نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657016 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس حدیث کا جواب کہ ابوبکر اور عائشہ پیغمبر(ص) کے محبوب تھے

خیر طلب : یہ حدیث علاوہ اس کے کہ بکری گروہ کی ساختہ و پرداختہ ہے، فریقین کے نزدیک مسلم اور معتبر احادیث کے بھی خلاف ہے لہذا اس کی مردودیت ثابت ہے۔

اس حدیث میں دو پہلووں سے غور کرنا چاہیے۔ اول ام المومنین عائشہ کی جہت سے اور دوسرے خلیفہ ابوبکر کی جہت سے چنانچہ عائشہ کی محبوبیت میں اس حیثیت سے کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک ساری عورتوں سے زیادہ محبوب ہوں اشکال ہے جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں یہ قول صحیح و معتبر احادیث کے خلاف ہے جو فریقین ( شیعہ و سنی) کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

شیخ : کن حدیثوں کے معارض ہے؟ ممکن ہو تو بیان کیجئے تاکہ ہم مطابقت کر کے عادلانہ فیصلہ کریں۔

خیر طلب : آپ کے قول کے برخلاف آپ کے علماء روایت کے طرق سے بکثرت حدیثیں حضرت صدیقہ کبری ام الائمہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں منقول ہیں۔

فاطمہ(س) زنان عالم میں سب سے بہتر ہیں

من جملہ ان کے حافظ ابوبکر بیہقی نے تاریخ میں، حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) بار بار فرماتے تھے "فاطمة خير نساء امّتي " ( یعنی فاطمہ(س ) میری امت کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔

امام احمد بن حنبل نے مسند میں حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی علی میں محمد ابن حنفیہ سے انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام سے ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ نقل حالات فاطمہ سلام اللہ علیہا و ام المومنین خدیجہ عبدالوارث ابن سفیان اور ----- حالات ام المومنین خدیجہ کے ضمن میں ابوداوود سے ابوہریرہ و انس بن مالک سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب55 میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت سیزدہم میں انس بن مالک سے نیز بہت سے ثقات محدثیں نے اپنے طرق کےساتھ انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"خير نساء العالمين أربع : مريم بنت عمران، و ابنة مزاحم امرأة فرعون، و خديجة بنت خويلد، و فاطمة بنت محمّد صلى اللّه عليه و آله و سلم."

( یعنی عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر چار ہیں۔ مریم دختر عمران و آسیہ دختم مزاحم خدیجہ دختر خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطیب تاریخ بغداد میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے ان چار

۲۰۱

عورتوں کو دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر شمار فرمایا ہے اس کے بعد فاطمہ کو دینا و آخرت میں ان پر فضیلت دی ہے۔

محمد بن اسماعیل بخاری صحیح میں اور امام احمد حنبل مسند میں عائشہ بنت ابوبکر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ(س) سے فرمایا

" يا فاطمه البشری فان الله اصطفيک و طهرک علی نساء العلمين و علی نساء الاسلام وهو خير دين."

( یعنی اے فاطمہ(س) خوشخبری اور بشارت ہو تم کو کہ خدا نے تم کو برگزیدہ کیا عالمین کی عورتوں پر بالعموم ، اور زنان اسلام پر بالخصوص پاکیزہ قرار دیا اور اسلام ہر دین سے بہتر ہے۔)

نیز بخاری نے اپنی صحیح جز چہارم ص64 میں مسلم نے اپنی صحیح جز دوم باب فضائل فاطمہ(س) میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحن میں، عبدی نے جمع بین الصحاح الستہ میں ابن عبدالبر نے استیعاب ضمن حالات حضرت فاطمہ(س) میں، امام ابن حنبل نے مسند جز ششم ص283 میں، محمد بن سعد کاتب نے طبقات جلد دوم مرض و بستر بیماری میں ارشادات رسول(ص) کے ذیل میں اور جلد ششم میں جناب فاطمہ(س) کے حالات نقل کرتے ہوئے ایک طولانی حدیث کے سلسلے میں (جس کو مکمل طور پر نقل کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں) ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

" يا فاطمة الا ترضين ان تکونی سيدة نساء العالمين "

(یعنی اے فاطمہ(س) آیا تم خوش نہیں ہو اس سے کہ زنان عالمین کی سردار ہو۔)

ابن حجر عسقلانی نے اسی عبارت کو صابہ میں حالات جناب فاطمہ(س) کے ضمن میں نقل کیا ہے۔ یعنی تم عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر ہو۔ نیز بخاری و سلم نے اپنی صحیحیں میں امام شافعی نے تفسیر میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے معجم الکبیر میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب42 میں تفسیر ابن ابی حاتم و مناقب و حاکم و و سبط و اسدی حلیۃ الاولیاء حافظ ابونعیم اصفہانی و فرائد حموینی سے، ابن حجر مکی نے صواعق کے-- چہاردھم کے ذیل میں احمد سے ، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، طبری نے تفسیر میں واحدی نے اسباب النزول میں، ابن مغازل شافعی نے مناقب میں، محب الدین طبری نے ریاض میں، شبلنجی نے نورالابصار میں ، زمخشری نے تفسیر میں، سیوطی نے در المنثور میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، علامہ سرودی نے تاریخ المدینہ میں فاضل نیشاپوری نے تفسیرمیں، قاضی بیضاوی نے تفسیر میں، امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں، سید ابوبکر شہاب الدین علوی نے شفتہ الصاری باب اول میں ص23 سے ص 24 تک تفسیر -- و ثعلبی و سیرہ ملاو مناقب احمد کبیر و اوسط طبرانی -- سے ، شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شہرادی شافعی نے کتاب الاتحاف ص5 میں حاتم و طبرانی -- جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت میں تفاسیر ابن منذر و ابن ابی حاتم و ابن مرودیہ و معجم الکبیر طبرانی سے، اور ابن ابی حاتم اور حاکم نے یہاں تک کہ عام طور پر آپ کے جملہ اکابر علما نے (سوا چند تھوڑے سے متعصبین بنی امیہ کے پیرو اور دشمنان اہل بیت کے ) ابن عباس خیر امت ، اور دوسروں سے نقل کیا ہے کہ جس وقت سورہ نمبر42 ( سورہ شوری) کی آیت نمبر23 "قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيها حُسْناً"

(یعنی کہہ دو امت سے ) کہ میں تم سے اجر رسالت سوا اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ میرے گھر والوں سے محبت رکھو، اور جو شخص نیک کام انجام دے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کرویں گے) نازل ہوئی تو اصحاب کی ایک جماعت نے عرض کیا :

"يا رسول اللّه ، من

۲۰۲

قرابتك ؟ قال: «عليّ و فاطمة و الحسن و الحسين "

یعنی آپ کے قرابتدار کو ن ہیں جن کی دوستی اور مودت خدا نے ہم پر واجب فرمائی ہے؟ ( یعنی اس آیہ مبارک میں) تو آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ وہ افراد علی(ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ اور بعض روایات میں وابناهما وارد ہے یعنی ان کے دونوں فرزند۔

اسی طرح کے اخبار و احادیث آپ کے معتبر کتابوں میں بہت وارد ہوئے ہیں جن سب کو ذکر کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں ہے اور آپ کے علماء کے نزدیک یہ مطلب حد شیاع تک پہنچا ہوا ہے۔

محبت اہل بیت(ع) کے وجوب میں شافعی کا اقرار

یہاں تک کہ ابن حجر ایسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ ص88 میں، حافظ جمال الدین زرندی نے معراج الوصول میں، شیخ عبداللہ شبراوی نے کتاب الاتحاف ص26 میں، محمد بن علی صبان مصری نے اسعاف الراغبین ص119 میں اور دوسرے علماء نے امام محمد بن ادریس شافعی سے جو آپ کے ائمہ اربعہ میں سے اور شافعیوں کے رئیس ہیں نقل کیا ہے کہ آپ کہتے تھے۔

يا أهل بيت رسول اللّه حبكم فرض من اللّه في القرآن أنزله

كفاكم من عظيم القدر أنكم من لم يصلّ عليكم لا صلاة له

( یعنی اے اہل بیت رسول خدا (ص) آپ کی محبت اور دوستی خدا کی جانب سے واجب ہوئی ہے جو قرآں میں نازل ہوئی ہے( آیت مذکورہ کی طرف اشارہ ) آپ کی عظمت منزلت میں یہی کافی ہے کہ جو شخص آپ ( آل محمد(ص)) پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہ ہوگی) اب میں آپ حضرات سے اںصاف کے ساتھ پوچھتا ہوں کہ آیا وہ ایک طرفہ حدیث جس کو آپ نے نقل کیا ہے، ان ساری صحیح و صریح اور متفق بین الفریقین شیعہ و سنی بے شمار حدیثوں اور آیتوں کے مقابلے میں آسکتی ہیں؟ آیا اس کو عقل قبول کرتی ہے کہ جس کی محبت و مودت کو خدائے تعالی نے قرآن مجید میں لوگوں پر فرض قرار دیا ہو رسول اللہ(ص) اس کو چھوڑ دیں اور دوسروں کو اس پر ترجیح دیں؟

آیا آنحضرت (ص) کے لیے ہوا و ہوس کا تصور ہوسکتا ہے کہ ہم کہیں آپ اپنی خواہش نفس کی بناء پر عائشہ کو جن کی افضلیت پر کوئی دلیل نہیں ہے ( سوا اس کے کہ رسول خدا(ص) کی زوجہ اور تمام ازواج پیغمبر کی طرح ام المومنین تھیں) جناب فاطمہ(س) سے زیادہ دوست رکھتے ہوں گے جن کی محبت و مودت کو خدائے تعالے نے قرآن مجید میں فرض اور واجب قرار دیا ہے۔ جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے اور جن کو بحکم قرآن مباہلے میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپ خود جانتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرتے اور سوائے خدا کے کسی پر نظر نہیں رکھتے، بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت رسول خدا(ص) جو حقیقتا حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کے حامل تھے اور قطعا اسی کو دوست رکھتے تھے جس کو خدا دوست رکھتا تھا اور اسی شخص کو دشمن رکھتے تھے

۲۰۳

جس کو خدا دشمن رکھتا تھا۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آں حضرت (ص) آں فاطمہ(س) کو چھوڑ دیں جن کی محبت و مودت کو خدا نے فرض اور واجب کیا اور دوسرے کو ان ترجیح دیں۔ بس اگر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دوست رکھتے تھے تو محض اسی وجہ سے کہ خدا ان کو محبوب رکھتا تھا۔

آیا عقل باور کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو محبت کے معاملے میں اس ذات پر ترجیح دیں جس کے متعلق خود یہ فرماتے تھے کہ خدا نے ان کو برگزیدہ کیا اور ان کی محبت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے؟ اب آپ کو چاہیے کہ یا تو ان تمام اخبار صحیحہ و صریحہ کو جو اکابر علمائے فریقین کے یہاں مقبول ہیں اور آیات قرآن مجید ان کی تائید کر رہی ہیں رد کیجئے یا جو یہ حدیث آپ نے بیان کی ہے اس کو طے نشدہ، جعلی حدیثوں میں شمار کیجئے، تاکہ یہ تناقض ختم ہوجائے ۔ اور خلیفہ ابوبکر کے بارے میں جو آپ نے فرمایا کہ آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا، میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ابوبکر ہیں تو یہ آن بکثرت معتبر روایات کے خلاف ہے جو خود آپ ہی کے بڑے بڑے ثقہ راویوں اور عالموں کے طریقوں سے منقول ہیں کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک امت کے مردوں میں سب سے زیادہ محبوب علی علیہ السلام تھے۔

پیغمبر(ص) کے نزدیک علی(ع) تمام مردوں سے زیادہ محبوب تھے

چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب 55 میں ترمذی سے بریدہ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " کان احب النساء فی رسول الله فاطمة و من الرجال علی "

( یعنی پیغمبر کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں علی علیہ السلام تھے)

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب 91 میں ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " ما خلق الله خلقا کان احب الی رسول الله من علی ابن ابی طالب " ( یعنی خدا نے کسی ایسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جو رسول اللہ کے لیے علی (ع) سے زیادہ محبوب ہو) اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ وہ حدیث ہے جس کو ابن عساکر نے اپنے مناقب میں اور ابن عساکر دمشقی نے ترجمہ حالات علی علیہ السلام میں روایت کیا ہے۔

محی الدین ( امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی میں ترمذی سے نقل کرتے ہیں کہ عائشہ سے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک کون عورت سب سے زیادہ محبوب تھی؟ انہوں نے کہا فاطمہ(س) پھر پوچھا کہ مردوں میں آںحضرت(ص) کو کون محبوب تر تھا؟ تو کہا کہ " زوجہا علی ابن ابی طالب" یعنی ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

نیز مخلص ذہبی اور حافظ ابو القاسم دمشقی سے اور وہ عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" ما رائيت رجلا احب الی النبی صلی الله عليه وآله وسلم من علی ولا احب اليه من فاطمة "

یعنی میں نے کسی مرد کو رسول (ص) کے

۲۰۴

نزدیک علی (ع) سے زیادہ محبوب نہیں دیکھا اور نہ فاطمہ(س) سے محبوب تر دیکھا۔

نیز حافظ خجندی سے اور وہ معاذۃ الغفاریہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ میں عائشہ کے یہاں خدمت رسول(ص) میں مشرف ہوئی اور علی علیہ السلام گھر کے باہر موجود تھے، آںحضرت(ص) نے عائشہ سے فرمایا:

" انّ هذا احبّ الرجال الىّ و اكرمهم علىّ فاعرفى له حقّه و اكرمى مثواه"

یعنی یہ علی(ع) میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ ۔۔۔۔ باعزت ہیں لہذا انکا حق پہچانو اور ان کے مرتبے کی تعظیم و توقیر کرو) شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص9 میں، سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں اور محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص6 میں ترمذی سے اور وہ جمیع بن عمیر سے نقل کرتے ہیں کہ کہ انہوں نے کہا میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ ام المومنین عائشہ کے پاس گیا اور ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون تھا؟ عائشہ نے کہا کہ عورتوں میں فاطمہ(س) اور مردوں ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

اسی روایت کو میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت یازدہم میں اتنے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جمیع نے کہا میں نے اپنی پھوپھی سے دریافت کیا تو یہ جواب ملا۔

نیز خطیب خوارزمی نے مناقب فصل ششم کے آخر میں جمیع بن عمیر سے اور انہوں نے عائشہ سے اس خبر کو نقل کیا ہے ۔ ابن حجر مکی صواعق محرقہ فصل دوم کے آخر میں حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں چالیس حدیثیں نقل کرنے کے بعد عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" کانت فاطمة احب النساء الی رسول الله صلی الله عليه و آله و زوجها احب الرجال "

یعنی پیغمبر(ص) کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ان کے شوہر علی ابن ابی طالب(ع) تھے) نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص7 میں اس موضوع پر چند مفصل روایتیں نقل کرنے کے بعد اس عبارت کے ساتھ اپنے عقیدے اور تحقیق کا اظہار کرتے ہیں۔:

" فثبت بهذه الاحاديث الصحيحة والاخبار الصريحه ان فاطمة کانت احب الی رسول الله من غيرها و انها سيدة نساء اهل الجنة و انها سيدة نساء هذه الامة و سيدة نساء اهل الجنة "

یعنی احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ سے ثابت ہوا کہ فاطمہ(س) رسول اللہ(ص) کو اپنے علاوہ ہر ایک شخصیت سے زیادہ محبوب تھیں اور یقینا وہ بہشت کی عورتوں کی سردار اس امت کی عورتوں کی سردار اور مدینے کی عورتوں کی سردار تھیں۔)

پس یہ مطلب عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سارے مخلوقات میں رسول اللہ(س) کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اور پیغمبر(ص) ک نزدیک علی کی محبوبیت اور دوسروں پر فوقیت کے ثبوت میں ان تمام روایات سے زیادہ اہم مشہور و معروف حدیث طیر ہے جس سے مکمل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی آں حضرت (ص) کو ساری امت میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور یقینا آپ خود بھی خوب جانتے ہیںکہ حدیث طیر فریقین ( سنی شیعہ) کے درمیان اس قدر مشہور ہے کہ اس کو سند نقل کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن محترم حاضرین جلسہ کی وسعت نظر کے لیے تاکہ ان پر حقیقت مشتبہ نہ رہ جائے اور ان کو

۲۰۵

یہ خیال پیدا نہ ہو کہ شیعہ اس قسم کی حدیثوں کو وضع کرتے ہیں اس کے بعض اسناد جو اس وقت میری نظر میں ہیں عرض کرتا ہوں۔

حدیث طیر

بخاری ، ترمذی، نسائی، اور سجستانی نے اپنی معتبر صحاح میں، امام ابن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب 8 کو حدیث طیر اور اس کے روایات کے نقل سے مخصوص کیا ہے اور احمد بن حنبل ، ترمذی، موفق ابن احمد، ابن مغازلی ، سنن ابی داوود ، رسول کے غلام سفینہ، انس بن مالک اور ابن عباس سے روایت کی ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں حدیث طیر کو چوبیس راویوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ مالکی نے فصول المہمہ میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے کہ

" وذالک انه صح النقل فی کتب الاحاديث الصحيحه والاخبار الصريحه عن انس بن مالک "

جس کا مطلب یہ ہے کہ کتب احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ میں انس بن مالک سے حدیث طیر کی نقل مسلسل طور پر صحیح ہے ۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص23 میں فضائل احمد اور سنن ترمذی سے اور مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص49 میں حدیث کے آخری حصے کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں پیغمبر(ص) کی دعا اور اس کی قبولیت ہے امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی حدیث نہم میں اور حافظ بن عقدہ و محمد بن جریر طبری دونوں سے ہر ایک نے اس حدیث کے تواتر اسانید میں کہ اس کو پینتیس صحابہ نے انس سے روایت کیا ہے ایک مخصوص کتاب لکھی ہے اور حافظ ابو نعیم نے اس باب میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے خلاصہ یہ کہ آپ کے سارے اکابر علماءنے اس حدیث شریف کی تصدیق کی ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے، چنانچہ صاحب زہد و ورع محقق و ثقہ علامہ سید حسین صاحب اعلی اللہ مقامہ نےجن کے علم و عمل اور تقوی کو جو ہندوستان میں اظہر من الشمس تھا آپ حضرات قریب ہونے کی وجہ سے اچھی طرح جانتے ہیں اپنی کتاب طبقات الانوار بڑی بڑی جلدوں میں سے ایک عظیم وضخیم جلد حدیث طیر سے مخصوص کر رکھی ہے اور اس میں آپ کے بزرگ علماء کی خاص کتابوں میں سے تمام معتبر اسناد جمع کردیے ہیں۔ اس وقت میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس حدیث کو کتنی سندوں کےساتھ نقل کیا ہے البتہ اس قدر یاد ہے کہ اس کے اسناد پڑھنے کے وقت میں ان سید بزرگوار کی زحمتوں اور اہم دینی خدمتوں کو دیکھ کر مبہوت ہوگیا تھا کہ ایک چھوٹی سی حدیث کو صرف آپ کے طریقوں سے کس طرح تواتر کےساتھ ثابت کیا ہے۔ان تمام اخبار کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ جملہ شیعہ و سنی مسلمانوں نے ہر دور اور ہر زمانے میں اس حدیث کی صحت کا اقرار و اعتراف اور تصدیق کی ہے کہ ایک روز کوئی عورت ایک بنا ہوا طائر ہدیے کے طور پر جناب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں لائی ، آں حضرت(ص) نے اس کو تناول فرمانے سے پہلے بارگاہ الہی میں دست دعا بلند فرمائے اور عرض کیا

" اللّهم ائتني بأحبّ خلقك إليك يأكل معي من هذا الطير فجاء عليّ فأكل معه."

( یعنی پرودگارا جو شخص میرے اور تیرے نزدیک تیری مخلوق میں سب سے زیادہ

۲۰۶

محبوب ہو اس کو میرے پاس بھیج دے تاکہ اس بھنے ہوئے طائر میں سے میرے ساتھ نوش کرے، اس وقت علی علیہ السلام آئے اور آں حضرت(ص) کے ساتھ اس کو تناول کیا۔

اور آپ کی بعض کتابوں میں جیسے فصول المہمہ مالکی، تاریخ حافظ نیشاپوری، کفایت الطالب گنجی شافعی اور مسند احمد وغیرہ جن میں انس بن مالک سے روایت کی ہےاس طرح ذکر کیا کہ انس نے کہا، پیغمبر(ص) اس دعا میں مشغول تھے کہ علی(ع) گھر میں آئے میں نے بہانہ کر دیا اور اس کو پوشیدہ رکھا، تیسری مرتبہ آپ نے پاوں دروازے پر مارا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا ان کو آنے دو۔ جوں ہی علی(ع) پہنچے آنحضرت (ص) نے فرمایا " ماحسبک عنی یرحمک اللہ" خدا تم پر رحمت نازل کرے کس چیز نے تم کو میرے پاس آنے سے باز رکھا ؟ تو آپ نے عرض کیا کہ میں تین مرتبہ دروازے پر حاضر ہوا اور اب کی تیسری دفعہ میں آپ کی خدمت تک پہنچا۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا اے انس تم کو کس چیز نے اس حرکت پر مجبور کیا کہ علی(ع) کو میرے پاس آنے سے منع کیا؟ میں نے عرض کیا کہ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے آپ کی دعا سنی تو یہ تمنا پیدا ہوئی کہ میری ہی قوم کا کوئی شخص اس درجے پر فائز ہو۔ اب میں آپ حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ آیا خدائے تعالے نے اپنے رسول خاتم الانبیاء(ص) کی دعا قبول فرمائی یا رد کردی؟

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ خدا نے قرآن کریم میں چونکہ دعائیں قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ گرامی منزلت پیغمبر(ص) ہرگز کوئی بے جا درخواست نہیں کرتے لہذا قطعا آن حضرت(ص) کی خواہش اور دعا کو منظور اور قبول فرماتا تھا۔

خیر طلب " پس اس صورت میں خدائے جل و علا نے اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین فرد کو اختیار و انتخاب کر کے اپنے پیغمبر(ص) کے پاس بھیجا اور وہ ساری امت کے درمیان بزرگ و برتر محبوب جو کل مخلوقات میں سے چنا ہوا اور خدا و رسول کے نزدیک امت میں سب سے زیادہ محبوب تھا علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے۔ چنانچہ خود آپ کےبڑے بڑے علماء نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مثلا محمد بن طلحہ شافعی نےجو آپ کے فقہاء اور اکابر علماء میں سے تھے مطالب السئول باب اول فصل پنجم کے اوائل میں ص15 پر حدیث رایت اور حدیث طیر کی مناسبت سے تقریبا ایک صفحے میں شیرین بیانی اور دل نشین تحقیقات کے ساتھ تمام امت کے درمیان خدا و رسول(ص) کی محبوبیت کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و منزلت کو ثابت کیا ہے اور ضمنا کہتے ہیں

" و اراد النبی ان يتحقق الناس ثبوت هذه المنقبة المنسيئة والصفة العليه التی هی اعلی درجات المتقين لعلی الخ"

( یعنی پیغمبر(ص) نے ارادہ فرمایا کہ اس روشن منقبت اور بلند صفت کا جو پرہیزگاروں کےدرجات میں سب سے بالاتر ہے( یعنی خدا و رسول کا محبوب ہونا) علی (ع) کے اندر قائم ہونا لوگوں کی نگاہوں میں ثابت ہوجائے۔

نیز شام کے حافظ و محدث محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ کفایت الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام باب33 میں حدیث طیر کو اپنے معتبر اسناد کے ساتھ چار طریقوں سے اس اور سفینہ سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ محاملی نے اپنی جز نہم میں اس حدیث کو درج کیا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں کھلی ہوئی دلالت ہے اس بات پر کہ علی علیہ السلام

۲۰۷

خدا کی بارگاہ میں کل مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں اور اس مقصد پر سب دلیلوں سے اہم دلیل یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول (ص) کی وہ دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے لہذا جب رسول اللہ(ص) نے دعا کی تو خدا نے بھی فورا قبول فرمایا اور محبوب ترین خلق کو آنحضرت(ص) کی طرف بھیج دیا اور وہ علی علیہ السلام تھے۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ انس سے منقول حدیث طیر کو حاکم ابوعبداللہ حافظ نیشاپوری نے چھیاسی راویوں سے نقل کیا ہے اور ان سب نے انس سے روایت کی ہے۔ پھر ان چھیاسی افراد کے نام بھی لکھے ہیں۔ ( شائقین کفایت الطالب(1) باب 33 کی طرف رجوع فرمائیں اب ذرا آپ حضرات انصاف فرمائیں کہ آیا جو حدیث آپ نے نقل کی ہے وہ معارض حدیثوں اور بالخصوص حدیث رایت اور اس با عظمت حدیث طیر کے مقابلے میں آسکتی ہے؟ قطعا جواب نفی میں ہوگا۔ پس ایک آپ کی یک طرفہ حدیث سے ان احادیث کے مقابلے میں جن کو آپ کے اکابر علماء نے سوا چند متعصب کینہ پرور لوگوں کے نقل کیا ہے اور ان کی صحت کی تصدیق کی ہے ہرگز سند نہیں لی جاسکتی بلکہ وہ ارباب تحقیق اور صاحبان جرح و تعدیل کے نزدیک مردود اور ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔

شیخ : میرا خیال ہے آپ نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ ہم کہیں گے اس کو نہ مانیے گا اور کافی اصرار کےساتھ اس کو رد کیجئے گا۔

بیان حقیقت

خیر طلب : مجھ کو آپ جیسے عالم انسان سے سخت تعجب ہے کہ اتنے حاضرین جلسہ کے سامنے مجھ پر ایسا غلط الزام عائد کر رہے ہیں۔ کس وقت آپ حضرات ن علم و عقل اور منطق کے مطابق کوئی دلیل قائم کیجس کے مقابلے میں میں نے ضد سے کام لیا اور اس کو قبول نہیں کیا تاکہ اس کے نتیجے میں آپ کی سرزنش کا مستحق قرار پاوں ؟ میں خدا کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جاوں اگر میرے اندر ہٹ دھرمی اور جاہلانہ تعصب و عناد کا شائبہ بھی ہو، یا برادران اہل سنت کے ساتھ عمومی یا خصوصی طور پر کوئی عداوت کا نظریہ رکھتا ہوں۔

میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہود و ںصاری اہل ہنود اور برہمنوں ، ایران میں ناقابل بہائیوں ہندوستان میں قادیانیوں یا مادہ اور طبیعت کے پجاریوں اور دوسرے مخالفین کے ساتھ بھی مناظروں میں کبھی میں نے ضد وغیرہ سے کام نہیں لیا، ہر مقام پر اور ہر وقت خدا پر نظر رکھی اور ہمیشہ میرا منطق علم و عقل اور منطق انصاف کے روسے حقیقت کو ظاہر کرنا رہا ہے۔ جب میں نے کافر ، مرتد اور نجس لوگوں سے ہٹ دھرمی نہیں کی ہے تو آپ کے ساتھ ایسا کیوں کر کرسکتا ہوں کیونکہ آپ لوگ ہمارے اسلامی بھائی ہیں۔ ہم سب ایک دین ایک قبلہ ایک کتاب کے ماننے والے اور ایک پیغمبر(ص) کے احکام کے تابع ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ ابتداء سے آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ غالبا ی بات33 ہے جیسا کہ اس سے قبل کے حوالے میں موجود ہے۔ 12 مترجم۔

۲۰۸

دماغ میں جو غلط فہمیاں راسخ اور عادت کی بنا پر طبیعت ثانیہ بن چکی ہیں ان کی کدورت منطق اور انصاف کے چھینٹوں سے بر طرف کردی جائے۔

خدا کے فضل سے آپ عالم ہیں اگر عادت ، اسلاف کی پیروی اور تعصب سے تھوڑا الگ ہوکر اںصاف کے دائرے میں آجائے تو ہم مکمل طور پر صحیح نتیجے تک پہنچ جائیں۔

شیخ : ہم نے شہر لاہور میں ہندووں اور برہمنوں کے ساتھ آپ کے مناظروں کاطریقہ روز ناموں اور ہفتہ وار اخبارات میں پرھا تھا جس سے ہم کو بہت خوشی ہوئی تھی اور باوجودیکہ ابھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ایک قلبی تعلق محسوس کرنے لگے تھے۔ امید ہے کہ خدا ہم کو اور آپ کو توفیق دے تاکہ حق اور حقیقت ظاہر ہوجائے ۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ اگر روایات میں کوئی شبہ ہو تو جیسا کہ خود آپ نے فرمایا ہےقرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ۔ اگر آپ خلیفہ ابوبکر کی فضیلت اور خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت میں احادیث کو مشتبہ سمجھتے ہیں تو کیا آیات قرآن کریم کے دلائل میں بھی شک و شبہ وارد کیجئے گا؟

خیر طلب : خدا وہ دن نہ لائے کہ میں قرآنی دلائل یا صحیح احادیث میں شک کروں، فقط چیز یہ ہے کہ ہر قوم و ملت یہاں تک کہ دین سے منحرف و مرتد لوگوں سے بھی جب ہمارا مقابلہ ہوا ہے تو وہ بھی اپنی حقانیت پر قرآن کی آیتوں سے استدلال کرتے تھے چونکہ قرآن مجید کے آیات ذو معانی ہیں لہذا خاتم الانبیاء نے لوگوں کی افراط و تفریط اور مغالطوں کوروکنے کے لیے قرآن کو امت کے درمیان تنہا نہیں چھوڑا بلکہ باتفاق علمائے فریقین ( شیعہ وسنی) جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا ہوں: " إنّي تارك فيكم الثقلين كتاب اللّه و عترتي ما إن تمسّكتم بهما فقد نجوتم " اور بعض روایات میں ارشاد ہے لن تضلوا ابدا ( یعنی در حقیقت میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، کتاب خدا اور میری عترت اگر ان دونوں ( کتاب وعترت ) سے تمسک رکھوگے ت نجات پاو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( رجوع ہو اس کتاب کے ص92، 93 کی طرف )

لہذا قرآن کے مفہوم و حقیقت اور شان نزول کو خود رسول اللہ(ص) سے جو قرآن کے حقیقی شارح ہیں اور ان حضرت کے بعد عدیل قرآن سے جو آن حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں دریافت کرنا چاہئے۔ جیسا کہ سورہ نمبر21 (انبیاء) آیت 7 میں ارشاد ہے " فاسئلوا أهل الذّكر إن كنتم لا تعلمون" ( یعنی اے ہمارے رسول امت سے کہہ دیجئے کہ) اگر تم خود جانتے ہوتو اہل ذکر اور صاحبان علم( یعنی آل محمد(ص) جو سب سے زیادہ عالم ہیں) سے دریافت کرو۔)

اہل ذکر آل محمد(ص) ہیں

اہل ذکر سے مراد حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سے ائمہ علیہم السلام ہیں جو عدیل قرآن ہیں چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودہ مطبوعہ اسلامبول باب39 ص119 میں امام ثعلبی کی تفسیر کشف البیان سے بروایت جابر ابن عبداللہ انصاری

۲۰۹

نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " قال علی ابن ابی طالب نحن اہل الذکر " یعنی علی علیہ السلام نے فرمایا ہم ( خاندان رسالت) اہل ذکر ہیں۔ چونکہ ذکر قرآن کا ایک نام ہے اور اس جلیل القدر خاندان والے اہل قرآن ہیں اسی وجہ سے ہمارے اور آپ کے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام فرماتے تھے:

" سلونى قبل ان تفقدونى سلونى عن كتاب اللَّه تعالى فان ه ليس من آية الّا قد عرفت بليل نزلت ام نهارا ام فی سهل ام فی جبل و ما نزلت آية إلّا و قد علمت فيمن نزلت و فيما نزلت و إنّ ربّي وهب لي لسانا طلقا و قلبا عقولا"

(یعنی پوچھ مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاو کتاب خدا کے متعلق مجھ سے دریافت کرو کیونکہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں ہوا اور زمین میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ میں۔ خدا کی قسم کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے لیکن یہ یقینا جانتا ہوں کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی اور کس پر نازل کی گئی ہے اور در حقیقت خدا نے مجھ کو فصیح زبان اور دانش مند دل عنایت فرمایا ہے) پس قرآن کی جس آیت سے بھی استدلال کیا جائے اس کو حقیقی مفہوم اور مفسرین کے بیان سے مطابق ہونا چاہئیے ورنہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے اور اپنے ذوق و فکر اور عقیدے کے روسے آیات قرآنی کی تفسیر کریگا تو سوا اختلاف بیان اور خیالات کی پراگندگی کے کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوگا اب اس تمہید کے پیش نظر میری درخواست ہے کہ اپنی منتخبہ آیات بیان فرمائیے اگر مقصد سے مطابقت کرے گی تو جان و دل سے قبول کر کے اپنے سر پر جگہ دوں گا۔

خلفائے اربعہ کے طریقہ خلافت میں نقل آیت اور اس کا جواب

شیخ : سورہ 38 (فتح) آیت نمبر29 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

"مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً- يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَ رِضْواناً سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ "

( یعنی محمد(ص) خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھی کافروں پر بہت سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر شفیق ومہربان ہیں، ان کو تم زیادہ تر رکوع و سجود کے عالم میں دیکھو گے جو فضل و رحمت اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں، ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان پڑے ہوئے ہیں۔)

یہ آیہ شریفہ ایک طرف سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضل و شرف کو ثابت کررہی ہے اور دوسری طرف سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقہ خلافت کو معین کرتی ہے، بخلاف اس کے کہ جیسا کہ شیعہ فرقے والے دعوی کرتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ پہلے خلیفہ ہیں۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ ظاہر کرتی ہیں۔

خیر طلب : آیہ شریفہ کے ظاہر سے تو کوئی ایسی چیز و خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت اور ابوبکر کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو نظر نہیں آتی ، البتہ ضرورت اس کی ہے کہ آپ وضاحت کیجئے کہ یہ صراحت آیت میں کس مقام پر ہے جس کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔

۲۱۰

شیخ : خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و شرافت پر آیت کی دلالت یہ ہے کہ آیت کے شروع میں کلمہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے اس مرد بزرگ کی منزلت کی طرف اشارہ ہوا ہے جو آپ کو لیلۃ الغار میں پیغمبر(ص) کے ساتھ حاصل تھی ۔ اور خلفائے راشدین کا طریقہ خلافت بھی اس آیت میں پوری صراحت کےساتھ واضح ہے کیونکہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جو شب ہجرت غار ثور میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے، أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مراد ہیں جو کفار پر بہت سخت گیری کرتے تھے، رُحَماءُ بَيْنَهُمْ عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں جو بہت رقیق القلب اور رحم دل تھے ۔" سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ " علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں۔

امید ہے کہ یہ چیز آپ کے بے لوث خیال کے موافق ہوگی اور آپ تصدیق کیجئے گا کہ حق ہمارے ساتھ ہے جو علی(ع) کو چوتھا خلیفہ جانتے ہیں نہ کہ خلیفہ اول، کیونکہ خدا نے بھی قرآن میں ان کا ذکر چوتھے نمبر پر کیا ہے۔

خیر طلب: میں حیرت میں ہوں کہ جواب کس انداز میں عرض کروں تاکہ خود غرضی کا الزام عائد نہ ہو، اگر بغیر تعصب کے اںصاف کی ںظر سے دیکھیے تو تصدیق فرمائیے گا کہ کوئی غرض کار فرما نہیں ہے بلکہ مقصد صرف اظہار حقیقت ہے۔ علاوہ اس کے کہ از باب تفسیر نے یہاں تک کہ خود آپ کے علماء نے بڑی بڑی تفسیروں میں اس آیہ شریفہ کے شان نزول میں یہ مطلب بیان نہیں کیا ہے اگر یہ آیت قرآنی امر خلافت کے بارے میں ہوتی تو روز اول وفات رسول(ص) کے بعد حضرت علی علیہ السلام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے اعتراضات کے مقابلے میں فرضی شاخ بزرگ پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ یہ آیت پیش کر کے مسکت جواب دے دیا جاتا۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کے جو معنی آپ نے بیان کئے ہیں وہ ایجاد بندہ ہیں جو مدتوں بعد حضرت ابوبکر و عمر کے طرف داروں نے تصنیف کئے ہیں۔

اس لیے کہ خود آپ کے اکابر مفسرین جسیسے طبری، امام ثعلبی، فاضل نیشاپوری، جلال الدین سیوطی، قاضی بیضاوی، جار اللہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی وغیرہ نے بھی یہ تفسیر بیان نہیں کی ہے پس میں نہیں جانتا کہ آپ کہاں سے یہ بات کہہ رہے ہیں اور یہ معنی کس وقت سے اور کن اشخاص کے ہاتھوں پیدا ہوئے؟ اس کے علاوہ خود آیہ شریفہ میں علمی ، ادبی اور عملی موانع موجود ہیں جو ثابت کررہے ہیں کہ جو شخص اس قول کا قائل ہوا ہے اس نے بے کار ہاتھ پاوں مارے ہیں اور اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوا ہے جس کو خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اپنی تفسیروں کے شروع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آن حضرت(ص) نے فرمایا : " ؟؟؟؟ القرآن برایہ فمقعدہ فی النار" یعنی جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے تو اس کا ٹھکانہ آگ میں ہے( اگر آپ کہئیے کہ تفسیر نہیں ہے تاویل ہے تو آپ حضرات باپ تاویل کو مطلقا مسدود جانتے ہیں، علاوہ اس کے یہ آیت شریفہ علم و ادب اور اصطلاح کے رو سے آپ کے مقصد کے برخلاف نتیجہ دے رہی ہے۔

شیخ : جھ کو یہ امید نہیں تھی کہ جناب عالی اتنی واضح آیت کے مقابلے میں بھی استقامت دکھائیں گے البتہ اگر آپ اس آیت میں کوئی ایراد حقیقت کے برخلاف رکھتے ہیں تو بیان کیجئے تاکہ اصلیت ظاہر ہو۔

۲۱۱

نواب : قبلہ صاحب میری خواہش ہے کہ جس طرح اب تک آپ ن ہماری درخواستوں کو قبول کیا ہے اور مطالب کو ایسے سادہ انداز میں بیان کیا ہے کہ تمام حاضرین جلسہ اور غیر حاضر اشخاص ان سے بہرہ مند ہوئے ہیں اس مقام پر بھی گفتگو میں انتہائی سادگی کا لحاظ فرمائیے ہم سب آپ کے ممنون ہوں گے کیونکہ یہی وہ آیت ہے جو برابر ہمارے سامنے پڑھی جاتی رہی ہے اور ہم سب کو اس کے ذریعہ حکم قرآن کا محکوم اور پابند بنایا گیا ہے۔

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ ہے کہ آیت کی عظمت اور شعبدہ بازوں کے نقل قول نے آپ حضرات کو ایسا مبہوت بنا رکھا ہے کہ آیت کے حقیقی معنی اور رموز اسرار سے غافل ہوگئے ہیں، اگر آپ خود اپنی جگہ پر اس کے نحوی ترکیبات اور ادبی معانی پر تھوڑی توجہ کر لیتے تو معلوم ہوجاتا کہ یہ آیت آپ کے مقصد اور مراد سے ہرگز مطابقت نہیں کر رہی ہے۔

شیخ : التماس ہے کہ آپ ہی ضمائر و ترکیبات کو بیان کیجئے تاکہ ہم دیکھیں کیونکر مطابقت نہیں کرتی ہے۔

خیر طلب: ترکیبی جہت سے تو آپ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ اس آیہ مبارکہ کی ترکیب یقینی طور پر دو حال سے خارج نہیں ہے۔ یا محمد مبتداء ہے ، رسول اللہ عطف بیان ، والذین معہ عطف بر محمد(ص) ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔ یا والذین معہ مبتداء ہے ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔

ان قواعد کے رو سے اگر ہم آپ کے عقیدے اور قول کے مطابق آیت کا ترجمہ کرنا چاہیں تو دو طرح کے معنی ظاہر ہوتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔

اور اگر والذین معہ مبتداء ہو، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے خبر بعد از خبر تو آیت کے معنی اس طرح ہوتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔ بدیہی چیز ہے جس کو ہر مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ کلام کا یہ طریقہ غیر معقول اور نظم ادب سے خارج ہے۔

علاوہ اس کے اگر آیہ شریفہ سے خلفائے اربعہ مراد ہوتے تو ضرورت تھی کہ کلمات کے درمیان واو عطف رکھا جاتا تاکہ آپ کے مقصود سے مطابق ہوجاتے ، حالانکہ صورت اس کے برخلاف ہے۔

آپ کے جملہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کو تمام مومنین کے حق میں قرار دیا ہے یعنی کہتے ہیں کہ یہ تمام مومنین کی صفتیں ہیں۔ اور ظاہر آیت خود دلیل ہے کہ یہ کل مطالب ایک شخص کی صفتیں ہیں جو ابتداء سے پیغمبر(ص) کے ساتھ تھا نہ کہ چار نفر اور اگر ہم کہیں کہ وہ ایک فرد امیرالمومنین علی علیہ السلام تھے تو یہ دوسروں کی نسبت عقل و نقل کے مطابق کہیں زیادہ قابل قبول ہے۔

آیہ غار سے استدلال اور اس کا جواب

شیخ : تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں کج بحثی نہیں کرتا حالانکہ اس وقت آپ مجادلہ ہی کررہے ہیں۔ کیا ایسا

۲۱۲

نہیں ہے کہ خدا سورہ 9 ( توبہ) آیت نمبر40 میں صاف صاف فرماتا ہے:

" إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُما فِي الْغارِ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ أَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْها."

( یعنی یقینا خدا نے ان کی ( رسول اللہ(ص) ) کی مدد کی جب کفار نے ان کو مکے سے خارج کردیا ، ان میں سے ایک(یعنی رسول اللہ(ص)) جو دونوں غار کے اندر تھے جس وقت اپنے ہم سفر سے ( یعنی ابوبکر سے جو مضطرب تھے) فرما رہے تھے غم نہ کرو یقینا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس وقت خدا نے ان پر ( یعنی رسول اللہ پر) اپنی طرف سے سکون و وقار نازل فرمایا اور ان کی ان غیبی لشکروں سے امداد کی جن کو تم نے نہیں دیکھا۔)

یہ آیت علاوہ اس کے کہ آیت ، قبل کی موئد ہے اور والذین معہ کا مقصد ثابت کرتی ہے کہ ابوبکر غار میں شب ہجرت رسول اللہ(ص) کے ساتھ تھے خود یہ مصاحبت اور پیغمبر(ص) کی ہمراہی تمام امت پر ابوبکر کے فضل و شرف کی ایک بڑی دلیل ہے اس لیے کہ پیغمبر(ص) چونکہ علم باطن سے جانتے تھے کہ ابوبکر ان کے خلیفہ ہیں اور خلیفہ کا وجود ان کے بعد ضروری ہے اور اپنی ذات کے مانند ان کی بھی حفاظت کرنا چاہئے لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تاکہ دشمن کے ہاتھ میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ اور یہ بتاو مسلمانوں میں سے کسی اور کے ساتھ نہیں کیا، پس اسی جہت سے ان کے لیے تقدم خلافت کا حق ثابت ہوا۔

خیر طلب : اگر آپ حضرات کسی وقت سنیت کا لباس اتار کے اور تعصب وعادت سےالگ ہو کر ایک غیر جانبدار اور غیر متعصب انسان کے مانند اس آیہ شریفہ کے پہلووں پر غور کریں تو تصدیق کریں گے کہ جو نتیجہ آپ کے پیش نظر ہے وہ اس آیہ سے حاصل نہیں ہوتا۔

شیخ : بہتر ہے کہ اگر مقصد کے خلاف کچھ منطقی دلائل ہیں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : میری خواہش ہے کہ اس موقع سے چشم پوشی فرمائیے کیونکہ بات سے بات پیدا ہوتی ہے، اس وقت ممکن ہے کہ بعض غیر منصف لوگ اسی کو عداوت کی نظر سے دیکھیں ، آپس میں رنجش پیدا ہو اور یہ خیال قائم کیا جائے کہ ہم مقام خلفاء کی اہانت کرنا چاہتیے ہیں، حالانکہ ہر فرد کی حیثیت اپنی جگہ پر محفوظ ہے اور ان کے لیے بے جا تفسیر و تاویل کی احتیاج نہیں۔

شیخ : میری درخواست ہے کہ بغلیں نہ جھانکئے اور مطمئن رہئے ، منطقی دلائل رنجش نہیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ان سے پردے ہٹتے ہیں۔

خیر طلب: چونکہ آپ نے بغلیں جھانکنے کا نام لیا ہے لہذا میں مجبور ہوں کہ ایک مختصر جواب پیش کردوں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں بغلیں نہیں جھانک رہا تھا بلکہ گفتگو میں ادب کا لحاظ مقصود تھا۔ امید ہے کہ میری باتوں میں عیب جوئی نہ کیجئے گا اور اںصاف کی نظر سے دیکھئے گا اس لیے کہ اس بحث کا جواب محققین علماء نے مختلف طریقوں سے دیا ہے۔

اولا : آپ کا یہ جملہ سخت حیرت انگیز اور سطحی تھا کہ رسول اللہ(ص) چونکہ یہ جانتے تھے کہ ابوبکر کے بعد خلیفہ ہوں گے اور خلیفہ کا تحفظ آن حضرت(ص) پر لازم تھا لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

آپ کے اس بیان کا جواب بہت سادہ ہے کیونکہ اگر پیغمبر(ص) کے خلیفہ صرف ابوبکر ہی ہوتے تو ایسا احتمال پیدا کیا

۲۱۳

جاسکتا تھا لیکن آپ خود خلفائے راشدین کی خلافت پر اعتماد رکھتے ہیں اور وہ چار نفر تھے۔ اگر آپ کی یہ دلیل صحیح ہے اور خطرات سے خلیفہ محفوظ رکھنا لازم تھا تو پیغمبر(ص) کا فرض تھا کہ چاروں خلفاء کو جو مکے میں موجود تھے اپنے ساتھ لے جائیں ، نہ یہ کہ ایک کو لے جائیں اور دوسرے تین افراد کو چھوڑ دیں، بلکہ ان میں سے ایک کو تلواروں کے خطرے سے گھرے ہوئے مقام پر مقرر کریں، اور اپنے بستر پر لٹائیں جب کہ یقینی طور پر اس رات پیغمبر(ص) کا بستر خطرناک اور دشمنوں کے حملے کی زد میں تھا۔ (1)

دوسرے اس بیان کی بنا پر جو طبری نے اپنی تاریخ جز سیم میں درج کیا ہے ابوبکر آنحضرت(ص) کی روانگی سے واقف ہی نہ تھے بلکہ جس وقت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور آنحضرت(ص) کا حال دریافت کیر تو حضرت نے فرمایا کہ وہ غار میں تشریف لے گئے ہیں اگر ان سے کوئی کام ہے تو دوڑ جاو۔ ابوبکر دوڑتے ہوئے چلے اور درمیان راہ میں آنحضرت(ص) سے ملے گئے چنانچہ مجبورا ایک ساتھ روانگی ہوئی۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) خود ان کو اپنے ہمراہ نہیں لے گئے بلکہ وہ بلا اجازت گئے اور راستے کے درمیان سے آںحضرت(ص) کے ساتھ ہوگئے۔

بلکہ دوسری روایتوں کی بنا پر ابوبکر کو لے جانا اتفاقیہ اور فتنے اور دشمنوں کو خبر دے دینے کے خوف سے تھا جیسا کہ خود آپ کے منصف مزاج علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے منجملہ ان کے شیخ ابوالقاسم بن صباغ جو

آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں کتاب النور البرہان حالات رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محمد بن اسحق سے اور انہوں نے حسان بن ثابت اںصاری سے روایت کی ہے کہ میں آنحضرت (ص) کی ہجرت سے قبل عمرہ کے لیے مکہ گیا تو میں نے دیکھا کہ کفار قریش آنحضرت (ص) کے اصحاب کو سب و شتم کرتے ہیں چنانچہ اسی زمانے میں :

" امر رسول الله صلی الله عليه وآله عليا فنام فی فراشه و خشی من ابن ابی قحافه ابن يدلهم عليه فاخذه معه و مضي الی الغار "

( یعنی رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ آپ کے بستر پر سو رہیں اور اس بات سے ڈرے کہ ابوبکر کفار کو پتہ دے دیں گے اور آنحضرت (ص) کی طرف ان کی رہنمائی کردیں گے لہذا ان کو اپنے ساتھ لے کر غار کی طرف روانہ ہوئے)

تیسرے مناسب یہ تھا کہ آپ آیت میں محل استشہاد اور وجہ فضیلت کو بیان کرتے کہ رسول خدا(ص) کے ہمراہ سفر کرنا اثبات خلافت پر کیا دلیل قائم کرتا ہے۔

شیخ : محل استشہاد ظاہر ہے اول تو رسول اللہ کی مصاحبت اور یہ کہ خدا ان کو رسول اللہ(ص) کا مصاحب کہتا ہے دوسرے آںحضرت(ص) کے قول سے کہ خبر دیتے ہیں : ان اللہ معنا۔ تیسرے اس آیت میں خدا کی جانب سے ابوبکر پر نزول سکینہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ بلکہ اس سے تو ہمارے موافق ایک اور دلیل قائم ہوتی ہے کہ جو شخص حقیقتا خلیفہ رسول ہونے والا تھا خدا اس کو محفوظ رکھنے کا ذمہ دار تھا ۔ لہذا اس کو خطرے میں چھوڑ گئے اور جس کا وجود بعد رسول ضروری نہیں تھا وہ قتل بھی کیا جاسکتا تھا لہذا اس کو ساتھ لے لیا۔ 12 مترجم عفی عنہ۔

۲۱۴

شرف کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ اور ان دلائل کا مجموعہ ان کے لیے افضلیت اور تقدم خلافت کے حق کو ثابت کر رہا ہے۔

خیر طلب : یقینا کسی شخص کو ابوبکر کے ان مراتب سے انکار نہیں ہے کہ وہ بوڑھے مسلمان سن رسیدہ اصحاب میں سے اور رسول خدا کی بیوی کے باپ تھے لیکن آپ کے یہ دلائل فضیلت خاص اور خلافت میں حق تقدم کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ اپنے ان بیانات سے جو آپ نے اس آیہ شریفہ کے بارے میں دیے ہیں ، کسی بے غرض اور غیر متعلق انسان کے سامنے ان کی کوئی خاص فضیلت ثابت کریں تو قطعی طور پر آپ اعتراض کی زد میں آجائیںگے کیونکہ وہ آپ کے جواب میں کہے گا کہ تنہا نیک لوگوں کی مصاحبت فضیلت و برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی کتنے زیادہ - ایسے ہیں جنہوں نے نیکوں کی مصاحبت کی اور وہ کتنے زیادہ کفار وہ ہیں جو مسلمانوں کے مصاحب تھے اور ہیں۔ چنانچہ یہ حقائق مسافرت میں اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔

شواہد اور مثالیں

غالبا آپ حضرت بھول گئے ہیں کہ سورہ 12 ( یوسف) آیت نمبر49 میں خدائے تعالے حضرت یوسف کا قول نقل فرماتا ہے :

" يا صاحِبَيِ السِّجْنِ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ"

( یعنی اے میرے دونوں قید خانے کے رفیقو آیا متفرق خدا( جیسے اشنام و فراعنہ) اچھے ہیں ( جو پے حقیقت اور مجبور ہیں) یا خداے یکتا جو صاحب قہر و غلبہ ہے۔)

مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ جس روز یوسف(ع) کو قید خانے میں داخل کیا، پانچ سال یہ تینوں افراد مومن و کافر) ایک دوسرے کے مصاحب رہے اور یوسف تبلیغ کے موقع پر ان کو اپنا مصاحب کہتے بھی ہیں جیسا کہ اس آیت میں خبر دی گئی ہے تو کیا پیغمبر(ص) کی مصاحبت ان دونوں کافر شخصوں کے لیے شرف اور فضیلت کی دلیل تھی ؟ یا دوران مصاحبت میں ان کے عقیدے کے اندر کوئی تغییر پیدا ہوا؟ صاحبان تفاسیر و تواریخ کی تحریریں تو یہی بتاتی ہیں کہ پانچ سال صحبت میں رہنے کے بعد بھی آخر کار اسی حالت میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔ نیز سورہ 18 ( کہف) آیت 45 کی طرف توجہ فرمائیے جس میں ارشاد ہے:

"قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَ كَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا."

(یعنی اس کے ( باایمان اور فقیر) رفیق نے گفتگو اور نصیحت کے موقع پر اس سے کہا کہ کیا تو نے اس خدا کے ساتھ کفر اختیار کیا ۔ جس نے تجھ کو پہلے مٹی سے اس کے بعد نطفے سے پیدا کیا اور پھر ایک مکمل آدمی بنا دیا)

مفسرین نے عام طور سے لکھا ہے کہ دو بھائی تھے ایک مومن جس کا نام یہود اور دوسرا کافر جس کا نام راطوس تھا( جیسا کہ امام فخر رازی بھی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اپنی تفسیر کبیر میں نقل کرتے ہیں) یہ دوںوں آپس میں کچھ بات چیت رکھتے تھے جس کو مفصل نقل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ غرضیکہ خدا نے ان دو کافر فرد مومن کو ایک دوسرے کا مصاحب فرمایا ہے تو کیا

۲۱۵

مومن بھائی کی مصاحبت کا ذکر فائدہ اور فیض پہنچا؟ ظاہر ہے کہ جواب قطعا میں سے۔

پس صرف مصاحبت فضیلت و شرافت ، اور برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی ، جس کے دلائل اور نظائر بہت ہیں۔لیکن وقت اس سے زیادہ بیان کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

اور جو آپ نے یہ فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا ان اللہ معنا لہذا اس لحاظ سے کہ خدا ان کے ساتھ تھا قطعا یہ بات بھی دلیل شرافت اورخلافت کو ثابت کرنے والی ہ۔

تو بہتر ہوگا کہ اپنے ان عقائد اور الفاظ پر ذرا نظر ثانی فرمالیجئے تاکہ اس اعتراض کا نشانہ نہ بن جائیے کہ خدائے تعالی کیا صرف مومنین اور اولیاء اللہ کے ساتھ رہتا ہے اور غیر مومن کے ساتھ نہیں رہتا؟ آیا کوئی ایسی جگہ بیٹھے ہوں تو کیا عقل باور کرتی ہے کہ خدا اس مومن کے ساتھ ہو لیکن کافر کے ساتھ نہ ہو؟ کیا سورہ 58( مجادلہ) آیت نمبر7 میں خدا نہیں فرماتا ہے کہ:

"الم تر ان الله يَعْلَمُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ وَ لا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سادِسُهُمْ وَ لا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ ما كانُوا"

( یعنی بطریق استفہام تقریری فرماتا ہے کہ آیا تم نے نہیں دیکھا اور نہیں جانا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین کے اندر ہے خدا اس سے واقف ہے چنانچہ اگر تین شخص آپس میں راز کی باتیں کریں تو خدا ان کا جو تھا ہوگا اگر باغ شخص ہوں تو خدا، ان کا چھٹا ہوا گا۔ اور نہ اس سے کم اور زیادہ ہوسکتے ہیں بغیر اس کے کہ چاہیے جہاں ہوں خدا ان کے ساتھ ہوگا (کیونکہ وجود الہی عالم کے ہر جزو کل پر احاطہ کامل رکھتا ہے، پس اس آیت اور دوسری آیات اور دلائل عقلیہ و نقلیہ کے پیش نظر خدائے تعالی دوست و دشمن ، مسلمان و کافر، مومن منافق ہر شخص کے ساتھ ہے۔ پس اگر دو نفر ایک جگہ ہوں اور ان میں سے ایک کہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے تو کسی شخص خاص کی فضیلت پر دلیل نہ ہوگی۔ جس طرح سے کہ وہ نیک آدمی اگر یک جا ہوں تو خدا ان کے ساتھ ہے اسی طرح دو برے آدمی یا ایک اچھا ایک برا اکٹھا ہوں تو قطعا خدا ان دونوں کے ہمراہ ہوگا چاہیے وہ سعید ہوں یا شقی، نیک ہوں یا بد۔)

شیخ : اس سے مراد کہ خدا ہمارے ساتھ ہے یہ تھی کہ چونکہ ہم خدا کے محبوب ہیں اس لیے کہ خدا کی یاد میں، خدا کے لیے اور دین خدا کی حفاظت کی غرض سے روانہ ہوئے ہیں لہذا لطف خداوندی ہمارے شامل حال ہے۔

اظہار حقیقت

خیر طلب : اگر یہ مطلب لیا جائے تب بھی قابل اعتراض ہے اور کہا جائے گا کہ ایسا خطاب ابدی سعادت پر دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ خدائے تعالے اشخصاص کے اعمال دیکھتا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے گزرے ہیں جو ایک زمانے میں نیک اعمال بجالاتے تھے اور لطف و رحمت خداوندی ان کے شامل حال تھی۔ اس کے بعد ان سے برے اعمال سرزد ہوئے

۲۱۶

اور امتحان کے وقت نتیجہ برعکس نکلا تو پروردگار کے مبغوض ہوگئے اور لطف و رحمت الہی سے محروم ہو کر راندہ درگاہ اور مردود و ملعون ہوگئے۔ چنانچہ ابلیس ایک مدت تک خلوص نیت کے ساتھ عبادت خدا میں مشغول رہا تو الطاف و مراحم خداوندی سے سر فراز تھا لیکن جونہی اس نے سرکشی کی اور احکام الہی سےمنہ موڑ کر ہوائے نفس کا تابع ہوا تو مردود بارگاہ اور اس کی بے حساب رحمتوں سے محروم ہو کر خطاب :

" فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَ إِنَ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلى يَوْمِ الدِّينِ "

( یعنی سورہ نمبر15 ( حجر) آیت نمبر34 میں اس پر حق کامیاب ہوا کہ صفوف ملائکہ اور بہشت سے نکل جائے اور راندہ درگاہ ہوگیا اور تجھ پر روز قیامت تک حتمی طور پر ہماری لعنت ہے کہ ساتھ ملعون بدی بن گیا۔)

معاف فرمائیے گا مثل میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ یہ ذہنوں کو مطلب سے قریب لانے کے لیے ہے اور اگر ہم عالم بشریت پر نظر ڈالیں تو ایسے اشخاص کی بہت سی نظیریں ملیں گی جو درگاہ باری تعالی میں مقرب ہوئے لیکن امتحان کے موقع پر مردود و مغضوب پروردگار قرار پائے نمونے کے طور پر ہم دو شخصوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی طرف قرآن مجید نے بھی انسانوں کی بیداری اور غافلوں کی تنبیہ کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔

بلعم بن باعوراء

من جملہ ان کے بلعم بن باعوراء ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں اس قلہ مقرب الہی ہوا کہ خدا نے اس کو اسم اعظم عطا فرمایا چانچہ اپنی ایک دعا کے اثر سے اس نے حضرت موسی(ع) کو وادی میں تیہ میں سرگردان کردیا، لیکن امتحان کی منزل میں جب جاہ و ریاست طلبی نے اس کو خدا کی مخالفت اور شیطان کی پیروی پر آمادہ کردیا اور نار جہنم اس کا ٹھکانہ بن گیا۔

تمام مفسرین و مورخین نے تفصیل کے ساتھ اس کا حال لکھا ہے یہاں تک کہ امام فخررازی نے بھی اپنی تفسیر جلد چہارم ص463 میں ابن عباس ، ابن مسعود اور مجاہد سے اس کا قصہ نقل کیا ہے ۔ خدا سورہ نمبر7 (اعراف) آیت نمبر174 میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ :

" وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِى ءَاتَيْنَهُ ءَايَتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ"

( یعنی ( اے پیغمبر(ص)) ان لوگوں پر اس شخص ( یعنی بلعم بن باعوراء) کی حکایت بیان کرو جس کو ہم نے اپنی ؟؟؟؟؟ عطا کیں پس اس نے ان آیات سے روگردانی کی چنانچہ شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں شامل ہوگیا۔)

برصیصائے عابد

دوسرا برصیصا عابد تھا جس نے اولا عبادت میں اس قدر کوشش کی کہ مستجاب الدعوات ہوگیا لیکن امتحان کے وقت

۲۱۷

اس کا انجام خراب نکلا ، شیطان کے فریب میں مبتلا ہو کر ایک لڑکی سے زنا کیا، اپنی ساری محنتوں کو برباد کردیا، دار پر لٹکایا گیا اور دنیا سے کافر اٹھا ۔ چنانچہ سورہ59 ( حشر) آیت نمبر16 میں اس کے واقعے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

"كَمَثَلِ الشَّيْطانِ إِذْ قالَ لِلْإِنْسانِ اكْفُرْ- فَلَمَّا كَفَرَ قالَ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنْكَ- إِنِّي أَخافُ اللَّهَ رَبَّ الْعالَمِينَ- فَكانَ عاقِبَتَهُما أَنَّهُما فِي النَّارِ خالِدَيْنِ فِيها- وَ ذلِكَ جَزاءُ الظَّالِمِينَ "

( یعنی یہ منافق مثل میں شیطان کے مانند ہیں جس نے انسان سے ( یعنی برصیصائے عابد سے) کہا کہ کفر اختیار کر اور جب وہ کافر ہوگیا تو اس سے کہا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں کیونکہ میں پروردگار کے عذاب سے ڈرتا ہوں پس ان دونوں ( شیطان و برصیصا) کا یہ انجام ہوا کہ وہ دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یہی دوزخ ظالمین کا بدلا ہے۔)

غرضیکہ آدمی سے اگر کسی زمانے میں کوئی نیک عمل صادر ہوا ہے تو یہ اس کا انجام بخیر ہونے کی دلیل نہیں ہے ، اس وجہ سے ہدایت ہے کہ دعا میں کہو " اللہم اجعل عواقب امورنا خیرا" یعنی خداوندا ہمارے امور کے نتائج نیک قرار دے۔

ان چیزوں کے علاوہ آپ خود جانتے ہیں کہ علمائے معانی و بیان کے نزدیک طے شدہ بات ہے کہ کلام میں تاکید کا ذکر اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک مخاطب شک اور شبہ میں مبتلا نہ ہو یا اس کے خلاف نہ سوچ رہا ہو، اور آیہ شریفہ کا تصریح سے جس نے اپنا کلام جملہ اسمیہ اور ان مشددہ کے ساتھ پیش کیا ہے دوسرے فریق کے عقیدے کا فساد ظاہر ہوتا ہے کہ متزلزل و متوہم اور شک و شبہ میں مبتلا تھا۔

شیخ : انصاف کیجئے، آپ جیسے انسان کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس محل پر ابلیس بلعم بن باعوراء اور برصیصاء کی مثل پیش کریں۔

خیر طلب : معاف کیجئے ، شاید آپ نے سنا نہیں میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ مثل میں کوئی برائی نہیں ہے ،کیونکہ علمی مباحثات اور مذہبی مناظرات میں ذہنوں کو قریب کرنے اور مقاصد کو ثابت کرنے کے لیے مثالیں بیان کی جاتی ہیں خدا شاہد ہے کہ شواہد و امثال کے ذکر میں میں نے کبھی اہانت کا قصد نہیں کیا بلکہ اپنے نظریئے اور عقیدے کے ثبوت میں جو ںظریں اور مثالیں سامنے آتی ہیں پیش کردیتا ہوں۔

شیخ : اس آیت کے اندر اثبات فضیلت کی دلیل خود آیہ کریمہ کا ایک قرینہ ہے کہ فرماتا ہے" فانزل اللہ سکینۃ علیہ " چنانچہ سکینہ کی ضمیر ابوبکررضی اللہ عنہ کی طرف ہونا دوسروں پر ان کی شرافت و فضیلت اور آپ جیسے لوگوں کا وہم دور کرنے کے لیے خود ایک واضح دلیل ہے۔

خیر طلب: آپ کو دھوکا ہو رہا ہے ، سکینہ کی ضمیر رسول اکرم صلی اللہ علی و آلہ وسلم کی طرف پھرتی ہے اور نزول سکینہ آنحضرت (ص) پر ہوا تھا نہ کہ ابوبکر پر، جس کا قرینہ بعد والے جملے میں موجود ہے کہ فرمایا " وایدہ بجنود لم تروہا" اوریہ حقیقت ہے کہ غیبی لشکروں کی تائید رسول اللہ (ص) کےلیے تھی نہ کہ ابوبکر کے لیے۔

۲۱۸

شیخ : یہ مسلم ہے کہ جنود حق کی تائید رسول خدا(ص) کے لیے تھی لیکن، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آنحضرت(ص) کی مصاحبت میں بے بہرہ نہ تھے۔

نزول سکینہ رسول خدا(ص) پر ہوا

خیر طلب : اگر الطاف و مراحم الہیہ میں دونوں ہستیاں شامل تھیں تو قاعدے کے رو سے آیہ شریفہ کے تمام جملوں میں تثنیہ کی ضمیریں ہونا لازمی تھا حالانکہ قبل و بعد کی تمام ضمیریں مفرد استعمال ہوئی ہیں تاکہ ذات خاتم الانبیاء (ص) کے مدارج ثابت ہوجائیں اور معلوم ہوجائے کہ پروردگار کی جانب سے جو کچھ ، جہت و مرحمت نازل ہوتی ہے وہ آں حضرت کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے اور اگر آنحضرت(ص) طفیل میں دوسروں پر بھی نازل ہو تو ان کا نام ظاہر کیا جاتا ہے۔ لہذا سکینہ و رحمت کے نزول میں بھی اس آیت اور دوسری آیتوں میں صرف پیغمبر(ص) کو مورد عنایت قرار دیا ہے۔

شیخ : رسول خدا(ص) نزول سکینہ سے مستثنی تھے، ان کو اس کی کوئی احتیاج نہ تھی اور سکینہ ہرگز ان سے جدا نہیں ہوتا تھا پس نزول سکینہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخصوص تھا۔

خیر طلب : آپ کیوں بے لطفی کی باتیں کرتے ہیں اور بار بار انہیں مطالب کو دہرا کے جلسے کاوقت لیتے ہیں۔ آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ خاتم الانبیاء نزول سکینہ سے مستثنی تھے حالانکہ افراد خلائق میں سے پیغمبر(ص) و امت ،امام اور ماموم کوئی شخص بھی حق تعالی کے الطاف و عنایات سے مستغنی نہیں ہے ۔ کیا آپ سورہ نمبر9 ( توبہ) کی آیت نمبر26 کو بھول گئے ہیں جو حنین کے واقعے میں کہتی ہے "ثُمَ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ" ( یعنی اس وقت اللہ نے اپنے سکینہ و وقار ( یعنی شکوہ و سطوت اور جلال ربانی) کو اپنے رسول اور مومنین پر نازل فرمایا) نیز سورہ نمبر48 (فتح) کی آیت نمبر26 بھی اسی آیت شریفہ کے مانند ہے۔

جس طرح سے کہ اس آیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مومنین کی طرف اشارہ کیا ہے آیت غار میں بھی اگر ابوبکر ان مومنین کی ایک فرد ہوتے جن کو سکینہ و وقار میں شامل ہونا چاہیئے تو ضرورت تھی کہ تثنیہ کی ضمیر ہوتی یا علیحدہ ان کے نام کا ذکر کیا گیا ہوتا۔ یہ قصہ اتنا واضح ہے کہ خود آپ کے منصف علماء نے بھی اقرار کیا ہے کہ سکینہ کی ضمیر ابوبکر سے متعلق نہیں تھی۔ بہتر ہے کہ آپ حضرات کتاب نقض العثمانیہ مولفہ ابوجعفر محمد بن عبداللہ اسکافی کو جو آپ کے اکابر علماء اور شیوخ متعزلہ میں سے ہیں مطالعہ کیجئے تو دیکھئے گا کہ اس مرد عالم و منصف نے ابو عثمان بن حظ کی لا طائل باتوں کے جواب میں کس طرح حق کو آشکار کیا ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص253 تا ص281 میں ان میں سے بعض جواب نقل کئے ہیں۔

۲۱۹

علاوہ ان چیزوں کے خود آیت میں ایک ایسا جملہ موجود ہے جس سے مکمل طور پر آپ کے مقصد کے بر خلاف نتیجہ نکلتا ہے ۔ اور وہ جملہ یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) نے لا تحزن کہہ کے ابوبکر کو حزن و اندوہ سے منع فرمایا۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر اس حال میں غم زدہ تھے۔ تو ابوبکر کایہ حزن آیا کوئی اچھا عمل تھا یا برا؟ اگر عمل نیک تھا تو پیغمبر(ص) کسی کو عمل نیک اور اطاعت حق سے قطعا منع نہیں فرماتے اور اگر عمل بد اور گناہ تھا تو ایسے عمل والے کے لیے کوئی شرف و بزرگی نہیں ہوتی جس سے خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو اور وہ نزول سکینہ کا محل قرار پائے۔ بلکہ شرافت و فضیلت صرف مومنین اولیاء اللہ کے لیے ہوتی ہے۔

اور اولیاء اللہ کے لیے کچھ علامتیں ہوتی ہیں جن میں قرآن مجید کے بیان کی بناء پر سب سے اہم یہ ہے کہ حادثات زمانہ کے مقابلے میں ہرگز خوف و حزن اور غم و اندوہ کا اظہار نہ کریں بلکہ صبر و استقامت اختیار کریں، چنانچہ سورہ نمبر10 (یونس) آیت نمبر62 میں ارشاد ہے "أَلا إِنَ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ."

(یعنی آگاہ ہو کہ دوستان خدا کے دلوں میں ( آئندہ حادثات زمانہ کا ) کوئی خوف نہیں ہوتا اور نہ وہ ( دنیا کی اپنی گذشتہ مصیبتوں پر ) غم و اندوہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔)

جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو مولوی صاحبان گھڑیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ رات نصف سے کافی زیادہ گزر چکی ہے۔ نواب صاحب نے کہا کہ ابھی آیت کے بارے میں میں قبلہ صاحب کا بیان مکمل نہیں ہوا ہے اور کوئی آخری نتیجہ ہمارے ہاتھ نہیں آیا ہے ۔ ان حضرات نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ زحمت دینا مناسب نہیں سمجھتے لہذا بقیہ باتین کل شب کے لیے ملتوی کی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ اسلامی عیدوں میں سب سے بزرگ یعنی عید بعثت کی شب تھی۔ لہذا جلسے میں شربت اور مختلف اقسام کی شیرینی آئی اور مسرت و شادمانی کےساتھ یہ نشست تمام ہوئی۔)

چھٹی نشست

شب چہار شنبہ 28 رجب سنہ1345ھ

( قبل غروب جناب غلام امامین صاحب جو اہل تسنن میں سے ایک معزز تاجر اور شریف و متین انسان ہیں اور پہلی ہی شب سے شریک جلسے تھے تشریف لائے، انہوں نے بہت تہذیب کے ساتھ پر جوش انداز میں ایک مفصل بیان دیا جس کاخلاصہ یہ تھا کہ میں نے ذرا جلد آکر آپ کو اس لیے زحمت دی کہ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کراوں کہ آپ نے اپنے مدلل بیانات کے ذریعہ ہم میں سے متعدد افراد کو جذب کر لیا ہے ، دل مکمل طور پر متاثر ہیں اور ایسی نئی نئی باتین سننے میں آئی ہیں جن کو تقیہ کی بنا پر دوسرے لوگ بیان کرنے سے پرہیز کرتے تھے ۔ ہم بھی ان تمام چیزوں سے بالکل بے خبر تھے لیکن

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

۱۱۸ - وقَالَعليه‌السلام إِضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ.

۱۱۹ - وقَالَ علالسلام مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا - والسَّمُّ النَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا - يَهْوِي إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ ويَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ.

۱۲۰ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قُرَيْشٍ فَقَالَ - أَمَّا بَنُو مَخْزُومٍ فَرَيْحَانَةُ قُرَيْشٍ - نُحِبُّ حَدِيثَ رِجَالِهِمْ والنِّكَاحَ فِي نِسَائِهِمْ - وأَمَّا بَنُو عَبْدِ شَمْسٍ فَأَبْعَدُهَا رَأْياً - وأَمْنَعُهَا لِمَا وَرَاءَ ظُهُورِهَا - وأَمَّا نَحْنُ فَأَبْذَلُ لِمَا فِي أَيْدِينَا - وأَسْمَحُ عِنْدَ الْمَوْتِ بِنُفُوسِنَا - وهُمْ أَكْثَرُ وأَمْكَرُ وأَنْكَرُ - ونَحْنُ أَفْصَحُ وأَنْصَحُ وأَصْبَحُ.

(۱۱۸)

فرصت(۱) کا ضائع کردینا رنج و اندوہ کاباعث ہوتا ہے۔

(۱۱۹)

دنیا کی مثال سانپ جیسی ہے جوچھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے اور اس کے اندر زہر قاتل ہوتا ہے ۔ فریب خوردہ جاہل اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور صاحب عقل(۲) و ہوش اس سے ہوشیار رہتا ہے۔

(۱۲۰)

آپ سے قریش کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ بنی محزوم قریش کامہکتا ہواپھول ہیں۔ان سے گفتگو بھی اچھی لگتی ہے اور ان کی عورتوں سے رشتہ داری بھی محبوب ہے اوربنی عبد شمس بہت دورت کسوچنے والے اور اپنے پیٹھ پیچھے کی باتوں کی روک تھام کرنے والے ہیں۔لیکن ہم بنی ہاشم اپنے ہاتھ کی دولت کے لٹانے اورموت کے میدان میں جان دینے والے ہیں۔وہ لوگ عدد میں زیادہ ۔مکرو فریب میں آگے اوربد صورت ہیں اور ہم لوگ فصیح و بلیغ ' مخلص اور روشن چہرہ ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں ایسے مقامات بہت کم آتے ہیں جب کسی کام کا مناسب موقع ہاتھ آجاتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھالے اوراسے ضائع نہ ہونے دے کہ فرصت کا نکل جانا انتہائی رنج و اندوہ کاب اعث ہوتا ہے ۔

(۲)عقل کا کام یہ ہے کہ وہ اشیائکے باطن پرنگاہ رکھے اور صرف ظاہر کے فریب میں نہ آئے ورنہ سانپ کا ظاہر بھی انتہائی نرم و نازک ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر کا زہر انتہائی قاتل اورتباہ کن ہوتا ہے ۔

۶۶۱

۱۲۱ - وقَالَعليه‌السلام شَتَّانَ مَا بَيْنَ عَمَلَيْنِ - عَمَلٍ تَذْهَبُ لَذَّتُه وتَبْقَى تَبِعَتُه - وعَمَلٍ تَذْهَبُ مَئُونَتُه ويَبْقَى أَجْرُه.

۱۲۲ - وتَبِعَ جِنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا يَضْحَكُ فَقَالَ - كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ - وكَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ - وكَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الأَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيلٍ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ - نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ ونَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بَعْدَهُمْ - ثُمَّ قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظٍ ووَاعِظَةٍ ورُمِينَا بِكُلِّ فَادِحٍ وجَائِحَةٍ

(۱۲۱)

ان دو طرح کے اعمال میں کس قدر فاصلہ پایا جاتا ہے۔وہ عمل(۱) جس کی لذت ختم ہو جائے اوراس کا وبال باقی رہ جائے اوروہ عمل جس کی زحمت ختم ہو جائے اور اجرباقی رہ جائے ۔

(۱۲۲)

آپ نے ایک جنازہ میں شرکت فرمائی اور ایک شخص کو ہنستے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا '' ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موت کسی اور کے لئے لکھی گئی ہے اور یہ حق کسی دوسرے پر لازم قراردیا گیا ہے اور گویا کہجن مرنے والوں کو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایسے مسافر ہیں جو عنقریب واپس آنے والے ہیں کہ ادھر ہم انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں اور ادھر(۲) ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں جیسے ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔اس کے بعد ہم نے ہر نصیحت کرنے والے مرد اورعورت کو بھلا دیا ہے اور ہر آفت و مصیبت کا نشانہ بن گئے ہیں۔

(۱)دنیا اورآخرت کے اعمال کا بنیادی فرق یہی ہے کہ دنیا کے اعمال کی لذت ختم ہو جاتی ہے اور آخرت میں اس کا حساب باقی رہ جاتا ہے اورآخرت کے اعمال کی زحمت ختم ہو جاتی ہے اوراس کا اجرو ثواب باقی رہ جاتا ہے۔

(۲)انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ کسی مرحلہ پر عبرت حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اور ہر منزل پراس قدر غافل ہو جاتا ہے جیسے نہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ ہے اور نہ سمجھنے والی عقل ۔ورنہ اس کے معنی کیا ہیں کہ آگے آگے جنازہ جا رہاہے اور پیچھے لوگ ہنسی مذاق کر رہے ہیں یا سامنے میت کو قبر میں اتارا جا رہا ہے اورحاضرین کرام دنیا کے سیاسی مسائل حل کر رہے ہیں۔یہ صورت حال اس بات کی علامت ہے کہ انسان بالکل غافل ہو چکا ہے اور اسے کسی طرح کا ہوش نہیں رہ گیا ہے۔

۶۶۲

۱۲۳ - وقَالَعليه‌السلام طُوبَى لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِه وطَابَ كَسْبُه - وصَلَحَتْ سَرِيرَتُه وحَسُنَتْ خَلِيقَتُه - وأَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِه وأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِه - وعَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّه ووَسِعَتْه السُّنَّةُ ولَمْ يُنْسَبْ إلَى الْبِدْعَةِ.

قال الرضي أقول ومن الناس من ينسب هذا الكلام إلى رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وكذلك الذي قبله.

۱۲۴ - وقَالَعليه‌السلام غَيْرَةُ الْمَرْأَةِ كُفْرٌ وغَيْرَةُ الرَّجُلِ إِيمَانٌ.

۱۲۵ - وقَالَعليه‌السلام لأَنْسُبَنَّ الإِسْلَامَ نِسْبَةً لَمْ يَنْسُبْهَا أَحَدٌ قَبْلِي - الإِسْلَامُ هُوَ التَّسْلِيمُ

(۱۲۳)

خوشا بحال اس کاجس نے اپنے اندر تواضع کی ادا پیدا کی ' اپنے کسب کو پاکیزہ بنالیا۔اپنے باطن کونیک کرلیا اپنے اخلاق کوحسین بنالیا۔اپنے مال کے زیادہ حصہ کو راہ خدا میں خرچ کردیا اور اپنی زبان درازی پر قابو پالیا۔اپنے شر کو لوگوں سے دور رکھا اورسنت کو اپنی زندگی میں جگہ دی اور بدعت سے کوئی نسبت نہیں رکھی۔

سید رضی: بعض لوگوں نے اس کلام کو رسول اکرم (ص) کے حوالہ سے بھی بیان کیا ہے جس طرح کہ اس سے پہلے والا کلام حکمت ہے ۔

(۱۲۴)

عورت کا غیرت(۱) کرنا کفر ہے اور مرد کا غیور ہونا عین ایمان ہے۔

(۱۲۵)

میں اسلام کی وہ تعریف کر رہا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں کر سکا ہے۔اسلام سپردگی ہے اور

(۱)اسلام نے اپنے مخوص مصالح کے تحت مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے اور اسی کو عالمی مسائل کا حل قرار دیا ہے لہٰذا کسی عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہمرد کی دوسری شادی پر اعتراض کرے یا دوسری عورت سے حسد اور بیزاری کا اظہار کرے کہ یہ بیزاری در حقیقت اس دوسری عورت سے نہیں ہے اسلام کے قانون ازدواج سے ہے اور قانون الٰہی سے بیزاری اور نفرت کا احساس کرنا کفر ہے اسلام نہیں ہے۔

اس کے بر خلاف عورت کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دی گئی ہے لہٰذا شوہر کا حق ہے کہ اپنے ہوتے ہوئے دوسرے شوہر کے تصورسے بیزاری کا اظہارکرے اوریہی اس کے کمال حیا و غریت اور کمال اسلام و ایمان کی دلیل ہے لہٰذا عورت کا غیرت کرنا کفر ہے اور مرد کا غیرت کرنا اسلام و ایمان کے مرادف ہے۔

۶۶۳

والتَّسْلِيمُ هُوَ الْيَقِينُ - والْيَقِينُ هُوَ التَّصْدِيقُ والتَّصْدِيقُ هُوَ الإِقْرَارُ - والإِقْرَارُ هُوَ الأَدَاءُ والأَدَاءُ هُوَ الْعَمَلُ.

۱۲۶ - وقَالَعليه‌السلام عَجِبْتُ لِلْبَخِيلِ يَسْتَعْجِلُ الْفَقْرَ الَّذِي مِنْه هَرَبَ - ويَفُوتُه الْغِنَى الَّذِي إِيَّاه طَلَبَ - فَيَعِيشُ فِي الدُّنْيَا عَيْشَ الْفُقَرَاءِ - ويُحَاسَبُ فِي الآخِرَةِ حِسَابَ الأَغْنِيَاءِ - وعَجِبْتُ لِلْمُتَكَبِّرِ الَّذِي كَانَ بِالأَمْسِ نُطْفَةً - ويَكُونُ غَداً جِيفَةً - وعَجِبْتُ لِمَنْ شَكَّ فِي اللَّه وهُوَ يَرَى خَلْقَ اللَّه - وعَجِبْتُ لِمَنْ نَسِيَ الْمَوْتَ وهُوَ يَرَى الْمَوْتَى - وعَجِبْتُ لِمَنْ أَنْكَرَ النَّشْأَةَ الأُخْرَى - وهُوَ يَرَى النَّشْأَةَ الأُولَى - وعَجِبْتُ لِعَامِرٍ دَارَ الْفَنَاءِ وتَارِكٍ دَارَ الْبَقَاءِ.

۱۲۷ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ قَصَّرَ فِي الْعَمَلِ ابْتُلِيَ بِالْهَمِّ ولَا حَاجَةَ لِلَّه فِيمَنْ لَيْسَ لِلَّه فِي مَالِه ونَفْسِه نَصِيبٌ.

سپردگی یقین ۔یقین تصدیق ہے اورتصدیق اقرار۔اقرار ادائے فرض ہے اور ادائے فرض عمل۔

(۱۲۶)

مجھے بخیل کے حال پر تعجب ہوتا ہے کہ اسی فقر میں مبتلا ہو جاتا ہے جس سے بھا گ رہا ہے اور پھر اس دولت مندی سے محروم ہو جاتا ہے جس کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔دنیا میں فقیروں جیسی زندگی گزارتا ہے اورآخرت میں مالداروں جیسا حساب دینا پتا ہے۔اسی طرح مجھے مغرورآدمی پر تعجب ہوتا ہے کہ جو کل نطفہ تھا اور کل مردار ہو جائے گا اورپھراکڑ رہا ہے۔مجھے اس شخص کے بارے میں بھی حیرت ہوتی ہے جو وجودخدامیں شک کرتا ہے حالانکہ مخلوقات خدا کو دیکھ رہا ہے اور اس کاحال بھی حیرت انگیز ہے جو موت کو بھولا ہوا ہے حالانکہ مرنے والوں کو برابر دیکھ رہا ہے۔مجھے اس کے حال پر بھی تعجب ہوتا ہے جو آخرت کے امکان کا انکار کردیتا ہے حالانکہ پہلے وجود کامشاہدہ کر رہا ہے۔اور اس کے حال پر بھی حیرت ہے جو فنا ہو جانے والے گھر کو آباد کر رہا ہے اورباقی رہ جانے والے گھر کوچھوڑے ہوئے ہے۔

(۱۲۷)

جس نے عمل میں کوتاہی کی وہ رنج و اندوہمیں بہر حال مبتلا ہوگا اور اللہ کو ایسے بندہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے جس کے جان(۱) و مال میں اللہ کا کوئی حصہ نہ ہو۔

(۱)بخل اوربزدلی اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنے جان و مال میں سے کوئی حصہ اپنے پروردگار کو نہیں دینا چاہتا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب بندہ محتاج ہو کر مالک سے بے نیاز ہو نا چاہتا ہے تو مالک کو اس کی کیا غرض ہے۔وہ بھی قطع تعلق کرل یتا ہے۔

۶۶۴

۱۲۸ - وقَالَعليه‌السلام تَوَقَّوُا الْبَرْدَ فِي أَوَّلِه وتَلَقَّوْه فِي آخِرِه - فَإِنَّه يَفْعَلُ فِي الأَبْدَانِ كَفِعْلِه فِي الأَشْجَارِ - أَوَّلُه يُحْرِقُ وآخِرُه يُورِقُ

۱۲۹ - وقَالَعليه‌السلام عِظَمُ الْخَالِقِ عِنْدَكَ يُصَغِّرُ الْمَخْلُوقَ فِي عَيْنِكَ.

۱۳۰ - وقَالَعليه‌السلام : وقَدْ رَجَعَ مِنْ صِفِّينَ فَأَشْرَفَ عَلَى الْقُبُورِ بِظَاهِرِ الْكُوفَةِ

يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ - والْمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ والْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ - يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ - يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ - أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ ونَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ - أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وأَمَّا الأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ - وأَمَّا الأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ - هَذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ؟

ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِه فَقَالَ -

(۱۲۸)

سردی کے موسم سے ابتدا میں احتیاط کرو اور آخرمیں اس کا خیرمقدم کرو کہ اس کا اثر بدن پر درختوں کے پتوں جیسا ہوتا ہے کہ یہموسم ابتدا میں پتوں کو جھلسا دیتا ہے اور آخر میں شاداب بنا دیتا ہے ۔

(۱۲۹)

اگر خالق کی عظمت کا احساس پیدا ہو جائے گا تو مخلوقات خود بخود نگاہوں سے گر جائے گی۔

(۱۳۰)

صفین سے واپسی پر کوفہسے باہر قبرستان پرنظر پڑ گئی تو فرمایا۔اے وحشت ناک گھروں کے رہنے والو! اے ویران مکانات کے باشندو! اور تاریک قبروں میں بسنے والو۔ اے خاک نشینو۔اے غربت ' وحدت اور وحشت والو! تم ہم سے آگے چلے گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پرچل کر تم سے ملحق ہونے والے ہیں ۔دیکھو تمہارے مکانات آباد ہوچکے ہیں ۔تمہاری بیویوں کادوسرا عقد ہو چکا ہے اور تمہارے اموال تقسیم ہو چکے ہیں۔یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے۔اب تم بتائو کہ تمہارے یہاں کی خبر کیا ہے ؟

اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ

۶۶۵

أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلَامِ - لأَخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى.

۱۳۱ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ سَمِعَ رَجُلًا يَذُمُّ الدُّنْيَا - أَيُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْيَا الْمُغْتَرُّ بِغُرُورِهَا - الْمَخْدُوعُ بِأَبَاطِيلِهَا أَتَغْتَرُّ بِالدُّنْيَا ثُمَّ تَذُمُّهَا - أَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَيْهَا أَمْ هِيَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَيْكَ - مَتَى اسْتَهْوَتْكَ أَمْ مَتَى غَرَّتْكَ - أَبِمَصَارِعِ آبَائِكَ مِنَ الْبِلَى - أَمْ بِمَضَاجِعِ أُمَّهَاتِكَ تَحْتَ الثَّرَى - كَمْ عَلَّلْتَ بِكَفَّيْكَ وكَمْ مَرَّضْتَ بِيَدَيْكَ - تَبْتَغِي لَهُمُ الشِّفَاءَ وتَسْتَوْصِفُ لَهُمُ الأَطِبَّاءَ - غَدَاةَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ دَوَاؤُكَ ولَا يُجْدِي عَلَيْهِمْ بُكَاؤُكَ - لَمْ يَنْفَعْ أَحَدَهُمْ إِشْفَاقُكَ ولَمْ تُسْعَفْ فِيه بِطَلِبَتِكَ - ولَمْ تَدْفَعْ عَنْه بِقُوَّتِكَ

''اگر انہیں بولنے کی اجازت(۱) مل جاتی تو تمہیں صرف یہ پیغام دیتے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ الٰہی ہے۔

(۱۳۱)

ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا۔اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اس کے فریب میں مبتلا ہو کراس کے مہملات سے دھوکہ کھا جانے والے ! تو اسی سے دھوکہ بھی کھاتا ہے اور اسی کی مذمت بھی کرتا ہے۔یہ بتا کہ تجھے اس پر الزام لگانے کاحق ہے یا اسے تجھ پرالزام لگانے کاحق ہے۔آخر اس نے کب تجھ سے تیری عقل کو چھین لیا تھا اور کب تجھ کو دھوکہ دیا تھا؟ کیا تیرے آباء واجداد کی کہنگی کی بنا پرگرنے سے دھوکہ دیا ہے یا تمہاری مائوں کی زیرخاک خواب گاہ سے دھوکہ دیا ہے ؟ کتنے بیمار ہیں جن کی تم نے تیمارداری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے ان کا علاج کیا ہے اورچاہا ہے کہ وہ شفایاب ہوجائیں اور اطباء سے رجوع بھی کیا ہے۔اس صبح کے ہنگام جب نہ کوئی دوا کام آرہی تھی اور نہ رونا دھونافائدہ پہنچا رہا تھا۔ نہ تمہاری ہدردی کسی کو فائدہ پہنچا سکی اور نہ تمہارا مقصد حاصل ہو سکا اور نہ تم موت کو دفع کر سکے

(۱)انسانی زندگی کے دو جزء ہیں ایک کا نام ہے جسم اور ایک کا نام ہے روح اور انہیں دونوں کے اتحاد و اتصال کا نام ہے زندگی اور انہیں دونوں کی جدائی کا نام ہے موت۔اب چونکہ جسم کی بقا روح کے وسیلہ سے لہٰذا روح کے جدا ہو جانے کے بعد وہ مردہ بھی ہو جاتا ہے اور سڑ گل بھی جاتا ہے اور اس کے اجزاء منتشر ہو کرخاک میں مل جاتے ہیں۔لیکن روح غیر مادی ہونے کی بنیاد پراپنے عالم سے ملحق ہہو جاتی ہے اور زندگی رہتی ہے یہ اوربات ہے کہ اس کے تصرفات اذن الٰہی کے پابندہوتے ہیں اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کر سکتی ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ مردہ زندوں کی آواز سن لیتا ہے لیکن جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔

امیر المومنین نے اسی راز زندگی کی نقاب کشائی فرمائی ہے کہ یہ مرنے والے جواب دینے کے لائق نہیں ہیں لیکن پروردگار نے مجھے وہ علم عنایت فرمایا ہے جس کے ذریعہ میں یہ احساس کرسکتا ہوں کہ ان مرنے والوں کے لا شعور میں کیا ہے اور یہ جواب دینے کے قابل ہوتے تو کیا جواب دیتے اور تم بھی ان کی صورت حال کومحسوس کر لو تو اس امر کا اندازہ کرسکتے ہو کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب اور کوئی پیغام نہیں ہے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔

۶۶۶

وقَدْ مَثَّلَتْ لَكَ بِه الدُّنْيَا نَفْسَكَ وبِمَصْرَعِه مَصْرَعَكَ - إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا - ودَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا - ودَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا - ودَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا - مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللَّه ومُصَلَّى مَلَائِكَةِ اللَّه - ومَهْبِطُ وَحْيِ اللَّه ومَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللَّه - اكْتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ ورَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ - فَمَنْ ذَا يَذُمُّهَا وقَدْ آذَنَتْ بِبَيْنِهَا ونَادَتْ بِفِرَاقِهَا - ونَعَتْ نَفْسَهَا وأَهْلَهَا فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلَائِهَا الْبَلَاءَ - وشَوَّقَتْهُمْ بِسُرُورِهَا إِلَى السُّرُورِ - رَاحَتْ بِعَافِيَةٍ وابْتَكَرَتْ بِفَجِيعَةٍ - تَرْغِيباً وتَرْهِيباً وتَخْوِيفاً وتَحْذِيراً - فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ - وحَمِدَهَا آخَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - ذَكَّرَتْهُمُ الدُّنْيَا فَتَذَكَّرُوا وحَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوا - ووَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوا.

اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلادی تھی اور تمہیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کردیا تھا(لیکن تمہیں ہوش نہ آیا) یاد رکھو کہ دنیا باورکرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے اورسمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کامقام ہے۔یہ دوستان(۱) خدا کے سجود کی منزل اور ملائکہ آسمان کا مصلیٰ ہے یہیں وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خداآخرت کا سودا کرتے ہیں جس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کر لیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں۔کسے حق ہے کہ اس کی مذمت کرے جب کہ اس نے اپنی جداء یکا اعلان کردیا ہے اور اپنے فراق کی آواز لگادی ہے اور اپنے رہنے والوں کی سنانی سنادی ہے اپنی بلاء سے ان کے ابتاء کا نقشہ پیش کیا ہے اور اپنے سرورسے آخرت کے سرور کی دعوت دی ہے۔اس کی شام عافیت میں ہوتی ہے تو صبح مصیبت میں ہوتی ہے تاکہ انسان میں رغبت بھی پیدا ہو اورخوف بھی۔اسے آگاہ بھی کردے اور ہوشیار بھی بنادے۔کچھ لوگندامت کی صبح اس کی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے روز اس کی تعریف کریں گے جنہیں دنیا نے نصیحت کی تو انہوںنے اسے قبول کرلیا۔اسنے حقائق بیان کئے تو اس کی تصدیق کردی اورموعظہ کیا تواس کے موعظہ سے اثر لیا۔

(۱)بھلا اس سر زمین کو کون برا کہہ سکتا ہے جس پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔اولیاء خدا سجدہ کرتے ہیںخاصان خدا زندگی گزارتے ہیں اورنیک بندے اپنی عاقبت بنانے کا سامان کرتے ہیں۔یہ سر زمین بہترین سرزمین ہے اور یہ علاقہ مفید ترین علاقہ ہے مگر صرف ان لوگوں کے لئے جو اس کا وہی مصرف قرار دیں جوخاصان خدا قرار دیتے ہیں اور اس سے اسی طرح عاقبت سنوارنے کا کام لیں جس طرح اورلیاء خدا کام لیتے ہیں۔ورنہ اس کے بغیر یہ دنیا بلاء ہے بلائ۔اوراس کا انجام تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۶۶۷

۱۳۲ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلَّه مَلَكاً يُنَادِي فِي كُلِّ يَوْمٍ - لِدُوا لِلْمَوْتِ واجْمَعُوا لِلْفَنَاءِ وابْنُوا لِلْخَرَابِ.

۱۳۳ - وقَالَعليه‌السلام الدُّنْيَا دَارُ مَمَرٍّ لَا دَارُ مَقَرٍّ والنَّاسُ فِيهَا رَجُلَانِ - رَجُلٌ بَاعَ فِيهَا نَفْسَه فَأَوْبَقَهَا ورَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَه فَأَعْتَقَهَا.

۱۳۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَكُونُ الصَّدِيقُ صَدِيقاً حَتَّى يَحْفَظَ أَخَاه فِي ثَلَاثٍ - فِي نَكْبَتِه وغَيْبَتِه ووَفَاتِه.

(۱۳۲)

پروردگار کی طرف سے ایک ملک معین ہے جو ہر روز آواز دیتا ہے کہ ایہا لناس ! پیدا کرو تو مرنے کے لئے جمع کرو تو فنا ہونے کے لئے اور تعمیر کرو تو خراب ہونے کے لئے ( یعنی آخری انجام کو نگاہ میں رکھو)

(۱۳۳)

دنیا ایک گزر گاہ ہے ۔منزل نہیں ہے اس میں لوگ دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو بیچ ڈالا اور ہلاک کردیا اورایک وہ ہے جس نے خرید لیا اورآزاد کردیا۔

(۱۳۴)

دوست اس وقت تک دوست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اپنے دوست کے تین مواقع پر کام نہ آئے ۔

مصیبت کے موقع پر۔اس کی غیبت میں۔اور مرنے کے بعد۔

۶۶۸

۱۳۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أُعْطِيَ أَرْبَعاً لَمْ يُحْرَمْ أَرْبَعاً - مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَمِ الإِجَابَةَ - ومَنْ أُعْطِيَ التَّوْبَةَ لَمْ يُحْرَمِ الْقَبُولَ - ومَنْ أُعْطِيَ الِاسْتِغْفَارَ لَمْ يُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ - ومَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّيَادَةَ.

قال الرضي - وتصديق ذلك كتاب الله - قال الله في الدعاء( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) - وقال في الاستغفار( ومَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَه - ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ الله يَجِدِ الله غَفُوراً رَحِيماً ) - وقال في الشكر( لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ) - وقال في التوبة -( إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى الله لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ - ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولئِكَ يَتُوبُ الله عَلَيْهِمْ - وكانَ الله عَلِيماً حَكِيماً ) .

۱۳۶ - وقَالَعليه‌السلام الصَّلَاةُ قُرْبَانُ كُلِّ تَقِيٍّ - والْحَجُّ جِهَادُ كُلِّ ضَعِيفٍ - ولِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ

(۱۳۵)

جسے چار چیزیں دیدی گئیں وہ چار سے محروم نہیں رہ سکتا ہے۔جسے دعا کی توفیق مل گئی وہ قبولیت سے محروم نہ ہوگا اور جسے توبہ کی توفیق حاصل ہوگئی وہ قبولیت سے محروم نہ ہوگا۔استغفار حاصل کرنے والا مغفرت سے محروم نہ ہوگا اور شکر کرنے والا اضافہ سے محروم نہ ہوگا۔

سید رضی : اس ارشاد گرامی کی تصدیق آیات قرآنی سے ہوتی ہے کہ پروردگار نے دعا کے بارے میں فرمایا '' مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔اور استغفار کے بارے میں فرمایا ہے '' جو برائی کرنے کے بعد یا اپنے نفس پر ظلم کرنے کے بعد خداسے توبہ کرلے گا وہ اسے غفورورحیم پائے گا ''

شکر کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے '' اگر تم شکریہ ادا کرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے '' اورتوبہ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے '' توبہ ان لوگوں کے لئے جو جہالت کی بناپرگناہ کرتے ہیں اور پھر فوراً توبہ کر لیتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ کو اللہ قبول کرلیتا ہے اوروہ ہر ایک کی نیت سے با خبر بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے ''

(۱۳۶)

نماز متقی کے لئے وسیلہ تقرب ہے اورحج ہر کمزور کے لئے جہاد ہے۔ہر شے کی ایک زکوٰة ہوتی ہے

۶۶۹

وزَكَاةُ الْبَدَنِ الصِّيَامُ - وجِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ

۱۳۷ - وقَالَعليه‌السلام اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ.

۱۳۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَيْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِيَّةِ.

۱۳۹ - وقَالَعليه‌السلام تَنْزِلُ الْمَعُونَةُ عَلَى قَدْرِ الْمَئُونَةِ.

۱۴۰ - وقَالَعليه‌السلام مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ.

۱۴۱ - وقَالَعليه‌السلام قِلَّةُ الْعِيَالِ أَحَدُ الْيَسَارَيْنِ.

اور بدن کی زکوٰة روزہ ہے۔عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ بہترین برتائو(۱) ہے۔

(۱۳۷)

روزی کے نزول کا انتظام صدقہ کے ذریعہ سے کرو۔

(۱۳۸)

جسے معاوضہ کا یقین ہوتاہے وہ عطاء میں دریا دلی سے کام لیتا ہے ۔

(۱۳۹)

خدا ئی امداد کا نزول بقدرخرچ ہوتا ہے ( ذخیرہ انوزی اورفضول خرچی کے لئے نہیں )

(۱۴۰)

جو میانہ روی سے کام لے گاہ وہ محتاج نہ ہوگا۔

(۱۴۱)

متعلقین کی کمی(۲) بھی ایک طرح کی آسودگی ہے۔

(۱)اس بہترین برتائو میں اطاعت 'عفت 'تدبیرمنزل ' قناعت ' عدم مطالبات ' غیرتو حیا اور طلب رضا جیسی تمام چیزیں شامل ہیں جن کے بغیر ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں ہو سکتی ہے۔اور دن بھر زحمت برداشت کرکینقہ فراہم کرنے والا شوہر آسودہ مطمئن نہیں ہو سکتا ہے۔

(۲)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تنظیم حیات ایک عقلی فریضہ ہے اور ہر مسئلہ کوصرف توکل بخدا کے حوالہ نہیںکیا جا سکتا ہے۔اسلام نے ازدواجی ' کثرت نسل پر زور دیا ہے۔لیکن دامن دیکھ کر پیر پھیلانے کا شعور بھیدیا ہے لہٰذا انسان کیذمہ داری ہے کہ ان دونوں کے درمیان سے راستہ نکالے اور اس امر کے لئے آمادہ رہے کہ کثرت متعلقین سے پریشانی ضرور پیدا ہوگی اور پھرپریشانی کی شکایت اورفریاد نہ کرے ۔

۶۷۰

۱۴۲ - وقَالَعليه‌السلام التَّوَدُّدُ نِصْفُ الْعَقْلِ.

۱۴۳ - وقَالَعليه‌السلام الْهَمُّ نِصْفُ الْهَرَمِ.

۱۴۴ - وقَالَعليه‌السلام يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ - ومَنْ ضَرَبَ يَدَه عَلَى فَخِذِه عِنْدَ مُصِيبَتِه حَبِطَ عَمَلُه.

۱۴۵ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَه مِنْ صِيَامِه إِلَّا الْجُوعُ والظَّمَأُ - وكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَه مِنْ قِيَامِه إِلَّا السَّهَرُ والْعَنَاءُ - حَبَّذَا نَوْمُ الأَكْيَاسِ وإِفْطَارُهُمْ.

۱۴۶ - وقَالَعليه‌السلام سُوسُوا إِيمَانَكُمْ بِالصَّدَقَةِ وحَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ - وادْفَعُوا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ.

(۱۴۲)

میل محبت پیدا کرنا عقل کا نصف حصہ ہے۔

(۱۴۳)

ہم و غم خودبھی آدھا بڑھاپا ہے۔

(۱۴۴)

صبر بقدر مصیبت نازل ہوتا ہے اور جس نے مصیبت کے موقع پر ران پر ہاتھ مارا۔گویا کہ اپنے عمل اور اجر کو برباد کردیا (ہنر صبر ہے ہنگامہ نہیں ہے۔لیکن یہ سب اپنی ذاتی مصیبت کے لئے ہے )

(۱۴۵)

کتنے روزہ دار ہیں جنہیں روزہ سے بھوک اورپیاس کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے اور کتنے عابد شب زندہ دار ہیں جنہیں اپنے قیام سے شب بیداری اورمشقت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ہوشمند(۱) ا نسان کا سونا اور کھانابھی قابل تعریف ہوتا ہے۔

(۱۴۶)

اپنے ایمان کی نگہداشت(۲) صدقہ سے کرو اور اپنے اموال کی حفاظت زکوٰة سے کرو۔بلائوں کے تلاطم کودعائوں سے ٹال دو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان عبادت کو بطور رسم و عادت انجام نہ دے بلکہ جذبہ اطاعت و بندگی کے تحت انجام دے تاکہ واقعاً بندۂ پروردگار کہے جانے کے قابل ہو جائے ورنہ شعور بندگی سے الگ ہو جانے کے بعد بندگی بے ارزش ہو کر رہ جاتی ہے۔

(۲)صدقہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کو وعدہ ٔ الٰہی پراعتبار ہے اوروہ یہ یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اس کی راہ میں دے دیا ہے وہ ضائع ہونے والا نہیں ہے بلکہ دس گنا ۔سو گناہ ۔ہزار گنا ہوکر واپس آنے والا ہے اور یہی کمال ایمان کی علامت ہے ۔

۶۷۱

۱۴۷ - ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

لِكُمَيْلِ بْنِ زِيَادٍ النَّخَعِيِّ قَالَ كُمَيْلُ بْنُ زِيَادٍ - أَخَذَ بِيَدِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍعليه‌السلام - فَأَخْرَجَنِي إِلَى الْجَبَّانِ فَلَمَّا أَصْحَرَ تَنَفَّسَ الصُّعَدَاءَ - ثُمَّ قَالَ:

يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ - إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ أَوْعِيَةٌ فَخَيْرُهَا أَوْعَاهَا - فَاحْفَظْ عَنِّي مَا أَقُولُ لَكَ: النَّاسُ ثَلَاثَةٌ - فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ ومُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ - وهَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيحٍ - لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ ولَمْ يَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِيقٍ.

يَا كُمَيْلُ الْعِلْمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَالِ - الْعِلْمُ يَحْرُسُكَ وأَنْتَ تَحْرُسُ الْمَالَ - والْمَالُ تَنْقُصُه النَّفَقَةُ والْعِلْمُ يَزْكُوا عَلَى الإِنْفَاقِ - وصَنِيعُ الْمَالِ يَزُولُ بِزَوَالِه.

يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ مَعْرِفَةُ الْعِلْمِ دِينٌ يُدَانُ بِه - بِه يَكْسِبُ الإِنْسَانُ الطَّاعَةَ فِي حَيَاتِه - وجَمِيلَ الأُحْدُوثَةِ بَعْدَ وَفَاتِه - والْعِلْمُ حَاكِمٌ والْمَالُ مَحْكُومٌ عَلَيْه.

يَا كُمَيْلُ هَلَكَ خُزَّانُ الأَمْوَالِ وهُمْ أَحْيَاءٌ -

(۱۴۷)

آپ کا ارشاد گرامی جناب کمیل بن زیاد نخعی سے کمیل کہتے ہیں کہ امیر المومنین میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان کی طرف لے گئے اور جب آبادی سے باہرنکل گئے تو ایک لمبی آہ کھینچ کرفرمایا: ۔ اے کمیل بن زیاد!دیکھو یہ دل ایک طرح کے ظرف ہیں لہٰذا سب سے بہتر وہ دل ہے جو سب سے زیادہ حکمتوں کو محفوظکرسکے اب تم مجھ سے ان باتوں کو محفوظ کرلو۔لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں : خدا رسیدہ عالم۔راہ نجات پر چلنے والا طالب علم اورعوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آوازکے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا ک ساتھ لہرانے لگتا ہے۔اسنے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کاس ہارا لیا ہے۔

اے کمیل !دیکھو علم مال(۱) سے بہرحال بہتر ہوتا ہے کہ علم خود تمہاری حفاظت کرتا ہے اورمال کی حفاظت تمہیں کرنا پڑتی ہے مال خرچ کرنے سے کم ہو جاتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔پھر مال کے نتائج و اثرات بھی اس کے فناہونے کے ساتھ ہی فنا ہو جاتے ہیں۔

اے کمیل بن زیاد! علم کی معرفت ایک دین ہے جس کی اقتدا کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ انسان زندگی میں اطاعت حاصل کرتا ہے اور مرنے کے بعد ذکرجمیل فراہم کرتا ہے۔علم حاکم ہوتا ہے اورمال محکوم ہوتا ہے۔ کمیل دیکھو مال کاذخیرہ کرنے والے جیتے جی ہلاک ہوگئے اور صاحبان علم

(۱)علم و مال کے مراتب کے بارے میں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مال کی پیداوار بھی علم کا نتیجہ ہوتی ہے ورنہ ریگستانی علاقوں میں ہزاروں سال سے پٹرول کے خزانے موجود تھے اور انسان سے بالکل بے خبر تھا۔اس کے بعد جیسے ہی علم نے میدان انکشافات میں قدم رکھا' برسوں کے فقیر امیر ہوگئے اورصدیوں کے فاقہ کش صاحب مال و دولت شمار ہونے لگے۔

۶۷۲

والْعُلَمَاءُ بَاقُونَ مَا بَقِيَ الدَّهْرُ - أَعْيَانُهُمْ مَفْقُودَةٌ وأَمْثَالُهُمْ فِي الْقُلُوبِ مَوْجُودَةٌ - هَا إِنَّ هَاهُنَا لَعِلْماً جَمّاً وأَشَارَ بِيَدِه إِلَى صَدْرِه لَوْ أَصَبْتُ لَه حَمَلَةً - بَلَى أَصَبْتُ لَقِناً غَيْرَ مَأْمُونٍ عَلَيْه - مُسْتَعْمِلًا آلَةَ الدِّينِ لِلدُّنْيَا - ومُسْتَظْهِراً بِنِعَمِ اللَّه عَلَى عِبَادِه وبِحُجَجِه عَلَى أَوْلِيَائِه - أَوْ مُنْقَاداً لِحَمَلَةِ الْحَقِّ لَا بَصِيرَةَ لَه فِي أَحْنَائِه - يَنْقَدِحُ الشَّكُّ فِي قَلْبِه لأَوَّلِ عَارِضٍ مِنْ شُبْهَةٍ - أَلَا لَا ذَا ولَا ذَاكَ - أَوْ مَنْهُوماً بِاللَّذَّةِ سَلِسَ الْقِيَادِ لِلشَّهْوَةِ - أَوْ مُغْرَماً بِالْجَمْعِ والِادِّخَارِ ،- لَيْسَا مِنْ رُعَاةِ الدِّينِ فِي شَيْءٍ - أَقْرَبُ شَيْءٍ شَبَهاً بِهِمَا الأَنْعَامُ السَّائِمَةُ - كَذَلِكَ يَمُوتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِيه.

اللَّهُمَّ بَلَى لَا تَخْلُو الأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّه بِحُجَّةٍ - إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وإِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً - لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّه وبَيِّنَاتُه - وكَمْ ذَا وأَيْنَ أُولَئِكَ

زمانہ کی بقا کے ساتھ رہنے والے ہیں۔ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں لیکن ان کی صورتیں دلوں پر نقش ہیں۔دیکھو اس سینہ میں علم کا ایک خزانہ ہے۔کاش مجھے اس کے اٹھانے والے مل جاتے ۔ہاںملے بھی تو بعض ایسے ذہین جو قابل اعتبار نہیں ہیں اور دین کو دنیا کا آلہ کاربناکراستعمال کرنے والے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کے ذریعہ اس کے بندوں اور اس کی محبتوں کے ذریعہ اس کے اولیاء پر برتری جتلانے والے ہیں یا حاملان حق کے اطاعت گذار تو ہیں لیکن ان کے پہلو میں بصیرت نہیں ہے اور ادنیٰ شبہ میں بھی شک کاشکار ہو جاتے ہیں۔یاد رکھو کہ یہ یہ کام آنے والے ہیں اور نہ وہ۔اس کے بعد ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو لذتوں کے دلدادہ اورخواہشات کے لئے اپنی لگام ڈھلی کر دینے والے ہیں یا صری مال جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزی کرنے کے دلدادہ ہیں۔یہ دونوں بھی دین کے قطعاً محافظ نہیں ہیں اور ان سے قریب ترین شباہت رکھنے والے چرنے والے جانور ہوتے ہیں اور اس طرح علم حاملان علم کے ساتھ مرجاتا ہے۔لیکن۔اس کے بعد بھی زمین ایسے شخص سے خالی نہیں ہوتی ہے جو حجت(۱) خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ۔تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔لیکن یہ ہیں ہی کتنے اور کہاں ہیں ؟

(۱)یہ صحیح ہے کہ ہر صفت اس کے حامل کے فوت ہو جانے سے ختم ہو جاتی ہے اور علم بھی حاملان علم کی موت سے مر جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس دنیا میں کوئی دور ایسا بھی آتا ہے جب تمام اہل علم مر جائیں اور علم کا فقدان ہو جائے۔اس لئے کہ ایسا ہوگیا تواتمام حجت کاکوئی راستہ نہ رہ جائے گا اور اتمام حجت بہر حال ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے لہٰذا ہر دور میں ایک حجت خدا کا رہنا ضروری ہے چاہے ظاہر بظاہر منظر عام پر ہو یا پردہ ٔ غیبت میں ہو کہ اتمام حجت کے لئے اس کاوجود ہی کافی ہے۔اس کے ظہورکی شرط نہیں ہے

۶۷۳

أُولَئِكَ واللَّه الأَقَلُّونَ عَدَداً - والأَعْظَمُونَ عِنْدَ اللَّه قَدْراً - يَحْفَظُ اللَّه بِهِمْ حُجَجَه وبَيِّنَاتِه حَتَّى يُودِعُوهَا نُظَرَاءَهُمْ - ويَزْرَعُوهَا فِي قُلُوبِ أَشْبَاهِهِمْ - هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلَى حَقِيقَةِ الْبَصِيرَةِ - وبَاشَرُوا رُوحَ الْيَقِينِ واسْتَلَانُوا مَا اسْتَوْعَرَه الْمُتْرَفُونَ - وأَنِسُوا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْه الْجَاهِلُونَ - وصَحِبُوا الدُّنْيَا بِأَبْدَانٍ أَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌ بِالْمَحَلِّ الأَعْلَى - أُولَئِكَ خُلَفَاءُ اللَّه فِي أَرْضِه والدُّعَاةُ إِلَى دِينِه - آه آه شَوْقاً إِلَى رُؤْيَتِهِمْ - انْصَرِفْ يَا كُمَيْلُ إِذَا شِئْتَ.

۱۴۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

۱۴۹ - وقَالَعليه‌السلام هَلَكَ امْرُؤٌ لَمْ يَعْرِفْ قَدْرَه.

۱۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ سَأَلَه أَنْ يَعِظَه:

لَا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الآخِرَةَ

واللہ ان کے عدد بہت کم ہیں لیکن ان کی قدرو منزلت بہت عظیم ہے۔اللہ انہیں کے ذریعہ اپنے دلائل و بینات کی حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ہی جیسے افراد کے حوالے کردیں اور اپنے امثال کے دلوں میں بودیں۔انہیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔انہوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنہیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھاتھا اوران چیزوں سے انس حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کے روحیں ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں۔ہائے مجھے ان کے دیدار کا کس قدر اشتیاق ہے۔

کمیل (میری بات تمام ہوچکی ) اب تم جا سکتے ہو۔

(۱۴۸)

انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔

(۱۴۹)

جس شخص نے اپنی قدرو منزلت کو نہیں پہچانا وہ ہلاک ہوگیا۔

(۱۵۰)

ایک شخص نےآپ سےموعظہ کا تقاضا کیا تو فرمایا '' ان لوگوں میں نہ ہوجانا جو عمل(۱) کے بغیرآخرت کی

(۱)مولائے کائنات کے اس ارشاد گرامی کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اگر دورحاضر کے مومنین کرام ' واعظین محترم ' خطباء شعلہ نوا۔شعراء طوفان افزا۔سربراہان ملت قائدین قوم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمارے دور کے حالات کا نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ہمارے سامنے کردار کا ایک آئینہ رکھ رہے ہیں جس میں ہرشخص اپنی شکل دیکھ سکتا ہے اور اپنے حال زار سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔

۶۷۴

بِغَيْرِ عَمَلٍ - ويُرَجِّي التَّوْبَةَ بِطُولِ الأَمَلِ - يَقُولُ فِي الدُّنْيَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِينَ - ويَعْمَلُ فِيهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِينَ،إِنْ أُعْطِيَ مِنْهَا لَمْ يَشْبَعْ وإِنْ مُنِعَ مِنْهَا لَمْ يَقْنَعْ - يَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَا أُوتِيَ ويَبْتَغِي الزِّيَادَةَ فِيمَا بَقِيَ - يَنْهَى ولَا يَنْتَهِي ويَأْمُرُ بِمَا لَا يَأْتِي - يُحِبُّ الصَّالِحِينَ ولَا يَعْمَلُ عَمَلَهُمْ - ويُبْغِضُ الْمُذْنِبِينَ وهُوَ أَحَدُهُمْ - يَكْرَه الْمَوْتَ لِكَثْرَةِ ذُنُوبِه - ويُقِيمُ عَلَى مَا يَكْرَه الْمَوْتَ مِنْ أَجْلِه - إِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِماً وإِنْ صَحَّ أَمِنَ لَاهِياً - يُعْجَبُ بِنَفْسِه إِذَا عُوفِيَ ويَقْنَطُ إِذَا ابْتُلِيَ - إِنْ أَصَابَه بَلَاءٌ دَعَا مُضْطَرّاً وإِنْ نَالَه رَخَاءٌ أَعْرَضَ مُغْتَرّاً - تَغْلِبُه نَفْسُه عَلَى مَا يَظُنُّ ولَا يَغْلِبُهَا عَلَى مَا يَسْتَيْقِنُ - يَخَافُ عَلَى غَيْرِه بِأَدْنَى مِنْ ذَنْبِه - ويَرْجُو لِنَفْسِه بِأَكْثَرَ مِنْ عَمَلِه - إِنِ اسْتَغْنَى بَطِرَ وفُتِنَ وإِنِ افْتَقَرَ قَنِطَ

امید رکھتے ہیں اور طولانی امیدوں کی بنا پر توبہ کو ٹال دیتے ہیں۔دنیا میں باتیں زاہدوں جیسی کرتے ہیں اور کام راغبوں جیسا انجام دیتے ہیں۔کچھ مل جاتا ہے توسیر نہیں ہوتے ہیں اورنہیں ملتا ہے توقناعت نہیں کرتے ہیں۔جودے دیا گیا ہے اس کے شکریہ سے عاجز ہیں لیکن مستقبل میں زیادہ کے طلب گار ضرور ہیں۔لوگوں کو منع کرتے ہیں لیکن خود نہیں رکتے ہیں۔اور ان چیزوں کا حکم دیتے ہیں جو خود نہیں کرتے ہیں۔نیک کرداروں سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کا جیسا عمل نہیں کرتے ہیں اور گناہگاروں سے بیزار رہتے ہیں لیکن خود بھی انہیں میں سے ہوتے ہیں۔گناہوں کی کثرت کی بنا پر موت کو نا پسند کرتے ہیں اور پھر ایسے ہی اعمال پر قائم بھی رہتے ہیں جن سے موت نا گوار ہو جات یہے۔بیمار ہوتے ہیں تو گناہوں پر پشیمان ہو جاتے ہیں اور صحت مند ہوتے ہیں تو پھر لہوولعب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے تو اکڑ نے لگتے ہیں اور آزمائش میں پڑ جاتے ہیں تو مایوس ہو جاتے ہیں۔کوئی بلا نازل ہو جاتی ہے تو بشکل مضطر دعاکرتے ہیں اور سہولت وآسانی فراہم ہو جاتی ہے تو فریب خوردہ ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ان کا نفس انہیں خیالی باتوں پرآمادہ کر لیتا ہے لیکن وہ یقینی باتوں میں اس پر قابو نہیں پا سکتے ہیں۔دوسروں کے بارے میں اپنے سے چھوٹے گناہ سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں اور اپنے لئے اعمال سے زیادہ جزا کے امیدوار رہتے ہیں۔مالدار ہو جاتے ہیں تو مغرور و مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں اور غربت زدہ ہو جتے ہیں تو مایوس

۶۷۵

ووَهَنَ - يُقَصِّرُ إِذَا عَمِلَ ويُبَالِغُ إِذَا سَأَلَ - إِنْ عَرَضَتْ لَه شَهْوَةٌ أَسْلَفَ الْمَعْصِيَةَ وسَوَّفَ التَّوْبَةَ - وإِنْ عَرَتْه مِحْنَةٌ انْفَرَجَ عَنْ شَرَائِطِ الْمِلَّةِ - يَصِفُ الْعِبْرَةَ ولَا يَعْتَبِرُ - ويُبَالِغُ فِي الْمَوْعِظَةِ ولَا يَتَّعِظُ - فَهُوَ بِالْقَوْلِ مُدِلٌّ ومِنَ الْعَمَلِ مُقِلٌّ - يُنَافِسُ فِيمَا يَفْنَى ويُسَامِحُ فِيمَا يَبْقَى - يَرَى الْغُنْمَ مَغْرَماً والْغُرْمَ مَغْنَماً - يَخْشَى الْمَوْتَ ولَا يُبَادِرُ الْفَوْتَ - يَسْتَعْظِمُ مِنْ مَعْصِيَةِ غَيْرِه مَا يَسْتَقِلُّ أَكْثَرَ مِنْه مِنْ نَفْسِه - ويَسْتَكْثِرُ مِنْ طَاعَتِه مَا يَحْقِرُه مِنْ طَاعَةِ غَيْرِه - فَهُوَ عَلَى النَّاسِ طَاعِنٌ ولِنَفْسِه مُدَاهِنٌ - اللَّهْوُ مَعَ الأَغْنِيَاءِ أَحَبُّ إِلَيْه مِنَ الذِّكْرِ مَعَ الْفُقَرَاءِ

اور سست ہو جاتے ہیں ۔عمل میں کوتاہی کرتے ہیں اور سوال میں مبالغہ کرتے ہیں خواہش نفس سامنے آجاتی ہے تو معصیت فوراً کر لیتے ہیں اور توبہ کو ٹال دیتے ہیں ۔کوئی مصیبت لاحق ہو جاتی ہے تواسلامی جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں ۔عبرت ناک واقعات بیان کرتے ہیں لیکن خود عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔موعظہ میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں لیکن خود نصیحت نہیں حاصل کرتے ہیں ۔قول میں ہمیشہ اونچے رہتے ہیں اور عمل میں ہمیشہ کمزور رہتے ہیں فنا ہونے والی چیزوں میں مقابلہ کرتے ہیں اور باقی رہ جانے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔واقعی فائدہ کو نقصان سمجھتے ہیں اور حقیقی نقصان کوف ائدہ تصور کرتے ہیں۔موت سے ڈرتے ہیں لیکن وقت نک جانے سے پہلے عمل کی طرف سبقت نہیں کرتے ہیں۔دوسروں کی اس معصیت کوبھی عظیم تصور کرتے ہیں جس سے بڑی معصیت کو اپنے لئے معمولی تصور کرتے ہیں اور اپنی معمولی اطاعت کو بھی کثیر شمار کرتے ہیں جب کہ دوسرے کی کثیر اطاعت کو بھی حقیر ہی سمجھتے ہیں ۔ لوگوں پر طعنہ زن رہتے ہیں اور اپنے معاملہ میں نرم و نازک رہتے ہیں۔مالداروں کے ساتھ لہوولعب(۱) کو فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر ذکر خداسے زیادہ دوست رکھتے

(۱)دورحاضر کا عظیم ترین عیار زندگی یہی ہے اور ہرشخص ایسی ہی زندگی کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔کافی ہائوس ' نائٹ کلب اوردیگر لغویات کے مقامات پر سرمایہ داروں کی مصاحبت کے لئے ہر متوسط طبقہ کاآدمی مرا جارہا ہے اور کسی کو یہ شوق نہیں پیدا ہوتا ہے کہ چند لمحہ خانہ خدا میں بیٹھ کر فقیروں کے ساتھ مالک کی بارگاہ میں مناجات کرکے اور یہ احساس کرے کہ اس کی بارگاہ میں سب فقیر ہیں اور یہ دولت و امارت صرف چند روزہ تماشہ ے ورنہ انسان خالی ہاتھ آیا ہے اورخالی ہاتھ ہی جانے والا ہے۔دولت عاقبت بنانے کاذریعہ تھی اگر اسے بھی عاقبت کی بربادی کی اہ پر لگادیا تو آخرت میں حسرت و فاسوس کے علاوہ کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔

۶۷۶

يَحْكُمُ عَلَى غَيْرِه لِنَفْسِه،ولَا يَحْكُمُ عَلَيْهَا لِغَيْرِه - يُرْشِدُ غَيْرَه ويُغْوِي نَفْسَه - فَهُوَ يُطَاعُ ويَعْصِي ويَسْتَوْفِي ولَا يُوفِي - ويَخْشَى الْخَلْقَ. فِي غَيْرِ رَبِّه ولَا يَخْشَى رَبَّه فِي خَلْقِه.

قال الرضي - ولو لم يكن في هذا الكتاب إلا هذا الكلام - لكفى به موعظة ناجعة وحكمة بالغة - وبصيرة لمبصر وعبرة لناظر مفكر.

۱۵۱ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ امْرِئٍ عَاقِبَةٌ حُلْوَةٌ أَوْ مُرَّةٌ.

۱۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ مُقْبِلٍ إِدْبَارٌ ومَا أَدْبَرَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ.

۱۵۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَعْدَمُ الصَّبُورُ الظَّفَرَ وإِنْ طَالَ بِه الزَّمَانُ.

ہیں۔اپنے حق میں دوسروں کے خلاف فیصلہ کردیتے ہیں اور دوسروں کے حق میں اپنے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔دوسروں کو ہدایت دیتے ہیں اور اپنے نفس کو گمراہ کرتے ہیں۔خود ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور یہخود معصیت کرتے رہتے ہیں اپنے حق کو پورا پورا لے لیتے ہیں اور دوسروں کے حق کوادا نہیں کرتے ہیں۔پروردگار کوچھوڑ کر مخلوقات سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں پروردگار سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔

سید رضی : اگر اس کتاب میں اس کلام کے علاوہ کوئی دوسری نصیحت نہ بھی ہوتی تو یہی کلام کامیاب موعظت ' بلیغ حکمت اور صاحبان بصیرت کی بصیرت اور صاحبان فکرو نظر کی عبرت کے لئے کافی تھا۔

(۱۵۱)

ہرشخص کا ایک انجام بہر حال ہونے والا ہے چاہے شیریں ہو یاتلخ۔

(۱۵۲)

ہرآنے والا پٹنے والا ہے اور جوپلٹ جاتا ہے وہ ایسا ہوجاتا ے جیسے تھا ہی نہیں۔

(۱۵۳)

صبرکرنے والا کامیابی سے محروم نہیں ہو سکتا ہے چاہے کتنا ہی زمانہ کیوں نہ لگے جائے ۔

۶۷۷

۱۵۴ - وقَالَعليه‌السلام الرَّاضِي بِفِعْلِ قَوْمٍ كَالدَّاخِلِ فِيه مَعَهُمْ - وعَلَى كُلِّ دَاخِلٍ فِي بَاطِلٍ إِثْمَانِ - إِثْمُ الْعَمَلِ بِه وإِثْمُ الرِّضَى بِه.

۱۵۵ - وقَالَعليه‌السلام اعْتَصِمُوا بِالذِّمَمِ فِي أَوْتَادِهَا

۱۵۶ - وقَالَعليه‌السلام عَلَيْكُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لَا تُعْذَرُونَ بِجَهَالَتِه

۱۵۷ - وقَالَعليه‌السلام قَدْ بُصِّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ وقَدْ هُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ وأُسْمِعْتُمْ إِنِ اسْتَمَعْتُمْ.

۱۵۸ - وقَالَعليه‌السلام عَاتِبْ أَخَاكَ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه وارْدُدْ شَرَّه بِالإِنْعَامِ عَلَيْه.

(۱۵۴)

کسی قوم کے عمل سے راضی ہو جانے والا بھی اسی کے ساتھ شمار کیا جائے گا اورجو کسی باطل میں داخل ہوجائے گا اس پر دہرا گناہ ہوگا عمل کابھی گناہ اور راضی ہونے کابھی گناہ۔

(۱۵۵)

عہدوپیمان کی ذمہداری ان کے حوالہ کرو جو میخوں کی طرح مستحکم اورمضبوط ہوں۔

(۱۵۶)

اس کی اطاعت ضرر کرو جس سے نا واقفیت قابل معافی نہیں ہے۔(یعنی خدائی منصب دار)

(۱۵۷)

اگر تم بصیرت رکھتے ہو تو تمہیں حقائق دکھلائے جا چکے ہیں اور اگر ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہوتو تمہیں ہدایت دی جا چکی ہے اور اگر سننا چاہتے ہو تو تمہیں پیغام سنایا جا چکا ہے۔

(۱۵۸)

اپنے بھائی کو تنبیہ کرو تو احسان(۱) کرنے کے بعد اور اس کے شر کا جواب دو تولطف و کرم کے ذریعہ۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان اگر صرف تنبیہ کرتا ہے اور کام نہیں کرتا ہے تواس کی تنبیہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے کہ دوسرا شخص پہلے ہی بد ظن ہو جاتا ہے تو کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اور نصیحت بیکارچلی جاتی ہے ۔اس کے برخلاف اگر پہلے احسان کرکے دل میں جگہ بنالے اوراس کے بعد نصیحت کرے تو یقینا نصیحت کا اثر ہوگا اوربات ضائع و برباد نہ ہوگی۔

۶۷۸

۱۵۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ وَضَعَ نَفْسَه مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ - فَلَا يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِه الظَّنَّ.

۱۶۰ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ مَلَكَ اسْتَأْثَرَ

۱۶۱ - وقَالَعليه‌السلام مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِه هَلَكَ - ومَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا.

۱۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ كَتَمَ سِرَّه كَانَتِ الْخِيَرَةُ بِيَدِه.

۱۶۳ - وقَالَعليه‌السلام الْفَقْرُ الْمَوْتُ الأَكْبَرُ.

۱۶۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ قَضَى حَقَّ مَنْ لَا يَقْضِي حَقَّه فَقَدْ عَبَدَه.

(۱۵۹)

جس نے اپنے نفس کو تہمت کے مواقع(۱) پر رکھ دیا۔اسے کسی بد ظنی کرنے والے کو ملامت کرنے کا حق نہیں ہے۔

(۱۶۰)

جو اقتدار حاصل کر لیتا ہے وہ جانبداری کرنے لگتا ہے ۔

(۱۶۱)

جو خود رائی سے کام لے گا وہ ہلاک ہوجائے گا اور جو لوگوں سے مشورہ کرے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

(۱۶۲)

جو اپنے راز کو پوشیدہ رکھے گا اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

(۱۶۳)

فقیری سب سے بڑی موت ہے ۔

(۱۶۴)

جو کسی ایسے شخص کا حق ادا کردے جو اس کا حق(۲) ادا نہ کرتا ہو تو گویا اس نے اس کی پرستش کرلی ہے۔

(۱)عجیب و غریب بات ہے کہ انسان ان لوگوں سے فوراً بیزار ہو جاتا ہے جواس سے بدگمانی رکھتے ہیں لیکن ان الات سے بیزاری کا اظہار نہیں کرتا ہے جن کی بناپربدگمانی پیدا ہوتی ہے جب کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے بد ظنی کے مقامات سے اجتناب کرے اور اس کے بعد ان لوگوں سے ناراضگی کا اظہار کرے جو بلا سبب بد ظنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ انسان کے عمل کی کوئی بنیاد ہونی چاہیے اور میزان و معیار کے بغیر کسی عمل کو انجام نہیں دینا چاہیے۔اب اگر کوئی شخص کسی کے حق کی پرواہ نہیں کرتا ہے اوروہ اس کے حقوق کوادا کئیے جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کو اس کابندہ ٔ بے دام تصور کرتا ہے اوراس کی پرستش کئے چلا جا رہا ہے۔

۶۷۹

۱۶۵ - وقَالَعليه‌السلام لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ.

۱۶۶ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُعَابُ الْمَرْءُ بِتَأْخِيرِ حَقِّه إِنَّمَا يُعَابُ مَنْ أَخَذَ مَا لَيْسَ لَه.

۱۶۷ - وقَالَعليه‌السلام الإِعْجَابُ يَمْنَعُ الِازْدِيَادَ

۱۶۸ - وقَالَعليه‌السلام الأَمْرُ قَرِيبٌ والِاصْطِحَابُ قَلِيلٌ . 

۱۶۹ - وقَالَعليه‌السلام قَدْ أَضَاءَ الصُّبْحُ لِذِي عَيْنَيْنِ.

(۱۶۵)

خالق کی معصیت کے ذریعہ مخلوق کی اطاعت نہیں کی جا سکتی ہے۔

(۱۶۶)

اپناحق لینے میں تاخیرکردینا عیب نہیں ہے۔ دوسرے کے حق(۱) پرقبضہ کرلینا عیب ہے۔

(۱۶۷)

خود پسندی(۲) زیادہ عمل سے روک دیتی ہے۔

(۱۶۸)

آخرت قریب ہے اور دنیاکی صحبت بہت مختصر ہے۔

(۱۶۹)

آنکھوں والوں کے لئے صبح روشن ہوچکی ہے۔

(۱)انسان کی ذمہ داری ہے کہ زندگی میں حقوق حاصل کرنے سے زیادہ حقوق کی ادائیگی پرتوجہ دے کہ اپنے حقوق کو نظر انداز کردینا نہ دنیا میں باعث ملامت ہے اور نہ آخرت میں وجہ عذاب ہے لیکن دوسروں کے حقوق پر قبضہ کرلینا یقینا باعث مذمت بھی ہے اور وجہ عذاب و عقاب بھی ہے۔

(۲)کھلی ہوئی بات ہے کہ جب تک مریض کو مرض کا احساس رہتا ہے وہ علاج کی فکر بھی کرتا ہ لیکن جس دن ورم کو صحت تصور کر لیتا ہے ' اس دن سے علاج چھوڑ دیتا ہے یہی حال خود پسندی کا ہے کہ خود پسندی کردار کا ورم ہے جس کے بعد انسان اپنی کمزوریوں سے غافل ہو جاتا ہے اوراس کے نتیجہ میں عمل ختم کر دیتا ہے یا رفتار عمل کو سست بنادیتا ہے اور یہی چیز اس کے کردارکی کمزوری کے لئے کافی ہے۔

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863