسی کے راستہ پرچل رہا ہے اوراسی کے

۶۱۳

فَإِذَا أَنْتَ فِيمَا رُقِّيَ إِلَيَّ عَنْكَ لَا تَدَعُ لِهَوَاكَ انْقِيَاداً - ولَا تُبْقِي لِآخِرَتِكَ عَتَاداً - تَعْمُرُ دُنْيَاكَ بِخَرَابِ آخِرَتِكَ - وتَصِلُ عَشِيرَتَكَ بِقَطِيعَةِ دِينِكَ - ولَئِنْ كَانَ مَا بَلَغَنِي عَنْكَ حَقّاً - لَجَمَلُ أَهْلِكَ وشِسْعُ نَعْلِكَ خَيْرٌ مِنْكَ - ومَنْ كَانَ بِصِفَتِكَ فَلَيْسَ بِأَهْلٍ أَنْ يُسَدَّ بِه ثَغْرٌ - أَوْ يُنْفَذَ بِه أَمْرٌ أَوْ يُعْلَى لَه قَدْرٌ - أَوْ يُشْرَكَ فِي أَمَانَةٍ أَوْ يُؤْمَنَ عَلَى جِبَايَةٍ - فَأَقْبِلْ إِلَيَّ حِينَ يَصِلُ إِلَيْكَ كِتَابِي هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّه.

قال الرضي والمنذر بن الجارود - هذا هو الذي قال فيه أمير المؤمنينعليه‌السلام - إنه لنظار في عطفيه مختال في برديه - تفال في شراكيه

(۷۲)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى عبد الله بن العباس

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّكَ لَسْتَ بِسَابِقٍ أَجَلَكَ - ولَا مَرْزُوقٍ مَا لَيْسَ لَكَ - واعْلَمْ بِأَنَّ الدَّهْرَ يَوْمَانِ - يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ

طریقہ پر گامزن ہے لیکن تازہ ترین اخبار سے اندازہ ہوتا ہے کہ تو نے خواہشات کی پیروی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے اور آخرت کے لئے کوئی ذخیرہ نہیں کیا ہے۔آخرت کو برباد کرکے دنیا کو آباد کررہا ہے اوردین سے رشتہ توڑ کر قبیلہ سے رشتہ جوڑ رہا ہے۔اگرمیرے پاس آنے والی خبریں صحیح ہیں تو تیرے گھر والوں کا اونٹ اور تیرے جوتہ کا تسمہ بھی تجھ سے بہتر ہے اور جو تیرا جیسا ہو اس کے ذریعہ نہ رخنہ کوبند کیا جا سکتا ہے نہ کسی امرکونافد کیا جاسکتاہے اور نہ اس کے مرتبہ کو بلند کیاجاسکتا ہے نہ اسے کسی امانت میں شریک کیا جاسکتا ہے۔یا مال کی جمع آوری پر امین سمجھا جائے لہٰذا جیسے ہی میرا یہ خط ملے فوراً میری طرف چل پڑو۔انشاء اللہ

سید رضی : منذربن الجارود ۔یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں امیر المومنین نے فرمایا تھا کہ یہ اپنے بازئوں کو برابر دیکھتا رہتا ہے اور اپنی چادروں میں جھوم کر چلتا ہے اور جوتی کے تسموں کو پھونکتا رہتا ہے ( یعنی انتہائی مغرور اورمتکبر قسم کاآدمی ہے )

(۷۲)

آپ کامکتوب گرامی

(عبداللہ بن عباس کے نام )

اما بعد! نہ تم اپنی مدت حیات سے آگے بڑ ھ سکتے ہو اورنہ اپنے رزق سے زیادہ حاصل کرسکتے ہو۔اوریاد رکھو کہ زمانہ کے دو دن ہوتے ہیں ۔ایک تمہارے حق میں اور

۶۱۴

عَلَيْكَ - وأَنَّ الدُّنْيَا دَارُ دُوَلٍ - فَمَا كَانَ مِنْهَا لَكَ أَتَاكَ عَلَى ضَعْفِكَ - ومَا كَانَ مِنْهَا عَلَيْكَ لَمْ تَدْفَعْه بِقُوَّتِكَ.

(۷۳)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي عَلَى التَّرَدُّدِ فِي جَوَابِكَ - والِاسْتِمَاعِ إِلَى كِتَابِكَ - لَمُوَهِّنٌ رَأْيِي ومُخَطِّئٌ فِرَاسَتِي - وإِنَّكَ إِذْ تُحَاوِلُنِي الأُمُورَ - وتُرَاجِعُنِي السُّطُورَ - كَالْمُسْتَثْقِلِ النَّائِمِ تَكْذِبُه أَحْلَامُه - والْمُتَحَيِّرِ الْقَائِمِ يَبْهَظُه مَقَامُه - لَا يَدْرِي أَلَه مَا يَأْتِي أَمْ عَلَيْه - ولَسْتَ بِه غَيْرَ أَنَّه بِكَ شَبِيه - وأُقْسِمُ بِاللَّه إِنَّه لَوْ لَا بَعْضُ الِاسْتِبْقَاءِ - لَوَصَلَتْ إِلَيْكَ مِنِّي قَوَارِعُ تَقْرَعُ الْعَظْمَ - وتَهْلِسُ اللَّحْمَ - واعْلَمْ أَنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ ثَبَّطَكَ - عَنْ أَنْ تُرَاجِعَ أَحْسَنَ أُمُورِكَ - وتَأْذَنَ لِمَقَالِ نَصِيحَتِكَ والسَّلَامُ لأَهْلِه.

ایک تمہارے خلاف اور یہ دنیا ہمیشہ کروٹیں بدلتی رہتی ہے لہٰذا جو تمہارے حق میں ہے وہ کمزوری کے باوجود تم تک آجائے گا اور جو تمہارے خلاف ہے اسے طاقت کے باوجودتم نہیں ٹال سکتے ہو۔

(۷۳)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام )

امابعد! میں تم سے خط و کتابت کرنے اور تمہاری بات سننے میں اپنی رائے کی کمزوری اوراپنی دانش مندی کی غلطی کا احساس کر رہا ہوں اور تم بار بارمجھ سے اپنی بات منوانے اورخط و کتابت جاری رکھنے کی کوشش کرنے میں ایسے ہی ہو جیسے کوئی بستر پر لٹا خواب دیکھ رہا ہو اور اس کا خواب غلط ثابت ہو یا کوئی حیرت زدہ منہ اٹھائے کھڑا ہو اور یہ قیام بھی اسے مہنگا پڑے اوری ہی نہ معلوم ہو کہ آنے والی چیز اس کے حق میں مفید ہے یا مضر۔ تم بالکل یہی شخص نہیں ہو لیکن اسی کے جیسے ہو اورخداکی قسم کہ اگر کسی حد تک باقی رکھنا میری مصلحت نہ ہوتا تو تم تک ایسے حوادث آتے جو ہڈیوں کوتوڑ دیتے اور گوشت کا نام تک نہ چھوڑتے اوریاد رکھوکہ یہ شیطان نے تمہیں بہترین امور کی طرف رجوع کرنے اورعمدہ ترین نصیحتوں کے سننے سے روک رکھا ہے۔اور سلام اس کے اہل پر۔

۶۱۵

(۷۴)

ومن حلف لهعليه‌السلام

كتبه بين ربيعة واليمن ونقل من خط هشام بن الكلبي

هَذَا مَا اجْتَمَعَ عَلَيْه أَهْلُ الْيَمَنِ - حَاضِرُهَا وبَادِيهَا - ورَبِيعَةُ حَاضِرُهَا وبَادِيهَا - أَنَّهُمْ عَلَى كِتَابِ اللَّه يَدْعُونَ إِلَيْه - ويَأْمُرُونَ بِه ويُجِيبُونَ مَنْ دَعَا إِلَيْه وأَمَرَ بِه - لَا يَشْتَرُونَ بِه ثَمَناً - ولَا يَرْضَوْنَ بِه بَدَلًا - وأَنَّهُمْ يَدٌ وَاحِدَةٌ عَلَى مَنْ خَالَفَ ذَلِكَ وتَرَكَه - أَنْصَارٌ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ - دَعْوَتُهُمْ وَاحِدَةٌ - لَا يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ لِمَعْتَبَةِ عَاتِبٍ - ولَا لِغَضَبِ غَاضِبٍ - ولَا لِاسْتِذْلَالِ قَوْمٍ قَوْماً - ولَا لِمَسَبَّةِ قَوْمٍ قَوْماً - عَلَى ذَلِكَ شَاهِدُهُمْ وغَائِبُهُمْ - وسَفِيهُهُمْ وعَالِمُهُمْ وحَلِيمُهُمْ وجَاهِلُهُمْ - ثُمَّ إِنَّ عَلَيْهِمْ بِذَلِكَ عَهْدَ اللَّه ومِيثَاقَه - إِنَّ عَهْدَ اللَّه كَانَ مَسْئُولًا.

وكَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.

(۷۴)

آپ کا معاہدہ

(جسے ربیعہ اوراہل یمن کے درمیان تحریر فرمایا ہے اور یہ ہشام کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے )

یہ وہ عہد ہے جس پر اہل یمن(۱) کے شہری اور دیہاتی اورقبیلہ ربیعہ کے شہری اور دیہاتی سب نے اتفاق کیا ہے کہ سب کے سب کتاب خدا پر ثابت رہیں گے اور اسی کی دعوت دیں گے۔ جو اس کی طرف دعوت دے گا اوراس کے ذریعہ حکم دے گا اس کی دعوت پر لبیک کہیں گے ۔نہ اس کی کسی قیمت پرفروخت کریں گے اور نہ اس کے کسی بدل پر راضی ہوں گے ۔اس امر کے مخالف اوراس کے نظرانداز کرنے والے کے خلاف متحد رہیں گے اور کسی سرزنش کرنے والے کی سر زنش پر اس عہد کوت وڑیں گے اور نہ کسی غیظ و غضب سے اس راہ میں متاثر ہوں گے اور نہ کسی قوم کوذلیل کرنے یا گالی دینے کا وسیلہ قراردیں گے۔اسی بات پر حاضرین بھی قائم رہیں گے اور غائبین بھی اسی پر کم عقل بھی کاربند رہیں گے اور عالم بھی۔اسی کی پابندی صاحبان دانش بھی کریں گے اورجاہل بھی۔پھر اس کے بعد ان کے ذمہ عہد الٰہی اورمیثاق پروردگار کی پابندی بھی لازم ہوگئی ہے اور عہد الٰہی کے بارے میں روز قیامت بھی سوال کیا جائے گا ۔کاتب علی بن ابی طالب

(۱)عرب کے وہ قبائل جن کا سلسلہ نسب قحطان بن عامر تک پہنچتا ہے انہیں یمن سے تعبیر کیا جاتا ہے اورجن کا سلسلہ ربیعہ بن نزار سے ملتا ہے انہیں ربیعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔دور جاہلیت میں دونوں میں شدید اختلافات تھے لیکن اسلام لانے کے عد دونوں مستحد ہوگئے ۔والحمد للہ

۶۱۶

(۷۵)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى معاوية في أول ما بويع له

ذكره الواقدي في كتاب «الجمل»

مِنْ عَبْدِ اللَّه عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ - إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ:

أَمَّا بَعْدُ فَقَدْ عَلِمْتَ إِعْذَارِي فِيكُمْ - وإِعْرَاضِي عَنْكُمْ - حَتَّى كَانَ مَا لَا بُدَّ مِنْه ولَا دَفْعَ لَه - والْحَدِيثُ طَوِيلٌ والْكَلَامُ كَثِيرٌ - وقَدْ أَدْبَرَ مَا أَدْبَرَ - وأَقْبَلَ مَا أَقْبَلَ - فَبَايِعْ مَنْ قِبَلَكَ - وأَقْبِلْ إِلَيَّ فِي وَفْدٍ مِنْ أَصْحَابِكَ والسَّلَامُ.

(۷۶)

ومن وصية لهعليه‌السلام

لعبد الله بن العباس عند استخلافه إياه على البصرة

سَعِ النَّاسَ بِوَجْهِكَ ومَجْلِسِكَ وحُكْمِكَ - وإِيَّاكَ والْغَضَبَ فَإِنَّه طَيْرَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ - واعْلَمْ أَنَّ مَا قَرَّبَكَ مِنَ اللَّه يُبَاعِدُكَ مِنَ النَّارِ -

(۷۵)

آپ کامکتوب گرامی

(معاویہ کے نام ۔اپنی بیعت کے ابتدائی دورمیں جس کا ذکر و اقدی نے کتاب الجمل میں کیا ہے )

بندہ خدا امیر المومنین علی کی طرف سے معاویہ بن ابی سفیان کے نام ۔

امابعد! تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اپنی طرف سے حجت تمام کردی ہے اورتم سے کنارہ کشی کرلی ہے۔مگر پھر بھی وہ بات ہو کر رہی جسے ہوناتھا اور جسے ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔یہ بات بہت لمبی ہے اور اس میں گفتگو بہت طویل ہے لیکن اب جسے گذر نا تھا وہ گذر گیا اور جسے آنا تھا وہ آگیا۔اب مناسب یہی ہے کہ اپنے یہاں کے لوگوں سے میری بیعت لے لو اور سب کولے کرمیرے پاس حاضر ہو جائو۔والسلام

(۷۶)

آپ کی وصیت

(عبداللہ بن عباس کے لئے ۔جب انہیں بصرہ کا والی قرار دیا)

لوگوں سے ملاقات کرنے میں۔انہیں اپنی بزم میں جگہ دینے میں اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے میں وسعت سے کام لو اورخبردار غیظ و غضب سے کام نہ لینا کہ یہ شیطان کی طرف سے ہلکے پن کا نتیجہ ہے اور یاد رکھوکہ جوچیز اللہ سے قریب بناتی ہے وہی جہنم سے

۶۱۷

ومَا بَاعَدَكَ مِنَ اللَّه يُقَرِّبُكَ مِنَ النَّارِ.

(۷۷)

ومن وصية لهعليه‌السلام

لعبد الله بن العباس لما بعثه للاحتجاج على الخوارج

لَا تُخَاصِمْهُمْ بِالْقُرْآنِ - فَإِنَّ الْقُرْآنَ حَمَّالٌ ذُو وُجُوه - تَقُولُ ويَقُولُونَ... ولَكِنْ حَاجِجْهُمْ بِالسُّنَّةِ - فَإِنَّهُمْ لَنْ يَجِدُوا عَنْهَا مَحِيصاً

(۷۸)

ومن كتاب لهعليه‌السلام

إلى أبي موسى الأشعري جوابا في أمر الحكمين ذكره سعيد بن يحيى الأموي في كتاب «المغازي».

فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ تَغَيَّرَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ عَنْ كَثِيرٍ مِنْ حَظِّهِمْ - فَمَالُوا مَعَ الدُّنْيَا ونَطَقُوا بِالْهَوَى - وإِنِّي نَزَلْتُ مِنْ هَذَا الأَمْرِ مَنْزِلًا مُعْجِباً ،اجْتَمَعَ بِه أَقْوَامٌ أَعْجَبَتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ - وأَنَا أُدَاوِي مِنْهُمْ قَرْحاً أَخَافُ أَنْ يَكُونَ عَلَقاً

دورکرتی ہے اورجوچیز اللہ سے دورکرتی ہے وہی جہنم سے قریب بنا دیتی ہے ۔

(۷۷)

آپ کی وصیت

(عبداللہ بن عباس کے نام۔جب انہیں خوارج کے مقابلہ میں اتمام حجت کے لئے ارسال فرمایا)

دیکھو ان سے قرآن کے بارے میں بحث نہ کرنا کہ اس کے بہت سے وجوہ و احتمالات ہوتے ہیں اوراس طرح تم اپنی کہتے رہوگے اوروہ اپنی کہتے رہیں گے ۔بلکہ ان سے سنت کے ذریعہ بحث کرو کہ اس سے بچ کرنکل جانے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

(۷۸)

آپ کامکتوب گرامی

(ابو موسیٰ اشعری کے نام۔حکمین کے سلسلہ میں اس کے ایک خط کے جواب میں جس کا تذکرہ سعید بن یحییٰ نے ''مغاری'' میں کیا ہے )

کتنے ہی لوگ اسے ہیں جو آخرت کی بہت سی سعادتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔دنیا کی طرف جھک گئے ہیں اور خواہشات کے مطابق بولنے لگے ہیں۔میں اس امرکی وجہ سے ایک حیرت و استعجاب کی منزل میں ہوںجہاں ایسے لوگ جمع ہوگئے ہیں جنہیں اپنی ہی بات اچھی لگتی ہے ۔ میں ان کے زخم کا مداوا تو کررہا ہوں لیکن ڈر رہا ہوں کہ کہیں یہ منجمد خون کی شکل نہ اختیار کرلے۔

۶۱۸

ولَيْسَ رَجُلٌ فَاعْلَمْ أَحْرَصَ عَلَى جَمَاعَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وأُلْفَتِهَا مِنِّي - أَبْتَغِي بِذَلِكَ حُسْنَ الثَّوَابِ وكَرَمَ الْمَآبِ - وسَأَفِي بِالَّذِي وَأَيْتُ عَلَى نَفْسِي - وإِنْ تَغَيَّرْتَ عَنْ صَالِحِ مَا فَارَقْتَنِي عَلَيْه - فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ نَفْعَ مَا أُوتِيَ مِنَ الْعَقْلِ والتَّجْرِبَةِ - وإِنِّي لأَعْبَدُ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ بِبَاطِلٍ - وأَنْ أُفْسِدَ أَمْراً قَدْ أَصْلَحَه اللَّه - فَدَعْ مَا لَا تَعْرِفُ - فَإِنَّ شِرَارَ النَّاسِ طَائِرُونَ إِلَيْكَ بِأَقَاوِيلِ السُّوءِ - والسَّلَامُ.

(۷۹)

ومن كتاب كتبهعليه‌السلام

لما استخلف إلى أمراء الأجناد

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - أَنَّهُمْ مَنَعُوا النَّاسَ الْحَقَّ فَاشْتَرَوْه - وأَخَذُوهُمْ بِالْبَاطِلِ فَاقْتَدَوْه

اوریاد رکھو کہ امت پیغمبر (ص) کی شیرازہ بندی اوراس کے اتحاد کے لئے مجھ سے زیادہ خواہش مند کوئی نہیں ہے جس کے ذرعیہ میں بہترین ثواب اور سرف رازی آخرت چاہتا ہوں اورمیں بہرحال اپنے عہد کو پوراکروں گا چاہے تم اس بات سے پلٹ جائو جو آخری ملاقات تک تمہاری زبان پر تھی۔یقینا بد بخت وہ ے جو عقل و تجربہ کے ہوتے ہوئے بھی اس کے فوائد سے محروم رہے۔میں تواس بات پر ناراض ہوں کہ کوئی شخص حرف باطل زبان پر جاری کرے یا کسی ایسے امر کوفاسد کردے جس کی خدانے اصلاح کردی ہے۔لہٰذا جس بات کوتم نہیں جانتے ہو اس کو نظراندازکردو کہ شریر لوگ بڑی باتیں تم تک پہنچانے کے لئے اڑ کر پہنچاکریں گے ۔والسلام۔

(۷۹)

آپ کامکتوب گرامی

(خلاف کے بعد۔روساء لشکر کے نام)

امابعد! تم سے پہلے والے صرف اس بات سے ہلاک ہوگئے کہ انہوں نے لوگوں کے حق روک لئے اور انہیں رشوت دے کر خریدلیا اور انہیں باطل کا پابند بنایا تو سب انہیں کے راستوں پر چل پڑے ۔

۶۱۹

حكم أمير المؤمنينعليه‌السلام

باب المختار من حكم أمير المؤمنينعليه‌السلام ويدخل في ذلك المختار من أجوبه مسائله

والكلام القصير الخارج في سائر أغراضه

۱ - قَالَعليه‌السلام كُنْ فِي الْفِتْنَةِ كَابْنِ اللَّبُونِ - لَا ظَهْرٌ فَيُرْكَبَ ولَا ضَرْعٌ فَيُحْلَبَ.

بسمہ سبحانہ

امیر المومنین کے منتخب حکیمانہ کلمات

(اور اس باب میں سوالات کے جوبات اوران حکیمانہ کلمات کا انتخاب بھی شامل ہے جو مختلف اغراض کے تحت بیان کئے گئے ہیں )

(۱)

فتنہ وفساد کے زمانہ میں اس طرح رہو جس طرح دو سال کا اونٹنی کابچہ ہوتا ہے کہ نہ اس کی پشت سواری کے قابل ہوتی ہے اور نہ اس کے دوہنے کے لائق تھن ہوتے ہیں ۔

اس ارشاد کا مقصد فتنہ و فساد سے الگ رہ جانا نہیں ہے کہ یہ اسلام کے مجاہدانہ مزاج کے خلاف ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان اس قدر ہوشیار رہے کہ لوگ اسے استعمال نہ کرنے پائیں اور اس کے ذریعہ فتنہ کی ہوا کو تیز تر نہ کرنے پائیں ۔

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863