نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630117
ڈاؤنلوڈ: 15074

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630117 / ڈاؤنلوڈ: 15074
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۶۱ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْأَةُ عَقْرَبٌ حُلْوَةُ اللَّسْبَةِ

۶۲ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا حُيِّيتَ بِتَحِيَّةٍ فَحَيِّ بِأَحْسَنَ مِنْهَا وإِذَا أُسْدِيَتْ إِلَيْكَ يَدٌ فَكَافِئْهَا بِمَا يُرْبِي عَلَيْهَا - والْفَضْلُ مَعَ ذَلِكَ لِلْبَادِئِ.

۶۳ - وقَالَعليه‌السلام الشَّفِيعُ جَنَاحُ الطَّالِبِ.

۶۴ - وقَالَعليه‌السلام أَهْلُ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ يُسَارُ بِهِمْ وهُمْ نِيَامٌ.

۶۵ - وقَالَعليه‌السلام فَقْدُ الأَحِبَّةِ غُرْبَةٌ.

۶۶ - وقَالَ عليهامسل فَوْتُ الْحَاجَةِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا إِلَى غَيْرِ أَهْلِهَا.

(۶۱)

عورت اس بچھو(۱) کے مانند ہے جس کا ڈسنا بھی مزیدار ہوتا ہے۔

(۶۲)

جب تمہیں کوئی تحفہ دیا جائے تو اس سے بہتر واپس کرو اور جب کوئی نعمت دی جائے تواس سے بڑھا کر اس کا بدلہ دو لیکن اس کے بعد بھی فضیلت اسی کی رہے گی جو پہلے کا ر خیر انجام دے ۔

(۶۳)

سفارش کرنے والا طلب گار کے بال و پر کے مانند ہوتا ہے ۔

(۶۴)

اہل دنیا اس سواروں کے مانند ہیں جو خود سو رہے ہیں اور ان کا سفر جاری ہے ۔

(۶۵)

احباب کا نہ ہونا بھی ایک غربت ہے۔

(۶۶)

حاجت(۲) کا پورا نہ ہونا نا اہل سے مانگنے سے بہتر ہے۔

(۱)اس فقرہ میں ایک طرف عورت کے مزاج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں غیظ وغضب کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے اور دوسری طرف اس کی فطری نزاکت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں اس کا ڈنک بھی مزیدار معلوم ہوتاہے۔

(۲)انسان کو چاہیے کہ دنیا سے محرومی پر صبرکرلے اور جہاں تک ممکن ہو کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے کہ ہاتھ پھیلانا کسی ذلت سے کم نہیں ہے

۶۴۱

۶۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْتَحِ مِنْ إِعْطَاءِ الْقَلِيلِ - فَإِنَّ الْحِرْمَانَ أَقَلُّ مِنْه.

۶۸ - وقَالَعليه‌السلام الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ والشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى.

۶۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا لَمْ يَكُنْ مَا تُرِيدُ فَلَا تُبَلْ مَا كُنْتَ.

۷۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَرَى الْجَاهِلَ إِلَّا مُفْرِطاً أَوْ مُفَرِّطاً.

۷۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ.

(۶۷)

مختصر مال دینے میں بھی شرم نہ کرو کہ محروم کردینا اس سے زیادہ کمتر درجہ کا کام ہے۔

(۶۸)

پاکدامانی(۱) فقیری کی زینت ہے اورشکریہ مالداری کی زینت ہے۔

(۶۹)

اگرتمہارے حسب خواہش کام نہ ہو سکے تو جس حال میں رہو خوش رہو(۲) ( کہ افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہے )

(۷۰)

جاہل ہمیشہ افراط و تفریط کاشکار رہتا ہے یا حدسے آگے بڑھ جاتا ہے یا پیچھے ہی رہ جاتا ہے ( کہ اسے حدکا اندازہ ہی نہیں ہے )

(۷۱)

جب عقل مکمل ہوتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہے ( کہ عاقل کو ہربات تول کر کہنا پڑتی ہے ۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان کو غربت میں عضیف اورغیرت دار ہونا چاہیے اور دولت مندی میں مالک کا شکرگذار ہوناچاہیے کہ اس کے علاوہ شرافت و کرامت کی کوئی نشانی نہیں ہے۔

(۲)بعض عرفاء نے اس حقیقت کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ '' میں اس دنیا کو لے کر کیا کروں جس کاحال یہ ہے کہ میں رہ گیا تو وہ نہ رہ جائے گی اور وہ رہ گئی تو میں نہ رہ جائوں گا۔

۶۴۲

۷۲ - وقَالَعليه‌السلام الدَّهْرُ يُخْلِقُ الأَبْدَانَ - ويُجَدِّدُ الآمَالَ ويُقَرِّبُ الْمَنِيَّةَ - ويُبَاعِدُ الأُمْنِيَّةَ مَنْ ظَفِرَ بِه نَصِبَ ومَنْ فَاتَه تَعِبَ.

۷۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَصَبَ نَفْسَه لِلنَّاسِ إِمَاماً - فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِه قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِه - ولْيَكُنْ تَأْدِيبُه بِسِيرَتِه قَبْلَ تَأْدِيبِه بِلِسَانِه - ومُعَلِّمُ نَفْسِه ومُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالإِجْلَالِ - مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ ومُؤَدِّبِهِمْ.

۷۴ - وقَالَعليه‌السلام نَفَسُ الْمَرْءِ خُطَاه إِلَى أَجَلِه

۷۵ - وقَالَ عليهامسل كُلُّ مَعْدُودٍ مُنْقَضٍ وكُلُّ مُتَوَقَّعٍ آتٍ.

۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الأُمُورَ إِذَا اشْتَبَهَتْ اعْتُبِرَ آخِرُهَا بِأَوَّلِهَا

(۷۲)

زمانہ بدن کو پرانا کر دیتا ہے اورخواہشات کونیا۔موت کو قریب بنا دیتا ہے اور تمنائوں کودور۔یہاں جو کامیاب ہو جاتا ہے وہ بھی خستہ(۱) حال رہتا ہے اورجواسے کھو بیٹھتا ہے وہ بھی تھکن کا شکار رہتا ہے۔

(۷۳)

جوشخص اپنے کو قائد ملت بنا کر پیش کرے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دے اور زبان سے تبلیغ کرنے سے پہلے اپنے عمل سے تبلیغ کرے اوریہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو تعلیم و تربیت دینے والا دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے والے سے زیادہ قابل احترام ہوتا ہے۔

(۷۴)

انسان کی ایک ایک سانس موت کی طرف ایک قدم ہے ( روحی لہ الفدائ)

(۷۵)

ہرشمار ہونے والی چیز ختم ہونے والی ہے (سانسیں ) اور ہر آنے والا بہر حال آکر رہے گا (موت)

(۷۶)

جب مسائل میں شبہ پیدا ہو جائے تو ابتدا کو دیکھ کر انجام کار کا اندازہ کرلیانا چاہیے ۔

(۱)مال دنیا کا حال یہی ہے کہ آجاتا ہے تو انسان کا روبارمیں مبتلاہوجاتا ہے اور نہیں رہتا ہے تو اس کے حصول کی راہ میں پریشان رہتا ہے ۔

۶۴۳

۷۷ - ومِنْ خَبَرِ ضِرَارِ بْنِ حَمْزَةَ الضَّبَائِيِّ - عِنْدَ دُخُولِه عَلَى مُعَاوِيَةَ - ومَسْأَلَتِه لَه عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام وقَالَ فَأَشْهَدُ لَقَدْ رَأَيْتُه فِي بَعْضِ مَوَاقِفِه - وقَدْ أَرْخَى اللَّيْلُ سُدُولَه وهُوَ قَائِمٌ فِي مِحْرَابِه قَابِضٌ عَلَى لِحْيَتِه يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ السَّلِيمِ - ويَبْكِي بُكَاءَ الْحَزِينِ ويَقُولُ:

يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا إِلَيْكِ عَنِّي أَبِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ - لَا حَانَ حِينُكِ هَيْهَاتَ غُرِّي غَيْرِي لَا حَاجَةَ لِي فِيكِ - قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ فِيهَا - فَعَيْشُكِ قَصِيرٌ وخَطَرُكِ يَسِيرٌ وأَمَلُكِ حَقِيرٌ –

آه مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وطُولِ الطَّرِيقِ - وبُعْدِ السَّفَرِ وعَظِيمِ الْمَوْرِدِ

(۷۷)

ضرار(۱) بن حمزہ الضبائی معاویہ کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے امیر المومنین کے بارے میں دریافت کیا؟ ضرار نے کہا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں محراب میں کھڑے ہوئے ریش مبارک کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ۔یوں تڑپتے تھے جس طرح سانپ کا کاٹا ہوا تڑپتا ہے اور کوئی غم رسیدہ گریہ کرتا ہے۔اور فرمایا کرتے تھے:

''اے دنیا ۔اے دنیا!مجھ سے دور ہو جا۔تو میرے سامنے بن سنور کرآئی ہے یا میری واقعاً مشتاق بن کرآئی ہے ؟ خدا وہ وقت نہ لائے کہ تو مجھے دھوکہ دے سکے ۔جامیرے علاوہ کسیاور کودھوکہ دے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے۔میں تجھے تین مرتبہ طلاق(۲) دے چکاہوں جس کے بعد رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے۔تیری زندگی بہت تھوڑی ہے اور تیریرحیثیت بہت معمولی ہے اور تیری امید بہت حقیر شے ہے''

آہ زاد سفر کس قدر کم ہے۔راستہ کس قدر طولانی ہے منزل کس قدر دور ہے اوروارد ہونے کی جگہ کس قدرخطر ناک ہے۔

(۱)بعض حضرات نے ان کا نام ضرار بن ضمرہ لکھا ہے اوری ہ ان کا کمال کردار ہے کہ معاویہ جیسے دشمن علی کے دربار میں حقائق کا اعلان کردیا اوراسمشہورحدیث کے معانی کومجسم بنایدا کہ بہترین جہاد بادشاہ ظالم کے سامنے کلمہ حق کا اظہار و اعلان ہے۔

(۲)کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کو طلاق دے دیتا ہے تو وہ عورت بھی ناراض ہوتی ہے اور اسکے گھر واے بھی ناراض رہتے ہیں ۔امیر المومنین سے دنیا کا انحراف اور اہل دنیا کی دشمنی کا رازیہی ہے کہ آپ نے اسے تین مرتبہ طلاق دے دی تھی تو اس کا کوئی امکان نہیں تھاکہ اہل دنیا آپ سے کسی قیمت پرا ضی ہو جاتے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے ابناء دنیا نے تین خلافتوں کے موقع پر اپنی بیزاری کا اظہارکیا اور اس کے بعد تین جنگوں کے موقع پر اپنی ناراضگی کا اظہارکیا لیکن آپ کسی قیمت پردنیا سے صلح کرنے پرآمادہ نہ ہوئے اور ہر مرحلہ پر دین الٰہی اوراسکی تعلیمات کو کلیجہ سے لگائے رہے۔

۶۴۴

۷۸ - ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام لِلسَّائِلِ الشَّامِيِّ لَمَّا سَأَلَه - أَكَانَ مَسِيرُنَا إِلَى الشَّامِ بِقَضَاءٍ مِنَ اللَّه وقَدَرٍ - بَعْدَ كَلَامٍ طَوِيلٍ هَذَا مُخْتَارُه.

وَيْحَكَ لَعَلَّكَ ظَنَنْتَ قَضَاءً لَازِماً وقَدَراً حَاتِماً - لَوْ كَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ لَبَطَلَ الثَّوَابُ والْعِقَابُ - وسَقَطَ الْوَعْدُ والْوَعِيدُ - إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه أَمَرَ عِبَادَه تَخْيِيراً ونَهَاهُمْ تَحْذِيراً - وكَلَّفَ يَسِيراً ولَمْ يُكَلِّفْ عَسِيراً - وأَعْطَى عَلَى الْقَلِيلِ كَثِيراً ولَمْ يُعْصَ مَغْلُوباً - ولَمْ يُطَعْ مُكْرِهاً ولَمْ يُرْسِلِ الأَنْبِيَاءَ لَعِباً - ولَمْ يُنْزِلِ الْكُتُبَ لِلْعِبَادِ عَبَثاً - ولَا خَلَقَ السَّمَاوَاتِ والأَرْضَ ومَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا –

( ذلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ) .

(۷۸)

ایک مرد شامی نے سوال کیا کہ کیا ہمارا شام کی طرف جانا قضا و قدارالٰہی کی بنا پر تھا ( اگر ایساتھا تو گویا کہ کوئی اجرو ثواب نہ ملا ) تو آپ نے فرمایا کہ شائد تیرا خیال یہ ہے کہ اس سے مراد قضاء لازم اورقدرحتمی ہے کہ جس کے بعد عذاب و ثواب بیکار ہو جاتا ہے اور وعدہ و وعید کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔پروردگار نے اپنے بندوں کوحکم دیا ہے تو ان کے اختیار کے ساتھ اورنہی کی ہے تو انہیں ڈراتے وئے۔اس نے آسان سی تکلیف دی ہے اور کسی زحمت میں مبتلا نہیں کیا ہے تھوڑے عمل پر بہت سااجر دیا ہے اوراس کی نا فرمانی اس لئے نہیں ہوتی ہے کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اور نہ اطاعت اس لئے ہوتی ہے کہ اس نے مجبور کردیا ہے۔اس نے نہ انبیاء کو کھیل کرنے کے لئے بھیجا ہے اور نہ کتاب کو عبث نازل کیا ہے اورنہ زمین وآسمان اور ان کی درمیانی مخلوقات کو بیکار پیدا کیا ہے۔یہ صری کافروں کا خیال ہے اورکافروں کے لئے جہنم میں ویل ہے ''

(آخر میں وضاحت فرمائی کہ قضاء امر کے معنی میں ہے اور ہم اس کے حکم سے گئے تھے نہ کہ جبر و اکراہ سے )

۶۴۵

۷۹ - وقَالَعليه‌السلام خُذِ الْحِكْمَةَ أَنَّى كَانَتْ - فَإِنَّ الْحِكْمَةَ تَكُونُ فِي صَدْرِ الْمُنَافِقِ فَتَلَجْلَجُ فِي صَدْرِه - حَتَّى تَخْرُجَ فَتَسْكُنَ إِلَى صَوَاحِبِهَا فِي صَدْرِ الْمُؤْمِنِ.

۸۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ - فَخُذِ الْحِكْمَةَ ولَوْ مِنْ أَهْلِ النِّفَاقِ.

۸۱ - وقَالَعليه‌السلام قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُه.

قال الرضي - وهي الكلمة التي لا تصاب لها قيمة - ولا توزن بها حكمة ولا تقرن إليها كلمة.

(۷۹)

حرف حکمت جہاں بھی مل جائے لے لو کہ ایسی بات اگرمنافق کے سینہ میں دبی ہوتی ہے تو وہ اس وقت تک بے چین رہتا ہے جب تک وہ نکل نہ جائے ۔

(۸۰)

حکمت مومن کی گم شدہ دولت ہے لہٰذا جہاں ملے لے لیناچاہیے ۔چاہے وہ حقائق سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

(۸۱)

ہر انسان کی قدرو قیمت وہی نیکیاں(۱) ہیں جو اس میں پائی جاتی ہیں۔

سید رضی : یہ وہ کلمہ قیمہ ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی ہے اوراس کے ہم پلہ کوء یدوسری حکمت بھی نہیں ہے اور کوئی کلمہ اس کے ہم پایہ بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۱)یہ امیر المومنین کا فلسفہ حیات ہے کہ انسان کی قدرو قیمت کا تعین نہ اس کے حسب و نسب سے ہوتا ہے اور نہ قوم و قبیلہ سے۔نہ ڈگریاں اس کے مرتبہ کربڑھا سکتی ہیں اور نہ خزانے اس کو شریف بنا سکتے ہیں۔نہ کرسی اس کے معیارحیات کوب لند کرس کتی ہے اور نہاقتدار اسکے کمالات کاتعین کر سکتا ہے۔انسانی کمال کا معیار صرف وہ کمال ہے جواس کے اندرپایا جاتا ہے۔اگر اس کے نفس میں پاکیزگی اورکردار میں حسن ہے تو یقینا عظیم مرتبہ کا حامل ہے ورنہ اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔

۶۴۶

۸۲ - وقَالَعليه‌السلام أُوصِيكُمْ بِخَمْسٍ - لَوْ ضَرَبْتُمْ إِلَيْهَا آبَاطَ الإِبِلِ لَكَانَتْ لِذَلِكَ أَهْلًا - لَا يَرْجُوَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا رَبَّه ولَا يَخَافَنَّ إِلَّا ذَنْبَه - ولَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ - أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ - ولَا يَسْتَحِيَنَّ أَحَدٌ إِذَا لَمْ يَعْلَمِ الشَّيْءَ أَنْ يَتَعَلَّمَه - وعَلَيْكُمْ بِالصَّبْرِ فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الإِيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ - ولَا خَيْرَ فِي جَسَدٍ لَا رَأْسَ مَعَه - ولَا فِي إِيمَانٍ لَا صَبْرَ مَعَه.

۸۳ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ أَفْرَطَ فِي الثَّنَاءِ عَلَيْه وكَانَ لَه مُتَّهِماً - أَنَا دُونَ مَا تَقُولُ وفَوْقَ مَا فِي نَفْسِكَ.

(۸۲)

میں تمہیں ایسی پانچ باتوں کی نصیحت کررہا ہوں کہ جن کے حصول کے لئے اونٹوں کو ایڑ لگا کردوڑا یا جائے تو بھی وہاس کی اہل ہیں۔

خبردار! تم میں سے کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھے اور اپنے گناہوں کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے اور جب کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے اور نہ جانتا ہو تو لا علمی کے اعتراف میں نہ شرمائے اور جب نہیں جانتا ہے تو سیکھنے میں نہ شرمائے اور صبر و شکیبائی اختیار کرے کہ صبر(۱) ایمان کے لئے ویسا ہی ہے جیسا بدن کے لئے سر اور ظاہر ہے کہ اس بدن میں کوئی خیر نہیں ہوتا ہے جسے میں سر نہ ہو اور اسایمان میں کوء ی خیرنہیں ہے جس میں صبر نہ ہو۔

(۸۳)

آپ نے اس شخص سے فرمایا جوآپ کا عقیدت مند تو نہ تھا لیکن آپ کی بے حد تعریف کر رہاتھا۔''میں تمہارے بیان سے کمتر ہوں لیکن تمہارے خیال سے بالاتر ہوں '' (یعنی جو تم نے میرے بارے میں کہا ہے وہ مبالہ ہے لیکن جو میرے بارے میں عقیدہ رکھتے ہو وہ میری حیثیت سے بہت کم ہے )

(۱)صبرانسانی زندگی کا وہ جوہر ہے جس کی واقعی عظمت کا ادراک بھی مشکل ہے۔تاریخ بشریت میں ا س کے مظاہر کاہرقدم پرمشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔حضرت آدم جنت میںتھے۔پروردگارنے ہر طرح کا آرام دے رکھا تھا۔صرف ایک درخت سے روک دیا تھا۔لیکن انہوں نے مکمل قوت صبرکامظاہرہ نہکیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہجنت سے باہرآگئے۔اور حضرت یوسف قید خانہمیں تھے لیکن انہوں نے مکمل قوت صبرکامظاہرہ کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہواکہ عزیز مصر کے عہدہ پر فائز ہوگئے اور لمحوں میں ''غلامی '' سے '' شاہی'' کافصلہ طے کرلیا۔

صبر اور جنت کے اسی رشتہ کی طرف قرآن مجید نے سورہ ٔ دہر میں اشارہ کیا ہے '' جزاھم بما صبروا جنتة و حریرا'' اللہ ے ان کے صبرکے بدلہ میں انہیں جنت اورحیریر جنت سے نوازدیا ۔

۶۴۷

۸۴ - وقَالَعليه‌السلام بَقِيَّةُ السَّيْفِ أَبْقَى عَدَداً وأَكْثَرُ وَلَداً.

۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ تَرَكَ قَوْلَ لَا أَدْرِي أُصِيبَتْ مَقَاتِلُه

۸۶ - وقَالَعليه‌السلام رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ - ورُوِيَ مِنْ مَشْهَدِ الْغُلَامِ.

۸۷ - وقَالَعليه‌السلام عَجِبْتُ لِمَنْ يَقْنَطُ ومَعَه الِاسْتِغْفَارُ.

(۸۴)

تلوار کے بچے ہوئے لوگ زیادہ باقی رہتے ہیں اور ان کی اولاد بھی زیادہ ہوتی ہے۔

(۸۵)

جس نے نا واقفیت کا اقرار چھوڑ دیا وہ کہیں نہ کہیں ضرور مارا(۱) جائے گا۔

(۸۶)

بوڑھے کی رائے جوان کی ہمت(۲) سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔یا بوڑھے کی رائے جوان کے خطرہ میں ڈٹے رہنے سے زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے ۔

(۸۷)

مجھے اس شخص کے حال پر تعجب ہوتا ہے جو استغفار کی طاقت رکھتا ہے اور پھر بھی رحمت خداسے مایوس ہو جاتا ہے۔

(۱)یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم (ص) کے بعد مولائے کائنات کے علاوہ جس نے بھی ''سلونی '' کا دعویٰ کیا اسے ذلت سے دوچار ہونا پڑا اور ساری عزت خاک میں مل گئی۔

(۲)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی کے ہرمرحلہ عمل پر جوان کی ہمت ہی کام آتی ہے ۔کاشتکاری ' صنعت کاری سے لے کر ہلکی دفاع تک سارا کام جوان ہی انجام دیتے ہیں اور چمنستان زندگی کی ساری بہار جوانوں کی ہمت ہی سے وابستہ ہے۔لیکن اس کے باوجود نشاط عمل کے لئے صحیح خطوطکا تعین بہرحال ضروری ہے اور یہکام بزرگوں کے تجربات ہی سے انجام پاسکتا ہے۔لہٰذا بنیادی حیثیت بزرگوں کے تجربات کی ہے اور ثانوی حیثیت نوجوانوں کی ہمت مردانہ کی ہے۔اگرچہ زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لئے یہ دونوں پہئیے ضروری ہیں۔

۶۴۸

۸۸ - وحَكَى عَنْه أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُعليه‌السلام أَنَّه قَالَ:

كَانَ فِي الأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّه - وقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِه - أَمَّا الأَمَانُ الَّذِي رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وأَمَّا الأَمَانُ الْبَاقِي فَالِاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّه تَعَالَى -( وما كانَ الله لِيُعَذِّبَهُمْ وأَنْتَ فِيهِمْ - وما كانَ الله مُعَذِّبَهُمْ وهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ) .

قال الرضي - وهذا من محاسن الاستخراج ولطائف الاستنباط.

۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَه وبَيْنَ اللَّه - أَصْلَحَ اللَّه مَا بَيْنَه وبَيْنَ النَّاسِ - ومَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِه أَصْلَحَ اللَّه لَه أَمْرَ دُنْيَاه - ومَنْ كَانَ لَه مِنْ نَفْسِه وَاعِظٌ - كَانَ عَلَيْه مِنَ اللَّه حَافِظٌ.

(۸۸)

امام محمد باقر نے آپ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ '' روئے زمین پر عذاب الٰہی سے بچانے کے دوذرائع تھے۔ایک کو پروردگار نے اٹھالیا ہے ( پیغمبر اسلام (ص) ) لہٰذا دوسرے سے تمسک اختیار کرو۔یعنی استغفار کہ مالک کائنات نے فرمایا ہے کہ '' خدا اس وقت تک ان پر عذاب نہیں کر سکتا ہے جب تک آپ موجود ہیں۔اوراس وقت تک عذاب کرنے والا نہیں ہے جب تک یہ استغفار کر رہے ہیں۔

سید رضی : یہ آیت کریمہ سے بہترین استخراج اورلطیف ترین استباط ہے۔

(۸۹)

جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان کے معاملات کی اصلاح کرلی۔اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان کے معاملات کی اصلاح کردے گا اورجو آخرت کے امور(۱) کی اصلاح کرلے گا اللہ اس کی دنیا کے امور کی اصلاح کردے گا۔اور جو اپنے نفس کو نصیحت کرلے گا اللہ اس کی حفاظت کا انتظام کردے گا۔

(۱)امور آخرت کی اصلاح کادئارہ صرف عبادات وریاضات میں محدود نہیں ہے بلکہ اس میں وہ تمام امور دنیا شامل ہیں جوآخرت کے لئے انجام دئیے جاتے ہیں کہ دنیاآخرت کی کھیتی ہے اور آخرت کی اصلاح دنیا کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ آخرت والے دنیا کو برائے آخرت اختیار کرتے ہیں اوردنیا داراسی کو اپناہدف اور مقصد قرار دے لیتے ہیں اور اس طرح آخرت سے یکسر غافل ہو جاتے ہیں۔

۶۴۹

۹۰ - وقَالَعليه‌السلام الْفَقِيه كُلُّ الْفَقِيه مَنْ لَمْ يُقَنِّطِ النَّاسَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّه - ولَمْ يُؤْيِسْهُمْ مِنْ رَوْحِ اللَّه ولَمْ يُؤْمِنْهُمْ مِنْ مَكْرِ اللَّه.

۹۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ - فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكَمِ

۹۲ - وقَالَعليه‌السلام أَوْضَعُ الْعِلْمِ مَا وُقِفَ عَلَى اللِّسَانِ - وأَرْفَعُه مَا ظَهَرَ فِي الْجَوَارِحِ والأَرْكَانِ

۹۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفِتْنَةِ - لأَنَّه لَيْسَ أَحَدٌ إِلَّا وهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى فِتْنَةٍ - ولَكِنْ مَنِ اسْتَعَاذَ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ - فَإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه يَقُولُ -( واعْلَمُوا أَنَّما أَمْوالُكُمْ وأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ ) - ومَعْنَى ذَلِكَ أَنَّه يَخْتَبِرُهُمْ - بِالأَمْوَالِ والأَوْلَادِ لِيَتَبَيَّنَ السَّاخِطَ لِرِزْقِه - والرَّاضِيَ بِقِسْمِه -

(۹۰)

مکمل عالم دین وہی ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایوس نہ بنائے اور اس کی مہربانیوں سے نا امید نہ کرے اور اس کے عذاب کی طرف مطمئن نہ بنادے۔

(۹۱)

یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتاجاتے ہیں لہٰذا ان کے لئے نئی نئی لطیف حکمتیں تلاش کرو۔

(۹۲)

سب سے حقیر علم وہ ہے جو صرف زبان(۱) پر رہ جائے اور سب سے زیادہ قیمتی علم وہ ہے جس کا اظہار اعضاء و جوارح سے ہو جائے ۔

(۹۳)

خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ خدایا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔کہ کوئی شخص بھی فتنہ سے الگ نہیں ہوسکتا ہے۔اگر پناہ مانگنا ہے تو فتنوں کی گمراہیوں سے پناہ مانگو اس لئے کہ پروردگارنے اموال اور اولاد کوبھی فتنہ قراردیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اموال اور اولاد کے ذریعہ امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اس طرح روزی سے ناراض ہونے والا قسمت پرراضی رہنے

(۱)افسوس کہ دورحاضر میں علم کا چر چا صرف زبانوں پر رہ گیا ہے اور قوت گویائی ہی کو کمال علم کو تصور کرلیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عمل و کردار کا فقدان ہوتا جا رہا ہے اور عوام الناس اپنی ذاتی جہالت سے زیادہ دانشور کی دانشوری اوراہل علم کے علم کی بدولت تباہ وبرباد ہو رہے ہیں۔

۶۵۰

وإِنْ كَانَ سُبْحَانَه أَعْلَمَ بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ - ولَكِنْ لِتَظْهَرَ الأَفْعَالُ الَّتِي بِهَا يُسْتَحَقُّ الثَّوَابُ والْعِقَابُ - لأَنَّ بَعْضَهُمْ يُحِبُّ الذُّكُورَ ويَكْرَه الإِنَاثَ - وبَعْضَهُمْ يُحِبُّ تَثْمِيرَ الْمَالِ ويَكْرَه انْثِلَامَ الْحَالِ

قال الرضي - وهذا من غريب ما سمع منه في التفسير.

۹۴ - وسُئِلَ عَنِ الْخَيْرِ مَا هُوَ - فَقَالَ لَيْسَ الْخَيْرُ أَنْ يَكْثُرَ مَالُكَ ووَلَدُكَ - ولَكِنَّ الْخَيْرَ أَنْ يَكْثُرَ عِلْمُكَ - وأَنْ يَعْظُمَ حِلْمُكَ وأَنْ تُبَاهِيَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّكَ - فَإِنْ أَحْسَنْتَ حَمِدْتَ اللَّه وإِنْ أَسَأْتَ اسْتَغْفَرْتَ اللَّه - ولَا خَيْرَ فِي الدُّنْيَا إِلَّا لِرَجُلَيْنِ - رَجُلٍ أَذْنَبَ ذُنُوباً فَهُوَ يَتَدَارَكُهَا بِالتَّوْبَةِ - ورَجُلٍ يُسَارِعُ فِي الْخَيْرَاتِ.

۹۵ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَى وكَيْفَ يَقِلُّ مَا يُتَقَبَّلُ؟

والے سے الگ ہو جائے ۔جب کہ وہ ان کے بارے میں خود ان سے بہتر جانتا ہے لیکن چاہتا ہے کہ ان اعمال کا اظہار ہو جائے جن سے انسان ثواب یا عذاب کاحقدار ہوتا ہے کہ بعض لوگ لڑکا چاہتے ہیں لڑکی نہیں چاہتے ہیں اور بعض مال کے بڑھانے کو دوست رکھتے ہیں اورشکستہ حالی کو برا سمجھتے ہیں ۔

سید رضی : یہ وہ نادر بات ہے جو آیت '' ان ما امرالکم '' کی تفسیر میں آپ سے نقل کی گئی ہے۔

(۹۴)

آپ سے خیر کے بارے میں سوال کیا گیا ؟ تو فرمایا کہ خیر مال اور اولاد کی کثرت نہیں ہے۔خیر علم کی کثرت اورحلم کی عظمت ہے اور یہ ہے کہ لوگوں پر عبادت پروردگارنے ناز کرو لہٰذا اگر نیک کام کرو تو اللہ کا شکربجا لائو اورب راکام کرو تو استغفار کرو۔ اوریاد رکھو کہ دنیامیں خیر صرف دو طرح کے لوگوں کے لئے ہے۔وہ انسان جوگناہ کرے تو توبہ سے اس کی تلافی کرلے اور وہ انسان جو نیکیوں میں آگے بڑھتا جائے ۔

(۹۵)

تقویٰ کے ساتھ کوئی عمل قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔کہ جوعمل بھی قبول(۱) ہو جائے اسے قلیل کس طرح کہاجاسکتا ہے۔

(۱)یہ اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔اوراس کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان تقویٰ کے بغیر اعمال انجام دے تو یہ اعمال دیکھنے میں بہت نظر آئیں گے لیکن واقعاً کثیر کہے جانے کے قابل نہیں ہیں۔اور اس کے بر خلاف اگرتقویٰ کے ساتھ عمل انجام دے تودیکھنے میں شائد وہ عمل قلیل دکھائی دے لیکن واقعاً قلیل نہ ہوگا کہ درجہ قبولیت پر فائز ہو جانے والا عمل کسی قیمت پر قلیل نہیں کہا جا سکتا ہے۔

۶۵۱

۹۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِالأَنْبِيَاءِ أَعْلَمُهُمْ بِمَا جَاءُوا بِه - ثُمَّ تَلَا( إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوه - وهذَا النَّبِيُّ والَّذِينَ آمَنُوا ) الآيَةَ - ثُمَّ قَالَ إِنَّ وَلِيَّ مُحَمَّدٍ مَنْ أَطَاعَ اللَّه وإِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُه - وإِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّدٍ مَنْ عَصَى اللَّه وإِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُه!

۹۷ - وسَمِعَعليه‌السلام رَجُلًا مِنَ الْحَرُورِيَّةِ يَتَهَجَّدُ ويَقْرَأُ - فَقَالَ:

نَوْمٌ عَلَى يَقِينٍ خَيْرٌ مِنْ صَلَاةٍ فِي شَكٍّ.

(۹۶)

لوگوں میں انبیاء سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ ان کے تعلیمات سے باخبر ہوں۔یہ کہہ کر آپ نے آیت شریفہ کی تلاوت فرمائی ''ابراہیم سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کریں۔اور یہ پیغمبر ہے اورصاحبان ایمان ہیں '' اس کے بعد فرمایا کہ پیغمبر (ص) کادوست وہی ہے جو ان کی اطاعت کرے ' چاہے نسب کے اعتبار سے کسی قدر دور کیوں نہ ہو اورآپ کا دشمن وہی ہے جوآپ کی نا فرمانی کرے چاہے قرابت کے اعتبارسے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو۔

(۹۷)

آپ نے سنا کہ ایک خارجی شخص نماز شب پڑھ رہا ے اور تلاوت قرآن کر رہا ے تو فرمایا کہ یقین(۱) کے ساتھ سوجانا شک کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

(۱)یہ اصلاح عقیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس شخص کو حقائق کا یقین نہیں ہے اور وہ شک کی زندگی گذار رہا ہے اس کے اعمال کی قدروقیمت ہی کیا ہے۔اعمال کی قدرو قیمت کا تعین انسان کے علم ویقین اوراس کی معرفت سے ہوتا ہے۔لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جتنے اہل یقین ہیں سبکو سوجانا چاہیے اور نماز شبکا پابند نہیں ہونا چاہیے کہ یقین کی نیند شک کے عمل سے بہتر ہے۔

ایساممکن ہوتا تو سب سے پہلے معصومین ان اعمال کو نظرانداز کر دیتے جن کے یقی کی شان یہ تھی کہ اگر پردے اٹھا دئیے جاتے جب بھی یقین میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں تھی۔

۶۵۲

۹۸ - وقَالَعليه‌السلام اعْقِلُوا الْخَبَرَ إِذَا سَمِعْتُمُوه عَقْلَ رِعَايَةٍ لَا عَقْلَ رِوَايَةٍ - فَإِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِيرٌ ورُعَاتَه قَلِيلٌ.

۹۹ -وسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ -( إِنَّا لِلَّه وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - فَقَالَ عليه السلام:

إِنَّ قَوْلَنَا( إِنَّا لِلَّه ) إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْمُلْكِ - وقَوْلَنَا( وإِنَّا إِلَيْه راجِعُونَ ) - إِقْرَارٌ عَلَى أَنْفُسِنَا بِالْهُلْكِ

۱۰۰ - وقَالَعليه‌السلام ومَدَحَه قَوْمٌ فِي وَجْهِه - فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ أَعْلَمُ بِي مِنْ نَفْسِي - وأَنَا أَعْلَمُ بِنَفْسِي مِنْهُمْ - اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا خَيْراً مِمَّا يَظُنُّونَ واغْفِرْ لَنَا مَا لَا يَعْلَمُونَ.

(۹۸)

جب کسی خبر کو سنو تو عقل کے معیار(۱) پر پرکھ لو اورصرف نقل پربھروسہ نہ کرو کہ علم کے نقل کرنے والے بہت ہوتے ہیں اور سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔

(۹۹)

آپ نے ایک شخص کو کلمہ انا للہ زبان پر جاری کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : انا للہ اقرار ہے کہ ہم کسی کی ملکیت ہیں اور انا للہ راجعون اعتراف ہے کہ ایک دن فنا ہو جانے والے ہیں۔

(۱۰۰)

ایک قوم نے آپ کے سامنے آپ کی تعریف کردی توآپنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئیے ۔خدایا تو مجھے ' مجھ سے بہتر جانتا ہے اورمیں اپنے کو ان سے بہتر پہچانتا ہوں لہٰذا مجھے ان کے خیال سے(۲) بہتر قرار دے دینا اور یہ جن کوتاہیوں کونہیں جانتے ہیں انہیں معاف کردینا۔

(۱)عالم اسلام کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ مسلمان روایات کے مضامین سے یکسر غافل ہے اور صرف راویں کے اعتماد پر روایات پر عمل کررہا ہے جب کے بے شمار روایات کے مضامین خلاف عقل و منطق اورمخالف اصول و عقائد ہیں اورمسلمان کو اس گمراہی کا احساس بھی نہیں ہے۔

(۲)اے کاش ہر انسان اس کردار کو اپنا لیتا اورتعریفوں سے دھوکہ کھانے کے بجائے اپنے امور کی اصلاح کی فکر کرت اور مالک کی بارگاہمیں اسیطرح عرض مدعاکرتا جس طرح مولائے کائنات نے سکھایا ہے مگرافسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور جہالت اس منزل پرآگئی ہے کہ صاحبان علم عوام الناس کیتعریف سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اپنے کو با کمال تصورکرنے لگتے ہیں جس کا مشاہدہ خطباء کی زندگی میں بھی ہو سکتا ہے اور شعراء کی مخفلوں میں بھی جہاں اظہار علم کرنے والے با کمال ہوتے ہیں اور تعریف کرنے والوں کی اکثریت ان کے مقابلہ میں بے کمال۔مگراس کے بعد بھی انسان تعریف سے خوش ہوتا ہے اورمغرور ہو جاتا ہے۔

۶۵۳

۱۰۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَسْتَقِيمُ قَضَاءُ الْحَوَائِجِ إِلَّا بِثَلَاثٍ - بِاسْتِصْغَارِهَا لِتَعْظُمَ وبِاسْتِكْتَامِهَا لِتَظْهَرَ - وبِتَعْجِيلِهَا لِتَهْنُؤَ

۱۰۲ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُقَرَّبُ فِيه إِلَّا الْمَاحِلُ - ولَا يُظَرَّفُ فِيه إِلَّا الْفَاجِرُ - ولَا يُضَعَّفُ فِيه إِلَّا الْمُنْصِفُ - يَعُدُّونَ الصَّدَقَةَ فِيه غُرْماً وصِلَةَ الرَّحِمِ مَنّاً - والْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَكُونُ السُّلْطَانُ بِمَشُورَةِ النِّسَاءِ - وإِمَارَةِ الصِّبْيَانِ وتَدْبِيرِ الْخِصْيَانِ.

۱۰۳ - ورُئِيَ عَلَيْه إِزَارٌ خَلَقٌ مَرْقُوعٌ فَقِيلَ لَه فِي ذَلِكَ

(۱۰۱)

حاجب روائی تین چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے :((۱) عمل کوچھوٹا سمجھے تاکہ وہ بڑا اقرار پا جائے ۔(۲) اسے پوشیدہ سور پر انجام دے تاکہ وہ خود اپنا اظہار کرے(۳) اسے جلدی پورا کردے تاکہ خوشگوار معلوم ہو(۱) ۔

(۱۰۲)

لوگوں پر ایک زمانہ آنے والا ہے جب صرف لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا مقرب بارگاہ ہواکرے گا اور صرف فاجر کو خوش مزاج سمجھا جائے گا اور صرف منصف کو کمزور قراردیاجائے گا۔لوگ صدقہ کو خسارہ صلہ رحم کو احسان اور عبادت کو لوگوں پر برتری کا(۲) ذریعہ قرار دیں گے ۔ایسے وقت(۱۴) میں حکومت عورتوں کے مشورہ ' بچوں کے اقتدار اورخواجہ سرائوں(۳) کی تدبیر کے سہارے رہ جائے گی۔

(۱۰۳)

لوگوں نے آپ کی چادر کو بوسیدہ دیکھ کر گزارش کردی

(۱)ظاہر ہے کہ حاجت برآری کا عمل جلد ہو جاتا ہے تو انسان کو بے پناہمسرت ہوتی ہے ورنہ اسکے بعد کام تو ہو جاتا ہے لیکن مسرت کا فقدان رہتا ہے اور وہ روحانی انبساط حاصل نہیں ہوتا ہے جو مدعا پیش کرنے کے فوراً بعد پورا ہو جانے میں حاصل ہوتا ہے۔

(۲)افسوس کہ اہل دنیا نے اس عبادت کوبھی اپنی برتری کا ذریعہ بنالیا ہے جس کی تشریع انسان کے خضوع و خشوع اورجذبہ ٔ بندگی کے اظہار کے لئے ہوئی تھی اور جس کامقصد یہ تھا کہ انسان کی زندگی سے غرور اور شیطنت نکل جائے اور تواضع و انکسار اس پرمسلط ہو جائے ۔

(۳)بظاہر کسی دور میں بھی خواجہ سرائوں کومشیر مملکت کی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے اور نہ ان کے کسی مخصوص تدبر کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس لئے بہت ممکن ہے کہ اس لفظ سے مراد وہ تمام افراد ہوں جن میں ان لوگوں کی خصلتیں پائی جاتی ہیں اورجو حکام کی ہر ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور ان کی ہر رغبت وخواہش کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں اورانہیں زندگی کے اندر و باہر ہر شعبہ میں برابر کا دخل رہتا ہے ۔

۶۵۴

فَقَالَ: يَخْشَعُ لَه الْقَلْبُ وتَذِلُّ بِه النَّفْسُ - ويَقْتَدِي بِه الْمُؤْمِنُونَ إِنَّ الدُّنْيَا والآخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ - وسَبِيلَانِ مُخْتَلِفَانِ - فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وتَوَلَّاهَا أَبْغَضَ الآخِرَةَ وعَادَاهَا - وهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ والْمَغْرِبِ ومَاشٍ بَيْنَهُمَا - كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِدٍ بَعُدَ مِنَ الآخَرِ - وهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ.

۱۰۴ - وعَنْ نَوْفٍ الْبَكَالِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام ذَاتَ لَيْلَةٍ - وقَدْ خَرَجَ مِنْ فِرَاشِه فَنَظَرَ فِي النُّجُومِ - فَقَالَ لِي يَا نَوْفُ أَرَاقِدٌ أَنْتَ أَمْ رَامِقٌ - فَقُلْتُ بَلْ رَامِقٌ قَالَ:

يَا نَوْفُ طُوبَى لِلزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا - الرَّاغِبِينَ فِي الآخِرَةِ - أُولَئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الأَرْضَ بِسَاطاً - وتُرَابَهَا فِرَاشاً ومَاءَهَا طِيباً - والْقُرْآنَ شِعَاراً والدُّعَاءَ دِثَاراً - ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْيَا قَرْضاً عَلَى مِنْهَاجِ الْمَسِيحِ.

يَا نَوْفُ إِنَّ دَاوُدَعليه‌السلام قَامَ فِي مِثْلِ هَذِه السَّاعَةِ مِنَ اللَّيْلِ - فَقَالَ إِنَّهَا لَسَاعَةٌ لَا يَدْعُو فِيهَا عَبْدٌ إِلَّا اسْتُجِيبَ لَه -

تو آپ نے فرمایا کہ اس سے دل میں خشوع اورنفس میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اور مومنین اس کی اقتدا بھی کرسکتے ہیں۔یاد رکھودنیا اورآخرت آپس میں دوناساز گار دشمن ہیں اور دو مختلف راستے ۔لہٰذا جو دنیا سے محبت اورتعلق خاطر رکھتا ہے وہ آخرت کادشمن ہو جاتا ہے اور جو راہر و ایک سے قریب تر ہوتا ہے وہ دوسرے سے دور ترہوجاتا ہے۔پھریہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی سوت جیسی ہیں ۔

(۱۰۴)

نوف بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین کو دیکھا کہ آپ نے بستر سے اٹھ کرستاروں پر نگاہ کی اور فرمایا کہ نوف! سو رہے ہو یا بیدار ہو؟ میں نے عرض کی کہ حضورجاگ رہا ہوں۔فرمایا کہ نوف ! خوشا بحال ان کے جو دنیا سے کنارہ کش ہوں توآخرت کی طرف رغبت رکھتے ہوں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو بستر بنایا ہے اورخاک کو فرش ' پانی کو شربت قراردیاہے اور قرآن و دعا کو اپنے ظاہرو باطن کامحافظ اس کے بعد دنیا سے یوں الگ(۱) ہوگئے جس طرح حضرت مسیح ۔

نوف! دیکھودائود رات کے وقت ایسے ہی موقع پر قیام کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ ساعت ہے جس میں جو بندہ بھی دعاکرتا ہے پروردگار اس کی دعا

(۱)اس مقام پر لفظ قرض اشارہ ہے کہ نہایت مختصر حصہ حاصل کیا ہے جس طرح دانت سے روٹی کاٹ لی جاتی ہے اور ساری روٹی کو منہمیں نہیں بھر لیا جاتا ہے کہ اس کیفیت کوخضم کہتے ہیں۔قرض نہیں کہتے ہیں۔

۶۵۵

إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَشَّاراً أَوْ عَرِيفاً أَوْ شُرْطِيّاً - أَوْ صَاحِبَ عَرْطَبَةٍ وهِيَ الطُّنْبُورُ أَوْ صَاحِبَ كَوْبَةٍ وهِيَ الطَّبْلُ –

وقَدْ قِيلَ أَيْضاً إِنَّ الْعَرْطَبَةَ الطَّبْلُ - والْكَوْبَةَ الطُّنْبُورُ.

۱۰۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا - وحَدَّ لَكُمْ حُدُوداً فَلَا تَعْتَدُوهَا - ونَهَاكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا - وسَكَتَ لَكُمْ عَنْ أَشْيَاءَ ولَمْ يَدَعْهَا نِسْيَاناً فَلَا تَتَكَلَّفُوهَا

۱۰۶ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَتْرُكُ النَّاسُ شَيْئاً مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ لِاسْتِصْلَاحِ دُنْيَاهُمْ - إِلَّا فَتَحَ اللَّه عَلَيْهِمْ مَا هُوَ أَضَرُّ مِنْه.

کوقبول کرلیتا ہے---مگر یہ کہ سرکاری ٹیکس وصول کرنے والا' لوگوں کی برائی کرنے والا: ظالم حکومت کی پولیس والا یا سارنگی اورڈھول(۱) تاشہ والاہو۔

سید رضی : عرطبة : سارنگی کو کہتے ہیں اور کوبة کے معنی ڈھول کے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک عرطبہ ڈھول ہے اور کوبہ سارنگی ۔

(۱۰۵)

پروردگارنے تمہارے ذمہ کچھ فرائض قرار دئیے ہیں لہٰذا خبردار انہیں ضائع نہ کرنا اور اسنے کچھ حدود بھی مقرر کردئیے ہیں لہٰذا ان سے تجاوز نہ کرنا۔اس نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کی خلاف ورزی نہ کرنا اورجن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا ہے زبردستی انہیں جاننے کی کوش نہ کرناکہ وہ بھولا نہیں ہے۔

(۱۰۶)

جب بھی لوگ دنیا سنوارنے کے لئے دین کی کسی بات کو نظرانداز کردیتے ہیںتو پروردگار اس سے زیادہ نقصان دہ راستے کھول دیتا ہے۔

(۱)افسوس کی بات ہے کہ بعض علاقوں می بعض مومن اقوام کی پہچان ہی ڈھول تاشہ اورسارنگی بن گئی ہے جب کہ مولائے کائنات نے اس کاروبار کو اس قدر مذموم قراردیا ہے کہ اس عمل کے انجام دینے والوں کیدعابھی قبول نہیں ہوتی ہے۔

اس حکمت میں دیگر افراد کا تذکرہ ظالموں کے ذیل میں کیا گیا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ظالم حکومت کے لئے کسی طح کا کام کرنے والا پیش پروردگار مستجاب الدعوات نہیں ہو سکتا ہے ۔جب وہ اپنے ضروریات حیات کوظالموں کی اعانت سیوابستہ کردیتا ہے تو پروردگار اپنا دست کرم اٹھالیتا ہے ۔

۶۵۶

۱۰۷ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ عَالِمٍ قَدْ قَتَلَه جَهْلُه وعِلْمُه مَعَه لَا يَنْفَعُه.

۱۰۸ - وقَالَعليه‌السلام لَقَدْ عُلِّقَ بِنِيَاطِ هَذَا الإِنْسَانِ بَضْعَةٌ - هِيَ أَعْجَبُ مَا فِيه وذَلِكَ الْقَلْبُ - وذَلِكَ أَنَّ لَه مَوَادَّ مِنَ الْحِكْمَةِ وأَضْدَاداً مِنْ خِلَافِهَا - فَإِنْ سَنَحَ لَه الرَّجَاءُ أَذَلَّه الطَّمَعُ - وإِنْ هَاجَ بِه الطَّمَعُ أَهْلَكَه الْحِرْصُ - وإِنْ مَلَكَه الْيَأْسُ قَتَلَه الأَسَفُ - وإِنْ عَرَضَ لَه الْغَضَبُ اشْتَدَّ بِه الْغَيْظُ - وإِنْ أَسْعَدَه الرِّضَى نَسِيَ التَّحَفُّظَ - وإِنْ غَالَه الْخَوْفُ شَغَلَه الْحَذَرُ - وإِنِ اتَّسَعَ لَه الأَمْرُ اسْتَلَبَتْه الْغِرَّةُ - وإِنْ أَفَادَ مَالًا أَطْغَاه الْغِنَى - وإِنْ أَصَابَتْه مُصِيبَةٌ فَضَحَه الْجَزَعُ - وإِنْ عَضَّتْه الْفَاقَةُ شَغَلَه الْبَلَاءُ - وإِنْ جَهَدَه الْجُوعُ قَعَدَ بِه الضَّعْفُ - وإِنْ أَفْرَطَ بِه الشِّبَعُ كَظَّتْه الْبِطْنَةُ -

(۱۰۷)

بہت سے عالم(۱) ہیں جنہیں دین سے نا واقفیت مارڈالاہے اور پھر ان کے علم نے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔

(۱۰۸)

اس انسان کے وجود میں سب سے زیادہ تعجب خیز وہ گوشت کا ٹکڑا ہے جو ایک رگ سے آویزاں کردیا گیا ہے اور جس کا نام قلب ہے کہ اس میں حکمت(۲) کے سر چشمے بھی ہیں اوراس کی ضدیں بھی ہیں کہ جب اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع ذلیل بنادتی ہے اور جب طمع میں ہیجان پیدا ہوتا ہے تو حرص برباد کردیتی ہے اورجب مایوسی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو حسرت مار ڈالتی ہے اور جب غضب طاری ہوتا ہے ۔توغم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے اور جب خوشحال ہو جاتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتا ہے اور جب خوف طاری ہوتا ہے تواحتیاط دوسری چیزوں سے غافل کردیتی ہے۔اور جب حالات وسعت پیدا ہوتی ہے تو غفلت قبضہ کرلیتی ہے -اورجب مال حاصل کر لیتا ہے تو بے نیازی سر کش بنا دیتی ہے اورجب کوئی مصیبت نازل ہو جاتی ہے توفریادرسواکر دیتی ہے اور جب فاقہ کاٹ کھاتا ہے تو بلاء گرفتار کر لیتی ہے اور جب بھوک تھکا دیتی ہے توکمزوری بٹھا دیتی ہےاورجب ضرورت سے زیادہ پیٹ بھر جاتا ہے

(۱)یہ دانشوران ملت ہیں جن کے پاس ڈگریوں کاغرورتو ہے لیکن دین کی بصیرت نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے افراد کا علم تباہ کرسکتا ہے آباد نہیں کر سکتا ہے۔

(۲)انسانی قلب کو دو طرح کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔اس میںایک پہلو عقل و منطق کا ہے اور دوسرا جذبات و عواطف کا۔اس ارشاد گرامی میں دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے متضاد خصوصیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

۶۵۷

فَكُلُّ تَقْصِيرٍ بِه مُضِرٌّ وكُلُّ إِفْرَاطٍ لَه مُفْسِدٌ.

۱۰۹ - وقَالَعليه‌السلام نَحْنُ النُّمْرُقَةُ الْوُسْطَى بِهَا يَلْحَقُ التَّالِي - وإِلَيْهَا يَرْجِعُ الْغَالِي

۱۱۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُقِيمُ أَمْرَ اللَّه سُبْحَانَه إِلَّا مَنْ لَا يُصَانِعُ - ولَا يُضَارِعُ ولَا يَتَّبِعُ الْمَطَامِعَ

۱۱۱ - وقَالَعليه‌السلام : وقَدْ تُوُفِّيَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيُّ بِالْكُوفَةِ - بَعْدَ مَرْجِعِه مَعَه مِنْ صِفِّينَ - وكَانَ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْه.

لَوْ أَحَبَّنِي جَبَلٌ لَتَهَافَتَ

معنى ذلك أن المحنة تغلظ عليه - فتسرع المصائب إليه - ولا يفعل ذلك إلا بالأتقياء الأبرار - والمصطفين الأخيار: وهذا مثل قولهعليه‌السلام :

تو شکم پری کی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔مختصر یہ ہے کہ ہر کوتا ہی نقصان دہ ہوتی ہے اور ہر زیادتی تباہ کن۔

(۱۰۹)

ہم اہل بیت ہی وہ نقطہ اعتدال(۱) ہیں جن سے پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ کر ان سے مل جاتا ہے اور آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر ملحق ہو جاتا ہے۔

(۱۱۰)

حکم الٰہی کا نفاذ وہی کر سکتا ہے جو حق کے معاملہ میں مروت نہ کرتا ہو اورعاجزی و کمزوری کا اظہارنہ کرتا ہو اور لالچ کے پیچھے نہ دوڑتا ہو۔

(۱۱۱)

جب صفین سے واپسی پر سہل بن حنیف انصاری کاکوفہ میں انتقال ہوگیا جو حضرت کے محبوب صحابی تھے تو آپ نے فرمایا کہ''مجھ سے کوئی پہاڑ بھی محبت کرے گا تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ۔

مقصد یہ ہے کہ میری محبت کی آزمائش سخت ہے اور اس میں مصائب کی یورش ہو جاتی ہے جوشرف صرف متقی اورنیک کردار لوگوں کوحاصل ہوتا ہے جیسا کہ آپنے دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا ہے۔

(۱)شیخ محمد عبدہ نے اس فقرہ کی یہ تشریح کی ہے کہ اہل بیت اس مسند سے مشابہت رکھتے ہیں جس کے سہارے انسان کی پشت مضبوط ہوتی ہے اوراسے سکون زندگی حاصل ہوتا ہے ۔وسطی کے لفظ سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تمام مسندیں اسی سے اتصال رکھتی ہیں اور سب کا سہارا وہی ہے۔اہل بیت اس صراط مستقیم پر ہیں جن سے آگے بڑھ جانے والوں کو بھی ان سے ملنا پڑتا ہے اور پیچھے رہ جانے والوںکوبھی ۔!

۶۵۸

۱۱۲ - مَنْ أَحَبَّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَسْتَعِدَّ لِلْفَقْرِ جِلْبَاباً.

وقد يؤول ذلك على معنى آخر ليس هذا موضع ذكره.

۱۱۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا مَالَ أَعْوَدُ مِنَ الْعَقْلِ ولَا وَحْدَةَ أَوْحَشُ مِنَ الْعُجْبِ - ولَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ ولَا كَرَمَ كَالتَّقْوَى - ولَا قَرِينَ كَحُسْنِ الْخُلُقِ ولَا مِيرَاثَ كَالأَدَبِ - ولَا قَائِدَ كَالتَّوْفِيقِ ولَا تِجَارَةَ كَالْعَمَلِ الصَّالِحِ - ولَا رِبْحَ كَالثَّوَابِ ولَا وَرَعَ كَالْوُقُوفِ عِنْدَ الشُّبْهَةِ - ولَا زُهْدَ كَالزُّهْدِ فِي الْحَرَامِ ولَا عِلْمَ كَالتَّفَكُّرِ - ولَا عِبَادَةَ كَأَدَاءِ الْفَرَائِضِ - ولَا إِيمَانَ كَالْحَيَاءِ والصَّبْرِ ولَا حَسَبَ كَالتَّوَاضُعِ - ولَا شَرَفَ كَالْعِلْمِ ولَا عِزَّ كَالْحِلْمِ - ولَا مُظَاهَرَةَ أَوْثَقُ مِنَ الْمُشَاوَرَةِ.

(۱۱۲)

جو ہم اہل بیت سے محبت کرے اسے جامہ(۱) فقر پہننے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے ۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس ارشاد کی ایک دوسری تفسیر کی ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔

(۱۱۳)

عقل سے زیادہ فائدہ مند کوئی دولت نہیں ہے اور خود پسندی سے زیادہ وحشت ناک کوئی تنہائی نہیں ہے۔تدبیر جیسی کوئی عقل نہیں ہے اورتقویٰ جیسی کوئی بزرگی نہیں ہے۔حسن اخلاق جیسا کوئیساتھی نہیں ہے اوراد ب جیسی کوئی میراث نہیں ہے ۔توفیق جیساکوئی پیشرو نہیں ہے اورعمل صالح جیسی کوئی تجارت نہیں ہے۔ثواب جیسا کوئی فائدہ نہیں ہے اور شبہات میں احتیاط جیسی کوئی پرہیز گاری نہیں ہے۔حرام کی طرف سے بے رغبتی جیساکوئی زہد نہیں ہے اورتفکر جیسا کوئی علم نہیں ہے۔ادائے فرائض جیسی کوئی عبادت نہیں ہے اورحیا و صبر جیسا کوئی ایمان نہیں ہے۔تواضع جیسا کوئی حسب نہیں ہے اور علم جیسا کوئی شرف نہیں ہے۔حلم جیسی کوئی عزت نہیں ہے اور مشورہ سے زیادہ مضبوط کوئی پشت پناہ نہیں ہے۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ اہل بیت کاکل سرمایہ حیات دین و مذہب اور حق و حقانیت ہے اور اس کے برداشت کرنے والے ہمیشہ کم ہوتے ہیں لہٰذا اس راہ پر چلنے والوں کو ہمیشہ مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

۶۵۹

۱۱۴ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا اسْتَوْلَى الصَّلَاحُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِه - ثُمَّ أَسَاءَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ لَمْ تَظْهَرْ مِنْه حَوْبَةٌ فَقَدْ ظَلَمَ - وإِذَا اسْتَوْلَى الْفَسَادُ عَلَى الزَّمَانِ وأَهْلِه - فَأَحْسَنَ رَجُلٌ الظَّنَّ بِرَجُلٍ فَقَدْ غَرَّرَ

۱۱۵ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام كَيْفَ نَجِدُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام كَيْفَ يَكُونُ حَالُ مَنْ يَفْنَى بِبَقَائِه - ويَسْقَمُ بِصِحَّتِه ويُؤْتَى مِنْ مَأْمَنِه

۱۱۶ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه - ومَغْرُورٍ بِالسَّتْرِ عَلَيْه ومَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه - ومَا ابْتَلَى اللَّه أَحَداً بِمِثْلِ الإِمْلَاءِ لَه

۱۱۷ - وقَالَعليه‌السلام هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ ومُبْغِضٌ قَالٍ

(۱۱۴)

جب زمانہ اور اہل زمانہ پر نیکیوں کا غلبہ ہوا اور کوئی شخص کسی شخص سے کوئی برائی دیکھے بغیر بد ظنی پیدا کرے تواس نے اس شخص پر ظلم کیا ہے اور جب زمانہ اور اہل زمانہ پر فساد کا غلبہ ہو اور کوئی شخص کسی سے حسن ظن قائم کرلے تو گویا اسنے اپنے ہی کودھوکہ دیا ہے ۔

(۱۱۵)

ایک شخص نے آپ سے مزاج پرسی کرلی تو فرمایا کہ اس کا حال کیا ہوگا جس کی بقاہی فناکی طرف لے جا رہی ہے اور صحت ہی بیماری کا پیش خیمہ ہے اور وہ اپنی پناہ گاہ ہی سے ایک دن گرفت میں لے لیاجائے گا۔

(۱۱۶)

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں نیکیاں دے کر گرفت میں لیا جاتا ہے اور وہ پردہ(۱) پوشی ہی سے دھوکہ میں رہتے ہیں اوراپنے بارے میں اچھی بات سن کردھوکہ کھا جاتے ہیں ۔اور دیکھو اللہ نے مہلت سے بہتر کوئی آزمائش کاذریعہ نہیں قرار دیا ہے۔

(۱۱۷)

میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔وہ دوست جو دوستی میںغلو سے کام لیتے ہیں اوروہ دشمن جو دشمنی میں مبالغہ کرتے ہیں۔

(۱)انسانوں میں جومختلف کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان میں اہم ترین کمزوریاں یہ ہیں کہ وہ ہر تعریف کواپناحق سمجھتا ہے اور ہر مال کو اپنامقدر قراردے لیتا ہے اور پروردگار کی پردہ پوشی کو بھی اپنے تقدس کا نام دے دیتا ہے اوریہ احساس نہیں کرتا ہے کہ یہ فریب زندگی کسی وقت بھی دھوکہ دے سکتا ہے اوراس کا انجام یقینا برا ہو گا۔

۶۶۰