نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657178 / ڈاؤنلوڈ: 15929
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

نمازشب انجام دینے سے اچھے اخلاق اورنیک سیرت کامالک بن جاتاہے چنانچہ اس مطلب کویوں ذکرفرمایاہے :وتحسن الخلق کہ خوش اخلاق اورنیک سیرتی کی اہمیت اورضرورت کے تمام انسان قائل ہیں اگرچہ کسی قانون اورمذہب سے منسلک نہ بھی ہو لہٰذااگرکوئی شخص خوش رفتار اوراچھے اخلاق کامالک بنناچاتاہے تونمازشب کوہرگزفراموش نہیں کرناچاہئے کیونکہ نمازشب کانتیجہ خوش اخلاقی اورنیک سیرتی ہے ۔

١٤۔نمازشب بصیرت میں اضافہ کاسبب

دنیوی فوائد میں سے ایک جسکا امامؑ نے مذکورہ روایت میں تذکرہ فرمایا ہے بصیرت اور بینائی میں اضافہ ہے کہ اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:وتجلّواالبصر یعنی نماز شب کی وجہ سے آنکھوں کی بصیرت میں اضافہ ہوتاہے ۔

توضیح : دنیا میں انسان کو دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت بصیرت ہے کہ جس کی حفاظت کے لئے خود خدا نے ہی ایک ایسا نظام اور سسٹم مہیا فرمایا ہے کہ جس کی تحقیق کرنے والے حضرات اس سے واقف ہیں لہٰذا انسان کی کوشش بھی اسی کی حفاظت اور بقا رکھنے میں مرکوزہے پس اگر ہم بصیرت میں اضافہ اور نوراینیت میں ترقی کے خواہاں ہیں تو نماز شب پڑھنا ہوگا

١٥۔ قرضہ کی ادائیگی کا سبب نماز شب

نیز دنیوی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب قرضہ کی ادائیگی کا سبب ہے چنانچہ امام نے فرمایا و تقضی الدین یعنی نماز شب قرضہ کو ادا کرتی ہے کہ دنیا میں انسان کے لئے مشکل ترین کاموںمیں سے ایک قرضہ کی ادائیگی ہے کہ اس سے نجات ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لہٰذا مقروض حضرات کو ہمیشہ سرزنش اور اہانت کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر ہم اس سے نجات او معاشرے میں باوقار رہنا چاہتے ہیں تو نماز شب کا پابند رہنا ہوگا چنانچہ امام نے فرمایا: تدر الرزق نیز پریشانی کی برطرفی کا سبب بھی نماز شب ہے

۱۰۱

١٦۔نماز شب دشمن پر غلبہ پانے کا ذریعہ

اگرہم نمازشب انجام دیناشروع کردیں توانشاء اﷲہم اپنے دشمنوں پرہمیشہ غالب اورہروقت ہماری قسمت میں فتح ونصرت ہوگی خواہ ہمارادشمن ظاہری ہویاباطنی اگرکوئی شخص نمازشب جیسے اسلحے کے ساتھ مسلّح ہوکرمیدان جنگ میں واردہوجائے تویقیناکامیابی اورفتح سے ہمکنارہوجائے گالہٰذامسلمانوں کابہترین اسلحہ یہی نمازشب ہے چنانچہ مولاعلی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کومطالعہ کرنے سے اس مطلب کی وضاہت ہوجاتی ہے کہ آپ نے بہتّرجنگوںمیں دشمنوںسے مقابلہ کیااورہمیشہ مشکلات میں کامیاب ہوئے کہ اس کامیابی کے پیچھے نمازشب جیسے عظیم معنوی اسلحہ کی طاقت تھی کہ جس سے آپ مددلیاکرتے تھے اس طرح امام حسین علیہ السلام نے کربلامیں اس انسان ساز عظیم قربانی کے موقع پردشمنوں سے جنگ کرنے سے پہلے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ نمازشب انجام دیں اوراپنی بہن بی بی زینب سے نماز شب کی سفارش بھی کی لہٰذانمازشب کے فوائد میں سے ایک دشمنوں پرغلبہ ہے کہ اس مطلب کو امام )ع(نے یوںارشادفرمایا:صلاة ا لیل سلاح علیٰ الاعدائ (١)

یعنی نمازشب دشمنوںپرفتح پانے کے لئے بہترین اسلحہ ہے اسی مضمون کے مانندکچھ اورروایات کاتذکرہ پہلے ہوچکاہے ان تمام روایات کانتیجہ یہ ہے کہ نمازشب مشکلات کی برطرفی اوردشمنوںپرکامیابی کابہترین ذریعہ ہے اگرکسی کادشمن طاقت اوراسلحہ وغیرہ کے حوالے سے کسی پرغالب نظرآئے تواسے چاہئے کہ وہ نمازشب انجام دے کیونکہ نماز شب ہی انسان سے ہرلمحات پرحملہ آورہونے والے دشمن کودورکردیتی ہے کہ جس دشمن کوقرآن میں عدوء مبین کی تعبیرسے یادفرمایاہے۔

چنانچہ اس مطلب کوامام علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے ''صلاة الیل کراهته الشیطان'' نمازشب پڑھنے والوں کوشیطان نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے لہٰذاعدومبین ہے یعنی انسان کاآشکار دشمن شیطان ہے کہ اس کے بارے میں سب کااجماع ہے اگرچہ خودشیطان کی حقیقت کے بارے میںعلماء اورمحققین کے درمیان اختلاف نظرپائی جاتی ہے کہ جن کاخلاصہ یہ ہے شیطان کی حقیقت کے بارے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں ۔

١۔شیطان انسان کی مانندایک مستقل موجود ہے جوانسان کونظرنہیں

____________________

(١)بحارج٨٧.

۱۰۲

آتاہے لیکن ہمیشہ انسان پرمسلط رہتاہے لہٰذاانسان کی اعضاء وجوارح پرغیرشرعی تصرف کرتاہے جس اس کی حرکتیں شیطانی نظرآتاہے ۔

٢۔یہی دنیا عین شیطان ہے شیطان کوئی مستقل چیزنہیں ہے ۔

٣۔خودانسان ہی عین شیطان ہے ہمارے محترم استاد حضرت آیت اﷲمصباح یزدی نے اپنے فلسفہ اخلاق کے لیکچرمیں ان نظریات میں سے پہلے نظریے کوقبول کیاہے اورکہتے ہیںکہ شیطان ایک مستقل موجودہے لہٰذا مزید تفصیلات کے لئے ان کے فلسفہئ اخلاق کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرف مراجعہ فرمائےے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کاوجوداوراس کاانسان کے لئے عدو مبین اورسب سے خطرناک دشمن ہوناایک واضح اورمسلم حقیقت ہے جس کاقرآن مجیدمیں بھی متعددبارذکرہواہے جیساکہ ارشادہے( انّ الشیطان لکم عدو مبین ) اورخالق رحیم نے اس خطرناک اورعیاردشمن سے بچاؤکے متعددذریعے فراہم فرمایاہے جن میں سے ایک اہم ذریعہ نمازشب ہے ۔

۱۰۳

١٧۔نمازشب باعث خیروسعادت

نماز شب کے مادّی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے مؤمن کو خیر و سعادت نصیب ہوتی ہے کہ علم اخلاق کے دانشمندوں نے خیر و سعادت کے اصول و ضوابط کے بارے میں مختلف نظریات کو ذکر کیا ہے کہ جن کی آراء کا تذکرہ کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا اختصار کے پیش نظر راقم الحروف اس کی طرف صرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ نماز شب ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی برکت سے دنیا میں ہی انسان سعادت مند بن جاتا ہے اور ہر باشعور انسان کی یہی کوشش رہی ہے کہ سعادت مند بن جائے اسی لئے انسان ہزاروں زحمتیں اور مشکلات اٹھاتا ہے تاکہ سعادت جیسی عظیم نعمت حاصل کرنے سے محروم نہ رہے پیغمبر اکرم)ص( نے جنگ تبوک میں اپنے صحابی معاذ ابن جمیل سے فرمایا کیا میں تجھے خیر و سعادت کے اسباب سے مطلع نہ کروں تو معاذ ابن جمیل نے کہا: یارسول اﷲ کیوں نہیں! اس وقت پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ سے نجات مل جاتی ہے اور صدقہ دینے کے نتیجے میں اشتباہات کا خسارہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرنے سے سعادت مند ہوجاتا ہے پھر اس آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( تَتَجَافَی جُنُوبُهُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ ) (١)

یعنی نماز شب پڑھنے والے اپنے پہلو کو بستروں سے دور کیا کرتے ہیں۔(٢) لہٰذا جو انسان باعزت اور سعادت مند ہونےکا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے ۔

____________________

(١) سورہئ سجدہ آیت ١٦.

(٢)بحار ج٨٧.

۱۰۴

١٨۔انسان کے اطمئنان کا ذریعہ

اسی طرح نماز شب کے فوائد مادّی میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے سے انسان کو سکون اور آرام حاصل ہوجاتا ہے کہ آج انسان اکیسویں صدی میں داخل ہے اور آبادی چھہ ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن ان میں بہت سارے انسان سکون او ر آرام جیسی نعمت کے حصول کی خاطر منشیات اور مضر اشیاء کے عادی بن چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے وسائل انسان کو حقیقی آرام و سکون مہیا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کچھ عرصہ شراب اور دیگر مضر چیزوں کے استعمال سے سکون اور آرام پیدا ہونے کے بعد نتیجتاً خودکشی کرلیتا ہے یا پھر انسانیت کے دائرے سے ہی نکل جاتا ہے اسی لئے شریعت اسلام میں اس قسم کے مضر چیزوں کے استعمال کوحرام قراردیاگیاہے لہٰذااگرہم ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کاپوری طرح سے پابندہوجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اس میں کس قدرلذت اورسکون ہے کہ جس کاہم اندازہ نہیں لگاسکتے اوراسی کے طفیل ہمارے نفسیاتی تمام امراض دور ہوجاتے ہیں کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے:

صلاة اللیل راحة الابدان (١)

یعنی نماز شب کی وجہ سے بدنوں میں آرام و سکون پید اہوجاتا ہے ۔

____________________

(١)بحار ج٨٧

۱۰۵

١٩۔نماز شب طولانی عمر کا ذریعہ

اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے نزدیک عمر اور زندگی سے زیادہ محبوب کوئی اور چیز نظر نہیں آتی بہت سار ے محققین نے عمر میں ترقی اور اضافہ کی خاطر مختلف راستوں کو بیان کیا ہے لیکن جس حقیقی راستے کی نشاندہی اسلامی تعلیمات اور آئمہ معصومینؑ کے اقوال میں کی گئی ہے اس کا اور کسی محقق کی بات یا نظریہ میں ملنا مشکل ہے لہٰذا اگر قرآنی تعلیمات یا انبیاء اور آئمہ کے اقوال کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے ان کے فرمودات میں انسان کی روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات کی طرف رہنمائی پائی جاتی ہے اگر چہ انسان یہ خیال کرے کہ نماز شب اور طولانی عمر کا آپس میں کیا رابطہ ہوسکتا ہے؟ لیکن انبیاء اور آئمہ کے اقوال اور ان کے عمل و کردار میں فائدہ ہی فائدہ ہے جس کی حقیقت کو درک کرنے سے اکثر لوگ قاصرہیں پس اگر انسان اپنی عمر میں ترقی دولت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو ایک مہم ترین سبب نماز شب ہے اس کو فراموش نہ کیجئے کہ اس مطلب کو امام رضا علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا: تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص آٹھ رکعت نماز شب پڑھے دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت نماز وتر (کہ جس کے قنوت میں ستر دفعہ استغفراﷲ کا ذکر تکرار کیا جاتا ہے) انجام دیگا تو خداوند اسکو عذاب قبر اور جہنم کی آگ سے نجات اور اس کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے۔(١)

____________________

(١) بحار الانوار ج٨٧.

۱۰۶

لہٰذا اس روایت کی بنا پر عمر میں ترقی ہونا حتمی ہے لیکن اس کے باوجود توفیق کا نہ ہونا ہماری بدقسمتی ہے

ب۔ عالم برزخ میں نماز شب کے فوائد

مقدمہ :

جب ہم دور حاضر کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم کو محققین اور فلاسفرنے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔

١۔عالم طبیعت :۔ کہ اس عالم کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام حرکات و سکنات مادہ یا مادیات سے وابستہ ہے اور نماز شب کے کچھ فوائداس عالم سے مربوط ہیں کہ جن کا بیان ہوچکا ہے ۔

٢۔عالم برزخ :۔ کہ جس کا آغاز موت سے ہوتاہے اور اس کا انتہاء قیامت ہے یعنی عالم دنیا کے بعد اور عالم آخرت سے پہلے درمیانی اوقات کا نام عالم برزخ ہے کہ جس کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دنیوی اور مادی لوازمات سے استفاہ نہیں کرسکتاہے ۔

٣۔عالم آخرت:۔کہ جس کی وضاحت عنقریب کی جائے گی (تاکہ خوش نصیب افراد نماز شب کے عادی ہوں اور اس کے نتائج سے مستفیض ہوں) لہٰذا اب ان فوائد کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتاہوں جو عالم برزخ سے مربوط ہیں۔

١۔نماز شب قبر میں روشنی کا ذریعہ

اگر انسان ایک لمحہ کے لئے عالم برزخ کا تصور کرے تو اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ عالم انسان کے لئے کتنا مشکل اور سخت عالم ہے کہ اس کی حقیقت کو ہم درک نہیں کرسکتے اور ہم میں سے کسی کو خبر نہیں ہے صرف آئمہ معصومینؑ کے اقوال اور سیرت طیبہ کے مطالعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عالم برزخ میں دوست و احباب اورتمام لوازمات زندگی اور مادی وسائل سے منقطع اور محروم ہوجاتاہے اسی لئے اس کو قیامت صغریٰ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ انسان اس میں ہر قسم کی سختیوں اور دشواریوں سے دوچار ہوگا ہم عالم برزخ کے عذاب اور اس کی سختیوں سے نجات کے خواہاں ہیں تو نماز شب جیسی عبادات کوانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرنا ہوگی کیونکہ عالم برزخ میں ہونے والی سختیوں میں سے ایک قبر کی بھیانک تاریکی ہے کہ جس سے انسان کا موت کے آتے ہی سامنا ہوجاتاہے

۱۰۷

کہ تاریکی اور اندھیرا ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس سے انسان دنیا میں خوف زدہ ہوجاتاہے کہ ایک لمحہ بھی تاریکی میں گذارنا اس کے لئے کتنا مشکل ہوجاتاہے اسی طرح جب انسان عالم برزخ میں پہنچے گاتو وہ لمحات بہت ہی سخت ہوںگے کیونکہ دنیا میں ہر قسم کی سہولیات جیسے بجلی سورج چاند ستارے اور دوسرے وسائل کا سلسلہ موجود ہے لہٰذا دنیوی اندھیرے اور تاریکی سے نجات مل سکتی ہے لیکن عالم برزخ میںان تمام ذرایع سے محروم ہوگا لہٰذا عالم برزخ کی تاریکی سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ اس غربت کے زاد راہ کا فکر کریں اور اس تاریک گھر (قبر) کی روشنی کا اس دنیا سے جانے سے پہلے بندوبست کریں اور قبر میں کام آنے والے اور قبر کی تاریکی کو نور میں بدلنے والے اعمال میں سے ایک مہم عمل نماز شب ہے نماز شب عالم برزخ میں بجلی کے مانند ہے اور اس کی وجہ سے قبر منور ہوگی چنانچہ اس مطلب کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا اگر کوئی شخص پوری رات عبادت الٰہی میں بسر کرے یعنی رات کو تلاوت قرآن کریم اور نماز شب انجام دے کہ جس کے رکوع و سجود ذکر الٰہی پر مشتمل ہو تو خدا وند اس کی قبر کو نور سے منور کرتا ہے اور دل حسد کی بیماری اور دوسرے گناہوں کی آلودگیوں سے شفاء پاتا ہے اور اس کو قبر کے عقاب و عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے، چنانچہ معصوم علیہ السلام نے فرمایا:

''یثبت النور فی قبر ه و ینزع الاثم والحسد من قلبه ویجار من عذاب القبر و یعطی برأة من النار ۔''(١)

اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح انسان کے لئے دنیا میں نور اور روشنی کے وسائل خدا نے مہیا فرمائے ہیں اسی طرح عالم برزخ میں بھی روشنی اور نور کے اسباب کو فراہم کیا لیکن دنیوی نور کے ذرایع مادّی ہیں جبکہ عالم برزخ کی روشنی اور نور کاذریعہ معنوی چیزیں ہیں جیسے نماز شب. لیکن نماز شب سے قبر میں نور حاصل

____________________

(١)ثواب الاعمال ص١٠٢.

۱۰۸

ہونے میں شرط یہ ہے کہ اس کو اخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے ۔

نیز حضرت پیغمبر ؐ کا یہ قول ہے:

''صلاة اللیل سراج لصاحبها فی ظلمة القبر'' (١)

نماز شب قبر کی تاریکی میں نمازی کےلئے ایک چراغ کے مانند روشنی دیتی ہے ۔

٢۔ وحشت قبر سے نجات ملنے کا ذریعہ

نماز شب کے برزخی فوائد میں سے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے خداوند انسانوں کو وحشت قبر سے نجات دیتا ہے اور یہاں وحشت قبر کی تفصیل و حالات بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا مذہب حق جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے نام سے موسوم ہے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ موت کیوجہ سے فنا نہیں ہوتاہے بلکہ موت کے بعد مزید دو زندگی کا آغاز ہوتا ہے

١۔ مثالی زندگی ۔

٢۔ابدی زندگی ۔

مثالی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جو عالم برزخ میں گذارا جاتا ہے کہ اس عالم میں ہر انسان کو مختلف قسم کے عذاب اور طرح طرح کی سختیوں سے دوچار

____________________

(١) بحار ج٨٧

۱۰۹

ہونا یقینی ہے جیسے وحشت قبر لیکن خدا اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے اسی لئے وہ انھیں اس عالم کی سختیوں سے نجات دینے کی خاطر کچھ مستحب اعمال کو انجام دینے کی ترغیب دلائی ہے جیسے نماز شب یعنی اگر ہم نماز شب کو انجام دیں توعالم برزخ میںوحشت قبر جیسی سختیوں سے نجات پاسکیں گے.چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یوں ارشاد فرمایا ہے:

''صلّی فی سواد اللیل لوحشة القبر'' (١)

یعنی رات کی تاریکی میں نماز انجام دو تاکہ قبر کی وحشت اور خوف سے نجات پاسکو اسی طرح دوسری روایت میںخداوند نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دستور دیتے ہوئے فرمایا:

''قم فی ظلمة اللیل اجعل قبرک روضة من ریاض الجنان ''(٢)

یعنی اے موسیٰ! تو رات کی تاریکی میں (نماز شب انجام دینے کی خاطر ) اٹھا کرو( تاکہ میں اس کے عوض میں) تیری قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دوں۔

لہٰذا ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وحشت قبر یقینی ہے لیکن اگر توفیق

____________________

(١)بحار ج٨٧.

(٢) بحارج١٠٠.

۱۱۰

شامل حال ہو تو اس کا علاج نماز شب ہے کیوں کہ اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتاہے کہ دنیا ہی عالم برزخ اور آخرت کے لئے خلق کیا گیا ہے ۔

٣۔قبر کا ساتھی نماز شب

جب انسان اس دار فانی سے چل بسے تو اس کے عزیز و اقارب ہی تجہیز و تکفین ادا کرنے کے بعد سپرد خاک کرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور بس پھر آپ کا اس قبرستان کے اس ہولناک ماحول میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا حتیٰ ماں باپ اور بھائی،فرزند ہونے کے باوجود اکیلے چھوڑجائیں گے اور پھر آپ ہی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کوٹھی یا بنگلہ میں ہی آئے گا اور آپ کے خون پسینہ کرکے کمائی ہوئی جائداد اور مال دولت تقسیم کرینگے جب کہ آپ قبر میں تنہائی کے عالم میں ہر قسم کے عذاب میں مبتلا ہونگے اور ادھر یہی افراد جو آپ کے مال و دولت اور جائیداد پر ناز کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان ہی میں سے کوئی ایک بھی ایک لمحہ کے لئے آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تاکہ آپ کو قبر کی وحشت اور مشکلات میں آپ کی مدد کریں لہٰذا احباب کی اس لاتعلقی کا اندازہ مرنے سے پہلے لگائیے جب کہ ہمارا حقیقی خالق ہمیشہ ہما رے فلاح و بہبود کا خواہاں ہیں اسی لئے آپ کو قبرمیں تنہائی سے نجات دینے کی خاطر آپ کے قبر کے ساتھی کا بھی تعارف کرایاہے کہ وہ باوفا ساتھی جو کبھی بھی آپ سے بے وفائی نہیں کریگا اور ہمیشہ آپ کا محافظ اور مددگار کی حیثیت سے آپ کے ہمراہ رہے گا وہ نماز شب ہے یعنی اگر آپ نماز شب انجام دینگے تو قبر میں تنہائی محسوس نہیں کرینگے کیونکہ نماز شب تنہائی کی سختی سے نجات دیتی ہے

۱۱۱

چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے نماز شب ملک الموت اور نماز گذار کے درمیان ایک واسطہ اور قبر میں ایک چراغ اور جس مصلّے پر نماز شب پڑھی جاتی ہے وہ لباس نکیر و منکر کے لئے جواب دہ اور روز قیامت تک قبر کی تنہائی میں آپ کی ساتھی ہوگی۔(١)

اور دنیا میں یہ عام رواج ہے کہ مخصوص ایام اور پروگراموں میں شرکت کرنے کی خاطر مخصوص لباس پہنا جاتاہے اور اسی طرح علماء عاملین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ جب وہ اپنے ملائے حقیقی کی عبادت کے لئے آمادہ ہوا کرتے ہیں تو خاص لباس پہن کر عبادت کرتے تھے تاکہ روز قیامت وہ لباس ان کے حق میں شہادت دے اسی لئے علماء اور مؤمنین موت کے وقت اپنی وصیتوں میں ایسے لباس کے بارے میں تاکید کرتے تھے جس لباس میںمیںنے خدا کی عبادت کی ہے وہ لباس میرے ہمراہ قبر میں دفن کیا جائے تاکہ وحشت قبر اور اس کی تنہائی اور تاریکی میں اس کی شفاعت کرسکیں لہٰذا مرحوم آیۃ اﷲ مرعشی نجفیؒ کے وصیت نامہ میں ایسے ہی الفاظ ملتے ہیں کہ آپ نے وصیت نامہ میں فرمایا:

میرا وہ لباس میرے ساتھ دفن کیا جائے کہ جس میں میں نے نماز شب پڑھی ہے اور اس رومال کو بھی میرے ساتھ دفن کرے کہ جس سے امام حسین علیہ

____________________

(١)بحار ج٨٧.

۱۱۲

السلام کی مصیبت کو یاد کرکے بہائے گئے آنسو پونچھا کوجمع کیا لہٰذا نماز شب کے اتنے فوائد ہونے کے بعد اس سے محروم ہونا شاید ہماری بدقسمتی ہے پالنے والا ہم سب کو نماز شب پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔

٤۔نماز شب مانع فشار قبر

جیسا کہ معلوم ہیںکہ عذاب الٰہی کی تین قسمیں ہیں :

١۔ دنیوی عذاب ۔

٢۔برزخی عذاب ۔

٣۔اخروی عذاب ۔

لیکن ہمارے درمیان معروف ہے کہ عذاب کا سلسلہ اس عالم دنیا اور عالم برزخ کے سفر طے کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے جبکہ یہ خام خیالی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو تو کچھ کی سزا دنیا ہی میں مل جاتی ہے اور اسی کو عذاب دنیوی کہا جاتا ہے اگر چہ انسان غفلت اور سستی کے نتیجے میں دنیوی عذاب کو درک کرنے سے عاجز رہتا ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ جب خدا کی طرف سے کسی جرم کی سزا دینا میں دی جائے تو غافل انسان اس کی مختلف توجیہات سے کام لیتا ہے۔ جب کہ اس کی اصلی علت یہی نافرمانی ہوتی ہے ۔

۱۱۳

اسی طرح کچھ دوسرے جرم ہیں کہ جس کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی بلکہ اس کی سزا عالم برزخ میں روبرو ہوتی ہے اور اسی طرح کچھ ایسے گناہ اور جرائم ہیں کہ جن کی سزا خداوند عالم آخرت میں دیتا ہے لہٰذا نماز شب واحد ذریعہ ہے جو انسان کو قبر کے تمام عذاب سے نجات دینے والی ہے لہٰذا نماز شب کے برزخی فوائد میں سے چوتھا فائدہ یہ ہے کہ نمازی کو قبر کے عذاب اور فشار قبر سے نجات دیتی ہے کہ فشار قبر اتنا سخت سزا ہے جو انسان کے بدن کے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کردیتی ہے اس مطلب کو صحابی رسول اکرم)ص( جناب ابوذر نے یوںارشاد فرمایا ہے کہ ایک دن کعبہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے لوگوں کو نصیحت کررہے تھے اور انھیں ابدی زندگی کی طرف ترغیب و تشویق دلارہے تھے اتنے میں لوگوں نے آپ سے پوچھا اے ابوذر وہ کونسی چیز ہے جو آخرت کے لئے زادراہ بن سکتی ہے تو آپنے فرمایا گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے سے حساب و کتاب آسان ہوجاتاہے اور رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنے سے وحشت قبر سے نجات ملتی ہے اور صدقہ دینے سے انسان کی تنگ دستی دور اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔(١)

اسی طرح دوسری روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص رات کے آخری وقت میں گیارہ رکعت نماز انجام دے تو خداوند اس کو قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتاہے۔(٢)

____________________

(١)داستان ج٢ص٢٦.

(٢)بحار ج٨٧ص١٦١.

۱۱۴

٥۔نماز شب قبر میں آپ کی شفیع

جس طرح عالم دنیامیں کسی کی سفارش اور تعاون کے بغیر کوئی بھی مشکل برطرف نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ میں بھی مشکلات اور سختیوں کو برطرف کرنے کے لئے مدد کی ضرورت یقینی ہے اگر چہ ان دو سفارشوں کے مابین فرق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا عالم دنیا کی سفارش مادی اسباب کا نتیجہ ہے جیسے کسی بڑی شخصیت کی سفارش جب وہ میسر نہ آئے تو پھر رشوت وغیرہ کے ذریعہ سے مشکلات کی برطرفی اور مقاصد کے حصول کے لئے ہر انسان کوشش کرتا ہے جب کہ عالم برزخ اور مثالی عالم کی سفارش معنوی اور صوری ذرایع کی ہوتی ہے۔

لہٰذا عالم برزخ میں دنیا کے اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کام نہیں آئیں گی بلکہ خدا کی نظر میںجو مقرب اور نیک حضرات ہیں وہی اس مشکل کو حل اور ہماری سفارش کرسکتے ہیں لہٰذا ایسے وسائل کے بارے میں بھی انسان کو شناخت و معرفت اور ان میںسے ایک معنوی تعلق جوڑنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے تبھی تو خدا وند عالم نے برزخ میں بھی مؤمن انسان کی شفاعت اور اس کی فلاح کے لئے کچھ دستورات دئے ہیں ان کو انسان پابندی کے ساتھ انجام دینے کی صورت میں اور محرمات سے اجتناب کرنے میں اور اخلاق حسنہ اپنانے میں اور اخلاق رذیلہ سے اپنے آپ دور رکھنے کی صورت میں اس کی تمام مشکلات برطرف ہوسکتی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا:

۱۱۵

صلاة اللیل شفیع صاحبها (١)

یعنی نماز شب قبر کی وحشت ناک تنہائی میں نمازی کی شفیع ہوگی پس نماز شب قبر کے وحشت ناک تنہائی اور عالم غربت کی سختی کے وقت اور ملک الموت و نکیر و منکر کے سوال و جواب کے موقع پرآپ کی شفیع ہے لہٰذا آیات و روایات کی روشنی میں بخوبی یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نماز شب کے فوائد عالم برزخ میں بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں چند فوائد پر اکتفاء کرینگے پس جب ہم دنیوی فوائد ااوربرزخی فوائد سے فارغ ہوگئے تونمازشب کے ایسے فوائد کی طرف بھی اشارہ کریں گے جوابدی زندگی سے مربوط ہیں کیونکہ ابدی زندگی کے فوائدمادی زندگی اورمثالی زندگی کے فوائدسے زیادہ اہم ہیں تاکہ مومنین کے لئے اطمئنان قلب کا باعث بنے ۔

ج۔عالم آخرت میں نماز شب کے فوائد

١۔جنت کادروازہ نمازشب

اخروی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ جوشخص علم جیسی نعمت سے بہرہ مندہواوراس کی نظروں سے کچھ کتابیں نما شب کے اخروی فوائد سے متعلق گذری ہوگی کہ دنیوی زندگی اورمثالی زندگی گزرنے کے بعد انسان کی ابدی زندگی

____________________

(١)جامع آیات و احادیث ج٢

۱۱۶

کاآغازہوجاتاہے کہ اس زندگی گزرنے کی جگہ مومن کے لئے جنت ہے لیکن اگرکافرہے توجہنم ہے.

لہٰذا جنت اور جہنم میں زندگی گذار نا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے یعنی انسان کے اعمال و کردارعلت ہے،جنت میں داخل ہونایا جہنم میں رہنا معلول ہے تب ہی توانسان کے اعمال و کردار دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے نیک اعمال اور بد اعمال. اگر انسان اس دنیا میں اچھے اعمال کا عادی ہو اور اسلام کی تعلیمات کا پابند ہو تو جنت میں ابدی زندگی سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہمیشہ جنت میں رہے گا لیکن اگر اس دنیا میں برے اعمال کا عادی رہا ہو اور اسلامی تعلیمات سے دور ہو یعنی اپنی خواہشات کا تابع ہو تو اس کی ابدی زندگی کی جگہ جہنم جیسی بری جگہ ہوگی پس جنت و جہنم دو ایسے مقام کا نام ہے کہ جس کی زندگی مثالی زندگی اور مادّی زندگی سے مختلف ہے لہٰذا جنت و جہنم کی زندگی کو ابدی کہا جاتاہے جب کہ باقی زندگی کو موقتی اور تغییر پذیر زندگی کہا جاتاہے چنانچہ اس مطلب پر قرآن کی کئی آیات میں اشارہ ملتاہے مثلاً:

۱۱۷

'' فیہا خالدون...'' یعنی جنت اور جہنم میں ہمیشہ رکھا جاتا ہے جب کہ ایسے الفاظ قرآن وسنت میں دنیوی زندگی کے بارے میں نظر نہیں آتے پس انسان غور سے کام لے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ انسان کتنا غافل ہے کہ دنیا میں دنیوی زندگی سے اس قدر محبت رکھتاہے جبکہ یہ زندگی کچھ مدت کی زندگی ہے لیکن اگر یہی انسان خدا کا مطیع ہو تو فرشتوں سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے کہ اس تعبیر کی حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیوی زندگی کو ہی حقیقی زندگی مان لے توحیوانات سے بھی بدتر ہے لیکن اگر دنیوی زندگی کو ابدی زندگی کے لئے مقدمہ سمجھے تو فرشتوں سے بھی افضل ہے تبھی تو قرآن وسنت میں کئی مقام پر تدبر و تفکر سے کام لینے کی ترغیب ہوئی ہے تاکہ غافل انسان یہ نہ سمجھے کہ زندگی کا دار ومدار یہی زندگی ہے پس اگر کوئی ابدی زندگی کو آباد کرنے کا خواہاں ہے تو آج ہی نماز شب انجام دینے کا عزم کیجئے کیونکہ نماز شب جن فوائدپر مشتمل ہے شاید کوئی اور عمل نہ ہو لہٰذا نماز شب انجام دینے سے جنت کے دروازے ہمیشہ کےلئے کھل جاتے ہیں اور نمازی آسانی سے جنت میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( کا یہ ارشاد ہے: اے خاندان عبدالمطلب تم لوگ رات کے وقت جب تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں تو شب بیداری کیا کرو اور خدا سے راز و نیاز کرو تاکہ جنت میں آسانی سے جاسکوں۔(١)

دوسری روایت میں پیغمبر )ص( نے فرمایا:

''من ختم له بقیام اللیل ثم مات فله الجنة '' (٢)

اگر کوئی شخص شب بیداری کا عادی ہو اور مرجائے تو خداوند اس کے عوض میں اس کو جنت عطا فرمائے گا۔

____________________

(١)محاسن برقی ص٨٧.

(٢)وسائل ج٥.

۱۱۸

نیز تیسری روایت جس میں حضرت پیغمبر اکرم)ص( نے جناب ابوذر سے فرمایا :

'' یا اباذر ایما رجل تطوع فی یوم ولیلة اثنتا عشرة رکعة سوی المکتوبة کان له حقاً واجباً بیت فی الجنة''

اے ابوذر اگر کوئی شخص چوبیس گھنٹے کے اوقات میں واجبات کے علاوہ بارہ رکعات مستحبی (نماز شب) بھی انجام دے تو خداوند اس کے بدلے میں اس کو جنت عطا کریگا(١)

تفسیر وتحلیل:

ان مذکورہ روایات کا خلاصہ یہ ہوا کہ جنت میں جانے کے خواہاں افراد کو چاہیے کہ وہ نماز شب کو ترک نہ کریں کیونکہ نماز شب کی خاطر جنت میں خداوندخوش نصیب افراد کو ایک خاص قسم کا قصر عطا کریگا ۔

٢۔جنت میں سکون کا ذریعہ

نماز شب کے فوائد اخروی میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کے نتیجے میں خداوند نمازی کو ابدی زندگی میں سکون جیسی نعمت عطا فرماتاہے کہ سکون جیسی نعمت کی نیاز تمام زندگی کے مراحل میں یقینی ہے چنانچہ دنیا میں ہر انسان کی طبیعت یہ ہے کہ زندگی سکون سے گذارے لہٰذا سکون کی خاطر طرح طرح

____________________

(١)مکارم الاخلاق ص٤٦١.

۱۱۹

کی مشقتیں برداشت کرکے عدم سکون جیسی بلا سے جان بخشی کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص جنت میں زیادہ سے زیادہ آرام و سکون کا خواہاں ہو کہ انسانی فطرت اور عقل بھی یہی چاہتی ہے تو اس آرزو کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک عمل درکار ہے اور وہ عمل نماز شب ہے کہ جو اس مشکل کو حل کرسکتاہے یعنی سکون اور آرام جیسی نعمت سے زیادہ سے زیادہ مالامال ہوسکتاہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا:اطولکم قنوتاً فی الوتر اطولکم یوم القیامة فی الموقف ، تم لوگ نماز وتر کے قنوت کو جتنا زیادہ وقت تک انجام دوگے تو اتنا ہی خدا قیامت کے دن آرام و سکون میں اضافہ فرمائے گا(١) پس اسی روایت کی روشنی میں یہ کہہ سکتاہے کہ سکون جیسی نعمت کا ذریعہ بھی نماز شب ہے.

٣۔دائیں ہاتھ میں نامہئ اعمال دیا جانے کا سبب

نماز شب کے عالم آخرت سے مربوط نتائج میں سے اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کی وجہ سے خداوند قیامت کے حساب وکتاب کے دن نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دے گا کہ یہی قبولیت اعمال اور رضایت خدا کی علامت ہے لہٰذا اس مطلب کو روایت کی روشنی میں بیان کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ وہ مقدمہ یہ ہے کہ قیامت کی بحث علم کلام میں مستقل ایک بحث

____________________

(١)بحارالانوار ج٨٧.

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

۶۱ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْأَةُ عَقْرَبٌ حُلْوَةُ اللَّسْبَةِ

۶۲ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا حُيِّيتَ بِتَحِيَّةٍ فَحَيِّ بِأَحْسَنَ مِنْهَا وإِذَا أُسْدِيَتْ إِلَيْكَ يَدٌ فَكَافِئْهَا بِمَا يُرْبِي عَلَيْهَا - والْفَضْلُ مَعَ ذَلِكَ لِلْبَادِئِ.

۶۳ - وقَالَعليه‌السلام الشَّفِيعُ جَنَاحُ الطَّالِبِ.

۶۴ - وقَالَعليه‌السلام أَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ يُسَارُ بِهِمْ وهُمْ نِيَامٌ.

۶۵ - وقَالَعليه‌السلام فَقْدُ الأَحِبَّةِ غُرْبَةٌ.

۶۶ - وقَالَ عليهامسل فَوْتُ الْحَاجَةِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا إِلَى غَيْرِ أَهْلِهَا.

(۶۱)

عورت اس بچھو(۱) کے مانند ہے جس کا ڈسنا بھی مزیدار ہوتا ہے۔

(۶۲)

جب تمہیں کوئی تحفہ دیا جائے تو اس سے بہتر واپس کرو اور جب کوئی نعمت دی جائے تواس سے بڑھا کر اس کا بدلہ دو لیکن اس کے بعد بھی فضیلت اسی کی رہے گی جو پہلے کا ر خیر انجام دے ۔

(۶۳)

سفارش کرنے والا طلب گار کے بال و پر کے مانند ہوتا ہے ۔

(۶۴)

اہل دنیا اس سواروں کے مانند ہیں جو خود سو رہے ہیں اور ان کا سفر جاری ہے ۔

(۶۵)

احباب کا نہ ہونا بھی ایک غربت ہے۔

(۶۶)

حاجت(۲) کا پورا نہ ہونا نا اہل سے مانگنے سے بہتر ہے۔

(۱)اس فقرہ میں ایک طرف عورت کے مزاج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں غیظ وغضب کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے اور دوسری طرف اس کی فطری نزاکت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں اس کا ڈنک بھی مزیدار معلوم ہوتاہے۔

(۲)انسان کو چاہیے کہ دنیا سے محرومی پر صبرکرلے اور جہاں تک ممکن ہو کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے کہ ہاتھ پھیلانا کسی ذلت سے کم نہیں ہے

۶۴۱

۶۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْتَحِ مِنْ إِعْطَاءِ الْقَلِيلِ - فَإِنَّ الْحِرْمَانَ أَقَلُّ مِنْه.

۶۸ - وقَالَعليه‌السلام الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ والشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى.

۶۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا لَمْ يَكُنْ مَا تُرِيدُ فَلَا تُبَلْ مَا كُنْتَ.

۷۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَرَى الْجَاهِلَ إِلَّا مُفْرِطاً أَوْ مُفَرِّطاً.

۷۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ.

(۶۷)

مختصر مال دینے میں بھی شرم نہ کرو کہ محروم کردینا اس سے زیادہ کمتر درجہ کا کام ہے۔

(۶۸)

پاکدامانی(۱) فقیری کی زینت ہے اورشکریہ مالداری کی زینت ہے۔

(۶۹)

اگرتمہارے حسب خواہش کام نہ ہو سکے تو جس حال میں رہو خوش رہو(۲) ( کہ افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہے )

(۷۰)

جاہل ہمیشہ افراط و تفریط کاشکار رہتا ہے یا حدسے آگے بڑھ جاتا ہے یا پیچھے ہی رہ جاتا ہے ( کہ اسے حدکا اندازہ ہی نہیں ہے )

(۷۱)

جب عقل مکمل ہوتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہے ( کہ عاقل کو ہربات تول کر کہنا پڑتی ہے ۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان کو غربت میں عضیف اورغیرت دار ہونا چاہیے اور دولت مندی میں مالک کا شکرگذار ہوناچاہیے کہ اس کے علاوہ شرافت و کرامت کی کوئی نشانی نہیں ہے۔

(۲)بعض عرفاء نے اس حقیقت کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ '' میں اس دنیا کو لے کر کیا کروں جس کاحال یہ ہے کہ میں رہ گیا تو وہ نہ رہ جائے گی اور وہ رہ گئی تو میں نہ رہ جائوں گا۔

۶۴۲

۷۲ - وقَالَعليه‌السلام الدَّهْرُ يُخْلِقُ الأَبْدَانَ - ويُجَدِّدُ الآمَالَ ويُقَرِّبُ الْمَنِيَّةَ - ويُبَاعِدُ الأُمْنِيَّةَ مَنْ ظَفِرَ بِه نَصِبَ ومَنْ فَاتَه تَعِبَ.

۷۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَصَبَ نَفْسَه لِلنَّاسِ إِمَاماً - فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِه قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِه - ولْيَكُنْ تَأْدِيبُه بِسِيرَتِه قَبْلَ تَأْدِيبِه بِلِسَانِه - ومُعَلِّمُ نَفْسِه ومُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالإِجْلَالِ - مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ ومُؤَدِّبِهِمْ.

۷۴ - وقَالَعليه‌السلام نَفَسُ الْمَرْءِ خُطَاه إِلَى أَجَلِه

۷۵ - وقَالَ عليهامسل كُلُّ مَعْدُودٍ مُنْقَضٍ وكُلُّ مُتَوَقَّعٍ آتٍ.

۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الأُمُورَ إِذَا اشْتَبَهَتْ اعْتُبِرَ آخِرُهَا بِأَوَّلِهَا

(۷۲)

زمانہ بدن کو پرانا کر دیتا ہے اورخواہشات کونیا۔موت کو قریب بنا دیتا ہے اور تمنائوں کودور۔یہاں جو کامیاب ہو جاتا ہے وہ بھی خستہ(۱) حال رہتا ہے اورجواسے کھو بیٹھتا ہے وہ بھی تھکن کا شکار رہتا ہے۔

(۷۳)

جوشخص اپنے کو قائد ملت بنا کر پیش کرے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دے اور زبان سے تبلیغ کرنے سے پہلے اپنے عمل سے تبلیغ کرے اوریہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو تعلیم و تربیت دینے والا دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے والے سے زیادہ قابل احترام ہوتا ہے۔

(۷۴)

انسان کی ایک ایک سانس موت کی طرف ایک قدم ہے ( روحی لہ الفدائ)

(۷۵)

ہرشمار ہونے والی چیز ختم ہونے والی ہے (سانسیں ) اور ہر آنے والا بہر حال آکر رہے گا (موت)

(۷۶)

جب مسائل میں شبہ پیدا ہو جائے تو ابتدا کو دیکھ کر انجام کار کا اندازہ کرلیانا چاہیے ۔

(۱)مال دنیا کا حال یہی ہے کہ آجاتا ہے تو انسان کا روبارمیں مبتلاہوجاتا ہے اور نہیں رہتا ہے تو اس کے حصول کی راہ میں پریشان رہتا ہے ۔

۶۴۳

۷۷ - ومِنْ خَبَرِ ضِرَارِ بْنِ حَمْزَةَ الضَّبَائِيِّ - عِنْدَ دُخُولِه عَلَى مُعَاوِيَةَ - ومَسْأَلَتِه لَه عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام وقَالَ فَأَشْهَدُ لَقَدْ رَأَيْتُه فِي بَعْضِ مَوَاقِفِه - وقَدْ أَرْخَى اللَّيْلُ سُدُولَه وهُوَ قَائِمٌ فِي مِحْرَابِه قَابِضٌ عَلَى لِحْيَتِه يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ السَّلِيمِ - ويَبْكِي بُكَاءَ الْحَزِينِ ويَقُولُ:

يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا إِلَيْكِ عَنِّي أَبِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ - لَا حَانَ حِينُكِ هَيْهَاتَ غُرِّي غَيْرِي لَا حَاجَةَ لِي فِيكِ - قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ فِيهَا - فَعَيْشُكِ قَصِيرٌ وخَطَرُكِ يَسِيرٌ وأَمَلُكِ حَقِيرٌ –

آه مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وطُولِ الطَّرِيقِ - وبُعْدِ السَّفَرِ وعَظِيمِ الْمَوْرِدِ

(۷۷)

ضرار(۱) بن حمزہ الضبائی معاویہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے امیر المومنین کے بارے میں دریافت کیا؟ ضرار نے کہا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں محراب میں کھڑے ہوئے ریش مبارک کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ۔یوں تڑپتے تھے جس طرح سانپ کا کاٹا ہوا تڑپتا ہے اور کوئی غم رسیدہ گریہ کرتا ہے۔اور فرمایا کرتے تھے:

''اے دنیا ۔اے دنیا!مجھ سے دور ہو جا۔تو میرے سامنے بن سنور کرآئی ہے یا میری واقعاً مشتاق بن کرآئی ہے ؟ خدا وہ وقت نہ لائے کہ تو مجھے دھوکہ دے سکے ۔جامیرے علاوہ کسیاور کودھوکہ دے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے۔میں تجھے تین مرتبہ طلاق(۲) دے چکاہوں جس کے بعد رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے۔تیری زندگی بہت تھوڑی ہے اور تیریرحیثیت بہت معمولی ہے اور تیری امید بہت حقیر شے ہے''

آہ زاد سفر کس قدر کم ہے۔راستہ کس قدر طولانی ہے منزل کس قدر دور ہے اوروارد ہونے کی جگہ کس قدرخطر ناک ہے۔

(۱)بعض حضرات نے ان کا نام ضرار بن ضمرہ لکھا ہے اوری ہ ان کا کمال کردار ہے کہ معاویہ جیسے دشمن علی کے دربار میں حقائق کا اعلان کردیا اوراسمشہورحدیث کے معانی کومجسم بنایدا کہ بہترین جہاد بادشاہ ظالم کے سامنے کلمہ حق کا اظہار و اعلان ہے۔

(۲)کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کو طلاق دے دیتا ہے تو وہ عورت بھی ناراض ہوتی ہے اور اسکے گھر واے بھی ناراض رہتے ہیں ۔امیر المومنین سے دنیا کا انحراف اور اہل دنیا کی دشمنی کا رازیہی ہے کہ آپ نے اسے تین مرتبہ طلاق دے دی تھی تو اس کا کوئی امکان نہیں تھاکہ اہل دنیا آپ سے کسی قیمت پرا ضی ہو جاتے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے ابناء دنیا نے تین خلافتوں کے موقع پر اپنی بیزاری کا اظہارکیا اور اس کے بعد تین جنگوں کے موقع پر اپنی ناراضگی کا اظہارکیا لیکن آپ کسی قیمت پردنیا سے صلح کرنے پرآمادہ نہ ہوئے اور ہر مرحلہ پر دین الٰہی اوراسکی تعلیمات کو کلیجہ سے لگائے رہے۔

۶۴۴

۷۸ - ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام لِلسَّائِلِ الشَّامِيِّ لَمَّا سَأَلَه - أَكَانَ مَسِيرُنَا إِلَى الشَّامِ بِقَضَاءٍ مِنَ اللَّه وقَدَرٍ - بَعْدَ كَلَامٍ طَوِيلٍ هَذَا مُخْتَارُه.

وَيْحَكَ لَعَلَّكَ ظَنَنْتَ قَضَاءً لَازِماً وقَدَراً حَاتِماً - لَوْ كَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ والْعِقَابُ - وسَقَطَ الْوَعْدُ والْوَعِيدُ - إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَمَرَ عِبَادَه تَخْيِيراً ونَهَاهُمْ تَحْذِيراً - وكَلَّفَ يَسِيراً ولَمْ يُكَلِّفْ عَسِيراً - وأَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً ولَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً - ولَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً ولَمْ يُرْسِلِ الأَنْبِيَاءَ لَعِباً - ولَمْ يُنْزِلِ الْكُتُبَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً - ولَا خَلَقَ السَّمَاوَاتِ والأَرْضَ ومَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا –

( ذلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ) .

(۷۸)

ایک مرد شامی نے سوال کیا کہ کیا ہمارا شام کی طرف جانا قضا و قدارالٰہی کی بنا پر تھا ( اگر ایساتھا تو گویا کہ کوئی اجرو ثواب نہ ملا ) تو آپ نے فرمایا کہ شائد تیرا خیال یہ ہے کہ اس سے مراد قضاء لازم اورقدرحتمی ہے کہ جس کے بعد عذاب و ثواب بیکار ہو جاتا ہے اور وعدہ و وعید کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔پروردگار نے اپنے بندوں کوحکم دیا ہے تو ان کے اختیار کے ساتھ اورنہی کی ہے تو انہیں ڈراتے وئے۔اس نے آسان سی تکلیف دی ہے اور کسی زحمت میں مبتلا نہیں کیا ہے تھوڑے عمل پر بہت سااجر دیا ہے اوراس کی نا فرمانی اس لئے نہیں ہوتی ہے کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اور نہ اطاعت اس لئے ہوتی ہے کہ اس نے مجبور کردیا ہے۔اس نے نہ انبیاء کو کھیل کرنے کے لئے بھیجا ہے اور نہ کتاب کو عبث نازل کیا ہے اورنہ زمین وآسمان اور ان کی درمیانی مخلوقات کو بیکار پیدا کیا ہے۔یہ صری کافروں کا خیال ہے اورکافروں کے لئے جہنم میں ویل ہے ''

(آخر میں وضاحت فرمائی کہ قضاء امر کے معنی میں ہے اور ہم اس کے حکم سے گئے تھے نہ کہ جبر و اکراہ سے )

۶۴۵

۷۹ - وقَالَعليه‌السلام خُذِ الْحِكْمَةَ أَنَّى كَانَتْ - فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَكُونُ فِي صَدْرِ الْمُنَافِقِ فَتَلَجْلَجُ فِي صَدْرِه - حَتَّى تَخْرُجَ فَتَسْكُنَ إِلَى صَوَاحِبِهَا فِي صَدْرِ الْمُؤْمِنِ.

۸۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ - فَخُذِ الْحِكْمَةَ ولَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ.

۸۱ - وقَالَعليه‌السلام قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُه.

قال الرضي - وهي الكلمة التي لا تصاب لها قيمة - ولا توزن بها حكمة ولا تقرن إليها كلمة.

(۷۹)

حرف حکمت جہاں بھی مل جائے لے لو کہ ایسی بات اگرمنافق کے سینہ میں دبی ہوتی ہے تو وہ اس وقت تک بے چین رہتا ہے جب تک وہ نکل نہ جائے ۔

(۸۰)

حکمت مومن کی گم شدہ دولت ہے لہٰذا جہاں ملے لے لیناچاہیے ۔چاہے وہ حقائق سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

(۸۱)

ہر انسان کی قدرو قیمت وہی نیکیاں(۱) ہیں جو اس میں پائی جاتی ہیں۔

سید رضی : یہ وہ کلمہ قیمہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی ہے اوراس کے ہم پلہ کوء یدوسری حکمت بھی نہیں ہے اور کوئی کلمہ اس کے ہم پایہ بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۱)یہ امیر المومنین کا فلسفہ حیات ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا تعین نہ اس کے حسب و نسب سے ہوتا ہے اور نہ قوم و قبیلہ سے۔نہ ڈگریاں اس کے مرتبہ کربڑھا سکتی ہیں اور نہ خزانے اس کو شریف بنا سکتے ہیں۔نہ کرسی اس کے معیارحیات کوب لند کرس کتی ہے اور نہاقتدار اسکے کمالات کاتعین کر سکتا ہے۔انسانی کمال کا معیار صرف وہ کمال ہے جواس کے اندرپایا جاتا ہے۔اگر اس کے نفس میں پاکیزگی اورکردار میں حسن ہے تو یقینا عظیم مرتبہ کا حامل ہے ورنہ اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔

۶۴۶

۸۲ - وقَالَعليه‌السلام أُوصِيكُمْ بِخَمْسٍ - لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الإِبِلِ لَكَانَتْ لِذَلِكَ أَهْلًا - لَا يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا رَبَّه ولَا يَخَافَنَّ إِلَّا ذَنْبَه - ولَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ - أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ - ولَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَه - وعَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الإِيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ - ولَا خَيْرَ فِي جَسَدٍ لَا رَأْسَ مَعَه - ولَا فِي إِيمَانٍ لَا صَبْرَ مَعَه.

۸۳ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ أَفْرَطَ فِي الثَّنَاءِ عَلَيْه وكَانَ لَه مُتَّهِماً - أَنَا دُونَ مَا تَقُولُ وفَوْقَ مَا فِي نَفْسِكَ.

(۸۲)

میں تمہیں ایسی پانچ باتوں کی نصیحت کررہا ہوں کہ جن کے حصول کے لئے اونٹوں کو ایڑ لگا کردوڑا یا جائے تو بھی وہاس کی اہل ہیں۔

خبردار! تم میں سے کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھے اور اپنے گناہوں کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے اور جب کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے اور نہ جانتا ہو تو لا علمی کے اعتراف میں نہ شرمائے اور جب نہیں جانتا ہے تو سیکھنے میں نہ شرمائے اور صبر و شکیبائی اختیار کرے کہ صبر(۱) ایمان کے لئے ویسا ہی ہے جیسا بدن کے لئے سر اور ظاہر ہے کہ اس بدن میں کوئی خیر نہیں ہوتا ہے جسے میں سر نہ ہو اور اسایمان میں کوء ی خیرنہیں ہے جس میں صبر نہ ہو۔

(۸۳)

آپ نے اس شخص سے فرمایا جوآپ کا عقیدت مند تو نہ تھا لیکن آپ کی بے حد تعریف کر رہاتھا۔''میں تمہارے بیان سے کمتر ہوں لیکن تمہارے خیال سے بالاتر ہوں '' (یعنی جو تم نے میرے بارے میں کہا ہے وہ مبالہ ہے لیکن جو میرے بارے میں عقیدہ رکھتے ہو وہ میری حیثیت سے بہت کم ہے )

(۱)صبرانسانی زندگی کا وہ جوہر ہے جس کی واقعی عظمت کا ادراک بھی مشکل ہے۔تاریخ بشریت میں ا س کے مظاہر کاہرقدم پرمشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔حضرت آدم جنت میںتھے۔پروردگارنے ہر طرح کا آرام دے رکھا تھا۔صرف ایک درخت سے روک دیا تھا۔لیکن انہوں نے مکمل قوت صبرکامظاہرہ نہکیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہجنت سے باہرآگئے۔اور حضرت یوسف قید خانہمیں تھے لیکن انہوں نے مکمل قوت صبرکامظاہرہ کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہواکہ عزیز مصر کے عہدہ پر فائز ہوگئے اور لمحوں میں ''غلامی '' سے '' شاہی'' کافصلہ طے کرلیا۔

صبر اور جنت کے اسی رشتہ کی طرف قرآن مجید نے سورہ ٔ دہر میں اشارہ کیا ہے '' جزاھم بما صبروا جنتة و حریرا'' اللہ ے ان کے صبرکے بدلہ میں انہیں جنت اورحیریر جنت سے نوازدیا ۔

۶۴۷

۸۴ - وقَالَعليه‌السلام بَقِيَّةُ السَّيْفِ أَبْقَى عَدَداً وأَكْثَرُ وَلَداً.

۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ تَرَكَ قَوْلَ لَا أَدْرِي أُصِيبَتْ مَقَاتِلُه

۸۶ - وقَالَعليه‌السلام رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ - ورُوِيَ مِنْ مَشْهَدِ الْغُلَامِ.

۸۷ - وقَالَعليه‌السلام عَجِبْتُ لِمَنْ يَقْنَطُ ومَعَه الِاسْتِغْفَارُ.

(۸۴)

تلوار کے بچے ہوئے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی اولاد بھی زیادہ ہوتی ہے۔

(۸۵)

جس نے نا واقفیت کا اقرار چھوڑ دیا وہ کہیں نہ کہیں ضرور مارا(۱) جائے گا۔

(۸۶)

بوڑھے کی رائے جوان کی ہمت(۲) سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔یا بوڑھے کی رائے جوان کے خطرہ میں ڈٹے رہنے سے زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے ۔

(۸۷)

مجھے اس شخص کے حال پر تعجب ہوتا ہے جو استغفار کی طاقت رکھتا ہے اور پھر بھی رحمت خداسے مایوس ہو جاتا ہے۔

(۱)یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم (ص) کے بعد مولائے کائنات کے علاوہ جس نے بھی ''سلونی '' کا دعویٰ کیا اسے ذلت سے دوچار ہونا پڑا اور ساری عزت خاک میں مل گئی۔

(۲)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی کے ہرمرحلہ عمل پر جوان کی ہمت ہی کام آتی ہے ۔کاشتکاری ' صنعت کاری سے لے کر ہلکی دفاع تک سارا کام جوان ہی انجام دیتے ہیں اور چمنستان زندگی کی ساری بہار جوانوں کی ہمت ہی سے وابستہ ہے۔لیکن اس کے باوجود نشاط عمل کے لئے صحیح خطوطکا تعین بہرحال ضروری ہے اور یہکام بزرگوں کے تجربات ہی سے انجام پاسکتا ہے۔لہٰذا بنیادی حیثیت بزرگوں کے تجربات کی ہے اور ثانوی حیثیت نوجوانوں کی ہمت مردانہ کی ہے۔اگرچہ زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لئے یہ دونوں پہئیے ضروری ہیں۔

۶۴۸

۸۸ - وحَكَى عَنْه أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُعليه‌السلام أَنَّه قَالَ:

كَانَ فِي الأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّه - وقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِه - أَمَّا الأَمَانُ الَّذِي رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وأَمَّا الأَمَانُ الْبَاقِي فَالِاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّه تَعَالَى -( وما كانَ الله لِيُعَذِّبَهُمْ وأَنْتَ فِيهِمْ - وما كانَ الله مُعَذِّبَهُمْ وهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ) .

قال الرضي - وهذا من محاسن الاستخراج ولطائف الاستنباط.

۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَه وبَيْنَ اللَّه - أَصْلَحَ اللَّه مَا بَيْنَه وبَيْنَ النَّاسِ - ومَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِه أَصْلَحَ اللَّه لَه أَمْرَ دُنْيَاه - ومَنْ كَانَ لَه مِنْ نَفْسِه وَاعِظٌ - كَانَ عَلَيْه مِنَ اللَّه حَافِظٌ.

(۸۸)

امام محمد باقر نے آپ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ '' روئے زمین پر عذاب الٰہی سے بچانے کے دوذرائع تھے۔ایک کو پروردگار نے اٹھالیا ہے ( پیغمبر اسلام (ص) ) لہٰذا دوسرے سے تمسک اختیار کرو۔یعنی استغفار کہ مالک کائنات نے فرمایا ہے کہ '' خدا اس وقت تک ان پر عذاب نہیں کر سکتا ہے جب تک آپ موجود ہیں۔اوراس وقت تک عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک یہ استغفار کر رہے ہیں۔

سید رضی : یہ آیت کریمہ سے بہترین استخراج اورلطیف ترین استباط ہے۔

(۸۹)

جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان کے معاملات کی اصلاح کرلی۔اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان کے معاملات کی اصلاح کردے گا اورجو آخرت کے امور(۱) کی اصلاح کرلے گا اللہ اس کی دنیا کے امور کی اصلاح کردے گا۔اور جو اپنے نفس کو نصیحت کرلے گا اللہ اس کی حفاظت کا انتظام کردے گا۔

(۱)امور آخرت کی اصلاح کادئارہ صرف عبادات وریاضات میں محدود نہیں ہے بلکہ اس میں وہ تمام امور دنیا شامل ہیں جوآخرت کے لئے انجام دئیے جاتے ہیں کہ دنیاآخرت کی کھیتی ہے اور آخرت کی اصلاح دنیا کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ آخرت والے دنیا کو برائے آخرت اختیار کرتے ہیں اوردنیا داراسی کو اپناہدف اور مقصد قرار دے لیتے ہیں اور اس طرح آخرت سے یکسر غافل ہو جاتے ہیں۔

۶۴۹

۹۰ - وقَالَعليه‌السلام الْفَقِيه كُلُّ الْفَقِيه مَنْ لَمْ يُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّه - ولَمْ يُؤْيِسْهُمْ مِنْ رَوْحِ اللَّه ولَمْ يُؤْمِنْهُمْ مِنْ مَكْرِ اللَّه.

۹۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ - فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكَمِ

۹۲ - وقَالَعليه‌السلام أَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وُقِفَ عَلَى اللِّسَانِ - وأَرْفَعُه مَا ظَهَرَ فِي الْجَوَارِحِ والأَرْكَانِ

۹۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفِتْنَةِ - لأَنَّه لَيْسَ أَحَدٌ إِلَّا وهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى فِتْنَةٍ - ولَكِنْ مَنِ اسْتَعَاذَ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ -( واعْلَمُوا أَنَّما أَمْوالُكُمْ وأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ ) - ومَعْنَى ذَلِكَ أَنَّه يَخْتَبِرُهُمْ - بِالأَمْوَالِ والأَوْلَادِ لِيَتَبَيَّنَ السَّاخِطَ لِرِزْقِه - والرَّاضِيَ بِقِسْمِه -

(۹۰)

مکمل عالم دین وہی ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایوس نہ بنائے اور اس کی مہربانیوں سے نا امید نہ کرے اور اس کے عذاب کی طرف مطمئن نہ بنادے۔

(۹۱)

یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتاجاتے ہیں لہٰذا ان کے لئے نئی نئی لطیف حکمتیں تلاش کرو۔

(۹۲)

سب سے حقیر علم وہ ہے جو صرف زبان(۱) پر رہ جائے اور سب سے زیادہ قیمتی علم وہ ہے جس کا اظہار اعضاء و جوارح سے ہو جائے ۔

(۹۳)

خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ خدایا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔کہ کوئی شخص بھی فتنہ سے الگ نہیں ہوسکتا ہے۔اگر پناہ مانگنا ہے تو فتنوں کی گمراہیوں سے پناہ مانگو اس لئے کہ پروردگارنے اموال اور اولاد کوبھی فتنہ قراردیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اموال اور اولاد کے ذریعہ امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اس طرح روزی سے ناراض ہونے والا قسمت پرراضی رہنے

(۱)افسوس کہ دورحاضر میں علم کا چر چا صرف زبانوں پر رہ گیا ہے اور قوت گویائی ہی کو کمال علم کو تصور کرلیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عمل و کردار کا فقدان ہوتا جا رہا ہے اور عوام الناس اپنی ذاتی جہالت سے زیادہ دانشور کی دانشوری اوراہل علم کے علم کی بدولت تباہ وبرباد ہو رہے ہیں۔

۶۵۰

وإِنْ كَانَ سُبْحَانَه أَعْلَمَ بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ - ولَكِنْ لِتَظْهَرَ الأَفْعَالُ الَّتِي بِهَا يُسْتَحَقُّ الثَّوَابُ والْعِقَابُ - لأَنَّ بَعْضَهُمْ يُحِبُّ الذُّكُورَ ويَكْرَه الإِنَاثَ - وبَعْضَهُمْ يُحِبُّ تَثْمِيرَ الْمَالِ ويَكْرَه انْثِلَامَ الْحَالِ

قال الرضي - وهذا من غريب ما سمع منه في التفسير.

۹۴ - وسُئِلَ عَنِ الْخَيْرِ مَا هُوَ - فَقَالَ لَيْسَ الْخَيْرُ أَنْ يَكْثُرَ مَالُكَ ووَلَدُكَ - ولَكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُكَ - وأَنْ يَعْظُمَ حِلْمُكَ وأَنْ تُبَاهِيَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّكَ - فَإِنْ أَحْسَنْتَ حَمِدْتَ اللَّه وإِنْ أَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَ اللَّه - ولَا خَيْرَ فِي الدُّنْيَا إِلَّا لِرَجُلَيْنِ - رَجُلٍ أَذْنَبَ ذُنُوباً فَهُوَ يَتَدَارَكُهَا بِالتَّوْبَةِ - ورَجُلٍ يُسَارِعُ فِي الْخَيْرَاتِ.

۹۵ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَى وكَيْفَ يَقِلُّ مَا يُتَقَبَّلُ؟

والے سے الگ ہو جائے ۔جب کہ وہ ان کے بارے میں خود ان سے بہتر جانتا ہے لیکن چاہتا ہے کہ ان اعمال کا اظہار ہو جائے جن سے انسان ثواب یا عذاب کاحقدار ہوتا ہے کہ بعض لوگ لڑکا چاہتے ہیں لڑکی نہیں چاہتے ہیں اور بعض مال کے بڑھانے کو دوست رکھتے ہیں اورشکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں ۔

سید رضی : یہ وہ نادر بات ہے جو آیت '' ان ما امرالکم '' کی تفسیر میں آپ سے نقل کی گئی ہے۔

(۹۴)

آپ سے خیر کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو فرمایا کہ خیر مال اور اولاد کی کثرت نہیں ہے۔خیر علم کی کثرت اورحلم کی عظمت ہے اور یہ ہے کہ لوگوں پر عبادت پروردگارنے ناز کرو لہٰذا اگر نیک کام کرو تو اللہ کا شکربجا لائو اورب راکام کرو تو استغفار کرو۔ اوریاد رکھو کہ دنیامیں خیر صرف دو طرح کے لوگوں کے لئے ہے۔وہ انسان جوگناہ کرے تو توبہ سے اس کی تلافی کرلے اور وہ انسان جو نیکیوں میں آگے بڑھتا جائے ۔

(۹۵)

تقویٰ کے ساتھ کوئی عمل قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔کہ جوعمل بھی قبول(۱) ہو جائے اسے قلیل کس طرح کہاجاسکتا ہے۔

(۱)یہ اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔اوراس کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان تقویٰ کے بغیر اعمال انجام دے تو یہ اعمال دیکھنے میں بہت نظر آئیں گے لیکن واقعاً کثیر کہے جانے کے قابل نہیں ہیں۔اور اس کے بر خلاف اگرتقویٰ کے ساتھ عمل انجام دے تودیکھنے میں شائد وہ عمل قلیل دکھائی دے لیکن واقعاً قلیل نہ ہوگا کہ درجہ قبولیت پر فائز ہو جانے والا عمل کسی قیمت پر قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔

۶۵۱

۹۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِالأَنْبِيَاءِ أَعْلَمُهُمْ بِمَا جَاءُوا بِه - ثُمَّ تَلَا( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوه - وهذَا النَّبِيُّ والَّذِينَ آمَنُوا ) الآيَةَ - ثُمَّ قَالَ إِنَّ وَلِيَّ مُحَمَّدٍ مَنْ أَطَاعَ اللَّه وإِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُه - وإِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّدٍ مَنْ عَصَى اللَّه وإِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُه!

۹۷ - وسَمِعَعليه‌السلام رَجُلًا مِنَ الْحَرُورِيَّةِ يَتَهَجَّدُ ويَقْرَأُ - فَقَالَ:

نَوْمٌ عَلَى يَقِينٍ خَيْرٌ مِنْ صَلَاةٍ فِي شَكٍّ.

(۹۶)

لوگوں میں انبیاء سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ ان کے تعلیمات سے باخبر ہوں۔یہ کہہ کر آپ نے آیت شریفہ کی تلاوت فرمائی ''ابراہیم سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کریں۔اور یہ پیغمبر ہے اورصاحبان ایمان ہیں '' اس کے بعد فرمایا کہ پیغمبر (ص) کادوست وہی ہے جو ان کی اطاعت کرے ' چاہے نسب کے اعتبار سے کسی قدر دور کیوں نہ ہو اورآپ کا دشمن وہی ہے جوآپ کی نا فرمانی کرے چاہے قرابت کے اعتبارسے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو۔

(۹۷)

آپ نے سنا کہ ایک خارجی شخص نماز شب پڑھ رہا ے اور تلاوت قرآن کر رہا ے تو فرمایا کہ یقین(۱) کے ساتھ سوجانا شک کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

(۱)یہ اصلاح عقیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس شخص کو حقائق کا یقین نہیں ہے اور وہ شک کی زندگی گذار رہا ہے اس کے اعمال کی قدروقیمت ہی کیا ہے۔اعمال کی قدرو قیمت کا تعین انسان کے علم ویقین اوراس کی معرفت سے ہوتا ہے۔لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جتنے اہل یقین ہیں سبکو سوجانا چاہیے اور نماز شبکا پابند نہیں ہونا چاہیے کہ یقین کی نیند شک کے عمل سے بہتر ہے۔

ایساممکن ہوتا تو سب سے پہلے معصومین ان اعمال کو نظرانداز کر دیتے جن کے یقی کی شان یہ تھی کہ اگر پردے اٹھا دئیے جاتے جب بھی یقین میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں تھی۔

۶۵۲

۹۸ - وقَالَعليه‌السلام اعْقِلُوا الْخَبَرَ إِذَا سَمِعْتُمُوه عَقْلَ رِعَايَةٍ لَا عَقْلَ رِوَايَةٍ - فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ ورُعَاتَه قَلِيلٌ.

۹۹ -وسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ -( إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - فَقَالَ عليه السلام:

إِنَّ قَوْلَنَا( إِنَّا لِلَّه ) إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْمُلْكِ - وقَوْلَنَا( وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْهُلْكِ

۱۰۰ - وقَالَعليه‌السلام ومَدَحَه قَوْمٌ فِي وَجْهِه - فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَعْلَمُ بِي مِنْ نَفْسِي - وأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْهُمْ - اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا خَيْراً مِمَّا يَظُنُّونَ واغْفِرْ لَنَا مَا لَا يَعْلَمُونَ.

(۹۸)

جب کسی خبر کو سنو تو عقل کے معیار(۱) پر پرکھ لو اورصرف نقل پربھروسہ نہ کرو کہ علم کے نقل کرنے والے بہت ہوتے ہیں اور سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔

(۹۹)

آپ نے ایک شخص کو کلمہ انا للہ زبان پر جاری کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : انا للہ اقرار ہے کہ ہم کسی کی ملکیت ہیں اور انا للہ راجعون اعتراف ہے کہ ایک دن فنا ہو جانے والے ہیں۔

(۱۰۰)

ایک قوم نے آپ کے سامنے آپ کی تعریف کردی توآپنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئیے ۔خدایا تو مجھے ' مجھ سے بہتر جانتا ہے اورمیں اپنے کو ان سے بہتر پہچانتا ہوں لہٰذا مجھے ان کے خیال سے(۲) بہتر قرار دے دینا اور یہ جن کوتاہیوں کونہیں جانتے ہیں انہیں معاف کردینا۔

(۱)عالم اسلام کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ مسلمان روایات کے مضامین سے یکسر غافل ہے اور صرف راویں کے اعتماد پر روایات پر عمل کررہا ہے جب کے بے شمار روایات کے مضامین خلاف عقل و منطق اورمخالف اصول و عقائد ہیں اورمسلمان کو اس گمراہی کا احساس بھی نہیں ہے۔

(۲)اے کاش ہر انسان اس کردار کو اپنا لیتا اورتعریفوں سے دھوکہ کھانے کے بجائے اپنے امور کی اصلاح کی فکر کرت اور مالک کی بارگاہمیں اسیطرح عرض مدعاکرتا جس طرح مولائے کائنات نے سکھایا ہے مگرافسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور جہالت اس منزل پرآگئی ہے کہ صاحبان علم عوام الناس کیتعریف سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اپنے کو با کمال تصورکرنے لگتے ہیں جس کا مشاہدہ خطباء کی زندگی میں بھی ہو سکتا ہے اور شعراء کی مخفلوں میں بھی جہاں اظہار علم کرنے والے با کمال ہوتے ہیں اور تعریف کرنے والوں کی اکثریت ان کے مقابلہ میں بے کمال۔مگراس کے بعد بھی انسان تعریف سے خوش ہوتا ہے اورمغرور ہو جاتا ہے۔

۶۵۳

۱۰۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَسْتَقِيمُ قَضَاءُ الْحَوَائِجِ إِلَّا بِثَلَاثٍ - بِاسْتِصْغَارِهَا لِتَعْظُمَ وبِاسْتِكْتَامِهَا لِتَظْهَرَ - وبِتَعْجِيلِهَا لِتَهْنُؤَ

۱۰۲ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُقَرَّبُ فِيه إِلَّا الْمَاحِلُ - ولَا يُظَرَّفُ فِيه إِلَّا الْفَاجِرُ - ولَا يُضَعَّفُ فِيه إِلَّا الْمُنْصِفُ - يَعُدُّونَ الصَّدَقَةَ فِيه غُرْماً وصِلَةَ الرَّحِمِ مَنّاً - والْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَكُونُ السُّلْطَانُ بِمَشُورَةِ النِّسَاءِ - وإِمَارَةِ الصِّبْيَانِ وتَدْبِيرِ الْخِصْيَانِ.

۱۰۳ - ورُئِيَ عَلَيْه إِزَارٌ خَلَقٌ مَرْقُوعٌ فَقِيلَ لَه فِي ذَلِكَ

(۱۰۱)

حاجب روائی تین چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے :((۱) عمل کوچھوٹا سمجھے تاکہ وہ بڑا اقرار پا جائے ۔(۲) اسے پوشیدہ سور پر انجام دے تاکہ وہ خود اپنا اظہار کرے(۳) اسے جلدی پورا کردے تاکہ خوشگوار معلوم ہو(۱) ۔

(۱۰۲)

لوگوں پر ایک زمانہ آنے والا ہے جب صرف لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا مقرب بارگاہ ہواکرے گا اور صرف فاجر کو خوش مزاج سمجھا جائے گا اور صرف منصف کو کمزور قراردیاجائے گا۔لوگ صدقہ کو خسارہ صلہ رحم کو احسان اور عبادت کو لوگوں پر برتری کا(۲) ذریعہ قرار دیں گے ۔ایسے وقت(۱۴) میں حکومت عورتوں کے مشورہ ' بچوں کے اقتدار اورخواجہ سرائوں(۳) کی تدبیر کے سہارے رہ جائے گی۔

(۱۰۳)

لوگوں نے آپ کی چادر کو بوسیدہ دیکھ کر گزارش کردی

(۱)ظاہر ہے کہ حاجت برآری کا عمل جلد ہو جاتا ہے تو انسان کو بے پناہمسرت ہوتی ہے ورنہ اسکے بعد کام تو ہو جاتا ہے لیکن مسرت کا فقدان رہتا ہے اور وہ روحانی انبساط حاصل نہیں ہوتا ہے جو مدعا پیش کرنے کے فوراً بعد پورا ہو جانے میں حاصل ہوتا ہے۔

(۲)افسوس کہ اہل دنیا نے اس عبادت کوبھی اپنی برتری کا ذریعہ بنالیا ہے جس کی تشریع انسان کے خضوع و خشوع اورجذبہ ٔ بندگی کے اظہار کے لئے ہوئی تھی اور جس کامقصد یہ تھا کہ انسان کی زندگی سے غرور اور شیطنت نکل جائے اور تواضع و انکسار اس پرمسلط ہو جائے ۔

(۳)بظاہر کسی دور میں بھی خواجہ سرائوں کومشیر مملکت کی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے اور نہ ان کے کسی مخصوص تدبر کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس لئے بہت ممکن ہے کہ اس لفظ سے مراد وہ تمام افراد ہوں جن میں ان لوگوں کی خصلتیں پائی جاتی ہیں اورجو حکام کی ہر ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور ان کی ہر رغبت وخواہش کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں اورانہیں زندگی کے اندر و باہر ہر شعبہ میں برابر کا دخل رہتا ہے ۔

۶۵۴

فَقَالَ: يَخْشَعُ لَه الْقَلْبُ وتَذِلُّ بِه النَّفْسُ - ويَقْتَدِي بِه الْمُؤْمِنُونَ إِنَّ الدُّنْيَا والآخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ - وسَبِيلَانِ مُخْتَلِفَانِ - فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وتَوَلَّاهَا أَبْغَضَ الآخِرَةَ وعَادَاهَا - وهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ والْمَغْرِبِ ومَاشٍ بَيْنَهُمَا - كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِدٍ بَعُدَ مِنَ الآخَرِ - وهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ.

۱۰۴ - وعَنْ نَوْفٍ الْبَكَالِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام ذَاتَ لَيْلَةٍ - وقَدْ خَرَجَ مِنْ فِرَاشِه فَنَظَرَ فِي النُّجُومِ - فَقَالَ لِي يَا نَوْفُ أَرَاقِدٌ أَنْتَ أَمْ رَامِقٌ - فَقُلْتُ بَلْ رَامِقٌ قَالَ:

يَا نَوْفُ طُوبَى لِلزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا - الرَّاغِبِينَ فِي الآخِرَةِ - أُولَئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الأَرْضَ بِسَاطاً - وتُرَابَهَا فِرَاشاً ومَاءَهَا طِيباً - والْقُرْآنَ شِعَاراً والدُّعَاءَ دِثَاراً - ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْيَا قَرْضاً عَلَى مِنْهَاجِ الْمَسِيحِ.

يَا نَوْفُ إِنَّ دَاوُدَعليه‌السلام قَامَ فِي مِثْلِ هَذِه السَّاعَةِ مِنَ اللَّيْلِ - فَقَالَ إِنَّهَا لَسَاعَةٌ لَا يَدْعُو فِيهَا عَبْدٌ إِلَّا اسْتُجِيبَ لَه -

تو آپ نے فرمایا کہ اس سے دل میں خشوع اورنفس میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اور مومنین اس کی اقتدا بھی کرسکتے ہیں۔یاد رکھودنیا اورآخرت آپس میں دوناساز گار دشمن ہیں اور دو مختلف راستے ۔لہٰذا جو دنیا سے محبت اورتعلق خاطر رکھتا ہے وہ آخرت کادشمن ہو جاتا ہے اور جو راہر و ایک سے قریب تر ہوتا ہے وہ دوسرے سے دور ترہوجاتا ہے۔پھریہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی سوت جیسی ہیں ۔

(۱۰۴)

نوف بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین کو دیکھا کہ آپ نے بستر سے اٹھ کرستاروں پر نگاہ کی اور فرمایا کہ نوف! سو رہے ہو یا بیدار ہو؟ میں نے عرض کی کہ حضورجاگ رہا ہوں۔فرمایا کہ نوف ! خوشا بحال ان کے جو دنیا سے کنارہ کش ہوں توآخرت کی طرف رغبت رکھتے ہوں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو بستر بنایا ہے اورخاک کو فرش ' پانی کو شربت قراردیاہے اور قرآن و دعا کو اپنے ظاہرو باطن کامحافظ اس کے بعد دنیا سے یوں الگ(۱) ہوگئے جس طرح حضرت مسیح ۔

نوف! دیکھودائود رات کے وقت ایسے ہی موقع پر قیام کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ ساعت ہے جس میں جو بندہ بھی دعاکرتا ہے پروردگار اس کی دعا

(۱)اس مقام پر لفظ قرض اشارہ ہے کہ نہایت مختصر حصہ حاصل کیا ہے جس طرح دانت سے روٹی کاٹ لی جاتی ہے اور ساری روٹی کو منہمیں نہیں بھر لیا جاتا ہے کہ اس کیفیت کوخضم کہتے ہیں۔قرض نہیں کہتے ہیں۔

۶۵۵

إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَشَّاراً أَوْ عَرِيفاً أَوْ شُرْطِيّاً - أَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَةٍ وهِيَ الطُّنْبُورُ أَوْ صَاحِبَ كَوْبَةٍ وهِيَ الطَّبْلُ –

وقَدْ قِيلَ أَيْضاً إِنَّ الْعَرْطَبَةَ الطَّبْلُ - والْكَوْبَةَ الطُّنْبُورُ.

۱۰۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا - وحَدَّ لَكُمْ حُدُوداً فَلَا تَعْتَدُوهَا - ونَهَاكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا - وسَكَتَ لَكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ ولَمْ يَدَعْهَا نِسْيَاناً فَلَا تَتَكَلَّفُوهَا

۱۰۶ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَتْرُكُ النَّاسُ شَيْئاً مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ لِاسْتِصْلَاحِ دُنْيَاهُمْ - إِلَّا فَتَحَ اللَّه عَلَيْهِمْ مَا هُوَ أَضَرُّ مِنْه.

کوقبول کرلیتا ہے---مگر یہ کہ سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا' لوگوں کی برائی کرنے والا: ظالم حکومت کی پولیس والا یا سارنگی اورڈھول(۱) تاشہ والاہو۔

سید رضی : عرطبة : سارنگی کو کہتے ہیں اور کوبة کے معنی ڈھول کے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک عرطبہ ڈھول ہے اور کوبہ سارنگی ۔

(۱۰۵)

پروردگارنے تمہارے ذمہ کچھ فرائض قرار دئیے ہیں لہٰذا خبردار انہیں ضائع نہ کرنا اور اسنے کچھ حدود بھی مقرر کردئیے ہیں لہٰذا ان سے تجاوز نہ کرنا۔اس نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کی خلاف ورزی نہ کرنا اورجن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا ہے زبردستی انہیں جاننے کی کوش نہ کرناکہ وہ بھولا نہیں ہے۔

(۱۰۶)

جب بھی لوگ دنیا سنوارنے کے لئے دین کی کسی بات کو نظرانداز کردیتے ہیںتو پروردگار اس سے زیادہ نقصان دہ راستے کھول دیتا ہے۔

(۱)افسوس کی بات ہے کہ بعض علاقوں می بعض مومن اقوام کی پہچان ہی ڈھول تاشہ اورسارنگی بن گئی ہے جب کہ مولائے کائنات نے اس کاروبار کو اس قدر مذموم قراردیا ہے کہ اس عمل کے انجام دینے والوں کیدعابھی قبول نہیں ہوتی ہے۔

اس حکمت میں دیگر افراد کا تذکرہ ظالموں کے ذیل میں کیا گیا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ظالم حکومت کے لئے کسی طح کا کام کرنے والا پیش پروردگار مستجاب الدعوات نہیں ہو سکتا ہے ۔جب وہ اپنے ضروریات حیات کوظالموں کی اعانت سیوابستہ کردیتا ہے تو پروردگار اپنا دست کرم اٹھالیتا ہے ۔

۶۵۶

۱۰۷ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ عَالِمٍ قَدْ قَتَلَه جَهْلُه وعِلْمُه مَعَه لَا يَنْفَعُه.

۱۰۸ - وقَالَعليه‌السلام لَقَدْ عُلِّقَ بِنِيَاطِ هَذَا الإِنْسَانِ بَضْعَةٌ - هِيَ أَعْجَبُ مَا فِيه وذَلِكَ الْقَلْبُ - وذَلِكَ أَنَّ لَه مَوَادَّ مِنَ الْحِكْمَةِ وأَضْدَاداً مِنْ خِلَافِهَا - فَإِنْ سَنَحَ لَه الرَّجَاءُ أَذَلَّه الطَّمَعُ - وإِنْ هَاجَ بِه الطَّمَعُ أَهْلَكَه الْحِرْصُ - وإِنْ مَلَكَه الْيَأْسُ قَتَلَه الأَسَفُ - وإِنْ عَرَضَ لَه الْغَضَبُ اشْتَدَّ بِه الْغَيْظُ - وإِنْ أَسْعَدَه الرِّضَى نَسِيَ التَّحَفُّظَ - وإِنْ غَالَه الْخَوْفُ شَغَلَه الْحَذَرُ - وإِنِ اتَّسَعَ لَه الأَمْرُ اسْتَلَبَتْه الْغِرَّةُ - وإِنْ أَفَادَ مَالًا أَطْغَاه الْغِنَى - وإِنْ أَصَابَتْه مُصِيبَةٌ فَضَحَه الْجَزَعُ - وإِنْ عَضَّتْه الْفَاقَةُ شَغَلَه الْبَلَاءُ - وإِنْ جَهَدَه الْجُوعُ قَعَدَ بِه الضَّعْفُ - وإِنْ أَفْرَطَ بِه الشِّبَعُ كَظَّتْه الْبِطْنَةُ -

(۱۰۷)

بہت سے عالم(۱) ہیں جنہیں دین سے نا واقفیت مارڈالاہے اور پھر ان کے علم نے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔

(۱۰۸)

اس انسان کے وجود میں سب سے زیادہ تعجب خیز وہ گوشت کا ٹکڑا ہے جو ایک رگ سے آویزاں کردیا گیا ہے اور جس کا نام قلب ہے کہ اس میں حکمت(۲) کے سر چشمے بھی ہیں اوراس کی ضدیں بھی ہیں کہ جب اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع ذلیل بنادتی ہے اور جب طمع میں ہیجان پیدا ہوتا ہے تو حرص برباد کردیتی ہے اورجب مایوسی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو حسرت مار ڈالتی ہے اور جب غضب طاری ہوتا ہے ۔توغم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے اور جب خوشحال ہو جاتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتا ہے اور جب خوف طاری ہوتا ہے تواحتیاط دوسری چیزوں سے غافل کردیتی ہے۔اور جب حالات وسعت پیدا ہوتی ہے تو غفلت قبضہ کرلیتی ہے -اورجب مال حاصل کر لیتا ہے تو بے نیازی سر کش بنا دیتی ہے اورجب کوئی مصیبت نازل ہو جاتی ہے توفریادرسواکر دیتی ہے اور جب فاقہ کاٹ کھاتا ہے تو بلاء گرفتار کر لیتی ہے اور جب بھوک تھکا دیتی ہے توکمزوری بٹھا دیتی ہےاورجب ضرورت سے زیادہ پیٹ بھر جاتا ہے

(۱)یہ دانشوران ملت ہیں جن کے پاس ڈگریوں کاغرورتو ہے لیکن دین کی بصیرت نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے افراد کا علم تباہ کرسکتا ہے آباد نہیں کر سکتا ہے۔

(۲)انسانی قلب کو دو طرح کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔اس میںایک پہلو عقل و منطق کا ہے اور دوسرا جذبات و عواطف کا۔اس ارشاد گرامی میں دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے متضاد خصوصیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

۶۵۷

فَكُلُّ تَقْصِيرٍ بِه مُضِرٌّ وكُلُّ إِفْرَاطٍ لَه مُفْسِدٌ.

۱۰۹ - وقَالَعليه‌السلام نَحْنُ النُّمْرُقَةُ الْوُسْطَى بِهَا يَلْحَقُ التَّالِي - وإِلَيْهَا يَرْجِعُ الْغَالِي

۱۱۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُقِيمُ أَمْرَ اللَّه سُبْحَانَه إِلَّا مَنْ لَا يُصَانِعُ - ولَا يُضَارِعُ ولَا يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ

۱۱۱ - وقَالَعليه‌السلام : وقَدْ تُوُفِّيَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيُّ بِالْكُوفَةِ - بَعْدَ مَرْجِعِه مَعَه مِنْ صِفِّينَ - وكَانَ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْه.

لَوْ أَحَبَّنِي جَبَلٌ لَتَهَافَتَ

معنى ذلك أن المحنة تغلظ عليه - فتسرع المصائب إليه - ولا يفعل ذلك إلا بالأتقياء الأبرار - والمصطفين الأخيار: وهذا مثل قولهعليه‌السلام :

تو شکم پری کی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔مختصر یہ ہے کہ ہر کوتا ہی نقصان دہ ہوتی ہے اور ہر زیادتی تباہ کن۔

(۱۰۹)

ہم اہل بیت ہی وہ نقطہ اعتدال(۱) ہیں جن سے پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ کر ان سے مل جاتا ہے اور آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر ملحق ہو جاتا ہے۔

(۱۱۰)

حکم الٰہی کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو حق کے معاملہ میں مروت نہ کرتا ہو اورعاجزی و کمزوری کا اظہارنہ کرتا ہو اور لالچ کے پیچھے نہ دوڑتا ہو۔

(۱۱۱)

جب صفین سے واپسی پر سہل بن حنیف انصاری کاکوفہ میں انتقال ہوگیا جو حضرت کے محبوب صحابی تھے تو آپ نے فرمایا کہ''مجھ سے کوئی پہاڑ بھی محبت کرے گا تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ۔

مقصد یہ ہے کہ میری محبت کی آزمائش سخت ہے اور اس میں مصائب کی یورش ہو جاتی ہے جوشرف صرف متقی اورنیک کردار لوگوں کوحاصل ہوتا ہے جیسا کہ آپنے دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا ہے۔

(۱)شیخ محمد عبدہ نے اس فقرہ کی یہ تشریح کی ہے کہ اہل بیت اس مسند سے مشابہت رکھتے ہیں جس کے سہارے انسان کی پشت مضبوط ہوتی ہے اوراسے سکون زندگی حاصل ہوتا ہے ۔وسطی کے لفظ سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تمام مسندیں اسی سے اتصال رکھتی ہیں اور سب کا سہارا وہی ہے۔اہل بیت اس صراط مستقیم پر ہیں جن سے آگے بڑھ جانے والوں کو بھی ان سے ملنا پڑتا ہے اور پیچھے رہ جانے والوںکوبھی ۔!

۶۵۸

۱۱۲ - مَنْ أَحَبَّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَاباً.

وقد يؤول ذلك على معنى آخر ليس هذا موضع ذكره.

۱۱۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ ولَا وَحْدَةَ أَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ - ولَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ ولَا كَرَمَ كَالتَّقْوَى - ولَا قَرِينَ كَحُسْنِ الْخُلُقِ ولَا مِيرَاثَ كَالأَدَبِ - ولَا قَائِدَ كَالتَّوْفِيقِ ولَا تِجَارَةَ كَالْعَمَلِ الصَّالِحِ - ولَا رِبْحَ كَالثَّوَابِ ولَا وَرَعَ كَالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ - ولَا زُهْدَ كَالزُّهْدِ فِي الْحَرَامِ ولَا عِلْمَ كَالتَّفَكُّرِ - ولَا عِبَادَةَ كَأَدَاءِ الْفَرَائِضِ - ولَا إِيمَانَ كَالْحَيَاءِ والصَّبْرِ ولَا حَسَبَ كَالتَّوَاضُعِ - ولَا شَرَفَ كَالْعِلْمِ ولَا عِزَّ كَالْحِلْمِ - ولَا مُظَاهَرَةَ أَوْثَقُ مِنَ الْمُشَاوَرَةِ.

(۱۱۲)

جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے جامہ(۱) فقر پہننے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے ۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس ارشاد کی ایک دوسری تفسیر کی ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔

(۱۱۳)

عقل سے زیادہ فائدہ مند کوئی دولت نہیں ہے اور خود پسندی سے زیادہ وحشت ناک کوئی تنہائی نہیں ہے۔تدبیر جیسی کوئی عقل نہیں ہے اورتقویٰ جیسی کوئی بزرگی نہیں ہے۔حسن اخلاق جیسا کوئیساتھی نہیں ہے اوراد ب جیسی کوئی میراث نہیں ہے ۔توفیق جیساکوئی پیشرو نہیں ہے اورعمل صالح جیسی کوئی تجارت نہیں ہے۔ثواب جیسا کوئی فائدہ نہیں ہے اور شبہات میں احتیاط جیسی کوئی پرہیز گاری نہیں ہے۔حرام کی طرف سے بے رغبتی جیساکوئی زہد نہیں ہے اورتفکر جیسا کوئی علم نہیں ہے۔ادائے فرائض جیسی کوئی عبادت نہیں ہے اورحیا و صبر جیسا کوئی ایمان نہیں ہے۔تواضع جیسا کوئی حسب نہیں ہے اور علم جیسا کوئی شرف نہیں ہے۔حلم جیسی کوئی عزت نہیں ہے اور مشورہ سے زیادہ مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں ہے۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ اہل بیت کاکل سرمایہ حیات دین و مذہب اور حق و حقانیت ہے اور اس کے برداشت کرنے والے ہمیشہ کم ہوتے ہیں لہٰذا اس راہ پر چلنے والوں کو ہمیشہ مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

۶۵۹

۱۱۴ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا اسْتَوْلَى الصَّلَاحُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِه - ثُمَّ أَسَاءَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ لَمْ تَظْهَرْ مِنْه حَوْبَةٌ فَقَدْ ظَلَمَ - وإِذَا اسْتَوْلَى الْفَسَادُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِه - فَأَحْسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ فَقَدْ غَرَّرَ

۱۱۵ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام كَيْفَ نَجِدُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام كَيْفَ يَكُونُ حَالُ مَنْ يَفْنَى بِبَقَائِه - ويَسْقَمُ بِصِحَّتِه ويُؤْتَى مِنْ مَأْمَنِه

۱۱۶ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه - ومَغْرُورٍ بِالسَّتْرِ عَلَيْه ومَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه - ومَا ابْتَلَى اللَّه أَحَداً بِمِثْلِ الإِمْلَاءِ لَه

۱۱۷ - وقَالَعليه‌السلام هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ ومُبْغِضٌ قَالٍ

(۱۱۴)

جب زمانہ اور اہل زمانہ پر نیکیوں کا غلبہ ہوا اور کوئی شخص کسی شخص سے کوئی برائی دیکھے بغیر بد ظنی پیدا کرے تواس نے اس شخص پر ظلم کیا ہے اور جب زمانہ اور اہل زمانہ پر فساد کا غلبہ ہو اور کوئی شخص کسی سے حسن ظن قائم کرلے تو گویا اسنے اپنے ہی کودھوکہ دیا ہے ۔

(۱۱۵)

ایک شخص نے آپ سے مزاج پرسی کرلی تو فرمایا کہ اس کا حال کیا ہوگا جس کی بقاہی فناکی طرف لے جا رہی ہے اور صحت ہی بیماری کا پیش خیمہ ہے اور وہ اپنی پناہ گاہ ہی سے ایک دن گرفت میں لے لیاجائے گا۔

(۱۱۶)

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نیکیاں دے کر گرفت میں لیا جاتا ہے اور وہ پردہ(۱) پوشی ہی سے دھوکہ میں رہتے ہیں اوراپنے بارے میں اچھی بات سن کردھوکہ کھا جاتے ہیں ۔اور دیکھو اللہ نے مہلت سے بہتر کوئی آزمائش کاذریعہ نہیں قرار دیا ہے۔

(۱۱۷)

میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔وہ دوست جو دوستی میںغلو سے کام لیتے ہیں اوروہ دشمن جو دشمنی میں مبالغہ کرتے ہیں۔

(۱)انسانوں میں جومختلف کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان میں اہم ترین کمزوریاں یہ ہیں کہ وہ ہر تعریف کواپناحق سمجھتا ہے اور ہر مال کو اپنامقدر قراردے لیتا ہے اور پروردگار کی پردہ پوشی کو بھی اپنے تقدس کا نام دے دیتا ہے اوریہ احساس نہیں کرتا ہے کہ یہ فریب زندگی کسی وقت بھی دھوکہ دے سکتا ہے اوراس کا انجام یقینا برا ہو گا۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863