نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657236 / ڈاؤنلوڈ: 15931
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

رجوع نہیں کرتا جنہیں احکام دین میں دلیلوں کے ذریعہ صلاحیت استنباط حاصل ہے تو اسے دین کی معرفت نہیں ہو پاتی حالانکہ اس سے دین کے کامل ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ شیعوں کے نزدیک ائمہ اہل بیت ؑ ان فقیہوں سے زیادہ حقدار ہیں کہ امت ان کی طرف رجوع کرے،اس لئے کہ وہ معصوم عن الخطا ہیں اور ان پر بھروسہ کر کے امت کو کسی طرح کے نقصان کا امکان نہیں ہے جب کہ فقہا کی طرف رجوع کرنے سے بہت سے احکام میں امت نقصان اٹھاتی رہتی ہے،اس لئے کہ فقہا کا علم بہرحال ناقص ہے اور ان سے اکثر غلطیان سرزد ہوتی رہتی ہیں اور اختلاف ہوتا رہتا ہے،جیسا کہ ظاہر ہے ۔

البتہ اگر ائمہ اہل بیت علیہم السلام بھی(معاذ اللہ)علم دین کو(جو ان کے پاس ہے)چھپانا شروع کردیں اور اس کے افادہ میں امت کے ساتھ بخالت سے کام لیں تو چونکہ علم دین ان کے لئے مخصوص ہے اس لئے ایسی صورت میں امت نقصان سے دوچار ہوگی اور علم سے محروم رہ جائے گی ۔ لیکن یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے افادہ علم میں کبھی کوتاہی نہیں کی اور طالبان علم سے کبھی اپنا علم نہیں چھپایا بلکہ وہ حضرات ؑ ہمیشہ امت کی رشد و ہدایت کے لئے تیار رہے اور ان کی خواہش رہی کہ امت کے اندر دین حقیقی کا طور و طریقہ اور مذہبی ماحول پیدا ہوسکے اس سلسلے میں دلیل کے طور پر مولائے کائنات ؑ کا وہ مشہور قول پیش کرتا ہوں کہ آپ نے فرمایا:مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھے اپنے ہاتھوں سے کھودو!(1)

اور اسی طرح کا اعلان امام جعفر صادق ؑ نے بھی فرمایا جو آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں تحریر کیا جاچکا ہے ۔

اب یہ الگ بات ہے کہ امت نے اپنے بادشاہوں اور سلاطین کے رعب و اثر میں آکے خود ہی ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے منھ موڑلیا،بلکہ ان پر زندگی تنگ کردی اور انہیں گوشہ نشین ہونے پر مجبور کردیا،نتیجہ میں امت ان کے خیر سے محروم رہی اور ان کے علوم و معارف سے فائدہ نہیں اٹھاسکی،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) اس کا مدرک گذشتہ سوال نمبر تین کے جواب میں گذرچکا ہے

۳۶۱

اس کے باوجود وہ حضرات اپنے پاکیزہ علم کو نشر کرتے رہے اور شیعہ ان سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعوں کو ان کے علوم کا بہترین حصہ حاصل ہوا ۔

آپ کے تیسری سوال کے جواب میں یہ بات عرض کی جاچکی ہے ۔

جمہور اہل سنت کی روایتوں کے مطابق بھی بہت سے صحابہ علم میں ممتاز تھے

2 ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جمہور اہل سنت کا دعویٰ ہے کہ بہت سے صحابہ کو بعض علوم دینیہ میں خاص معرفت حاصل تھی اور شریعت کے کچھ احکام وہ انفرادی طور پر جانتے تھے،اہل سنت نے اس سلسلے میں حدیثیں بھی روایت کی ہیں ۔ مسروق سے روایت ہے کہ ہم عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھا کرتے تھے اور ان سے حدیثیں لیتے تھے مسروق کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک دن ابن نمیر بیٹھے تھے تو ہم نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا عبداللہ بن عمر نے کہا:تم نے ایسے شخص کو یاد کیا ہے کہ جب سے میں نے پیغمبر ؐ سے ان کے بارے میں ایک جملہ سنا ہے،اس وقت سے میں ان سےمحبت کرنے لگا ہوں حضور ؐ نے فرمایا کہ:قرآن کو چار افراد سے حاصل کرو!آپ نے ابن ام عبد کے نام سے ابتدا کی پھر فرمایا:معاذ بن جبل،ابی بن کعب اور ابوحذیفہ کے غلام سالم ۔(1)

(ابن ام عبد سے مراد عبداللہ بن مسعود ہیں)

ابن غنم کہتے ہیں کہ ہم نے ابوعبیدہ اور عبادہ ابن صامت سے سنا،جب ہم عبداللہ کے پاس بیٹھے تھے،وہ دونوں کہہ رہے تھے:معاذ بن جبل انبیا کے بعد اولین و آخرین میں سب سے بڑے عالم ہیں اور بیشک اللہ ان کے ذریعہ ملائکہ پر فخر کرتا ہے(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صحیح مسلم ج: 3 ،ص: 1913 ،اور اسی طرح،ص: 1914 ،صحیح بخاری ج: 3 ،ص: 1372 ،ص: 1385 ،ج: 4 ص: 1912 ،المستدرک علیٰ صحیحین،ج: 3 ص: 250 ،سنن الترمذی،ج: 5 ص: 673 ،السنن الکبریٰ للنسائی،ج: 5 ص: 9 مسند احمد،ج: 2 ،ص: 189

( 2) المستدرک علیٰ صحیحین،ج: 3 ص: 304 ،سیر اعلام النبلاء،ج: 1 ص: 460 ،کشف الحثیث ج: 1 ،ص: 178 ،لسان المیزان ج: 4 ،ص: 118

۳۶۲

ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دن عمر نے جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا:اے لوگو!جو قرآن کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ ابی ابن کعب کے پاس جائے،جو فرائض کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ زید بن ثابت سے رجوع کرے،جو فقہ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے وہ معاذ بن جبل کے پاس جائے،اور جو مال چاہتا ہے وہ میرے پاس آئے مجھے(عمر کے خیال کے مطابق)اللہ نے مال کا مالک اور اس کا تقسیم کرنے والا بنایا ہے ۔(1)

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:عمر کے بارے میں یہ روایت صحیح ہے کہ انھوں نے کہا:جو فقہ چاہتا ہے وہ معاذ کے پاس جائے ۔(2)

یزید بن عمیر کہتے ہیں کہ جب معاذ ابن جبل مرنے لگے تو لوگوں نے ان سے کہا ابوعبدالرحمٰن ہمیں وصیت کرو،انھوں نے کہا مجھے بٹھادو،پھر بولے:علم اور ایمان کے مکانات ہیں جو انھیں تلاش کرے گا وہ حاصل کرلے گا یہ بات تین مرتبہ کہی،پس علم چار آدمیوں سے طلب کرو،عویمر ابودردا سے،سلمان فارسی سے،عبداللہ بن مسعود سے اور عبداللہ بن سلام سے،جو یہودی سے مسلمان ہوئے ہیں،میں نے پیغمبر ؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہونے والے دس افراد میں دسویں ہیں ۔(3)

اب میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر ان لوگوں کے دعوائے اختصاص بالعلم پر آپ کو اعتراض کیوں نہیں ہے؟اور ائمہ اہل بیت ؑ کے بارے میں اعتراض کیوں ہے؟ ۔ ان لوگوں کا بعض علوم سے اختصاص کمال دین کے منافی کیوں نہیں ہے؟اور ائمہ اہل بیت ؑ کا اختصاص کمال دین کا منافی کیوں ہے؟جب کہ ائمہ اہل بیت ؑ کا علم ان کے جد امجد مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے میراث میں ملا ہے،وہ علی ؑ جن کے بارے میں سلونی کے دعویٰ کو آپ غلط نہیں کہہ سکتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مجمع الزوائد ج:1ص:135،مستدرک علی صحیحین ج:3ص:306سنن کبری للبیھقی ج:6ص:210،سنن کبریٰ للنسائی ج:2ص:156،

(2)فتح الباری ج:7ص:126

(3)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:304،صحیح ابن حبان ج:16ص:122،سنن کبریٰ للنسائی ج:5ص:70،مسند احمد ج:5ص:242

۳۶۳

وہ صحابہ کے علما اور ان کے سادات میں شمار ہوتے ہیں اگر آپ اہل بیتؑ کی ایک جماعت شیعوں کے اس دعوے کو قبول نہ کریں کہ علی صحابہ میں اعلم اور ان کے سردار ہیں۔

اہل سنت کو اہل بیتؑ کے ممتاز بالعلم ہونے کا اعتراف ہے

3۔ تیسری بات یہ ہے کہ صرف شیعہ ہی اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ ائمہ اہل بیتؑ علم میں امتیازی شان رکھتے ہیں،بلکہ اکثر اہل سنت بھی اس کے قائل ہیں۔ 1۔ پیغمبر کی مشہور حدیث ہے کہ علیؑ مسلمانوں میں اعلم یا صحابہ میں اعلم ہیں اور ان سب سے افضل ہیں))(1) اور سب سے بڑے قاضی ہیں۔ (2) -2۔ عبداللہ بن مسعود سے حدیث ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا اور ہر حرف کا ظاہر اور باطل ہے اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی کو اس کے ظاہر و باطن کا علم ہے۔ (3)

3۔ ابن عباس کہتے ہیں علیؑ کے پاس ستّر ایسے عہد(مجموعہ علمی جسے رسول خداؐ نے عطا فرمایا تھا)ہیں جن میں سے ان کے غیر کو ایک بھی عہد حاصل نہیں ہے۔ (4)

4۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبیؐ نے علیؑ سے کہا کہ امت کے اختلاف کی میرے بعد تم ہی وضاحت کروگے(تمہارے ہی ذریعہ اختلاف ختم ہوگا)(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مستدرک علی صحیحین ج:3ص:57،مجمع الزوائد ج:9ص:101۔102،فردوس بما ثور الخطاب ج:1ص:370،مسند احمد ج:5ص:26،معجم الکبیر ج:1ص:94،ج:20ص:229،المصنف لابن ابی شیبۃ ج:6ص:374۔371،المصنف لعبد الرزاق ج:5ص:490،الاحاد و المثانی ج:1ص:142،

(2)چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

(3)تاریخ دمشق ج:42ص:400،فیض القدیر ج:3ص:46،حلیۃ الاولیاء ج:1ص:65،ینابیع المودۃ ج:1ص:215،ج:3ص:146

(4)تاریخ دمشق ج:42ص:391،السنۃ لابن ابی عاصم ج:2ص:564،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،مجمع الزوائد ج:9ص:113،معجم الصغیر ج:2ص:161،فیض القدیر ج:4ص:357،تھذیب التھذیب ج:1ص:173،تھذیب الکمال ج:2ص:311،ینابیع المودۃ ج:1ص:233،حلیۃ الاولیاء ج:1ص:68،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،

(5)چوتھے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

۳۶۴

5 ۔ شافعی کہتے ہیں:علی ؑ نہ ہوتے تو باغیوں کے بارے میں حکم معلوم ہی نہ ہوتا ۔(1)

6 ۔ اور اب تمام باتوں سے اوپر امیرالمومنین ؑ کے بارے میں ایک قول مشہور اور متواتر ہے کہ آپ ؑ ہی شہر علم نبی ؐ کا در ہیں ۔(2)

نبی کی حکمت کے دروازہ ہیں ۔(3) علم نبی ؐ کے وارث ہیں،(4) علوم کے خزانہ ہیں،(5) خازن ہیں،(6) اور ظرف قابل ہیں ۔(7)

7 ۔ خود امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں کہ مجھے پیغمبر ؐ نے علم کے ہزار ابواب تعلیم فرمائے اور ہر باب سے مجھ پر علم کے ہزار باب کھلے ۔

اس حدیث کو جمہور اہل سنت نے روایت کیا ہے ۔(8)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) صواعق محرقہ ص: 79

( 2) چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے،اور کتاب الغدیر میں بھی ہے ج: 6 ص: 61

( 3) سنن ترمذی ج: 5 ص: 637 ،حدیث خیثمہ ص: 200 ،حلیۃ الاولیاء ج: 1 ص: 64 فضائل الصحابہ ج: 2 ص: 31 ،تھذیب الاسماء ص: 319 ،علل ترمذی للقاضی ص: 375 ،فیض القدیر ج: 3 ص: 46 ،میزان الاعتدال ج: 5 ص: 53 ،ج: 6 ص: 31 ،ص: 279 ،المجروحین ج: 2 ص: 94 ،لسان المیزان ج: 4 ص: 144 ،ج: 5 ص: 19 ،الکامل فی الضعفاء الرجال ج: 5 ص: 177 ،الکشف الحثیث ص: 214 ،تھذیب الکمال ج: 21 ص: 277 ،تاریخ بغداد ج: 11 ص: 203 ،علل الدار قطنی ج: 3 ص: 247 ،سوالات البرذعی ص: 519 ،کشف الخفاء ج: 1 ص: 235 ،

( 4) چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے

( 5) تاریخ دمشق ج: 42 ص: 385 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 356 ،میزان الاعتدال ج: 3 ص: 449 الکامل فی الضعفاء الرجال ج: 3 ص: 101 ،التدوین فی اخبار قزوین ج: 1 ص: 89 ،علل متناھیہ ج: 1 ص: 226 جامع الصغیر ج: 2 ص: 177 ،حدیث 5593 ،ینابیع المودۃ ج: 1 ص: 159 ۔ 389 ۔ 390 ،ج: 2 ص: 96 ۔ 77 ،مناقب للخوارزمی ص: 87 ،شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 165

( 6) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 165 (7) کفایۃ الطالب ص: 167 ۔ 168 ،باب 37

( 8) کنزالعمال ج: 13 ص: 114 ۔ 115 ،حدیث: 36372 ،تاریخ دمشق ج: 42 ،ص: 385 ،سیر اعلام نبلاء ج: 8 ص: 24 ۔ 26 ،البدایۃ و النہایۃ،ج: 7 ص: 360 ،فتح الباری ج: 5 ص: 363 ،میزان الاعتدال ج: 2 ص: 401 ج: 4 ص: 174 ،الکامل فی الضعفاء ج: 2 ص: 450 ،کشف الحثیث ج: 1 ص: 160 ،المجروحین ج: 2 ص: 14 ،علل متناہیہ ج: 1 ص: 221 ،درر السمطین ص: 113 ،ینابیع المودۃ ج: 1 ص: 222 ۔ 231

۳۶۵

شیخ صدوق ؒ نے پانچ طریقوں سے امیرالمومنین ؑ سے روایت کیا ہے اور بیس سے زائد طریقوں سے آپ کی اولاد طاہرین میں سے ائمہ ؐ سے نقل کیا ہے،اس کے ساتھ ہی کچھ الفاظ بھی وارد کئے ہیں،جن سے اس مضمون کی تائید ہوتی ہے ۔(1)

بکیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے اس حدیث کی روایت کی ہے جس نے ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے یہ روایت سنی ہے پھر فرمایا:(ان ہزار ابواب میں سے)سوائے ایک باب کے،دوسروں کے لئے کوئی باب بھی نہیں کھلا صرف ایک باب یا دو باب اور جہاں تک میرا علم ساتھ دیتا ہے ایک ہی باب فرمایا تھا ۔(2)

ابوبصیر کی حدیث میں ہے کہ ان ابواب میں سے قیامت تک لوگوں کو صرف دو حرفوں کا علم حاصل ہوگا ۔(3)

یہ بھی مشہور ہے کہ عمر اور ابوبکر،خاص طور سے عمر پیچیدہ مسائل میں علی ؑ ہی کے در پر آتے تھے،ابھی چوتھے سوال کے جواب میں یہ بات گذرچکی ہے کہ ثاقب ابن شماس ابن قیس نے علی ؑ کی بیعت کے وقت کہا تھا کہ لوگوں سے نہ آپ کا مرتبہ پوشیدہ ہے نہ خود آپ سے آپ کا مرتبہ پوشیدہ ہے،آپ اپنی منزل سے خدا نخواستہ جاہل نہیں ہیں،لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے ان کے لئے آپ کے محتاج ہیں اور آپ اپنے علم کی وجہ سے کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔(4)

یہاں تک کہ خلیل ابن احمد فراہیدی سے علی ؑ کی امامت پر بھرپور دلیل مانگی گئی تو انھوں نے کہا:((احتیاج الکل الیہ و استغناء عن الکل))حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا ثبوت یہ ہے کہ سب علم میں علی ؑ کے محتاج ہیں اور علی سب سے بےنیاز ہیں(کسی کے محتاج نہیں)(5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الخصاص ص:164 (2)الخصاص ص:642۔252،

(2)الخصال ص:649

(4)تاریخ یعقوبی ج:2ص:179

(5)معجم رجال الحدیث ج:8ص:81،خلیل نحوی کی سوانح حیات

۳۶۶

تو علی ؑ کی معصوم اولاد یعنی ائمہ اہل بیت ؑ کو بھی علی ؑ کو بھی علی ؑ کا علم اسی طرح میراث میں ملا جس طرح علی ؑ کو علم پیغمبر ؐ میراث میں ملا ہے اور پیغمبر ؐ کو انبیائے ماسبق کا علم میراث میں ملا ہے،ائمہ ؑ علم علی ؑ کے وارث علی ؑ پیغمبر ؐ کے وارث اور پیغمبر ؐ علم انبیائے ماسلف کے وارث،اسی لئے شیعہ بھی علم دین کی روایت انھیں ائمہ اہل بیت ؑ سے نقل کرتے ہیں.

ائمہ اہل بیت ؑ کی برکت سے ہی شیعوں کا دینی ماحول اور ثقافت علمی پروان چڑھتی ہے ۔

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں بھی کچھ باتیں عرض کی گئیں جو یہاں پر نفع بخش ہیں ۔

والحمد لله رب العالمین

۳۶۷

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

۲ - وقَالَعليه‌السلام أَزْرَى بِنَفْسِه مَنِ اسْتَشْعَرَ الطَّمَعَ - ورَضِيَ بِالذُّلِّ مَنْ كَشَفَ عَنْ ضُرِّه - وهَانَتْ عَلَيْه نَفْسُه مَنْ أَمَّرَ عَلَيْهَا لِسَانَه.

۳ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ عَارٌ والْجُبْنُ مَنْقَصَةٌ - والْفَقْرُ يُخْرِسُ الْفَطِنَ عَنْ حُجَّتِه - والْمُقِلُّ غَرِيبٌ فِي بَلْدَتِه

۴ - وقَالَعليه‌السلام الْعَجْزُ آفَةٌ والصَّبْرُ شَجَاعَةٌ - والزُّهْدُ ثَرْوَةٌ والْوَرَعُ جُنَّةٌ -

(۲)

جس نے طمع کو شعار بنالیا اس نے اپنے نفس کو رسوا کردیا اور جس نے اپنی پریشانی کا اظہار کردیا وہ اپنی ذلت پر راضی ہوگیا اور جس نے نفس پر زبان کوحاکم بنادیا اس نے نفس کوسبک تربنا دیا۔

انسان کا بنیادی فرض ی ہے کہ اپنے نفس کوب ے نیازی کی تربیت دے اور طمع کا شکار نہ ہو۔اس کے بعد کوئی پریشانی آجائے تو صبر کو شعاربنائے اور ہر ایک سے فریاد نہ کرے کہ اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جائے ۔اور جب بولنے کا وقت آئے تو فکر کو زبان پر حاکم بنائے اور زبان کو نفس کا حاکم نہ بنادے کہ جو چاہے کہنا شروع کردے ۔

(۳)

بخل ننگ و عار ہے اور بزرگی منفقت ۔فقر ہوشمند کو بھی اس کی حجت کے لئے گونگا بنادیتا ہے اور مفلس آدمی اپنے وطن میں بھی غریب ہوتا ہے۔

یہ ایک اجتماعی حقیقت ہے کہ فقرو فاقہ انسان کو خاموش بنا دیتے ہیں اور کوئی شخص فقیر کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا ہے اس کے علاوہوہ غربت انسان کو اپنے ہی شہر میں ایسا اجنبی بنا دیتی ہے کہ لوگ پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔

(۴)

عاجزی آفت ہے اور صبر شجاعت ، زہد ثروت ہے اور پرہیز گاری سپر

۶۲۱

ونِعْمَ الْقَرِينُ الرِّضَى.

۵ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ كَرِيمَةٌ والآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ - والْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ.

۶ - وقَالَعليه‌السلام صَدْرُ الْعَاقِلِ صُنْدُوقُ سِرِّه - والْبَشَاشَةُ حِبَالَةُ الْمَوَدَّةِ - والِاحْتِمَالُ قَبْرُ الْعُيُوبِ.

ورُوِيَ أَنَّه قَالَ فِي الْعِبَارَةِ عَنْ هَذَا الْمَعْنَى أَيْضاً: الْمَسْأَلَةُ خِبَاءُ الْعُيُوبِ ومَنْ رَضِيَ عَنْ نَفْسِه كَثُرَ السَّاخِطُ عَلَيْه.

۔انسان کا بہترین ساتھی رضائے الٰہی پر راضی رہنا ہے۔

یعنی عاجزی انسان کو بیکار بنا دیتی ہے اور صبر اس میں حوصلہ پیدا کراتا ہے۔دنیا سے بے نیازی خود ایک دولت ہے اور پرہیز گاری دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب سے بچانے کی بہترین سپر ہے۔رضائے الٰہی سے بہتر کوئی ساتھی اور مصاحب نہیں ہے جو ہمیشہ ساتھ رہنے والا ہے ۔

(۵)

علم بہترین وراثت ہے اور آداب نوبہ نو لباس ہیں اورف کر بہترین شفاف آئینہ ہے۔

انسان علم سے بہتر کوئی تر کہ چھوڑ کر نہیں جاتا ہے اور آداب سے بہتر کوئی لباس نہیں ہے جو زمانہ کے حالات کے اعتبارسے بدلتا رہتا ہے ۔فکر انسان کے معلومات کا بہترین وسیلہ ہے جس طرح شفاف آئینہ میں شکل دیکھی جاتی ہے۔

(۶)

عاقل کا سینہ اسرار کا خزینہ ہے اور بشارت محبت کا جال ہے اور تحمل و بردباری عیوب کا مدفن ہے اور صلح و صفائی عیوب کے چھپانے کا ذریعہ ہے۔

۶۲۲

۷ - والصَّدَقَةُ دَوَاءٌ مُنْجِحٌ - وأَعْمَالُ الْعِبَادِ فِي عَاجِلِهِمْ نُصْبُ أَعْيُنِهِمْ فِي آجَالِهِمْ.

۸ - وقَالَعليه‌السلام اعْجَبُوا لِهَذَا الإِنْسَانِ يَنْظُرُ بِشَحْمٍ ويَتَكَلَّمُ بِلَحْمٍ - ويَسْمَعُ بِعَظْمٍ ويَتَنَفَّسُ مِنْ خَرْمٍ.

۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَقْبَلَتِ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ أَعَارَتْه مَحَاسِنَ غَيْرِه وإِذَا أَدْبَرَتْ عَنْه سَلَبَتْه مَحَاسِنَ نَفْسِه.

۱۰ - وقَالَعليه‌السلام خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ - وإِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَيْكُمْ.

(۷)

صدقہ بہترین کارآمد دوا ہے اور لوگوں کے دنیا کے اعمال آخرت میں ان کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے ۔

(۸)

انسان کی ساخت(۱) پر تعجب کروکہ چربی کے ذریعہ دیکھتا ہے اورگوشت سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور سوراخ سے سانس لیتا ہے۔

(۹)

جب(۲) دنیاکسی کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے تو یہ دوسرے کے محاسن بھی اس کے حوالہ کردیتی ہے اور جب اس سے منہ پھراتی ہے تو اس کے محاسن بھی سلب کر لیتی ہے۔

(۱۰)

لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول(۳) رکھوکہ مرجائو تو لوگ گریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔

(۱)حضرت کے بیان کا یہ حصہ علم الا عضاء سے تعلق رکھتا ہے۔جس کا مقصد طبی دوائوں کا بیان نہیں ہے بلکہ قدرت خدا کی طرف توجہ دلانا ہے کہ شائد انسان اس طرف شکر خالق کی طرف متوجہ ہو جائے ۔

(۲)یہ علم الا جتماع کا نکتہ ہے جہاں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ زمانہ عیب دار کو عیب عیب بھی بنا دتا ہے اور بے عیب کو عیب دار بھی بنا دیتا ہے اوردونوں کا فرق دنیا کی توجہ ہے جس کا حصول بہر حال ضروری ہے ۔

(۳)یہ بھی بہترین اجتماعی نکتہ ہے جس کی طرف ہر انسان کو متوجہ رہنا چاہیے۔

۶۲۳

۱۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ - فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْه شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْه.

۱۲ - وقَالَعليه‌السلام أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اكْتِسَابِ الإِخْوَانِ - وأَعْجَزُ مِنْه مَنْ ضَيَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِه مِنْهُمْ.

۱۳ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا وَصَلَتْ إِلَيْكُمْ أَطْرَافُ النِّعَمِ - فَلَا تُنَفِّرُوا أَقْصَاهَا بِقِلَّةِ الشُّكْرِ.

۱۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَيَّعَه الأَقْرَبُ أُتِيحَ لَه الأَبْعَدُ.

(۱۱)

جب دشمن پر قدرت(۱) حاصل ہو جائے تو معاف کردینے ہی کو اس قدرت کا شکریہ قرار دو۔

(۱۲)

عاجز(۲) ترین انسان وہ ہے جو دوست بنانے سے بھی عاجز ہو اور اس سے زیادہ عاجز وہ ہے جو رہے سہے دوستوں کوبھی برباد کردے ۔

(۱۳)

جب نعمتوں(۳) کا رخ تمہاری طرف ہو تو نا شکری کے ذریعہ انہیں اپنے تک پہنچنے سے بگھا نہ دو۔

(۱۴)

جسے قریب(۴) والے چھوڑ دیتے ہیں اسے دور والے مل جاتے ہیں۔

(۱)یہ اخلاقی تربیت ہے کہ انسان میں طاقت کا غرور نہیں ہونا چاہیے اور اسے ایک نعمت پروردگار سمجھ کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور شکریہ بھی غلطی کرنے والوں کی معافی کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔

(۲)یہ بھی ایک اجتماعی نکتہ ہے کہ انسان میں دوست بنانے کی صلاحیت انتہائی ضرورت ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو اسے واقعاً انسان نہں کہا جا سکتا ہے اور اس سے بد تر گیا گذرا انسان وہ ہے جو پائے ہوئے دوستوں کوبھی گنوادے۔

(۳)پروردار عالم نے یہ اخلاقی نظام بنادیا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل شکریہ ہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے لہٰذا جسے بھی اس کی تکمیل درکار ہے اسے شکریہ کا پابند ہونا چاہیے۔

(۴)انسان کو اعزا و اقربا کی بے رخی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔پروردگار جس طرح قرابتدار پیدا کر سکتا ہے اسی طرح دور والے مخلص بھی پیدا کر سکتا ہے اور اس طرح اعزاو اقربا میں یہ غرورنہیں ہونا چاہیے کہ ہم ساتھ چھوڑ دیں گے تو انسان لاوارث ہو جائے گا۔لاوارث کا وارث پروردگار اور اس نے حیات پیغمبر اسلام (ص) میںاس کا بہترین نمونہ پیشکردیا ہے ۔

۶۲۴

۱۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا كُلُّ مَفْتُونٍ يُعَاتَبُ.

۱۶ - وقَالَعليه‌السلام تَذِلُّ الأُمُورُ لِلْمَقَادِيرِ حَتَّى يَكُونَ الْحَتْفُ فِي التَّدْبِيرِ.

۱۷ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قَوْلِ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - غَيِّرُوا الشَّيْبَ ولَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ - فَقَالَعليه‌السلام إِنَّمَا قَالَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ذَلِكَ والدِّينُ قُلٌّ - فَأَمَّا الآنَ وقَدِ اتَّسَعَ نِطَاقُه وضَرَبَ بِجِرَانِه - فَامْرُؤٌ ومَا اخْتَارَ.

۱۸ - وقَالَعليه‌السلام فِي الَّذِينَ اعْتَزَلُوا الْقِتَالَ مَعَه -

.

(۱۵)

ہر فتنہ(۱) میں پڑ جانے والا قابل عتاب نہیں ہوتا ہے۔

(۱۶)

سارے معاملات(۲) تقدیر کے تابع ہوتے ہیں یہاں تک کہ کبھی کبھی تدبیر سے موت واقع ہو جاتی ہے۔

(۱۷)

آپ سے رسول اکرم (ص) کے اس ارشاد کے بارے میں سوال کیا گیا کہ '' ضعیفی کو خضاب کے ذریعہ بدل(۳) دو اورخبردار یہودیوں کی شبیہ نہ بنو''تو آپ (ص) نے فرمایا کہ یہ اس دور کے لئے ہے جب دیندار کم تھے لیکن آج اسلام کا دئارہ وسیع ہو چکا ہے اور وہ سینہ ٹیک کرجم چکا ہے لہٰذا ہر انسان کو اپنی پسند سے کام کرنا چاہیے ۔

(۱۸)

آپ نے میدان جنگ سے کنارہ کشی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ

(۱)انسان اپنے ارادہ اختیار سے فتنوں میں مبتلا ہو جائے تو یقینا قابل ملامت ہوتا ہے۔لیکن حالات کی مجبوری اسے اس اقدام پرآمادہ کردے تو پروردگار مجبوریوں کامحاسبہ نہیں کرتا ہے جس کی مثال یاسر کی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

(۲)انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کائنات ارادہ ٔ الٰہی کے مطابق چل رہی ہے۔اس میں محنت ' مشقت ایک فرض بشریت ہے لیکن اس سے مقدارات کو بدلا نہیں جا سکتا ہے ورنہ یہ تصور کبھی انسان کو ہلاکت سے بھی دو چار کر سکتا ہے جس کی مثال موسیٰ کی نجات اور فرعون کی غرقابی میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

(۳)یہودیت میں خضاب ایک عیب تھا اوربعض مسلمان بھی اس نظریہ سے متاثر تھے اس لئے حضور نے چاہا کہ مسلمان خضاب لگا کر میدان جنگ میںقدم رکھیں تاکہ کفار کے دل جوانوں کے لشکر کو دیکھ کر دہل جائیں۔اس کے بعد جب اسلام کو قوت حاصل ہوگئی تو خضاب کی ضرورت نہیں رہ گئی لیکن پھر بھی عیب نہیں ہے۔

۶۲۵

خَذَلُوا الْحَقَّ ولَمْ يَنْصُرُوا الْبَاطِلَ.

۱۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ جَرَى فِي عِنَان أَمَلِه عَثَرَ بِأَجَلِه

۲۰ - وقَالَعليه‌السلام أَقِيلُوا ذَوِي الْمُرُوءَاتِ عَثَرَاتِهِمْ - فَمَا يَعْثُرُ مِنْهُمْ عَاثِرٌ إِلَّا ويَدُ اللَّه بِيَدِه يَرْفَعُه

۲۱ - وقَالَعليه‌السلام قُرِنَتِ الْهَيْبَةُ بِالْخَيْبَةِ والْحَيَاءُ بِالْحِرْمَانِ - والْفُرْصَةُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ فَانْتَهِزُوا فُرَصَ الْخَيْرِ.

۲۲ - وقَالَعليه‌السلام لَنَا حَقٌّ فَإِنْ أُعْطِينَاه

'' ان لوگوں نے حق(۱) کو بھی چھوڑدیا اورباطل کی بھی مدد نہیں کی ۔

(۱۹)

جوامیدوں کی راہ میں دوڑتا ہی چلا جاتا ہے وہ آخرمیں موت(۲) سے ٹھوکر کھا جاتا ہے ۔

(۲۰)

با مروت(۳) لوگوں کی لغزشوں سے درگذر کرو۔کہ ایسا شخص جب بھی ٹھوکر کھاتا ہے تو قدرت کا ہاتھ اسے سنبھال کر اٹھا دیتا ہے ۔

(۲۱)

مرعوبیت(۴) کو ناکامی سے اور حیاء کو محرومی سے ملادیا گیا ہے۔فرصت کے مواقع بادلوں کی طرح گزر جاتے ہیں لہٰذا نیکیوں کی فرصت کو غنیمت خیال کرو۔

(۲۲)

ہمارا ایک حق ہے جو مل گیا توخیر ورنہ ہم اونٹ

(۱)اردو میں اس صورت حال کے بارے میں کہا جاتا ہے :''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔نہادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے''

(۲)جب موت برحق ہے تو امیدوں سے لو لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ایک دن تو ان کا سلسلہ بہر حال ختم ہونا ہے تو بلا وجہ ان کی راہ میں جان دینے کی کیا ضرورت ہے۔

(۳)ہر انسان معصوم نہیں ہوتا ہے تو غلطی کا امکان بہر حال رہتا ہے لہٰذا ہر شخص کا فرض ہے کہ کسی شریف آدمی سے غلطی ہو جائے تو اسے معاف کردے اور نالائقوں سے محاسب و مواخذہ کرے۔

(۴)جو بلا وجہ خوفزدہ ہو جائے گا وہ مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا ہے اور جو بلا وجہ شرماتا رہے گا وہ ہمیشہ محروم رہے گا۔انسان ہرموقع پر شرماتا ہی رہتا تو نسل انسانی وجود میں نہ آتی۔

۶۲۶

وإِلَّا رَكِبْنَا أَعْجَازَ الإِبِلِ - وإِنْ طَالَ السُّرَى.

قال الرضي وهذا من لطيف الكلام وفصيحه - ومعناه أنا إن لم نعط حقنا كنا أذلاء - وذلك أن الرديف يركب عجز البعير - كالعبد والأسير ومن يجري مجراهما.

۲۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه.

۲۴ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ كَفَّارَاتِ الذُّنُوبِ الْعِظَامِ إِغَاثَةُ الْمَلْهُوفِ - والتَّنْفِيسُ عَنِ الْمَكْرُوبِ.

۲۵ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ إِذَا رَأَيْتَ رَبَّكَ سُبْحَانَه يُتَابِعُ عَلَيْكَ نِعَمَه - وأَنْتَ تَعْصِيه فَاحْذَرْه.

پر(۱) پیچھے ہی بیٹھنا گوارا کرلیں گے چاہے سفر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو۔

سید رضی : یہ بہترین لطیف اور فصیح کلام ے کہ اگر حق نہ ملا تو ہم کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ردیف میں بیٹھنے والے عام طور سے غلام اورقیدی وغیرہ ہواکرتے ہیں۔

(۲۳)

جسے اس کے اعمال کے پیچھے ہٹا دیں اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتا ہے۔

(۲۴)

بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ یہ ہے کہ انسان ست رسیدہ کی فریاد(۲) رسیکرے اور رنج دیدہ انسان کے غم کو دور کرے۔

(۲۵)

فرزند آدم ! جب گناہوں کے باوجود پروردگار کی نعمتیں مسلسل تجھے ملتی رہیں تو ہوشیار(۳) ہو جانا۔

(۱)یعنی ہم حق سے دستبردار ہونے والے نہیں ہیں اور جہاں تک غاصبانہ دبائو کا سامانا کرنا پڑے گا کرتے رہیں گے ۔

(۲)ستم رسیدہوہ بھی ہے جس کے کھانے پینے کا سہارا نہ ہو اور وہ بھی ہے جس کے علاج کا پیسہ یا اسکول کی فیس کا انتظام نہ ہو

(۳)اکثر انسان نعمتوں کی بارش دیکھ کر مغرور ہو جاتا ہے کہ شائد پروردگار کچھ زیادہہی مہربان ہے اور یہ نہیں سوچتا ہے کہ اس طرح حجت تمام ہورہی ہے اورڈھیل دی جارہی ہے ورنہ گناہوں کے باوجود اس بارش رحمت کا کیا امکان ہے۔

۶۲۷

۲۶ - وقَالَعليه‌السلام مَا أَضْمَرَ أَحَدٌ شَيْئاً إِلَّا ظَهَرَ فِي فَلَتَاتِ لِسَانِه - وصَفَحَاتِ وَجْهِه.

۲۷ - وقَالَعليه‌السلام امْشِ بِدَائِكَ مَا مَشَى بِكَ

۲۸ - وقَالَعليه‌السلام أَفْضَلُ الزُّهْدِ إِخْفَاءُ الزُّهْدِ.

۲۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كُنْتَ فِي إِدْبَارٍ والْمَوْتُ فِي إِقْبَالٍ فَمَا أَسْرَعَ الْمُلْتَقَى.

۳۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحَذَرَ الْحَذَرَ فَوَاللَّه لَقَدْ سَتَرَ حَتَّى كَأَنَّه قَدْ غَفَرَ.

(۲۶)

انسان جس بات کو د میں چھپانا چاہتا ہے وہ اس کی زبان کے بیساختہ کلمات(۱) اورجہرہ کے آثار سے نمایاں ہو جاتی ہے

(۲۷)

جہاں تک ممکن ہو مرض کے ساتھ چلتے رہو (اورفوراً علاج کی فکرمیں لگ جائو)

(۲۸)

بہترین زہد۔زہد کا مخفی رکھنا اور اظہار نہکرنا ہے ( کہ ریا کاری زہد نہیں ہے نفاق ہے )

(۲۹)

جب تمہاری زندگی جارہی ہے اور موت آرہی ہے تو ملاقات بہت جلدی ہو سکتی ہے۔

(۳۰)

ہوشیار ہوشیار! کہ پروردگار نے گناہوں کی اس قدر پردہ پوشی کی ہے کہ انسان کو یہ دھوکہ ہوگیا ہے کہ شائد معاف کردیا ہے ۔

(۱)زندگی کی بیشمار باتیں ہیں جن کا چھپانا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک زبان کی حرکت جاری ہے اور چہرہ کی غمازی سلامت ہے اور چہرہ کی غمازی سلامت ہے۔ان دو چیزوں پر کوئی انسان قابو نہیںپا سکتا ہے اور ان سے حقائق کا بہر حال انکشاف ہوجاتا ہے۔

۶۲۸

۳۱ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنِ الإِيمَانِ - فَقَالَ الإِيمَانُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ - عَلَى الصَّبْرِ والْيَقِينِ والْعَدْلِ والْجِهَادِ - والصَّبْرُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى الشَّوْقِ والشَّفَقِ والزُّهْدِ والتَّرَقُّبِ - فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَى الْجَنَّةِ سَلَا عَنِ الشَّهَوَاتِ - ومَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْمُحَرَّمَاتِ - ومَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِيبَاتِ - ومَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ إِلَى الْخَيْرَاتِ - والْيَقِينُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ وتَأَوُّلِ الْحِكْمَةِ - ومَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ وسُنَّةِ الأَوَّلِينَ - فَمَنْ تَبَصَّرَ فِي الْفِطْنَةِ

(۳۱)

آپ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ ایمان(۱) کے چا ستون ہیں : صبر ' یقین ' عدل اور جہاد۔

پھر صبرکے چار شعبے ہیں(۲) :شوق ' خوف ' زہد اور انتظارموت ۔پھر جس نے جنت کا اشتیاق پیدا کرلیا اسنے خواہشات کو بھلا دیا اورجسے جہنم کا خوف حاصل ہوگیا اس نے محرمات سے اجتناب کیا۔دنیا میں زہد اختیار کیا۔دنیا میں زہد اختیار کرنے والا مصیبتوں کو ہلکا تصورکرتا ہے اورموت کا انتظار کرنے والا نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے۔

یقین کے بھی چار شعبے(۳) ہیں: ہوشیاری کی بصیرت ' حکمت کی حقیقت رسی ' عبرت کی نصیحت اور سابق بزرگوں کی سنت۔ہوشیاری میں بصیرت رکھنے

(۱)واضح رہے کہ اس ایمان سے مراد ایمان حقیقی ہے جس پر ثواب کا دارومدار ہے اور جس کاواقعی تعلق دل کی تصدیق اوراعضاء و جوارح کے عمل و کردارسے ہوتا ہے ورنہ وہ ایمان جس کاتذکرہ''یا ایھا الذن امنوا '' میں کیا گیا ہے اس سے مراد صرف زبانی اقرار اورادعائے ایمان ہے۔ورنہ ایسا نہ ہوتا تو تمام احکام کا تعلق صرف مومنین مخلصین سے ہوتا اور منافقین ان قوانین سے یکسر آزاد ہو جاتے ۔

(۲)صبر کا دارومدار چار اشیاء پر ہے۔انسان رحمت الٰہی کا اشتیاق رکھتا ہو اورعذاب الٰہی سے ڈرتا ہوتا کہ اس راہ میں زحمتیں برداشت کرے۔اس کے بعد دنیا کی طرف سے لا پرواہ ہو اور موت کی طرف سراپا توجہ ہوتا کہدنیا کے فراق کو برداشت کرلے اورموت کی سختی کے پیش نظر ہر سختی کو آسان سمجھ لے ۔

(۳)یقین کی بھی چار بنیادی ہیں۔اپنی ہر بات پر مکمل اعتماد رکھتا ہو۔حقاق کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔دیگر اقوام کے حالات سے عبرت حاصل کرے اورصالحین کے کردار پرعمل کرے۔ایسا نہیں ہے تو انسان جہل مرکب میں مبتلا ہے اور اس کا یقین فقط و ہم و گمان ہے یقین نہیں ہے۔

۶۲۹

تَبَيَّنَتْ لَه الْحِكْمَةُ - ومَنْ تَبَيَّنَتْ لَه الْحِكْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ - ومَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَكَأَنَّمَا كَانَ فِي الأَوَّلِينَ

- والْعَدْلُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى غَائِصِ الْفَهْمِ وغَوْرِ الْعِلْمِ - وزُهْرَةِ الْحُكْمِ ورَسَاخَةِ الْحِلْمِ - فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ - ومَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُكْمِ - ومَنْ حَلُمَ لَمْ يُفَرِّطْ فِي أَمْرِه وعَاشَ فِي النَّاسِ حَمِيداً –

والْجِهَادُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ - والصِّدْقِ فِي الْمَوَاطِنِ وشَنَآنِ الْفَاسِقِينَ - فَمَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَّ ظُهُورَ الْمُؤْمِنِينَ - ومَنْ نَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ أَرْغَمَ أُنُوفَ الْكَافِرِينَ - ومَنْ صَدَقَ فِي الْمَوَاطِنِ قَضَى مَا عَلَيْه - ومَنْ شَنِئَ الْفَاسِقِينَ وغَضِبَ لِلَّه غَضِبَ اللَّه لَه - وأَرْضَاه يَوْمَ الْقِيَامَةِ -

والے پر حکمت روشن ہو جاتی ہے اورحکمت کی روشنی عبرت کو واضح کر دیتی ہے اور عبرت کی معرفت گویا سابق اقوام سے ملا دیتی ہے۔

عدل کے بھی چار شعبے ہیں : تہ تک پہنچ جانے والی سمجھ' علم کی گہرائی فیصلہ کی وضاحت اور عقل کی پائیداری۔

جس نے فہم کی نعمت پالی وہ علم کی گہرائی تک پہنچ گیا اور جس نے علم کی گہرائی کو پالیا وہ فیصلہ کے گھاٹ سے سیراب ہو کرباہرآیا اور جس نے عقل استعمال کرلی اس نے اپنے امر میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور لوگوں کے درمیان قابل تعریف زندگی گزاردی۔

جہاد کے بھی چار شعبے ہیں:امر(۱) بالمعروف' نہی عن المنکر' ہر مقام پر ثبات قدم اورفاسقوں سے نفرت و عداوت ۔لہٰذا جس نے امر بالمعروف کیا اس نے مومنین کی کمر کو مضبوط کردیا۔اور جس نے منکرات سے روکا اس نے کافروں کی ناک رگڑدی۔جس نے میدان قتال میں ثبات قدم کامظاہرہ کیا وہ اپنے راستہ پر آگے بڑھ گیا اور جسنے فاسقوں سے نفرت و عداوت کا برتائو کیا پروردگار اس کی خاطر اس کے دشمنوں سے غضب ناک ہوگا اور اسے روز قیامت خوش کردے گا۔

(۱)جہاد کا انحصار بھی چارمیدانوں پر ہے۔امر بالمعروف کامیدان۔نہی عن المنکرکا میدان ' قتال کامیدان اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کا میدان۔ان چاروں میدانوں میں حوصلہ جہاد نہیں ہے تو تنہا امرو نہی سے کوئی کام چلنے والا نہیں ہے اور نہ ایسا انسان واقعی مجاہد کہے جانے کے قابل ہے ۔

۶۳۰

والْكُفْرُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ - عَلَى التَّعَمُّقِ ،والتَّنَازُعِ والزَّيْغِ والشِّقَاقِ - فَمَنْ تَعَمَّقَ لَمْ يُنِبْ إِلَى الْحَقِّ - ومَنْ كَثُرَ نِزَاعُه بِالْجَهْلِ دَامَ عَمَاه عَنِ الْحَقِّ - ومَنْ زَاغَ سَاءَتْ عِنْدَه الْحَسَنَةُ وحَسُنَتْ عِنْدَه السَّيِّئَةُ - وسَكِرَ سُكْرَ الضَّلَالَةِ - ومَنْ شَاقَّ وَعُرَتْ عَلَيْه طُرُقُه وأَعْضَلَ عَلَيْه أَمْرُه - وضَاقَ عَلَيْه مَخْرَجُه –

والشَّكُّ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى التَّمَارِي والْهَوْلِ والتَّرَدُّدِ والِاسْتِسْلَامِ - فَمَنْ جَعَلَ الْمِرَاءَ دَيْدَناً لَمْ يُصْبِحْ لَيْلُه - ومَنْ هَالَه مَا بَيْنَ يَدَيْه نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْه - ومَنْ تَرَدَّدَ فِي الرَّيْبِ

اور کفر کے بھی چار ستون ہیں(۱) :بلاوجہ گہرائیوں میں جانا، آپس میں جھگڑا کرنا، کجی اور انحراف اوراختلاف اور عناد۔

جو بلا سبب گہرائی میں ڈوب جائے گا وہ پلٹ کرحق کی طرف نہیں آسکتا ہے اور جو جہالت کی بنا پرجھگڑا کرتا رہتا ہے وہ حق کی طرف سے اندھا ہو جاتا ہے جو کجی کاشکار ہو جاتا ہے اسے نیکی برائی'اور برائی نیکی نظر آنے لگتی ہے اوروہ گمراہی کے نشہ میں چورہو جاتا ہے اورجو جھگڑے اور عناد میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کے راستے دشوار ' مسائل ناقابل حل اوربچ نکلنے کے طریقے تنگ ہو جاتے ہیں ۔

اس کے بعد شک(۲) کے چار شعبے ہیں :کٹ حجتی ' خوف ' حیرانی اور باطل کے ہاتھوں سپردگی۔ظاہر ہے کہ جو کٹ حجتی کو شعار بنالے گا اس کی رات کی صبح کبھی نہ ہوگی اور جو ہمیشہ سامنے کی چیزوں سے ڈرتا رہے گا وہ الٹے پائوں پیچھے ہی ہٹتا رہے گا۔جو شک و شبہ میں حیران و

(۱)کفر انکارخدا کی شکل میں ہو یا انکار رسالت کی شکل میں۔اس کی اساس شرک پر ہو یا انکارحقائق و واضحاب مذہب پر ہر سم کے لئے چار میں سے کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے یا انسان ان مسائل کی فکرمیں ڈوب جاتا ہے جو اس کے امکان سے باہر ہیں۔یا صرف جھگڑے کی بنیاد پرکسی عقیدہ کو اختیار کرلیتا ہے یا اس کی فکرمیں کجی پیدا ہو جاتای ہے یا وہ عناد اور ضد کا شکار ہو جاتا ہے۔اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ان میں سے ہر بیماری وہ ہے جو انسان کو راہ راست پر آنے سے روک دیتی ہے اور انسان ساری زندگی کفر ہی میں مبتلا رہ جاتا ہے۔بیماری کی ہر قسم کے اثرات الگ الگ ہیں لیکن مجموعی طور پر سب کا اثر یہ ہے کہ انسان حق رسی سے محروم ہو جاتا ہے اور ایمان و یقین کی دولت سے بہرہ مند نہیں ہو پاتا ہے۔

(۲)شک ایمان و کفر کے درمیان کا راستہ ہے جہاں نہ انسان حق کا تیقن پیدا کر پاتا ہے اور نہ کفر ہی کا عقیدہ اختیار کرسکتا ہے اور درمیان میں ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے اوراس ٹھوکر کے بھی چار اسباب یا مظاہر ہوتے ہیں یا انسان بلا سوچے سمجھے بحث شروع کر دیتا ہے یا غلطی کرنے کے خوف سے پرچھائیوں سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔یا تردد اور حیرانی کا شکار ہو جاتا ہے یا ہر پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہنے لگتا ہے :

''چلتا ہوں تھوڑی دور ہرایک راہ و کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں ''

۶۳۱

وَطِئَتْه سَنَابِكُ الشَّيَاطِينِ - ومَنِ اسْتَسْلَمَ لِهَلَكَةِ الدُّنْيَا والآخِرَةِ هَلَكَ فِيهِمَا.

قال الرضي وبعد هذا كلام تركنا ذكره خوف الإطالة - والخروج عن الغرض المقصود في هذا الكتاب.

۳۲ - وقَالَعليه‌السلام فَاعِلُ الْخَيْرِ خَيْرٌ مِنْه وفَاعِلُ الشَّرِّ شَرٌّ مِنْه.

۳۳ - وقَالَعليه‌السلام كُنْ سَمْحاً ولَا تَكُنْ مُبَذِّراً - وكُنْ مُقَدِّراً ولَا تَكُنْ مُقَتِّراً

۳۴ - وقَالَعليه‌السلام أَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى

۳۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَسْرَعَ إِلَى النَّاسِ بِمَا يَكْرَهُونَ - قَالُوا فِيه بِمَا لَا يَعْلَمُونَ.

سرداں رہے گا اسے شیاطین اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے اور جو اپنے کو دنیا و آخرت کی ہلاکت کے سپرد کردے گا وہ واقعاً ہلاک ہو جائے گا۔

(۳۲)

خیر کا انجام دینے والا اصل خیر سے بہتر ہوتا ہے اور شر کا انجام دینے والا اصل شر سے بھی بدتر ہوتا ہے ۔

(۳۳)

سخاوت کرو لیکن فضول خرچی نہ کرو اور کفایت شعاری اختیار کرو۔لیکن بخیل مت بنو۔

(۳۴)

بہترین مالداری اوربے نیازی یہ ہے کہ انسان امیدوں کو ترک کردے ۔

(۳۵)

جو لوگوں کے بارے میں بلا سوچے سمجھے وہ باتیں کہہ دیتا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے ہیں۔لوگ اس کے بارے میں بھی وہ کہہ دیتے ہیں جسے جانتے بھی نہیں ہیں۔

۶۳۲

۳۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَطَالَ الأَمَلَ أَسَاءَ الْعَمَلَ.

۳۷ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ لَقِيَه عِنْدَ مَسِيرِه إِلَى الشَّامِ دَهَاقِينُ الأَنْبَارِ - فَتَرَجَّلُوا لَه واشْتَدُّوا بَيْنَ يَدَيْه - فَقَالَ:

مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمُوه فَقَالُوا خُلُقٌ مِنَّا نُعَظِّمُ بِه أُمَرَاءَنَا - فَقَالَ واللَّه مَا يَنْتَفِعُ بِهَذَا أُمَرَاؤُكُمْ - وإِنَّكُمْ لَتَشُقُّونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ فِي دُنْيَاكُمْ - وتَشْقَوْنَ بِه فِي آخِرَتِكُمْ - ومَا أَخْسَرَ الْمَشَقَّةَ وَرَاءَهَا الْعِقَابُ - وأَرْبَحَ الدَّعَةَ مَعَهَا الأَمَانُ مِنَ النَّارِ!

(۳۶)

جس نے امیدوں کو دراز(۱) کیا اس نے عمل کو برباد کردیا۔

(۳۷)

(شام کی طرف جاتے ہوئے آپ کا گذر ابنار کے زمینوں کے پاس سے ہوا تو وہ لوگ سواریوں سے اتر آئے اور آپ کے آگے دوڑنے لگے توآپ نے فرمایا ) یہ تم نے کیا طریقہ اختیار کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ ہمارا ایک ادب ہے جس سے ہم شخصیتوں کا احترام کرتے ہیں۔فرمایا کہخدا گواہ ہے اس سے حکام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اورتم اپنے نفس کو دنیا میں زحمت(۲) میں ڈالتے ہو اور آخرت میں بد بختی کا شکار ہو جائو گے اور کس قدرخسارہ کے باعث ہے وہ مشقت جس کے پیچھے عذاب ہو اورکس قدر فائدہ مند ہے وہ راحت جس کے ساتھ جہنم سے امان ہو۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دنیا امیدوں پر قائم ہے اور انسان کی زندگی سے امیدکا شعبہ ختم ہو جائے تو عمل کی ساری تحریک سرد پڑ جائے گی اور کوئی انسان کوئی کام نہ کرے گا لیکن اس کے بعد بھی اعتدال ایک بنیادی مسئلہ ہے اور امیدوں کی درازی بہر حال عمل کو برباد کر دیتی ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہو جاتا ہے اورآخرت سے غافل ہو جانے والا عمل نہیں کر سکتا ہے ۔

(۲)اس ارشاد گرامی سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلام ہر تہذیب کوگوارا کرتا ہے اور اس کے بارے میں یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی افادیت کیا ے اورآخرت میں اس کا نقصان کس قدر ہے۔ہماری ملکی تہذیب میں فرشی سلام کرنا' غیر خدا کے سامنے سجدرکوع جھکنا بھی ہے جو اسلام میں قطعاً جائز نہیں ہے۔کسی ضرورت سے جھکنا اور ہے اور تعظیم کے خیال سے جھکنا اور ہے۔سلام تعظیم کے لئے ہوتا ہے لہٰذا اس میں رکوع کی حدوں تک جانا صحیح نہیں ہے۔

۶۳۳

۳۸ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه الْحَسَنِعليه‌السلام :

يَا بُنَيَّ احْفَظْ عَنِّي أَرْبَعاً وأَرْبَعاً - لَا يَضُرُّكَ مَا عَمِلْتَ مَعَهُنَّ - إِنَّ أَغْنَى الْغِنَى الْعَقْلُ وأَكْبَرَ الْفَقْرِ الْحُمْقُ - وأَوْحَشَ الْوَحْشَةِ الْعُجْبُ وأَكْرَمَ الْحَسَبِ حُسْنُ الْخُلُقِ.

يَا بُنَيَّ إِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الأَحْمَقِ - فَإِنَّه يُرِيدُ أَنْ يَنْفَعَكَ فَيَضُرَّكَ - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْبَخِيلِ - فَإِنَّه يَقْعُدُ عَنْكَ أَحْوَجَ مَا تَكُونُ إِلَيْه - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْفَاجِرِ فَإِنَّه يَبِيعُكَ بِالتَّافِه - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْكَذَّابِ - فَإِنَّه كَالسَّرَابِ يُقَرِّبُ عَلَيْكَ الْبَعِيدَ ويُبَعِّدُ عَلَيْكَ الْقَرِيبَ.

۳۹ - وقَالَعليه‌السلام لَا قُرْبَةَ بِالنَّوَافِلِ إِذَا أَضَرَّتْ بِالْفَرَائِضِ.

(۳۸)

آپ نے اپنے فرزند امام حسن سے فرمایا: بیٹا مجھ سے چار اور پھر چار(۱) باتیں محفوظ کرلو تو اس کے بعد کسی عمل سے کوئی نقصان نہ ہوگا۔

بہترین دولت و ثروت عقل ہے اوربد ترین فقیری حماقت ۔سب سے زیادہ وحشت ناک امرخود پسندی ہے اور سب سے شریف حسب خوش اخلاقی ۔بیٹا!خبردار کسی احمق کی دوستی اختیار نہ کرنا کہ تمہیں فائدہ بھی پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچادے گا۔اور اسی طرح کسی بخیل سے دوستی نہ کرناکہ تم سے ایسے وقت میں دور بھاگے گا جب تمہیں اس کی شدید ضرورت ہوگی اور دیکھو کسی فاجر کا ساتھ بھی اختیار نہ کرنا کہ وہ تم کو حقیر چیز کے عوض بھی بیچ ڈالے گا اور کسی جھوٹے کی صحبت بھی اختیارنہ کرناکہ وہ مثل سراب ہے جو دور والے کو قریب کر دیتا ہے اورق ریب والے کو دور کردیتا ہے ۔

(۳۹)

مستحباب الٰہی میں کوئی قربت الٰہی نہیں ہے اگر ان سے واجبات کو نقصان پہنچ جائے ۔

(۱)چار اور چار کا مقصد شائد یہ ہے کہ پہلے چار کاتعلق انسان کے ذاتی اوصاف وخصوصیات سے ہے اور دوسرے چار کا تعلق اجتماعی معاملات سے ہے اور کمال سعادت مندی یہی ہے کہ انسان ذاتی زیور کردارسے بھی آراستہ رہے اور اجتماعی برتائو کوب ھی صحیح رکھے ۔

۶۳۴

۴۰ - وقَالَعليه‌السلام لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَاءَ قَلْبِه وقَلْبُ الأَحْمَقِ وَرَاءَ لِسَانِه قال الرضي - وهذا من المعاني العجيبة الشريفة - والمراد به أن العاقل لا يطلق لسانه.

إلا بعد مشاورة الروية ومؤامرة الفكرة - والأحمق تسبق حذفات لسانه وفلتات كلامه - مراجعة فكره ومماخضة رأيه - فكأن لسان العاقل تابع لقلبه - وكأن قلب الأحمق تابع للسانه.

۴۱ - وقد روي عنهعليه‌السلام هذا المعنى بلفظ آخر - وهو قوله:

قَلْبُ الأَحْمَقِ فِي فِيه - ولِسَانُ الْعَاقِلِ فِي قَلْبِه.

ومعناهما واحد:

(۴۰)

عقل مند(۱) کی زبان اس کے دل کے پیچھے رہتی ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کے پیچھے رہتا ہے۔

سید رضی : یہ بڑی عجی و غریب اور لطیف حکمت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عقلمند انسان غورو فکر کرنے کے بعد بولتا ہے اور احمق انسان بلا سوچے سمجھے کہہ ڈالتا ہے گویا کہعاقل کی زبان دل کی تابع ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کا پابند ہے۔

(۴۱)

احمق کا دل اس کے منہ کے اندر رہتا ہے اور عقل مند کی زبان اس کے دل کے اندر۔

(۱)دوسرے مقام پر امام علیہ السلام نے اسی بات کو عاقل و احمق کے بجائے مومن اور منافق کے نام سے بیان فرمایا ہے اورحقیقت امر یہ ہے کہ اسلام کی نگاہ میں مومن ہی کو عاقل اور منافق ہی کو احمق کہا جاتا ہے۔ورنہ جو ابتد اسے بے خبر اور انتہا سے غافل ہو جاے نہ رحمان کی عبادت کرے اورنہ جنت کے حصول کا انتظام کرے اسے کس اعتبارسے عقل مند کہا جاسکتا ہے اور اسے احمق کے علاوہ دسرا کون سا نام دیا جا سکتا ہے۔

یہ اوربات ہے کہ دور حاضر میں ایسے ہی افراد کو دانش مند اور دانشور کہا جاتا ہے اور انہیں کے احترام کے طور پر دین و دانش کی اصلاح نکالی گئی ہے کہ گویا دیندار' دیندار ہوتا ہے اور دانشور نہیں۔اور دانشور ' دانشور ہوتا ہے چاہے دیندار نہ ہو اور بیدینی ہی میں زندگی گزارے ۔

۶۳۵

۴۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه فِي عِلَّةٍ اعْتَلَّهَا - جَعَلَ اللَّه مَا كَانَ مِنْ شَكْوَاكَ حَطَّاً لِسَيِّئَاتِكَ - فَإِنَّ الْمَرَضَ لَا أَجْرَ فِيه - ولَكِنَّه يَحُطُّ السَّيِّئَاتِ ويَحُتُّهَا حَتَّ الأَوْرَاقِ - وإِنَّمَا الأَجْرُ فِي الْقَوْلِ بِاللِّسَانِ - والْعَمَلِ بِالأَيْدِي والأَقْدَامِ - وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يُدْخِلُ بِصِدْقِ النِّيَّةِ - والسَّرِيرَةِ الصَّالِحَةِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِه الْجَنَّةَ.

قال الرضي - وأقول صدقعليه‌السلام إن المرض لا أجر فيه - لأنه ليس من قبيل ما يستحق عليه العوض - لأن العوض يستحق على ما كان في مقابلة فعل الله تعالى بالعبد - من الآلام والأمراض وما يجري مجرى ذلك - والأجر والثواب يستحقان على ما كان في مقابلة فعل العبد - فبينهما فرق قد بينهعليه‌السلام - كما يقتضيه علمه الثاقب ورأيه الصائب.

۴۳ - وقَالَعليه‌السلام فِي ذِكْرِ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ - يَرْحَمُ اللَّه خَبَّابَ بْنَ الأَرَتِّ

(۴۲)

اپنے ایک صحابی سے اس کی بیماری کے موقع پر فرمایا ''اللہ نے تمہاری بیماری کو تمہارے گناہوں کے دور کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے کہ خود بیماری میں کوئی اجر نہیں ہے لیکن یہ برائیوں کو مٹا دیتی ہے اوراس طرح جھاڑ دیتی ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔اجرو ثواب زبان سے کچھ کہنے اور ہاتھ پائوں سے کچھ کرنے میں حاصل ہوتا ہے اور پروردگار اپنے جن بندوں(۱) کوچاہتا ہے ان کی نیت کی صداقت اورباطن کی پاکیزگی کی بنا پرداخل جنت کردیتا ہے۔

سید رضی : حضرت نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ بیماری میں کوء یاجر نہیں ہے کہ یہ کوئی استحقاقی اجروالا کام نہیں ہے۔عوض تو اس عمل پر بھی حاصل ہوتا ہے۔جو بیماریوں وغیرہ کی طرح خدا بندہ کے لئے انجام دیتا ہے لیکن اجرو ثواب صرف اسی عمل پر ہوتا ہے جو بندہ خود انجام دیتا ہے اور مولائے کائنات نے اس مقام پر عوض اور اجرو ثواب کے اسی فرق کو واضح فرمایا ہے جس کا ادراک آپ کے علم روشن اورف کر صائب کے ذریعہ ہوا ہے۔

(۴۳)

آپ نے خباب بن الارثکے بارے میں فرمایا کہ خدا خباب ابن الارت پر رحمت نازل کرے۔وہ

(۱)مقصد یہ ہے کہ پروردگار نے جس اجرو ثواب کا وعدہ کیا ہے اور جس کا انسان استحقاق پیدا کر لیتا ہے وہ کسی نہ کسی عمل میں پر پیدا ہوتا ہے اور مرض کوئی عمل نہیں ہے۔لیکن اس کے علاوہ فضل و کرم کا دروازہ کھلا ہوا ہے اوروہ کسی بھی وقت اور کسی بھی شخص کے شامل حال کیا جا سکتا ہے ۔اس میں کسی کا کوئی اجارہ نہیں ہے۔

۶۳۶

فَلَقَدْ أَسْلَمَ رَاغِباً وهَاجَرَ طَائِعاً وقَنِعَ بِالْكَفَافِ ورَضِيَ عَنِ اللَّه وعَاشَ مُجَاهِداً.

۴۴ - وقَالَعليه‌السلام طُوبَى لِمَنْ ذَكَرَ الْمَعَادَ وعَمِلَ لِلْحِسَابِ - وقَنِعَ بِالْكَفَافِ ورَضِيَ عَنِ اللَّه.

۴۵ - وقَالَعليه‌السلام : لَوْ ضَرَبْتُ خَيْشُومَ الْمُؤْمِنِ بِسَيْفِي هَذَا - عَلَى أَنْ يُبْغِضَنِي مَا أَبْغَضَنِي - ولَوْ صَبَبْتُ الدُّنْيَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى الْمُنَافِقِ - عَلَى أَنْ يُحِبَّنِي مَا أَحَبَّنِي - وذَلِكَ أَنَّه قُضِيَ فَانْقَضَى عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صلى‌الله‌عليه‌وآله - أَنَّه قَالَ يَا عَلِيُّ لَا يُبْغِضُكَ مُؤْمِنٌ ولَا يُحِبُّكَ مُنَافِقٌ.

۴۶ - وقَالَعليه‌السلام سَيِّئَةٌ تَسُوءُكَ خَيْرٌ عِنْدَ اللَّه مِنْ حَسَنَةٍ تُعْجِبُكَ.

اپنی رغبت سے اسلام لائے ۔اپنی خوشی سے ہجرت کی اور بقدر ضرورت سامان پر اکتفا کی۔اللہ کی مرضی(۱) سے راضی رہے اورمجاہدانہ زندگی گزاری۔

(۴۴)

خوشا بحال اس شخص کا جس نے آخرت کو یاد رکھا ' حساب کے لئے عمل کیا، بقدر ضرورت پرقانع رہا اور اللہ سے راضی رہا۔

(۴۵)

اگر میں اس تلوار سے مومن کی ناک بھی کاٹ دوں کہ مجھ سے دشمنی کرنے لگے تو ہرگز نہکرے گا اور اگر دنیا کی تمام نعمتیں منافق پر انڈیل دوں کہ مجھ سے محبت کرنے لگے تو ہرگز نہ کرے گا۔اس لئے کہ اس حقیقت کا فیصلہ نبی صادق کی زبان سے ہو چکا ہے کہ ''یاعلی ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہیں کر سکتا ہے اور کوئی منافق تم سے محبت نہیں کرسکتا ہے ۔''

(۴۶)

وہ گناہ(۲) جس کا تمہیں رنج ہو۔اللہ کے نزدیک اس نیکی سے بہتر ہے جس سے تم میں غرور پیدا ہوجائے ۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان زندگی کا کمال یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے راضی ہو جائے ۔یہ کام نسبتاً آسان ہے کہ وہ سریع الرضا ہے۔کبھی معمولی عمل سے بھی راضی ہو جاتا ہے اورکبھی بد ترین عمل کے بعد بھی توبہ سے راضی ہوجاتا ہے ۔سب سے مشکل کام بندہ کا خدا سے راضی ہو جانا ہے کہ وہ کسی حال میں خوش ہو تا ہے اور اقتدار فرعون و دولت قارون پانے کے بعد بھی یا مغرور ہو جاتا ہے یا زیادہ کامطالبہ کرنے لگتا ہے۔امیر المومنین نے خباب کے اسی کردار کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ انتہائی مصائب کے باوجود خداسیراضی رہے اورایک حرف شکایت زبان پرنہیں لائے۔اور ایسا ہی انسان وہ ہوتا ہے جس کے حق میں طوبیٰ کی بشارت دی جا سکتی ہے اور وہ امیر المومنین کی طرف سے مبارک باد کامستحق ہوتا ہے۔

(۲)اگرچہ گناہ میں کوئی خوبی اور بہتری نہیں ہے۔لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گناہ کے بعد انسان کا نفس ملامت کرنے لگتا ہے اور وہ توبہ پرآمادہ ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا گناہ جس کے بعداحساس توبہ پیدا ہو جائے اس کا ر خیر سے یقینا بہتر ہے جس کے بعد غرور پیدا ہو جائے اور انسان اخوان الشیاطین کی فہرست میں شامل ہو جائے۔

۶۳۷

۴۷ - وقَالَعليه‌السلام قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَى قَدْرِ هِمَّتِه وصِدْقُه عَلَى قَدْرِ مُرُوءَتِه - وشَجَاعَتُه عَلَى قَدْرِ أَنَفَتِه وعِفَّتُه عَلَى قَدْرِ غَيْرَتِه.

۴۸ - وقَالَعليه‌السلام الظَّفَرُ بِالْحَزْمِ والْحَزْمُ بِإِجَالَةِ الرَّأْيِ - والرَّأْيُ بِتَحْصِينِ الأَسْرَارِ.

۴۹ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرُوا صَوْلَةَ الْكَرِيمِ إِذَا جَاعَ واللَّئِيمِ إِذَا شَبِعَ.

۵۰ - وقَالَعليه‌السلام قُلُوبُ الرِّجَالِ وَحْشِيَّةٌ فَمَنْ تَأَلَّفَهَا أَقْبَلَتْ عَلَيْه.

(۴۷)

انسان کی قدرو قیمت اس کی ہمت(۱) کے اعتبار سے ہوتی ہے اور اس کی صداقت اس کی مردانگی کے اعتبارسے ہوتی ہے شجاعت کا پیمانہ حمیت و خود داری ہے اورعفت کا پیمانہ غیرت و حیا۔

(۴۸)

کامیابی دوراندیشی سے حاصل ہوتی ہے اور دوراندیشی فکر و تدبر سے۔فکر و تدبر کا تعلق اسرار کی را ز داری سے ہے۔

(۴۹)

شریف انسان کے حملہ سے بچو جب وہ بھوکا ہو' اورکمینے کے حملہ سے بچو جب اس کا پیٹ بھرا ہو۔

(۵۰)

لوگوں کے دل صحرائی جانوروں جیسے ہیں جو انہیں سدھالے(۲) گا اس کی طرف جھک جائیں گے ۔

(۱)کیا کہنا اس شخص کی ہمت کا جو دعوت ذوالعشیرہ میں ساری قوم کے مقابلہ میں تن تنہا نصرت پیغمبر (ص) پرآمادہ ہوگیا اور پھر ہجرت کی رات تلواروں کے سایہ میں سو گیا اور مختلف معرکوں میں تلواروں کی زد پر رہا اور آخر کار تلوارکے سایہ ہی میں سجدہ آخر بھی ادا کردیا۔اس سے زیادہ قدر و قیمت کاحقدار دنیا کا کون سا انسان ہوسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ انسان دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہے تو اس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ بہترین اخلاق وکردار کامظاہرہ کرے تاکہ یہ دل وحشی رام ہوجائے ورنہ بد اخلاقی اورب د سلوکی سے وحشی جانور کے مزید بھڑک جانے کاخطرہ ہوتا ہے اس کے رام ہو جانے کا کوئی تصورنہیں ہوتا ہے۔

۶۳۸

۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عَيْبُكَ مَسْتُورٌ مَا أَسْعَدَكَ جَدُّكَ

۵۲ - وقَالَعليه‌السلام أَوْلَى النَّاسِ بِالْعَفْوِ أَقْدَرُهُمْ عَلَى الْعُقُوبَةِ.

۵۳ - وقَالَعليه‌السلام السَّخَاءُ مَا كَانَ ابْتِدَاءً - فَأَمَّا مَا كَانَ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَحَيَاءٌ وتَذَمُّمٌ

۵۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا غِنَى كَالْعَقْلِ ولَا فَقْرَ كَالْجَهْلِ - ولَا مِيرَاثَ كَالأَدَبِ ولَا ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ.

۵۵ - وقَالَعليه‌السلام الصَّبْرُ صَبْرَانِ صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَه وصَبْرٌ عَمَّا تُحِبُّ.

(۵۱)

تمہارا عیب اسی وقت تک چھپا رہے گا جب تک تمہارا مقدر ساز گار ہے۔

(۵۲)

سب سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار وہ ہے جو سب سے زیادہ سزا دینے کی طاقت رکھتا ہو۔

(۵۳)

سخاوت(۱) جیسی کوئی دولت نہیں ہے اور جہالت جیسی کوئی فقیری نہیں ہے۔ادب جیسی کوئی میراث نہیں ہے اورمشورہ جیسا کوئی مدد گار نہیں ہے ۔

(۵۴)

عقل(۲) جیسی کوئی دولت نہیں ہے اور جہالت جیسی کوئی فقیری نہیں ہے۔ادب جیسی کوئی میراث نہیں ہے اور مشورہ جیسا کوئی مدد گار نہیں ہے۔

(۵۵)

صبر کی دو قسمیں ہیں : ایک ناگوار حالات پر صبر اور ایک محبوب اورپسندیدہ چیزوں کے مقابلہ میں صبر۔

(۱) مقصد یہ ہے کہ انسان سخاوت کرنا چاہے اور ا س کا اجرو ثواب حاصل کرنا چاہے تو اسے سائل کے سوال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ سوال کے بعد تو یہ شبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی آبروب چانے کے لئے دے دیا ہے اور اس طرح اخلاص نیت کا عمل مجروح ہوجاتا ہے اور ثواب اخلاص نیت پر ملتا ہے ' اپنی ذات کے تحفظ پر نہیں۔

(۲) آج مسلمان تمام اقوام عالم کا محتاج اسی لئے ہوگیا ہے کہ اس نے علم و فن کے میدان سے قدم ہٹا لیاہے اور صرف عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ورنہ اسلامی عقل سے کام لے کرباب مدینتہ العلم سے وابستگی اختیار کی ہوتی تو باعزت زندگی گزارتا اور بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کے نام سے دہل جاتیں جیسا کہ دورحاضر میں باقاعدہ محسوس کیا جا رہا ہے۔

۶۳۹

۵۶ - وقَالَعليه‌السلام الْغِنَى فِي الْغُرْبَةِ وَطَنٌ والْفَقْرُ فِي الْوَطَنِ غُرْبَةٌ.

۵۷ - وقَالَ عليهلامت الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ.

قال الرضي: وقد روي هذا الكلام عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم.

۵۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَالُ مَادَّةُ الشَّهَوَاتِ.

۵۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ حَذَّرَكَ كَمَنْ بَشَّرَكَ.

۶۰ - وقَالَعليه‌السلام اللِّسَانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّيَ عَنْه عَقَرَ

(۵۶)

مسافرت میں دولت مندی ہو تو وہ بھی وطن کادرجہ رکھتی ہے اور وطن میں غربت ہو تو وہ بھی پردیس کی حیثیت رکھتا ہے ۔

(۵۷)

قناعت(۱) وہ سرمایہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

سید رضی : یہ فقرہ رسول اکرم (ص) سے بھی نقل کیا گیا ہے ( اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے ۔علی بہر حال نفس رسول (ص) ہیں )

(۵۸)

مال خواہشات کا سر چشمہ ہے۔

(۵۹)

جو تمہیں برائیوں سے ڈرائے گویا اس نے نیکی کی بشارت دے دی۔

(۶۰)

زبان ایک درندہ(۲) ہے۔ذراآزاد کردیا جائے تو کاٹ کھائے گا۔

(۱) کہاجاتا ہے کہ ایک شخص نے سقراط کو صحرائی گھاس پر گذارہ کرتے دیکھا تو کہنے لگا کہ اگر تم نے بادشاہ کی خدمت میں حاضری دی ہوتی تو اس گھاس پر گذارہ کرنا پڑت تو سقراط نے فوراً جواب دیا کہ اگر تم نے گھاس سے گذارہ کرلیا ہوتا توبادشاہ کی خدمت کے محتاج نہ ہوتے۔گھاس پر گذارہ کرلینا عزت ہے اوربادشاہ کی خدمت میں حاضر رہناذلت ہے۔

(۲) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زبان انسانی زندگی میں جس قدرکارآمد ہے اسی قدر خطرناک بھی ہے۔یہ تو پرردگار کاکرمہے کہ اس نے اس درندہ کو پنجرہ کے اندر بند کردیا ہے اور اس پر ۳۲ پہرہ دار بٹھا دئیے ہیں لیکن یہ درندہ جب چاہتا ہے خواہشات سے ساز باز کرکے پنجرہ کا دروازہ کھول لیتا ہے اور پہرہ داروں کو دھوکہ دے کر اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور کبھی کبھی '' ان الرجل لیھجر '' کہہ کر ساری قوم کو کھا جاتا ہے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863