نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657020 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

نفسانی خواہش کی بناء پر دنیاوی ریاست و حکومت حاصل کرنے کی مذمت میں رسول خدا(ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے کافی حدیثیں مروی ہیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کا ارشاد ہے۔" حب الدنيارأس كل خطيئة" (یعنی دنیا کی محبت و رغبت ہر بدی کی سردار ہے) پس قطعا ابو عبداللہ علیہ السلام دنیاوی جاہ و ریاست کے طالب نہیں تھے اور نہ ایسی فانی حکومت کے لیے جانبازی کی تھی اور اپنے اہلبیت (ع) کی اسیری گوارا کی تھی۔اگر کوئی شخص اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ان حضرات کو دنیا طلب کہے تو وہ یقینا قرآن مجید کا منکر ہے۔

امام حسین(ع) کا قیام ریاست اور خلافت ظاہری کے لیے نہیں تھا

رہا دوسرا فرقہ جس میں وہ لوگ ہیں جو حسی دلائل چاہتے ہیں۔ ان کے لیے محسوس دلائل بہت ہیں جن کو اس تنگ وقت میں مکمل طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ نمونتہ چند چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

اول ۔ یزید پلید کے مقابلے میں حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کا قیام اگر جاہ طلبی اور حکومت کے شوق میں ہوتا تو رسول اللہ(ص) ان حضرت کی نصرت کا حکم دیتے چنانچہ آپ کے سلسلوں سے اس بارے میں بکثرت روایتیں مروی ہیں جن میں سے صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب60 میں تاریخ بخاری و بغوی و ابن السکین و ذخائر العقبی امام الحرم شافعی سے سیرۃ ملا وغیرہ سے بروایت انس بن حارث بن بعیہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ(ص) سے سنا کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

"إِنَ ابْنِي هَذَايَعْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِأَرْضٍ يُقالُ لها کَربَلا فَمَنْ شهد ذالک مِنْكُمْ فَلْيَنْصُرْهُ فخرج انس ابن الحارث الی کربلا فَقُتِلَ أَنَسٌ مَعَ الْحُسَيْن ِرَضِی الله عنه معهه"

یعنی بتحقیق میرا یہ فرزند حسین(ع) زمین کربلا پر قتل کیا جائے گا۔ پس تم میں سے جو شخص اس وقت موجود ہو وہ حسین(ع) کی مدد کرے ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ انس بن حارث کربلا پہنچے اور حکم رسول(ص) پر عمل کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت کربلا میں حق کے لیے کھڑے ہوئے تھے نہ کہ دنیاوی ریاست کی محبت میں۔

ان چیزوں سے قطع نظر اگر معترصین غور کریں تو خود حضرت کی روانگی سے لے کر شہادت اور اسیری اہلبیت (ع) تک حق اور حقیقت برابر نمایاں ہے، اس لیے کہ اگر کسی ملک میں کوئی شخص ریاست کو خواہش رکھتا ہے اور حکومت وقت کے خلاف خروج کرنا چاہتا ہے تو اپنے عیال و اطفال کو لے کر نہیں نکلتا ہے ، چھوٹ چھوٹے اور شیر خوار بچوں اور حاملہ عورتوں کو ہمراہ نہیں لے جاتا بلکہ بذات خود ایک لچنی ہوئی فوج لے کر بڑھتا ہے اور جب دشمن پر غالب آجاتا ہے حالات قابو میں آجاتے ہیں اور انتظامات درست ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بال بچوں کو بلواتا ہے۔

۳۴۱

حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کا اپنی عورتوں اور خورد سال بچوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا قافلہ لے کر سفر کرنا خود اس کی مکمل دلیل ہے کہ حضرت ریاست و خلافت ظاہری اور دشمن کو شکست دینے کے خیال سے تشریف نہیں لائے تھے اگر ایسا ارادہ ہوتا تو آپ یقینا یمن کی طرف جاتے جہاں سب آپ کے اور آپ کے پدر بزرگوار کے دوست اور پختہ عقیدت رکھنے والے تھے، اور اس کو اپنا مرکزی مقام قرار دے کر پورے ساز و سامان کے ساتھ بنفس بفیس حملے شروع کرتے چنانچہ حضرت کے بنی دوستوں اور بھائیوں نے بار بار یہی مشہورہ دیا ور ان کو مایوس ہونا پڑا کیوں کہ وہ لوگ حضرت کے اصلی نقطہ نظر اور مقصد سے واقف نہیں تھے۔

امام حسین (ع) کا قیام شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی حفاظت کے لیے تھا

لیکن خود حضرت جانتے تھے کہ ظاہری غلبے کے اسباب فراہم نہ ہوں گے لہذا مع عورتوں بچوں کے چوراسی افراد کے ہمراہ حضرت کا سفر ایک آخری اور بنیادی نتیجے کے لیے تھا کیوںکہ امام دیکھ رہے تھے کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو ان کے جد بزرگوار خاتم الانبیاء نے اپنے خون جگر اور شہدائے بدر و احد و حنین کے لہو سے سینچا تھا اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے باغبان کے سپرد کیا تھا تاکہ یہ اس کی نگہداشت کریں لیکن اس ماہر فن اور واقفکار باغبان کو ظلم و تعدی ، تلوار اور قتل و آتشزنی کا دبائو دال کر الگ کردیا گیا تھا۔ اور شجرہ طیبہ کی آبیاری سے روک دیا گیا جس سے توحید و نبوت کی بہار خزاں کی صورت اختیار کر رہی تھی۔ پھر بھی باغبان اصلی کی توجہ سے کبھی کبھی حقیقی اور کامل طاقت نہ سہی لیکن تھوڑی بہت تقویت پہنچ جاتی تھی یہاں تک باغ کے کل اختیارات جاہل ہٹ دھرم اور کینہ پرور باغبانوں ( یعنی بنی امیہ) کے ہاتھوں میں پہنچ گئے۔

خلیفہ سوم عثمان ابن عفان کے زمانہ خلافت سے جب بنی امیہ کےہاتھ پائوں کھلے اور یہی حکومت کے کرتا و دھرتا بنے، ابوسفیان کو جو اس وقت اندھا ہوچکا تھا۔ ہاتھ پکڑ کے دربار میں لائے اور اس نے بآواز بلند کہا۔" يابني أميةتداولوا الخلاف ة فانه لا جنةولانار" ( یعنی اے بنی امیہ اب دولت خلافت کو گھما کر اپنے ہی خاندان میں رکھو کیوںکہ جنت اور دوزخ کچھ بھی نہیں ہے۔ ( یعنی سب ڈھونگ ہے)

نیز کہا " يابني أميّةتلقّفوهاتلقّفالكرة،والذي يحلف به أبوسفيان مازلت أرجوهالكم ولتصيرنّ الىصبيانكم وراثة"

یعنی ابنی امیہ کوشش کر کے خلافت کے گیند کی طرح دبوچ لو۔ قسم اس چیز کی جس کی میں قسم کھاتا ہوں( اس سے مراویت ہیں جن کی یہ لوگ قسم کھاتے تھے) کہ میں ہمیشہ تمہارے لیے ایسی حکومت کا متمنی تھا اور تم بھی اس کی حفاظت کرو تاکہ تمہاری اولاد اس کی وارث ہو۔اس رسوائے زمانہ بد عقیدہ قوم نے تمام راستے

۳۴۲

مسدود کردئیے، حقیقی اور معنوی باغبانوں کی باغ سے بالکل بے دخل کردیا اور آب حیات پر پہرے بٹھادیئے۔ شجرہ طیبہ دھیرے دھیرے پژمردہ ہونے لگا یہاں تک کہ یزید پلید کے دور خلافت میں درخت شریعت کو کاٹ دیا گیا اور قریب تھا کہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ بالکل خشک ہوجائے۔ خدا کا نام فراموش ہو جائے اور دین کی حقیقت مٹ جائے۔

بدیہی چیز ہے کہ کوئی ہوشیار باغبان جب دیکھے کہ اس کے باغ پر ہر طرف سے آفتیں نازل ہو رہی ہیں تو اس کو فورا حفاظتی تدابیر اور علاج کی فکر کرنا چاہئیے ورنہ اس کے منافع اور پھلوں سے بالکل ہی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس موقع پر بھی--گلستان توحید و رسالت ک باغبانی حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام جیسے عالم دین باغبان کے سپرد تھی جب آپ نے دیکھا کہ بنی امیہ کی ہٹ دھرمی اور الحاد و عناد نے بات کو اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ عنقریب توحید کا درخت خشک ہونے والا ہے بلکی وہ شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں تو آپ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور محض اور صرف محض باغ رسالت کی جڑوں کی آبیاری اور تقویت شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے لیے کربلا کی طرف سفر اختیار کیا۔ کیونکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ درخت کی جڑوں میں خشکی دوڑ چکی ہے اور معمولی آب پاشی سے کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ جب تک اس کو پوری طاقت نہ پہنچائی جائے۔

جیسا کہ فلاحت کے علم عملی میں طریقہ ہے کہ جس وقت ہوشیار باغبان اور فلاح دیکھتے ہیں کہ کوئی درخت بالکل کمزور ہوگیا ہے اور اس کو زیادہ طاقت پہنچانے کی ضرورت ہے تو اس کا علاج قربانی سے کرتے ہیں یعنی کوئی گوسفند یا دوسرا جانور اس کے پاس ذبح کر کے اس کا خون اور گوشت و پوست درخت کی جڑ میں دفن کر دیتے ہیں تاکہ اس میں سرنو قوت اور نشو و نما پیدا ہوجائے۔ ریحانہ رسول حضرت سید الشہداء (ع) بھی ایک ماہر و عالم باغبان تھے۔ آپ نے دیکھا کہ شجرہ طیبہ کو سیرابی سے اس قدر محروم رکھا ہے ( بالخصوص اخیری برسوں اور بنی امیہ کے اقتدار میں) کہ معمولی سی آبیاری اور علمی خدمت سے شادابی نہ آئے گی جب تک فداکاری سے کام نہ لیا جائے۔ شجرہ طیبہ اور درخت شریعت کی سر سبزی قطعا قومی خونابے کی محتاج ہے۔ لہذا اپنے بہترین جوانوں ، خورد سال بچوں اور اصحاب کو لے کر قربانی اور شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو سیراب کرنے کے لیے کربلا کی طرف روانہ ہوگئے۔ بعض کوتاہ نظر لوگ کہتے ہیں کہ مدینے سے نکلے ہی کیوں؟ وہیں رہ کر علم مخالفت بلند کرتے اور قربانیاں دیتے لیکن وہ نہیں جانتے کہ اگر آپ مدینے میں رہتے تو آپ کا مقصد دانشمندان عالم سے پوشیدہ رہتا اور ان کو پتا نہ لگتا کہ حضرت کی مخالفت کس بنیاد پر تھی جس طرح اور ہزاروں حامیان دین کسی شہر میں حمایت حق کے لیے کھڑے ہوئے اور قتل ہوگئے لیکن کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا مقصد اور نقطہ نظر کیا تھا اور کیوں قتل ہوئے

۳۴۳

نیز دشمنوں نے بھی معاملہ کو دبا دینے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس امام حسین علیہ السلام جیسے یکتا دور اندیش مرد میدان حق و صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے ماہ رجب میں جس موقع پر لوگ عمرے کے لیے مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں تشریف لے گئے اور روز عرفہ تک خانہ خدا میں اکٹھا ہونے والے لاکھوں انسانوں کے سامنے اپنے خطبوں اور تقریروں کے ذریعے حق اور سچائی کو بے نقاب کیا اور سب کو بتایا کہ یزید پلید شجرہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی جڑیں کاٹ رہا ہے اور یہ حقیقت عام مسلمانوں کے گوش گزار کردی کہ جو یزید اسلامی خلافت کا دعوے کرتا ہے وہ اپنے عمل سے دین کو ملیامٹ کر رہا ہے۔ شراب پیتا ہے ، جوا کھیلتا ہے،کتے اور بندر سے دل بہلاتا ہے احکام دین کو پامال کرتا ہے اور میرے نانا رسول خدا(ص) کی محنتوں کو برباد کر رہا ہے۔ میں اپنے جد بزرگوار کا دین مٹنے نہ دوں گا۔ مجھ پر واجب ہے کہ قربانی دے کر اور جان نثار کر کے اس کی حفاظت کروں۔ پس حضرت کا قیام اور مدینے سے مکے اور مکے سے کوفے اور عراق کی طرف خروج شعائر دین کی حفاظت اور بنی نوع انسان کو دین یزید پلید کے اطوار و کردار ، مفاسد اخلاق، بیہودہ عقائد اور نفرت انگیز جابرانہ حرکات سے روشناس کرانے کے لیے تھا۔ آپ کے بنی اعمام بھائی اور دوست جو منع کرنے کے لیے آتے تھے وہ عرض کرتے تھے کہ جن کوفے والوں نے آپ کا خیر مقدم کرنا چاہا ہے اور دعوت نامے بھیجے ہیں۔ وہ بے وفائی میں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ یزید کی سلطنت اور بنی امیہ کے اقتدار سے جنہوں نے سالہا سال سے اس ملک کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔ آپ مقابلہ نہیں کرسکتے ، چونکہ اہل حق کم ہیں، لوگ دنیا کےبندے ہیں اور بنی امیہ کے پاس ان کو دنیاوی خوشحالی ملتی ہے۔ لہذا ان کے گرد جمع ہیں اور آپ کو کوئی نفع یا غلبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس اس سفر کو ملتوی کیجئے اور اگر حجاز میں ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھتے تو یمن چلے جائیں کیونکہ وہاں آپ کے ماننے والے بہت ہیں ، وہ لوگ غیرت مند ہیں آپ کوتنہا نہ چھوڑیں گے اور آپ ان اطراف میں آرام سے زندگی بسر کرسکیں گے لیکن حضرت سب کے سامنے پوری وضاحت نہیں کر سکتے تھے لہذا ہر ایک کو مختصر جوابات سے خاموش فرماتے تھے البتہ بعض ہمراز اور خاص اعزہ جیسے اپنے بھائی محمد حنفیہ اور ان عباس سے فرماتے تھے کہ تم سچ کہتے ہو میں بھی جانتا ہوں کہ مجھ کو ظاہری غلبہ نہ ہوگا اور نہ میں فتح اور غلبہ ظاہری کے لیے جا رہا ہوں بلکہ قتل ہونے جاتا ہوں یعنی مظلومیت کی طاقت سے ظلم و فساد کی بنیاد ہلانا چاہتا ہوں۔

بعض کی تسکین قلب کے لیے اصلیت کو ظاہر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ میں نے اپنے نانا رسول خدا(ص) کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرما رہے ہیں۔" اخرج إلى العراق فإنّ اللّه قدشاءأن يراك قتيلا" (یعنی عراق کی طرف سفر کرو کیوں کہ در اصل خدا تم کو شہید دیکھنا چاہتا ہے۔

محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے عرض کیا کہ اگر یہ بات ہے تو آپ عورتوں کو کیوں لیے جارہے ہیں؟ فرمایا

۳۴۴

میرے جد کا ارشاد ہے کہ " إنّ اللّه قدشاءأن يراهنّ سبايا" ( یعنی در حقیقت اللہ نے ان کو اسیر دیکھنا چاہا ہے۔) بحکم رسول (ص) میں ان کو اسیری کے واسطے لیے جارہا ہوں یعنی میری شہادت اور اہل بیت (ع) کی اسیری میں یہ رموز اسرار پوشیدہ ہیں کہ عورتوں کی اسیری میری شہادت کا تتمہ ہو جو مظلومیت کا علم اپنے کاندھوں پر لے کر یزید کے مرکز خلافت و اقتدار کی طرف جائیں گی وہاں اس کی بنیادیں ہلائیں گی اور اس کے ظلم وکفر کا پرچم سرنگوں کریں گی۔

چنانچہ عقیلہ بنی ہاشم صدیقہ صغری جناب زینب کبری سلام اللہ علیہا نے یزید کے بھرے ہوئے دربار اور جشن فتح میں اشراف قوم، بزرگان بنی امیہ ، غیر ممالک کے سفراء اور اور رئوسا، یہود و نصاری کے سامنے جو تقریر کی اور سید الساجدین امام چہارم زین العابدین علی ابن الحسین علیہ السلام نے شام کی مسجد اموی میں بالائے منبر یزید کے مقابل جو مشہور و معروف خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس نے اس کے اقتدار کی طاقت کو زیر کر دیا، عظمت بنی امیہ کا پرچم سرنگوں کردیا۔ اور خواب غفلت سے لوگوں کی انکھیں کھول دیں۔

حضرت نے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا :

"ايّهاالناس! اعطيناستّاوفضّلنابسبع،اعطيناالعلم والحلم والسّماحةوالفصاحةوالشّجاعةوالمحبّةفي قلوب المؤمنين،وفضّلنابأنّ منّاالنّبىّ المختارمحمّدا صلی الله عليه و آله وسلم،ومنّاالصّدّيق،ومنّاالطيّار،ومنّااسداللَّه واسدرسوله،ومنّاسبطاهذه الامّة و منا مهدی هذه الامة"

یعنی اے لوگو ہم کو ( یعنی آل محمد(ص) کو خدائے تعالی کی طرف سے ) چھ خصلتیں عطاکی گئی ہیں اور سات فضیلتوں کے ذریعے ہم کو ساری مخلوق پر ترجیح دی گئی ہے۔ ہم کو علم ، بردباری، جوانمردی، خوشروئی، فصاحت، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا ہوئی ہے کہ رسول مختار محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہین ، اسد اللہ اور اسد رسول (ص) ہم میں سے ہیں۔ اس امت کے و وسبط ( حسن و حسین(ع) ) ہم میں سے ہیں اور اس امت کے مہدی(عج) ( حضرت حجتہ ابن امام حسن العسکری عجل اللہ فرجہ ) ہم میں سے ہیں اس کے بعد اپنے کو پہچنواتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص مجھ کو پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ اب میرا حسب و نسب جان لے کہ میں صاحب صفات و فضائل مخصوصہ ( یہاں ان صفات کا طولانی بیان ہے جس کو مکمل طور سے بیان کرنے کا وقت نہیں) خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرزند ہوں۔ اس کے بعد اس منبر پر جہاں معاویہ کے زمانے سے شب و روز حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام پر کھلم کھلا لعنت اور سب وشتم کا سلسلہ قائم تھا اور حضرت پر جھوٹے الزامات عائد کئےجاتے تھے خود یزید اور رئوسائے بنی امیہ کے سے دشمن مجمع کے سامنے اپنے جدبزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب ( جن کو سننے کا اب تک شام والوں کو موقع ہی نہیں دیا گیا تھا) بیان کئے اور فرمایا ۔

"" أنا ابن من ضرب خراطين الخلق حتى قالوا: لا إله إلا الله.أنا أبن من ضرب بين يدي

۳۴۵

رسول الله نقرتين لعرض الصورة في صفحة مستقلة بسيفين وطعن برمحين، وهاجر الهجرتين، وبايع البيعتين، وقاتل ببدر وحنين، ولم يكفر بالله طرفة عين.

أنا أبن صالح المؤمنين، ووارث النبيين، وقامع الملحدين، ويعسوب المسلمين، ونور المجاهدين، وزين العابدين، وتاج البكائين، وأصبر الصابرين، وأفضل القائمين من آل ياسين، رسول رب العالمين.

أنا ابن المؤيد بجبرائيل، المنصور بميكائيل.

أنا ابن المحامي عن حرم المسلمين، وقاتل المارقين والناكثين والقاسطين والمجاهدين أعداءه الناصبين، وأفخر من مشى من قريش أجمعين، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنين، وأول السابقين، وقاصم المعتدين، ومبيد المشركين، وسهم من مرامي الله على المنافقين، ولسكان حكمة العابدين، وناصر دين الله وولي أمر الله، وبستان حكمة الله، وعيبة علمه.

سمح، سخي بهي، بهلول، زكي، أبطحي، رضي، مقدام، همام، صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الأصلاب، مفرق الأحزاب، أربطهم عناناً وأثبتهم جناناً، وأمضاهم عزيمة، وأشدهم شكيمة، أسد باسل، يطحنهم في الحروب إذا ازدلف الأسنة، وقربت الأعنة، طحن الرحا، ويذرهم فيها ذرو الريح الهشيم، ليث الحجاز وكبش العراق، مكي، مدني، خيفي، عقبي، بدري أحدي، شجري، مهاجري، من العرب سيدها، ومن الوغى ليثها، وارث المشعرين، وأبو السبطين: الحسن والحسين، ذك جدي علي بن أبي طالب (ع) " یعنی اس کا فرزند ہوں جس نے لوگوں کی ناکوں پر ضربیں لگائیں یہاں تک کہ انہوں نے لا الہ اللہ کہا میں اس کا فرزند ہوں جس نے رسول اللہ(ص) کے سامنے دو تلواروں سے جنگ کی ( یعنی ایک زمانے تک معمولی تلوار سے اور ایک مدت تک ذوالفقار سے ) دو نیزے چلائے، دو ہجرتیں کیں اور دوسری بیعتیں کیں، بدر وحنین میں کافروں سے جہاد کیا اور چشم زدن کے لیے بھی خدا سے کفر اختیار نہیں کیا۔ میں صالح المومنین انبیاء کے وارث، ملحدین کے سر توڑنے والے ، مسلمانوں کے بادشاہ جہاد کرنے والے کے نور اور عبادت کرنے والوں کی رونق و خوف خدا میں رونے والوں کے سرتاج، صبر کرنے والوں کے سردار اور اہلبیت(ع) رسول اللہ(ص) کے نماز گزاروں میں سب سے بہتر کا فرزند ہوں جس کی جبرئیل نے تائید کی اور میکائیل نے نصرت کی۔ میں فرزند ہوں مسلمانوں کی عزت بچانے والے، دین سے پھر جانے والوں (یعنی اہل نہروان) بیعت توڑنے والوں( یعنی اصحاب جمل) اور ظالموں اور باغیوں ( یعنی صفین والوں) کے قاتل اپنے ناصبی دشمنوں سے جہاد کرنے والے، طائفہ قریش کے سارے چلنے پھرنے والوں سے زیادہ صاحب فخر، سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول(ص) کی دعوت قبول کرنے والے ، ایمان کی طرف سبقت کرنے والوں کے پیش رو ظالمین کو توڑنے والے، مشرکین کو ہلاک کرنے والے

۳۴۶

منافقین پر خدا کے تیروں میں سے ایک تیر، پروردگار عالم کی زبان حکمت دین خدا کے مددگار ، امر الہی کے کفیل، حکمت خدا کے باغ، اس کے علم کے خزانے ، جوانمرد ، صاحب سخاوت ، کشادہ رو، نیک و پاکیزہ بطحا کے ساکن ، پسندیدہ صفات، میدان جنگ میں پیش قدمی کرنے والے، بزرگ سردار صبر کرنے والے، بلند اخلاق ، کثیر القیام، پشتوں کے قطع کرنے والے اور گمراہ گروہوں کے پراگندہ کرنے والے کا جس نے مستقل طور پر اپنے نفس کو ان سب سے زیادہ قابو میں رکھا جس کا دل سب سے زیادہ مضبوط اور جس کا شکم سب سے زیادہ محکم تھا ( یعنی مظلوموں کا حق ثابت کرنے میں جملہ افراد بشر سے زیادہ ثابت قدم تھا) میدان جنگ میں شیر زیاں تھا جو سواروں اور پیادوں کے اپنے نیزوں کے ساتھ قریب ہونے کے وقت مخالفین کو پیس کر رکھ دیتا تھا اور ان کو اس طرح ریزہ ریزہ اور متفرق کر دیتا تھا جیسے طوفانی آندھی خس و خاشاک کو منتشر کردیتی ہے ، حجاز والوں کا شیر، عراق والوں کا قائد، مکی، مدنی ، دین میں پاکیزہ ترین مسلم، عقبہ میں بیعت کرنے والا بدر و احد کا شہسوار ۔ بیعت شجرہ کا جوانمردہجرت کا یکتا فداکار ، عرب کا سید وسردار ، شیر پیشہ رہیجا۔ مشعرین کا وارث اور دو سبط پیغمبر حسن و حسین(ع) کا باپ، یہ ہیں میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل اس کے بعد فرمایا۔

"أناابن خديجةالكبرى ،أناابن فاطمةالزهراء،أناابن المزرحمن القفا،أناابن العطشان حتّى قضى،أناابن من منعه من الماء و احلوه علی سائر الوری. انا ابن من لا يغسل له و لا کفن يری. انا ابن من وقع راسه علی القنا. انا ابن من هتک حريمه بارضكربلا، انا ابن من جمه بارض و راسه باخری انا ابن من سبيت حريمه الی الشام تهدی. ثم انه صلوات الله عليه انتحب و بکی فلم يزل يقول انا انا حتی ضبع الناس بالبکاء والنحيب."

یعنی میں ہوں فرزند خدیجہ کبری(ع) کا، میں ہوں فرزند فاطمہ زہرا(ع) کا میں ہوں فرزند اس کا جو پشت گردن سے مذبوح ہوا۔ میں ہوں فرزند اس کا جو پیاسا دنیا سے اٹھا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس پر پانی بند کردیا گیا اور ساری مخلوق پر مباح رکھا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کو نہ غسل دیا گیا نہ کفن ملا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کا سر مطہر نیزے پر بلند کیا گیا۔ میں ہوں فرزند اس کا جس کے حرم کو اسیر کر کے شام کی طرف لایا گیا۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے بہ آواز بلند گریہ فرمایا اور برابر انا انا فرماتے رہے یعنی یونہی مسلسل اپنے آبا و اجداد کے فضائل و مناقب اور پدر بزرگوار و اہلبیت (ع) کے مصائب بیان فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگ چیخین مار مار کے روئے اور فریاد کرنے لگے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد بیان مصائب کی جو پہلی مجلس منعقد ہوئی وہ یہیں شام کی مسجد جامع اموی کے اندر تھی جس میں سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل و مناقب نقل کرنے کے بعد دشمنوں کے مجمع میں اپنے پدر عالی قدر کے اس قدر مصائب بیان فرمائے کہ یزید پلید کی موجودگی میں شام والوں کی صدائے نالہ و بکا اس طرح بلند ہوئی جس سے یزید ڈر گیا اور وہاں بیٹھ نہیں سکا بلکہ گھبرا کر مسجد سے چلا گیا۔

اسی مسجد اور حضرت کی تقریر سے بنی امیہ کے خلاف لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہونے لگا ( جس سے مجبور ہو کر یزید نے سیاسی رنگ میں ندامت کا اظہار کیا اور عبید اللہ ابن مرجانہ ملعون پر لعنت کی کہ اس نے ایسی افسوسناک حرکت کی۔ آخر کار بنی امیہ کے کفر و ظلم اور الحاد کے

۳۴۷

محل کے اینٹ سے اینٹ بچ گئی۔ یہاں تک کہ آج اس نابکار قوم کے پایہ تخت شام کے اندر بنی امیہ قبر بھی موجود نہیں ہے البتہ بنی ہاشم کا قبرستان شامیوں کا مرکز توجہ ہے اور عترت و اہلبیت رسول(ص) کی کافی قبریں شیعہ و سنی عوام و خواص کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہیں۔

غرضیکہ تمام ارباب مقاتل اور تواریخ نے لکھا ہے کہ حضرت مدینے سے مکے اور کربلا تک برابر کنایہ اور صراحتا اپنی شہادت کی خبر دیتے رہے اور لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ میں قتل ہونے کے لیے جا رہا ہوں۔

من جملہ اور خطبوں کے ایک تفصیلی خطبہ ہے جو حضرت نے روز ترویہ مکہ معظمہ میں تمام مسلمانوں کے سامنے ارشاد فرمایا اور جس میں صاف صاف اپنی شہادت کی خبر دی ۔ چنانچہ حمد الہی اور خاتم الانبیاء پر درود بھیجنے کے بعد فرمایا :

" خط الموت على ولد آدم مخط القلادة على جيد الفتاة وما أولهني إلى أسلافي اشتياق يعقوب إلى يوسف ، وخير لي مصرع انا لاقيه ، كأني بأوصالي تقطعها عسلان الفلوات بين النواويس " (1)

یعنی اولاد آدم(ع) کے موت اس طرح گلوگیر ہے جیسے جوان عورت کی گردن میں گلو بند ہیں اپنے اسلاف سے جاملنے کا کس قدر مشتاق ہوں جیسے کہ یعقوب یوسف(ع) کے لیے بیچین تھے اور میرے

گرنے کے لیے وہ زمین منتخب کی گئی ہے جہاں مجھ کو پہنچنا ہے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرائی بھیڑئیے نواویس و کربلا کے درمیان میرے جسم کا بند بند جدا کررہے ہیں، حضرت اس قسم کے جملوں سے لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ میں کوفے اور مقام خلافت تک پہنچوں گا بلکہ نواویس اور کربلا کے درمیان خونخوار بھیڑیوں کے ہاتھوں قتل ہوجائوں گا ۔ بھیڑیوں سے مراد آپ کے قاتل اور بنی امیہ وغیرہ ہیں اور وہ خونخوار بھیڑیوں کے مانند مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کریں گے۔

اس قسم کی باتوں اور روایتوں سے آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے شہادت کے قصد سے سفر فرمایا تھا نہ کہ ریاست و خلافت کے خیال سے۔ آپ راستے بھر مختلف طریقوں سے اپنی موت کی خبر دیتے تھے اور برابر ہر منزل پر اپنے اصحاب و اعزہ کو جمع کر کے فرماتے تھے کہ دینا کی پستی اور بے وقعتی کے لیے یہی واقعہ کافی ہے کہ حضرت یحی (ع) کا سر قلم کر کے ایک زنا کار عورت کے سامنے ہدیہ لے گئے تھے اور عنقریب مجھ مظلوم کا سر بھی بدن سے جدا کر کے یزید شراب خوار کے پاس لے جاییں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ جلیل القدر محدث ثقہ الاسلام حاجی شیخ عباس قمی طاب ثراہ نفس المہموم میں کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ محدث نوری رحمتہ اللہ نے کتاب نفس الرحمن میں کہا ہے کہ نواویس عیسائیوں کا قبرستان ۔ چنانچہ حواشی کفعمی میں لکھا ہے اور ہم نے سنا ہے کہ یہ قبرستان اس مقام پر واقع تھا جہان اب حر ابن یزید ریاحی کا مزار ہے یعنی شہر کربلا کے شمال جنوب میں اور کربلا جو لوگوں میں معروف ہے اور اس نہر کے کنارے ایک خطہ زمین ہے جو جنوب سے شہر کی طرف جارہی ہے اور مزار معروف بہ ابن حمزہ سے گزرتی ہے اس کے ایک حصے پر کھیت ہیں اور شہر کربلا ان دونوں کے درمیان ہے۔

۳۴۸

حضرات ذرا غور کیجئے کہ جس وقت کوفے سے دس فرسخ پر حر ابن یزید ریاحی نے ایک ہزار سواروں کے ساتھ حضرت کی راہ روکی اور عرض کیا کہ عبید اللہ ابن زیادکے حکم سے میں آپ کا نگران مقرر ہوا ہوں، نہ آپ کو کوفے جانے دوں گا اور نہ تا حکم ثانی ساتھ چھوڑوں گا تو حضرت کہنا مان کر کیوں اتر پڑَ اور اپنے کو حر کے قابو میں دے دیا۔

اگر حضرت امارت و خلافت کے خیال میں ہوتے تو لشکر حر کی خواہش ہرگز قبول نہ کرتے در آنحالیکہ حر کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ سپاہی نہیں تھے اور حضرت کے ہمراہ تیرہ سو سوار اور پیاے تھے جن میں قمر بنی ہاشم جناب عباس(ع) اور علی اکبر(ع) جیسے ہاشمی جوان بھی تھے جن میں سے ایک ایک فرد ایک ہزار سپاہیوں کو زیر کرنے کے لیے کافی تھا اور کوفے تک بھی دس فرسخ کچھ زیادہ نہیں تھے۔ قاعدے کے مطابق چاہئیے تو یہ تھا کہ ان کو شکست دے کر اپنے کو مرکز حکومت ( کوفہ) تک پہنچا دیتے جہاں لوگ آپ کے منتظر بھی تھے ۔ وہاں سازو سامان سے مضبوط ہو کر مقابلہ کرتے ۔۔۔۔ تاکہ غلبہ حاصل ہوتا ، نہ یہ کہ حر کی باتیں مان کے فورا ٹھہر جائیں اور اپنے کو ایک بیابیان میں دشمنوں کے اندر محصور کر لیں، کہ چار روز کے بعد جب دشمن کی کمک پہنچ جائے تو فرزند رسول (ص) کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑے ۔ حضرات اگر اس واقعے کے قرائن پر گہری نظر ڈالیے تو آپ کو خود ہی جواب مل جائے گا اور سمجھ میں آجائے گا کہ حضرت نے کسی اور ہی نیت سے یہ مسافت طے کی تھی ۔ اس لیے کہ اگر ریاست کی خواہش ہوتی تو جس وقت دشمنوں کا محاصرہ انتہائی شدت پر تھا اور چاروں طرف کوسوں تک دشمن کی فوجیں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپ ایسے طریقے اختیار نہ فرماتے کہ اپنی چھوٹی سی جماعت اور موجودہ طاقت کو بھی منتشر کردیں۔

عاشورا کی شب میں حضرت کا خطبہ ہمارے دعوے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ اس لیے کہ شب عاشور تک حضرت کی خدمت میں تیرہ سو سپاہی موجود تھے جو لڑنے مرنے پر آمادہ تھے لیکن اسی رات کو نماز مغربین کے بعد حضرت کرسی پر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں صاف صاف ایسے کلمات بیان فرمائے کہ اس لشکر اور جاہ طلب اشخاص پر خوف طاری ہوگیا ، تمام ارباب مقاتل نے لکھا ہے کہ حضرت نے فرمایا جو لوگ دنیاوی ریاست و حکومت کے خیال میں آئے ہیں وہ جان لیں کہ کل جو شخص اس سر زمین پر رہے گا وہ قتل ہوجائے گا۔ یہ لوگ سوا میرے کسی اور کو نہیں چاہتے ۔ میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں، رات کا وقت ہے اٹھو اور چلے جائو ۔ ابھی حضرت کی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ساری جماعت روانہ ہوگئی اور صرف بیالیس نفر باقی رہ گئے ، جن میں اٹھارہ بنی ہاشم اور چوبیس اصحاب تھے۔ آدھی رات کے بعد دشمن کے لشکر سے تیس بہادر سپاہی شبخوں کے ارادے سے نکل کے آئے لیکن جب حضرت کے تلاوت قرآن کی آواز سنی تو وجد کے عالم میں آکر امام کی خدا پرست فوج سے مل گئے۔ چنانچہ بناء بر مشہور یہی کل بہتر افراد روز عاشور حق پر قربان ہوئے جن میں سے اکثر زہاد و عباد اور قاریان قرآن تھے۔

یہ سب ایسے واضح دلائل اور قرائن ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ حضرت نے دنیاوی انقلاب کے قصد سے اور جاہ و سلطنت کی محبت میں مسند خلافت تک پہنچنے کے لیے سفر نہیں فرمایا تھا بلکہ آپ کا واحد مقصد ترویج دین حمایت حق اور حریم اسلام سے دفاع کرنا تھا۔ اور وہ بھی اس طریقے سے کہ جان نثار کر کے لا الہ الا اللہ کا پرچم بلند کریں اور کفر و فساد کا علم سر نگوں کردیں۔ کیونکہ دین

۳۴۹

کی نصرت و حمایت کبھی تو قتل کرنے سے ہوتی ہے اور کبھی قتل ہونے سے ۔ چنانچہ حضرت کمر باندھے مردانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور مظلومیت کی قوت سے نیز احباب و اعزاء بالخصوص چھوٹے چھوٹے بچوں کی قربانیوں کی طاقت سے بنی امیہ کے ظلم و فساد کی جڑ اس طرح اکھاڑی کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو بلند کرنے اور شجرہ مقدسہ اصلہا ثابت کو سیراب کرنے میں آپ کی جلیل القدر خدمات کا آج ہر دوست و دشمن کو اعتراف ہے کہ یہاں تک کہ دیں سے بیگانہ افراد بھی دلیل و برہان کے روسے اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں۔

امام حسین (ع) کی مظلومیت پر انگلینڈ کی خاتون کا مقالہ

فرانس کے انیسویں صدی کے دائرۃ المعارف میں تین شہید کے عنوان سے انگلینڈ کی ایک ذی علم خاتون کا مقالہ ہے جو بہت تفصیلی ہے لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لکھتی ہیں تاریخ انسانیت میں اعلائے کلمہ حق کے لیے تین شخصیتوں نے ایسی جانبازی اور فداکاری دکھائی کہ سارے جانبازوں اور فداکاروں سے گوئے سبقت لے گئیں۔

اول یونان کے حکیم سقراط نے ایتھنس میں دوسرے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام نے فلسطین میں ( یہ عقیدہ موصوفہ کا ہے جو عیسائی ہیں ۔ ورنہ ہم مسلمانوں کا اعتقاد تو یہ ے کہ حضرت مسیح مصلوب و مقتول نہیں ہوئے جیسا کہ سورہ نمبر4 ( نساء) آیت نمبر156 میں صریحی ارشاد ہے۔

"وَماقَتَلُوهُ وَماصَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِين َاخْتَلَفُوافِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّااتِّباعَ الظَّنّ ِوَماقَتَلُوه يَقِيناًبَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ"

یعنی عیسی بن مریم کو نہ قتل کیا نہ سولی دی بلکہ حقیقت ان پر مشتبہ ہوگئی اور جن لوگوں نے ان کے بارے میں اختلاف کیا وہ در حقیقت شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کو سوا اپنے گمان کی پیروی کے کوئی علم حاصل نہیں تھا اور یقینی طور پر مسیح کو انہوں نے قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔

تیسرے مسلمانوں کے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ ) کے فرزند حضرت حسین علیہ السلام ، نے اس کے بعد لکھا ہے کہ جب ان تینوں بزرگ شہیدوں میں سے ہر ایک شہادت و جانبازی کی کیفیت اور تاریخی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ حضرت حسین (ع) کی جانبازی اور فداکاری ان دو ہستیوں ( یعنی سقراط و عیسی(ع)) سے کہیں وزنی اور اہم تحی اور اسی وجہ سے آپ کو سید الشہداء کا لقب حاصل ہوا کیوں کہ سقراط اور حضرت مسیح نے خدا کی راہ میں صرف اپنی اپنی جانیں قربان کیں، لیکن حضرت حسین علیہ السلام نے سفر غربت اختیار کر کے اپنی جماعت سے دور ایک بیابان میں دشمنوں کے محاصرے کے اندر اپنے ایسے عزیزترین اعزہ کو حق پر قربان کیا اور ان کو اپنے ہاتھوں دشمن کے سامنے بھیج کے دین خدا پر نثار کیا جن میں سے ایک ایک کو ہاتھ سے دینا خود اپنا سر دینے سے زیادہ سخت تھا۔

مظلومیت حسین (ع) کی سب سے بڑی دلیل مسلمانوں کے سامنے آپ کا اپنے شیر خوار کی قربانی دینا ہے۔ اس لیے کہ کسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک شیر خوار بچے کو بے قدر و قیمت پانی طلب کرنے کے لیے لایا جائے اور مکار و غاباز قوم پانی دینے کے عوض اس کو تیر جفا کا نشانہ بنادے۔

۳۵۰

دشمن کے اس عمل نے حسین(ع) کی مظلومیت کو ثابت کردیا اور اسی مظلومیت کی طاقت نے بنی امیہ کے مقتدر خاندان کی بساط عزت پلٹ کے اس کو رسوائے زمانہ بنا دیا۔ آپ کی اور آپ کے محترم اہلبیت (ع) ہی کی جانبازیوں کا نتیجہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین کو از سر نو زندگی حاصل ہوئی۔ ( انتہی)

ڈاکٹر ماربین جرمنی، ڈاکٹر جوزف فرانسیسی اور دوسرے یورپین مورخین سب کے سب اپنی تاریخوں میں تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کا کردار اور ان بزرگوار کی فداکاری ہی مقدس دین اسلام کے لیے سبب حیات بنیں۔ یعنی آپ نے بنی امیہ کے ظلم و کفر کی رگیں کاٹ دیں، ورنہ اگر حضرت کے یہ خدمات اور نصرت حق میں ایسا ثابت قدم نہ ہوتا تو بنی امیہ دین توحید کی جڑیں بالکل ہی کاٹ دیتے اور خدا و رسول(ص) اور دین و شریعت کا نام ہی دنیا سے مٹا دیتے۔

نتیجہ مطلوب اور انکشاف حقیقت

پس میرے معروضات کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت سید الشہداء ارواحنا لہ الفداء کی مقاوست اور جنگ صرف دین کے لیے تھی جس کے انصاف پسند دوست و دشمن بھی معترف ہیں۔

لہذا حضرت کے زوار و عزادار اور دوستدار شیعہ جس وقت سنتے ہیں کہ آپ نے یزید سے اس لیے مقابلہ کیا کہ وہ حرام اور ناجائز افعال کا مرتکب تھا تو ان کو توجہ ہوجاتی ہے کہ بد اعمالیاں حضرت کی ناراضگی کا باعث ہیں اور پھر و محرمات و منکرات سے الگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں جو امام کو ناگوار ہیں، اور واجبات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جب وہ سنتے ہیں اور کتب مقاتل و تواریخ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت نے روز عاشورا بلائوں کے اس ہجوم اور مصائب کی اس شدت میں جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ عالم قاصر ہے اپنی نماز ترک نہیں کی بلکہ نماز ظہر با جامعت ادا فرمائی تو ادائے واجبات بلکہ نوافل و مستحبات میں بھی سعی بلیغ سے کام لیتے ہیں تاکہ حضرت کے نزدیک محبوب اور لائق توجہ قرار پائیں۔ اس لیے کہ حضرت کا محبوب یقینا خدائے تعالی کا محبوب ہے لہذا جو تصور آپ یا دوسرے لوگوں نے قائم کیا ہے وہ خلاف حقیقت اور مغالطہ بازی ہے۔ آپ دھوکے میں ہیں اور مطلب غلط نکالا ہے بلکہ آپ حضرات کے قول کے بر خلاف اس طرح کی حدیثیں شیعوں کی روحانی قوت کو بیدار کر کے ان کو اور زیادہ عمل پر آمادہ کرتی ہیں۔ خصوصا جب علماء و ذاکرین مطالب کی تشریح کرتے ہیں اور حضرت کے فلسفہ شہادت کو کما حقہ بیان کرتے ہیں تو بہت ہی اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے خود برابر ان حقائق کامشاہدہ کیا ہے کہ ہر سال محرم میں حضرت کے طفیل اور ان مجلسوں کی برکت سے جو آپ کے نام منعقد ہوتی ہیں اور لوگ ان میں اکٹھا ہوتے ہیں۔ اکثر بہکے ہوئے نوجوان واعظین کرام اور مبلغین عظام کے تبلیغی بیانات سے متاثر ہو کر راہ راست اور صراط مستقیم پر آگئے اور جملہ افعال بد سے توبہ کر کے سچے شیعوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

( جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو اکثر حضرات اشکبار آنکھوں کے ساتھ سکوت کے عالم میں ںظر آئے اور ہم نے ارادہ کیا کہ اب جلسہ برخاست کریں۔)

۳۵۱

نواب : قبلہ صاحب باوجودیکہ وقت کافی گزرا لیکن آپ نے ہم لوگوں کو حد سے زیادہ متاثر فرمایا اور اس بزرگ و فداکار شخصیت کو جو ریحانہ رسول(ص) تھی اپنے اس مختصر بیان سے بخوبی پہچنواکر ہم سب کو ممنون کیا۔ آپ کے جد رسول خدا(ص) آپ کو اس کا صلہ عنایت فرمائیں۔ میں ہیں سمجھتا کہ آج کی شب اس جلسے میں کوئی ایسا شخص ہو جس پر جناب کا اثر نہ پڑا ہو۔ خدا آپ سے راضی رہے اور اپنا لطف و کرم آپ کے شامل حال رکھے ہم کو اس طرح مستفیض فرمایا۔ در حقیقت بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہم اب تک لوگوں کی باتوں میں آکر ان کی اندھی تقلید کرتے رہے اور ان مظلوم آقا کی زیارت اور مجالس عزا کی شرکت کے فیوض و برکات سے محروم رہے یہ محض اس غلط پروپیگینڈے کا اثر تھا جو وہ تعصب کی بناء پر ہمارے درمیان کرتے رہے اور کہتے رہے کہ زیارت امام حسین(ع) اور مجالس عزا میں جانا بدعت ہے۔ واقعی کیا اچھی بدعت ہے جو انسان کو بیدار اور صاحب معرفت بناتی ہے اور اہلبیت(ع) رسول(ص) و خدمت گزاران دین و شریعت کی حقیت سے روشناس کرتی ہے۔

زیارت کا ثواب اور اس کے فوائد

خیر طلب : یہ جو آپ نے اہلبیت و عترت رسول (ع) کی عزاداری اور ان کی زیارت قبور کے متعلق بدعت کا جملہ فرمایا تو اس کا سرچشمہ قطعی طور پر نواصب و خوارج کے عقائد ہیں اور علماء اہلسنت نے بھی بغیر اس پر غور کئے ہوئے کہ بدعت وہ چیز ہے جس کے بارے میں خدا و رسول(ص) یا اہلبیت رسول(ع) کی جانب سے جو عدیل قرآن ہیں کوئی ہدایت نہ ملی ہو۔ بر بنائے عادت ان کی پیروی کی ہے حالانکہ امام حسین علیہ السلام کے لیے رونے اور ان کی زیارت کے بارے میں علاوہ اس کے کہ شیعوں کی معتبر کتابوں میں تواتر کےساتھ وارد ہوا ہے۔ خود آپ کی معتبر کتب اور مقاتل میں بھی تمام بڑے بڑے علماء نے کافی روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں اس سے قبل اشارہ کرچکا ہوں۔ اس وقت تنگی وقت کے لحاظ سے زیارت کے متعلق ایک مشہور روایت پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں جو تمام مقاتل اور حدیث کی کتابوں میں درج ہے۔ ایک روز رسول خدا(ص) ام المومنین عائشہ کے حجرے میں تشریف رکھتے تھے کہ حسین علیہ السلام حاضر ہوئے پیغمبر(ص) نے ان کو آغوش محبت میں لے کر کثرت سے بوسے دیئے اور سونگھا۔ عائشہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ(ص) حسین(ع) کو کس قدر چاہتے ہیں؟ آںحضرت (ص) نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ یہ میرا پارہ جگر اور میرا پھول ہے؟ اس کے بعد آنحضرت(ص) رونے لگے۔ عائشہ نے گریے کا سبب پوچھا تو فرمایا میں تلواروں اور نیزوں کے مقامات چومتا ہوں جو بنی امیہ میرے حسین(ع) پ؛ر لگائیں گے۔ عائشہ نے عرض کای کیا ان کو قتل کرینگے؟ فرمایا ہاں ان کو بھوکا اور پیاسا شہید کریں گے۔ ان لوگوں کو ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں نہ ہوگی خوشا حال اس شخص کا جو بعد شہادت ان کی زیارت کرے۔ عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ان کے زائر کو کیا ثواب ملے گا؟ فرمایا میرے ایک حج کا ثواب۔ عائشہ نے تعجب سے کہا کہ آپ کا ایک حج؟ فرمایا میرے دو حج کا۔ عائشہ نے اور زیادہ تعجب کیا تو فرمایا میرے چار حج کا۔ عائشہ برابر تعجب ظاہر کرتی جاتی تھیں اور آنحضرت(ص) ثواب میں اضافہ فرماتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ فرمایا عائشہ جو شخص میرے حسین(ع) کی زیارت کرے خدا اس کے نامہ اعمال میں میرے نوے حج اور نوے عمروں کا ثواب درج فرمائیگا۔ اس کے بعد عائشہ چپ ہوگئیں۔ خدا کے لیے آپ حضرات انصاف

۳۵۲

کیجئے کہ کیا ایسی زیارت بدعت ہے جو رسول اللہ (ص) کی سفارش اور توجہ کی مرکز ہو؟ حضرت کی زیارت اور مجالس عزا میں شرکت کی مخالفت اور اس کو بدعت سے تعبیر کرنا یقینا آںحضرت(ص) اور اہلبیت طاہرین(ع) کی دشمنی ہے۔

زیارت قبور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اثرات

باطنی فوائد اور اخروی اجر کے علاوہ قبور ائمہ طاہرین(ع) کی زیارت میں جو ظاہری منافع ملحوظ ہیں۔ وہ ہر عقل مند انسان کو اس بزرگ عبادت کی طرف راغب کرتے ہیں جو اور بہت سی عبادتوں کی باعث ہوتی ہے۔

آپ اگر ان عتبات عالیات سے مشرف ہوں تو کھلا ہوا مشاہدہ کریں گے کہ (رات کے درمیان چند گھنٹوں کے علاوہ جب کہ خدام کے آرام اور صفائی کے لیے حرم بند رہتا ہے طلوع صبح کے دو گھنٹے قبل سے تقریبا آدھی رات تک روز و شب وہ حرم اور قبروں کے پاس کی مسجدیں زائرین اور مجاورین اور خواص و عوام سے بھری رہتی ہیں اور یہ سب لوگ مختلف عبادتوں، واجب و مستحب نمازوں، تلاوت قرآن درورد و اداء وظائف می سرگرم رہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے گھروں اور وطنوں میں سوا واجبات ادا کرنے کے زیادہ عبادتوں کی توفیق نہیں رکھتے وہ بھی ان مقدس مقامات میں زیارت اور قربت محبوب کے شوق میں طلوع صبح سے دو گھنٹے پہلے مشرف ہو کر تہجد اور اپنے پروردگار سے مناجات میں مصروف رہتے ہیں اور تلاوت قرآن اور خوف خدا سے گریہ و زاری ان کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ وہاں سے واپسی کے بعد بھی عبادات میں مشغول اور گناہوں سے الگ رہتے ہیں اور بڑے اشتیاق کے ساتھ نوافل اور قضا نمازیں بجالاتے ہیں۔

آیا یہ عمل جو دوسرے بہت سے اعمال کا سبب بنتا ہے اور لوگ اس کے ذریعے توفیق حاصل کر کے طرح طرح کی عبادتوں میں منہمک ہوتے ہیں اور رات دن میں کم از کم صبح سے پہر اور رات کو دو تین گھنٹے نماز و دعا و تلاوت قرآن اور ورد وظائف میں مشغول رہ کر اپنے کو پروردگار کی رحمت و عنایت کا مستحق بناتے ہیں بدعت ہے؟

اگر زیارت مزارات ائمہ اطہار(ع) کا اور کوئی نتیجہ نہ ہوتا تو صرف یہی عبادتوں کی توفیق اور سرگرمی ہی اس کا شوق دلانے کے لیے کافی تھی تاکہ ان وسائل سے اپنے معبود کے ساتھ رابطہ مضبوط کر کے روحانی طہارت حاصل کریں جو تمام نیک بختیوں کی جڑ ہے۔( کیونکہ اپنے شہروں اور گھروں میں رہ کے دنیاوی مشاغل کی وجہ سے پورا میلان پیدا نہیں ہوتا۔)

کیا آپ بلاد اہل تسنن میں ہم کو کوئی ایسا مقدس مقام بتاسکتے ہیں جہاں عالم و جاہل اور عوام وخواص چوبیس گھنٹے عبادات میں مشغول رہتے ہوں سوا مسجدوں کے جہاں فقط نماز پڑھ کے فورا متفرق ہوجاتے ہیں؟ بغداد اور معظم میں جہاں شیخ عبدالقادر جیلانی اور امام ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ ہمیشہ ان کے دروازے بند رہتے ہیں ، صرف نماز کے وقت ان مزاروں کی مسجدیں کھولی جاتی ہیں اور چند مخصوص آدمی آکر نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ شہر سامراء میں جہاں شیعوں کے دو برحق امام حضرت ہادی علی نقی علیہ السلام ( امام دہم)

۳۵۳

اور حضرت حسن عسکری علیہ السلام ( امام یازدہم) مدفون ہیں تمام شہر کے باشندے یہاں تک کہ آستانہ مقدس کے خدام بھی جو برادران اہل سنت میں سے ہیں، طلوع فجر کے قریب بڑی زحمت سے جب شیعہ زائرین و مجاورین اور اہل علم چیخ پکار مچاتے ہیں۔ تب حرم کا پھاٹک کھولتے ہیں لیکن ہم کو ایک بھی بوڑھا جوان عالم و جاہل سنی ایسا نظر نہیں آتا جو اس مسجد کے کسی گوشے میں مشغول عبادت ہو۔ یہاں تک کہ خدام بھی دروازہ کھولنے کے بعد جا کر سوجاتے ہیں۔ البتہ شیعہ لوگ حرم کے اندر پورے ذوق و شوق کے ساتھ عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اثرات اور برکات جو ان مقدس مزارات سے شیعوں کو نصیب ہوتے ہیں۔ خدا آپ کو مشرف ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ عراق عرب میں آپ کو دو شہر ایک دوسرے کے پہلو میں صرف دو فرسخ کے فاصلے سے نظر آئیں گے یعنی کاظمین اور بغداد ۔ اول الذکر شیعوں کا مرکز ہے جس میں امام ہفتم حضرت ابو ابراہیم موسی بن جعفر اور امام نہم ابو جعفر محمد ابن علی الجواد علیہم السلام کا مزار مبارک ہے اور دوسرا اہل سنت کا مرکز ہے جس میں شیخ عبدالقادر جیلانی اور آپ کے امام اعظم ابوحنیفہ کی قبریں ہیں۔ اگر اگر آپ غور کیجئے تو شیعوں کے برحق پیشوائوں اور اماموں کے بلند تعلیمات کا اندازہ ہوجائے گا اور بچشم خود دیکھئے گا کہ ان دونوں مقدس قبروں اور ان کی زیارت کے برکات سے کاظمین کے باشندے اور زوار شب میں جلد سوجاتے ہیں اور طلوع فجر سے دو گھنٹے قبل بیدار ہو کر پورے ذوق و شوق سے عبادت وتہجد کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے شیعہ تجار بھی جن کی دکانیں اور تجارتیں بغداد میں ہیں لیکن مکانات کاظمین میں ہیں سحر کے وقت حرم مطہر کے اندر عبادت الہی میں مشغول رہتے ہیں۔

لیکن اہ بغداد کس قدر گناہوں میں غرق، عیاشی اور شہوت پرستی کے دلدادہ اور خواب غفلت میں مدہوش ہیں۔

نواب : واقعی اس وقت اپنے اوپر لعنت کرنے کا موقع ہے کہ ہم لوگ بغیر تحقیق کئے کس لیے اںکھیں بند کر کے بہکانے والوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ چند سال قبل ایک قافلہ یہاں سے روانہ ہوا جس میں بدقسمتی سے میں بھی شامل تھا۔ ہم لوگ امام اعظم ابوحنیفہ اور جناب عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہما کی زیارت کے لیے بغداد گئے لیکن ایک روز میں گھومنے کے لیے کاظمین چلا گیا جب واپس ہوا تو میرے رفیقوں نے مجھ کو کچھ سخت و سست کہا۔ بڑے تعجب کا مقام ہے کہ معظم میں امام اعظم کی، بغداد میں شیخ عبدالقادر کی، ہندوستان میں خواجہ نظام الدین کی اور مصر میں شیخ اکبر مقبل الدین کی زیارتیں تو جائز اور موجب ثواب ہوں جن کے لیے ہر سال ہم لوگوں میں سے کافی اشخاص جاتے رہتے ہیں حالاکہ ان کے بارے میں رسول اللہ(ص) سے قطعا کوئی روایت بھی مروی نہیں ہے لیکن راہ خدا کے فدا کار مجاہد اور ریحانہ رسول(ص) کی زیارت جس کے لیے پیغمبر(ص) نے اس قدر ثواب بیان فرمایا ہے اور عقلا بھی یہ ایک مستحسن کام ہے بدعت ہوجائے۔ اس وقت میں نے قطعی اور پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ انشاء اللہ اگر زندہ رہا تو اس سال قربتہ الی اللہ اور خوشنودی خدا کے لیے رسول خدا(ص) کے فرزند عزیز جناب حسین شہید(ع) کی زیارت کے لیے جائوں گا اور خدا سے دعا کروں گا کہ میری پچھلی غلطیوں کو معاف فرمائے۔

اب آج کی شب میں دلی تاثر کے ساتھ انشاء اللہ کل رات تک کے لیے رخصت ہوتا ہوں۔

ختم شد

۳۵۴

فہرست

من لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ 2

اشارہ 3

بسم اﷲ الرحمن الرحیم 4

آغازِ سفر 4

مجلسِ مناظرہ 6

پہلی نشست 6

شب جمعہ 23 رجب سنہ 1345 ہج 6

ذریت رسول (ص)کے بارے میں بارون رشید اور امام موسی کاظم (ع)کا سوال وجواب 9

اس بات پر کافی دلائل کہ اولاد فاطمہ (س)اولاد رسول(ص)ہیں 11

پیغمبر(ص)نماز ظہ ر ین و مغربین جمع وتفریق دونوں طرح س ے پ ڑھ ت ے ت ھے 13

بنی امیہ کے دلدوز حرکات 19

واقعہ شہادت زیدبن علی علیہ السلام 20

شہادت جناب یحیٰ 21

قبر علی علیہ السلام کا ظہور 22

مدفن امیرالمومنین علیہ السلام میں اختلاف 23

دوسری نشست 25

۳۵۵

شب شبنہ 24 رجب سنہ 1345 ھ 25

مذہب شیعہ پر اشکال پیدا کرنا 26

مخالفین کی اشکال تراشیوں کا جواب 27

شیعہ اور حقیقت تشیع کے معنی 29

مقام تشیع کی تشریح میں آیات و روایات 31

سلمان و ابوذر اور مقداد و عمار کی منزل 36

خلفاء دیالمہ اور غازاں خان اور شاہ خدا بندہ کے زمانہ میں 37

ایرانیوں کی توجہ اور تشیع کا سبب 37

مغلوں کے دور میں تشیع کا ظہور 40

قاضی القضاة کے ساتھ علامہ حلی کا مناظرہ 40

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا 43

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں 44

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا 45

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ 50

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے 51

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں 52

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے 54

۳۵۶

تیسری نشست 56

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ 56

عقائد زیدیہ 57

عقائد کیسانیہ 58

عقائد قداحیہ 59

عقائد غلات 59

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ 60

حدیث معرفت پر اعتراض 63

اعترض کا جواب 63

صحیحین بخاری ومسلم میں خلاف عقل روایتیں 65

رویت باری تعالی کے بار ے م یں اہ ل سنت ک ی چند روایتیں 66

اللہ تعالی کے عدم رو یت پر دلائل اخبار 68

خرافات صحیحین کی طرف اشارہ 69

ملک الموت کے چ ہ ر ے پر موس ی علیہ السلام کا تھ پ ڑ مارنا 71

انصاف موجب معرفت اور سبب سعادت ہے 72

شیعوں کی طرف شرک کی نسبت دینا 75

شرک کے اقسام 76

۳۵۷

شرک جلی 77

شرک در ذات 77

عقائد نصاری 77

شرک درصفات 78

شرک در افعال 78

شرک در عبادت 79

نذر کے بار ے م یں 80

شرک خفی 82

شرک در اسباب 83

شیعہ کسی پہ لو س ے مشرک ن ہیں 83

آصف بن برخیا کا سلیمان کے پاس تخت بلق یس لانا 85

آل محمد (ع)فیض الہی کے ذر یعے ہیں 86

حدیث ثقلین 87

بغیر تعصّب کے بار یک بینی سعادت کا سبب ہے 88

بخاری اور مسلم نے مردود اور جعل سازرجال س ے روا یتیں نقل کی ہیں 90

صحیحین بخاری ومسلم میں مضحک روایت اور رسو ل(ص)کی اہ انت 91

حدیث ثقلین کے اسناد 92

۳۵۸

حدیث سفینہ 94

دعائے توسل 98

اس جماعت کے فتو ے س ے ش ہید اول کی شہ ادت 100

"قاضی صیدا" کی بد گوئی سے ش ہید ثانی کی شہ ادت 102

انصاف پسند لوگوں کی توجہ کیلئے عمدہ بحث 103

ایرانیوں کے ساتھ ترکیوں ، خوارزمیوں ، ازبکوں اور افغانوں کا شرمناک رویہ 104

ایران مین خان خیوہ کے مظالم اور شیعوں کے قتل وغارت کے لئے علمائے اہل سنت کے فتوے 105

شیعوں کے قتل وغارت پر علمائے اہل سنت کے فتوے اور خراسان پر عبداللہ خاں ازبککے حملے 106

افغانستان کے شیعوں سے افعانی امیروں کا سلوک 106

شہید ثالث کی شہ ادت 107

شیخ کا اقدام، شبہہ ک ی ایجاد حملے ک ے لئ ے وس یلے کی تیاری-----اور---- اس کا دفاع 108

زیارت کے آداب 110

نماز زیارت اور دعائے بعد از نماز 110

ائمہ علیھ م السلام کے روضو ں پر آستان ہ بوس ی شرک نہیں ہے 112

بھائیوں کا یوسف(ع) کے لیے خاک پر گرنا اور سجدہ کرنا 114

جسم کی فنا کے بعد روح کی بقا 115

بقائے روح میں اشکال اور اس کا جواب 116

۳۵۹

اہل مادہ طبیعت کا ظہور اور حکیم سقراط سے ویمقراطیس کا مقابلہ 116

یورپ میں علمائے الہی کے اقوال 117

معاویہ و یزید کی خلافت اور ان کے کفر کی طرف سے مخالفین کا دفاع اور اس کا جواب 119

یزید کے کفر ارتداد پر دلائل 120

یزید پلید(لع) کی لعن پر علمائے اہل سنت کی اجازت 123

یزید کی بیعت توڑنے کے جرم میں اہل مدینہ کا قتل عام 124

گمنام جاں نثار 127

آل محمد(ص) شہدائے راہ خدا اور زندہ ہیں 129

چوتھی نشست 131

شب دوشنبہ 26 رجب سنہ 1345 ھ 131

آپ نے حقیقت کا نکشاف کر کے ہم پر احسان کیا 131

امامت کے بارے میں بحث 132

اہلسنت کے مذاہب اربعہ پر بحث اور کشف حقیقت 132

مذاہب اربعہ کی پیروی پر کوئی دلیل نہیں ہے 134

یہ عجیب معاملہ صاحبان عقل و اںصاف کے لیے قابل غور ہے 134

اہل تسنن کے علماء اور اماموں کا ابوحنیفہ کو رد کرنا 137

امامت شیعوں کے عقیدے میں ریاست عالیہ الہیہ ہے 139

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

۶۱ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْأَةُ عَقْرَبٌ حُلْوَةُ اللَّسْبَةِ

۶۲ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا حُيِّيتَ بِتَحِيَّةٍ فَحَيِّ بِأَحْسَنَ مِنْهَا وإِذَا أُسْدِيَتْ إِلَيْكَ يَدٌ فَكَافِئْهَا بِمَا يُرْبِي عَلَيْهَا - والْفَضْلُ مَعَ ذَلِكَ لِلْبَادِئِ.

۶۳ - وقَالَعليه‌السلام الشَّفِيعُ جَنَاحُ الطَّالِبِ.

۶۴ - وقَالَعليه‌السلام أَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ يُسَارُ بِهِمْ وهُمْ نِيَامٌ.

۶۵ - وقَالَعليه‌السلام فَقْدُ الأَحِبَّةِ غُرْبَةٌ.

۶۶ - وقَالَ عليهامسل فَوْتُ الْحَاجَةِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا إِلَى غَيْرِ أَهْلِهَا.

(۶۱)

عورت اس بچھو(۱) کے مانند ہے جس کا ڈسنا بھی مزیدار ہوتا ہے۔

(۶۲)

جب تمہیں کوئی تحفہ دیا جائے تو اس سے بہتر واپس کرو اور جب کوئی نعمت دی جائے تواس سے بڑھا کر اس کا بدلہ دو لیکن اس کے بعد بھی فضیلت اسی کی رہے گی جو پہلے کا ر خیر انجام دے ۔

(۶۳)

سفارش کرنے والا طلب گار کے بال و پر کے مانند ہوتا ہے ۔

(۶۴)

اہل دنیا اس سواروں کے مانند ہیں جو خود سو رہے ہیں اور ان کا سفر جاری ہے ۔

(۶۵)

احباب کا نہ ہونا بھی ایک غربت ہے۔

(۶۶)

حاجت(۲) کا پورا نہ ہونا نا اہل سے مانگنے سے بہتر ہے۔

(۱)اس فقرہ میں ایک طرف عورت کے مزاج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں غیظ وغضب کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے اور دوسری طرف اس کی فطری نزاکت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں اس کا ڈنک بھی مزیدار معلوم ہوتاہے۔

(۲)انسان کو چاہیے کہ دنیا سے محرومی پر صبرکرلے اور جہاں تک ممکن ہو کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے کہ ہاتھ پھیلانا کسی ذلت سے کم نہیں ہے

۶۴۱

۶۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْتَحِ مِنْ إِعْطَاءِ الْقَلِيلِ - فَإِنَّ الْحِرْمَانَ أَقَلُّ مِنْه.

۶۸ - وقَالَعليه‌السلام الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ والشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى.

۶۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا لَمْ يَكُنْ مَا تُرِيدُ فَلَا تُبَلْ مَا كُنْتَ.

۷۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَرَى الْجَاهِلَ إِلَّا مُفْرِطاً أَوْ مُفَرِّطاً.

۷۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ.

(۶۷)

مختصر مال دینے میں بھی شرم نہ کرو کہ محروم کردینا اس سے زیادہ کمتر درجہ کا کام ہے۔

(۶۸)

پاکدامانی(۱) فقیری کی زینت ہے اورشکریہ مالداری کی زینت ہے۔

(۶۹)

اگرتمہارے حسب خواہش کام نہ ہو سکے تو جس حال میں رہو خوش رہو(۲) ( کہ افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہے )

(۷۰)

جاہل ہمیشہ افراط و تفریط کاشکار رہتا ہے یا حدسے آگے بڑھ جاتا ہے یا پیچھے ہی رہ جاتا ہے ( کہ اسے حدکا اندازہ ہی نہیں ہے )

(۷۱)

جب عقل مکمل ہوتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہے ( کہ عاقل کو ہربات تول کر کہنا پڑتی ہے ۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان کو غربت میں عضیف اورغیرت دار ہونا چاہیے اور دولت مندی میں مالک کا شکرگذار ہوناچاہیے کہ اس کے علاوہ شرافت و کرامت کی کوئی نشانی نہیں ہے۔

(۲)بعض عرفاء نے اس حقیقت کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ '' میں اس دنیا کو لے کر کیا کروں جس کاحال یہ ہے کہ میں رہ گیا تو وہ نہ رہ جائے گی اور وہ رہ گئی تو میں نہ رہ جائوں گا۔

۶۴۲

۷۲ - وقَالَعليه‌السلام الدَّهْرُ يُخْلِقُ الأَبْدَانَ - ويُجَدِّدُ الآمَالَ ويُقَرِّبُ الْمَنِيَّةَ - ويُبَاعِدُ الأُمْنِيَّةَ مَنْ ظَفِرَ بِه نَصِبَ ومَنْ فَاتَه تَعِبَ.

۷۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَصَبَ نَفْسَه لِلنَّاسِ إِمَاماً - فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِه قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِه - ولْيَكُنْ تَأْدِيبُه بِسِيرَتِه قَبْلَ تَأْدِيبِه بِلِسَانِه - ومُعَلِّمُ نَفْسِه ومُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالإِجْلَالِ - مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ ومُؤَدِّبِهِمْ.

۷۴ - وقَالَعليه‌السلام نَفَسُ الْمَرْءِ خُطَاه إِلَى أَجَلِه

۷۵ - وقَالَ عليهامسل كُلُّ مَعْدُودٍ مُنْقَضٍ وكُلُّ مُتَوَقَّعٍ آتٍ.

۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الأُمُورَ إِذَا اشْتَبَهَتْ اعْتُبِرَ آخِرُهَا بِأَوَّلِهَا

(۷۲)

زمانہ بدن کو پرانا کر دیتا ہے اورخواہشات کونیا۔موت کو قریب بنا دیتا ہے اور تمنائوں کودور۔یہاں جو کامیاب ہو جاتا ہے وہ بھی خستہ(۱) حال رہتا ہے اورجواسے کھو بیٹھتا ہے وہ بھی تھکن کا شکار رہتا ہے۔

(۷۳)

جوشخص اپنے کو قائد ملت بنا کر پیش کرے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دے اور زبان سے تبلیغ کرنے سے پہلے اپنے عمل سے تبلیغ کرے اوریہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو تعلیم و تربیت دینے والا دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے والے سے زیادہ قابل احترام ہوتا ہے۔

(۷۴)

انسان کی ایک ایک سانس موت کی طرف ایک قدم ہے ( روحی لہ الفدائ)

(۷۵)

ہرشمار ہونے والی چیز ختم ہونے والی ہے (سانسیں ) اور ہر آنے والا بہر حال آکر رہے گا (موت)

(۷۶)

جب مسائل میں شبہ پیدا ہو جائے تو ابتدا کو دیکھ کر انجام کار کا اندازہ کرلیانا چاہیے ۔

(۱)مال دنیا کا حال یہی ہے کہ آجاتا ہے تو انسان کا روبارمیں مبتلاہوجاتا ہے اور نہیں رہتا ہے تو اس کے حصول کی راہ میں پریشان رہتا ہے ۔

۶۴۳

۷۷ - ومِنْ خَبَرِ ضِرَارِ بْنِ حَمْزَةَ الضَّبَائِيِّ - عِنْدَ دُخُولِه عَلَى مُعَاوِيَةَ - ومَسْأَلَتِه لَه عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام وقَالَ فَأَشْهَدُ لَقَدْ رَأَيْتُه فِي بَعْضِ مَوَاقِفِه - وقَدْ أَرْخَى اللَّيْلُ سُدُولَه وهُوَ قَائِمٌ فِي مِحْرَابِه قَابِضٌ عَلَى لِحْيَتِه يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ السَّلِيمِ - ويَبْكِي بُكَاءَ الْحَزِينِ ويَقُولُ:

يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا إِلَيْكِ عَنِّي أَبِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ - لَا حَانَ حِينُكِ هَيْهَاتَ غُرِّي غَيْرِي لَا حَاجَةَ لِي فِيكِ - قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ فِيهَا - فَعَيْشُكِ قَصِيرٌ وخَطَرُكِ يَسِيرٌ وأَمَلُكِ حَقِيرٌ –

آه مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وطُولِ الطَّرِيقِ - وبُعْدِ السَّفَرِ وعَظِيمِ الْمَوْرِدِ

(۷۷)

ضرار(۱) بن حمزہ الضبائی معاویہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے امیر المومنین کے بارے میں دریافت کیا؟ ضرار نے کہا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں محراب میں کھڑے ہوئے ریش مبارک کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ۔یوں تڑپتے تھے جس طرح سانپ کا کاٹا ہوا تڑپتا ہے اور کوئی غم رسیدہ گریہ کرتا ہے۔اور فرمایا کرتے تھے:

''اے دنیا ۔اے دنیا!مجھ سے دور ہو جا۔تو میرے سامنے بن سنور کرآئی ہے یا میری واقعاً مشتاق بن کرآئی ہے ؟ خدا وہ وقت نہ لائے کہ تو مجھے دھوکہ دے سکے ۔جامیرے علاوہ کسیاور کودھوکہ دے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے۔میں تجھے تین مرتبہ طلاق(۲) دے چکاہوں جس کے بعد رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے۔تیری زندگی بہت تھوڑی ہے اور تیریرحیثیت بہت معمولی ہے اور تیری امید بہت حقیر شے ہے''

آہ زاد سفر کس قدر کم ہے۔راستہ کس قدر طولانی ہے منزل کس قدر دور ہے اوروارد ہونے کی جگہ کس قدرخطر ناک ہے۔

(۱)بعض حضرات نے ان کا نام ضرار بن ضمرہ لکھا ہے اوری ہ ان کا کمال کردار ہے کہ معاویہ جیسے دشمن علی کے دربار میں حقائق کا اعلان کردیا اوراسمشہورحدیث کے معانی کومجسم بنایدا کہ بہترین جہاد بادشاہ ظالم کے سامنے کلمہ حق کا اظہار و اعلان ہے۔

(۲)کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کو طلاق دے دیتا ہے تو وہ عورت بھی ناراض ہوتی ہے اور اسکے گھر واے بھی ناراض رہتے ہیں ۔امیر المومنین سے دنیا کا انحراف اور اہل دنیا کی دشمنی کا رازیہی ہے کہ آپ نے اسے تین مرتبہ طلاق دے دی تھی تو اس کا کوئی امکان نہیں تھاکہ اہل دنیا آپ سے کسی قیمت پرا ضی ہو جاتے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے ابناء دنیا نے تین خلافتوں کے موقع پر اپنی بیزاری کا اظہارکیا اور اس کے بعد تین جنگوں کے موقع پر اپنی ناراضگی کا اظہارکیا لیکن آپ کسی قیمت پردنیا سے صلح کرنے پرآمادہ نہ ہوئے اور ہر مرحلہ پر دین الٰہی اوراسکی تعلیمات کو کلیجہ سے لگائے رہے۔

۶۴۴

۷۸ - ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام لِلسَّائِلِ الشَّامِيِّ لَمَّا سَأَلَه - أَكَانَ مَسِيرُنَا إِلَى الشَّامِ بِقَضَاءٍ مِنَ اللَّه وقَدَرٍ - بَعْدَ كَلَامٍ طَوِيلٍ هَذَا مُخْتَارُه.

وَيْحَكَ لَعَلَّكَ ظَنَنْتَ قَضَاءً لَازِماً وقَدَراً حَاتِماً - لَوْ كَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ والْعِقَابُ - وسَقَطَ الْوَعْدُ والْوَعِيدُ - إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَمَرَ عِبَادَه تَخْيِيراً ونَهَاهُمْ تَحْذِيراً - وكَلَّفَ يَسِيراً ولَمْ يُكَلِّفْ عَسِيراً - وأَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً ولَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً - ولَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً ولَمْ يُرْسِلِ الأَنْبِيَاءَ لَعِباً - ولَمْ يُنْزِلِ الْكُتُبَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً - ولَا خَلَقَ السَّمَاوَاتِ والأَرْضَ ومَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا –

( ذلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ) .

(۷۸)

ایک مرد شامی نے سوال کیا کہ کیا ہمارا شام کی طرف جانا قضا و قدارالٰہی کی بنا پر تھا ( اگر ایساتھا تو گویا کہ کوئی اجرو ثواب نہ ملا ) تو آپ نے فرمایا کہ شائد تیرا خیال یہ ہے کہ اس سے مراد قضاء لازم اورقدرحتمی ہے کہ جس کے بعد عذاب و ثواب بیکار ہو جاتا ہے اور وعدہ و وعید کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔پروردگار نے اپنے بندوں کوحکم دیا ہے تو ان کے اختیار کے ساتھ اورنہی کی ہے تو انہیں ڈراتے وئے۔اس نے آسان سی تکلیف دی ہے اور کسی زحمت میں مبتلا نہیں کیا ہے تھوڑے عمل پر بہت سااجر دیا ہے اوراس کی نا فرمانی اس لئے نہیں ہوتی ہے کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اور نہ اطاعت اس لئے ہوتی ہے کہ اس نے مجبور کردیا ہے۔اس نے نہ انبیاء کو کھیل کرنے کے لئے بھیجا ہے اور نہ کتاب کو عبث نازل کیا ہے اورنہ زمین وآسمان اور ان کی درمیانی مخلوقات کو بیکار پیدا کیا ہے۔یہ صری کافروں کا خیال ہے اورکافروں کے لئے جہنم میں ویل ہے ''

(آخر میں وضاحت فرمائی کہ قضاء امر کے معنی میں ہے اور ہم اس کے حکم سے گئے تھے نہ کہ جبر و اکراہ سے )

۶۴۵

۷۹ - وقَالَعليه‌السلام خُذِ الْحِكْمَةَ أَنَّى كَانَتْ - فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَكُونُ فِي صَدْرِ الْمُنَافِقِ فَتَلَجْلَجُ فِي صَدْرِه - حَتَّى تَخْرُجَ فَتَسْكُنَ إِلَى صَوَاحِبِهَا فِي صَدْرِ الْمُؤْمِنِ.

۸۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ - فَخُذِ الْحِكْمَةَ ولَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ.

۸۱ - وقَالَعليه‌السلام قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُه.

قال الرضي - وهي الكلمة التي لا تصاب لها قيمة - ولا توزن بها حكمة ولا تقرن إليها كلمة.

(۷۹)

حرف حکمت جہاں بھی مل جائے لے لو کہ ایسی بات اگرمنافق کے سینہ میں دبی ہوتی ہے تو وہ اس وقت تک بے چین رہتا ہے جب تک وہ نکل نہ جائے ۔

(۸۰)

حکمت مومن کی گم شدہ دولت ہے لہٰذا جہاں ملے لے لیناچاہیے ۔چاہے وہ حقائق سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

(۸۱)

ہر انسان کی قدرو قیمت وہی نیکیاں(۱) ہیں جو اس میں پائی جاتی ہیں۔

سید رضی : یہ وہ کلمہ قیمہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی ہے اوراس کے ہم پلہ کوء یدوسری حکمت بھی نہیں ہے اور کوئی کلمہ اس کے ہم پایہ بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۱)یہ امیر المومنین کا فلسفہ حیات ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا تعین نہ اس کے حسب و نسب سے ہوتا ہے اور نہ قوم و قبیلہ سے۔نہ ڈگریاں اس کے مرتبہ کربڑھا سکتی ہیں اور نہ خزانے اس کو شریف بنا سکتے ہیں۔نہ کرسی اس کے معیارحیات کوب لند کرس کتی ہے اور نہاقتدار اسکے کمالات کاتعین کر سکتا ہے۔انسانی کمال کا معیار صرف وہ کمال ہے جواس کے اندرپایا جاتا ہے۔اگر اس کے نفس میں پاکیزگی اورکردار میں حسن ہے تو یقینا عظیم مرتبہ کا حامل ہے ورنہ اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔

۶۴۶

۸۲ - وقَالَعليه‌السلام أُوصِيكُمْ بِخَمْسٍ - لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الإِبِلِ لَكَانَتْ لِذَلِكَ أَهْلًا - لَا يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا رَبَّه ولَا يَخَافَنَّ إِلَّا ذَنْبَه - ولَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ - أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ - ولَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَه - وعَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الإِيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ - ولَا خَيْرَ فِي جَسَدٍ لَا رَأْسَ مَعَه - ولَا فِي إِيمَانٍ لَا صَبْرَ مَعَه.

۸۳ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ أَفْرَطَ فِي الثَّنَاءِ عَلَيْه وكَانَ لَه مُتَّهِماً - أَنَا دُونَ مَا تَقُولُ وفَوْقَ مَا فِي نَفْسِكَ.

(۸۲)

میں تمہیں ایسی پانچ باتوں کی نصیحت کررہا ہوں کہ جن کے حصول کے لئے اونٹوں کو ایڑ لگا کردوڑا یا جائے تو بھی وہاس کی اہل ہیں۔

خبردار! تم میں سے کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھے اور اپنے گناہوں کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے اور جب کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے اور نہ جانتا ہو تو لا علمی کے اعتراف میں نہ شرمائے اور جب نہیں جانتا ہے تو سیکھنے میں نہ شرمائے اور صبر و شکیبائی اختیار کرے کہ صبر(۱) ایمان کے لئے ویسا ہی ہے جیسا بدن کے لئے سر اور ظاہر ہے کہ اس بدن میں کوئی خیر نہیں ہوتا ہے جسے میں سر نہ ہو اور اسایمان میں کوء ی خیرنہیں ہے جس میں صبر نہ ہو۔

(۸۳)

آپ نے اس شخص سے فرمایا جوآپ کا عقیدت مند تو نہ تھا لیکن آپ کی بے حد تعریف کر رہاتھا۔''میں تمہارے بیان سے کمتر ہوں لیکن تمہارے خیال سے بالاتر ہوں '' (یعنی جو تم نے میرے بارے میں کہا ہے وہ مبالہ ہے لیکن جو میرے بارے میں عقیدہ رکھتے ہو وہ میری حیثیت سے بہت کم ہے )

(۱)صبرانسانی زندگی کا وہ جوہر ہے جس کی واقعی عظمت کا ادراک بھی مشکل ہے۔تاریخ بشریت میں ا س کے مظاہر کاہرقدم پرمشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔حضرت آدم جنت میںتھے۔پروردگارنے ہر طرح کا آرام دے رکھا تھا۔صرف ایک درخت سے روک دیا تھا۔لیکن انہوں نے مکمل قوت صبرکامظاہرہ نہکیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہجنت سے باہرآگئے۔اور حضرت یوسف قید خانہمیں تھے لیکن انہوں نے مکمل قوت صبرکامظاہرہ کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہواکہ عزیز مصر کے عہدہ پر فائز ہوگئے اور لمحوں میں ''غلامی '' سے '' شاہی'' کافصلہ طے کرلیا۔

صبر اور جنت کے اسی رشتہ کی طرف قرآن مجید نے سورہ ٔ دہر میں اشارہ کیا ہے '' جزاھم بما صبروا جنتة و حریرا'' اللہ ے ان کے صبرکے بدلہ میں انہیں جنت اورحیریر جنت سے نوازدیا ۔

۶۴۷

۸۴ - وقَالَعليه‌السلام بَقِيَّةُ السَّيْفِ أَبْقَى عَدَداً وأَكْثَرُ وَلَداً.

۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ تَرَكَ قَوْلَ لَا أَدْرِي أُصِيبَتْ مَقَاتِلُه

۸۶ - وقَالَعليه‌السلام رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ - ورُوِيَ مِنْ مَشْهَدِ الْغُلَامِ.

۸۷ - وقَالَعليه‌السلام عَجِبْتُ لِمَنْ يَقْنَطُ ومَعَه الِاسْتِغْفَارُ.

(۸۴)

تلوار کے بچے ہوئے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی اولاد بھی زیادہ ہوتی ہے۔

(۸۵)

جس نے نا واقفیت کا اقرار چھوڑ دیا وہ کہیں نہ کہیں ضرور مارا(۱) جائے گا۔

(۸۶)

بوڑھے کی رائے جوان کی ہمت(۲) سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔یا بوڑھے کی رائے جوان کے خطرہ میں ڈٹے رہنے سے زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے ۔

(۸۷)

مجھے اس شخص کے حال پر تعجب ہوتا ہے جو استغفار کی طاقت رکھتا ہے اور پھر بھی رحمت خداسے مایوس ہو جاتا ہے۔

(۱)یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم (ص) کے بعد مولائے کائنات کے علاوہ جس نے بھی ''سلونی '' کا دعویٰ کیا اسے ذلت سے دوچار ہونا پڑا اور ساری عزت خاک میں مل گئی۔

(۲)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی کے ہرمرحلہ عمل پر جوان کی ہمت ہی کام آتی ہے ۔کاشتکاری ' صنعت کاری سے لے کر ہلکی دفاع تک سارا کام جوان ہی انجام دیتے ہیں اور چمنستان زندگی کی ساری بہار جوانوں کی ہمت ہی سے وابستہ ہے۔لیکن اس کے باوجود نشاط عمل کے لئے صحیح خطوطکا تعین بہرحال ضروری ہے اور یہکام بزرگوں کے تجربات ہی سے انجام پاسکتا ہے۔لہٰذا بنیادی حیثیت بزرگوں کے تجربات کی ہے اور ثانوی حیثیت نوجوانوں کی ہمت مردانہ کی ہے۔اگرچہ زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لئے یہ دونوں پہئیے ضروری ہیں۔

۶۴۸

۸۸ - وحَكَى عَنْه أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُعليه‌السلام أَنَّه قَالَ:

كَانَ فِي الأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّه - وقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِه - أَمَّا الأَمَانُ الَّذِي رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وأَمَّا الأَمَانُ الْبَاقِي فَالِاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّه تَعَالَى -( وما كانَ الله لِيُعَذِّبَهُمْ وأَنْتَ فِيهِمْ - وما كانَ الله مُعَذِّبَهُمْ وهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ) .

قال الرضي - وهذا من محاسن الاستخراج ولطائف الاستنباط.

۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَه وبَيْنَ اللَّه - أَصْلَحَ اللَّه مَا بَيْنَه وبَيْنَ النَّاسِ - ومَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِه أَصْلَحَ اللَّه لَه أَمْرَ دُنْيَاه - ومَنْ كَانَ لَه مِنْ نَفْسِه وَاعِظٌ - كَانَ عَلَيْه مِنَ اللَّه حَافِظٌ.

(۸۸)

امام محمد باقر نے آپ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ '' روئے زمین پر عذاب الٰہی سے بچانے کے دوذرائع تھے۔ایک کو پروردگار نے اٹھالیا ہے ( پیغمبر اسلام (ص) ) لہٰذا دوسرے سے تمسک اختیار کرو۔یعنی استغفار کہ مالک کائنات نے فرمایا ہے کہ '' خدا اس وقت تک ان پر عذاب نہیں کر سکتا ہے جب تک آپ موجود ہیں۔اوراس وقت تک عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک یہ استغفار کر رہے ہیں۔

سید رضی : یہ آیت کریمہ سے بہترین استخراج اورلطیف ترین استباط ہے۔

(۸۹)

جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان کے معاملات کی اصلاح کرلی۔اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان کے معاملات کی اصلاح کردے گا اورجو آخرت کے امور(۱) کی اصلاح کرلے گا اللہ اس کی دنیا کے امور کی اصلاح کردے گا۔اور جو اپنے نفس کو نصیحت کرلے گا اللہ اس کی حفاظت کا انتظام کردے گا۔

(۱)امور آخرت کی اصلاح کادئارہ صرف عبادات وریاضات میں محدود نہیں ہے بلکہ اس میں وہ تمام امور دنیا شامل ہیں جوآخرت کے لئے انجام دئیے جاتے ہیں کہ دنیاآخرت کی کھیتی ہے اور آخرت کی اصلاح دنیا کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ آخرت والے دنیا کو برائے آخرت اختیار کرتے ہیں اوردنیا داراسی کو اپناہدف اور مقصد قرار دے لیتے ہیں اور اس طرح آخرت سے یکسر غافل ہو جاتے ہیں۔

۶۴۹

۹۰ - وقَالَعليه‌السلام الْفَقِيه كُلُّ الْفَقِيه مَنْ لَمْ يُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّه - ولَمْ يُؤْيِسْهُمْ مِنْ رَوْحِ اللَّه ولَمْ يُؤْمِنْهُمْ مِنْ مَكْرِ اللَّه.

۹۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ - فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكَمِ

۹۲ - وقَالَعليه‌السلام أَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وُقِفَ عَلَى اللِّسَانِ - وأَرْفَعُه مَا ظَهَرَ فِي الْجَوَارِحِ والأَرْكَانِ

۹۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفِتْنَةِ - لأَنَّه لَيْسَ أَحَدٌ إِلَّا وهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى فِتْنَةٍ - ولَكِنْ مَنِ اسْتَعَاذَ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ -( واعْلَمُوا أَنَّما أَمْوالُكُمْ وأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ ) - ومَعْنَى ذَلِكَ أَنَّه يَخْتَبِرُهُمْ - بِالأَمْوَالِ والأَوْلَادِ لِيَتَبَيَّنَ السَّاخِطَ لِرِزْقِه - والرَّاضِيَ بِقِسْمِه -

(۹۰)

مکمل عالم دین وہی ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایوس نہ بنائے اور اس کی مہربانیوں سے نا امید نہ کرے اور اس کے عذاب کی طرف مطمئن نہ بنادے۔

(۹۱)

یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتاجاتے ہیں لہٰذا ان کے لئے نئی نئی لطیف حکمتیں تلاش کرو۔

(۹۲)

سب سے حقیر علم وہ ہے جو صرف زبان(۱) پر رہ جائے اور سب سے زیادہ قیمتی علم وہ ہے جس کا اظہار اعضاء و جوارح سے ہو جائے ۔

(۹۳)

خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ خدایا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔کہ کوئی شخص بھی فتنہ سے الگ نہیں ہوسکتا ہے۔اگر پناہ مانگنا ہے تو فتنوں کی گمراہیوں سے پناہ مانگو اس لئے کہ پروردگارنے اموال اور اولاد کوبھی فتنہ قراردیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اموال اور اولاد کے ذریعہ امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اس طرح روزی سے ناراض ہونے والا قسمت پرراضی رہنے

(۱)افسوس کہ دورحاضر میں علم کا چر چا صرف زبانوں پر رہ گیا ہے اور قوت گویائی ہی کو کمال علم کو تصور کرلیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عمل و کردار کا فقدان ہوتا جا رہا ہے اور عوام الناس اپنی ذاتی جہالت سے زیادہ دانشور کی دانشوری اوراہل علم کے علم کی بدولت تباہ وبرباد ہو رہے ہیں۔

۶۵۰

وإِنْ كَانَ سُبْحَانَه أَعْلَمَ بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ - ولَكِنْ لِتَظْهَرَ الأَفْعَالُ الَّتِي بِهَا يُسْتَحَقُّ الثَّوَابُ والْعِقَابُ - لأَنَّ بَعْضَهُمْ يُحِبُّ الذُّكُورَ ويَكْرَه الإِنَاثَ - وبَعْضَهُمْ يُحِبُّ تَثْمِيرَ الْمَالِ ويَكْرَه انْثِلَامَ الْحَالِ

قال الرضي - وهذا من غريب ما سمع منه في التفسير.

۹۴ - وسُئِلَ عَنِ الْخَيْرِ مَا هُوَ - فَقَالَ لَيْسَ الْخَيْرُ أَنْ يَكْثُرَ مَالُكَ ووَلَدُكَ - ولَكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُكَ - وأَنْ يَعْظُمَ حِلْمُكَ وأَنْ تُبَاهِيَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّكَ - فَإِنْ أَحْسَنْتَ حَمِدْتَ اللَّه وإِنْ أَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَ اللَّه - ولَا خَيْرَ فِي الدُّنْيَا إِلَّا لِرَجُلَيْنِ - رَجُلٍ أَذْنَبَ ذُنُوباً فَهُوَ يَتَدَارَكُهَا بِالتَّوْبَةِ - ورَجُلٍ يُسَارِعُ فِي الْخَيْرَاتِ.

۹۵ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَى وكَيْفَ يَقِلُّ مَا يُتَقَبَّلُ؟

والے سے الگ ہو جائے ۔جب کہ وہ ان کے بارے میں خود ان سے بہتر جانتا ہے لیکن چاہتا ہے کہ ان اعمال کا اظہار ہو جائے جن سے انسان ثواب یا عذاب کاحقدار ہوتا ہے کہ بعض لوگ لڑکا چاہتے ہیں لڑکی نہیں چاہتے ہیں اور بعض مال کے بڑھانے کو دوست رکھتے ہیں اورشکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں ۔

سید رضی : یہ وہ نادر بات ہے جو آیت '' ان ما امرالکم '' کی تفسیر میں آپ سے نقل کی گئی ہے۔

(۹۴)

آپ سے خیر کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو فرمایا کہ خیر مال اور اولاد کی کثرت نہیں ہے۔خیر علم کی کثرت اورحلم کی عظمت ہے اور یہ ہے کہ لوگوں پر عبادت پروردگارنے ناز کرو لہٰذا اگر نیک کام کرو تو اللہ کا شکربجا لائو اورب راکام کرو تو استغفار کرو۔ اوریاد رکھو کہ دنیامیں خیر صرف دو طرح کے لوگوں کے لئے ہے۔وہ انسان جوگناہ کرے تو توبہ سے اس کی تلافی کرلے اور وہ انسان جو نیکیوں میں آگے بڑھتا جائے ۔

(۹۵)

تقویٰ کے ساتھ کوئی عمل قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔کہ جوعمل بھی قبول(۱) ہو جائے اسے قلیل کس طرح کہاجاسکتا ہے۔

(۱)یہ اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔اوراس کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان تقویٰ کے بغیر اعمال انجام دے تو یہ اعمال دیکھنے میں بہت نظر آئیں گے لیکن واقعاً کثیر کہے جانے کے قابل نہیں ہیں۔اور اس کے بر خلاف اگرتقویٰ کے ساتھ عمل انجام دے تودیکھنے میں شائد وہ عمل قلیل دکھائی دے لیکن واقعاً قلیل نہ ہوگا کہ درجہ قبولیت پر فائز ہو جانے والا عمل کسی قیمت پر قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔

۶۵۱

۹۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِالأَنْبِيَاءِ أَعْلَمُهُمْ بِمَا جَاءُوا بِه - ثُمَّ تَلَا( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوه - وهذَا النَّبِيُّ والَّذِينَ آمَنُوا ) الآيَةَ - ثُمَّ قَالَ إِنَّ وَلِيَّ مُحَمَّدٍ مَنْ أَطَاعَ اللَّه وإِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُه - وإِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّدٍ مَنْ عَصَى اللَّه وإِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُه!

۹۷ - وسَمِعَعليه‌السلام رَجُلًا مِنَ الْحَرُورِيَّةِ يَتَهَجَّدُ ويَقْرَأُ - فَقَالَ:

نَوْمٌ عَلَى يَقِينٍ خَيْرٌ مِنْ صَلَاةٍ فِي شَكٍّ.

(۹۶)

لوگوں میں انبیاء سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ ان کے تعلیمات سے باخبر ہوں۔یہ کہہ کر آپ نے آیت شریفہ کی تلاوت فرمائی ''ابراہیم سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کریں۔اور یہ پیغمبر ہے اورصاحبان ایمان ہیں '' اس کے بعد فرمایا کہ پیغمبر (ص) کادوست وہی ہے جو ان کی اطاعت کرے ' چاہے نسب کے اعتبار سے کسی قدر دور کیوں نہ ہو اورآپ کا دشمن وہی ہے جوآپ کی نا فرمانی کرے چاہے قرابت کے اعتبارسے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو۔

(۹۷)

آپ نے سنا کہ ایک خارجی شخص نماز شب پڑھ رہا ے اور تلاوت قرآن کر رہا ے تو فرمایا کہ یقین(۱) کے ساتھ سوجانا شک کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

(۱)یہ اصلاح عقیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس شخص کو حقائق کا یقین نہیں ہے اور وہ شک کی زندگی گذار رہا ہے اس کے اعمال کی قدروقیمت ہی کیا ہے۔اعمال کی قدرو قیمت کا تعین انسان کے علم ویقین اوراس کی معرفت سے ہوتا ہے۔لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جتنے اہل یقین ہیں سبکو سوجانا چاہیے اور نماز شبکا پابند نہیں ہونا چاہیے کہ یقین کی نیند شک کے عمل سے بہتر ہے۔

ایساممکن ہوتا تو سب سے پہلے معصومین ان اعمال کو نظرانداز کر دیتے جن کے یقی کی شان یہ تھی کہ اگر پردے اٹھا دئیے جاتے جب بھی یقین میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں تھی۔

۶۵۲

۹۸ - وقَالَعليه‌السلام اعْقِلُوا الْخَبَرَ إِذَا سَمِعْتُمُوه عَقْلَ رِعَايَةٍ لَا عَقْلَ رِوَايَةٍ - فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ ورُعَاتَه قَلِيلٌ.

۹۹ -وسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ -( إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - فَقَالَ عليه السلام:

إِنَّ قَوْلَنَا( إِنَّا لِلَّه ) إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْمُلْكِ - وقَوْلَنَا( وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْهُلْكِ

۱۰۰ - وقَالَعليه‌السلام ومَدَحَه قَوْمٌ فِي وَجْهِه - فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَعْلَمُ بِي مِنْ نَفْسِي - وأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْهُمْ - اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا خَيْراً مِمَّا يَظُنُّونَ واغْفِرْ لَنَا مَا لَا يَعْلَمُونَ.

(۹۸)

جب کسی خبر کو سنو تو عقل کے معیار(۱) پر پرکھ لو اورصرف نقل پربھروسہ نہ کرو کہ علم کے نقل کرنے والے بہت ہوتے ہیں اور سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔

(۹۹)

آپ نے ایک شخص کو کلمہ انا للہ زبان پر جاری کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : انا للہ اقرار ہے کہ ہم کسی کی ملکیت ہیں اور انا للہ راجعون اعتراف ہے کہ ایک دن فنا ہو جانے والے ہیں۔

(۱۰۰)

ایک قوم نے آپ کے سامنے آپ کی تعریف کردی توآپنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئیے ۔خدایا تو مجھے ' مجھ سے بہتر جانتا ہے اورمیں اپنے کو ان سے بہتر پہچانتا ہوں لہٰذا مجھے ان کے خیال سے(۲) بہتر قرار دے دینا اور یہ جن کوتاہیوں کونہیں جانتے ہیں انہیں معاف کردینا۔

(۱)عالم اسلام کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ مسلمان روایات کے مضامین سے یکسر غافل ہے اور صرف راویں کے اعتماد پر روایات پر عمل کررہا ہے جب کے بے شمار روایات کے مضامین خلاف عقل و منطق اورمخالف اصول و عقائد ہیں اورمسلمان کو اس گمراہی کا احساس بھی نہیں ہے۔

(۲)اے کاش ہر انسان اس کردار کو اپنا لیتا اورتعریفوں سے دھوکہ کھانے کے بجائے اپنے امور کی اصلاح کی فکر کرت اور مالک کی بارگاہمیں اسیطرح عرض مدعاکرتا جس طرح مولائے کائنات نے سکھایا ہے مگرافسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور جہالت اس منزل پرآگئی ہے کہ صاحبان علم عوام الناس کیتعریف سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اپنے کو با کمال تصورکرنے لگتے ہیں جس کا مشاہدہ خطباء کی زندگی میں بھی ہو سکتا ہے اور شعراء کی مخفلوں میں بھی جہاں اظہار علم کرنے والے با کمال ہوتے ہیں اور تعریف کرنے والوں کی اکثریت ان کے مقابلہ میں بے کمال۔مگراس کے بعد بھی انسان تعریف سے خوش ہوتا ہے اورمغرور ہو جاتا ہے۔

۶۵۳

۱۰۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَسْتَقِيمُ قَضَاءُ الْحَوَائِجِ إِلَّا بِثَلَاثٍ - بِاسْتِصْغَارِهَا لِتَعْظُمَ وبِاسْتِكْتَامِهَا لِتَظْهَرَ - وبِتَعْجِيلِهَا لِتَهْنُؤَ

۱۰۲ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُقَرَّبُ فِيه إِلَّا الْمَاحِلُ - ولَا يُظَرَّفُ فِيه إِلَّا الْفَاجِرُ - ولَا يُضَعَّفُ فِيه إِلَّا الْمُنْصِفُ - يَعُدُّونَ الصَّدَقَةَ فِيه غُرْماً وصِلَةَ الرَّحِمِ مَنّاً - والْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَكُونُ السُّلْطَانُ بِمَشُورَةِ النِّسَاءِ - وإِمَارَةِ الصِّبْيَانِ وتَدْبِيرِ الْخِصْيَانِ.

۱۰۳ - ورُئِيَ عَلَيْه إِزَارٌ خَلَقٌ مَرْقُوعٌ فَقِيلَ لَه فِي ذَلِكَ

(۱۰۱)

حاجب روائی تین چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے :((۱) عمل کوچھوٹا سمجھے تاکہ وہ بڑا اقرار پا جائے ۔(۲) اسے پوشیدہ سور پر انجام دے تاکہ وہ خود اپنا اظہار کرے(۳) اسے جلدی پورا کردے تاکہ خوشگوار معلوم ہو(۱) ۔

(۱۰۲)

لوگوں پر ایک زمانہ آنے والا ہے جب صرف لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا مقرب بارگاہ ہواکرے گا اور صرف فاجر کو خوش مزاج سمجھا جائے گا اور صرف منصف کو کمزور قراردیاجائے گا۔لوگ صدقہ کو خسارہ صلہ رحم کو احسان اور عبادت کو لوگوں پر برتری کا(۲) ذریعہ قرار دیں گے ۔ایسے وقت(۱۴) میں حکومت عورتوں کے مشورہ ' بچوں کے اقتدار اورخواجہ سرائوں(۳) کی تدبیر کے سہارے رہ جائے گی۔

(۱۰۳)

لوگوں نے آپ کی چادر کو بوسیدہ دیکھ کر گزارش کردی

(۱)ظاہر ہے کہ حاجت برآری کا عمل جلد ہو جاتا ہے تو انسان کو بے پناہمسرت ہوتی ہے ورنہ اسکے بعد کام تو ہو جاتا ہے لیکن مسرت کا فقدان رہتا ہے اور وہ روحانی انبساط حاصل نہیں ہوتا ہے جو مدعا پیش کرنے کے فوراً بعد پورا ہو جانے میں حاصل ہوتا ہے۔

(۲)افسوس کہ اہل دنیا نے اس عبادت کوبھی اپنی برتری کا ذریعہ بنالیا ہے جس کی تشریع انسان کے خضوع و خشوع اورجذبہ ٔ بندگی کے اظہار کے لئے ہوئی تھی اور جس کامقصد یہ تھا کہ انسان کی زندگی سے غرور اور شیطنت نکل جائے اور تواضع و انکسار اس پرمسلط ہو جائے ۔

(۳)بظاہر کسی دور میں بھی خواجہ سرائوں کومشیر مملکت کی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے اور نہ ان کے کسی مخصوص تدبر کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس لئے بہت ممکن ہے کہ اس لفظ سے مراد وہ تمام افراد ہوں جن میں ان لوگوں کی خصلتیں پائی جاتی ہیں اورجو حکام کی ہر ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور ان کی ہر رغبت وخواہش کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں اورانہیں زندگی کے اندر و باہر ہر شعبہ میں برابر کا دخل رہتا ہے ۔

۶۵۴

فَقَالَ: يَخْشَعُ لَه الْقَلْبُ وتَذِلُّ بِه النَّفْسُ - ويَقْتَدِي بِه الْمُؤْمِنُونَ إِنَّ الدُّنْيَا والآخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ - وسَبِيلَانِ مُخْتَلِفَانِ - فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وتَوَلَّاهَا أَبْغَضَ الآخِرَةَ وعَادَاهَا - وهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ والْمَغْرِبِ ومَاشٍ بَيْنَهُمَا - كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِدٍ بَعُدَ مِنَ الآخَرِ - وهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ.

۱۰۴ - وعَنْ نَوْفٍ الْبَكَالِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام ذَاتَ لَيْلَةٍ - وقَدْ خَرَجَ مِنْ فِرَاشِه فَنَظَرَ فِي النُّجُومِ - فَقَالَ لِي يَا نَوْفُ أَرَاقِدٌ أَنْتَ أَمْ رَامِقٌ - فَقُلْتُ بَلْ رَامِقٌ قَالَ:

يَا نَوْفُ طُوبَى لِلزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا - الرَّاغِبِينَ فِي الآخِرَةِ - أُولَئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الأَرْضَ بِسَاطاً - وتُرَابَهَا فِرَاشاً ومَاءَهَا طِيباً - والْقُرْآنَ شِعَاراً والدُّعَاءَ دِثَاراً - ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْيَا قَرْضاً عَلَى مِنْهَاجِ الْمَسِيحِ.

يَا نَوْفُ إِنَّ دَاوُدَعليه‌السلام قَامَ فِي مِثْلِ هَذِه السَّاعَةِ مِنَ اللَّيْلِ - فَقَالَ إِنَّهَا لَسَاعَةٌ لَا يَدْعُو فِيهَا عَبْدٌ إِلَّا اسْتُجِيبَ لَه -

تو آپ نے فرمایا کہ اس سے دل میں خشوع اورنفس میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اور مومنین اس کی اقتدا بھی کرسکتے ہیں۔یاد رکھودنیا اورآخرت آپس میں دوناساز گار دشمن ہیں اور دو مختلف راستے ۔لہٰذا جو دنیا سے محبت اورتعلق خاطر رکھتا ہے وہ آخرت کادشمن ہو جاتا ہے اور جو راہر و ایک سے قریب تر ہوتا ہے وہ دوسرے سے دور ترہوجاتا ہے۔پھریہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی سوت جیسی ہیں ۔

(۱۰۴)

نوف بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین کو دیکھا کہ آپ نے بستر سے اٹھ کرستاروں پر نگاہ کی اور فرمایا کہ نوف! سو رہے ہو یا بیدار ہو؟ میں نے عرض کی کہ حضورجاگ رہا ہوں۔فرمایا کہ نوف ! خوشا بحال ان کے جو دنیا سے کنارہ کش ہوں توآخرت کی طرف رغبت رکھتے ہوں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو بستر بنایا ہے اورخاک کو فرش ' پانی کو شربت قراردیاہے اور قرآن و دعا کو اپنے ظاہرو باطن کامحافظ اس کے بعد دنیا سے یوں الگ(۱) ہوگئے جس طرح حضرت مسیح ۔

نوف! دیکھودائود رات کے وقت ایسے ہی موقع پر قیام کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ ساعت ہے جس میں جو بندہ بھی دعاکرتا ہے پروردگار اس کی دعا

(۱)اس مقام پر لفظ قرض اشارہ ہے کہ نہایت مختصر حصہ حاصل کیا ہے جس طرح دانت سے روٹی کاٹ لی جاتی ہے اور ساری روٹی کو منہمیں نہیں بھر لیا جاتا ہے کہ اس کیفیت کوخضم کہتے ہیں۔قرض نہیں کہتے ہیں۔

۶۵۵

إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَشَّاراً أَوْ عَرِيفاً أَوْ شُرْطِيّاً - أَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَةٍ وهِيَ الطُّنْبُورُ أَوْ صَاحِبَ كَوْبَةٍ وهِيَ الطَّبْلُ –

وقَدْ قِيلَ أَيْضاً إِنَّ الْعَرْطَبَةَ الطَّبْلُ - والْكَوْبَةَ الطُّنْبُورُ.

۱۰۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا - وحَدَّ لَكُمْ حُدُوداً فَلَا تَعْتَدُوهَا - ونَهَاكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا - وسَكَتَ لَكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ ولَمْ يَدَعْهَا نِسْيَاناً فَلَا تَتَكَلَّفُوهَا

۱۰۶ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَتْرُكُ النَّاسُ شَيْئاً مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ لِاسْتِصْلَاحِ دُنْيَاهُمْ - إِلَّا فَتَحَ اللَّه عَلَيْهِمْ مَا هُوَ أَضَرُّ مِنْه.

کوقبول کرلیتا ہے---مگر یہ کہ سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا' لوگوں کی برائی کرنے والا: ظالم حکومت کی پولیس والا یا سارنگی اورڈھول(۱) تاشہ والاہو۔

سید رضی : عرطبة : سارنگی کو کہتے ہیں اور کوبة کے معنی ڈھول کے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک عرطبہ ڈھول ہے اور کوبہ سارنگی ۔

(۱۰۵)

پروردگارنے تمہارے ذمہ کچھ فرائض قرار دئیے ہیں لہٰذا خبردار انہیں ضائع نہ کرنا اور اسنے کچھ حدود بھی مقرر کردئیے ہیں لہٰذا ان سے تجاوز نہ کرنا۔اس نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کی خلاف ورزی نہ کرنا اورجن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا ہے زبردستی انہیں جاننے کی کوش نہ کرناکہ وہ بھولا نہیں ہے۔

(۱۰۶)

جب بھی لوگ دنیا سنوارنے کے لئے دین کی کسی بات کو نظرانداز کردیتے ہیںتو پروردگار اس سے زیادہ نقصان دہ راستے کھول دیتا ہے۔

(۱)افسوس کی بات ہے کہ بعض علاقوں می بعض مومن اقوام کی پہچان ہی ڈھول تاشہ اورسارنگی بن گئی ہے جب کہ مولائے کائنات نے اس کاروبار کو اس قدر مذموم قراردیا ہے کہ اس عمل کے انجام دینے والوں کیدعابھی قبول نہیں ہوتی ہے۔

اس حکمت میں دیگر افراد کا تذکرہ ظالموں کے ذیل میں کیا گیا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ظالم حکومت کے لئے کسی طح کا کام کرنے والا پیش پروردگار مستجاب الدعوات نہیں ہو سکتا ہے ۔جب وہ اپنے ضروریات حیات کوظالموں کی اعانت سیوابستہ کردیتا ہے تو پروردگار اپنا دست کرم اٹھالیتا ہے ۔

۶۵۶

۱۰۷ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ عَالِمٍ قَدْ قَتَلَه جَهْلُه وعِلْمُه مَعَه لَا يَنْفَعُه.

۱۰۸ - وقَالَعليه‌السلام لَقَدْ عُلِّقَ بِنِيَاطِ هَذَا الإِنْسَانِ بَضْعَةٌ - هِيَ أَعْجَبُ مَا فِيه وذَلِكَ الْقَلْبُ - وذَلِكَ أَنَّ لَه مَوَادَّ مِنَ الْحِكْمَةِ وأَضْدَاداً مِنْ خِلَافِهَا - فَإِنْ سَنَحَ لَه الرَّجَاءُ أَذَلَّه الطَّمَعُ - وإِنْ هَاجَ بِه الطَّمَعُ أَهْلَكَه الْحِرْصُ - وإِنْ مَلَكَه الْيَأْسُ قَتَلَه الأَسَفُ - وإِنْ عَرَضَ لَه الْغَضَبُ اشْتَدَّ بِه الْغَيْظُ - وإِنْ أَسْعَدَه الرِّضَى نَسِيَ التَّحَفُّظَ - وإِنْ غَالَه الْخَوْفُ شَغَلَه الْحَذَرُ - وإِنِ اتَّسَعَ لَه الأَمْرُ اسْتَلَبَتْه الْغِرَّةُ - وإِنْ أَفَادَ مَالًا أَطْغَاه الْغِنَى - وإِنْ أَصَابَتْه مُصِيبَةٌ فَضَحَه الْجَزَعُ - وإِنْ عَضَّتْه الْفَاقَةُ شَغَلَه الْبَلَاءُ - وإِنْ جَهَدَه الْجُوعُ قَعَدَ بِه الضَّعْفُ - وإِنْ أَفْرَطَ بِه الشِّبَعُ كَظَّتْه الْبِطْنَةُ -

(۱۰۷)

بہت سے عالم(۱) ہیں جنہیں دین سے نا واقفیت مارڈالاہے اور پھر ان کے علم نے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔

(۱۰۸)

اس انسان کے وجود میں سب سے زیادہ تعجب خیز وہ گوشت کا ٹکڑا ہے جو ایک رگ سے آویزاں کردیا گیا ہے اور جس کا نام قلب ہے کہ اس میں حکمت(۲) کے سر چشمے بھی ہیں اوراس کی ضدیں بھی ہیں کہ جب اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع ذلیل بنادتی ہے اور جب طمع میں ہیجان پیدا ہوتا ہے تو حرص برباد کردیتی ہے اورجب مایوسی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو حسرت مار ڈالتی ہے اور جب غضب طاری ہوتا ہے ۔توغم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے اور جب خوشحال ہو جاتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتا ہے اور جب خوف طاری ہوتا ہے تواحتیاط دوسری چیزوں سے غافل کردیتی ہے۔اور جب حالات وسعت پیدا ہوتی ہے تو غفلت قبضہ کرلیتی ہے -اورجب مال حاصل کر لیتا ہے تو بے نیازی سر کش بنا دیتی ہے اورجب کوئی مصیبت نازل ہو جاتی ہے توفریادرسواکر دیتی ہے اور جب فاقہ کاٹ کھاتا ہے تو بلاء گرفتار کر لیتی ہے اور جب بھوک تھکا دیتی ہے توکمزوری بٹھا دیتی ہےاورجب ضرورت سے زیادہ پیٹ بھر جاتا ہے

(۱)یہ دانشوران ملت ہیں جن کے پاس ڈگریوں کاغرورتو ہے لیکن دین کی بصیرت نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے افراد کا علم تباہ کرسکتا ہے آباد نہیں کر سکتا ہے۔

(۲)انسانی قلب کو دو طرح کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔اس میںایک پہلو عقل و منطق کا ہے اور دوسرا جذبات و عواطف کا۔اس ارشاد گرامی میں دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے متضاد خصوصیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

۶۵۷

فَكُلُّ تَقْصِيرٍ بِه مُضِرٌّ وكُلُّ إِفْرَاطٍ لَه مُفْسِدٌ.

۱۰۹ - وقَالَعليه‌السلام نَحْنُ النُّمْرُقَةُ الْوُسْطَى بِهَا يَلْحَقُ التَّالِي - وإِلَيْهَا يَرْجِعُ الْغَالِي

۱۱۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُقِيمُ أَمْرَ اللَّه سُبْحَانَه إِلَّا مَنْ لَا يُصَانِعُ - ولَا يُضَارِعُ ولَا يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ

۱۱۱ - وقَالَعليه‌السلام : وقَدْ تُوُفِّيَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيُّ بِالْكُوفَةِ - بَعْدَ مَرْجِعِه مَعَه مِنْ صِفِّينَ - وكَانَ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْه.

لَوْ أَحَبَّنِي جَبَلٌ لَتَهَافَتَ

معنى ذلك أن المحنة تغلظ عليه - فتسرع المصائب إليه - ولا يفعل ذلك إلا بالأتقياء الأبرار - والمصطفين الأخيار: وهذا مثل قولهعليه‌السلام :

تو شکم پری کی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔مختصر یہ ہے کہ ہر کوتا ہی نقصان دہ ہوتی ہے اور ہر زیادتی تباہ کن۔

(۱۰۹)

ہم اہل بیت ہی وہ نقطہ اعتدال(۱) ہیں جن سے پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ کر ان سے مل جاتا ہے اور آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر ملحق ہو جاتا ہے۔

(۱۱۰)

حکم الٰہی کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو حق کے معاملہ میں مروت نہ کرتا ہو اورعاجزی و کمزوری کا اظہارنہ کرتا ہو اور لالچ کے پیچھے نہ دوڑتا ہو۔

(۱۱۱)

جب صفین سے واپسی پر سہل بن حنیف انصاری کاکوفہ میں انتقال ہوگیا جو حضرت کے محبوب صحابی تھے تو آپ نے فرمایا کہ''مجھ سے کوئی پہاڑ بھی محبت کرے گا تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ۔

مقصد یہ ہے کہ میری محبت کی آزمائش سخت ہے اور اس میں مصائب کی یورش ہو جاتی ہے جوشرف صرف متقی اورنیک کردار لوگوں کوحاصل ہوتا ہے جیسا کہ آپنے دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا ہے۔

(۱)شیخ محمد عبدہ نے اس فقرہ کی یہ تشریح کی ہے کہ اہل بیت اس مسند سے مشابہت رکھتے ہیں جس کے سہارے انسان کی پشت مضبوط ہوتی ہے اوراسے سکون زندگی حاصل ہوتا ہے ۔وسطی کے لفظ سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تمام مسندیں اسی سے اتصال رکھتی ہیں اور سب کا سہارا وہی ہے۔اہل بیت اس صراط مستقیم پر ہیں جن سے آگے بڑھ جانے والوں کو بھی ان سے ملنا پڑتا ہے اور پیچھے رہ جانے والوںکوبھی ۔!

۶۵۸

۱۱۲ - مَنْ أَحَبَّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَاباً.

وقد يؤول ذلك على معنى آخر ليس هذا موضع ذكره.

۱۱۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ ولَا وَحْدَةَ أَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ - ولَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ ولَا كَرَمَ كَالتَّقْوَى - ولَا قَرِينَ كَحُسْنِ الْخُلُقِ ولَا مِيرَاثَ كَالأَدَبِ - ولَا قَائِدَ كَالتَّوْفِيقِ ولَا تِجَارَةَ كَالْعَمَلِ الصَّالِحِ - ولَا رِبْحَ كَالثَّوَابِ ولَا وَرَعَ كَالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ - ولَا زُهْدَ كَالزُّهْدِ فِي الْحَرَامِ ولَا عِلْمَ كَالتَّفَكُّرِ - ولَا عِبَادَةَ كَأَدَاءِ الْفَرَائِضِ - ولَا إِيمَانَ كَالْحَيَاءِ والصَّبْرِ ولَا حَسَبَ كَالتَّوَاضُعِ - ولَا شَرَفَ كَالْعِلْمِ ولَا عِزَّ كَالْحِلْمِ - ولَا مُظَاهَرَةَ أَوْثَقُ مِنَ الْمُشَاوَرَةِ.

(۱۱۲)

جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے جامہ(۱) فقر پہننے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے ۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس ارشاد کی ایک دوسری تفسیر کی ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔

(۱۱۳)

عقل سے زیادہ فائدہ مند کوئی دولت نہیں ہے اور خود پسندی سے زیادہ وحشت ناک کوئی تنہائی نہیں ہے۔تدبیر جیسی کوئی عقل نہیں ہے اورتقویٰ جیسی کوئی بزرگی نہیں ہے۔حسن اخلاق جیسا کوئیساتھی نہیں ہے اوراد ب جیسی کوئی میراث نہیں ہے ۔توفیق جیساکوئی پیشرو نہیں ہے اورعمل صالح جیسی کوئی تجارت نہیں ہے۔ثواب جیسا کوئی فائدہ نہیں ہے اور شبہات میں احتیاط جیسی کوئی پرہیز گاری نہیں ہے۔حرام کی طرف سے بے رغبتی جیساکوئی زہد نہیں ہے اورتفکر جیسا کوئی علم نہیں ہے۔ادائے فرائض جیسی کوئی عبادت نہیں ہے اورحیا و صبر جیسا کوئی ایمان نہیں ہے۔تواضع جیسا کوئی حسب نہیں ہے اور علم جیسا کوئی شرف نہیں ہے۔حلم جیسی کوئی عزت نہیں ہے اور مشورہ سے زیادہ مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں ہے۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ اہل بیت کاکل سرمایہ حیات دین و مذہب اور حق و حقانیت ہے اور اس کے برداشت کرنے والے ہمیشہ کم ہوتے ہیں لہٰذا اس راہ پر چلنے والوں کو ہمیشہ مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

۶۵۹

۱۱۴ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا اسْتَوْلَى الصَّلَاحُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِه - ثُمَّ أَسَاءَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ لَمْ تَظْهَرْ مِنْه حَوْبَةٌ فَقَدْ ظَلَمَ - وإِذَا اسْتَوْلَى الْفَسَادُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِه - فَأَحْسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ فَقَدْ غَرَّرَ

۱۱۵ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام كَيْفَ نَجِدُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام كَيْفَ يَكُونُ حَالُ مَنْ يَفْنَى بِبَقَائِه - ويَسْقَمُ بِصِحَّتِه ويُؤْتَى مِنْ مَأْمَنِه

۱۱۶ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه - ومَغْرُورٍ بِالسَّتْرِ عَلَيْه ومَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه - ومَا ابْتَلَى اللَّه أَحَداً بِمِثْلِ الإِمْلَاءِ لَه

۱۱۷ - وقَالَعليه‌السلام هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ ومُبْغِضٌ قَالٍ

(۱۱۴)

جب زمانہ اور اہل زمانہ پر نیکیوں کا غلبہ ہوا اور کوئی شخص کسی شخص سے کوئی برائی دیکھے بغیر بد ظنی پیدا کرے تواس نے اس شخص پر ظلم کیا ہے اور جب زمانہ اور اہل زمانہ پر فساد کا غلبہ ہو اور کوئی شخص کسی سے حسن ظن قائم کرلے تو گویا اسنے اپنے ہی کودھوکہ دیا ہے ۔

(۱۱۵)

ایک شخص نے آپ سے مزاج پرسی کرلی تو فرمایا کہ اس کا حال کیا ہوگا جس کی بقاہی فناکی طرف لے جا رہی ہے اور صحت ہی بیماری کا پیش خیمہ ہے اور وہ اپنی پناہ گاہ ہی سے ایک دن گرفت میں لے لیاجائے گا۔

(۱۱۶)

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نیکیاں دے کر گرفت میں لیا جاتا ہے اور وہ پردہ(۱) پوشی ہی سے دھوکہ میں رہتے ہیں اوراپنے بارے میں اچھی بات سن کردھوکہ کھا جاتے ہیں ۔اور دیکھو اللہ نے مہلت سے بہتر کوئی آزمائش کاذریعہ نہیں قرار دیا ہے۔

(۱۱۷)

میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔وہ دوست جو دوستی میںغلو سے کام لیتے ہیں اوروہ دشمن جو دشمنی میں مبالغہ کرتے ہیں۔

(۱)انسانوں میں جومختلف کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان میں اہم ترین کمزوریاں یہ ہیں کہ وہ ہر تعریف کواپناحق سمجھتا ہے اور ہر مال کو اپنامقدر قراردے لیتا ہے اور پروردگار کی پردہ پوشی کو بھی اپنے تقدس کا نام دے دیتا ہے اوریہ احساس نہیں کرتا ہے کہ یہ فریب زندگی کسی وقت بھی دھوکہ دے سکتا ہے اوراس کا انجام یقینا برا ہو گا۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863