نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 630172
ڈاؤنلوڈ: 15075

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 630172 / ڈاؤنلوڈ: 15075
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱۱۸ - وقَالَعليه‌السلام إِضَاعَةُ الْفُرْصَةِ غُصَّةٌ.

۱۱۹ - وقَالَ علالسلام مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا - والسَّمُّ النَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا - يَهْوِي إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ ويَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ.

۱۲۰ - وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قُرَيْشٍ فَقَالَ - أَمَّا بَنُو مَخْزُومٍ فَرَيْحَانَةُ قُرَيْشٍ - نُحِبُّ حَدِيثَ رِجَالِهِمْ والنِّكَاحَ فِي نِسَائِهِمْ - وأَمَّا بَنُو عَبْدِ شَمْسٍ فَأَبْعَدُهَا رَأْياً - وأَمْنَعُهَا لِمَا وَرَاءَ ظُهُورِهَا - وأَمَّا نَحْنُ فَأَبْذَلُ لِمَا فِي أَيْدِينَا - وأَسْمَحُ عِنْدَ الْمَوْتِ بِنُفُوسِنَا - وهُمْ أَكْثَرُ وأَمْكَرُ وأَنْكَرُ - ونَحْنُ أَفْصَحُ وأَنْصَحُ وأَصْبَحُ.

(۱۱۸)

فرصت(۱) کا ضائع کردینا رنج و اندوہ کاباعث ہوتا ہے۔

(۱۱۹)

دنیا کی مثال سانپ جیسی ہے جوچھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے اور اس کے اندر زہر قاتل ہوتا ہے ۔ فریب خوردہ جاہل اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور صاحب عقل(۲) و ہوش اس سے ہوشیار رہتا ہے۔

(۱۲۰)

آپ سے قریش کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ بنی محزوم قریش کامہکتا ہواپھول ہیں۔ان سے گفتگو بھی اچھی لگتی ہے اور ان کی عورتوں سے رشتہ داری بھی محبوب ہے اوربنی عبد شمس بہت دورت کسوچنے والے اور اپنے پیٹھ پیچھے کی باتوں کی روک تھام کرنے والے ہیں۔لیکن ہم بنی ہاشم اپنے ہاتھ کی دولت کے لٹانے اورموت کے میدان میں جان دینے والے ہیں۔وہ لوگ عدد میں زیادہ ۔مکرو فریب میں آگے اوربد صورت ہیں اور ہم لوگ فصیح و بلیغ ' مخلص اور روشن چہرہ ہیں۔

(۱)انسانی زندگی میں ایسے مقامات بہت کم آتے ہیں جب کسی کام کا مناسب موقع ہاتھ آجاتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھالے اوراسے ضائع نہ ہونے دے کہ فرصت کا نکل جانا انتہائی رنج و اندوہ کاب اعث ہوتا ہے ۔

(۲)عقل کا کام یہ ہے کہ وہ اشیائکے باطن پرنگاہ رکھے اور صرف ظاہر کے فریب میں نہ آئے ورنہ سانپ کا ظاہر بھی انتہائی نرم و نازک ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر کا زہر انتہائی قاتل اورتباہ کن ہوتا ہے ۔

۶۶۱

۱۲۱ - وقَالَعليه‌السلام شَتَّانَ مَا بَيْنَ عَمَلَيْنِ - عَمَلٍ تَذْهَبُ لَذَّتُه وتَبْقَى تَبِعَتُه - وعَمَلٍ تَذْهَبُ مَئُونَتُه ويَبْقَى أَجْرُه.

۱۲۲ - وتَبِعَ جِنَازَةً فَسَمِعَ رَجُلًا يَضْحَكُ فَقَالَ - كَأَنَّ الْمَوْتَ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا كُتِبَ - وكَأَنَّ الْحَقَّ فِيهَا عَلَى غَيْرِنَا وَجَبَ - وكَأَنَّ الَّذِي نَرَى مِنَ الأَمْوَاتِ سَفْرٌ عَمَّا قَلِيلٍ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ - نُبَوِّئُهُمْ أَجْدَاثَهُمْ ونَأْكُلُ تُرَاثَهُمْ كَأَنَّا مُخَلَّدُونَ بَعْدَهُمْ - ثُمَّ قَدْ نَسِينَا كُلَّ وَاعِظٍ ووَاعِظَةٍ ورُمِينَا بِكُلِّ فَادِحٍ وجَائِحَةٍ

(۱۲۱)

ان دو طرح کے اعمال میں کس قدر فاصلہ پایا جاتا ہے۔وہ عمل(۱) جس کی لذت ختم ہو جائے اوراس کا وبال باقی رہ جائے اوروہ عمل جس کی زحمت ختم ہو جائے اور اجرباقی رہ جائے ۔

(۱۲۲)

آپ نے ایک جنازہ میں شرکت فرمائی اور ایک شخص کو ہنستے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا '' ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موت کسی اور کے لئے لکھی گئی ہے اور یہ حق کسی دوسرے پر لازم قراردیا گیا ہے اور گویا کہجن مرنے والوں کو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایسے مسافر ہیں جو عنقریب واپس آنے والے ہیں کہ ادھر ہم انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں اور ادھر(۲) ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں جیسے ہم ہمیشہ رہنے والے ہیں۔اس کے بعد ہم نے ہر نصیحت کرنے والے مرد اورعورت کو بھلا دیا ہے اور ہر آفت و مصیبت کا نشانہ بن گئے ہیں۔

(۱)دنیا اورآخرت کے اعمال کا بنیادی فرق یہی ہے کہ دنیا کے اعمال کی لذت ختم ہو جاتی ہے اور آخرت میں اس کا حساب باقی رہ جاتا ہے اورآخرت کے اعمال کی زحمت ختم ہو جاتی ہے اوراس کا اجرو ثواب باقی رہ جاتا ہے۔

(۲)انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ کسی مرحلہ پر عبرت حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اور ہر منزل پراس قدر غافل ہو جاتا ہے جیسے نہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ ہے اور نہ سمجھنے والی عقل ۔ورنہ اس کے معنی کیا ہیں کہ آگے آگے جنازہ جا رہاہے اور پیچھے لوگ ہنسی مذاق کر رہے ہیں یا سامنے میت کو قبر میں اتارا جا رہا ہے اورحاضرین کرام دنیا کے سیاسی مسائل حل کر رہے ہیں۔یہ صورت حال اس بات کی علامت ہے کہ انسان بالکل غافل ہو چکا ہے اور اسے کسی طرح کا ہوش نہیں رہ گیا ہے۔

۶۶۲

۱۲۳ - وقَالَعليه‌السلام طُوبَى لِمَنْ ذَلَّ فِي نَفْسِه وطَابَ كَسْبُه - وصَلَحَتْ سَرِيرَتُه وحَسُنَتْ خَلِيقَتُه - وأَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَالِه وأَمْسَكَ الْفَضْلَ مِنْ لِسَانِه - وعَزَلَ عَنِ النَّاسِ شَرَّه ووَسِعَتْه السُّنَّةُ ولَمْ يُنْسَبْ إلَى الْبِدْعَةِ.

قال الرضي أقول ومن الناس من ينسب هذا الكلام إلى رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وكذلك الذي قبله.

۱۲۴ - وقَالَعليه‌السلام غَيْرَةُ الْمَرْأَةِ كُفْرٌ وغَيْرَةُ الرَّجُلِ إِيمَانٌ.

۱۲۵ - وقَالَعليه‌السلام لأَنْسُبَنَّ الإِسْلَامَ نِسْبَةً لَمْ يَنْسُبْهَا أَحَدٌ قَبْلِي - الإِسْلَامُ هُوَ التَّسْلِيمُ

(۱۲۳)

خوشا بحال اس کاجس نے اپنے اندر تواضع کی ادا پیدا کی ' اپنے کسب کو پاکیزہ بنالیا۔اپنے باطن کونیک کرلیا اپنے اخلاق کوحسین بنالیا۔اپنے مال کے زیادہ حصہ کو راہ خدا میں خرچ کردیا اور اپنی زبان درازی پر قابو پالیا۔اپنے شر کو لوگوں سے دور رکھا اورسنت کو اپنی زندگی میں جگہ دی اور بدعت سے کوئی نسبت نہیں رکھی۔

سید رضی: بعض لوگوں نے اس کلام کو رسول اکرم (ص) کے حوالہ سے بھی بیان کیا ہے جس طرح کہ اس سے پہلے والا کلام حکمت ہے ۔

(۱۲۴)

عورت کا غیرت(۱) کرنا کفر ہے اور مرد کا غیور ہونا عین ایمان ہے۔

(۱۲۵)

میں اسلام کی وہ تعریف کر رہا ہوں جو مجھ سے پہلے کوئی نہیں کر سکا ہے۔اسلام سپردگی ہے اور

(۱)اسلام نے اپنے مخوص مصالح کے تحت مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے اور اسی کو عالمی مسائل کا حل قرار دیا ہے لہٰذا کسی عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہمرد کی دوسری شادی پر اعتراض کرے یا دوسری عورت سے حسد اور بیزاری کا اظہار کرے کہ یہ بیزاری در حقیقت اس دوسری عورت سے نہیں ہے اسلام کے قانون ازدواج سے ہے اور قانون الٰہی سے بیزاری اور نفرت کا احساس کرنا کفر ہے اسلام نہیں ہے۔

اس کے بر خلاف عورت کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دی گئی ہے لہٰذا شوہر کا حق ہے کہ اپنے ہوتے ہوئے دوسرے شوہر کے تصورسے بیزاری کا اظہارکرے اوریہی اس کے کمال حیا و غریت اور کمال اسلام و ایمان کی دلیل ہے لہٰذا عورت کا غیرت کرنا کفر ہے اور مرد کا غیرت کرنا اسلام و ایمان کے مرادف ہے۔

۶۶۳

والتَّسْلِيمُ هُوَ الْيَقِينُ - والْيَقِينُ هُوَ التَّصْدِيقُ والتَّصْدِيقُ هُوَ الإِقْرَارُ - والإِقْرَارُ هُوَ الأَدَاءُ والأَدَاءُ هُوَ الْعَمَلُ.

۱۲۶ - وقَالَعليه‌السلام عَجِبْتُ لِلْبَخِيلِ يَسْتَعْجِلُ الْفَقْرَ الَّذِي مِنْه هَرَبَ - ويَفُوتُه الْغِنَى الَّذِي إِيَّاه طَلَبَ - فَيَعِيشُ فِي الدُّنْيَا عَيْشَ الْفُقَرَاءِ - ويُحَاسَبُ فِي الآخِرَةِ حِسَابَ الأَغْنِيَاءِ - وعَجِبْتُ لِلْمُتَكَبِّرِ الَّذِي كَانَ بِالأَمْسِ نُطْفَةً - ويَكُونُ غَداً جِيفَةً - وعَجِبْتُ لِمَنْ شَكَّ فِي اللَّه وهُوَ يَرَى خَلْقَ اللَّه - وعَجِبْتُ لِمَنْ نَسِيَ الْمَوْتَ وهُوَ يَرَى الْمَوْتَى - وعَجِبْتُ لِمَنْ أَنْكَرَ النَّشْأَةَ الأُخْرَى - وهُوَ يَرَى النَّشْأَةَ الأُولَى - وعَجِبْتُ لِعَامِرٍ دَارَ الْفَنَاءِ وتَارِكٍ دَارَ الْبَقَاءِ.

۱۲۷ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ قَصَّرَ فِي الْعَمَلِ ابْتُلِيَ بِالْهَمِّ ولَا حَاجَةَ لِلَّه فِيمَنْ لَيْسَ لِلَّه فِي مَالِه ونَفْسِه نَصِيبٌ.

سپردگی یقین ۔یقین تصدیق ہے اورتصدیق اقرار۔اقرار ادائے فرض ہے اور ادائے فرض عمل۔

(۱۲۶)

مجھے بخیل کے حال پر تعجب ہوتا ہے کہ اسی فقر میں مبتلا ہو جاتا ہے جس سے بھا گ رہا ہے اور پھر اس دولت مندی سے محروم ہو جاتا ہے جس کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔دنیا میں فقیروں جیسی زندگی گزارتا ہے اورآخرت میں مالداروں جیسا حساب دینا پتا ہے۔اسی طرح مجھے مغرورآدمی پر تعجب ہوتا ہے کہ جو کل نطفہ تھا اور کل مردار ہو جائے گا اورپھراکڑ رہا ہے۔مجھے اس شخص کے بارے میں بھی حیرت ہوتی ہے جو وجودخدامیں شک کرتا ہے حالانکہ مخلوقات خدا کو دیکھ رہا ہے اور اس کاحال بھی حیرت انگیز ہے جو موت کو بھولا ہوا ہے حالانکہ مرنے والوں کو برابر دیکھ رہا ہے۔مجھے اس کے حال پر بھی تعجب ہوتا ہے جو آخرت کے امکان کا انکار کردیتا ہے حالانکہ پہلے وجود کامشاہدہ کر رہا ہے۔اور اس کے حال پر بھی حیرت ہے جو فنا ہو جانے والے گھر کو آباد کر رہا ہے اورباقی رہ جانے والے گھر کوچھوڑے ہوئے ہے۔

(۱۲۷)

جس نے عمل میں کوتاہی کی وہ رنج و اندوہمیں بہر حال مبتلا ہوگا اور اللہ کو ایسے بندہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے جس کے جان(۱) و مال میں اللہ کا کوئی حصہ نہ ہو۔

(۱)بخل اوربزدلی اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنے جان و مال میں سے کوئی حصہ اپنے پروردگار کو نہیں دینا چاہتا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب بندہ محتاج ہو کر مالک سے بے نیاز ہو نا چاہتا ہے تو مالک کو اس کی کیا غرض ہے۔وہ بھی قطع تعلق کرل یتا ہے۔

۶۶۴

۱۲۸ - وقَالَعليه‌السلام تَوَقَّوُا الْبَرْدَ فِي أَوَّلِه وتَلَقَّوْه فِي آخِرِه - فَإِنَّه يَفْعَلُ فِي الأَبْدَانِ كَفِعْلِه فِي الأَشْجَارِ - أَوَّلُه يُحْرِقُ وآخِرُه يُورِقُ

۱۲۹ - وقَالَعليه‌السلام عِظَمُ الْخَالِقِ عِنْدَكَ يُصَغِّرُ الْمَخْلُوقَ فِي عَيْنِكَ.

۱۳۰ - وقَالَعليه‌السلام : وقَدْ رَجَعَ مِنْ صِفِّينَ فَأَشْرَفَ عَلَى الْقُبُورِ بِظَاهِرِ الْكُوفَةِ

يَا أَهْلَ الدِّيَارِ الْمُوحِشَةِ - والْمَحَالِّ الْمُقْفِرَةِ والْقُبُورِ الْمُظْلِمَةِ - يَا أَهْلَ التُّرْبَةِ يَا أَهْلَ الْغُرْبَةِ - يَا أَهْلَ الْوَحْدَةِ يَا أَهْلَ الْوَحْشَةِ - أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ سَابِقٌ ونَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ لَاحِقٌ - أَمَّا الدُّورُ فَقَدْ سُكِنَتْ وأَمَّا الأَزْوَاجُ فَقَدْ نُكِحَتْ - وأَمَّا الأَمْوَالُ فَقَدْ قُسِمَتْ - هَذَا خَبَرُ مَا عِنْدَنَا فَمَا خَبَرُ مَا عِنْدَكُمْ؟

ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِه فَقَالَ -

(۱۲۸)

سردی کے موسم سے ابتدا میں احتیاط کرو اور آخرمیں اس کا خیرمقدم کرو کہ اس کا اثر بدن پر درختوں کے پتوں جیسا ہوتا ہے کہ یہموسم ابتدا میں پتوں کو جھلسا دیتا ہے اور آخر میں شاداب بنا دیتا ہے ۔

(۱۲۹)

اگر خالق کی عظمت کا احساس پیدا ہو جائے گا تو مخلوقات خود بخود نگاہوں سے گر جائے گی۔

(۱۳۰)

صفین سے واپسی پر کوفہسے باہر قبرستان پرنظر پڑ گئی تو فرمایا۔اے وحشت ناک گھروں کے رہنے والو! اے ویران مکانات کے باشندو! اور تاریک قبروں میں بسنے والو۔ اے خاک نشینو۔اے غربت ' وحدت اور وحشت والو! تم ہم سے آگے چلے گئے ہو اور ہم تمہارے نقش قدم پرچل کر تم سے ملحق ہونے والے ہیں ۔دیکھو تمہارے مکانات آباد ہوچکے ہیں ۔تمہاری بیویوں کادوسرا عقد ہو چکا ہے اور تمہارے اموال تقسیم ہو چکے ہیں۔یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے۔اب تم بتائو کہ تمہارے یہاں کی خبر کیا ہے ؟

اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ

۶۶۵

أَمَا لَوْ أُذِنَ لَهُمْ فِي الْكَلَامِ - لأَخْبَرُوكُمْ أَنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى.

۱۳۱ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ سَمِعَ رَجُلًا يَذُمُّ الدُّنْيَا - أَيُّهَا الذَّامُّ لِلدُّنْيَا الْمُغْتَرُّ بِغُرُورِهَا - الْمَخْدُوعُ بِأَبَاطِيلِهَا أَتَغْتَرُّ بِالدُّنْيَا ثُمَّ تَذُمُّهَا - أَنْتَ الْمُتَجَرِّمُ عَلَيْهَا أَمْ هِيَ الْمُتَجَرِّمَةُ عَلَيْكَ - مَتَى اسْتَهْوَتْكَ أَمْ مَتَى غَرَّتْكَ - أَبِمَصَارِعِ آبَائِكَ مِنَ الْبِلَى - أَمْ بِمَضَاجِعِ أُمَّهَاتِكَ تَحْتَ الثَّرَى - كَمْ عَلَّلْتَ بِكَفَّيْكَ وكَمْ مَرَّضْتَ بِيَدَيْكَ - تَبْتَغِي لَهُمُ الشِّفَاءَ وتَسْتَوْصِفُ لَهُمُ الأَطِبَّاءَ - غَدَاةَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ دَوَاؤُكَ ولَا يُجْدِي عَلَيْهِمْ بُكَاؤُكَ - لَمْ يَنْفَعْ أَحَدَهُمْ إِشْفَاقُكَ ولَمْ تُسْعَفْ فِيه بِطَلِبَتِكَ - ولَمْ تَدْفَعْ عَنْه بِقُوَّتِكَ

''اگر انہیں بولنے کی اجازت(۱) مل جاتی تو تمہیں صرف یہ پیغام دیتے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ الٰہی ہے۔

(۱۳۱)

ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا۔اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اس کے فریب میں مبتلا ہو کراس کے مہملات سے دھوکہ کھا جانے والے ! تو اسی سے دھوکہ بھی کھاتا ہے اور اسی کی مذمت بھی کرتا ہے۔یہ بتا کہ تجھے اس پر الزام لگانے کاحق ہے یا اسے تجھ پرالزام لگانے کاحق ہے۔آخر اس نے کب تجھ سے تیری عقل کو چھین لیا تھا اور کب تجھ کو دھوکہ دیا تھا؟ کیا تیرے آباء واجداد کی کہنگی کی بنا پرگرنے سے دھوکہ دیا ہے یا تمہاری مائوں کی زیرخاک خواب گاہ سے دھوکہ دیا ہے ؟ کتنے بیمار ہیں جن کی تم نے تیمارداری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے ان کا علاج کیا ہے اورچاہا ہے کہ وہ شفایاب ہوجائیں اور اطباء سے رجوع بھی کیا ہے۔اس صبح کے ہنگام جب نہ کوئی دوا کام آرہی تھی اور نہ رونا دھونافائدہ پہنچا رہا تھا۔ نہ تمہاری ہدردی کسی کو فائدہ پہنچا سکی اور نہ تمہارا مقصد حاصل ہو سکا اور نہ تم موت کو دفع کر سکے

(۱)انسانی زندگی کے دو جزء ہیں ایک کا نام ہے جسم اور ایک کا نام ہے روح اور انہیں دونوں کے اتحاد و اتصال کا نام ہے زندگی اور انہیں دونوں کی جدائی کا نام ہے موت۔اب چونکہ جسم کی بقا روح کے وسیلہ سے لہٰذا روح کے جدا ہو جانے کے بعد وہ مردہ بھی ہو جاتا ہے اور سڑ گل بھی جاتا ہے اور اس کے اجزاء منتشر ہو کرخاک میں مل جاتے ہیں۔لیکن روح غیر مادی ہونے کی بنیاد پراپنے عالم سے ملحق ہہو جاتی ہے اور زندگی رہتی ہے یہ اوربات ہے کہ اس کے تصرفات اذن الٰہی کے پابندہوتے ہیں اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف نہیں کر سکتی ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ مردہ زندوں کی آواز سن لیتا ہے لیکن جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔

امیر المومنین نے اسی راز زندگی کی نقاب کشائی فرمائی ہے کہ یہ مرنے والے جواب دینے کے لائق نہیں ہیں لیکن پروردگار نے مجھے وہ علم عنایت فرمایا ہے جس کے ذریعہ میں یہ احساس کرسکتا ہوں کہ ان مرنے والوں کے لا شعور میں کیا ہے اور یہ جواب دینے کے قابل ہوتے تو کیا جواب دیتے اور تم بھی ان کی صورت حال کومحسوس کر لو تو اس امر کا اندازہ کرسکتے ہو کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب اور کوئی پیغام نہیں ہے کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔

۶۶۶

وقَدْ مَثَّلَتْ لَكَ بِه الدُّنْيَا نَفْسَكَ وبِمَصْرَعِه مَصْرَعَكَ - إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا - ودَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا - ودَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا - ودَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا - مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللَّه ومُصَلَّى مَلَائِكَةِ اللَّه - ومَهْبِطُ وَحْيِ اللَّه ومَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللَّه - اكْتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ ورَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ - فَمَنْ ذَا يَذُمُّهَا وقَدْ آذَنَتْ بِبَيْنِهَا ونَادَتْ بِفِرَاقِهَا - ونَعَتْ نَفْسَهَا وأَهْلَهَا فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلَائِهَا الْبَلَاءَ - وشَوَّقَتْهُمْ بِسُرُورِهَا إِلَى السُّرُورِ - رَاحَتْ بِعَافِيَةٍ وابْتَكَرَتْ بِفَجِيعَةٍ - تَرْغِيباً وتَرْهِيباً وتَخْوِيفاً وتَحْذِيراً - فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ - وحَمِدَهَا آخَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - ذَكَّرَتْهُمُ الدُّنْيَا فَتَذَكَّرُوا وحَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوا - ووَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوا.

اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلادی تھی اور تمہیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کردیا تھا(لیکن تمہیں ہوش نہ آیا) یاد رکھو کہ دنیا باورکرنے والے کے لئے سچائی کا گھر ہے اورسمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے اور نصیحت حاصل کرنے والے کے لئے نصیحت کامقام ہے۔یہ دوستان(۱) خدا کے سجود کی منزل اور ملائکہ آسمان کا مصلیٰ ہے یہیں وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خداآخرت کا سودا کرتے ہیں جس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کر لیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں۔کسے حق ہے کہ اس کی مذمت کرے جب کہ اس نے اپنی جداء یکا اعلان کردیا ہے اور اپنے فراق کی آواز لگادی ہے اور اپنے رہنے والوں کی سنانی سنادی ہے اپنی بلاء سے ان کے ابتاء کا نقشہ پیش کیا ہے اور اپنے سرورسے آخرت کے سرور کی دعوت دی ہے۔اس کی شام عافیت میں ہوتی ہے تو صبح مصیبت میں ہوتی ہے تاکہ انسان میں رغبت بھی پیدا ہو اورخوف بھی۔اسے آگاہ بھی کردے اور ہوشیار بھی بنادے۔کچھ لوگندامت کی صبح اس کی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے روز اس کی تعریف کریں گے جنہیں دنیا نے نصیحت کی تو انہوںنے اسے قبول کرلیا۔اسنے حقائق بیان کئے تو اس کی تصدیق کردی اورموعظہ کیا تواس کے موعظہ سے اثر لیا۔

(۱)بھلا اس سر زمین کو کون برا کہہ سکتا ہے جس پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔اولیاء خدا سجدہ کرتے ہیںخاصان خدا زندگی گزارتے ہیں اورنیک بندے اپنی عاقبت بنانے کا سامان کرتے ہیں۔یہ سر زمین بہترین سرزمین ہے اور یہ علاقہ مفید ترین علاقہ ہے مگر صرف ان لوگوں کے لئے جو اس کا وہی مصرف قرار دیں جوخاصان خدا قرار دیتے ہیں اور اس سے اسی طرح عاقبت سنوارنے کا کام لیں جس طرح اورلیاء خدا کام لیتے ہیں۔ورنہ اس کے بغیر یہ دنیا بلاء ہے بلائ۔اوراس کا انجام تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۶۶۷

۱۳۲ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلَّه مَلَكاً يُنَادِي فِي كُلِّ يَوْمٍ - لِدُوا لِلْمَوْتِ واجْمَعُوا لِلْفَنَاءِ وابْنُوا لِلْخَرَابِ.

۱۳۳ - وقَالَعليه‌السلام الدُّنْيَا دَارُ مَمَرٍّ لَا دَارُ مَقَرٍّ والنَّاسُ فِيهَا رَجُلَانِ - رَجُلٌ بَاعَ فِيهَا نَفْسَه فَأَوْبَقَهَا ورَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَه فَأَعْتَقَهَا.

۱۳۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَكُونُ الصَّدِيقُ صَدِيقاً حَتَّى يَحْفَظَ أَخَاه فِي ثَلَاثٍ - فِي نَكْبَتِه وغَيْبَتِه ووَفَاتِه.

(۱۳۲)

پروردگار کی طرف سے ایک ملک معین ہے جو ہر روز آواز دیتا ہے کہ ایہا لناس ! پیدا کرو تو مرنے کے لئے جمع کرو تو فنا ہونے کے لئے اور تعمیر کرو تو خراب ہونے کے لئے ( یعنی آخری انجام کو نگاہ میں رکھو)

(۱۳۳)

دنیا ایک گزر گاہ ہے ۔منزل نہیں ہے اس میں لوگ دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو بیچ ڈالا اور ہلاک کردیا اورایک وہ ہے جس نے خرید لیا اورآزاد کردیا۔

(۱۳۴)

دوست اس وقت تک دوست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اپنے دوست کے تین مواقع پر کام نہ آئے ۔

مصیبت کے موقع پر۔اس کی غیبت میں۔اور مرنے کے بعد۔

۶۶۸

۱۳۵ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أُعْطِيَ أَرْبَعاً لَمْ يُحْرَمْ أَرْبَعاً - مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَمِ الإِجَابَةَ - ومَنْ أُعْطِيَ التَّوْبَةَ لَمْ يُحْرَمِ الْقَبُولَ - ومَنْ أُعْطِيَ الِاسْتِغْفَارَ لَمْ يُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ - ومَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّيَادَةَ.

قال الرضي - وتصديق ذلك كتاب الله - قال الله في الدعاء( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) - وقال في الاستغفار( ومَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَه - ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ الله يَجِدِ الله غَفُوراً رَحِيماً ) - وقال في الشكر( لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ ) - وقال في التوبة -( إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى الله لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ - ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولئِكَ يَتُوبُ الله عَلَيْهِمْ - وكانَ الله عَلِيماً حَكِيماً ) .

۱۳۶ - وقَالَعليه‌السلام الصَّلَاةُ قُرْبَانُ كُلِّ تَقِيٍّ - والْحَجُّ جِهَادُ كُلِّ ضَعِيفٍ - ولِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ

(۱۳۵)

جسے چار چیزیں دیدی گئیں وہ چار سے محروم نہیں رہ سکتا ہے۔جسے دعا کی توفیق مل گئی وہ قبولیت سے محروم نہ ہوگا اور جسے توبہ کی توفیق حاصل ہوگئی وہ قبولیت سے محروم نہ ہوگا۔استغفار حاصل کرنے والا مغفرت سے محروم نہ ہوگا اور شکر کرنے والا اضافہ سے محروم نہ ہوگا۔

سید رضی : اس ارشاد گرامی کی تصدیق آیات قرآنی سے ہوتی ہے کہ پروردگار نے دعا کے بارے میں فرمایا '' مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔اور استغفار کے بارے میں فرمایا ہے '' جو برائی کرنے کے بعد یا اپنے نفس پر ظلم کرنے کے بعد خداسے توبہ کرلے گا وہ اسے غفورورحیم پائے گا ''

شکر کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے '' اگر تم شکریہ ادا کرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے '' اورتوبہ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے '' توبہ ان لوگوں کے لئے جو جہالت کی بناپرگناہ کرتے ہیں اور پھر فوراً توبہ کر لیتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ کو اللہ قبول کرلیتا ہے اوروہ ہر ایک کی نیت سے با خبر بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے ''

(۱۳۶)

نماز متقی کے لئے وسیلہ تقرب ہے اورحج ہر کمزور کے لئے جہاد ہے۔ہر شے کی ایک زکوٰة ہوتی ہے

۶۶۹

وزَكَاةُ الْبَدَنِ الصِّيَامُ - وجِهَادُ الْمَرْأَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ

۱۳۷ - وقَالَعليه‌السلام اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ.

۱۳۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَيْقَنَ بِالْخَلَفِ جَادَ بِالْعَطِيَّةِ.

۱۳۹ - وقَالَعليه‌السلام تَنْزِلُ الْمَعُونَةُ عَلَى قَدْرِ الْمَئُونَةِ.

۱۴۰ - وقَالَعليه‌السلام مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ.

۱۴۱ - وقَالَعليه‌السلام قِلَّةُ الْعِيَالِ أَحَدُ الْيَسَارَيْنِ.

اور بدن کی زکوٰة روزہ ہے۔عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ بہترین برتائو(۱) ہے۔

(۱۳۷)

روزی کے نزول کا انتظام صدقہ کے ذریعہ سے کرو۔

(۱۳۸)

جسے معاوضہ کا یقین ہوتاہے وہ عطاء میں دریا دلی سے کام لیتا ہے ۔

(۱۳۹)

خدا ئی امداد کا نزول بقدرخرچ ہوتا ہے ( ذخیرہ انوزی اورفضول خرچی کے لئے نہیں )

(۱۴۰)

جو میانہ روی سے کام لے گاہ وہ محتاج نہ ہوگا۔

(۱۴۱)

متعلقین کی کمی(۲) بھی ایک طرح کی آسودگی ہے۔

(۱)اس بہترین برتائو میں اطاعت 'عفت 'تدبیرمنزل ' قناعت ' عدم مطالبات ' غیرتو حیا اور طلب رضا جیسی تمام چیزیں شامل ہیں جن کے بغیر ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں ہو سکتی ہے۔اور دن بھر زحمت برداشت کرکینقہ فراہم کرنے والا شوہر آسودہ مطمئن نہیں ہو سکتا ہے۔

(۲)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تنظیم حیات ایک عقلی فریضہ ہے اور ہر مسئلہ کوصرف توکل بخدا کے حوالہ نہیںکیا جا سکتا ہے۔اسلام نے ازدواجی ' کثرت نسل پر زور دیا ہے۔لیکن دامن دیکھ کر پیر پھیلانے کا شعور بھیدیا ہے لہٰذا انسان کیذمہ داری ہے کہ ان دونوں کے درمیان سے راستہ نکالے اور اس امر کے لئے آمادہ رہے کہ کثرت متعلقین سے پریشانی ضرور پیدا ہوگی اور پھرپریشانی کی شکایت اورفریاد نہ کرے ۔

۶۷۰

۱۴۲ - وقَالَعليه‌السلام التَّوَدُّدُ نِصْفُ الْعَقْلِ.

۱۴۳ - وقَالَعليه‌السلام الْهَمُّ نِصْفُ الْهَرَمِ.

۱۴۴ - وقَالَعليه‌السلام يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ - ومَنْ ضَرَبَ يَدَه عَلَى فَخِذِه عِنْدَ مُصِيبَتِه حَبِطَ عَمَلُه.

۱۴۵ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَه مِنْ صِيَامِه إِلَّا الْجُوعُ والظَّمَأُ - وكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَه مِنْ قِيَامِه إِلَّا السَّهَرُ والْعَنَاءُ - حَبَّذَا نَوْمُ الأَكْيَاسِ وإِفْطَارُهُمْ.

۱۴۶ - وقَالَعليه‌السلام سُوسُوا إِيمَانَكُمْ بِالصَّدَقَةِ وحَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ - وادْفَعُوا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ.

(۱۴۲)

میل محبت پیدا کرنا عقل کا نصف حصہ ہے۔

(۱۴۳)

ہم و غم خودبھی آدھا بڑھاپا ہے۔

(۱۴۴)

صبر بقدر مصیبت نازل ہوتا ہے اور جس نے مصیبت کے موقع پر ران پر ہاتھ مارا۔گویا کہ اپنے عمل اور اجر کو برباد کردیا (ہنر صبر ہے ہنگامہ نہیں ہے۔لیکن یہ سب اپنی ذاتی مصیبت کے لئے ہے )

(۱۴۵)

کتنے روزہ دار ہیں جنہیں روزہ سے بھوک اورپیاس کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے اور کتنے عابد شب زندہ دار ہیں جنہیں اپنے قیام سے شب بیداری اورمشقت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ہوشمند(۱) ا نسان کا سونا اور کھانابھی قابل تعریف ہوتا ہے۔

(۱۴۶)

اپنے ایمان کی نگہداشت(۲) صدقہ سے کرو اور اپنے اموال کی حفاظت زکوٰة سے کرو۔بلائوں کے تلاطم کودعائوں سے ٹال دو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ انسان عبادت کو بطور رسم و عادت انجام نہ دے بلکہ جذبہ اطاعت و بندگی کے تحت انجام دے تاکہ واقعاً بندۂ پروردگار کہے جانے کے قابل ہو جائے ورنہ شعور بندگی سے الگ ہو جانے کے بعد بندگی بے ارزش ہو کر رہ جاتی ہے۔

(۲)صدقہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کو وعدہ ٔ الٰہی پراعتبار ہے اوروہ یہ یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اس کی راہ میں دے دیا ہے وہ ضائع ہونے والا نہیں ہے بلکہ دس گنا ۔سو گناہ ۔ہزار گنا ہوکر واپس آنے والا ہے اور یہی کمال ایمان کی علامت ہے ۔

۶۷۱

۱۴۷ - ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

لِكُمَيْلِ بْنِ زِيَادٍ النَّخَعِيِّ قَالَ كُمَيْلُ بْنُ زِيَادٍ - أَخَذَ بِيَدِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍعليه‌السلام - فَأَخْرَجَنِي إِلَى الْجَبَّانِ فَلَمَّا أَصْحَرَ تَنَفَّسَ الصُّعَدَاءَ - ثُمَّ قَالَ:

يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ - إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ أَوْعِيَةٌ فَخَيْرُهَا أَوْعَاهَا - فَاحْفَظْ عَنِّي مَا أَقُولُ لَكَ: النَّاسُ ثَلَاثَةٌ - فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ ومُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ - وهَمَجٌ رَعَاعٌ أَتْبَاعُ كُلِّ نَاعِقٍ يَمِيلُونَ مَعَ كُلِّ رِيحٍ - لَمْ يَسْتَضِيئُوا بِنُورِ الْعِلْمِ ولَمْ يَلْجَئُوا إِلَى رُكْنٍ وَثِيقٍ.

يَا كُمَيْلُ الْعِلْمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَالِ - الْعِلْمُ يَحْرُسُكَ وأَنْتَ تَحْرُسُ الْمَالَ - والْمَالُ تَنْقُصُه النَّفَقَةُ والْعِلْمُ يَزْكُوا عَلَى الإِنْفَاقِ - وصَنِيعُ الْمَالِ يَزُولُ بِزَوَالِه.

يَا كُمَيْلَ بْنَ زِيَادٍ مَعْرِفَةُ الْعِلْمِ دِينٌ يُدَانُ بِه - بِه يَكْسِبُ الإِنْسَانُ الطَّاعَةَ فِي حَيَاتِه - وجَمِيلَ الأُحْدُوثَةِ بَعْدَ وَفَاتِه - والْعِلْمُ حَاكِمٌ والْمَالُ مَحْكُومٌ عَلَيْه.

يَا كُمَيْلُ هَلَكَ خُزَّانُ الأَمْوَالِ وهُمْ أَحْيَاءٌ -

(۱۴۷)

آپ کا ارشاد گرامی جناب کمیل بن زیاد نخعی سے کمیل کہتے ہیں کہ امیر المومنین میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان کی طرف لے گئے اور جب آبادی سے باہرنکل گئے تو ایک لمبی آہ کھینچ کرفرمایا: ۔ اے کمیل بن زیاد!دیکھو یہ دل ایک طرح کے ظرف ہیں لہٰذا سب سے بہتر وہ دل ہے جو سب سے زیادہ حکمتوں کو محفوظکرسکے اب تم مجھ سے ان باتوں کو محفوظ کرلو۔لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں : خدا رسیدہ عالم۔راہ نجات پر چلنے والا طالب علم اورعوام الناس کا وہ گروہ جو ہر آوازکے پیچھے چل پڑتا ہے اور ہر ہوا ک ساتھ لہرانے لگتا ہے۔اسنے نہ نور کی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی مستحکم ستون کاس ہارا لیا ہے۔

اے کمیل !دیکھو علم مال(۱) سے بہرحال بہتر ہوتا ہے کہ علم خود تمہاری حفاظت کرتا ہے اورمال کی حفاظت تمہیں کرنا پڑتی ہے مال خرچ کرنے سے کم ہو جاتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھ جاتا ہے۔پھر مال کے نتائج و اثرات بھی اس کے فناہونے کے ساتھ ہی فنا ہو جاتے ہیں۔

اے کمیل بن زیاد! علم کی معرفت ایک دین ہے جس کی اقتدا کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ انسان زندگی میں اطاعت حاصل کرتا ہے اور مرنے کے بعد ذکرجمیل فراہم کرتا ہے۔علم حاکم ہوتا ہے اورمال محکوم ہوتا ہے۔ کمیل دیکھو مال کاذخیرہ کرنے والے جیتے جی ہلاک ہوگئے اور صاحبان علم

(۱)علم و مال کے مراتب کے بارے میں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مال کی پیداوار بھی علم کا نتیجہ ہوتی ہے ورنہ ریگستانی علاقوں میں ہزاروں سال سے پٹرول کے خزانے موجود تھے اور انسان سے بالکل بے خبر تھا۔اس کے بعد جیسے ہی علم نے میدان انکشافات میں قدم رکھا' برسوں کے فقیر امیر ہوگئے اورصدیوں کے فاقہ کش صاحب مال و دولت شمار ہونے لگے۔

۶۷۲

والْعُلَمَاءُ بَاقُونَ مَا بَقِيَ الدَّهْرُ - أَعْيَانُهُمْ مَفْقُودَةٌ وأَمْثَالُهُمْ فِي الْقُلُوبِ مَوْجُودَةٌ - هَا إِنَّ هَاهُنَا لَعِلْماً جَمّاً وأَشَارَ بِيَدِه إِلَى صَدْرِه لَوْ أَصَبْتُ لَه حَمَلَةً - بَلَى أَصَبْتُ لَقِناً غَيْرَ مَأْمُونٍ عَلَيْه - مُسْتَعْمِلًا آلَةَ الدِّينِ لِلدُّنْيَا - ومُسْتَظْهِراً بِنِعَمِ اللَّه عَلَى عِبَادِه وبِحُجَجِه عَلَى أَوْلِيَائِه - أَوْ مُنْقَاداً لِحَمَلَةِ الْحَقِّ لَا بَصِيرَةَ لَه فِي أَحْنَائِه - يَنْقَدِحُ الشَّكُّ فِي قَلْبِه لأَوَّلِ عَارِضٍ مِنْ شُبْهَةٍ - أَلَا لَا ذَا ولَا ذَاكَ - أَوْ مَنْهُوماً بِاللَّذَّةِ سَلِسَ الْقِيَادِ لِلشَّهْوَةِ - أَوْ مُغْرَماً بِالْجَمْعِ والِادِّخَارِ ،- لَيْسَا مِنْ رُعَاةِ الدِّينِ فِي شَيْءٍ - أَقْرَبُ شَيْءٍ شَبَهاً بِهِمَا الأَنْعَامُ السَّائِمَةُ - كَذَلِكَ يَمُوتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِيه.

اللَّهُمَّ بَلَى لَا تَخْلُو الأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّه بِحُجَّةٍ - إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وإِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً - لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّه وبَيِّنَاتُه - وكَمْ ذَا وأَيْنَ أُولَئِكَ

زمانہ کی بقا کے ساتھ رہنے والے ہیں۔ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں لیکن ان کی صورتیں دلوں پر نقش ہیں۔دیکھو اس سینہ میں علم کا ایک خزانہ ہے۔کاش مجھے اس کے اٹھانے والے مل جاتے ۔ہاںملے بھی تو بعض ایسے ذہین جو قابل اعتبار نہیں ہیں اور دین کو دنیا کا آلہ کاربناکراستعمال کرنے والے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کے ذریعہ اس کے بندوں اور اس کی محبتوں کے ذریعہ اس کے اولیاء پر برتری جتلانے والے ہیں یا حاملان حق کے اطاعت گذار تو ہیں لیکن ان کے پہلو میں بصیرت نہیں ہے اور ادنیٰ شبہ میں بھی شک کاشکار ہو جاتے ہیں۔یاد رکھو کہ یہ یہ کام آنے والے ہیں اور نہ وہ۔اس کے بعد ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو لذتوں کے دلدادہ اورخواہشات کے لئے اپنی لگام ڈھلی کر دینے والے ہیں یا صری مال جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزی کرنے کے دلدادہ ہیں۔یہ دونوں بھی دین کے قطعاً محافظ نہیں ہیں اور ان سے قریب ترین شباہت رکھنے والے چرنے والے جانور ہوتے ہیں اور اس طرح علم حاملان علم کے ساتھ مرجاتا ہے۔لیکن۔اس کے بعد بھی زمین ایسے شخص سے خالی نہیں ہوتی ہے جو حجت(۱) خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ۔تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔لیکن یہ ہیں ہی کتنے اور کہاں ہیں ؟

(۱)یہ صحیح ہے کہ ہر صفت اس کے حامل کے فوت ہو جانے سے ختم ہو جاتی ہے اور علم بھی حاملان علم کی موت سے مر جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس دنیا میں کوئی دور ایسا بھی آتا ہے جب تمام اہل علم مر جائیں اور علم کا فقدان ہو جائے۔اس لئے کہ ایسا ہوگیا تواتمام حجت کاکوئی راستہ نہ رہ جائے گا اور اتمام حجت بہر حال ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے لہٰذا ہر دور میں ایک حجت خدا کا رہنا ضروری ہے چاہے ظاہر بظاہر منظر عام پر ہو یا پردہ ٔ غیبت میں ہو کہ اتمام حجت کے لئے اس کاوجود ہی کافی ہے۔اس کے ظہورکی شرط نہیں ہے

۶۷۳

أُولَئِكَ واللَّه الأَقَلُّونَ عَدَداً - والأَعْظَمُونَ عِنْدَ اللَّه قَدْراً - يَحْفَظُ اللَّه بِهِمْ حُجَجَه وبَيِّنَاتِه حَتَّى يُودِعُوهَا نُظَرَاءَهُمْ - ويَزْرَعُوهَا فِي قُلُوبِ أَشْبَاهِهِمْ - هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلَى حَقِيقَةِ الْبَصِيرَةِ - وبَاشَرُوا رُوحَ الْيَقِينِ واسْتَلَانُوا مَا اسْتَوْعَرَه الْمُتْرَفُونَ - وأَنِسُوا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْه الْجَاهِلُونَ - وصَحِبُوا الدُّنْيَا بِأَبْدَانٍ أَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌ بِالْمَحَلِّ الأَعْلَى - أُولَئِكَ خُلَفَاءُ اللَّه فِي أَرْضِه والدُّعَاةُ إِلَى دِينِه - آه آه شَوْقاً إِلَى رُؤْيَتِهِمْ - انْصَرِفْ يَا كُمَيْلُ إِذَا شِئْتَ.

۱۴۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْءُ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

۱۴۹ - وقَالَعليه‌السلام هَلَكَ امْرُؤٌ لَمْ يَعْرِفْ قَدْرَه.

۱۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ سَأَلَه أَنْ يَعِظَه:

لَا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُو الآخِرَةَ

واللہ ان کے عدد بہت کم ہیں لیکن ان کی قدرو منزلت بہت عظیم ہے۔اللہ انہیں کے ذریعہ اپنے دلائل و بینات کی حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ہی جیسے افراد کے حوالے کردیں اور اپنے امثال کے دلوں میں بودیں۔انہیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔انہوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنہیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھاتھا اوران چیزوں سے انس حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کے روحیں ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں۔ہائے مجھے ان کے دیدار کا کس قدر اشتیاق ہے۔

کمیل (میری بات تمام ہوچکی ) اب تم جا سکتے ہو۔

(۱۴۸)

انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔

(۱۴۹)

جس شخص نے اپنی قدرو منزلت کو نہیں پہچانا وہ ہلاک ہوگیا۔

(۱۵۰)

ایک شخص نےآپ سےموعظہ کا تقاضا کیا تو فرمایا '' ان لوگوں میں نہ ہوجانا جو عمل(۱) کے بغیرآخرت کی

(۱)مولائے کائنات کے اس ارشاد گرامی کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اگر دورحاضر کے مومنین کرام ' واعظین محترم ' خطباء شعلہ نوا۔شعراء طوفان افزا۔سربراہان ملت قائدین قوم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمارے دور کے حالات کا نقشہ کھینچ رہے ہیں اور ہمارے سامنے کردار کا ایک آئینہ رکھ رہے ہیں جس میں ہرشخص اپنی شکل دیکھ سکتا ہے اور اپنے حال زار سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔

۶۷۴

بِغَيْرِ عَمَلٍ - ويُرَجِّي التَّوْبَةَ بِطُولِ الأَمَلِ - يَقُولُ فِي الدُّنْيَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِينَ - ويَعْمَلُ فِيهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِينَ،إِنْ أُعْطِيَ مِنْهَا لَمْ يَشْبَعْ وإِنْ مُنِعَ مِنْهَا لَمْ يَقْنَعْ - يَعْجِزُ عَنْ شُكْرِ مَا أُوتِيَ ويَبْتَغِي الزِّيَادَةَ فِيمَا بَقِيَ - يَنْهَى ولَا يَنْتَهِي ويَأْمُرُ بِمَا لَا يَأْتِي - يُحِبُّ الصَّالِحِينَ ولَا يَعْمَلُ عَمَلَهُمْ - ويُبْغِضُ الْمُذْنِبِينَ وهُوَ أَحَدُهُمْ - يَكْرَه الْمَوْتَ لِكَثْرَةِ ذُنُوبِه - ويُقِيمُ عَلَى مَا يَكْرَه الْمَوْتَ مِنْ أَجْلِه - إِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِماً وإِنْ صَحَّ أَمِنَ لَاهِياً - يُعْجَبُ بِنَفْسِه إِذَا عُوفِيَ ويَقْنَطُ إِذَا ابْتُلِيَ - إِنْ أَصَابَه بَلَاءٌ دَعَا مُضْطَرّاً وإِنْ نَالَه رَخَاءٌ أَعْرَضَ مُغْتَرّاً - تَغْلِبُه نَفْسُه عَلَى مَا يَظُنُّ ولَا يَغْلِبُهَا عَلَى مَا يَسْتَيْقِنُ - يَخَافُ عَلَى غَيْرِه بِأَدْنَى مِنْ ذَنْبِه - ويَرْجُو لِنَفْسِه بِأَكْثَرَ مِنْ عَمَلِه - إِنِ اسْتَغْنَى بَطِرَ وفُتِنَ وإِنِ افْتَقَرَ قَنِطَ

امید رکھتے ہیں اور طولانی امیدوں کی بنا پر توبہ کو ٹال دیتے ہیں۔دنیا میں باتیں زاہدوں جیسی کرتے ہیں اور کام راغبوں جیسا انجام دیتے ہیں۔کچھ مل جاتا ہے توسیر نہیں ہوتے ہیں اورنہیں ملتا ہے توقناعت نہیں کرتے ہیں۔جودے دیا گیا ہے اس کے شکریہ سے عاجز ہیں لیکن مستقبل میں زیادہ کے طلب گار ضرور ہیں۔لوگوں کو منع کرتے ہیں لیکن خود نہیں رکتے ہیں۔اور ان چیزوں کا حکم دیتے ہیں جو خود نہیں کرتے ہیں۔نیک کرداروں سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کا جیسا عمل نہیں کرتے ہیں اور گناہگاروں سے بیزار رہتے ہیں لیکن خود بھی انہیں میں سے ہوتے ہیں۔گناہوں کی کثرت کی بنا پر موت کو نا پسند کرتے ہیں اور پھر ایسے ہی اعمال پر قائم بھی رہتے ہیں جن سے موت نا گوار ہو جات یہے۔بیمار ہوتے ہیں تو گناہوں پر پشیمان ہو جاتے ہیں اور صحت مند ہوتے ہیں تو پھر لہوولعب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے تو اکڑ نے لگتے ہیں اور آزمائش میں پڑ جاتے ہیں تو مایوس ہو جاتے ہیں۔کوئی بلا نازل ہو جاتی ہے تو بشکل مضطر دعاکرتے ہیں اور سہولت وآسانی فراہم ہو جاتی ہے تو فریب خوردہ ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ان کا نفس انہیں خیالی باتوں پرآمادہ کر لیتا ہے لیکن وہ یقینی باتوں میں اس پر قابو نہیں پا سکتے ہیں۔دوسروں کے بارے میں اپنے سے چھوٹے گناہ سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں اور اپنے لئے اعمال سے زیادہ جزا کے امیدوار رہتے ہیں۔مالدار ہو جاتے ہیں تو مغرور و مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں اور غربت زدہ ہو جتے ہیں تو مایوس

۶۷۵

ووَهَنَ - يُقَصِّرُ إِذَا عَمِلَ ويُبَالِغُ إِذَا سَأَلَ - إِنْ عَرَضَتْ لَه شَهْوَةٌ أَسْلَفَ الْمَعْصِيَةَ وسَوَّفَ التَّوْبَةَ - وإِنْ عَرَتْه مِحْنَةٌ انْفَرَجَ عَنْ شَرَائِطِ الْمِلَّةِ - يَصِفُ الْعِبْرَةَ ولَا يَعْتَبِرُ - ويُبَالِغُ فِي الْمَوْعِظَةِ ولَا يَتَّعِظُ - فَهُوَ بِالْقَوْلِ مُدِلٌّ ومِنَ الْعَمَلِ مُقِلٌّ - يُنَافِسُ فِيمَا يَفْنَى ويُسَامِحُ فِيمَا يَبْقَى - يَرَى الْغُنْمَ مَغْرَماً والْغُرْمَ مَغْنَماً - يَخْشَى الْمَوْتَ ولَا يُبَادِرُ الْفَوْتَ - يَسْتَعْظِمُ مِنْ مَعْصِيَةِ غَيْرِه مَا يَسْتَقِلُّ أَكْثَرَ مِنْه مِنْ نَفْسِه - ويَسْتَكْثِرُ مِنْ طَاعَتِه مَا يَحْقِرُه مِنْ طَاعَةِ غَيْرِه - فَهُوَ عَلَى النَّاسِ طَاعِنٌ ولِنَفْسِه مُدَاهِنٌ - اللَّهْوُ مَعَ الأَغْنِيَاءِ أَحَبُّ إِلَيْه مِنَ الذِّكْرِ مَعَ الْفُقَرَاءِ

اور سست ہو جاتے ہیں ۔عمل میں کوتاہی کرتے ہیں اور سوال میں مبالغہ کرتے ہیں خواہش نفس سامنے آجاتی ہے تو معصیت فوراً کر لیتے ہیں اور توبہ کو ٹال دیتے ہیں ۔کوئی مصیبت لاحق ہو جاتی ہے تواسلامی جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں ۔عبرت ناک واقعات بیان کرتے ہیں لیکن خود عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔موعظہ میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں لیکن خود نصیحت نہیں حاصل کرتے ہیں ۔قول میں ہمیشہ اونچے رہتے ہیں اور عمل میں ہمیشہ کمزور رہتے ہیں فنا ہونے والی چیزوں میں مقابلہ کرتے ہیں اور باقی رہ جانے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔واقعی فائدہ کو نقصان سمجھتے ہیں اور حقیقی نقصان کوف ائدہ تصور کرتے ہیں۔موت سے ڈرتے ہیں لیکن وقت نک جانے سے پہلے عمل کی طرف سبقت نہیں کرتے ہیں۔دوسروں کی اس معصیت کوبھی عظیم تصور کرتے ہیں جس سے بڑی معصیت کو اپنے لئے معمولی تصور کرتے ہیں اور اپنی معمولی اطاعت کو بھی کثیر شمار کرتے ہیں جب کہ دوسرے کی کثیر اطاعت کو بھی حقیر ہی سمجھتے ہیں ۔ لوگوں پر طعنہ زن رہتے ہیں اور اپنے معاملہ میں نرم و نازک رہتے ہیں۔مالداروں کے ساتھ لہوولعب(۱) کو فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر ذکر خداسے زیادہ دوست رکھتے

(۱)دورحاضر کا عظیم ترین عیار زندگی یہی ہے اور ہرشخص ایسی ہی زندگی کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔کافی ہائوس ' نائٹ کلب اوردیگر لغویات کے مقامات پر سرمایہ داروں کی مصاحبت کے لئے ہر متوسط طبقہ کاآدمی مرا جارہا ہے اور کسی کو یہ شوق نہیں پیدا ہوتا ہے کہ چند لمحہ خانہ خدا میں بیٹھ کر فقیروں کے ساتھ مالک کی بارگاہ میں مناجات کرکے اور یہ احساس کرے کہ اس کی بارگاہ میں سب فقیر ہیں اور یہ دولت و امارت صرف چند روزہ تماشہ ے ورنہ انسان خالی ہاتھ آیا ہے اورخالی ہاتھ ہی جانے والا ہے۔دولت عاقبت بنانے کاذریعہ تھی اگر اسے بھی عاقبت کی بربادی کی اہ پر لگادیا تو آخرت میں حسرت و فاسوس کے علاوہ کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔

۶۷۶

يَحْكُمُ عَلَى غَيْرِه لِنَفْسِه،ولَا يَحْكُمُ عَلَيْهَا لِغَيْرِه - يُرْشِدُ غَيْرَه ويُغْوِي نَفْسَه - فَهُوَ يُطَاعُ ويَعْصِي ويَسْتَوْفِي ولَا يُوفِي - ويَخْشَى الْخَلْقَ. فِي غَيْرِ رَبِّه ولَا يَخْشَى رَبَّه فِي خَلْقِه.

قال الرضي - ولو لم يكن في هذا الكتاب إلا هذا الكلام - لكفى به موعظة ناجعة وحكمة بالغة - وبصيرة لمبصر وعبرة لناظر مفكر.

۱۵۱ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ امْرِئٍ عَاقِبَةٌ حُلْوَةٌ أَوْ مُرَّةٌ.

۱۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ مُقْبِلٍ إِدْبَارٌ ومَا أَدْبَرَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ.

۱۵۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَعْدَمُ الصَّبُورُ الظَّفَرَ وإِنْ طَالَ بِه الزَّمَانُ.

ہیں۔اپنے حق میں دوسروں کے خلاف فیصلہ کردیتے ہیں اور دوسروں کے حق میں اپنے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔دوسروں کو ہدایت دیتے ہیں اور اپنے نفس کو گمراہ کرتے ہیں۔خود ان کی اطاعت کی جاتی ہے اور یہخود معصیت کرتے رہتے ہیں اپنے حق کو پورا پورا لے لیتے ہیں اور دوسروں کے حق کوادا نہیں کرتے ہیں۔پروردگار کوچھوڑ کر مخلوقات سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں پروردگار سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔

سید رضی : اگر اس کتاب میں اس کلام کے علاوہ کوئی دوسری نصیحت نہ بھی ہوتی تو یہی کلام کامیاب موعظت ' بلیغ حکمت اور صاحبان بصیرت کی بصیرت اور صاحبان فکرو نظر کی عبرت کے لئے کافی تھا۔

(۱۵۱)

ہرشخص کا ایک انجام بہر حال ہونے والا ہے چاہے شیریں ہو یاتلخ۔

(۱۵۲)

ہرآنے والا پٹنے والا ہے اور جوپلٹ جاتا ہے وہ ایسا ہوجاتا ے جیسے تھا ہی نہیں۔

(۱۵۳)

صبرکرنے والا کامیابی سے محروم نہیں ہو سکتا ہے چاہے کتنا ہی زمانہ کیوں نہ لگے جائے ۔

۶۷۷

۱۵۴ - وقَالَعليه‌السلام الرَّاضِي بِفِعْلِ قَوْمٍ كَالدَّاخِلِ فِيه مَعَهُمْ - وعَلَى كُلِّ دَاخِلٍ فِي بَاطِلٍ إِثْمَانِ - إِثْمُ الْعَمَلِ بِه وإِثْمُ الرِّضَى بِه.

۱۵۵ - وقَالَعليه‌السلام اعْتَصِمُوا بِالذِّمَمِ فِي أَوْتَادِهَا

۱۵۶ - وقَالَعليه‌السلام عَلَيْكُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لَا تُعْذَرُونَ بِجَهَالَتِه

۱۵۷ - وقَالَعليه‌السلام قَدْ بُصِّرْتُمْ إِنْ أَبْصَرْتُمْ وقَدْ هُدِيتُمْ إِنِ اهْتَدَيْتُمْ وأُسْمِعْتُمْ إِنِ اسْتَمَعْتُمْ.

۱۵۸ - وقَالَعليه‌السلام عَاتِبْ أَخَاكَ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه وارْدُدْ شَرَّه بِالإِنْعَامِ عَلَيْه.

(۱۵۴)

کسی قوم کے عمل سے راضی ہو جانے والا بھی اسی کے ساتھ شمار کیا جائے گا اورجو کسی باطل میں داخل ہوجائے گا اس پر دہرا گناہ ہوگا عمل کابھی گناہ اور راضی ہونے کابھی گناہ۔

(۱۵۵)

عہدوپیمان کی ذمہداری ان کے حوالہ کرو جو میخوں کی طرح مستحکم اورمضبوط ہوں۔

(۱۵۶)

اس کی اطاعت ضرر کرو جس سے نا واقفیت قابل معافی نہیں ہے۔(یعنی خدائی منصب دار)

(۱۵۷)

اگر تم بصیرت رکھتے ہو تو تمہیں حقائق دکھلائے جا چکے ہیں اور اگر ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہوتو تمہیں ہدایت دی جا چکی ہے اور اگر سننا چاہتے ہو تو تمہیں پیغام سنایا جا چکا ہے۔

(۱۵۸)

اپنے بھائی کو تنبیہ کرو تو احسان(۱) کرنے کے بعد اور اس کے شر کا جواب دو تولطف و کرم کے ذریعہ۔

(۱)کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان اگر صرف تنبیہ کرتا ہے اور کام نہیں کرتا ہے تواس کی تنبیہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے کہ دوسرا شخص پہلے ہی بد ظن ہو جاتا ہے تو کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اور نصیحت بیکارچلی جاتی ہے ۔اس کے برخلاف اگر پہلے احسان کرکے دل میں جگہ بنالے اوراس کے بعد نصیحت کرے تو یقینا نصیحت کا اثر ہوگا اوربات ضائع و برباد نہ ہوگی۔

۶۷۸

۱۵۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ وَضَعَ نَفْسَه مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ - فَلَا يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِه الظَّنَّ.

۱۶۰ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ مَلَكَ اسْتَأْثَرَ

۱۶۱ - وقَالَعليه‌السلام مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَأْيِه هَلَكَ - ومَنْ شَاوَرَ الرِّجَالَ شَارَكَهَا فِي عُقُولِهَا.

۱۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ كَتَمَ سِرَّه كَانَتِ الْخِيَرَةُ بِيَدِه.

۱۶۳ - وقَالَعليه‌السلام الْفَقْرُ الْمَوْتُ الأَكْبَرُ.

۱۶۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ قَضَى حَقَّ مَنْ لَا يَقْضِي حَقَّه فَقَدْ عَبَدَه.

(۱۵۹)

جس نے اپنے نفس کو تہمت کے مواقع(۱) پر رکھ دیا۔اسے کسی بد ظنی کرنے والے کو ملامت کرنے کا حق نہیں ہے۔

(۱۶۰)

جو اقتدار حاصل کر لیتا ہے وہ جانبداری کرنے لگتا ہے ۔

(۱۶۱)

جو خود رائی سے کام لے گا وہ ہلاک ہوجائے گا اور جو لوگوں سے مشورہ کرے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہو جائے گا۔

(۱۶۲)

جو اپنے راز کو پوشیدہ رکھے گا اس کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے گا۔

(۱۶۳)

فقیری سب سے بڑی موت ہے ۔

(۱۶۴)

جو کسی ایسے شخص کا حق ادا کردے جو اس کا حق(۲) ادا نہ کرتا ہو تو گویا اس نے اس کی پرستش کرلی ہے۔

(۱)عجیب و غریب بات ہے کہ انسان ان لوگوں سے فوراً بیزار ہو جاتا ہے جواس سے بدگمانی رکھتے ہیں لیکن ان الات سے بیزاری کا اظہار نہیں کرتا ہے جن کی بناپربدگمانی پیدا ہوتی ہے جب کہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے بد ظنی کے مقامات سے اجتناب کرے اور اس کے بعد ان لوگوں سے ناراضگی کا اظہار کرے جو بلا سبب بد ظنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ انسان کے عمل کی کوئی بنیاد ہونی چاہیے اور میزان و معیار کے بغیر کسی عمل کو انجام نہیں دینا چاہیے۔اب اگر کوئی شخص کسی کے حق کی پرواہ نہیں کرتا ہے اوروہ اس کے حقوق کوادا کئیے جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کو اس کابندہ ٔ بے دام تصور کرتا ہے اوراس کی پرستش کئے چلا جا رہا ہے۔

۶۷۹

۱۶۵ - وقَالَعليه‌السلام لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ.

۱۶۶ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُعَابُ الْمَرْءُ بِتَأْخِيرِ حَقِّه إِنَّمَا يُعَابُ مَنْ أَخَذَ مَا لَيْسَ لَه.

۱۶۷ - وقَالَعليه‌السلام الإِعْجَابُ يَمْنَعُ الِازْدِيَادَ

۱۶۸ - وقَالَعليه‌السلام الأَمْرُ قَرِيبٌ والِاصْطِحَابُ قَلِيلٌ . 

۱۶۹ - وقَالَعليه‌السلام قَدْ أَضَاءَ الصُّبْحُ لِذِي عَيْنَيْنِ.

(۱۶۵)

خالق کی معصیت کے ذریعہ مخلوق کی اطاعت نہیں کی جا سکتی ہے۔

(۱۶۶)

اپناحق لینے میں تاخیرکردینا عیب نہیں ہے۔ دوسرے کے حق(۱) پرقبضہ کرلینا عیب ہے۔

(۱۶۷)

خود پسندی(۲) زیادہ عمل سے روک دیتی ہے۔

(۱۶۸)

آخرت قریب ہے اور دنیاکی صحبت بہت مختصر ہے۔

(۱۶۹)

آنکھوں والوں کے لئے صبح روشن ہوچکی ہے۔

(۱)انسان کی ذمہ داری ہے کہ زندگی میں حقوق حاصل کرنے سے زیادہ حقوق کی ادائیگی پرتوجہ دے کہ اپنے حقوق کو نظر انداز کردینا نہ دنیا میں باعث ملامت ہے اور نہ آخرت میں وجہ عذاب ہے لیکن دوسروں کے حقوق پر قبضہ کرلینا یقینا باعث مذمت بھی ہے اور وجہ عذاب و عقاب بھی ہے۔

(۲)کھلی ہوئی بات ہے کہ جب تک مریض کو مرض کا احساس رہتا ہے وہ علاج کی فکر بھی کرتا ہ لیکن جس دن ورم کو صحت تصور کر لیتا ہے ' اس دن سے علاج چھوڑ دیتا ہے یہی حال خود پسندی کا ہے کہ خود پسندی کردار کا ورم ہے جس کے بعد انسان اپنی کمزوریوں سے غافل ہو جاتا ہے اوراس کے نتیجہ میں عمل ختم کر دیتا ہے یا رفتار عمل کو سست بنادیتا ہے اور یہی چیز اس کے کردارکی کمزوری کے لئے کافی ہے۔

۶۸۰