نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657062 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

خَلْقَه - إِنَّه مَا تَوَجَّه الْعِبَادُ إِلَى اللَّه تَعَالَى بِمِثْلِه - واعْلَمُوا أَنَّه شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وقَائِلٌ مُصَدَّقٌ - وأَنَّه مَنْ شَفَعَ لَه الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُفِّعَ فِيه - ومَنْ مَحَلَ بِه الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُدِّقَ عَلَيْه - فَإِنَّه يُنَادِي مُنَادٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - أَلَا إِنَّ كُلَّ حَارِثٍ مُبْتَلًى فِي حَرْثِه وعَاقِبَةِ عَمَلِه - غَيْرَ حَرَثَةِ الْقُرْآنِ - فَكُونُوا مِنْ حَرَثَتِه وأَتْبَاعِه - واسْتَدِلُّوه عَلَى رَبِّكُمْ واسْتَنْصِحُوه عَلَى أَنْفُسِكُمْ - واتَّهِمُوا عَلَيْه آرَاءَكُمْ واسْتَغِشُّوا فِيه أَهْوَاءَكُمْ.

الحث على العمل

الْعَمَلَ الْعَمَلَ ثُمَّ النِّهَايَةَ النِّهَايَةَ - والِاسْتِقَامَةَ الِاسْتِقَامَةَ ثُمَّ الصَّبْرَ الصَّبْرَ والْوَرَعَ الْوَرَعَ - إِنَّ لَكُمْ نِهَايَةً فَانْتَهُوا إِلَى نِهَايَتِكُمْ - وإِنَّ لَكُمْ عَلَماً فَاهْتَدُوا بِعَلَمِكُمْ - وإِنَّ لِلإِسْلَامِ غَايَةً فَانْتَهُوا إِلَى غَايَتِه - واخْرُجُوا إِلَى اللَّه بِمَا افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَقِّه - وبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ وَظَائِفِه - أَنَا شَاهِدٌ لَكُمْ وحَجِيجٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَنْكُمْ.

مخلوقات سے سوال نہ کرو۔اس لئے کہ مالک کی طرف متوجہ ہونے کا اس کا جیسا کوئی وسیلہ نہیں ہے اور یاد رکھو کہ وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ے جس کی بات مصدقہ ہے۔جس کے لئے قرآن روز قیامت سفارش کردے اس کے حق میں شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ہے جس کی بات مصدقہ ہے۔جس کے لئے قرآن روز قیامت سفارش کردے اس کے حق میں شفاعت قبول ہے اور جس کے عیب کو وہ بیان کردے اس کا عیب تصدیق شدہ ہے۔روز قیامت ایک منادی آوازدے گا کہ ہر کھیتی کرنے والا اپنی کھیتی اور اپنے عمل کے انجام میں مبتلا ہے لیکن جو اپنے دل میں قرآن کا بیج بونے والے تھے وہ کامیاب ہیں لہٰذا تم لوگ انہیں لوگوں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جائو۔ اسے مالک کی بارگاہ میں رہنما بنائو اور اس سے اپنے نفس کے بارے میں نصیحت کرواور اپنے خیالات کو متہم قراردو اور اپنے خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو۔

عمل کرو عمل

انجام پر نگاہ رکھو انجام۔استقامت سے کام لو استقامت اور احتیاط کرو احتیاط تمہارے لئے ایک انتہا معین ہے اس کی طرف قدم آگے بڑھائو اور اللہ کی بارگاہ میں اس کے حقوق کی ادائیگی اور اس کے احکام کی پابندی کے ساتھ حاضری دو۔میں تمہارے اعمال کا گواہ بنوںگا اور روز قیامت تمہاری طرف سے وکالت کروں گا۔

۳۲۱

نصائح للناس

أَلَا وإِنَّ الْقَدَرَ السَّابِقَ قَدْ وَقَعَ - والْقَضَاءَ الْمَاضِيَ قَدْ تَوَرَّدَ - وإِنِّي مُتَكَلِّمٌ بِعِدَةِ اللَّه وحُجَّتِه - قَالَ اللَّه تَعَالَى -( إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا الله ثُمَّ اسْتَقامُوا - تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ولا تَحْزَنُوا - وأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ) - وقَدْ قُلْتُمْ رَبُّنَا اللَّه فَاسْتَقِيمُوا عَلَى كِتَابِه - وعَلَى مِنْهَاجِ أَمْرِه وعَلَى الطَّرِيقَةِ الصَّالِحَةِ مِنْ عِبَادَتِه - ثُمَّ لَا تَمْرُقُوا مِنْهَا ولَا تَبْتَدِعُوا فِيهَا - ولَا تُخَالِفُوا عَنْهَا - فَإِنَّ أَهْلَ الْمُرُوقِ مُنْقَطَعٌ بِهِمْ عِنْدَ اللَّه يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِيَّاكُمْ وتَهْزِيعَ الأَخْلَاقِ وتَصْرِيفَهَا - واجْعَلُوا اللِّسَانَ وَاحِداً ولْيَخْزُنِ الرَّجُلُ لِسَانَه - فَإِنَّ هَذَا اللِّسَانَ جَمُوحٌ بِصَاحِبِه - واللَّه مَا أَرَى عَبْداً يَتَّقِي تَقْوَى تَنْفَعُه حَتَّى يَخْزُنَ لِسَانَه - وإِنَّ لِسَانَ الْمُؤْمِنِ مِنْ وَرَاءِ قَلْبِه - وإِنَّ قَلْبَ الْمُنَافِقِ مِنْ وَرَاءِ لِسَانِه - لأَنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِكَلَامٍ تَدَبَّرَه فِي نَفْسِه - فَإِنْ كَانَ خَيْراً

(نصائح)

یاد رکھو کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا اور جو فیصلہ خداوندی تھا وہ سامنے آچکا ۔میں خدائی وعدہ اور اس کی حجت کے سہارے کلام کر رہا ہوں '' بیشک جن لوگوں نے خدا کو خدا مانا اور اسی بات پر قائم رہ گئے۔ان پر ملائکہ اس بشارت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں کہ خبر دار ڈرو نہیں اور پریشان مت ہو۔تمہارے لئے اس جنت کی بشارت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے '' اور تم لوگ تو خداکوخدا کہہ چکے ہو تو اب اس کی کتاب پر قائم رہو اور اس کے امر کے راستہ پر ثابت قدم رہو۔اس کی عبادت کے نیک راستہ پرجمے رہو اور اس سے خروج نہ کرو اور نہ کوئی بدعت ایجاد کرو اور نہ سنت سے اختلاف کرو۔اس لئے کہاطاعت الٰہی سے نکل جانے والے کا رشتہ پروردگار سے روز قیامت ٹوٹ جاتا ہے۔اس کے بعد ہوشیار ہوکر تمہارے اخلاق میں الٹ پھیرا دل بدل نہ ہونے پائے۔اپنی زبان کو ایک رکھو اور اسے محفوظ رکھو اس لئے کہ یہ زبان اپنے مالک سے بہت منہ زوری کرتی ہے۔خدا کی قسم میں نے کسی بندۂ مومن کو نہیں دیکھا جس نے اپنے تقویٰ سے فائدہ اٹھایا ہو مگر یہ کہ اپنی زبان کو روک کر رکھا ہے۔مومن کی زبان ہمیشہ اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے اور منافق کا دل ہمیشہ اس کی زبان کے پیچھے ہوتا ہے۔اس لئے کہ مومن جب بات کرنا چاہتا ہے تو پہلے دل میں غوروفکر کرتا ہے۔اس کے بعد حرف خیر ہوتا ہے تو اس کا

۳۲۲

أَبْدَاه وإِنْ كَانَ شَرّاً وَارَاه - وإِنَّ الْمُنَافِقَ يَتَكَلَّمُ بِمَا أَتَى عَلَى لِسَانِه - لَا يَدْرِي مَا ذَا لَه ومَا ذَا عَلَيْه - ولَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - لَا يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُه - ولَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُه حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُه - فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى اللَّه تَعَالَى - وهُوَ نَقِيُّ الرَّاحَةِ مِنْ دِمَاءِ الْمُسْلِمِينَ وأَمْوَالِهِمْ - سَلِيمُ اللِّسَانِ مِنْ أَعْرَاضِهِمْ فَلْيَفْعَلْ.

تحريم البدع

واعْلَمُوا عِبَادَ اللَّه أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَسْتَحِلُّ الْعَامَ - مَا اسْتَحَلَّ عَاماً أَوَّلَ ويُحَرِّمُ الْعَامَ مَا حَرَّمَ عَاماً أَوَّلَ - وأَنَّ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ لَا يُحِلُّ لَكُمْ شَيْئاً - مِمَّا حُرِّمَ عَلَيْكُمْ - ولَكِنَّ الْحَلَالَ مَا أَحَلَّ اللَّه والْحَرَامَ مَا حَرَّمَ اللَّه - فَقَدْ جَرَّبْتُمُ الأُمُورَ

اظہار کرتا ہے ورنہ اسے دل ہی میں چھپا رہنے دیتا ہے لیکن منافق جواس کے منہ میں آتاہے بک دیتاہے ۔اسے اس بات کی فکرنہیں ہوتی ہے کہ میرے موافق ہے یا مخالف اور پیغمبر (ص) اسلام نے فرمایا ہے کہ '' کسی شخص کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کا دل درست نہ ہو اور کسی شخص کا دل درست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کی زبان درست نہ ہو۔اب جو شخص بھی اپنے پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کر سکتا ہے کہ اس کا ہاتھ مسلمانوں کے خون اور ان کے مال سے پاک ہو اور اس کی زبان ان کی آبرو ریزی سے محفوظ ہو تو اسے بہر حال ایسا ضرور کرنا چاہیے۔

(بدعتوں کی ممانعت)

یاد رکھو کہ مرد مومن اس سال(۱) اسی چیز کو حلال کہتا ہے کہ جسے اگلے سال حلال کہہ چکا ہے اور اس سال اسی شے کو حرام قرار دیتا ہے جسے پچھلے سال حرام قرار دے چکا ہے۔اور لوگوں کی بدعتیں اور ان کی ایجادات حرام الٰہی کو حلال نہیں بنا سکتی ہیں۔ حلال و حرام وہی ہے جسے پروردگار نے حلال و حرام کہہ دیا ہے۔تم نے تمام امور کو

(۱)اسلام کے حلال و حرام دو قسم کے ہیں بعض امور وہ ہیں جنہیں مطلق طور پر حلال یا حرام قراردیا گیا ہے۔ان میں تغیر کا کوی امکان نہیں ہے اور انہیں بدلنے والا دین خدا میں دخل اندازی کرنے والا ہے جو خود ایک طرح کا کفر ہے۔اگرچہ بظاہر اس کا نام کفر یا شرک نہیں ہے۔

اور بعض امور وہ ہیں جن کی علیت یا حرمت حالات کے اعتبارسے رکھی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ ان کا حکم حالات کے بدلنے کے ساتھ خود ہی بدل جائے گا۔اس میں کسی کے بدلنے کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا ہے۔ایک مسلمان اور غیر مسلم یا ایک مومن اور غیر مومن کا فرق یہی ہے کہ مسلمان اور امر الہیہ کا مکمل اتباع کرتاہے اور کافر یا منافق ان احکام کو اپنے مصالح اور منافع کے مطابق بدل لیتا ہے اور اس کا نام مصلحت اسلام یا مصلحت مسلمین رکھ دیتا ہے ۔

۳۲۳

وضَرَّسْتُمُوهَا - ووُعِظْتُمْ بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ وضُرِبَتِ الأَمْثَالُ لَكُمْ - ودُعِيتُمْ إِلَى الأَمْرِ الْوَاضِحِ فَلَا يَصَمُّ عَنْ ذَلِكَ إِلَّا أَصَمُّ - ولَا يَعْمَى عَنْ ذَلِكَ إِلَّا أَعْمَى - ومَنْ لَمْ يَنْفَعْه اللَّه بِالْبَلَاءِ والتَّجَارِبِ - لَمْ يَنْتَفِعْ بِشَيْءٍ مِنَ الْعِظَةِ وأَتَاه التَّقْصِيرُ مِنْ أَمَامِه - حَتَّى يَعْرِفَ مَا أَنْكَرَ ويُنْكِرَ مَا عَرَفَ - وإِنَّمَا النَّاسُ رَجُلَانِ مُتَّبِعٌ شِرْعَةً ومُبْتَدِعٌ بِدْعَةً - لَيْسَ مَعَه مِنَ اللَّه سُبْحَانَه بُرْهَانُ سُنَّةٍ ولَا ضِيَاءُ حُجَّةٍ.

القرآن

وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يَعِظْ أَحَداً بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ - فَإِنَّه حَبْلُ اللَّه الْمَتِينُ وسَبَبُه الأَمِينُ - وفِيه رَبِيعُ الْقَلْبِ ويَنَابِيعُ الْعِلْمِ - ومَا لِلْقَلْبِ جِلَاءٌ غَيْرُه مَعَ أَنَّه قَدْ ذَهَبَ الْمُتَذَكِّرُونَ - وبَقِيَ النَّاسُونَ أَوِ الْمُتَنَاسُونَ - فَإِذَا رَأَيْتُمْ خَيْراً فَأَعِينُوا عَلَيْه - وإِذَا رَأَيْتُمْ شَرّاً فَاذْهَبُوا عَنْه - فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كَانَ يَقُولُ - يَا ابْنَ آدَمَ اعْمَلِ الْخَيْرَ ودَعِ الشَّرَّ - فَإِذَا أَنْتَ جَوَادٌ قَاصِدٌ ».

آزمالیا ہے اور سب کا باقاعدہ تجربہ کرلیا ہے اور تمہیں پہلے والوں کے حالات سے نصیحت بھی کی جا چکی ہے اور ان کی مثالیں بھی بیان کی جا چکی ہے اور ایک واضح امر کی دعوت بھی دی جا چکی ہے کہ اب اس معاملہ میں بہرہ پن اختیار نہیں کرے گا مگر وہی جو واقعاً بہرہ ہو اور انددھا نہیں بنے گا مگر وہی جو واقعاً اندھا ہو اور پھر جسے بلائیں اور تجربات فائدہ نہ دے سکیں اسے نصیحتیں کیا فائدہ دیں گی۔اس کے سامنے صرف کوتاہیاں ہی رہیں گی جن کے نتیجہ میں برائیوں کو اچھا اور اچھائیوں کو برا سمجھنے لگے گا۔لوگ دو ہی قسم کے ہوتے ہیں۔یا وہ جو شریعت کا اتباع کرتے ہیں یا وہ جو بدعتوں کی ایجاد کرتے ہیں اور ان کے پاس نہ سنت کی کوئی دلیل ہوتی ہے اور نہ حجت پروردگار کی کوئی روشنی ۔

(قرآن)

پروردگار نے کسی شخص کو قرآن سے بہتر کوئی نصیحت نہیں فرمائی ہے۔کہ یہی خدا کی مضبوط رسی اور اس کا امانت دار وسیلہ ہے اس میں دلوں کی بہار کا سامان اور علم کے سر چشمے ہیں اور دل کی جلاء اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اب اگرچہ نصیحت حاصل کرنے والے جا چکے ہیں اور صرف بھول جانے والے یا بھلا دینے والے باقی رہ گئے ہیں لیکن پھر بھی تم کوئی خیر دیکھو تو اس پر لوگوں کی مدد کرو اور کوئی شر دیکھو تو اس سے دور ہو جائو کہ رسول اکرم (ص) برابر فرمایا کرتے تھے '' فرزند آدم خیر پرعمل کر اور شر کونظراندازکردے تاکہ بہترین نیک کردار اورمیانہ رو ہو جائے ۔

۳۲۴

أنواع الظلم

أَلَا وإِنَّ الظُّلْمَ ثَلَاثَةٌ - فَظُلْمٌ لَا يُغْفَرُ وظُلْمٌ لَا يُتْرَكُ - وظُلْمٌ مَغْفُورٌ لَا يُطْلَبُ - فَأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لَا يُغْفَرُ فَالشِّرْكُ بِاللَّه - قَالَ اللَّه تَعَالَى( إِنَّ الله لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِه ) - وأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي يُغْفَرُ - فَظُلْمُ الْعَبْدِ نَفْسَه عِنْدَ بَعْضِ الْهَنَاتِ - وأَمَّا الظُّلْمُ الَّذِي لَا يُتْرَكُ - فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضاً - الْقِصَاصُ هُنَاكَ شَدِيدٌ لَيْسَ هُوَ جَرْحاً بِاْلمُدَى - ولَا ضَرْباً بِالسِّيَاطِ ولَكِنَّه مَا يُسْتَصْغَرُ ذَلِكَ مَعَه - فَإِيَّاكُمْ والتَّلَوُّنَ فِي دِينِ اللَّه - فَإِنَّ جَمَاعَةً فِيمَا تَكْرَهُونَ مِنَ الْحَقِّ - خَيْرٌ مِنْ فُرْقَةٍ فِيمَا تُحِبُّونَ مِنَ الْبَاطِلِ - وإِنَّ اللَّه سُبْحَانَه لَمْ يُعْطِ أَحَداً بِفُرْقَةٍ خَيْراً مِمَّنْ مَضَى - ولَا مِمَّنْ بَقِيَ.

لزوم الطاعة

يَا أَيُّهَا النَّاسُ - طُوبَى لِمَنْ شَغَلَه عَيْبُه عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ - وطُوبَى لِمَنْ لَزِمَ بَيْتَه وأَكَلَ قُوتَه - واشْتَغَلَ بِطَاعَةِ رَبِّه وبَكَى عَلَى خَطِيئَتِه - فَكَانَ مِنْ نَفْسِه فِي شُغُلٍ والنَّاسُ مِنْه فِي رَاحَةٍ!

اقسام ظلم

یاد رکھو کہ ظلم کی تین قسمیں ہیں۔وہ ظلم جس کی بخشش نہیں ہے اور وہ ظلم جسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے۔اور وہ ظلم جس کی بخش ہوجاتی ہے اور اس کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے۔ وہ ظلم جس کی بخشش نہیں ہے وہ اللہ کا شریک قرار دینا ہے کہ پروردگار نے خود اعلان کردیا ہے کہ اس کا شریک قراردینے والے کی مغفرت نہیں ہو سکتی ہے اوروہ ظلم جو معاف کردیا جاتا ہے وہ انسان کا اپنے نفس پر ظلم ہے معمولی گناہوں کے ذریعہ۔اور وہ ظلم جسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے۔وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم ہے کہ یہاں قصاص بہت سخت ہے اور یہ صرف چھری کا زخم اور تازیانہ کی مار نہیں بلکہ ایسی سزا ہے جس کے سامنے یہ سب بہت معمولی ہیں لہٰذا خبردار دی خدا میں رنگ بدلنے کی روشن اختیار مت کرو کہ جس حق کو تم نا پسند کرتے ہو اس پرمتحد رہنا اس باطل پر چل کرمنتشر ہو جانے سے بہر حال بہتر ہے جسے تم پسند کرتے ہو۔پروردگار نے افتراق و انتشار میں کسی کو کوئی خیرنہیں دیا ہے نہ ان لوگوں میں جو چلے گئے اور نہ ان میں جوباقی رہ گئے ہیں۔

لوگو!خوش نصیب ہے وہ جسے اپنا عیب دوسروں کے عیب پر نظر کرنے سے مشغول کرلے اور قابل مبارکباد ہے وہ شخص جو اپنے گھرمیں بیٹھ رہے ۔اپنا رزق کھائے اور اپنے پروردگار کی اطاعت کرتا رہے اوراپنے گناہوں پر گریہ کرتا رہے۔وہ اپنے نفس میں مشغول رہے اور لوگ اس کی طرف سے مطمئن رہیں۔

۳۲۵

(۱۷۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في معنى الحكمين

فَأَجْمَعَ رَأْيُ مَلَئِكُمْ عَلَى أَنِ اخْتَارُوا رَجُلَيْنِ - فَأَخَذْنَا عَلَيْهِمَا أَنْ يُجَعْجِعَا عِنْدَ الْقُرْآنِ ولَا يُجَاوِزَاه - وتَكُونُ أَلْسِنَتُهُمَا مَعَه وقُلُوبُهُمَا تَبَعَه فَتَاهَا عَنْه - وتَرَكَا الْحَقَّ وهُمَا يُبْصِرَانِه - وكَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا والِاعْوِجَاجُ رَأْيَهُمَا - وقَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَاؤُنَا عَلَيْهِمَا فِي الْحُكْمِ بِالْعَدْلِ - والْعَمَلِ بِالْحَقِّ سُوءَ رَأْيِهِمَا وجَوْرَ حُكْمِهِمَا - والثِّقَةُ فِي أَيْدِينَا لأَنْفُسِنَا حِينَ خَالَفَا سَبِيلَ الْحَقِّ - وأَتَيَا بِمَا لَا يُعْرَفُ مِنْ مَعْكُوسِ الْحُكْمِ

(۱۷۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(صفین کے بعد حکمین کے بارے میں )

تمہاری جماعت(۱) ہی نے دوآدمیوں کے انتخاب پر اتفاق کرلیا تھا۔میں نے تو ان دونوں سے شرط کرلی تھی کہ قرآن کی حدوں پر واقف کریں گے اور اس سے تجاوز نہیں کریں گے۔ان کی زبان اس کے ساتھ رہے گی اوروہ اسی کا اتباع کریں گے لیکن وہ دونوں بھٹک گئے اور حق کو دیکھ بھال کر نظر انداز کردیا۔ظلم ان کی آرزو تھا اور کج فہمی ان کی رائے جب کہ اس بد ترین رائے اوراس ظالمانہ فیصلہ سے پہلے ہی میں نے یہ شرط کردی تھی کہ عدالت کے ساتھ فیصلہ کریں گے اور حق کے مطابق عمل کریں گے لہٰذا اب میرے پاس اپنے حق میں حجت و دلیل موجود ہے کہ ان لوگوں نے راہ حق سے اختلاف کیا ہے اور طے شدہ قرار داد کے خلاف الٹا حکم کیا ہے۔

(۱) جب معاویہ نے صفین میں اپنے لشکر کو ہارتے ہوئے دیکھا تو نیزوں پر قرآن بلند کردیا کہ ہم قرآن سے فیصلہ چاہتے ہیں۔امیر المومنین نے فرمایا کہ یہ صرف مکاری اور غداری ہے ورنہ میں تو خود ہی قرآن ناطق ہو ں ۔مجھ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے لیکن شام کے نمک خوار اور ضمیر فروش سپاہیوں نے ہنگامہ کردیا اور حضرت کومجبور کردیا کہ دو افراد کو حکم بنا کر ان سے فیصلہ کرائیں ۔آپ نے اپنی طرف سے ابن عباس کو پیش کیا لیکن ظالموں نے اسے بھی نہ مانا۔بالآخر آپ نے فرمایا کہ کوئی بھی فیصلہ کرے لیکن قرآن کے حدود سے آگے نہ بڑھے کہ میں نے قرآن ہی کے نام پرجنگ کو موقوف کیا ہے مگر افسوس کہ یہ کچھ نہ ہو سکا اور عمرو عاص کی عیارینے آپ کے خلاف فیصلہ کرادیا اوراس طرح اسلام ایک عظیم فتنہ سے دوچار ہوگیا لیکن آپ کا عذر واضح رہا کہ میں نے فیصلہ میں قرآن کی شرط کی تھی اور یہ فیصلہ قرآن سے نہیں ہوا ہے لہٰذا مجھ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

۳۲۶

(۱۷۸)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في الشهادة والتقوى. وقيل: إنه خطبها بعد مقتل عثمان في أول خلافته

اللَّه ورسوله

لَا يَشْغَلُه شَأْنٌ ولَا يُغَيِّرُه زَمَانٌ - ولَا يَحْوِيه مَكَانٌ ولَا يَصِفُه لِسَانٌ - لَا يَعْزُبُ عَنْه عَدَدُ قَطْرِ الْمَاءِ ولَا نُجُومِ السَّمَاءِ - ولَا سَوَافِي الرِّيحِ فِي الْهَوَاءِ - ولَا دَبِيبُ النَّمْلِ عَلَى الصَّفَا - ولَا مَقِيلُ الذَّرِّ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ - يَعْلَمُ مَسَاقِطَ الأَوْرَاقِ وخَفِيَّ طَرْفِ الأَحْدَاقِ - وأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه غَيْرَ مَعْدُولٍ بِه - ولَا مَشْكُوكٍ فِيه ولَا مَكْفُورٍ دِينُه - ولَا مَجْحُودٍ تَكْوِينُه شَهَادَةَ مَنْ صَدَقَتْ نِيَّتُه - وصَفَتْ دِخْلَتُه وخَلَصَ يَقِينُه وثَقُلَتْ مَوَازِينُه - وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه الَمْجُتْبَىَ مِنْ خَلَائِقِه - والْمُعْتَامُ لِشَرْحِ حَقَائِقِه والْمُخْتَصُّ بِعَقَائِلِ كَرَامَاتِه - والْمُصْطَفَى لِكَرَائِمِ رِسَالَاتِه - والْمُوَضَّحَةُ بِه أَشْرَاطُ الْهُدَى والْمَجْلُوُّ بِه غِرْبِيبُ الْعَمَى.

(۱۷۸)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(شہادت ایمان اور تقویٰ کے بارے میں )

نہ اس پر کوئی حالت طاری ہو سکتی ہے اور نہ اسے کوئی زمانہ بدل سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی مکان حاوی ہو سکتا ہے اور نہ اس کی توصیف ہو سکتی ہے۔اس کے علم سے نہ بارش کے قطرے مخفی ہیں اور نہآسمان کے ستارے۔نہ فضائوں میں ہواکے جھکڑ مخفی ہیں اور نہ پتھروں پرچیونٹی کے چلنے کی آواز اور نہ اندھیری رات میں اس کی پناہ گاہ۔وہ پتوں کے گرنے کی جگہ بھی جانتا ہے اورآنکھ کے دز دیدہ اشارے بھی۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے۔نہ اس کا کوئی ہمسرو عدیل ہے اور نہ اس میں کسی طرح کا شک ے نہ اس کے دین کا انکار ہو سکتا ہے اور نہ اس کی تخلیق سے انکار کیا جا سکتا ہے۔یہ شہادت اس شخص کی ہے جس کی نیت سچی ہے اور باطن صاف ہے اس کا یقین خالص ہے اور میزان عمل گرانبار۔

اور پھر میں شہادت دیتا ہوں کہ حضرت محمد (ص) اس کے بندہ اور تمام مخلوقات میں منتخب رسول ہیں۔انہیں حقائق کی تشریح کے لئے چنا گیا ہے اور بہترین شرافتوں سے مخصوص کیا گیا ہے۔عظیم ترین پیغامات کے لئے ان کا انتخاب ہوا ہے اور ان کے ذریعہ ہدایت کی علامات کی وضاحت کی گئی ہے اور گمراہی کی تاریکیوں کو دور کیا گیا ہے۔

۳۲۷

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الدُّنْيَا تَغُرُّ الْمُؤَمِّلَ لَهَا والْمُخْلِدَ إِلَيْهَا - ولَا تَنْفَسُ بِمَنْ نَافَسَ فِيهَا وتَغْلِبُ مَنْ غَلَبَ عَلَيْهَا - وايْمُ اللَّه مَا كَانَ قَوْمٌ قَطُّ فِي غَضِّ نِعْمَةٍ مِنْ عَيْشٍ - فَزَالَ عَنْهُمْ إِلَّا بِذُنُوبٍ اجْتَرَحُوهَا لـ( أَنَّ الله لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ) - ولَوْ أَنَّ النَّاسَ حِينَ تَنْزِلُ بِهِمُ النِّقَمُ وتَزُولُ عَنْهُمُ النِّعَمُ فَزِعُوا إِلَى رَبِّهِمْ بِصِدْقٍ مِنْ نِيَّاتِهِمْ ووَلَه مِنْ قُلُوبِهِمْ - لَرَدَّ عَلَيْهِمْ كُلَّ شَارِدٍ وأَصْلَحَ لَهُمْ كُلَّ فَاسِدٍ - وإِنِّي لأَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تَكُونُوا فِي فَتْرَةٍ - وقَدْ كَانَتْ أُمُورٌ مَضَتْ مِلْتُمْ فِيهَا مَيْلَةً - كُنْتُمْ فِيهَا عِنْدِي غَيْرَ مَحْمُودِينَ - ولَئِنْ رُدَّ عَلَيْكُمْ أَمْرُكُمْ إِنَّكُمْ لَسُعَدَاءُ - ومَا عَلَيَّ إِلَّا الْجُهْدُ - ولَوْ أَشَاءُ أَنْ أَقُولَ لَقُلْتُ( عَفَا الله عَمَّا سَلَفَ ) !

لوگو! یاد رکھو یہ دنیا اپنے سے لو گانے والے اور اپنی طرف کھینچ جانے والے کو ہمیشہ دھوکہ دیا کرتی ہے۔جو اس کا خواہش مند ہوتا ہے اس سے بخل نہیں کرتی ہے اورجواس پر غالب آجاتا ہے اس پرقابو پالیتی ہے ۔خدا کی قسم کوئی بھی قوم جو نعمتوں کی ترو تازہ اورشاداب زندگی میں تھی اور پھر اس کی وہ زندگی زائل ہوگئی ہے تو اس کا کوئی سبب سوائے ان گناہوں کے نہیں ہے جن کا ارتکاب(۱) اس قوم نے کیا ہے۔اس لئے کہ پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے۔پھر بھی جن لوگوں پر عتاب نازل ہوتاہے اورنعمتیں زائل ہو جاتی ہیں اگرصدق نیت اورت وجہ قلب کے ساتھ پروردگار کی بارگاہ میں فریاد کریں تو وہ گئی ہوئی نعمتوں کو واپس کردے گا اور بگڑے کاموں کو بنادے گا۔میں تمہارے بارے میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ کہیں تم جہالت اورنادانی میں نہ پڑ جائو ۔کتنے ہی معاملات ایسے گزر چکے ہیں جن میں تمہارا جھکائو اس رخ کی طرف تھا جس میں تم قطعاً قابل تعریف نہیں تھے۔اب اگر تمہیں پہلے کی روشن کی طرف پلٹا دیا جائے تو پھرنیک بخت ہو سکتے ہو لیکن میری ذمہ داری صرف محنت کرنا ہے اور اگر میں کہنا چاہوں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ پرردگار گزشتہ معاملات سے درگزر فرمائے۔

(۱)بعض حضرات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر ارفاد کا زوال صرف گناہوں کی بنیاد پرہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ دنیا میں بے شمار بد ترین قسم کے گناہ گار پائے جاتے ہیں لیکن ان کی زندگی میں راحت و آرام' تقدم اورترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں کا راحت و آرام یا رنج و الم میں کوئی دخل نہیں ہے اور ان مسائل کے اسباب کسی اورشے میں پائے جاتے ہیں۔لیکن اس کا واضح سا جواب یہ ہے کہ امیر المومنین نے افراد کاذکر نہیں کیا ہے ۔قوم کاذکر کیا ہے اور قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کا زوال ہمیشہ انفرادی یا اجتماعی گناہوں کی بنا پر ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس قوم نے شکر خدا نہیں ادا کیا وہ صفحہ ہستی سے نابود ہوگئی اور جس قوم نے نعمت کی فراوانی کے باوجود شکر خدا سے انحراف نہیں کیا اس کا ذکرآج تک زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔

۳۲۸

(۱۷۹)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد سأله ذعلب اليماني فقال - هل رأيت ربك يا أمير المؤمنين

فقالعليه‌السلام - أفأعبد ما لا أرى فقال وكيف تراه فقال

لَا تُدْرِكُه الْعُيُونُ بِمُشَاهَدَةِ الْعِيَانِ - ولَكِنْ تُدْرِكُه الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الإِيمَانِ - قَرِيبٌ مِنَ الأَشْيَاءِ غَيْرَ مُلَابِسٍ بَعِيدٌ مِنْهَا غَيْرَ مُبَايِنٍ - مُتَكَلِّمٌ لَا بِرَوِيَّةٍ مُرِيدٌ لَا بِهِمَّةٍ صَانِعٌ لَا بِجَارِحَةٍ - لَطِيفٌ لَا يُوصَفُ بِالْخَفَاءِ كَبِيرٌ لَا يُوصَفُ بِالْجَفَاءِ - بَصِيرٌ لَا يُوصَفُ بِالْحَاسَّةِ رَحِيمٌ لَا يُوصَفُ بِالرِّقَّةِ - تَعْنُو الْوُجُوه لِعَظَمَتِه وتَجِبُ الْقُلُوبُ مِنْ مَخَافَتِه

(۱۸۰)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في ذم العاصين من أصحابه

أَحْمَدُ اللَّه عَلَى مَا قَضَى مِنْ أَمْرٍ وقَدَّرَ مِنْ فِعْلٍ - وعَلَى ابْتِلَائِي بِكُمْ

(۱۷۹)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب دغلب یمانی نے دریافت کیا کہ یا امیر المومنین کیا آپ نے اپنے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا کیا میں ایسے خدا کی عبادت کر سکتا ہوں جسے دیکھا بھی نہ ہو۔عرض کی مولا ! اسے کس طرح دیکھا جا سکتا ہے ؟فرمایا)

ا س ے نگاہیں آنکھوں کے مشاہدہ سے نہیں دیکھ سکتی ہیں۔اس کا ادراک دلوں کو حقائق ایمان کے سہارے حاصل ہوتا ہے ۔وہ اشیاء سے قریب ہے لیکن جسمانی اتصال کی بناپ ر نہیں اور دوربھی ہے لیکن علیحدگی کی بنیاد پر نہیں۔وہ کلام کرتا ہے لیکن فکر کا متحاج نہیں اور وہ اراد ہ کرتا ہے لیکن سوچنے کی ضرورت نہیں رکھتا ۔ وہ بلا اعضاء و جوارح کے صانع ہے اور بلا پوشیدہ ہوئے لطیف ہے۔ایسا بڑا ہے جو چھوٹوں پرظلم نہیں کرتا ہے اور ایسا بصیر ہے جس کے پاس حواس نہیں ہیں اور اس کی رحمت میں دل کی نرمی شامل نہیں ہے۔تمام چہرے اس کی عظمت کے سامنے ذلیل و خوار ہیں اور تمام قلوب اس کے خوف سے لرز رہے ہیں۔

(۱۸۰)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

میں خدا کا شکرکرتا ہوں ان امور پر جو گزر گئے اوران افعال پر جو اس نے مقدر کردئیے اوراپنے تمہارے ساتھ مبتلا

۳۲۹

أَيَّتُهَا الْفِرْقَةُ الَّتِي إِذَا أَمَرْتُ لَمْ تُطِعْ - وإِذَا دَعَوْتُ لَمْ تُجِبْ - إِنْ أُمْهِلْتُمْ خُضْتُمْ وإِنْ حُورِبْتُمْ خُرْتُمْ - وإِنِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَى إِمَامٍ طَعَنْتُمْ - وإِنْ أُجِئْتُمْ إِلَى مُشَاقَّةٍ نَكَصْتُمْ -. لَا أَبَا لِغَيْرِكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ - والْجِهَادِ عَلَى حَقِّكُمْ - الْمَوْتَ أَوِ الذُّلَّ لَكُمْ - فَوَاللَّه لَئِنْ جَاءَ يَومِي ولَيَأْتِيَنِّي لَيُفَرِّقَنَّ بَيْنِي وبَيْنِكُمْ - وأَنَا لِصُحْبَتِكُمْ قَالٍ وبِكُمْ غَيْرُ كَثِيرٍ - لِلَّه أَنْتُمْ أَمَا دِينٌ يَجْمَعُكُمْ ولَا حَمِيَّةٌ تَشْحَذُكُمْ - أَولَيْسَ عَجَباً أَنَّ مُعَاوِيَةَ يَدْعُو الْجُفَاةَ الطَّغَامَ - فَيَتَّبِعُونَه عَلَى غَيْرِ مَعُونَةٍ ولَا عَطَاءٍ

ہونے پر بھی اے وہ گروہ جسے میں حکم دیتا ہوں تو اطاعت نہیں کرتا ہے اورآواز دیتا ہوں تو لبیک نہیں کہتا ہے۔تمہیں مہلت دے دی جاتی ہے تو خوب باتیں بناتے ہو اور جنگ میں شامل کردیا جاتا ہے تو بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہو۔لوگ کسی امام پر اجتماع کرتے ہیں تو اعتراضات کرتے ہو اور گھیر کر مقابلہ کی طرف لائے جاتے ہو تو فرار اختیار کرلیتے ہو۔

تمہارے دشمنوں کا برا ہو آخر تم میری نصرت اور اپنے حق کے لئے جہاد میں کس چیزکا انتظار کر رہے ہو؟ موت کا یا ذلت کا ؟ خدا کی قسم اگر میرادن آگیا جو بہر حا ل آنے والا ہے تو میرے تمہارے درمیان اس حال میں جدائی ہوگی کہ میں تمہاری صحبت سے دل برداشتہ ہوں گا اور تمہاری موجودگی سے کسی کثرت کا احساس نہ کروں گا۔

خدا تمہارا بھلا کرے ! کیا تمہارے پاس کوئی دین نہیں(۱) ہے۔جو تمہیں متحد کرسکے اورنہ کوئی غیرت جو تمہیں آمادہ کر سکے ؟ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ معاویہ اپنے ظالم اور بدکار ساتھیوں کو آواز دیتاہے تو کسی امداد اور عطا کے بغیر بھی اس کی اطاعت کر لیتے ہیں

(۱) انسان کے پاس دو ہی سرمایہ ہیں جو اسے شرافت کی دعوت دیتے ہیں۔دیندار کے پاس دین اورآزاد منش کے پاس غیرت مگر افسوس کہ امیرالمومنین کے اطراف جمع ہو جانے والے افراد کے پاس نہ دین تھا اور نہ قومی شرافت کا احساس۔اور ظاہر ہے کہ ایسی قوم سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ وہ کسی وفاداری کا اظہار کر سکتی ہے۔کس قدرافسوس ناک یہ بات ہے کہ عام اسلام میں معاویہ اور عمرو عاص کی بات سنی جائے اورنفس رسول (ص) کی بات کو ٹھکرا دیا جائے بلکہ اس سے جنگ کی جائے ۔کیا اس کے بعد بھی کسی غیرت دار انسان کو زندگی کی آرزو ہو سکتی ہے اور وہ اس زندگی سے دل لگا سکتا ہے۔امیرالمومنین کے اس فقرہ میں کہ '' قزت و رب الکعبة '' بے پناہ درد پایا جاتا ہے۔جس میں ایک طرف اپنی شہادت اور قربانی کے ذریعہ کا میابی کا اعلان ہے اوردوسری طرف اس بے غیرت قوم سے جدائی کی مسرت کااظہار بھی پایا جاتا ہے کہ انسان ایسی قوم سے نجات حاصل کرلے اور اس انداز سے حاصل کرلے کہ اس پر کوئی الزام نہ ہو بلکہ وہ معرکہ حیات میں کامیاب رہے۔

۳۳۰

وأَنَا أَدْعُوكُمْ وأَنْتُمْ تَرِيكَةُ الإِسْلَامِ - وبَقِيَّةُ النَّاسِ إِلَى الْمَعُونَةِ أَوْ طَائِفَةٍ مِنَ الْعَطَاءِ - فَتَفَرَّقُونَ عَنِّي وتَخْتَلِفُونَ عَلَيَّ - إِنَّه لَا يَخْرُجُ إِلَيْكُمْ مِنْ أَمْرِي رِضًى فَتَرْضَوْنَه - ولَا سُخْطٌ فَتَجْتَمِعُونَ عَلَيْه - وإِنَّ أَحَبَّ مَا أَنَا لَاقٍ إِلَيَّ الْمَوْتُ - قَدْ دَارَسْتُكُمُ الْكِتَابَ وفَاتَحْتُكُمُ الْحِجَاجَ - وعَرَّفْتُكُمْ مَا أَنْكَرْتُمْ وسَوَّغْتُكُمْ مَا مَجَجْتُمْ - لَوْ كَانَ الأَعْمَى يَلْحَظُ أَوِ النَّائِمُ يَسْتَيْقِظُ - وأَقْرِبْ بِقَوْمٍ مِنَ الْجَهْلِ بِاللَّه قَائِدُهُمْ مُعَاوِيَةُ - ومُؤَدِّبُهُمُ ابْنُ النَّابِغَةِ !

(۱۸۱)

ومِنْ كَلَامٍ لَهعليه‌السلام

وقَدْ أَرْسَلَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِه - يَعْلَمُ لَه عِلْمَ أَحْوَالِ قَوْمٍ مِنْ جُنْدِ الْكُوفَةِ - قَدْ هَمُّوا بِاللِّحَاقِ بِالْخَوَارِجِ - وكَانُوا عَلَى خَوْفٍ مِنْهعليه‌السلام فَلَمَّا عَادَ إِلَيْه الرَّجُلُ - قَالَ لَه أَأَمِنُوا فَقَطَنُوا أَمْ جَبَنُوا فَظَعَنُوا - فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ ظَعَنُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام

اورمیں تم کو دعوت دیتا ہوں اورتم سے عطیہ کاوعدہ بھی کرتا ہوں تو تم مجھ سے الگ ہو جاتے ہو اورمیری مخالفت کرتے ہو۔حالانکہ اب تمہیں اسلام کا ترکہ اور اس کے باقی ماندہ افراد ہو۔افسوس کہ تمہاری طرف نہ میری رضا مندی کی کوئی بات ایسی آتی ہے جس سے تم راضی ہو جائو اور نہ میری ناراضگی کا کوئی مسئلہ ایسا آتا ہے جس سے تم بھی ناراض ہو جائو۔اب تو میرے لئے محبوب ترین شے جس سے میں ملنا چاہتا ہوں صرف موت ہی ہے میں نے تمہیں کتاب خدا کی تعلیم دی ۔تمہارے سامنے کھلے ہوئے دلائل پیش کئے ۔جسے تم نہیں پہچانتے تھے اسے پہچنوایا اورجسے تم تھوک دیاکرتے تھے اسے خوشگوار بنایا۔مگر یہ سب اس وقت کارآمد ہے جب اندھے کو کچھ دکھائی دے اورسوتا ہوا بیدار ہو جائے۔وہ قوم جہالت سے کس قدر قریب ہے۔جس کا قائد معاویہ ہو اور اس کا ادب سکھانے والا نابغہ کا بیٹا ہو۔

(۱۸۱)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب آپ نے ایک شخص کو اس کی تحقیق کے لئے بھیجا۔جوخوارج سے ملنا چاہتی تھی اور حضرت سے خوف زدہ تھی اور وہ شخص پلٹ کر آیاتو آپ نے سوال کیا کہ کیا وہ لوگ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے ہیں یا بزدلی کا مظاہرہ کرکے نکل پڑے ہیں۔اس نے کہا کہ وہ کوچ کر چکے ہیں۔تو آپ نے فرمایا)

۳۳۱

بُعْداً لَهُمْ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ - أَمَا لَوْ أُشْرِعَتِ الأَسِنَّةُ إِلَيْهِمْ - وصُبَّتِ السُّيُوفُ عَلَى هَامَاتِهِمْ - لَقَدْ نَدِمُوا عَلَى مَا كَانَ مِنْهُمْ - إِنَّ الشَّيْطَانَ الْيَوْمَ قَدِ اسْتَفَلَّهُمْ - وهُوَ غَداً مُتَبَرِّئٌ مِنْهُمْ ومُتَخَلٍّ عَنْهُمْ - فَحَسْبُهُمْ بِخُرُوجِهِمْ مِنَ الْهُدَى وارْتِكَاسِهِمْ فِي الضَّلَالِ والْعَمَى - وصَدِّهِمْ عَنِ الْحَقِّ وجِمَاحِهِمْ فِي التِّيه

(۱۸۲)

ومِنْ خُطْبَةٍ لَهعليه‌السلام :

رُوِيَ عَنْ نَوْفٍ الْبَكَالِيِّ - قَالَ خَطَبَنَا بِهَذِه الْخُطْبَةِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّعليه‌السلام بِالْكُوفَةِ - وهُوَ قَائِمٌ عَلَى حِجَارَةٍ - نَصَبَهَا لَه جَعْدَةُ بْنُ هُبَيْرَةَ الْمَخْزُومِيُّ - وعَلَيْه مِدْرَعَةٌ مِنْ صُوفٍ وحَمَائِلُ سَيْفِه لِيفٌ - وفِي رِجْلَيْه نَعْلَانِ مِنْ لِيفٍ - وكَأَنَّ جَبِينَه ثَفِنَةُ بَعِيرٍ فَقَالَعليه‌السلام

خدا انہیں(۱) قوم ثمودکی طرح غارت کردے۔یاد رکھو نیزوں کی انیاں ان کی طرف سیدھی کردی جائیں گی اورتلواریں ان کے سروں پر برسنے لگیں گی تو انہیں اپنے کئے پر شرمندگی کا احساس ہوگا۔آج شیطان نے انہیں منتشر کردیا ہے اور کل وہی ان سے الگ ہو کر پرائت و بیزاری کا اعلان کرے گا۔اب ان کے لئے ہدایت سے نکل جانا۔ضلالت اور گمراہی میں گر پڑنا۔ راہ حق سے روک دینا اور گمراہی میں منہ زوری کرنا ہی ان کے تباہ ہونے کے لئے کافی ہے۔

(۱۸۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

نوف بکالی سے روایت کی گئی ہے کہ امیر المومنین نے ایک دن کوفہ میں ایک پتھر پرکھڑے ہو کرخطبہ ارشاد فرمایا جسے جعدہ بن ہبیرہ مخزومی نے نصب کیا تھا اور اس وقت آپ اون کا ایک جبہ پہنے ہوئے تھے اور آپ کی تلوار کا پرتلہ بھی لیف خرما کا تھا اور پیروں میں لیف خرما ہی کی جوتیاں تھیں آپ کی پیشانی اقدس پر سجدوں کے گھٹے نمایاں تھے ۔فرمایا !

(۱) بنی ناجیہ کا ایک شخص جس کا نام خریت بن راشد تھا۔امیر المومنین کے ساتھ صفین میں شریک رہا اور اس کے بعد گمراہ ہوگیا۔حضرت سے کہنے لگا کہ میں نہ آپ کی اطاعت کروں گا اور نہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔ آپ نے سبب دریافت کیا ؟ اس نے کہا کل بتائوں گا۔اور پھرآنے کے بجائے تیس افراد کو لے کر صحرائوں میں نکل گیا اورل وٹ مار کاکام شروع کردیا۔ایک امیرالمومنین کے چاہنے والے مسافر کو صرف حب علی کی بنیاد پر کافر قراردے کر قتل کردیا اور ایک یہودی کو آزاد چھوڑ دیا۔حضرت نے اس کی روک تھام کے لئے زیاد بن ابی حفصہ کو ۱۳۰ افراد کے ساتھ بھیجا۔زیاد نے چند افراد کو تہ تیغ کردیا اور خریت فرار کرگیا اور کردوں کو بغاوت پرآمادہ کرنے لگا آپ نے معقل بن قیس ریاحی کو دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا۔انہوں نے زمین فارس تک اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ طرفین میں شدید جنگ ہوئی اورخریت نعمان بن صہیان کو اسیکے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس فتنہ کاخاتمہ ہوگیا۔

۳۳۲

حمد اللَّه واستعانته

الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِي إِلَيْه مَصَائِرُ الْخَلْقِ - وعَوَاقِبُ الأَمْرِ نَحْمَدُه عَلَى عَظِيمِ إِحْسَانِه - ونَيِّرِ بُرْهَانِه ونَوَامِي فَضْلِه وامْتِنَانِه - حَمْداً يَكُونُ لِحَقِّه قَضَاءً ولِشُكْرِه أَدَاءً - وإِلَى ثَوَابِه مُقَرِّباً ولِحُسْنِ مَزِيدِه مُوجِباً - ونَسْتَعِينُ بِه اسْتِعَانَةَ رَاجٍ لِفَضْلِه مُؤَمِّلٍ لِنَفْعِه وَاثِقٍ بِدَفْعِه - مُعْتَرِفٍ لَه بِالطَّوْلِ مُذْعِنٍ لَه بِالْعَمَلِ والْقَوْلِ - ونُؤْمِنُ بِه إِيمَانَ مَنْ رَجَاه مُوقِناً - وأَنَابَ إِلَيْه مُؤْمِناً وخَنَعَ لَه مُذْعِناً - وأَخْلَصَ لَه مُوَحِّداً وعَظَّمَه مُمَجِّداً ولَاذَ بِه رَاغِباً مُجْتَهِداً.

اللَّه الواحد

( لَمْ يُولَد ْ) سُبْحَانَه فَيَكُونَ فِي الْعِزِّ مُشَارَكاً - و( لَمْ يَلِدْ ) فَيَكُونَ مَوْرُوثاً هَالِكاً - ولَمْ يَتَقَدَّمْه وَقْتٌ ولَا زَمَانٌ - ولَمْ يَتَعَاوَرْه زِيَادَةٌ ولَا نُقْصَانٌ - بَلْ ظَهَرَ لِلْعُقُولِ بِمَا أَرَانَا مِنْ عَلَامَاتِ التَّدْبِيرِ الْمُتْقَنِ - والْقَضَاءِ الْمُبْرَمِ  

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت اورجملہ امور کی انتہاء ہے۔میں اس کی حمد کرتا ہوں اس کے عظیم احسان' واضح دلائل اور بڑھتے ہوئے فض و کرم پر۔وہ حمد جو اس کے حق کو پورا کر سکے اور اس کے شکر کوادا کرسکے۔اس کے عظیم احسان ' واضح دلائل اور بڑھتے ہوئے فضل و کرم پر۔وہ حمد جواس کے حق کو پورا کرا سکے اوراس کے شکر کوادا کرسکے۔اس کے ثواب سے قریب بنا سکے اورنعمتوں میں اضافہ کا سبب بن سکے۔میں اس سے مدد چاہتا ہوں اور اس بندہ کی طرح جو اس کے فضل کا امید وار ہو۔اس کے منافع کا طلب گار ہو۔اس کے دفع بلاء کا یقین رکھنے والا ہو اس کے کرم کا اعتراف کرنے والا ہو اور قول وعمل میں اس پر مکمل اعتماد کرنے والا ہو۔

میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اس بندہ کی طرح جو یقین کے ساتھ اس کا امید وار ہو اور ایمان کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو۔اذعان کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہو اور توحید کے ساتھ اس سے اخلاص رکھتا ہو۔تمجید کے ساتھ اس کی عظمت کا اقرار کرتا ہو اور رغبت و کوشش کے ساتھ اس کی پناہ میں آیا ہو۔

وہ پیدا نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی اس کی عزت میں شریک بن جائے اور اس نے کسی بیٹے کوپیدا نہیں کیا ہے کہ خود ہلاک ہو جائے اور بیٹا وارث ہو جائے۔نہ اس سے پہلے کوئی زمان و مکان تھا اور نہ اس پر کوئی کمی یا زیادتی طاری ہوتی ہے۔اس نے اپنی محکم تدبیر اور اپنے حتمی فیصلہ

۳۳۳

فَمِنْ شَوَاهِدِ خَلْقِه خَلْقُ السَّمَاوَاتِ مُوَطَّدَاتٍ بِلَا عَمَدٍ - قَائِمَاتٍ بِلَا سَنَدٍ دَعَاهُنَّ فَأَجَبْنَ طَائِعَاتٍ مُذْعِنَاتٍ - غَيْرَ مُتَلَكِّئَاتٍ ولَا مُبْطِئَاتٍ - ولَوْ لَا إِقْرَارُهُنَّ لَه بِالرُّبُوبِيَّةِ - وإِذْعَانُهُنَّ بِالطَّوَاعِيَةِ - لَمَا جَعَلَهُنَّ مَوْضِعاً لِعَرْشِه ولَا مَسْكَناً لِمَلَائِكَتِه - ولَا مَصْعَداً لِلْكَلِمِ الطَّيِّبِ والْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ خَلْقِه جَعَلَ نُجُومَهَا أَعْلَاماً يَسْتَدِلُّ بِهَا الْحَيْرَانُ - فِي مُخْتَلِفِ فِجَاجِ الأَقْطَارِ - لَمْ يَمْنَعْ ضَوْءَ نُورِهَا ادْلِهْمَامُ سُجُفِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ - ولَا اسْتَطَاعَتْ جَلَابِيبُ سَوَادِ الْحَنَادِسِ - أَنْ تَرُدَّ مَا شَاعَ فِي السَّمَاوَاتِ مِنْ تَلأْلُؤِ نُورِ الْقَمَرِ - فَسُبْحَانَ مَنْ لَا يَخْفَى عَلَيْه سَوَادُ غَسَقٍ دَاجٍ - ولَا لَيْلٍ سَاجٍ فِي بِقَاعِ الأَرَضِينَ الْمُتَطَأْطِئَاتِ - ولَا فِي يَفَاعِ السُّفْعِ الْمُتَجَاوِرَاتِ - ومَا يَتَجَلْجَلُ بِه الرَّعْدُ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ -

کی بنا پر اپنے کو عقلوں کے سامنے بالکل واضح اورنمایاں کردیا ہے۔اس کی خلقت کے شواہد میں ان آسمانوں کی تخلیق بھی ہے جنہیں بغیر ستون کے روک رکھا ہے اور بغیر کسی سہارے کے قائم کردیا ہے۔اس نے انہیں پکارا تو سب لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوگئے۔اطاعت و ادغان کے ساتھ۔نہ کسی طرح کی تساہلی اور نہ کاہلی۔اور ظاہر ہے کہ اگر ان آسمانوں نے اس طرح اس کی ربوبیت کا اقرارنہ کیا ہوتا اور اس کے سامنے سرتسلیم خم نہ کردیا ہوتا تو وہ کبھی انہیں اپنے عرش کی منزل(۱) ملائکہ کا مسکن۔کلمہ طیب اور عمل صاحل کی بلندیوں کا مرکز نہ قرار دیتا۔اس نے ان کے ستاروں کومختلف راستوں میں حیران و سرگرداں مسافروں کے لئے نشان منزل بنادیاہے۔ان کے انوار کی تابش کو زمین تک پہنچنے سے نہ تاریک رات کی سیاہی روک سکی ہے اور نہ سواد شب کی چادر میں اتنا دم ہے کہ آسمانوں میں پھیلے ہوئے نور قمر کی روشنی کو روک سکے ۔

پاک و بے نیاز ہے وہ خدا جس پر نہ تاریک رات کی سیاہی مخفی ہے اور نہ ٹھہری ہوئی شب کی تاریکی۔نہ پست زمینوں کے قطعات میں اورنہ باہمی ملے ہوئے پہاڑوں کی چوٹیوں میں۔اس کے لئے نہ آسمان کی بلندی پر گرجتی ہوئی رعد پوشیدہ ہے اور نہ بادلوں کی چمکتی ہوئی

(۱) اس مقام پر حضرت نے غافل انسانوں کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ مالک کائنات کی بارگاہ میں کوئی مرتبہ اطاعت کے بغیر نہیں مل سکتا ہے۔اس نے آسمانوں کوب ھی اگر یہ بلندی عطا کی ہے کہ انہیں ملائکہ کی منزل اور عرش کا مستقر بنادیاہے تو یہ بھی ان کی اطاعت کا نتیجہ ہے۔لہٰذا انسان بھی اگرملکوتی صفات کاحامل بننا چاہتا ہے اور اپنے قلب کو عرش الٰہی کا مرتبہ دینا چاہتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ مالک کے سامنے سراپا اطاعت بن جائے اور زندگی کا ہر لمحہ اس کی بندگی میں صرف کردے جس طرح ان اولیاء کرام نے کیا ہے جنہیں مالک نے اپنے کمالات کا نمونہ اور صفات کا آئینہ بنا دیا ہے۔

۳۳۴

ومَا تَلَاشَتْ عَنْه بُرُوقُ الْغَمَامِ - ومَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ تُزِيلُهَا عَنْ مَسْقَطِهَا عَوَاصِفُ الأَنْوَاءِ - وانْهِطَالُ السَّمَاءِ - ويَعْلَمُ مَسْقَطَ الْقَطْرَةِ ومَقَرَّهَا ومَسْحَبَ الذَّرَّةِ ومَجَرَّهَا - ومَا يَكْفِي الْبَعُوضَةَ مِنْ قُوتِهَا ومَا تَحْمِلُ الأُنْثَى فِي بَطْنِهَا.

عود إلى الحمد

والْحَمْدُ لِلَّه الْكَائِنِ قَبْلَ أَنْ يَكُونَ كُرْسِيٌّ أَوْ عَرْشٌ - أَوْ سَمَاءٌ أَوْ أَرْضٌ أَوْ جَانٌّ أَوْ إِنْسٌ - لَا يُدْرَكُ بِوَهْمٍ ولَا يُقَدَّرُ بِفَهْمٍ - ولَا يَشْغَلُه سَائِلٌ ولَا يَنْقُصُه نَائِلٌ - ولَا يَنْظُرُ بِعَيْنٍ ولَا يُحَدُّ بِأَيْنٍ ولَا يُوصَفُ بِالأَزْوَاجِ - ولَا يُخْلَقُ بِعِلَاجٍ ولَا يُدْرَكُ بِالْحَوَاسِّ ولَا يُقَاسُ بِالنَّاسِ - الَّذِي كَلَّمَ مُوسَى تَكْلِيماً وأَرَاه مِنْ آيَاتِه عَظِيماً - بِلَا جَوَارِحَ ولَا أَدَوَاتٍ ولَا نُطْقٍ ولَا لَهَوَاتٍ - بَلْ إِنْ كُنْتَ صَادِقاً أَيُّهَا الْمُتَكَلِّفُ لِوَصْفِ رَبِّكَ - فَصِفْ جِبْرِيلَ ومِيكَائِيلَ وجُنُودَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ فِي حُجُرَاتِ الْقُدُسِ مُرْجَحِنِّينَ

بجلیاں اور نہ درختوں سے گرتے ہوئے پتے جنہیں بالدوں کے ساتھ چلتی ہوئی تیز ہوائیں یاموسلا دھار بارش کا زور گرادیتا ے۔وہ ہر قطرہ کے گرنے کی جگہ بھی جانتا ہے اور ٹھہرنے کی جگہ بھی۔ہر چیونٹی کے چلنے کی جگہ سے بھی با خبر ہے اور کھینچ کر پہنچنے کی منزل سے بھی۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایک مچھرکے لئے کتنی غذا کافی ہوتی ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ایک مادہ اپنے شکم میں کیا لئے ہوئے ہے۔ساری تعریف اس خدا کے لئے ہے جو اس وقت بھی تھا جب نہ کرسی تھی اور نہ عرش ۔نہ آسمان تھا اور نہ زمین ۔نہ جنات تھے ننہ انسان نہ وہم سے اس کا ادراک ہوتا ہے اور نہ فہم سے اس کا اندازہ ۔نہ کوئی سائل اسے مشغول کر سکتا ے اور نہ کسی عطا سے اس کے خزانہ میں کوئی کمی آسکتی ہے ۔وہ نہ آنکھو سے دیکھتا ہے اور نہ کسی مکان میں محدود ہوتا ہے۔نہ ساتھیوں کے ساتھ اس کی توصیف ہو سکتی ہے اور نہ اعضاء و جوارح کی حرکت سے کسی چیز کوخلق کرتا ہے جو اس اس کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں اور انسانوں پر اس کا قیاس نہیں کیا جا سکتاے۔اس نے موسیٰ کو کلیم بنایا تو انہیں عظیم نشانیاں بھی دکھلادیں حالانکہ نہ جوارح کو استعال کیا اورنہ آلات کو۔نہ کوئی نطق درمیان میں تھا اور نہ گلے کے کوے کی حرکت

اے توصیف پروردگار میں بلا سبب زحمت کرنے والو! اگرتمہارے خیال میں صداقت پائی جاتی ہے تو پہلے جبرائیل و میکائیل اوراس کے دوسرے مقرب ملائکہ کی توصیف بیان کرو جو پاکیزگی کے حجرات میں سر جھکا

۳۳۵

مُتَوَلِّهَةً عُقُولُهُمْ أَنْ يَحُدُّوا أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ - فَإِنَّمَا يُدْرَكُ بِالصِّفَاتِ ذَوُو الْهَيْئَاتِ والأَدَوَاتِ - ومَنْ يَنْقَضِي إِذَا بَلَغَ أَمَدَ حَدِّه بِالْفَنَاءِ - فَلَا إِلَه إِلَّا هُوَ أَضَاءَ بِنُورِه كُلَّ ظَلَامٍ - وأَظْلَمَ بِظُلْمَتِه كُلَّ نُورٍ.

الوصية بالتقوى

أُوصِيكُمْ عِبَادَ اللَّه بِتَقْوَى اللَّه - الَّذِي أَلْبَسَكُمُ الرِّيَاشَ وأَسْبَغَ عَلَيْكُمُ الْمَعَاشَ - فَلَوْ أَنَّ أَحَداً يَجِدُ إِلَى الْبَقَاءِ سُلَّماً أَوْ لِدَفْعِ الْمَوْتِ سَبِيلًا - لَكَانَ ذَلِكَ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَعليه‌السلام الَّذِي سُخِّرَ لَه مُلْكُ الْجِنِّ والإِنْسِ - مَعَ النُّبُوَّةِ وعَظِيمِ الزُّلْفَةِ - فَلَمَّا اسْتَوْفَى طُعْمَتَه واسْتَكْمَلَ مُدَّتَه - رَمَتْه قِسِيُّ الْفَنَاءِ بِنِبَالِ الْمَوْتِ - وأَصْبَحَتِ الدِّيَارُ مِنْه خَالِيَةً - والْمَسَاكِنُ مُعَطَّلَةً ووَرِثَهَا قَوْمٌ آخَرُونَ - وإِنَّ لَكُمْ فِي الْقُرُونِ السَّالِفَةِ لَعِبْرَةً!

أَيْنَ الْعَمَالِقَةُ وأَبْنَاءُ الْعَمَالِقَةِ - أَيْنَ الْفَرَاعِنَةُ وأَبْنَاءُ الْفَرَاعِنَةِ -

ئے ہوئے پڑے ہیں اور ان کی عقلیں حیران ہیں کہ احسن الخالقین کی توصیف کس طرح بیان کریں ۔

یاد رکھو صفات کے ذریعہ اس کا ادراک ہوتا ہے جس کی شکل و صورت ہوتی ہے اور جس کے اعضاء و جوارح ہوتے ہیں اور جو اپنی آخری حد پر پہنچ کر فنا ہو جاتا ہے۔پس اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے جس نے اپنے نور وجود سے ہر تاریکی کو منور بنادیا ہے اور پھر عدم کی ظلمت سے ہر نورانی شے کو تاریک بنادیا ہے۔

بندگان خدا! میں تمہیں اس خدا سے ڈرنے کی دعوت دیتا ہوں جس نے تمہیں بہترین لباس پہنائے ہیں اور تمہاری مکمل معیشت کا انتظام کیا ہے۔یاد رکھو اگر کوئی شخص ایسا ہوتا جسے بقا کی زینہ مل جاتا اور وہ موت کو ٹالنے کا راستہ تلاش کر لیتا تو وہ سلیمان بن دائود ہوتے جن کے لئے جن و انس دونوں کو مسخر کردیا گیا تھا اور پھر نبوت اور تقرب الٰہی کا شرف بھی حاصل تھا لیکن جب انہوں نے اپنے حصہ کی غذا استعمال کرلی اور اپنی مدت بقا کو پورا کرلیا تو فنا کی کمانوں نے موت کے تیر چلا دئیے اور سارے دیار ان سے خالی ہو گئے اور سارے قصر معطل ہو کر رہ گئے اور دوسری قومیں ان کی وارث ہوگئیں '' اور تمہارے لئے انہیں گذشتہ قوموں میں عبرت کا سامان فراہم کیا گیا ہے ''۔

کہاں ہیں ( شام و حجاز کے ) عمالقہ اور ان کی اولاد؟ کہاں ہیں ( مصر کے ) فراعنہ اور ان کی اولاد ؟ کہاں

۳۳۶

أَيْنَ أَصْحَابُ مَدَائِنِ الرَّسِّ الَّذِينَ قَتَلُوا النَّبِيِّينَ - وأَطْفَئُوا سُنَنَ الْمُرْسَلِينَ وأَحْيَوْا سُنَنَ الْجَبَّارِينَ - أَيْنَ الَّذِينَ سَارُوا بِالْجُيُوشِ وهَزَمُوا بِالأُلُوفِ - وعَسْكَرُوا الْعَسَاكِرَ ومَدَّنُوا الْمَدَائِنَ!

ومِنْهَا - قَدْ لَبِسَ لِلْحِكْمَةِ جُنَّتَهَا - وأَخَذَهَا بِجَمِيعِ أَدَبِهَا مِنَ الإِقْبَالِ عَلَيْهَا - والْمَعْرِفَةِ بِهَا والتَّفَرُّغِ لَهَا - فَهِيَ عِنْدَ نَفْسِه ضَالَّتُه الَّتِي يَطْلُبُهَا - وحَاجَتُه الَّتِي يَسْأَلُ عَنْهَا - فَهُوَ مُغْتَرِبٌ إِذَا اغْتَرَبَ الإِسْلَامُ - وضَرَبَ بِعَسِيبِ ذَنَبِه - وأَلْصَقَ الأَرْضَ بِجِرَانِه بَقِيَّةٌ مِنْ بَقَايَا حُجَّتِه - خَلِيفَةٌ مِنْ خَلَائِفِ أَنْبِيَائِه.

ثم قالعليه‌السلام :

أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ بَثَثْتُ لَكُمُ الْمَوَاعِظَ - الَّتِي وَعَظَ الأَنْبِيَاءُ بِهَا أُمَمَهُمْ - وأَدَّيْتُ إِلَيْكُمْ مَا أَدَّتِ الأَوْصِيَاءُ إِلَى

ہیں (آذربائیجان کے ) اصحاب الرس؟ جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا مرسلین کی سنتوں کوخاموش کیا اور جباروں کی سنتوں کو زندہ کردیا تھا۔کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکر لے کر بڑھے اور ہزار ہا ہزار کو شکست دے دی۔لشکرکے لشکر تیار کئے اور شہروں کے شہر آباد کردئیے۔

(اسی خطبہ کا ایک حصہ)

وہ حکمت کی سپر زیب تن کئے ہوگا۔اور اسے پورے آداب کے ساتھ اختیار کئے ہوگا کہاس کی طرف متوجہ ہوگا۔اس کی معرفت رکھتا ہوگا اوراس کے لئے مکمل طور پر فارغ ہوگا۔یہ حکمت اس کی نگاہ میں اس کی گم شدہ دولت ہوگی جس کو تلاش کر رہا ہوگا اور ایسی ضرورت ہوگی جس کے بارے میں دریافت کر رہا ہوگا۔وہاسلام کی غربت کے ساتھ غریب الوطن ہوگا اور اس اونٹ کی طرح ہوگا جو تھکن سے زمین پر دم پٹک رہا ہو اورسینہ زمین پر ٹیک ہوئے ہو۔اللہ کی حجتوں میں سے آخری حجت اوراس کے انبیاء کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ۔

لوگو! میں نے تمہارے لئے وہ تمام نصیحتیں پیش کردی ہیں جو انبیاء(۱) نے اپنی امتوں کے سامنے پیش کی تھیں اورتم تک ان تمام ہدایتوں کو پہنچا دیاہے جو اولیاء نے

(۱)بیشک امیر المومنین وارث انبیاء تھے اورانہوں نے ان تمام نصیحتوں کو استعمال کیا جنہیں انبیاء کرام استعمال کرچکے تھے لیکن ان کے نصائح کا انجام بھی وہی ہوا جو انبیاء کرام کی نصیحتوں کا ہوا تھا کہ جناب نوح کو پتھروں میں دبا دیا گیا۔جناب ابراہیم کوآگمیں ڈال دیا گیا۔جناب موسیٰ کو ملک سے نکال باہرکیا گیا جناب عیسیٰ کو سولی پرچڑھانے کامنصوبہ بنایا گیا ۔سرکار دوعالم (ص) کے قتل کامکمل انتظام کیا گیا اور کوئی دو ر ایسا نہ آیا جب قوم کی اکثریت نصیحتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتی اور اللہ والوں کے مقدس وجود اور ان کے پاکیزہ تعلیمات سے فائدہ اٹھاتی۔امیرالمومنین نے توان نصیحتوں پر تازیانہ اور تنبیہ کابھی اضافہ کردیا لیکن اس کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا اور قوم مادیت کی دنیا سے نکل کر روحانیت کی فضا میں قدم رکھنے کے لئے تیار نہ ہوئی اور اس کے اثرات آجت ک باقی ہیں کہ کلام خدا اور رسول (ص) اور ارشادات معصومین کی صبح و شام تلاوت ہو رہی ہے لیکن کردار کا وہی عالم ہے جو اس سے پہلے دیکھا جا چکا ہے ۔

۳۳۷

مَنْ بَعْدَهُمْ وأَدَّبْتُكُمْ بِسَوْطِي فَلَمْ تَسْتَقِيمُوا - وحَدَوْتُكُمْ بِالزَّوَاجِرِ فَلَمْ تَسْتَوْسِقُوا - لِلَّه أَنْتُمْ - أَتَتَوَقَّعُونَ إِمَاماً غَيْرِي يَطَأُ بِكُمُ الطَّرِيقَ - ويُرْشِدُكُمُ السَّبِيلَ؟ أَلَا إِنَّه قَدْ أَدْبَرَ مِنَ الدُّنْيَا مَا كَانَ مُقْبِلًا - وأَقْبَلَ مِنْهَا مَا كَانَ مُدْبِراً، وأَزْمَعَ التَّرْحَالَ عِبَادُ اللَّه الأَخْيَارُ - وبَاعُوا قَلِيلًا مِنَ الدُّنْيَا لَا يَبْقَى - بِكَثِيرٍ مِنَ الآخِرَةِ لَا يَفْنَى - مَا ضَرَّ إِخْوَانَنَا الَّذِينَ سُفِكَتْ دِمَاؤُهُمْ وهُمْ بِصِفِّينَ - أَلَّا يَكُونُوا الْيَوْمَ أَحْيَاءً يُسِيغُونَ الْغُصَصَ - ويَشْرَبُونَ الرَّنْقَ قَدْ واللَّه لَقُوا اللَّه فَوَفَّاهُمْ أُجُورَهُمْ - وأَحَلَّهُمْ دَارَ الأَمْنِ بَعْدَ خَوْفِهِمْ.

أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ - ومَضَوْا عَلَى الْحَقِّ أَيْنَ عَمَّارٌ وأَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ - وأَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ - وأَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَعَاقَدُوا عَلَى الْمَنِيَّةِ - وأُبْرِدَ بِرُءُوسِهِمْ إِلَى الْفَجَرَةِ.

قَالَ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِه عَلَى لِحْيَتِه الشَّرِيفَةِ الْكَرِيمَةِ - فَأَطَالَ الْبُكَاءَ ثُمَّ قَالَعليه‌السلام

أَوِّه عَلَى إِخْوَانِيَ الَّذِينَ تَلَوُا الْقُرْآنَ

بعدوالوں کےحوالہ کی تھیں۔میں نے اپنے تازیانہ سے تمہاری تنبیہ کی لیکن تم سیدھے نہ ہوئے اور تم کو زجرو تو بیخ سے ہنکانا چاہا لیکن تم متحد نہ ہوئے۔اللہ ہی تمہیں سمجھے کیا میرے بعد کسی اور امام کاانتظار کر رہے ہو جو تمہیں سیدھے راستہ پر چلائے گا اور راہ حق کی ہدایت دے گا۔

یاد رکھو جو چیزیں دنیا کی طرف رخ کئے ہوئے تھیں انہوں نے منہ پھیرا لیا ہے اور جومنہ پھیرائے ہوئے تھیں انہوں نے رخ کرلیا ہے اللہ کے نیک بندوں نے یہاں سے کوچ کرنے کا عزم کرلیا ہے اور دنیا کا وہ قلیل سرمایہ جو باقی رہنے والا نہیں ہے اسے بیچ ڈالا ہے ۔اس آخرت کے اجر کثیر کے مقابلہ میں جو فنا ہونے والا نہیں ہے۔ہمارے وہ ایمانی بھائی جن کا خون صفین کے میدان میں بہادیا گیا ان کا کیا نقصان ہوا ہے اگر وہ آج زندہ نہیں ہیں کہ دنیا کے مصائب کے گھونٹ پئیں اور گندے پانی پر گزارا کریں۔وہ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے اور انہیں ان کامکمل اجر مل گیا۔مالک نے انہیں خوف کے بعد امن کی منزل میں وارد کردیا ہے۔کہا ہیں میرے وہ بھائی جو سیدھے راستہ پر چلے اور حق کی راہ پر لگے رہے۔کہاں ہیں عمار ؟ کہاں ہیں ابن التیہان ؟۔کہاں ہیں ذوالشہادتین؟ کہاں ہیں ان کے جیسے ایمانی بھائی جنہوں نے موت کا عہدو پیمان باندھ لیا تھا اور جن کے سر فاجروں کے پاس بھیج دئیے گئے۔

(یہ کہہ کر آپ نے محاسن شریف پر ہاتھ رکھا اورتادیر گریہ فرماتے رہے اس کے بعد فرمایا :)

آہ ! میرے ان بھائیوں پر جنہوں نے قرآن کی

۳۳۸

فَأَحْكَمُوه - وتَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَأَقَامُوه - أَحْيَوُا السُّنَّةَ وأَمَاتُوا الْبِدْعَةَ - دُعُوا لِلْجِهَادِ فَأَجَابُوا ووَثِقُوا بِالْقَائِدِ فَاتَّبَعُوه.

ثُمَّ نَادَى بِأَعْلَى صَوْتِه

الْجِهَادَ الْجِهَادَ عِبَادَ اللَّه - أَلَا وإِنِّي مُعَسْكِرٌ فِي يَومِي هَذَا - فَمَنْ أَرَادَ الرَّوَاحَ إِلَى اللَّه فَلْيَخْرُجْ

قَالَ نَوْفٌ وعَقَدَ لِلْحُسَيْنِعليه‌السلام فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولِقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ رحمهالله فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولأَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ فِي عَشَرَةِ آلَافٍ - ولِغَيْرِهِمْ عَلَى أَعْدَادٍ أُخَرَ - وهُوَ يُرِيدُ الرَّجْعَةَ إِلَى صِفِّينَ - فَمَا دَارَتِ الْجُمُعَةُ حَتَّى ضَرَبَه الْمَلْعُونُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَعَنَه اللَّه - فَتَرَاجَعَتِ الْعَسَاكِرُ فَكُنَّا كَأَغْنَامٍ فَقَدَتْ رَاعِيهَا - تَخْتَطِفُهَا الذِّئَابُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ!

(۱۸۳)

من خطبة لهعليه‌السلام

في قدرة اللَّه وفي فضل القرآن وفي الوصية بالتقوى الله تعالى

الْحَمْدُ لِلَّه الْمَعْرُوفِ مِنْ غَيْرِ رُؤْيَةٍ - والْخَالِقِ مِنْ غَيْرِ مَنْصَبَةٍ

تلاوت کی تو اسے مستحکم کیا اور فرائض پر غورو فکر کیا تو انہیں قائم کیا ۔سنتوں کو زندہ کیا اور بدعتوں کو مردہ بنایا۔ انہیں جہاد کے لئے بلایا گیا تو لبیک کہی اور اپنے قائد پر اعتماد کیا تواس کا اتباع بھی کیا۔

(اس کے بعد بلند آوازسے پکار کر فرمایا)

جہاد ،جہاد ، اے بندگان خدا! آگاہ ہو جائو کہ میں آج اپنی فوج تیار کر رہا ہوں اگر کوئی خدا کی بارگاہ کی طرف جانا چاہتا ہے تو نکلنے کے لئے تیار ہو جائے ۔

نوف کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت نے دس ہزار کا لشکر امام حسین کے ساتھ ۔دس ہزار قیس بن سعد کے ساتھ۔دس ہزار ابو ایوب انصاری کے ساتھ اوراسی طرح مختلف تعداد میں مختلف افراد کے ساتھ تیار کیا اور آپ کا مقصد دوبارہ صفین کی طرف کوچ کرنے کا تھا کہ آئندہ جمعہ آنے سے پہلے ہی آپ کو ابن ملجم نے زخمی کردیا اور اس طرح سارا لشکر پلٹ گیا اور ہم سب ان چوپایوں کے مانند ہوگئے جن کا رکھوالا گم ہو جائے اور انہیں چاروں طرف سے بھیڑئیے اچک لینے کی فکرمیں ہو۔

(۱۸۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(قدرت خدا فضیلت قرآن اور وصیت تقویٰ کے بارے میں )

ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو بغیر دیکھے بھی پہچانا ہوا ہے اور بغیر کسی تکان کے بھی خلق کرنے والا

۳۳۹

خَلَقَ الْخَلَائِقَ بِقُدْرَتِه - واسْتَعْبَدَ الأَرْبَابَ بِعِزَّتِه وسَادَ الْعُظَمَاءَ بِجُودِه - وهُوَ الَّذِي أَسْكَنَ الدُّنْيَا خَلْقَه - وبَعَثَ إِلَى الْجِنِّ والإِنْسِ رُسُلَه - لِيَكْشِفُوا لَهُمْ عَنْ غِطَائِهَا ولِيُحَذِّرُوهُمْ مِنْ ضَرَّائِهَا - ولِيَضْرِبُوا لَهُمْ أَمْثَالَهَا ولِيُبَصِّرُوهُمْ عُيُوبَهَا - ولِيَهْجُمُوا عَلَيْهِمْ بِمُعْتَبَرٍ مِنْ تَصَرُّفِ مَصَاحِّهَا وأَسْقَامِهَا - وحَلَالِهَا وحَرَامِهَا - ومَا أَعَدَّ اللَّه لِلْمُطِيعِينَ مِنْهُمْ والْعُصَاةِ - مِنْ جَنَّةٍ ونَارٍ وكَرَامَةٍ وهَوَانٍ - أَحْمَدُه إِلَى نَفْسِه كَمَا اسْتَحْمَدَ إِلَى خَلْقِه - وجَعَلَ( لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً ) - ولِكُلِّ قَدْرٍ أَجَلًا ولِكُلِّ أَجَلٍ كِتَاباً.

فضل القرآن

منها: فَالْقُرْآنُ آمِرٌ زَاجِرٌ وصَامِتٌ نَاطِقٌ - حُجَّةُ اللَّه عَلَى خَلْقِه أَخَذَ عَلَيْه مِيثَاقَهُمْ - وارْتَهَنَ عَلَيْهِمْ أَنْفُسَهُمْ أَتَمَّ نُورَه - وأَكْمَلَ بِه دِينَه وقَبَضَ نَبِيَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وقَدْ فَرَغَ إِلَى الْخَلْقِ مِنْ أَحْكَامِ الْهُدَى بِه - فَعَظِّمُوا مِنْه سُبْحَانَه مَا عَظَّمَ مِنْ نَفْسِه – فَإِنَّه لَمْ يُخْفِ عَنْكُمْ شَيْئاً مِنْ دِينِه - ولَمْ يَتْرُكْ شَيْئاً رَضِيَه أَوْ كَرِهَه إِلَّا وجَعَلَ لَه عَلَماً بَادِياً -

ہے۔اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا اور اپن یعزت کی بناپ ر ان سے مطالبہ عبدیت کیا۔وہ اپنے جودو کرم میں تمام عظماء عالم سے بالا تر ہے۔اسی نے اس دنیا میں اپنی مخلوقات کو آباد کیا ہے اور جن و انس کی طرف اپنے رسول بھیجے ہیں تاکہ وہ نگاہوں سے عبرت دلانے کا سامان کریں اور حلال و حرام اور اطاعت کرنے والوں کے لئے مہیا شدہ اجر اور نا فرمانوں کے لئے عذاب سے آگاہ کردیں۔میں اس کی ذات اقدس کی اسی طرح حمد کرتا ہوں جس طرح اس نے بندوں سے مطالبہ کیا ہے اور ہر شے کی ایک مقدار معین ہے اور ہر قدر کی ایک مہلت رکھی ہے اور ہرتحریری کی ایک معیاد معین کی ہے۔

دیکھو قرآن امر کرنے والا بھی ہے اور روکنے والا بھی۔وہ خاموش بھی ہے اور گویا بھی۔وہ مخلوقات پر پروردگار کی حجت ہے۔جس کا لوگوں سے عہد لیا گیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنا دیا گیا ہے۔مالک نے اس کے نور کو تمام بنایا ہے اور اس کے ذریعہ دین کو کامل قرار دیا ہے۔اپنے پیغمبر کو اس وقت اپنے پاس بلایا ہے جب وہ اس کے احکام کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے چکے تھے لہٰذا پروردگار کی عظمت کا اعتراف اس طرح کرو جس طرح اس نے اپنی عظمت کا اعلان کیا ہے کہ اس نے دین کی کسی بات کو مخفی نہیں رکھا ہے اور کوئی ایسی پسندیدہ یا نا پسندیدہ بات نہیں چھوڑی ہے جس کے لئے واضح نشان ہدایت نہ بنا دیا

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

۱۷۰ - وقَالَعليه‌السلام تَرْكُ الذَّنْبِ أَهْوَنُ مِنْ طَلَبِ الْمَعُونَةِ.

۱۷۱ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ أَكْلَةٍ مَنَعَتْ أَكَلَاتٍ.

۱۷۲ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

۱۷۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنِ اسْتَقْبَلَ وُجُوه الآرَاءِ عَرَفَ مَوَاقِعَ الْخَطَإِ.

۱۷۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلَّه قَوِيَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ.

(۱۷۰)

گناہ کا نہ کرنابعد(۱) میںمدد مانگنے سے آسان تر ہے۔

(۱۷۱)

اکثر اوقات ایک کھانا کئی کھانوں ے روک دیتا ہے۔

(۱۷۲)

لوگ ان چیزوں کے دشمن ہوتے ہیں جن سے بے خبر ہوتے ہیں ۔

(۱۷۳)

جومختلف(۲) آرائکا سامنا کرتا ہے وہ غلطی کے مقامات کو پہچان لیتا ہے۔

(۱۷۴)

جو اللہ کے لئے غضب کے سنان کو تیز کر لیتا ہے وہ باطل کے سور مائوں کے قتل پر بھی قادر ہو جاتا ہے۔

(۱)مثل مشہور ہے کہ پرہیز کرنا علاج کرنے سے بہتر ہے کہ پرہیز انسان کو بیماریوں سے بچا لیتاہے اور اس طرح اس کی فطری طاقت محفوظ رہتی ہے لیکن پزہیز نہ کرنے کی بنا پر اگر مرض نے حملہ کردیا تو طاقت خود بخود کمزور ہو جاتی ہے اور پھر علاج کے بعد بھی وہ فطری حالت واپس نہیںآتی لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ گناہوںکیذریعہ نفس کے آلودہ ہونے اورتوبہ کے ذریعہ اس کی تطہیر کرنے سے پہلے اس کی صحت کاخیال رکھے اور اسے آلودہ نہ ہونے دے تاکہ علاج کی زحمت سے محفوظ رہے۔

(۲)اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مشورہ کرنے والا غلطیوں سے محفوظ رہتا ہے کہ اسے کئی طرح کے افکارحاصل ہو جاتے ہیں اور ہر شخص کے ذریعہ دوسرے کی فکر کی کمزوری کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اور اس طرح صحیح رائے اختیار کرنے میں کوئی زحمت نہیں رہ جاتی ہے۔

۶۸۱

۱۷۵ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا هِبْتَ أَمْراً فَقَعْ فِيه - فَإِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّيه أَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْه.

۱۷۶ - وقَالَعليه‌السلام آلَةُ الرِّيَاسَةِ سَعَةُ الصَّدْرِ.

۱۷۷ - وقَالَعليه‌السلام ازْجُرِ الْمُسِيءَ بِثَوَابِ الْمُحْسِنِ

۱۷۸ - وقَالَعليه‌السلام احْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَيْرِكَ بِقَلْعِه مِنْ صَدْرِكَ.

۱۷۹ - وقَالَعليه‌السلام اللَّجَاجَةُ تَسُلُّ الرَّأْيَ.

(۱۷۵)

جب کسی امر سے دہشت محسوس کروتواس میں پھاند پڑو کہ زیادہ خوف و احتیاط خطرہ سے زیادہ خطر ناک ہوتی ہے۔

(۱۷۶)

ریاست کاوسیلہ وسعت صدر ہے۔

(۱۷۷)

بد عمل کے سرزنش کے لئے نیک عمل(۱) والے کو اجرو انعام دو۔

(۱۷۸)

دوسرے کے دل سے شر کا کاٹ دینا ہے تو پہلے اپنے دل سے اکھاڑ کر پھینک دو۔

(۱۷۹)

ہٹدھرمی صحیح رائے کو بھی دور کردیتی ہے۔

(۱)ہمارے معاشرہ کی کمزوریوں میں سے ایک اہم کمزوری یہ بھی ہے کہ یہاں بدکرداروں پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن نیک کردار کی تائید و توصیف نہیں کی جاتی ہے۔آپ ایک دن غلط کام کریں تو سارے شہر میں ہنگامہ ہو جائے گا لیکن ایک سال تک بہترین کام کریں تو کوئی بیان کرنے والا بھی نہ پیدا ہوگا ۔حالانکہ اصول بات یہ ہے کہ نیکی کے پھیلانے کا طریقہ صرف برائی پر تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے بہتر طریقہ خود نیکی کی حوصہل افزائی کرنا ہے جس کے بعد ہر شخص میں نیکی کرنے کا شعور بیدار ہو جائے گا اور برائیوں کا قلع قمع ہو جائے گا۔

۶۸۲

۱۸۰ - وقَالَعليه‌السلام الطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَبَّدٌ.

۱۸۱ - وقَالَعليه‌السلام ثَمَرَةُ التَّفْرِيطِ النَّدَامَةُ وثَمَرَةُ الْحَزْمِ السَّلَامَةُ.

۱۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا خَيْرَ فِي الصَّمْتِ عَنِ الْحُكْمِ - كَمَا أَنَّه لَا خَيْرَ فِي الْقَوْلِ بِالْجَهْلِ.

۱۸۳ - وقَالَعليه‌السلام مَا اخْتَلَفَتْ دَعْوَتَانِ إِلَّا كَانَتْ إِحْدَاهُمَا ضَلَالَةً.

۱۸۴ - وقَالَعليه‌السلام مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُه.

(۱۸۰)

لالچ(۱) ہمیشہ ہمیشہ کی غلامی ہے۔

(۱۸۱)

کوتاہی ہی کا نتیجہ شرمندگی ہے اورہوشیاری کا ثمرہ سلامتی ۔

(۱۸۲)

حکمت(۲) سے خاموشی میں کوئی یر نہیں ہے جس طرح کہ جہالت سے بولنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

(۱۸۳)

جب دو مختلف دعوتیں دی جائیں تو دو میں سے ایک یقینا گمراہی ہوگی۔

(۱۸۴)

مجھے جب سے حق دکھلا دیا گیا ہے میں کبھی شک کا شکار نہیں ہوا ہوں۔

(۱)یہ انسانی زندگی کی عظیم ترین حقیقت ہے کہ حرص و طمع رکھنے والا انسان نفس کا غلام اورخواہشات کا بندہ ہوجاتا ہے اور جو شخص خواہشات کی بندگی میں مبتلا ہوگیا وہ کسی قیمت پر اس غلامی سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔انسانیزندگی کی دانشمندی کا تقاضایہ ہے کہ انسان اپنے کو خواہشات دنیا اورحرص طمع سے دور رکھے تاکہ کسی غلامی میں مبتلا نہ ہونے پائے کہ یہاں ''شوق ہر رنگ رقیب سرو سمان '' ہواکرتا ہے اور یہاں کی غلامی سے نجات ممکن نہیں ہے۔

(۲)انسان کو حرف حکمت کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ دوسروے لوگ اس سے استفادہ کریں اور حرف جہالت سے پرہیز کرنا چاہیے کہ جہالت کی بات کرنے سے خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے۔انسان کی عزت بھی سلامت رہتی ہے اور دوسروں کی گمراہی کابھی کوئی اندیشہ نہیں ہوتا ہے۔

۶۸۳

۱۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا كَذَبْتُ ولَا كُذِّبْتُ ولَا ضَلَلْتُ ولَا ضُلَّ بِي.

۱۸۶ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ الْبَادِي غَداً بِكَفِّه عَضَّةٌ

۱۸۷ - وقَالَعليه‌السلام الرَّحِيلُ وَشِيكٌ

۱۸۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْدَى صَفْحَتَه لِلْحَقِّ هَلَكَ

۱۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ لَمْ يُنْجِه الصَّبْرُ أَهْلَكَه الْجَزَعُ.

۱۹۰ - وقَالَعليه‌السلام وَا عَجَبَاه أَتَكُونُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ والْقَرَابَةِ؟

(۱۸۵)

میں نے نہ غلط بیانی کی ہے اور نہ مجھے جھوٹ خبردی گئی ہے ۔نہ میں گمراہ ہوا ہوں اورنہ مجھے گمراہ کیا جا سکا ہے۔

(۱۸۶)

ظلم(۱) کی ابتدا کرنے واے کو کل ندامت سے اپنا ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔

(۱۸۷)

کوچ کا وقت قریب آگیا ہے۔

(۱۸۸)

جس نے حق سے منہ موڑ لیا وہ ہلاک ہوگیا۔

(۱۸۹)

جسے صبر(۲) نجات نہیں دلا سکتا ہے اسے بے قراری مار ڈالتی ہے ۔

(۱۹۰)

واعجباہ!خلافت صرف صحابیت کی بناپ رمل سکتی ہے لیکن اگر صحابیت اور قرابت دونوں جمع ہو جائیں تونہیں مل سکتی ہے

(۱)اگریہ دنیا میں ہر ظلم کرنے والے کا انجام ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا جس نے عالم اسلام میں ظلم کی ابتدا کی ہے اور جس کے مظالم کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور اولاد رسول اکرم (ص) کسی آن بھی مظالم سے محفوظ نہیں ہے۔

(۲)دنیا میں کام آنے والا صرف صبر ہے کہ اس سے انسان کا حوصلہ بھی بڑھتا ہے اور اسے اجرو ثواب بھی ملتا ہے۔بے قراری میں ان میں سے کوئی صفت نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی مسئلہ حال ہونے والا ہے۔لہٰذا ارکسی شخص نے صبر کو چھوڑ کر بے قراری کا راستہ اختیار کرلیا توگویا اپنی تباہی کا آپ انتظام کرلیا اور پروردگار کی معیت سے بھی محروم ہوگیا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتا ہے جزع و فزع کرنے والوں کے ساتھ نہیں رہتا ہے۔

۶۸۴

قال الرضي - وروي له شعر في هذا المعنى:

فإن كنت بالشورى ملكت أمورهم

فكيف بهذا والمشيرون غيب

وإن كنت بالقربى حججت خصيمهم

فغيرك أولى بالنبي وأقرب

۱۹۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّمَا الْمَرْءُ فِي الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيه الْمَنَايَا - ونَهْبٌ تُبَادِرُه الْمَصَائِبُ - ومَعَ كُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ - وفِي كُلِّ أَكْلَةٍ غَصَصٌ - ولَا يَنَالُ الْعَبْدُ نِعْمَةً إِلَّا بِفِرَاقِ أُخْرَى - ولَا يَسْتَقْبِلُ يَوْماً مِنْ عُمُرِه إِلَّا بِفِرَاقِ آخَرَ مِنْ أَجَلِه - فَنَحْنُ أَعْوَانُ الْمَنُونِ وأَنْفُسُنَا نَصْبُ الْحُتُوفِ - فَمِنْ أَيْنَ نَرْجُو الْبَقَاءَ - وهَذَا اللَّيْلُ والنَّهَارُ لَمْ يَرْفَعَا مِنْ شَيْءٍ شَرَفاً - إِلَّا أَسْرَعَا الْكَرَّةَ فِي هَدْمِ مَا بَنَيَا وتَفْرِيقِ مَا جَمَعَا.

سید رضی : اس معنی میں حضرت کا یہ شعر بھی ہے۔

''اگر تم نے شوریٰ سے اقتدار حاصل کیا ہے تو یہ شوریٰ کیسا ہے جس میں مشیر ہی سب غائب تھے۔

اور اگر تم نے قرابت سے اپنی خصوصیت کا اظہار کیا ہے تو تمہاراغیرتم سے زیادہ رسول اکرم (ص) کے لئے اولیٰ اور اقرب ہے ''

(۱۹۱)

انسان اس دنیا میں وہ نشانہ ہے جس پرموت اپنے تیر چلاتی ہے ۔اوروہ مصائب کی غارت گری کی جولانگاہ بنا رہتا ہے۔یہاں کے ہر گھونٹ پر اچھو ہے اور ہر لقمہ پر گلے میں ایک پھندہ ہے۔انسان ایک نعمت کوحاصل نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسری ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور زندگی کے ایک دن(۱) کا استقبال نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ دوسرا دن ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

ہم موت کے مدد گار ہیں اور ہمارے نفس ہلاکت کانشانہ ہیں۔ہم کہاں سے بقاء کی امید کریں جب کہ شب و روز کسی عمارت کو اونچا نہیں کرتے ہیں مگر یہ کہ حملہ کرکے اسے منہدم کردیتے ہیں اورجسے بھی یکجا کرتے ہیں اسے بکھیر دیتے ہیں۔

(۱)کس قدرغلط فہمی کاشکار ہے وہ انسان جو ہر آنے وایل دن کو اپنی زندگی میں ایک اضافہ تصور کرتا ہے۔حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کا کوئی اضافہ نہیں ہے بلکہ ایک دن نے جا کردوسرے دن کے لئے جگہ خالی ہے اور اس کی آمد کی زمین ہموار کی ہے تو اس طرح انسان کا حساب برابر ہی رہ گیا۔ایک دن جیب میں داخل ہوا اورایک دن جیب سے نکل گیا اور اس طرح ایکدن زندگی کاخاتمہ ہو جائے گا۔

۶۸۵

۱۹۲ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ مَا كَسَبْتَ فَوْقَ قُوتِكَ - فَأَنْتَ فِيه خَازِنٌ لِغَيْرِكَ.

۱۹۳ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْقُلُوبِ شَهْوَةً وإِقْبَالًا وإِدْبَاراً - فَأْتُوهَا مِنْ قِبَلِ شَهْوَتِهَا وإِقْبَالِهَا - فَإِنَّ الْقَلْبَ إِذَا أُكْرِه عَمِيَ.

۱۹۴ - وكَانَعليه‌السلام يَقُولُ: مَتَى أَشْفِي غَيْظِي إِذَا غَضِبْتُ؟ أَحِينَ أَعْجِزُ عَنِ الِانْتِقَامِ فَيُقَالُ لِي لَوْ صَبَرْتَ - أَمْ حِينَ أَقْدِرُ عَلَيْه فَيُقَالُ لِي لَوْ عَفَوْتَ.

.

(۱۹۲)

فرزند آدم ! اگر تونے اپنی(۱) غذا سے زیادہ کمایا ہے تو گویا اس مال میں دوسروں کا خزانچی ہے۔

(۱۹۳)

دلوں کے لئے رغبت و خواہش ۔آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا سبھی کچھ ہے لہٰذا جب میلان اور توجہ کا وقت ہوتو اس سے کام لے لو کہ دل کو مجبورکرکے کام لیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔

(۱۹۴)

مجھے غصہ(۲) آجائے تو میں اس سے تسکین کس طرح حاصل کروں ؟ انتقام سے عاجز ہو جائوں گا تو کہا جائے گا کہ صبرکرو اور انتقام کی طاقت پیداکرلوں گا تو کہا جائے گا کہ کاش معاف کردیتے ( ایسی حالت میں غصہ کا کوئی فائدہ نہیں ہے )

(۱)یہ بات طے شدہ ہے کہ مالک کا نظام تقسیم غلط نہیں ہے اوراس نے ہر شخص کی طاقت ایک جیسی نہیں رکھی ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس نے ذخائر کائنات میں حصہ سب کا رکھا ہے لیکن سب میں انہیں حاصل کرنے کی یکساں طاقت نہیں ہے بلکہ ایک کو دوسرے کے لئے وسیلہ اورذریعہ بنادیا ہے تو اگر تمہارے پاس تمہارای ضرورت سے زیادہ مال آجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک نے تمہیں دوسروں کے حقوق کا خازن بنادیا ہے اور اب تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی خیانت نہ کرو اور ہر ایک کو اس کا حصہ پہنچا دو۔

(۲)آپ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ لوگوں کو صبرو تحمل کی تلقین کرتے ہیں کہ جب طات نہیں تھی تو انتقام لینے کی ضرورت ہی کیا تھی اور طاقتور ثابت ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ کمزور آدمی سے کیا انتقام لینا ہے۔مقالہ کسی برابر والے سے کرنا چاہیے تھا۔ایسی صورت میں تقاضائے عقل و منطق یہی ہے کہ انسان صبرو تحمل سے کام لے اور جب تک انتقام فرض شرعی نہ بن جائے اس وقت تک اس کا ارادہ بھی نہ کرے اور پھر جب مالک کائنات انتقام لینے والا موجود ہے تو انسان کو اس قدر زحمت برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

۶۸۶

۱۹۵ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ مَرَّ بِقَذَرٍ عَلَى مَزْبَلَةٍ - هَذَا مَا بَخِلَ بِه الْبَاخِلُونَ.

ورُوِيَ فِي خَبَرٍ آخَرَ أَنَّه قَالَ - هَذَا مَا كُنْتُمْ تَتَنَافَسُونَ فِيه بِالأَمْسِ.

۱۹۶ - وقَالَعليه‌السلام لَمْ يَذْهَبْ مِنْ مَالِكَ مَا وَعَظَكَ.

۱۹۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ هَذِه الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ - فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ.

۱۹۸ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا سَمِعَ قَوْلَ الْخَوَارِجِ لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّه - كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ.

۱۹۹ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الْغَوْغَاءِ - هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا

(۱۹۵)

ایک مزبلہ سے گزرتے ہوئے فرمایا:'' یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں بخل کرنے والوں نے بخل کیا تھا''یا دوسری روایت کی بنا پر''جس کے بارے میں کل ایک دوسرے سے رشک کر رہے تھے ''۔( یہ ہے انجام دنیا اور انجام لذات دنیا)

(۱۹۶)

جو مال نصیحت کاسامان فراہم کردے وہ برباد نہیں ہوا ہے ۔

(۱۹۷)

یہ دل اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن۔لہٰذا ان کے لئے لطیف ترین حکمتیں فراہم کرو۔

(۱۹۸)

جب آپ نے خوارج کا یہ نعرہ سنا کہ '' خدا کے علاوہ کسی کے لئے حکم نہیں ہے '' تو فرمایا کہ '' یہ کلمہ حق ہے '' لیکن اس سے باطل معنی مراد لیے گئے ہیں۔

(۱۹۹)

بازاری لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا کہ ۔یہی وہ لوگ ہیں جو مجتمع ہو جاتے ہیں۔تو

۶۸۷

غَلَبُوا وإِذَا تَفَرَّقُوا لَمْ يُعْرَفُوا - وقِيلَ بَلْ قَالَعليه‌السلام - هُمُ الَّذِينَ إِذَا اجْتَمَعُوا ضَرُّوا وإِذَا تَفَرَّقُوا نَفَعُوا - فَقِيلَ قَدْ عَرَفْنَا مَضَرَّةَ اجْتِمَاعِهِمْ فَمَا مَنْفَعَةُ افْتِرَاقِهِمْ - فَقَالَ يَرْجِعُ أَصْحَابُ الْمِهَنِ إِلَى مِهْنَتِهِمْ - فَيَنْتَفِعُ النَّاسُ بِهِمْ كَرُجُوعِ الْبَنَّاءِ إِلَى بِنَائِه - والنَّسَّاجِ إِلَى مَنْسَجِه والْخَبَّازِ إِلَى مَخْبَزِه.

۲۰۰ - وقَالَعليه‌السلام وأُتِيَ بِجَانٍ ومَعَه غَوْغَاءُ فَقَالَ - لَا مَرْحَباً بِوُجُوه لَا تُرَى إِلَّا عِنْدَ كُلِّ سَوْأَةٍ

غالب(۱) آجاتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں تو پہچانے بھی نہیں جاتے ہیں۔

اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت نے اس طرح فرمایا تھا کہ ۔جب مجتمع ہو جاتے ہیں تو نقصان دہ ہوتے ہیں اور جب منتشر ہو جاتے ہیں تبھی فائدہ مند ہو تے ہیں۔تو لوگوں نے عرض کی کہ اجتماع میں نقصان تو سمجھ میں آگیا لیکن انتشار میں فائدہ کے کیا معنی ہیں ؟ تو فرمایا کہ سارے کاروبار والے اپنے کاروبار کی طرف پلٹجاتے ہیں اور لوگ ان سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں جس طرح معمار اپنی عمارت کی طرف چلا جاتا ہے۔کپڑا بننے والا کارخانہکی طرف چلا جاتا ہے اور روٹی پکانے والا تنور کی طرف پلٹ جاتا ہے۔

(۲۰۰)

آپ کے پاس ایک مجرم کو لایا گیا جس کے ساتھ تماشائیوں کا ہجوم تھا تو فرمایا کہ '' ان چہروں پر پھٹکار ہوجو صرف(۲) برائی اور رسوائی کے موقع پر نظر آتے ہیں۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوامی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے اور دنیا کا کوئی نظام اس طاقت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا ہے اور اسی لئے مولائے کائنات نے بھی مختلف مقامات پر ان کی اہمیت کجی طرف اشارہ کیا ہے اور ان پر خاص توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔لیکن عوام الناس کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ان کی اکثریت عقل و منطق سے محروم اورجذبات و عواطف سے معمور ہوتی ہے اور ان کے اکثر کام صرف جذبات واحساسات کی بناپ رانجام پاتے ہیں اور اس طرح جونظام بھی ان کے جذباتو خواہشات کی ضمانت دے دیتا ہے وہ فوراً کامیاب ہوجاتا ہے اور عقل و منطق کا نظام پیچھے رہ جاتا ہے لہٰذا حضرت نے چاہا کہ اس کمزوری کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے تاکہ ارباب حل و عقد ہمیشہ ان کے جذباتی اور ہنگامی و جود پر اعتماد نہ کریں بلکہ اس کی کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھیں۔

(۲)عام طور سے انسانوں کا مزاج یہی ہوتا ہے کہ جہاں کسی برائی کا منظر نظرآتا ہے فوراً اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔مسجد کے نمازیوں کا دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا ہے لیکن قیدی کا تماشا دیکھنے والے ہزاروں نکلآتے ہیں اور اس طرح اس اجتماع کا کوئی مقصد بھی نہیں ہوتا ہے ۔آپ کامقصد یہ ہے کہ یہ اجتماع عبرت حاصل کرنے کے لئے ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی مگر افسوس کہ یہ صرف تماشا دیکھنے کے لئے ہوتا ہے اور انسان کے وقت کا اس سے کہیں زیادہ اہم مصرف موجود ہے لہٰذا اسے اسی مصرف میں صرف کرنا چاہیے۔

۶۸۸

۲۰۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ مَلَكَيْنِ يَحْفَظَانِه - فَإِذَا جَاءَ الْقَدَرُ خَلَّيَا بَيْنَه وبَيْنَه - وإِنَّ الأَجَلَ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ

۲۰۲ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ قَالَ لَه طَلْحَةُ والزُّبَيْرُ - نُبَايِعُكَ عَلَى أَنَّا شُرَكَاؤُكَ فِي هَذَا الأَمْرِ - لَا ولَكِنَّكُمَا شَرِيكَانِ فِي الْقُوَّةِ والِاسْتِعَانَةِ - وعَوْنَانِ عَلَى الْعَجْزِ والأَوَدِ

۲۰۳ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه الَّذِي إِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ - وإِنْ أَضْمَرْتُمْ عَلِمَ - وبَادِرُوا الْمَوْتَ الَّذِي إِنْ هَرَبْتُمْ مِنْه أَدْرَكَكُمْ - وإِنْ أَقَمْتُمْ أَخَذَكُمْ - وإِنْ نَسِيتُمُوه ذَكَرَكُمْ.

۲۰۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا يُزَهِّدَنَّكَ فِي الْمَعْرُوفِ مَنْ لَا يَشْكُرُه لَكَ

(۲۰۱)

ہر انسان کے ساتھ دو محافظ فرشتے رہتے ہیں لیکن جب موت کا قوت آجاتا ے تو دونوں ساتھ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں گویا کہ موت ہی بہترین سپر ہے۔

(۲۰۲)

جب طلحہ و زبیر نے یہ تقاضا کیا کہ ہم بیعت کر سکتے ہیںلیکن ہمیں شریک ار بنانا پڑے گا ؟ تو فرمایا کہ ہرگز نہیں تم صرف قوت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک ہو سکتے ہو اور عاجزی اور سختی کے موقع پر مدد گار بن سکتے ہو۔

(۲۰۳)

لوگو! اس خدا سے ڈرو جو تمہاری ہر بات کو سنتا ہے اور ہر راز دل کا جاننے والا ہے اور اس موت کی طرف سبقت کرو جس سے بھاگنا بھی چاہو تو وہ تمہیں پالے گی اور ٹھہر جائو گے تو گرفت میں لے لی گی اورتم اسے بھول بھی جائو گے تو وہ تمہیں یاد رکھے گی۔

(۲۰۴)

خبردار کسی شکریہ ادا نہ کرنے والے کی نالائقی تمہیں کارخیر(۱) سے بد دل نہ بنادے۔ہو سکتا ہے کہ تمہارا

(۱)اولاً تو کار خیر میں شکریہ کا انتظار ہی انسان کے اخلاص کو مجروح بنادیتا ہے اور اس کے عمل کاوہ مرتبہ نہیں رہ جاتا ہے جو صرف فی سبیل اللہ عمل کرنے والے افراد کاہوتا ہے جس کی طرف قرآن مجید نے سورہ ٔ مبارکہ دہر میں اشارہ کیا ہے '' لا نرید منکم جزاء اولا شکورا ''اس کے بعد اگر انسان فطرت سے مجبور ہے اورف طری طور پرشکریہ کا خواہش مند ہے تو مولائے کائنات نے اس کابھی اشارہ دے دیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ کمی دوسرے افراد کی طرف سے پوری ہوجائے اور وہ تمہارے کارخیرکی قدر دانی کرکے شکریہ کی کمی کا تدارک کردیں۔

۶۸۹

- فَقَدْ يَشْكُرُكَ عَلَيْه مَنْ لَا يَسْتَمْتِعُ بِشَيْءٍ مِنْه - وقَدْ تُدْرِكُ مِنْ شُكْرِ الشَّاكِرِ - أَكْثَرَ مِمَّا أَضَاعَ الْكَافِرُ -( والله يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) .

۲۰۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ وِعَاءٍ يَضِيقُ بِمَا جُعِلَ فِيه - إِلَّا وِعَاءَ الْعِلْمِ فَإِنَّه يَتَّسِعُ بِه.

۲۰۶ - وقَالَعليه‌السلام أَوَّلُ عِوَضِ الْحَلِيمِ مِنْ حِلْمِه - أَنَّ النَّاسَ أَنْصَارُه عَلَى الْجَاهِلِ.

۲۰۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنْ لَمْ تَكُنْ حَلِيماً فَتَحَلَّمْ - فَإِنَّه قَلَّ مَنْ تَشَبَّه بِقَوْمٍ - إِلَّا أَوْشَكَ أَنْ يَكُونَ مِنْهُمْ.

۲۰۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ حَاسَبَ نَفْسَه رَبِحَ ومَنْ غَفَلَ عَنْهَا خَسِرَ - ومَنْ خَافَ أَمِنَ ومَنِ اعْتَبَرَ أَبْصَرَ -

شکریہ وہ ادا کردے جس نے اس نعمت سے کوئی فائدہ بھی نہیں اٹھایا ہے اور جس قدر کفران نعمت کرنے والے نے تمہارا حق ضائع کیا ہے اس شکریہ اداکرنے والے کے شکریہ سے برابر ہو جائے اور ویسے بھی اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

(۲۰۵)

ہر ظرف اپنے سامان کے لئے تنگ ہو سکتا ہے لیکن علم ظرف(۱) علم کے اعتبار سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔

(۲۰۶)

صبر کرنے والے کا اس کی قوت برداشت پر پہلا اجریہ ملتا ہے کہ لوگ جاہل کے مقابلہمیں اس کے مدد گار ہو جاتے ہیں۔

(۲۰۷)

اگر تم واقعاً بردبار نہیں بھی ہو تو بردباری کا اظہار کرو کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی قوم کی سباہت اختیار کرے اوران میں سے نہ ہوجائے ۔

(۲۰۸)

جو اپنے نفس کاحساب کرتا رہتا ہے وہ فائدہ میں رہتا ہے اورجوغافل ہو جاتا ہے وہی خسارہ میں رہتا ہے خوف خدا رکھنے والا عذاب سے محفوظ رہتا ہے اور عبرت

(۱)علم کا ظرف عقل ہے اور عقل غیر مادی ہونے کے اعتبارسے یوں بھی بے پناہ وسعت کی مالک ہے۔اس کے بعد مالک نے اس میں یہ صلاحیت بھی رکھی ہے کہ جس قدر علم میں اضافہ ہوتا جائے گا اس کی وسعتوں پراضافہ ہوتا جائے گا اور اسکی وسعت کسی مرحلہ پر تمام ہونے والی نہیں ہے ۔

۶۹۰

ومَنْ أَبْصَرَ فَهِمَ ومَنْ فَهِمَ عَلِمَ.

۲۰۹ - وقَالَعليه‌السلام : لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْيَا عَلَيْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا - عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَى وَلَدِهَا - وتَلَا عَقِيبَ ذَلِكَ -( ونُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأَرْضِ - ونَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً ونَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ ) .

۲۱۰ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقُوا اللَّه تَقِيَّةَ مَنْ شَمَّرَ تَجْرِيداً وجَدَّ تَشْمِيراً - وكَمَّشَ فِي مَهَلٍ وبَادَرَ عَنْ وَجَلٍ - ونَظَرَ فِي كَرَّةِ الْمَوْئِلِ - وعَاقِبَةِ الْمَصْدَرِ ومَغَبَّةِ الْمَرْجِعِ

کرنے والا صاحب بصیرت ہوتا ہے۔بصیرت والا فہیم ہوتا ہے اور فہیم ہی عالم ہو جاتا ہے۔

(۲۰۹)

یہ دنیا منہ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف(۱) بہرحال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کواپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے۔اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی۔'' ہم چاہتے ہیں کہ ان بندوں پراحسان کریں جنہیں روئے زمین میں کمزور بنادیا ہے۔اورانہیں پیشوا اقرار دیں اور زمین کا وارث بنادیں۔

(۲۱۰)

اللہ سے ڈرو اس شخص کی طرح جس نے دنیا چھوڑ کر دامن(۲) سمیٹ لیا ہو اور دامن سمیٹ کر کوشش میں لگ گیا ہو۔اچھائیوں کے لئے وقفہ مہلتمیں تیزی کے ساتھ چل پڑا ہو اورخطروں کے پیش نظر قدم تیز بڑھادیا ہو۔اور اپنی قرار گاہ اپنے اعمال کے نتیجہ اور اپنیانجام کار پرنظر رکھی ہو۔

(۱)یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ظالم میں اگر ادنیٰ انسانیت پائی جاتی ہے تو اسے ایک دن مظلوم کی مظلومیت کابہر حال احساس پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے حال پرمہربانی کا ارادہ کرنے لگتا ہے چاہے حالات اورمصالح اسے اس مہربانی کو منزل عمل تک لانے سے روک دیں۔دنیا کوئی ایسی جلاد اور ظالم نہیں ہے جسے دوسرے کو ہٹا کر اپنی جگہ بنانے کاخیال ہو لہٰذا اسے ایک نہایک دن مظلوم پر رحم کرنا ہے اور ظالموں کو منظر تاریخ سے ہٹا کر مظلوموں کو کرسی ریاست پر بٹھانا ہے یہی منشاء الٰہی ہے اور یہی وعدۂ قرآنی ہے جس کے خلاف کا کوئی امکان نہیں پایاجاتا ہے۔

(۲)یہ اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ تقویٰ کسی زبانی جمع خرچ کا نام ہے اور نہ لباس و غذا کی سادگی سے عبارت ہے۔تقویٰ ایک انتہائی منزل دشوار ہے جہاں انسان کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔پہلے دنیا کو خیر باد کہنا ہوتا ہے۔اس کے بعد دامن عمل کو سمیٹ کر کام شروع کرنا ہوتا ہے اوراچھائیوں کی طرف تیز قدم بڑھانا پڑتے ہیں۔اپنے انجام کا ر اور نتیجہ عمل پر نگاہ رکھنا ہوتی ہے اور خطرات کے دفاع کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔یہ سارے مراحل طے ہو جائیں توانسان متقی اور پرہیز گار کہے جانے کے قابل ہوتا ہے۔

۶۹۱

۲۱۱ - وقَالَعليه‌السلام الْجُودُ حَارِسُ الأَعْرَاضِ - والْحِلْمُ فِدَامُ السَّفِيه - والْعَفْوُ زَكَاةُ الظَّفَرِ - والسُّلُوُّ عِوَضُكَ مِمَّنْ غَدَرَ - والِاسْتِشَارَةُ عَيْنُ الْهِدَايَةِ - وقَدْ خَاطَرَ مَنِ اسْتَغْنَى بِرَأْيِه - والصَّبْرُ يُنَاضِلُ الْحِدْثَانَ - والْجَزَعُ مِنْ أَعْوَانِ الزَّمَانِ - وأَشْرَفُ الْغِنَى تَرْكُ الْمُنَى - وكَمْ مِنْ عَقْلٍ أَسِيرٍ تَحْتَ هَوَى أَمِيرٍ - ومِنَ التَّوْفِيقِ حِفْظُ التَّجْرِبَةِ - والْمَوَدَّةُ قَرَابَةٌ مُسْتَفَادَةٌ ولَا تَأْمَنَنَّ مَلُولًا

۲۱۲ - وقَالَعليه‌السلام عُجْبُ الْمَرْءِ بِنَفْسِه أَحَدُ حُسَّادِ عَقْلِه.

۲۱۳ - وقَالَعليه‌السلام أَغْضِ عَلَى الْقَذَى والأَلَمِ تَرْضَ أَبَداً.

(۲۱۱)

سخاوت عزت(۱) وآبروکی نگہبان ہے اوربردباری احمق کے منہ کا تسمہ ہے۔معافی کامیابی کی زکوٰة ہے اور بھول جانا غداری کرنے والے کا بدل ہے اور مشورہ کرنا عین ہدایت ہے۔جس نے اپنی رائے ہی پر اعتماد کرلیا اسنے اپنے کوخطرہ میں ڈال دیا۔صبر حوادث کامقابلہ کرتا ہے اوربے قراری زمانہ کی مدد گار ثابت ہوتی ہے۔بہترین دولت مندی تمنائوں کا ترک کردینا ہے۔کتنی ہی غلام عقلیں ہیں جو روساء کی خواہشات کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ تجربات کومحفوظ رکھنا توفیق کی ایک قس ہے اور محبت ایک اکتسابی قرابت ہے اورخبردار کسی رنجیدہ ہو جانے والے پر اعتماد نہ کرنا۔

(۲۱۲)

انسان کا خود پسندی میں مبتلا ہو جانا خود اپنی عقل سے حسد کرنا ہے۔

(۲۱۳)

آنکھوں کے خس و خاشاک اور رنج و الم پر چشم(۱) پوشی کرو ہمیشہ خوش رہو گے۔

(۱)اس کلمہ حکمت میںمولائے کائنات نے تیرہ مختلف نصیحتوں کاذکر فرمایا ہے اوران میں ہر نصیحت انسانی زندگی کا بہترین جوہر ہے۔کا شانسان اس کے ایک ایک فقرہ پر غور کرے اور زندگی کی تجربہ گاہ میں استعمال کرے تو اسے اندازہ ہو گا کہ ایک مکمل زندگی گذارنے کا ضابطہ کیاہوتا ہے اور انسان کس طرح دنیا وآخرت کے خیر کو حاصل کرلیتا ہے۔

(۲)حقیقت امریہ ہے کہ ہر ظلم کا ایک علاج اور دنیا کی ہرمصیبت کا ایک توڑ ہے جس کا نام ہے صبرو تحمل۔انسان صرف یہ ایک جوہر پیداکرلے تو بڑی سے بڑی مصیبت کامقالہ کر سکتا ہے اور کسی مرحلہ پر پریشان نہیں ہوسکتا ہے۔رنجیدہ و غمزدہ وہی رہتے ہیں جن کے پاس یہ جوہر نہیں ہوتا ہے اورخوش حال و مطمئن وہی رہتے ہیں جن کے پاس یہ جوہر ہوتا ہے اوروہ اسے استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔

۶۹۲

۲۱۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ لَانَ عُودُه كَثُفَتْ أَغْصَانُه

۲۱۵ - وقَالَعليه‌السلام الْخِلَافُ يَهْدِمُ الرَّأْيَ.

۲۱۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَالَ اسْتَطَالَ

۲۱۷ - وقَالَعليه‌السلام فِي تَقَلُّبِ الأَحْوَالِ عِلْمُ جَوَاهِرِ الرِّجَالِ.

۲۱۸ - وقَالَعليه‌السلام حَسَدُ الصَّدِيقِ مِنْ سُقْمِ الْمَوَدَّةِ

(۲۱۴)

جس درخت کی لکڑی(۱) نرم ہو اس کی شاخیں گھنی ہوتی ہیں (لہٰذا انسان کو نرم دل ہو نا چاہیے )

(۲۱۵)

مخالفت صحیح رائے کوبھی برباد کر دیتی ہے۔

(۲۱۶)

جو منصب(۲) پالیتا ہے وہ دست درازی کرنے لگتا ہے۔

(۲۱۷)

لوگوں کے جوہر حالات کے انقلاب میں پہچانے جاتے ہیں۔

(۲۱۸)

دوست کاحسد کرنا محبت کی کمزوی ہے۔

(۱)کتنا حسین تجربہ حیات ہے جس سے ایک دیہاتی انسان بھی استفادہ کر سکتا ہے کہ اگر پروردگار نے درختوں میں یہ کمال رکھا ہے کہ جن درختوں کی شاخوں کو گھنا بنایا ہے ان کی لکڑیوں کو نرم بنا دیا ہے تو انسان کوبھی اس حقیقت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اگر اپنے اطراف مخلصین کا مجمع دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے کو بے سایہ درخت نہیں بنانا چاہتا ہے تو اپنی طبیعت کونرم بنادے تاکہ اس کے سہارے لوگ اس کے گردجمع ہوجائیں اور اس کی شخصیت ایک گھنیرے درخت کی ہوجائے ۔

(۲)کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انسان پروردگار کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت پر اتر آتا ہے اور اس کے دئیے ہوئے اقتدار کو دست درازی میں استعمال کرنے لگتا ہے حالانکہ شرافت و انسانیت کا تقاضا یہی تھا کہ جس طرح اس نے صاحب قدرت و قوت ہونے کے بعد اس کے حال پر حم کیا ہے اسی طرح اقتدار پانے کے بعد یہ دوسروں کے حال پر رحم کرے۔

۶۹۳

۲۱۹ - وقَالَعليه‌السلام أَكْثَرُ مَصَارِعِ الْعُقُولِ تَحْتَ بُرُوقِ الْمَطَامِعِ.

۲۲۰ - وقَالَعليه‌السلام لَيْسَ مِنَ الْعَدْلِ الْقَضَاءُ عَلَى الثِّقَةِ بِالظَّنِّ.

۲۲۱ - وقَالَعليه‌السلام بِئْسَ الزَّادُ إِلَى الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَى الْعِبَادِ.

۲۲۲ - وقَالَ عليهلامو مِنْ أَشْرَفِ أَعْمَالِ الْكَرِيمِ غَفْلَتُه عَمَّا يَعْلَمُ.

۲۲۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ كَسَاه الْحَيَاءُ ثَوْبَه لَمْ يَرَ النَّاسُ عَيْبَه.

۲۲۴ - وقَالَعليه‌السلام بِكَثْرَةِ الصَّمْتِ تَكُونُ الْهَيْبَةُ - وبِالنَّصَفَةِ يَكْثُرُ الْمُوَاصِلُونَ - وبِالإِفْضَالِ تَعْظُمُ الأَقْدَارُ

(۲۱۹)

عقلوں کی تباہی کی بیشتر منزلیں حرص و طمع کی بجلیوں(۱) کے نیچے ہیں۔

(۲۲۰)

یہ کوئی انصاف نہیں ہے کہ صرف ظن و گمان کے اعتماد پر فیصلہ کردیا جائے ۔

(۲۲۱)

روز قیامت کے لئے بد ترین زاد سفر بندگان خدا پر ظلم ہے۔

(۲۲۲)

کریم کے بہترین اعمال میں جان کر انجان بن جانا۔

(۲۲۳)

جسے حیا نے اپنا لباس اوڑھا دیا اس کے عیب کو کوئی نہیں دیکھ سکتا ہے۔

(۲۲۴)

زیادہ خاموشی ہیبت کا سبب بنتی ہے اورانصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے۔فضل و کرم سے قدرو

(۱)حرص و طمع کی چمک دمک بعض اوقات عقل کی نگاہوں کو بھی ذخیرہ کر دیتی ہے اور انسان نیک وبد کے امتیاز سے محروم ہوجاتا ہے۔لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے کو حرص و طمع سے دور رکھے اورزندگی کا ہر قدم عقل کے زیر سایہ اٹھائے تاکہ کسی مرحلہ پر تباہ وبرباد نہ ونے پائے ۔

۶۹۴

وبِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ - وبِاحْتِمَالِ الْمُؤَنِ يَجِبُ السُّؤْدُدُ - وبِالسِّيرَةِ الْعَادِلَةِ يُقْهَرُ الْمُنَاوِئُ - وبِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيه تَكْثُرُ الأَنْصَارُ عَلَيْه.

۲۲۵ - وقَالَ علالسلام الْعَجَبُ لِغَفْلَةِ الْحُسَّادِ عَنْ سَلَامَةِ الأَجْسَادِ.

۲۲۶ - وقَالَعليه‌السلام الطَّامِعُ فِي وِثَاقِ الذُّلِّ.

۲۲۷ - وسُئِلَ عَنِ الإِيمَانِ - فَقَالَ الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ - وإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ.

منزلت بلند ہوتی ہے اور تواضع سے نعمت مکمل ہوتی ہے۔دوسروں کا بوجھ اٹھانے سے سرداری حاصل ہوتی ہے اور انصاف پسند کردار سے دشمن پر غلبہ حاصل کیا جاتا ہے۔احمق کے مقابلہ میں بردباری کے مظاہرہ سے انصار و اعوان(۱) میں اضافہ ہوتا ہے۔

(۲۲۵)

حیرت کی بات ہے کہ حسد کرنے والے جسموں کی سلامتی پرحسد کیوں نہیں کرتے ہیں ( دولت مند کی دولت سے حسد ہوتا ہے اور مزدورکی صحت سے حسد نہیں ہوتا ہے حالانکہ یہ اس سے بڑی نعمت ہے۔

(۲۲۶)

لالچی(۲) ہمیشہ ذلت کی قید میں گرفتار رہتا ہے۔

(۲۲۷)

آپ سے ایمان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہایمان دل کا عقیدہ ' زبان کا اقرار اوراعضاء و جوارح کے عمل(۳) کا نام ہے۔

(۱)اس نصیحت میں بھی زندگی کے سات مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اوریہ بتایا گیا ہے کہ انسان ایک کامیاب زندگی کس طرح گزار سکتا ہے اور اسے اس دنیا میں باعزت زندگی کے لئے کن اصول و قوانین کو اختیار کرنا چاہیے۔

(۲)لالچ میں دو طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک طرف انسان نفسیاتی ذلت کاشکار رہتا ہے کہ اپنے کو حقیر فقیر تصورکرتا ہے اوراپنی کسی بھی دولت کا احساس نہیں کرتا ہے اور دوسری طرف دوسرے ارفاد کے سامنے حقارت و ذلت کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ شائد اسی طرح کسی کو اس کے حال پر رحم آجائے اوروہ اس کے مدعا کے حصول کی راہ ہموار کردے

(۳)علی والوں کو اس جملہ کو بغور دیکھنا چاہیے کہ کل ایمان نے ایمان کو اپنی زندگی کے سانچہ میں ڈھال دیا ہے کہ جس طرح آپ کی زندگی میں اقرار ' تصدیق اور عمل کے تینوں زخ پائے جاتے تھے ویسے ہی آپ ہر صاحب ایمان کو اس کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بغیر کسی کو صاحب ایمان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ بے عمل اگر صاحب ایمان نہیں ہو سکتا ہے تو کل ایمان کا شیعہ اور ان کا مخلص کیسے ہو سکتا ہے ۔

۶۹۵

۲۲۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً - فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللَّه سَاخِطاً - ومَنْ أَصْبَحَ يَشْكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِه - فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّه - ومَنْ أَتَى غَنِيّاً فَتَوَاضَعَ لَه لِغِنَاه ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِه - ومَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ - فَهُوَ مِمَّنْ كَانَ يَتَّخِذُ آيَاتِ اللَّه هُزُواً - ومَنْ لَهِجَ قَلْبُه بِحُبِّ الدُّنْيَا الْتَاطَ قَلْبُه مِنْهَا بِثَلَاثٍ - هَمٍّ لَا يُغِبُّه وحِرْصٍ لَا يَتْرُكُه وأَمَلٍ لَا يُدْرِكُه.

۲۲۹ - وقَالَعليه‌السلام كَفَى بِالْقَنَاعَةِ مُلْكاً وبِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِيماً وسُئِلَعليه‌السلام عَنْ قَوْلِه تَعَالَى -( فَلَنُحْيِيَنَّه حَياةً طَيِّبَةً ) فَقَالَ هِيَ الْقَنَاعَةُ.

۲۳۰ - وقَالَعليه‌السلام شَارِكُوا الَّذِي قَدْ أَقْبَلَ عَلَيْه الرِّزْقُ - فَإِنَّه أَخْلَقُ لِلْغِنَى وأَجْدَرُ بِإِقْبَالِ الْحَظِّ عَلَيْه.

(۲۲۸)

جودنیاکے بارے(۱) میں رنجیدہ ہو کرصبح کرے وہ درحقیقت قضائے الٰہی سے ناراض ہے اور جو صبح اٹھتے ہی کسی نازل ہونے والی مصیبت کاشکوہ شروع کردے اس نے درحقیقت پروردگار کی شکایت کی ہے۔جوکسی دولت مند کے سامنے دولت کی بنا پرجھک جائے اس کا دو تہائیدین بابرباد ہوگیا۔اورجوشخص قرآن پڑنے کے باوجود مرکر جہنم واصل ہوجائے گویا اسنے آیات الٰہی کامذاق اڑایا ہے۔جس کا دل محبت دنیامیں وارفتہ ہو جاء اس کے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہو جاتی ہیں۔وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ' وہ لالچ جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اوروہ امید جسے کبھی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔

(۲۲۹)

قناعت سے بڑی کوئی سلطنت اور حسن اخلاق سے بہتر کوئی نعمت نہیں ہے۔آپ سے دریافت کیا گیا کہ '' ہم حیات طیبہ عنایت کریں گے ''اس آیت میں حیات طیبہ سے مراد کیا ہے ؟۔فرمایا : قناعت۔

(۲۳۰)

جس کی طرف روزی کا رخ ہو اس کے ساتھ شریک ہو جائو کہ یہ دولت مندی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ اور خوش نصیبی کا بہترین قرینہ ہے۔

(۱)اس مقام پر چار عظیم نکات زندگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لہٰذا انسان کو ان کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور صبرو شکر کے ساتھ زندگی گذارنی چاہیے۔نہ شکوہ و فریاد شروع کردے اورنہ دولت کی غلامی پر آمادہ ہوجائے ۔قرآن پڑھے تواس پر عمل بھی کرے اور دنیا میں رہے تو اس سے ہوشیار بھی رہے۔

۶۹۶

۲۳۱ - وقَالَعليه‌السلام : فِي قَوْلِه تَعَالَى( إِنَّ الله يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ والإِحْسانِ ) - الْعَدْلُ الإِنْصَافُ والإِحْسَانُ التَّفَضُّلُ.

۲۳۲ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ يُعْطِ بِالْيَدِ الْقَصِيرَةِ يُعْطَ بِالْيَدِ الطَّوِيلَةِ.

قال الرضي - ومعنى ذلك أن ما ينفقه المرء من ماله - في سبيل الخير والبر وإن كان يسيرا - فإن الله تعالى يجعل الجزاء عليه عظيما كثيرا - واليدان هاهنا عبارة عن النعمتين - ففرقعليه‌السلام بين نعمة العبد - ونعمة الرب تعالى ذكره بالقصيرة والطويلة - فجعل تلك قصيرة وهذه طويلة - لأن نعم الله أبدا - تضعف على نعم المخلوق أضعافا كثيرة - إذ كانت نعم الله أصل النعم كلها - فكل نعمة إليها ترجع ومنها تنزع.

(۲۳۱)

آیت کریمہ'' ان اللہ یا مر بالعدل(۱) '' میں عدل ' انصاف ہے اوراحسان فضل و کرم۔

(۲۳۲)

جو عاجز ہاتھ سے دیتا ہے اسے صاحب اقتدار ہاتھ سے ملتا ہے۔

سید رضی : جوشخص کسی کا رخیر میں مختصر مال بھی خرچ کرتا ہے پروردگار اس کی جزاء کوعظیم و کثیر بنا دیتا ہے۔یہاں دونوں '' ید '' سے مراد دونوں نعمتیں ہیں۔بندہ کی نعمت کو ید قصیرہ کہا گیا ہے اورخدائی نعمت کو یدطویلہ ۔اس لئے کہ اللہ کی نعمتیں بندوں کے مقابلہ میں ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہیں۔اور وہی تمام نعمتوں کی اصل اور سب کامرجع و منشاء ہوتی ہے۔

(۱)حضرت عثمان بن مظعون کا بیان ہے کہ میرے اسلام میں استحکام اس دن پیداہوا جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور میں نے جناب ابو طالب سے اس آیت کا ذکر کیا اور انہوں نے فرمایا کہ میرا فرزند محمد (ص) ہمیشہ بلند ترین اخلاق کی باتیں کرتا ہے لہٰذا اس کا اتباع اور اس سے ہدایت حاصل کرنا تمام قریش کا فریضہ ہے۔

۶۹۷

۲۳۳ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه الْحَسَنِ -عليه‌السلام لَا تَدْعُوَنَّ إِلَى مُبَارَزَةٍ وإِنْ دُعِيتَ إِلَيْهَا فَأَجِبْ - فَإِنَّ الدَّاعِيَ إِلَيْهَا بَاغٍ والْبَاغِيَ مَصْرُوعٌ

۲۳۴ - وقَالَعليه‌السلام خِيَارُ خِصَالِ النِّسَاءِ شِرَارُ خِصَالِ الرِّجَالِ - الزَّهْوُ والْجُبْنُ والْبُخْلُ - فَإِذَا كَانَتِ الْمَرْأَةُ مَزْهُوَّةً .لَمْ تُمَكِّنْ مِنْ نَفْسِهَا - وإِذَا كَانَتْ بَخِيلَةً حَفِظَتْ مَالَهَا ومَالَ بَعْلِهَا - وإِذَا كَانَتْ جَبَانَةً فَرِقَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يَعْرِضُ لَهَا.

۲۳۵ - وقِيلَ لَه صِفْ لَنَا الْعَاقِلَ - فَقَالَعليه‌السلام هُوَ الَّذِي يَضَعُ الشَّيْءَ مَوَاضِعَه - فَقِيلَ فَصِفْ لَنَا الْجَاهِلَ

(۲۳۳)

اپنے فرزند امام حسن سے فرمایا: تم کسی کو جنگ کی دعوت(۱) نہ دینالیکن جب کوئی للکار دے تو فوراً جواب دے دینا کہ جنگ کی دعوت دینے والا باغی ہوتا ہے اور باغی بہرحال ہلاک ہونے والا ہے۔

(۲۳۴)

عورتوں کی بہترین خصلتیں جو مردوں کی بد ترین خصلتیں شمار ہوتی ہیں۔ان میں غرور۔بزدلی اور بخل ہے کہ عورت(۲) اگر مغرورہوگی تو کوئی اس پر قابو نہ پاسکے گا اوراگربخیل ہوگی تو اپنے اور اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرے گی اوراگر بزدل ہوگی تو ہر پیش آنے والے خطرہ سے خوفزدہ رہے گی۔

(۲۳۵)

آپ سے گزارش کی گئی کہ عاقل کی توصیف فرمائیں۔تو فرمایا کہ عاقل وہ ہے جو ہرشے کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے۔عرض کیا گیا پھر جاہل کی تعریف کیا

(۱)اسلام کا توازن عمل یہی ہے کہ جنگ میں پہل نہ کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو اس کو نظرانداز کیا جائے لیکن اس کے بعد اگر دشمن جنگ کی دعوت دیدے تو اسے نظرانداز بھی نہ کیا جائے کہ اس طرح اسے اسلام کی کمزوری کا احساس پیداہو جائے گا اوراس کے حوصلے بلند ہو جائیں گے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہاسے یہ محسوس کرادیا جائے کہ اسلام کمزور نہیں ہے لیکن پہل کرنا اس کے اخلاقی اصول و آئین کے خلاف ہے۔

(۲)یہ تفصیل اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں صفات انہیں بلند ترین مقاصد راہ میں محبوب ہیں ورنہ ذاتی طور پر نہ غرور محبوب ہو سکتا ہے اور نہ بخل و بزدلی۔ہر صفت اپنے مصرف کے اعتبار سے خوبی یا خراجی پیدا کرتی ہے اور عورت کے یہ صفات انہیں مقاصد کے اعتبار سے پسندیدہ ہیں مطلق طور پر یہ صفات کسی کے لئے بھی پسندیدہ نہیں ہو سکتے ہیں۔

۶۹۸

فَقَالَ قَدْ فَعَلْتُ.

قال الرضي - يعني أن الجاهل هو الذي لا يضع الشيء مواضعه - فكأن ترك صفته صفة له - إذ كان بخلاف وصف العاقل.

۲۳۶ - وقَالَعليه‌السلام واللَّه لَدُنْيَاكُمْ هَذِه - أَهْوَنُ فِي عَيْنِي مِنْ عِرَاقِ خِنْزِيرٍ فِي يَدِ مَجْذُومٍ

۲۳۷ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ - وإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ - وإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّه شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الأَحْرَارِ.

۲۳۸ - وقَالَعليه‌السلام الْمَرْأَةُ شَرٌّ كُلُّهَا وشَرُّ مَا فِيهَا أَنَّه لَا بُدَّ مِنْهَا.

ہے۔ فرمایا یہ تو میں بیان کر چکا ۔

سید رضی : مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو ہرشے کو بے محل رکھتا ہے اور اس کا بیان نہ کرنا ہی ایک طرح کا بیان ہے کہ وہ عاقل کی ضد ہے۔

(۲۳۶)

خداکی قسم یہ تمہاری دنیا میری نظر کوڑھی کے ہاتھ میں سور(۱) کی ہڈی سے بھی بد تر ہے۔

(۲۳۷)

ایک قوم ثواب کی لالچ میں عبادت کرتی ہے تو یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قوم عذاب کے خوف سے عبادت کرتی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے۔اصل وہ قوم ہے جو شکرخدا کے عنوان سے عبادت کرتی ہے اور یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے۔

(۲۳۸)

عورت سرپا شر(۲) ہےاور اس کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس کے بغیر کام بھی نہیں چل سکتا ہے۔

(۱)ایک تو سور جیسے نجس العین جانورکی ہڈی اوروہ بھی کوڑھی انسان کے ہاتھ میں۔اس سے زیادہ نفرت انگیز شے دنیا میں کیا ہو سکتی ہے۔امیر المومنین نے اس تعبیر سے اسلام اور عقل دونوں کے تعلیمات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اسلام نجس العین سے اجتناب کیدعوت دیتا ہے اور عقل متعدی امراض کے مریضوں سے بچنے کی دعوت دیتی ہے۔ایسے حالات میں اگر کوئی شخص دنیا پر ٹوٹ پڑے تو نہ مسلمان کہے جانے کے قابل ہے اور نہ صاحب عقل۔

(۲)بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت کا یہ اشارہ کسی '' خاص عورت '' کی طرف ہے ورنہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ عورت کی صنف کو شر قرار دے دیا جائے اور اسے اس حقارت کی نظر سے دیکھا جائے '' لا بد منھا '' اس رشتہ کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا ہے اور ان کے بغیر زندگی کو ادھورا اور نامکمل قراردیا گیا ہے ۔

۶۹۹

۲۳۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَطَاعَ التَّوَانِيَ ضَيَّعَ الْحُقُوقَ - ومَنْ أَطَاعَ الْوَاشِيَ ضَيَّعَ الصَّدِيقَ.

۲۴۰ - وقَالَعليه‌السلام الْحَجَرُ الْغَصِيبُ فِي الدَّارِ رَهْنٌ عَلَى خَرَابِهَا.

قال الرضي - ويروى هذا الكلام عن النبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولا عجب أن يشتبه الكلامان - لأن مستقاهما من قليب ومفرغهما من ذنوب

۲۴۱ - وقَالَعليه‌السلام يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ - أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظَّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.

۲۴۲ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقِ اللَّه بَعْضَ التُّقَى وإِنْ قَلَّ - واجْعَلْ بَيْنَكَ وبَيْنَ اللَّه سِتْراً وإِنْ رَقَّ.

۲۴۳ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا ازْدَحَمَ الْجَوَابُ خَفِيَ الصَّوَابُ.

(۲۳۹)

جوشخص کاہلی اور سستی سے کام لیتا ہے وہ اپنے حقوق کوبھی برباد کردیتا ہے اورجوچغل خور کی بات مان لیتا ہے وہ دوستوں کوبھی کھو بیٹھتا ہے۔

(۲۴۰)

گھرمیں ایک پتھر بھی غصبی لگا ہوتو وہ اس کی بربادی کی ضمانت ہے۔

سیدرضی : اس کلام کو رسول اکرم (ص) سے بھی نقل کیا گیا ہے اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ دونوں کا سر چ شمہ علم ایک ہی ہے۔

(۲۴۱)

مظلوم کا دن (قیامت ) ظالم کے لئے اس دن سے سخت تر ہوتا ہے جو ظالم کا مظلوم کے لئے ہوتا ہے۔

(۲۴۲)

اللہ کا ہر نعمت میں ایک حق ہے۔جو اسے ادا کردے گا۔اللہ اس کی نعمت کو بڑھا دے گا اورکو کوتاہی کرے گا وہموجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا۔

(۲۴۳)

جب جوابات کی کثرت ہو جاتی ہے تو اصل بات گم ہو جاتی ہے۔

۷۰۰

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863