نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656982 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

۱۱۸ - وقَالَعليه‌السلام إِضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ.

۱۱۹ - وقَالَ علالسلام مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا - والسَّمُّ النَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا - يَهْوِي إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ ويَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ.

۱۲۰ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قُرَيْشٍ فَقَالَ - أَمَّا بَنُو مَخْزُومٍ فَرَيْحَانَةُ قُرَيْشٍ - نُحِبُّ حَدِيثَ رِجَالِهِمْ والنِّكَاحَ فِي نِسَائِهِمْ - وأَمَّا بَنُو عَبْدِ شَمْسٍ فَأَبْعَدُهَا رَأْياً - وأَمْنَعُهَا لِمَا وَرَاءَ ظُهُورِهَا - وأَمَّا نَحْنُ فَأَبْذَلُ لِمَا فِي أَيْدِينَا - وأَسْمَحُ عِنْدَ الْمَوْتِ بِنُفُوسِنَا - وهُمْ أَكْثَرُ وأَمْكَرُ وأَنْكَرُ - ونَحْنُ أَفْصَحُ وأَنْصَحُ وأَصْبَحُ.

(۱۱۸)

فرصت(۱) کا ضائع کردینا رنج و اندوہ کاباعث ہوتا ہے۔

(۱۱۹)

دنیا کی مثال سانپ جیسی ہے جوچھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے اور اس کے اندر زہر قاتل ہوتا ہے ۔ فریب خوردہ جاہل اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور صاحب عقل(۲) و ہوش اس سے ہوشیار رہتا ہے۔

(۱۲۰)

آپ سے قریش کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ بنی محزوم قریش کامہکتا ہواپھول ہیں۔ان سے گفتگو بھی اچھی لگتی ہے اور ان کی عورتوں سے رشتہ داری بھی محبوب ہے اوربنی عبد شمس بہت دورت کسوچنے والے اور اپنے پیٹھ پیچھے کی باتوں کی روک تھام کرنے والے ہیں۔لیکن ہم بنی ہاشم اپنے ہاتھ کی دولت کے لٹانے اورموت کے میدان میں جان دینے والے ہیں۔وہ لوگ عدد میں زیادہ ۔مکرو فریب میں آگے اوربد صورت ہیں اور ہم لوگ فصیح و بلیغ ' مخلص اور روشن چہرہ ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں ایسے مقامات بہت کم آتے ہیں جب کسی کام کا مناسب موقع ہاتھ آجاتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھالے اوراسے ضائع نہ ہونے دے کہ فرصت کا نکل جانا انتہائی رنج و اندوہ کاب اعث ہوتا ہے ۔

(۲)عقل کا کام یہ ہے کہ وہ اشیائکے باطن پرنگاہ رکھے اور صرف ظاہر کے فریب میں نہ آئے ورنہ سانپ کا ظاہر بھی انتہائی نرم و نازک ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر کا زہر انتہائی قاتل اورتباہ کن ہوتا ہے ۔

۶۶۱

۱۲۱ - وقَالَعليه‌السلام شَتَّانَ مَا بَيْنَ عَمَلَيْنِ - عَمَلٍ تَذْهَبُ لَذَّتُه وتَبْقَى تَبِعَتُه - وعَمَلٍ تَذْهَبُ مَئُونَتُه ويَبْقَى أَجْرُه.

۱۲۲ - وتَبِعَ جِنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا يَضْحَكُ فَقَالَ - كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ - وكَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ - وكَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الأَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيلٍ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ - نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ ونَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بَعْدَهُمْ - ثُمَّ قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظٍ ووَاعِظَةٍ ورُمِينَا بِكُلِّ فَادِحٍ وجَائِحَةٍ

(۱۲۱)

ان دو طرح کے اعمال میں کس قدر فاصلہ پایا جاتا ہے۔وہ عمل(۱) جس کی لذت ختم ہو جائے اوراس کا وبال باقی رہ جائے اوروہ عمل جس کی زحمت ختم ہو جائے اور اجرباقی رہ جائے ۔

(۱۲۲)

آپ نے ایک جنازہ میں شرکت فرمائی اور ایک شخص کو ہنستے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا '' ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موت کسی اور کے لئے لکھی گئی ہے اور یہ حق کسی دوسرے پر لازم قراردیا گیا ہے اور گویا کہجن مرنے والوں کو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایسے مسافر ہیں جو عنقریب واپس آنے والے ہیں کہ ادھر ہم انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں اور ادھر(۲) ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں جیسے ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔اس کے بعد ہم نے ہر نصیحت کرنے والے مرد اورعورت کو بھلا دیا ہے اور ہر آفت و مصیبت کا نشانہ بن گئے ہیں۔

(۱)دنیا اورآخرت کے اعمال کا بنیادی فرق یہی ہے کہ دنیا کے اعمال کی لذت ختم ہو جاتی ہے اور آخرت میں اس کا حساب باقی رہ جاتا ہے اورآخرت کے اعمال کی زحمت ختم ہو جاتی ہے اوراس کا اجرو ثواب باقی رہ جاتا ہے۔

(۲)انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ کسی مرحلہ پر عبرت حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اور ہر منزل پراس قدر غافل ہو جاتا ہے جیسے نہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ ہے اور نہ سمجھنے والی عقل ۔ورنہ اس کے معنی کیا ہیں کہ آگے آگے جنازہ جا رہاہے اور پیچھے لوگ ہنسی مذاق کر رہے ہیں یا سامنے میت کو قبر میں اتارا جا رہا ہے اورحاضرین کرام دنیا کے سیاسی مسائل حل کر رہے ہیں۔یہ صورت حال اس بات کی علامت ہے کہ انسان بالکل غافل ہو چکا ہے اور اسے کسی طرح کا ہوش نہیں رہ گیا ہے۔

۶۶۲

۱۲۳ - وقَالَعليه‌السلام طُوبَى لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِه وطَابَ كَسْبُه - وصَلَحَتْ سَرِيرَتُه وحَسُنَتْ خَلِيقَتُه - وأَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِه وأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِه - وعَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّه ووَسِعَتْه السُّنَّةُ ولَمْ يُنْسَبْ إلَى الْبِدْعَةِ.

قال الرضي أقول ومن الناس من ينسب هذا الكلام إلى رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وكذلك الذي قبله.

۱۲۴ - وقَالَعليه‌السلام غَيْرَةُ الْمَرْأَةِ كُفْرٌ وغَيْرَةُ الرَّجُلِ إِيمَانٌ.

۱۲۵ - وقَالَعليه‌السلام لأَنْسُبَنَّ الإِسْلَامَ نِسْبَةً لَمْ يَنْسُبْهَا أَحَدٌ قَبْلِي - الإِسْلَامُ هُوَ التَّسْلِيمُ

(۱۲۳)

خوشا بحال اس کاجس نے اپنے اندر تواضع کی ادا پیدا کی ' اپنے کسب کو پاکیزہ بنالیا۔اپنے باطن کونیک کرلیا اپنے اخلاق کوحسین بنالیا۔اپنے مال کے زیادہ حصہ کو راہ خدا میں خرچ کردیا اور اپنی زبان درازی پر قابو پالیا۔اپنے شر کو لوگوں سے دور رکھا اورسنت کو اپنی زندگی میں جگہ دی اور بدعت سے کوئی نسبت نہیں رکھی۔

سید رضی: بعض لوگوں نے اس کلام کو رسول اکرم (ص) کے حوالہ سے بھی بیان کیا ہے جس طرح کہ اس سے پہلے والا کلام حکمت ہے ۔

(۱۲۴)

عورت کا غیرت(۱) کرنا کفر ہے اور مرد کا غیور ہونا عین ایمان ہے۔

(۱۲۵)

میں اسلام کی وہ تعریف کر رہا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں کر سکا ہے۔اسلام سپردگی ہے اور

(۱)اسلام نے اپنے مخوص مصالح کے تحت مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے اور اسی کو عالمی مسائل کا حل قرار دیا ہے لہٰذا کسی عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہمرد کی دوسری شادی پر اعتراض کرے یا دوسری عورت سے حسد اور بیزاری کا اظہار کرے کہ یہ بیزاری در حقیقت اس دوسری عورت سے نہیں ہے اسلام کے قانون ازدواج سے ہے اور قانون الٰہی سے بیزاری اور نفرت کا احساس کرنا کفر ہے اسلام نہیں ہے۔

اس کے بر خلاف عورت کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دی گئی ہے لہٰذا شوہر کا حق ہے کہ اپنے ہوتے ہوئے دوسرے شوہر کے تصورسے بیزاری کا اظہارکرے اوریہی اس کے کمال حیا و غریت اور کمال اسلام و ایمان کی دلیل ہے لہٰذا عورت کا غیرت کرنا کفر ہے اور مرد کا غیرت کرنا اسلام و ایمان کے مرادف ہے۔

۶۶۳

والتَّسْلِيمُ هُوَ الْيَقِينُ - والْيَقِينُ هُوَ التَّصْدِيقُ والتَّصْدِيقُ هُوَ الإِقْرَارُ - والإِقْرَارُ هُوَ الأَدَاءُ والأَدَاءُ هُوَ الْعَمَلُ.

۱۲۶ - وقَالَعليه‌السلام عَجِبْتُ لِلْبَخِيلِ يَسْتَعْجِلُ الْفَقْرَ الَّذِي مِنْه هَرَبَ - ويَفُوتُه الْغِنَى الَّذِي إِيَّاه طَلَبَ - فَيَعِيشُ فِي الدُّنْيَا عَيْشَ الْفُقَرَاءِ - ويُحَاسَبُ فِي الآخِرَةِ حِسَابَ الأَغْنِيَاءِ - وعَجِبْتُ لِلْمُتَكَبِّرِ الَّذِي كَانَ بِالأَمْسِ نُطْفَةً - ويَكُونُ غَداً جِيفَةً - وعَجِبْتُ لِمَنْ شَكَّ فِي اللَّه وهُوَ يَرَى خَلْقَ اللَّه - وعَجِبْتُ لِمَنْ نَسِيَ الْمَوْتَ وهُوَ يَرَى الْمَوْتَى - وعَجِبْتُ لِمَنْ أَنْكَرَ النَّشْأَةَ الأُخْرَى - وهُوَ يَرَى النَّشْأَةَ الأُولَى - وعَجِبْتُ لِعَامِرٍ دَارَ الْفَنَاءِ وتَارِكٍ دَارَ الْبَقَاءِ.

۱۲۷ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ قَصَّرَ فِي الْعَمَلِ ابْتُلِيَ بِالْهَمِّ ولَا حَاجَةَ لِلَّه فِيمَنْ لَيْسَ لِلَّه فِي مَالِه ونَفْسِه نَصِيبٌ.

سپردگی یقین ۔یقین تصدیق ہے اورتصدیق اقرار۔اقرار ادائے فرض ہے اور ادائے فرض عمل۔

(۱۲۶)

مجھے بخیل کے حال پر تعجب ہوتا ہے کہ اسی فقر میں مبتلا ہو جاتا ہے جس سے بھا گ رہا ہے اور پھر اس دولت مندی سے محروم ہو جاتا ہے جس کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔دنیا میں فقیروں جیسی زندگی گزارتا ہے اورآخرت میں مالداروں جیسا حساب دینا پتا ہے۔اسی طرح مجھے مغرورآدمی پر تعجب ہوتا ہے کہ جو کل نطفہ تھا اور کل مردار ہو جائے گا اورپھراکڑ رہا ہے۔مجھے اس شخص کے بارے میں بھی حیرت ہوتی ہے جو وجودخدامیں شک کرتا ہے حالانکہ مخلوقات خدا کو دیکھ رہا ہے اور اس کاحال بھی حیرت انگیز ہے جو موت کو بھولا ہوا ہے حالانکہ مرنے والوں کو برابر دیکھ رہا ہے۔مجھے اس کے حال پر بھی تعجب ہوتا ہے جو آخرت کے امکان کا انکار کردیتا ہے حالانکہ پہلے وجود کامشاہدہ کر رہا ہے۔اور اس کے حال پر بھی حیرت ہے جو فنا ہو جانے والے گھر کو آباد کر رہا ہے اورباقی رہ جانے والے گھر کوچھوڑے ہوئے ہے۔

(۱۲۷)

جس نے عمل میں کوتاہی کی وہ رنج و اندوہمیں بہر حال مبتلا ہوگا اور اللہ کو ایسے بندہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے جس کے جان(۱) و مال میں اللہ کا کوئی حصہ نہ ہو۔

(۱)بخل اوربزدلی اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنے جان و مال میں سے کوئی حصہ اپنے پروردگار کو نہیں دینا چاہتا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب بندہ محتاج ہو کر مالک سے بے نیاز ہو نا چاہتا ہے تو مالک کو اس کی کیا غرض ہے۔وہ بھی قطع تعلق کرل یتا ہے۔

۶۶۴

۱۲۸ - وقَالَعليه‌السلام تَوَقَّوُا الْبَرْدَ فِي أَوَّلِه وتَلَقَّوْه فِي آخِرِه - فَإِنَّه يَفْعَلُ فِي الأَبْدَانِ كَفِعْلِه فِي الأَشْجَارِ - أَوَّلُه يُحْرِقُ وآخِرُه يُورِقُ

۱۲۹ - وقَالَعليه‌السلام عِظَمُ الْخَالِقِ عِنْدَكَ يُصَغِّرُ الْمَخْلُوقَ فِي عَيْنِكَ.

۱۳۰ - وقَالَعليه‌السلام : وقَدْ رَجَعَ مِنْ صِفِّينَ فَأَشْرَفَ عَلَى الْقُبُورِ بِظَاهِرِ الْكُوفَةِ

يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ - والْمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ والْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ - يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ - يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ - أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ ونَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ - أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وأَمَّا الأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ - وأَمَّا الأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ - هَذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ؟

ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِه فَقَالَ -

(۱۲۸)

سردی کے موسم سے ابتدا میں احتیاط کرو اور آخرمیں اس کا خیرمقدم کرو کہ اس کا اثر بدن پر درختوں کے پتوں جیسا ہوتا ہے کہ یہموسم ابتدا میں پتوں کو جھلسا دیتا ہے اور آخر میں شاداب بنا دیتا ہے ۔

(۱۲۹)

اگر خالق کی عظمت کا احساس پیدا ہو جائے گا تو مخلوقات خود بخود نگاہوں سے گر جائے گی۔

(۱۳۰)

صفین سے واپسی پر کوفہسے باہر قبرستان پرنظر پڑ گئی تو فرمایا۔اے وحشت ناک گھروں کے رہنے والو! اے ویران مکانات کے باشندو! اور تاریک قبروں میں بسنے والو۔ اے خاک نشینو۔اے غربت ' وحدت اور وحشت والو! تم ہم سے آگے چلے گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پرچل کر تم سے ملحق ہونے والے ہیں ۔دیکھو تمہارے مکانات آباد ہوچکے ہیں ۔تمہاری بیویوں کادوسرا عقد ہو چکا ہے اور تمہارے اموال تقسیم ہو چکے ہیں۔یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے۔اب تم بتائو کہ تمہارے یہاں کی خبر کیا ہے ؟

اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ

۶۶۵

أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلَامِ - لأَخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى.

۱۳۱ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ سَمِعَ رَجُلًا يَذُمُّ الدُّنْيَا - أَيُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْيَا الْمُغْتَرُّ بِغُرُورِهَا - الْمَخْدُوعُ بِأَبَاطِيلِهَا أَتَغْتَرُّ بِالدُّنْيَا ثُمَّ تَذُمُّهَا - أَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَيْهَا أَمْ هِيَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَيْكَ - مَتَى اسْتَهْوَتْكَ أَمْ مَتَى غَرَّتْكَ - أَبِمَصَارِعِ آبَائِكَ مِنَ الْبِلَى - أَمْ بِمَضَاجِعِ أُمَّهَاتِكَ تَحْتَ الثَّرَى - كَمْ عَلَّلْتَ بِكَفَّيْكَ وكَمْ مَرَّضْتَ بِيَدَيْكَ - تَبْتَغِي لَهُمُ الشِّفَاءَ وتَسْتَوْصِفُ لَهُمُ الأَطِبَّاءَ - غَدَاةَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ دَوَاؤُكَ ولَا يُجْدِي عَلَيْهِمْ بُكَاؤُكَ - لَمْ يَنْفَعْ أَحَدَهُمْ إِشْفَاقُكَ ولَمْ تُسْعَفْ فِيه بِطَلِبَتِكَ - ولَمْ تَدْفَعْ عَنْه بِقُوَّتِكَ

''اگر انہیں بولنے کی اجازت(۱) مل جاتی تو تمہیں صرف یہ پیغام دیتے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ الٰہی ہے۔

(۱۳۱)

ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا۔اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اس کے فریب میں مبتلا ہو کراس کے مہملات سے دھوکہ کھا جانے والے ! تو اسی سے دھوکہ بھی کھاتا ہے اور اسی کی مذمت بھی کرتا ہے۔یہ بتا کہ تجھے اس پر الزام لگانے کاحق ہے یا اسے تجھ پرالزام لگانے کاحق ہے۔آخر اس نے کب تجھ سے تیری عقل کو چھین لیا تھا اور کب تجھ کو دھوکہ دیا تھا؟ کیا تیرے آباء واجداد کی کہنگی کی بنا پرگرنے سے دھوکہ دیا ہے یا تمہاری مائوں کی زیرخاک خواب گاہ سے دھوکہ دیا ہے ؟ کتنے بیمار ہیں جن کی تم نے تیمارداری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے ان کا علاج کیا ہے اورچاہا ہے کہ وہ شفایاب ہوجائیں اور اطباء سے رجوع بھی کیا ہے۔اس صبح کے ہنگام جب نہ کوئی دوا کام آرہی تھی اور نہ رونا دھونافائدہ پہنچا رہا تھا۔ نہ تمہاری ہدردی کسی کو فائدہ پہنچا سکی اور نہ تمہارا مقصد حاصل ہو سکا اور نہ تم موت کو دفع کر سکے

(۱)انسانی زندگی کے دو جزء ہیں ایک کا نام ہے جسم اور ایک کا نام ہے روح اور انہیں دونوں کے اتحاد و اتصال کا نام ہے زندگی اور انہیں دونوں کی جدائی کا نام ہے موت۔اب چونکہ جسم کی بقا روح کے وسیلہ سے لہٰذا روح کے جدا ہو جانے کے بعد وہ مردہ بھی ہو جاتا ہے اور سڑ گل بھی جاتا ہے اور اس کے اجزاء منتشر ہو کرخاک میں مل جاتے ہیں۔لیکن روح غیر مادی ہونے کی بنیاد پراپنے عالم سے ملحق ہہو جاتی ہے اور زندگی رہتی ہے یہ اوربات ہے کہ اس کے تصرفات اذن الٰہی کے پابندہوتے ہیں اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کر سکتی ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ مردہ زندوں کی آواز سن لیتا ہے لیکن جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔

امیر المومنین نے اسی راز زندگی کی نقاب کشائی فرمائی ہے کہ یہ مرنے والے جواب دینے کے لائق نہیں ہیں لیکن پروردگار نے مجھے وہ علم عنایت فرمایا ہے جس کے ذریعہ میں یہ احساس کرسکتا ہوں کہ ان مرنے والوں کے لا شعور میں کیا ہے اور یہ جواب دینے کے قابل ہوتے تو کیا جواب دیتے اور تم بھی ان کی صورت حال کومحسوس کر لو تو اس امر کا اندازہ کرسکتے ہو کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب اور کوئی پیغام نہیں ہے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔

۶۶۶

وقَدْ مَثَّلَتْ لَكَ بِه الدُّنْيَا نَفْسَكَ وبِمَصْرَعِه مَصْرَعَكَ - إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا - ودَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا - ودَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا - ودَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا - مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللَّه ومُصَلَّى مَلَائِكَةِ اللَّه - ومَهْبِطُ وَحْيِ اللَّه ومَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللَّه - اكْتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ ورَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ - فَمَنْ ذَا يَذُمُّهَا وقَدْ آذَنَتْ بِبَيْنِهَا ونَادَتْ بِفِرَاقِهَا - ونَعَتْ نَفْسَهَا وأَهْلَهَا فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلَائِهَا الْبَلَاءَ - وشَوَّقَتْهُمْ بِسُرُورِهَا إِلَى السُّرُورِ - رَاحَتْ بِعَافِيَةٍ وابْتَكَرَتْ بِفَجِيعَةٍ - تَرْغِيباً وتَرْهِيباً وتَخْوِيفاً وتَحْذِيراً - فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ - وحَمِدَهَا آخَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - ذَكَّرَتْهُمُ الدُّنْيَا فَتَذَكَّرُوا وحَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوا - ووَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوا.

اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلادی تھی اور تمہیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کردیا تھا(لیکن تمہیں ہوش نہ آیا) یاد رکھو کہ دنیا باورکرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے اورسمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کامقام ہے۔یہ دوستان(۱) خدا کے سجود کی منزل اور ملائکہ آسمان کا مصلیٰ ہے یہیں وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خداآخرت کا سودا کرتے ہیں جس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کر لیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں۔کسے حق ہے کہ اس کی مذمت کرے جب کہ اس نے اپنی جداء یکا اعلان کردیا ہے اور اپنے فراق کی آواز لگادی ہے اور اپنے رہنے والوں کی سنانی سنادی ہے اپنی بلاء سے ان کے ابتاء کا نقشہ پیش کیا ہے اور اپنے سرورسے آخرت کے سرور کی دعوت دی ہے۔اس کی شام عافیت میں ہوتی ہے تو صبح مصیبت میں ہوتی ہے تاکہ انسان میں رغبت بھی پیدا ہو اورخوف بھی۔اسے آگاہ بھی کردے اور ہوشیار بھی بنادے۔کچھ لوگندامت کی صبح اس کی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے روز اس کی تعریف کریں گے جنہیں دنیا نے نصیحت کی تو انہوںنے اسے قبول کرلیا۔اسنے حقائق بیان کئے تو اس کی تصدیق کردی اورموعظہ کیا تواس کے موعظہ سے اثر لیا۔

(۱)بھلا اس سر زمین کو کون برا کہہ سکتا ہے جس پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔اولیاء خدا سجدہ کرتے ہیںخاصان خدا زندگی گزارتے ہیں اورنیک بندے اپنی عاقبت بنانے کا سامان کرتے ہیں۔یہ سر زمین بہترین سرزمین ہے اور یہ علاقہ مفید ترین علاقہ ہے مگر صرف ان لوگوں کے لئے جو اس کا وہی مصرف قرار دیں جوخاصان خدا قرار دیتے ہیں اور اس سے اسی طرح عاقبت سنوارنے کا کام لیں جس طرح اورلیاء خدا کام لیتے ہیں۔ورنہ اس کے بغیر یہ دنیا بلاء ہے بلائ۔اوراس کا انجام تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۶۶۷

۱۳۲ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلَّه مَلَكاً يُنَادِي فِي كُلِّ يَوْمٍ - لِدُوا لِلْمَوْتِ واجْمَعُوا لِلْفَنَاءِ وابْنُوا لِلْخَرَابِ.

۱۳۳ - وقَالَعليه‌السلام الدُّنْيَا دَارُ مَمَرٍّ لَا دَارُ مَقَرٍّ والنَّاسُ فِيهَا رَجُلَانِ - رَجُلٌ بَاعَ فِيهَا نَفْسَه فَأَوْبَقَهَا ورَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَه فَأَعْتَقَهَا.

۱۳۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَكُونُ الصَّدِيقُ صَدِيقاً حَتَّى يَحْفَظَ أَخَاه فِي ثَلَاثٍ - فِي نَكْبَتِه وغَيْبَتِه ووَفَاتِه.

(۱۳۲)

پروردگار کی طرف سے ایک ملک معین ہے جو ہر روز آواز دیتا ہے کہ ایہا لناس ! پیدا کرو تو مرنے کے لئے جمع کرو تو فنا ہونے کے لئے اور تعمیر کرو تو خراب ہونے کے لئے ( یعنی آخری انجام کو نگاہ میں رکھو)

(۱۳۳)

دنیا ایک گزر گاہ ہے ۔منزل نہیں ہے اس میں لوگ دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو بیچ ڈالا اور ہلاک کردیا اورایک وہ ہے جس نے خرید لیا اورآزاد کردیا۔

(۱۳۴)

دوست اس وقت تک دوست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اپنے دوست کے تین مواقع پر کام نہ آئے ۔

مصیبت کے موقع پر۔اس کی غیبت میں۔اور مرنے کے بعد۔

۶۶۸

۱۳۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أُعْطِيَ أَرْبَعاً لَمْ يُحْرَمْ أَرْبَعاً - مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَمِ الإِجَابَةَ - ومَنْ أُعْطِيَ التَّوْبَةَ لَمْ يُحْرَمِ الْقَبُولَ - ومَنْ أُعْطِيَ الِاسْتِغْفَارَ لَمْ يُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ - ومَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّيَادَةَ.

قال الرضي - وتصديق ذلك كتاب الله - قال الله في الدعاء( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) - وقال في الاستغفار( ومَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَه - ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ الله يَجِدِ الله غَفُوراً رَحِيماً ) - وقال في الشكر( لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ) - وقال في التوبة -( إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى الله لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ - ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولئِكَ يَتُوبُ الله عَلَيْهِمْ - وكانَ الله عَلِيماً حَكِيماً ) .

۱۳۶ - وقَالَعليه‌السلام الصَّلَاةُ قُرْبَانُ كُلِّ تَقِيٍّ - والْحَجُّ جِهَادُ كُلِّ ضَعِيفٍ - ولِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ

(۱۳۵)

جسے چار چیزیں دیدی گئیں وہ چار سے محروم نہیں رہ سکتا ہے۔جسے دعا کی توفیق مل گئی وہ قبولیت سے محروم نہ ہوگا اور جسے توبہ کی توفیق حاصل ہوگئی وہ قبولیت سے محروم نہ ہوگا۔استغفار حاصل کرنے والا مغفرت سے محروم نہ ہوگا اور شکر کرنے والا اضافہ سے محروم نہ ہوگا۔

سید رضی : اس ارشاد گرامی کی تصدیق آیات قرآنی سے ہوتی ہے کہ پروردگار نے دعا کے بارے میں فرمایا '' مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔اور استغفار کے بارے میں فرمایا ہے '' جو برائی کرنے کے بعد یا اپنے نفس پر ظلم کرنے کے بعد خداسے توبہ کرلے گا وہ اسے غفورورحیم پائے گا ''

شکر کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے '' اگر تم شکریہ ادا کرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے '' اورتوبہ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے '' توبہ ان لوگوں کے لئے جو جہالت کی بناپرگناہ کرتے ہیں اور پھر فوراً توبہ کر لیتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ کو اللہ قبول کرلیتا ہے اوروہ ہر ایک کی نیت سے با خبر بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے ''

(۱۳۶)

نماز متقی کے لئے وسیلہ تقرب ہے اورحج ہر کمزور کے لئے جہاد ہے۔ہر شے کی ایک زکوٰة ہوتی ہے

۶۶۹

وزَكَاةُ الْبَدَنِ الصِّيَامُ - وجِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ

۱۳۷ - وقَالَعليه‌السلام اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ.

۱۳۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَيْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِيَّةِ.

۱۳۹ - وقَالَعليه‌السلام تَنْزِلُ الْمَعُونَةُ عَلَى قَدْرِ الْمَئُونَةِ.

۱۴۰ - وقَالَعليه‌السلام مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ.

۱۴۱ - وقَالَعليه‌السلام قِلَّةُ الْعِيَالِ أَحَدُ الْيَسَارَيْنِ.

اور بدن کی زکوٰة روزہ ہے۔عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ بہترین برتائو(۱) ہے۔

(۱۳۷)

روزی کے نزول کا انتظام صدقہ کے ذریعہ سے کرو۔

(۱۳۸)

جسے معاوضہ کا یقین ہوتاہے وہ عطاء میں دریا دلی سے کام لیتا ہے ۔

(۱۳۹)

خدا ئی امداد کا نزول بقدرخرچ ہوتا ہے ( ذخیرہ انوزی اورفضول خرچی کے لئے نہیں )

(۱۴۰)

جو میانہ روی سے کام لے گاہ وہ محتاج نہ ہوگا۔

(۱۴۱)

متعلقین کی کمی(۲) بھی ایک طرح کی آسودگی ہے۔

(۱)اس بہترین برتائو میں اطاعت 'عفت 'تدبیرمنزل ' قناعت ' عدم مطالبات ' غیرتو حیا اور طلب رضا جیسی تمام چیزیں شامل ہیں جن کے بغیر ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں ہو سکتی ہے۔اور دن بھر زحمت برداشت کرکینقہ فراہم کرنے والا شوہر آسودہ مطمئن نہیں ہو سکتا ہے۔

(۲)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تنظیم حیات ایک عقلی فریضہ ہے اور ہر مسئلہ کوصرف توکل بخدا کے حوالہ نہیںکیا جا سکتا ہے۔اسلام نے ازدواجی ' کثرت نسل پر زور دیا ہے۔لیکن دامن دیکھ کر پیر پھیلانے کا شعور بھیدیا ہے لہٰذا انسان کیذمہ داری ہے کہ ان دونوں کے درمیان سے راستہ نکالے اور اس امر کے لئے آمادہ رہے کہ کثرت متعلقین سے پریشانی ضرور پیدا ہوگی اور پھرپریشانی کی شکایت اورفریاد نہ کرے ۔

۶۷۰

۱۴۲ - وقَالَعليه‌السلام التَّوَدُّدُ نِصْفُ الْعَقْلِ.

۱۴۳ - وقَالَعليه‌السلام الْهَمُّ نِصْفُ الْهَرَمِ.

۱۴۴ - وقَالَعليه‌السلام يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ - ومَنْ ضَرَبَ يَدَه عَلَى فَخِذِه عِنْدَ مُصِيبَتِه حَبِطَ عَمَلُه.

۱۴۵ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَه مِنْ صِيَامِه إِلَّا الْجُوعُ والظَّمَأُ - وكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَه مِنْ قِيَامِه إِلَّا السَّهَرُ والْعَنَاءُ - حَبَّذَا نَوْمُ الأَكْيَاسِ وإِفْطَارُهُمْ.

۱۴۶ - وقَالَعليه‌السلام سُوسُوا إِيمَانَكُمْ بِالصَّدَقَةِ وحَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ - وادْفَعُوا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ.

(۱۴۲)

میل محبت پیدا کرنا عقل کا نصف حصہ ہے۔

(۱۴۳)

ہم و غم خودبھی آدھا بڑھاپا ہے۔

(۱۴۴)

صبر بقدر مصیبت نازل ہوتا ہے اور جس نے مصیبت کے موقع پر ران پر ہاتھ مارا۔گویا کہ اپنے عمل اور اجر کو برباد کردیا (ہنر صبر ہے ہنگامہ نہیں ہے۔لیکن یہ سب اپنی ذاتی مصیبت کے لئے ہے )

(۱۴۵)

کتنے روزہ دار ہیں جنہیں روزہ سے بھوک اورپیاس کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے اور کتنے عابد شب زندہ دار ہیں جنہیں اپنے قیام سے شب بیداری اورمشقت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ہوشمند(۱) ا نسان کا سونا اور کھانابھی قابل تعریف ہوتا ہے۔

(۱۴۶)

اپنے ایمان کی نگہداشت(۲) صدقہ سے کرو اور اپنے اموال کی حفاظت زکوٰة سے کرو۔بلائوں کے تلاطم کودعائوں سے ٹال دو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان عبادت کو بطور رسم و عادت انجام نہ دے بلکہ جذبہ اطاعت و بندگی کے تحت انجام دے تاکہ واقعاً بندۂ پروردگار کہے جانے کے قابل ہو جائے ورنہ شعور بندگی سے الگ ہو جانے کے بعد بندگی بے ارزش ہو کر رہ جاتی ہے۔

(۲)صدقہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کو وعدہ ٔ الٰہی پراعتبار ہے اوروہ یہ یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اس کی راہ میں دے دیا ہے وہ ضائع ہونے والا نہیں ہے بلکہ دس گنا ۔سو گناہ ۔ہزار گنا ہوکر واپس آنے والا ہے اور یہی کمال ایمان کی علامت ہے ۔

۶۷۱

۱۴۷ - ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

لِكُمَيْلِ بْنِ زِيَادٍ النَّخَعِيِّ قَالَ كُمَيْلُ بْنُ زِيَادٍ - أَخَذَ بِيَدِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍعليه‌السلام - فَأَخْرَجَنِي إِلَى الْجَبَّانِ فَلَمَّا أَصْحَرَ تَنَفَّسَ الصُّعَدَاءَ - ثُمَّ قَالَ:

يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ - إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ أَوْعِيَةٌ فَخَيْرُهَا أَوْعَاهَا - فَاحْفَظْ عَنِّي مَا أَقُولُ لَكَ: النَّاسُ ثَلَاثَةٌ - فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ ومُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ - وهَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيحٍ - لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ ولَمْ يَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِيقٍ.

يَا كُمَيْلُ الْعِلْمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَالِ - الْعِلْمُ يَحْرُسُكَ وأَنْتَ تَحْرُسُ الْمَالَ - والْمَالُ تَنْقُصُه النَّفَقَةُ والْعِلْمُ يَزْكُوا عَلَى الإِنْفَاقِ - وصَنِيعُ الْمَالِ يَزُولُ بِزَوَالِه.

يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ مَعْرِفَةُ الْعِلْمِ دِينٌ يُدَانُ بِه - بِه يَكْسِبُ الإِنْسَانُ الطَّاعَةَ فِي حَيَاتِه - وجَمِيلَ الأُحْدُوثَةِ بَعْدَ وَفَاتِه - والْعِلْمُ حَاكِمٌ والْمَالُ مَحْكُومٌ عَلَيْه.

يَا كُمَيْلُ هَلَكَ خُزَّانُ الأَمْوَالِ وهُمْ أَحْيَاءٌ -

(۱۴۷)

آپ کا ارشاد گرامی جناب کمیل بن زیاد نخعی سے کمیل کہتے ہیں کہ امیر المومنین میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان کی طرف لے گئے اور جب آبادی سے باہرنکل گئے تو ایک لمبی آہ کھینچ کرفرمایا: ۔ اے کمیل بن زیاد!دیکھو یہ دل ایک طرح کے ظرف ہیں لہٰذا سب سے بہتر وہ دل ہے جو سب سے زیادہ حکمتوں کو محفوظکرسکے اب تم مجھ سے ان باتوں کو محفوظ کرلو۔لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں : خدا رسیدہ عالم۔راہ نجات پر چلنے والا طالب علم اورعوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آوازکے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا ک ساتھ لہرانے لگتا ہے۔اسنے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کاس ہارا لیا ہے۔

اے کمیل !دیکھو علم مال(۱) سے بہرحال بہتر ہوتا ہے کہ علم خود تمہاری حفاظت کرتا ہے اورمال کی حفاظت تمہیں کرنا پڑتی ہے مال خرچ کرنے سے کم ہو جاتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔پھر مال کے نتائج و اثرات بھی اس کے فناہونے کے ساتھ ہی فنا ہو جاتے ہیں۔

اے کمیل بن زیاد! علم کی معرفت ایک دین ہے جس کی اقتدا کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ انسان زندگی میں اطاعت حاصل کرتا ہے اور مرنے کے بعد ذکرجمیل فراہم کرتا ہے۔علم حاکم ہوتا ہے اورمال محکوم ہوتا ہے۔ کمیل دیکھو مال کاذخیرہ کرنے والے جیتے جی ہلاک ہوگئے اور صاحبان علم

(۱)علم و مال کے مراتب کے بارے میں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مال کی پیداوار بھی علم کا نتیجہ ہوتی ہے ورنہ ریگستانی علاقوں میں ہزاروں سال سے پٹرول کے خزانے موجود تھے اور انسان سے بالکل بے خبر تھا۔اس کے بعد جیسے ہی علم نے میدان انکشافات میں قدم رکھا' برسوں کے فقیر امیر ہوگئے اورصدیوں کے فاقہ کش صاحب مال و دولت شمار ہونے لگے۔

۶۷۲

والْعُلَمَاءُ بَاقُونَ مَا بَقِيَ الدَّهْرُ - أَعْيَانُهُمْ مَفْقُودَةٌ وأَمْثَالُهُمْ فِي الْقُلُوبِ مَوْجُودَةٌ - هَا إِنَّ هَاهُنَا لَعِلْماً جَمّاً وأَشَارَ بِيَدِه إِلَى صَدْرِه لَوْ أَصَبْتُ لَه حَمَلَةً - بَلَى أَصَبْتُ لَقِناً غَيْرَ مَأْمُونٍ عَلَيْه - مُسْتَعْمِلًا آلَةَ الدِّينِ لِلدُّنْيَا - ومُسْتَظْهِراً بِنِعَمِ اللَّه عَلَى عِبَادِه وبِحُجَجِه عَلَى أَوْلِيَائِه - أَوْ مُنْقَاداً لِحَمَلَةِ الْحَقِّ لَا بَصِيرَةَ لَه فِي أَحْنَائِه - يَنْقَدِحُ الشَّكُّ فِي قَلْبِه لأَوَّلِ عَارِضٍ مِنْ شُبْهَةٍ - أَلَا لَا ذَا ولَا ذَاكَ - أَوْ مَنْهُوماً بِاللَّذَّةِ سَلِسَ الْقِيَادِ لِلشَّهْوَةِ - أَوْ مُغْرَماً بِالْجَمْعِ والِادِّخَارِ ،- لَيْسَا مِنْ رُعَاةِ الدِّينِ فِي شَيْءٍ - أَقْرَبُ شَيْءٍ شَبَهاً بِهِمَا الأَنْعَامُ السَّائِمَةُ - كَذَلِكَ يَمُوتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِيه.

اللَّهُمَّ بَلَى لَا تَخْلُو الأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّه بِحُجَّةٍ - إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وإِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً - لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّه وبَيِّنَاتُه - وكَمْ ذَا وأَيْنَ أُولَئِكَ

زمانہ کی بقا کے ساتھ رہنے والے ہیں۔ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں لیکن ان کی صورتیں دلوں پر نقش ہیں۔دیکھو اس سینہ میں علم کا ایک خزانہ ہے۔کاش مجھے اس کے اٹھانے والے مل جاتے ۔ہاںملے بھی تو بعض ایسے ذہین جو قابل اعتبار نہیں ہیں اور دین کو دنیا کا آلہ کاربناکراستعمال کرنے والے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کے ذریعہ اس کے بندوں اور اس کی محبتوں کے ذریعہ اس کے اولیاء پر برتری جتلانے والے ہیں یا حاملان حق کے اطاعت گذار تو ہیں لیکن ان کے پہلو میں بصیرت نہیں ہے اور ادنیٰ شبہ میں بھی شک کاشکار ہو جاتے ہیں۔یاد رکھو کہ یہ یہ کام آنے والے ہیں اور نہ وہ۔اس کے بعد ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو لذتوں کے دلدادہ اورخواہشات کے لئے اپنی لگام ڈھلی کر دینے والے ہیں یا صری مال جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزی کرنے کے دلدادہ ہیں۔یہ دونوں بھی دین کے قطعاً محافظ نہیں ہیں اور ان سے قریب ترین شباہت رکھنے والے چرنے والے جانور ہوتے ہیں اور اس طرح علم حاملان علم کے ساتھ مرجاتا ہے۔لیکن۔اس کے بعد بھی زمین ایسے شخص سے خالی نہیں ہوتی ہے جو حجت(۱) خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ۔تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔لیکن یہ ہیں ہی کتنے اور کہاں ہیں ؟

(۱)یہ صحیح ہے کہ ہر صفت اس کے حامل کے فوت ہو جانے سے ختم ہو جاتی ہے اور علم بھی حاملان علم کی موت سے مر جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس دنیا میں کوئی دور ایسا بھی آتا ہے جب تمام اہل علم مر جائیں اور علم کا فقدان ہو جائے۔اس لئے کہ ایسا ہوگیا تواتمام حجت کاکوئی راستہ نہ رہ جائے گا اور اتمام حجت بہر حال ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے لہٰذا ہر دور میں ایک حجت خدا کا رہنا ضروری ہے چاہے ظاہر بظاہر منظر عام پر ہو یا پردہ ٔ غیبت میں ہو کہ اتمام حجت کے لئے اس کاوجود ہی کافی ہے۔اس کے ظہورکی شرط نہیں ہے

۶۷۳

أُولَئِكَ واللَّه الأَقَلُّونَ عَدَداً - والأَعْظَمُونَ عِنْدَ اللَّه قَدْراً - يَحْفَظُ اللَّه بِهِمْ حُجَجَه وبَيِّنَاتِه حَتَّى يُودِعُوهَا نُظَرَاءَهُمْ - ويَزْرَعُوهَا فِي قُلُوبِ أَشْبَاهِهِمْ - هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلَى حَقِيقَةِ الْبَصِيرَةِ - وبَاشَرُوا رُوحَ الْيَقِينِ واسْتَلَانُوا مَا اسْتَوْعَرَه الْمُتْرَفُونَ - وأَنِسُوا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْه الْجَاهِلُونَ - وصَحِبُوا الدُّنْيَا بِأَبْدَانٍ أَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌ بِالْمَحَلِّ الأَعْلَى - أُولَئِكَ خُلَفَاءُ اللَّه فِي أَرْضِه والدُّعَاةُ إِلَى دِينِه - آه آه شَوْقاً إِلَى رُؤْيَتِهِمْ - انْصَرِفْ يَا كُمَيْلُ إِذَا شِئْتَ.

۱۴۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

۱۴۹ - وقَالَعليه‌السلام هَلَكَ امْرُؤٌ لَمْ يَعْرِفْ قَدْرَه.

۱۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ سَأَلَه أَنْ يَعِظَه:

لَا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الآخِرَةَ

واللہ ان کے عدد بہت کم ہیں لیکن ان کی قدرو منزلت بہت عظیم ہے۔اللہ انہیں کے ذریعہ اپنے دلائل و بینات کی حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ہی جیسے افراد کے حوالے کردیں اور اپنے امثال کے دلوں میں بودیں۔انہیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔انہوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنہیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھاتھا اوران چیزوں سے انس حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کے روحیں ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں۔ہائے مجھے ان کے دیدار کا کس قدر اشتیاق ہے۔

کمیل (میری بات تمام ہوچکی ) اب تم جا سکتے ہو۔

(۱۴۸)

انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔

(۱۴۹)

جس شخص نے اپنی قدرو منزلت کو نہیں پہچانا وہ ہلاک ہوگیا۔

(۱۵۰)

ایک شخص نےآپ سےموعظہ کا تقاضا کیا تو فرمایا '' ان لوگوں میں نہ ہوجانا جو عمل(۱) کے بغیرآخرت کی

(۱)مولائے کائنات کے اس ارشاد گرامی کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اگر دورحاضر کے مومنین کرام ' واعظین محترم ' خطباء شعلہ نوا۔شعراء طوفان افزا۔سربراہان ملت قائدین قوم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمارے دور کے حالات کا نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ہمارے سامنے کردار کا ایک آئینہ رکھ رہے ہیں جس میں ہرشخص اپنی شکل دیکھ سکتا ہے اور اپنے حال زار سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔

۶۷۴

بِغَيْرِ عَمَلٍ - ويُرَجِّي التَّوْبَةَ بِطُولِ الأَمَلِ - يَقُولُ فِي الدُّنْيَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِينَ - ويَعْمَلُ فِيهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِينَ،إِنْ أُعْطِيَ مِنْهَا لَمْ يَشْبَعْ وإِنْ مُنِعَ مِنْهَا لَمْ يَقْنَعْ - يَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَا أُوتِيَ ويَبْتَغِي الزِّيَادَةَ فِيمَا بَقِيَ - يَنْهَى ولَا يَنْتَهِي ويَأْمُرُ بِمَا لَا يَأْتِي - يُحِبُّ الصَّالِحِينَ ولَا يَعْمَلُ عَمَلَهُمْ - ويُبْغِضُ الْمُذْنِبِينَ وهُوَ أَحَدُهُمْ - يَكْرَه الْمَوْتَ لِكَثْرَةِ ذُنُوبِه - ويُقِيمُ عَلَى مَا يَكْرَه الْمَوْتَ مِنْ أَجْلِه - إِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِماً وإِنْ صَحَّ أَمِنَ لَاهِياً - يُعْجَبُ بِنَفْسِه إِذَا عُوفِيَ ويَقْنَطُ إِذَا ابْتُلِيَ - إِنْ أَصَابَه بَلَاءٌ دَعَا مُضْطَرّاً وإِنْ نَالَه رَخَاءٌ أَعْرَضَ مُغْتَرّاً - تَغْلِبُه نَفْسُه عَلَى مَا يَظُنُّ ولَا يَغْلِبُهَا عَلَى مَا يَسْتَيْقِنُ - يَخَافُ عَلَى غَيْرِه بِأَدْنَى مِنْ ذَنْبِه - ويَرْجُو لِنَفْسِه بِأَكْثَرَ مِنْ عَمَلِه - إِنِ اسْتَغْنَى بَطِرَ وفُتِنَ وإِنِ افْتَقَرَ قَنِطَ

امید رکھتے ہیں اور طولانی امیدوں کی بنا پر توبہ کو ٹال دیتے ہیں۔دنیا میں باتیں زاہدوں جیسی کرتے ہیں اور کام راغبوں جیسا انجام دیتے ہیں۔کچھ مل جاتا ہے توسیر نہیں ہوتے ہیں اورنہیں ملتا ہے توقناعت نہیں کرتے ہیں۔جودے دیا گیا ہے اس کے شکریہ سے عاجز ہیں لیکن مستقبل میں زیادہ کے طلب گار ضرور ہیں۔لوگوں کو منع کرتے ہیں لیکن خود نہیں رکتے ہیں۔اور ان چیزوں کا حکم دیتے ہیں جو خود نہیں کرتے ہیں۔نیک کرداروں سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کا جیسا عمل نہیں کرتے ہیں اور گناہگاروں سے بیزار رہتے ہیں لیکن خود بھی انہیں میں سے ہوتے ہیں۔گناہوں کی کثرت کی بنا پر موت کو نا پسند کرتے ہیں اور پھر ایسے ہی اعمال پر قائم بھی رہتے ہیں جن سے موت نا گوار ہو جات یہے۔بیمار ہوتے ہیں تو گناہوں پر پشیمان ہو جاتے ہیں اور صحت مند ہوتے ہیں تو پھر لہوولعب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے تو اکڑ نے لگتے ہیں اور آزمائش میں پڑ جاتے ہیں تو مایوس ہو جاتے ہیں۔کوئی بلا نازل ہو جاتی ہے تو بشکل مضطر دعاکرتے ہیں اور سہولت وآسانی فراہم ہو جاتی ہے تو فریب خوردہ ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ان کا نفس انہیں خیالی باتوں پرآمادہ کر لیتا ہے لیکن وہ یقینی باتوں میں اس پر قابو نہیں پا سکتے ہیں۔دوسروں کے بارے میں اپنے سے چھوٹے گناہ سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں اور اپنے لئے اعمال سے زیادہ جزا کے امیدوار رہتے ہیں۔مالدار ہو جاتے ہیں تو مغرور و مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں اور غربت زدہ ہو جتے ہیں تو مایوس

۶۷۵

ووَهَنَ - يُقَصِّرُ إِذَا عَمِلَ ويُبَالِغُ إِذَا سَأَلَ - إِنْ عَرَضَتْ لَه شَهْوَةٌ أَسْلَفَ الْمَعْصِيَةَ وسَوَّفَ التَّوْبَةَ - وإِنْ عَرَتْه مِحْنَةٌ انْفَرَجَ عَنْ شَرَائِطِ الْمِلَّةِ - يَصِفُ الْعِبْرَةَ ولَا يَعْتَبِرُ - ويُبَالِغُ فِي الْمَوْعِظَةِ ولَا يَتَّعِظُ - فَهُوَ بِالْقَوْلِ مُدِلٌّ ومِنَ الْعَمَلِ مُقِلٌّ - يُنَافِسُ فِيمَا يَفْنَى ويُسَامِحُ فِيمَا يَبْقَى - يَرَى الْغُنْمَ مَغْرَماً والْغُرْمَ مَغْنَماً - يَخْشَى الْمَوْتَ ولَا يُبَادِرُ الْفَوْتَ - يَسْتَعْظِمُ مِنْ مَعْصِيَةِ غَيْرِه مَا يَسْتَقِلُّ أَكْثَرَ مِنْه مِنْ نَفْسِه - ويَسْتَكْثِرُ مِنْ طَاعَتِه مَا يَحْقِرُه مِنْ طَاعَةِ غَيْرِه - فَهُوَ عَلَى النَّاسِ طَاعِنٌ ولِنَفْسِه مُدَاهِنٌ - اللَّهْوُ مَعَ الأَغْنِيَاءِ أَحَبُّ إِلَيْه مِنَ الذِّكْرِ مَعَ الْفُقَرَاءِ

اور سست ہو جاتے ہیں ۔عمل میں کوتاہی کرتے ہیں اور سوال میں مبالغہ کرتے ہیں خواہش نفس سامنے آجاتی ہے تو معصیت فوراً کر لیتے ہیں اور توبہ کو ٹال دیتے ہیں ۔کوئی مصیبت لاحق ہو جاتی ہے تواسلامی جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں ۔عبرت ناک واقعات بیان کرتے ہیں لیکن خود عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔موعظہ میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں لیکن خود نصیحت نہیں حاصل کرتے ہیں ۔قول میں ہمیشہ اونچے رہتے ہیں اور عمل میں ہمیشہ کمزور رہتے ہیں فنا ہونے والی چیزوں میں مقابلہ کرتے ہیں اور باقی رہ جانے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔واقعی فائدہ کو نقصان سمجھتے ہیں اور حقیقی نقصان کوف ائدہ تصور کرتے ہیں۔موت سے ڈرتے ہیں لیکن وقت نک جانے سے پہلے عمل کی طرف سبقت نہیں کرتے ہیں۔دوسروں کی اس معصیت کوبھی عظیم تصور کرتے ہیں جس سے بڑی معصیت کو اپنے لئے معمولی تصور کرتے ہیں اور اپنی معمولی اطاعت کو بھی کثیر شمار کرتے ہیں جب کہ دوسرے کی کثیر اطاعت کو بھی حقیر ہی سمجھتے ہیں ۔ لوگوں پر طعنہ زن رہتے ہیں اور اپنے معاملہ میں نرم و نازک رہتے ہیں۔مالداروں کے ساتھ لہوولعب(۱) کو فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر ذکر خداسے زیادہ دوست رکھتے

(۱)دورحاضر کا عظیم ترین عیار زندگی یہی ہے اور ہرشخص ایسی ہی زندگی کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔کافی ہائوس ' نائٹ کلب اوردیگر لغویات کے مقامات پر سرمایہ داروں کی مصاحبت کے لئے ہر متوسط طبقہ کاآدمی مرا جارہا ہے اور کسی کو یہ شوق نہیں پیدا ہوتا ہے کہ چند لمحہ خانہ خدا میں بیٹھ کر فقیروں کے ساتھ مالک کی بارگاہ میں مناجات کرکے اور یہ احساس کرے کہ اس کی بارگاہ میں سب فقیر ہیں اور یہ دولت و امارت صرف چند روزہ تماشہ ے ورنہ انسان خالی ہاتھ آیا ہے اورخالی ہاتھ ہی جانے والا ہے۔دولت عاقبت بنانے کاذریعہ تھی اگر اسے بھی عاقبت کی بربادی کی اہ پر لگادیا تو آخرت میں حسرت و فاسوس کے علاوہ کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔

۶۷۶

يَحْكُمُ عَلَى غَيْرِه لِنَفْسِه،ولَا يَحْكُمُ عَلَيْهَا لِغَيْرِه - يُرْشِدُ غَيْرَه ويُغْوِي نَفْسَه - فَهُوَ يُطَاعُ ويَعْصِي ويَسْتَوْفِي ولَا يُوفِي - ويَخْشَى الْخَلْقَ. فِي غَيْرِ رَبِّه ولَا يَخْشَى رَبَّه فِي خَلْقِه.

قال الرضي - ولو لم يكن في هذا الكتاب إلا هذا الكلام - لكفى به موعظة ناجعة وحكمة بالغة - وبصيرة لمبصر وعبرة لناظر مفكر.

۱۵۱ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ امْرِئٍ عَاقِبَةٌ حُلْوَةٌ أَوْ مُرَّةٌ.

۱۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ مُقْبِلٍ إِدْبَارٌ ومَا أَدْبَرَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ.

۱۵۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَعْدَمُ الصَّبُورُ الظَّفَرَ وإِنْ طَالَ بِه الزَّمَانُ.

ہیں۔اپنے حق میں دوسروں کے خلاف فیصلہ کردیتے ہیں اور دوسروں کے حق میں اپنے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔دوسروں کو ہدایت دیتے ہیں اور اپنے نفس کو گمراہ کرتے ہیں۔خود ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور یہخود معصیت کرتے رہتے ہیں اپنے حق کو پورا پورا لے لیتے ہیں اور دوسروں کے حق کوادا نہیں کرتے ہیں۔پروردگار کوچھوڑ کر مخلوقات سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں پروردگار سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔

سید رضی : اگر اس کتاب میں اس کلام کے علاوہ کوئی دوسری نصیحت نہ بھی ہوتی تو یہی کلام کامیاب موعظت ' بلیغ حکمت اور صاحبان بصیرت کی بصیرت اور صاحبان فکرو نظر کی عبرت کے لئے کافی تھا۔

(۱۵۱)

ہرشخص کا ایک انجام بہر حال ہونے والا ہے چاہے شیریں ہو یاتلخ۔

(۱۵۲)

ہرآنے والا پٹنے والا ہے اور جوپلٹ جاتا ہے وہ ایسا ہوجاتا ے جیسے تھا ہی نہیں۔

(۱۵۳)

صبرکرنے والا کامیابی سے محروم نہیں ہو سکتا ہے چاہے کتنا ہی زمانہ کیوں نہ لگے جائے ۔

۶۷۷

۱۵۴ - وقَالَعليه‌السلام الرَّاضِي بِفِعْلِ قَوْمٍ كَالدَّاخِلِ فِيه مَعَهُمْ - وعَلَى كُلِّ دَاخِلٍ فِي بَاطِلٍ إِثْمَانِ - إِثْمُ الْعَمَلِ بِه وإِثْمُ الرِّضَى بِه.

۱۵۵ - وقَالَعليه‌السلام اعْتَصِمُوا بِالذِّمَمِ فِي أَوْتَادِهَا

۱۵۶ - وقَالَعليه‌السلام عَلَيْكُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لَا تُعْذَرُونَ بِجَهَالَتِه

۱۵۷ - وقَالَعليه‌السلام قَدْ بُصِّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ وقَدْ هُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ وأُسْمِعْتُمْ إِنِ اسْتَمَعْتُمْ.

۱۵۸ - وقَالَعليه‌السلام عَاتِبْ أَخَاكَ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه وارْدُدْ شَرَّه بِالإِنْعَامِ عَلَيْه.

(۱۵۴)

کسی قوم کے عمل سے راضی ہو جانے والا بھی اسی کے ساتھ شمار کیا جائے گا اورجو کسی باطل میں داخل ہوجائے گا اس پر دہرا گناہ ہوگا عمل کابھی گناہ اور راضی ہونے کابھی گناہ۔

(۱۵۵)

عہدوپیمان کی ذمہداری ان کے حوالہ کرو جو میخوں کی طرح مستحکم اورمضبوط ہوں۔

(۱۵۶)

اس کی اطاعت ضرر کرو جس سے نا واقفیت قابل معافی نہیں ہے۔(یعنی خدائی منصب دار)

(۱۵۷)

اگر تم بصیرت رکھتے ہو تو تمہیں حقائق دکھلائے جا چکے ہیں اور اگر ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہوتو تمہیں ہدایت دی جا چکی ہے اور اگر سننا چاہتے ہو تو تمہیں پیغام سنایا جا چکا ہے۔

(۱۵۸)

اپنے بھائی کو تنبیہ کرو تو احسان(۱) کرنے کے بعد اور اس کے شر کا جواب دو تولطف و کرم کے ذریعہ۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان اگر صرف تنبیہ کرتا ہے اور کام نہیں کرتا ہے تواس کی تنبیہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے کہ دوسرا شخص پہلے ہی بد ظن ہو جاتا ہے تو کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اور نصیحت بیکارچلی جاتی ہے ۔اس کے برخلاف اگر پہلے احسان کرکے دل میں جگہ بنالے اوراس کے بعد نصیحت کرے تو یقینا نصیحت کا اثر ہوگا اوربات ضائع و برباد نہ ہوگی۔

۶۷۸

۱۵۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ وَضَعَ نَفْسَه مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ - فَلَا يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِه الظَّنَّ.

۱۶۰ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ مَلَكَ اسْتَأْثَرَ

۱۶۱ - وقَالَعليه‌السلام مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِه هَلَكَ - ومَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا.

۱۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ كَتَمَ سِرَّه كَانَتِ الْخِيَرَةُ بِيَدِه.

۱۶۳ - وقَالَعليه‌السلام الْفَقْرُ الْمَوْتُ الأَكْبَرُ.

۱۶۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ قَضَى حَقَّ مَنْ لَا يَقْضِي حَقَّه فَقَدْ عَبَدَه.

(۱۵۹)

جس نے اپنے نفس کو تہمت کے مواقع(۱) پر رکھ دیا۔اسے کسی بد ظنی کرنے والے کو ملامت کرنے کا حق نہیں ہے۔

(۱۶۰)

جو اقتدار حاصل کر لیتا ہے وہ جانبداری کرنے لگتا ہے ۔

(۱۶۱)

جو خود رائی سے کام لے گا وہ ہلاک ہوجائے گا اور جو لوگوں سے مشورہ کرے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

(۱۶۲)

جو اپنے راز کو پوشیدہ رکھے گا اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

(۱۶۳)

فقیری سب سے بڑی موت ہے ۔

(۱۶۴)

جو کسی ایسے شخص کا حق ادا کردے جو اس کا حق(۲) ادا نہ کرتا ہو تو گویا اس نے اس کی پرستش کرلی ہے۔

(۱)عجیب و غریب بات ہے کہ انسان ان لوگوں سے فوراً بیزار ہو جاتا ہے جواس سے بدگمانی رکھتے ہیں لیکن ان الات سے بیزاری کا اظہار نہیں کرتا ہے جن کی بناپربدگمانی پیدا ہوتی ہے جب کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے بد ظنی کے مقامات سے اجتناب کرے اور اس کے بعد ان لوگوں سے ناراضگی کا اظہار کرے جو بلا سبب بد ظنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ انسان کے عمل کی کوئی بنیاد ہونی چاہیے اور میزان و معیار کے بغیر کسی عمل کو انجام نہیں دینا چاہیے۔اب اگر کوئی شخص کسی کے حق کی پرواہ نہیں کرتا ہے اوروہ اس کے حقوق کوادا کئیے جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کو اس کابندہ ٔ بے دام تصور کرتا ہے اوراس کی پرستش کئے چلا جا رہا ہے۔

۶۷۹

۱۶۵ - وقَالَعليه‌السلام لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ.

۱۶۶ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُعَابُ الْمَرْءُ بِتَأْخِيرِ حَقِّه إِنَّمَا يُعَابُ مَنْ أَخَذَ مَا لَيْسَ لَه.

۱۶۷ - وقَالَعليه‌السلام الإِعْجَابُ يَمْنَعُ الِازْدِيَادَ

۱۶۸ - وقَالَعليه‌السلام الأَمْرُ قَرِيبٌ والِاصْطِحَابُ قَلِيلٌ . 

۱۶۹ - وقَالَعليه‌السلام قَدْ أَضَاءَ الصُّبْحُ لِذِي عَيْنَيْنِ.

(۱۶۵)

خالق کی معصیت کے ذریعہ مخلوق کی اطاعت نہیں کی جا سکتی ہے۔

(۱۶۶)

اپناحق لینے میں تاخیرکردینا عیب نہیں ہے۔ دوسرے کے حق(۱) پرقبضہ کرلینا عیب ہے۔

(۱۶۷)

خود پسندی(۲) زیادہ عمل سے روک دیتی ہے۔

(۱۶۸)

آخرت قریب ہے اور دنیاکی صحبت بہت مختصر ہے۔

(۱۶۹)

آنکھوں والوں کے لئے صبح روشن ہوچکی ہے۔

(۱)انسان کی ذمہ داری ہے کہ زندگی میں حقوق حاصل کرنے سے زیادہ حقوق کی ادائیگی پرتوجہ دے کہ اپنے حقوق کو نظر انداز کردینا نہ دنیا میں باعث ملامت ہے اور نہ آخرت میں وجہ عذاب ہے لیکن دوسروں کے حقوق پر قبضہ کرلینا یقینا باعث مذمت بھی ہے اور وجہ عذاب و عقاب بھی ہے۔

(۲)کھلی ہوئی بات ہے کہ جب تک مریض کو مرض کا احساس رہتا ہے وہ علاج کی فکر بھی کرتا ہ لیکن جس دن ورم کو صحت تصور کر لیتا ہے ' اس دن سے علاج چھوڑ دیتا ہے یہی حال خود پسندی کا ہے کہ خود پسندی کردار کا ورم ہے جس کے بعد انسان اپنی کمزوریوں سے غافل ہو جاتا ہے اوراس کے نتیجہ میں عمل ختم کر دیتا ہے یا رفتار عمل کو سست بنادیتا ہے اور یہی چیز اس کے کردارکی کمزوری کے لئے کافی ہے۔

۶۸۰

۱۷۰ - وقَالَعليه‌السلام تَرْكُ الذَّنْبِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِ الْمَعُونَةِ.

۱۷۱ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ أَكْلَةٍ مَنَعَتْ أَكَلَاتٍ.

۱۷۲ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

۱۷۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوه الآرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَإِ.

۱۷۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلَّه قَوِيَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ.

(۱۷۰)

گناہ کا نہ کرنابعد(۱) میںمدد مانگنے سے آسان تر ہے۔

(۱۷۱)

اکثر اوقات ایک کھانا کئی کھانوں ے روک دیتا ہے۔

(۱۷۲)

لوگ ان چیزوں کے دشمن ہوتے ہیں جن سے بے خبر ہوتے ہیں ۔

(۱۷۳)

جومختلف(۲) آرائکا سامنا کرتا ہے وہ غلطی کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔

(۱۷۴)

جو اللہ کے لئے غضب کے سنان کو تیز کر لیتا ہے وہ باطل کے سور مائوں کے قتل پر بھی قادر ہو جاتا ہے۔

(۱)مثل مشہور ہے کہ پرہیز کرنا علاج کرنے سے بہتر ہے کہ پرہیز انسان کو بیماریوں سے بچا لیتاہے اور اس طرح اس کی فطری طاقت محفوظ رہتی ہے لیکن پزہیز نہ کرنے کی بنا پر اگر مرض نے حملہ کردیا تو طاقت خود بخود کمزور ہو جاتی ہے اور پھر علاج کے بعد بھی وہ فطری حالت واپس نہیںآتی لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ گناہوںکیذریعہ نفس کے آلودہ ہونے اورتوبہ کے ذریعہ اس کی تطہیر کرنے سے پہلے اس کی صحت کاخیال رکھے اور اسے آلودہ نہ ہونے دے تاکہ علاج کی زحمت سے محفوظ رہے۔

(۲)اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مشورہ کرنے والا غلطیوں سے محفوظ رہتا ہے کہ اسے کئی طرح کے افکارحاصل ہو جاتے ہیں اور ہر شخص کے ذریعہ دوسرے کی فکر کی کمزوری کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اور اس طرح صحیح رائے اختیار کرنے میں کوئی زحمت نہیں رہ جاتی ہے۔

۶۸۱

۱۷۵ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا هِبْتَ أَمْراً فَقَعْ فِيه - فَإِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّيه أَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْه.

۱۷۶ - وقَالَعليه‌السلام آلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ.

۱۷۷ - وقَالَعليه‌السلام ازْجُرِ الْمُسِيءَ بِثَوَابِ الْمُحْسِنِ

۱۷۸ - وقَالَعليه‌السلام احْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَيْرِكَ بِقَلْعِه مِنْ صَدْرِكَ.

۱۷۹ - وقَالَعليه‌السلام اللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّأْيَ.

(۱۷۵)

جب کسی امر سے دہشت محسوس کروتواس میں پھاند پڑو کہ زیادہ خوف و احتیاط خطرہ سے زیادہ خطر ناک ہوتی ہے۔

(۱۷۶)

ریاست کاوسیلہ وسعت صدر ہے۔

(۱۷۷)

بد عمل کے سرزنش کے لئے نیک عمل(۱) والے کو اجرو انعام دو۔

(۱۷۸)

دوسرے کے دل سے شر کا کاٹ دینا ہے تو پہلے اپنے دل سے اکھاڑ کر پھینک دو۔

(۱۷۹)

ہٹدھرمی صحیح رائے کو بھی دور کردیتی ہے۔

(۱)ہمارے معاشرہ کی کمزوریوں میں سے ایک اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ یہاں بدکرداروں پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن نیک کردار کی تائید و توصیف نہیں کی جاتی ہے۔آپ ایک دن غلط کام کریں تو سارے شہر میں ہنگامہ ہو جائے گا لیکن ایک سال تک بہترین کام کریں تو کوئی بیان کرنے والا بھی نہ پیدا ہوگا ۔حالانکہ اصول بات یہ ہے کہ نیکی کے پھیلانے کا طریقہ صرف برائی پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے بہتر طریقہ خود نیکی کی حوصہل افزائی کرنا ہے جس کے بعد ہر شخص میں نیکی کرنے کا شعور بیدار ہو جائے گا اور برائیوں کا قلع قمع ہو جائے گا۔

۶۸۲

۱۸۰ - وقَالَعليه‌السلام الطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَبَّدٌ.

۱۸۱ - وقَالَعليه‌السلام ثَمَرَةُ التَّفْرِيطِ النَّدَامَةُ وثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلَامَةُ.

۱۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ - كَمَا أَنَّه لَا خَيْرَ فِي الْقَوْلِ بِالْجَهْلِ.

۱۸۳ - وقَالَعليه‌السلام مَا اخْتَلَفَتْ دَعْوَتَانِ إِلَّا كَانَتْ إِحْدَاهُمَا ضَلَالَةً.

۱۸۴ - وقَالَعليه‌السلام مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُه.

(۱۸۰)

لالچ(۱) ہمیشہ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

(۱۸۱)

کوتاہی ہی کا نتیجہ شرمندگی ہے اورہوشیاری کا ثمرہ سلامتی ۔

(۱۸۲)

حکمت(۲) سے خاموشی میں کوئی یر نہیں ہے جس طرح کہ جہالت سے بولنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

(۱۸۳)

جب دو مختلف دعوتیں دی جائیں تو دو میں سے ایک یقینا گمراہی ہوگی۔

(۱۸۴)

مجھے جب سے حق دکھلا دیا گیا ہے میں کبھی شک کا شکار نہیں ہوا ہوں۔

(۱)یہ انسانی زندگی کی عظیم ترین حقیقت ہے کہ حرص و طمع رکھنے والا انسان نفس کا غلام اورخواہشات کا بندہ ہوجاتا ہے اور جو شخص خواہشات کی بندگی میں مبتلا ہوگیا وہ کسی قیمت پر اس غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔انسانیزندگی کی دانشمندی کا تقاضایہ ہے کہ انسان اپنے کو خواہشات دنیا اورحرص طمع سے دور رکھے تاکہ کسی غلامی میں مبتلا نہ ہونے پائے کہ یہاں ''شوق ہر رنگ رقیب سرو سمان '' ہواکرتا ہے اور یہاں کی غلامی سے نجات ممکن نہیں ہے۔

(۲)انسان کو حرف حکمت کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ دوسروے لوگ اس سے استفادہ کریں اور حرف جہالت سے پرہیز کرنا چاہیے کہ جہالت کی بات کرنے سے خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے۔انسان کی عزت بھی سلامت رہتی ہے اور دوسروں کی گمراہی کابھی کوئی اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔

۶۸۳

۱۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا كَذَبْتُ ولَا كُذِّبْتُ ولَا ضَلَلْتُ ولَا ضُلَّ بِي.

۱۸۶ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ الْبَادِي غَداً بِكَفِّه عَضَّةٌ

۱۸۷ - وقَالَعليه‌السلام الرَّحِيلُ وَشِيكٌ

۱۸۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْدَى صَفْحَتَه لِلْحَقِّ هَلَكَ

۱۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ لَمْ يُنْجِه الصَّبْرُ أَهْلَكَه الْجَزَعُ.

۱۹۰ - وقَالَعليه‌السلام وَا عَجَبَاه أَتَكُونُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ والْقَرَابَةِ؟

(۱۸۵)

میں نے نہ غلط بیانی کی ہے اور نہ مجھے جھوٹ خبردی گئی ہے ۔نہ میں گمراہ ہوا ہوں اورنہ مجھے گمراہ کیا جا سکا ہے۔

(۱۸۶)

ظلم(۱) کی ابتدا کرنے واے کو کل ندامت سے اپنا ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔

(۱۸۷)

کوچ کا وقت قریب آگیا ہے۔

(۱۸۸)

جس نے حق سے منہ موڑ لیا وہ ہلاک ہوگیا۔

(۱۸۹)

جسے صبر(۲) نجات نہیں دلا سکتا ہے اسے بے قراری مار ڈالتی ہے ۔

(۱۹۰)

واعجباہ!خلافت صرف صحابیت کی بناپ رمل سکتی ہے لیکن اگر صحابیت اور قرابت دونوں جمع ہو جائیں تونہیں مل سکتی ہے

(۱)اگریہ دنیا میں ہر ظلم کرنے والے کا انجام ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا جس نے عالم اسلام میں ظلم کی ابتدا کی ہے اور جس کے مظالم کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور اولاد رسول اکرم (ص) کسی آن بھی مظالم سے محفوظ نہیں ہے۔

(۲)دنیا میں کام آنے والا صرف صبر ہے کہ اس سے انسان کا حوصلہ بھی بڑھتا ہے اور اسے اجرو ثواب بھی ملتا ہے۔بے قراری میں ان میں سے کوئی صفت نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی مسئلہ حال ہونے والا ہے۔لہٰذا ارکسی شخص نے صبر کو چھوڑ کر بے قراری کا راستہ اختیار کرلیا توگویا اپنی تباہی کا آپ انتظام کرلیا اور پروردگار کی معیت سے بھی محروم ہوگیا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتا ہے جزع و فزع کرنے والوں کے ساتھ نہیں رہتا ہے۔

۶۸۴

قال الرضي - وروي له شعر في هذا المعنى:

فإن كنت بالشورى ملكت أمورهم

فكيف بهذا والمشيرون غيب

وإن كنت بالقربى حججت خصيمهم

فغيرك أولى بالنبي وأقرب

۱۹۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّمَا الْمَرْءُ فِي الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيه الْمَنَايَا - ونَهْبٌ تُبَادِرُه الْمَصَائِبُ - ومَعَ كُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ - وفِي كُلِّ أَكْلَةٍ غَصَصٌ - ولَا يَنَالُ الْعَبْدُ نِعْمَةً إِلَّا بِفِرَاقِ أُخْرَى - ولَا يَسْتَقْبِلُ يَوْماً مِنْ عُمُرِه إِلَّا بِفِرَاقِ آخَرَ مِنْ أَجَلِه - فَنَحْنُ أَعْوَانُ الْمَنُونِ وأَنْفُسُنَا نَصْبُ الْحُتُوفِ - فَمِنْ أَيْنَ نَرْجُو الْبَقَاءَ - وهَذَا اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَمْ يَرْفَعَا مِنْ شَيْءٍ شَرَفاً - إِلَّا أَسْرَعَا الْكَرَّةَ فِي هَدْمِ مَا بَنَيَا وتَفْرِيقِ مَا جَمَعَا.

سید رضی : اس معنی میں حضرت کا یہ شعر بھی ہے۔

''اگر تم نے شوریٰ سے اقتدار حاصل کیا ہے تو یہ شوریٰ کیسا ہے جس میں مشیر ہی سب غائب تھے۔

اور اگر تم نے قرابت سے اپنی خصوصیت کا اظہار کیا ہے تو تمہاراغیرتم سے زیادہ رسول اکرم (ص) کے لئے اولیٰ اور اقرب ہے ''

(۱۹۱)

انسان اس دنیا میں وہ نشانہ ہے جس پرموت اپنے تیر چلاتی ہے ۔اوروہ مصائب کی غارت گری کی جولانگاہ بنا رہتا ہے۔یہاں کے ہر گھونٹ پر اچھو ہے اور ہر لقمہ پر گلے میں ایک پھندہ ہے۔انسان ایک نعمت کوحاصل نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسری ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور زندگی کے ایک دن(۱) کا استقبال نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسرا دن ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

ہم موت کے مدد گار ہیں اور ہمارے نفس ہلاکت کانشانہ ہیں۔ہم کہاں سے بقاء کی امید کریں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو اونچا نہیں کرتے ہیں مگر یہ کہ حملہ کرکے اسے منہدم کردیتے ہیں اورجسے بھی یکجا کرتے ہیں اسے بکھیر دیتے ہیں۔

(۱)کس قدرغلط فہمی کاشکار ہے وہ انسان جو ہر آنے وایل دن کو اپنی زندگی میں ایک اضافہ تصور کرتا ہے۔حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کا کوئی اضافہ نہیں ہے بلکہ ایک دن نے جا کردوسرے دن کے لئے جگہ خالی ہے اور اس کی آمد کی زمین ہموار کی ہے تو اس طرح انسان کا حساب برابر ہی رہ گیا۔ایک دن جیب میں داخل ہوا اورایک دن جیب سے نکل گیا اور اس طرح ایکدن زندگی کاخاتمہ ہو جائے گا۔

۶۸۵

۱۹۲ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ مَا كَسَبْتَ فَوْقَ قُوتِكَ - فَأَنْتَ فِيه خَازِنٌ لِغَيْرِكَ.

۱۹۳ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْقُلُوبِ شَهْوَةً وإِقْبَالًا وإِدْبَاراً - فَأْتُوهَا مِنْ قِبَلِ شَهْوَتِهَا وإِقْبَالِهَا - فَإِنَّ الْقَلْبَ إِذَا أُكْرِه عَمِيَ.

۱۹۴ - وكَانَعليه‌السلام يَقُولُ: مَتَى أَشْفِي غَيْظِي إِذَا غَضِبْتُ؟ أَحِينَ أَعْجِزُ عَنِ الِانْتِقَامِ فَيُقَالُ لِي لَوْ صَبَرْتَ - أَمْ حِينَ أَقْدِرُ عَلَيْه فَيُقَالُ لِي لَوْ عَفَوْتَ.

.

(۱۹۲)

فرزند آدم ! اگر تونے اپنی(۱) غذا سے زیادہ کمایا ہے تو گویا اس مال میں دوسروں کا خزانچی ہے۔

(۱۹۳)

دلوں کے لئے رغبت و خواہش ۔آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا سبھی کچھ ہے لہٰذا جب میلان اور توجہ کا وقت ہوتو اس سے کام لے لو کہ دل کو مجبورکرکے کام لیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔

(۱۹۴)

مجھے غصہ(۲) آجائے تو میں اس سے تسکین کس طرح حاصل کروں ؟ انتقام سے عاجز ہو جائوں گا تو کہا جائے گا کہ صبرکرو اور انتقام کی طاقت پیداکرلوں گا تو کہا جائے گا کہ کاش معاف کردیتے ( ایسی حالت میں غصہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے )

(۱)یہ بات طے شدہ ہے کہ مالک کا نظام تقسیم غلط نہیں ہے اوراس نے ہر شخص کی طاقت ایک جیسی نہیں رکھی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس نے ذخائر کائنات میں حصہ سب کا رکھا ہے لیکن سب میں انہیں حاصل کرنے کی یکساں طاقت نہیں ہے بلکہ ایک کو دوسرے کے لئے وسیلہ اورذریعہ بنادیا ہے تو اگر تمہارے پاس تمہارای ضرورت سے زیادہ مال آجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک نے تمہیں دوسروں کے حقوق کا خازن بنادیا ہے اور اب تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی خیانت نہ کرو اور ہر ایک کو اس کا حصہ پہنچا دو۔

(۲)آپ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ لوگوں کو صبرو تحمل کی تلقین کرتے ہیں کہ جب طات نہیں تھی تو انتقام لینے کی ضرورت ہی کیا تھی اور طاقتور ثابت ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ کمزور آدمی سے کیا انتقام لینا ہے۔مقالہ کسی برابر والے سے کرنا چاہیے تھا۔ایسی صورت میں تقاضائے عقل و منطق یہی ہے کہ انسان صبرو تحمل سے کام لے اور جب تک انتقام فرض شرعی نہ بن جائے اس وقت تک اس کا ارادہ بھی نہ کرے اور پھر جب مالک کائنات انتقام لینے والا موجود ہے تو انسان کو اس قدر زحمت برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

۶۸۶

۱۹۵ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ مَرَّ بِقَذَرٍ عَلَى مَزْبَلَةٍ - هَذَا مَا بَخِلَ بِه الْبَاخِلُونَ.

ورُوِيَ فِي خَبَرٍ آخَرَ أَنَّه قَالَ - هَذَا مَا كُنْتُمْ تَتَنَافَسُونَ فِيه بِالأَمْسِ.

۱۹۶ - وقَالَعليه‌السلام لَمْ يَذْهَبْ مِنْ مَالِكَ مَا وَعَظَكَ.

۱۹۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ - فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ.

۱۹۸ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا سَمِعَ قَوْلَ الْخَوَارِجِ لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّه - كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ.

۱۹۹ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الْغَوْغَاءِ - هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا

(۱۹۵)

ایک مزبلہ سے گزرتے ہوئے فرمایا:'' یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا''یا دوسری روایت کی بنا پر''جس کے بارے میں کل ایک دوسرے سے رشک کر رہے تھے ''۔( یہ ہے انجام دنیا اور انجام لذات دنیا)

(۱۹۶)

جو مال نصیحت کاسامان فراہم کردے وہ برباد نہیں ہوا ہے ۔

(۱۹۷)

یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن۔لہٰذا ان کے لئے لطیف ترین حکمتیں فراہم کرو۔

(۱۹۸)

جب آپ نے خوارج کا یہ نعرہ سنا کہ '' خدا کے علاوہ کسی کے لئے حکم نہیں ہے '' تو فرمایا کہ '' یہ کلمہ حق ہے '' لیکن اس سے باطل معنی مراد لیے گئے ہیں۔

(۱۹۹)

بازاری لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا کہ ۔یہی وہ لوگ ہیں جو مجتمع ہو جاتے ہیں۔تو

۶۸۷

غَلَبُوا وإِذَا تَفَرَّقُوا لَمْ يُعْرَفُوا - وقِيلَ بَلْ قَالَعليه‌السلام - هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا ضَرُّوا وإِذَا تَفَرَّقُوا نَفَعُوا - فَقِيلَ قَدْ عَرَفْنَا مَضَرَّةَ اجْتِمَاعِهِمْ فَمَا مَنْفَعَةُ افْتِرَاقِهِمْ - فَقَالَ يَرْجِعُ أَصْحَابُ الْمِهَنِ إِلَى مِهْنَتِهِمْ - فَيَنْتَفِعُ النَّاسُ بِهِمْ كَرُجُوعِ الْبَنَّاءِ إِلَى بِنَائِه - والنَّسَّاجِ إِلَى مَنْسَجِه والْخَبَّازِ إِلَى مَخْبَزِه.

۲۰۰ - وقَالَعليه‌السلام وأُتِيَ بِجَانٍ ومَعَه غَوْغَاءُ فَقَالَ - لَا مَرْحَباً بِوُجُوه لَا تُرَى إِلَّا عِنْدَ كُلِّ سَوْأَةٍ

غالب(۱) آجاتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں تو پہچانے بھی نہیں جاتے ہیں۔

اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت نے اس طرح فرمایا تھا کہ ۔جب مجتمع ہو جاتے ہیں تو نقصان دہ ہوتے ہیں اور جب منتشر ہو جاتے ہیں تبھی فائدہ مند ہو تے ہیں۔تو لوگوں نے عرض کی کہ اجتماع میں نقصان تو سمجھ میں آگیا لیکن انتشار میں فائدہ کے کیا معنی ہیں ؟ تو فرمایا کہ سارے کاروبار والے اپنے کاروبار کی طرف پلٹجاتے ہیں اور لوگ ان سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں جس طرح معمار اپنی عمارت کی طرف چلا جاتا ہے۔کپڑا بننے والا کارخانہکی طرف چلا جاتا ہے اور روٹی پکانے والا تنور کی طرف پلٹ جاتا ہے۔

(۲۰۰)

آپ کے پاس ایک مجرم کو لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا تو فرمایا کہ '' ان چہروں پر پھٹکار ہوجو صرف(۲) برائی اور رسوائی کے موقع پر نظر آتے ہیں۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوامی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور دنیا کا کوئی نظام اس طاقت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا ہے اور اسی لئے مولائے کائنات نے بھی مختلف مقامات پر ان کی اہمیت کجی طرف اشارہ کیا ہے اور ان پر خاص توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔لیکن عوام الناس کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کی اکثریت عقل و منطق سے محروم اورجذبات و عواطف سے معمور ہوتی ہے اور ان کے اکثر کام صرف جذبات واحساسات کی بناپ رانجام پاتے ہیں اور اس طرح جونظام بھی ان کے جذباتو خواہشات کی ضمانت دے دیتا ہے وہ فوراً کامیاب ہوجاتا ہے اور عقل و منطق کا نظام پیچھے رہ جاتا ہے لہٰذا حضرت نے چاہا کہ اس کمزوری کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے تاکہ ارباب حل و عقد ہمیشہ ان کے جذباتی اور ہنگامی و جود پر اعتماد نہ کریں بلکہ اس کی کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھیں۔

(۲)عام طور سے انسانوں کا مزاج یہی ہوتا ہے کہ جہاں کسی برائی کا منظر نظرآتا ہے فوراً اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔مسجد کے نمازیوں کا دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا ہے لیکن قیدی کا تماشا دیکھنے والے ہزاروں نکلآتے ہیں اور اس طرح اس اجتماع کا کوئی مقصد بھی نہیں ہوتا ہے ۔آپ کامقصد یہ ہے کہ یہ اجتماع عبرت حاصل کرنے کے لئے ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی مگر افسوس کہ یہ صرف تماشا دیکھنے کے لئے ہوتا ہے اور انسان کے وقت کا اس سے کہیں زیادہ اہم مصرف موجود ہے لہٰذا اسے اسی مصرف میں صرف کرنا چاہیے۔

۶۸۸

۲۰۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ مَلَكَيْنِ يَحْفَظَانِه - فَإِذَا جَاءَ الْقَدَرُ خَلَّيَا بَيْنَه وبَيْنَه - وإِنَّ الأَجَلَ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ

۲۰۲ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ قَالَ لَه طَلْحَةُ والزُّبَيْرُ - نُبَايِعُكَ عَلَى أَنَّا شُرَكَاؤُكَ فِي هَذَا الأَمْرِ - لَا ولَكِنَّكُمَا شَرِيكَانِ فِي الْقُوَّةِ والِاسْتِعَانَةِ - وعَوْنَانِ عَلَى الْعَجْزِ والأَوَدِ

۲۰۳ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه الَّذِي إِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ - وإِنْ أَضْمَرْتُمْ عَلِمَ - وبَادِرُوا الْمَوْتَ الَّذِي إِنْ هَرَبْتُمْ مِنْه أَدْرَكَكُمْ - وإِنْ أَقَمْتُمْ أَخَذَكُمْ - وإِنْ نَسِيتُمُوه ذَكَرَكُمْ.

۲۰۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُزَهِّدَنَّكَ فِي الْمَعْرُوفِ مَنْ لَا يَشْكُرُه لَكَ

(۲۰۱)

ہر انسان کے ساتھ دو محافظ فرشتے رہتے ہیں لیکن جب موت کا قوت آجاتا ے تو دونوں ساتھ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں گویا کہ موت ہی بہترین سپر ہے۔

(۲۰۲)

جب طلحہ و زبیر نے یہ تقاضا کیا کہ ہم بیعت کر سکتے ہیںلیکن ہمیں شریک ار بنانا پڑے گا ؟ تو فرمایا کہ ہرگز نہیں تم صرف قوت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک ہو سکتے ہو اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مدد گار بن سکتے ہو۔

(۲۰۳)

لوگو! اس خدا سے ڈرو جو تمہاری ہر بات کو سنتا ہے اور ہر راز دل کا جاننے والا ہے اور اس موت کی طرف سبقت کرو جس سے بھاگنا بھی چاہو تو وہ تمہیں پالے گی اور ٹھہر جائو گے تو گرفت میں لے لی گی اورتم اسے بھول بھی جائو گے تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔

(۲۰۴)

خبردار کسی شکریہ ادا نہ کرنے والے کی نالائقی تمہیں کارخیر(۱) سے بد دل نہ بنادے۔ہو سکتا ہے کہ تمہارا

(۱)اولاً تو کار خیر میں شکریہ کا انتظار ہی انسان کے اخلاص کو مجروح بنادیتا ہے اور اس کے عمل کاوہ مرتبہ نہیں رہ جاتا ہے جو صرف فی سبیل اللہ عمل کرنے والے افراد کاہوتا ہے جس کی طرف قرآن مجید نے سورہ ٔ مبارکہ دہر میں اشارہ کیا ہے '' لا نرید منکم جزاء اولا شکورا ''اس کے بعد اگر انسان فطرت سے مجبور ہے اورف طری طور پرشکریہ کا خواہش مند ہے تو مولائے کائنات نے اس کابھی اشارہ دے دیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کمی دوسرے افراد کی طرف سے پوری ہوجائے اور وہ تمہارے کارخیرکی قدر دانی کرکے شکریہ کی کمی کا تدارک کردیں۔

۶۸۹

- فَقَدْ يَشْكُرُكَ عَلَيْه مَنْ لَا يَسْتَمْتِعُ بِشَيْءٍ مِنْه - وقَدْ تُدْرِكُ مِنْ شُكْرِ الشَّاكِرِ - أَكْثَرَ مِمَّا أَضَاعَ الْكَافِرُ -( والله يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) .

۲۰۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ وِعَاءٍ يَضِيقُ بِمَا جُعِلَ فِيه - إِلَّا وِعَاءَ الْعِلْمِ فَإِنَّه يَتَّسِعُ بِه.

۲۰۶ - وقَالَعليه‌السلام أَوَّلُ عِوَضِ الْحَلِيمِ مِنْ حِلْمِه - أَنَّ النَّاسَ أَنْصَارُه عَلَى الْجَاهِلِ.

۲۰۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنْ لَمْ تَكُنْ حَلِيماً فَتَحَلَّمْ - فَإِنَّه قَلَّ مَنْ تَشَبَّه بِقَوْمٍ - إِلَّا أَوْشَكَ أَنْ يَكُونَ مِنْهُمْ.

۲۰۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ حَاسَبَ نَفْسَه رَبِحَ ومَنْ غَفَلَ عَنْهَا خَسِرَ - ومَنْ خَافَ أَمِنَ ومَنِ اعْتَبَرَ أَبْصَرَ -

شکریہ وہ ادا کردے جس نے اس نعمت سے کوئی فائدہ بھی نہیں اٹھایا ہے اور جس قدر کفران نعمت کرنے والے نے تمہارا حق ضائع کیا ہے اس شکریہ اداکرنے والے کے شکریہ سے برابر ہو جائے اور ویسے بھی اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

(۲۰۵)

ہر ظرف اپنے سامان کے لئے تنگ ہو سکتا ہے لیکن علم ظرف(۱) علم کے اعتبار سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔

(۲۰۶)

صبر کرنے والے کا اس کی قوت برداشت پر پہلا اجریہ ملتا ہے کہ لوگ جاہل کے مقابلہمیں اس کے مدد گار ہو جاتے ہیں۔

(۲۰۷)

اگر تم واقعاً بردبار نہیں بھی ہو تو بردباری کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی سباہت اختیار کرے اوران میں سے نہ ہوجائے ۔

(۲۰۸)

جو اپنے نفس کاحساب کرتا رہتا ہے وہ فائدہ میں رہتا ہے اورجوغافل ہو جاتا ہے وہی خسارہ میں رہتا ہے خوف خدا رکھنے والا عذاب سے محفوظ رہتا ہے اور عبرت

(۱)علم کا ظرف عقل ہے اور عقل غیر مادی ہونے کے اعتبارسے یوں بھی بے پناہ وسعت کی مالک ہے۔اس کے بعد مالک نے اس میں یہ صلاحیت بھی رکھی ہے کہ جس قدر علم میں اضافہ ہوتا جائے گا اس کی وسعتوں پراضافہ ہوتا جائے گا اور اسکی وسعت کسی مرحلہ پر تمام ہونے والی نہیں ہے ۔

۶۹۰

ومَنْ أَبْصَرَ فَهِمَ ومَنْ فَهِمَ عَلِمَ.

۲۰۹ - وقَالَعليه‌السلام : لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْيَا عَلَيْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا - عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَى وَلَدِهَا - وتَلَا عَقِيبَ ذَلِكَ -( ونُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأَرْضِ - ونَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً ونَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ ) .

۲۱۰ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ شَمَّرَ تَجْرِيداً وجَدَّ تَشْمِيراً - وكَمَّشَ فِي مَهَلٍ وبَادَرَ عَنْ وَجَلٍ - ونَظَرَ فِي كَرَّةِ الْمَوْئِلِ - وعَاقِبَةِ الْمَصْدَرِ ومَغَبَّةِ الْمَرْجِعِ

کرنے والا صاحب بصیرت ہوتا ہے۔بصیرت والا فہیم ہوتا ہے اور فہیم ہی عالم ہو جاتا ہے۔

(۲۰۹)

یہ دنیا منہ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف(۱) بہرحال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کواپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے۔اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی۔'' ہم چاہتے ہیں کہ ان بندوں پراحسان کریں جنہیں روئے زمین میں کمزور بنادیا ہے۔اورانہیں پیشوا اقرار دیں اور زمین کا وارث بنادیں۔

(۲۱۰)

اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے دنیا چھوڑ کر دامن(۲) سمیٹ لیا ہو اور دامن سمیٹ کر کوشش میں لگ گیا ہو۔اچھائیوں کے لئے وقفہ مہلتمیں تیزی کے ساتھ چل پڑا ہو اورخطروں کے پیش نظر قدم تیز بڑھادیا ہو۔اور اپنی قرار گاہ اپنے اعمال کے نتیجہ اور اپنیانجام کار پرنظر رکھی ہو۔

(۱)یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ظالم میں اگر ادنیٰ انسانیت پائی جاتی ہے تو اسے ایک دن مظلوم کی مظلومیت کابہر حال احساس پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے حال پرمہربانی کا ارادہ کرنے لگتا ہے چاہے حالات اورمصالح اسے اس مہربانی کو منزل عمل تک لانے سے روک دیں۔دنیا کوئی ایسی جلاد اور ظالم نہیں ہے جسے دوسرے کو ہٹا کر اپنی جگہ بنانے کاخیال ہو لہٰذا اسے ایک نہایک دن مظلوم پر رحم کرنا ہے اور ظالموں کو منظر تاریخ سے ہٹا کر مظلوموں کو کرسی ریاست پر بٹھانا ہے یہی منشاء الٰہی ہے اور یہی وعدۂ قرآنی ہے جس کے خلاف کا کوئی امکان نہیں پایاجاتا ہے۔

(۲)یہ اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ تقویٰ کسی زبانی جمع خرچ کا نام ہے اور نہ لباس و غذا کی سادگی سے عبارت ہے۔تقویٰ ایک انتہائی منزل دشوار ہے جہاں انسان کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔پہلے دنیا کو خیر باد کہنا ہوتا ہے۔اس کے بعد دامن عمل کو سمیٹ کر کام شروع کرنا ہوتا ہے اوراچھائیوں کی طرف تیز قدم بڑھانا پڑتے ہیں۔اپنے انجام کا ر اور نتیجہ عمل پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے اور خطرات کے دفاع کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔یہ سارے مراحل طے ہو جائیں توانسان متقی اور پرہیز گار کہے جانے کے قابل ہوتا ہے۔

۶۹۱

۲۱۱ - وقَالَعليه‌السلام الْجُودُ حَارِسُ الأَعْرَاضِ - والْحِلْمُ فِدَامُ السَّفِيه - والْعَفْوُ زَكَاةُ الظَّفَرِ - والسُّلُوُّ عِوَضُكَ مِمَّنْ غَدَرَ - والِاسْتِشَارَةُ عَيْنُ الْهِدَايَةِ - وقَدْ خَاطَرَ مَنِ اسْتَغْنَى بِرَأْيِه - والصَّبْرُ يُنَاضِلُ الْحِدْثَانَ - والْجَزَعُ مِنْ أَعْوَانِ الزَّمَانِ - وأَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى - وكَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِيرٍ تَحْتَ هَوَى أَمِيرٍ - ومِنَ التَّوْفِيقِ حِفْظُ التَّجْرِبَةِ - والْمَوَدَّةُ قَرَابَةٌ مُسْتَفَادَةٌ ولَا تَأْمَنَنَّ مَلُولًا

۲۱۲ - وقَالَعليه‌السلام عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِه أَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِه.

۲۱۳ - وقَالَعليه‌السلام أَغْضِ عَلَى الْقَذَى والأَلَمِ تَرْضَ أَبَداً.

(۲۱۱)

سخاوت عزت(۱) وآبروکی نگہبان ہے اوربردباری احمق کے منہ کا تسمہ ہے۔معافی کامیابی کی زکوٰة ہے اور بھول جانا غداری کرنے والے کا بدل ہے اور مشورہ کرنا عین ہدایت ہے۔جس نے اپنی رائے ہی پر اعتماد کرلیا اسنے اپنے کوخطرہ میں ڈال دیا۔صبر حوادث کامقابلہ کرتا ہے اوربے قراری زمانہ کی مدد گار ثابت ہوتی ہے۔بہترین دولت مندی تمنائوں کا ترک کردینا ہے۔کتنی ہی غلام عقلیں ہیں جو روساء کی خواہشات کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ تجربات کومحفوظ رکھنا توفیق کی ایک قس ہے اور محبت ایک اکتسابی قرابت ہے اورخبردار کسی رنجیدہ ہو جانے والے پر اعتماد نہ کرنا۔

(۲۱۲)

انسان کا خود پسندی میں مبتلا ہو جانا خود اپنی عقل سے حسد کرنا ہے۔

(۲۱۳)

آنکھوں کے خس و خاشاک اور رنج و الم پر چشم(۱) پوشی کرو ہمیشہ خوش رہو گے۔

(۱)اس کلمہ حکمت میںمولائے کائنات نے تیرہ مختلف نصیحتوں کاذکر فرمایا ہے اوران میں ہر نصیحت انسانی زندگی کا بہترین جوہر ہے۔کا شانسان اس کے ایک ایک فقرہ پر غور کرے اور زندگی کی تجربہ گاہ میں استعمال کرے تو اسے اندازہ ہو گا کہ ایک مکمل زندگی گذارنے کا ضابطہ کیاہوتا ہے اور انسان کس طرح دنیا وآخرت کے خیر کو حاصل کرلیتا ہے۔

(۲)حقیقت امریہ ہے کہ ہر ظلم کا ایک علاج اور دنیا کی ہرمصیبت کا ایک توڑ ہے جس کا نام ہے صبرو تحمل۔انسان صرف یہ ایک جوہر پیداکرلے تو بڑی سے بڑی مصیبت کامقالہ کر سکتا ہے اور کسی مرحلہ پر پریشان نہیں ہوسکتا ہے۔رنجیدہ و غمزدہ وہی رہتے ہیں جن کے پاس یہ جوہر نہیں ہوتا ہے اورخوش حال و مطمئن وہی رہتے ہیں جن کے پاس یہ جوہر ہوتا ہے اوروہ اسے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔

۶۹۲

۲۱۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ لَانَ عُودُه كَثُفَتْ أَغْصَانُه

۲۱۵ - وقَالَعليه‌السلام الْخِلَافُ يَهْدِمُ الرَّأْيَ.

۲۱۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَالَ اسْتَطَالَ

۲۱۷ - وقَالَعليه‌السلام فِي تَقَلُّبِ الأَحْوَالِ عِلْمُ جَوَاهِرِ الرِّجَالِ.

۲۱۸ - وقَالَعليه‌السلام حَسَدُ الصَّدِيقِ مِنْ سُقْمِ الْمَوَدَّةِ

(۲۱۴)

جس درخت کی لکڑی(۱) نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں (لہٰذا انسان کو نرم دل ہو نا چاہیے )

(۲۱۵)

مخالفت صحیح رائے کوبھی برباد کر دیتی ہے۔

(۲۱۶)

جو منصب(۲) پالیتا ہے وہ دست درازی کرنے لگتا ہے۔

(۲۱۷)

لوگوں کے جوہر حالات کے انقلاب میں پہچانے جاتے ہیں۔

(۲۱۸)

دوست کاحسد کرنا محبت کی کمزوی ہے۔

(۱)کتنا حسین تجربہ حیات ہے جس سے ایک دیہاتی انسان بھی استفادہ کر سکتا ہے کہ اگر پروردگار نے درختوں میں یہ کمال رکھا ہے کہ جن درختوں کی شاخوں کو گھنا بنایا ہے ان کی لکڑیوں کو نرم بنا دیا ہے تو انسان کوبھی اس حقیقت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اگر اپنے اطراف مخلصین کا مجمع دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے کو بے سایہ درخت نہیں بنانا چاہتا ہے تو اپنی طبیعت کونرم بنادے تاکہ اس کے سہارے لوگ اس کے گردجمع ہوجائیں اور اس کی شخصیت ایک گھنیرے درخت کی ہوجائے ۔

(۲)کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انسان پروردگار کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت پر اتر آتا ہے اور اس کے دئیے ہوئے اقتدار کو دست درازی میں استعمال کرنے لگتا ہے حالانکہ شرافت و انسانیت کا تقاضا یہی تھا کہ جس طرح اس نے صاحب قدرت و قوت ہونے کے بعد اس کے حال پر حم کیا ہے اسی طرح اقتدار پانے کے بعد یہ دوسروں کے حال پر رحم کرے۔

۶۹۳

۲۱۹ - وقَالَعليه‌السلام أَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُولِ تَحْتَ بُرُوقِ الْمَطَامِعِ.

۲۲۰ - وقَالَعليه‌السلام لَيْسَ مِنَ الْعَدْلِ الْقَضَاءُ عَلَى الثِّقَةِ بِالظَّنِّ.

۲۲۱ - وقَالَعليه‌السلام بِئْسَ الزَّادُ إِلَى الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَى الْعِبَادِ.

۲۲۲ - وقَالَ عليهلامو مِنْ أَشْرَفِ أَعْمَالِ الْكَرِيمِ غَفْلَتُه عَمَّا يَعْلَمُ.

۲۲۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ كَسَاه الْحَيَاءُ ثَوْبَه لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَه.

۲۲۴ - وقَالَعليه‌السلام بِكَثْرَةِ الصَّمْتِ تَكُونُ الْهَيْبَةُ - وبِالنَّصَفَةِ يَكْثُرُ الْمُوَاصِلُونَ - وبِالإِفْضَالِ تَعْظُمُ الأَقْدَارُ

(۲۱۹)

عقلوں کی تباہی کی بیشتر منزلیں حرص و طمع کی بجلیوں(۱) کے نیچے ہیں۔

(۲۲۰)

یہ کوئی انصاف نہیں ہے کہ صرف ظن و گمان کے اعتماد پر فیصلہ کردیا جائے ۔

(۲۲۱)

روز قیامت کے لئے بد ترین زاد سفر بندگان خدا پر ظلم ہے۔

(۲۲۲)

کریم کے بہترین اعمال میں جان کر انجان بن جانا۔

(۲۲۳)

جسے حیا نے اپنا لباس اوڑھا دیا اس کے عیب کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے۔

(۲۲۴)

زیادہ خاموشی ہیبت کا سبب بنتی ہے اورانصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے۔فضل و کرم سے قدرو

(۱)حرص و طمع کی چمک دمک بعض اوقات عقل کی نگاہوں کو بھی ذخیرہ کر دیتی ہے اور انسان نیک وبد کے امتیاز سے محروم ہوجاتا ہے۔لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے کو حرص و طمع سے دور رکھے اورزندگی کا ہر قدم عقل کے زیر سایہ اٹھائے تاکہ کسی مرحلہ پر تباہ وبرباد نہ ونے پائے ۔

۶۹۴

وبِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ - وبِاحْتِمَالِ الْمُؤَنِ يَجِبُ السُّؤْدُدُ - وبِالسِّيرَةِ الْعَادِلَةِ يُقْهَرُ الْمُنَاوِئُ - وبِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيه تَكْثُرُ الأَنْصَارُ عَلَيْه.

۲۲۵ - وقَالَ علالسلام الْعَجَبُ لِغَفْلَةِ الْحُسَّادِ عَنْ سَلَامَةِ الأَجْسَادِ.

۲۲۶ - وقَالَعليه‌السلام الطَّامِعُ فِي وِثَاقِ الذُّلِّ.

۲۲۷ - وسُئِلَ عَنِ الإِيمَانِ - فَقَالَ الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ - وإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ.

منزلت بلند ہوتی ہے اور تواضع سے نعمت مکمل ہوتی ہے۔دوسروں کا بوجھ اٹھانے سے سرداری حاصل ہوتی ہے اور انصاف پسند کردار سے دشمن پر غلبہ حاصل کیا جاتا ہے۔احمق کے مقابلہ میں بردباری کے مظاہرہ سے انصار و اعوان(۱) میں اضافہ ہوتا ہے۔

(۲۲۵)

حیرت کی بات ہے کہ حسد کرنے والے جسموں کی سلامتی پرحسد کیوں نہیں کرتے ہیں ( دولت مند کی دولت سے حسد ہوتا ہے اور مزدورکی صحت سے حسد نہیں ہوتا ہے حالانکہ یہ اس سے بڑی نعمت ہے۔

(۲۲۶)

لالچی(۲) ہمیشہ ذلت کی قید میں گرفتار رہتا ہے۔

(۲۲۷)

آپ سے ایمان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہایمان دل کا عقیدہ ' زبان کا اقرار اوراعضاء و جوارح کے عمل(۳) کا نام ہے۔

(۱)اس نصیحت میں بھی زندگی کے سات مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اوریہ بتایا گیا ہے کہ انسان ایک کامیاب زندگی کس طرح گزار سکتا ہے اور اسے اس دنیا میں باعزت زندگی کے لئے کن اصول و قوانین کو اختیار کرنا چاہیے۔

(۲)لالچ میں دو طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک طرف انسان نفسیاتی ذلت کاشکار رہتا ہے کہ اپنے کو حقیر فقیر تصورکرتا ہے اوراپنی کسی بھی دولت کا احساس نہیں کرتا ہے اور دوسری طرف دوسرے ارفاد کے سامنے حقارت و ذلت کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ شائد اسی طرح کسی کو اس کے حال پر رحم آجائے اوروہ اس کے مدعا کے حصول کی راہ ہموار کردے

(۳)علی والوں کو اس جملہ کو بغور دیکھنا چاہیے کہ کل ایمان نے ایمان کو اپنی زندگی کے سانچہ میں ڈھال دیا ہے کہ جس طرح آپ کی زندگی میں اقرار ' تصدیق اور عمل کے تینوں زخ پائے جاتے تھے ویسے ہی آپ ہر صاحب ایمان کو اس کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بغیر کسی کو صاحب ایمان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ بے عمل اگر صاحب ایمان نہیں ہو سکتا ہے تو کل ایمان کا شیعہ اور ان کا مخلص کیسے ہو سکتا ہے ۔

۶۹۵

۲۲۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً - فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللَّه سَاخِطاً - ومَنْ أَصْبَحَ يَشْكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِه - فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّه - ومَنْ أَتَى غَنِيّاً فَتَوَاضَعَ لَه لِغِنَاه ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِه - ومَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ - فَهُوَ مِمَّنْ كَانَ يَتَّخِذُ آيَاتِ اللَّه هُزُواً - ومَنْ لَهِجَ قَلْبُه بِحُبِّ الدُّنْيَا الْتَاطَ قَلْبُه مِنْهَا بِثَلَاثٍ - هَمٍّ لَا يُغِبُّه وحِرْصٍ لَا يَتْرُكُه وأَمَلٍ لَا يُدْرِكُه.

۲۲۹ - وقَالَعليه‌السلام كَفَى بِالْقَنَاعَةِ مُلْكاً وبِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِيماً وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قَوْلِه تَعَالَى -( فَلَنُحْيِيَنَّه حَياةً طَيِّبَةً ) فَقَالَ هِيَ الْقَنَاعَةُ.

۲۳۰ - وقَالَعليه‌السلام شَارِكُوا الَّذِي قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْه الرِّزْقُ - فَإِنَّه أَخْلَقُ لِلْغِنَى وأَجْدَرُ بِإِقْبَالِ الْحَظِّ عَلَيْه.

(۲۲۸)

جودنیاکے بارے(۱) میں رنجیدہ ہو کرصبح کرے وہ درحقیقت قضائے الٰہی سے ناراض ہے اور جو صبح اٹھتے ہی کسی نازل ہونے والی مصیبت کاشکوہ شروع کردے اس نے درحقیقت پروردگار کی شکایت کی ہے۔جوکسی دولت مند کے سامنے دولت کی بنا پرجھک جائے اس کا دو تہائیدین بابرباد ہوگیا۔اورجوشخص قرآن پڑنے کے باوجود مرکر جہنم واصل ہوجائے گویا اسنے آیات الٰہی کامذاق اڑایا ہے۔جس کا دل محبت دنیامیں وارفتہ ہو جاء اس کے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہو جاتی ہیں۔وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ' وہ لالچ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اوروہ امید جسے کبھی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔

(۲۲۹)

قناعت سے بڑی کوئی سلطنت اور حسن اخلاق سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔آپ سے دریافت کیا گیا کہ '' ہم حیات طیبہ عنایت کریں گے ''اس آیت میں حیات طیبہ سے مراد کیا ہے ؟۔فرمایا : قناعت۔

(۲۳۰)

جس کی طرف روزی کا رخ ہو اس کے ساتھ شریک ہو جائو کہ یہ دولت مندی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ اور خوش نصیبی کا بہترین قرینہ ہے۔

(۱)اس مقام پر چار عظیم نکات زندگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لہٰذا انسان کو ان کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور صبرو شکر کے ساتھ زندگی گذارنی چاہیے۔نہ شکوہ و فریاد شروع کردے اورنہ دولت کی غلامی پر آمادہ ہوجائے ۔قرآن پڑھے تواس پر عمل بھی کرے اور دنیا میں رہے تو اس سے ہوشیار بھی رہے۔

۶۹۶

۲۳۱ - وقَالَعليه‌السلام : فِي قَوْلِه تَعَالَى( إِنَّ الله يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ والإِحْسانِ ) - الْعَدْلُ الإِنْصَافُ والإِحْسَانُ التَّفَضُّلُ.

۲۳۲ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ يُعْطِ بِالْيَدِ الْقَصِيرَةِ يُعْطَ بِالْيَدِ الطَّوِيلَةِ.

قال الرضي - ومعنى ذلك أن ما ينفقه المرء من ماله - في سبيل الخير والبر وإن كان يسيرا - فإن الله تعالى يجعل الجزاء عليه عظيما كثيرا - واليدان هاهنا عبارة عن النعمتين - ففرقعليه‌السلام بين نعمة العبد - ونعمة الرب تعالى ذكره بالقصيرة والطويلة - فجعل تلك قصيرة وهذه طويلة - لأن نعم الله أبدا - تضعف على نعم المخلوق أضعافا كثيرة - إذ كانت نعم الله أصل النعم كلها - فكل نعمة إليها ترجع ومنها تنزع.

(۲۳۱)

آیت کریمہ'' ان اللہ یا مر بالعدل(۱) '' میں عدل ' انصاف ہے اوراحسان فضل و کرم۔

(۲۳۲)

جو عاجز ہاتھ سے دیتا ہے اسے صاحب اقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔

سید رضی : جوشخص کسی کا رخیر میں مختصر مال بھی خرچ کرتا ہے پروردگار اس کی جزاء کوعظیم و کثیر بنا دیتا ہے۔یہاں دونوں '' ید '' سے مراد دونوں نعمتیں ہیں۔بندہ کی نعمت کو ید قصیرہ کہا گیا ہے اورخدائی نعمت کو یدطویلہ ۔اس لئے کہ اللہ کی نعمتیں بندوں کے مقابلہ میں ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہیں۔اور وہی تمام نعمتوں کی اصل اور سب کامرجع و منشاء ہوتی ہے۔

(۱)حضرت عثمان بن مظعون کا بیان ہے کہ میرے اسلام میں استحکام اس دن پیداہوا جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور میں نے جناب ابو طالب سے اس آیت کا ذکر کیا اور انہوں نے فرمایا کہ میرا فرزند محمد (ص) ہمیشہ بلند ترین اخلاق کی باتیں کرتا ہے لہٰذا اس کا اتباع اور اس سے ہدایت حاصل کرنا تمام قریش کا فریضہ ہے۔

۶۹۷

۲۳۳ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه الْحَسَنِ -عليه‌السلام لَا تَدْعُوَنَّ إِلَى مُبَارَزَةٍ وإِنْ دُعِيتَ إِلَيْهَا فَأَجِبْ - فَإِنَّ الدَّاعِيَ إِلَيْهَا بَاغٍ والْبَاغِيَ مَصْرُوعٌ

۲۳۴ - وقَالَعليه‌السلام خِيَارُ خِصَالِ النِّسَاءِ شِرَارُ خِصَالِ الرِّجَالِ - الزَّهْوُ والْجُبْنُ والْبُخْلُ - فَإِذَا كَانَتِ الْمَرْأَةُ مَزْهُوَّةً .لَمْ تُمَكِّنْ مِنْ نَفْسِهَا - وإِذَا كَانَتْ بَخِيلَةً حَفِظَتْ مَالَهَا ومَالَ بَعْلِهَا - وإِذَا كَانَتْ جَبَانَةً فَرِقَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يَعْرِضُ لَهَا.

۲۳۵ - وقِيلَ لَه صِفْ لَنَا الْعَاقِلَ - فَقَالَعليه‌السلام هُوَ الَّذِي يَضَعُ الشَّيْءَ مَوَاضِعَه - فَقِيلَ فَصِفْ لَنَا الْجَاهِلَ

(۲۳۳)

اپنے فرزند امام حسن سے فرمایا: تم کسی کو جنگ کی دعوت(۱) نہ دینالیکن جب کوئی للکار دے تو فوراً جواب دے دینا کہ جنگ کی دعوت دینے والا باغی ہوتا ہے اور باغی بہرحال ہلاک ہونے والا ہے۔

(۲۳۴)

عورتوں کی بہترین خصلتیں جو مردوں کی بد ترین خصلتیں شمار ہوتی ہیں۔ان میں غرور۔بزدلی اور بخل ہے کہ عورت(۲) اگر مغرورہوگی تو کوئی اس پر قابو نہ پاسکے گا اوراگربخیل ہوگی تو اپنے اور اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اوراگر بزدل ہوگی تو ہر پیش آنے والے خطرہ سے خوفزدہ رہے گی۔

(۲۳۵)

آپ سے گزارش کی گئی کہ عاقل کی توصیف فرمائیں۔تو فرمایا کہ عاقل وہ ہے جو ہرشے کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے۔عرض کیا گیا پھر جاہل کی تعریف کیا

(۱)اسلام کا توازن عمل یہی ہے کہ جنگ میں پہل نہ کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو اس کو نظرانداز کیا جائے لیکن اس کے بعد اگر دشمن جنگ کی دعوت دیدے تو اسے نظرانداز بھی نہ کیا جائے کہ اس طرح اسے اسلام کی کمزوری کا احساس پیداہو جائے گا اوراس کے حوصلے بلند ہو جائیں گے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہاسے یہ محسوس کرادیا جائے کہ اسلام کمزور نہیں ہے لیکن پہل کرنا اس کے اخلاقی اصول و آئین کے خلاف ہے۔

(۲)یہ تفصیل اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں صفات انہیں بلند ترین مقاصد راہ میں محبوب ہیں ورنہ ذاتی طور پر نہ غرور محبوب ہو سکتا ہے اور نہ بخل و بزدلی۔ہر صفت اپنے مصرف کے اعتبار سے خوبی یا خراجی پیدا کرتی ہے اور عورت کے یہ صفات انہیں مقاصد کے اعتبار سے پسندیدہ ہیں مطلق طور پر یہ صفات کسی کے لئے بھی پسندیدہ نہیں ہو سکتے ہیں۔

۶۹۸

فَقَالَ قَدْ فَعَلْتُ.

قال الرضي - يعني أن الجاهل هو الذي لا يضع الشيء مواضعه - فكأن ترك صفته صفة له - إذ كان بخلاف وصف العاقل.

۲۳۶ - وقَالَعليه‌السلام واللَّه لَدُنْيَاكُمْ هَذِه - أَهْوَنُ فِي عَيْنِي مِنْ عِرَاقِ خِنْزِيرٍ فِي يَدِ مَجْذُومٍ

۲۳۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ - وإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ - وإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الأَحْرَارِ.

۲۳۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْأَةُ شَرٌّ كُلُّهَا وشَرُّ مَا فِيهَا أَنَّه لَا بُدَّ مِنْهَا.

ہے۔ فرمایا یہ تو میں بیان کر چکا ۔

سید رضی : مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو ہرشے کو بے محل رکھتا ہے اور اس کا بیان نہ کرنا ہی ایک طرح کا بیان ہے کہ وہ عاقل کی ضد ہے۔

(۲۳۶)

خداکی قسم یہ تمہاری دنیا میری نظر کوڑھی کے ہاتھ میں سور(۱) کی ہڈی سے بھی بد تر ہے۔

(۲۳۷)

ایک قوم ثواب کی لالچ میں عبادت کرتی ہے تو یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قوم عذاب کے خوف سے عبادت کرتی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے۔اصل وہ قوم ہے جو شکرخدا کے عنوان سے عبادت کرتی ہے اور یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔

(۲۳۸)

عورت سرپا شر(۲) ہےاور اس کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس کے بغیر کام بھی نہیں چل سکتا ہے۔

(۱)ایک تو سور جیسے نجس العین جانورکی ہڈی اوروہ بھی کوڑھی انسان کے ہاتھ میں۔اس سے زیادہ نفرت انگیز شے دنیا میں کیا ہو سکتی ہے۔امیر المومنین نے اس تعبیر سے اسلام اور عقل دونوں کے تعلیمات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اسلام نجس العین سے اجتناب کیدعوت دیتا ہے اور عقل متعدی امراض کے مریضوں سے بچنے کی دعوت دیتی ہے۔ایسے حالات میں اگر کوئی شخص دنیا پر ٹوٹ پڑے تو نہ مسلمان کہے جانے کے قابل ہے اور نہ صاحب عقل۔

(۲)بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت کا یہ اشارہ کسی '' خاص عورت '' کی طرف ہے ورنہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ عورت کی صنف کو شر قرار دے دیا جائے اور اسے اس حقارت کی نظر سے دیکھا جائے '' لا بد منھا '' اس رشتہ کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا ہے اور ان کے بغیر زندگی کو ادھورا اور نامکمل قراردیا گیا ہے ۔

۶۹۹

۲۳۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَطَاعَ التَّوَانِيَ ضَيَّعَ الْحُقُوقَ - ومَنْ أَطَاعَ الْوَاشِيَ ضَيَّعَ الصَّدِيقَ.

۲۴۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحَجَرُ الْغَصِيبُ فِي الدَّارِ رَهْنٌ عَلَى خَرَابِهَا.

قال الرضي - ويروى هذا الكلام عن النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولا عجب أن يشتبه الكلامان - لأن مستقاهما من قليب ومفرغهما من ذنوب

۲۴۱ - وقَالَعليه‌السلام يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ - أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظَّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.

۲۴۲ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقِ اللَّه بَعْضَ التُّقَى وإِنْ قَلَّ - واجْعَلْ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه سِتْراً وإِنْ رَقَّ.

۲۴۳ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا ازْدَحَمَ الْجَوَابُ خَفِيَ الصَّوَابُ.

(۲۳۹)

جوشخص کاہلی اور سستی سے کام لیتا ہے وہ اپنے حقوق کوبھی برباد کردیتا ہے اورجوچغل خور کی بات مان لیتا ہے وہ دوستوں کوبھی کھو بیٹھتا ہے۔

(۲۴۰)

گھرمیں ایک پتھر بھی غصبی لگا ہوتو وہ اس کی بربادی کی ضمانت ہے۔

سیدرضی : اس کلام کو رسول اکرم (ص) سے بھی نقل کیا گیا ہے اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ دونوں کا سر چ شمہ علم ایک ہی ہے۔

(۲۴۱)

مظلوم کا دن (قیامت ) ظالم کے لئے اس دن سے سخت تر ہوتا ہے جو ظالم کا مظلوم کے لئے ہوتا ہے۔

(۲۴۲)

اللہ کا ہر نعمت میں ایک حق ہے۔جو اسے ادا کردے گا۔اللہ اس کی نعمت کو بڑھا دے گا اورکو کوتاہی کرے گا وہموجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا۔

(۲۴۳)

جب جوابات کی کثرت ہو جاتی ہے تو اصل بات گم ہو جاتی ہے۔

۷۰۰

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863