نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656941 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

طلب نصرت کی ابتدا تو کردی ہے لیکن آپ کی نظر میں اسلام عظیم کی وحدت اور اس کی عظمت کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اور جب آپ یہ دیکھیں گے کہ آپ کے خروج سے اسلام عظیم کی اجتماعی حیثیت،وقار اور اتحاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو بیٹھ جائیں گے،ان خیالات نے صحابہ کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ اس کشمکش میں آپ کا سب سے کمزور پہلو اسلام کی محبت ہے،اسی وجہ سے آپ کی مادی قوت بھی قابل اعتبار نہیں ہے ۔

امیرالمومنین ؑ کے اصولی موقوف پر بعض شواہد

مولائے کائنات کا نقطہ نظر کیا تھا؟اور آپ نے اصول کو کس قدر اہمیت دی تھی؟اس کے چند شواہد پیش کئے جاتے ہیں،مثلاً آپ سقیفہ میں اس وقت نہیں پہنچ سکے جب لوگ آپ پر سبقت کررہے تھے اور خلافت کی کھچڑی پَک رہی تھی،آپ نے اس وقت نہ پہنچنے کا یہ معقول عذر پیش کیا کہ میں پیغمبر ؐ کے جنازے کی تجہیز و تکفین چھوڑ کے آپ کی خلافت کے لئے لوگوں سے جنگ نہیں کر سکتا تھا(1) عباس بن عبدالمطلب نے آپ سے کہا:آیئے ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں،تا کہ لوگ کہیں عم پیغمبر ؐ نے پیغمبر ؐ کے ابن اعم(چچازاد)کی بیعت کرلی،پھر آپ سے کوئی نہیں لڑےگا،آپ نے فرمایا:چچا!میں پسند نہیں کرتا کہ یہ کام پردے کے پیچھے ہو میں تو چاہتا ہوں جو کچھ ہو علانیہ ہو ۔(2) اس طرح ابوسفیان نے((جس کے قبیلہ کی قوت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا))جب آپ کے نقطہ نظر کو موڑ کے قبائلی تعصّب کا رُخ دینا چاہا اور کوشش کی کہ امیرالمومنین ؑ کو قبائلی بنیادوں پر مطالبہ خلافت کی طرف لے جائے تو آپ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اُسے ڈ انٹ دیا ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 16 ،شرح نہج البلاغہ ج: 6 ص: 13 الفتوح لابن اعثم ص: 13

( 2) شرح نہج البلاغہ ج: 9 ص: 196 ،ج: 11 ص: 9

( 3) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 83 ،المصنف لعبد الرزاق ج: 5 ص: 451 ،الاستیعاب ج: 3 ص: 974 ،ج: 4 ص: 1679 ،تاریخ الخلفاءج: 1 ص: 67 ،انساب الاشراف ج: 2 ص: 271 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 237 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 45

۲۶۱

جب کہ ابوبکر نے اس کی خوشامد کر کے راضی کرلیا اور صدقہ کے اموال دیئے(1) اور اس کے بیٹے کو گورنر بنادیا(2) نتیجہ میں وہ اس کی اولاد اور گھر والے ابوبکر کے مددگار اور تائید کرنےوالوں میں شامل ہوگئے ۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ شاید تاریخ کا یہ اصول دین بن چکا ہے کہ کسی نبی کی امت میں بھی اختلاف ہوتا ہے تو امت کے باطل پرست افراد اہل حق پر غالب آجاتے ہیں ۔(3) وجہ یہ ہے کہ اہل حق کی اصول پرستی اپنے اصولوں کی قربانی پر سمجھوتہ نہیں کرتی اور مددگاروں سے محروم رہ جاتی ہے جب کہ امت کے اہل باطل فرصت سے فائدہ اٹھالیتے ہیں اور پھر نتیجہ میں مادّی اعتبار سے اہل باطل ہی فتحیاب ہوتے ہیں ۔

نتیجہ چاہے تو ہو،امام منصوص کی آواز پر لبیک کہنا واجب ہے

لیکن صحابی ہوں یا غیر صحابی،صرف یہ کہہ دینے سے کہ امام منصوص کے پاس طاقت نہیں ہے یا ان کی کامیابی کا ہمیں یقین نہیں ہے اس لئے ہم ان کی نصرت پر آمادہ نہیں ہوتے،نہ واجب ادا ہوجائےگا اور نہ ان کو بری الذّمہ سمجھا جائےگا بلکہ ہر انسان پر امام منصوص کی اطاعت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنا واجب ہے نتیجہ چاہے جو ہو عام انسان کو امام منصوص کی نصرت کے بارے میں نہ اجتہاد کا حق پہنچتا ہے نہ غور کی مہلت،اس لئے کہ امام منصوص جانتا ہے کہ لوگوں کی بھلائی کس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) العقد الفرید ج: 4 ص: 240 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 44

( 2) الطبقات الکبری ج: 4 ص: 97 ۔ 98 ،المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 279 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 133 ،تاریخ طبری ج: 2 ص: 331 ،تاریخ دمشق ج: 16 ص: 78 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 58 ۔ 59

( 3) مجمع الزوائد ج: 1 ص: 157 ،المعجم الاوسط ج: 7 ص: 370 ،فیض القدیر ج: 5 ص: 415 ،حلیۃ الاولیا ج: 4 ص؛ 313 ،تذکرۃ الحفاظ ج: 1 ص: 87 ،کنز العمال ج: 1 ص: 183 حدیث 929 ،الجامع الصغیر للسیوطی ج: 2 ص: 481 حدیث 7799 ،شرح نہج البلاغہ ج: 5 ص: 181

۲۶۲

چیز میں ہے حالانکہ لوگ مصلحتوں سے ناواقف اور مفید نتائج سے بےخبر ہوتے ہیں جیسا کہ صلح حدیبیہ میں واقعہ پیش آیا،نبی ؐ کو معلوم تھا کہ اس صلح سے کیا کیا فائدہ حاصل ہونےوالا ہے در حالیکہ مسلمان عواقب و نتائج سے ناواقفیت کی بنا پر مخالفت پر اتر آئے تھے اس سلسلہ میں بعض مطالب دوسرے سوال کے جواب میں گذر چکے ہیں ۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلد بازی میں اٹھایا ہوا کوئی قدم فتح کا سبب بن جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مسلسل منصوبہ بندی کرنے کے باوجود آدمی شکست سے دوچار ہوتا ہے،اچھا!اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ حق کی نصرت پر لبیک کہنے اور باطل کی مخالفت میں جنگ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غافل متبہ ہوجاتے ہیں،خدا کے لئے حجّت قائم ہوجاتی ہے اور نصرتِ حق میں اُٹھی ہوئی آواز دلوں کو جگا دیتی ہے،میرا خیال ہے کہ یہ فائدہ بھی کچھ کم نہیں ہے،دینِ خدا اور خدا کی طرف دعوت دینےوالوں کو یہ عظیم فائدہ تو حاصل ہو ہی جاتا ہے اور یہی فائدہ کیا کم ہے ۔

ابوسالم جیشانی کہتے ہیں:میں نے سنا مولائے کائنات ؑ کوفہ میں فرما رہے تھے کہ((میں اس لئے لڑ رہا ہوں کہ حق قائم ہو،حالانکہ حق ہرگز قائم نہیں ہوسکے گا جب تک حکومت معاویہ والوں کے ہاتھ میں رہےگی))روای کہتا ہے کہ میں نے اپنے اصحاب سے کہا:یہاں ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے در حالیکہ ہمیں بتلادیا جاچکا ہے کہ معاویہ کے طرفداروں کو حق حکومت نہیں ہے پھر ہم نے آپ سے مصر جانے کی اجازت طلب کی آپ نے ہم میں سے جس کو چاہا اجازت دی آپ نے ہر ایک کو ایک ایک ہزار درہم دیئے اور ہمارے گروہ سے ایک حصہ ان کے ساتھ وہیں ٹھہرگیا(1)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ امام ؑ کو معلوم تھا کہ معاویہ آپ پر غالب ہوگا اس کے باوجود آپ نے حق کی راہ میں جہاد سے منہ نہیں موڑا اور صاحبانِ بصیرت افراد بھی آپ کے ہمراہ حق کے محاذ پر ڈ ٹے رہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الفتن لنعیم بن حماد ج: 1 ص: 127

۲۶۳

اسود دوئلی کی حدیث ملاحظہ ہو،وہ اپنے باب ابوالاسود دوئیلی سے روایت کرتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ نے فرمایا:((میرے پاس عبداللہ بن سلام آئے،اس وقت میں نے رکاب میں پیر ڈ ال رکھے تھے اور عراق کے لئے عازمِ سفر تھا،عبداللہ بن سلام نے مجھ سے کہا:آپ عراق نہ جائیں،اگر آپ عراق جائیں گے تو آپ کو تلوار کی دھار کا سامنا کرنا پڑےگا،میں نے(مولائے علی ؑ نے)کہا خدا کی قسم یہ بات تو ہادی برحق ؐ مجھے تم سے پہلے بتاچکے ہیں))،ابوالاسود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا:میں نے آج تک ایسا آدمی بھی نہیں دیکھا جو جنگ کے لئے تیار ہو اور لوگوں سے ایسی باتیں کرتا ہو ۔(1)

آپ نے غور کیا کہ امام ؑ لوگوں کو اپنے عنقریب قتل(شہید)ہونے کی خبر بھی دے رہے ہیں اور لوگوں کو جہاد کی دعوت بھی دے رہے ہیں،صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ جہاد کا ہدف،فتح و نُصرت سے بہت بلند ہے ۔

امام ابوعبداللہ الحسین ؑ کو دیکھئے،مکّہ مکرمہ میں آپ انقلاب کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور اسی سلسلے میں مدینہ کے بنوہاشم کو لکھتے ہیں ۔

"بسم الله الرحمن الرحیم: حسین ؑ بن علی ؑ کی طرف سے محمد بن علی اور ان کے قبیلہ(یعنی بنی ہاشم)کو معلوم ہو کہ جو مجھ سے آملے گا وہ درجہ شہادت پر فائز ہوگا اور جو مجھ سے ملحق نہیں ہوگا وہ فتح بھی نہیں پاسکتا،والسلام(2)

اسی طرح جب آپ نے مکہ سے عراق جانے کا ارادہ کیا تو خطبہ دیا،خطبہ کے الفاظ ملاحظہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 151 ،کتاب معرفۃ الصحابۃ،مناقب امیرالمومنینؑ،امام حاکم نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اگر چہ شیخین نے نقل نہین کیا ہے لیکن ان کی شرط پر پوری روایت پوری اترتی ہے اور صحیح ہے،صحیح ابن جبان،ج: 15 ص: 127 ،موارد الظمآن،ج: 1 ص: 245 ،تاریخ دمشق،ج: 42 ،ص: 546

( 2) کامل الزیارات ص: 157 ،بصائر الدرجات ص: 502 ،نوادر المعجزات ص: 110 ،دلائل الامامۃ ص: 188 ،الخرائج و الجرائح ج: 2 ص: 771 ۔ 772

۲۶۴

فرمائیں:((الحمداللہ و ماشاءاللہ تعالی قوت صرف اللہ کی ہے،خدا کا درود ہو اس کے نبی ؐ پر،موت انسان کے گلے سے یوں ہی لپٹی ہے جیسے دوشیزہ کے گلے میں گلوبند لپٹا رہتا ہے،مجھے اپنے اسلاف سے ملاقات کی خواہش نے اسی طرح بے چین کیا ہوا ہے جیسے یعقوب ؑ کے دل میں یوسف ؑ سے شوقِ ملاقات،میرے لئے ایک مقتل چُنا گیا ہے جس کی طرف میں جا رہا ہوں،گویا کہ صحرا کے اُموی بھیڑیئے میرے بند بند کو کاٹ رہے ہیں اور میرے جسم سے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں،کاتب تقدیر نے جو دن اپنے قلم سے لکھ دیا ہے اس سے انسان الگ نہیں ہوسکتا،خدا کی مرضی ہی ہم اہلبیت ؑ کی رضا ہے،ہم اس کی بلاؤں پر صبر کرتے ہیں،وہ ہمیں صبر کرنے والوں کا اجر دےگا،پیغمبر ؐ سے ان کے گوشت الگ نہیں کیا جاسکتا،بلکہ آپ کے جسم کے تمام حصے محضرِ قدس میں اکٹھا ہونے والے ہیں،جس سے آپ کی آنکھیں ٹھن ڈ ی ہوں گی اور آپ نے جو وعدہ کیا ہے ہمیں لوگوں کے ذریعہ پورا ہوگا ۔ پس جو اپنی جان کو ہماری راہ میں قربان کرنا چاہتا ہے اور اپنے نفس کو خدا سے ملاقی کرنے پر آمادہ کرچکا ہے اسے چاہیے کہ ہمارے ساتھ چلے اس لئے کہ میں کل انشاءاللہ جانے والا ہوں)) ۔(1)

اگر عاشقانِ حق کا نقطہ نظر اور طرزِ زندگی سمجھ سکتے ہیں تو امام حسین ؑ کے کلمات ملاحظہ فرمایئے،دیکھئے!امام حسین ؑ کی نظر میں فتح کیا ہے اور کامیابی کسے کہتے ہیں،مذکورہ خطبہ میں فرماتے ہیں کہ((میں قتل کردیا جاؤں گا))آپ اپنے قتل کی علی الاعلان خبر دے رہے ہیں اور اپنے خط میں((جو آپ نے بنوہاشم کو لکھا ہے))آپ نے جنگ سے پہلے ہی اپنی فتح کا اعلان کردیا ہے،اور اس فتح کے لئے لوگوں سے مدد مانگ رہے ہیں،وہ فتح بھی کیا ہے،ایسی فتح جو بغیر قتل اور شہادت کے حاصل نہیں ہوسکتی ۔

یہ وہ فتح ہے جسے عام انسان ناکامی اور شکست سمجھتا ہے،اسی لئے لوگوں نے امام حسین ؑ کو مشورہ دیا تھا کہ خروج مت کیجئے،لیکن امام وقت جانتا ہے کہ کس وقت کیا ضروری ہے اسی لئے آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مقتل الحسین للمقرم ص: 193 ۔ 194 ،کشف الغمہ ج: 2 ص: 239 ،بحارالانوار ج: 44 ص: 366 ۔ 367

۲۶۵

نے خروج پر اصرار کیا،اپنے خاص شیعوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے قیام فرمایا اور آپ کے خاص چاہنے والوں نے بھی امرِ خدا کا امتثال کیا اور آپ کے ساتھ سر سے کفن باندھ کے نکل پڑے،انہوں نے حقِ پیغمبر ؐ کو ادا کیا اور امام ؑ کے ساتھ درجہ شہادت پر فائز ہوئے ان لوگوں کو فتحِ مبین اور سعادت ازلی نصیب ہوئی جو ان کے پروردگار نے ن کے لئے مقدر کردی تھی ۔

بہرحال صورتِ حال جو بھی ہو،جب امام وقت مدد کے لئے پکارے تو امت پر اس کی نصرت واجب ہے،اس وقت نتائج سے خوفزدہ ہو کر صدائے امام ؑ کو نظرانداز کردینا غلط ہے،اُمت کی تکلیف شرعی ہے امام ؑ کی آواز پر لبیک کہنا،اس لئے کہ امام ؑ کی آواز خدا کی طرف سے اور اس کے حکم سے بُلند ہوتی ہے اور خدا نے امام ؑ کی پیروی کا حکم دیا ہے،جیسا کہ امیرالمومنین ؑ نے اپنے مخلص شیعوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا کہ((انہوں نے اپنے قائد پر اعتماد کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(1)

شیعوں کو یہی شکایت ہے کہ صحابہ کی کثیر تعداد نے سقیفہ میں امام منصوص سے منہ موڑ لیا،جب کہ ان کے سامنے واضح نص موجود تھی،انہوں نے امام ؑ کی دعوت پر لبیک نہیں کہی،امام ؑ کی کمر مضبوط نہیں کی اور ان کی مدد نہیں کی کہ وجہ حق کو غاصبانِ حق سے واپس لے سکتے اس لئے کہ مرادِ خدا بھی یہی تھی ۔

امام منصوص کی نصرت نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے نص کی اندیکھی کی

شیعوں کے قول کے مطابق نص کی موجودگی میں امام ؑ کی نصڑت نہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے نص کی اندیکھی کی،یا نَص پر توجہ نہیں دی بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سُستی کی اور ایک واجب کو ادا کرنے میں کوتاہی کی،حقدار کی نصرت اور اس کو حق دلانے کے لئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 2 ص: 109 ،ینابیع المودۃ ج: 2 ص: 29

۲۶۶

انہیں جہاد کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا،جس طرح غزوہ بدر میں صحابہ گھر سے نکلنا نہیں چاہتے تھے،یہ ان کی غلطی تھی جب پیغمبر ؐ حکم دے رہے تھے تو اُنہیں بہانہ نہیں بتانا چاہئے تھا،قرآن مجید اس وقت کی حکایت کرتا ہوا کہتا ہے((جیسا کہ تمہارے پروردگار نے تمہیں حق کے ساتھ تمہارے گھر سے نکالا حالانکہ مومنین کے ایک گروہ کو یہ کام بہت ناگوار گزر رہا تھا وہ تم سے حق کے بارے میں خواہ مخواہ اُلجھ رہے تھے جب کہ ان کے سامنے حق کی وضاحت ہوچکی تھی،لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ان کو موت کی طرف کھینچا جارہا ہو اور وہ موت کا انتظار کررہے ہوں)) ۔(1)

اسی طرح معرکہ اُحد و حُنین میں ان کا جنگ سے فرار کرنا،خندق میں ان کا نبی ؐ کی نصرت سے انکار کرنا اور غزوہ تبوک میں نکلنے کے وقت نبی ؐ سے ان کی مخالفت اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جس میں انہوں نے نبی ؐ کی نصرت و حمایت یا تائید سے پہلو تہی کی ہے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نبی ؐ کی تکذیب کررہے تھے یا نبی ؐ کی نبوت کو جُھٹلا رہے تھے ۔

اسی طرح اہل کوفہ نے امیرالمومنین ؑ کی نُصرت سے آپ کے آخرِ ایام میں پہلو تہی کی امام حسن ؑ کی نصرت میں سستی کی یا مسلمانوں نے امام حسین ؑ کی نصرت میں کوتاہی کی،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ ان حضرات کی امامت کے قائل نہیں تھے یا نص سے تجاہل کر رہے تھے ۔

امامِ منصوص کی نصرت نہیں کرنا ایسا گناہ ہے جو قابلِ توبہ ہے

البتہ امام ؑ کی نصرت نہیں کرنا بہت بڑا گناہ ہے،جیسے میدان جنگ سے فرار جس کی اللہ نے بہت زیادہ مذمت کی ہے یہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے جیسے وہ لوگ جنہوں نے پیغمبر ؐ سے اس جہاد میں منہ موڑ لیا جس میں شرکت کی اللہ نے سخت تاکید کی تھی لیکن پھر اللہ نے توبہ کا دروازہ کھول دیا اور جس طرح وہ اپنے بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیا کرتا ہے،اس گناہ کو بھی بخش دیا،جنگ اُحد سے بھاگنے والے مسلمانوں کو معاف کر کے ان کی مغفرت کی صراحت بھی کردی ہے،اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ انفال آیت: 5 ۔ 6

۲۶۷

طرح اللہ نے تین مخصوص افراد کی مغفرت کی تصریح کردی،اشارد ہوتا ہے((اور وہ تین افراد جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے یہاں تک کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے پھر انہیں معاف کردیا تا کہ وہ پاک ہوجائیں،اللہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنےوالا اور رحم کرنے والا ہے ۔(1)

صحابہ کی امیرالمومنین ؑ کی طرف واپسی اور آپ کی مدد کرنا

صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کی نصرت سے ہاتھ اٹھا کر بڑا گناہ کیا لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ امیرالمومنین ؑ کے ہاتھ سے خلافت نکل جانے سے کتنی خرابیاں پیدا ہوئیں اور اس احساس کی وجہ سے وہ لوگ امیرالمومنین ؑ اور اہل بیت ؑ کی طرف پلٹے اور قتلِ عثمان کے بعد امیرالمومنین ؑ کی بیعت کے لئے ممکنہ حالات پیدا ہوئے،اس لئے کہ صحابہ نے امیرالمومنین ؑ کے بارے میں جو تقصیر کی تھی اس کا انھیں احساس ہوگیا تھا ۔

قتل عثمان کے بعد صحابہ کا امیرالمومنین ؑ کی ہمراہی کرنا

قتلِ عثمان کے بعد مسلمان اجتماعی طور پر مولائے کائنات ؑ کی طرف بڑھے اور سب نے آپ کی بیعت پر اصرار کیا،اس تاریخی اتحاد کے پیچھے بہت سے آپ کے مخلص صحابہ کی تبلیغ اور امیرالمومنین ؑ کی حقانیت کا ہاتھ تھا،آپ کے مخلص صحابہ مسلمانوں کو مسلسل متوجہ کرتے رہے کہ خلافت کے اصلی حقدار مولائے کاتنات ؑ ہیں جو تمام مسلمانوں سے افضل ہیں،حالانکہ جب پوری امت عثمان کے خلاف تھی اور لوگ عثمان کی فضیحت کرنے میں لگے ہوئے تھے،تاریخ شاہد ہے کہ مولائے کائنات ؑ عثمان کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ کررہے تھے اور قتلِ عثمان کے بعد بھی آپ مسلم حکومت کی سربراہی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے،لیکن یہ صحابہ ہی تھے جنہوں نے لوگوں کو اُبھارا اور لوگ آپ کی بیعت پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) سورہ توبہ آیت: 118

۲۶۸

مُضر ہوگئے پھر آپ کی بیعت کے بعد آپ کی مدد بھی کی تمام جنگوں میں آپ کے ساتھ ساتھ رہے اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں پیش پیش رہے،ان تمام باتوں کے شواہد حدیث و تاریخ کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں،میں بھی کچھ شواہد پیش کر رہا ہوں ۔

1۔ ابوجعفر اسکافی کہتے ہیں:قتلِ عثمان کے بعد صحابہ مسجد میں جمع ہوئے اور امامت کے مسئلے پر گفتگو ہونے لگی،تو ابوھیثم ابن تیہان،رفاعہ بن رافع،مالک بن عجلان،ابوایوب انصاری اور عمار یاسر نے مشورہ دیا کہ اب تو خلافت علیؑ کو مل ہی جانی چاہئے اور علیؑ کے فضائل و مناقب،آپ کے کارنامے،آپ کا جہاد اور آپ کی پیغمبرؐ سے قرابت قریبہ کو مقام احتجاج می پیش کرتے ہوئے ان لوگوں نے طے کیا کہ علیؑ ہی مستحقِ خلافت ہیں،ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو مولائے کائنات کو اس زمانہ میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کچھ کا کہنا تھا کہ امیرالمومنینؑ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی۔ (1) جب اجلہ صحابہ نے آپ کی بیعت کرلی تو لوگوں کو آپ کی بیعت پر اُبھارا اور آپ کی طرف علی الاعلان دعوت دینا شروع کی یہ صحابہ لوگوں سے آپ کا حق،آپ کا مرتبہ اور آپ کے فضائل بیان کر کے مسلسل آپ کی طرفداری کررہے تھے اور انہوں نے آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور اُسے چلانے میں آپ کی بہت مدد کی۔ آئندہ صفحات میں ہم ان تصریحات کو لکھیں گے جو آپ کی فضیلت میں صحابہ کی طرف سے کی گئیں اور وہ خطبہ بھی پیش کریں گے جو آپ نے اپنی بیعت ہونے کے بعد فرمایا تھا۔

2 ۔ اسی طرح اسکافی ان حالات پر بھی روشنی ڈ التے ہیں جو آپ کی بیعت کے بعد پیدا ہوئے،چونکہ آپ نے مال کی تقسیم برابری سے کی اور آپ کے پہلے جو حکومتیں تھیں ان کے دور میں بدکردار افراد غیر شرعی طور پر مالِ خدا سے فائدہ اٹھا رہے تھے،آپ نے ان پر اعتراض کیا اس لئے آپ سے چند افراد،جن کا غیرشرعی مفاد مجروح ہو رہا تھا آپ سے ناراض ہوگئے اور اختلاف و نفاق پیدا کرکے اپنے ناحق مطالبوں کو منوانا چاہا،اصحاب اس وقت متنبّہ ہوگئے اور اس صورتِ حال کو ختم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغی ج: 7 ص: 36

۲۶۹

کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کریدں چنانچہ اسکافی لکھتے ہیں((جب مخالفین حکومت کی ساشیں سامنے آئیں تو عمار بن یاسر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور کہنے لگے:چلو اپنے بھائیوں کے اس گروہ کے پس جو اختلاف پیدا کررہے ہیں اُن کے بارے میں ہمارے پاس کچھ خبریں پہنچی ہیں اور ہم ان کی سازشوں کو دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ اختلاف پیدا کررہے ہیں اور اپنے امام پر حملہ کررہے ہیں،جفاکاروں نے زبیر اور اعسرعاق یعنی طلحہ کے یہاں بہت مداخلت پیدا کرلی ہے))،

پس ابوہثیم،عمار،ابوایوب،سہل بن حنیف اور اُن کے ساتھ ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی،وہ لوگ مولائے کائنات ؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے،امیرالمومنین ؑ آپ اپنے معاملات پر غور کیجئے،قریش کی یہ شاخ(طلحہ و زبیر)((جو آپ ہی کی قوم سے ہیں))،آُ سے ناراض ہوگئی ہے انہوں نے آپ سے کیا ہوا عہد توڑ دیا ہے آپ سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کی ہے اور در پردہ آپ کو چھوڑ دینے کی وہ ہمیں دعوت دے رہے ہیں،خدا آپ کو آپ کے حق پر باقی رکھے،ان کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کی رہبری کا ناگوار سمجھتے ہیں اور بیت المال سے ملنے والی اضافی امداد کو کھوچکے ہیں،چونکہ آپ نے ان کو اور کچھ لوگوں کو ایک ہی میزانِ نظر میں رکھا ہے اس لئے وہ لوگ آپ کو بُرا کہہ رہے ہیں،انہوں نے آپ پر آپ کے دشمن کو ترجیح دی ہے اور اُسے بڑھا کرکے پیش کیا ہے،وہ لوگ خونِ عثمان کا بدلہ لینے کے لئے مظاہرہ کررہے ہیں،جماعت میں فرقہ پیدا کررہے ہیں اور گمراہوں سے محبت کررہے ہیں،آپ اپنی رائے ظاہر کریں))(1) آپ ملاحظہ کررہے ہیں کہ خاص صحابہ کس طرح امیرالمومنین ؑ کے حق کی وضاحت کررہے ہیں،آپ کی خیرخواہی میں لگے ہوئے ہیں،آپ کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں اور آپ کی حکومت کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

3 ۔ خفاف بن عبداللہ طائی معاویہ سے قتل عثمان کے بعد کے واقعات بیان کرتا ہوا کہتا ہے پھر لوگ علی ؑ کی بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے جیسے کہ ٹ ڈ یوں کا لشکر آتا ہے پھر امیرالمومنین ؑ نے چلنے کا ارادہ کیا تو آپ کے ساتھ مہاجرین و انصار کا بڑا مجمع نے جھجک چل پڑا،صرف تین افراد نے آپ کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) شرح نہج البلاغی ج: 7 ص: 39

۲۷۰

قیادت میں جہاد کرنے سے گریز کیا اور وہ تین افراد،سعد بن مالک،عبداللہ بن عمر،محمد بن مسلمہ ہیں،لیکن علی ؑ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کیا،جو لوگ آپ کے ساتھ آسانی سے شریک ہوئے تھے ان کی وجہ سے آپ بےنیاز تھے اور جو لوگ حیل،حُجت کررہے تھے ان کی آپ نے ضرورت بھی نہیں محسوس کی ۔(1)

4 ۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے لئے جب امیرالمومنین ؑ نکلے تو آپ کے ساتھ آٹھ سو انصار تھے اور چارسو بیعت رضوان والے صحابہ تھے ۔(2) ایک روایت میں ہے کہ آپ کے ساتھ سات سو انصار تھے ۔(3)

5 ۔ معاویہ نے جب عبداللہ بن عمر کو خط لکھ کے مدد مانگی تو انہوں نے جواب میں لکھا((وہ نظریہ جس کی وجہ سے تمہارے دل میں لالچ پیدا ہوا ہے وہ تمہاری رائے ہے لیکن میں نے انصار و مہاجرین میں علی ؑ سے لگاؤ نہیں رکھا ہے اور طلحہ و زبیر نے ام المومنین عائشہ کو بھی چھوڑ دیا ہے تو کیا تمہاری پیروی کرلوں!

پھر ابن عمر نے ابن غزیہ سے کہا کہ اس شخص(معاویہ)کا جواب دو ابن غزیہ کا باپ ایک گوشہ نشین زاہد تھا اور وہ خود قریش کا سب سے بڑا شاعر تھا،اس نے ابن عمر کی فرمائش پر معاویہ کے خط کے جواب میں کچھ اشعار کہے ۔

ترجمہ اشعار:ہم نے علی ابن ابی طالب ؑ کو اصحابِ محمد ؐ کے درمیان چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہمیں امید نہیں تھی کہ وہ جس چیز(خلافت)سے دور رکھے گئے ہیں اس پالیں گے انصار ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں اور مہاجرین و انصار علی ؑ کی قیادت میں شیروں کی طرح جال میں جکڑے ہوئے ہیں یعنی سب ان کے ساتھ ہیں ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 65 الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 74 ،شرح نہج البلاغہ ج: 3 ص: 111

( 2) تاریخ خلیفہ بن خیاط ج: 1 ص: 184 ،جنگ جمل کے تفصیلی واقعات،العقد الفرید ج: 4 ص: 289 ،جنگ جمل

( 3) انساب الاشراف ج: 3 ص: 30

( 4) وقعۃ صفین ص: 72 ۔ 73

۲۷۱

6 ۔ محمد بن ابی بکر ایک خط معاویہ کو لکھا اور اس میں مولا علی ؑ کے فضائل کا تذکرہ کیا لکھتے ہیں:اور علی ؑ کے ساتھ علی ؑ کے فضائل اور آپ سابقات تو ہیں ہی اس کے علاوہ وہ مہاجرین و انصار ہیں جن کے فضائل قرآن بیان کرتا ہے اور اللہ ان کی تعریف کرتا ہے وہ علی ؑ کے مددگار ہیں علی ؑ سے شدید محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ آپ کو گھرے رہتے وہ اپنی تلواروں کو جنبش دیتے ہیں اور علی ؑ کے لئے اپنا خون بہانے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔(1)

7 ۔ امیرالمومنین ؑ جنگ جمل میں جانے کے لئے نکلے اور جب مقام فید پر پہنچے تو آپ کی خدمت میں قبیلہ بنی اسد اور قبیلہ طے حاضر ہوا اور آپ کی قیادت میں جہاد کرنے کے لئے خود کو یپش کیا،آپ نے فرمایا تم لوگ اپنے قریے(گاؤں)میں ہی رہو!میرے لئے مہاجرین کافی ہیں،(2)

8 ۔ امیرالمومنین ؑ نے معاویہ کو ایک خط لکھا((میں صحراؤں کو قطع کرتا ہوا تیری طرف بڑھ رہا ہوں،میرے ساتھ مہاجرین و انصار کی بڑی جماعت ہے اور ان کی اولاد جو نیکی میں اُن کی پیروی کرتی ہے وہ بڑی فوج کی صورت میں گرد اُراتے ہوئے تیری طرف بڑھ رہے ہیں اُن کے ساتھ اصحاب بدر کی ذرّیت اور ہاشمی تلواریں بھی ہیں ۔(3)

9 ۔ حضرت عقیل بن ابی طالب ؑ نے معاویہ سے کہا:جس روز میں تیرے پاس آنے کے لئے نکلا ہوں میں نے علی ؑ کے ساتھیوں پر نظر کی تو مجھے نہیں نظر آتے مگر مہاجرین و انصار اور تیرے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے دکھائی نہیں دیتے مگر طلقا کی اولاد اور جنگ احزاب کے بقیۃ السیف ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 119 ،شرح نہج البلاغہ ج: 3 ص: 188 ،مروج الذھب ج: 3 ص: 21 ،حالات معاویہ

( 2) الکامل فی التاریخ ج: 3 ص: 117 ،الفتنۃ و وقعۃ الجمل ج: 1 ص: 137 ،تاریخ طبری ج: 3 ص: 24 ،شرح نہج البلاغہ ج: 14 ص: 18

( 3) نہج البلاغہ ج: 3 ص: 35 ،شرح نہج البلاغہ ج: 15 ص: 184 ،مناقب الامام علی لابن الدمشقی ج: 1 ص: 737 ،ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 447

( 4) الموفقیات ص: 335

۲۷۲

10 ۔ حدیثوں میں لشکر کا بیان دیا ہوا ہے:امیرالمومنین ؑ کے لشکر کی ترتیب جنگِ صفین میں کچھ اس طرح تھی کہ امیرالمومنین ؑ خود قلبِ لشکر میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ اہل مدینہ،اہلِ کوفہ اور اہل بصرہ تھے مدینہ والوں میں سب سے بھاری تعداد انصار کی تھی ۔(1) - 11 ۔ نصر بن مزاحم اپنی اسناد سے ابوسنان اسلمی سے روایت کرتے ہیں کہ جب مولا علی ؑ کو یہ بتایا گیا کہ معاویہ اور عمروعاص خطبہ دے دیلے لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلا رہے ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کیا جائے،راوی کہتا کہ گویا میں علی ؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی کمال پر تکیہ لگا رکھا ہے،اصحاب پیغمبر ؐ آپ کے پاس جمع ہوگئے ہیں اور آپ کو اس طرح گھیر رکھا ہے جیسے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اصحابِ پیغمبر ؐ کا سب سے بڑا مجمع آپ کے ساتھ ہے ۔(2)

12 ۔ عمرو بن عاص نے معاویہ سے کہا:تم اہل شام کو ایسے آدمی سے لڑانا چاہتے ہو جو محمد ؐ سے قرابت قربیہ تو رکھتا ہی ہے اس کے ساتھ ہی تمہاری طرف اصحاب پیغمبر ؐ کی ایک بڑی جماعت لیکے آ رہا ہے،اصحاب محمد ؐ میں شہسوار بھی ہیں،قاریان قرآن بھی ہیں،قدیم الاسلام بھی ہیں،یہ ایسے لوگ ہیں جن کی لوگوں کے دلوں پر ہیبت بیٹھی ہوئی ہے ۔(3)

13 ۔ سعید بن قیس نے اپنے اصحاب کو خطاب کیا،انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا:خداوند عالم نے ہمیں اپنی خاص نعمت سے مخصوص کیا ہے،ہم اس کا شکر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے،اور اس کی کما حقّہ قدر نہیں نہیں کرسکتے،محمد ؐ کے چُنے ہوئے اصحاب((جو اہل خیر بھی ہیں))ہمارے ساتھ ہیں،اُس خدا کی قسم جو اپنے بندوں کے حال سے وقف ہے اگر ہمارا قائد نکّٹا حبشی بھی ہوتا اور بدری سپاہیوں میں ستر افراد کی تعداد ہمارے ساتھ ہوتی تو ہمیں فخر محسوس ہوتا اور ہماری سمجھداری قابلِ تعریف ہوتی،چہ جائے کہ ہمارا قائد پیغمبر ؐ کا ابنِ عم ہے ۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ طبری ج:3ص:84،لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کی تیاری

(2)وقعۃ صفین ص:223

(3)وقعۃ صفین ص:222

(4)وقعۃ صفین ص:236۔237،شرح نہج البلاغہ ج:5ص:189،جمبرۃ خطب العرب ج:1ص:355،سعید بن قیس کے خطبہ میں

۲۷۳

14 ۔ نصر کہتے ہیں کہ معاویہ نے نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلد انصاری کو بلایا بس یہی دو انصاری اس کے ساتھ تھے تو معاویہ نے کہا،اے دونو!مجھے اوس و خزرج کی طرف سے بہت غم ہوا ہے،انہوں نے اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر رکھی ہوئی ہیں اور مسلسل جنگ کی طرف بلا رہے ہیں یہاں تک کہ ہمارے اصحاب ڈ رگئے چاہے وہ بہادر ہوں یا بُزدل،اب حالت یہ ہے کہ جس شامی شہسوار کے بارے میں پوچھتا ہوں جواب ملتا ہے کہ اُسے انصار نے مار ڈ الا،انصار میدانِ جنگ میں نعرہ لگا رہے تھے کہ ہم انصار ہیں،میں مانتا ہوں انہوں نے رسول اسلام ؐ کو پناہ دی اور نُصرت بھی،لیکن انہوں نے اپنے تمام حقوق کو باطل کام(میری مخالفت)کرکے باطل کردیا ۔

جب معاویہ کی یہ باتیں انصار تک پہنچیں تو قیس بن سعد انصاری نے انصار کو جمع کیا اور خطبہ دینے کھڑے ہوئے،خطبہ میں کہا:معاویہ نے جو کچھ کہا ہے وہ آپ لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے،میری جان کی قسم اگر آج آپ نے معاویہ کو غصہ دلایا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے کل بھی آپ لوگوں نے غضب ناک کیا تھا اور اگر زمانہ اسلام میں آپ لوگوں نے معاویہ کو پچھاڑا ہے تو زمانہ کفر میں بھی آپ لوگ اسے پچھاڑ چکے ہیں، ۔ آپ اس کے خلاف جنگ کرکے کوئی گناہ نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ تو آپ اس دین کی نصرت میں کررہے ہیں جس کی آپ پیروی کرتے ہیں،آج تو وہ کارنامہ انجام دیجئے جو کل کے کارناموں کو بُھلادے اور کل انشااللہ ایسے کام کیجئے گا جسے دیکھ کر لوگ آج کے کارنامے بھول جائیں(آپ لوگ تو منزل یقین پر فائز ہیں)آپ تو اس عَلم کے سارئے میں کھڑے ہیں جس عَلم کے داہنی طرف جبرائیل ؑ اور بائیں طرف میکائیل کھڑے ہو کے جہاد کرتے تھے جب کہ معاویہ کی قوم ابوجہل اور احزاب کے جھن ڈ ے کے ساتھ ہے ۔(1)

15 ۔ معاویہ نے نعمان کو بُلا کر میدان میں بھیجا کہ وہ قیس بن سعد بن عبادہ کو سمجھائے اور اُن سے کہے کہ وہ جنگ نہ کریں،نعمان نکلا اور دونوں صفوں کے درمیان کھڑا ہوا پھر اس نے کہا:اے قیس ابن سعد میں نعمان بن بشیر ہوں،یہ سُن کر قیس بن سعد نکلے اور دونوں میں گفتگو ہونے لگی،قیس نے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 445 ۔ 447

۲۷۴

دورانِ گفتگو کہا:خدا کی قسم اگر تمام عرب بھی معاویہ کے ساتھ ہوجاتا جب بھی انصار تو اُس سے لڑتے ہی اور تم جو یہ کہہ رہے ہو کہ ہم عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں تو سنو!ہم لوگ اس جنگ میں اس طرح ہیں جیسے پیغمبر ؐ کے ساتھ تھے،اپنے چہروں کو تلواروں کی ڈ ھال اور گردنوں کو نیزوں کا نشانہ بنارہے ہیں،تا کہ حق کی فتح ہو اور امرِ خدا ظاہر ہوجائے اور دشمن کو یہ بات ناگوار گذرتی ہے تو گذرے نعمان ذرا دیکھو تو کہ معاویہ کے ساتھ کون لوگ ہیں؟یا تو طلیق ہیں،یا عرب کے دیہاتی یا خطہ یمن کے کچھ لوگوں کو دھوکہ سے ساتھ میں ملایا گیا ہے،دیکھو تو مہاجرین و انصار اور نیکی میں اُن کی پیروی کرنے والے جن سے خدا راضی ہے،کہاں پر ہیں؟پھر دیکھو!معاویہ کے ساتھ اپنے اور اپنے حقیر ساتھی(مسلمہ انصاری)کے علاوہ کسی اور انصاری کو بھی پاتے ہو؟اور تم دونوں نہ بدری ہو،نہ اُحد کے جانبازوں میں،نہ تم نے اسلام میں سبقت کی ہے،نہ تمہاری شان میں قرآن کی کوئی آیت اتری ہے،خدا کی قسم تم نے آج ہمیں دھوکہ دیا ہے تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے تمہارے باپ ہم سے غداری کرچکے ہیں ۔(1)

بشیر بن سعد جو نعمان کا باپ تھا سب سے پہلے اسی نے ابوبکر کی بیعت کی تھی،جناب قیس بن سعد کا اشارہ((اس کے باپ کی غداری ہے))اسی طرف ہے،یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے باپ نے یا تو سب سے پہلے بیعت(2) کی تھی یا ان لوگوں میں شامل تھے جن کو بیعتِ ابوبکر میں اوّلیت حاصل ہے ۔

16 ۔ واقعات صفین کے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے کہ عمار بن یاسر نے بَدری سپاہیوں کی ایک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) وقعۃ صفین ص: 449 ،شرح نہج البلاغی ج: 8 ص: 87 ۔ 88 ،الامامۃ و السیاسۃ ج: 1 ص: 91 ۔ 92 ،جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 367 ،خلافت امام علیؑ

( 2) تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 124 ،الریاض النضرۃج: 2 ص: 215 ،الصابۃ ج: 1 ص: 311 ،فتح الباری ج: 7 ص: 31 ،الطبقات الکبری ج: 3 ص: 182)

۲۷۵

بڑی تعداد لیکے اور دوسرے مہاجرین و انصار کے ساتھ عمروعاص پر حملہ کیا اس وقت وہ تنوخ اور نہد جیسے شامیوں کی قیادت کررہا تھا(1)

17 ۔ ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ:میں جنگ صفین کے نزدیک سے دیکھنے والے افراد میں سے ہوں وہ کہتے ہیں کہ:میں نے عمار یاسر کو دیکھا کسی بھی میدان یا وادی میں دکھائی نہیں دئیے مگر یہ کہ اصحاب محمد ؐ اُن کے ساتھ ساتھ جیسے کہ عمار یاسر اُن کے عَلَم ہوں جس کو وہ گھیرے رہتے تھے ۔(2)

18 ۔ ام الخیر بنت حریش نے عمار کی شہادت پر کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!صبر کرو،اپنے پروردگار کی طرف سے بصیرت لے کے اپنے دین پر ثابت قدمی کے ساتھ جہاد کرتے رہو ۔(3)

19 ۔ عکرشہ بنت ائدطش یا اطرش نے جنگ صفین میں کہا:اے گروہِ مہاجرین و انصار!اپنے دین سے بصیرت لیکے جہاد کرتے رہو ۔(4)

اس کے علاوہ بھی بہت سے شواہد ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر میں انہیں پیش نہیں کر رہا ہوں یہ تمام واقعات اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جنگ صفین و جمل میں پیغمبر اعظم ؐ کے بلند مرتبہ اصحاب،مولائے کائنات حضرت علی ؑ کے ساتھ تھے اور آپ کو حقدارِ خلافت تسلیم کرکے آپ کے مخالفین سے جنگ کررہے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) مروج الذھب ج: 2 ص: 375

( 2) الاستیعاب ج: 3 ص: 1138 تاریخ طبری ج: 3 ص: 99 ،مقتل عمار بن یاسر،المجموع فی شرح المہذب للنوری ج: 19 ص: 162 ،شرح نہج البلاغہ ج: 10 ص: 104 ،اسد الغابہ ج: 4 ص: 46)

( 3) جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 371 ،تاریخ دمشق ج: 7 ص: 235 ،العقد الفرید ج: 2 ص: 90 ،صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ج: 1 ص: 297 ،بلاغات النساء ص: 38 ،ام الخیر بنت حریش بارقینہ کی گفتگو کے ذیل میں،

( 4) بلاغات النسا ص: 71 ،العقد الفرید ج: 2 ص: 86 صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا ج: 1 ص: 301 ،جمبرۃ خطب العرب ج: 1 ص: 368 ۔ 369 ،واقعۃ صفین میں شیعیت سے لبریز خطبے اور عکرشہ بنت اطرش کا خطبہ،

۲۷۶

امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے اصحابِ پیغمبر ؐ بڑے اور ذمہ دار عہدوں پر رکھے جاتے تھے

امیرالمومنین ؑ کے خاص لوگوں میں اصحابِ پیغمبر ؐ ہی تھے جن میں سے کچھ آپ کے لشکر کے قائد اور کچھ مختلف شہروں کے گورنر بنائے گئے تھے،بڑی ذمہ داریاں،نمایاں اصحاب کو دی جاتی تھیں،جیسے عمار بن یاسر،ابوایوب انصاری،حذیفہ بن یمان،ابن تیہان،ذوالشھادتین،قیس بن سعد بن عبادہ،عمروہ بن حمق خزاعی،ہاشم بن عتبہ مرقال،عدی بن حاتم طائی،عبداللہ اور محمد دونوں بدیل بن ورقۃ خزاعی کے فرزند ہیں،سھل اور عثمان دونوں حنیف کے صاحبزادے ہیں،جابر بن عبداللہ انصاری و غیرہ ۔

امیرالمومنینؑ کا اپنے خاص اصحاب کے لئے گریہ و اضطراب

امیرالمومنین ؑ اپنے اصحاب خاص کو بہت شدت سے یاد فرماتے تھے،خصوصاً اس وقت جب آپ لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے تھے تو اپنے خطبوں میں ان صحابہ کرام کا تذکرہ بڑے دل پذیر انداز میں کرتے تھے،ایک خطبہ میں آپ فرماتے ہیں کہ((کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو راہِ خدا پر چلے اور حق پر ہی گزرگئے،کہاں ہیں عمار،کہاں ہیں ابن تیہان،کہاں ہیں ذوالشھادتین اور ان کے جیسے لوگ،میرے وہ بھائی جنہوں نے موت سے شرط باندھ رکھی تھی اور جن کے بریدہ سر فاجروں کے دل کو ٹھن ڈ ا کرتے تھے،راوی کہتا ہے کہ پھر آپ نے اپنے ریشِ مبارک و مقدس پر ہاتھ پھیرا اور بہت دیر تک روتے رہے پھر فرمایا:ہائے میرے وہ بھائی جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی تو اسی کو حاکم قرار دیا،فرض پر غور کیا تو اس کو قائم کیا،سنت پیغمبر ؐ کو وہ زندہ کرتے تھے اور بدعتوں کو مٹاتے تھےمجہاد کے لئے بلائے جاتے تو لبیک کہتے تھے،انہوں نے اپنے قائد پر بھروسہ کیا تو اس کی پیروی کی)) ۔(1)

امیرالمومنین ؑ کے بعد بھی ان میں سے کچھ مقدس افراد امام حسن ؑ کے دور تک باقی رہے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:2ص:109

۲۷۷

جب امام حسن ؑ صاحبِ امر ہوئے تو وہ افراد آپ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ امام ؑ نے معاویہ سے مصالحت کی جب بھی وہ لوگ موجود تھے وہ امام ؑ پر جان نچھاور کرتے تھے اور آپ کے اہل بیت ؑ کے شیدائی تھے ۔

معاویہ اصحاب امیرالمومنینؑ سے انتقام لیتا ہے

معاویہ نے اصحاب علی ؑ کو مجرم محبت علی ؑ کی خوب سزادی ایک ایک سے چُن چُن کے بدلہ لیا،کسی کو قتل کرایا،کسی کو زندگہ دفن کرایا،کسی کو سولی پر چڑھایا،صرف اس لئے کہ وہ محبتِ علی ؑ اور ولائے پیغمبر ؐ میں گرفتار تھے اور مولائے کائنات ؑ کے بعد بھی معاویہ کے مخالفت تھے،یہاں تک کہ اس نے عمرو بن حمق خزاعی جیسے جلیل القدر صحابی کو آوارہ وطن ہونے پر مجبور کردیا اور جب وہ مومن شہید ہوگئے یا مرگئے تو ان کا سر کاٹ کے معاویہ کے پاس بھیج دیا گیا،اُس نے عمرو بن حمق کی بیوی کو قید کر رکھا تھا،عمرو بن حمق کے سر کو آپ کی بیوی کی گود میں رکھ دیا وہ مومنہ اپنے شوہر کا سر دیکھ کے رونے لگی اور بولی:بہت دنوں تک تم لوگوں نے اِن کو ہم سے دور رکھا تھا اور جب ہمیں ملایا تو تو ان کی شہادت کے بعد ملایا ۔(1)

حجر بن عدی اور اصحاب حجر کی شہادت پر مسلمانوں کا اظہار نفرت

معاویہ نے عظیم المرتبہ صحابہ حجر بن عدی کو اُن کی جماعت کے ساتھ مرج عذرا کی چراگاہ میں شہید کردیا یہ بہت مشہور واقعہ ہے،ان لوگوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے معاویہ کے گورنرز یاد کی کوفہ پر حکومت سے انکار کردیا تھا اور اس کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے اظہار بر ات ب ھی نہیں کی،حجر و اصحابِ حجر کی شہادت سے عالمِ اسلام میں ایک شور برپا ہوگیا اور لوگ معاویہ کو ملعون و فاسق کہنے لگے،ہر مسلمان نے اس حادثہ فاجعہ کو اپنے طور پر اسلام اور مسلمان کے لئے ایک بڑی مصیبت سمجھا،چنانچہ دیکھئے!یہ عائشہ ہیں:جو حجر بن عدی کی شہادت پر معاویہ سے بہت ناراض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) اسد الغابہ ج: 4 ص: 101 ،حالاتعمر بن الحمق،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 48 ،تاریخ دمشق ج: 69 ص: 40

۲۷۸

ہیں،جب شام پہنچیں اور معاویہ سے براہِ راست ملاقات ہوئی تو کہنے لگیں:اے معاویہ!تجھے حجر و اصحاب حجر کو قتل کرنے میں اللہ کا خوف محسوس نہیں ہوا؟(1)

دوسری روایت میں ہے کہ عائشہ نے کہا:کاش معاویہ کو معلوم ہوتا کہ کوفہ میں اس کی جسارتوں کو روکنے والے موجود ہیں تو وہ یہ جرات نہ کرتا کہ حجر اور اصحاب حجر کو کوفہ سے اٹھالے اور شام لے جاکے انھیں قتل کردے لیکن جگرِ خوارہ کا بیٹا یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مردِ راہ حق اب نہیں رہے،خدا کی قسم اگر وہ ہوتے تو....))(2) دوسرے مقام پر بھی انہوں نے معاویہ سے کہا:اے معاویہ!تو نے جو ظلم حجر اور اصحابِ حجر پر کیا(3) اور انہیں شہید کردیا اس کی وجہ کیا تھی تجھے اس فعلِ قبیح پر کس نے مجبور کیا؟(4)

جب عبداللہ بن عمر کو خبرِ شہادت حجر ملی تو وہ بازار میں تھے،انہوں نے یہ کبر سنتے ہی پُشت سے بندھا ہوا کپڑا چھوڑ دیا اور کھڑے ہوگئے پھر بڑی شدت سے روئے ۔(5) جب ربیع بن زیاد کو یہ خبر ملی((جو معاویہ کے گورنر تھے))تو انہوں نے دعا کی:پالنے والے اگر ربیع کا کوئی نیک عمل تجھے پسند آیا تو اب ربیع کو اس دنیا سے اٹھالے ۔(6) حسن بصری نے کہا:معاویہ کے اندر خرابیاں ہیں جن میں سے ہر ایک اس کی ہلاکت کے لئے کافی ہیں،ایک تو اس امت پر زبردستی مسلّط ہوجانا،دوسرے حجر و اصحاب حجر کو شہید کرنا،حجر کی وجہ سے اُس پروائے ہو حجر کی وجہ سے اس پروائے ۔(7)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 3 ص: 51،232 سنہکےواقعات

( 2) الاستیعاب ج: 4 ص: 126 حالات جعفر ابن عدی

( 3) البیان و التعریف ج: 2 ص: 72 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 126

( 4) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ،اور تاریخ دمشق ج: 12 ص: 226 ۔ 229 ۔ 230

( 5) الاستیعاب ج: 1 ص: 330 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 227 ۔ 228 ۔ 229 ،بدایہ النہایہ ج: 8 ص: 55

( 6) الاستیعاب ج: 1 ص: 330 ،تھذیب التھذیب ج: 3 ص: 211 ،تھذیب الکمال ج: 9 ص: 79

( 7) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ،الاستیعاب ج: 1 ص: 331 ،الکامل فی التاریخ ج: 3 ص: 337 ،ینابیع المودۃ ج: 2 ص: 27 ،شرح نہج البلاغہ ج: 2 ص: 262)

۲۷۹

اس منزل میں دوسرے فقرے بھی ہیں جو مسلمانوں نے کہے،مسلمانوں نے شہادتِ حجر کی شدت سے مخالفت کی ہے،رضوان اللہ علیھم اجمعین(1)

لیکن میں اس جگہ وہ تمام باتیں عرض نہیں کروں گا،شہادت حجر کے بیان کو ختم کرنے سے پہلے صرف اس پیشین گوئی کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں جو سرکار دو عالم ؐ نے حجر اور اصحاب حجر کی شہادت کے سلسلے میں فرمائی تھی،آپ فرماتے ہیں((عذرا میں سات ایسے افراد شہید کئے جائیں گے جن کی شہادت پر خدا اور آسمان والے غضبناک ہوں گے)) ۔(2)

معاویہ نے اپنے تاریک دور میں اصحابِ علی ؑ پر بہت سختیاں کی ہیں ۔ صرف اس وجہ سے کہ ان کے دل میں محبت علی ؑ تھی اور وہ اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والے تھے،تاریخیں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں اور کسی پر بھی معاویہ کی یہ حرکتیں پوشیدہ نہیں ہیں ۔

(معاویہ انصارِ خدا سے شدیدترین بغض رکھتا تھا،جب وہ مدینہ آیا تو اس سے ابوقتادہ انصاری کی اچانک ملاقات ہوگئی،معاویہ نے کہا:ابوقتادہ تمام مسلمان ہم سے ملنے کے لئے آئے سوائے تم انصاریوں کے،آخر تم لوگوں کو کس نے روکا ہے؟انہوں نے کہا:ہمارے پاس سواریاں نہیں تھیں،پوچھا تہمارے اونٹ کیا ہوئے؟فرمایا:بدر کے دن تم کو اور تمہارے باپ کو تلاش کرنے سے تھکے ہوئے تھے،کہنے لگا ٹھیک کہہ رہے ہو اے ابوقتادہ! ۔ ابوقتادہ نے کہا:ہادی برحق نے ہمیں خبر دی ہے کہ ہم لوگ نبی ؐ کے بعد کچھ نشانیاں دیکھیں گے،پوچھا:پھر نبی ؐ نے اس وقت کے لئے کوئی حکم بھی تو دیا ہوگا؟کہا:ہاں ہمیں صبر کا حکم دیا ہے،کہنے لگا:پھر صبر ہی کرو یہاں تک کہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) تاریخ طبری ج: 3 ص: 232 ۔ 233 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 219 ۔ 132 ۔ 233 ،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 54 ۔ 55

( 2) انساب الاشراف ج: 5 ص: 274 ،تاریخ دمشق ج: 12 ص: 226 ،جامع الصغیر ج: 2 ص: 61 ،حدیث 4765 ،بدایہ و النہایہ ج: 6 ص: 226 ،مقتل حجر بن عدی ج: 8 ص: 55 ،کنز العمال ج: 11 ص: 126 ،حدیث: 30887 ،ج: 13 ص: 587 ،حدیث 37509 ،ص: 588 حدیث: 37510 ،تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 231 ،النصائح الکافیہ ص: 83 ،فیض القدیر ج: 4 ص: 126 ،اور اسی طرح اصابہ میں ج: 2 ص: 38

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

۲ - وقَالَعليه‌السلام أَزْرَى بِنَفْسِه مَنِ اسْتَشْعَرَ الطَّمَعَ - ورَضِيَ بِالذُّلِّ مَنْ كَشَفَ عَنْ ضُرِّه - وهَانَتْ عَلَيْه نَفْسُه مَنْ أَمَّرَ عَلَيْهَا لِسَانَه.

۳ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ عَارٌ والْجُبْنُ مَنْقَصَةٌ - والْفَقْرُ يُخْرِسُ الْفَطِنَ عَنْ حُجَّتِه - والْمُقِلُّ غَرِيبٌ فِي بَلْدَتِه

۴ - وقَالَعليه‌السلام الْعَجْزُ آفَةٌ والصَّبْرُ شَجَاعَةٌ - والزُّهْدُ ثَرْوَةٌ والْوَرَعُ جُنَّةٌ -

(۲)

جس نے طمع کو شعار بنالیا اس نے اپنے نفس کو رسوا کردیا اور جس نے اپنی پریشانی کا اظہار کردیا وہ اپنی ذلت پر راضی ہوگیا اور جس نے نفس پر زبان کوحاکم بنادیا اس نے نفس کوسبک تربنا دیا۔

انسان کا بنیادی فرض ی ہے کہ اپنے نفس کوب ے نیازی کی تربیت دے اور طمع کا شکار نہ ہو۔اس کے بعد کوئی پریشانی آجائے تو صبر کو شعاربنائے اور ہر ایک سے فریاد نہ کرے کہ اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جائے ۔اور جب بولنے کا وقت آئے تو فکر کو زبان پر حاکم بنائے اور زبان کو نفس کا حاکم نہ بنادے کہ جو چاہے کہنا شروع کردے ۔

(۳)

بخل ننگ و عار ہے اور بزرگی منفقت ۔فقر ہوشمند کو بھی اس کی حجت کے لئے گونگا بنادیتا ہے اور مفلس آدمی اپنے وطن میں بھی غریب ہوتا ہے۔

یہ ایک اجتماعی حقیقت ہے کہ فقرو فاقہ انسان کو خاموش بنا دیتے ہیں اور کوئی شخص فقیر کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا ہے اس کے علاوہوہ غربت انسان کو اپنے ہی شہر میں ایسا اجنبی بنا دیتی ہے کہ لوگ پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔

(۴)

عاجزی آفت ہے اور صبر شجاعت ، زہد ثروت ہے اور پرہیز گاری سپر

۶۲۱

ونِعْمَ الْقَرِينُ الرِّضَى.

۵ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ كَرِيمَةٌ والآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ - والْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ.

۶ - وقَالَعليه‌السلام صَدْرُ الْعَاقِلِ صُنْدُوقُ سِرِّه - والْبَشَاشَةُ حِبَالَةُ الْمَوَدَّةِ - والِاحْتِمَالُ قَبْرُ الْعُيُوبِ.

ورُوِيَ أَنَّه قَالَ فِي الْعِبَارَةِ عَنْ هَذَا الْمَعْنَى أَيْضاً: الْمَسْأَلَةُ خِبَاءُ الْعُيُوبِ ومَنْ رَضِيَ عَنْ نَفْسِه كَثُرَ السَّاخِطُ عَلَيْه.

۔انسان کا بہترین ساتھی رضائے الٰہی پر راضی رہنا ہے۔

یعنی عاجزی انسان کو بیکار بنا دیتی ہے اور صبر اس میں حوصلہ پیدا کراتا ہے۔دنیا سے بے نیازی خود ایک دولت ہے اور پرہیز گاری دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب سے بچانے کی بہترین سپر ہے۔رضائے الٰہی سے بہتر کوئی ساتھی اور مصاحب نہیں ہے جو ہمیشہ ساتھ رہنے والا ہے ۔

(۵)

علم بہترین وراثت ہے اور آداب نوبہ نو لباس ہیں اورف کر بہترین شفاف آئینہ ہے۔

انسان علم سے بہتر کوئی تر کہ چھوڑ کر نہیں جاتا ہے اور آداب سے بہتر کوئی لباس نہیں ہے جو زمانہ کے حالات کے اعتبارسے بدلتا رہتا ہے ۔فکر انسان کے معلومات کا بہترین وسیلہ ہے جس طرح شفاف آئینہ میں شکل دیکھی جاتی ہے۔

(۶)

عاقل کا سینہ اسرار کا خزینہ ہے اور بشارت محبت کا جال ہے اور تحمل و بردباری عیوب کا مدفن ہے اور صلح و صفائی عیوب کے چھپانے کا ذریعہ ہے۔

۶۲۲

۷ - والصَّدَقَةُ دَوَاءٌ مُنْجِحٌ - وأَعْمَالُ الْعِبَادِ فِي عَاجِلِهِمْ نُصْبُ أَعْيُنِهِمْ فِي آجَالِهِمْ.

۸ - وقَالَعليه‌السلام اعْجَبُوا لِهَذَا الإِنْسَانِ يَنْظُرُ بِشَحْمٍ ويَتَكَلَّمُ بِلَحْمٍ - ويَسْمَعُ بِعَظْمٍ ويَتَنَفَّسُ مِنْ خَرْمٍ.

۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَقْبَلَتِ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ أَعَارَتْه مَحَاسِنَ غَيْرِه وإِذَا أَدْبَرَتْ عَنْه سَلَبَتْه مَحَاسِنَ نَفْسِه.

۱۰ - وقَالَعليه‌السلام خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ - وإِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَيْكُمْ.

(۷)

صدقہ بہترین کارآمد دوا ہے اور لوگوں کے دنیا کے اعمال آخرت میں ان کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے ۔

(۸)

انسان کی ساخت(۱) پر تعجب کروکہ چربی کے ذریعہ دیکھتا ہے اورگوشت سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور سوراخ سے سانس لیتا ہے۔

(۹)

جب(۲) دنیاکسی کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے تو یہ دوسرے کے محاسن بھی اس کے حوالہ کردیتی ہے اور جب اس سے منہ پھراتی ہے تو اس کے محاسن بھی سلب کر لیتی ہے۔

(۱۰)

لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول(۳) رکھوکہ مرجائو تو لوگ گریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔

(۱)حضرت کے بیان کا یہ حصہ علم الا عضاء سے تعلق رکھتا ہے۔جس کا مقصد طبی دوائوں کا بیان نہیں ہے بلکہ قدرت خدا کی طرف توجہ دلانا ہے کہ شائد انسان اس طرف شکر خالق کی طرف متوجہ ہو جائے ۔

(۲)یہ علم الا جتماع کا نکتہ ہے جہاں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ زمانہ عیب دار کو عیب عیب بھی بنا دتا ہے اور بے عیب کو عیب دار بھی بنا دیتا ہے اوردونوں کا فرق دنیا کی توجہ ہے جس کا حصول بہر حال ضروری ہے ۔

(۳)یہ بھی بہترین اجتماعی نکتہ ہے جس کی طرف ہر انسان کو متوجہ رہنا چاہیے۔

۶۲۳

۱۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ - فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْه شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْه.

۱۲ - وقَالَعليه‌السلام أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اكْتِسَابِ الإِخْوَانِ - وأَعْجَزُ مِنْه مَنْ ضَيَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِه مِنْهُمْ.

۱۳ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا وَصَلَتْ إِلَيْكُمْ أَطْرَافُ النِّعَمِ - فَلَا تُنَفِّرُوا أَقْصَاهَا بِقِلَّةِ الشُّكْرِ.

۱۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَيَّعَه الأَقْرَبُ أُتِيحَ لَه الأَبْعَدُ.

(۱۱)

جب دشمن پر قدرت(۱) حاصل ہو جائے تو معاف کردینے ہی کو اس قدرت کا شکریہ قرار دو۔

(۱۲)

عاجز(۲) ترین انسان وہ ہے جو دوست بنانے سے بھی عاجز ہو اور اس سے زیادہ عاجز وہ ہے جو رہے سہے دوستوں کوبھی برباد کردے ۔

(۱۳)

جب نعمتوں(۳) کا رخ تمہاری طرف ہو تو نا شکری کے ذریعہ انہیں اپنے تک پہنچنے سے بگھا نہ دو۔

(۱۴)

جسے قریب(۴) والے چھوڑ دیتے ہیں اسے دور والے مل جاتے ہیں۔

(۱)یہ اخلاقی تربیت ہے کہ انسان میں طاقت کا غرور نہیں ہونا چاہیے اور اسے ایک نعمت پروردگار سمجھ کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور شکریہ بھی غلطی کرنے والوں کی معافی کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔

(۲)یہ بھی ایک اجتماعی نکتہ ہے کہ انسان میں دوست بنانے کی صلاحیت انتہائی ضرورت ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو اسے واقعاً انسان نہں کہا جا سکتا ہے اور اس سے بد تر گیا گذرا انسان وہ ہے جو پائے ہوئے دوستوں کوبھی گنوادے۔

(۳)پروردار عالم نے یہ اخلاقی نظام بنادیا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل شکریہ ہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے لہٰذا جسے بھی اس کی تکمیل درکار ہے اسے شکریہ کا پابند ہونا چاہیے۔

(۴)انسان کو اعزا و اقربا کی بے رخی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔پروردگار جس طرح قرابتدار پیدا کر سکتا ہے اسی طرح دور والے مخلص بھی پیدا کر سکتا ہے اور اس طرح اعزاو اقربا میں یہ غرورنہیں ہونا چاہیے کہ ہم ساتھ چھوڑ دیں گے تو انسان لاوارث ہو جائے گا۔لاوارث کا وارث پروردگار اور اس نے حیات پیغمبر اسلام (ص) میںاس کا بہترین نمونہ پیشکردیا ہے ۔

۶۲۴

۱۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا كُلُّ مَفْتُونٍ يُعَاتَبُ.

۱۶ - وقَالَعليه‌السلام تَذِلُّ الأُمُورُ لِلْمَقَادِيرِ حَتَّى يَكُونَ الْحَتْفُ فِي التَّدْبِيرِ.

۱۷ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قَوْلِ الرَّسُولِصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - غَيِّرُوا الشَّيْبَ ولَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ - فَقَالَعليه‌السلام إِنَّمَا قَالَصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ذَلِكَ والدِّينُ قُلٌّ - فَأَمَّا الآنَ وقَدِ اتَّسَعَ نِطَاقُه وضَرَبَ بِجِرَانِه - فَامْرُؤٌ ومَا اخْتَارَ.

۱۸ - وقَالَعليه‌السلام فِي الَّذِينَ اعْتَزَلُوا الْقِتَالَ مَعَه -

.

(۱۵)

ہر فتنہ(۱) میں پڑ جانے والا قابل عتاب نہیں ہوتا ہے۔

(۱۶)

سارے معاملات(۲) تقدیر کے تابع ہوتے ہیں یہاں تک کہ کبھی کبھی تدبیر سے موت واقع ہو جاتی ہے۔

(۱۷)

آپ سے رسول اکرم (ص) کے اس ارشاد کے بارے میں سوال کیا گیا کہ '' ضعیفی کو خضاب کے ذریعہ بدل(۳) دو اورخبردار یہودیوں کی شبیہ نہ بنو''تو آپ (ص) نے فرمایا کہ یہ اس دور کے لئے ہے جب دیندار کم تھے لیکن آج اسلام کا دئارہ وسیع ہو چکا ہے اور وہ سینہ ٹیک کرجم چکا ہے لہٰذا ہر انسان کو اپنی پسند سے کام کرنا چاہیے ۔

(۱۸)

آپ نے میدان جنگ سے کنارہ کشی کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ

(۱)انسان اپنے ارادہ اختیار سے فتنوں میں مبتلا ہو جائے تو یقینا قابل ملامت ہوتا ہے۔لیکن حالات کی مجبوری اسے اس اقدام پرآمادہ کردے تو پروردگار مجبوریوں کامحاسبہ نہیں کرتا ہے جس کی مثال یاسر کی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

(۲)انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کائنات ارادہ ٔ الٰہی کے مطابق چل رہی ہے۔اس میں محنت ' مشقت ایک فرض بشریت ہے لیکن اس سے مقدارات کو بدلا نہیں جا سکتا ہے ورنہ یہ تصور کبھی انسان کو ہلاکت سے بھی دو چار کر سکتا ہے جس کی مثال موسیٰ کی نجات اور فرعون کی غرقابی میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

(۳)یہودیت میں خضاب ایک عیب تھا اوربعض مسلمان بھی اس نظریہ سے متاثر تھے اس لئے حضور نے چاہا کہ مسلمان خضاب لگا کر میدان جنگ میںقدم رکھیں تاکہ کفار کے دل جوانوں کے لشکر کو دیکھ کر دہل جائیں۔اس کے بعد جب اسلام کو قوت حاصل ہوگئی تو خضاب کی ضرورت نہیں رہ گئی لیکن پھر بھی عیب نہیں ہے۔

۶۲۵

خَذَلُوا الْحَقَّ ولَمْ يَنْصُرُوا الْبَاطِلَ.

۱۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ جَرَى فِي عِنَان أَمَلِه عَثَرَ بِأَجَلِه

۲۰ - وقَالَعليه‌السلام أَقِيلُوا ذَوِي الْمُرُوءَاتِ عَثَرَاتِهِمْ - فَمَا يَعْثُرُ مِنْهُمْ عَاثِرٌ إِلَّا ويَدُ اللَّه بِيَدِه يَرْفَعُه

۲۱ - وقَالَعليه‌السلام قُرِنَتِ الْهَيْبَةُ بِالْخَيْبَةِ والْحَيَاءُ بِالْحِرْمَانِ - والْفُرْصَةُ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ فَانْتَهِزُوا فُرَصَ الْخَيْرِ.

۲۲ - وقَالَعليه‌السلام لَنَا حَقٌّ فَإِنْ أُعْطِينَاه

'' ان لوگوں نے حق(۱) کو بھی چھوڑدیا اورباطل کی بھی مدد نہیں کی ۔

(۱۹)

جوامیدوں کی راہ میں دوڑتا ہی چلا جاتا ہے وہ آخرمیں موت(۲) سے ٹھوکر کھا جاتا ہے ۔

(۲۰)

با مروت(۳) لوگوں کی لغزشوں سے درگذر کرو۔کہ ایسا شخص جب بھی ٹھوکر کھاتا ہے تو قدرت کا ہاتھ اسے سنبھال کر اٹھا دیتا ہے ۔

(۲۱)

مرعوبیت(۴) کو ناکامی سے اور حیاء کو محرومی سے ملادیا گیا ہے۔فرصت کے مواقع بادلوں کی طرح گزر جاتے ہیں لہٰذا نیکیوں کی فرصت کو غنیمت خیال کرو۔

(۲۲)

ہمارا ایک حق ہے جو مل گیا توخیر ورنہ ہم اونٹ

(۱)اردو میں اس صورت حال کے بارے میں کہا جاتا ہے :''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔نہادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے''

(۲)جب موت برحق ہے تو امیدوں سے لو لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ایک دن تو ان کا سلسلہ بہر حال ختم ہونا ہے تو بلا وجہ ان کی راہ میں جان دینے کی کیا ضرورت ہے۔

(۳)ہر انسان معصوم نہیں ہوتا ہے تو غلطی کا امکان بہر حال رہتا ہے لہٰذا ہر شخص کا فرض ہے کہ کسی شریف آدمی سے غلطی ہو جائے تو اسے معاف کردے اور نالائقوں سے محاسب و مواخذہ کرے۔

(۴)جو بلا وجہ خوفزدہ ہو جائے گا وہ مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا ہے اور جو بلا وجہ شرماتا رہے گا وہ ہمیشہ محروم رہے گا۔انسان ہرموقع پر شرماتا ہی رہتا تو نسل انسانی وجود میں نہ آتی۔

۶۲۶

وإِلَّا رَكِبْنَا أَعْجَازَ الإِبِلِ - وإِنْ طَالَ السُّرَى.

قال الرضي وهذا من لطيف الكلام وفصيحه - ومعناه أنا إن لم نعط حقنا كنا أذلاء - وذلك أن الرديف يركب عجز البعير - كالعبد والأسير ومن يجري مجراهما.

۲۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه.

۲۴ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ كَفَّارَاتِ الذُّنُوبِ الْعِظَامِ إِغَاثَةُ الْمَلْهُوفِ - والتَّنْفِيسُ عَنِ الْمَكْرُوبِ.

۲۵ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ إِذَا رَأَيْتَ رَبَّكَ سُبْحَانَه يُتَابِعُ عَلَيْكَ نِعَمَه - وأَنْتَ تَعْصِيه فَاحْذَرْه.

پر(۱) پیچھے ہی بیٹھنا گوارا کرلیں گے چاہے سفر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو۔

سید رضی : یہ بہترین لطیف اور فصیح کلام ے کہ اگر حق نہ ملا تو ہم کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ردیف میں بیٹھنے والے عام طور سے غلام اورقیدی وغیرہ ہواکرتے ہیں۔

(۲۳)

جسے اس کے اعمال کے پیچھے ہٹا دیں اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتا ہے۔

(۲۴)

بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ یہ ہے کہ انسان ست رسیدہ کی فریاد(۲) رسیکرے اور رنج دیدہ انسان کے غم کو دور کرے۔

(۲۵)

فرزند آدم ! جب گناہوں کے باوجود پروردگار کی نعمتیں مسلسل تجھے ملتی رہیں تو ہوشیار(۳) ہو جانا۔

(۱)یعنی ہم حق سے دستبردار ہونے والے نہیں ہیں اور جہاں تک غاصبانہ دبائو کا سامانا کرنا پڑے گا کرتے رہیں گے ۔

(۲)ستم رسیدہوہ بھی ہے جس کے کھانے پینے کا سہارا نہ ہو اور وہ بھی ہے جس کے علاج کا پیسہ یا اسکول کی فیس کا انتظام نہ ہو

(۳)اکثر انسان نعمتوں کی بارش دیکھ کر مغرور ہو جاتا ہے کہ شائد پروردگار کچھ زیادہہی مہربان ہے اور یہ نہیں سوچتا ہے کہ اس طرح حجت تمام ہورہی ہے اورڈھیل دی جارہی ہے ورنہ گناہوں کے باوجود اس بارش رحمت کا کیا امکان ہے۔

۶۲۷

۲۶ - وقَالَعليه‌السلام مَا أَضْمَرَ أَحَدٌ شَيْئاً إِلَّا ظَهَرَ فِي فَلَتَاتِ لِسَانِه - وصَفَحَاتِ وَجْهِه.

۲۷ - وقَالَعليه‌السلام امْشِ بِدَائِكَ مَا مَشَى بِكَ

۲۸ - وقَالَعليه‌السلام أَفْضَلُ الزُّهْدِ إِخْفَاءُ الزُّهْدِ.

۲۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كُنْتَ فِي إِدْبَارٍ والْمَوْتُ فِي إِقْبَالٍ فَمَا أَسْرَعَ الْمُلْتَقَى.

۳۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحَذَرَ الْحَذَرَ فَوَاللَّه لَقَدْ سَتَرَ حَتَّى كَأَنَّه قَدْ غَفَرَ.

(۲۶)

انسان جس بات کو د میں چھپانا چاہتا ہے وہ اس کی زبان کے بیساختہ کلمات(۱) اورجہرہ کے آثار سے نمایاں ہو جاتی ہے

(۲۷)

جہاں تک ممکن ہو مرض کے ساتھ چلتے رہو (اورفوراً علاج کی فکرمیں لگ جائو)

(۲۸)

بہترین زہد۔زہد کا مخفی رکھنا اور اظہار نہکرنا ہے ( کہ ریا کاری زہد نہیں ہے نفاق ہے )

(۲۹)

جب تمہاری زندگی جارہی ہے اور موت آرہی ہے تو ملاقات بہت جلدی ہو سکتی ہے۔

(۳۰)

ہوشیار ہوشیار! کہ پروردگار نے گناہوں کی اس قدر پردہ پوشی کی ہے کہ انسان کو یہ دھوکہ ہوگیا ہے کہ شائد معاف کردیا ہے ۔

(۱)زندگی کی بیشمار باتیں ہیں جن کا چھپانا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک زبان کی حرکت جاری ہے اور چہرہ کی غمازی سلامت ہے اور چہرہ کی غمازی سلامت ہے۔ان دو چیزوں پر کوئی انسان قابو نہیںپا سکتا ہے اور ان سے حقائق کا بہر حال انکشاف ہوجاتا ہے۔

۶۲۸

۳۱ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنِ الإِيمَانِ - فَقَالَ الإِيمَانُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ - عَلَى الصَّبْرِ والْيَقِينِ والْعَدْلِ والْجِهَادِ - والصَّبْرُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى الشَّوْقِ والشَّفَقِ والزُّهْدِ والتَّرَقُّبِ - فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَى الْجَنَّةِ سَلَا عَنِ الشَّهَوَاتِ - ومَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْمُحَرَّمَاتِ - ومَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِيبَاتِ - ومَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ إِلَى الْخَيْرَاتِ - والْيَقِينُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ وتَأَوُّلِ الْحِكْمَةِ - ومَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ وسُنَّةِ الأَوَّلِينَ - فَمَنْ تَبَصَّرَ فِي الْفِطْنَةِ

(۳۱)

آپ سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ ایمان(۱) کے چا ستون ہیں : صبر ' یقین ' عدل اور جہاد۔

پھر صبرکے چار شعبے ہیں(۲) :شوق ' خوف ' زہد اور انتظارموت ۔پھر جس نے جنت کا اشتیاق پیدا کرلیا اسنے خواہشات کو بھلا دیا اورجسے جہنم کا خوف حاصل ہوگیا اس نے محرمات سے اجتناب کیا۔دنیا میں زہد اختیار کیا۔دنیا میں زہد اختیار کرنے والا مصیبتوں کو ہلکا تصورکرتا ہے اورموت کا انتظار کرنے والا نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے۔

یقین کے بھی چار شعبے(۳) ہیں: ہوشیاری کی بصیرت ' حکمت کی حقیقت رسی ' عبرت کی نصیحت اور سابق بزرگوں کی سنت۔ہوشیاری میں بصیرت رکھنے

(۱)واضح رہے کہ اس ایمان سے مراد ایمان حقیقی ہے جس پر ثواب کا دارومدار ہے اور جس کاواقعی تعلق دل کی تصدیق اوراعضاء و جوارح کے عمل و کردارسے ہوتا ہے ورنہ وہ ایمان جس کاتذکرہ''یا ایھا الذن امنوا '' میں کیا گیا ہے اس سے مراد صرف زبانی اقرار اورادعائے ایمان ہے۔ورنہ ایسا نہ ہوتا تو تمام احکام کا تعلق صرف مومنین مخلصین سے ہوتا اور منافقین ان قوانین سے یکسر آزاد ہو جاتے ۔

(۲)صبر کا دارومدار چار اشیاء پر ہے۔انسان رحمت الٰہی کا اشتیاق رکھتا ہو اورعذاب الٰہی سے ڈرتا ہوتا کہ اس راہ میں زحمتیں برداشت کرے۔اس کے بعد دنیا کی طرف سے لا پرواہ ہو اور موت کی طرف سراپا توجہ ہوتا کہدنیا کے فراق کو برداشت کرلے اورموت کی سختی کے پیش نظر ہر سختی کو آسان سمجھ لے ۔

(۳)یقین کی بھی چار بنیادی ہیں۔اپنی ہر بات پر مکمل اعتماد رکھتا ہو۔حقاق کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔دیگر اقوام کے حالات سے عبرت حاصل کرے اورصالحین کے کردار پرعمل کرے۔ایسا نہیں ہے تو انسان جہل مرکب میں مبتلا ہے اور اس کا یقین فقط و ہم و گمان ہے یقین نہیں ہے۔

۶۲۹

تَبَيَّنَتْ لَه الْحِكْمَةُ - ومَنْ تَبَيَّنَتْ لَه الْحِكْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ - ومَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَكَأَنَّمَا كَانَ فِي الأَوَّلِينَ

- والْعَدْلُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى غَائِصِ الْفَهْمِ وغَوْرِ الْعِلْمِ - وزُهْرَةِ الْحُكْمِ ورَسَاخَةِ الْحِلْمِ - فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ - ومَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُكْمِ - ومَنْ حَلُمَ لَمْ يُفَرِّطْ فِي أَمْرِه وعَاشَ فِي النَّاسِ حَمِيداً –

والْجِهَادُ مِنْهَا عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ - والصِّدْقِ فِي الْمَوَاطِنِ وشَنَآنِ الْفَاسِقِينَ - فَمَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَّ ظُهُورَ الْمُؤْمِنِينَ - ومَنْ نَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ أَرْغَمَ أُنُوفَ الْكَافِرِينَ - ومَنْ صَدَقَ فِي الْمَوَاطِنِ قَضَى مَا عَلَيْه - ومَنْ شَنِئَ الْفَاسِقِينَ وغَضِبَ لِلَّه غَضِبَ اللَّه لَه - وأَرْضَاه يَوْمَ الْقِيَامَةِ -

والے پر حکمت روشن ہو جاتی ہے اورحکمت کی روشنی عبرت کو واضح کر دیتی ہے اور عبرت کی معرفت گویا سابق اقوام سے ملا دیتی ہے۔

عدل کے بھی چار شعبے ہیں : تہ تک پہنچ جانے والی سمجھ' علم کی گہرائی فیصلہ کی وضاحت اور عقل کی پائیداری۔

جس نے فہم کی نعمت پالی وہ علم کی گہرائی تک پہنچ گیا اور جس نے علم کی گہرائی کو پالیا وہ فیصلہ کے گھاٹ سے سیراب ہو کرباہرآیا اور جس نے عقل استعمال کرلی اس نے اپنے امر میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور لوگوں کے درمیان قابل تعریف زندگی گزاردی۔

جہاد کے بھی چار شعبے ہیں:امر(۱) بالمعروف' نہی عن المنکر' ہر مقام پر ثبات قدم اورفاسقوں سے نفرت و عداوت ۔لہٰذا جس نے امر بالمعروف کیا اس نے مومنین کی کمر کو مضبوط کردیا۔اور جس نے منکرات سے روکا اس نے کافروں کی ناک رگڑدی۔جس نے میدان قتال میں ثبات قدم کامظاہرہ کیا وہ اپنے راستہ پر آگے بڑھ گیا اور جسنے فاسقوں سے نفرت و عداوت کا برتائو کیا پروردگار اس کی خاطر اس کے دشمنوں سے غضب ناک ہوگا اور اسے روز قیامت خوش کردے گا۔

(۱)جہاد کا انحصار بھی چارمیدانوں پر ہے۔امر بالمعروف کامیدان۔نہی عن المنکرکا میدان ' قتال کامیدان اور فاسقوں سے نفرت و عداوت کا میدان۔ان چاروں میدانوں میں حوصلہ جہاد نہیں ہے تو تنہا امرو نہی سے کوئی کام چلنے والا نہیں ہے اور نہ ایسا انسان واقعی مجاہد کہے جانے کے قابل ہے ۔

۶۳۰

والْكُفْرُ عَلَى أَرْبَعِ دَعَائِمَ - عَلَى التَّعَمُّقِ ،والتَّنَازُعِ والزَّيْغِ والشِّقَاقِ - فَمَنْ تَعَمَّقَ لَمْ يُنِبْ إِلَى الْحَقِّ - ومَنْ كَثُرَ نِزَاعُه بِالْجَهْلِ دَامَ عَمَاه عَنِ الْحَقِّ - ومَنْ زَاغَ سَاءَتْ عِنْدَه الْحَسَنَةُ وحَسُنَتْ عِنْدَه السَّيِّئَةُ - وسَكِرَ سُكْرَ الضَّلَالَةِ - ومَنْ شَاقَّ وَعُرَتْ عَلَيْه طُرُقُه وأَعْضَلَ عَلَيْه أَمْرُه - وضَاقَ عَلَيْه مَخْرَجُه –

والشَّكُّ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ - عَلَى التَّمَارِي والْهَوْلِ والتَّرَدُّدِ والِاسْتِسْلَامِ - فَمَنْ جَعَلَ الْمِرَاءَ دَيْدَناً لَمْ يُصْبِحْ لَيْلُه - ومَنْ هَالَه مَا بَيْنَ يَدَيْه نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْه - ومَنْ تَرَدَّدَ فِي الرَّيْبِ

اور کفر کے بھی چار ستون ہیں(۱) :بلاوجہ گہرائیوں میں جانا، آپس میں جھگڑا کرنا، کجی اور انحراف اوراختلاف اور عناد۔

جو بلا سبب گہرائی میں ڈوب جائے گا وہ پلٹ کرحق کی طرف نہیں آسکتا ہے اور جو جہالت کی بنا پرجھگڑا کرتا رہتا ہے وہ حق کی طرف سے اندھا ہو جاتا ہے جو کجی کاشکار ہو جاتا ہے اسے نیکی برائی'اور برائی نیکی نظر آنے لگتی ہے اوروہ گمراہی کے نشہ میں چورہو جاتا ہے اورجو جھگڑے اور عناد میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کے راستے دشوار ' مسائل ناقابل حل اوربچ نکلنے کے طریقے تنگ ہو جاتے ہیں ۔

اس کے بعد شک(۲) کے چار شعبے ہیں :کٹ حجتی ' خوف ' حیرانی اور باطل کے ہاتھوں سپردگی۔ظاہر ہے کہ جو کٹ حجتی کو شعار بنالے گا اس کی رات کی صبح کبھی نہ ہوگی اور جو ہمیشہ سامنے کی چیزوں سے ڈرتا رہے گا وہ الٹے پائوں پیچھے ہی ہٹتا رہے گا۔جو شک و شبہ میں حیران و

(۱)کفر انکارخدا کی شکل میں ہو یا انکار رسالت کی شکل میں۔اس کی اساس شرک پر ہو یا انکارحقائق و واضحاب مذہب پر ہر سم کے لئے چار میں سے کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے یا انسان ان مسائل کی فکرمیں ڈوب جاتا ہے جو اس کے امکان سے باہر ہیں۔یا صرف جھگڑے کی بنیاد پرکسی عقیدہ کو اختیار کرلیتا ہے یا اس کی فکرمیں کجی پیدا ہو جاتای ہے یا وہ عناد اور ضد کا شکار ہو جاتا ہے۔اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ان میں سے ہر بیماری وہ ہے جو انسان کو راہ راست پر آنے سے روک دیتی ہے اور انسان ساری زندگی کفر ہی میں مبتلا رہ جاتا ہے۔بیماری کی ہر قسم کے اثرات الگ الگ ہیں لیکن مجموعی طور پر سب کا اثر یہ ہے کہ انسان حق رسی سے محروم ہو جاتا ہے اور ایمان و یقین کی دولت سے بہرہ مند نہیں ہو پاتا ہے۔

(۲)شک ایمان و کفر کے درمیان کا راستہ ہے جہاں نہ انسان حق کا تیقن پیدا کر پاتا ہے اور نہ کفر ہی کا عقیدہ اختیار کرسکتا ہے اور درمیان میں ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے اوراس ٹھوکر کے بھی چار اسباب یا مظاہر ہوتے ہیں یا انسان بلا سوچے سمجھے بحث شروع کر دیتا ہے یا غلطی کرنے کے خوف سے پرچھائیوں سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔یا تردد اور حیرانی کا شکار ہو جاتا ہے یا ہر پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہنے لگتا ہے :

''چلتا ہوں تھوڑی دور ہرایک راہ و کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں ''

۶۳۱

وَطِئَتْه سَنَابِكُ الشَّيَاطِينِ - ومَنِ اسْتَسْلَمَ لِهَلَكَةِ الدُّنْيَا والآخِرَةِ هَلَكَ فِيهِمَا.

قال الرضي وبعد هذا كلام تركنا ذكره خوف الإطالة - والخروج عن الغرض المقصود في هذا الكتاب.

۳۲ - وقَالَعليه‌السلام فَاعِلُ الْخَيْرِ خَيْرٌ مِنْه وفَاعِلُ الشَّرِّ شَرٌّ مِنْه.

۳۳ - وقَالَعليه‌السلام كُنْ سَمْحاً ولَا تَكُنْ مُبَذِّراً - وكُنْ مُقَدِّراً ولَا تَكُنْ مُقَتِّراً

۳۴ - وقَالَعليه‌السلام أَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى

۳۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَسْرَعَ إِلَى النَّاسِ بِمَا يَكْرَهُونَ - قَالُوا فِيه بِمَا لَا يَعْلَمُونَ.

سرداں رہے گا اسے شیاطین اپنے پیروں تلے روند ڈالیں گے اور جو اپنے کو دنیا و آخرت کی ہلاکت کے سپرد کردے گا وہ واقعاً ہلاک ہو جائے گا۔

(۳۲)

خیر کا انجام دینے والا اصل خیر سے بہتر ہوتا ہے اور شر کا انجام دینے والا اصل شر سے بھی بدتر ہوتا ہے ۔

(۳۳)

سخاوت کرو لیکن فضول خرچی نہ کرو اور کفایت شعاری اختیار کرو۔لیکن بخیل مت بنو۔

(۳۴)

بہترین مالداری اوربے نیازی یہ ہے کہ انسان امیدوں کو ترک کردے ۔

(۳۵)

جو لوگوں کے بارے میں بلا سوچے سمجھے وہ باتیں کہہ دیتا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے ہیں۔لوگ اس کے بارے میں بھی وہ کہہ دیتے ہیں جسے جانتے بھی نہیں ہیں۔

۶۳۲

۳۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَطَالَ الأَمَلَ أَسَاءَ الْعَمَلَ.

۳۷ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ لَقِيَه عِنْدَ مَسِيرِه إِلَى الشَّامِ دَهَاقِينُ الأَنْبَارِ - فَتَرَجَّلُوا لَه واشْتَدُّوا بَيْنَ يَدَيْه - فَقَالَ:

مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمُوه فَقَالُوا خُلُقٌ مِنَّا نُعَظِّمُ بِه أُمَرَاءَنَا - فَقَالَ واللَّه مَا يَنْتَفِعُ بِهَذَا أُمَرَاؤُكُمْ - وإِنَّكُمْ لَتَشُقُّونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ فِي دُنْيَاكُمْ - وتَشْقَوْنَ بِه فِي آخِرَتِكُمْ - ومَا أَخْسَرَ الْمَشَقَّةَ وَرَاءَهَا الْعِقَابُ - وأَرْبَحَ الدَّعَةَ مَعَهَا الأَمَانُ مِنَ النَّارِ!

(۳۶)

جس نے امیدوں کو دراز(۱) کیا اس نے عمل کو برباد کردیا۔

(۳۷)

(شام کی طرف جاتے ہوئے آپ کا گذر ابنار کے زمینوں کے پاس سے ہوا تو وہ لوگ سواریوں سے اتر آئے اور آپ کے آگے دوڑنے لگے توآپ نے فرمایا ) یہ تم نے کیا طریقہ اختیار کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ ہمارا ایک ادب ہے جس سے ہم شخصیتوں کا احترام کرتے ہیں۔فرمایا کہخدا گواہ ہے اس سے حکام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اورتم اپنے نفس کو دنیا میں زحمت(۲) میں ڈالتے ہو اور آخرت میں بد بختی کا شکار ہو جائو گے اور کس قدرخسارہ کے باعث ہے وہ مشقت جس کے پیچھے عذاب ہو اورکس قدر فائدہ مند ہے وہ راحت جس کے ساتھ جہنم سے امان ہو۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دنیا امیدوں پر قائم ہے اور انسان کی زندگی سے امیدکا شعبہ ختم ہو جائے تو عمل کی ساری تحریک سرد پڑ جائے گی اور کوئی انسان کوئی کام نہ کرے گا لیکن اس کے بعد بھی اعتدال ایک بنیادی مسئلہ ہے اور امیدوں کی درازی بہر حال عمل کو برباد کر دیتی ہے کہ انسان آخرت سے غافل ہو جاتا ہے اورآخرت سے غافل ہو جانے والا عمل نہیں کر سکتا ہے ۔

(۲)اس ارشاد گرامی سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اسلام ہر تہذیب کوگوارا کرتا ہے اور اس کے بارے میں یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی افادیت کیا ے اورآخرت میں اس کا نقصان کس قدر ہے۔ہماری ملکی تہذیب میں فرشی سلام کرنا' غیر خدا کے سامنے سجدرکوع جھکنا بھی ہے جو اسلام میں قطعاً جائز نہیں ہے۔کسی ضرورت سے جھکنا اور ہے اور تعظیم کے خیال سے جھکنا اور ہے۔سلام تعظیم کے لئے ہوتا ہے لہٰذا اس میں رکوع کی حدوں تک جانا صحیح نہیں ہے۔

۶۳۳

۳۸ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه الْحَسَنِعليه‌السلام :

يَا بُنَيَّ احْفَظْ عَنِّي أَرْبَعاً وأَرْبَعاً - لَا يَضُرُّكَ مَا عَمِلْتَ مَعَهُنَّ - إِنَّ أَغْنَى الْغِنَى الْعَقْلُ وأَكْبَرَ الْفَقْرِ الْحُمْقُ - وأَوْحَشَ الْوَحْشَةِ الْعُجْبُ وأَكْرَمَ الْحَسَبِ حُسْنُ الْخُلُقِ.

يَا بُنَيَّ إِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الأَحْمَقِ - فَإِنَّه يُرِيدُ أَنْ يَنْفَعَكَ فَيَضُرَّكَ - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْبَخِيلِ - فَإِنَّه يَقْعُدُ عَنْكَ أَحْوَجَ مَا تَكُونُ إِلَيْه - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْفَاجِرِ فَإِنَّه يَبِيعُكَ بِالتَّافِه - وإِيَّاكَ ومُصَادَقَةَ الْكَذَّابِ - فَإِنَّه كَالسَّرَابِ يُقَرِّبُ عَلَيْكَ الْبَعِيدَ ويُبَعِّدُ عَلَيْكَ الْقَرِيبَ.

۳۹ - وقَالَعليه‌السلام لَا قُرْبَةَ بِالنَّوَافِلِ إِذَا أَضَرَّتْ بِالْفَرَائِضِ.

(۳۸)

آپ نے اپنے فرزند امام حسن سے فرمایا: بیٹا مجھ سے چار اور پھر چار(۱) باتیں محفوظ کرلو تو اس کے بعد کسی عمل سے کوئی نقصان نہ ہوگا۔

بہترین دولت و ثروت عقل ہے اوربد ترین فقیری حماقت ۔سب سے زیادہ وحشت ناک امرخود پسندی ہے اور سب سے شریف حسب خوش اخلاقی ۔بیٹا!خبردار کسی احمق کی دوستی اختیار نہ کرنا کہ تمہیں فائدہ بھی پہنچانا چاہے گا تو نقصان پہنچادے گا۔اور اسی طرح کسی بخیل سے دوستی نہ کرناکہ تم سے ایسے وقت میں دور بھاگے گا جب تمہیں اس کی شدید ضرورت ہوگی اور دیکھو کسی فاجر کا ساتھ بھی اختیار نہ کرنا کہ وہ تم کو حقیر چیز کے عوض بھی بیچ ڈالے گا اور کسی جھوٹے کی صحبت بھی اختیارنہ کرناکہ وہ مثل سراب ہے جو دور والے کو قریب کر دیتا ہے اورق ریب والے کو دور کردیتا ہے ۔

(۳۹)

مستحباب الٰہی میں کوئی قربت الٰہی نہیں ہے اگر ان سے واجبات کو نقصان پہنچ جائے ۔

(۱)چار اور چار کا مقصد شائد یہ ہے کہ پہلے چار کاتعلق انسان کے ذاتی اوصاف وخصوصیات سے ہے اور دوسرے چار کا تعلق اجتماعی معاملات سے ہے اور کمال سعادت مندی یہی ہے کہ انسان ذاتی زیور کردارسے بھی آراستہ رہے اور اجتماعی برتائو کوب ھی صحیح رکھے ۔

۶۳۴

۴۰ - وقَالَعليه‌السلام لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَاءَ قَلْبِه وقَلْبُ الأَحْمَقِ وَرَاءَ لِسَانِه قال الرضي - وهذا من المعاني العجيبة الشريفة - والمراد به أن العاقل لا يطلق لسانه.

إلا بعد مشاورة الروية ومؤامرة الفكرة - والأحمق تسبق حذفات لسانه وفلتات كلامه - مراجعة فكره ومماخضة رأيه - فكأن لسان العاقل تابع لقلبه - وكأن قلب الأحمق تابع للسانه.

۴۱ - وقد روي عنهعليه‌السلام هذا المعنى بلفظ آخر - وهو قوله:

قَلْبُ الأَحْمَقِ فِي فِيه - ولِسَانُ الْعَاقِلِ فِي قَلْبِه.

ومعناهما واحد:

(۴۰)

عقل مند(۱) کی زبان اس کے دل کے پیچھے رہتی ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کے پیچھے رہتا ہے۔

سید رضی : یہ بڑی عجی و غریب اور لطیف حکمت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عقلمند انسان غورو فکر کرنے کے بعد بولتا ہے اور احمق انسان بلا سوچے سمجھے کہہ ڈالتا ہے گویا کہعاقل کی زبان دل کی تابع ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کا پابند ہے۔

(۴۱)

احمق کا دل اس کے منہ کے اندر رہتا ہے اور عقل مند کی زبان اس کے دل کے اندر۔

(۱)دوسرے مقام پر امام علیہ السلام نے اسی بات کو عاقل و احمق کے بجائے مومن اور منافق کے نام سے بیان فرمایا ہے اورحقیقت امر یہ ہے کہ اسلام کی نگاہ میں مومن ہی کو عاقل اور منافق ہی کو احمق کہا جاتا ہے۔ورنہ جو ابتد اسے بے خبر اور انتہا سے غافل ہو جاے نہ رحمان کی عبادت کرے اورنہ جنت کے حصول کا انتظام کرے اسے کس اعتبارسے عقل مند کہا جاسکتا ہے اور اسے احمق کے علاوہ دسرا کون سا نام دیا جا سکتا ہے۔

یہ اوربات ہے کہ دور حاضر میں ایسے ہی افراد کو دانش مند اور دانشور کہا جاتا ہے اور انہیں کے احترام کے طور پر دین و دانش کی اصلاح نکالی گئی ہے کہ گویا دیندار' دیندار ہوتا ہے اور دانشور نہیں۔اور دانشور ' دانشور ہوتا ہے چاہے دیندار نہ ہو اور بیدینی ہی میں زندگی گزارے ۔

۶۳۵

۴۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه فِي عِلَّةٍ اعْتَلَّهَا - جَعَلَ اللَّه مَا كَانَ مِنْ شَكْوَاكَ حَطَّاً لِسَيِّئَاتِكَ - فَإِنَّ الْمَرَضَ لَا أَجْرَ فِيه - ولَكِنَّه يَحُطُّ السَّيِّئَاتِ ويَحُتُّهَا حَتَّ الأَوْرَاقِ - وإِنَّمَا الأَجْرُ فِي الْقَوْلِ بِاللِّسَانِ - والْعَمَلِ بِالأَيْدِي والأَقْدَامِ - وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يُدْخِلُ بِصِدْقِ النِّيَّةِ - والسَّرِيرَةِ الصَّالِحَةِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِه الْجَنَّةَ.

قال الرضي - وأقول صدقعليه‌السلام إن المرض لا أجر فيه - لأنه ليس من قبيل ما يستحق عليه العوض - لأن العوض يستحق على ما كان في مقابلة فعل الله تعالى بالعبد - من الآلام والأمراض وما يجري مجرى ذلك - والأجر والثواب يستحقان على ما كان في مقابلة فعل العبد - فبينهما فرق قد بينهعليه‌السلام - كما يقتضيه علمه الثاقب ورأيه الصائب.

۴۳ - وقَالَعليه‌السلام فِي ذِكْرِ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ - يَرْحَمُ اللَّه خَبَّابَ بْنَ الأَرَتِّ

(۴۲)

اپنے ایک صحابی سے اس کی بیماری کے موقع پر فرمایا ''اللہ نے تمہاری بیماری کو تمہارے گناہوں کے دور کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے کہ خود بیماری میں کوئی اجر نہیں ہے لیکن یہ برائیوں کو مٹا دیتی ہے اوراس طرح جھاڑ دیتی ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔اجرو ثواب زبان سے کچھ کہنے اور ہاتھ پائوں سے کچھ کرنے میں حاصل ہوتا ہے اور پروردگار اپنے جن بندوں(۱) کوچاہتا ہے ان کی نیت کی صداقت اورباطن کی پاکیزگی کی بنا پرداخل جنت کردیتا ہے۔

سید رضی : حضرت نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ بیماری میں کوء یاجر نہیں ہے کہ یہ کوئی استحقاقی اجروالا کام نہیں ہے۔عوض تو اس عمل پر بھی حاصل ہوتا ہے۔جو بیماریوں وغیرہ کی طرح خدا بندہ کے لئے انجام دیتا ہے لیکن اجرو ثواب صرف اسی عمل پر ہوتا ہے جو بندہ خود انجام دیتا ہے اور مولائے کائنات نے اس مقام پر عوض اور اجرو ثواب کے اسی فرق کو واضح فرمایا ہے جس کا ادراک آپ کے علم روشن اورف کر صائب کے ذریعہ ہوا ہے۔

(۴۳)

آپ نے خباب بن الارثکے بارے میں فرمایا کہ خدا خباب ابن الارت پر رحمت نازل کرے۔وہ

(۱)مقصد یہ ہے کہ پروردگار نے جس اجرو ثواب کا وعدہ کیا ہے اور جس کا انسان استحقاق پیدا کر لیتا ہے وہ کسی نہ کسی عمل میں پر پیدا ہوتا ہے اور مرض کوئی عمل نہیں ہے۔لیکن اس کے علاوہ فضل و کرم کا دروازہ کھلا ہوا ہے اوروہ کسی بھی وقت اور کسی بھی شخص کے شامل حال کیا جا سکتا ہے ۔اس میں کسی کا کوئی اجارہ نہیں ہے۔

۶۳۶

فَلَقَدْ أَسْلَمَ رَاغِباً وهَاجَرَ طَائِعاً وقَنِعَ بِالْكَفَافِ ورَضِيَ عَنِ اللَّه وعَاشَ مُجَاهِداً.

۴۴ - وقَالَعليه‌السلام طُوبَى لِمَنْ ذَكَرَ الْمَعَادَ وعَمِلَ لِلْحِسَابِ - وقَنِعَ بِالْكَفَافِ ورَضِيَ عَنِ اللَّه.

۴۵ - وقَالَعليه‌السلام : لَوْ ضَرَبْتُ خَيْشُومَ الْمُؤْمِنِ بِسَيْفِي هَذَا - عَلَى أَنْ يُبْغِضَنِي مَا أَبْغَضَنِي - ولَوْ صَبَبْتُ الدُّنْيَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى الْمُنَافِقِ - عَلَى أَنْ يُحِبَّنِي مَا أَحَبَّنِي - وذَلِكَ أَنَّه قُضِيَ فَانْقَضَى عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صلى‌الله‌عليه‌وآله - أَنَّه قَالَ يَا عَلِيُّ لَا يُبْغِضُكَ مُؤْمِنٌ ولَا يُحِبُّكَ مُنَافِقٌ.

۴۶ - وقَالَعليه‌السلام سَيِّئَةٌ تَسُوءُكَ خَيْرٌ عِنْدَ اللَّه مِنْ حَسَنَةٍ تُعْجِبُكَ.

اپنی رغبت سے اسلام لائے ۔اپنی خوشی سے ہجرت کی اور بقدر ضرورت سامان پر اکتفا کی۔اللہ کی مرضی(۱) سے راضی رہے اورمجاہدانہ زندگی گزاری۔

(۴۴)

خوشا بحال اس شخص کا جس نے آخرت کو یاد رکھا ' حساب کے لئے عمل کیا، بقدر ضرورت پرقانع رہا اور اللہ سے راضی رہا۔

(۴۵)

اگر میں اس تلوار سے مومن کی ناک بھی کاٹ دوں کہ مجھ سے دشمنی کرنے لگے تو ہرگز نہکرے گا اور اگر دنیا کی تمام نعمتیں منافق پر انڈیل دوں کہ مجھ سے محبت کرنے لگے تو ہرگز نہ کرے گا۔اس لئے کہ اس حقیقت کا فیصلہ نبی صادق کی زبان سے ہو چکا ہے کہ ''یاعلی ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہیں کر سکتا ہے اور کوئی منافق تم سے محبت نہیں کرسکتا ہے ۔''

(۴۶)

وہ گناہ(۲) جس کا تمہیں رنج ہو۔اللہ کے نزدیک اس نیکی سے بہتر ہے جس سے تم میں غرور پیدا ہوجائے ۔

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ انسان زندگی کا کمال یہ نہیں ہے کہ اللہ اس سے راضی ہو جائے ۔یہ کام نسبتاً آسان ہے کہ وہ سریع الرضا ہے۔کبھی معمولی عمل سے بھی راضی ہو جاتا ہے اورکبھی بد ترین عمل کے بعد بھی توبہ سے راضی ہوجاتا ہے ۔سب سے مشکل کام بندہ کا خدا سے راضی ہو جانا ہے کہ وہ کسی حال میں خوش ہو تا ہے اور اقتدار فرعون و دولت قارون پانے کے بعد بھی یا مغرور ہو جاتا ہے یا زیادہ کامطالبہ کرنے لگتا ہے۔امیر المومنین نے خباب کے اسی کردار کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ انتہائی مصائب کے باوجود خداسیراضی رہے اورایک حرف شکایت زبان پرنہیں لائے۔اور ایسا ہی انسان وہ ہوتا ہے جس کے حق میں طوبیٰ کی بشارت دی جا سکتی ہے اور وہ امیر المومنین کی طرف سے مبارک باد کامستحق ہوتا ہے۔

(۲)اگرچہ گناہ میں کوئی خوبی اور بہتری نہیں ہے۔لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گناہ کے بعد انسان کا نفس ملامت کرنے لگتا ہے اور وہ توبہ پرآمادہ ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا گناہ جس کے بعداحساس توبہ پیدا ہو جائے اس کا ر خیر سے یقینا بہتر ہے جس کے بعد غرور پیدا ہو جائے اور انسان اخوان الشیاطین کی فہرست میں شامل ہو جائے۔

۶۳۷

۴۷ - وقَالَعليه‌السلام قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَى قَدْرِ هِمَّتِه وصِدْقُه عَلَى قَدْرِ مُرُوءَتِه - وشَجَاعَتُه عَلَى قَدْرِ أَنَفَتِه وعِفَّتُه عَلَى قَدْرِ غَيْرَتِه.

۴۸ - وقَالَعليه‌السلام الظَّفَرُ بِالْحَزْمِ والْحَزْمُ بِإِجَالَةِ الرَّأْيِ - والرَّأْيُ بِتَحْصِينِ الأَسْرَارِ.

۴۹ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرُوا صَوْلَةَ الْكَرِيمِ إِذَا جَاعَ واللَّئِيمِ إِذَا شَبِعَ.

۵۰ - وقَالَعليه‌السلام قُلُوبُ الرِّجَالِ وَحْشِيَّةٌ فَمَنْ تَأَلَّفَهَا أَقْبَلَتْ عَلَيْه.

(۴۷)

انسان کی قدرو قیمت اس کی ہمت(۱) کے اعتبار سے ہوتی ہے اور اس کی صداقت اس کی مردانگی کے اعتبارسے ہوتی ہے شجاعت کا پیمانہ حمیت و خود داری ہے اورعفت کا پیمانہ غیرت و حیا۔

(۴۸)

کامیابی دوراندیشی سے حاصل ہوتی ہے اور دوراندیشی فکر و تدبر سے۔فکر و تدبر کا تعلق اسرار کی را ز داری سے ہے۔

(۴۹)

شریف انسان کے حملہ سے بچو جب وہ بھوکا ہو' اورکمینے کے حملہ سے بچو جب اس کا پیٹ بھرا ہو۔

(۵۰)

لوگوں کے دل صحرائی جانوروں جیسے ہیں جو انہیں سدھالے(۲) گا اس کی طرف جھک جائیں گے ۔

(۱)کیا کہنا اس شخص کی ہمت کا جو دعوت ذوالعشیرہ میں ساری قوم کے مقابلہ میں تن تنہا نصرت پیغمبر (ص) پرآمادہ ہوگیا اور پھر ہجرت کی رات تلواروں کے سایہ میں سو گیا اور مختلف معرکوں میں تلواروں کی زد پر رہا اور آخر کار تلوارکے سایہ ہی میں سجدہ آخر بھی ادا کردیا۔اس سے زیادہ قدر و قیمت کاحقدار دنیا کا کون سا انسان ہوسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ انسان دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہے تو اس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ بہترین اخلاق وکردار کامظاہرہ کرے تاکہ یہ دل وحشی رام ہوجائے ورنہ بد اخلاقی اورب د سلوکی سے وحشی جانور کے مزید بھڑک جانے کاخطرہ ہوتا ہے اس کے رام ہو جانے کا کوئی تصورنہیں ہوتا ہے۔

۶۳۸

۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عَيْبُكَ مَسْتُورٌ مَا أَسْعَدَكَ جَدُّكَ

۵۲ - وقَالَعليه‌السلام أَوْلَى النَّاسِ بِالْعَفْوِ أَقْدَرُهُمْ عَلَى الْعُقُوبَةِ.

۵۳ - وقَالَعليه‌السلام السَّخَاءُ مَا كَانَ ابْتِدَاءً - فَأَمَّا مَا كَانَ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَحَيَاءٌ وتَذَمُّمٌ

۵۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا غِنَى كَالْعَقْلِ ولَا فَقْرَ كَالْجَهْلِ - ولَا مِيرَاثَ كَالأَدَبِ ولَا ظَهِيرَ كَالْمُشَاوَرَةِ.

۵۵ - وقَالَعليه‌السلام الصَّبْرُ صَبْرَانِ صَبْرٌ عَلَى مَا تَكْرَه وصَبْرٌ عَمَّا تُحِبُّ.

(۵۱)

تمہارا عیب اسی وقت تک چھپا رہے گا جب تک تمہارا مقدر ساز گار ہے۔

(۵۲)

سب سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار وہ ہے جو سب سے زیادہ سزا دینے کی طاقت رکھتا ہو۔

(۵۳)

سخاوت(۱) جیسی کوئی دولت نہیں ہے اور جہالت جیسی کوئی فقیری نہیں ہے۔ادب جیسی کوئی میراث نہیں ہے اورمشورہ جیسا کوئی مدد گار نہیں ہے ۔

(۵۴)

عقل(۲) جیسی کوئی دولت نہیں ہے اور جہالت جیسی کوئی فقیری نہیں ہے۔ادب جیسی کوئی میراث نہیں ہے اور مشورہ جیسا کوئی مدد گار نہیں ہے۔

(۵۵)

صبر کی دو قسمیں ہیں : ایک ناگوار حالات پر صبر اور ایک محبوب اورپسندیدہ چیزوں کے مقابلہ میں صبر۔

(۱) مقصد یہ ہے کہ انسان سخاوت کرنا چاہے اور ا س کا اجرو ثواب حاصل کرنا چاہے تو اسے سائل کے سوال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ سوال کے بعد تو یہ شبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی آبروب چانے کے لئے دے دیا ہے اور اس طرح اخلاص نیت کا عمل مجروح ہوجاتا ہے اور ثواب اخلاص نیت پر ملتا ہے ' اپنی ذات کے تحفظ پر نہیں۔

(۲) آج مسلمان تمام اقوام عالم کا محتاج اسی لئے ہوگیا ہے کہ اس نے علم و فن کے میدان سے قدم ہٹا لیاہے اور صرف عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ورنہ اسلامی عقل سے کام لے کرباب مدینتہ العلم سے وابستگی اختیار کی ہوتی تو باعزت زندگی گزارتا اور بڑی بڑی طاقتیں بھی اس کے نام سے دہل جاتیں جیسا کہ دورحاضر میں باقاعدہ محسوس کیا جا رہا ہے۔

۶۳۹

۵۶ - وقَالَعليه‌السلام الْغِنَى فِي الْغُرْبَةِ وَطَنٌ والْفَقْرُ فِي الْوَطَنِ غُرْبَةٌ.

۵۷ - وقَالَ عليهلامت الْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ.

قال الرضي: وقد روي هذا الكلام عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم.

۵۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَالُ مَادَّةُ الشَّهَوَاتِ.

۵۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ حَذَّرَكَ كَمَنْ بَشَّرَكَ.

۶۰ - وقَالَعليه‌السلام اللِّسَانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّيَ عَنْه عَقَرَ

(۵۶)

مسافرت میں دولت مندی ہو تو وہ بھی وطن کادرجہ رکھتی ہے اور وطن میں غربت ہو تو وہ بھی پردیس کی حیثیت رکھتا ہے ۔

(۵۷)

قناعت(۱) وہ سرمایہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔

سید رضی : یہ فقرہ رسول اکرم (ص) سے بھی نقل کیا گیا ہے ( اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے ۔علی بہر حال نفس رسول (ص) ہیں )

(۵۸)

مال خواہشات کا سر چشمہ ہے۔

(۵۹)

جو تمہیں برائیوں سے ڈرائے گویا اس نے نیکی کی بشارت دے دی۔

(۶۰)

زبان ایک درندہ(۲) ہے۔ذراآزاد کردیا جائے تو کاٹ کھائے گا۔

(۱) کہاجاتا ہے کہ ایک شخص نے سقراط کو صحرائی گھاس پر گذارہ کرتے دیکھا تو کہنے لگا کہ اگر تم نے بادشاہ کی خدمت میں حاضری دی ہوتی تو اس گھاس پر گذارہ کرنا پڑت تو سقراط نے فوراً جواب دیا کہ اگر تم نے گھاس سے گذارہ کرلیا ہوتا توبادشاہ کی خدمت کے محتاج نہ ہوتے۔گھاس پر گذارہ کرلینا عزت ہے اوربادشاہ کی خدمت میں حاضر رہناذلت ہے۔

(۲) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زبان انسانی زندگی میں جس قدرکارآمد ہے اسی قدر خطرناک بھی ہے۔یہ تو پرردگار کاکرمہے کہ اس نے اس درندہ کو پنجرہ کے اندر بند کردیا ہے اور اس پر ۳۲ پہرہ دار بٹھا دئیے ہیں لیکن یہ درندہ جب چاہتا ہے خواہشات سے ساز باز کرکے پنجرہ کا دروازہ کھول لیتا ہے اور پہرہ داروں کو دھوکہ دے کر اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور کبھی کبھی '' ان الرجل لیھجر '' کہہ کر ساری قوم کو کھا جاتا ہے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863