نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656651 / ڈاؤنلوڈ: 15922
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

میرا وہ سفر جو امریکہ کے چندجنوبی ممالک سے متعلّق تھا جیسا کہ مجھے یاد ہے ان میں ایک ملک شیلی بھی تھا اس ملک کے ذمہ داروں اور یونیورسٹی کے سر براہان نے مجھ سے کہا کہ ہم اپنے ملک کے جوان طبقہ اور انکے مستقبل کے سلسلے میں بہت فکر مند ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں؟ ہم ان نوجوانوں کو اس یونیورسٹی میں آپ کے حوالے کرتے ہیں آپ انکی تربیت اپنی روش کے مطابق انجام دیں ہم آپ کو تمام سہولیات دیتے ہیں آپ ایک پروگرام کے تحت انکی تربیت کریں اس لئے کہ ہم کو اطمینان ہے کہ دنیا میں تربیت کے جتنے ذرائع ہیں ان میں مسلمانوں کی روش سب سے بہتر ہے۔ اس یونیورسٹی کا نائب مختلف شعبوں کو پہچنوانے او ر اس کی راہنمائی کے لئے ہمارے ساتھ تھا جب ظہر کا وقت ہوا تو ہم نے کہا ہم ظہر کی نماز پڑ ھنا چاہتے ہیں چنانچہ ایک جگہ ہمارے لئے معےّن ہوئی اور ہم لوگ نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے یونیورسٹی کا نائب جو کہ عیسائی تھا اس نے بھی ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ہمیں بہت تعجّب ہوا اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم آپ لوگ نماز میں کیا پڑھتے اور کیا کہتے ہیں ؟ لیکن یہ سجدہ کی حالت مجھکو بہت اچھی لگی اور میرے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی نماز پڑھوں ۔

۲۱

ہاوانا ]یہ ایک ایسے ملک کی راجدھانی ہے جو پچاس سال تک کمیونزم کے زیر تسلّط رہ چکا ہے اورآج بھی ہے [وہاں کے ایک بزرگ پروفیسر جو کہ پیدائشی طور پر اسپین کے رہنے والے ہیں اوروہاں تاریخ کے استاد ہیں وہا ں جتنے بھی اساتید ہماری میزبانی کر رہے تھے ان لوگوں کے درمیان یہ شخص بلند ہوا اور تقریر کرتے ہوئے اس نے کہا کہ میں جوانی کے عالم میں اس بات کی خواہش رکھتا تھا کہ میں دو شخصیات کے بارے میں مطالعہ کروں اور تحقیقات کر کے تفصیلی معلومات حاصل کروںایک پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ]جو کہ ایک عالمی شخصیت کے مالک تھے [دوسرے خےّام جوکہ ایک ایرانی دانشمند ہے لیکن آج کل کافی دنوں سے میرے اندر ایک نئی شخصیت کے بارے میں جستجو کرنے کی خواہش ہو گئی ہے جس خواہش نے ان دونوں پرانی خواہشوں کوبھلا دیا ہے آج میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کروں جس نے دنیا میں انقلاب برپاکردیا ہے اور وہ ذات امام خمینی کی ہے یہاں پر وہہاواناکا ضعیف استاد جذباتی ہو گیا اس نے اپنے اندر عجیب کیفیت پیدا کر لی وہ دو بار میرے سامنے جھکا اور اس نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور خواہش کی کہ ایک اسپینی زبان میں ترجمہ شدہ قرآن اسکو دوں کہاں''ہاواناجہاں نصف صدی تک کمیونسٹ کی حکومت تھی وہاںایک یونیورسٹی کا استاد جو کہ سب سے ضعیف تھا اسکی یہ خواہش؟

۲۲

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ تصوّر نہ کریں کہ گمراہی کے وسائل بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور گمراہی ہر طرف پھیل چکی ہے اب کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے چاہے ایک بالشت ہو یا سو بالشت، ڈومنے کے لئے کافی ہے یہ تصّور بالکل غلط ہے مایوسی اور ناامےّدی کی حالت ہمارے اندر کبھی بھی نہیں ہونا چاہئے، خدا وند عالم نے اس دنیا کو انسان کی ترّقی اور کمال کے لئے پیدا کیا ہے اس کی ذات اس بات سے منزّہ ہے کہ دنیا کو چھوڑ دے اور کچھ شیطان نماانسانوں کے حوالے کر دے اور لا پرواہ ہو جائے ایسا ہر گز نہیں ہے، اگر گمراہی اور انحرافات کے وسائل زیادہ ہیں تو ہدایت و اصلاح کے راستے بھی نئے نئے سامنے آرہے ہیں جو کسی بھی پیغمبر اور امام کے زمانے میں موجود نہیں تھے ۔

وہ اجتماعی حالات جو آج سماج اور قوم کو بدلنے کے لئے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں پائے جاتے تھے آپ اسکانمونہ ایرانی انقلاب اور آٹھ سالہ دفاع مقدّس کے تناظرمیں دیکھ سکتے ہیں ۔

یہی جوان جو کہ شاہ کے دور میں پلے بڑھے تھے انکے اندر ایسا انقلاب اور تحوّل آیا کہ وہ با ایمان اور صاحب عرفان ہو گئے کہ ان لوگوں نے ۸ سالہ جنگ کو بہت ہی افتخار اور سر بلندی کے ساتھ فتح کیا اسی دفاع مقدّس میں ایسی قربانی دیکھی گئی جسکی کوئی مثال نہیں ملتی ان لوگوں نے لاجواب اور بے نظیر قربانی پیش کی ، ان لوگوں نے انقلاب کو زندئہ جاویدکر دیا ۔اگر آپ اس زمانے میں اپنی کلاسوں میں ملاحظہ کریں گے تو آپ کو ایسے نوجوان مل جائیںگے جو عرفانی مطالب کو حاصل کرنے کے لئے اسی قدر والہانہ جذبہ رکھتے ہیں کہ گویاسو سال کی منزل کو ایک دن میں طے کر لیں اگر انکی ہدایت اور راہنمائی صحیح طریقے سے کی جائے تو ان میں صبرو ایثار،جذبہ و فدا کاری کی نیز دنیاوی لذّات سے اپنے کو بچانے کی قوت و صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کا ہم نے انقلاب کے دوران اور جنگی محاذ پر مشاہدہ کیا ہے اور ایسی مثالوں کو دیکھا ہے اس نوجوان نسل کی ہدایت ]جو کہ بہترین صلاحیت رکھتے ہیں اور انکی فطرت پاک وپاکیزہ ہے[اور ان کی راہنمائی آج ہم اورآپ اساتیدکے کاندھوں پر ہے۔

۲۳

اکثر بڑے انقلابات صاحبان علم کی فکروں کا نتیجہ

ہماری بحث ذمہ داری اور مسئولیت کے بارے میں تھی جو مطالب میں نے پیش کئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو اور زیادہ محسوس کریں، اگر آپ توّجہ کریں تو دیکھںگے کہ جولوگ مختلف شعبوں میں کامیاب ہوئے ہیں اور دنیا کے مختلف حصّوں میں انقلاب لانے کا سبب واقع ہوئے ہیں نوے فیصد سے زیادہ افراد صاحبان علم ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ یونیورسٹی سے تعلّق رکھتے ہوں یادینی مدارس سے، اقتصادی،اجتماعی،سیاسی اوردینی نیزاسی طرح کے اور دوسرے شعبوں میں آپ اکثر دیکھں گے کہ شروع میں ایک شخص کی کوشش اورپلاننگ ہوتی ہے پھردھیرے دھیرے اس میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور آخر میں وہ بڑے انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ انقلاب اور تحوّل ہمیشہ مثبت اور مفید ہی رہا ہو ان میں منفی اور مضر تحوّلات بھی پائے جاتے ہیں بہت سے ایسے تحوّلات بھی ہیں جو کہ اپنے اندر بہت ہی وسیع پیمانے پر فکری اوراخلاقی انحرافات کے حامل ہیں اور وہ انحرافات بہت ہی خطرناک حد تک پہونچے ہوئے ہیں ، انھیں میں سے ایک انحراف جس کی طرف اشارہ کیا جا سکتاہے مغرب کاجنسی اور اخلاقی انحراف ہے جس کے قائل خود مغربی ممالک کے افراد ہیں کہ اس انحراف کا سبب جرمنی کا مشہور ماہر نفسیات ]زیگمونڈ فرویڈ[نے نفسیاتی بیماریوں کے اسباب و علل کو دیکھ کر نتیجہ نکالا کہ اس جنسی اور اخلاقی انحراف کا سبب جنسی خواہش کا کچلا جانا اور غریزئہ جنسی کا دبایا جانا ہے اور اس پر پہرے کے سبب یہ انحراف ہو رہا ہے اس نے تحلیل و تجزیہ کیا اور اس بیماری کی وسعت کو کم کرنے اور اس سے بچنے کے لئے یہ رائے پیش کی کہ سماج اور معاشرے میں پوری طرح سے جنسی آزادی ہونی چاہئے۔

اگر چہ خود (فرویڈ) اس نظریہ کو ظاہر کرنے میں کوئی قصد و غرض نہیں رکھتا تھا لیکن پھر بھی بہر حال یہ نظریہ اس جنسی اور اخلاقی تنزّلی اورپستی کا باعث بنا جسکا ہم مغربی ممالک میں مشاہدہ کر رہے ہیں البتہ شہوت پرستی اور لوگوں کی ہوس رانی نیزغلط فائدہ اٹھانے والوں کی منفعت طلبی اور وقت سے فائدہ اٹھانے والوں کی کار فرمائیاں بھی اس چیز کے پھیلائو کا سبب بنی ہیں لیکن بہر حال پہلا قدم اسکے پھیلانے میں فرویڈ'' کا تھا، آج کل دنیا میں سب سے زیادہ فائدہ مند صنعت سیکس اور جنسی مسائل سے متعلّق ہے دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی فلمیں سیکسی فلمیں ہیں اور ٹی وی پر جو چینل سیکسی فلمیں نشر کرتے ہیں وہی چینل دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں ان تمام انحرافات کی جڑ اسی ایک ماہر نفسیات کی فکر تھی۔

۲۴

فکری فسادو انحطاط کے متعلق بھی مارکس ازم کے تفکرّات اور اسکے غم انگیز نتیجوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ستّر سال سے جو فلسفہ نصف کرئہ زمین پر حاکم تھا خود انھیں ملکوں اور جو لوگ ان ملکوں میں انکے پیرو تھے خود انھیں لوگوں کے اعتراف کے مطابق اسکے خطرناک نتائج سامنے آئے ،یہی مارکس ازم کانظریہ تھا جس نے لاکھوں بے دین اورر منکرین خدا کو پیدا کیا جو خدا اور دین سے شدّت جنگ کی ،نیز یہ نظریہ بھی ایک دوسرے جرمنی دانشور'' مارکسکا تھا یہ تو چند مضر اور نقصان دہ تحوّلات تھے،البتہ کچھہ مثبت اور فائدہ مند تحولات بھی علماء اور دانشوروں نے ایجاد کئے ہیں جن سے ہم کو غافل نہیں ہونا چاہئے انقلاب جمہوری اسلامی ایران بیسویں صدی کا مہم ترین تحوّل و انقلاب ہے جس کا دوست اور دشمن سبھی نے اعتراف کیا ہے یہ ایک مذہبی عالم آیت...امام خمینی کی فکروں کا نتیجہ تھا امام خمینی کی شخصیت ایک سے زیادہ نہیں تھی اور اسلحہ ،پیسہ وغیرہ کچھ بھی نہیں رکھتے تھے ان کے پاس صرف ایک بلند فکر تھی ایسی فکر کہ شروع میں تقریباً۹۹ فیصد خاص دوست ا ور احباب بھی یقین نہیں رکھتے تھے کہ یہ فکر عملی ہوجائے گی لیکن سبھی لوگ گواہ ہیں کہ اس شخص نے دنیا سے الگ ایک چھوٹے اور معمولی مکان میں بیٹھ کر مشرق و مغرب کی دو بڑی طاقتوں کو مبہوت کر دیا یہ ایسے عالم میں ہوا کہ امام نہ شہرت کے طالب تھے اور نہ ہی حکومت کے خواہاں، جبکہ یہ عام بات ہے کہ کوئی استاد درس پڑھا کر نکلتا ہے تو تمام شاگرد اسکے پیچھے پیچھے چلتے ہیں لیکن امام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی انکے پیچھے چلے امام خمینی اگر کسی کو دیکھتے تھے تو اسکو منع کرتے تھے کہ وہ راستے میں انکے پیچھے پیچھے چلے، امام خمینی ایسے مرجع تھے کہ جنھوں نے بہت زمانے تک اپنے رسالہ عملیہ کو چھاپنے کی بھی اجازت نہیں دی اور جب اجازت دی تو اس شرط کے ساتھ کہ ایک پیسہ بھی سہم امام علیہم السلام کا اس میں خرچ نہ ہو میں خود اس بات کو جانتا ہوں کہ آپ کا رسالہ عملیہ کن لوگوں کے تعاون سے چھپا تھاآپ ایسی شخصیت تھے جو نہ قدرت کے طالب تھے اور نہ ہی شہرت کے خواہاں ،بلکہ ان دونوں چیز سے گریزاں تھے ۔

۲۵

آپ کے اندر ایک فکر تھی کہ جس پر بھروسہ کرکے آپ نے ایک بہت بڑا انقلاب برپا کر دیا ایسا تحوّل جس نے دنیا کے سیاسی حالات کو درہم برہم کر دیا یہ سب ایک مثبت فکر کا نتیجہ ہے۔

بہر حال میں اس بات کی تاکید کرنا چاہتا ہوں ایک آدمی،ایک استادخواہ وہ دینی مدرسے کا ہو یا یو نیورسٹی کا(چاہے وہ مثبت ہو یا منفی) عالمی انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔ اگر ہم اس مسئلہ کی کی طرف توجّہ کریں تو ان ذمہ داریوں کے بوجھ اور اسکی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں پھر اس بات کے لئے آمادہ ہونگے کہ اس کے لئے وقت صرف کریں درس اور کلاس کو تعطیل کریں اور بیٹھ کر اس اہم مسئلہ کے بارے میں بحث اور گفتگو کریں اور ملک کے نوجوانوں کے بارے میں فکر کریں، اسلام اور اسلامی معاشرہ سے متعلّق جو کام انجام دینا ہے اسکو پہچانیںاور ان کے متعلق اپنا فریضہ انجام دیں ان تمام مطالب کی طرف توجّہ کرتے ہوئے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فریضہ اور ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ہم کو کیا کرنا چاہئے اس کے جواب سے قبل ایک مقدمّہ بیان کرتا ہوں۔

تہذیبی انقلاب کی اہمیت

میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کو کتنا یاد ہے لیکن انقلاب اسلامی کے شروع ہی میں مرحوم امام خمینی نے ثقافتی اورتہذیبی انقلاب کے مسئلہ کو پیش کیا اور بہت سے ملک کے تعلیمی ادارے بند ہوگئے تو مختلف ممالک سے لوگ آئے تاکہ اس بات کوملاحظہ کریں کہ امام خمینی نے جو ثقافتی انقلاب کی بات کو کہی ہے آخراس کاراز کیا ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی ثقافتی انقلاب فرہنگی کی بات آئی تھی جو کہ چین کے ثقافتی انقلاب سے متعلّق تھی جسکی بنیاد''مائو''نے رکھی تھی بہر حال ساری دنیا سے اہل فکر و نظر اور سیاسی لوگ ایران آئے تاکہ دیکھیں امام خمینی کیا کرنا چاہتے ہیں مجھکو خود یاد ہے کہ ایک یہودی استاد بھی آسٹریلیا سے قم آیا تھا میں نے خود جلسہ میں بیٹھ کر اس سے بحث و گفتگو کی وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر امام خمینی کا تہذیبی انقلاب کیا ہے؟ میں نے اس کو وضاحت کے ساتھ بتایا۔

۲۶

لیکن افسوس کہ ایسے حالات سامنے آئے کہ امام خمینی اپنے ارمان کو صحیح طریقے سے بیان نہ کر سکے اور اس کو عملی جامہ نہ پہنا سکے چونکہ نیا نیا انقلاب آیا تھا مختلف مسائل اور مشکلات سامنے تھے ابھی کچھ ہی دن گذرے تھے کہ آٹھ سالہ جنگ ہم پر مسلّط کر دی گئی جو کہ ملک کا سب سے اہم مسئلہ بن گئی ہم کو اس پر بہت ہی امکانات اور قوت و طاقت صرف کرنی پڑی ،بہر حال ملک کے اندر اور باہر شیطان صفت افرادمتحد ہو گئے یہ بھی ایک سبب بنا کہ جو ثقافتی انقلاب امام خمینی کے ذہن میں تھا وہ حقیقی اور عملی صورت اختیار نہیں کر سکا لہٰذا اگر کوئی یہ نتیجہ نکالے کہ بیرونی دبائو اورفوجی محاصرہ اور اقتصادی پابندی اور طرح طرح کی مشکلات ہمارے لئے کھڑی کی گئیں وہ سب صرف اس لئے کیا گیاکہ امام خمینی کا ثقافتی انقلاب کامیاب نہ ہو سکے اس جملہ میں کچھ نہ کچھ ربط ضرور ہے اور اس کو بعید از امکان نہیں سمجھنا چاہیئے، آپ خود بو سینا میں دیکھیں کہ وہاں اتنے ظلم کیوں کئے گئے ؟اور بہت ہی بے رحمی اور پوری دشمنی کے ساتھ ہزاروں مردوں، عورتوں ،بوڑھوں جوانوںحتیّٰ بچوّں کو قتل کر کے انکے سر کیوں جدا کئے گئے؟اور جو لوگ حیوانات کی حفاظت کے لئے انجمن بناتے ہیں اور چند حیوانات کے لئے مظاہرہ کرتے ہیں وہ لوگ بھی انسانوں پر اتنے ظلم و ستم کے بعد بیٹھے دیکھتے رہے اور انکی زبان پر ذلّت و رسوائی کا تالا پڑا رہا اور ان سے کچھ نہ بولا گیا بلکہ اس کے بر خلاف ظالموں کی مالی اور جنگی مدد بھی کرتے رہے، کیا اس کا سبب ثقافتی اور تہذیبی مسئلہ کے علاوہ کچھ اور تھا ؟ کیا ان مسلمانوں کی تعداد دو تین ملین سے زیادہ تھی ؟ یہ نہ زمین رکھتے تھے اور نہ مکان نہ انکی تعداد زیادہ تھی نہ ہی انکے پاس دولت، ہتھیار ،ٹکنالوجی اور کوئی اہم چیز تھی تو ان لوگوں پر اتنا بھیانک حملہ اور ظلم و ستم کیوں ہوا ؟اس کا جواب صرف ایک چیز ہے وہ یہ کہ ان کے پاس صر ف ثقافت اور اسلام کا کلچر تھا وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ بیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے مرکز میں ایک اسلامی ملک ظاہر ہو رہا ہے اور اپنے وجود کا بر ملااعلان کر رہاہے اس سے وہ لوگ خوف زدہ تھے کہ اسلامی فرہنگ اور کلچر دھیرے دھیرے پڑوسی ممالک اور پورے یورپ میں پھیل جائے گااور آگے چل کر پورے یورپ میں ہر چیز کو بدل دے گا لہٰذا ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ آغاز میں ہی اس تحریک کو ختم کر دیا جائے اور یہی کام الجزائر، ترکیہ اور دوسرے اسلامی ممالک میں انجام دیا گیا، آخر کیوں ؟ یہ لوگ اسلام سے خوف زدہ ہیں اسلام کیا ہے؟ اسلام ایک فکر اور فرہنگ ثقافت کا نام ہے تو گویا یہ لوگ ایک فکر اور فرہنگ سے ڈرتے ہیں

۲۷

اس طولانی مقدّمہ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کو اس سوال کے جواب میں کہ کیا کرنا چاہئے؟ صرف یہی ہے کہ ہم کو ثقافتی کام کرنا ہے یہ ساری بحثیں اس بات کا سبب بنتی ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنی ذمہ داری کو انجام دیں اور اس بات کو اپنے ذہن سے نکال دیں کہ یہ فکری اور فرہنگی بحثیں بے فائدہ ہیں اور ملک میں جو کچھ بھی مشکل ہے اسکا تعلّق صرف اقتصاد اور خارجی سیاست وغیرہ جیسے مسائل سے ہے ۔

انقلاب کے ارتقاء میں ثقافتی تحریکوں کا کردار

اسلامی تہذیب وتمدن کو فروغ دینے کے لئے ہم کو اصول اور نظام کی ضرورت ہے ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی تحریک کی راہ و روش کو معین کریں جو حالات ہمارے سامنے ہیں ان کو محسوس کریں اپنے طریقہ کار کو پہچانیں اسی طرح اس تحریک سے متعلّق راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دیکھیں اور ان سے متعلّق جو لازمی تدابیر ہیں انکو اختیار کریں، اس راستے میں سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہم فکروں کو نئے انداز سے پیش کریں، اپنے مطالعہ کو وسیع اور مضبوط کریں ،فکروں کے اصول کو قائم کریں اصولی اور بنیادی طور پر محکم انداز سے اپنے کام کو شروع کریں۔

۲۸

انقلاب کے شروع میں ہم لوگ ایک مختصر شناخت رکھتے تھے ہم کو ظالموں اور انکے پٹھّوئوں کے مقابلے میں پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اسی مختصرشناخت پر ہم نے حرکت کی اور انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور یہاں تک پہونچا ہے آج بھی لوگوں کی اکثریت اسی اصول اور قانون کی پابند ہے لیکن ہم کو اس بات پر توّجہ دینی ہوگی کہ اس انقلاب کو باقی رکھنے اور اس کے تحفظ کے لئے یہ تھوڑی سی شناخت کافی نہیں ہے اس حرکت کے آغاز اور انقلاب کی کامیابی کے لئے زیادہ تر احساسات اورجذبات پر بھروسہ تھا جو کہ اسی مختصر شناخت کے ساتھ تھا جس سے کچھ نتیجہ حاصل ہوا لیکن اس راستے کو جاری رکھنے کے لئے صرف اس پر عمل کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہم کو اب اصل میں احساس و عواطف سے ہٹ کر شناخت اوربصیرت کے اسباب پر زیادہ توجّہ دینی ہوگی۔ اب آج نوحہ و ماتم اور نعروں سے لوگوں کو جمع نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ سب چیزیں اپنی جگہ پر باقی رہیں اور محفوظ رکھی جائیں ،لیکن گفتگو اس بات میں ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ثقافتی اموراور تہذیبی مراکز میں کوئی رخنہ وارد نہ ہو اور ہم دشمن کے نفوذ سے محفوظ رہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم غورو فکر کے ساتھ فرہنگ و ثقافت کی طرف خاص توجّہ دیں ۔آج دشمن بھی چالاکی کے ساتھ اس نکتے کو پہچان گیا ہے اس نے اپنی قوی اور مستحکم حرکت کو اقتصادی اور فوج میدان سے ہٹاکر سارے امکانات کو ثقافتی مسائل میں صرف کر رہا ہے اور دشمن اس کوشش میں ہے کہ اس طرح سے انقلاب کے ثقافتی مراکز کو آلودہ اور خراب کرکے دھیرے دھیرے تمام میدان کو اپنے قبضہ و اختیار میں کر لے ،اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ثقافتی شگاف کو روکیں اور دشمن کو اس طرف سے داخل نہ ہونے دیں تو ہمیں چاہئے کہ اس پرا گندگی اور بے نظمی سے اپنے کو نکالیں، اگر ہم یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے چاہتے ہیں کہ ثقافتی کاموں کو انجام دیں اور اسلام کی قدرو قیمت اور اسکی اہمیت کو نو جوانوں کے ذہن تک پہونچائیں تو سب سے پہلے ہم اپنے کو فکری اور ثقافتی اسلحہ سے لیس کریں

۲۹

اور اسلامی فکر و ثقافت اور اسکے مبانی و اصول نیز مغربی فکر وثقافت اور وہ شبہات جو کہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں اس کو جانیں اور پہچانیں تاکہ معاشرہ خاص طور سے نوجوان نسلوں کے مسائل اور مشکلات اور انکے فکری اور ثقافتی شبہات ومشکلات کو حل کر سکیں اور انکے سوالات کے جوابات دے سکیں ا لبتہ خدا وند عالم خود اپنے دین کا محافظ ہے قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے:( انّانحن نزّلناالذکر واناّ له لحافظون'' ) ( ۱ ) بیشک ہم نے قران کریم کو نازل کیا اور ہم ہی اسکے محافظ ہیں ۔ اور بیشک خدا وند عالم ان تمام ظلمتوں اور تاریکیوں کے باوجود اسلام اور دین کی کشتی کو ساحل نجات تک پہو نچائے گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے( هوالذی ارسل رسوله بالهدیٰ ودین الحق ) ۔۔.''( ۲ ) وہ خدا ہے جس نے پیغمبر کو ہدایت اور د ین حق کے ساتھ بھتجا تاکہ اسکو تمام ادیان پرغالب کر دے ہر چند کہ مشرکین اس بات کو نا پسند کریں ۔لیکن اس دین کی حفاظت کیوں نہ ہمارے ذریعہ ہو اور کیوں نہ ہم اس گروہ سے ہوں جن کوخدا وندعالم نے کلمہ حق کی بلندی کے لئے اور اپنے دین کی حفاظت کے لئے چنا ہے۔ ؟

امید کرتا ہوں کہ خدا وند عالم ہم سبھی لوگوں کو یہ توفیق عنایت فرمائے اورآخر میں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ آج ہم لوگ اپنی حسّاس اور تا ریخی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اس ذمہ داری کو انجام دینے اور اپنی فکری اور فلسفی خامیوں کو دور کرنے کے لئے ضروری تےّاریاں کریں اور اس بات پر توّجہ دیں کہ اگر خدا نخواستہ اس عظیم کام اور اس ذمہ داری کو انجام دینے میں کوئی کمی یا کوتاہی کی تو خدا وند عالم ، پیغمبر اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان شہداء کی بارگاہ میں جنھوں نے اپنا خون نچھاور کر کے اس پاک و پاکیزہ شجر کو محفوظ رکھا ہم لوگ اس کے جواب دہ ہونگے اور آسانی سے اس سے بچ نہیں سکتے ۔

____________________

(۱)سورہ حجر : آیہ ۹۔

(۲) سورہ صف : آیہ ۹۔

۳۰

تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری-۲

خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے توفیق عطا فرمائی کہ دوبارہ یونیورسٹی کے معظّم اساتید کے درمیان گفتگو کرنے کا موقع ملا اس کے پہلے جلسے میں گفتگو اس بارے میں تھی کہ ہمارے اوپر کیا کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ اس کو میں نے کچھ حد تک بیان کیا اور اس ضمن میں چند باتیں آپ کے سامنے پیش کیںاس جلسے میں میں نے بیان کیا تھا کہ تہذیب وثقافت سے متعلق امور کو انجام دینے کے لئے سب سے پہلے ہم کو کچھ بنیادی باتوں پر غورو فکر کرنی ہوگی منجملہ انکے موجودہ حالات کو جاننا اور انکی تجزیہ اور تحلیل شامل ہے ،اگر چہ ہم لوگ اجمالی اور مختصر طور پر اپنے اندر ایک ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں اور یہی احساس ہے جس نے ہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے پر مجبورکیا ہے اور ہم لوگ ایک اجتماعی تحریک کے لئے آمادہ ہیں لیکن اس ذمہ داری کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور بہتر طریقے سے جاننے کے لئے انقلاب اجتماعی اور سیاسی حالات اور اس کی گذشتہ تاریخ کو جاننا ضروری ہوگا تاکہ موجودہ حالات کی تصویر کو زیادہ واضح طریقے سے سمجھ سکیں اور زیادہ معلومات کے ساتھ مطلوبہ حالت کی طرف قدم بڑھا سکیں ،البتہ اس بارے میں مزید تفصیلی بحث ہونی چاہئے لیکن وقت کی کمی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس گفتگو کو زیادہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا جائے مجبوراً اسی ایک جلسہ میں اس مسئلہ کو پیش کرکے ختم کیا جارہا ہے ۔

۳۱

بہمن ۵۷ ۱۳ھجری شمشی سے پہلے ایران کی ایک تصویر

ہم سب کو معلوم ہے کہ اصل میں یہ تحریک ، انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پندرہ سال پہلے ۴۲ ہجری شمسی سے شروع ہو چکی تھی یہ پندرہ سال کاعرصہ ایرانی عوام پر بہت ہی سخت گذرا ہے افراتفری کی حالت پورے ملک میں پائی جاتی تھی۔ اقتصادی بحران، سرکاری خزانے کی غارت گری اور تمام شعبوںمیں گمراہی جو دربار شاہ سے وابستہ تھے ان میں اخلاقی برائیاں نیزسرکاری ملازمین میں غلط کاریاں ،بے انتہا رشوت خوری ،ہر جگہ نا قابل برداشت طبقاتی اختلاف نیز اسکے علاوہ اور بہت ساری خرابیاں جس نے لوگوں کو عاجز کر دیا تھا اس کے علاوہ اجتماعی معاملات میں غیروں ، خاص کر امریکا کا عمل دخل پوری طرح سے اتنا دکھائی دیتا تھا کہ بلند و بالا وزیر اور عہدہ دار بھی امریکی تسلّط کے زیر اثر تھے اور عملی طور سے امریکی سفارت خانہ تھا کہ جس کے ہاتھ میں ملک کی ساری حاکمیت تھی ، وہ لوگ ہماری عوام حتّی بزرگ شخصیتوں کی بے عزتی اور توہین کیا کرتے تھے اور بار بار کی حقارت و توہین سے ان لوگوںکے اندربہت حد تک احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا اور عوام یہ تصّور کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ امریکی ہی متمدّن اور ترقی یافتہ ہیں اور ہم لوگ ان کے مقابلے میں بے حیثیت اور پس ماندہ ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسراسب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگ دین سے مقابلہ و مبارزہ کی سیاست اپنائے ہوئے تھے اور یہ فکر دن بہ دن وسیع ہوتی جا رہی تھی اور ایک مضبوط صدا بن رہی تھی آخری دنوں میں بات یہاں تک پہونچ گئی تھی کہ ان لوگوں نے درمیان سے سارے پردوں کو ختم کر دیا تھا وہ لوگ عام طور سے دینی مقدّسات سے کھلواڑ کر رہے تھے ان تمام حالات کے ہوتے ہوئے ایک عام اور وسیع انقلاب کا ہونانا گزیر ہو گیا تھا ۔

۳۲

شہنشا ہی دور کی سب سے بڑی آفت

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کا تجزیہ کریں تو سب سے بڑی آفت میری نظر میں یہ تھی کہ پچھلی استعماری سیاست کے ذریعہ خاص طور سے پہلوی نظام کے پچاّس ساٹھ سالہ دور میں ان لوگوں نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کے گروہ اور دیندار افراد کو سیاست سے با لکل خارج کر دیا تھا، اس زمانے کی بہت سی چیزیں مجھکو یاد ہیں لیکن جس نکتہ کی طرف میں نے اشارہ کیا اس کی طرف بہت کم دوستوں کی توّجہ ہوگی یا انکو یاد نہ ہوگا ،یہ ایک بلا تھی اور بہت ہی اہم مسئلہ تھا جو ان لوگوں نے اس ملّت کے لئے ایجاد کر دیا تھا ۔اس طرح کی ان لوگوں نے سیاست گذاری کی تھی کہ اس ملک کے سیاسی اور اجتماعی کاموں کو کچھ ایسے افراد کے حوالے کر دیا تھا کہ جو ان کے مطابق تھے ایسے منتخب افراد کہ جن میں اسّی فیصد سے زیادہ امریکہ میں تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے یا ایران میں ایسی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے جو امریکہ کے زیر اثر تھیں منجملہ ان یو نیورسٹیوں میں تہران کا'' د انشکدئہ مدیریت''(جو آجکل امام صادق یونیورسٹی ) اور شیراز کی یو نیورسٹی تھی شیراز کی یونیورسٹی کا جو مالک ہوتا تھا وہ سفارت امریکہ سے معےّن ہوتا تھا اور دوسری یونیورسٹیوں کے نظام اور نصاب بھی امریکی ہی معےّن کرتے تھے ،بہر حال ملک کی سیاست گذاری عملی طور سے انھیں منتخب اور چنندہ دانشوروں کے ہاتھ میں تھی جنکی اکثریت امریکہ کی تربیت یافتہ تھی،البتہ یہ سیاست اصل میں انگریزوں کی ہے جو بہت ہی باضابطہ اور منظّم انداز میں تھی،امریکہ نے سیاست کے اس طریقے کو انگریزوں سے سیکھا ہے تا کہ اس ذریعہ سے ان ممالک میں بہت دنوں تک اپنا تسلّط برقرار رکھ سکیں لہٰذا وہ اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ایسے دانشوروں کی خود انھیں ملک میں تربیت کریں جو بلا واسطہ طریقے سے انکی فکروں کو پروان چڑھائے اوروہ ان کے مطابق ہر کام کرنے کے لئے تیارہوں ۔اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلاکہ ملک کے عام مسلمانوں کا ملک کی سیاست اور سرکاری امور میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا تھا صرف ایک پارلیمنٹ تھی جہاں عوام کی کسی حد تک دخالت نظر آرہی تھی وہ بھی اس طرح کہ ممبروں کی ایک لیسٹ اور فہرست دربار شاہ اور امریکی سفارت خانہ کے توسط سے پہلے ہی معےّن ہو جاتی تھی اور وہی نام انتخابات کے دن بکسوں سے باہر آتے تھے۔

۳۳

اگر چہ ملک کے دانشوروں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ملک کی موجودہ سیاست سے متّفق نہیں تھے اور کسی بھی طرح ان کے ساتھ رہنے کو آمادہ نہیں تھے بلکہ ان سے مقابلہ کے لئے تےّار تھے اس سلسلے میں ان لوگوں نے کئی جماعتیں تشکیل دی تھیں ان میں سے ایک حزب تودہ (تودہ پارٹی )تھی اگرچہ یہ لوگ بھی کسی حدتک مشرقی استعمار کا آلہ کار تھے اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو روس کی طرف جھکائو رکھتے تھے اور وہ لوگ چاہتے تھے کہ ایران ایک سو سلشٹ اور روسی فکر میں تبدیل ہو جائے ،بہر حال پھر بھی اس گروہ میں کچھ مخلص اور سچّے لوگ بھی پائے جاتے تھے جوحقیقت میں انگریزوں اور امریکہ کے تسلّط اور استعمار کے چنگل سے بچنے کے لئے اسکے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں سمجھتے تھے تھا کہ اپنے کو روسیوںکے حوالہ کر دیں یعنی انکے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ تیسری دنیا کے ممالک مثلاً ایران وغیرہ کے سامنے صرف دو ہی راستہ ہے یا وہ امریکی پرچم کے نیچے آجائیں یا روسی پرچم کے زیر سایہ تا کہ انکے لئے دوسرے لوگوں سے مقابلہ کرنا ممکن اورآسان ہو جائے اگر چہ یہ دوسرے گروہ والے زیادہ نہیں تھے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اس خیال کے حامی ضرور تھے بہر حال ان دنوں دانشوروں کی ایک جماعت حزب تودہ کی شکل میں جمع ہو گئی تھی اور رسمی کاموں کو انجام دیتی تھی آج بھی ہم کو اس طرح کی تنظیم سے غافل نہیں ہونا چاہئے چونکہ یہ لوگ دوبارہ موقع کو غنیمت جان کر چوری چھپے اپنے کو پھر سے آمادہ کر رہے ہیں ۔اوراس بائیںبازو میں تودہ پارٹی کے علاوہ دوسرے گروہ جیسے فدائی خلق، کارگرپارٹی، رستگار پارٹی ، اور مختلف قسم کے مقامی گروہ مختلف علاقوںجیسے کردستان، آذربائیجان، ترکمنستان اور خوزستان وغیرہ میں موجود تھے ان تمام پارٹیوں کا مارکس ازم کی طرف جھکائو تھا ۔اس بات کا تذکرہ مناسب ہے کہ بہت سے گروہ جو کسی نام سے پائے جاتے تھے حقیقت میں اس کے اندر ممبران کی تعداد دس بیس افراد سے زیادہ نہیں تھی۔ ان بائیں بازو کی پارٹیوں کے مقابلہ میں اور دوسری پارٹیاں بھی پائی جاتی تھیں جن کا شمار داہنے بازو کی پارٹیوں میں ہوتا تھا جو کہ حکومت کی طرفدار اور اس پہلوی نظام کی موافق تھیں کہ مغربی بلاک سے تعلق رکھتی تھیں۔

۳۴

اس درمیان جس بات کی کمی تھی وہ دیندار افراد کی فعّالیت اور ان کا متحرک نہ ہونا تھا مختلف چالوں اور حربوں سے ان لوگوں کو سیاست کے میدان سے جدا کردیا گیا تھااور اس طرح سے تبلیغ کی گئی تھی کہ اصلاًکوئی دینداراورمتدےّن سیاسی امور میں دخالت نہیں کرتا تھا۔

یہ بات مجھکو خود یاد ہے کہ جب کسی موقع پر کسی عالم دین کو بدنام کرنا چاہتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ ملاّسیاسی ہے گویا ایسا دور آ گیا تھا کہ سیاسی مولوی ہونا ایک گالی تصوّر کیاجاتاتھا اسی وجہ سے دیندارافراد خاص طور سے عالم دین حضرات سیاست کے میدان میں اترنے سے پرہیز کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ بعض اسلامی ممالک کی پیروی اور کچھ دوسرے اسباب کی بنا پر دینداروں کے درمیان بھی بعض سیاسی گروہ پیدا ہو گئے تھے مشہور تنظیمفدائیان خلقانھیں گروہوںمیں سے ایک تھی اگر چہ یہ ایک چھوٹی سی تنظیم تھی لیکن اپنی جگہ بہت ہی مصممّ اور مستحکم پارٹی تھی، ایک دوسرا گروہحزب ملل اسلامی'' تھا جو کہ ۲۸ مردادکے بعد عالم وجود میں آیا تھا یہ لوگ بھی معدودے چندافرادسے زیادہ نہیں تھے اور آخر کار گوشئہ گمنامی میں چلے گئے اسی دوران (جو کہ مرحوم آیت۔۔ کاشانی کے سیاسی کارناموں کی بلندی کا دور تھا )ایک دوسرا گروہمجاہدین اسلامبھی تھا جس کے بانی شمس قنات آبادی تھےسازمان مجاہدین خلقجس کو آجکل ہم گروہ منافقین کے نام سے جانتے ہیں حقیقت میں اسی گروہ کا ایک حصّہ تھا جس کے بانی یہی شمس تھے جیسا کہ آپ جانتے ہیں بعد میں چل کر اس گروہ نے مارکسی رجحان پیدا کر لیا اور آخر کار امریکہ اورمغرب کے دامن میں چلا گیابہر حال ملک کے سیاسی حالات کی یہ تصویر او ر یہ متحّرک تنظیمیں انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھیں جو انھیںمذکورہ چند گروہوں میں منحصر تھیں اور ملک کے مخلص اورمعتقدمسلمانوں کی اکثریت ، جو کہ نوّے فیصدتھے اس میدان سے پوری طرح دور تھے سیاست میں آنے کے لئے انکے پاس کوئی ذریعہ اور راستہ نہیں تھا ان نوّے فیصد لوگوں میں حالات اور واقعات کی حقیقت سے آگاہی رکھنے والے افراد کم نہ تھے یہ لوگ حقیقت میں ملک کے حالات سے ناراض تھے اور خون دل پیتے تھے لیکن عملی طور سے کچھ نہیں کر سکتے تھے انکو کچھ امید بھی نہیں تھی اس زمانے میں چند اسلامی گروہوں کے درمیان جو کہ واقعا ًاسلام سے لگائو رکھتے تھ

۳۵

ے اوروہ شاہ کی حکومت کو قبول نہیں کرتے تھے نیز بائیں بازو اور مارکس ازم کی طرف بھی ان کا رجحان نہیں تھا ایک گروہنہضت آزادیبھی تھااس گروہ میں چند نوجوان لڑکے تھے جنھوں نے اکٹھاہو کر ایک تنظیم بنا لی تھی اور دھیرے دھیرے اس تنظیم نے تحریک آزادی کی شکل اختیار کر لی تھی اس تنطیم کی بنیاد ڈالنے والے لوگوں میں انجینئر بازرگان اور ڈاکٹر ید ا... سحابی کا نام لیا جا سکتا ہے ،تہران یونیورسٹی کے شعبہ فنّی کی مسجد کی بنیاد ڈالنے والے یہی مہندس بازرگان تھے، اسی طرح آپ کئی رسالوں کو مختلف شکل میں چھاپتے تھے ان میں ایک رسالہ''گنج شایگاں''تھا ،تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح اسلام سے ربط رکھتے تھے نمازی اور روزہ دار بلکہ بعض عابدشب زندہ دار بھی تھے، اگرچہ تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح راستے سے بھٹک گئے اورخود کو سیاسی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے محاذملّی کے ان ممبران کے عنوان سے پیش کیا جو کہ سیاسی دانشوروں کے درمیان دوسروں سے بہتر تصوّر کئے جاتے تھے، اور ویسا ہی کام کرنے لگے سیاسی اعتبار سے ملک کی یہ حالت اس وقت، انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھی ۔

سیاسی تغیراورانقلاب کے لئے امام خمینی کی حکمت عملی

ان حالات میں امام خمینی نے فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کے ساتھ جو کہ شروع سے آپ رکھتے تھے یہ محسوس کیا کہ یہ سیاسی کارنامے جو دانشوروں کے مختلف گروہوں کی طرف سے انجام دئیے جارہے ہیں اگرنتیجہ کو پہونچ جائیں تو بھی اس سے اسلام کو کوئی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے حتیّٰ جو لوگ اسلام کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں اس سے بھی کچھ فائدہ ہونے والانہیں ہے، صرف ایک راستہ جو امام خمینی کی نظر میں فائدہ مند تھا اور اس کا ہونا ضروری تھا وہ یہ کہ عام مسلمانوں کو میدان میں لایا جائے امام خمینی کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ جماعتیں اور تنظیمیں ایک اسلامی انقلاب( جو کہ مضبوطی کے ساتھ تمام شعبوں میں حاکم ہو اور حکومت اسلامی کی شکل میں ہو ) نہیں لاسکتی ہیں ، اگرچہ امام خمینی کی تھیوری اس زمانے میں قابل قبول نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے وہ لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ جہاں بھی جس صورت میں سیاسی تحریک اور فعّالیت انجام پائے، اس کا نتیجہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی گروہ یا تنظیم کی شکل میں کسی خاص رابطہ اور قاعدہ کے ساتھ انجام پائے اسکے بر خلاف ایسی تحریک جو عمومی طور سے ہو اور اس میں سب کے سب لوگ دخالت رکھتے ہوں

۳۶

اور سب کے سب اپنے کو ذمہ دار محسوس کرتے ہوں اور وہ تمام لوگ متحد ہو کر حرکت کرتے ہوں تو علوم سیاسی کے کلاسکی نظریات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر امام خمینی یہ چاہتے کہ اپنے نظریات اور افکار کو علمی نظریہ کی شکل میں پیش کریں اور اس کے بارے میں بحث وگفتگو کریں تو کوئی بھی اس کو قبو ل نہیں کرتا امام خمینی نے اس سیاسی مطلب کو علمی نظریہ میں پیش کرنے کے بجائے اس کام کو عملی طور سے پیش کرنا شروع کیا اور آپ نے مصّمم ارادہ کر لیا کہ عام لوگو ںکو میدان میں لیکر آئیں اور اس احساس ذمہ دارری کو عام لوگوں کے ذہن میں ڈال دیا کہ مسلمان ہونے کے ناطے تمام لوگوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی امور میں حصّہ لیں، امام خمینی کی یہ فکر دوسری اور فکروں کی طرح ایک نئی فکر تھی اگر امام خمینی س راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے تو کوئی خاطرخواہ انقلاب پیدا نہیں کر سکتے تھے امام خمینی نے عوامی طاقت اور ان کی حمایت سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی اور اس تحریک کو جو کہ اس کے پہلے ہمیں نظر نہیں آتی تھی وجود بخشا ، اس کام کو کوئی بھی سیاسی گروہ چاہے بائیں بازو کی پارٹی ہو یا تنظیم ملّی ہو یا کوئی اور مذہبی گروہ ہو انجام دینے پر قادر نہیں تھا ،اس بات کادوست دشمن سب نے اعتراف کیا ہے ۔ یہ صرف امام خمینی کی ذات تھی جس نے عظیم ملّت کے گروہوں میں چھپی ہوئی طاقت کو مشخّص کرکے ان کے دینی اور اسلامی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نتیجہ خیز کام کو شروع کیا ۔ہم کویہ بات اچھی طرح یاد ہے اور میں خود اس بات کا قریب سے گواہ ہوں کہ وہ آوارہ اوربیکار جوان جو کہ سڑکوں اور گلیوں میں پھرا کرتے تھے امام خمینی نے ان کو ایسا بدل دیا اور ایسا بنا دیا کہ وہ انقلاب کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں اپنے سینوں کو ڈھال بنا کر پیش کرتے تھے اورحکومت شاہ کے سپاہیوںسے کہتے تھے مارو جتنا مارنا ہے مار لو! امام خمینی نے لوگوں کے اندر ان کی دینی ذمہ داری کے احساس کو زندہ کر دیا آپ نے اپنی خالص نےّت سے ایسا کام کر دیا جس سے لوگوں میں محدود اور خشک گروہی رابطوں کے بجائے ایک گہرا اور صمیمانہ رابطہ پیدا ہوگیا لوگ امام خمینی سے محبّت کرتے تھے اور پروانہ کی طرح ارد گرد گھومتے تھے ۔یہ امام خمینی کی بے مثل اور بے نظیر رہبری اور قیادت تھی ہم آج بھی محبّت کے اس گہرے رشتے کو دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ آپکے انتقال کے سالوں بعد بھی آپ کا نام خاص احترا م کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

۳۷

بہر حال امام خمینی کی یہ تحریک اس روز کے رائج فارمولے اور سیاست سے جدا تھی، اس وقت جب ۱۳۵۶ہجری شمسی میں لوگوں نے سڑکوں پر مظاہرہ شروع کیا تو اچھے اچھے لوگوں نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بیس سال سے کم کی مدّت میں اس حرکت اور قیام کا کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے اور کامیابی حاصل ہوگی ایسے افراد سے میری مراد ڈاکٹر بہشتی وغیرہ جیسے لوگ ہیں یہ لوگ کوئی معمولی شخصیت کے مالک نہیں تھے بلکہ بلند سیاسی درجہ رکھتے تھے ان جیسے لوگوں کا بھی ( انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے اور آزادی کے آخری دنوں میں ) یہی نظریہ تھا کہ ابھی بیس سال اور انتظار کریں لیکن سبھی لوگوں نے دیکھا کہ امام خمینی کی تحریک نے ایک سال اور چند دنوں میں ہی نتیجہ دینا شروع کر دیا اور انقلاب کامیاب ہو گیا ،ایسی چیز جس پر میں خود ذاتی طور پر بھی یقین نہیں کرتا تھا اگر کوئی کہتا تھاتو مجھے خواب و خیال سا لگتا تھا میں تو ایک معمولی آدمی ہوں مجھ سے بڑے بڑے لوگوں کا بھی تصّور اور خیال یہی تھا ،بہر حال اگر یہ کہیں کہ ۱۳۵۷ میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی ایک خدائی معجزہ تھی تو میرے نزدیک یہ کوئی مبالغہ کی بات نہیں ہوگی۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض ایسے مفسد گروہ کہ جنکی لوگوں کے درمیان کوئی وقعت نہیں تھی اور ان کی بیہودہ حرکتیں، فریب کاریاںاور قتل و غارت گری ہی خود ان کے خاتمہ کا سبب بنی اور وہ ملک سے بھاگ گئے ان کے علاوہ کچھ دوسرے گروہ باقی رہ گئے جیسے تودہ پارٹی،دہشت گرد فدائی خلق ،پان ایرانیسٹ ،محاذملّی اورتحریک آزادی یہ لوگ پہلے کی طرح کام کرتے رہے انکے لئے کوئی چیز مانع بھی نہیں تھی اور انکے جان ومال محفوظ تھے ۔

یہاں تک تقریباًوہ مطالب تھے جن کو آپ سبھی لوگ جانتے تھے اور کوئی نئی بات نہیں تھی صرف ان مسائل اور واقعات پر جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھے ایک سرسری نظر ڈالی گئی اور اکثر مطالب مقدّمہ کے عنوان سے تھے اصل بحث جس پر میری خاص تاکید ہے اس کے بعد ہے جس پر میں چاہتا ہوں کہ آپ خاص توجّہ دیں ۔

۳۸

حقیقی اسلام کے افکار و اقدا ر سے متعلق اسلامی نظام کے کے ذمہ داروںکا اعتقاد

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد طبعی طور سے ملک کی سرپرستی اور حکومت بنانے سے متعلق بحث ہوئی؛ سب سے پہلی حکومت انجینئر بازرگان کی صدارت میں بنی؛ اسکے بعد بہت سے حکومتیں کئی لوگوں کی سر براہی میں بنیں؛بہت سی کمیاں اور فطری اشکالات جو کم تجربگی اور نئے ہونے کی وجہ سے لازمی تھے وہ سب پائے جاتے تھے جیسا کہ ہر انقلاب اور ہر نئی حکومت کی خصوصیت ہے لیکن اس کے علاوہ اس جگہ جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ کیا ارکان حکومت کے تمام لوگ امام خمینی کی طرح فکر رکھتے تھے اور کیا سبھی لوگ معاشرہ میں دین کے اثر کے متعلق وہی چیز سمجھتے تھے جومرحوم امام سمجھتے تھے ۔

اس وقت ملک کے بڑے لوگ جن کا شمار سیاسی طور پر بزرگوں اور فیصلہ کن لوگوں میں ہوتا تھا جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہد باہنر اور ان جیسے دوسرے لوگ جو سالوں امام خمینی کے زیر سایہ تربیت پاچکے تھے یہ لوگ مکمل طور سے امام خمینی کی فکروں اور نظریوں سے واقف تھے اس کے علاوہ یہ لوگ خود بھی اچھّی صلاحیت کے مالک تھے اسلام کے معارف اور اصول کا وسیع اور گہرا مطالعہ رکھتے تھے اور اسلام کے اصول و احکام اور معارف کا بخوبی علم رکھتے تھے، ایسے لوگ امام خمینی کے راستوں کو پہچانتے تھے اور اس پر اعتماد اور یقین رکھتے تھے اور حقیقت میں وہی چاہتے تھے جس کی فکراور جستجو میں امام خمینی تھے؛ لیکن ذرا آپ غور کریں یہ لوگ کتنے سال زندہ رہے؟ انقلاب کے ایک دو سال کے شروع میں ہی اکثر کو شہید کر دیا گیا سب سے پہلے مرتضیٰ مطّہری کو شہید کیا گیا اس کے بعد ۷ تیر اور ۸شہریور کا واقعہ ہوا ؛جس میں بہشتی؛ باہنر وغیرہ شہید ہوگئے نیز اور دوسرے بہت سارے واقعات جس میں بہت سے ایسے لوگ جو امام خمینی کے افکار اور اصول سے اچھی طرح واقف تھے اور اسی اصول پر یقین رکھتے تھے ملک کے سیاسی عہدوں پر متمکّن تھے اور ملک کے قوانین بنانے میں اہم رول رکھتے تھے وہ لوگ ہمارے درمیان سے رخصت ہو گئے، دشمن جو کہ سارے حالا ت سے باخبر تھا اس سے پہلے کہ ہم ان شخصیات کو اچھی طرح پہچانیں اس نے ان تمام لوگوں کو ہم سے چھین لیا ؛وہ بعض افراد کہ جن کا نام ہم نے لیا اور دوسرے چند لوگوں کو چھوڑ کر وہ تمام لوگ جو کہ ۸شہریور کے واقعہ اور مرحوم باہنر کی حکومت کے بعد حکومت کے لئے آئے اور ملک کے ا ہم سرکاری عہدوں اور وزارتوں پر فائز ہوئے وہ لوگ نہ اس حد تک امام خمینی کو پہچانتے تھے

۳۹

اورنہ انکی روحی اور معنوی نظر اس قابل تھی کہ وہ امام خمینی کے افکار کو پہچان سکیں ؛مختلف لوگ کم و بیش مغربی ثقافت اور تعلیمات سے متا ثر تھے وہ لوگ اسلامی معارف و ثقافت سے دور تھے یہ فاصلہ دن بہ دن ہر حکومت میں پچھلی حکومت اور اس کے مسئولین کی نسبت بڑھتا چلا گیا ؛لیکن جب تک امام خمینی زندہ تھے آپ کی روحانی عظمت اور الٰہی و معنوی شخصیت جس کا سایہ سارے ملک پر تھا بہت کم لوگ اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے تھے حتیٰ جو لوگ امام خمینی کی فکروں اور اصول کی مخالفت کرتے تھے وہ لوگ بھی مخالفت کے لئے راستے کو ہموار نہیں دیکھتے تھے اور پھر وہ عملی طور سے کوئی بات پیش نہیں کر سکتے تھے ۔بہر حال امام خمینی کے انتقال کے بعد آپ کے راستے اور افکار سے دوری کا راستہ ہموار ہوتا چلا گیا کیونکہ اب وہ مربی نہیں رہا اور وہ معنوی شخصیت ہمارے درمیان نہیں رہی ؛امام خمینی ایسی شخصیت تھے جنھوں نے ۸۰سال تک سیاسی اور اجتماعی تلخ وشیریں حادثوں کو ملاحظہ کیا نفسانی اور روحانی طور سے اپنے کو آمادہ کیا اورآپ دشمن سے مقابلہ کا ۳۰ سالہ گرانبہاتجربہ رکھتے تھے لہٰذا امام خمینی کے بعد کوئی کتنی ہی خود سازی کرے اور کتنا ہی با تجربہ اور با لائق ہو وہ امام خمینی جیسا نہیں ہو سکتا ،یہ خود ایک وجہ ہے جو دوسری مختلف وجہوں کے ساتھ فطری طور سے موجود ہے اور اس وقت ان کے بیان کی گنجائش نہیں ہیاور یہ سب وجہیں ایک ساتھ مل کر اس بات کا سبب بن گئی ہیں کہ اسلامی افکارو اقدار دن بہ دن کم سے کمتر ہوتے جا رہے ہیں اس وقت ہم یہ ذمہ داری رکھتے ہیں کہ حالات کو سمجھیں اور مناسب طریقہ کار اور حکمت عملی کے ذریعہ ا س چیزکو آگے بڑھنے سے روکیں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

۲ - وقَالَعليه‌السلام أَزْرَى بِنَفْسِه مَنِ اسْتَشْعَرَ الطَّمَعَ - ورَضِيَ بِالذُّلِّ مَنْ كَشَفَ عَنْ ضُرِّه - وهَانَتْ عَلَيْه نَفْسُه مَنْ أَمَّرَ عَلَيْهَا لِسَانَه.

۳ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ عَارٌ والْجُبْنُ مَنْقَصَةٌ - والْفَقْرُ يُخْرِسُ الْفَطِنَ عَنْ حُجَّتِه - والْمُقِلُّ غَرِيبٌ فِي بَلْدَتِه

۴ - وقَالَعليه‌السلام الْعَجْزُ آفَةٌ والصَّبْرُ شَجَاعَةٌ - والزُّهْدُ ثَرْوَةٌ والْوَرَعُ جُنَّةٌ -

(۲)

جس نے طمع کو شعار بنالیا اس نے اپنے نفس کو رسوا کردیا اور جس نے اپنی پریشانی کا اظہار کردیا وہ اپنی ذلت پر راضی ہوگیا اور جس نے نفس پر زبان کوحاکم بنادیا اس نے نفس کوسبک تربنا دیا۔

انسان کا بنیادی فرض ی ہے کہ اپنے نفس کوب ے نیازی کی تربیت دے اور طمع کا شکار نہ ہو۔اس کے بعد کوئی پریشانی آجائے تو صبر کو شعاربنائے اور ہر ایک سے فریاد نہ کرے کہ اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جائے ۔اور جب بولنے کا وقت آئے تو فکر کو زبان پر حاکم بنائے اور زبان کو نفس کا حاکم نہ بنادے کہ جو چاہے کہنا شروع کردے ۔

(۳)

بخل ننگ و عار ہے اور بزرگی منفقت ۔فقر ہوشمند کو بھی اس کی حجت کے لئے گونگا بنادیتا ہے اور مفلس آدمی اپنے وطن میں بھی غریب ہوتا ہے۔

یہ ایک اجتماعی حقیقت ہے کہ فقرو فاقہ انسان کو خاموش بنا دیتے ہیں اور کوئی شخص فقیر کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا ہے اس کے علاوہوہ غربت انسان کو اپنے ہی شہر میں ایسا اجنبی بنا دیتی ہے کہ لوگ پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔

(۴)

عاجزی آفت ہے اور صبر شجاعت ، زہد ثروت ہے اور پرہیز گاری سپر

۶۲۱

ونِعْمَ الْقَرِينُ الرِّضَى.

۵ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ كَرِيمَةٌ والآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ - والْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ.

۶ - وقَالَعليه‌السلام صَدْرُ الْعَاقِلِ صُنْدُوقُ سِرِّه - والْبَشَاشَةُ حِبَالَةُ الْمَوَدَّةِ - والِاحْتِمَالُ قَبْرُ الْعُيُوبِ.

ورُوِيَ أَنَّه قَالَ فِي الْعِبَارَةِ عَنْ هَذَا الْمَعْنَى أَيْضاً: الْمَسْأَلَةُ خِبَاءُ الْعُيُوبِ ومَنْ رَضِيَ عَنْ نَفْسِه كَثُرَ السَّاخِطُ عَلَيْه.

۔انسان کا بہترین ساتھی رضائے الٰہی پر راضی رہنا ہے۔

یعنی عاجزی انسان کو بیکار بنا دیتی ہے اور صبر اس میں حوصلہ پیدا کراتا ہے۔دنیا سے بے نیازی خود ایک دولت ہے اور پرہیز گاری دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب سے بچانے کی بہترین سپر ہے۔رضائے الٰہی سے بہتر کوئی ساتھی اور مصاحب نہیں ہے جو ہمیشہ ساتھ رہنے والا ہے ۔

(۵)

علم بہترین وراثت ہے اور آداب نوبہ نو لباس ہیں اورف کر بہترین شفاف آئینہ ہے۔

انسان علم سے بہتر کوئی تر کہ چھوڑ کر نہیں جاتا ہے اور آداب سے بہتر کوئی لباس نہیں ہے جو زمانہ کے حالات کے اعتبارسے بدلتا رہتا ہے ۔فکر انسان کے معلومات کا بہترین وسیلہ ہے جس طرح شفاف آئینہ میں شکل دیکھی جاتی ہے۔

(۶)

عاقل کا سینہ اسرار کا خزینہ ہے اور بشارت محبت کا جال ہے اور تحمل و بردباری عیوب کا مدفن ہے اور صلح و صفائی عیوب کے چھپانے کا ذریعہ ہے۔

۶۲۲

۷ - والصَّدَقَةُ دَوَاءٌ مُنْجِحٌ - وأَعْمَالُ الْعِبَادِ فِي عَاجِلِهِمْ نُصْبُ أَعْيُنِهِمْ فِي آجَالِهِمْ.

۸ - وقَالَعليه‌السلام اعْجَبُوا لِهَذَا الإِنْسَانِ يَنْظُرُ بِشَحْمٍ ويَتَكَلَّمُ بِلَحْمٍ - ويَسْمَعُ بِعَظْمٍ ويَتَنَفَّسُ مِنْ خَرْمٍ.

۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَقْبَلَتِ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ أَعَارَتْه مَحَاسِنَ غَيْرِه وإِذَا أَدْبَرَتْ عَنْه سَلَبَتْه مَحَاسِنَ نَفْسِه.

۱۰ - وقَالَعليه‌السلام خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ - وإِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَيْكُمْ.

(۷)

صدقہ بہترین کارآمد دوا ہے اور لوگوں کے دنیا کے اعمال آخرت میں ان کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے ۔

(۸)

انسان کی ساخت(۱) پر تعجب کروکہ چربی کے ذریعہ دیکھتا ہے اورگوشت سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور سوراخ سے سانس لیتا ہے۔

(۹)

جب(۲) دنیاکسی کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے تو یہ دوسرے کے محاسن بھی اس کے حوالہ کردیتی ہے اور جب اس سے منہ پھراتی ہے تو اس کے محاسن بھی سلب کر لیتی ہے۔

(۱۰)

لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول(۳) رکھوکہ مرجائو تو لوگ گریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔

(۱)حضرت کے بیان کا یہ حصہ علم الا عضاء سے تعلق رکھتا ہے۔جس کا مقصد طبی دوائوں کا بیان نہیں ہے بلکہ قدرت خدا کی طرف توجہ دلانا ہے کہ شائد انسان اس طرف شکر خالق کی طرف متوجہ ہو جائے ۔

(۲)یہ علم الا جتماع کا نکتہ ہے جہاں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ زمانہ عیب دار کو عیب عیب بھی بنا دتا ہے اور بے عیب کو عیب دار بھی بنا دیتا ہے اوردونوں کا فرق دنیا کی توجہ ہے جس کا حصول بہر حال ضروری ہے ۔

(۳)یہ بھی بہترین اجتماعی نکتہ ہے جس کی طرف ہر انسان کو متوجہ رہنا چاہیے۔

۶۲۳

۱۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ - فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْه شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْه.

۱۲ - وقَالَعليه‌السلام أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اكْتِسَابِ الإِخْوَانِ - وأَعْجَزُ مِنْه مَنْ ضَيَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِه مِنْهُمْ.

۱۳ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا وَصَلَتْ إِلَيْكُمْ أَطْرَافُ النِّعَمِ - فَلَا تُنَفِّرُوا أَقْصَاهَا بِقِلَّةِ الشُّكْرِ.

۱۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَيَّعَه الأَقْرَبُ أُتِيحَ لَه الأَبْعَدُ.

(۱۱)

جب دشمن پر قدرت(۱) حاصل ہو جائے تو معاف کردینے ہی کو اس قدرت کا شکریہ قرار دو۔

(۱۲)

عاجز(۲) ترین انسان وہ ہے جو دوست بنانے سے بھی عاجز ہو اور اس سے زیادہ عاجز وہ ہے جو رہے سہے دوستوں کوبھی برباد کردے ۔

(۱۳)

جب نعمتوں(۳) کا رخ تمہاری طرف ہو تو نا شکری کے ذریعہ انہیں اپنے تک پہنچنے سے بگھا نہ دو۔

(۱۴)

جسے قریب(۴) والے چھوڑ دیتے ہیں اسے دور والے مل جاتے ہیں۔

(۱)یہ اخلاقی تربیت ہے کہ انسان میں طاقت کا غرور نہیں ہونا چاہیے اور اسے ایک نعمت پروردگار سمجھ کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور شکریہ بھی غلطی کرنے والوں کی معافی کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔

(۲)یہ بھی ایک اجتماعی نکتہ ہے کہ انسان میں دوست بنانے کی صلاحیت انتہائی ضرورت ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو اسے واقعاً انسان نہں کہا جا سکتا ہے اور اس سے بد تر گیا گذرا انسان وہ ہے جو پائے ہوئے دوستوں کوبھی گنوادے۔

(۳)پروردار عالم نے یہ اخلاقی نظام بنادیا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل شکریہ ہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے لہٰذا جسے بھی اس کی تکمیل درکار ہے اسے شکریہ کا پابند ہونا چاہیے۔

(۴)انسان کو اعزا و اقربا کی بے رخی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔پروردگار جس طرح قرابتدار پیدا کر سکتا ہے اسی طرح دور والے مخلص بھی پیدا کر سکتا ہے اور اس طرح اعزاو اقربا میں یہ غرورنہیں ہونا چاہیے کہ ہم ساتھ چھوڑ دیں گے تو انسان لاوارث ہو جائے گا۔لاوارث کا وارث پروردگار اور اس نے حیات پیغمبر اسلام (ص) میںاس کا بہترین نمونہ پیشکردیا ہے ۔

۶۲۴

۱۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا كُلُّ مَفْتُونٍ يُعَاتَبُ.

۱۶ - وقَالَعليه‌السلام تَذِلُّ الأُمُورُ لِلْمَقَادِيرِ حَتَّى يَكُونَ الْحَتْفُ فِي التَّدْبِيرِ.

۱۷ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قَوْلِ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - غَيِّرُوا الشَّيْبَ ولَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ - فَقَالَعليه‌السلام إِنَّمَا قَالَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ذَلِكَ والدِّينُ قُلٌّ - فَأَمَّا الآنَ وقَدِ اتَّسَعَ نِطَاقُه وضَرَبَ بِجِرَانِه - فَامْرُؤٌ ومَا اخْتَارَ.

۱۸ - وقَالَعليه‌السلام فِي الَّذِينَ اعْتَزَلُوا الْقِتَالَ مَعَه -

.

(۱۵)

ہر فتنہ(۱) میں پڑ جانے والا قابل عتاب نہیں ہوتا ہے۔

(۱۶)

سارے معاملات(۲) تقدیر کے تابع ہوتے ہیں یہاں تک کہ کبھی کبھی تدبیر سے موت واقع ہو جاتی ہے۔

(۱۷)

آپ سے رسول اکرم (ص) کے اس ارشاد کے بارے میں سوال کیا گیا کہ '' ضعیفی کو خضاب کے ذریعہ بدل(۳) دو اورخبردار یہودیوں کی شبیہ نہ بنو''تو آپ (ص) نے فرمایا کہ یہ اس دور کے لئے ہے جب دیندار کم تھے لیکن آج اسلام کا دئارہ وسیع ہو چکا ہے اور وہ سینہ ٹیک کرجم چکا ہے لہٰذا ہر انسان کو اپنی پسند سے کام کرنا چاہیے ۔

(۱۸)

آپ نے میدان جنگ سے کنارہ کشی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ

(۱)انسان اپنے ارادہ اختیار سے فتنوں میں مبتلا ہو جائے تو یقینا قابل ملامت ہوتا ہے۔لیکن حالات کی مجبوری اسے اس اقدام پرآمادہ کردے تو پروردگار مجبوریوں کامحاسبہ نہیں کرتا ہے جس کی مثال یاسر کی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

(۲)انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کائنات ارادہ ٔ الٰہی کے مطابق چل رہی ہے۔اس میں محنت ' مشقت ایک فرض بشریت ہے لیکن اس سے مقدارات کو بدلا نہیں جا سکتا ہے ورنہ یہ تصور کبھی انسان کو ہلاکت سے بھی دو چار کر سکتا ہے جس کی مثال موسیٰ کی نجات اور فرعون کی غرقابی میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

(۳)یہودیت میں خضاب ایک عیب تھا اوربعض مسلمان بھی اس نظریہ سے متاثر تھے اس لئے حضور نے چاہا کہ مسلمان خضاب لگا کر میدان جنگ میںقدم رکھیں تاکہ کفار کے دل جوانوں کے لشکر کو دیکھ کر دہل جائیں۔اس کے بعد جب اسلام کو قوت حاصل ہوگئی تو خضاب کی ضرورت نہیں رہ گئی لیکن پھر بھی عیب نہیں ہے۔

۶۲۵

خَذَلُوا الْحَقَّ ولَمْ يَنْصُرُوا الْبَاطِلَ.

۱۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ جَرَى فِي عِنَان أَمَلِه عَثَرَ بِأَجَلِه

۲۰ - وقَالَعليه‌السلام أَقِيلُوا ذَوِي الْمُرُوءَاتِ عَثَرَاتِهِمْ - فَمَا يَعْثُرُ مِنْهُمْ عَاثِرٌ إِلَّا ويَدُ اللَّه بِيَدِه يَرْفَعُه

۲۱ - وقَالَعليه‌السلام قُرِنَتِ الْهَيْبَةُ بِالْخَيْبَةِ والْحَيَاءُ بِالْحِرْمَانِ - والْفُرْصَةُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ فَانْتَهِزُوا فُرَصَ الْخَيْرِ.

۲۲ - وقَالَعليه‌السلام لَنَا حَقٌّ فَإِنْ أُعْطِينَاه

'' ان لوگوں نے حق(۱) کو بھی چھوڑدیا اورباطل کی بھی مدد نہیں کی ۔

(۱۹)

جوامیدوں کی راہ میں دوڑتا ہی چلا جاتا ہے وہ آخرمیں موت(۲) سے ٹھوکر کھا جاتا ہے ۔

(۲۰)

با مروت(۳) لوگوں کی لغزشوں سے درگذر کرو۔کہ ایسا شخص جب بھی ٹھوکر کھاتا ہے تو قدرت کا ہاتھ اسے سنبھال کر اٹھا دیتا ہے ۔

(۲۱)

مرعوبیت(۴) کو ناکامی سے اور حیاء کو محرومی سے ملادیا گیا ہے۔فرصت کے مواقع بادلوں کی طرح گزر جاتے ہیں لہٰذا نیکیوں کی فرصت کو غنیمت خیال کرو۔

(۲۲)

ہمارا ایک حق ہے جو مل گیا توخیر ورنہ ہم اونٹ

(۱)اردو میں اس صورت حال کے بارے میں کہا جاتا ہے :''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔نہادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے''

(۲)جب موت برحق ہے تو امیدوں سے لو لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ایک دن تو ان کا سلسلہ بہر حال ختم ہونا ہے تو بلا وجہ ان کی راہ میں جان دینے کی کیا ضرورت ہے۔

(۳)ہر انسان معصوم نہیں ہوتا ہے تو غلطی کا امکان بہر حال رہتا ہے لہٰذا ہر شخص کا فرض ہے کہ کسی شریف آدمی سے غلطی ہو جائے تو اسے معاف کردے اور نالائقوں سے محاسب و مواخذہ کرے۔

(۴)جو بلا وجہ خوفزدہ ہو جائے گا وہ مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا ہے اور جو بلا وجہ شرماتا رہے گا وہ ہمیشہ محروم رہے گا۔انسان ہرموقع پر شرماتا ہی رہتا تو نسل انسانی وجود میں نہ آتی۔

۶۲۶

وإِلَّا رَكِبْنَا أَعْجَازَ الإِبِلِ - وإِنْ طَالَ السُّرَى.

قال الرضي وهذا من لطيف الكلام وفصيحه - ومعناه أنا إن لم نعط حقنا كنا أذلاء - وذلك أن الرديف يركب عجز البعير - كالعبد والأسير ومن يجري مجراهما.

۲۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه.

۲۴ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ كَفَّارَاتِ الذُّنُوبِ الْعِظَامِ إِغَاثَةُ الْمَلْهُوفِ - والتَّنْفِيسُ عَنِ الْمَكْرُوبِ.

۲۵ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ إِذَا رَأَيْتَ رَبَّكَ سُبْحَانَه يُتَابِعُ عَلَيْكَ نِعَمَه - وأَنْتَ تَعْصِيه فَاحْذَرْه.

پر(۱) پیچھے ہی بیٹھنا گوارا کرلیں گے چاہے سفر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو۔

سید رضی : یہ بہترین لطیف اور فصیح کلام ے کہ اگر حق نہ ملا تو ہم کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ردیف میں بیٹھنے والے عام طور سے غلام اورقیدی وغیرہ ہواکرتے ہیں۔

(۲۳)

جسے اس کے اعمال کے پیچھے ہٹا دیں اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتا ہے۔

(۲۴)

بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ یہ ہے کہ انسان ست رسیدہ کی فریاد(۲) رسیکرے اور رنج دیدہ انسان کے غم کو دور کرے۔

(۲۵)

فرزند آدم ! جب گناہوں کے باوجود پروردگار کی نعمتیں مسلسل تجھے ملتی رہیں تو ہوشیار(۳) ہو جانا۔

(۱)یعنی ہم حق سے دستبردار ہونے والے نہیں ہیں اور جہاں تک غاصبانہ دبائو کا سامانا کرنا پڑے گا کرتے رہیں گے ۔

(۲)ستم رسیدہوہ بھی ہے جس کے کھانے پینے کا سہارا نہ ہو اور وہ بھی ہے جس کے علاج کا پیسہ یا اسکول کی فیس کا انتظام نہ ہو

(۳)اکثر انسان نعمتوں کی بارش دیکھ کر مغرور ہو جاتا ہے کہ شائد پروردگار کچھ زیادہہی مہربان ہے اور یہ نہیں سوچتا ہے کہ اس طرح حجت تمام ہورہی ہے اورڈھیل دی جارہی ہے ورنہ گناہوں کے باوجود اس بارش رحمت کا کیا امکان ہے۔

۶۲۷

۲۶ - وقَالَعليه‌السلام مَا أَضْمَرَ أَحَدٌ شَيْئاً إِلَّا ظَهَرَ فِي فَلَتَاتِ لِسَانِه - وصَفَحَاتِ وَجْهِه.

۲۷ - وقَالَعليه‌السلام امْشِ بِدَائِكَ مَا مَشَى بِكَ

۲۸ - وقَالَعليه‌السلام أَفْضَلُ الزُّهْدِ إِخْفَاءُ الزُّهْدِ.

۲۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كُنْتَ فِي إِدْبَارٍ والْمَوْتُ فِي إِقْبَالٍ فَمَا أَسْرَعَ الْمُلْتَقَى.

۳۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحَذَرَ الْحَذَرَ فَوَاللَّه لَقَدْ سَتَرَ حَتَّى كَأَنَّه قَدْ غَفَرَ.

(۲۶)

انسان جس بات کو د میں چھپانا چاہتا ہے وہ اس کی زبان کے بیساختہ کلمات(۱) اورجہرہ کے آثار سے نمایاں ہو جاتی ہے

(۲۷)

جہاں تک ممکن ہو مرض کے ساتھ چلتے رہو (اورفوراً علاج کی فکرمیں لگ جائو)

(۲۸)

بہترین زہد۔زہد کا مخفی رکھنا اور اظہار نہکرنا ہے ( کہ ریا کاری زہد نہیں ہے نفاق ہے )

(۲۹)

جب تمہاری زندگی جارہی ہے اور موت آرہی ہے تو ملاقات بہت جلدی ہو سکتی ہے۔

(۳۰)

ہوشیار ہوشیار! کہ پروردگار نے گناہوں کی اس قدر پردہ پوشی کی ہے کہ انسان کو یہ دھوکہ ہوگیا ہے کہ شائد معاف کردیا ہے ۔

(۱)زندگی کی بیشمار باتیں ہیں جن کا چھپانا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک زبان کی حرکت جاری ہے اور چہرہ کی غمازی سلامت ہے اور چہرہ کی غمازی سلامت ہے۔ان دو چیزوں پر کوئی انسان قابو نہیںپا سکتا ہے اور ان سے حقائق کا بہر حال انکشاف ہوجاتا ہے۔

۶۲۸

۳۱ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنِ الإِيمَانِ - فَقَالَ الإِيمَانُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ - عَلَى الصَّبْرِ والْيَقِينِ والْعَدْلِ والْجِهَادِ - والصَّبْرُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى الشَّوْقِ والشَّفَقِ والزُّهْدِ والتَّرَقُّبِ - فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَى الْجَنَّةِ سَلَا عَنِ الشَّهَوَاتِ - ومَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْمُحَرَّمَاتِ - ومَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِيبَاتِ - ومَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ إِلَى الْخَيْرَاتِ - والْيَقِينُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ وتَأَوُّلِ الْحِكْمَةِ - ومَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ وسُنَّةِ الأَوَّلِينَ - فَمَنْ تَبَصَّرَ فِي الْفِطْنَةِ

(۳۱)

آپ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ ایمان(۱) کے چا ستون ہیں : صبر ' یقین ' عدل اور جہاد۔

پھر صبرکے چار شعبے ہیں(۲) :شوق ' خوف ' زہد اور انتظارموت ۔پھر جس نے جنت کا اشتیاق پیدا کرلیا اسنے خواہشات کو بھلا دیا اورجسے جہنم کا خوف حاصل ہوگیا اس نے محرمات سے اجتناب کیا۔دنیا میں زہد اختیار کیا۔دنیا میں زہد اختیار کرنے والا مصیبتوں کو ہلکا تصورکرتا ہے اورموت کا انتظار کرنے والا نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے۔

یقین کے بھی چار شعبے(۳) ہیں: ہوشیاری کی بصیرت ' حکمت کی حقیقت رسی ' عبرت کی نصیحت اور سابق بزرگوں کی سنت۔ہوشیاری میں بصیرت رکھنے

(۱)واضح رہے کہ اس ایمان سے مراد ایمان حقیقی ہے جس پر ثواب کا دارومدار ہے اور جس کاواقعی تعلق دل کی تصدیق اوراعضاء و جوارح کے عمل و کردارسے ہوتا ہے ورنہ وہ ایمان جس کاتذکرہ''یا ایھا الذن امنوا '' میں کیا گیا ہے اس سے مراد صرف زبانی اقرار اورادعائے ایمان ہے۔ورنہ ایسا نہ ہوتا تو تمام احکام کا تعلق صرف مومنین مخلصین سے ہوتا اور منافقین ان قوانین سے یکسر آزاد ہو جاتے ۔

(۲)صبر کا دارومدار چار اشیاء پر ہے۔انسان رحمت الٰہی کا اشتیاق رکھتا ہو اورعذاب الٰہی سے ڈرتا ہوتا کہ اس راہ میں زحمتیں برداشت کرے۔اس کے بعد دنیا کی طرف سے لا پرواہ ہو اور موت کی طرف سراپا توجہ ہوتا کہدنیا کے فراق کو برداشت کرلے اورموت کی سختی کے پیش نظر ہر سختی کو آسان سمجھ لے ۔

(۳)یقین کی بھی چار بنیادی ہیں۔اپنی ہر بات پر مکمل اعتماد رکھتا ہو۔حقاق کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔دیگر اقوام کے حالات سے عبرت حاصل کرے اورصالحین کے کردار پرعمل کرے۔ایسا نہیں ہے تو انسان جہل مرکب میں مبتلا ہے اور اس کا یقین فقط و ہم و گمان ہے یقین نہیں ہے۔

۶۲۹

تَبَيَّنَتْ لَه الْحِكْمَةُ - ومَنْ تَبَيَّنَتْ لَه الْحِكْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ - ومَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَكَأَنَّمَا كَانَ فِي الأَوَّلِينَ

- والْعَدْلُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى غَائِصِ الْفَهْمِ وغَوْرِ الْعِلْمِ - وزُهْرَةِ الْحُكْمِ ورَسَاخَةِ الْحِلْمِ - فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ - ومَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُكْمِ - ومَنْ حَلُمَ لَمْ يُفَرِّطْ فِي أَمْرِه وعَاشَ فِي النَّاسِ حَمِيداً –

والْجِهَادُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ - والصِّدْقِ فِي الْمَوَاطِنِ وشَنَآنِ الْفَاسِقِينَ - فَمَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَّ ظُهُورَ الْمُؤْمِنِينَ - ومَنْ نَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ أَرْغَمَ أُنُوفَ الْكَافِرِينَ - ومَنْ صَدَقَ فِي الْمَوَاطِنِ قَضَى مَا عَلَيْه - ومَنْ شَنِئَ الْفَاسِقِينَ وغَضِبَ لِلَّه غَضِبَ اللَّه لَه - وأَرْضَاه يَوْمَ الْقِيَامَةِ -

والے پر حکمت روشن ہو جاتی ہے اورحکمت کی روشنی عبرت کو واضح کر دیتی ہے اور عبرت کی معرفت گویا سابق اقوام سے ملا دیتی ہے۔

عدل کے بھی چار شعبے ہیں : تہ تک پہنچ جانے والی سمجھ' علم کی گہرائی فیصلہ کی وضاحت اور عقل کی پائیداری۔

جس نے فہم کی نعمت پالی وہ علم کی گہرائی تک پہنچ گیا اور جس نے علم کی گہرائی کو پالیا وہ فیصلہ کے گھاٹ سے سیراب ہو کرباہرآیا اور جس نے عقل استعمال کرلی اس نے اپنے امر میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور لوگوں کے درمیان قابل تعریف زندگی گزاردی۔

جہاد کے بھی چار شعبے ہیں:امر(۱) بالمعروف' نہی عن المنکر' ہر مقام پر ثبات قدم اورفاسقوں سے نفرت و عداوت ۔لہٰذا جس نے امر بالمعروف کیا اس نے مومنین کی کمر کو مضبوط کردیا۔اور جس نے منکرات سے روکا اس نے کافروں کی ناک رگڑدی۔جس نے میدان قتال میں ثبات قدم کامظاہرہ کیا وہ اپنے راستہ پر آگے بڑھ گیا اور جسنے فاسقوں سے نفرت و عداوت کا برتائو کیا پروردگار اس کی خاطر اس کے دشمنوں سے غضب ناک ہوگا اور اسے روز قیامت خوش کردے گا۔

(۱)جہاد کا انحصار بھی چارمیدانوں پر ہے۔امر بالمعروف کامیدان۔نہی عن المنکرکا میدان ' قتال کامیدان اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کا میدان۔ان چاروں میدانوں میں حوصلہ جہاد نہیں ہے تو تنہا امرو نہی سے کوئی کام چلنے والا نہیں ہے اور نہ ایسا انسان واقعی مجاہد کہے جانے کے قابل ہے ۔

۶۳۰

والْكُفْرُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ - عَلَى التَّعَمُّقِ ،والتَّنَازُعِ والزَّيْغِ والشِّقَاقِ - فَمَنْ تَعَمَّقَ لَمْ يُنِبْ إِلَى الْحَقِّ - ومَنْ كَثُرَ نِزَاعُه بِالْجَهْلِ دَامَ عَمَاه عَنِ الْحَقِّ - ومَنْ زَاغَ سَاءَتْ عِنْدَه الْحَسَنَةُ وحَسُنَتْ عِنْدَه السَّيِّئَةُ - وسَكِرَ سُكْرَ الضَّلَالَةِ - ومَنْ شَاقَّ وَعُرَتْ عَلَيْه طُرُقُه وأَعْضَلَ عَلَيْه أَمْرُه - وضَاقَ عَلَيْه مَخْرَجُه –

والشَّكُّ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى التَّمَارِي والْهَوْلِ والتَّرَدُّدِ والِاسْتِسْلَامِ - فَمَنْ جَعَلَ الْمِرَاءَ دَيْدَناً لَمْ يُصْبِحْ لَيْلُه - ومَنْ هَالَه مَا بَيْنَ يَدَيْه نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْه - ومَنْ تَرَدَّدَ فِي الرَّيْبِ

اور کفر کے بھی چار ستون ہیں(۱) :بلاوجہ گہرائیوں میں جانا، آپس میں جھگڑا کرنا، کجی اور انحراف اوراختلاف اور عناد۔

جو بلا سبب گہرائی میں ڈوب جائے گا وہ پلٹ کرحق کی طرف نہیں آسکتا ہے اور جو جہالت کی بنا پرجھگڑا کرتا رہتا ہے وہ حق کی طرف سے اندھا ہو جاتا ہے جو کجی کاشکار ہو جاتا ہے اسے نیکی برائی'اور برائی نیکی نظر آنے لگتی ہے اوروہ گمراہی کے نشہ میں چورہو جاتا ہے اورجو جھگڑے اور عناد میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کے راستے دشوار ' مسائل ناقابل حل اوربچ نکلنے کے طریقے تنگ ہو جاتے ہیں ۔

اس کے بعد شک(۲) کے چار شعبے ہیں :کٹ حجتی ' خوف ' حیرانی اور باطل کے ہاتھوں سپردگی۔ظاہر ہے کہ جو کٹ حجتی کو شعار بنالے گا اس کی رات کی صبح کبھی نہ ہوگی اور جو ہمیشہ سامنے کی چیزوں سے ڈرتا رہے گا وہ الٹے پائوں پیچھے ہی ہٹتا رہے گا۔جو شک و شبہ میں حیران و

(۱)کفر انکارخدا کی شکل میں ہو یا انکار رسالت کی شکل میں۔اس کی اساس شرک پر ہو یا انکارحقائق و واضحاب مذہب پر ہر سم کے لئے چار میں سے کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے یا انسان ان مسائل کی فکرمیں ڈوب جاتا ہے جو اس کے امکان سے باہر ہیں۔یا صرف جھگڑے کی بنیاد پرکسی عقیدہ کو اختیار کرلیتا ہے یا اس کی فکرمیں کجی پیدا ہو جاتای ہے یا وہ عناد اور ضد کا شکار ہو جاتا ہے۔اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ان میں سے ہر بیماری وہ ہے جو انسان کو راہ راست پر آنے سے روک دیتی ہے اور انسان ساری زندگی کفر ہی میں مبتلا رہ جاتا ہے۔بیماری کی ہر قسم کے اثرات الگ الگ ہیں لیکن مجموعی طور پر سب کا اثر یہ ہے کہ انسان حق رسی سے محروم ہو جاتا ہے اور ایمان و یقین کی دولت سے بہرہ مند نہیں ہو پاتا ہے۔

(۲)شک ایمان و کفر کے درمیان کا راستہ ہے جہاں نہ انسان حق کا تیقن پیدا کر پاتا ہے اور نہ کفر ہی کا عقیدہ اختیار کرسکتا ہے اور درمیان میں ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے اوراس ٹھوکر کے بھی چار اسباب یا مظاہر ہوتے ہیں یا انسان بلا سوچے سمجھے بحث شروع کر دیتا ہے یا غلطی کرنے کے خوف سے پرچھائیوں سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔یا تردد اور حیرانی کا شکار ہو جاتا ہے یا ہر پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہنے لگتا ہے :

''چلتا ہوں تھوڑی دور ہرایک راہ و کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں ''

۶۳۱

وَطِئَتْه سَنَابِكُ الشَّيَاطِينِ - ومَنِ اسْتَسْلَمَ لِهَلَكَةِ الدُّنْيَا والآخِرَةِ هَلَكَ فِيهِمَا.

قال الرضي وبعد هذا كلام تركنا ذكره خوف الإطالة - والخروج عن الغرض المقصود في هذا الكتاب.

۳۲ - وقَالَعليه‌السلام فَاعِلُ الْخَيْرِ خَيْرٌ مِنْه وفَاعِلُ الشَّرِّ شَرٌّ مِنْه.

۳۳ - وقَالَعليه‌السلام كُنْ سَمْحاً ولَا تَكُنْ مُبَذِّراً - وكُنْ مُقَدِّراً ولَا تَكُنْ مُقَتِّراً

۳۴ - وقَالَعليه‌السلام أَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى

۳۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَسْرَعَ إِلَى النَّاسِ بِمَا يَكْرَهُونَ - قَالُوا فِيه بِمَا لَا يَعْلَمُونَ.

سرداں رہے گا اسے شیاطین اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے اور جو اپنے کو دنیا و آخرت کی ہلاکت کے سپرد کردے گا وہ واقعاً ہلاک ہو جائے گا۔

(۳۲)

خیر کا انجام دینے والا اصل خیر سے بہتر ہوتا ہے اور شر کا انجام دینے والا اصل شر سے بھی بدتر ہوتا ہے ۔

(۳۳)

سخاوت کرو لیکن فضول خرچی نہ کرو اور کفایت شعاری اختیار کرو۔لیکن بخیل مت بنو۔

(۳۴)

بہترین مالداری اوربے نیازی یہ ہے کہ انسان امیدوں کو ترک کردے ۔

(۳۵)

جو لوگوں کے بارے میں بلا سوچے سمجھے وہ باتیں کہہ دیتا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے ہیں۔لوگ اس کے بارے میں بھی وہ کہہ دیتے ہیں جسے جانتے بھی نہیں ہیں۔

۶۳۲

۳۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَطَالَ الأَمَلَ أَسَاءَ الْعَمَلَ.

۳۷ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ لَقِيَه عِنْدَ مَسِيرِه إِلَى الشَّامِ دَهَاقِينُ الأَنْبَارِ - فَتَرَجَّلُوا لَه واشْتَدُّوا بَيْنَ يَدَيْه - فَقَالَ:

مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمُوه فَقَالُوا خُلُقٌ مِنَّا نُعَظِّمُ بِه أُمَرَاءَنَا - فَقَالَ واللَّه مَا يَنْتَفِعُ بِهَذَا أُمَرَاؤُكُمْ - وإِنَّكُمْ لَتَشُقُّونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ فِي دُنْيَاكُمْ - وتَشْقَوْنَ بِه فِي آخِرَتِكُمْ - ومَا أَخْسَرَ الْمَشَقَّةَ وَرَاءَهَا الْعِقَابُ - وأَرْبَحَ الدَّعَةَ مَعَهَا الأَمَانُ مِنَ النَّارِ!

(۳۶)

جس نے امیدوں کو دراز(۱) کیا اس نے عمل کو برباد کردیا۔

(۳۷)

(شام کی طرف جاتے ہوئے آپ کا گذر ابنار کے زمینوں کے پاس سے ہوا تو وہ لوگ سواریوں سے اتر آئے اور آپ کے آگے دوڑنے لگے توآپ نے فرمایا ) یہ تم نے کیا طریقہ اختیار کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ ہمارا ایک ادب ہے جس سے ہم شخصیتوں کا احترام کرتے ہیں۔فرمایا کہخدا گواہ ہے اس سے حکام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اورتم اپنے نفس کو دنیا میں زحمت(۲) میں ڈالتے ہو اور آخرت میں بد بختی کا شکار ہو جائو گے اور کس قدرخسارہ کے باعث ہے وہ مشقت جس کے پیچھے عذاب ہو اورکس قدر فائدہ مند ہے وہ راحت جس کے ساتھ جہنم سے امان ہو۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دنیا امیدوں پر قائم ہے اور انسان کی زندگی سے امیدکا شعبہ ختم ہو جائے تو عمل کی ساری تحریک سرد پڑ جائے گی اور کوئی انسان کوئی کام نہ کرے گا لیکن اس کے بعد بھی اعتدال ایک بنیادی مسئلہ ہے اور امیدوں کی درازی بہر حال عمل کو برباد کر دیتی ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہو جاتا ہے اورآخرت سے غافل ہو جانے والا عمل نہیں کر سکتا ہے ۔

(۲)اس ارشاد گرامی سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلام ہر تہذیب کوگوارا کرتا ہے اور اس کے بارے میں یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی افادیت کیا ے اورآخرت میں اس کا نقصان کس قدر ہے۔ہماری ملکی تہذیب میں فرشی سلام کرنا' غیر خدا کے سامنے سجدرکوع جھکنا بھی ہے جو اسلام میں قطعاً جائز نہیں ہے۔کسی ضرورت سے جھکنا اور ہے اور تعظیم کے خیال سے جھکنا اور ہے۔سلام تعظیم کے لئے ہوتا ہے لہٰذا اس میں رکوع کی حدوں تک جانا صحیح نہیں ہے۔

۶۳۳

۳۸ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه الْحَسَنِعليه‌السلام :

يَا بُنَيَّ احْفَظْ عَنِّي أَرْبَعاً وأَرْبَعاً - لَا يَضُرُّكَ مَا عَمِلْتَ مَعَهُنَّ - إِنَّ أَغْنَى الْغِنَى الْعَقْلُ وأَكْبَرَ الْفَقْرِ الْحُمْقُ - وأَوْحَشَ الْوَحْشَةِ الْعُجْبُ وأَكْرَمَ الْحَسَبِ حُسْنُ الْخُلُقِ.

يَا بُنَيَّ إِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الأَحْمَقِ - فَإِنَّه يُرِيدُ أَنْ يَنْفَعَكَ فَيَضُرَّكَ - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْبَخِيلِ - فَإِنَّه يَقْعُدُ عَنْكَ أَحْوَجَ مَا تَكُونُ إِلَيْه - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْفَاجِرِ فَإِنَّه يَبِيعُكَ بِالتَّافِه - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْكَذَّابِ - فَإِنَّه كَالسَّرَابِ يُقَرِّبُ عَلَيْكَ الْبَعِيدَ ويُبَعِّدُ عَلَيْكَ الْقَرِيبَ.

۳۹ - وقَالَعليه‌السلام لَا قُرْبَةَ بِالنَّوَافِلِ إِذَا أَضَرَّتْ بِالْفَرَائِضِ.

(۳۸)

آپ نے اپنے فرزند امام حسن سے فرمایا: بیٹا مجھ سے چار اور پھر چار(۱) باتیں محفوظ کرلو تو اس کے بعد کسی عمل سے کوئی نقصان نہ ہوگا۔

بہترین دولت و ثروت عقل ہے اوربد ترین فقیری حماقت ۔سب سے زیادہ وحشت ناک امرخود پسندی ہے اور سب سے شریف حسب خوش اخلاقی ۔بیٹا!خبردار کسی احمق کی دوستی اختیار نہ کرنا کہ تمہیں فائدہ بھی پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچادے گا۔اور اسی طرح کسی بخیل سے دوستی نہ کرناکہ تم سے ایسے وقت میں دور بھاگے گا جب تمہیں اس کی شدید ضرورت ہوگی اور دیکھو کسی فاجر کا ساتھ بھی اختیار نہ کرنا کہ وہ تم کو حقیر چیز کے عوض بھی بیچ ڈالے گا اور کسی جھوٹے کی صحبت بھی اختیارنہ کرناکہ وہ مثل سراب ہے جو دور والے کو قریب کر دیتا ہے اورق ریب والے کو دور کردیتا ہے ۔

(۳۹)

مستحباب الٰہی میں کوئی قربت الٰہی نہیں ہے اگر ان سے واجبات کو نقصان پہنچ جائے ۔

(۱)چار اور چار کا مقصد شائد یہ ہے کہ پہلے چار کاتعلق انسان کے ذاتی اوصاف وخصوصیات سے ہے اور دوسرے چار کا تعلق اجتماعی معاملات سے ہے اور کمال سعادت مندی یہی ہے کہ انسان ذاتی زیور کردارسے بھی آراستہ رہے اور اجتماعی برتائو کوب ھی صحیح رکھے ۔

۶۳۴

۴۰ - وقَالَعليه‌السلام لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَاءَ قَلْبِه وقَلْبُ الأَحْمَقِ وَرَاءَ لِسَانِه قال الرضي - وهذا من المعاني العجيبة الشريفة - والمراد به أن العاقل لا يطلق لسانه.

إلا بعد مشاورة الروية ومؤامرة الفكرة - والأحمق تسبق حذفات لسانه وفلتات كلامه - مراجعة فكره ومماخضة رأيه - فكأن لسان العاقل تابع لقلبه - وكأن قلب الأحمق تابع للسانه.

۴۱ - وقد روي عنهعليه‌السلام هذا المعنى بلفظ آخر - وهو قوله:

قَلْبُ الأَحْمَقِ فِي فِيه - ولِسَانُ الْعَاقِلِ فِي قَلْبِه.

ومعناهما واحد:

(۴۰)

عقل مند(۱) کی زبان اس کے دل کے پیچھے رہتی ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کے پیچھے رہتا ہے۔

سید رضی : یہ بڑی عجی و غریب اور لطیف حکمت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عقلمند انسان غورو فکر کرنے کے بعد بولتا ہے اور احمق انسان بلا سوچے سمجھے کہہ ڈالتا ہے گویا کہعاقل کی زبان دل کی تابع ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کا پابند ہے۔

(۴۱)

احمق کا دل اس کے منہ کے اندر رہتا ہے اور عقل مند کی زبان اس کے دل کے اندر۔

(۱)دوسرے مقام پر امام علیہ السلام نے اسی بات کو عاقل و احمق کے بجائے مومن اور منافق کے نام سے بیان فرمایا ہے اورحقیقت امر یہ ہے کہ اسلام کی نگاہ میں مومن ہی کو عاقل اور منافق ہی کو احمق کہا جاتا ہے۔ورنہ جو ابتد اسے بے خبر اور انتہا سے غافل ہو جاے نہ رحمان کی عبادت کرے اورنہ جنت کے حصول کا انتظام کرے اسے کس اعتبارسے عقل مند کہا جاسکتا ہے اور اسے احمق کے علاوہ دسرا کون سا نام دیا جا سکتا ہے۔

یہ اوربات ہے کہ دور حاضر میں ایسے ہی افراد کو دانش مند اور دانشور کہا جاتا ہے اور انہیں کے احترام کے طور پر دین و دانش کی اصلاح نکالی گئی ہے کہ گویا دیندار' دیندار ہوتا ہے اور دانشور نہیں۔اور دانشور ' دانشور ہوتا ہے چاہے دیندار نہ ہو اور بیدینی ہی میں زندگی گزارے ۔

۶۳۵

۴۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه فِي عِلَّةٍ اعْتَلَّهَا - جَعَلَ اللَّه مَا كَانَ مِنْ شَكْوَاكَ حَطَّاً لِسَيِّئَاتِكَ - فَإِنَّ الْمَرَضَ لَا أَجْرَ فِيه - ولَكِنَّه يَحُطُّ السَّيِّئَاتِ ويَحُتُّهَا حَتَّ الأَوْرَاقِ - وإِنَّمَا الأَجْرُ فِي الْقَوْلِ بِاللِّسَانِ - والْعَمَلِ بِالأَيْدِي والأَقْدَامِ - وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يُدْخِلُ بِصِدْقِ النِّيَّةِ - والسَّرِيرَةِ الصَّالِحَةِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِه الْجَنَّةَ.

قال الرضي - وأقول صدقعليه‌السلام إن المرض لا أجر فيه - لأنه ليس من قبيل ما يستحق عليه العوض - لأن العوض يستحق على ما كان في مقابلة فعل الله تعالى بالعبد - من الآلام والأمراض وما يجري مجرى ذلك - والأجر والثواب يستحقان على ما كان في مقابلة فعل العبد - فبينهما فرق قد بينهعليه‌السلام - كما يقتضيه علمه الثاقب ورأيه الصائب.

۴۳ - وقَالَعليه‌السلام فِي ذِكْرِ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ - يَرْحَمُ اللَّه خَبَّابَ بْنَ الأَرَتِّ

(۴۲)

اپنے ایک صحابی سے اس کی بیماری کے موقع پر فرمایا ''اللہ نے تمہاری بیماری کو تمہارے گناہوں کے دور کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے کہ خود بیماری میں کوئی اجر نہیں ہے لیکن یہ برائیوں کو مٹا دیتی ہے اوراس طرح جھاڑ دیتی ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔اجرو ثواب زبان سے کچھ کہنے اور ہاتھ پائوں سے کچھ کرنے میں حاصل ہوتا ہے اور پروردگار اپنے جن بندوں(۱) کوچاہتا ہے ان کی نیت کی صداقت اورباطن کی پاکیزگی کی بنا پرداخل جنت کردیتا ہے۔

سید رضی : حضرت نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ بیماری میں کوء یاجر نہیں ہے کہ یہ کوئی استحقاقی اجروالا کام نہیں ہے۔عوض تو اس عمل پر بھی حاصل ہوتا ہے۔جو بیماریوں وغیرہ کی طرح خدا بندہ کے لئے انجام دیتا ہے لیکن اجرو ثواب صرف اسی عمل پر ہوتا ہے جو بندہ خود انجام دیتا ہے اور مولائے کائنات نے اس مقام پر عوض اور اجرو ثواب کے اسی فرق کو واضح فرمایا ہے جس کا ادراک آپ کے علم روشن اورف کر صائب کے ذریعہ ہوا ہے۔

(۴۳)

آپ نے خباب بن الارثکے بارے میں فرمایا کہ خدا خباب ابن الارت پر رحمت نازل کرے۔وہ

(۱)مقصد یہ ہے کہ پروردگار نے جس اجرو ثواب کا وعدہ کیا ہے اور جس کا انسان استحقاق پیدا کر لیتا ہے وہ کسی نہ کسی عمل میں پر پیدا ہوتا ہے اور مرض کوئی عمل نہیں ہے۔لیکن اس کے علاوہ فضل و کرم کا دروازہ کھلا ہوا ہے اوروہ کسی بھی وقت اور کسی بھی شخص کے شامل حال کیا جا سکتا ہے ۔اس میں کسی کا کوئی اجارہ نہیں ہے۔

۶۳۶

فَلَقَدْ أَسْلَمَ رَاغِباً وهَاجَرَ طَائِعاً وقَنِعَ بِالْكَفَافِ ورَضِيَ عَنِ اللَّه وعَاشَ مُجَاهِداً.

۴۴ - وقَالَعليه‌السلام طُوبَى لِمَنْ ذَكَرَ الْمَعَادَ وعَمِلَ لِلْحِسَابِ - وقَنِعَ بِالْكَفَافِ ورَضِيَ عَنِ اللَّه.

۴۵ - وقَالَعليه‌السلام : لَوْ ضَرَبْتُ خَيْشُومَ الْمُؤْمِنِ بِسَيْفِي هَذَا - عَلَى أَنْ يُبْغِضَنِي مَا أَبْغَضَنِي - ولَوْ صَبَبْتُ الدُّنْيَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى الْمُنَافِقِ - عَلَى أَنْ يُحِبَّنِي مَا أَحَبَّنِي - وذَلِكَ أَنَّه قُضِيَ فَانْقَضَى عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صلى‌الله‌عليه‌وآله - أَنَّه قَالَ يَا عَلِيُّ لَا يُبْغِضُكَ مُؤْمِنٌ ولَا يُحِبُّكَ مُنَافِقٌ.

۴۶ - وقَالَعليه‌السلام سَيِّئَةٌ تَسُوءُكَ خَيْرٌ عِنْدَ اللَّه مِنْ حَسَنَةٍ تُعْجِبُكَ.

اپنی رغبت سے اسلام لائے ۔اپنی خوشی سے ہجرت کی اور بقدر ضرورت سامان پر اکتفا کی۔اللہ کی مرضی(۱) سے راضی رہے اورمجاہدانہ زندگی گزاری۔

(۴۴)

خوشا بحال اس شخص کا جس نے آخرت کو یاد رکھا ' حساب کے لئے عمل کیا، بقدر ضرورت پرقانع رہا اور اللہ سے راضی رہا۔

(۴۵)

اگر میں اس تلوار سے مومن کی ناک بھی کاٹ دوں کہ مجھ سے دشمنی کرنے لگے تو ہرگز نہکرے گا اور اگر دنیا کی تمام نعمتیں منافق پر انڈیل دوں کہ مجھ سے محبت کرنے لگے تو ہرگز نہ کرے گا۔اس لئے کہ اس حقیقت کا فیصلہ نبی صادق کی زبان سے ہو چکا ہے کہ ''یاعلی ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہیں کر سکتا ہے اور کوئی منافق تم سے محبت نہیں کرسکتا ہے ۔''

(۴۶)

وہ گناہ(۲) جس کا تمہیں رنج ہو۔اللہ کے نزدیک اس نیکی سے بہتر ہے جس سے تم میں غرور پیدا ہوجائے ۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان زندگی کا کمال یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے راضی ہو جائے ۔یہ کام نسبتاً آسان ہے کہ وہ سریع الرضا ہے۔کبھی معمولی عمل سے بھی راضی ہو جاتا ہے اورکبھی بد ترین عمل کے بعد بھی توبہ سے راضی ہوجاتا ہے ۔سب سے مشکل کام بندہ کا خدا سے راضی ہو جانا ہے کہ وہ کسی حال میں خوش ہو تا ہے اور اقتدار فرعون و دولت قارون پانے کے بعد بھی یا مغرور ہو جاتا ہے یا زیادہ کامطالبہ کرنے لگتا ہے۔امیر المومنین نے خباب کے اسی کردار کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ انتہائی مصائب کے باوجود خداسیراضی رہے اورایک حرف شکایت زبان پرنہیں لائے۔اور ایسا ہی انسان وہ ہوتا ہے جس کے حق میں طوبیٰ کی بشارت دی جا سکتی ہے اور وہ امیر المومنین کی طرف سے مبارک باد کامستحق ہوتا ہے۔

(۲)اگرچہ گناہ میں کوئی خوبی اور بہتری نہیں ہے۔لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گناہ کے بعد انسان کا نفس ملامت کرنے لگتا ہے اور وہ توبہ پرآمادہ ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا گناہ جس کے بعداحساس توبہ پیدا ہو جائے اس کا ر خیر سے یقینا بہتر ہے جس کے بعد غرور پیدا ہو جائے اور انسان اخوان الشیاطین کی فہرست میں شامل ہو جائے۔

۶۳۷

۴۷ - وقَالَعليه‌السلام قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَى قَدْرِ هِمَّتِه وصِدْقُه عَلَى قَدْرِ مُرُوءَتِه - وشَجَاعَتُه عَلَى قَدْرِ أَنَفَتِه وعِفَّتُه عَلَى قَدْرِ غَيْرَتِه.

۴۸ - وقَالَعليه‌السلام الظَّفَرُ بِالْحَزْمِ والْحَزْمُ بِإِجَالَةِ الرَّأْيِ - والرَّأْيُ بِتَحْصِينِ الأَسْرَارِ.

۴۹ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرُوا صَوْلَةَ الْكَرِيمِ إِذَا جَاعَ واللَّئِيمِ إِذَا شَبِعَ.

۵۰ - وقَالَعليه‌السلام قُلُوبُ الرِّجَالِ وَحْشِيَّةٌ فَمَنْ تَأَلَّفَهَا أَقْبَلَتْ عَلَيْه.

(۴۷)

انسان کی قدرو قیمت اس کی ہمت(۱) کے اعتبار سے ہوتی ہے اور اس کی صداقت اس کی مردانگی کے اعتبارسے ہوتی ہے شجاعت کا پیمانہ حمیت و خود داری ہے اورعفت کا پیمانہ غیرت و حیا۔

(۴۸)

کامیابی دوراندیشی سے حاصل ہوتی ہے اور دوراندیشی فکر و تدبر سے۔فکر و تدبر کا تعلق اسرار کی را ز داری سے ہے۔

(۴۹)

شریف انسان کے حملہ سے بچو جب وہ بھوکا ہو' اورکمینے کے حملہ سے بچو جب اس کا پیٹ بھرا ہو۔

(۵۰)

لوگوں کے دل صحرائی جانوروں جیسے ہیں جو انہیں سدھالے(۲) گا اس کی طرف جھک جائیں گے ۔

(۱)کیا کہنا اس شخص کی ہمت کا جو دعوت ذوالعشیرہ میں ساری قوم کے مقابلہ میں تن تنہا نصرت پیغمبر (ص) پرآمادہ ہوگیا اور پھر ہجرت کی رات تلواروں کے سایہ میں سو گیا اور مختلف معرکوں میں تلواروں کی زد پر رہا اور آخر کار تلوارکے سایہ ہی میں سجدہ آخر بھی ادا کردیا۔اس سے زیادہ قدر و قیمت کاحقدار دنیا کا کون سا انسان ہوسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ انسان دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہے تو اس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ بہترین اخلاق وکردار کامظاہرہ کرے تاکہ یہ دل وحشی رام ہوجائے ورنہ بد اخلاقی اورب د سلوکی سے وحشی جانور کے مزید بھڑک جانے کاخطرہ ہوتا ہے اس کے رام ہو جانے کا کوئی تصورنہیں ہوتا ہے۔

۶۳۸

۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عَيْبُكَ مَسْتُورٌ مَا أَسْعَدَكَ جَدُّكَ

۵۲ - وقَالَعليه‌السلام أَوْلَى النَّاسِ بِالْعَفْوِ أَقْدَرُهُمْ عَلَى الْعُقُوبَةِ.

۵۳ - وقَالَعليه‌السلام السَّخَاءُ مَا كَانَ ابْتِدَاءً - فَأَمَّا مَا كَانَ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَحَيَاءٌ وتَذَمُّمٌ

۵۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا غِنَى كَالْعَقْلِ ولَا فَقْرَ كَالْجَهْلِ - ولَا مِيرَاثَ كَالأَدَبِ ولَا ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ.

۵۵ - وقَالَعليه‌السلام الصَّبْرُ صَبْرَانِ صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَه وصَبْرٌ عَمَّا تُحِبُّ.

(۵۱)

تمہارا عیب اسی وقت تک چھپا رہے گا جب تک تمہارا مقدر ساز گار ہے۔

(۵۲)

سب سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار وہ ہے جو سب سے زیادہ سزا دینے کی طاقت رکھتا ہو۔

(۵۳)

سخاوت(۱) جیسی کوئی دولت نہیں ہے اور جہالت جیسی کوئی فقیری نہیں ہے۔ادب جیسی کوئی میراث نہیں ہے اورمشورہ جیسا کوئی مدد گار نہیں ہے ۔

(۵۴)

عقل(۲) جیسی کوئی دولت نہیں ہے اور جہالت جیسی کوئی فقیری نہیں ہے۔ادب جیسی کوئی میراث نہیں ہے اور مشورہ جیسا کوئی مدد گار نہیں ہے۔

(۵۵)

صبر کی دو قسمیں ہیں : ایک ناگوار حالات پر صبر اور ایک محبوب اورپسندیدہ چیزوں کے مقابلہ میں صبر۔

(۱) مقصد یہ ہے کہ انسان سخاوت کرنا چاہے اور ا س کا اجرو ثواب حاصل کرنا چاہے تو اسے سائل کے سوال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ سوال کے بعد تو یہ شبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی آبروب چانے کے لئے دے دیا ہے اور اس طرح اخلاص نیت کا عمل مجروح ہوجاتا ہے اور ثواب اخلاص نیت پر ملتا ہے ' اپنی ذات کے تحفظ پر نہیں۔

(۲) آج مسلمان تمام اقوام عالم کا محتاج اسی لئے ہوگیا ہے کہ اس نے علم و فن کے میدان سے قدم ہٹا لیاہے اور صرف عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ورنہ اسلامی عقل سے کام لے کرباب مدینتہ العلم سے وابستگی اختیار کی ہوتی تو باعزت زندگی گزارتا اور بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کے نام سے دہل جاتیں جیسا کہ دورحاضر میں باقاعدہ محسوس کیا جا رہا ہے۔

۶۳۹

۵۶ - وقَالَعليه‌السلام الْغِنَى فِي الْغُرْبَةِ وَطَنٌ والْفَقْرُ فِي الْوَطَنِ غُرْبَةٌ.

۵۷ - وقَالَ عليهلامت الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ.

قال الرضي: وقد روي هذا الكلام عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم.

۵۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَالُ مَادَّةُ الشَّهَوَاتِ.

۵۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ حَذَّرَكَ كَمَنْ بَشَّرَكَ.

۶۰ - وقَالَعليه‌السلام اللِّسَانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّيَ عَنْه عَقَرَ

(۵۶)

مسافرت میں دولت مندی ہو تو وہ بھی وطن کادرجہ رکھتی ہے اور وطن میں غربت ہو تو وہ بھی پردیس کی حیثیت رکھتا ہے ۔

(۵۷)

قناعت(۱) وہ سرمایہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

سید رضی : یہ فقرہ رسول اکرم (ص) سے بھی نقل کیا گیا ہے ( اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے ۔علی بہر حال نفس رسول (ص) ہیں )

(۵۸)

مال خواہشات کا سر چشمہ ہے۔

(۵۹)

جو تمہیں برائیوں سے ڈرائے گویا اس نے نیکی کی بشارت دے دی۔

(۶۰)

زبان ایک درندہ(۲) ہے۔ذراآزاد کردیا جائے تو کاٹ کھائے گا۔

(۱) کہاجاتا ہے کہ ایک شخص نے سقراط کو صحرائی گھاس پر گذارہ کرتے دیکھا تو کہنے لگا کہ اگر تم نے بادشاہ کی خدمت میں حاضری دی ہوتی تو اس گھاس پر گذارہ کرنا پڑت تو سقراط نے فوراً جواب دیا کہ اگر تم نے گھاس سے گذارہ کرلیا ہوتا توبادشاہ کی خدمت کے محتاج نہ ہوتے۔گھاس پر گذارہ کرلینا عزت ہے اوربادشاہ کی خدمت میں حاضر رہناذلت ہے۔

(۲) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زبان انسانی زندگی میں جس قدرکارآمد ہے اسی قدر خطرناک بھی ہے۔یہ تو پرردگار کاکرمہے کہ اس نے اس درندہ کو پنجرہ کے اندر بند کردیا ہے اور اس پر ۳۲ پہرہ دار بٹھا دئیے ہیں لیکن یہ درندہ جب چاہتا ہے خواہشات سے ساز باز کرکے پنجرہ کا دروازہ کھول لیتا ہے اور پہرہ داروں کو دھوکہ دے کر اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور کبھی کبھی '' ان الرجل لیھجر '' کہہ کر ساری قوم کو کھا جاتا ہے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863