نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656815 / ڈاؤنلوڈ: 15924
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

حاتم کی بیٹی کے ساتھ اس سلوک کا یہ اثر ہوا کہ اپنے قبیلے میں واپس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے بھائی '' عدی بن حاتم'' کو تیار کیا کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لے آئے، عدی اپنی بہن کے سمجھانے پرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہونچا اور اسلام قبول کرلیا اور پھر صدر اسلام کے نمایاں مسلمانوں، حضرت علیعليه‌السلام کے جان نثاروں اور ان کے پیروکاروںمیں شامل ہوگیا(۱)

بافضیلت اسیر

امام جعفر صادقعليه‌السلام نے فرمایا کہ :پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کچھ اسیر لائے گئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک کے علاوہ سارے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم دیدیا اس شخص نے کہا : کہ ان لوگوں میں سے صرف مجھ کو آپ نے کیوں آزاد کردیا ؟پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ : '' مجھ کو جبرئیل نے خدا کی طرف سے خبردی کہ تیرے اندر پانچ خصلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جن کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوست رکھتاہے ۱_ اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے بارے میں تیرے اندر بہت زیادہ غیرت ہے ۲_ سخاوت ۳_ حسن اخلاق ۴_ راست گوئی ۵_ شجاعت '' یہ سنتے ہی وہ شخص مسلمان ہوگیا کیسا بہتر اسلام'' _(۲)

___________________

۱) سیرہ ابن ہشام ج۴ ص ۲۲۷_

۲) بحارالانوار ج۱۸ ص ۱۰۸_

۴۱

نیک اقدار کو زندہ کرنا اور وجود میں لانا

اسلام سے پہلے عرب کا معاشرہ قومی تعصب اور جاہلی افکار کا شکار تھا، مادی اقدار جیسے دولت،نسل ، زبان، ، رنگ ، قومیت یہ ساری چیزیں برتری کا معیار شمار کی جاتی رہیں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کی وجہ سے یہ قدریں بدل گئیں اور معنوی فضاءل کے احیاء کا زمانہ آگیا ، قرآن نے متعدد آیتوں میں تقوی، جہاد، شہاد، ہجرت اور علم کو معیار فضیلت قرار دیا ہے _

( الذین آمنوا و هاجروا و جاهدوا فی سبیل الله باموالهم و انفسهم اعظم درجة عندالله و اولءک هم الفائزون ) (۱)

جو لوگ ایمان لائے، وطن سے ہجرت کی اور راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کیا وہ خدا کے نزدیک بلند درجہ رکھتے ہیں اور وہی کامیاب ہیں_

( ان اکرمکم عند الله اتقیکم ) (۲)

تم میں جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے وہی خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز ہے_

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کہ انسان ساز مکتب کے مبلغ ہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امت اسلامی کے اسوہ کے عنوان سے ایسے اخلاقی فضاءل اور معنوی قدر و قیمت رکھنے والوں کی بہت عزت کرتے تھے اور جو لوگ ایمان ، ہجرت اور جہاد میں زیادہ سابقہ رکھتے تھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک وہ مخصوص احترام کے مالک تھے_

___________________

۱) سورہ توبہ ۲۰_

۲) حجرات ۱۳_

۴۲

رخصت اور استقبال

مشرکین کی ایذاء رسانی کی بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر جائیں جب '' جعفر بن ابی طالب'' حبشہ کی طرف روانہ ہوئے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھوڑی دور تک ان کے ساتھ ساتھ گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا فرمائی_ اور جب چند سال بعد وہ اس سرزمین سے واپس پلٹے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بارہ قدم تک ان کے استقبال کیلئے آگے بڑھے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور چونکہ ان کی حبشہ سے واپسی فتح خیبر کے بعد ہوئی تھی اسلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ' ' نہیں معلوم کہ میں فتح خیبر کیلئے خوشی مناوں یا جعفر کے واپس آجانے کی خوشی مناوں ''(۱)

انصار کی دلجوئی

فتح مکہ کے بعد کفار سے مسلمانوں کی ایک جنگ ہوئی جس کا نام'' حنین'' تھا اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ملی تھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ حنین کے بعد مال غنیمت تقسیم کرتے وقت مہاجر و انصار میں سے کچھ لوگوں کو کچھ کم حصہ دیا اور مؤلفة القلوبکوکہ جوا بھی نئے مسلمان تھے زیادہ حصہ دیا ، انصار میں سے بعض نوجوان ناراض ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچازاد بھائیوں اور اپنے عزیزوں کو زیادہ چاہتے ہیں اسلئے ان کو زیادہ مال دے رہے ہیں حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے مشرکین کا خون ٹپک رہاہے اور ہمارے ہاتھوں

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۲۳۹_

۴۳

سے سخت کام آسان ہورہے ہیں _ ایک روایت کے مطابق '' سعد بن عبادہ'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور بولے جو بخشش و عنایت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قباءل عرب اور قریش پرکئے ہیں ، انصار کے اوپر وہ عنایت نہیں ہوئی ہیں اسلئے انصاراس بات پر ناراض ہیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خیمہ لگانے کا حکم دیا ، خیمہ لگایا گیا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' فقط انصار خیمہ میںآئیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود علیعليه‌السلام کے ساتھ تشریف فرماہوئے، جب انصار جمع ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' میں تم لوگوں سے کیا سن رہاہوں کیا یہ باتیں تمہارے لئے مناسب ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا کہ یہ باتیں ناتجربہ کار نوجوانوں نے کہی ہیں انصار کے بزرگوں نے یہ باتیں نہیں کہی ہیں ، پھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان نعمتوں کو شمار کرایا جو خداوند عالم نے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود کے سایہ میں ان کو عطا کی تھیں اس پر انصار نے گریہ کیا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہا تھوں اور پیروں کو بوسہ دے کر کہا : ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کو دوست رکھتے ہیں مال کو دوست نہیں رکھتے ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دنیا سے چلے جانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جدائی سے ڈرتے ہیں، نہ کہ کم سرمایہ سے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''زمانہ جاہلیت سے ابھی قریش کا فاصلہ کم ہے ، مقتولین کی مصیبت برداشت کئے ہوئے ابھی تھوڑی دن گذرے ہیں میں نے چاہا کہ ان کی مصیبت ختم کردوں اور ان کے دلوں میں ایمان بھردوں اے انصار کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور گوسفند لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اپنے گھر واپس جاو بیشک انصار ہمارے راز کے امین ہیں ، اگر تمام لوگ ایک راستے سے جائیں اور انصار دوسرے راستے سے گذریں تو میں اس راستے سے جاؤں گا جس سے انصار جارہے ہیں_ اسلئے کہ انصار

۴۴

ہمارے اندرونی اور ہمارے جسم سے لپٹے ہوئے لباس ہیں اور دوسرے افراد ظاہری لباس کی حیثیت رکھتے ہیں_(۱)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انصار کی عزت و تکریم کی اور چونکہ انہوں نے اسلام کیلئے گذشتہ زمانہ میں جد و جہد کی تھی اور اسلام کی نشر و اشاعت کے راستہ میں فداکاری کا ثبوت دیا تھا اس بناپر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنے سے قریب سمجھا اور اس طرح ان کی دلجوئی کی_

جانبازوں کا بدرقہ اور استقبال

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والی جنگ '' موتہ'' میں لشکر بھیجتے وقت رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشکر تیار کرلینے کے بعد لشکر کے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر بدرقہ کیلئے مدینہ سے ایک فرسخ تک تشریف لے گئے_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز ظہران کے ساتھ ادا کی اور لشکر کا سپہ سالار معین فرمایا، سپاہیوں کیلئے دعا کی اس کے بعد '' ثنیة الوداع'' نامی جگہ تک جو مکہ کے قریب ہے ان کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے لئے جنگی احکام صادر فرمائے _(۲)

سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح پاکر واپس پلٹے تو اس موقع پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں کو فتح

___________________

۱) ناسخ التواریخ ج۳ ص ۱۳۲ ، ۱۳۴_

۲) السیرة الحلی ج۳ ص ۶۸_

۴۵

کی خبر دی اور مدینہ والوں کے ساتھ مدینہ سے تین میل دور جاکر ان کا استقبال کیا ، جب علیعليه‌السلام نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو گھوڑے سے اتر پڑے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی گھوڑے سے اتر پڑے علیعليه‌السلام کی پیشانی کو بوسہ دیا ان کے چہرہ سے گردو غبار صاف کیا اور فرمایا: الحمدللہ یا علی الذین شد بک ازری و قوی بک ظہری ، اے علی خدا کی حمد ہے کہ اس نے تمہارے ذریعہ سے ہماری کمر مضبوط کی اور تمہارے وسیلہ سے اس نے دشمنوںپر ہمیں قوت بخشی اور مدد کی_(۱)

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فتح خیبر کی خبر دی گئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت خوش ہوئے اور حضرت علی کے استقبال کو آگے بڑھے ان کو گلے سے لگایا پیشانی کا بوسہ دیا اور فرمایا'' خدا تم سے راضی ہے تمہاری کوشش اور جد و جہد کی خبریں ہم تک پہونچیں ، میں بھی تم سے راضی ہوں '' علیعليه‌السلام کی آنکھیں بھر آئیںپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' اے علی یہ خوشی کے آنسوں ہیں یا غم کے '' ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا خوشی کے اور میں کیوں نہ خوش ہوں کہ آپ مجھ سے راضی ہیں ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' صرف میں ہی تم سے راضی نہیں ہوں بلکہ خدا، ملاءکہ ،جبرئیل اور میکائیل سب تم سے راضی ہیں_(۲)

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۳۵۷)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۲ ص ۲۸۹)_

۴۶

جہاد میں پیشقدمی کرنیوالوں کا اکرام

مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی وہ ' جنگ بدر '' تھی جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کی تھی وہ '' اہل بدر''کے عنوان سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے نزدیک خصوصیت کے حامل تھے_

حضرت پیغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جمعہ کے دن '' صفہ'' پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ کم تھی ( رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہاجرین و انصار میں سے '' اہل بدر'' کی تکریم کررہے تھے) اسی حال میں اہل بدر میں سے کچھ لوگ منجملہ ان کے ثابت ابن قیس بزم میں وارد ہوئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روبرو کھڑے ہوکر فرمایا: السلام علیک ایہا النبی و رحمة اللہ و برکاتہ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا اس کے بعد ثابت نے مسلمانوں کو سلام کیا مسلمانوں نے بھی جواب سلام دیا وہ اسی طرح کھڑے رہے اور رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جمع ہونے والی بھیڑ کی طرف دیکھتے رہے لیکن ان کو کسی نے جگہ نہیں دی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ بات بہت گراں گذری آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے مہاجرین و انصار میں سے چند افراد سے کہ جو اہل بدر میں سے نہیں تھے کہا : فلاں فلاں تم اٹھو پھر اہل بدر میں سے جتنے لوگ وہاں موجود تھے اتنے ہی دوسرے افراد کو اٹھاکر اہل بدر'' کو بٹھایا یہ بات ان لوگوں کو بری لگی جن کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اٹھایا تھا ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دکھائی دینے لگے ، منافقین میں سے کچھ لوگوں نے مسلمانوں سے کہا کہ کیا تم یہ

۴۷

تصور کرتے ہو کہ تمہارا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عدالت سے کام لیتاہے ، اگر ایسا ہے تو پھر اس جگہ انہوں نے عدالت سے کیوں نہیں کام لیا ؟ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی جگہ سے کیوں اٹھا دیا جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ ہم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب رہیں ؟ اور ان افراد کو ان کی جگہ پر کیوں بٹھا دیا جو بعد میں آئے تھے؟ اس وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی :

( یا ایها الذین آمنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوایفسح الله لکم و اذا قیل انشزوا فانشزوا ) (۱)

اے اہل ایمان جب تم سے کہا جائے کہ اپنی اپنی مجلس میں ایک دوسرے کیلئے جگہ کشادہ کردو تو خدا کا حکم سنو اور جگہ چھوڑ دو تا کہ خدا تہارے (مکان و منزلت) میں وسعت دے اور جب یہ کہا جائے کہ اپنی جگہ سے اٹھ جا و تب بھی حکم خدا کی اطاعت کرو(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اہل بدر کا احترام کرنا اسلامی معاشرہ میں بلند معنوی قدروں کی احیاء اور راہ خدا میں جہاد کے سلسلہ میں پیش قدمی کرنیوالوں کے بلند مقام کا پتہ دیتاہے اسی وجہ سے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت کے مطابق صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان '' اہل بدر'' خاص احترام اور امتیاز کے حامل تھے_

___________________

۱) (مجادلہ ۱۱)_

۲) ( بحار ج۱۷ ص ۲۴)_

۴۸

شہدا ء اور ان کے خاندان کا اکرام

سنہ ۸ ھ میں جنگ '' موتہ'' میں لشکر اسلام کی سپہ سالاری کرتے ہوئے '' جعفر ابن ابی طالب'' نے گھمسان کی جنگ میں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا میں دے دیئے اور زخموں سے چور ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے بلند مرتبہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

''ان الله ابدل جعفرابیدیه جناحین یطیر بهما فی الجنة حیث شاء ''

خداوند عالم نے جعفر کو ان کے دونوںبازوں کے بدلے دو پر عنایت کئے ہیں وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں ان کے سہارے پرواز کرتے چلے جاتے ہیں _

اسی جنگ کے بعد جب لشکراسلام مدینہ واپس آیا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ساتھ ان کے استقبال کو تشریف لے گئے ، ترانہ پڑھنے والے بچوں کا ایک گروہ بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھا، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرکب پر سوار چلے جارہے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : بچوں کو بھی سوار کرلو اور جعفر کے بچوں کو مجھے دیدو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ' ' عبداللہ بن جعفر '' کو جن کے باپ شہید ہوچکے تھے اپنی سواری پر اپنے آگے بٹھایا_

عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا: اے عبداللہ میں تم کو تعزیت و مبارکباد پیش کرتاہوں کہ تمہارے والد ملاءکہ کے ساتھ آسمان میں پرواز کررہے ہیں _

___________________

۱) (السیرة الحلبیة ج۲ ص ۶۸)_

۴۹

امام جعفر صادقعليه‌السلام نقل کرتے ہیں کہ جعفر ابن ابی طالب کی شہادت کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے بیٹے اور بیوی '' اسماء بنت عمیس'' کے پاس پہونچے، اسماء بیان فرماتی ہیں کہ جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے گھر میں وارد ہوئے تو اسوقت میں آٹا گوندھ رہی تھی حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمہارے بچے کہاں ہیں؟ میں اپنے تینوں بیٹوں'' عبداللہ'' ، ''محمد'' اور ''عون'' کو لے آئی ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور سینہ سے لگایا آپ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور آنکھوں سے آنسوں جاری تھے میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ہمارے ماں باپ فدا ہوجائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے بچوں کے ساتھ یتیموں کا سا سلوک کیوں کررہے ہیں کیا جعفر شہید ہوگئے ہیں ؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گریہ میں اضافہ ہوگیا ارشاد فرمایا: خدا جعفر پر اپنی رحمت نازل کرے یہ سنتے ہی صدائے نالہ وشیون بلند ہوئی بنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' فاطمہعليه‌السلام '' نے ہمارے رونے کی آواز سنی تو انہوں نے بھی گریہ فرمایا ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر سے باہر نکلے حالت یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے آنسووں پر قابو نہیں پارہے تھے اور یہ فرمایا کہ :'' گریہ کرنے والے جعفر پر گریہ کریں''_

اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: '' جعفر کے اہل و عیال کیلئے کھانا تیار کرو اور ان کے پاس لے جاؤ اسلئے کہ وہ لوگ آہ و فغان میں مشغول سنہ ۸ ھ میں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' کے بعد جب علیعليه‌السلام جانبازان اسلام کے ساتھ فتح

___________________

۱) (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۸۹) _

۵۰

بات سنت قرار پائی خود عبداللہ بن جعفر کے قول کے مطابق '' وہ لوگ تین دن تک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر مہمان رہے _

ہمارے معاشرہ میں آج جو رواج ہے وہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برعکس ہے ہم آج دیکھتے ہیں کہ مصیبت زدہ کنبہ کے اقرباء اور رشتہ دار چند دنوں تک عزادار کے گھر مہمان رہتے ہیں ، جبکہ سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زندہ کرنا کرنا ہمارا فریضہ ہے_

ایمان یا دولت

تاریخ میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پیغمبروں کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے اور کان دھرنے والے زیادہ تر محروم اور مصیبت زدہ افراد ہی ہوتے تھے دولت مندوں اور مستکبرین نے خدا کے پیغمبروں سے ہمیشہ مقابلہ کیا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتے رہے اگر انھوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ظاہراً ایمان قبول کرلیا تو اسی برتری کے جذبہ کی بناپر دوسروں سے زیادہ امتیاز کے طلبگار رہے اشراف و قباءل عرب کے رئیسوں کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے اورفقیر اور محروم مومنین سے مساوی سلوک کیا کرتے تھے بلکہ غلاموں اور ستائے ہوئے محروم افراد پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زیادہ توجہ فرماتے تھے اسلئے کہ ان کے پاس خالص ایمان تھا اور راہ اسلام میں دوسروں سے زیادہ یہ افراد فداکاری کا مظاہرہ کرتے تھے_

۵۱

ایک دن، سلمان، بلال، عمار اور غلاموں اور نادار مسلمانوں کی ایک جماعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھی بزرگان قریش اور نئے مسلمان ہونے والوں میں سے چند افراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاش ناداورں اور غلاموں کی اس جماعت کو آپ الگ ہی رکھتے یا ان کو اور ہم لوگوں کو ایک ہی نشست میں جگہ نہ دیتے آخر اس میں حرج ہی کیا ہے جب ہم یہاں سے چلے جاتے تب یہ لوگ آتے ، اس لئے کہ دور و نزدیک کے اشراف عرب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتے ہیں ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہم کو اور ان لوگوں کو ایک ہی نشست میں دیکھیں_

فرشتہ وحی ان کے جواب میں آیت لے کر نازل ہوا :

( و لا تطرد الذین یدعون ربهم بالغداوة و العشی یریدون وجهه ما علیک من حسابهم منشئ و مامن حسابک علیهم من شئ فتطردهم فتکون من الظالمین ) (۱)

جو لوگ صبح و شام خدا کو پکارتے ہیں اور جنکا مقصود خدا ہے ان کو اپنے پاس سے نہ ہٹاؤ اسلئے کہ نہ تو آپ کے ذمہ ان کا حساب اور نہ ان کے ذمہ آپ کا حساب ہے لہذا تم اگر ان خداپرستوں کو اپنے پاس سے بھگادو گے تو ظالمین میں سے ہوجاؤ گے(۲)

___________________

۱) (انعام ۲۵) _

۲) ( ناسخ التواریخ ج۴ ص ۸۳)_

۵۲

اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد فقراء مؤمنین پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عنایت اور زیادہ ہوگئی _

ثروت مند شرفاء یا غریب مؤمن

سہل بن سعد سے منقول ہے کہ ایک شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے گذرا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے سوال کیا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا کہ وہ شرفاء میں سے ہے کسی شاءستہ انسان کے یہاں یہ پیغام عقد دے تو لوگ اسکو لڑکی دے دیں گے ، اگر کسی کی سفارش کردے تو لوگ اسے قبول کریں گے ، اگر یہ کوئی بات کہے تو لوگ اسکو سنیں گے ، حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاموش ہوگئے تھوڑی دیر بعد ایک غریب مسلمان کا ادھر سے گذرہوا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا '' اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے '' لوگوں نے کہا بہتر یہی ہے کہ اگر یہ لڑکی مانگے تو لوگ اسکو لڑکی نہ دیں ، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اسکی سفارش نہیں سنی جائے، اگر یہ کوئی بات کہے تو اس پر کان نہیں دھرے جائیں گے _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' یہ اس مالدار شخص اور اسی جیسی بھری ہوئی دنیا سے تنہا بہتر ہے_(۱)

___________________

۱) (پیامبر رحمت صدر بلاغی ص ۶۱)_

۵۳

خلاصہ درس

۱)امت اسلام کی رہبری اور الہی پیغام پہونچانے کا منصب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد تھا اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مختلف طبقات کے افراد و اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان لوگوں کے ساتھ آپکا کردار ساز سلوک توحید کی طرف دعوت کا سبب تھا_

۲)صاحبان فضیلت و کرامت کے ساتھ چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں رسول اکرم اچھے اخلاق اور احترام سے پیش آتے تھے_

۳)جن لوگوں کو اسلام میں سبقت حاصل ہے اوراسلام کی نشرو اشاعت میں جاں نثاری اور کوشش کی ہے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کا احترام کیا اور ان کو اپنے سے بہت نزدیک جانا_

۴) اسلامی معاشرہ میں معنویت کی اعلی قدروں کے احیاء کیلئے پیش قدمی کرنیوالوں اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں '' اہل بدر'' کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عزت سے پیش آتے اور ان لوگوں کیلئے خاص امتیاز و احترام کے قاءل رہے_

۵) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دولت مندوں سے زیادہ غریب مؤمنین پر لطف و عنایت کی اس لئے کہ یہ خالص ایمان کے حامل تھے اور اسلام کی راہ میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جاں نثاری کا ثبوت دیتے تھے_

)مؤلفة القلوب ایک وسیع المعنی لفظ ہے جو کہ ضعیف الایمان مسلمانوں کیلئے بھی بولا جاتاہے اور ان کفار کیلئے بھی جن کو اسلام کی طرف بلانا مقصود ہو تا کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کی ترغیب دی جائے _(۱)

___________________

۱)جواہر الکلام ج۱ ص ۳۴۱ طبع_

۵۴

سوالات :

۱_ مقصد بعثت کے سلسلہ میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول پیش کیجئے؟

۲_ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک اور برتاو کا معاشرہ پر کیا اثر پڑا؟ ایک مثال کے ذریعہ اختصار سے لکھئے؟

۳_مجاہدین '' فی سبیل اللہ '' کے ساتھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا ؟ اس کے دو نمونے پیش کیجئے؟

۴_ شہداء کے گھر والوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا سلوک کرتے تھے تحریر فرمایئےاور یہ بھی بیان کیجئے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کس عمل کو اپنی سنت قرا ردیا ہے ؟

۵_ امیروں کے مقابل غریبوں کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک کو بیان کرتے ہوئے ایک مثال پیش کیجئے_

۵۵

چوتھا سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانیاں)

محبت اور مہربانی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وہ اخلاقی اصول تھا جوآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معاشرتی معاملات میں ظاہر ہوتا تھا_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رحم و عطوفت کا داءرہ اتنا وسیع تھا کہ تمام لوگوں کو اس سے فیض پہنچتارہتا تھا گھر کے نزدیک ترین افرادسے لے کر اصحاب باوفا تک نیز بچے' یتیم ' گناہگار' گمراہ اور دشمنوں کے قیدی افراد تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحمت کے سایہ میں آجاتے تھے یہ رحمت الہی کا پرتو تھاجو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وجود مقدس میں تجلی کیے ہوئے تھا_

( فبما رحمة من الله لنت لهم ) (۱)

رحمت خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مہربان بنادیا _

گھر والوں سے محبت و مہربانی

جب گھر کا ماحول پیار و محبت اور لطف و عطوفت سے سرشار ہوتاہے تو وہ مستحکم ہوکر

___________________

۱) (آل عمران ۱۵۹/) _

۵۶

بافضیلت نسل کے ارتقاء کا مرکز بن جاتاہے_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر محبت و مہربانی کا خاص اہتمام فرماتے تھے ' گھر کے اندر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ہاتھوں سے کپڑے سیتے ' دروازہ کھولتے بھیڑ اور اونٹنی کا دودھ دوہتے جب کبھی آ پکا خادم تھک جاتا تو خودہی جو یاگیہوں سے آٹا تیار کرلیتے' رات کو سوتے وقت وضو کا پانی اپنے پاس رکھ کر سوتے' گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کام خود انجام دیتے اور اپنے خاندان کی مشکلوں میں ان کی مدد کرتے(۱)

اسی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''خیر کم خیر کم لاهله و انا خیرکم لاهلی (۲) یا 'خیارکم ' خیر کم لنساءه و انا خیر لکم لنسائی'' (۳)

یعنی تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنے اہل کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں یا یہ کہ تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرے اور میں تم سے اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں_

خدمتکار کے ساتھ مہربانی

اپنے ماتحت افراد اور خدمتگاروں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا محبت آمیز سلوک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہربانی کا

___________________

۱) (سنن النبی ص ۷۳)_

۲) (مکارم الاخلاقی ص ۲۱۶)_

۳) (محجة البیضاء ج۳ ص۹۸)_

۵۷

ایک دوسرا رخ ہے ''انس بن مالک'' کہتے ہیں کہ : '' میںنے دس سال تک حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت کی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے کلمہ '' اف'' تک نہیں فرمایا_ اور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا یا فلاں کام کیوں نہیں کیا _ انس کہتے ہیں کہ :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک شربت سے افطار فرماتے تھے اور سحر میں دوسرا شربت نوش فرماتے تھے اور کبھی تو ایسا ہوتا کہ افطار اور سحر کیلئے ایک مشروب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی وہ مشروب یا تو دودھ ہوتا تھا یا پھرپانی میں بھیگی ہوئی روٹی ' ایک رات میں نے مشروب تیار کرلیا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ اصحاب میں سے کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کردی ہوگی' یہ سوچ کر میں وہ مشروب پی گیا' تھوڑی دیر کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ :حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے افطار کرلیا؟کیا کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کی تھی ؟ انھوں نے کہا : نہیں ' اس رات میں صبح تک غم و اندوہ میں ایسا مبتلا رہا کہ خدا ہی جانتا ہے اسلئے کہ ہر آن میں مجھے یہ کھٹکا لگا رہا کہ کہیں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ مشروب مانگ نہ لیں اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مانگ لیں گے تو میں کہاں سے لاوں گا یہاں تک کہ صبح ہوگئی حضرت نے روزہ رکھ لیا لیکن اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مشروب کے بارے میں مجھ سے کبھی کچھ نہیں پوچھا اور اسکا کبھی کوئی ذکر نہیں فرمایا:(۱)

___________________

۱) (منتھی الامال ج ص۱۸ ،مطبوعہ کتابفروشی علمیہ اسلامیہ)_

۵۸

امام زین العابدینعليه‌السلام کا خادم

امام زین العابدینعليه‌السلام نے اپنے غلام کو دو مرتبہ آواز دی لیکن اس نے جواب نہیںدیا،تیسری بار امامعليه‌السلام نے فرمایا: کیا تم میری آواز نہیں سن رہے ہو؟اس نے کہا کیوں نہیں ، آپ نے فرمایا: پھر جواب کیوں نہیں دیتے؟ اس نے کہا کہ چوں کہ کوئی خوف نہیں تھا اسلئے میں نے اپنے کو محفوظ سمجھا، امام نے فرمایا: ''خدا کی حمد ہے کہ میرے غلام اور نوکر مجھ کو ایسا سمجھتے ہیں اور اپنے کو محفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنے دل میں میری طرف سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے''(۱)

اصحاب سے محبت

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملت اسلامیہ کے قاءد ہونے کے ناتے توحید پر ایمان لانے والوں اور رسالت کے پروانوں پر خلوص و محبت کی خاص بارش کیا کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیشہ اپنے اصحاب کے حالات معلوم کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے اور ان اگر تین دن گزرے میں کسی ایک صحابی کو نہ دیکھتے تو اسکے حالات معلوم کرتے اور اگر یہ خبر ملتی تھی کہ کوئی سفر میں گیا ہوا ہے تو اس کے لئے دعا کرتے تھے اور اگر وہ وطن میں ہوتو ان سے ملاقات کیلئے تشریف لے جاتے_ اگر وہ بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کرتے تھے(۲)

___________________

۱) (بحارالانوار ج۴۶ ص ۵۶)_

۲) (سنن النبی ص ۵۱)_

۵۹

جابر پر مہربانی

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ : میں انیس جنگوںمیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا ، ایک جنگ میں جاتے وقت میرااونٹ تھک کر بیٹھ گیا،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، کمزور افراد کو قافلہ تک پہونچاتے اور ان کے لئے دعا فرماتے تھے،حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے نزدیک آئے اور پوچھا : تم کون ہو؟ میں نے کہا میں جابر ہوں میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوجائیں_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا میرا اونٹ تھک گیا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا تمھارے پاس عصا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عصا لے کر اونٹ کی پیٹھ پر مارا اور اٹھاکر چلتا کردیا پھر مجھ سے فرمایا : سوار ہوجاؤ جب میں سوار ہوا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعجاز سے میرا اونٹ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ سے آگے چل رہا تھا، اس رات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۲۵ مرتبہ میرے لئے استغفار فرمایا(۱)

بچوں اور یتیموں پر مہربانی

بچہ پاک فطرت اور شفاف دل کا مالک ہوتاہے اس کے دل میں ہر طرح کے بیج کے پھولنے پھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے بچہ پر لطف و مہربانی اور اسکی صحیح تربیت اس کے اخلاقی نمو اوراندرونی استعداد کے پھلنے پھولنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہ بات ان یتیموں

___________________

۱) (حیواة القلوب ج۲ ص ۱۲۷)

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

۱۱۸ - وقَالَعليه‌السلام إِضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ.

۱۱۹ - وقَالَ علالسلام مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا - والسَّمُّ النَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا - يَهْوِي إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ ويَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ.

۱۲۰ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قُرَيْشٍ فَقَالَ - أَمَّا بَنُو مَخْزُومٍ فَرَيْحَانَةُ قُرَيْشٍ - نُحِبُّ حَدِيثَ رِجَالِهِمْ والنِّكَاحَ فِي نِسَائِهِمْ - وأَمَّا بَنُو عَبْدِ شَمْسٍ فَأَبْعَدُهَا رَأْياً - وأَمْنَعُهَا لِمَا وَرَاءَ ظُهُورِهَا - وأَمَّا نَحْنُ فَأَبْذَلُ لِمَا فِي أَيْدِينَا - وأَسْمَحُ عِنْدَ الْمَوْتِ بِنُفُوسِنَا - وهُمْ أَكْثَرُ وأَمْكَرُ وأَنْكَرُ - ونَحْنُ أَفْصَحُ وأَنْصَحُ وأَصْبَحُ.

(۱۱۸)

فرصت(۱) کا ضائع کردینا رنج و اندوہ کاباعث ہوتا ہے۔

(۱۱۹)

دنیا کی مثال سانپ جیسی ہے جوچھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے اور اس کے اندر زہر قاتل ہوتا ہے ۔ فریب خوردہ جاہل اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور صاحب عقل(۲) و ہوش اس سے ہوشیار رہتا ہے۔

(۱۲۰)

آپ سے قریش کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ بنی محزوم قریش کامہکتا ہواپھول ہیں۔ان سے گفتگو بھی اچھی لگتی ہے اور ان کی عورتوں سے رشتہ داری بھی محبوب ہے اوربنی عبد شمس بہت دورت کسوچنے والے اور اپنے پیٹھ پیچھے کی باتوں کی روک تھام کرنے والے ہیں۔لیکن ہم بنی ہاشم اپنے ہاتھ کی دولت کے لٹانے اورموت کے میدان میں جان دینے والے ہیں۔وہ لوگ عدد میں زیادہ ۔مکرو فریب میں آگے اوربد صورت ہیں اور ہم لوگ فصیح و بلیغ ' مخلص اور روشن چہرہ ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں ایسے مقامات بہت کم آتے ہیں جب کسی کام کا مناسب موقع ہاتھ آجاتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھالے اوراسے ضائع نہ ہونے دے کہ فرصت کا نکل جانا انتہائی رنج و اندوہ کاب اعث ہوتا ہے ۔

(۲)عقل کا کام یہ ہے کہ وہ اشیائکے باطن پرنگاہ رکھے اور صرف ظاہر کے فریب میں نہ آئے ورنہ سانپ کا ظاہر بھی انتہائی نرم و نازک ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر کا زہر انتہائی قاتل اورتباہ کن ہوتا ہے ۔

۶۶۱

۱۲۱ - وقَالَعليه‌السلام شَتَّانَ مَا بَيْنَ عَمَلَيْنِ - عَمَلٍ تَذْهَبُ لَذَّتُه وتَبْقَى تَبِعَتُه - وعَمَلٍ تَذْهَبُ مَئُونَتُه ويَبْقَى أَجْرُه.

۱۲۲ - وتَبِعَ جِنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا يَضْحَكُ فَقَالَ - كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ - وكَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ - وكَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الأَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيلٍ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ - نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ ونَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بَعْدَهُمْ - ثُمَّ قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظٍ ووَاعِظَةٍ ورُمِينَا بِكُلِّ فَادِحٍ وجَائِحَةٍ

(۱۲۱)

ان دو طرح کے اعمال میں کس قدر فاصلہ پایا جاتا ہے۔وہ عمل(۱) جس کی لذت ختم ہو جائے اوراس کا وبال باقی رہ جائے اوروہ عمل جس کی زحمت ختم ہو جائے اور اجرباقی رہ جائے ۔

(۱۲۲)

آپ نے ایک جنازہ میں شرکت فرمائی اور ایک شخص کو ہنستے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا '' ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موت کسی اور کے لئے لکھی گئی ہے اور یہ حق کسی دوسرے پر لازم قراردیا گیا ہے اور گویا کہجن مرنے والوں کو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایسے مسافر ہیں جو عنقریب واپس آنے والے ہیں کہ ادھر ہم انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں اور ادھر(۲) ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں جیسے ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔اس کے بعد ہم نے ہر نصیحت کرنے والے مرد اورعورت کو بھلا دیا ہے اور ہر آفت و مصیبت کا نشانہ بن گئے ہیں۔

(۱)دنیا اورآخرت کے اعمال کا بنیادی فرق یہی ہے کہ دنیا کے اعمال کی لذت ختم ہو جاتی ہے اور آخرت میں اس کا حساب باقی رہ جاتا ہے اورآخرت کے اعمال کی زحمت ختم ہو جاتی ہے اوراس کا اجرو ثواب باقی رہ جاتا ہے۔

(۲)انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ کسی مرحلہ پر عبرت حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اور ہر منزل پراس قدر غافل ہو جاتا ہے جیسے نہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ ہے اور نہ سمجھنے والی عقل ۔ورنہ اس کے معنی کیا ہیں کہ آگے آگے جنازہ جا رہاہے اور پیچھے لوگ ہنسی مذاق کر رہے ہیں یا سامنے میت کو قبر میں اتارا جا رہا ہے اورحاضرین کرام دنیا کے سیاسی مسائل حل کر رہے ہیں۔یہ صورت حال اس بات کی علامت ہے کہ انسان بالکل غافل ہو چکا ہے اور اسے کسی طرح کا ہوش نہیں رہ گیا ہے۔

۶۶۲

۱۲۳ - وقَالَعليه‌السلام طُوبَى لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِه وطَابَ كَسْبُه - وصَلَحَتْ سَرِيرَتُه وحَسُنَتْ خَلِيقَتُه - وأَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِه وأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِه - وعَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّه ووَسِعَتْه السُّنَّةُ ولَمْ يُنْسَبْ إلَى الْبِدْعَةِ.

قال الرضي أقول ومن الناس من ينسب هذا الكلام إلى رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وكذلك الذي قبله.

۱۲۴ - وقَالَعليه‌السلام غَيْرَةُ الْمَرْأَةِ كُفْرٌ وغَيْرَةُ الرَّجُلِ إِيمَانٌ.

۱۲۵ - وقَالَعليه‌السلام لأَنْسُبَنَّ الإِسْلَامَ نِسْبَةً لَمْ يَنْسُبْهَا أَحَدٌ قَبْلِي - الإِسْلَامُ هُوَ التَّسْلِيمُ

(۱۲۳)

خوشا بحال اس کاجس نے اپنے اندر تواضع کی ادا پیدا کی ' اپنے کسب کو پاکیزہ بنالیا۔اپنے باطن کونیک کرلیا اپنے اخلاق کوحسین بنالیا۔اپنے مال کے زیادہ حصہ کو راہ خدا میں خرچ کردیا اور اپنی زبان درازی پر قابو پالیا۔اپنے شر کو لوگوں سے دور رکھا اورسنت کو اپنی زندگی میں جگہ دی اور بدعت سے کوئی نسبت نہیں رکھی۔

سید رضی: بعض لوگوں نے اس کلام کو رسول اکرم (ص) کے حوالہ سے بھی بیان کیا ہے جس طرح کہ اس سے پہلے والا کلام حکمت ہے ۔

(۱۲۴)

عورت کا غیرت(۱) کرنا کفر ہے اور مرد کا غیور ہونا عین ایمان ہے۔

(۱۲۵)

میں اسلام کی وہ تعریف کر رہا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں کر سکا ہے۔اسلام سپردگی ہے اور

(۱)اسلام نے اپنے مخوص مصالح کے تحت مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے اور اسی کو عالمی مسائل کا حل قرار دیا ہے لہٰذا کسی عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہمرد کی دوسری شادی پر اعتراض کرے یا دوسری عورت سے حسد اور بیزاری کا اظہار کرے کہ یہ بیزاری در حقیقت اس دوسری عورت سے نہیں ہے اسلام کے قانون ازدواج سے ہے اور قانون الٰہی سے بیزاری اور نفرت کا احساس کرنا کفر ہے اسلام نہیں ہے۔

اس کے بر خلاف عورت کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دی گئی ہے لہٰذا شوہر کا حق ہے کہ اپنے ہوتے ہوئے دوسرے شوہر کے تصورسے بیزاری کا اظہارکرے اوریہی اس کے کمال حیا و غریت اور کمال اسلام و ایمان کی دلیل ہے لہٰذا عورت کا غیرت کرنا کفر ہے اور مرد کا غیرت کرنا اسلام و ایمان کے مرادف ہے۔

۶۶۳

والتَّسْلِيمُ هُوَ الْيَقِينُ - والْيَقِينُ هُوَ التَّصْدِيقُ والتَّصْدِيقُ هُوَ الإِقْرَارُ - والإِقْرَارُ هُوَ الأَدَاءُ والأَدَاءُ هُوَ الْعَمَلُ.

۱۲۶ - وقَالَعليه‌السلام عَجِبْتُ لِلْبَخِيلِ يَسْتَعْجِلُ الْفَقْرَ الَّذِي مِنْه هَرَبَ - ويَفُوتُه الْغِنَى الَّذِي إِيَّاه طَلَبَ - فَيَعِيشُ فِي الدُّنْيَا عَيْشَ الْفُقَرَاءِ - ويُحَاسَبُ فِي الآخِرَةِ حِسَابَ الأَغْنِيَاءِ - وعَجِبْتُ لِلْمُتَكَبِّرِ الَّذِي كَانَ بِالأَمْسِ نُطْفَةً - ويَكُونُ غَداً جِيفَةً - وعَجِبْتُ لِمَنْ شَكَّ فِي اللَّه وهُوَ يَرَى خَلْقَ اللَّه - وعَجِبْتُ لِمَنْ نَسِيَ الْمَوْتَ وهُوَ يَرَى الْمَوْتَى - وعَجِبْتُ لِمَنْ أَنْكَرَ النَّشْأَةَ الأُخْرَى - وهُوَ يَرَى النَّشْأَةَ الأُولَى - وعَجِبْتُ لِعَامِرٍ دَارَ الْفَنَاءِ وتَارِكٍ دَارَ الْبَقَاءِ.

۱۲۷ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ قَصَّرَ فِي الْعَمَلِ ابْتُلِيَ بِالْهَمِّ ولَا حَاجَةَ لِلَّه فِيمَنْ لَيْسَ لِلَّه فِي مَالِه ونَفْسِه نَصِيبٌ.

سپردگی یقین ۔یقین تصدیق ہے اورتصدیق اقرار۔اقرار ادائے فرض ہے اور ادائے فرض عمل۔

(۱۲۶)

مجھے بخیل کے حال پر تعجب ہوتا ہے کہ اسی فقر میں مبتلا ہو جاتا ہے جس سے بھا گ رہا ہے اور پھر اس دولت مندی سے محروم ہو جاتا ہے جس کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔دنیا میں فقیروں جیسی زندگی گزارتا ہے اورآخرت میں مالداروں جیسا حساب دینا پتا ہے۔اسی طرح مجھے مغرورآدمی پر تعجب ہوتا ہے کہ جو کل نطفہ تھا اور کل مردار ہو جائے گا اورپھراکڑ رہا ہے۔مجھے اس شخص کے بارے میں بھی حیرت ہوتی ہے جو وجودخدامیں شک کرتا ہے حالانکہ مخلوقات خدا کو دیکھ رہا ہے اور اس کاحال بھی حیرت انگیز ہے جو موت کو بھولا ہوا ہے حالانکہ مرنے والوں کو برابر دیکھ رہا ہے۔مجھے اس کے حال پر بھی تعجب ہوتا ہے جو آخرت کے امکان کا انکار کردیتا ہے حالانکہ پہلے وجود کامشاہدہ کر رہا ہے۔اور اس کے حال پر بھی حیرت ہے جو فنا ہو جانے والے گھر کو آباد کر رہا ہے اورباقی رہ جانے والے گھر کوچھوڑے ہوئے ہے۔

(۱۲۷)

جس نے عمل میں کوتاہی کی وہ رنج و اندوہمیں بہر حال مبتلا ہوگا اور اللہ کو ایسے بندہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے جس کے جان(۱) و مال میں اللہ کا کوئی حصہ نہ ہو۔

(۱)بخل اوربزدلی اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنے جان و مال میں سے کوئی حصہ اپنے پروردگار کو نہیں دینا چاہتا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب بندہ محتاج ہو کر مالک سے بے نیاز ہو نا چاہتا ہے تو مالک کو اس کی کیا غرض ہے۔وہ بھی قطع تعلق کرل یتا ہے۔

۶۶۴

۱۲۸ - وقَالَعليه‌السلام تَوَقَّوُا الْبَرْدَ فِي أَوَّلِه وتَلَقَّوْه فِي آخِرِه - فَإِنَّه يَفْعَلُ فِي الأَبْدَانِ كَفِعْلِه فِي الأَشْجَارِ - أَوَّلُه يُحْرِقُ وآخِرُه يُورِقُ

۱۲۹ - وقَالَعليه‌السلام عِظَمُ الْخَالِقِ عِنْدَكَ يُصَغِّرُ الْمَخْلُوقَ فِي عَيْنِكَ.

۱۳۰ - وقَالَعليه‌السلام : وقَدْ رَجَعَ مِنْ صِفِّينَ فَأَشْرَفَ عَلَى الْقُبُورِ بِظَاهِرِ الْكُوفَةِ

يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ - والْمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ والْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ - يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ - يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ - أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ ونَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ - أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وأَمَّا الأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ - وأَمَّا الأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ - هَذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ؟

ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِه فَقَالَ -

(۱۲۸)

سردی کے موسم سے ابتدا میں احتیاط کرو اور آخرمیں اس کا خیرمقدم کرو کہ اس کا اثر بدن پر درختوں کے پتوں جیسا ہوتا ہے کہ یہموسم ابتدا میں پتوں کو جھلسا دیتا ہے اور آخر میں شاداب بنا دیتا ہے ۔

(۱۲۹)

اگر خالق کی عظمت کا احساس پیدا ہو جائے گا تو مخلوقات خود بخود نگاہوں سے گر جائے گی۔

(۱۳۰)

صفین سے واپسی پر کوفہسے باہر قبرستان پرنظر پڑ گئی تو فرمایا۔اے وحشت ناک گھروں کے رہنے والو! اے ویران مکانات کے باشندو! اور تاریک قبروں میں بسنے والو۔ اے خاک نشینو۔اے غربت ' وحدت اور وحشت والو! تم ہم سے آگے چلے گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پرچل کر تم سے ملحق ہونے والے ہیں ۔دیکھو تمہارے مکانات آباد ہوچکے ہیں ۔تمہاری بیویوں کادوسرا عقد ہو چکا ہے اور تمہارے اموال تقسیم ہو چکے ہیں۔یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے۔اب تم بتائو کہ تمہارے یہاں کی خبر کیا ہے ؟

اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ

۶۶۵

أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلَامِ - لأَخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى.

۱۳۱ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ سَمِعَ رَجُلًا يَذُمُّ الدُّنْيَا - أَيُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْيَا الْمُغْتَرُّ بِغُرُورِهَا - الْمَخْدُوعُ بِأَبَاطِيلِهَا أَتَغْتَرُّ بِالدُّنْيَا ثُمَّ تَذُمُّهَا - أَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَيْهَا أَمْ هِيَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَيْكَ - مَتَى اسْتَهْوَتْكَ أَمْ مَتَى غَرَّتْكَ - أَبِمَصَارِعِ آبَائِكَ مِنَ الْبِلَى - أَمْ بِمَضَاجِعِ أُمَّهَاتِكَ تَحْتَ الثَّرَى - كَمْ عَلَّلْتَ بِكَفَّيْكَ وكَمْ مَرَّضْتَ بِيَدَيْكَ - تَبْتَغِي لَهُمُ الشِّفَاءَ وتَسْتَوْصِفُ لَهُمُ الأَطِبَّاءَ - غَدَاةَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ دَوَاؤُكَ ولَا يُجْدِي عَلَيْهِمْ بُكَاؤُكَ - لَمْ يَنْفَعْ أَحَدَهُمْ إِشْفَاقُكَ ولَمْ تُسْعَفْ فِيه بِطَلِبَتِكَ - ولَمْ تَدْفَعْ عَنْه بِقُوَّتِكَ

''اگر انہیں بولنے کی اجازت(۱) مل جاتی تو تمہیں صرف یہ پیغام دیتے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ الٰہی ہے۔

(۱۳۱)

ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا۔اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اس کے فریب میں مبتلا ہو کراس کے مہملات سے دھوکہ کھا جانے والے ! تو اسی سے دھوکہ بھی کھاتا ہے اور اسی کی مذمت بھی کرتا ہے۔یہ بتا کہ تجھے اس پر الزام لگانے کاحق ہے یا اسے تجھ پرالزام لگانے کاحق ہے۔آخر اس نے کب تجھ سے تیری عقل کو چھین لیا تھا اور کب تجھ کو دھوکہ دیا تھا؟ کیا تیرے آباء واجداد کی کہنگی کی بنا پرگرنے سے دھوکہ دیا ہے یا تمہاری مائوں کی زیرخاک خواب گاہ سے دھوکہ دیا ہے ؟ کتنے بیمار ہیں جن کی تم نے تیمارداری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے ان کا علاج کیا ہے اورچاہا ہے کہ وہ شفایاب ہوجائیں اور اطباء سے رجوع بھی کیا ہے۔اس صبح کے ہنگام جب نہ کوئی دوا کام آرہی تھی اور نہ رونا دھونافائدہ پہنچا رہا تھا۔ نہ تمہاری ہدردی کسی کو فائدہ پہنچا سکی اور نہ تمہارا مقصد حاصل ہو سکا اور نہ تم موت کو دفع کر سکے

(۱)انسانی زندگی کے دو جزء ہیں ایک کا نام ہے جسم اور ایک کا نام ہے روح اور انہیں دونوں کے اتحاد و اتصال کا نام ہے زندگی اور انہیں دونوں کی جدائی کا نام ہے موت۔اب چونکہ جسم کی بقا روح کے وسیلہ سے لہٰذا روح کے جدا ہو جانے کے بعد وہ مردہ بھی ہو جاتا ہے اور سڑ گل بھی جاتا ہے اور اس کے اجزاء منتشر ہو کرخاک میں مل جاتے ہیں۔لیکن روح غیر مادی ہونے کی بنیاد پراپنے عالم سے ملحق ہہو جاتی ہے اور زندگی رہتی ہے یہ اوربات ہے کہ اس کے تصرفات اذن الٰہی کے پابندہوتے ہیں اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کر سکتی ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ مردہ زندوں کی آواز سن لیتا ہے لیکن جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔

امیر المومنین نے اسی راز زندگی کی نقاب کشائی فرمائی ہے کہ یہ مرنے والے جواب دینے کے لائق نہیں ہیں لیکن پروردگار نے مجھے وہ علم عنایت فرمایا ہے جس کے ذریعہ میں یہ احساس کرسکتا ہوں کہ ان مرنے والوں کے لا شعور میں کیا ہے اور یہ جواب دینے کے قابل ہوتے تو کیا جواب دیتے اور تم بھی ان کی صورت حال کومحسوس کر لو تو اس امر کا اندازہ کرسکتے ہو کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب اور کوئی پیغام نہیں ہے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔

۶۶۶

وقَدْ مَثَّلَتْ لَكَ بِه الدُّنْيَا نَفْسَكَ وبِمَصْرَعِه مَصْرَعَكَ - إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا - ودَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا - ودَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا - ودَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا - مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللَّه ومُصَلَّى مَلَائِكَةِ اللَّه - ومَهْبِطُ وَحْيِ اللَّه ومَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللَّه - اكْتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ ورَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ - فَمَنْ ذَا يَذُمُّهَا وقَدْ آذَنَتْ بِبَيْنِهَا ونَادَتْ بِفِرَاقِهَا - ونَعَتْ نَفْسَهَا وأَهْلَهَا فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلَائِهَا الْبَلَاءَ - وشَوَّقَتْهُمْ بِسُرُورِهَا إِلَى السُّرُورِ - رَاحَتْ بِعَافِيَةٍ وابْتَكَرَتْ بِفَجِيعَةٍ - تَرْغِيباً وتَرْهِيباً وتَخْوِيفاً وتَحْذِيراً - فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ - وحَمِدَهَا آخَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - ذَكَّرَتْهُمُ الدُّنْيَا فَتَذَكَّرُوا وحَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوا - ووَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوا.

اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلادی تھی اور تمہیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کردیا تھا(لیکن تمہیں ہوش نہ آیا) یاد رکھو کہ دنیا باورکرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے اورسمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کامقام ہے۔یہ دوستان(۱) خدا کے سجود کی منزل اور ملائکہ آسمان کا مصلیٰ ہے یہیں وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خداآخرت کا سودا کرتے ہیں جس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کر لیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں۔کسے حق ہے کہ اس کی مذمت کرے جب کہ اس نے اپنی جداء یکا اعلان کردیا ہے اور اپنے فراق کی آواز لگادی ہے اور اپنے رہنے والوں کی سنانی سنادی ہے اپنی بلاء سے ان کے ابتاء کا نقشہ پیش کیا ہے اور اپنے سرورسے آخرت کے سرور کی دعوت دی ہے۔اس کی شام عافیت میں ہوتی ہے تو صبح مصیبت میں ہوتی ہے تاکہ انسان میں رغبت بھی پیدا ہو اورخوف بھی۔اسے آگاہ بھی کردے اور ہوشیار بھی بنادے۔کچھ لوگندامت کی صبح اس کی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے روز اس کی تعریف کریں گے جنہیں دنیا نے نصیحت کی تو انہوںنے اسے قبول کرلیا۔اسنے حقائق بیان کئے تو اس کی تصدیق کردی اورموعظہ کیا تواس کے موعظہ سے اثر لیا۔

(۱)بھلا اس سر زمین کو کون برا کہہ سکتا ہے جس پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔اولیاء خدا سجدہ کرتے ہیںخاصان خدا زندگی گزارتے ہیں اورنیک بندے اپنی عاقبت بنانے کا سامان کرتے ہیں۔یہ سر زمین بہترین سرزمین ہے اور یہ علاقہ مفید ترین علاقہ ہے مگر صرف ان لوگوں کے لئے جو اس کا وہی مصرف قرار دیں جوخاصان خدا قرار دیتے ہیں اور اس سے اسی طرح عاقبت سنوارنے کا کام لیں جس طرح اورلیاء خدا کام لیتے ہیں۔ورنہ اس کے بغیر یہ دنیا بلاء ہے بلائ۔اوراس کا انجام تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۶۶۷

۱۳۲ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلَّه مَلَكاً يُنَادِي فِي كُلِّ يَوْمٍ - لِدُوا لِلْمَوْتِ واجْمَعُوا لِلْفَنَاءِ وابْنُوا لِلْخَرَابِ.

۱۳۳ - وقَالَعليه‌السلام الدُّنْيَا دَارُ مَمَرٍّ لَا دَارُ مَقَرٍّ والنَّاسُ فِيهَا رَجُلَانِ - رَجُلٌ بَاعَ فِيهَا نَفْسَه فَأَوْبَقَهَا ورَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَه فَأَعْتَقَهَا.

۱۳۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَكُونُ الصَّدِيقُ صَدِيقاً حَتَّى يَحْفَظَ أَخَاه فِي ثَلَاثٍ - فِي نَكْبَتِه وغَيْبَتِه ووَفَاتِه.

(۱۳۲)

پروردگار کی طرف سے ایک ملک معین ہے جو ہر روز آواز دیتا ہے کہ ایہا لناس ! پیدا کرو تو مرنے کے لئے جمع کرو تو فنا ہونے کے لئے اور تعمیر کرو تو خراب ہونے کے لئے ( یعنی آخری انجام کو نگاہ میں رکھو)

(۱۳۳)

دنیا ایک گزر گاہ ہے ۔منزل نہیں ہے اس میں لوگ دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو بیچ ڈالا اور ہلاک کردیا اورایک وہ ہے جس نے خرید لیا اورآزاد کردیا۔

(۱۳۴)

دوست اس وقت تک دوست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اپنے دوست کے تین مواقع پر کام نہ آئے ۔

مصیبت کے موقع پر۔اس کی غیبت میں۔اور مرنے کے بعد۔

۶۶۸

۱۳۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أُعْطِيَ أَرْبَعاً لَمْ يُحْرَمْ أَرْبَعاً - مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَمِ الإِجَابَةَ - ومَنْ أُعْطِيَ التَّوْبَةَ لَمْ يُحْرَمِ الْقَبُولَ - ومَنْ أُعْطِيَ الِاسْتِغْفَارَ لَمْ يُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ - ومَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّيَادَةَ.

قال الرضي - وتصديق ذلك كتاب الله - قال الله في الدعاء( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) - وقال في الاستغفار( ومَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَه - ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ الله يَجِدِ الله غَفُوراً رَحِيماً ) - وقال في الشكر( لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ) - وقال في التوبة -( إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى الله لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ - ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولئِكَ يَتُوبُ الله عَلَيْهِمْ - وكانَ الله عَلِيماً حَكِيماً ) .

۱۳۶ - وقَالَعليه‌السلام الصَّلَاةُ قُرْبَانُ كُلِّ تَقِيٍّ - والْحَجُّ جِهَادُ كُلِّ ضَعِيفٍ - ولِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ

(۱۳۵)

جسے چار چیزیں دیدی گئیں وہ چار سے محروم نہیں رہ سکتا ہے۔جسے دعا کی توفیق مل گئی وہ قبولیت سے محروم نہ ہوگا اور جسے توبہ کی توفیق حاصل ہوگئی وہ قبولیت سے محروم نہ ہوگا۔استغفار حاصل کرنے والا مغفرت سے محروم نہ ہوگا اور شکر کرنے والا اضافہ سے محروم نہ ہوگا۔

سید رضی : اس ارشاد گرامی کی تصدیق آیات قرآنی سے ہوتی ہے کہ پروردگار نے دعا کے بارے میں فرمایا '' مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔اور استغفار کے بارے میں فرمایا ہے '' جو برائی کرنے کے بعد یا اپنے نفس پر ظلم کرنے کے بعد خداسے توبہ کرلے گا وہ اسے غفورورحیم پائے گا ''

شکر کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے '' اگر تم شکریہ ادا کرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے '' اورتوبہ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے '' توبہ ان لوگوں کے لئے جو جہالت کی بناپرگناہ کرتے ہیں اور پھر فوراً توبہ کر لیتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ کو اللہ قبول کرلیتا ہے اوروہ ہر ایک کی نیت سے با خبر بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے ''

(۱۳۶)

نماز متقی کے لئے وسیلہ تقرب ہے اورحج ہر کمزور کے لئے جہاد ہے۔ہر شے کی ایک زکوٰة ہوتی ہے

۶۶۹

وزَكَاةُ الْبَدَنِ الصِّيَامُ - وجِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ

۱۳۷ - وقَالَعليه‌السلام اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ.

۱۳۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَيْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِيَّةِ.

۱۳۹ - وقَالَعليه‌السلام تَنْزِلُ الْمَعُونَةُ عَلَى قَدْرِ الْمَئُونَةِ.

۱۴۰ - وقَالَعليه‌السلام مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ.

۱۴۱ - وقَالَعليه‌السلام قِلَّةُ الْعِيَالِ أَحَدُ الْيَسَارَيْنِ.

اور بدن کی زکوٰة روزہ ہے۔عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ بہترین برتائو(۱) ہے۔

(۱۳۷)

روزی کے نزول کا انتظام صدقہ کے ذریعہ سے کرو۔

(۱۳۸)

جسے معاوضہ کا یقین ہوتاہے وہ عطاء میں دریا دلی سے کام لیتا ہے ۔

(۱۳۹)

خدا ئی امداد کا نزول بقدرخرچ ہوتا ہے ( ذخیرہ انوزی اورفضول خرچی کے لئے نہیں )

(۱۴۰)

جو میانہ روی سے کام لے گاہ وہ محتاج نہ ہوگا۔

(۱۴۱)

متعلقین کی کمی(۲) بھی ایک طرح کی آسودگی ہے۔

(۱)اس بہترین برتائو میں اطاعت 'عفت 'تدبیرمنزل ' قناعت ' عدم مطالبات ' غیرتو حیا اور طلب رضا جیسی تمام چیزیں شامل ہیں جن کے بغیر ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں ہو سکتی ہے۔اور دن بھر زحمت برداشت کرکینقہ فراہم کرنے والا شوہر آسودہ مطمئن نہیں ہو سکتا ہے۔

(۲)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تنظیم حیات ایک عقلی فریضہ ہے اور ہر مسئلہ کوصرف توکل بخدا کے حوالہ نہیںکیا جا سکتا ہے۔اسلام نے ازدواجی ' کثرت نسل پر زور دیا ہے۔لیکن دامن دیکھ کر پیر پھیلانے کا شعور بھیدیا ہے لہٰذا انسان کیذمہ داری ہے کہ ان دونوں کے درمیان سے راستہ نکالے اور اس امر کے لئے آمادہ رہے کہ کثرت متعلقین سے پریشانی ضرور پیدا ہوگی اور پھرپریشانی کی شکایت اورفریاد نہ کرے ۔

۶۷۰

۱۴۲ - وقَالَعليه‌السلام التَّوَدُّدُ نِصْفُ الْعَقْلِ.

۱۴۳ - وقَالَعليه‌السلام الْهَمُّ نِصْفُ الْهَرَمِ.

۱۴۴ - وقَالَعليه‌السلام يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ - ومَنْ ضَرَبَ يَدَه عَلَى فَخِذِه عِنْدَ مُصِيبَتِه حَبِطَ عَمَلُه.

۱۴۵ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَه مِنْ صِيَامِه إِلَّا الْجُوعُ والظَّمَأُ - وكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَه مِنْ قِيَامِه إِلَّا السَّهَرُ والْعَنَاءُ - حَبَّذَا نَوْمُ الأَكْيَاسِ وإِفْطَارُهُمْ.

۱۴۶ - وقَالَعليه‌السلام سُوسُوا إِيمَانَكُمْ بِالصَّدَقَةِ وحَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ - وادْفَعُوا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ.

(۱۴۲)

میل محبت پیدا کرنا عقل کا نصف حصہ ہے۔

(۱۴۳)

ہم و غم خودبھی آدھا بڑھاپا ہے۔

(۱۴۴)

صبر بقدر مصیبت نازل ہوتا ہے اور جس نے مصیبت کے موقع پر ران پر ہاتھ مارا۔گویا کہ اپنے عمل اور اجر کو برباد کردیا (ہنر صبر ہے ہنگامہ نہیں ہے۔لیکن یہ سب اپنی ذاتی مصیبت کے لئے ہے )

(۱۴۵)

کتنے روزہ دار ہیں جنہیں روزہ سے بھوک اورپیاس کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے اور کتنے عابد شب زندہ دار ہیں جنہیں اپنے قیام سے شب بیداری اورمشقت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ہوشمند(۱) ا نسان کا سونا اور کھانابھی قابل تعریف ہوتا ہے۔

(۱۴۶)

اپنے ایمان کی نگہداشت(۲) صدقہ سے کرو اور اپنے اموال کی حفاظت زکوٰة سے کرو۔بلائوں کے تلاطم کودعائوں سے ٹال دو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان عبادت کو بطور رسم و عادت انجام نہ دے بلکہ جذبہ اطاعت و بندگی کے تحت انجام دے تاکہ واقعاً بندۂ پروردگار کہے جانے کے قابل ہو جائے ورنہ شعور بندگی سے الگ ہو جانے کے بعد بندگی بے ارزش ہو کر رہ جاتی ہے۔

(۲)صدقہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کو وعدہ ٔ الٰہی پراعتبار ہے اوروہ یہ یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اس کی راہ میں دے دیا ہے وہ ضائع ہونے والا نہیں ہے بلکہ دس گنا ۔سو گناہ ۔ہزار گنا ہوکر واپس آنے والا ہے اور یہی کمال ایمان کی علامت ہے ۔

۶۷۱

۱۴۷ - ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

لِكُمَيْلِ بْنِ زِيَادٍ النَّخَعِيِّ قَالَ كُمَيْلُ بْنُ زِيَادٍ - أَخَذَ بِيَدِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍعليه‌السلام - فَأَخْرَجَنِي إِلَى الْجَبَّانِ فَلَمَّا أَصْحَرَ تَنَفَّسَ الصُّعَدَاءَ - ثُمَّ قَالَ:

يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ - إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ أَوْعِيَةٌ فَخَيْرُهَا أَوْعَاهَا - فَاحْفَظْ عَنِّي مَا أَقُولُ لَكَ: النَّاسُ ثَلَاثَةٌ - فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ ومُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ - وهَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيحٍ - لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ ولَمْ يَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِيقٍ.

يَا كُمَيْلُ الْعِلْمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَالِ - الْعِلْمُ يَحْرُسُكَ وأَنْتَ تَحْرُسُ الْمَالَ - والْمَالُ تَنْقُصُه النَّفَقَةُ والْعِلْمُ يَزْكُوا عَلَى الإِنْفَاقِ - وصَنِيعُ الْمَالِ يَزُولُ بِزَوَالِه.

يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ مَعْرِفَةُ الْعِلْمِ دِينٌ يُدَانُ بِه - بِه يَكْسِبُ الإِنْسَانُ الطَّاعَةَ فِي حَيَاتِه - وجَمِيلَ الأُحْدُوثَةِ بَعْدَ وَفَاتِه - والْعِلْمُ حَاكِمٌ والْمَالُ مَحْكُومٌ عَلَيْه.

يَا كُمَيْلُ هَلَكَ خُزَّانُ الأَمْوَالِ وهُمْ أَحْيَاءٌ -

(۱۴۷)

آپ کا ارشاد گرامی جناب کمیل بن زیاد نخعی سے کمیل کہتے ہیں کہ امیر المومنین میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان کی طرف لے گئے اور جب آبادی سے باہرنکل گئے تو ایک لمبی آہ کھینچ کرفرمایا: ۔ اے کمیل بن زیاد!دیکھو یہ دل ایک طرح کے ظرف ہیں لہٰذا سب سے بہتر وہ دل ہے جو سب سے زیادہ حکمتوں کو محفوظکرسکے اب تم مجھ سے ان باتوں کو محفوظ کرلو۔لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں : خدا رسیدہ عالم۔راہ نجات پر چلنے والا طالب علم اورعوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آوازکے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا ک ساتھ لہرانے لگتا ہے۔اسنے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کاس ہارا لیا ہے۔

اے کمیل !دیکھو علم مال(۱) سے بہرحال بہتر ہوتا ہے کہ علم خود تمہاری حفاظت کرتا ہے اورمال کی حفاظت تمہیں کرنا پڑتی ہے مال خرچ کرنے سے کم ہو جاتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔پھر مال کے نتائج و اثرات بھی اس کے فناہونے کے ساتھ ہی فنا ہو جاتے ہیں۔

اے کمیل بن زیاد! علم کی معرفت ایک دین ہے جس کی اقتدا کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ انسان زندگی میں اطاعت حاصل کرتا ہے اور مرنے کے بعد ذکرجمیل فراہم کرتا ہے۔علم حاکم ہوتا ہے اورمال محکوم ہوتا ہے۔ کمیل دیکھو مال کاذخیرہ کرنے والے جیتے جی ہلاک ہوگئے اور صاحبان علم

(۱)علم و مال کے مراتب کے بارے میں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مال کی پیداوار بھی علم کا نتیجہ ہوتی ہے ورنہ ریگستانی علاقوں میں ہزاروں سال سے پٹرول کے خزانے موجود تھے اور انسان سے بالکل بے خبر تھا۔اس کے بعد جیسے ہی علم نے میدان انکشافات میں قدم رکھا' برسوں کے فقیر امیر ہوگئے اورصدیوں کے فاقہ کش صاحب مال و دولت شمار ہونے لگے۔

۶۷۲

والْعُلَمَاءُ بَاقُونَ مَا بَقِيَ الدَّهْرُ - أَعْيَانُهُمْ مَفْقُودَةٌ وأَمْثَالُهُمْ فِي الْقُلُوبِ مَوْجُودَةٌ - هَا إِنَّ هَاهُنَا لَعِلْماً جَمّاً وأَشَارَ بِيَدِه إِلَى صَدْرِه لَوْ أَصَبْتُ لَه حَمَلَةً - بَلَى أَصَبْتُ لَقِناً غَيْرَ مَأْمُونٍ عَلَيْه - مُسْتَعْمِلًا آلَةَ الدِّينِ لِلدُّنْيَا - ومُسْتَظْهِراً بِنِعَمِ اللَّه عَلَى عِبَادِه وبِحُجَجِه عَلَى أَوْلِيَائِه - أَوْ مُنْقَاداً لِحَمَلَةِ الْحَقِّ لَا بَصِيرَةَ لَه فِي أَحْنَائِه - يَنْقَدِحُ الشَّكُّ فِي قَلْبِه لأَوَّلِ عَارِضٍ مِنْ شُبْهَةٍ - أَلَا لَا ذَا ولَا ذَاكَ - أَوْ مَنْهُوماً بِاللَّذَّةِ سَلِسَ الْقِيَادِ لِلشَّهْوَةِ - أَوْ مُغْرَماً بِالْجَمْعِ والِادِّخَارِ ،- لَيْسَا مِنْ رُعَاةِ الدِّينِ فِي شَيْءٍ - أَقْرَبُ شَيْءٍ شَبَهاً بِهِمَا الأَنْعَامُ السَّائِمَةُ - كَذَلِكَ يَمُوتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِيه.

اللَّهُمَّ بَلَى لَا تَخْلُو الأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّه بِحُجَّةٍ - إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وإِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً - لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّه وبَيِّنَاتُه - وكَمْ ذَا وأَيْنَ أُولَئِكَ

زمانہ کی بقا کے ساتھ رہنے والے ہیں۔ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں لیکن ان کی صورتیں دلوں پر نقش ہیں۔دیکھو اس سینہ میں علم کا ایک خزانہ ہے۔کاش مجھے اس کے اٹھانے والے مل جاتے ۔ہاںملے بھی تو بعض ایسے ذہین جو قابل اعتبار نہیں ہیں اور دین کو دنیا کا آلہ کاربناکراستعمال کرنے والے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کے ذریعہ اس کے بندوں اور اس کی محبتوں کے ذریعہ اس کے اولیاء پر برتری جتلانے والے ہیں یا حاملان حق کے اطاعت گذار تو ہیں لیکن ان کے پہلو میں بصیرت نہیں ہے اور ادنیٰ شبہ میں بھی شک کاشکار ہو جاتے ہیں۔یاد رکھو کہ یہ یہ کام آنے والے ہیں اور نہ وہ۔اس کے بعد ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو لذتوں کے دلدادہ اورخواہشات کے لئے اپنی لگام ڈھلی کر دینے والے ہیں یا صری مال جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزی کرنے کے دلدادہ ہیں۔یہ دونوں بھی دین کے قطعاً محافظ نہیں ہیں اور ان سے قریب ترین شباہت رکھنے والے چرنے والے جانور ہوتے ہیں اور اس طرح علم حاملان علم کے ساتھ مرجاتا ہے۔لیکن۔اس کے بعد بھی زمین ایسے شخص سے خالی نہیں ہوتی ہے جو حجت(۱) خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ۔تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔لیکن یہ ہیں ہی کتنے اور کہاں ہیں ؟

(۱)یہ صحیح ہے کہ ہر صفت اس کے حامل کے فوت ہو جانے سے ختم ہو جاتی ہے اور علم بھی حاملان علم کی موت سے مر جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس دنیا میں کوئی دور ایسا بھی آتا ہے جب تمام اہل علم مر جائیں اور علم کا فقدان ہو جائے۔اس لئے کہ ایسا ہوگیا تواتمام حجت کاکوئی راستہ نہ رہ جائے گا اور اتمام حجت بہر حال ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے لہٰذا ہر دور میں ایک حجت خدا کا رہنا ضروری ہے چاہے ظاہر بظاہر منظر عام پر ہو یا پردہ ٔ غیبت میں ہو کہ اتمام حجت کے لئے اس کاوجود ہی کافی ہے۔اس کے ظہورکی شرط نہیں ہے

۶۷۳

أُولَئِكَ واللَّه الأَقَلُّونَ عَدَداً - والأَعْظَمُونَ عِنْدَ اللَّه قَدْراً - يَحْفَظُ اللَّه بِهِمْ حُجَجَه وبَيِّنَاتِه حَتَّى يُودِعُوهَا نُظَرَاءَهُمْ - ويَزْرَعُوهَا فِي قُلُوبِ أَشْبَاهِهِمْ - هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلَى حَقِيقَةِ الْبَصِيرَةِ - وبَاشَرُوا رُوحَ الْيَقِينِ واسْتَلَانُوا مَا اسْتَوْعَرَه الْمُتْرَفُونَ - وأَنِسُوا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْه الْجَاهِلُونَ - وصَحِبُوا الدُّنْيَا بِأَبْدَانٍ أَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌ بِالْمَحَلِّ الأَعْلَى - أُولَئِكَ خُلَفَاءُ اللَّه فِي أَرْضِه والدُّعَاةُ إِلَى دِينِه - آه آه شَوْقاً إِلَى رُؤْيَتِهِمْ - انْصَرِفْ يَا كُمَيْلُ إِذَا شِئْتَ.

۱۴۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

۱۴۹ - وقَالَعليه‌السلام هَلَكَ امْرُؤٌ لَمْ يَعْرِفْ قَدْرَه.

۱۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ سَأَلَه أَنْ يَعِظَه:

لَا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الآخِرَةَ

واللہ ان کے عدد بہت کم ہیں لیکن ان کی قدرو منزلت بہت عظیم ہے۔اللہ انہیں کے ذریعہ اپنے دلائل و بینات کی حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ہی جیسے افراد کے حوالے کردیں اور اپنے امثال کے دلوں میں بودیں۔انہیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔انہوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنہیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھاتھا اوران چیزوں سے انس حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کے روحیں ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں۔ہائے مجھے ان کے دیدار کا کس قدر اشتیاق ہے۔

کمیل (میری بات تمام ہوچکی ) اب تم جا سکتے ہو۔

(۱۴۸)

انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔

(۱۴۹)

جس شخص نے اپنی قدرو منزلت کو نہیں پہچانا وہ ہلاک ہوگیا۔

(۱۵۰)

ایک شخص نےآپ سےموعظہ کا تقاضا کیا تو فرمایا '' ان لوگوں میں نہ ہوجانا جو عمل(۱) کے بغیرآخرت کی

(۱)مولائے کائنات کے اس ارشاد گرامی کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اگر دورحاضر کے مومنین کرام ' واعظین محترم ' خطباء شعلہ نوا۔شعراء طوفان افزا۔سربراہان ملت قائدین قوم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمارے دور کے حالات کا نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ہمارے سامنے کردار کا ایک آئینہ رکھ رہے ہیں جس میں ہرشخص اپنی شکل دیکھ سکتا ہے اور اپنے حال زار سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔

۶۷۴

بِغَيْرِ عَمَلٍ - ويُرَجِّي التَّوْبَةَ بِطُولِ الأَمَلِ - يَقُولُ فِي الدُّنْيَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِينَ - ويَعْمَلُ فِيهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِينَ،إِنْ أُعْطِيَ مِنْهَا لَمْ يَشْبَعْ وإِنْ مُنِعَ مِنْهَا لَمْ يَقْنَعْ - يَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَا أُوتِيَ ويَبْتَغِي الزِّيَادَةَ فِيمَا بَقِيَ - يَنْهَى ولَا يَنْتَهِي ويَأْمُرُ بِمَا لَا يَأْتِي - يُحِبُّ الصَّالِحِينَ ولَا يَعْمَلُ عَمَلَهُمْ - ويُبْغِضُ الْمُذْنِبِينَ وهُوَ أَحَدُهُمْ - يَكْرَه الْمَوْتَ لِكَثْرَةِ ذُنُوبِه - ويُقِيمُ عَلَى مَا يَكْرَه الْمَوْتَ مِنْ أَجْلِه - إِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِماً وإِنْ صَحَّ أَمِنَ لَاهِياً - يُعْجَبُ بِنَفْسِه إِذَا عُوفِيَ ويَقْنَطُ إِذَا ابْتُلِيَ - إِنْ أَصَابَه بَلَاءٌ دَعَا مُضْطَرّاً وإِنْ نَالَه رَخَاءٌ أَعْرَضَ مُغْتَرّاً - تَغْلِبُه نَفْسُه عَلَى مَا يَظُنُّ ولَا يَغْلِبُهَا عَلَى مَا يَسْتَيْقِنُ - يَخَافُ عَلَى غَيْرِه بِأَدْنَى مِنْ ذَنْبِه - ويَرْجُو لِنَفْسِه بِأَكْثَرَ مِنْ عَمَلِه - إِنِ اسْتَغْنَى بَطِرَ وفُتِنَ وإِنِ افْتَقَرَ قَنِطَ

امید رکھتے ہیں اور طولانی امیدوں کی بنا پر توبہ کو ٹال دیتے ہیں۔دنیا میں باتیں زاہدوں جیسی کرتے ہیں اور کام راغبوں جیسا انجام دیتے ہیں۔کچھ مل جاتا ہے توسیر نہیں ہوتے ہیں اورنہیں ملتا ہے توقناعت نہیں کرتے ہیں۔جودے دیا گیا ہے اس کے شکریہ سے عاجز ہیں لیکن مستقبل میں زیادہ کے طلب گار ضرور ہیں۔لوگوں کو منع کرتے ہیں لیکن خود نہیں رکتے ہیں۔اور ان چیزوں کا حکم دیتے ہیں جو خود نہیں کرتے ہیں۔نیک کرداروں سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کا جیسا عمل نہیں کرتے ہیں اور گناہگاروں سے بیزار رہتے ہیں لیکن خود بھی انہیں میں سے ہوتے ہیں۔گناہوں کی کثرت کی بنا پر موت کو نا پسند کرتے ہیں اور پھر ایسے ہی اعمال پر قائم بھی رہتے ہیں جن سے موت نا گوار ہو جات یہے۔بیمار ہوتے ہیں تو گناہوں پر پشیمان ہو جاتے ہیں اور صحت مند ہوتے ہیں تو پھر لہوولعب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے تو اکڑ نے لگتے ہیں اور آزمائش میں پڑ جاتے ہیں تو مایوس ہو جاتے ہیں۔کوئی بلا نازل ہو جاتی ہے تو بشکل مضطر دعاکرتے ہیں اور سہولت وآسانی فراہم ہو جاتی ہے تو فریب خوردہ ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ان کا نفس انہیں خیالی باتوں پرآمادہ کر لیتا ہے لیکن وہ یقینی باتوں میں اس پر قابو نہیں پا سکتے ہیں۔دوسروں کے بارے میں اپنے سے چھوٹے گناہ سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں اور اپنے لئے اعمال سے زیادہ جزا کے امیدوار رہتے ہیں۔مالدار ہو جاتے ہیں تو مغرور و مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں اور غربت زدہ ہو جتے ہیں تو مایوس

۶۷۵

ووَهَنَ - يُقَصِّرُ إِذَا عَمِلَ ويُبَالِغُ إِذَا سَأَلَ - إِنْ عَرَضَتْ لَه شَهْوَةٌ أَسْلَفَ الْمَعْصِيَةَ وسَوَّفَ التَّوْبَةَ - وإِنْ عَرَتْه مِحْنَةٌ انْفَرَجَ عَنْ شَرَائِطِ الْمِلَّةِ - يَصِفُ الْعِبْرَةَ ولَا يَعْتَبِرُ - ويُبَالِغُ فِي الْمَوْعِظَةِ ولَا يَتَّعِظُ - فَهُوَ بِالْقَوْلِ مُدِلٌّ ومِنَ الْعَمَلِ مُقِلٌّ - يُنَافِسُ فِيمَا يَفْنَى ويُسَامِحُ فِيمَا يَبْقَى - يَرَى الْغُنْمَ مَغْرَماً والْغُرْمَ مَغْنَماً - يَخْشَى الْمَوْتَ ولَا يُبَادِرُ الْفَوْتَ - يَسْتَعْظِمُ مِنْ مَعْصِيَةِ غَيْرِه مَا يَسْتَقِلُّ أَكْثَرَ مِنْه مِنْ نَفْسِه - ويَسْتَكْثِرُ مِنْ طَاعَتِه مَا يَحْقِرُه مِنْ طَاعَةِ غَيْرِه - فَهُوَ عَلَى النَّاسِ طَاعِنٌ ولِنَفْسِه مُدَاهِنٌ - اللَّهْوُ مَعَ الأَغْنِيَاءِ أَحَبُّ إِلَيْه مِنَ الذِّكْرِ مَعَ الْفُقَرَاءِ

اور سست ہو جاتے ہیں ۔عمل میں کوتاہی کرتے ہیں اور سوال میں مبالغہ کرتے ہیں خواہش نفس سامنے آجاتی ہے تو معصیت فوراً کر لیتے ہیں اور توبہ کو ٹال دیتے ہیں ۔کوئی مصیبت لاحق ہو جاتی ہے تواسلامی جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں ۔عبرت ناک واقعات بیان کرتے ہیں لیکن خود عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔موعظہ میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں لیکن خود نصیحت نہیں حاصل کرتے ہیں ۔قول میں ہمیشہ اونچے رہتے ہیں اور عمل میں ہمیشہ کمزور رہتے ہیں فنا ہونے والی چیزوں میں مقابلہ کرتے ہیں اور باقی رہ جانے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔واقعی فائدہ کو نقصان سمجھتے ہیں اور حقیقی نقصان کوف ائدہ تصور کرتے ہیں۔موت سے ڈرتے ہیں لیکن وقت نک جانے سے پہلے عمل کی طرف سبقت نہیں کرتے ہیں۔دوسروں کی اس معصیت کوبھی عظیم تصور کرتے ہیں جس سے بڑی معصیت کو اپنے لئے معمولی تصور کرتے ہیں اور اپنی معمولی اطاعت کو بھی کثیر شمار کرتے ہیں جب کہ دوسرے کی کثیر اطاعت کو بھی حقیر ہی سمجھتے ہیں ۔ لوگوں پر طعنہ زن رہتے ہیں اور اپنے معاملہ میں نرم و نازک رہتے ہیں۔مالداروں کے ساتھ لہوولعب(۱) کو فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر ذکر خداسے زیادہ دوست رکھتے

(۱)دورحاضر کا عظیم ترین عیار زندگی یہی ہے اور ہرشخص ایسی ہی زندگی کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔کافی ہائوس ' نائٹ کلب اوردیگر لغویات کے مقامات پر سرمایہ داروں کی مصاحبت کے لئے ہر متوسط طبقہ کاآدمی مرا جارہا ہے اور کسی کو یہ شوق نہیں پیدا ہوتا ہے کہ چند لمحہ خانہ خدا میں بیٹھ کر فقیروں کے ساتھ مالک کی بارگاہ میں مناجات کرکے اور یہ احساس کرے کہ اس کی بارگاہ میں سب فقیر ہیں اور یہ دولت و امارت صرف چند روزہ تماشہ ے ورنہ انسان خالی ہاتھ آیا ہے اورخالی ہاتھ ہی جانے والا ہے۔دولت عاقبت بنانے کاذریعہ تھی اگر اسے بھی عاقبت کی بربادی کی اہ پر لگادیا تو آخرت میں حسرت و فاسوس کے علاوہ کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔

۶۷۶

يَحْكُمُ عَلَى غَيْرِه لِنَفْسِه،ولَا يَحْكُمُ عَلَيْهَا لِغَيْرِه - يُرْشِدُ غَيْرَه ويُغْوِي نَفْسَه - فَهُوَ يُطَاعُ ويَعْصِي ويَسْتَوْفِي ولَا يُوفِي - ويَخْشَى الْخَلْقَ. فِي غَيْرِ رَبِّه ولَا يَخْشَى رَبَّه فِي خَلْقِه.

قال الرضي - ولو لم يكن في هذا الكتاب إلا هذا الكلام - لكفى به موعظة ناجعة وحكمة بالغة - وبصيرة لمبصر وعبرة لناظر مفكر.

۱۵۱ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ امْرِئٍ عَاقِبَةٌ حُلْوَةٌ أَوْ مُرَّةٌ.

۱۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ مُقْبِلٍ إِدْبَارٌ ومَا أَدْبَرَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ.

۱۵۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَعْدَمُ الصَّبُورُ الظَّفَرَ وإِنْ طَالَ بِه الزَّمَانُ.

ہیں۔اپنے حق میں دوسروں کے خلاف فیصلہ کردیتے ہیں اور دوسروں کے حق میں اپنے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔دوسروں کو ہدایت دیتے ہیں اور اپنے نفس کو گمراہ کرتے ہیں۔خود ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور یہخود معصیت کرتے رہتے ہیں اپنے حق کو پورا پورا لے لیتے ہیں اور دوسروں کے حق کوادا نہیں کرتے ہیں۔پروردگار کوچھوڑ کر مخلوقات سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں پروردگار سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔

سید رضی : اگر اس کتاب میں اس کلام کے علاوہ کوئی دوسری نصیحت نہ بھی ہوتی تو یہی کلام کامیاب موعظت ' بلیغ حکمت اور صاحبان بصیرت کی بصیرت اور صاحبان فکرو نظر کی عبرت کے لئے کافی تھا۔

(۱۵۱)

ہرشخص کا ایک انجام بہر حال ہونے والا ہے چاہے شیریں ہو یاتلخ۔

(۱۵۲)

ہرآنے والا پٹنے والا ہے اور جوپلٹ جاتا ہے وہ ایسا ہوجاتا ے جیسے تھا ہی نہیں۔

(۱۵۳)

صبرکرنے والا کامیابی سے محروم نہیں ہو سکتا ہے چاہے کتنا ہی زمانہ کیوں نہ لگے جائے ۔

۶۷۷

۱۵۴ - وقَالَعليه‌السلام الرَّاضِي بِفِعْلِ قَوْمٍ كَالدَّاخِلِ فِيه مَعَهُمْ - وعَلَى كُلِّ دَاخِلٍ فِي بَاطِلٍ إِثْمَانِ - إِثْمُ الْعَمَلِ بِه وإِثْمُ الرِّضَى بِه.

۱۵۵ - وقَالَعليه‌السلام اعْتَصِمُوا بِالذِّمَمِ فِي أَوْتَادِهَا

۱۵۶ - وقَالَعليه‌السلام عَلَيْكُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لَا تُعْذَرُونَ بِجَهَالَتِه

۱۵۷ - وقَالَعليه‌السلام قَدْ بُصِّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ وقَدْ هُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ وأُسْمِعْتُمْ إِنِ اسْتَمَعْتُمْ.

۱۵۸ - وقَالَعليه‌السلام عَاتِبْ أَخَاكَ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه وارْدُدْ شَرَّه بِالإِنْعَامِ عَلَيْه.

(۱۵۴)

کسی قوم کے عمل سے راضی ہو جانے والا بھی اسی کے ساتھ شمار کیا جائے گا اورجو کسی باطل میں داخل ہوجائے گا اس پر دہرا گناہ ہوگا عمل کابھی گناہ اور راضی ہونے کابھی گناہ۔

(۱۵۵)

عہدوپیمان کی ذمہداری ان کے حوالہ کرو جو میخوں کی طرح مستحکم اورمضبوط ہوں۔

(۱۵۶)

اس کی اطاعت ضرر کرو جس سے نا واقفیت قابل معافی نہیں ہے۔(یعنی خدائی منصب دار)

(۱۵۷)

اگر تم بصیرت رکھتے ہو تو تمہیں حقائق دکھلائے جا چکے ہیں اور اگر ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہوتو تمہیں ہدایت دی جا چکی ہے اور اگر سننا چاہتے ہو تو تمہیں پیغام سنایا جا چکا ہے۔

(۱۵۸)

اپنے بھائی کو تنبیہ کرو تو احسان(۱) کرنے کے بعد اور اس کے شر کا جواب دو تولطف و کرم کے ذریعہ۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان اگر صرف تنبیہ کرتا ہے اور کام نہیں کرتا ہے تواس کی تنبیہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے کہ دوسرا شخص پہلے ہی بد ظن ہو جاتا ہے تو کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اور نصیحت بیکارچلی جاتی ہے ۔اس کے برخلاف اگر پہلے احسان کرکے دل میں جگہ بنالے اوراس کے بعد نصیحت کرے تو یقینا نصیحت کا اثر ہوگا اوربات ضائع و برباد نہ ہوگی۔

۶۷۸

۱۵۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ وَضَعَ نَفْسَه مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ - فَلَا يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِه الظَّنَّ.

۱۶۰ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ مَلَكَ اسْتَأْثَرَ

۱۶۱ - وقَالَعليه‌السلام مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِه هَلَكَ - ومَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا.

۱۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ كَتَمَ سِرَّه كَانَتِ الْخِيَرَةُ بِيَدِه.

۱۶۳ - وقَالَعليه‌السلام الْفَقْرُ الْمَوْتُ الأَكْبَرُ.

۱۶۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ قَضَى حَقَّ مَنْ لَا يَقْضِي حَقَّه فَقَدْ عَبَدَه.

(۱۵۹)

جس نے اپنے نفس کو تہمت کے مواقع(۱) پر رکھ دیا۔اسے کسی بد ظنی کرنے والے کو ملامت کرنے کا حق نہیں ہے۔

(۱۶۰)

جو اقتدار حاصل کر لیتا ہے وہ جانبداری کرنے لگتا ہے ۔

(۱۶۱)

جو خود رائی سے کام لے گا وہ ہلاک ہوجائے گا اور جو لوگوں سے مشورہ کرے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

(۱۶۲)

جو اپنے راز کو پوشیدہ رکھے گا اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

(۱۶۳)

فقیری سب سے بڑی موت ہے ۔

(۱۶۴)

جو کسی ایسے شخص کا حق ادا کردے جو اس کا حق(۲) ادا نہ کرتا ہو تو گویا اس نے اس کی پرستش کرلی ہے۔

(۱)عجیب و غریب بات ہے کہ انسان ان لوگوں سے فوراً بیزار ہو جاتا ہے جواس سے بدگمانی رکھتے ہیں لیکن ان الات سے بیزاری کا اظہار نہیں کرتا ہے جن کی بناپربدگمانی پیدا ہوتی ہے جب کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے بد ظنی کے مقامات سے اجتناب کرے اور اس کے بعد ان لوگوں سے ناراضگی کا اظہار کرے جو بلا سبب بد ظنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ انسان کے عمل کی کوئی بنیاد ہونی چاہیے اور میزان و معیار کے بغیر کسی عمل کو انجام نہیں دینا چاہیے۔اب اگر کوئی شخص کسی کے حق کی پرواہ نہیں کرتا ہے اوروہ اس کے حقوق کوادا کئیے جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کو اس کابندہ ٔ بے دام تصور کرتا ہے اوراس کی پرستش کئے چلا جا رہا ہے۔

۶۷۹

۱۶۵ - وقَالَعليه‌السلام لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ.

۱۶۶ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُعَابُ الْمَرْءُ بِتَأْخِيرِ حَقِّه إِنَّمَا يُعَابُ مَنْ أَخَذَ مَا لَيْسَ لَه.

۱۶۷ - وقَالَعليه‌السلام الإِعْجَابُ يَمْنَعُ الِازْدِيَادَ

۱۶۸ - وقَالَعليه‌السلام الأَمْرُ قَرِيبٌ والِاصْطِحَابُ قَلِيلٌ . 

۱۶۹ - وقَالَعليه‌السلام قَدْ أَضَاءَ الصُّبْحُ لِذِي عَيْنَيْنِ.

(۱۶۵)

خالق کی معصیت کے ذریعہ مخلوق کی اطاعت نہیں کی جا سکتی ہے۔

(۱۶۶)

اپناحق لینے میں تاخیرکردینا عیب نہیں ہے۔ دوسرے کے حق(۱) پرقبضہ کرلینا عیب ہے۔

(۱۶۷)

خود پسندی(۲) زیادہ عمل سے روک دیتی ہے۔

(۱۶۸)

آخرت قریب ہے اور دنیاکی صحبت بہت مختصر ہے۔

(۱۶۹)

آنکھوں والوں کے لئے صبح روشن ہوچکی ہے۔

(۱)انسان کی ذمہ داری ہے کہ زندگی میں حقوق حاصل کرنے سے زیادہ حقوق کی ادائیگی پرتوجہ دے کہ اپنے حقوق کو نظر انداز کردینا نہ دنیا میں باعث ملامت ہے اور نہ آخرت میں وجہ عذاب ہے لیکن دوسروں کے حقوق پر قبضہ کرلینا یقینا باعث مذمت بھی ہے اور وجہ عذاب و عقاب بھی ہے۔

(۲)کھلی ہوئی بات ہے کہ جب تک مریض کو مرض کا احساس رہتا ہے وہ علاج کی فکر بھی کرتا ہ لیکن جس دن ورم کو صحت تصور کر لیتا ہے ' اس دن سے علاج چھوڑ دیتا ہے یہی حال خود پسندی کا ہے کہ خود پسندی کردار کا ورم ہے جس کے بعد انسان اپنی کمزوریوں سے غافل ہو جاتا ہے اوراس کے نتیجہ میں عمل ختم کر دیتا ہے یا رفتار عمل کو سست بنادیتا ہے اور یہی چیز اس کے کردارکی کمزوری کے لئے کافی ہے۔

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863