نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656958 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سوالات :

۱ _ اصحاب نے جب کفار کے بارے میں لعن اور نفرین کی بات کہی تو اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا جواب دیا؟

۲ _ عفو کیونکر انسان کے کمالات کی زمین ہموار کرتاہے؟

۳ _ سب سے بلند اور سب سے بہترین معافی کون سی معافی تھی ؟

۴ _ فتح مکہ کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سعد بن عبادہ سے کیا فرمایا تھا؟

۵ _ فتح مکہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو عفو اور درگذر کے نمونے پیش کئے ان میں سے ایک نمونہ بیان فرمایئے؟

۱۴۱

دسواں سبق:

(بدزبانی کرنے والوں سے درگزر)

عفو،درگذر، معافی اور چشم پوشی کے حوالے سے رسول اکرم، اور ائمہ اطہار علیہم السلام کا سبق آموز برتاؤ وہاں بھی نظر آتاہے جہاں ان ہستیوں نے ان لوگوں کو معاف فرمادیا کہ جو ان عظیم و کریم ہستیوں کے حضور توہین، جسارت اور بدزبانی کے مرتکب ہوئے تھے، یہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں کو معاف کرکے ان کو شرمندہ کردیتے تھے اور اس طرح ہدایت کا راستہ فراہم ہوجایا کرتا تھا_

اعرابی کا واقعہ

ایک دن ایک اعرابی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچا اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کوئی چیز مانگی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو وہ چیز دینے کے بعد فرمایا کہ : کیا میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہرگز مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا ہے _ اصحاب کو غصہ

۱۴۲

آگیا وہ آگے بڑھے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو منع کیا ، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور واپس آکر کچھ اور بھی عطا فرمایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اب میں نے تم پر کوئی احسان کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا ہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احسان کیا ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : تم نے جو بات میرے اصحاب کہ سامنے کہی تھی ہوسکتاہے کہ اس سے ان کے دل میں تمہاری طرف سے بدگمانی پیدا ہوگئی ہو لہذا اگر تم پسند کرو تو ان کے سامنے چل کر اپنی رضامندی کا اظہار کردو تا کہ ان کے دل میں کوئی بات باقی نہ رہ جائے، وہ اصحاب کے پاس آیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: یہ شخص مجھ سے راضی ہوگیا ہے،کیا ایسا ہی ہے ؟ اس شخص نے کہا جی ہاں خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو جزائے خیردے، پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میری اور اس شخص کی مثال اس آدمی جیسی ہے جسکی اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہو لوگ اس کا پیچھا کررہے ہوں اور وہ بھاگی جارہی ہو،اونٹنی کا مالک کہے کہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے کہ اس کو کیسے رام کیا جاتا ہے پھر مالک آگے بڑھے اور اس کے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھیرے اس کے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف کرے اور اسکی رسی پکڑلے، اگر کل میں تم کو چھوڑ دیتا تو تم بد زبانی کی بناپر اس کو قتل کردیتے اور یہ جہنم میں چلاجاتا_

___________________

۱)(سفینةا لبحار ج۱ ص۴۱۶)_

۱۴۳

امام حسن مجتبی اورشامی شخص

ایک دن حسن مجتبیعليه‌السلام مدینہ میں چلے جارہے تھے ایک مرد شامی سے ملاقات ہوئی اس نے آپعليه‌السلام کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ حاکم شام کے زہریلے پروپیگنڈہ کی بناپر شام کے رہنے والے علیعليه‌السلام اور فرزندان علیعليه‌السلام کے دشمن تھے، اس شخص نے یہ چاہا کہ اپنے دل کے بھڑ اس نکال لے، امامعليه‌السلام خاموش رہے ، وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا تو آپعليه‌السلام نے مسکراتے ہوئے کہا '' اے شخص میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور تم میرے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہو ( یعنی تو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے میری رضامندے حاصل کرنا چاہے تو میں تجھ سے راضی ہوجاونگا ، اگر کچھ سوال کروگے تو ہم عطا کریں گے ، اگر رہنمائی اور ہدایت کا طالب ہے تو ہم تیری رہنمایی کریں گے _ اگر کسی خدمتگار کی تجھ کو ضرورت ہے تو ہم تیرے لئے اس کا بھی انتظام کریں گے _ اگر تو بھوکا ہوگا تو ہم تجھے سیر کریں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس دیں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نیاز کریں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ دیں گے _ اگر تیری کوئی بھی حاجت ہو تو ہم تیری حاجت روائی کریں گے _ اگر تو میرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو میں راضی ہوں یہ تیرے لئے بہت ہی اچھا ہوگا اس لئے کہ میرا گھر بہت وسیع ہے اور میرے پاس عزت و دولت سبھی کچھ موجود ہے _

جب اس شامی نے یہ باتیں سنیں تو رونے لگا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ

۱۴۴

آپعليه‌السلام زمیں پر خلیفة اللہ ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے اپنی رسالت اور خلافت کو کہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام کے پدر بزرگوار میرے نزدیک بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زیادہ محبوب آپ ہی حضرات ہیں _

پھروہ امام کے گھر گیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ ہی کا مہمان رہا پھر آپ کے دوستوں اور اہلبیت (علیہم السلام )کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا _(۱)

امام سجادعليه‌السلام اور آپ کا ایک دشمن

منقول ہے کہ ایک شخص نے امام زین العابدینعليه‌السلام کو برا بھلا کہا آپ کو اس نے دشنام دی آپعليه‌السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے پلٹ کر کہا: آپ لوگوں نے اس شخص کی باتیں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئیں تا کہ ہمارا بھی جواب سن لیں وہ لوگ آپ کے ساتھ چل دیئے اور جواب کے منتظر رہے _ لیکن انہوں نے دیکھا کہ امامعليه‌السلام راستے میں مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کر رہے ہیں _

( و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس و الله یحب المحسنین ) (۲)

وہ لوگ جو اپنے غصہ کوپی جاتے ہیں; لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ، خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے _

___________________

۱) ( منتہی الامال ج ۱ ص ۱۶۲)_

۲) (آل عمران۱۳۴)_

۱۴۵

ان لوگوں نے سمجھا کہ امامعليه‌السلام اس شخص کو معاف کردینا چاہتے ہیں جب اس شخص کے دروازہ پر پہونچے او حضرتعليه‌السلام نے فرمایا : تم اس کو جاکر بتادو علی بن الحسینعليه‌السلام آئے ہیں ، وہ شخص ڈراگیا اور اس نے سمجھا کہ آپعليه‌السلام ان باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں جو باتیں وہ پہلے کہہ کے آیا تھا ، لیکن امامعليه‌السلام نے فرمایا: میرے بھائی تیرے منہ میں جو کچھ ۱آیا تو کہہ کے چلا آیا تو نے جو کچھ کہا تھا اگر وہ باتیں میرے اندر موجود ہیں تو میں خدا سے مغفرت کا طالب ہوں اور اگر نہیں ہیں تو خدا تجھے معاف کرے ، اس شخص نے حضرت کی پیشانی کا بوسہ دیا اور کہا میں نے جو کچھ کہا تھا وہ باتیں آپ میں نہیں ہیں وہ باتیں خود میرے اندر پائی جاتی ہیں _(۱)

ائمہ معصومین (علیہم السلام ) صرف پسندیدہ صفات اور اخلاق کریمہ کی بلندیوں کے مالک نہ تھے بلکہ ان کے مکتب کے پروردہ افراد بھی شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانیوں کا مجسمہ تھے نیز نا واقف اور خود غرض افراد کو معاف کردیا کرتے تھے _

مالک اشتر کی مہربانی اور عفو

جناب مالک اشتر مکتب اسلام کے شاگرد اور حضرت امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے تربیت کردہ تھے اور حضرت علیعليه‌السلام کے لشکر کے سپہ سالار بھی تھے آپ کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ عرب اور عجم میں علیعليه‌السلام کے علاوہ مالک اشتر

___________________

۱) (بحارالانوار ج ۴۶ ص ۵۵) _

۱۴۶

سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے تو اس کی قسم صحیح ہوگی حضرت علیعليه‌السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا : مالک اشتر میرے لئے اس طرح تھا جیسے میں رسول خدا کے لئے تھا _ نیز آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : کاش تمہارے در میان مالک اشتر جیسے دو افراد ہوتے بلکہ ان کے جیسا کوئی ایک ہوتا _ایسی بلند شخصیت اور شجاعت کے مالک ہونے کے با وجود آپ کا دل رحم و مروت سے لبریز تھا ایک دن آپ بازار کوفہ سے گذر رہے تھے ، ایک معمولی لباس آپ نے زیب تن کر رکھا تھا اور اسی لباس کی جنس کا ایک ٹکڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار کی کسی دو کان پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالک کو دیکھا کہ وہ اس حالت میں چلے جارہے ہیں تو اس نے مالک کو بہت ذلیل سمجھا اور بے عزتی کرنے کی غرض سے آپ کی طرف سبزی کا ایک ٹکڑا اچھال دیا، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہیں کی اور وہاں سے گزر گئے ایک اور شخص یہ منظر دیکھ رہاتھا وہ مالک کو پہچانتا تھا، اس نے آدمی سے پوچھا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کی توہین کی ہے؟ اس نے کہا نہیں ، اس شخص نے کہا کہ وہ علیعليه‌السلام کے صحابی مالک اشتر ہیں وہ شخص کانپ اٹھا اور تیزی سے مالک کی طرف دوڑا تا کہ آپ تک پہنچ کر معذرت کرے، مالک مسجد میں داخل ہو چکے تھے اور نماز میں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالک کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام کیا پھر قدموں کے بوسے لینے لگا، مالک نے اس کا شانہ پکڑ کر اٹھایا اور کہا یہ کیا کررہے ہوا؟ اس شخص نے کہا کہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچکاہے میں اس کے

۱۴۷

لئے معذرت کررہاہوں، اس لئے کہ میں اب آپ کو پہچان گیا ہوں، مالک نے کہا کوئی بات نہیں تو گناہ گار نہیں ہے اس لئے کہ میں مسجد میں تیری بخشش کی دعا کرنے آیا تھا_(۱)

ظالم سے درگذر

خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان میں غیظ و غضب کا مادہ قرار دیا ہے ، جب کوئی دشمن اس پر حملہ کرتاہے یا اس کا کوئی حق ضاءع ہوتاہے یا اس پر ظلم ہوتاہے یا اس کی توہین کی جاتی ہے تو یہ اندرونی طاقت اس کو شخصیت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ کرتی ہے اور یہی قوت خطروں کو برطرف کرتی ہے _

قرآن کا ارشاد ہے :

( فمن اعتدی علیکم فاعتدوا بمثل ما عتدی علیکم ) (۲)

جو تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرسکتے ہو جتنی اس نے کی ہے _

قرآن مجید میں قانون قصاص کو بھی انسان اور معاشرہ کی حیات کا ذریعہ قرار دیا گیاہے اور یہ واقعیت پر مبنی ہے _

( و لکم فی القصاص حیوة یا اولی الالباب ) (۳)

اے عقل والو قصاص تمہاری زندگی کی حفاظت کیلئے ہے_

___________________

۱) (منتہی الامال ص ۱۵۵)_

۲) (بقرہ ۱۹۴)_

۳) (بقرہ ۱۷۹) _

۱۴۸

لیکن بلند نگاہیوں اور ہمتوں کے مالکوںکی نظر میں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ کر جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ آتش غضب کو آپ رحمت سے بجھا دیناہے _

( و ان تعفوااقرب للتقوی ) (۱)

اگر تم معاف کردو تو یہ تقوی سے قریب ہے_

عفو اور درگذر ہر حال میں تقوی سے نزدیک ہے اسلئے کہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس کا مرتبہ محرمات سے پرہیز کرنے والوں سے زیادہ بلند ہے(۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان کے ساتھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار کا ہم کو کچھ اور ہی سلوک نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں حقوق کو پامال کیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جب وہی افراد ذلیل و رسوا ہوکر نظر لطف و عنایت کے محتاج بن گئے تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ اطہار نے ان کو معاف کردیا_

امام زین العابدینعليه‌السلام اور ہشام

بیس سال تک ظلم و استبداد کے ساتھ حکومت کرنے کے بعد سنہ ۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان دنیا سے رخصت ہوگیا اس کے بعد اس کا بیٹا ولید تخت خلافت پر بیٹھا اس نے

___________________

۱) (بقرہ ۲۳۷)_

۲) (المیزان ج۲ ص ۲۵۸)_

۱۴۹

لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور عمومی مخالفت کا زور کم کرنے کے لئے حکومت کے اندر کچھ تبدیلی کی ان تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی یہ تھی کہ اس نے مدینہ کے گورنر ہشام بن اسماعیل کو معزول کردیا کہ جس نے اہلبیت (علیہم السلام) پر بڑا ظلم کیا تھا جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ کا حاکم بنا تو اس نے حکم دیا کہ ہشام کو مروان حکم کے گھر کے سامنے لاکر کھڑا کیاجائے تا کہ جو اس کے مظالم کا شکا رہوئے ہیں وہ آئیں اور ان کے مظالم کی تلافی ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرین کرتے تھے اور اسے گالیاں دیتے تھے، ہشام علی بن الحسینعليه‌السلام سے بہت خوفزدہ تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے چونکہ ان کے باپ پر لعن کیا ہے لہذا اسکی سزا قتل سے کم نہیں ہوگی ، لیکن امامعليه‌السلام نے اپنے چاہنے والوں سے کہا کہ : یہ شخص اب ضعیف اور کمزور ہوچکاہے اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ضعیفوں کی مدد کرنی چاہئے، امامعليه‌السلام ہشام کے قریب آئے اور آپعليه‌السلام نے اس کو سلام کیا ، مصافحہ فرمایا اور کہا کہ اگر ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم تیار ہیں ، آپعليه‌السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ : تم اس کے پاس زیادہ نہ جاو اس لئے کہ تمہیں دیکھ کر اس کو شرم آئے گی ایک روایت کے مطابق امامعليه‌السلام نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس کو آزاد کردو اور ہشام کو چند دنوں کے بعد آزاد کردیا گیا_(۱)

___________________

۱)(بحارالانوار ج۴۶ ص ۹۴)_

۱۵۰

امام رضاعليه‌السلام اور جلودی

جلودی وہ شخص تھا جس کو محمد بن جعفر بن محمد کے قیام کے زمانہ میں مدینہ میں ہارون الرشد کی طرف سے اس بات پر مامور کیا گیا تھا کہ وہ علویوں کی سرکوبی کرے ان کو جہاں دیکھے قتل کردے ، اولاد علیعليه‌السلام کے تمام گھروں کو تاراج کردے اور بنی ہاشم کی عورتوں کے زیورات چھین لے ، اس نے یہ کام انجام بھی دیا جب وہ امام رضاعليه‌السلام کے گھر پہونچا تو اس نے آپعليه‌السلام کے گھر پر حملہ کردیاامامعليه‌السلام نے عورتوں اور بچوں کو گھر میں چھپادیا اور خود دروازہ پر کھڑے ہوگئے، اس نے کہاکہ مجھ کو خلیفہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ عورتوںکے تمام زیورات لے لوں، امام نے فرمایا: میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ میں خود ہی تم کو سب لاکردے دونگا کوئی بھی چیز باقی نہیں رہے گی لیکن جلودی نے امامعليه‌السلام کی بات ماننے سے انکار کردیا، یہاں تک کہ امامعليه‌السلام نے کئی مرتبہ قسم کھاکر اس سے کہا تو وہ راضی ہوگیا اور وہیں ٹھہرگیا، امامعليه‌السلام گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپعليه‌السلام نے سب کچھ یہانتک کہ عورتوں اور بچوں کے لباس نیز جو اثاثہ بھی گھر میں تھا اٹھالائے اور اس کے حوالہ کردیا _

جب مامون نے اپنی خلافت کے زمانہ میں امام رضاعليه‌السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تو جلودی مخالفت کرنے والوں میں تھا اور مامون کے حکم سے قید میں ڈال دیا گیا ، ایک دن قیدخانہ سے نکال کر اسکو ایسی بزم میں لایا گیا جہاں امام رضاعليه‌السلام بھی موجود تھے، مامون جلودی کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن امامعليه‌السلام نے کہا : اس کو معاف کردیا جائے، مامون نے کہا : اس نے آپعليه‌السلام پر

۱۵۱

بڑا ظلم کیا ہے _ آپعليه‌السلام نے فرمایا اس کی باوجود اس کو معاف کردیا جائے_

جلودی نے دیکھا کہ امام مامون سے کچھ باتیں کررہے ہیں اس نے سمجھا کہ میرے خلاف کچھ باتیں ہورہی ہیں اور شاید مجھے سزا دینے کی بات ہورہی ہے اس نے مامون کو قسم دیکر کہا کہ امامعليه‌السلام کی بات نہ قبول کی جائے ، مامون نے حکم دیا کہ جلودی کی قسم اور اس کی درخواست کے مطابق اسکو قتل کردیا جائے_(۱)

سازش کرنے والے کی معافی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ(علیہم السلام) نے ان افراد کو بھی معاف کردیا جنہوں نے آپعليه‌السلام حضرات کے خلاف سازشیں کیں اور آپعليه‌السلام کے قتل کی سازش کی شقی اور سنگدل انسان اپنی غلط فکر کی بدولت اتنا مرجاتاہے کہ وہ حجت خدا کو قتل کرنے کی سازش کرتاہے لیکن جو افراد حقیقی ایمان کے مالک اور لطف و عنایت کے مظہر اعلی ہیں وہ ایسے لوگوں کی منحوس سازشوں کے خبر رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ عفو و بخشش سے پیش آتے ہیں اور قتل سے پہلے قصاص نہیں لیتے البتہ ذہنوں میں اس نکتہ کا رہنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہنے ایک طرف تو اپنے ذاتی حقوق کے پیش نظر ان کو معاف کردیا دوسری طرف انہوں نے اپنے علم غیب پر عمل نہیں کیا، ا س لئے کہ علم غیب پر عمل کرنا ان کا فریضہ نہ تھا وہ ظاہر کے

___________________

۱) ( بحارالانوار ج۹ ص ۱۶۷ ، ۱۶۶)_

۱۵۲

مطابق عمل کرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں انکا جرم ثابت ہوجانے کے بعد ممکن ہے کہ ان کو معاف نہ کیا جائے یہ چیز اسلامی معاشرہ کی عمومی مصلحت و مفسدہ کی تشخیص پر مبنی ہے اس سلسلہ میں رہبر کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوتاہے_

ایک اعرابی کا واقعہ

جنگ خندق سے واپسی کے بعد سنہ ۵ ھ میں ابوسفیان نے ایک دن قریش کے مجمع میں کہا کہ مدینہ جاکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کون قتل کرسکتاہے؟ کیونکہ وہ مدینہ کے بازاروں میں اکیلے ہی گھومتے رہتے ہیں ، ایک اعرابی نے کہا کہ اگر تم مجھے تیار کردو تو میں اس کام کیلئے حاضر ہوں، ابوسفیان نے اس کو سواری اور اسلحہ دیکر آدھی رات خاموشی کے ساتھ مدینہ روانہ کردیا،اعرابی مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ڈھنڈھتاہوا مسجد میں پہنچاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسکو دیکھا تو کہا کہ یہ مکار شخص اپنے دل میں برا ارادہ رکھتاہے، وہ شخص جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب آیا تو اس نے پوچھاکہ تم میں سے فرزند عبدالمطلب کون ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں ہوں، اعرابی آگے بڑھ گیا اسید بن خضیر کھڑے ہوئے اسے پکڑلیا اور اس سے کہا : تم جیسا گستاخ آگے نہیں جاسکتا، جب اسکی تلاشی لی تو اس کے پاس خنجر نکلاوہ اعرابی فریاد کرنے لگا پھر اس نے اسید کے پیروں کا بوسہ دیا _

۱۵۳

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سچ سچ بتادو کہ تم کہاں سے اور کیوں آئے تھے؟ اعرابی نے پہلے امان چاہی پھر سارا ماجرا بیان کردیا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق اسید نے اسکو قید کردیا ، کچھ دنوں بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسکو بلاکر کہا تم جہاں بھی جانا چاہتے ہو چلے جاو لیکن اسلام قبول کرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابی ایمان لایا اور اس نے کہا میں تلوار سے نہیں ڈرا لیکن جب میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طاری ہوگیا، آپ تو میرے ضمیر و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانکہ ابوسفیان اور میرے علاوہ کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی، کچھ دنوں وہاں رہنے کے بعد اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت حاصل کی اور مکہ واپس چلا گیا _(۱)

اس طرح پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عفو اور درگذر کی بناپر ایک جانی دشمن کیلئے ہدایت کا راستہ پیدا ہوگیا اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شامل ہوگیا_

یہودیہ عورت کی مسموم غذا

امام محمد باقرعليه‌السلام سے منقول ہے کہ ایک یہودی عورت نے ایک گوسفند کی ران کو زہرآلود کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے پیش کیا ، لیکن پیغمبر نے جب کھانا چاہا تو گوسفند نے کلام کی اور کہا اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مسموم ہوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ کھائیں _پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں یہ سوچا تھا کہ

___________________

۱) (ناسخ التواریخ ج۲ ص۱۵۱)_

۱۵۴

اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں ، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر نقصان نہیں کریگا اور اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر نہیں ہیں تو لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چھٹکارا مل جائیگا، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کو معاف کردیا _(۱)

علیعليه‌السلام اور ابن ملجم

حضرت علیعليه‌السلام اگرچہ ابن ملجم کے برے ارادہ سے واقف تھے لیکن آپعليه‌السلام نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا اصحاب امیر المؤمنینعليه‌السلام کو اس کی سازش سے کھٹکا تھا انہوں نے عرض کی کہ آپعليه‌السلام ابن ملجم کو پہچانتے ہیں اور آپعليه‌السلام نے ہم کو یہ بتایا بھی ہے کہ وہ آپ کا قاتل ہے پھر اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ آپعليه‌السلام نے فرمایا: ابھی اس نے کچھ نہیں کیا ہے میں اسکو کیسے قتل کردوں ؟ ماہ رمضان میں ایک دن علیعليه‌السلام نے منبر سے اسی مہینہ میں اپنے شہید ہوجانے کی خبر دی ابن ملجم بھی اس میں موجود تھا، آپعليه‌السلام کی تقریر ختم ہونے کے بعد آپعليه‌السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے دائیں بائیں ہاتھ میرے پاس ہیں آپعليه‌السلام حکم دےدیجئے کہ میرے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں یا میری گردن اڑادی جائے _

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا: تجھ کو کیسے قتل کردوں حالانکہ ابھی تک تجھ سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا ہے_(۲)

___________________

۱) (حیات القلوب ج۲ ص ۱۲۱)_

۲) (ناسخ التواریخ ج۱ ص ۲۷۱ ، ۲۶۸)_

۱۵۵

جب ابن ملجم نے آپعليه‌السلام کے سرپر ضربت لگائی تو اسکو گرفتار کرکے آپعليه‌السلام کے پاس لایا گیا آپعليه‌السلام نے فرمایا: میں نے یہ جانتے ہوئے تیرے ساتھ نیکی کہ تو میرا قاتل ہے ، میں چاہتا تھا کہ خدا کی حجت تیرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس کے بعد بھی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا_(۱)

سختی

اب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ (علیہم السلام)کے دشمن پر عفو و مہربانی کے نمونے پیش کئے گئے ہیں اور یہ مہربانیاں ایسے موقع پر ہوتی ہیں جب ذاتی حق کو پامال کیا جائے یا ان کی توہین کی جائے اور ان کی شان میں گستاخی کی جائے، مثلا ً فتح مکہ میں کفار قریش کو معاف کردیا گیا حالانکہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھایا تھا لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مومنین کے ولی ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق حاصل ہے ، اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی معاشرہ کی مصلحت کے پیش نظر بہت سے مشرکین کو معاف فرمادیا تو بعض مشرکین کو قتل بھی کیا ، یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ معاف کردینے اور درگذر کرنے کی بات ہر مقام پر نہیں ہے اس لئے کہ جہاں احکام الہی کی بات ہو اور حدود الہی سامنے آجائیں اور کوئی شخص اسلامی قوانین کو پامال کرکے مفاسد اور منکرات کا مرتکب ہوجائے یا سماجی حقوق اور مسلمانوں

___________________

۱) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفید رسول محلاتی ص ۱۱)

۱۵۶

کے بیت المال پر حملہ کرنا چاہے کہ جس میں سب کا حق ہے تو وہ معاف کردینے کی جگہ نہیں ہے وہاں تو حق یہ ہے کہ تمام افراد پر قانون کا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچی سطح کے لوگ ہوں یا نیچی سطح کے ، شریف ہوں یا رذیل_

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ( والحافظون لحدود الله ) (۱) (حدود و قوانین الہی کے جاری کرنے والے اور انکی محافظت کرنے والے) کے مکمل مصداق ہیں_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں ایسے بہت سے نمونے مل جاتے ہیں جن میں آپ حضرات نے احکام الہی کو جاری کرنے میں سختی سے کام لیا ہے معمولی سی ہی چشم پوشی نہیں کی _

مخزومیہ عورت

جناب عائشہ سے منقول ہے کہ ایک مخزومی عورت کسی جرم کی مرتکب ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اسکا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر ہوا ، اس کے قبیلہ والوں نے اس حد کے جاری ہونے میں اپنی بے عزتی محسوس کی تو انہوں نے اسامہ کو واسطہ بنایا تا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کردہ ان کی سفارش کریں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اسامہ، حدود خدا کے بارے میں تم کو ئی بات نہ کرنا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبہ میں فرمایا: خدا کی قسم تم سے پہلے کی امتیں اس لئے ہلاک

___________________

۱) (سورہ توبہ ۱۱۲) _

۱۵۷

ہوگئیں کہ ان میں اہل شرف اور بڑے افراد چوری کیا کرتے تھے ان کو چھوڑدیا جاتا تھا اگر کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تھا تو اس پر حکم خدا کے مطابق حد جاری کرتے تھے ، خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرکتب ہو تو بھی میرا یہی فیصلہ ہوگا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمائی(۱)

آخرمیں خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ وہ ہم کو رحمة للعالمین کے سچے پیروکاروں میں شامل کرے اور یہ توفیق دے کہ ہم( والذین معه اشداء علی الکفار و رحماء بینهم ) کے مصداق بن جائیں، دشمن کے ساتھ سختی کرنیوالے اور آپس میں مہر و محبت سے پیش آنیوالے قرار پائیں _

___________________

۱) (میزان الحکمہ ج۲ ص ۳۰۸)_

۱۵۸

خلاصہ درس

۱) رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کاایک تربیتی درس یہ بھی ہے کہ بدزبانی کے بدلے عفو اور چشم پوشی سے کام لیا جائے_

۲ ) نہ صرف یہ کہ ائمہ معصومین ہی پسندیدہ صفات کی بلندیوں پر فائز تھے بلکہ آپعليه‌السلام کے مکتب اخلاق و معرفت کے تربیت یافتہ افراد بھی شرح صدر اور مہربان دل کے مالک تھے، کہ ناواقف اور خودغرض افراد کے ساتھ مہربانی اور رحم و مروت کا سلوک کیا کرتے تھے_

۳) جن لوگوں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین کے اوپر ظلم کیا ان کو بھی ان بزرگ شخصیتوں نے معاف کردیا ، یہ معافی اور درگزر کی بڑی مثال ہے _

۴ ) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہعليه‌السلام کے عفو کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ حضرات نے ان لوگوں کو بھی معاف کردیا جن لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تھی_

۵ ) قابل توجہ بات یہ ہے کہ معافی ہر جگہ نہیں ہے اس لئے کہ جب احکام الہی کی بات ہو تو اور حقوق الہی پامال ہونے کی بات ہو اور جو لوگ قوانین الہی کو پامال کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے معافی کو کوئی گنجائشے نہیں ہے بلکہ عدالت یہ ہے کہ تمام افراد کے ساتھ قانون الہی جاری کرنے میں برابر کا سلوک کیا جائے_

۱۵۹

سوالات

۱ _ وہ اعرابی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ طلب کررہا تھا اس کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا سلوک کیا تفصیل سے تحریر کیجئے؟

۲_ امام زین العابدینعليه‌السلام کی جس شخص نے امانت کی آپعليه‌السلام نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو کب معاف فرمایا؟

۴ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ائمہ معصومین ( علیہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش کرنیوالوں کو تنبیہ کاکوئی اقدام کیوں نہیں کیا ، مثال کے ذریعہ واضح کیجئے؟

۵ _ جن جگہوں پر قوانین الہی پامال ہورہے ہوں کیاوہاں معاف کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ مثال کے ذریعہ سمجھایئے

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

۱۷۰ - وقَالَعليه‌السلام تَرْكُ الذَّنْبِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِ الْمَعُونَةِ.

۱۷۱ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ أَكْلَةٍ مَنَعَتْ أَكَلَاتٍ.

۱۷۲ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

۱۷۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوه الآرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَإِ.

۱۷۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلَّه قَوِيَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ.

(۱۷۰)

گناہ کا نہ کرنابعد(۱) میںمدد مانگنے سے آسان تر ہے۔

(۱۷۱)

اکثر اوقات ایک کھانا کئی کھانوں ے روک دیتا ہے۔

(۱۷۲)

لوگ ان چیزوں کے دشمن ہوتے ہیں جن سے بے خبر ہوتے ہیں ۔

(۱۷۳)

جومختلف(۲) آرائکا سامنا کرتا ہے وہ غلطی کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔

(۱۷۴)

جو اللہ کے لئے غضب کے سنان کو تیز کر لیتا ہے وہ باطل کے سور مائوں کے قتل پر بھی قادر ہو جاتا ہے۔

(۱)مثل مشہور ہے کہ پرہیز کرنا علاج کرنے سے بہتر ہے کہ پرہیز انسان کو بیماریوں سے بچا لیتاہے اور اس طرح اس کی فطری طاقت محفوظ رہتی ہے لیکن پزہیز نہ کرنے کی بنا پر اگر مرض نے حملہ کردیا تو طاقت خود بخود کمزور ہو جاتی ہے اور پھر علاج کے بعد بھی وہ فطری حالت واپس نہیںآتی لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ گناہوںکیذریعہ نفس کے آلودہ ہونے اورتوبہ کے ذریعہ اس کی تطہیر کرنے سے پہلے اس کی صحت کاخیال رکھے اور اسے آلودہ نہ ہونے دے تاکہ علاج کی زحمت سے محفوظ رہے۔

(۲)اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مشورہ کرنے والا غلطیوں سے محفوظ رہتا ہے کہ اسے کئی طرح کے افکارحاصل ہو جاتے ہیں اور ہر شخص کے ذریعہ دوسرے کی فکر کی کمزوری کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اور اس طرح صحیح رائے اختیار کرنے میں کوئی زحمت نہیں رہ جاتی ہے۔

۶۸۱

۱۷۵ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا هِبْتَ أَمْراً فَقَعْ فِيه - فَإِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّيه أَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْه.

۱۷۶ - وقَالَعليه‌السلام آلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ.

۱۷۷ - وقَالَعليه‌السلام ازْجُرِ الْمُسِيءَ بِثَوَابِ الْمُحْسِنِ

۱۷۸ - وقَالَعليه‌السلام احْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَيْرِكَ بِقَلْعِه مِنْ صَدْرِكَ.

۱۷۹ - وقَالَعليه‌السلام اللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّأْيَ.

(۱۷۵)

جب کسی امر سے دہشت محسوس کروتواس میں پھاند پڑو کہ زیادہ خوف و احتیاط خطرہ سے زیادہ خطر ناک ہوتی ہے۔

(۱۷۶)

ریاست کاوسیلہ وسعت صدر ہے۔

(۱۷۷)

بد عمل کے سرزنش کے لئے نیک عمل(۱) والے کو اجرو انعام دو۔

(۱۷۸)

دوسرے کے دل سے شر کا کاٹ دینا ہے تو پہلے اپنے دل سے اکھاڑ کر پھینک دو۔

(۱۷۹)

ہٹدھرمی صحیح رائے کو بھی دور کردیتی ہے۔

(۱)ہمارے معاشرہ کی کمزوریوں میں سے ایک اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ یہاں بدکرداروں پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن نیک کردار کی تائید و توصیف نہیں کی جاتی ہے۔آپ ایک دن غلط کام کریں تو سارے شہر میں ہنگامہ ہو جائے گا لیکن ایک سال تک بہترین کام کریں تو کوئی بیان کرنے والا بھی نہ پیدا ہوگا ۔حالانکہ اصول بات یہ ہے کہ نیکی کے پھیلانے کا طریقہ صرف برائی پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے بہتر طریقہ خود نیکی کی حوصہل افزائی کرنا ہے جس کے بعد ہر شخص میں نیکی کرنے کا شعور بیدار ہو جائے گا اور برائیوں کا قلع قمع ہو جائے گا۔

۶۸۲

۱۸۰ - وقَالَعليه‌السلام الطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَبَّدٌ.

۱۸۱ - وقَالَعليه‌السلام ثَمَرَةُ التَّفْرِيطِ النَّدَامَةُ وثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلَامَةُ.

۱۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ - كَمَا أَنَّه لَا خَيْرَ فِي الْقَوْلِ بِالْجَهْلِ.

۱۸۳ - وقَالَعليه‌السلام مَا اخْتَلَفَتْ دَعْوَتَانِ إِلَّا كَانَتْ إِحْدَاهُمَا ضَلَالَةً.

۱۸۴ - وقَالَعليه‌السلام مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُه.

(۱۸۰)

لالچ(۱) ہمیشہ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

(۱۸۱)

کوتاہی ہی کا نتیجہ شرمندگی ہے اورہوشیاری کا ثمرہ سلامتی ۔

(۱۸۲)

حکمت(۲) سے خاموشی میں کوئی یر نہیں ہے جس طرح کہ جہالت سے بولنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

(۱۸۳)

جب دو مختلف دعوتیں دی جائیں تو دو میں سے ایک یقینا گمراہی ہوگی۔

(۱۸۴)

مجھے جب سے حق دکھلا دیا گیا ہے میں کبھی شک کا شکار نہیں ہوا ہوں۔

(۱)یہ انسانی زندگی کی عظیم ترین حقیقت ہے کہ حرص و طمع رکھنے والا انسان نفس کا غلام اورخواہشات کا بندہ ہوجاتا ہے اور جو شخص خواہشات کی بندگی میں مبتلا ہوگیا وہ کسی قیمت پر اس غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔انسانیزندگی کی دانشمندی کا تقاضایہ ہے کہ انسان اپنے کو خواہشات دنیا اورحرص طمع سے دور رکھے تاکہ کسی غلامی میں مبتلا نہ ہونے پائے کہ یہاں ''شوق ہر رنگ رقیب سرو سمان '' ہواکرتا ہے اور یہاں کی غلامی سے نجات ممکن نہیں ہے۔

(۲)انسان کو حرف حکمت کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ دوسروے لوگ اس سے استفادہ کریں اور حرف جہالت سے پرہیز کرنا چاہیے کہ جہالت کی بات کرنے سے خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے۔انسان کی عزت بھی سلامت رہتی ہے اور دوسروں کی گمراہی کابھی کوئی اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔

۶۸۳

۱۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا كَذَبْتُ ولَا كُذِّبْتُ ولَا ضَلَلْتُ ولَا ضُلَّ بِي.

۱۸۶ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ الْبَادِي غَداً بِكَفِّه عَضَّةٌ

۱۸۷ - وقَالَعليه‌السلام الرَّحِيلُ وَشِيكٌ

۱۸۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْدَى صَفْحَتَه لِلْحَقِّ هَلَكَ

۱۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ لَمْ يُنْجِه الصَّبْرُ أَهْلَكَه الْجَزَعُ.

۱۹۰ - وقَالَعليه‌السلام وَا عَجَبَاه أَتَكُونُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ والْقَرَابَةِ؟

(۱۸۵)

میں نے نہ غلط بیانی کی ہے اور نہ مجھے جھوٹ خبردی گئی ہے ۔نہ میں گمراہ ہوا ہوں اورنہ مجھے گمراہ کیا جا سکا ہے۔

(۱۸۶)

ظلم(۱) کی ابتدا کرنے واے کو کل ندامت سے اپنا ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔

(۱۸۷)

کوچ کا وقت قریب آگیا ہے۔

(۱۸۸)

جس نے حق سے منہ موڑ لیا وہ ہلاک ہوگیا۔

(۱۸۹)

جسے صبر(۲) نجات نہیں دلا سکتا ہے اسے بے قراری مار ڈالتی ہے ۔

(۱۹۰)

واعجباہ!خلافت صرف صحابیت کی بناپ رمل سکتی ہے لیکن اگر صحابیت اور قرابت دونوں جمع ہو جائیں تونہیں مل سکتی ہے

(۱)اگریہ دنیا میں ہر ظلم کرنے والے کا انجام ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا جس نے عالم اسلام میں ظلم کی ابتدا کی ہے اور جس کے مظالم کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور اولاد رسول اکرم (ص) کسی آن بھی مظالم سے محفوظ نہیں ہے۔

(۲)دنیا میں کام آنے والا صرف صبر ہے کہ اس سے انسان کا حوصلہ بھی بڑھتا ہے اور اسے اجرو ثواب بھی ملتا ہے۔بے قراری میں ان میں سے کوئی صفت نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی مسئلہ حال ہونے والا ہے۔لہٰذا ارکسی شخص نے صبر کو چھوڑ کر بے قراری کا راستہ اختیار کرلیا توگویا اپنی تباہی کا آپ انتظام کرلیا اور پروردگار کی معیت سے بھی محروم ہوگیا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتا ہے جزع و فزع کرنے والوں کے ساتھ نہیں رہتا ہے۔

۶۸۴

قال الرضي - وروي له شعر في هذا المعنى:

فإن كنت بالشورى ملكت أمورهم

فكيف بهذا والمشيرون غيب

وإن كنت بالقربى حججت خصيمهم

فغيرك أولى بالنبي وأقرب

۱۹۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّمَا الْمَرْءُ فِي الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيه الْمَنَايَا - ونَهْبٌ تُبَادِرُه الْمَصَائِبُ - ومَعَ كُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ - وفِي كُلِّ أَكْلَةٍ غَصَصٌ - ولَا يَنَالُ الْعَبْدُ نِعْمَةً إِلَّا بِفِرَاقِ أُخْرَى - ولَا يَسْتَقْبِلُ يَوْماً مِنْ عُمُرِه إِلَّا بِفِرَاقِ آخَرَ مِنْ أَجَلِه - فَنَحْنُ أَعْوَانُ الْمَنُونِ وأَنْفُسُنَا نَصْبُ الْحُتُوفِ - فَمِنْ أَيْنَ نَرْجُو الْبَقَاءَ - وهَذَا اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَمْ يَرْفَعَا مِنْ شَيْءٍ شَرَفاً - إِلَّا أَسْرَعَا الْكَرَّةَ فِي هَدْمِ مَا بَنَيَا وتَفْرِيقِ مَا جَمَعَا.

سید رضی : اس معنی میں حضرت کا یہ شعر بھی ہے۔

''اگر تم نے شوریٰ سے اقتدار حاصل کیا ہے تو یہ شوریٰ کیسا ہے جس میں مشیر ہی سب غائب تھے۔

اور اگر تم نے قرابت سے اپنی خصوصیت کا اظہار کیا ہے تو تمہاراغیرتم سے زیادہ رسول اکرم (ص) کے لئے اولیٰ اور اقرب ہے ''

(۱۹۱)

انسان اس دنیا میں وہ نشانہ ہے جس پرموت اپنے تیر چلاتی ہے ۔اوروہ مصائب کی غارت گری کی جولانگاہ بنا رہتا ہے۔یہاں کے ہر گھونٹ پر اچھو ہے اور ہر لقمہ پر گلے میں ایک پھندہ ہے۔انسان ایک نعمت کوحاصل نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسری ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور زندگی کے ایک دن(۱) کا استقبال نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسرا دن ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

ہم موت کے مدد گار ہیں اور ہمارے نفس ہلاکت کانشانہ ہیں۔ہم کہاں سے بقاء کی امید کریں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو اونچا نہیں کرتے ہیں مگر یہ کہ حملہ کرکے اسے منہدم کردیتے ہیں اورجسے بھی یکجا کرتے ہیں اسے بکھیر دیتے ہیں۔

(۱)کس قدرغلط فہمی کاشکار ہے وہ انسان جو ہر آنے وایل دن کو اپنی زندگی میں ایک اضافہ تصور کرتا ہے۔حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کا کوئی اضافہ نہیں ہے بلکہ ایک دن نے جا کردوسرے دن کے لئے جگہ خالی ہے اور اس کی آمد کی زمین ہموار کی ہے تو اس طرح انسان کا حساب برابر ہی رہ گیا۔ایک دن جیب میں داخل ہوا اورایک دن جیب سے نکل گیا اور اس طرح ایکدن زندگی کاخاتمہ ہو جائے گا۔

۶۸۵

۱۹۲ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ مَا كَسَبْتَ فَوْقَ قُوتِكَ - فَأَنْتَ فِيه خَازِنٌ لِغَيْرِكَ.

۱۹۳ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْقُلُوبِ شَهْوَةً وإِقْبَالًا وإِدْبَاراً - فَأْتُوهَا مِنْ قِبَلِ شَهْوَتِهَا وإِقْبَالِهَا - فَإِنَّ الْقَلْبَ إِذَا أُكْرِه عَمِيَ.

۱۹۴ - وكَانَعليه‌السلام يَقُولُ: مَتَى أَشْفِي غَيْظِي إِذَا غَضِبْتُ؟ أَحِينَ أَعْجِزُ عَنِ الِانْتِقَامِ فَيُقَالُ لِي لَوْ صَبَرْتَ - أَمْ حِينَ أَقْدِرُ عَلَيْه فَيُقَالُ لِي لَوْ عَفَوْتَ.

.

(۱۹۲)

فرزند آدم ! اگر تونے اپنی(۱) غذا سے زیادہ کمایا ہے تو گویا اس مال میں دوسروں کا خزانچی ہے۔

(۱۹۳)

دلوں کے لئے رغبت و خواہش ۔آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا سبھی کچھ ہے لہٰذا جب میلان اور توجہ کا وقت ہوتو اس سے کام لے لو کہ دل کو مجبورکرکے کام لیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔

(۱۹۴)

مجھے غصہ(۲) آجائے تو میں اس سے تسکین کس طرح حاصل کروں ؟ انتقام سے عاجز ہو جائوں گا تو کہا جائے گا کہ صبرکرو اور انتقام کی طاقت پیداکرلوں گا تو کہا جائے گا کہ کاش معاف کردیتے ( ایسی حالت میں غصہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے )

(۱)یہ بات طے شدہ ہے کہ مالک کا نظام تقسیم غلط نہیں ہے اوراس نے ہر شخص کی طاقت ایک جیسی نہیں رکھی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس نے ذخائر کائنات میں حصہ سب کا رکھا ہے لیکن سب میں انہیں حاصل کرنے کی یکساں طاقت نہیں ہے بلکہ ایک کو دوسرے کے لئے وسیلہ اورذریعہ بنادیا ہے تو اگر تمہارے پاس تمہارای ضرورت سے زیادہ مال آجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک نے تمہیں دوسروں کے حقوق کا خازن بنادیا ہے اور اب تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی خیانت نہ کرو اور ہر ایک کو اس کا حصہ پہنچا دو۔

(۲)آپ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ لوگوں کو صبرو تحمل کی تلقین کرتے ہیں کہ جب طات نہیں تھی تو انتقام لینے کی ضرورت ہی کیا تھی اور طاقتور ثابت ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ کمزور آدمی سے کیا انتقام لینا ہے۔مقالہ کسی برابر والے سے کرنا چاہیے تھا۔ایسی صورت میں تقاضائے عقل و منطق یہی ہے کہ انسان صبرو تحمل سے کام لے اور جب تک انتقام فرض شرعی نہ بن جائے اس وقت تک اس کا ارادہ بھی نہ کرے اور پھر جب مالک کائنات انتقام لینے والا موجود ہے تو انسان کو اس قدر زحمت برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

۶۸۶

۱۹۵ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ مَرَّ بِقَذَرٍ عَلَى مَزْبَلَةٍ - هَذَا مَا بَخِلَ بِه الْبَاخِلُونَ.

ورُوِيَ فِي خَبَرٍ آخَرَ أَنَّه قَالَ - هَذَا مَا كُنْتُمْ تَتَنَافَسُونَ فِيه بِالأَمْسِ.

۱۹۶ - وقَالَعليه‌السلام لَمْ يَذْهَبْ مِنْ مَالِكَ مَا وَعَظَكَ.

۱۹۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ - فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ.

۱۹۸ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا سَمِعَ قَوْلَ الْخَوَارِجِ لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّه - كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ.

۱۹۹ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الْغَوْغَاءِ - هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا

(۱۹۵)

ایک مزبلہ سے گزرتے ہوئے فرمایا:'' یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا''یا دوسری روایت کی بنا پر''جس کے بارے میں کل ایک دوسرے سے رشک کر رہے تھے ''۔( یہ ہے انجام دنیا اور انجام لذات دنیا)

(۱۹۶)

جو مال نصیحت کاسامان فراہم کردے وہ برباد نہیں ہوا ہے ۔

(۱۹۷)

یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن۔لہٰذا ان کے لئے لطیف ترین حکمتیں فراہم کرو۔

(۱۹۸)

جب آپ نے خوارج کا یہ نعرہ سنا کہ '' خدا کے علاوہ کسی کے لئے حکم نہیں ہے '' تو فرمایا کہ '' یہ کلمہ حق ہے '' لیکن اس سے باطل معنی مراد لیے گئے ہیں۔

(۱۹۹)

بازاری لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا کہ ۔یہی وہ لوگ ہیں جو مجتمع ہو جاتے ہیں۔تو

۶۸۷

غَلَبُوا وإِذَا تَفَرَّقُوا لَمْ يُعْرَفُوا - وقِيلَ بَلْ قَالَعليه‌السلام - هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا ضَرُّوا وإِذَا تَفَرَّقُوا نَفَعُوا - فَقِيلَ قَدْ عَرَفْنَا مَضَرَّةَ اجْتِمَاعِهِمْ فَمَا مَنْفَعَةُ افْتِرَاقِهِمْ - فَقَالَ يَرْجِعُ أَصْحَابُ الْمِهَنِ إِلَى مِهْنَتِهِمْ - فَيَنْتَفِعُ النَّاسُ بِهِمْ كَرُجُوعِ الْبَنَّاءِ إِلَى بِنَائِه - والنَّسَّاجِ إِلَى مَنْسَجِه والْخَبَّازِ إِلَى مَخْبَزِه.

۲۰۰ - وقَالَعليه‌السلام وأُتِيَ بِجَانٍ ومَعَه غَوْغَاءُ فَقَالَ - لَا مَرْحَباً بِوُجُوه لَا تُرَى إِلَّا عِنْدَ كُلِّ سَوْأَةٍ

غالب(۱) آجاتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں تو پہچانے بھی نہیں جاتے ہیں۔

اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت نے اس طرح فرمایا تھا کہ ۔جب مجتمع ہو جاتے ہیں تو نقصان دہ ہوتے ہیں اور جب منتشر ہو جاتے ہیں تبھی فائدہ مند ہو تے ہیں۔تو لوگوں نے عرض کی کہ اجتماع میں نقصان تو سمجھ میں آگیا لیکن انتشار میں فائدہ کے کیا معنی ہیں ؟ تو فرمایا کہ سارے کاروبار والے اپنے کاروبار کی طرف پلٹجاتے ہیں اور لوگ ان سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں جس طرح معمار اپنی عمارت کی طرف چلا جاتا ہے۔کپڑا بننے والا کارخانہکی طرف چلا جاتا ہے اور روٹی پکانے والا تنور کی طرف پلٹ جاتا ہے۔

(۲۰۰)

آپ کے پاس ایک مجرم کو لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا تو فرمایا کہ '' ان چہروں پر پھٹکار ہوجو صرف(۲) برائی اور رسوائی کے موقع پر نظر آتے ہیں۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوامی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور دنیا کا کوئی نظام اس طاقت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا ہے اور اسی لئے مولائے کائنات نے بھی مختلف مقامات پر ان کی اہمیت کجی طرف اشارہ کیا ہے اور ان پر خاص توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔لیکن عوام الناس کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کی اکثریت عقل و منطق سے محروم اورجذبات و عواطف سے معمور ہوتی ہے اور ان کے اکثر کام صرف جذبات واحساسات کی بناپ رانجام پاتے ہیں اور اس طرح جونظام بھی ان کے جذباتو خواہشات کی ضمانت دے دیتا ہے وہ فوراً کامیاب ہوجاتا ہے اور عقل و منطق کا نظام پیچھے رہ جاتا ہے لہٰذا حضرت نے چاہا کہ اس کمزوری کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے تاکہ ارباب حل و عقد ہمیشہ ان کے جذباتی اور ہنگامی و جود پر اعتماد نہ کریں بلکہ اس کی کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھیں۔

(۲)عام طور سے انسانوں کا مزاج یہی ہوتا ہے کہ جہاں کسی برائی کا منظر نظرآتا ہے فوراً اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔مسجد کے نمازیوں کا دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا ہے لیکن قیدی کا تماشا دیکھنے والے ہزاروں نکلآتے ہیں اور اس طرح اس اجتماع کا کوئی مقصد بھی نہیں ہوتا ہے ۔آپ کامقصد یہ ہے کہ یہ اجتماع عبرت حاصل کرنے کے لئے ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی مگر افسوس کہ یہ صرف تماشا دیکھنے کے لئے ہوتا ہے اور انسان کے وقت کا اس سے کہیں زیادہ اہم مصرف موجود ہے لہٰذا اسے اسی مصرف میں صرف کرنا چاہیے۔

۶۸۸

۲۰۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ مَلَكَيْنِ يَحْفَظَانِه - فَإِذَا جَاءَ الْقَدَرُ خَلَّيَا بَيْنَه وبَيْنَه - وإِنَّ الأَجَلَ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ

۲۰۲ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ قَالَ لَه طَلْحَةُ والزُّبَيْرُ - نُبَايِعُكَ عَلَى أَنَّا شُرَكَاؤُكَ فِي هَذَا الأَمْرِ - لَا ولَكِنَّكُمَا شَرِيكَانِ فِي الْقُوَّةِ والِاسْتِعَانَةِ - وعَوْنَانِ عَلَى الْعَجْزِ والأَوَدِ

۲۰۳ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه الَّذِي إِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ - وإِنْ أَضْمَرْتُمْ عَلِمَ - وبَادِرُوا الْمَوْتَ الَّذِي إِنْ هَرَبْتُمْ مِنْه أَدْرَكَكُمْ - وإِنْ أَقَمْتُمْ أَخَذَكُمْ - وإِنْ نَسِيتُمُوه ذَكَرَكُمْ.

۲۰۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُزَهِّدَنَّكَ فِي الْمَعْرُوفِ مَنْ لَا يَشْكُرُه لَكَ

(۲۰۱)

ہر انسان کے ساتھ دو محافظ فرشتے رہتے ہیں لیکن جب موت کا قوت آجاتا ے تو دونوں ساتھ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں گویا کہ موت ہی بہترین سپر ہے۔

(۲۰۲)

جب طلحہ و زبیر نے یہ تقاضا کیا کہ ہم بیعت کر سکتے ہیںلیکن ہمیں شریک ار بنانا پڑے گا ؟ تو فرمایا کہ ہرگز نہیں تم صرف قوت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک ہو سکتے ہو اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مدد گار بن سکتے ہو۔

(۲۰۳)

لوگو! اس خدا سے ڈرو جو تمہاری ہر بات کو سنتا ہے اور ہر راز دل کا جاننے والا ہے اور اس موت کی طرف سبقت کرو جس سے بھاگنا بھی چاہو تو وہ تمہیں پالے گی اور ٹھہر جائو گے تو گرفت میں لے لی گی اورتم اسے بھول بھی جائو گے تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔

(۲۰۴)

خبردار کسی شکریہ ادا نہ کرنے والے کی نالائقی تمہیں کارخیر(۱) سے بد دل نہ بنادے۔ہو سکتا ہے کہ تمہارا

(۱)اولاً تو کار خیر میں شکریہ کا انتظار ہی انسان کے اخلاص کو مجروح بنادیتا ہے اور اس کے عمل کاوہ مرتبہ نہیں رہ جاتا ہے جو صرف فی سبیل اللہ عمل کرنے والے افراد کاہوتا ہے جس کی طرف قرآن مجید نے سورہ ٔ مبارکہ دہر میں اشارہ کیا ہے '' لا نرید منکم جزاء اولا شکورا ''اس کے بعد اگر انسان فطرت سے مجبور ہے اورف طری طور پرشکریہ کا خواہش مند ہے تو مولائے کائنات نے اس کابھی اشارہ دے دیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کمی دوسرے افراد کی طرف سے پوری ہوجائے اور وہ تمہارے کارخیرکی قدر دانی کرکے شکریہ کی کمی کا تدارک کردیں۔

۶۸۹

- فَقَدْ يَشْكُرُكَ عَلَيْه مَنْ لَا يَسْتَمْتِعُ بِشَيْءٍ مِنْه - وقَدْ تُدْرِكُ مِنْ شُكْرِ الشَّاكِرِ - أَكْثَرَ مِمَّا أَضَاعَ الْكَافِرُ -( والله يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) .

۲۰۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ وِعَاءٍ يَضِيقُ بِمَا جُعِلَ فِيه - إِلَّا وِعَاءَ الْعِلْمِ فَإِنَّه يَتَّسِعُ بِه.

۲۰۶ - وقَالَعليه‌السلام أَوَّلُ عِوَضِ الْحَلِيمِ مِنْ حِلْمِه - أَنَّ النَّاسَ أَنْصَارُه عَلَى الْجَاهِلِ.

۲۰۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنْ لَمْ تَكُنْ حَلِيماً فَتَحَلَّمْ - فَإِنَّه قَلَّ مَنْ تَشَبَّه بِقَوْمٍ - إِلَّا أَوْشَكَ أَنْ يَكُونَ مِنْهُمْ.

۲۰۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ حَاسَبَ نَفْسَه رَبِحَ ومَنْ غَفَلَ عَنْهَا خَسِرَ - ومَنْ خَافَ أَمِنَ ومَنِ اعْتَبَرَ أَبْصَرَ -

شکریہ وہ ادا کردے جس نے اس نعمت سے کوئی فائدہ بھی نہیں اٹھایا ہے اور جس قدر کفران نعمت کرنے والے نے تمہارا حق ضائع کیا ہے اس شکریہ اداکرنے والے کے شکریہ سے برابر ہو جائے اور ویسے بھی اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

(۲۰۵)

ہر ظرف اپنے سامان کے لئے تنگ ہو سکتا ہے لیکن علم ظرف(۱) علم کے اعتبار سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔

(۲۰۶)

صبر کرنے والے کا اس کی قوت برداشت پر پہلا اجریہ ملتا ہے کہ لوگ جاہل کے مقابلہمیں اس کے مدد گار ہو جاتے ہیں۔

(۲۰۷)

اگر تم واقعاً بردبار نہیں بھی ہو تو بردباری کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی سباہت اختیار کرے اوران میں سے نہ ہوجائے ۔

(۲۰۸)

جو اپنے نفس کاحساب کرتا رہتا ہے وہ فائدہ میں رہتا ہے اورجوغافل ہو جاتا ہے وہی خسارہ میں رہتا ہے خوف خدا رکھنے والا عذاب سے محفوظ رہتا ہے اور عبرت

(۱)علم کا ظرف عقل ہے اور عقل غیر مادی ہونے کے اعتبارسے یوں بھی بے پناہ وسعت کی مالک ہے۔اس کے بعد مالک نے اس میں یہ صلاحیت بھی رکھی ہے کہ جس قدر علم میں اضافہ ہوتا جائے گا اس کی وسعتوں پراضافہ ہوتا جائے گا اور اسکی وسعت کسی مرحلہ پر تمام ہونے والی نہیں ہے ۔

۶۹۰

ومَنْ أَبْصَرَ فَهِمَ ومَنْ فَهِمَ عَلِمَ.

۲۰۹ - وقَالَعليه‌السلام : لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْيَا عَلَيْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا - عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَى وَلَدِهَا - وتَلَا عَقِيبَ ذَلِكَ -( ونُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأَرْضِ - ونَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً ونَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ ) .

۲۱۰ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ شَمَّرَ تَجْرِيداً وجَدَّ تَشْمِيراً - وكَمَّشَ فِي مَهَلٍ وبَادَرَ عَنْ وَجَلٍ - ونَظَرَ فِي كَرَّةِ الْمَوْئِلِ - وعَاقِبَةِ الْمَصْدَرِ ومَغَبَّةِ الْمَرْجِعِ

کرنے والا صاحب بصیرت ہوتا ہے۔بصیرت والا فہیم ہوتا ہے اور فہیم ہی عالم ہو جاتا ہے۔

(۲۰۹)

یہ دنیا منہ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف(۱) بہرحال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کواپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے۔اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی۔'' ہم چاہتے ہیں کہ ان بندوں پراحسان کریں جنہیں روئے زمین میں کمزور بنادیا ہے۔اورانہیں پیشوا اقرار دیں اور زمین کا وارث بنادیں۔

(۲۱۰)

اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے دنیا چھوڑ کر دامن(۲) سمیٹ لیا ہو اور دامن سمیٹ کر کوشش میں لگ گیا ہو۔اچھائیوں کے لئے وقفہ مہلتمیں تیزی کے ساتھ چل پڑا ہو اورخطروں کے پیش نظر قدم تیز بڑھادیا ہو۔اور اپنی قرار گاہ اپنے اعمال کے نتیجہ اور اپنیانجام کار پرنظر رکھی ہو۔

(۱)یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ظالم میں اگر ادنیٰ انسانیت پائی جاتی ہے تو اسے ایک دن مظلوم کی مظلومیت کابہر حال احساس پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے حال پرمہربانی کا ارادہ کرنے لگتا ہے چاہے حالات اورمصالح اسے اس مہربانی کو منزل عمل تک لانے سے روک دیں۔دنیا کوئی ایسی جلاد اور ظالم نہیں ہے جسے دوسرے کو ہٹا کر اپنی جگہ بنانے کاخیال ہو لہٰذا اسے ایک نہایک دن مظلوم پر رحم کرنا ہے اور ظالموں کو منظر تاریخ سے ہٹا کر مظلوموں کو کرسی ریاست پر بٹھانا ہے یہی منشاء الٰہی ہے اور یہی وعدۂ قرآنی ہے جس کے خلاف کا کوئی امکان نہیں پایاجاتا ہے۔

(۲)یہ اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ تقویٰ کسی زبانی جمع خرچ کا نام ہے اور نہ لباس و غذا کی سادگی سے عبارت ہے۔تقویٰ ایک انتہائی منزل دشوار ہے جہاں انسان کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔پہلے دنیا کو خیر باد کہنا ہوتا ہے۔اس کے بعد دامن عمل کو سمیٹ کر کام شروع کرنا ہوتا ہے اوراچھائیوں کی طرف تیز قدم بڑھانا پڑتے ہیں۔اپنے انجام کا ر اور نتیجہ عمل پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے اور خطرات کے دفاع کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔یہ سارے مراحل طے ہو جائیں توانسان متقی اور پرہیز گار کہے جانے کے قابل ہوتا ہے۔

۶۹۱

۲۱۱ - وقَالَعليه‌السلام الْجُودُ حَارِسُ الأَعْرَاضِ - والْحِلْمُ فِدَامُ السَّفِيه - والْعَفْوُ زَكَاةُ الظَّفَرِ - والسُّلُوُّ عِوَضُكَ مِمَّنْ غَدَرَ - والِاسْتِشَارَةُ عَيْنُ الْهِدَايَةِ - وقَدْ خَاطَرَ مَنِ اسْتَغْنَى بِرَأْيِه - والصَّبْرُ يُنَاضِلُ الْحِدْثَانَ - والْجَزَعُ مِنْ أَعْوَانِ الزَّمَانِ - وأَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى - وكَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِيرٍ تَحْتَ هَوَى أَمِيرٍ - ومِنَ التَّوْفِيقِ حِفْظُ التَّجْرِبَةِ - والْمَوَدَّةُ قَرَابَةٌ مُسْتَفَادَةٌ ولَا تَأْمَنَنَّ مَلُولًا

۲۱۲ - وقَالَعليه‌السلام عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِه أَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِه.

۲۱۳ - وقَالَعليه‌السلام أَغْضِ عَلَى الْقَذَى والأَلَمِ تَرْضَ أَبَداً.

(۲۱۱)

سخاوت عزت(۱) وآبروکی نگہبان ہے اوربردباری احمق کے منہ کا تسمہ ہے۔معافی کامیابی کی زکوٰة ہے اور بھول جانا غداری کرنے والے کا بدل ہے اور مشورہ کرنا عین ہدایت ہے۔جس نے اپنی رائے ہی پر اعتماد کرلیا اسنے اپنے کوخطرہ میں ڈال دیا۔صبر حوادث کامقابلہ کرتا ہے اوربے قراری زمانہ کی مدد گار ثابت ہوتی ہے۔بہترین دولت مندی تمنائوں کا ترک کردینا ہے۔کتنی ہی غلام عقلیں ہیں جو روساء کی خواہشات کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ تجربات کومحفوظ رکھنا توفیق کی ایک قس ہے اور محبت ایک اکتسابی قرابت ہے اورخبردار کسی رنجیدہ ہو جانے والے پر اعتماد نہ کرنا۔

(۲۱۲)

انسان کا خود پسندی میں مبتلا ہو جانا خود اپنی عقل سے حسد کرنا ہے۔

(۲۱۳)

آنکھوں کے خس و خاشاک اور رنج و الم پر چشم(۱) پوشی کرو ہمیشہ خوش رہو گے۔

(۱)اس کلمہ حکمت میںمولائے کائنات نے تیرہ مختلف نصیحتوں کاذکر فرمایا ہے اوران میں ہر نصیحت انسانی زندگی کا بہترین جوہر ہے۔کا شانسان اس کے ایک ایک فقرہ پر غور کرے اور زندگی کی تجربہ گاہ میں استعمال کرے تو اسے اندازہ ہو گا کہ ایک مکمل زندگی گذارنے کا ضابطہ کیاہوتا ہے اور انسان کس طرح دنیا وآخرت کے خیر کو حاصل کرلیتا ہے۔

(۲)حقیقت امریہ ہے کہ ہر ظلم کا ایک علاج اور دنیا کی ہرمصیبت کا ایک توڑ ہے جس کا نام ہے صبرو تحمل۔انسان صرف یہ ایک جوہر پیداکرلے تو بڑی سے بڑی مصیبت کامقالہ کر سکتا ہے اور کسی مرحلہ پر پریشان نہیں ہوسکتا ہے۔رنجیدہ و غمزدہ وہی رہتے ہیں جن کے پاس یہ جوہر نہیں ہوتا ہے اورخوش حال و مطمئن وہی رہتے ہیں جن کے پاس یہ جوہر ہوتا ہے اوروہ اسے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔

۶۹۲

۲۱۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ لَانَ عُودُه كَثُفَتْ أَغْصَانُه

۲۱۵ - وقَالَعليه‌السلام الْخِلَافُ يَهْدِمُ الرَّأْيَ.

۲۱۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَالَ اسْتَطَالَ

۲۱۷ - وقَالَعليه‌السلام فِي تَقَلُّبِ الأَحْوَالِ عِلْمُ جَوَاهِرِ الرِّجَالِ.

۲۱۸ - وقَالَعليه‌السلام حَسَدُ الصَّدِيقِ مِنْ سُقْمِ الْمَوَدَّةِ

(۲۱۴)

جس درخت کی لکڑی(۱) نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں (لہٰذا انسان کو نرم دل ہو نا چاہیے )

(۲۱۵)

مخالفت صحیح رائے کوبھی برباد کر دیتی ہے۔

(۲۱۶)

جو منصب(۲) پالیتا ہے وہ دست درازی کرنے لگتا ہے۔

(۲۱۷)

لوگوں کے جوہر حالات کے انقلاب میں پہچانے جاتے ہیں۔

(۲۱۸)

دوست کاحسد کرنا محبت کی کمزوی ہے۔

(۱)کتنا حسین تجربہ حیات ہے جس سے ایک دیہاتی انسان بھی استفادہ کر سکتا ہے کہ اگر پروردگار نے درختوں میں یہ کمال رکھا ہے کہ جن درختوں کی شاخوں کو گھنا بنایا ہے ان کی لکڑیوں کو نرم بنا دیا ہے تو انسان کوبھی اس حقیقت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اگر اپنے اطراف مخلصین کا مجمع دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے کو بے سایہ درخت نہیں بنانا چاہتا ہے تو اپنی طبیعت کونرم بنادے تاکہ اس کے سہارے لوگ اس کے گردجمع ہوجائیں اور اس کی شخصیت ایک گھنیرے درخت کی ہوجائے ۔

(۲)کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انسان پروردگار کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت پر اتر آتا ہے اور اس کے دئیے ہوئے اقتدار کو دست درازی میں استعمال کرنے لگتا ہے حالانکہ شرافت و انسانیت کا تقاضا یہی تھا کہ جس طرح اس نے صاحب قدرت و قوت ہونے کے بعد اس کے حال پر حم کیا ہے اسی طرح اقتدار پانے کے بعد یہ دوسروں کے حال پر رحم کرے۔

۶۹۳

۲۱۹ - وقَالَعليه‌السلام أَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُولِ تَحْتَ بُرُوقِ الْمَطَامِعِ.

۲۲۰ - وقَالَعليه‌السلام لَيْسَ مِنَ الْعَدْلِ الْقَضَاءُ عَلَى الثِّقَةِ بِالظَّنِّ.

۲۲۱ - وقَالَعليه‌السلام بِئْسَ الزَّادُ إِلَى الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَى الْعِبَادِ.

۲۲۲ - وقَالَ عليهلامو مِنْ أَشْرَفِ أَعْمَالِ الْكَرِيمِ غَفْلَتُه عَمَّا يَعْلَمُ.

۲۲۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ كَسَاه الْحَيَاءُ ثَوْبَه لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَه.

۲۲۴ - وقَالَعليه‌السلام بِكَثْرَةِ الصَّمْتِ تَكُونُ الْهَيْبَةُ - وبِالنَّصَفَةِ يَكْثُرُ الْمُوَاصِلُونَ - وبِالإِفْضَالِ تَعْظُمُ الأَقْدَارُ

(۲۱۹)

عقلوں کی تباہی کی بیشتر منزلیں حرص و طمع کی بجلیوں(۱) کے نیچے ہیں۔

(۲۲۰)

یہ کوئی انصاف نہیں ہے کہ صرف ظن و گمان کے اعتماد پر فیصلہ کردیا جائے ۔

(۲۲۱)

روز قیامت کے لئے بد ترین زاد سفر بندگان خدا پر ظلم ہے۔

(۲۲۲)

کریم کے بہترین اعمال میں جان کر انجان بن جانا۔

(۲۲۳)

جسے حیا نے اپنا لباس اوڑھا دیا اس کے عیب کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے۔

(۲۲۴)

زیادہ خاموشی ہیبت کا سبب بنتی ہے اورانصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے۔فضل و کرم سے قدرو

(۱)حرص و طمع کی چمک دمک بعض اوقات عقل کی نگاہوں کو بھی ذخیرہ کر دیتی ہے اور انسان نیک وبد کے امتیاز سے محروم ہوجاتا ہے۔لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے کو حرص و طمع سے دور رکھے اورزندگی کا ہر قدم عقل کے زیر سایہ اٹھائے تاکہ کسی مرحلہ پر تباہ وبرباد نہ ونے پائے ۔

۶۹۴

وبِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ - وبِاحْتِمَالِ الْمُؤَنِ يَجِبُ السُّؤْدُدُ - وبِالسِّيرَةِ الْعَادِلَةِ يُقْهَرُ الْمُنَاوِئُ - وبِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيه تَكْثُرُ الأَنْصَارُ عَلَيْه.

۲۲۵ - وقَالَ علالسلام الْعَجَبُ لِغَفْلَةِ الْحُسَّادِ عَنْ سَلَامَةِ الأَجْسَادِ.

۲۲۶ - وقَالَعليه‌السلام الطَّامِعُ فِي وِثَاقِ الذُّلِّ.

۲۲۷ - وسُئِلَ عَنِ الإِيمَانِ - فَقَالَ الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ - وإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ.

منزلت بلند ہوتی ہے اور تواضع سے نعمت مکمل ہوتی ہے۔دوسروں کا بوجھ اٹھانے سے سرداری حاصل ہوتی ہے اور انصاف پسند کردار سے دشمن پر غلبہ حاصل کیا جاتا ہے۔احمق کے مقابلہ میں بردباری کے مظاہرہ سے انصار و اعوان(۱) میں اضافہ ہوتا ہے۔

(۲۲۵)

حیرت کی بات ہے کہ حسد کرنے والے جسموں کی سلامتی پرحسد کیوں نہیں کرتے ہیں ( دولت مند کی دولت سے حسد ہوتا ہے اور مزدورکی صحت سے حسد نہیں ہوتا ہے حالانکہ یہ اس سے بڑی نعمت ہے۔

(۲۲۶)

لالچی(۲) ہمیشہ ذلت کی قید میں گرفتار رہتا ہے۔

(۲۲۷)

آپ سے ایمان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہایمان دل کا عقیدہ ' زبان کا اقرار اوراعضاء و جوارح کے عمل(۳) کا نام ہے۔

(۱)اس نصیحت میں بھی زندگی کے سات مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اوریہ بتایا گیا ہے کہ انسان ایک کامیاب زندگی کس طرح گزار سکتا ہے اور اسے اس دنیا میں باعزت زندگی کے لئے کن اصول و قوانین کو اختیار کرنا چاہیے۔

(۲)لالچ میں دو طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک طرف انسان نفسیاتی ذلت کاشکار رہتا ہے کہ اپنے کو حقیر فقیر تصورکرتا ہے اوراپنی کسی بھی دولت کا احساس نہیں کرتا ہے اور دوسری طرف دوسرے ارفاد کے سامنے حقارت و ذلت کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ شائد اسی طرح کسی کو اس کے حال پر رحم آجائے اوروہ اس کے مدعا کے حصول کی راہ ہموار کردے

(۳)علی والوں کو اس جملہ کو بغور دیکھنا چاہیے کہ کل ایمان نے ایمان کو اپنی زندگی کے سانچہ میں ڈھال دیا ہے کہ جس طرح آپ کی زندگی میں اقرار ' تصدیق اور عمل کے تینوں زخ پائے جاتے تھے ویسے ہی آپ ہر صاحب ایمان کو اس کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بغیر کسی کو صاحب ایمان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ بے عمل اگر صاحب ایمان نہیں ہو سکتا ہے تو کل ایمان کا شیعہ اور ان کا مخلص کیسے ہو سکتا ہے ۔

۶۹۵

۲۲۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً - فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللَّه سَاخِطاً - ومَنْ أَصْبَحَ يَشْكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِه - فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّه - ومَنْ أَتَى غَنِيّاً فَتَوَاضَعَ لَه لِغِنَاه ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِه - ومَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ - فَهُوَ مِمَّنْ كَانَ يَتَّخِذُ آيَاتِ اللَّه هُزُواً - ومَنْ لَهِجَ قَلْبُه بِحُبِّ الدُّنْيَا الْتَاطَ قَلْبُه مِنْهَا بِثَلَاثٍ - هَمٍّ لَا يُغِبُّه وحِرْصٍ لَا يَتْرُكُه وأَمَلٍ لَا يُدْرِكُه.

۲۲۹ - وقَالَعليه‌السلام كَفَى بِالْقَنَاعَةِ مُلْكاً وبِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِيماً وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قَوْلِه تَعَالَى -( فَلَنُحْيِيَنَّه حَياةً طَيِّبَةً ) فَقَالَ هِيَ الْقَنَاعَةُ.

۲۳۰ - وقَالَعليه‌السلام شَارِكُوا الَّذِي قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْه الرِّزْقُ - فَإِنَّه أَخْلَقُ لِلْغِنَى وأَجْدَرُ بِإِقْبَالِ الْحَظِّ عَلَيْه.

(۲۲۸)

جودنیاکے بارے(۱) میں رنجیدہ ہو کرصبح کرے وہ درحقیقت قضائے الٰہی سے ناراض ہے اور جو صبح اٹھتے ہی کسی نازل ہونے والی مصیبت کاشکوہ شروع کردے اس نے درحقیقت پروردگار کی شکایت کی ہے۔جوکسی دولت مند کے سامنے دولت کی بنا پرجھک جائے اس کا دو تہائیدین بابرباد ہوگیا۔اورجوشخص قرآن پڑنے کے باوجود مرکر جہنم واصل ہوجائے گویا اسنے آیات الٰہی کامذاق اڑایا ہے۔جس کا دل محبت دنیامیں وارفتہ ہو جاء اس کے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہو جاتی ہیں۔وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ' وہ لالچ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اوروہ امید جسے کبھی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔

(۲۲۹)

قناعت سے بڑی کوئی سلطنت اور حسن اخلاق سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔آپ سے دریافت کیا گیا کہ '' ہم حیات طیبہ عنایت کریں گے ''اس آیت میں حیات طیبہ سے مراد کیا ہے ؟۔فرمایا : قناعت۔

(۲۳۰)

جس کی طرف روزی کا رخ ہو اس کے ساتھ شریک ہو جائو کہ یہ دولت مندی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ اور خوش نصیبی کا بہترین قرینہ ہے۔

(۱)اس مقام پر چار عظیم نکات زندگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لہٰذا انسان کو ان کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور صبرو شکر کے ساتھ زندگی گذارنی چاہیے۔نہ شکوہ و فریاد شروع کردے اورنہ دولت کی غلامی پر آمادہ ہوجائے ۔قرآن پڑھے تواس پر عمل بھی کرے اور دنیا میں رہے تو اس سے ہوشیار بھی رہے۔

۶۹۶

۲۳۱ - وقَالَعليه‌السلام : فِي قَوْلِه تَعَالَى( إِنَّ الله يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ والإِحْسانِ ) - الْعَدْلُ الإِنْصَافُ والإِحْسَانُ التَّفَضُّلُ.

۲۳۲ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ يُعْطِ بِالْيَدِ الْقَصِيرَةِ يُعْطَ بِالْيَدِ الطَّوِيلَةِ.

قال الرضي - ومعنى ذلك أن ما ينفقه المرء من ماله - في سبيل الخير والبر وإن كان يسيرا - فإن الله تعالى يجعل الجزاء عليه عظيما كثيرا - واليدان هاهنا عبارة عن النعمتين - ففرقعليه‌السلام بين نعمة العبد - ونعمة الرب تعالى ذكره بالقصيرة والطويلة - فجعل تلك قصيرة وهذه طويلة - لأن نعم الله أبدا - تضعف على نعم المخلوق أضعافا كثيرة - إذ كانت نعم الله أصل النعم كلها - فكل نعمة إليها ترجع ومنها تنزع.

(۲۳۱)

آیت کریمہ'' ان اللہ یا مر بالعدل(۱) '' میں عدل ' انصاف ہے اوراحسان فضل و کرم۔

(۲۳۲)

جو عاجز ہاتھ سے دیتا ہے اسے صاحب اقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔

سید رضی : جوشخص کسی کا رخیر میں مختصر مال بھی خرچ کرتا ہے پروردگار اس کی جزاء کوعظیم و کثیر بنا دیتا ہے۔یہاں دونوں '' ید '' سے مراد دونوں نعمتیں ہیں۔بندہ کی نعمت کو ید قصیرہ کہا گیا ہے اورخدائی نعمت کو یدطویلہ ۔اس لئے کہ اللہ کی نعمتیں بندوں کے مقابلہ میں ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہیں۔اور وہی تمام نعمتوں کی اصل اور سب کامرجع و منشاء ہوتی ہے۔

(۱)حضرت عثمان بن مظعون کا بیان ہے کہ میرے اسلام میں استحکام اس دن پیداہوا جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور میں نے جناب ابو طالب سے اس آیت کا ذکر کیا اور انہوں نے فرمایا کہ میرا فرزند محمد (ص) ہمیشہ بلند ترین اخلاق کی باتیں کرتا ہے لہٰذا اس کا اتباع اور اس سے ہدایت حاصل کرنا تمام قریش کا فریضہ ہے۔

۶۹۷

۲۳۳ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه الْحَسَنِ -عليه‌السلام لَا تَدْعُوَنَّ إِلَى مُبَارَزَةٍ وإِنْ دُعِيتَ إِلَيْهَا فَأَجِبْ - فَإِنَّ الدَّاعِيَ إِلَيْهَا بَاغٍ والْبَاغِيَ مَصْرُوعٌ

۲۳۴ - وقَالَعليه‌السلام خِيَارُ خِصَالِ النِّسَاءِ شِرَارُ خِصَالِ الرِّجَالِ - الزَّهْوُ والْجُبْنُ والْبُخْلُ - فَإِذَا كَانَتِ الْمَرْأَةُ مَزْهُوَّةً .لَمْ تُمَكِّنْ مِنْ نَفْسِهَا - وإِذَا كَانَتْ بَخِيلَةً حَفِظَتْ مَالَهَا ومَالَ بَعْلِهَا - وإِذَا كَانَتْ جَبَانَةً فَرِقَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يَعْرِضُ لَهَا.

۲۳۵ - وقِيلَ لَه صِفْ لَنَا الْعَاقِلَ - فَقَالَعليه‌السلام هُوَ الَّذِي يَضَعُ الشَّيْءَ مَوَاضِعَه - فَقِيلَ فَصِفْ لَنَا الْجَاهِلَ

(۲۳۳)

اپنے فرزند امام حسن سے فرمایا: تم کسی کو جنگ کی دعوت(۱) نہ دینالیکن جب کوئی للکار دے تو فوراً جواب دے دینا کہ جنگ کی دعوت دینے والا باغی ہوتا ہے اور باغی بہرحال ہلاک ہونے والا ہے۔

(۲۳۴)

عورتوں کی بہترین خصلتیں جو مردوں کی بد ترین خصلتیں شمار ہوتی ہیں۔ان میں غرور۔بزدلی اور بخل ہے کہ عورت(۲) اگر مغرورہوگی تو کوئی اس پر قابو نہ پاسکے گا اوراگربخیل ہوگی تو اپنے اور اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اوراگر بزدل ہوگی تو ہر پیش آنے والے خطرہ سے خوفزدہ رہے گی۔

(۲۳۵)

آپ سے گزارش کی گئی کہ عاقل کی توصیف فرمائیں۔تو فرمایا کہ عاقل وہ ہے جو ہرشے کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے۔عرض کیا گیا پھر جاہل کی تعریف کیا

(۱)اسلام کا توازن عمل یہی ہے کہ جنگ میں پہل نہ کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو اس کو نظرانداز کیا جائے لیکن اس کے بعد اگر دشمن جنگ کی دعوت دیدے تو اسے نظرانداز بھی نہ کیا جائے کہ اس طرح اسے اسلام کی کمزوری کا احساس پیداہو جائے گا اوراس کے حوصلے بلند ہو جائیں گے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہاسے یہ محسوس کرادیا جائے کہ اسلام کمزور نہیں ہے لیکن پہل کرنا اس کے اخلاقی اصول و آئین کے خلاف ہے۔

(۲)یہ تفصیل اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں صفات انہیں بلند ترین مقاصد راہ میں محبوب ہیں ورنہ ذاتی طور پر نہ غرور محبوب ہو سکتا ہے اور نہ بخل و بزدلی۔ہر صفت اپنے مصرف کے اعتبار سے خوبی یا خراجی پیدا کرتی ہے اور عورت کے یہ صفات انہیں مقاصد کے اعتبار سے پسندیدہ ہیں مطلق طور پر یہ صفات کسی کے لئے بھی پسندیدہ نہیں ہو سکتے ہیں۔

۶۹۸

فَقَالَ قَدْ فَعَلْتُ.

قال الرضي - يعني أن الجاهل هو الذي لا يضع الشيء مواضعه - فكأن ترك صفته صفة له - إذ كان بخلاف وصف العاقل.

۲۳۶ - وقَالَعليه‌السلام واللَّه لَدُنْيَاكُمْ هَذِه - أَهْوَنُ فِي عَيْنِي مِنْ عِرَاقِ خِنْزِيرٍ فِي يَدِ مَجْذُومٍ

۲۳۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ - وإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ - وإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الأَحْرَارِ.

۲۳۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْأَةُ شَرٌّ كُلُّهَا وشَرُّ مَا فِيهَا أَنَّه لَا بُدَّ مِنْهَا.

ہے۔ فرمایا یہ تو میں بیان کر چکا ۔

سید رضی : مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو ہرشے کو بے محل رکھتا ہے اور اس کا بیان نہ کرنا ہی ایک طرح کا بیان ہے کہ وہ عاقل کی ضد ہے۔

(۲۳۶)

خداکی قسم یہ تمہاری دنیا میری نظر کوڑھی کے ہاتھ میں سور(۱) کی ہڈی سے بھی بد تر ہے۔

(۲۳۷)

ایک قوم ثواب کی لالچ میں عبادت کرتی ہے تو یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قوم عذاب کے خوف سے عبادت کرتی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے۔اصل وہ قوم ہے جو شکرخدا کے عنوان سے عبادت کرتی ہے اور یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔

(۲۳۸)

عورت سرپا شر(۲) ہےاور اس کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس کے بغیر کام بھی نہیں چل سکتا ہے۔

(۱)ایک تو سور جیسے نجس العین جانورکی ہڈی اوروہ بھی کوڑھی انسان کے ہاتھ میں۔اس سے زیادہ نفرت انگیز شے دنیا میں کیا ہو سکتی ہے۔امیر المومنین نے اس تعبیر سے اسلام اور عقل دونوں کے تعلیمات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اسلام نجس العین سے اجتناب کیدعوت دیتا ہے اور عقل متعدی امراض کے مریضوں سے بچنے کی دعوت دیتی ہے۔ایسے حالات میں اگر کوئی شخص دنیا پر ٹوٹ پڑے تو نہ مسلمان کہے جانے کے قابل ہے اور نہ صاحب عقل۔

(۲)بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت کا یہ اشارہ کسی '' خاص عورت '' کی طرف ہے ورنہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ عورت کی صنف کو شر قرار دے دیا جائے اور اسے اس حقارت کی نظر سے دیکھا جائے '' لا بد منھا '' اس رشتہ کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا ہے اور ان کے بغیر زندگی کو ادھورا اور نامکمل قراردیا گیا ہے ۔

۶۹۹

۲۳۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَطَاعَ التَّوَانِيَ ضَيَّعَ الْحُقُوقَ - ومَنْ أَطَاعَ الْوَاشِيَ ضَيَّعَ الصَّدِيقَ.

۲۴۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحَجَرُ الْغَصِيبُ فِي الدَّارِ رَهْنٌ عَلَى خَرَابِهَا.

قال الرضي - ويروى هذا الكلام عن النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولا عجب أن يشتبه الكلامان - لأن مستقاهما من قليب ومفرغهما من ذنوب

۲۴۱ - وقَالَعليه‌السلام يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ - أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظَّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.

۲۴۲ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقِ اللَّه بَعْضَ التُّقَى وإِنْ قَلَّ - واجْعَلْ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه سِتْراً وإِنْ رَقَّ.

۲۴۳ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا ازْدَحَمَ الْجَوَابُ خَفِيَ الصَّوَابُ.

(۲۳۹)

جوشخص کاہلی اور سستی سے کام لیتا ہے وہ اپنے حقوق کوبھی برباد کردیتا ہے اورجوچغل خور کی بات مان لیتا ہے وہ دوستوں کوبھی کھو بیٹھتا ہے۔

(۲۴۰)

گھرمیں ایک پتھر بھی غصبی لگا ہوتو وہ اس کی بربادی کی ضمانت ہے۔

سیدرضی : اس کلام کو رسول اکرم (ص) سے بھی نقل کیا گیا ہے اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ دونوں کا سر چ شمہ علم ایک ہی ہے۔

(۲۴۱)

مظلوم کا دن (قیامت ) ظالم کے لئے اس دن سے سخت تر ہوتا ہے جو ظالم کا مظلوم کے لئے ہوتا ہے۔

(۲۴۲)

اللہ کا ہر نعمت میں ایک حق ہے۔جو اسے ادا کردے گا۔اللہ اس کی نعمت کو بڑھا دے گا اورکو کوتاہی کرے گا وہموجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا۔

(۲۴۳)

جب جوابات کی کثرت ہو جاتی ہے تو اصل بات گم ہو جاتی ہے۔

۷۰۰

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863