نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 564740
ڈاؤنلوڈ: 13184

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 564740 / ڈاؤنلوڈ: 13184
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲۴۴ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلَّه فِي كُلِّ نِعْمَةٍ حَقّاً - فَمَنْ أَدَّاه زَادَه مِنْهَا - ومَنْ قَصَّرَ فِيه خَاطَرَ بِزَوَالِ نِعْمَتِه.

۲۴۵ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَثُرَتِ الْمَقْدِرَةُ قَلَّتِ الشَّهْوَةُ.

۲۴۶ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرُوا نِفَارَ النِّعَمِ فَمَا كُلُّ شَارِدٍ بِمَرْدُودٍ.

۲۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الْكَرَمُ أَعْطَفُ مِنَ الرَّحِمِ

۲۴۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْراً فَصَدِّقْ ظَنَّه.

(۲۴۴)

اللہ کا ہر نعمت میں ایک حق ہے۔جو اسے ادا کردے گا۔اللہ اس کی نعمت کو بڑھادے گا اور جو کوتاہی کرے گا وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا۔

(۲۴۵)

جب طاقت زیادہ(۱) ہو جاتی ہے توخواہش کم ہو جاتی ہے۔

(۲۴۶)

نعمتوں کے زوال سے ڈرتے رہو کہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز واپس نہیں آیا کرتی ہے۔

(۲۴۷)

جذبہ کرم قرابت داری سے زیادہ مہربانی کا باعث ہوتا ہے۔

(۲۴۸)

جو تمہارے بارے میں اچھا خیال(۲) رکھتا ہو اس کے خیال کو سچا کرکے دکھلا دو۔

(۱)جب فطرت کا یہ نظام ہے کہ کمزور آدمی میں خواہش زیادہ ہوتی ہے اور طاقتور اس قدرخواہشات کاحامل نہیں ہوتا ہے تو سیاسی دنیا میں بھی انسان کا طرزعمل ویسا ہی ہونا چاہیے کہ جس قدر طاقت و قوت میںاضافہ ہوتا ہے اپنے کوخواہشات دنیا سے بے نیاز بناتا جائے اور اپنے کردار سے یہ ثابت کردے کہ اس کی زندگی نظام فطرت سے الگ اور جدا گانہ نہیں ہے۔

(۲)یہ انسانی زندگی کا انتہائی حساس نکتہ ہے کہ انسان عام طور سے لوگوں کو حسن ظن میں مبتلا پا کراس سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اوراسے یہ خیال پیداہو جاتا ہے کہ جب لوگ شراب خانہمیں دیکھ کر بھی یہی تصور کریںگے کہ تبلیغ مذہب کے لئے گئے تھے تو شراب خانہ سے فائدہ اٹھالینا چاہیے حالانکہ تقاضئاے عقل ودانش اورمقتضائے شرافت وانسانیت یہ ہے کہ لوگ جس قدر شریف تصورکرتے ہیں۔اتنی شرافت کا اثبات کرے اور ان کے حسن ظن کو سوظن میں تبدیل نہ ہونے دے ۔

۷۰۱

۲۴۹ - وقَالَعليه‌السلام أَفْضَلُ الأَعْمَالِ مَا أَكْرَهْتَ نَفْسَكَ عَلَيْه.

۲۵۰ - وقَالَعليه‌السلام عَرَفْتُ اللَّه سُبْحَانَه بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ - وحَلِّ الْعُقُودِ ونَقْضِ الْهِمَمِ.

۲۵۱ - وقَالَعليه‌السلام مَرَارَةُ الدُّنْيَا حَلَاوَةُ الآخِرَةِ - وحَلَاوَةُ الدُّنْيَا مَرَارَةُ الآخِرَةِ.

۲۵۲ - وقَالَعليه‌السلام فَرَضَ اللَّه الإِيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ - والصَّلَاةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ - والزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ - والصِّيَامَ ابْتِلَاءً لإِخْلَاصِ الْخَلْقِ - والْحَجَّ تَقْرِبَةً لِلدِّينِ - والْجِهَادَ عِزّاً لِلإِسْلَامِ - والأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَوَامِّ - والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعاً لِلسُّفَهَاءِ - وصِلَةَ الرَّحِمِ مَنْمَاةً لِلْعَدَدِ - والْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ - وإِقَامَةَ الْحُدُودِ إِعْظَاماً لِلْمَحَارِمِ

(۲۴۹)

بہترین عمل وہ ہے جس پر تمہیں(۱) اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے ۔

(۲۵۰)

میں نے پروردگار کو ارادوں کے ٹوٹ جانے ' نیتوں کے بدل جانے اورہمتوں کے پست ہو جانے سے پہچانا ہے۔

(۲۵۱)

دنیا کی تلخی آخرت کی شیرینی ہے اور دنیا کی شیرینی آخرت کی تلخی ۔

(۲۵۲)

اللہ نے ایمان کو لازم قراردیا ہے شرک سے پاک کرنے کے لئے۔اور نماز کو واجب کیا ہے غرور سے باز رکھنے کے لئے۔زکوٰة کو رزق کا وسیلہ قرار دیاہے اور روزہ کوآزمائش اخلاص کاوسیلہ ۔جہاد کواسلام کی عزت کے لئے رکھا ہے اور امر بالمعروف کو عوام کی مصلحت کے لئے۔نہی عن المنکر کو بیوقوفوں کو برائیوں سے روکنے کے لئے واجب کیا ہے اور صلہ رحم عدد میں اضافہ کے لئے ۔قصاص خون کے تحفظ کا وسیلہ ہے اور حدود کا قیام محرمات کی اہمیت کے سمجھانے کا

(۱)انسان تمام اعمال کونفسکی خواہش کے مطابق انجام دے گا تو ایک دن نفس کاغلام ہو کر رہ جائے گا لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسے اعمال انجام دیتا رہے جہاں نفس پر جبر کرنا پڑے اوراسے اس کی اوقات سے آشنا بناتا رہے تاکہ اس کے حوصلے اس قدربلند نہ ہوجائیںکہ انسان کو مکمل طور پراپنی گرفت میں لیلے اور پھرنجات کاکوئی راستہ نہ رہ جائے ۔

۷۰۲

وتَرْكَ شُرْبِ الْخَمْرِ تَحْصِيناً لِلْعَقْلِ - ومُجَانَبَةَ السَّرِقَةِ إِيجَاباً لِلْعِفَّةِ - وتَرْكَ الزِّنَى تَحْصِيناً لِلنَّسَبِ - وتَرْكَ اللِّوَاطِ تَكْثِيراً لِلنَّسْلِ - والشَّهَادَاتِ اسْتِظْهَاراً عَلَى الْمُجَاحَدَاتِ - وتَرْكَ الْكَذِبِ تَشْرِيفاً لِلصِّدْقِ - والسَّلَامَ أَمَاناً مِنَ الْمَخَاوِفِ - والأَمَانَةَ نِظَاماً لِلأُمَّةِ - والطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلإِمَامَةِ.

۲۵۳ - وكَانَعليه‌السلام يَقُولُ: أَحْلِفُوا الظَّالِمَ إِذَا أَرَدْتُمْ يَمِينَه - بِأَنَّه بَرِيءٌ

ذریعہ۔شراب خواری کو عقل کی حفاظت کے لئے حرام قراردیا ہے اورچوری سے اجتناب کو عفت کی حفاظت کے لئے لازم قرار دیا ہے۔ترک زنا کا لزوم نسب کی حفاظت کے لئے ہے اور ترک لواط(۱) کی ضرورت نسل کی بقا کے لئے ہے۔گواہیوں کو انکارکے مقابلہ میں ثبوت کا ذریعہ قراردیا گیا ہے اور ترک کذب کو صدق کی شرافت کا وسیلہ ٹھہرادیا گیا ہے۔قیام امن کو خطروں سے تحفظ کے لئے رکھا گیا ہے اور امامت کو ملت کی تنظیم کاوسیلہ قراردیا گیا ہے اور پھر اطاعت کو عظمت امامت کی نشانی قراردیا گیا ہے۔

(۲۵۳)

کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس طح قسم لو کہ وہ پروردگار کی طاقت اور قوت سے بیزار ہے اگر اس کا

(۱)یہ اسلام کا عالم انسانیت پر عمومی احسان ہے کہ اس نے اپنے قوانین کے ذریعہ انسانی آبادی کو بڑھانے کا انتظام کیا ہے اور پھرحرام زادوں کی درآمد کو روک دیا ہے تاکہ عالم انسانیت میں شریف افراد پیداہوں اور یہ عالم ہر قسم کی بربادی اور تباہکاری سے محفوظ رہے۔اس کے بعد اس کا صنف نسواں پر خصوصی احسان یہ ہے کہ اس نے عورت کے علاوہ جنسی تسکین کے ہر راستہ کوبند کردیا ہے۔کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان میں جب جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے تو اسے عورت کی ضرورت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور کسی بھی طرقہ سے جب وہ ہیجانی مادہنکل جاتا ہے تو کسی مقدار میں سکون حاصل ہو جاتا ہے اور جذبات کا طوفان ک جاتا ہے۔اہل دنیا نے اس مادہ کے اخراج کے مختلف طریقے ایجاد کئے ہیں۔اپنی جنس کاکوئی مل جاتا ہے تو ہم جنسی سے تسکین حاصل کر لیتے ہیں اور اگر کوئی نہیں ملتا ہے تو خود کاری کا عمل انجام دے لیتے ہیں اور اس طرح عورت کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج آزاد معاشروں میں عورت عضو معطل ہوکر رہ گئی ہے اور ہزار وسائل اختیارکرنے کے بعد بھی اس کے طلب گاروں کی فہرست کم سے کمتر ہوتی جارہی ہے۔اسلام نے اس خطرناک صورت حال کامقابلہ کرنے کے لئے مجامعت کے علاوہ ہر وسیلہ تسکین کو حرام کردیا تاکہ مرد عورت کے وجودسے بے نیاز نہ ہونے پائے اورعورت کاوجود معاشرہ میں غیر ضروری نہ قرار پا جائے ۔

افسوس کہ اس آزادی اور عیاشی کی ماری ہوئی دنیامیں اس پاکیزہ تصورکا قدردان کوئی نہیں ہے اور سب اسلام پر عورت کی ناقدری ہی کا الزام لگاتے ہیں ۔گویا ان کی نظر میں اسے کھولنا بنالینا اور کھیلنے کے بعد پھینک دینا ہی سب سے بڑی قدردانی ہے۔

۷۰۳

مِنْ حَوْلِ اللَّه وقُوَّتِه فَإِنَّه إِذَا حَلَفَ بِهَا كَاذِباً عُوجِلَ - الْعُقُوبَةَ وإِذَا حَلَفَ بِاللَّه الَّذِي لَا إِلَه إِلَّا هُوَ لَمْ يُعَاجَلْ - لأَنَّه قَدْ وَحَّدَ اللَّه تَعَالَى.

۲۵۴ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ كُنْ وَصِيَّ نَفْسِكَ - فِي مَالِكَ واعْمَلْ فِيه مَا تُؤْثِرُ أَنْ يُعْمَلَ فِيه مِنْ بَعْدِكَ.

۲۵۵ - وقَالَعليه‌السلام الْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِنَ الْجُنُونِ - لأَنَّ صَاحِبَهَا يَنْدَمُ - فَإِنْ لَمْ يَنْدَمْ فَجُنُونُه مُسْتَحْكِمٌ.

۲۵۶ - وقَالَعليه‌السلام صِحَّةُ الْجَسَدِ مِنْ قِلَّةِ الْحَسَدِ.

۲۵۷ - وقَالَعليه‌السلام لِكُمَيْلِ بْنِ زِيَادٍ النَّخَعِيِّ - يَا كُمَيْلُ مُرْ أَهْلَكَ أَنْ يَرُوحُوا فِي كَسْبِ الْمَكَارِمِ - ويُدْلِجُوا فِي حَاجَةِ مَنْ هُوَ نَائِمٌ - فَوَالَّذِي وَسِعَ سَمْعُه الأَصْوَاتَ -

بیان صحیح نہ ہو۔کہ اگ اس طرح جھوٹی قسم کھائے گا تو فوراً مبتلائے عذاب ہو جائے گا اور اگر خدائے وحدہ لا شریک کے نام کی قسم کھائی تو عذاب میں عجلت نہ ہوگی کہ بہرحال تو حید پروردگار کا اقرار کرلیا ہے۔

(۲۵۴)

فرزند آدم ! اپنے مال میں اپناوصی خود بن اور وہ کام خود انجام دے جس کے بارے میں امید رکھتا ہے کہ لوگ تیرے بعدانجام دے دیں گے ۔

(۲۵۵)

غصہ جنون کی ایک قسم ہے کہ غصہ ورکو بعد میں پشیمان ہونا پڑتا ہے اور پشیمان نہ ہو تو واقعاً اس کا جنون مستحکم ہے۔

(۲۵۶)

بدن کی صحت کا ایک ذریعہ حسد کی قلت بھی ہے۔

(۲۵۷)

اے کمیل! اپنے گھر والوں کو حکم دو کہ اچھی خصلتوں کو تلاش کرنے کے لئے دن میں نکلیں اور سوجانے والوں کی حاجت روائی کے لئے رات میں قیام کریں۔قسم ہے اس ذات کی جو ہر آواز کی سننے والی ہے کہ

۷۰۴

مَا مِنْ أَحَدٍ أَوْدَعَ قَلْباً سُرُوراً - إِلَّا وخَلَقَ اللَّه لَه مِنْ ذَلِكَ السُّرُورِ لُطْفاً - فَإِذَا نَزَلَتْ بِه نَائِبَةٌ جَرَى إِلَيْهَا كَالْمَاءِ فِي انْحِدَارِه - حَتَّى يَطْرُدَهَا عَنْه كَمَا تُطْرَدُ غَرِيبَةُ الإِبِلِ.

۲۵۸ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَمْلَقْتُمْ فَتَاجِرُوا اللَّه بِالصَّدَقَةِ.

۲۵۹ - وقَالَعليه‌السلام الْوَفَاءُ لأَهْلِ الْغَدْرِ غَدْرٌ عِنْدَ اللَّه - والْغَدْرُ بِأَهْلِ الْغَدْرِ وَفَاءٌ عِنْدَ اللَّه.

کوئی شخص کسی دل میں سرور وارد نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ پروردگار اس کے لئے اس سرور سے ایک لطف پیداکر دیتا ہے۔کہ اس کے بعد اگر اس پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے ۔تو وہ لطف(۱) اس کی طرف نشیب کی جانب بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھتا ہے اور اس مصیبت کو یوں ہنکا دیتا ہے جس طرح اجنبی اونٹ ہنکائے جاتے ہیں۔

(۲۵۸)

جب غربت کا شکار ہوجائو تو اللہ سے صدقہ کے ذریعہ تجارت(۲) کرلو(صدقہ صرف دولت مندوں کے لئے نہیں ہے )

(۲۵۹)

غداروں سے وفاداری بھی اللہ کے نزدیک ایک قسم کی غداری ہے اور غداروں سے بیوفائی ایک طرح کی وفاداری ہے۔

(۱)لطف پروردگار کا بہترین وسیلہ مومنین کے دلوں میں سرور کا داخل کرنا ہے اور ادخال سرور کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کی جاجت برآری کے لئے اس وقت کا انتخاب کیا جائے جب ساری دنیا خواب غفلت میں ہو کہ اس طرح کا رخیر کرنے والے کے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے اور غریب وفقر انسان کی عزت وآبرو کاتحفظ ہوتا ہے اوراسے اس کارخیرسے فرحت بھی زیادہ حاصل ہوتی ہے کہ وہ دن بھر کی تگ و دو سے عاجز اور مایوس ہوکر بستر خواب کی طرف آیا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ایسے اوقات میں کار خیرکی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔

(۲)عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صدقہ اورکارخیر صرف بڑے لوگوں کے لئے ہے اورغریبوں کاکام صرف صدقات و خیرات کا گزارا کرنا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔دنیا میں جس طرح ہر امیر سے بڑا امیر پڑا ہوا ہے اسی طرح ہر فقیر سے بڑا فقیر بھی پایا جاتا ہے۔لہٰذا کوئی بھی انسان اگر کسی امیر کے اعتبارسے فقیر اورمحتاج خیرات ہے تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے فقیر کے اعتبارسے دولت مند اور مطمئن تصور کیاجاتا ہولہٰذا اس کا فرض ہے کہ اپنے سے کمتر افراد پر رحم کرے تاکہ پروردگار اس کی غربت پر مزیدرحم کرے کہ غربت کے عالم میں کارخیر دولت مندوں کے کارخیر سے یقینا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

۷۰۵

۲۶۰ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه - ومَغْرُورٍ بِالسَّتْرِ عَلَيْه - ومَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه - ومَا ابْتَلَى اللَّه سُبْحَانَه أَحَداً بِمِثْلِ الإِمْلَاءِ لَه.

قال الرضي - وقد مضى هذا الكلام فيما تقدم - إلا أن فيه هاهنا زيادة جيدة مفيدة

(۲۶۰)

کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں احسان کے ذریعہ عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور وہ پردہ پوشی(۱) کی بنا پر دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں اورلوگوں کے اچھے الفاظ سن کرف ریب خوردہ ہوگئے ہیں۔اللہ نے کسی بھی شخص کا امتحان مہلت سے زیادہ بہتر کسی ذریعہ سے نہیں لیا ہے ۔

سید رضی : یہ بات پہلے گذر چکی تھی لیکن اس میں قدرے مفید اضافہ تھا اس لئے دوبارہ نقل کردی گئی ہے۔

(۱)خدا جانتا ہے کہ مالک کائنات اگرجبر کے ذریعہ انسان کو راہ راست پرلانا چاہتا تواسے طاقت استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور کسی کے سر پر جلادوں کے مسلط کرنے کا کوئی کام نہیں تھا۔وہ صرف عیوب کی پردہ پوشی کا سلسلہ ختم کردیتا اور ایک نظام بنادیتا کہ جو انسان بھی خلوت اور تنہائی میں کوئی غلط کام انجام دے گا یا اپنے دل و دماغ میں کسی غلط تصور کوجگہ دے گا۔اس کے اس عیب کا فوری اعلان کردیا جائے گا۔اور اسے اس کی پیشانی پر لکھ دیا جائے گا۔تو سارے انسان ایک لمحہ میں شریف ہو جاتے ہیں اور نہ کسی میں غداری اورمکاری کی ہمت ہوتی اورنہ کوئی منافقت اور ریاکاری سے کام لینے کی جرأت کرتا۔ہر انسان شریف ہوتا اور معاشرہ پاکیزہ کرداروں کا معاشرہ ہوتا لیکن وہ کسی طرح کے جبرو اکراہ کو استعمال نہیں کرنا چاہتا ہے اور انسان سے اسی کی شرافت کے راستہ سے کام لینا چاہتا ہے۔ورنہ جبرو اکراہ کو استعمال کرنا ہوتا تو شیطان سے بھی سجدہ کرایا جاتا تھا اور اسے اس قدر مہلت دینے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

۷۰۶

فصل

نذكر فيه شيئا من غريب كلامه المحتاج إلى التفسير

۱ - وفي حديثهعليه‌السلام

فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ ضَرَبَ يَعْسُوبُ الدِّينِ بِذَنَبِه - فَيَجْتَمِعُونَ إِلَيْه كَمَا يَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ.

قال الرضي - يعسوب الدين اليعسوب - السيد العظيم المالك لأمور الناس يومئذ - والقزع قطع الغيم التي لا ماء فيها.

۲ - وفي حديثهعليه‌السلام

هَذَا الْخَطِيبُ الشَّحْشَحُ.

يريد الماهر بالخطبة الماضي فيها - وكل ماض في كلام أو سير فهو شحشح - والشحشح في غير هذا الموضع البخيل الممسك

۳ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ لِلْخُصُومَةِ قُحَماً.

يريد بالقحم المهالك -

فصل

اس فصل میں حضرت کے ان کلمات کو نقل کیا گیا ہے جو محتاج تفسیر تھے اور پھر ان کی تفسیر و توضیح بھی نقل کیا گیا ہے۔

(۱)

جب وہ وقت آئے گا تو دین کا یعسوب اپنی جگہ پر قرار پائے گا اور لوگ اس کے پاس اس طرح جمع ہوں گے جس طرح موسم خریف کے قزع۔

سید رضی : یعسوب اس سردار کو کہا جاتا ہے جوت مام امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اور قزع بادلوں کے ان ٹکڑوں کا نام ہے جن میں پانی نہ ہو۔

(۲)

یہ خطیب شحشح ( صعصعہ بن صوحان عبدی)

شحشح اس خطیب کو کہتے ہیں جوخطابت میں ماہر ہوتا ہے اور زبان آوری یا رفتار میں تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر شحشح بخیل اور کنجوس کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

(۳)

لڑائی جھگڑے کے نتیجہ میں قحم ہوتے ہیں۔

قحم سے مراد تباہیاں ہیں۔کہ یہ لوگوں کی

۷۰۷

لأنها تقحم أصحابها في المهالك والمتالف في الأكثر - فمن ذلك قحمة الأعراب - وهو أن تصيبهم السنة فتتعرق أموالهم - فذلك تقحمها فيهم - وقيل فيه وجه آخر وهو أنها تقحمهم بلاد الريف - أي تحوجهم إلى دخول الحضر عند محول البدو.

۴ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِذَا بَلَغَ النِّسَاءُ نَصَّ الْحِقَاقِ فَالْعَصَبَةُ أَوْلَى.

والنص منتهى الأشياء ومبلغ أقصاها - كالنص في السير لأنه أقصى ما تقدر عليه الدابة - وتقول نصصت الرجل عن الأمر - إذا استقصيت مسألته عنه لتستخرج ما عنده فيه - فنص الحقاق يريد به الإدراك لأنه منتهى الصغر - والوقت الذي يخرج منه الصغير إلى حد الكبير - وهو من أفصح الكنايات عن هذا الأمر وأغربها - يقول فإذا بلغ النساء ذلك - فالعصبة أولى بالمرأة من أمها - إذا كانوا محرما مثل الإخوة والأعمام - وبتزويجها إن أرادوا ذلك -. والحقاق محاقة الأم للعصبة في المرأة - وهو الجدال والخصومة - وقول كل واحد منهما للآخر أنا أحق منك بهذا - يقال منه حاققته حقاقا مثل جادلته جدالا –

وقد قيل إن نص الحقاق بلوغ العقل وهو الإدراك - لأنهعليه‌السلام إنما أراد منتهى الأمر - الذي تجب فيه الحقوق والأحكام

ہلاکتوں میں گرادیتی ہیں اور اسی سے لفظ '' قحمتہ الاعراب '' نکلا ہے جب ایسا قحط پڑ جاتا ہے کہ جانور صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہجاتے ہیں اور گویا یہاس بلا میں ڈھکیل دئیے جاتے ہیں ۔یادوسرے اعتبارسے قحط سالی ان کی صحرائوں سے نکال کر شہروں کی طرف ڈھکیل دیتی ہے۔

(۴)

جب لڑکیاں نص الحقاق تکپ ہنچ جائیں تو ددھیالی قرابتدار زیادہ اولویت رکھتے ہیں۔

نص : آخری منزل کو کہا جاتا ہے۔

نصصت الرجل: یعنی جہاں تک ممکن تھا اس سے سوال کرلیا۔نص الحقاق سے مراد منزل ادراک ہے جو بچپنے کی آخری حد ہے اور یہاس سلسلہ کا بہترین کنایہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جب لڑکیاں حد بلوغ تک پہنچ جاتیں ہیں تو ددھیالی رشتہ دار جو محرم بھی ہوں جیسے بھائی اورچچا وغیرہ وہ اس کا رشتہ کرنے کے لئے ماں کے مقابلہ میں زیادہ اولویت رکھتے ہیں۔اور حقاق سے ماں کا ان رشتہ داروں سے جھگڑا کرنا اور ہرایک کا اپنے کو زیادہ حقدار ثابت کرنا مراد ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے '' حاققتہ حقاقا'' جادلتہ جدالا''

اوربعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نص الحقاق کمال عقل ہے جب لڑکی ادراک کی اس منزل پر ہوتی ہے جہاں اس کے ذمہ فرائض واحکام ثابت ہو جاتے ہیں اور

۷۰۸

ومن رواه نص الحقائق - فإنما أراد جمع حقيقة.

هذا معنى ما ذكره أبو عبيد القاسم بن سلام -. والذي عندي أن المراد بنص الحقاق هاهنا - بلوغ المرأة إلى الحد الذي يجوز فيه تزويجها - وتصرفها في حقوقها - تشبيها بالحقاق من الإبل وهي جمع حقة وحق - وهو الذي استكمل ثلاث سنين ودخل في الرابعة - وعند ذلك يبلغ إلى الحد الذي يتمكن فيه - من ركوب ظهره ونصه في السير - والحقائق أيضا جمع حقة - فالروايتان جميعا ترجعان إلى معنى واحد - وهذا أشبه بطريقة العرب من المعنى المذكور أولا.

۵ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ الإِيمَانَ يَبْدُو لُمْظَةً فِي الْقَلْبِ - كُلَّمَا ازْدَادَ الإِيمَانُ ازْدَادَتِ اللُّمْظَةُ.

واللمظة مثل النكتة أو نحوها من البياض - ومنه قيل فرس ألمظ - إذا كان بجحفلته شيء من البياض. 

جن لوگوں نے نص الحقائق نقل کیا ہے۔ان کے یہاں حقائق حقیقت کی جمع ہے۔یہ ساری باتیں ابو عبیدہ القاسم بن سلام نے بیان کی ہیں لیکن میرے نزدیک عورت کا قابل شادی اور قابل تصرف ہو جانا مراد ہے کہ حقاق حقہ کی جمع ہے اورحقہ وہ اونٹنی ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو جائے اور اس وت سواری کے قابل ہو جاتی ہے ۔اور حقائق بھی حقہ ہی کے جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہ مفہوم عرب کے اسلوب سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔

(۵)

ایمان ایک لمظہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر ایمان کے ساتھ یہ لمظہ بھی بڑھتا رہتا ہے ( لمظہ سفید نقطہ ہوتا ہے جو گھوڑے کے ہونٹ پر ظاہر ہوتا ہے )

۷۰۹

۶ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا كَانَ لَه الدَّيْنُ الظَّنُونُ - يَجِبُ عَلَيْه أَنْ يُزَكِّيَه لِمَا مَضَى إِذَا قَبَضَه.

فالظنون الذي لا يعلم صاحبه - أيقبضه من الذي هو عليه أم لا - فكأنه الذي يظن به - فمرة يرجوه ومرة لا يرجوه - وهذا من أفصح الكلام - وكذلك كل أمر تطلبه - ولا تدري على أي شيء أنت منه فهو ظنون - وعلى ذلك قول الأعشى:

ما يجعل الجد الظنون الذي

جنب صوب اللجب الماطر

مثل الفراتي إذا ما طما

يقذف بالبوصي والماهر

والجد البئر العادية في الصحراء - والظنون التي لا يعلم هل فيها ماء أم لا.

۷ - وفي حديثهعليه‌السلام

أنَّه شَيَّعَ جَيْشاً بِغَزْيَةٍ فَقَالَ - اعْذِبُوا عَنِ النِّسَاءِ مَا اسْتَطَعْتُمْ.

(۶)

جب کسی شخص کو دین ظنون مل جائے تو جتنے سال گزرے گئے ہوں ان کی زکوٰة واجب ہے۔

ظنون اس قرض کا نام ہے جس کے قرضدار کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ وصول بھی ہو سکے گا یا نہیں اور اس طرح ' طرح طرح کے خیالات پیدا ہو تے رہتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہر ایسے امر کو ظنون کہا جاتا ہے 'جیسا کہ اعشیٰ نے کہا ہے۔

''وہ جدظنون جو گرج کربرسنے والے ابر کی بارش سے بھی محروم ہو۔اسے دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جا سکتا ے جب کہ وہ ٹھاٹھیں مار رہا ہو اور کشتی اور تیراک دونوں کوڈھکیل کر باہر پھینک رہا ہو۔''

جد۔صحراکے پرانے کنویں کوکہاجاتا ہے اور ظنون اس کوکہا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ نہ معلوم ہو کہ اس میں پانی ہے یا نہیں ۔

(۷)

آپ نے ایک لشکر کومیدان جنگ میں بھیجتے ہوئے فرمایا : جہاں تک ممکن ہو عورتوں سے عاذبرہو یعنی ان کی یاد سے دور رہو

۷۱۰

ومعناه اصدفوا عن ذكر النساء وشغل القلب بهن - وامتنعوا من المقاربة لهن - لأن ذلك يفت في عضد الحمية - ويقدح في معاقد العزيمة ويكسر عن العدو - ويلفت عن الإبعاد في الغزو - فكل من امتنع من شيء فقد عذب عنه - والعاذب والعذوب الممتنع من الأكل والشرب.

۸ - وفي حديثهعليه‌السلام

كَالْيَاسِرِ الْفَالِجِ يَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزَةٍ مِنْ قِدَاحِه. الياسرون - هم الذين يتضاربون بالقداح على الجزور - والفالج القاهر والغالب - يقال فلج عليهم وفلجهم - وقال الراجز.

لما رأيت فالجا قد فلجا

۹ - وفي حديثهعليه‌السلام

كُنَّا إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنَّا أَقْرَبَ إِلَى الْعَدُوِّ مِنْه.

۔ان میں دل مت لگائو اور ان سے مقاربت مت کرو کہ یہ طریقہ کار بازوئے حمیت میں کمزوری اور عزم کی پختگی میں سستی پیدا کردیتا ہے اور دشمن کے مقابلہ میں کمزور بنا دیتا ہے اور جنگ میں کوشش و سعی سے رو گردان کر دیتا ہے اورجوان تمام چیزوں سے الگ رہتا ہے اسے عاذب کہا جاتا ہے۔عاذب یا عذوب کھانے پینے سے دور رہنے والے کوبھی کہا جاتا ہے۔

(۸)

وہ اس یاسر فالج کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ہی مرحلہ پر کامیابی کی امید لگا لیتا ہے '' یا سرون '' وہ لوگ ہیں جونحرکی ہوئی اونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ہیں اورفالج ان میں کامیاب ہو جانے والے کو کہا جاتا ہے '' فلج علیھم '' یا '' فلجھم'' اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب کوئی غالب آجاتا ہے 'جیسا کہ رجز خواں شاعر نے کہا ہے :

'' جب میں نے کسی فالج کو دیکھا کہ وہ کامیاب ہوگیا''

(۹)

جب احمرار باس ہوتا تھا تو ہم لوگ رسول اکرم(ص) کی(۱) پناہ میں رہا کرتے تھے اور کوئی شخص بھی آپ سے زیادہ دشمن سے قریب نہیں ہوتا تھا ''

(۱)پیغمبر اسلام (ص) کاکمال احترام ہے کہ حضرت علی جسے اشجع عرب نے آپ کے بارے میں یہ بیان دیا ہے اورآپ کی عظمت و ہیبت وشجاعت کااعلان کیا ہے ۔دوسراکوئی ہوتا تو اس کے برعکس بیان کرتا کہ میدان جنگ میں سرکار ہماری پناہ میں رہا کرتے تھے اورہم نہ ہوتے توآپ کاخاتمہ ہو جاتا لیکن امیرالمومنین جیسا صاحب کرداراس انداز کا بیان نہیں دے سکتا ہے اور نہ یہ سوچ سکتا ہے ۔آپ کی نظرمیں انسان کتنا ہی بلند کردار اورصاحب طاقت و ہمت کیوں نہ ہو جائے سرکار دو عالم (ص) کا امتی ہی شمار ہوگا اور امتی کا مرتبہ پیغمبر (ص) سے بلند تر نہیں ہو سکتا ہے۔

۷۱۱

ومعنى ذلك أنه إذا عظم الخوف من العدو - واشتد عضاض الحرب - فزع المسلمون إلى قتال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنفسه - فينزل الله عليهم النصر به - ويأمنون مما كانوا يخافونه بمكانه.

وقوله إذا احمر البأس - كناية عن اشتداد الأمر - وقد قيل في ذلك أقوال - أحسنها أنه شبه حمي الحرب - بالنار التي تجمع الحرارة والحمرة بفعلها ولونها - ومما يقوي ذلك - قول رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وقد رأى مجتلد الناس - يوم حنين وهي حرب هوازن - الآن حمي الوطيس - فالوطيس مستوقد النار - فشبه رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ما استحر من جلاد القوم - باحتدام النار وشدة التهابها.

انقضى هذا الفصل ورجعنا إلى سنن الغرض الأول في هذا الباب.

۲۶۱ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا بَلَغَه إِغَارَةُ أَصْحَابِ مُعَاوِيَةَ عَلَى الأَنْبَارِ - فَخَرَجَ بِنَفْسِه مَاشِياً حَتَّى أَتَى النُّخَيْلَةَ - وأَدْرَكَه النَّاسُ

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دشمن کاخطرہ بڑھ جاتا تھا اور جنگ کی کاٹ شدید ہو جاتی تھی تو مسلمان میدان میں رسول اکرم (ص) کی پناہ تلاش کیا کرتے تھے اور آپ پر نصرت الٰہی کا نزول ہو جاتا تھا اور مسلمانوں کو امن و امان حاصل ہوجاتا تھا۔

احمر الباس درحقیقت سختی کا کنایہ ہے۔جس کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں اور سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جنگ کی تیزی اور گرمی کو آگیس تشبیہ دی گئی ہے جس میں گرمی اور سرخی دونوں ہوتی ہیں اوراس کا موید سرکار دو عالم (ص) کا یہ ارشاد ہے کہ آپ نے حنین کے دن قبیلہ بنی ہوازن کی جنگ میں لوگوں کوجنگ کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اب وطیس گرم ہوگیا ہے یعنی آپ نے میدان کا رزار کی گرم بازاری کو آگ کے بھڑکنے اور اس کے شعلوں سے تشبیہ دی ہے۔کہ وطیس اس جگہ کوکہتے ہیں جہاں آگ بھڑکائی جاتی ہے۔

یہ فصل تمام ہوگئی اورپھر گذشتہ باب کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے ۔

(۲۶۱)

جب آپ کو اطلاع دی گئی کہ معاویہ کے اصحاب نے انبار پر حملہ کردیا ہے تو آپ بہ نفس نفیس نکل کر نخیلہ تک تشریف لے گئے اور کچھ لوگ بھی آپ کے

۷۱۲

وقَالُوا - يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ نَحْنُ نَكْفِيكَهُمْ - فَقَالَ:

مَا تَكْفُونَنِي أَنْفُسَكُمْ - فَكَيْفَ تَكْفُونَنِي غَيْرَكُمْ - إِنْ كَانَتِ الرَّعَايَا قَبْلِي لَتَشْكُو حَيْفَ رُعَاتِهَا - وإِنَّنِي الْيَوْمَ لأَشْكُو حَيْفَ رَعِيَّتِي - كَأَنَّنِي الْمَقُودُ وهُمُ الْقَادَةُ - أَوِ الْمَوْزُوعُ وهُمُ الْوَزَعَةُ !

فلما قالعليه‌السلام هذا القول في كلام طويل - قد ذكرنا مختاره في جملة الخطب - تقدم إليه رجلان من أصحابه - فقال أحدهما إني لا أملك إلا نفسي وأخي - فمر بأمرك يا أمير المؤمنين ننقد له - فقالعليه‌السلام

وأَيْنَ تَقَعَانِ مِمَّا أُرِيدُ

۲۶۲ - وقِيلَ إِنَّ الْحَارِثَ بْنَ حَوْطٍ أَتَاه فَقَالَ - أَتَرَانِي أَظُنُّ أَصْحَابَ الْجَمَلِ كَانُوا عَلَى ضَلَالَةٍ ؟

فَقَالَعليه‌السلام يَا حَارِثُ إِنَّكَ نَظَرْتَ تَحْتَكَ ولَمْ تَنْظُرْ فَوْقَكَ

ساتھ پہنچ گئے اورکہنے لگے کہ آپ تشریف رکھیں۔ہم لوگ ان دشمنوں کے لئے کافی ہیں ۔تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے لئے کافی نہیں ہو تو دشمن کے لئے کیا کافی ہو سکتے ہو۔تم سے پہلے رعایا حکام کے ظلم سے فریادی تھی اورآج میں رعایا کے ظلم سے فریاد کر رہا ہوں۔جیسے کہ یہی لوگ قائد ہیں اور میں رعیت ہوں۔میں حلقہ بگوش ہوں اوریہ فرمانروا۔

جس وقت آپ نے یہ کلام ارشاد فرمایا جس کا ایک حصہ خطبوں کے ذیل میں نقل کیا جا چکا ہے تو آپکے اصحاب میں سے دو افراد آگے بڑھے جن میں سے ایک نے کہا کہ میں اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں۔آپ حکم دیں ہم تعمیل کے لئے تیار ہیں آپ نے فرمایا کہ میں جو کچھ چاہتا ہوں تمہارا اس سے کیا تعلق ہے۔

(۲۶۲)

کہا جاتا ہے کہ حارث بن جوط نے آپ کے پاس آکر یہ کہا کہ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ میں اصحاب جمل کو گمراہ مان لوں گا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اے حارث! تم نے اپنے نیچے(۱) کی طرف دیکھاہے اوراوپر نہیں دیکھا ہے

(۱)یہ بات اس شخص سے کہی جاتی ہے جس کی نگاہ انتہائی محدود ہوتی ہے اورانپے زیر قدم اشیاء سے زیادہ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ورنہ انسان کی نگاہ بلندہو جائے تو بہت سے حقاق کا ادراک کر سکتی ہے۔حارث کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس نے صرف ام المومنین کی زوجیت پر نگاہ کی ہے اور طلحہ و زبیر کی صحابیت پر۔اورایسی محدود نگاہ رکھنے والا انسان حقاق کا ادراک نہیں کر سکتا ہے۔حقائق کا معیار قرآن و سنت ہے جس میں زوجہ کو گھرمیں بیٹھنے کی تلقین کی گئی ہے اور انسان کو بیعت شکنی سے منع کیا گیا ہے۔حقائق کامعیار کسی کی زوجیت یا صحابیت نہیں ہے ' ورنہ زوجہ نوح اور زوجہ لوط کو قابل مذمت نہ قراردیا جاتا اور اصحاب موسیٰ کی صریحی مذمت نہ کی جاتی ۔

۷۱۳

فَحِرْتَ - إِنَّكَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاه ولَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاه.

فَقَالَ الْحَارِثُ فَإِنِّي أَعْتَزِلُ مَعَ سَعِيدِ بْنِ مَالِكٍ وعَبْدِ اللَّه بْنِ عُمَرَ - فَقَالَعليه‌السلام

إِنَّ سَعِيداً وعَبْدَ اللَّه بْنَ عُمَرَ لَمْ يَنْصُرَا الْحَقَّ - ولَمْ يَخْذُلَا الْبَاطِلَ.

۲۶۳ - وقَالَ عليهلسلام صَاحِبُ السُّلْطَانِ كَرَاكِبِ الأَسَدِ - يُغْبَطُ بِمَوْقِعِه وهُوَ أَعْلَمُ بِمَوْضِعِه.

۲۶۴ - وقَالَعليه‌السلام أَحْسِنُوا فِي عَقِبِ غَيْرِكُمْ تُحْفَظُوا فِي عَقِبِكُمْ

۲۶۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ كَلَامَ الْحُكَمَاءِ إِذَا كَانَ صَوَاباً كَانَ دَوَاءً - وإِذَا كَانَ خَطَأً كَانَ دَاءً.

۲۶۶ - وسَأَلَه رَجُلٌ أَنْ يُعَرِّفَه الإِيمَانَ

اسی لئے حیران ہوگئے ہو۔تم حق ہی کو نہیں پہچانتے ہو تو کیا جانو کہ حقدار کون ہے اور باطل ہی کو نہیں جانتے ہو تو کیا جانو کہ باطل پرست کون ہے ۔

حارث نے کہا کہ میں سعید بن مالک اورعبداللہ بن عمر کے ساتھ گوشہ نشین ہوجائوں گا توآپنے فرمایاکہ سعید اورعبداللہ بن عمرنے نہ حق کی مدد کی ہے اورنہ ابطل کو نظر انداز کیا ہے (نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے )

(۲۶۳)

بادشاہ کا مصاحب(۱) شیرکاسوار ہوتا ہے کہ لوگ اس کے حالات پر رشک کرتے ہیں اور وہ خود اپنی حالت کو بہتر پہچانتا ہے۔

(۲۶۴)

دوسروں کے پسماندگان سے اچھا برتائو کرو تاکہ لوگ تمہارے پسماندگان کے ساتھ بھی اچھا برتائو کریں ۔

(۲۶۵)

حکماء کا کلام درست ہوتا ہے تو دوا بن جاتا ہے اور غلط ہوتا ہے تو بیماری بن جاتا ہے ۔

(۲۶۶)

ایک شخص نے آپ سے مطالبہ کیا کہ ایمان کی تعریف فرمائیں

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ مصاحبتکی زندگی دیکھنے میں انتہائی حسین دکھائی دیتی ہے کہ سارا امرو نہی کا نظام بظاہرمصاحب کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن اسکاواقعی حیثیت کیا ہوتی ہے یہ اسی کادل جانتا ہے کہ نہ صاحب اقتدار کے مزاج کا کوئی بھروسہ ہوتاہے اور نہ مصاحبت کے عہدہ اقتدارکا۔

رب کریم ہر انسان کوایسی بلائوں سے محفوظ رکھے جن کا ظاہر انتہائی حسین ہوتا ہے اور واقع انتہائی سنگین اور خطر ناک۔

۷۱۴

فَقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَ الْغَدُ - فَأْتِنِي حَتَّى أُخْبِرَكَ عَلَى أَسْمَاعِ النَّاسِ - فَإِنْ نَسِيتَ مَقَالَتِي حَفِظَهَا عَلَيْكَ غَيْرُكَ - فَإِنَّ الْكَلَامَ كَالشَّارِدَةِ يَنْقُفُهَا هَذَا ويُخْطِئُهَا هَذَا.

وقد ذكرنا ما أجابه به - فيما تقدم من هذا الباب وهو قوله - الإيمان على أربع شعب.

۲۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ لَا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذِي لَمْ يَأْتِكَ - عَلَى يَوْمِكَ الَّذِي قَدْ أَتَاكَ - فَإِنَّه إِنْ يَكُ مِنْ عُمُرِكَ يَأْتِ اللَّه فِيه بِرِزْقِكَ.

۲۶۸ - وقَالَعليه‌السلام أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْناً مَا - عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْماً مَا - وأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْناً مَا - عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْماً مَا.

توفرمایا کہ کل آنا تومیں مجمع عام میں بیان کروں گا تاکہ تم بھول جائو تو دوسرے لوگ محفوظ رکھ سکیں۔ اس لئے کہ کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتا ہے کہ ایک پکڑ لیتا ہے اورایک کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ( مفصل جواب اس سے پہلے ایمان کے شعبوں کے ذیل میں نقل کیا جا چکا ہے )

(۲۶۷)

فرزند آدم ! اس دن کاغم جو ابھی نہیں آیا ہے اس دن پر مٹ ڈالو جوآچکا ہے۔کہ اگر وہ تمہاری عمرمیں شامل ہوگا تو اس کا رزق بھی اس کے ساتھ ہی آئے گا۔

(۲۶۸)

اپنے دوست سے ایک محدود حد تک دوستی کرو کہیں ایسا(۱) نہ کہ ایک دن دشمن ہو جائے اوردشمن سے بھی ایک حد تک دشمنی کرو شائد ایک دن دوست بن جائے ( تو شرمندگی نہ ہو)

(۱)یہ ایک انتہائی عظیم معاشرتی نکتہ ہے جس کا اندازہ ہراس انسان کو ہے جس نے معاشرہ میں آنکھ کھول کر زندگی گذاری ہے اوراندھوں جیسی زندگی نہیں گذاری ہے۔اس دنیاکے سردو گرم کا تقاضا یہی ہے کہ یہاں افراد سے ملنا بھی پڑتا ہے اور کبھی الگ بھی ہونا پڑتا ہے۔لہٰذا تقاضائے عقل مندی یہی ہے کہ زندگی میں ایسا اعتدال رکھے کہاگر الگ ہونا پڑے تو سارے اسرار دوسرے کے قبضہ میں نہ ہوں کہ اس کا غلام بن کر رہ جائے اوراگرملنا پڑے تو ایسے حالات نہ ہوں کہ شرمندگی کے علاوہ اورکچھ ہاتھ نہ آئے ۔

۷۱۵

۲۶۹ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ فِي الدُّنْيَا عَامِلَانِ - عَامِلٌ عَمِلَ فِي الدُّنْيَا لِلدُّنْيَا - قَدْ شَغَلَتْه دُنْيَاه عَنْ آخِرَتِه - يَخْشَى عَلَى مَنْ يَخْلُفُه الْفَقْرَ ويَأْمَنُه عَلَى نَفْسِه - فَيُفْنِي عُمُرَه فِي مَنْفَعَةِ غَيْرِه - وعَامِلٌ عَمِلَ فِي الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا - فَجَاءَه الَّذِي لَه مِنَ الدُّنْيَا بِغَيْرِ عَمَلٍ - فَأَحْرَزَ الْحَظَّيْنِ مَعاً ومَلَكَ الدَّارَيْنِ جَمِيعاً - فَأَصْبَحَ وَجِيهاً عِنْدَ اللَّه - لَا يَسْأَلُ اللَّه حَاجَةً فَيَمْنَعُه.

۲۷۰ - ورُوِيَ أَنَّه ذُكِرَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي أَيَّامِه - حَلْيُ الْكَعْبَةِ وكَثْرَتُه فَقَالَ قَوْمٌ:لَوْ أَخَذْتَه فَجَهَّزْتَ بِه جُيُوشَ الْمُسْلِمِينَ - كَانَ أَعْظَمَ لِلأَجْرِ ومَا تَصْنَعُ الْكَعْبَةُ بِالْحَلْيِ - فَهَمَّ عُمَرُ بِذَلِكَ وسَأَلَ عَنْه أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - فَقَالَعليه‌السلام :

(۲۶۹)

دنیا میں دو طرح کے عمل کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ایک وہ ہے جو دنیا میں دنیا ہی کے لئے کام کرتا ہے اوراسے دنیا نے آخرت سے غافل بنادیا ہے وہ اپنے بعد والوں(۱) کے فقرسے خوفزدہ رہتا ہے اور اپنے بارے میں بالکل مطمئن رہتا ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری زندگی دوسروں کے فائدہ کے لئے فنا کر دیتا ہے۔اور ایک شخص وہ ہوتا ہے جو دنیا میں اس کے بعد کے لئے عمل کرتا ہے اوراسے دنیا بغیر عمل کے مل جاتی ہے۔وہ دنیا و آخرت دونوں کو پالیتا ہے اوردونوں گھروں کامالک ہو جاتا ہے ۔ خدا کی بارگاہ میں سر خرو ہوجاتا ہے اور کسی بھی حاجت کاسوال کرتا ہ تو پروردگار اسے پورا کردیتا ہے۔

(۲۷۰)

روایت میں وارد ہوا ہے کہ عمر بن الخطاب کے سامنے ان کے دور حکومت میں خانۂ کعبہ کے زیورات اوران کی کثرت کا ذکر کیا گیا اور ایک قوم نے یہ تقاضا کیا کہ اگر آپ ان زیورات کو مسلمانوں کے لشکر پرصرف کردیں تو بہت بڑا اجرو ثواب ملے گا،کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے؟تو انہوں نے اس رائے کو پسند کرتے ہوئے حضرت امیر سے دریافت کرلیا۔آپ نے فرمایا

(۱)دور قدیم میں اس کا نام دور اندیشی رکھا جاتاتھا جہاں انسان صبح و شام محنت کرنے کے باوجود نہ مال اپنی دنیا پر صرف کرتا تھا اور نہ آخرت پر۔بلکہ اپنے وارثوں کے لئے ذخیرہ بنا کر چلا جاتا تھا اس غریب کو یہ احساس بھی نہیں تھاکہ جب اسے خود اپنی عاقبت بنانے کی فکر نہیں ہے تو ورثاء کو اس کی عاقبت سے کیادلچسپی ہوسکتی ہے۔وہ تو ای کمال غنیمت کے مالک ہوگئے ہیں اور جس طرح چاہیں گے اسی طرح صرف کریں گے ۔

۷۱۶

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - والأَمْوَالُ أَرْبَعَةٌ أَمْوَالُ الْمُسْلِمِينَ - فَقَسَّمَهَا بَيْنَ الْوَرَثَةِ فِي الْفَرَائِضِ - والْفَيْءُ فَقَسَّمَه عَلَى مُسْتَحِقِّيه - والْخُمُسُ فَوَضَعَه اللَّه حَيْثُ وَضَعَه - والصَّدَقَاتُ فَجَعَلَهَا اللَّه حَيْثُ جَعَلَهَا - وكَانَ حَلْيُ الْكَعْبَةِ فِيهَا يَوْمَئِذٍ - فَتَرَكَه اللَّه عَلَى حَالِه - ولَمْ يَتْرُكْه نِسْيَاناً ولَمْ يَخْفَ عَلَيْه مَكَاناً - فَأَقِرَّه حَيْثُ أَقَرَّه اللَّه ورَسُولُه - فَقَالَ لَه عُمَرُ لَوْلَاكَ لَافْتَضَحْنَا - وتَرَكَ الْحَلْيَ بِحَالِه.

۲۷۱ - رُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام رُفِعَ إِلَيْه رَجُلَانِ سَرَقَا مِنْ مَالِ اللَّه - أَحَدُهُمَا عَبْدٌ مِنْ مَالِ اللَّه - والآخَرُ مِنْ عُرُوضِ النَّاسِ.

فَقَالَعليه‌السلام أَمَّا هَذَا فَهُوَ مِنْ مَالِ اللَّه ولَا حَدَّ عَلَيْه - مَالُ اللَّه أَكَلَ بَعْضُه بَعْضاً -

کہ یہ قرآن پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہواہے اور آپ کے دورمیں اموال کی چار قسمیں تھیں۔ایک مسلمان کاذاتی مال تھا جسے حسب فرائض و رثاء میں تقسیم کردیا کرتے تھے ۔ایک بیت المال کامال تھاجسے مستحقین میں تقسیم کرتے تھے ۔ایک خمس تھا جسے اس کے حقداروں کے حوالہ کردیتے تھے ۔اور کچھ صدقات تھے جنہیں انہیں کے محل پر صرف کیاکرتے تھے ۔کعبہ کے زیورات اس وقت بھی موجود تھے اورپروردگار نے انہیں اسی حالت میں چھوڑ رکھا تھا۔نہ رسول اکرم (ص) انہیں بھولے تھے اور نہان کا وجود آپ سے پوشیدہ تھا۔لہٰذا انہیں اسی حالت پر رہنے دیں جس حالت پرخدا(۱) اور رسول(ص) نے رکھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ عمر نے کہا آج اگر آپ نہ ہوتے تو میں رسوا ہوگیا ہوتا اور یہ کہہ کر زیورات کو ان کی جگہ چھوڑ دیا۔

(۲۷۱)

کہا جاتا ہے کہ آپ کے سامنے دو آدمیوں کوپیش کیا گیا جنہوں نے بیت المال سے مال چرایا تھا ایک ان میں سے غلام اور بیت المال کی ملکیت تھا اور دوسرا لوگوں میں سے کسی کی ملکیت تھا۔آپ نے فرمایا کہ جو بیت المال کی ملکیت ہے اس پر کوئی حد نہیں ہے کہ مال خداکے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھالیا ہے۔ لیکن

(۱)یہ صورت حال بظاہر خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مقدس مقامات کایہی حال ہے کہ ان کے زینت و آرائش کے اسباب اگرضروری ہیں توان کا تحفظ بھی ضروری ہے۔لیکن اگر ان کی کوئی افادیت نہیں ہے توان کے بارے میں ذمہ دار ان شریعت سے رجوع کرکے صحیح مصرف میں لگا دینا چاہیے۔بقول شخصے بجلی کے دورمیں موم بتی اورخوشبو کے دورمیں اگر بتی کے تحفظ کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہی پیسہ اسی مقدس مقام کے دیگر ضرورت پر صرف کیا جا سکتا ہے۔

۷۱۷

وأَمَّا الآخَرُ فَعَلَيْه الْحَدُّ الشَّدِيدُ فَقَطَعَ يَدَه.

۲۷۲ - وقَالَ عليهلامي لَوْ قَدِ اسْتَوَتْ قَدَمَايَ مِنْ هَذِه الْمَدَاحِضِ لَغَيَّرْتُ أَشْيَاءَ.

۲۷۳ - وقَالَعليه‌السلام اعْلَمُوا عِلْماً يَقِيناً أَنَّ اللَّه لَمْ يَجْعَلْ لِلْعَبْدِ - وإِنْ عَظُمَتْ حِيلَتُه واشْتَدَّتْ طَلِبَتُه - وقَوِيَتْ مَكِيدَتُه – أَكْثَرَ مِمَّا سُمِّيَ لَه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - ولَمْ يَحُلْ بَيْنَ الْعَبْدِ فِي ضَعْفِه وقِلَّةِ حِيلَتِه - وبَيْنَ أَنْ يَبْلُغَ مَا سُمِّيَ لَه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - والْعَارِفُ لِهَذَا الْعَامِلُ بِه - أَعْظَمُ النَّاسِ رَاحَةً فِي مَنْفَعَةٍ - والتَّارِكُ لَه الشَّاكُّ فِيه - أَعْظَمُ النَّاسِ شُغُلًا فِي مَضَرَّةٍ - ورُبَّ مُنْعَمٍ عَلَيْه مُسْتَدْرَجٌ بِالنُّعْمَى - ورُبَّ مُبْتَلًى مَصْنُوعٌ لَه بِالْبَلْوَى - فَزِدْ أَيُّهَا الْمُسْتَنْفِعُ فِي شُكْرِكَ -

دوسرے پر شدید حد جاری کی جائے گی۔جس کے بعد اس کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے۔

(۲۷۲)

اگر ان پھسلنے والی جگہوں پر میرے قدم جم گئے تو میں بہت سی چیزوں کو بدل دوں گا(جنہیں پیشر و خلفاء نے ایجاد کیا ہے اور جن کا سنت پیغمبر (ص) سے کوئی تعلق نہیں ہے )

(۲۷۳)

یہ بات یقین کے ساتھ جان لو کہ پروردگار نے کسی بندہ کے لئے اس سے زیادہ نہیں قرار دیا ہے جتنا کتاب حکیم میں بیان کردیا گیا ہے چاہے اس کی تدبیر کتنی ہی عظیم ' اس کی جستجو کتنی ہی شدید اور اس کی ترکیبیں کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔اور اسی طرح وہ بندہ تک اس کامقسوم پہنچنے کی راہمیں کبھی حائل نہیں ہوتا ہے چاہے وہ کتنا ہی کمزور اور بیچارہ کیوں نہ ہو۔جو اس حقیقت کو جانتا ہے اوراس کے مطابق عمل کرتا ہے وہی سب سے زیادہ راحت اور فائدہ میں رہتا ہے اورجواس حقیقت کو نظرانداز کر دیتا ہے اور اس میں شک کرتا ہے ' وہی سب سے زیادہ نقصان میں مبتلا ہوتا ہے۔کتنے ہی افراد ہیں جنہیں نعمتیں دی جاتی ہیں اور انہیں کے ذریعہ عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے۔اور کتنے ہی افراد ہیں جومبتلائے مصیبت ہوتے ہیں لیکن یہی ابتلاء ان کے حق میں باعث برکت بن جاتی ہے ۔لہٰذا اے فائدہ کے طلب گارو! اپنے لشکر میں اضافہ کرو

۷۱۸

وقَصِّرْ مِنْ عَجَلَتِكَ - وقِفْ عِنْدَ مُنْتَهَى رِزْقِكَ.

۲۷۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَجْعَلُوا عِلْمَكُمْ جَهْلًا ويَقِينَكُمْ شَكَّاً - إِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا وإِذَا تَيَقَّنْتُمْ فَأَقْدِمُوا.

اور اپنی جلدی کم کردو اور اپنے رزق کی حدوں پر ٹھہر جائو

(۲۷۴)

خبردار! اپنے علم کو جہل نہ بنائو اور اپنے یقین کو شک نہ قرار دو۔

جب جان لو تو عمل(۱) کرو اور جب یقین ہوجائے تو قدم آگے بڑھائو۔

(۱)امام علیہ السلام کی نظرمیں علم اور یقین کے ایک مخصوص معنی ہیں جن کااظہار انسان کے کردار سے ہوتا ہے ۔آپ کی نگاہ میں علم صرف جاننے کا نام نہیں ہے اور نہ یقین صرف اطمینان قلب کا نام ہے بلکہ دونوں کے وجود کا ایک فطری تقاضا ہے جس سے ان کی واقعیت اور اصالت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسان واقعاً جب علم ہے تو باعمل بھی ہوگا اور واقعاً صاحب یقین ہے تو قدم بھی آگے بڑھائے گا۔ایسا نہ ہوتو علم جہل کہے جانے کے قابل ہے اور یقین شک سے بالا تر نہیں ہے۔

۷۱۹

۲۷۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الطَّمَعَ مُورِدٌ غَيْرُ مُصْدِرٍ وضَامِنٌ غَيْرُ وَفِيٍّ - ورُبَّمَا شَرِقَ شَارِبُ الْمَاءِ قَبْلَ رِيِّه - وكُلَّمَا عَظُمَ قَدْرُ الشَّيْءِ الْمُتَنَافَسِ فِيه - عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ لِفَقْدِه - والأَمَانِيُّ تُعْمِي أَعْيُنَ الْبَصَائِرِ - والْحَظُّ يَأْتِي مَنْ لَا يَأْتِيه.

۲۷۶ - وقَالَعليه‌السلام اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ - مِنْ أَنْ تُحَسِّنَ فِي لَامِعَةِ الْعُيُونِ عَلَانِيَتِي - وتُقَبِّحَ فِيمَا أُبْطِنُ لَكَ سَرِيرَتِي - مُحَافِظاً عَلَى رِثَاءِ النَّاسِ مِنْ نَفْسِي - بِجَمِيعِ مَا أَنْتَ مُطَّلِعٌ عَلَيْه مِنِّي - فَأُبْدِيَ لِلنَّاسِ حُسْنَ ظَاهِرِي - وأُفْضِيَ إِلَيْكَ بِسُوءِ عَمَلِي - تَقَرُّباً إِلَى عِبَادِكَ وتَبَاعُداً مِنْ مَرْضَاتِكَ.

(۲۷۵)

لالچ جہاں وارد کردیتی ہے وہاں سے نکلنے نہیں دیتی ہے اور یہ ایک ایسی ضمانت(۱) دار ہے جو وفادار نہیں ہے۔کہ کبھی کبھی تو پانی پینے والے کو سیرابی سے پہلے ہی اچھو لگ جاتا ہے اورجس قدر کسی مرغوب چیزکی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اس کے کھوجانے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔آرزوئیں دیدہ بصیرت کو اندھا بنا دیتی ہیں اور جوکچھ نصیب میں ہوتا ہے وہ بغیر کوشش کے بھی مل جاتا ہے۔

(۲۷۶)

خدایا(۲) میں اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ لوگوں کی ظاہری نگاہ میں میرا ظاہرحسین ہو اور جو باطن تیرے لئے چھپائے ہوئے ہوں وہ قبیح ہو۔میں لوگوں کے دکھاوے کے لئے ان چیزوں کی نگہداشت کروں جن پر تو اطلاع رکھتا ہے کہ لوگوں پر حسن ظاہر کا مظاہرہ کروں اورتیری بارگاہ میں بدترین عمل کے ساتھ حاضری دوں۔تیرے بندوں سے قربت اختیار کروں اور تیری مرضی سے دورہو جائوں۔

(۱)لالچ انسان کو ہزاروں چیزوں کا یقین دلا دیتی ہے اور اس سے وعدہ بھی کرلیتی ہے لیکن وقت پر وفا نہیں کرتی ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سیراب ہونے سے پہلے ہی اچھو لگ جاتا ہے اور سیراب ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ انسان لالچ سے اجتناب کرے اور بقدر ضرورت پر اکتفا کرے جو بہرحال اسے حاصل ہونے والا ہے۔

(۲)عام طور سے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کے سامنے آنے کے لئے اپنے ظاہر کو پاک و پاکیزہ اورحسین و جمیل بنا لیتے ہیں اور یہ خیال ہی نہیں رہ جاتا ہے کہ ایک دن اس کابھی سامنا کرنا ہے جو ظاہر کونہیں دیکھتا ہے بلکہ باطن پر نگاہ رکھتا ہے اور اسرار کابھی حساب کرنے والا ہے ۔

مولائے کائنات نے عالم انسانیت کواسی کمزوری کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس دعاکا لہجہ اختیار کیا ہے جہاں دوسروں پر براہ راست تنقید بھی نہ ہو اور اپنا پیغام بھی تمام افراد تک پہنچ جائے شائد انسانوں کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ عوام الناس کا سامناکرنے سے زیادہ اہمیت مالک کے سامنے جانے کی ہے اور اس کے لئے باطل کا پاک و صاف رکھنا بے حد ضروری ہے۔

۷۲۰