نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657202 / ڈاؤنلوڈ: 15929
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

نبی ؐ سے ملاقات کرو ۔(1)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر معاویہ کے پاس آئے،معاویہ نے ان کا خیر مقدم کیا،اور اپنے قریب بلا کر اپنے تخت پر بٹھایا پھر معاویہ نے کہا:اے ابوخبیب!اپنی حاجتیں بیان کرو انہوں نے معاویہ سے کچھ مانگا،پر معاویہ نے کہا:اس کے علاوہ بھی کچھ مانگو،انہوں نے کہا:ہاں،مہاجرین و انصار کا وظیفہ انھیں واپس دیدو اور ان کے بارے میں وصیتِ پیغمبر ؐ کی پابندی کرو،ان کے نیکوکاروں کو قبول کر اور ان میں جو غلط ہیں انہیں معاف کردو،معاویہ نے کہا:افسوس،بھیڑیں،بھیڑیوں سے نہیں بچ سکتیں وہ تو ان کی آنتیں بھی کھاچکا ہے ۔(2)

بنوامیہ،صحابہ کی اسلامی خدمات سے لوگوں کو بےخبر رکھنا چاہتے تھے

بنوامیہ کے دور میں بات یہاں تک پہنچی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صحابہ کے گذشتہ اسلامی خدمات سے لوگوں کو واقف کرایا جائے بلکہ کوشش یہ تھی کہ صحابہ کے کارناموں کا تذکرہ ہی نہ ہو ۔

ایک مرتبہ انصار کا وفد معاویہ کے دروازے پر حاضر ہوا،معاویہ کا حاجب ابودرّہ ان کے پاس آیا،انصار نے کہا:معاویہ سے ہمارے لئے اجازت لیکر آؤ،وہ معاویہ کے پاس واپس گیا،اس وقت اس کے پاس عمروعاص بیٹھا تھا،عمروعاص وہی شخص ہے جسے سقیفہ کے بعد انصار سے تکلیف پہنچی تھی اور انصار نے امیرالمومنین ؑ کی نصرت کی تھی جس کی وجہ سے عمروعاص کو مدینہ چھوڑنا پڑا تھا،بہرحال حاجب نے آکے کہا کہ معاویہ صاحب آپ کے دروازے پر انصار آئے ہیں،عمروعاص نے جب سنا کہ معاویہ کے ہاں انصار آئے ہیں،انصار کا لقب تو مدینہ والوں کو قران مجید اور سنتِ شریفہ سے ملا تھا اور مسلمانوں کے درمیان یہ لوگ انصار ہی کے لقب سے مشہور تھے،عمروعاص کو یہ بات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)الاستیعاب ج:3ص:1421سیراعلام نبلاء ج:2ص:453۔454،شعب الایمان ج:6ص:56۔57،الجامع المعمر بن راشد ج:11ص:60۔61،تاریخ دمشق ج:34ص:295۔296،حالات عبدالرحمٰن بن حسان ج:67ص:151،تاریخ الخلفاء ج:1ص:201 (2)شرح نہج البلاغہ ج:20ص:141

۲۸۱

کیسے برداشت ہوتی کہ انصار کو انصار کو کہا جائے،اس سے کتابِ خدا اور سنتِ پیغمبر ؐ کی پیروی ہورہی تھی،اس لئے جب حاجب نے انھیں ملقب کرکے معاویہ کو خبر دی تو عمروعاص نے کہا:یہ کیا لقب ہے جس کو وہ لوگ نسب کے طور پر استعمال کر رہے ہیں انھیں ان کے نسب کی طرف پلٹاؤ،معاویہ نے اس کو سمجھایا کہ اس سے ہمیں پر الزام آئے گا،اس نے کہا:الزام کیا آئے گا یہ تو ایک بات کی جگہ دوسری بات ہے،اس کو پلٹانا ناممکن نہیں،معاویہ نے عمروعاص کی بات مان لی اور اپنے حاجب سے کہا کہ جا کے آواز دو کہ عمرو بن عامر کے بیٹوں کو بلایا گیا ہے،حاجب گیا اور اس نے آواز دی عمرو بن عامر کے بیٹوں کے لئے اجازت ہے،پس عمرو بن عامر کی اولاد داخل ہوئی لیکن ان میں جو انصار تھے وہ نہیں گئے،معاویہ نے حاجب سے کہا:اب جا کے آواز دو کہ اوس و خزرج کی اولاد کو بھی بلایا گیا ہے،پس اسنے باہر نکل کر یہی آواز لگائی،یہ سن کر نعمان بن بشیر انصاری کو بہت برا لگا،وہ آگے بڑھے اور یہ اشعار پڑھنے لگے ۔

ترجمہ اشعار اے سعد!ہمیں بار بار مت پکارو ہمارا سب سے نجیب نسب صرف یہ ہے کہ ہم انصار ہیں،یہ وہ نسب ہے جو ہماری قوم کے لئے اللہ نے اختیار کیا ہے اور یہ نسب کافروں پربہت بھاری ہے،تم لوگوں میں جو بدر کے میدان میں ہمارے ہاتھوں موت کی نیند سلا دیئے گئے،وہ قیامت کے دن جہنم کا ایندھن ہوں گے،یہ اشعار پڑھنے کے بعد نعمان بن بشیر غصہ میں کھڑے ہوگئے اور جانے لگے معاویہ نے انھیں واپس بلایا اور خوشامد کر کے راضی کرلیا،پھر ان کی اور ان کے ساتھ انصاریوں کی حاجتیں پوری کیں ۔(1)

امویوں کے دل میں بغض صحابہ جڑ پکڑ چکا تھا،مروان بن حکم کو یہ بھی گوارہ نہیں تھا کہ سرکار دو عالم ؐ نے جو پتھر عثمان بن مظعون کی قبر پر رکھا تھا اس کو وہ برقرار رکھتا،عثمان بن مظعون وہ پہلے مہاجر تھے جن کی وفات مدینہ میں ہوئی تھی،انھیں سرکار دو عالم ؐ نے جن البقیع میں دفن کرایا اور اپنے ہاتھوں سے اس قبر پر نشانی کے لئے پتھر رکھ دیا،اہل بیت ؑ پیغمبر ؐ میں سے جو بھی مرتا تھا انھیں کی قبر کے پاس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الاغانی،ج: 16 ص: 56 ،اور ص: 50 ۔ 51

۲۸۲

دفن کیا جاتا تھا،جب مروان بن حکم معاویہ کی طرف سے مدینہ کا گورنر ہوا اس پتھر کے پاس سے گذرا اور اسے اپنے ہاتھ اٹھا کے پھینک دیا اور کہنے لگا،عثمان بن مظعون کی قبر پر کوئی ایسا پتھر نہیں ہونا چاہئے جس کی وجہ سے ان کی پہچان ہو،بنوامیہ اس کے پاس آئے اور کہا کہ تو نے برا کیا ہےہ تو نے اس پتھر کو اٹھا کر پھینک دیا ہے جسے نبی ؐ نے اپنے ہاتھ سے رکھا تھا،تو نے بہت برا کام کیا،حکم دے کہ وہ پتھر وہاں واپس رکھ دیا جائے اس نے کہا،خدا کی قسم جس کو میں نے پھینک دیا وہ واپس نہیں ہوسکتا(1)

زبیر بن بکار کہتے ہیں کہ جب سلیمان بن عبدالملک ولی عہد سلطنت تھا تو ایک دن وہ مدینہ آیا اور ابان بن عثمان کو حکم دیا کہ وہ نبی ؐ کی سیرت اور آپ کے غزوات پر ایک کتاب لکھے،ابان نے کہا کہ ہمارے پاس ایک ایسی کتاب پہلے سے موجود ہے جسے ہم نے جن لوگوں کو قابل اعتبار سمجھا ہے ان سے تصحیح بھی کرالی ہے سلیمان بن عبدالملک نے کہا کہ ٹھیک ہے اسی کو لے آؤ سلیمان نے اس کام کے لئے دس کاتب مقرر کئے اور انھوں نے بہت محنت سے وہ کتاب لکھی،جب سلیمان کے سامنے وہ کتاب لائی گئی تو اسنے دیکھا کہ اس کتاب میں دونوں وادیوں(عقبی اولیٰ و عقبہ ثانیہ)میں انصار کے کارناموں کے بارے میں لکھا ہوا ہے پھر بدر میں انصار ہی کی نصرت کا تذکرہ ہے،سلیمان بن عبدالملک نے جب یہ دیکھا تو بھڑک اٹھا اور کہنے لگا یہ لوگ میری نظر میں اتنے صاحب فضیلت تو نہیں تھے اگر ان میں سے کچھ لوگ ہمارے گھر والے بھی ہیں تو ان کو ہلکا کر کے دکھایا ہے حالانکہ وہ لوگ ایسے ہیں نہیں،سنو!مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ میں یہ کتاب لکھواؤں اور امیرالمومنین(عبدالملک مروان)سے اس کا تذکرہ کروں،وہ تو اس کتاب کی مخالفت کریں گے بس اس نے اس کتاب کو جلا دینے کا حککم دیا اور وہ جلا دی گئی پھر سلیمان اپنے باپ کے پاس واپس ہوا اور اس واقعہ کے بارے میں اسے بتایا،عبدالملک نے کہا:ایسی کتاب جس میں ہم لوگوں کی کوئی فضیلت ہی نہیں لکھی ہے اس کو آگے بڑھانے کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)تاریخ المدینہ ج:1ص:101۔102

۲۸۳

اس کتاب کو پڑھ کر تو اہل شام وہ سب جان جائیں گے جس سے ہم ان کو ناواقف رکھا چاہتے ہیں،سلیمان نے کہا:اے امیرالمومنین یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کو جلانے کا حکم دیا،جتنا بھی لکھا جاچکا تھا سب جلادیا گیا عبدالملک نے یہ سن

کے اس کی رائے کو صحیح قرار دیا(1)

اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑدی تھی جس کی وجہ سے واقعہ حرہ ہوا مدینہ کو تباہ کیا گیا اور لوٹا گیا،خلع بیعت کا سبب ہی یہی تھا کہ اہل مدینہ اپنے بزرگوں کی پیروی میں امویوں کے مخالف تھے اور بنوامیہ کے دلوں میں اہل مدینہ کے خلاف شدید بغض تھا ۔

بنوامیہ اور حقیقتوں کو بدلنے کی کامیاب کوشش

یہ عجیب بات ہے کہ بنوامیہ حقائق کو بدلنے کی کوشش میں کامیاب رہے جس کے نتیجہ میں آج اہل سنت معاویہ اور عمروعاص جیسے مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں،ان کی حمایت میں کتاب لکھتے ہیں،تقریریں کرتے ہیں اور اسی طرح ان کا احترام کرتے ہیں جیسے ایک صحابہ کا احترام ہونا چاہئے،شیعہ جب ان جیسے لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں تو اہل سنت احتجاجاً ان کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابی کو برا نہیں کہنا چاہئے بلکہ شیعوں کو یہ کہہ کر بدنام کرتے ہیں کہ یہ لوگ صحابہ کا احترام نہیں کرتے اور انھیں لعن و طعن کرتے ہیں،وجہ صرف یہ ہے کہ امویوں نے حقائق کو بگاڑ کے پیش کیا ہے،اور اپنے دور میں صحابیت کی جو تعریف بتائی ہے وہ صرف انھیں پر صادق آتی ہے،اہل سنت بھائیوں کو اموی پروپیگن ڈ ے نے یہ جاننے کی مہلت ہی نہیں دی کہ حقیقت کیا ہے؟اور صحابہ بنوامیہ کے کتنے مخالفت دشمنی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الموفقیات ص: 331 ۔ 334

۲۸۴

معاویہ کی ہلاکت کے بعد اہل بیتؑ کے بارے میں صحابہ کا نظریہ

ہم اپنے سلسلہ بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے اب یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام کا نظریہ معاویہ کی ہلاکت کے بعد کیا تھا؟تاریخ کا مطالعہ کریں تو صحابہ کو اہل بیت ؑ کے ساتھ ساتھ پائیں گے،(معاویہ کے مرنے کے بعد اب وہ سیاست مرچکی تھی،جسے اخلاقیات کے علما صاف لفظوں میں مکاری اور روباہی کہتے ہیں نتیجہ میں صحابہ کو اپنا موقف بیان کرنے کی کچھ آزادی ملی اور صحابہ اہل بیت ؑ کے ساتھ ہوگئے،ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو ابوعبداللہ الحسین ؑ کے ساتھ عراق چلے گئے اور امام حسین ؑ مظلوم کی نصرت میں ؤپ کے سامنے جام شہادت سے سیراب ہوئے،ان میں انصاریوں کا ایک گروہ بھی تھا،انھیں میں انس بن مالک کاہلی بھی تھے جنھوں نے بدر سے حنین تک ہر جہاد میں نبی ؐ کی نصرت کی تھی،اور انھیں سے یہ حدیث بھی ہے جو کربلا کی طرف اشارہ کتی ہے،حضور سرور کائنات ؐ نے انھیں سے یہ فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا حسین ؑ اس جگہ شہید کیا جائےگا جس کا نام کربالا ہے جو تم میں اسے اس وقت موجود ہوا سے چاہئے کہ اس کی(حسین ؑ کی)نصرت کرے ۔(1)

جب کربلا کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت انس بن مالک بہت بوڑھے ہوچکے تھے آنکھوں پر لٹکی ہوئی بھنووں کو عمامہ کے نیچے ایک عصابہ(پٹی)سے باندھ رکھا تھا جب امام حسین ؑ مظلوم نے آپ کو اس حال میں دیکھا تو رونے لگے،اور فرمایا اے شیخ!خدا آپ کی کوششوں کو مشکور قرار دے انس بن مالک نے اس بڑھاپے میں اٹھارہ یزیدیوں کو جہنم واصل کیا،پھر آپ شہید ہوگئے،رضوان اللہ علیہ ۔(2) اس طرح بہت سے صحابہ تھے جنھوں نے اہل بیت ؑ کا دامن تھام لیا تھا،اہل بیت ؑ کے لئے قربانیاں دے رہے تھے،اور اہل بیت ؑ کے دشمنوں سے کھلی ہوئی دشمنی کررہے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) الاصابہ ج: 1 ص: 121 تاریخ دمشق ج: 14 ص: 224 ،بدایہ و النہایہ ج: 8 ص: 199 ،ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 8

( 2) مقتل الحسین للمقرم ص: 313

۲۸۵

مناقب اہل بیتؑ بیان کرنے اور نص کی روایت کرنے میں صحابہ کی کوشش

صحابہ کی کثیر تعداد نے تو اپنا یہ فرضیہ بنالیا تھا کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں نصوص نبوی ؐ کی تبلیغ کرتے رہیں اور مسلمانوں کے درمیان نص کے ساتھ ہی فضائل و مناقب اہل بیت ؑ کی نشر و اشاعت کرتے رہیں،وہ مسلسل امت کو اہل بیت ؑ کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے اور اہل بیت ؑ سے کسی بھی لمحہ غلفت نہیں کرتے تھے ۔

آپ کے سابقہ چوتھے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ابوایوب انصاری کے ساتھ انصار کی ایک جماعت نے امیرالمومنین ؑ کو مولا کہہ کے سلام کیا تا کہ حدیث غدیر کی تجدید ہوسکے،جس حدیث غدیر کو شیعہ،امیرالمومنین ؑ کی خلافت پر نص صریح مانتے ہیں،یہ اقدام شاید اس لئے بھی کیا گیا تھا کہ امیرالمومنین ؑ نے لوگوں کو قسم دی تھی کہ جو واقعہ غدیر میں موجود تھا وہ کھڑا ہوا اور جو کچھ سنا اور دیکھا تھا بیان کرے،صحابہ کی ایک جماعت نے اس آواز پر لبیک کہا اور کھڑے ہوکے گواہی دی ایک چھوٹی سی جماعت نے شہادت سے گریز بھی کیا لیکن اتنی بڑی جماعت کی گواہی کا یہ فائدہ ہوا کہ حدیث غدیر کی نشر و اشاعت اور شہرت ہوگئی کتابوں میں نقل کی گئی اور صحابہ نے کثرت سے اس کی روایت کی ۔

امام حسینؑ نے صحابہ کو اہل بیتؑ کا حق ثابت کرنے کے لئے جمع کیا

سلیم بن قیس ہلالی کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ معاویہ کے آخری اوقات میں حج کے لئے تشریف لائے اس وقت مہاجرین و انصار کے نمایاں افراد جو باقی بچ رہے تھے وہ بھی آئے ہوئے تھے وہ لوگ بھی تھے جنہیں صالح اور عبادت گذار سمجھا جاتا تھا اور زمین کے مختلف گوشوں سے سمٹ کے مکہ میں آگئے تھے،یہ تھا مجمع یعنی سامعین اور خطیب تھے امام حسین ؑ آپ نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:مسلمانو!اس سرکش(معاویہ)نے ہمارے ساتھ اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور کررہا ہے اسے

۲۸۶

آپ دیکھ رہے ہیں اور شاہد ہیں،میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں اگر میں سچ کہوں تو آپ میری تصدیق کریں گے اور اگر میں جھوٹ بولوں تو آپ میری تکذیب کردیجئے گا،میں آپ سے اللہ کا اور اللہ کے رسول ؐ کا اور پیغمبر ؐ سے اپنی قرابت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جب آپ یہاں سے جائیں تو میری باتیں لیتے جائیں اور ان لوگوں کو میری طرف سے دعوت دین جو آپ کے قبیلہ میں آپ کے ناصر ہیں اور جن پر آپ اعتماد کرتے ہیں،آپ ہمارے حق کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں انھیں جاکے بتائیں کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ اَمر مٹ نہ جائے،حق تباہ اور مغلوب نہ ہوجائے حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہےگا چاہے کافروں کو ناگوار گذرے))پھر قرآن میں اہل بیت ؑ کے بارے میں جتنی آیتیں نازل ہوئیں تھیں آپ نے ایک ایک آیت کی تلاوت کی اور سرکار دو عالم ؐ نے آپ کے والد ماجد آپ کی مادر گرامی آپ کے بھائی اور خود آپ کے بارے میں جو حدیثیں ارشاد فرمائی تھیں سب کو دہرایا،صحابہ کو جو مجمع وہاں موجود تھا آپ کے ہر جملہ پر کہہ رہا تھا،اللہ(برائے خدا)ہاں ہم نے سنا اور ہم گواہ ہیں اور جو تابعی تھے وہ کہہ رہے تھے بخدا ہم سے یہ حدیثیں صحابہ کے اس گروہ نے بیان کی ہیں جن کی صداقت و امانتداری کے ہم معترف ہیں ۔

پھر آپ نے فرمایا:میں آپ لوگوں کو خدا کی قسم دے کے کہتا ہوں یہ باتیں صرف ان لوگوں سے بیان کیجئے گا جن کے اوپر اور جن کے دین پر آپ بھروسہ کرتے ہیں پھر سب متفرق ہوگئے(1) جابر بن عبداللہ انصاری حدیث لوح کے راوی ہیں اللہ نے اپنے نبی ؐ پر ایک تختی نازل کی تھی جس میں بارہ اماموں کے نام لکھے ہوئے تھے ۔(2)

حق تو یہ ہے کہ اگر صحابہ نہیں ہوتے تو ہم تک اس وافر مقدار میں نصوص نبی نہیں پہنچتی،یہ تمام فضائل و مناقب اہل بیت ؑ اور مولائے کائنات ؑ کی امامت پر متواتر نصوص صحابہ کی ہی فیضان ہے،صحابہ نے صرف فضائل اہل بیت ؑ ہی پہنچانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دشمنان اہل بیت ؑ کی مذمت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)کتاب سلیم بن قیس الہلالی ص:320۔323

(2)بحارالانوار ج:36ص:201۔202

۲۸۷

میں حدیثیں اور ان کی گذری سیرت کی نقاب کشائی بھی انھیں صحابہ کرام کے ہاتھوں ہوئی،خاص طور سے صحابہ کرام اس وقت کھل کے سامنے آگئے جب حکومت کی طرف سے سنت نبوی ؐ کی نشر و اشاعت پر عائد کردہ پابندیاں ہٹ گئیں،ان پابندیوں کی طرف ہم آپ کے ساتویں سابقہ سوال کے جواب میں اشارہ کرچکے ہیں ۔

آخر ابوبکر اور عمر نے سنت نبوی کی اشاعت پر پابندی کیوں لگادی تھی؟

کبھی آپ نے غور فرمایا ہے کہ آخر عمر اور ابوبکر سنت نبوی ؐ کا شیاع کیوں نہیں چاہتے تھے؟حدیث پیغمبر ؐ کی روایت کرنے سے کیوں منع کرتے تھے؟عمر نے اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدینہ سے نکلنے پر پابندی کیوں عائد کردی تھی؟صرف اس خوف سے کہ اگر حدیث نبوی کی روایت کی اجازت دیدی گئی تو صحابہ مولا کی خلافت پر نص کرنے والی حدیثیں بھی بیان کرجائیں گے،اگر صحابہ مختلف شہروں میں آنے جانے لگے تو مسلمانوں کو مناقب و فضائل اہل بیت ؑ سے واقف کردیں گے،نتیجہ ہماری حکومت کے لئے بہت خراب ہوگا اور ہماری حکومت کا نگاہ عوام میں اعتبار شرعی مجروح ہوجائےگا حکومت یہ اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ صحابہ کی اکثریت کے دل اہل بیت ؑ کی طرف متوجہ ہیں،وہ علی ؑ کی خلافت منصوصہ پر ایمان رکھتے ہیں،وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ مولائے کائنات ؑ اور اہل بیت ؑ ہی حکومت اور خلافت کے حق دار ہیں،جیسا کہ میں نے ابھی کچھ صفات پہلے شواہد کے ساتھ یہ بات عرض کی ہے ۔

حاصل گفتگو یہ کہ صحابہ کی اکثریت جن میں مہاجرین و انصار کے سابقون اولون بھی شامل ہیں،اہل بیت ؑ اور امیرالمومنین علی ؑ کے ساتھ تھی یہ لوگ اس وقت بھی امیرالمومنین ؑ کو حقدار خلافت سمجھتے تھے،جب آپ کی عام بیعت نہیں ہوئی تھی اور آپ کی ظاہری خلافت کے دور میں بھی ان کا نظریہ یہی تھا اور آپ کی شہادت کے بعد بھی وہ اسی نظریہ پر باقی رہے ۔

۲۸۸

اکثر صحابہ کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ مولائے کاتناتؑ کی امامت کے حق ہونے کا اعتراف کرتے تھے

چونکہ اکثر صحابہ اس بات کے معترف تھے کہ امامت امیرالمومنین ؑ کا حق ہے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ روز اول ہی سے امام برحق مولائے کائنات ؑ ہیں اسی لئے وہ اپنے نظریہ کا اعلان مختلف موقعوں پر کرتے رہے تھے،ظاہر ہے کہ مولائے کائنات ؑ سے ان کی یہ یگانگت اور مولائے کائنات ؑ کو حقدار سمجھنا،دوسروں کو مولائے کائنات ؑ پر مقدم نہ کرنا،یہ تمام باتیں بےبنیاد تو نہیں تھیں،بلکہ مولائے کائنات ؑ کی ذات پر اس لئے متفق تھے کہ وہ اس نص سے واقف تھے جو مولیٰ علی علیہ السلام کی خلافت پر قائم ہوچکی تھی ۔

حضرت علیؑ کی بیعت ہوئی تو اکثر صحابہ نے یہ سمجھا کہ اب حق،حقدار تک پہنچا

میرے مندرجہ بالا دورے پر اگر کسی کو ذرا بھی شبہ ہو تو اسے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے،میری بات تاریخ سے ثابت ہوجائے گی کہ جب امیرالمومنین ؑ کی بیعت ہوچکی تو صحابہ کی اکثریت اور عام لوگوں نے یہی سمجھا کہ گذشتہ حکومت کے مقابلے میں مولائے کائنات ؑ اولی بالامر ہیں اور آج حق،حقدار تک پہنچ گیا ہے،جیسا کہ خود امیرالمومنین ؑ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے اور ابوجعفر اسکافی کا قول بھی اس دعوے کی دلیل میں گذشتہ صفحات میں پیش بھی کیا جاچکا ہے،جہاں اسکافی لکھتے ہیں کہ عثمان کے قتل کے بعد صحابہ مسجد نبوی میں جمع ہوئے تو خلافت کے بارے میں مشورہ ہونے لگا اور انھوں نے امیرالمومنین ؑ کے فضائل کا ذکر کیا،کچھ تو یہ کہہ رہے تھے کہ امیرالمومنین ؑ اپنے اہل زمانہ سے افضل ہیں اور کچھ کیا یہ خیال تھا کہ امیرالمومنین ؑ ہر دور کے مسلمانوں سے افضل ہیں،ظاہر ہے کہ صحابہ کی موخَرُ الذکر جماعت،جس کا خیال تھا کہ آپ تمام مسلمانوں سے افضل ہیں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ امیرالمومنین ؑ ہی ولی امر اور اولیٰ بالامر ہیں ۔

۲۸۹

آپ کے تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جاچکا ہے کہ امیرالمومنین ؑ کی جب بیعت ہوچکی تو آپ نے پہلا خطبہ جو بیعت کے بعد دیا ہے اس میں اپنے حق کو ثابت کرتے ہوئے کچھ ایسے کلمات ارشاد فرمائے ہیں جو میرے دعوے پر دلیل ہیں،آپ فرماتے ہیں تم نے توبہ کو پس پشت ڈ ال دیا تم نے وہ امور انجام دیئے جو میرے خلاف ہے،میرے نزدیک ان غلطیوں کی وجہ سے تم نہ قابل تعریف تھے نہ صحیح راستے پر تھے ۔

جناب حذیفہ کا بیان بھی گذرچکا ہے،جب آپ نے سنا کہ امیرالمومنین ؑ اہل بصرہ کے خلاف مدد چاہتے ہیں تو حذیفہ نے اعلان کردیا((بے شک حسن ؑ اور عمار ؑ آئے ہیں کہ تمہیں نصرت پر تیار کریں،تو سنو!جو برحق اور حقیقی امیرالمومنین ؑ کی نصرت کرنا چاہتا ہے وہ جا کر علی ؑ کے لشکر میں شامل ہوجائے ۔(1)

یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ جب امیرالمومنین ؑ کی بیعت ہوگئی تو انصار کی ایک قوم نے تقریریں کیں ان میں سب سے پہلے ثابت ابن فقیس بن شماس انصاری نے تقریر کی،وہ انصار کے مشہور خطیب تھے،انھوں نے کہا:اے امیرالمومنین ؑ خدا کی قسم آپ سے پہلے جنھوں نے حکومت حاصل کی وہ حکومت میں آپ سے مقدم ہیں لیکن دین میں نہیں،اگر انھوں نے آپ سے سبقت کی تو آج آپ نے انھیں پیچھے چھوڑدیا حالانکہ خود آپ اور وہ لوگ بھی آپ کے مرتبہ سے ناواقف نہیں تھے اور آپ کی منزلت سے جاہل بھی نہیں تھے،وہ لوگ اپنی جہالت(لاعلمی)کی وجہ سے آپ کے محتاج تھے،لیکن آپ اپنے علم کی وجہ سے کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔(2)

حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں کہ خزیمہ بن ثابت انصاری نے امیرالمومنین ؑ کی بیعت کے وقت یہ اشعار پڑھے:

ترجمہ اشعار:جب ہم نے ابوالحسن ؑ کی بیعت کرلی تو وہ دہشت ناک فتنوں میں ہمارے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) انساب الاشراف ج: 2 ص: 366

( 2) تاریخ یعقوبی ج: 2 ص: 179 ،خلافت امیرالمومنینؑ کے بیان میں

۲۹۰

لئے کافی ہے،ہم نے علی ؑ کو سب سے زیادہ کتاب و سنت کا پابند پایا،جس دن اونٹوں کی دوڑ کا مقابلہ ہوگا اس دن قریش اس کے اٹھائے ہوئے غبار کو شق نہیں کرسکیں گے،علی ؑ تو وہ ہیں کے جن کے اندر غیروں کی نیکیاں بھی پائی جاتی ہیں،لیکن غیروں میں علی ؑ کی نیکیاں نہیں پائی جاتی ہیں(غیروں میں جتنا بھی حسن عمل ہے وہ سب علی ؑ میں پایا جاتا ہے لیکن علی ؑ کا حسن عمل غیروں میں نہیں پایا جاتا ۔(1)

ظاہر ہے کہ قریش کے لوگ اگر چہ امیرالمومنین ؑ کی بیعت سے زیادہ خوش نہیں تھے لیکن بیعت کے وقت کسی نے آپ سے نزاع بھی نہیں کیا اس لئے خذیمہ بن ثابت نے یہ اشعار))قریش کے فیصلہ پر(جس میں انھوں نے نااہل لوگوں کو مولائے کائنات ؑ کے مقابلے میں مقدم کرکے ان کی بیعت کرلی تھی)اعتراض کے طور پر پڑھے ہیں بلکہ خذیمہ کے اشعار یہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ شاعر مقام ولایت میں مولائے کائنات ؑ کو گذشتہ حاکموں پر بھی مقدم سمجھتے ہیں اور مولائے کائنات ؑ کے علاوہ کسی کی بھی(عمر،ابوبکر کی)حکومت کو ناجائز اور غلط سمجھتے ہیں ان اشعار میں جس عقیدے کا اعلان کیا گیا ہے اس کا زیادہ واضح اعلان ان اشعار میں ملتا ہے جو ہیں تو خذیمہ بن ثابت ہی کے لیکن جناب سید مرتضی ؒ نے ان کی روایت کی ہے ملاحظہ ہو ۔

ترجمہ اشعار:پیغمبر ؐ کے اہل بیت ؑ میں پیغمبر ؐ کا وصی اور آپ کا زمانہ گذشتہ میں شہسوار،سوائے خیرالنسا خدیجہ الکبری ؐ کے نبی ؐ کے ساتھ سب سے پہلے نماز پڑھنے والا نعمتوں والے خدا کی قسم علی ؑ جس کے سینہ میں ایک شجاع دل ہے اور ہر جنگ میں جس کو قوم کی سرداری حاصل رہی یہی وہ ہے جس کا نام امام سمجھ کے انگلیوں میں پڑھا جاتا رہے گا،یہاں تک کہ میں کفن میں منھ چھپالوں ۔(2)

اور حسن بن سلمہ کی حدیث میں ہے کہ((جب مولائے کائنات ؑ کو یہ معلوم ہوا کہ طلحہ زبیر اور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) المستدرک علی صحیحین ج: 3 ص: 124 ،کتاب معرفت صحابہ مناقب امیرالمومنینؑ،الاصابۃ ج: 2 ص: 278 ،حالات خزیمہ بنت ثابت بن فاکہ میں۔( 2) الفصول المختارۃ،ص: 267

۲۹۱

عائشہ مکہ سے بصرہ کی طرف(فساد کی نیت سے)چل پڑی ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ نماز جماعت کا اعلان کردیا جائے،جب لوگ جمع ہوئے تو آپ نے خدا کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا:اما بعد جب خداوند عالم نے اپنے نبی ؐ کو اپنے پاس بلالیا تو ہم نے((جو آپ کے اہل بیت اہل خاندان،وارث آپ کےاولیا اور مخلوقات خدا میں آپ کے سب سے زیادہ حقدار تھے))یہ سونچا کہ لوگ ہم سے نبی کا حق نہیں چھینیں گے ابھی ہم یہ سونچ ہی رہے تھے کہ منافقین اپنی سازش میں کامیاب ہوگئے اور ہمارے نبی ؐ کا اقتدار ہم سے غصب کرکے ہمارے غیر کو سونپ دیا،خدا کی قسم ہم سب کی آنکھیں اس واقعہ پر بہت روئیں اور ہمارے دل اس ظلم کی وجہ سے ٹوٹ گئے،بہرحال لوگ حاکم ہوئے اور اپنی موت مرگئے آخر خدا نے حکومت ہمیں واپس دلادی یہ دونوں آدمی یعنی طلحہ اور زبیر بھی جب ہماری بیعت ہورہی تھی تو بیعت کرنے والوں میں تھے پھر بصرہ جا کے ہمارےخلاف اٹھ کھڑےہوئے تا کہ جماعت میں تفرتقہ پیدا کریں اور تمہاری طاقت کو آپس میں لڑا کے تقسیم کردیں،پالنے والے ان دونوں سے مواخذہ کر اس لئے کہ انھوں نے اس امت کو دھوکا دیا ہے اور عامۃ المسلمین پر بری نظر ڈ الی ہے ۔

یہ سن کر ابوھیثم بن تیہان کھڑے ہوئے اور کہنے لگے((امیرالمومنین ؑ قریش کے لوگ آپ سے دو وجہوں سے حسد کرتے ہیں،قریش کے منتخب افراد تو اس لئے آپ سے حسد کرتے ہیں کہ آپ درجے میں ان سے بلند ہیں اور قریش کے اشرار آپ سے حسد کرتے ہیں جس کی وجہ سے خدا نےان کے اعمال حبط کر لئے ہیں اور ان کے پشت پر گناہوں کا بار کچھ اور بڑھادیا ہے وہ تو آپ سے برابری کا برتاؤ کرنے پر تیار نہیں تھے اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ ان سے آگے بڑھ گئے ہیں اس وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوگئے ہیں اور کشتی ہار گئے ہیں آپ قریش پر قریش سے زیادہ حق رکھتے ہیں پھر انھوں نے چند اشعار پڑھے جن کا ترجمہ حاضر ہے ۔

ترجمہ اشعار:(اے امیرالمومنین ؑ )بےشک اس قوم نے آپ سے بغاوت کی اور آپ پر عیب لگانے کی کوشش کی انھوں نے امور قبیحہ آپ کی طرف منسوب کرنے چاہے حالانکہ وہ بے پرکی اڑاتے ہیں ایسی باتیں جن کے پاس اڑنے کے لئے مچھر کے برابر بھی پر نہیں بلکہ پرکا دسواں حصہ بھی نہیں،

۲۹۲

روا بھی نہیں ہے کہ باتیں پھیل سکیں(آپ پر حملے کی وجہ یہ ہے کہ)انھوں نے آپ کے اوپر اللہ کی نعمتوں کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا آپ کو انھوں نے ایک شاندار پر گوشت صاحب نعمت سمجھا انھوں نے دیکھا کہ آپ ایسے امام ہیں جن کے دامن میں تمام امور پناہ لیتے ہیں اور ایسی لجام ہیں کہ جن سے منھ زور گھوڑ بھی رام ہوجاتے ہیں ایسے حاکم ہیں جن کے اندر امامت،ہاشمیت اور بطحا کی عزت مرتکز ہے،اے نبی ؐ کے وصی ہم آپ کی سرکردگی میں حق کے ساتھ اسی طرح متصل ہیں جیسے چراغ سے چراغ کی روشنی متصل ہوتی ہے)) ۔(1)

آپ دیکھ رہے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ کا خطبہ اور اس کے بعد ابن تیھان کے اشعار،یہ تمام چیزیں میرے دعوے پر دلیل ہیں،ابن تیھان کے مندرجہ ذیل اشعار بھی میرے دعوے پر دلیل ہیں

ترجمہ اشعار:جاکے طلحہ اور زبیر سے کہہ دو کہ ہم انصار ہیں انصار ہمارا نام ہی نہیں طریقہ عمل بھی ہے ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کے کارنامے جنگ بدر کے میدان میں قریش دیکھ چکے ہیں،جب وہ کافر تھے،ہم اپنے نبی ؐ کے شعار اور ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں(یعنی خدا کے بعد پیغمبر اسلام ؐ کو ہمارے اوپر بھروسہ تھا اور ہم ہی ان کے مددگار تھے)ہم اپنی آنکھیں اور اپنی جانیں نبی ؐ پر قربان کرتے رہے ہیں بے شک وصی پیغمبر ؐ ،علی ؑ ہمارے امام اور ولی امر ہیں اب تو پردے اٹھ چکے ہیں اور راز ظاہر ہوچکے ہیں))(2)

مولائے کائنات ؑ کی جب بیعت ہورہی تھی تو عبدالرحمٰن بن جعیل نے یہ اشعار پڑھے ۔

ترجمہ اشعار:میری جان کی قسم آج تم نے اس کی بیعت کی جو دین کا زبردست محافظ،صاحب عفت اور توفیقات کا مرکز ہے اس علی ؑ کی بیعت کی جو محمد مصطفیٰ ؐ کا وصی،ان کا چچازاد بھائی،دین اور تقویٰ کا بھائی سب سے پہلا نمازی ہے))(3) ان قصائد کے اشعار یہ اعلان کررہے ہیں کہ مسلمان شروع ہی سے مولائے کائنات ؑ کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) امالی شیخ مفید ص: 154 ۔ 156 (2) شرح نہج البلاغہ ج: 1 ص: 143 ۔ 144 ( 3) شرح نہج البلاغہ ج: 1 ص: 143

۲۹۳

غیروں پر مقدم سمجھتے تھے ابوبکر اور عمر کس شمار میں ہیں ۔

ایک واقعہ اور ملاحظہ فرمائیے،مولائے کائنات ؑ نے شریح بن ہانی کو عمرو بن عاص کے پاس بھیجا کہ وہ جا کر اس کو سمجھائیں اور ہدایت کریں شریح کہتے ہیں میں نے مولائے کائنات ؑ کا پیغام عمروعاص کو سنایا اس کے چہرے کا رنگ سیاہ ہوگیا اور وہ کہنے لگا میں نے علی ؑ کا مشورہ قبول کب کیا ہے جو آج قبول کروں میں ان کی رائے کو کسی شمار میں نہیں رکھتا شریح کہتے ہیں میں نے کہا اے نابغہ کے بیٹے تجھ سے بہتر تھے(یعنی ابوبکر و عمر)وہ ہی ان سے مشورہ لیتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتےتھے کہنے گا میرے جیسے تجھ جیسے سے بات نہیں کرتے میں نے کہا اچھا یہ بتا تو اپنے ماں باپ میں سے کس کی وجہ سے میری بات میں دلچسپی نہیں لے رہا ہے،اپنے کمینہ باپ کی وجہ سے یا نابغہ ماں کی وجہ سے وہ یہ سن کر اٹھا اور چلا گیا ۔(1)

صحابہ کو پختہ یقین تھا کہ امیرالمومنینؑ ہی وصی پیغمبرؐ ہیں

بہت سے صحابہ جن کی تعداد بیس سے کچھ زیادہ ہے اور تابعین جو مولائے کائنات ؑ کے دور میں تھے ان کے اشعار خطبہ اور حدیثیں اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ انھیں علی ؑ کے وصی پیغمبر ؐ ہونے کا پختہ(پکا)یقین تھا اور وصی کا مطلب ہے امت میں نبی ؐ کا قائم مقام،جس طرح ہر نبی ؐ کا وصی اس کا قائم مقام ہوتا ہے،اس لئے کہ مولا علی ؑ کا وصی پیغمبر ؐ ہونا خود سرکار دو عالم ؐ کی بہت سی حدیثوں میں وارد ہوا ہے ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)وقعۃ صفین ص:543،ینابیع المودۃج:2ص:23

(2)فتح الباری ج:8ص:150،مجمع الزوائد ج:7ص:237،اور،ج:8ص:253،کتاب علامات نبوۃج:9ص:165،معجم الکبیر ج:3ص:57،ج:4ص:171،ج:6ص:221،معجم الاوسط ج:6ص:327،فضائل الصحابہ ج:2ص:615،الفردوس بما ثور الخطاب ج:3ص:336،کنز العمال ج:11ص:605،حدیث:32923 الکامل فی الضعفاء الرجال ج:4ص:14،الموضوعات ج:1ص:369۔374،تاریخ دمشق ج:42ص:130،392،حالات علی بن ابی طالبؑ،شرح نہج البلاغہ ج:13ص:210،المناقب للخوارزمی ص:147۔58،ینابیع المودۃ ج:1ص:235۔239۔241،ج:2ص:79۔163۔280۔279۔267۔232،ج:3ص:264۔291۔384

۲۹۴

میری مراد وصایت سے ذاتی امور میں وصایت نہیں ہے بلکہ وصی بمعنی جانشین ہے اگر چہ وصایت کے اس معنی میں بھی شخصی امور میں وصایت آہی جاتی ہے ۔

وہ لوگ جن کا عقیدہ ہے کہ حقدار خلافت ابوبکر و عمر تھے،اس دعویٰ وصایت کو خفیف(ہلکا)سمجھتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ شیخین کو خلیفہ مانتے ہیں انکے سامنے وصایت کا دعویٰ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا اور وہ ایسی حدیثوں کا انکار کرتے ہیں ۔

ملاحظہ ہو،اسود سے روایت ہے عائشہ کے سامنے یہ ذکر آیا کہ نبی ؐ نے مولائے کائنات علی ؑ کو اپنا وصی بنایا تھا،عائشہ نے کہا کون کہتا ہے میں نبی ؐ کے پاس تھی اور میرے سینہ سے آپ ٹیک لگائے بیٹھے تھے پھر آپ نے ایک تشت منگایا پھر جھک گئے اور وفات پاگئے،میری سمجھ میں نہیں آتا کہ نبی ؐ نے علی ؑ کو وصی کب بنایا تھا؟(1)

آپ کے آٹھویں سوال کے جواب میں اس موضوع پر بھی گفتگو کی جائے گی انشااللہ تعالی ۔

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن اوفیٰ سے پوچھا:کیا نبی ؐ نے وصیت کی تھی کہنے لگے کہ نہیں میں نے کہا پھر رسول ؐ نے لوگوں پر وصیت کیسے واجب کردی؟اور خود وصیت نہیں کی؟کہنے لگے حضور ؐ نے کتاب خدا کے بارے میں وصیت کی تھی،(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)صحیح بخاری ج:4ص:1619،کتاب المغازی،باب علالت و وفات نبیؐ(انک میت و انھم میتون ثم انکم یوم القیامۃ عند ربکم تختصمون)صحیح مسلم ج:3ص:1257،مسند احمد ج:6ص:32)اور اسی طرح دوسرے مدارک

(2)صحیح بخاری ج:4ص:1918،کتاب فضائل قرآن،باب وصیت،اور اسی طرح ج:3ص:1006،کتاب وصایا،باب وصیت،ج:4ص:1619،کتاب المغازی،باب نبیؐ کا علیل ہونا اور ان کی وفات و قول پروردگار(انکم میت و انھم میتوں ثم انکم یوم القیامۃ عند ربکم تختصمون)السنن الکبریٰ للبیھقی ج:6ص:266،کتاب الوھایا،مسند ابی عوانہ ج:3ص:475

۲۹۵

مالک بن معول نے کہا:مجھ سے طلحہ نے کہا میں نے عبداللہ بن اوفیٰ سے سوال کیا،کیا رسول خدا ؐ نے وصیت کی تھی؟کہنے لگےنہیں میں نے پوچھا پھر دوسروں پر وصیت کیوں واجب کردی جب خود وصیت نہیں کی،کہنے لگے قرآن کے بارے میں وصیت کی تھی ۔ ہزیل بن شرحبیل نے کہا:ابوبکر خلیفہ پیغمبر ؐ پر حاکم بن بیٹھے وہ سمجھتے تھے گویا رسول خدا ؐ کی طرف سے انھیں یہ عہدہ ملا ہے اور وہی ان کی ناک میں خلافت کا موتی(بیر) ڈ ال گئے ہیں ۔(1)

اب ابن کثیر نے جو تحریر کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں،حالانکہ ان کی تحریر محض تعصب اور جذباتیت کا نتیجہ ہے لکھتے ہیں کہ:اور شیعوں کی جاہل اکثریت غلط گو قصہ خوان جو یہ کہتے ہیں کہ سرکار دو عالم ؐ نے علی ؑ خلافت کے بارے میں وصیت کی تھی،یہ جھوٹ،بہتان اور عظیم افترا ہے،اس سے بڑی غلطی لازم آتی ہے یعنی صحابہ خائن قرار پاتے ہیں اور یہ الزام بھی آتا ہے کہ انھوں نے پیغمبر ؐ کی وصیت کا نفاذ ترک کردیا،نبی ؐ کے بعد آپ کی وصیت کو نہیں تسلیم کیا،معمولی قصہ گو،جو یہ کہانیاں بازاروں میں اور عوام کے درمیان گڑھ کے بیان کرتے رہتے ہیں کہ نبی ؐ نے آداب و اخلاق میں علی ؑ کو اپنا وصی قرار دیا تھا یہ بھی من گھڑت ہی ہے،بلکہ بعض کمینے جاہلوں کی ایجاد ہے،اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور اس سے دھوکا نہیں کھایا جاسکتا مگر جو بالکل ہی جاہل اور غبی ہو ۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)مسند ابی عوانہ ج:3ص:476،اور اسی طرح،ص:475،پر کتاب وصیت کے آغاز میں اس واضح خبر کے بیان میں کہ نبیؐ نے کسی کے لئے کوئی بات بعنوان وصیت نہیں کی ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ انھوں نے مال میں کوئی وصیت نہیں کی ہے اس لئے کہ آپ نے بعنوان میراث کوئی مال نہیں چھوڑا ہے بلکہ واجبات کا بیان کیا ہے،سنن دارامی،ج:2ص:496،کتاب الوصایا میں باب من لم یوص،مسند البراز،ج:8ص:297۔298،جو کچھ عبداللہ بن ابی اوفیٰ نے روایت کی ہے م فتح الباری،ج:5ص:361،البدایۃ و النہایۃ ج:5ص:251،طلحہ بن مصرف کے حالات میں الریاض النضرۃ،ج:2ص:197،تیرہویں فصل خلافت اور جو صحابہ سے متعلق ہے کے بیان میں،تاریخ الخلفاءج:1ص:7الفائق فی غریب الحدیث،ج:2ص:29،خزم کے مادہ میں،ج:5ص:149،وثب کے مادہ میں لسان العرب مادہ وثب اور مادہ خزم،غریب الحدیث،ابن سلام،ج:3ص:212۔213،ابوبکر صدیق کی حدیث کے ضمن میں

(2)البدایۃ و النہایۃ ج:7ص:225۔226

۲۹۶

حاصل کلام یہ کہ بیعت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بعد وصیت کی حدیثوں کا شائع ہونا اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت کا اس حدیث کی تاکید و تائید کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ صحابہ نص کے معترف تھے اور اس پر یقین رکھتے تھے ۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ دنوں تک ضرور مغلوب رہے اور حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر بیٹھے لیکن یہ دوسری بات ہے ورنہ صحابہ نص سے نہ تو جاہل تھے اور نہ تجاہل کر رہے تھے ۔

اہل بیتؑ کو جو بھی شکایتیں ہیں قریش سے ہیں نہ کہ صحابہ سے

یہی بات ہے کہ امیرالمومنین ؑ یا اہل بیت علیھم السلام نے جو بھی شکوے کئے ہیں وہ عام صحابہ سے نہیں ہیں بلکہ ان کی شکایتیں قریش اور ان کی پیروی کرنے والوں سے ہیں یہ بات گذشتہ صفحات میں ثابت ہوکی ہے اور گنجائش ہوتی تو میں دوسرے ثبوت بھی پیش کرتا ۔

بلکہ سقیفہ اور اس کے بعد کے جو بھی واقعات تاریخ پیش کرتی ہے ان میں اھل بیت ؑ کے خلاف جو اقدامات پائے جاتے ہیں وہ صرف قریش کی حرکتوں کا نتیجہ ہیں ان واقعات میں نہ مسلم عوام کا دخل ہے نہ صحابہ کا،یہاں تک کہ عُمر و عثمان کا بھی نام کہیں نہیں ملتا،جیسا کہ تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا گیا ۔

البتہ یہ واقعات ان مسلمانوں اور صحابیوں سے منسوب ضرور ہیں جو غصب خلافت کو شرعیت کی سند دینا چاہتے ہیں جیسے ابوبکر اور عباس کا مکالمہ اور امام حسن ؑ کے پاس بھیجے گئے معاویہ کے دو خط کے مضمون جیسا کہ تیسرے سوال کے جواب میں ان دونوں خطوط کی نقل پیش کی گئی ہے.

بہت سے صحابہ بلند مرتبہ پر فائز تھے

(اہل بیت اطہار ؑ سے خلوص اور قلبی لگاؤ کا نتیجہ تھا کہ)وہ صحابہ جو نبی ؐ کے بعد زندہ تھے،بلند مرتبوں پر فائز ہوئے،اور اعلیٰ فضیلتیں،اونچی منزلیں اور اجر عظیم حاصل کیا،جس طرح وہ صحابہ جو نبی ؐ کے دور میں

۲۹۷

تھے انھوں نے نبی ؐ کی تصدیق کی،آپ کی نصرت کی اور آپ کی ہدایتوں سے مستفید ہوئے آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے اور گذر گئے،یہ اس وقت کی بات ہے جب مسلمانوں میں شقاق و نفاق نہیں پیدا ہوا تھا،یہ لوگ مہاجرین و انصار کے نمایاں اراد تھے اور انھوں نے اسلام میں قابل تعریف نمونہ عمل چھوڑا ۔

ائمہ ہدی علیہم الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کی بہت تعریف کی ہے

یہی وجہ سے کہ ائمہ اہل بیت ؑ نے صحابہ کی بہت تعریف ہے،ان کا شکریہ ادا کیا ہے،ان کی مدح کی ہے اور ان کے جہاد اور کوششوں کو سراہا ہے،امیرالمومنین ؑ علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں ۔

ہم پیغمبر ؐ کے ساتھ تھے،جنگوں میں ہم اپنے باپ،بیٹے بھائی اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے اور اس سے ہمارے ایمان اور تسلیم میں اضافہ ہی ہوتا تھا،ہم سختیوں کو جھیل جاتے تھے اور رنج کو برداشت کرتے تھے،اپنے دشمن سے جہاد میں کوشاں تھے،ایک آدمی ہمارا ہوتا تھا اور ایک دشمن کا،دونوں ایک دوسرے پر بپھرے ہوئے سان ڈ وں کی طرح ٹوٹ پڑتے تھے اور ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوجاتے تھے،ہم دونوں میں کوئی ایک اپنے سامنے والے کو موت کا پیالہ پلا دیتا تھا،کبھی ہم غالب آتے کبھی ہمارا دشمن،جب خدا نے ہمارے ایمان کی صداقت دیکھ لی تو ہمارے لئے نصرت اور ہمارے دشمن کے لئے شکست نازل کردی)) ۔(1)

مولائے کائنات ؑ ایک دوسرے خطبہ میں اصحاب کی مدح میں رطب اللسان ہیں،آپ فرماتے ہیں((میں نے نبی ؐ کے صحابہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ان کے جیسا تو اب کوئی دکھائی نہیں دیتا،وہ صبح کو خاک آلود اٹھتے تھے،اس لئے کہ ان کی راتیں یا مسجدوں میں گذرتی تھیں یا حالت قیام میں،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 1 ص: 104 ۔ 105

۲۹۸

کبھی زمین پر پیشانیاں رکھتے تھے،کبھی رخسار،جب قیامت کا ذکر آتا تو یوں تڑپتے جیسے آتش زیر پا ہو،ان کی پیشانی پر آنکھوں کے درمیان اونٹ کے گٹھنے کے نشان جیسا گھٹہ ہوتا تھا اس لئے کہ ان کے سجدے طویل ہوتے تھے،جب خدا کا ذکر ان کے سامنے ہوتا تو اس قدر روتے کہ آنسو ان کے جیب و گریبان کو تر کر دیتا اور خوف عقاب اور امید ثواب میں یوں کانپنے لگتے جیسے سخت آندھی میں درخت ہلنے لگتے ہیں ۔(1)

ایک دن عمروعاص نے انصار کے خلاف تقریر کی اور سقیفہ میں انصار نے جو باتیں کہی تھیں ان کی وجہ سے انھیں برا بھلا کہا ان کی مذمت میں کچھ اشعار بھی نظم کئے،اس سلسلہ میں قریش کے سادہ لوح افراد اور حدیث الاسلام لوگ اس کی تائید کر رہے تھے اور اس کی ہمت افزائی کررہے تھے،نتیجہ میں اس نے دوبارہ بھی یہ حرکت کی یہ دیکھ کر مولائے کائنات امیرالمومنین ؑ نے سختی سے اس کی مخالفت کی اور انصار کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے،آپ نے بہت غصہ میں فرمایا:اے قریش کے لوگو!انصار کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے،ان پر جو واجب تھا انھوں نے ادا کردیا،تم پر جو واجب تھا وہ ابھی ادا نہیں ہوا بلکہ باقی ہے))پھر آپ نے طویل تقریر فرمائی اور فضل بن عباس کو بلا کے فرمایا کہ اپنے اشعار سے انصار کی مدح کریں،اس سلسلہ میں فضل بن عباس نے چند اشعار نظم کئے،آخر کار قریش کے لوگ عمروعاص کے پاس گئے اور کہنے لگے اے شخص علی ؑ کو غصہ آگیا ہے،اب تو رک جا!لیکن امیرالمومنین ؑ نے دوبارہ ایک تقریر فرمائی اور انصار کی صفائی پیش کی ان پر جو عیب لگائے تھے ان کی تکذیب کی،تمام مسلمانوں نے مولا علی ؑ کی تصدیق کی،بات یہاں تک پہنچی کہ عمروعاص کو مدینہ چھوڑنا پڑا اور جب تک امیرالمومنین ؑ اور مہاجرین اس سے راضی ہوئے وہ مدینہ میں واپس نہیں آسکا ۔(2) مولائے کائنات ؑ نے اپنے آخر کلام میں انصار کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)نہج البلاغہ ج:1ص:189۔190،کنز العمال ج:16ص:200،حدیث:4422،صفوۃ الصفوۃ ج:1ص:331۔332،تاریخ دمشق ج:42ص:492،حالات امیرالمومنین علی بن ابی طالبؑ میں۔(2)شرح نہج البلاغہ ج:6ص:29۔36

۲۹۹

کہ:((خدا کی قسم انھوں نے اسلام کی پرورش اس طرح کی جس طرح گھوڑے کا ایک سالہ کمزور بچہ پرورش کیا جاتا ہے حلانکہ وہ بےنیاز تھے پھر بھی انھوں نے اپنے لمبے چوڑے ہاتھوں سے اور اپنی چلتی ہوئی زبانوں سے اسلام کا دفاع کیا)) ۔(1)

زرارہ بن اعین حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:تلواریں نہیں کھینچیں،نماز کی صفیں نہیں قائم ہوئیں،جنگ کی صفیں نہیں قائم ہوئیں،علیٰ الاعلان اذان نہیں دی گئیں اور قرآن میں((اے ایمان والو))کہہ کے نہیں پکارا گیا جب تک ابناقیلہ یعنی اوس و خزرج والے مسلمان نہیں ہوگئے))(2) اس کے علاوہ بھی امام ؑ نے کئی جگہوں پر صحابہ(انصار مدینہ)کی بہت تعریف کی ہے ۔

اسی طرح امام سجاد علی ابن الحسین علیہ السلام اپنے صحیفے کی چوتھی دعا میں اصحاب پیغمبر ؐ کے لئے مخصوص فقروں سے دعا فرماتے ہیں اور پیغمبر ؐ کی پیروی کرنے والوں اور آپ کی تصدیق کرنے والوں پر درود بھیجتے ہیں پالنے والے محمد ؐ کے خاص اصحاب جنھوں نے نبی ؐ کی صحابیت کو اچھے طریقہ سے نبھایا اور نبی ؐ کی نصرت میں ہر بلا کو بہتر خیال کیا نبی ؐ کی آواز پر لبیک کہا جب نبی ؐ نے اپنی رسالت پر دلیلیں ان کے سامنے پیش کیں انھوں نے نبی ؐ کے کلمہ کے اظہار کے لئے اپنی ازواج و اولاد سے مفارقت گوارا کی اور اپنے ہی باپ،بیٹوں سے جنگ کی تا کہ نبی ؐ کی نبوت ثابت ہوسکے،انھوں نے نبی ؐ کی مدد کی اور وہ لوگ جن کے دل محبت پیغمبر ؐ سے بندھے ہوئے تھے اور نبی ؐ کی مودّت میں ایسی تجارت کررہے تھے جو کبھی برباد نہیں ہوئی،ان سب پر سلام بھیج...تا آخر دعا ۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( 1) نہج البلاغہ ج: 4 ص: 106

( 2) بحارالانوار ج: 22 ص: 312

( 3) ینابیع المودۃ ج: 3 ص: 428 ۔ 429

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

۶۱ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْأَةُ عَقْرَبٌ حُلْوَةُ اللَّسْبَةِ

۶۲ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا حُيِّيتَ بِتَحِيَّةٍ فَحَيِّ بِأَحْسَنَ مِنْهَا وإِذَا أُسْدِيَتْ إِلَيْكَ يَدٌ فَكَافِئْهَا بِمَا يُرْبِي عَلَيْهَا - والْفَضْلُ مَعَ ذَلِكَ لِلْبَادِئِ.

۶۳ - وقَالَعليه‌السلام الشَّفِيعُ جَنَاحُ الطَّالِبِ.

۶۴ - وقَالَعليه‌السلام أَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ يُسَارُ بِهِمْ وهُمْ نِيَامٌ.

۶۵ - وقَالَعليه‌السلام فَقْدُ الأَحِبَّةِ غُرْبَةٌ.

۶۶ - وقَالَ عليهامسل فَوْتُ الْحَاجَةِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا إِلَى غَيْرِ أَهْلِهَا.

(۶۱)

عورت اس بچھو(۱) کے مانند ہے جس کا ڈسنا بھی مزیدار ہوتا ہے۔

(۶۲)

جب تمہیں کوئی تحفہ دیا جائے تو اس سے بہتر واپس کرو اور جب کوئی نعمت دی جائے تواس سے بڑھا کر اس کا بدلہ دو لیکن اس کے بعد بھی فضیلت اسی کی رہے گی جو پہلے کا ر خیر انجام دے ۔

(۶۳)

سفارش کرنے والا طلب گار کے بال و پر کے مانند ہوتا ہے ۔

(۶۴)

اہل دنیا اس سواروں کے مانند ہیں جو خود سو رہے ہیں اور ان کا سفر جاری ہے ۔

(۶۵)

احباب کا نہ ہونا بھی ایک غربت ہے۔

(۶۶)

حاجت(۲) کا پورا نہ ہونا نا اہل سے مانگنے سے بہتر ہے۔

(۱)اس فقرہ میں ایک طرف عورت کے مزاج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں غیظ وغضب کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے اور دوسری طرف اس کی فطری نزاکت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں اس کا ڈنک بھی مزیدار معلوم ہوتاہے۔

(۲)انسان کو چاہیے کہ دنیا سے محرومی پر صبرکرلے اور جہاں تک ممکن ہو کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے کہ ہاتھ پھیلانا کسی ذلت سے کم نہیں ہے

۶۴۱

۶۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْتَحِ مِنْ إِعْطَاءِ الْقَلِيلِ - فَإِنَّ الْحِرْمَانَ أَقَلُّ مِنْه.

۶۸ - وقَالَعليه‌السلام الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ والشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى.

۶۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا لَمْ يَكُنْ مَا تُرِيدُ فَلَا تُبَلْ مَا كُنْتَ.

۷۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَرَى الْجَاهِلَ إِلَّا مُفْرِطاً أَوْ مُفَرِّطاً.

۷۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ.

(۶۷)

مختصر مال دینے میں بھی شرم نہ کرو کہ محروم کردینا اس سے زیادہ کمتر درجہ کا کام ہے۔

(۶۸)

پاکدامانی(۱) فقیری کی زینت ہے اورشکریہ مالداری کی زینت ہے۔

(۶۹)

اگرتمہارے حسب خواہش کام نہ ہو سکے تو جس حال میں رہو خوش رہو(۲) ( کہ افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہے )

(۷۰)

جاہل ہمیشہ افراط و تفریط کاشکار رہتا ہے یا حدسے آگے بڑھ جاتا ہے یا پیچھے ہی رہ جاتا ہے ( کہ اسے حدکا اندازہ ہی نہیں ہے )

(۷۱)

جب عقل مکمل ہوتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہے ( کہ عاقل کو ہربات تول کر کہنا پڑتی ہے ۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان کو غربت میں عضیف اورغیرت دار ہونا چاہیے اور دولت مندی میں مالک کا شکرگذار ہوناچاہیے کہ اس کے علاوہ شرافت و کرامت کی کوئی نشانی نہیں ہے۔

(۲)بعض عرفاء نے اس حقیقت کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ '' میں اس دنیا کو لے کر کیا کروں جس کاحال یہ ہے کہ میں رہ گیا تو وہ نہ رہ جائے گی اور وہ رہ گئی تو میں نہ رہ جائوں گا۔

۶۴۲

۷۲ - وقَالَعليه‌السلام الدَّهْرُ يُخْلِقُ الأَبْدَانَ - ويُجَدِّدُ الآمَالَ ويُقَرِّبُ الْمَنِيَّةَ - ويُبَاعِدُ الأُمْنِيَّةَ مَنْ ظَفِرَ بِه نَصِبَ ومَنْ فَاتَه تَعِبَ.

۷۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَصَبَ نَفْسَه لِلنَّاسِ إِمَاماً - فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِه قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِه - ولْيَكُنْ تَأْدِيبُه بِسِيرَتِه قَبْلَ تَأْدِيبِه بِلِسَانِه - ومُعَلِّمُ نَفْسِه ومُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالإِجْلَالِ - مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ ومُؤَدِّبِهِمْ.

۷۴ - وقَالَعليه‌السلام نَفَسُ الْمَرْءِ خُطَاه إِلَى أَجَلِه

۷۵ - وقَالَ عليهامسل كُلُّ مَعْدُودٍ مُنْقَضٍ وكُلُّ مُتَوَقَّعٍ آتٍ.

۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الأُمُورَ إِذَا اشْتَبَهَتْ اعْتُبِرَ آخِرُهَا بِأَوَّلِهَا

(۷۲)

زمانہ بدن کو پرانا کر دیتا ہے اورخواہشات کونیا۔موت کو قریب بنا دیتا ہے اور تمنائوں کودور۔یہاں جو کامیاب ہو جاتا ہے وہ بھی خستہ(۱) حال رہتا ہے اورجواسے کھو بیٹھتا ہے وہ بھی تھکن کا شکار رہتا ہے۔

(۷۳)

جوشخص اپنے کو قائد ملت بنا کر پیش کرے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دے اور زبان سے تبلیغ کرنے سے پہلے اپنے عمل سے تبلیغ کرے اوریہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو تعلیم و تربیت دینے والا دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے والے سے زیادہ قابل احترام ہوتا ہے۔

(۷۴)

انسان کی ایک ایک سانس موت کی طرف ایک قدم ہے ( روحی لہ الفدائ)

(۷۵)

ہرشمار ہونے والی چیز ختم ہونے والی ہے (سانسیں ) اور ہر آنے والا بہر حال آکر رہے گا (موت)

(۷۶)

جب مسائل میں شبہ پیدا ہو جائے تو ابتدا کو دیکھ کر انجام کار کا اندازہ کرلیانا چاہیے ۔

(۱)مال دنیا کا حال یہی ہے کہ آجاتا ہے تو انسان کا روبارمیں مبتلاہوجاتا ہے اور نہیں رہتا ہے تو اس کے حصول کی راہ میں پریشان رہتا ہے ۔

۶۴۳

۷۷ - ومِنْ خَبَرِ ضِرَارِ بْنِ حَمْزَةَ الضَّبَائِيِّ - عِنْدَ دُخُولِه عَلَى مُعَاوِيَةَ - ومَسْأَلَتِه لَه عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام وقَالَ فَأَشْهَدُ لَقَدْ رَأَيْتُه فِي بَعْضِ مَوَاقِفِه - وقَدْ أَرْخَى اللَّيْلُ سُدُولَه وهُوَ قَائِمٌ فِي مِحْرَابِه قَابِضٌ عَلَى لِحْيَتِه يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ السَّلِيمِ - ويَبْكِي بُكَاءَ الْحَزِينِ ويَقُولُ:

يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا إِلَيْكِ عَنِّي أَبِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ - لَا حَانَ حِينُكِ هَيْهَاتَ غُرِّي غَيْرِي لَا حَاجَةَ لِي فِيكِ - قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ فِيهَا - فَعَيْشُكِ قَصِيرٌ وخَطَرُكِ يَسِيرٌ وأَمَلُكِ حَقِيرٌ –

آه مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وطُولِ الطَّرِيقِ - وبُعْدِ السَّفَرِ وعَظِيمِ الْمَوْرِدِ

(۷۷)

ضرار(۱) بن حمزہ الضبائی معاویہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے امیر المومنین کے بارے میں دریافت کیا؟ ضرار نے کہا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں محراب میں کھڑے ہوئے ریش مبارک کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ۔یوں تڑپتے تھے جس طرح سانپ کا کاٹا ہوا تڑپتا ہے اور کوئی غم رسیدہ گریہ کرتا ہے۔اور فرمایا کرتے تھے:

''اے دنیا ۔اے دنیا!مجھ سے دور ہو جا۔تو میرے سامنے بن سنور کرآئی ہے یا میری واقعاً مشتاق بن کرآئی ہے ؟ خدا وہ وقت نہ لائے کہ تو مجھے دھوکہ دے سکے ۔جامیرے علاوہ کسیاور کودھوکہ دے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے۔میں تجھے تین مرتبہ طلاق(۲) دے چکاہوں جس کے بعد رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے۔تیری زندگی بہت تھوڑی ہے اور تیریرحیثیت بہت معمولی ہے اور تیری امید بہت حقیر شے ہے''

آہ زاد سفر کس قدر کم ہے۔راستہ کس قدر طولانی ہے منزل کس قدر دور ہے اوروارد ہونے کی جگہ کس قدرخطر ناک ہے۔

(۱)بعض حضرات نے ان کا نام ضرار بن ضمرہ لکھا ہے اوری ہ ان کا کمال کردار ہے کہ معاویہ جیسے دشمن علی کے دربار میں حقائق کا اعلان کردیا اوراسمشہورحدیث کے معانی کومجسم بنایدا کہ بہترین جہاد بادشاہ ظالم کے سامنے کلمہ حق کا اظہار و اعلان ہے۔

(۲)کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کو طلاق دے دیتا ہے تو وہ عورت بھی ناراض ہوتی ہے اور اسکے گھر واے بھی ناراض رہتے ہیں ۔امیر المومنین سے دنیا کا انحراف اور اہل دنیا کی دشمنی کا رازیہی ہے کہ آپ نے اسے تین مرتبہ طلاق دے دی تھی تو اس کا کوئی امکان نہیں تھاکہ اہل دنیا آپ سے کسی قیمت پرا ضی ہو جاتے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے ابناء دنیا نے تین خلافتوں کے موقع پر اپنی بیزاری کا اظہارکیا اور اس کے بعد تین جنگوں کے موقع پر اپنی ناراضگی کا اظہارکیا لیکن آپ کسی قیمت پردنیا سے صلح کرنے پرآمادہ نہ ہوئے اور ہر مرحلہ پر دین الٰہی اوراسکی تعلیمات کو کلیجہ سے لگائے رہے۔

۶۴۴

۷۸ - ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام لِلسَّائِلِ الشَّامِيِّ لَمَّا سَأَلَه - أَكَانَ مَسِيرُنَا إِلَى الشَّامِ بِقَضَاءٍ مِنَ اللَّه وقَدَرٍ - بَعْدَ كَلَامٍ طَوِيلٍ هَذَا مُخْتَارُه.

وَيْحَكَ لَعَلَّكَ ظَنَنْتَ قَضَاءً لَازِماً وقَدَراً حَاتِماً - لَوْ كَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ والْعِقَابُ - وسَقَطَ الْوَعْدُ والْوَعِيدُ - إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَمَرَ عِبَادَه تَخْيِيراً ونَهَاهُمْ تَحْذِيراً - وكَلَّفَ يَسِيراً ولَمْ يُكَلِّفْ عَسِيراً - وأَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً ولَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً - ولَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً ولَمْ يُرْسِلِ الأَنْبِيَاءَ لَعِباً - ولَمْ يُنْزِلِ الْكُتُبَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً - ولَا خَلَقَ السَّمَاوَاتِ والأَرْضَ ومَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا –

( ذلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ) .

(۷۸)

ایک مرد شامی نے سوال کیا کہ کیا ہمارا شام کی طرف جانا قضا و قدارالٰہی کی بنا پر تھا ( اگر ایساتھا تو گویا کہ کوئی اجرو ثواب نہ ملا ) تو آپ نے فرمایا کہ شائد تیرا خیال یہ ہے کہ اس سے مراد قضاء لازم اورقدرحتمی ہے کہ جس کے بعد عذاب و ثواب بیکار ہو جاتا ہے اور وعدہ و وعید کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔پروردگار نے اپنے بندوں کوحکم دیا ہے تو ان کے اختیار کے ساتھ اورنہی کی ہے تو انہیں ڈراتے وئے۔اس نے آسان سی تکلیف دی ہے اور کسی زحمت میں مبتلا نہیں کیا ہے تھوڑے عمل پر بہت سااجر دیا ہے اوراس کی نا فرمانی اس لئے نہیں ہوتی ہے کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اور نہ اطاعت اس لئے ہوتی ہے کہ اس نے مجبور کردیا ہے۔اس نے نہ انبیاء کو کھیل کرنے کے لئے بھیجا ہے اور نہ کتاب کو عبث نازل کیا ہے اورنہ زمین وآسمان اور ان کی درمیانی مخلوقات کو بیکار پیدا کیا ہے۔یہ صری کافروں کا خیال ہے اورکافروں کے لئے جہنم میں ویل ہے ''

(آخر میں وضاحت فرمائی کہ قضاء امر کے معنی میں ہے اور ہم اس کے حکم سے گئے تھے نہ کہ جبر و اکراہ سے )

۶۴۵

۷۹ - وقَالَعليه‌السلام خُذِ الْحِكْمَةَ أَنَّى كَانَتْ - فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَكُونُ فِي صَدْرِ الْمُنَافِقِ فَتَلَجْلَجُ فِي صَدْرِه - حَتَّى تَخْرُجَ فَتَسْكُنَ إِلَى صَوَاحِبِهَا فِي صَدْرِ الْمُؤْمِنِ.

۸۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ - فَخُذِ الْحِكْمَةَ ولَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ.

۸۱ - وقَالَعليه‌السلام قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُه.

قال الرضي - وهي الكلمة التي لا تصاب لها قيمة - ولا توزن بها حكمة ولا تقرن إليها كلمة.

(۷۹)

حرف حکمت جہاں بھی مل جائے لے لو کہ ایسی بات اگرمنافق کے سینہ میں دبی ہوتی ہے تو وہ اس وقت تک بے چین رہتا ہے جب تک وہ نکل نہ جائے ۔

(۸۰)

حکمت مومن کی گم شدہ دولت ہے لہٰذا جہاں ملے لے لیناچاہیے ۔چاہے وہ حقائق سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

(۸۱)

ہر انسان کی قدرو قیمت وہی نیکیاں(۱) ہیں جو اس میں پائی جاتی ہیں۔

سید رضی : یہ وہ کلمہ قیمہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی ہے اوراس کے ہم پلہ کوء یدوسری حکمت بھی نہیں ہے اور کوئی کلمہ اس کے ہم پایہ بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۱)یہ امیر المومنین کا فلسفہ حیات ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا تعین نہ اس کے حسب و نسب سے ہوتا ہے اور نہ قوم و قبیلہ سے۔نہ ڈگریاں اس کے مرتبہ کربڑھا سکتی ہیں اور نہ خزانے اس کو شریف بنا سکتے ہیں۔نہ کرسی اس کے معیارحیات کوب لند کرس کتی ہے اور نہاقتدار اسکے کمالات کاتعین کر سکتا ہے۔انسانی کمال کا معیار صرف وہ کمال ہے جواس کے اندرپایا جاتا ہے۔اگر اس کے نفس میں پاکیزگی اورکردار میں حسن ہے تو یقینا عظیم مرتبہ کا حامل ہے ورنہ اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔

۶۴۶

۸۲ - وقَالَعليه‌السلام أُوصِيكُمْ بِخَمْسٍ - لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الإِبِلِ لَكَانَتْ لِذَلِكَ أَهْلًا - لَا يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا رَبَّه ولَا يَخَافَنَّ إِلَّا ذَنْبَه - ولَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ - أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ - ولَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَه - وعَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الإِيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ - ولَا خَيْرَ فِي جَسَدٍ لَا رَأْسَ مَعَه - ولَا فِي إِيمَانٍ لَا صَبْرَ مَعَه.

۸۳ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ أَفْرَطَ فِي الثَّنَاءِ عَلَيْه وكَانَ لَه مُتَّهِماً - أَنَا دُونَ مَا تَقُولُ وفَوْقَ مَا فِي نَفْسِكَ.

(۸۲)

میں تمہیں ایسی پانچ باتوں کی نصیحت کررہا ہوں کہ جن کے حصول کے لئے اونٹوں کو ایڑ لگا کردوڑا یا جائے تو بھی وہاس کی اہل ہیں۔

خبردار! تم میں سے کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھے اور اپنے گناہوں کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے اور جب کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے اور نہ جانتا ہو تو لا علمی کے اعتراف میں نہ شرمائے اور جب نہیں جانتا ہے تو سیکھنے میں نہ شرمائے اور صبر و شکیبائی اختیار کرے کہ صبر(۱) ایمان کے لئے ویسا ہی ہے جیسا بدن کے لئے سر اور ظاہر ہے کہ اس بدن میں کوئی خیر نہیں ہوتا ہے جسے میں سر نہ ہو اور اسایمان میں کوء ی خیرنہیں ہے جس میں صبر نہ ہو۔

(۸۳)

آپ نے اس شخص سے فرمایا جوآپ کا عقیدت مند تو نہ تھا لیکن آپ کی بے حد تعریف کر رہاتھا۔''میں تمہارے بیان سے کمتر ہوں لیکن تمہارے خیال سے بالاتر ہوں '' (یعنی جو تم نے میرے بارے میں کہا ہے وہ مبالہ ہے لیکن جو میرے بارے میں عقیدہ رکھتے ہو وہ میری حیثیت سے بہت کم ہے )

(۱)صبرانسانی زندگی کا وہ جوہر ہے جس کی واقعی عظمت کا ادراک بھی مشکل ہے۔تاریخ بشریت میں ا س کے مظاہر کاہرقدم پرمشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔حضرت آدم جنت میںتھے۔پروردگارنے ہر طرح کا آرام دے رکھا تھا۔صرف ایک درخت سے روک دیا تھا۔لیکن انہوں نے مکمل قوت صبرکامظاہرہ نہکیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہجنت سے باہرآگئے۔اور حضرت یوسف قید خانہمیں تھے لیکن انہوں نے مکمل قوت صبرکامظاہرہ کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہواکہ عزیز مصر کے عہدہ پر فائز ہوگئے اور لمحوں میں ''غلامی '' سے '' شاہی'' کافصلہ طے کرلیا۔

صبر اور جنت کے اسی رشتہ کی طرف قرآن مجید نے سورہ ٔ دہر میں اشارہ کیا ہے '' جزاھم بما صبروا جنتة و حریرا'' اللہ ے ان کے صبرکے بدلہ میں انہیں جنت اورحیریر جنت سے نوازدیا ۔

۶۴۷

۸۴ - وقَالَعليه‌السلام بَقِيَّةُ السَّيْفِ أَبْقَى عَدَداً وأَكْثَرُ وَلَداً.

۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ تَرَكَ قَوْلَ لَا أَدْرِي أُصِيبَتْ مَقَاتِلُه

۸۶ - وقَالَعليه‌السلام رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ - ورُوِيَ مِنْ مَشْهَدِ الْغُلَامِ.

۸۷ - وقَالَعليه‌السلام عَجِبْتُ لِمَنْ يَقْنَطُ ومَعَه الِاسْتِغْفَارُ.

(۸۴)

تلوار کے بچے ہوئے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی اولاد بھی زیادہ ہوتی ہے۔

(۸۵)

جس نے نا واقفیت کا اقرار چھوڑ دیا وہ کہیں نہ کہیں ضرور مارا(۱) جائے گا۔

(۸۶)

بوڑھے کی رائے جوان کی ہمت(۲) سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔یا بوڑھے کی رائے جوان کے خطرہ میں ڈٹے رہنے سے زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے ۔

(۸۷)

مجھے اس شخص کے حال پر تعجب ہوتا ہے جو استغفار کی طاقت رکھتا ہے اور پھر بھی رحمت خداسے مایوس ہو جاتا ہے۔

(۱)یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم (ص) کے بعد مولائے کائنات کے علاوہ جس نے بھی ''سلونی '' کا دعویٰ کیا اسے ذلت سے دوچار ہونا پڑا اور ساری عزت خاک میں مل گئی۔

(۲)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی کے ہرمرحلہ عمل پر جوان کی ہمت ہی کام آتی ہے ۔کاشتکاری ' صنعت کاری سے لے کر ہلکی دفاع تک سارا کام جوان ہی انجام دیتے ہیں اور چمنستان زندگی کی ساری بہار جوانوں کی ہمت ہی سے وابستہ ہے۔لیکن اس کے باوجود نشاط عمل کے لئے صحیح خطوطکا تعین بہرحال ضروری ہے اور یہکام بزرگوں کے تجربات ہی سے انجام پاسکتا ہے۔لہٰذا بنیادی حیثیت بزرگوں کے تجربات کی ہے اور ثانوی حیثیت نوجوانوں کی ہمت مردانہ کی ہے۔اگرچہ زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لئے یہ دونوں پہئیے ضروری ہیں۔

۶۴۸

۸۸ - وحَكَى عَنْه أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُعليه‌السلام أَنَّه قَالَ:

كَانَ فِي الأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّه - وقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِه - أَمَّا الأَمَانُ الَّذِي رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وأَمَّا الأَمَانُ الْبَاقِي فَالِاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّه تَعَالَى -( وما كانَ الله لِيُعَذِّبَهُمْ وأَنْتَ فِيهِمْ - وما كانَ الله مُعَذِّبَهُمْ وهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ) .

قال الرضي - وهذا من محاسن الاستخراج ولطائف الاستنباط.

۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَه وبَيْنَ اللَّه - أَصْلَحَ اللَّه مَا بَيْنَه وبَيْنَ النَّاسِ - ومَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِه أَصْلَحَ اللَّه لَه أَمْرَ دُنْيَاه - ومَنْ كَانَ لَه مِنْ نَفْسِه وَاعِظٌ - كَانَ عَلَيْه مِنَ اللَّه حَافِظٌ.

(۸۸)

امام محمد باقر نے آپ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ '' روئے زمین پر عذاب الٰہی سے بچانے کے دوذرائع تھے۔ایک کو پروردگار نے اٹھالیا ہے ( پیغمبر اسلام (ص) ) لہٰذا دوسرے سے تمسک اختیار کرو۔یعنی استغفار کہ مالک کائنات نے فرمایا ہے کہ '' خدا اس وقت تک ان پر عذاب نہیں کر سکتا ہے جب تک آپ موجود ہیں۔اوراس وقت تک عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک یہ استغفار کر رہے ہیں۔

سید رضی : یہ آیت کریمہ سے بہترین استخراج اورلطیف ترین استباط ہے۔

(۸۹)

جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان کے معاملات کی اصلاح کرلی۔اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان کے معاملات کی اصلاح کردے گا اورجو آخرت کے امور(۱) کی اصلاح کرلے گا اللہ اس کی دنیا کے امور کی اصلاح کردے گا۔اور جو اپنے نفس کو نصیحت کرلے گا اللہ اس کی حفاظت کا انتظام کردے گا۔

(۱)امور آخرت کی اصلاح کادئارہ صرف عبادات وریاضات میں محدود نہیں ہے بلکہ اس میں وہ تمام امور دنیا شامل ہیں جوآخرت کے لئے انجام دئیے جاتے ہیں کہ دنیاآخرت کی کھیتی ہے اور آخرت کی اصلاح دنیا کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ آخرت والے دنیا کو برائے آخرت اختیار کرتے ہیں اوردنیا داراسی کو اپناہدف اور مقصد قرار دے لیتے ہیں اور اس طرح آخرت سے یکسر غافل ہو جاتے ہیں۔

۶۴۹

۹۰ - وقَالَعليه‌السلام الْفَقِيه كُلُّ الْفَقِيه مَنْ لَمْ يُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّه - ولَمْ يُؤْيِسْهُمْ مِنْ رَوْحِ اللَّه ولَمْ يُؤْمِنْهُمْ مِنْ مَكْرِ اللَّه.

۹۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ - فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكَمِ

۹۲ - وقَالَعليه‌السلام أَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وُقِفَ عَلَى اللِّسَانِ - وأَرْفَعُه مَا ظَهَرَ فِي الْجَوَارِحِ والأَرْكَانِ

۹۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفِتْنَةِ - لأَنَّه لَيْسَ أَحَدٌ إِلَّا وهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى فِتْنَةٍ - ولَكِنْ مَنِ اسْتَعَاذَ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ -( واعْلَمُوا أَنَّما أَمْوالُكُمْ وأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ ) - ومَعْنَى ذَلِكَ أَنَّه يَخْتَبِرُهُمْ - بِالأَمْوَالِ والأَوْلَادِ لِيَتَبَيَّنَ السَّاخِطَ لِرِزْقِه - والرَّاضِيَ بِقِسْمِه -

(۹۰)

مکمل عالم دین وہی ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایوس نہ بنائے اور اس کی مہربانیوں سے نا امید نہ کرے اور اس کے عذاب کی طرف مطمئن نہ بنادے۔

(۹۱)

یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتاجاتے ہیں لہٰذا ان کے لئے نئی نئی لطیف حکمتیں تلاش کرو۔

(۹۲)

سب سے حقیر علم وہ ہے جو صرف زبان(۱) پر رہ جائے اور سب سے زیادہ قیمتی علم وہ ہے جس کا اظہار اعضاء و جوارح سے ہو جائے ۔

(۹۳)

خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ خدایا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔کہ کوئی شخص بھی فتنہ سے الگ نہیں ہوسکتا ہے۔اگر پناہ مانگنا ہے تو فتنوں کی گمراہیوں سے پناہ مانگو اس لئے کہ پروردگارنے اموال اور اولاد کوبھی فتنہ قراردیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اموال اور اولاد کے ذریعہ امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اس طرح روزی سے ناراض ہونے والا قسمت پرراضی رہنے

(۱)افسوس کہ دورحاضر میں علم کا چر چا صرف زبانوں پر رہ گیا ہے اور قوت گویائی ہی کو کمال علم کو تصور کرلیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عمل و کردار کا فقدان ہوتا جا رہا ہے اور عوام الناس اپنی ذاتی جہالت سے زیادہ دانشور کی دانشوری اوراہل علم کے علم کی بدولت تباہ وبرباد ہو رہے ہیں۔

۶۵۰

وإِنْ كَانَ سُبْحَانَه أَعْلَمَ بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ - ولَكِنْ لِتَظْهَرَ الأَفْعَالُ الَّتِي بِهَا يُسْتَحَقُّ الثَّوَابُ والْعِقَابُ - لأَنَّ بَعْضَهُمْ يُحِبُّ الذُّكُورَ ويَكْرَه الإِنَاثَ - وبَعْضَهُمْ يُحِبُّ تَثْمِيرَ الْمَالِ ويَكْرَه انْثِلَامَ الْحَالِ

قال الرضي - وهذا من غريب ما سمع منه في التفسير.

۹۴ - وسُئِلَ عَنِ الْخَيْرِ مَا هُوَ - فَقَالَ لَيْسَ الْخَيْرُ أَنْ يَكْثُرَ مَالُكَ ووَلَدُكَ - ولَكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُكَ - وأَنْ يَعْظُمَ حِلْمُكَ وأَنْ تُبَاهِيَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّكَ - فَإِنْ أَحْسَنْتَ حَمِدْتَ اللَّه وإِنْ أَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَ اللَّه - ولَا خَيْرَ فِي الدُّنْيَا إِلَّا لِرَجُلَيْنِ - رَجُلٍ أَذْنَبَ ذُنُوباً فَهُوَ يَتَدَارَكُهَا بِالتَّوْبَةِ - ورَجُلٍ يُسَارِعُ فِي الْخَيْرَاتِ.

۹۵ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَى وكَيْفَ يَقِلُّ مَا يُتَقَبَّلُ؟

والے سے الگ ہو جائے ۔جب کہ وہ ان کے بارے میں خود ان سے بہتر جانتا ہے لیکن چاہتا ہے کہ ان اعمال کا اظہار ہو جائے جن سے انسان ثواب یا عذاب کاحقدار ہوتا ہے کہ بعض لوگ لڑکا چاہتے ہیں لڑکی نہیں چاہتے ہیں اور بعض مال کے بڑھانے کو دوست رکھتے ہیں اورشکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں ۔

سید رضی : یہ وہ نادر بات ہے جو آیت '' ان ما امرالکم '' کی تفسیر میں آپ سے نقل کی گئی ہے۔

(۹۴)

آپ سے خیر کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو فرمایا کہ خیر مال اور اولاد کی کثرت نہیں ہے۔خیر علم کی کثرت اورحلم کی عظمت ہے اور یہ ہے کہ لوگوں پر عبادت پروردگارنے ناز کرو لہٰذا اگر نیک کام کرو تو اللہ کا شکربجا لائو اورب راکام کرو تو استغفار کرو۔ اوریاد رکھو کہ دنیامیں خیر صرف دو طرح کے لوگوں کے لئے ہے۔وہ انسان جوگناہ کرے تو توبہ سے اس کی تلافی کرلے اور وہ انسان جو نیکیوں میں آگے بڑھتا جائے ۔

(۹۵)

تقویٰ کے ساتھ کوئی عمل قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔کہ جوعمل بھی قبول(۱) ہو جائے اسے قلیل کس طرح کہاجاسکتا ہے۔

(۱)یہ اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔اوراس کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان تقویٰ کے بغیر اعمال انجام دے تو یہ اعمال دیکھنے میں بہت نظر آئیں گے لیکن واقعاً کثیر کہے جانے کے قابل نہیں ہیں۔اور اس کے بر خلاف اگرتقویٰ کے ساتھ عمل انجام دے تودیکھنے میں شائد وہ عمل قلیل دکھائی دے لیکن واقعاً قلیل نہ ہوگا کہ درجہ قبولیت پر فائز ہو جانے والا عمل کسی قیمت پر قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔

۶۵۱

۹۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِالأَنْبِيَاءِ أَعْلَمُهُمْ بِمَا جَاءُوا بِه - ثُمَّ تَلَا( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوه - وهذَا النَّبِيُّ والَّذِينَ آمَنُوا ) الآيَةَ - ثُمَّ قَالَ إِنَّ وَلِيَّ مُحَمَّدٍ مَنْ أَطَاعَ اللَّه وإِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُه - وإِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّدٍ مَنْ عَصَى اللَّه وإِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُه!

۹۷ - وسَمِعَعليه‌السلام رَجُلًا مِنَ الْحَرُورِيَّةِ يَتَهَجَّدُ ويَقْرَأُ - فَقَالَ:

نَوْمٌ عَلَى يَقِينٍ خَيْرٌ مِنْ صَلَاةٍ فِي شَكٍّ.

(۹۶)

لوگوں میں انبیاء سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ ان کے تعلیمات سے باخبر ہوں۔یہ کہہ کر آپ نے آیت شریفہ کی تلاوت فرمائی ''ابراہیم سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کریں۔اور یہ پیغمبر ہے اورصاحبان ایمان ہیں '' اس کے بعد فرمایا کہ پیغمبر (ص) کادوست وہی ہے جو ان کی اطاعت کرے ' چاہے نسب کے اعتبار سے کسی قدر دور کیوں نہ ہو اورآپ کا دشمن وہی ہے جوآپ کی نا فرمانی کرے چاہے قرابت کے اعتبارسے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو۔

(۹۷)

آپ نے سنا کہ ایک خارجی شخص نماز شب پڑھ رہا ے اور تلاوت قرآن کر رہا ے تو فرمایا کہ یقین(۱) کے ساتھ سوجانا شک کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

(۱)یہ اصلاح عقیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس شخص کو حقائق کا یقین نہیں ہے اور وہ شک کی زندگی گذار رہا ہے اس کے اعمال کی قدروقیمت ہی کیا ہے۔اعمال کی قدرو قیمت کا تعین انسان کے علم ویقین اوراس کی معرفت سے ہوتا ہے۔لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جتنے اہل یقین ہیں سبکو سوجانا چاہیے اور نماز شبکا پابند نہیں ہونا چاہیے کہ یقین کی نیند شک کے عمل سے بہتر ہے۔

ایساممکن ہوتا تو سب سے پہلے معصومین ان اعمال کو نظرانداز کر دیتے جن کے یقی کی شان یہ تھی کہ اگر پردے اٹھا دئیے جاتے جب بھی یقین میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں تھی۔

۶۵۲

۹۸ - وقَالَعليه‌السلام اعْقِلُوا الْخَبَرَ إِذَا سَمِعْتُمُوه عَقْلَ رِعَايَةٍ لَا عَقْلَ رِوَايَةٍ - فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ ورُعَاتَه قَلِيلٌ.

۹۹ -وسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ -( إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - فَقَالَ عليه السلام:

إِنَّ قَوْلَنَا( إِنَّا لِلَّه ) إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْمُلْكِ - وقَوْلَنَا( وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْهُلْكِ

۱۰۰ - وقَالَعليه‌السلام ومَدَحَه قَوْمٌ فِي وَجْهِه - فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَعْلَمُ بِي مِنْ نَفْسِي - وأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْهُمْ - اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا خَيْراً مِمَّا يَظُنُّونَ واغْفِرْ لَنَا مَا لَا يَعْلَمُونَ.

(۹۸)

جب کسی خبر کو سنو تو عقل کے معیار(۱) پر پرکھ لو اورصرف نقل پربھروسہ نہ کرو کہ علم کے نقل کرنے والے بہت ہوتے ہیں اور سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔

(۹۹)

آپ نے ایک شخص کو کلمہ انا للہ زبان پر جاری کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : انا للہ اقرار ہے کہ ہم کسی کی ملکیت ہیں اور انا للہ راجعون اعتراف ہے کہ ایک دن فنا ہو جانے والے ہیں۔

(۱۰۰)

ایک قوم نے آپ کے سامنے آپ کی تعریف کردی توآپنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئیے ۔خدایا تو مجھے ' مجھ سے بہتر جانتا ہے اورمیں اپنے کو ان سے بہتر پہچانتا ہوں لہٰذا مجھے ان کے خیال سے(۲) بہتر قرار دے دینا اور یہ جن کوتاہیوں کونہیں جانتے ہیں انہیں معاف کردینا۔

(۱)عالم اسلام کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ مسلمان روایات کے مضامین سے یکسر غافل ہے اور صرف راویں کے اعتماد پر روایات پر عمل کررہا ہے جب کے بے شمار روایات کے مضامین خلاف عقل و منطق اورمخالف اصول و عقائد ہیں اورمسلمان کو اس گمراہی کا احساس بھی نہیں ہے۔

(۲)اے کاش ہر انسان اس کردار کو اپنا لیتا اورتعریفوں سے دھوکہ کھانے کے بجائے اپنے امور کی اصلاح کی فکر کرت اور مالک کی بارگاہمیں اسیطرح عرض مدعاکرتا جس طرح مولائے کائنات نے سکھایا ہے مگرافسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور جہالت اس منزل پرآگئی ہے کہ صاحبان علم عوام الناس کیتعریف سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اپنے کو با کمال تصورکرنے لگتے ہیں جس کا مشاہدہ خطباء کی زندگی میں بھی ہو سکتا ہے اور شعراء کی مخفلوں میں بھی جہاں اظہار علم کرنے والے با کمال ہوتے ہیں اور تعریف کرنے والوں کی اکثریت ان کے مقابلہ میں بے کمال۔مگراس کے بعد بھی انسان تعریف سے خوش ہوتا ہے اورمغرور ہو جاتا ہے۔

۶۵۳

۱۰۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَسْتَقِيمُ قَضَاءُ الْحَوَائِجِ إِلَّا بِثَلَاثٍ - بِاسْتِصْغَارِهَا لِتَعْظُمَ وبِاسْتِكْتَامِهَا لِتَظْهَرَ - وبِتَعْجِيلِهَا لِتَهْنُؤَ

۱۰۲ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُقَرَّبُ فِيه إِلَّا الْمَاحِلُ - ولَا يُظَرَّفُ فِيه إِلَّا الْفَاجِرُ - ولَا يُضَعَّفُ فِيه إِلَّا الْمُنْصِفُ - يَعُدُّونَ الصَّدَقَةَ فِيه غُرْماً وصِلَةَ الرَّحِمِ مَنّاً - والْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَكُونُ السُّلْطَانُ بِمَشُورَةِ النِّسَاءِ - وإِمَارَةِ الصِّبْيَانِ وتَدْبِيرِ الْخِصْيَانِ.

۱۰۳ - ورُئِيَ عَلَيْه إِزَارٌ خَلَقٌ مَرْقُوعٌ فَقِيلَ لَه فِي ذَلِكَ

(۱۰۱)

حاجب روائی تین چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے :((۱) عمل کوچھوٹا سمجھے تاکہ وہ بڑا اقرار پا جائے ۔(۲) اسے پوشیدہ سور پر انجام دے تاکہ وہ خود اپنا اظہار کرے(۳) اسے جلدی پورا کردے تاکہ خوشگوار معلوم ہو(۱) ۔

(۱۰۲)

لوگوں پر ایک زمانہ آنے والا ہے جب صرف لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا مقرب بارگاہ ہواکرے گا اور صرف فاجر کو خوش مزاج سمجھا جائے گا اور صرف منصف کو کمزور قراردیاجائے گا۔لوگ صدقہ کو خسارہ صلہ رحم کو احسان اور عبادت کو لوگوں پر برتری کا(۲) ذریعہ قرار دیں گے ۔ایسے وقت(۱۴) میں حکومت عورتوں کے مشورہ ' بچوں کے اقتدار اورخواجہ سرائوں(۳) کی تدبیر کے سہارے رہ جائے گی۔

(۱۰۳)

لوگوں نے آپ کی چادر کو بوسیدہ دیکھ کر گزارش کردی

(۱)ظاہر ہے کہ حاجت برآری کا عمل جلد ہو جاتا ہے تو انسان کو بے پناہمسرت ہوتی ہے ورنہ اسکے بعد کام تو ہو جاتا ہے لیکن مسرت کا فقدان رہتا ہے اور وہ روحانی انبساط حاصل نہیں ہوتا ہے جو مدعا پیش کرنے کے فوراً بعد پورا ہو جانے میں حاصل ہوتا ہے۔

(۲)افسوس کہ اہل دنیا نے اس عبادت کوبھی اپنی برتری کا ذریعہ بنالیا ہے جس کی تشریع انسان کے خضوع و خشوع اورجذبہ ٔ بندگی کے اظہار کے لئے ہوئی تھی اور جس کامقصد یہ تھا کہ انسان کی زندگی سے غرور اور شیطنت نکل جائے اور تواضع و انکسار اس پرمسلط ہو جائے ۔

(۳)بظاہر کسی دور میں بھی خواجہ سرائوں کومشیر مملکت کی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے اور نہ ان کے کسی مخصوص تدبر کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس لئے بہت ممکن ہے کہ اس لفظ سے مراد وہ تمام افراد ہوں جن میں ان لوگوں کی خصلتیں پائی جاتی ہیں اورجو حکام کی ہر ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور ان کی ہر رغبت وخواہش کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں اورانہیں زندگی کے اندر و باہر ہر شعبہ میں برابر کا دخل رہتا ہے ۔

۶۵۴

فَقَالَ: يَخْشَعُ لَه الْقَلْبُ وتَذِلُّ بِه النَّفْسُ - ويَقْتَدِي بِه الْمُؤْمِنُونَ إِنَّ الدُّنْيَا والآخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ - وسَبِيلَانِ مُخْتَلِفَانِ - فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وتَوَلَّاهَا أَبْغَضَ الآخِرَةَ وعَادَاهَا - وهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ والْمَغْرِبِ ومَاشٍ بَيْنَهُمَا - كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِدٍ بَعُدَ مِنَ الآخَرِ - وهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ.

۱۰۴ - وعَنْ نَوْفٍ الْبَكَالِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام ذَاتَ لَيْلَةٍ - وقَدْ خَرَجَ مِنْ فِرَاشِه فَنَظَرَ فِي النُّجُومِ - فَقَالَ لِي يَا نَوْفُ أَرَاقِدٌ أَنْتَ أَمْ رَامِقٌ - فَقُلْتُ بَلْ رَامِقٌ قَالَ:

يَا نَوْفُ طُوبَى لِلزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا - الرَّاغِبِينَ فِي الآخِرَةِ - أُولَئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الأَرْضَ بِسَاطاً - وتُرَابَهَا فِرَاشاً ومَاءَهَا طِيباً - والْقُرْآنَ شِعَاراً والدُّعَاءَ دِثَاراً - ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْيَا قَرْضاً عَلَى مِنْهَاجِ الْمَسِيحِ.

يَا نَوْفُ إِنَّ دَاوُدَعليه‌السلام قَامَ فِي مِثْلِ هَذِه السَّاعَةِ مِنَ اللَّيْلِ - فَقَالَ إِنَّهَا لَسَاعَةٌ لَا يَدْعُو فِيهَا عَبْدٌ إِلَّا اسْتُجِيبَ لَه -

تو آپ نے فرمایا کہ اس سے دل میں خشوع اورنفس میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اور مومنین اس کی اقتدا بھی کرسکتے ہیں۔یاد رکھودنیا اورآخرت آپس میں دوناساز گار دشمن ہیں اور دو مختلف راستے ۔لہٰذا جو دنیا سے محبت اورتعلق خاطر رکھتا ہے وہ آخرت کادشمن ہو جاتا ہے اور جو راہر و ایک سے قریب تر ہوتا ہے وہ دوسرے سے دور ترہوجاتا ہے۔پھریہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی سوت جیسی ہیں ۔

(۱۰۴)

نوف بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین کو دیکھا کہ آپ نے بستر سے اٹھ کرستاروں پر نگاہ کی اور فرمایا کہ نوف! سو رہے ہو یا بیدار ہو؟ میں نے عرض کی کہ حضورجاگ رہا ہوں۔فرمایا کہ نوف ! خوشا بحال ان کے جو دنیا سے کنارہ کش ہوں توآخرت کی طرف رغبت رکھتے ہوں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو بستر بنایا ہے اورخاک کو فرش ' پانی کو شربت قراردیاہے اور قرآن و دعا کو اپنے ظاہرو باطن کامحافظ اس کے بعد دنیا سے یوں الگ(۱) ہوگئے جس طرح حضرت مسیح ۔

نوف! دیکھودائود رات کے وقت ایسے ہی موقع پر قیام کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ ساعت ہے جس میں جو بندہ بھی دعاکرتا ہے پروردگار اس کی دعا

(۱)اس مقام پر لفظ قرض اشارہ ہے کہ نہایت مختصر حصہ حاصل کیا ہے جس طرح دانت سے روٹی کاٹ لی جاتی ہے اور ساری روٹی کو منہمیں نہیں بھر لیا جاتا ہے کہ اس کیفیت کوخضم کہتے ہیں۔قرض نہیں کہتے ہیں۔

۶۵۵

إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَشَّاراً أَوْ عَرِيفاً أَوْ شُرْطِيّاً - أَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَةٍ وهِيَ الطُّنْبُورُ أَوْ صَاحِبَ كَوْبَةٍ وهِيَ الطَّبْلُ –

وقَدْ قِيلَ أَيْضاً إِنَّ الْعَرْطَبَةَ الطَّبْلُ - والْكَوْبَةَ الطُّنْبُورُ.

۱۰۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا - وحَدَّ لَكُمْ حُدُوداً فَلَا تَعْتَدُوهَا - ونَهَاكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا - وسَكَتَ لَكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ ولَمْ يَدَعْهَا نِسْيَاناً فَلَا تَتَكَلَّفُوهَا

۱۰۶ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَتْرُكُ النَّاسُ شَيْئاً مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ لِاسْتِصْلَاحِ دُنْيَاهُمْ - إِلَّا فَتَحَ اللَّه عَلَيْهِمْ مَا هُوَ أَضَرُّ مِنْه.

کوقبول کرلیتا ہے---مگر یہ کہ سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا' لوگوں کی برائی کرنے والا: ظالم حکومت کی پولیس والا یا سارنگی اورڈھول(۱) تاشہ والاہو۔

سید رضی : عرطبة : سارنگی کو کہتے ہیں اور کوبة کے معنی ڈھول کے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک عرطبہ ڈھول ہے اور کوبہ سارنگی ۔

(۱۰۵)

پروردگارنے تمہارے ذمہ کچھ فرائض قرار دئیے ہیں لہٰذا خبردار انہیں ضائع نہ کرنا اور اسنے کچھ حدود بھی مقرر کردئیے ہیں لہٰذا ان سے تجاوز نہ کرنا۔اس نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کی خلاف ورزی نہ کرنا اورجن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا ہے زبردستی انہیں جاننے کی کوش نہ کرناکہ وہ بھولا نہیں ہے۔

(۱۰۶)

جب بھی لوگ دنیا سنوارنے کے لئے دین کی کسی بات کو نظرانداز کردیتے ہیںتو پروردگار اس سے زیادہ نقصان دہ راستے کھول دیتا ہے۔

(۱)افسوس کی بات ہے کہ بعض علاقوں می بعض مومن اقوام کی پہچان ہی ڈھول تاشہ اورسارنگی بن گئی ہے جب کہ مولائے کائنات نے اس کاروبار کو اس قدر مذموم قراردیا ہے کہ اس عمل کے انجام دینے والوں کیدعابھی قبول نہیں ہوتی ہے۔

اس حکمت میں دیگر افراد کا تذکرہ ظالموں کے ذیل میں کیا گیا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ظالم حکومت کے لئے کسی طح کا کام کرنے والا پیش پروردگار مستجاب الدعوات نہیں ہو سکتا ہے ۔جب وہ اپنے ضروریات حیات کوظالموں کی اعانت سیوابستہ کردیتا ہے تو پروردگار اپنا دست کرم اٹھالیتا ہے ۔

۶۵۶

۱۰۷ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ عَالِمٍ قَدْ قَتَلَه جَهْلُه وعِلْمُه مَعَه لَا يَنْفَعُه.

۱۰۸ - وقَالَعليه‌السلام لَقَدْ عُلِّقَ بِنِيَاطِ هَذَا الإِنْسَانِ بَضْعَةٌ - هِيَ أَعْجَبُ مَا فِيه وذَلِكَ الْقَلْبُ - وذَلِكَ أَنَّ لَه مَوَادَّ مِنَ الْحِكْمَةِ وأَضْدَاداً مِنْ خِلَافِهَا - فَإِنْ سَنَحَ لَه الرَّجَاءُ أَذَلَّه الطَّمَعُ - وإِنْ هَاجَ بِه الطَّمَعُ أَهْلَكَه الْحِرْصُ - وإِنْ مَلَكَه الْيَأْسُ قَتَلَه الأَسَفُ - وإِنْ عَرَضَ لَه الْغَضَبُ اشْتَدَّ بِه الْغَيْظُ - وإِنْ أَسْعَدَه الرِّضَى نَسِيَ التَّحَفُّظَ - وإِنْ غَالَه الْخَوْفُ شَغَلَه الْحَذَرُ - وإِنِ اتَّسَعَ لَه الأَمْرُ اسْتَلَبَتْه الْغِرَّةُ - وإِنْ أَفَادَ مَالًا أَطْغَاه الْغِنَى - وإِنْ أَصَابَتْه مُصِيبَةٌ فَضَحَه الْجَزَعُ - وإِنْ عَضَّتْه الْفَاقَةُ شَغَلَه الْبَلَاءُ - وإِنْ جَهَدَه الْجُوعُ قَعَدَ بِه الضَّعْفُ - وإِنْ أَفْرَطَ بِه الشِّبَعُ كَظَّتْه الْبِطْنَةُ -

(۱۰۷)

بہت سے عالم(۱) ہیں جنہیں دین سے نا واقفیت مارڈالاہے اور پھر ان کے علم نے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔

(۱۰۸)

اس انسان کے وجود میں سب سے زیادہ تعجب خیز وہ گوشت کا ٹکڑا ہے جو ایک رگ سے آویزاں کردیا گیا ہے اور جس کا نام قلب ہے کہ اس میں حکمت(۲) کے سر چشمے بھی ہیں اوراس کی ضدیں بھی ہیں کہ جب اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع ذلیل بنادتی ہے اور جب طمع میں ہیجان پیدا ہوتا ہے تو حرص برباد کردیتی ہے اورجب مایوسی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو حسرت مار ڈالتی ہے اور جب غضب طاری ہوتا ہے ۔توغم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے اور جب خوشحال ہو جاتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتا ہے اور جب خوف طاری ہوتا ہے تواحتیاط دوسری چیزوں سے غافل کردیتی ہے۔اور جب حالات وسعت پیدا ہوتی ہے تو غفلت قبضہ کرلیتی ہے -اورجب مال حاصل کر لیتا ہے تو بے نیازی سر کش بنا دیتی ہے اورجب کوئی مصیبت نازل ہو جاتی ہے توفریادرسواکر دیتی ہے اور جب فاقہ کاٹ کھاتا ہے تو بلاء گرفتار کر لیتی ہے اور جب بھوک تھکا دیتی ہے توکمزوری بٹھا دیتی ہےاورجب ضرورت سے زیادہ پیٹ بھر جاتا ہے

(۱)یہ دانشوران ملت ہیں جن کے پاس ڈگریوں کاغرورتو ہے لیکن دین کی بصیرت نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے افراد کا علم تباہ کرسکتا ہے آباد نہیں کر سکتا ہے۔

(۲)انسانی قلب کو دو طرح کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔اس میںایک پہلو عقل و منطق کا ہے اور دوسرا جذبات و عواطف کا۔اس ارشاد گرامی میں دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے متضاد خصوصیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

۶۵۷

فَكُلُّ تَقْصِيرٍ بِه مُضِرٌّ وكُلُّ إِفْرَاطٍ لَه مُفْسِدٌ.

۱۰۹ - وقَالَعليه‌السلام نَحْنُ النُّمْرُقَةُ الْوُسْطَى بِهَا يَلْحَقُ التَّالِي - وإِلَيْهَا يَرْجِعُ الْغَالِي

۱۱۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُقِيمُ أَمْرَ اللَّه سُبْحَانَه إِلَّا مَنْ لَا يُصَانِعُ - ولَا يُضَارِعُ ولَا يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ

۱۱۱ - وقَالَعليه‌السلام : وقَدْ تُوُفِّيَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيُّ بِالْكُوفَةِ - بَعْدَ مَرْجِعِه مَعَه مِنْ صِفِّينَ - وكَانَ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْه.

لَوْ أَحَبَّنِي جَبَلٌ لَتَهَافَتَ

معنى ذلك أن المحنة تغلظ عليه - فتسرع المصائب إليه - ولا يفعل ذلك إلا بالأتقياء الأبرار - والمصطفين الأخيار: وهذا مثل قولهعليه‌السلام :

تو شکم پری کی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔مختصر یہ ہے کہ ہر کوتا ہی نقصان دہ ہوتی ہے اور ہر زیادتی تباہ کن۔

(۱۰۹)

ہم اہل بیت ہی وہ نقطہ اعتدال(۱) ہیں جن سے پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ کر ان سے مل جاتا ہے اور آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر ملحق ہو جاتا ہے۔

(۱۱۰)

حکم الٰہی کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو حق کے معاملہ میں مروت نہ کرتا ہو اورعاجزی و کمزوری کا اظہارنہ کرتا ہو اور لالچ کے پیچھے نہ دوڑتا ہو۔

(۱۱۱)

جب صفین سے واپسی پر سہل بن حنیف انصاری کاکوفہ میں انتقال ہوگیا جو حضرت کے محبوب صحابی تھے تو آپ نے فرمایا کہ''مجھ سے کوئی پہاڑ بھی محبت کرے گا تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ۔

مقصد یہ ہے کہ میری محبت کی آزمائش سخت ہے اور اس میں مصائب کی یورش ہو جاتی ہے جوشرف صرف متقی اورنیک کردار لوگوں کوحاصل ہوتا ہے جیسا کہ آپنے دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا ہے۔

(۱)شیخ محمد عبدہ نے اس فقرہ کی یہ تشریح کی ہے کہ اہل بیت اس مسند سے مشابہت رکھتے ہیں جس کے سہارے انسان کی پشت مضبوط ہوتی ہے اوراسے سکون زندگی حاصل ہوتا ہے ۔وسطی کے لفظ سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تمام مسندیں اسی سے اتصال رکھتی ہیں اور سب کا سہارا وہی ہے۔اہل بیت اس صراط مستقیم پر ہیں جن سے آگے بڑھ جانے والوں کو بھی ان سے ملنا پڑتا ہے اور پیچھے رہ جانے والوںکوبھی ۔!

۶۵۸

۱۱۲ - مَنْ أَحَبَّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَاباً.

وقد يؤول ذلك على معنى آخر ليس هذا موضع ذكره.

۱۱۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ ولَا وَحْدَةَ أَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ - ولَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ ولَا كَرَمَ كَالتَّقْوَى - ولَا قَرِينَ كَحُسْنِ الْخُلُقِ ولَا مِيرَاثَ كَالأَدَبِ - ولَا قَائِدَ كَالتَّوْفِيقِ ولَا تِجَارَةَ كَالْعَمَلِ الصَّالِحِ - ولَا رِبْحَ كَالثَّوَابِ ولَا وَرَعَ كَالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ - ولَا زُهْدَ كَالزُّهْدِ فِي الْحَرَامِ ولَا عِلْمَ كَالتَّفَكُّرِ - ولَا عِبَادَةَ كَأَدَاءِ الْفَرَائِضِ - ولَا إِيمَانَ كَالْحَيَاءِ والصَّبْرِ ولَا حَسَبَ كَالتَّوَاضُعِ - ولَا شَرَفَ كَالْعِلْمِ ولَا عِزَّ كَالْحِلْمِ - ولَا مُظَاهَرَةَ أَوْثَقُ مِنَ الْمُشَاوَرَةِ.

(۱۱۲)

جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے جامہ(۱) فقر پہننے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے ۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس ارشاد کی ایک دوسری تفسیر کی ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔

(۱۱۳)

عقل سے زیادہ فائدہ مند کوئی دولت نہیں ہے اور خود پسندی سے زیادہ وحشت ناک کوئی تنہائی نہیں ہے۔تدبیر جیسی کوئی عقل نہیں ہے اورتقویٰ جیسی کوئی بزرگی نہیں ہے۔حسن اخلاق جیسا کوئیساتھی نہیں ہے اوراد ب جیسی کوئی میراث نہیں ہے ۔توفیق جیساکوئی پیشرو نہیں ہے اورعمل صالح جیسی کوئی تجارت نہیں ہے۔ثواب جیسا کوئی فائدہ نہیں ہے اور شبہات میں احتیاط جیسی کوئی پرہیز گاری نہیں ہے۔حرام کی طرف سے بے رغبتی جیساکوئی زہد نہیں ہے اورتفکر جیسا کوئی علم نہیں ہے۔ادائے فرائض جیسی کوئی عبادت نہیں ہے اورحیا و صبر جیسا کوئی ایمان نہیں ہے۔تواضع جیسا کوئی حسب نہیں ہے اور علم جیسا کوئی شرف نہیں ہے۔حلم جیسی کوئی عزت نہیں ہے اور مشورہ سے زیادہ مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں ہے۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ اہل بیت کاکل سرمایہ حیات دین و مذہب اور حق و حقانیت ہے اور اس کے برداشت کرنے والے ہمیشہ کم ہوتے ہیں لہٰذا اس راہ پر چلنے والوں کو ہمیشہ مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

۶۵۹

۱۱۴ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا اسْتَوْلَى الصَّلَاحُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِه - ثُمَّ أَسَاءَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ لَمْ تَظْهَرْ مِنْه حَوْبَةٌ فَقَدْ ظَلَمَ - وإِذَا اسْتَوْلَى الْفَسَادُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِه - فَأَحْسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ فَقَدْ غَرَّرَ

۱۱۵ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام كَيْفَ نَجِدُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام كَيْفَ يَكُونُ حَالُ مَنْ يَفْنَى بِبَقَائِه - ويَسْقَمُ بِصِحَّتِه ويُؤْتَى مِنْ مَأْمَنِه

۱۱۶ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه - ومَغْرُورٍ بِالسَّتْرِ عَلَيْه ومَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه - ومَا ابْتَلَى اللَّه أَحَداً بِمِثْلِ الإِمْلَاءِ لَه

۱۱۷ - وقَالَعليه‌السلام هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ ومُبْغِضٌ قَالٍ

(۱۱۴)

جب زمانہ اور اہل زمانہ پر نیکیوں کا غلبہ ہوا اور کوئی شخص کسی شخص سے کوئی برائی دیکھے بغیر بد ظنی پیدا کرے تواس نے اس شخص پر ظلم کیا ہے اور جب زمانہ اور اہل زمانہ پر فساد کا غلبہ ہو اور کوئی شخص کسی سے حسن ظن قائم کرلے تو گویا اسنے اپنے ہی کودھوکہ دیا ہے ۔

(۱۱۵)

ایک شخص نے آپ سے مزاج پرسی کرلی تو فرمایا کہ اس کا حال کیا ہوگا جس کی بقاہی فناکی طرف لے جا رہی ہے اور صحت ہی بیماری کا پیش خیمہ ہے اور وہ اپنی پناہ گاہ ہی سے ایک دن گرفت میں لے لیاجائے گا۔

(۱۱۶)

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نیکیاں دے کر گرفت میں لیا جاتا ہے اور وہ پردہ(۱) پوشی ہی سے دھوکہ میں رہتے ہیں اوراپنے بارے میں اچھی بات سن کردھوکہ کھا جاتے ہیں ۔اور دیکھو اللہ نے مہلت سے بہتر کوئی آزمائش کاذریعہ نہیں قرار دیا ہے۔

(۱۱۷)

میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔وہ دوست جو دوستی میںغلو سے کام لیتے ہیں اوروہ دشمن جو دشمنی میں مبالغہ کرتے ہیں۔

(۱)انسانوں میں جومختلف کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان میں اہم ترین کمزوریاں یہ ہیں کہ وہ ہر تعریف کواپناحق سمجھتا ہے اور ہر مال کو اپنامقدر قراردے لیتا ہے اور پروردگار کی پردہ پوشی کو بھی اپنے تقدس کا نام دے دیتا ہے اوریہ احساس نہیں کرتا ہے کہ یہ فریب زندگی کسی وقت بھی دھوکہ دے سکتا ہے اوراس کا انجام یقینا برا ہو گا۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863