نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656613 / ڈاؤنلوڈ: 15922
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہے ہم نے سنا ہے کہ ایک دین اسلام اور ایک مذہب شیعہ نام کا پایا جاتا ہے اور ہم نے اس کو قبول کیا ہے؛ لیکن کیا ہم نے حقیقت میں کبھی اس بات پر غور کیا اور سوچا کہ اس کی عقلی دلیل کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اجتماعی اسباب اور عوامل سے متاثر ہو کر شیعہ مذہب کو قبول کیا ہے؛ اور اصلاً ان لوگوں نے اس سلسلہ میں کوئی تحقیق اور جستجو نہیں کی ہے اور نہ اس کی کوئی دلیل تلاش کی ہے ؛ہاں مجلس ،اسکول اور مدرسے میں کبھی اس سلسلے میں کچھ پڑھا اور سنا ہے لیکن خود سے اپنے اندر ابتدائی طور پر یہ جذبہ اور خواہش نہیں ہوئی کہ اس بارے میں جاکر تحقیق اور جستجو کریں ، اگر ہے بھی تو بہت کم لوگوں میں ۔اکثر لوگ جذبات اور احساسات سے متاثر ہوکر یا مادی اور معنوی جذبوں کے تحت حرکت کرتے ہیں منطق اور دلیل کے ساتھ بہت کم لوگ متوجہ ہوتے ہیں ؛ عام انسانوں کے اندر جو چیز اصلی محرّک ہے وہ فائدہ یا نقصان اور خوف یاامیدہے وہی چیز جو کہ اسلامی تہذیب میں خوف ورجا کے نام سے پائی جاتی ہے یعنی انسان کسی چیز سے خوف رکھتا ہے یا اس چیز میں اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہیتو وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا یہ کہ اس چیز میں دولت ، بلندی اور شہرت تو اس کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا پھر یہ کہ بھوک ، بیکاری، تازیانہ، قید خانہ اور سزا کے خوف کی وجہ سے مجبور ہو کر اس کام کو کرتا ہے،

۱۸۱

یہ مثل بہت مشہور ہے کہ انسان خوف و امید کی وجہ سے زندہ ہے ؛عام طور سے یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر سبق اور درس پڑھے گا تو اس کی وجہ سے دوستوں اور ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہ جائے گا یا تعلیم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس کے بعد کوئی مفید کام کرے گا اور پیسہ وغیرہ کما سکے گا یا اس لئے کہ سبق پڑھ کر ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار اور دوسروں کے طعنہ سے محفوظ رہے گا کیونکہ اکثر لوگ ایسے ہی ہیں ،لہذٰا جیسا کہ آیہ کریمہ میں ہے کہ پہلے حکمت کا لفظ ہے اور اس کے بعد موعظہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے '( 'ادع الیٰ سبیل ربّک با لحکمة و الموعظةالحسنة''یعنی ) برہان و دلیل کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اس کام کو انجام دو گے اور کرو گے تو اس سے یہ فائدہ حاصل ہو گا اور اگر اس کام کو نہیں کروگے تو یہ نقصان ہو گا یا اس کے بر عکس اگر اس کام کو کروگے تویہ نقصان ہوگا اور اس کو چھوڑ دو گے تو تم کو یہ فائدہ ہوگا ۔

اگر قرآن کریم میں انبیاء کے اوصاف کا ہم غور سے مطالعہ کریں تو ان کی صفتوں میں بہت سی جگہوں پر مبشر اور منذر کالفظ آیا ہے کہ انبیاء بشارت اور انذار کے لئے آئے ہیں ، خدا وند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے( وما نرسل المرسلین الاّ مبشرین و منذرین ) ( ۱ ) ہم نے پیامبروں کو صرف مبشر اور منذر بنا کر بھیجا ہے یعنی وہ صرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں ۔

انبیاء نے دعوت اور تبلیغ کے مرحلے میں صرف برہان و دلیل (حکمت )پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ ،جس کو میں نے پہلے بیان کیا او ر شروع میں مختصر طور سے اس کی

____________________

(۱) سورہ انعام آیہ ۴۸.

۱۸۲

وضاحت کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں سے یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہماری باتوں کو تم لوگ قبول کرو گے اور ان پر عمل کرو گے تو اس کے بدلے تمھارے حصّہ بے پناہ نعمتیں اور ہمیشہ رہنے والی بہشت آئے گی اور اگر تم نے ہماری باتوں کو قبول نہیں کیا اور مخالفت کی تو جہنم اور اس کا عذاب تمھارا منتظر رہے گا ؛اب اس جگہ پر لوگ مواقفت یا مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

اس کی تاثیر اس وقت زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے جب اس کے عملی نمونے یا وہ واقعے جو کہ پہلے زمانے میں ہو چکے ہیں ان کے کانوں تک پہونچتے ہیں ؛ اسی لئے آپ قرآن مجید میں دیکھیں گے کہ پچھلی امتوں کے واقعات اور جو عذاب ان پر نازل ہوئے ہیں ان کا تذکرہ ہے اور اس بات سے متنبہ کیا گیا ہے کہ ہرگز تم بھی ایسا کام نہ کرنا ورنہ تمھارا حشر بھی ویسا ہی ہوگا ؛اس جگہ انسان کے ضمیر کے اندر ایک بیچینی اوراضطرابی کیفیت اور تحریک پیدا ہوتی ہے؛ البتہ نفع اور فائدہ کی امیداورنقصان کے خوف ،ان دونوں میں نقصان کا خوف انسان کوکام پر زیادہ ابھارتاہے ؛ یعنی اگر کچھ حد تک دنیاوی اور مادی نعمتوں کو حاصل کر لیتے ہیں اور پھر ا س سے کہا جائے اگر ایسی کوشش اور ز حمت کرو گے تو دولت و نعمت اور شہرت اس سے زیادہ حاصل ہو گی؛ممکن ہے کہ اگر وہ جذبہ و حوصلہ نہ رکھتا ہو تو یہی کہے گا کہ جو کچھ میرے پاس ہے وہی کافی ہے ؛لیکن اگر اس سے کہا جائے کہ اگر کوشش نہیں کروگے تو تمھاری دولت اور ثروت کم ہو جائے گی اور رتبہ کم ہو جائے گا ؛چونکہ نقصان کا خوف ہے تو وہ کوشش کرتا ہے کہ نقصان نہ ہونے پائے، اور شاید اسی لئے قران کریم میں بشارت اور انذار ساتھ ساتھ ذکرہوئے ہیں لیکن پھر بھی انذار سے متعلق زیادہ تاکید ہے ، خدا وندتباک وتعا لیٰ کا ارشادہوتا ہے:( و ان من امّةٍ الّاخلا فیها نذیر ) ( ۱ ) یعنی کوئی امت ایسی نہیں گذری ہے جس میں نذیر ( ڈرانے والے )نہ ہوںاسی وجہ سے دعوت و تبلیغ کے آغاز میں جاذبہ اور دافعہ دونوں ایک ساتھ ہونے چاہئیں کیونکہ اس میں حکمت اور استدلال بھی ے اور جنت کا وعدہ اور جہنم سے ڈرانا بھی ہے اور جہنم کے سلسلے میں جو روایات ہیں ان میں دلچسپ اور نہایت ہی وحشتناک طریقے سے ڈرانے والے کے وصف کو بیان کیا گیا ہے ۔

____________________

(۱) سورہ فاطر : آیہ ۲۴۔

۱۸۳

(ب) موعظہ حسنہ ]نیک اور درست[ ہونا چاہئے

جو نکتہ یہاں پایا جاتا ہے وہ یہ کہ جب حکمت کے بعد موعظہ کا موقع آئے تو موعظہ حسنہ ہو نا چاہئے یعنی اگر چہ موعظہ بشارت اور انذار دونوں پر مشتمل ہوتاہے اور اس کے معانی و مطالب اچھے نہیں لگتے لیکن اسکے بیان کی کیفیت اوراندازاچھا اور دلپذیر ہونا چاہئے یہاں تک کہ اگر انذار کا مخاطب فرعون جیسا گمراہ انسان بھی کیوں نہ ہو ؟بھی خداوند عالم موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون سے کہتا ہے:( اذهباالیٰ فرعون انه طغیٰ وقولاله قولا لینا ) ۔۔( ۱ ) فرعون کی طرف جائو اس نے سرکشی کی ہے اس سے نرم لہجہ میں گفتگو کرو ،شاید کہ وہ قبول کرے یا خوف ا ختیار کرلے ،یعنی فرعون سرکش ہے پھر بھی تمہارے ا لفاظ اور ڈرانے کاطریقہ ایسا ہو کہوہ ڈر جائے؛ لیکن ڈرائیں تو اپنے الفاظ کونرمی اور ملائمت کے ساتھ بیان کروپہلے سختی اورخشونت کے ساتھ اسکے سامنے نہ جائو۔ دعوت اور تبلیغ کے وقت اگر شروع ہی میں چیخ اور تند کلامی سے اسکو متوجہ کروگے تو وہ اصلاًتوجہ نہیں کرے گا کہ تم کیا کہہ رہے ہو لیکن اگر اس دافعہ والے الفاظ اور اسکے مطلب کو نرمی اورخوش اخلاقی کے ساتھ کہو گے تو ممکن ہے تمھاری بات اس پر اثر کرے ۔

____________________

(۱) سورہ طٰہ : آیہ۴۲ الیٰ ۴۴۔

۱۸۴

(ج)مناظرہ

اس آیہ شریف میں موعظہ کے بعد مجادلہ کو بیان کیا گیا ہے( ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمة والموعظةالحسنة وجادلهم بالتی هی احسن ) ( ۱ ) یعنی اچھی نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف بلائو اور ان سے بہترین طریقہ سے مجادلہ کرو اس لئے کہ ان کی ہدایت کی طرف راہنمائی کرو تو اچھی طرح سے بحث ومناظڑہ کرو ،مناظرہ کے موقع پر اگر سامنے والا مغلوب بھی ہوجائے اور اسے علمی حیثیت سے شکست دیدو لیکن پھر بھی انصاف وعدالت اور ادب سے باہر نہ نکلو اسکو شکست دینے کے لئے مغالطہ کا سہارا نہ لواس بات کی کوشش کرو کہ اسکو قانع اور مطمئن کردو تاکہ حقیقت اسکو معلوم ہوجائے ؛ساری کوشش اس بات میں صرف نہ کرو کہ چاہے جیسے بھی ممکن ہو ہر قیمت پر اسکو میدان مناظرہ سے خارج کر دو۔

____________________

(۱) سورہ نحل : آیہ ۱۲۵۔

۱۸۵

دعوت وتبلیغ میں دافعہ کے استفادہ نہ کرنے کی وجہ

لہٰذایہ کہا جاسکتاہے کہ دعوت و تبلیغ کے ہر مرحلہ حکمت ،موعظہ ، مجادلہ میں سے کسی میں بھی خشونت ودشمنی اور دافعہ مناسب نہیں ہے اگرچہ مجموعہ کلام و گفتگومین ممکن ہے کہ بات جہنم، اسکی آگ اور عذاب سے متعلق ہو ،لیکن گفتگو کا اندازایسا دلپذیر اور شیرین ہو کہ سامنے والا اس کو سننے اوراس پر غوروفکر کرنے پر آمادہ ہوجائے جب آپ اس انداز سے بات کریں گے کہ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہو جائے تو وہ اس کے متعلق فکر کرے گا اور خود سے یہ کہے گاکہ اگر یہ جہنم اور عذاب واقعاً صحیح ہیں تو میں ہمیشہ کے لئے اس عذاب میں گرفتارہو جائوںگا پس بہتر یہ ہے کہ تحقیق اور جستجو کی جائے اور حقیقت ماجرا سے آگاہی حاصل کی جائے، خاص طور سے جب اس طرف متوجہ ہو کہ نفع اور نقصان کی تعیین میں صرف احتمال کی مقدار کافی نہیں ہے احتمال کا نتیجہ ، محتمل (جس چیز کا احتمال ہو )میں ہے کیونکہ محتمل ہی آخری نتیجہ کو مشخّص و معےّن کرتا ہے یعنی ممکن ہے کہ احتمال کے مواقع اور مواردمیں اگرچہ نفع یا نقصان کا احتمال بہت کم ہولیکن اگر محتمل قوی ہے تو وہ ہمارے لئے حرکت کا سبب ہوگا مثلاًاگر پانچ سال کا بچہ آپ سے کہے کہ اس سیڑھی پر جس سے آپ اوپر جارہے ہیں ایک بجلی کا تارٹوٹ گیا ہے احتیاط سے کام لیجئے گا آپکا پیر اس پرنہ پڑے، یہاں پرمسئلہ،احتمال کے اعتبار سے بہت کمزور ہے کیونکہ پانچ سال کا بچہ کیسے بجلی کے تار کو پہچان سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے ٹیلی فون کا تار یا رسّی تا اور کوئی دوسری چیز ہو، اسے کہاں سے معلوم کہ تارمیں بجلی ہے ؟شاید کوئی ایک تار ہے جو ایسے ہی سڑھیوں پر پڑا ہو ،خلاصہ یہ کہ یہ پانچ سال کے بچے کی بات کوئی خاص احتمال آپ کی نظر میں پیدا نہیں کرتی لیکن پھر بھی یہ مسئلہ موت اور زندگی سے متعلق ہے بجلی سے کوئی مذاق نہیں کرسکتا ، لہذااگرچہ احتمال بہت ضعیف اور کم ہے لیکن محتمل بہت قوی ہے، آپ سیڑھی سے اوپر جانے میں بہت محتاط اور ہوشیار رہیں گے، اگر تار مل جائے تو بہت ہی احتیاط کے ساتھ اس سے بچ کر وہاں سے گذریں گے ۔

۱۸۶

ہماری بحث میں بھی محتمل بہت مضبوط اور قوی ہے یہ مسئلہ موت اور زندگی سے بھی بڑھ کر ہے، مسئلہ عذاب اورجہنم میں ہمیشہ رہنے کا ہے وہ عذاب اور جہنم جس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اگر اسی آگ اور جہنم کو نرم وآسان زبان، دردمند احساس اور مخلصانہ اندازکے ساتھ بیان کیا جائے تو اس بات کا احتمال زیادہ ہے کہ میری بات کو سنیں گے بلکہ اس سے متا ثر بھی ہوں گے۔

انسان کے شخصی اور خصوصی افعال کے سلسلے میں اسلام کا طرزعمل

لیکن اگر دعوت وتبلیغ کے مرحلہ سے آگے بڑھ کر قوم ،معاشرہ اور عوام کے عمل نیز معاشرہ پر اس کے اثر کے متعلق بحث ہوتو بات جدا ہوگی اور مسئلہ یہاں پر فرق کرتا ہے ،کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک پوشیدہ کام ہے اور اس کا فائدہ یا نقصان پوری طرح سے ایک خاص شخص سے مربوط ہے اور اس کا اثر سماج اورمعاشرہ پر کچھ بھی نہیں ہے مثلاً ایک انسان نماز شب پڑھنے کے لئے آدھی رات کو بستر سے اٹھتا ہے اور بغیر کسی کو اطلاع دئیے ہوئے نمازمیں مشغول ہو جاتاہے، یا العیاذ باللہ ایک بوتل شراب نکال کر گھر کے کسی گوشہ میں چھپ کرپینا شروع کر دیتاہے، ان جیسے موارد میں جاذبہ سے استفادہ کرنابہت اچھا ہے یعنی اس کے لئے نماز شب کے فوائد کو بیان کیا جائے تا کہ اس کے اندر حوصلہ اور جذبہ پیدا ہو اور وہ نماز شب پڑھے ، یامخلصانہ اور دوستانہ طریقے نیز اچھے اور نرم لہجے میں شراب کے نقصانات کو اس کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اس برے کام سے باز آجائے ،لیکن اسلام میں ایسے مسائل ( جو کہ پوری طرح ایک خاص فرد سے مربوط ہوں ) میں طاقت و قوت اور سختی و عناد کے ساتھ منع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ،یہاں تک کہ اگر آپ کسی شخص کے ایسے کام سے مطلع ہوتے ہیں تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ اس بات کو اس کے سامنے بیان کریں اور کہیں کہ ہاں میں نے تم کو یہ برا کام کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر کیسے صحیح ہے کہ آپ اس کے غلط کام کو دوسرے کے سامنے بیان کریں ؟

۱۸۷

یہ مومن کا راز ہے اس کو چھپانا چاہئے اور کوئی بھی اس کو ظاہر کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی انسان تنہائی میں گناہ کرنے میں مصروف تھا اور آپ نے اس کو دیکھ لیا اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس سے یہ کہیں کہ میں نے تم کو یہ برا کام کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو ممکن ہے آپ کا یہی کہنا اس بات کا سبب ہو کہ وہ فکر کرے اب تو میرا گناہ عام ہو ہی چکا ہے چھپا کر کروں یا ظاہری طور،پراب کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ،اس کے بعد کھل کر گناہ کروں گاکیونکہ گناہ تو ظاہر ہو چکا ہے لہذٰا ایسے گناہ کو ظاہرکرنااسلام کی نظر میں جائز نہیں ہے ؛پھر کیا حق بنتا ہے کہ جبری اور قہری طور پر اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے ؟ہا ںاگر ایک ایسے بالواسطہ طور پر کہ وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ آپ اس کے برے کام سے واقف ہو گئے ہیں تو ایسی جگہ پر ممکن ہے اس کو نصیحت کی جائے، تا کہ وہ اس برے کام سے باز آجائے، توپھر ایسا کرناصحیح ہے۔

اجتماعی افعال کے ساتھ اسلام کا برتائو

بہت سے اعمال ایسے پائے جاتے ہیں کہ اس کا نفع یا نقصان ایک شخص سے کر پورے معاشرہ پر پڑتا ہے البتہ یہ تاثیر کبھی بلا واسطہ (ڈائریکٹ)ہوتی ہے اور کبھی بالواسطہ ہوتی ہے،بلا واسطہ تاثیر اس طرح کہ مثلاً کسی کو مارا پیٹا جا رہا ہو یا اس پر ظلم ہو رہا ہو؛ معاشرہ پر لوگوں کے عمل کی بالواسطہ تاثیر کے مصداق اور اس کے دائرہ کے متعلق اختلاف رائے کا ہونا ممکن ہے لیکن جو چیز مسلّم ہے اور اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے وہ یہ کہ اگر چہ اس عمل کا اثر ظاہراً بعض جگہوں پرمعاشرہ کے تمام افراد پر نہ پڑتا ہو لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے مثلاً برے کام کو اگر کوئی لوگوں کے سامنے انجام دے، تو یہ ایک بالواسطہ طور پر سکھانے کا طریقہ ہے اور یہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ دھیرے دھیرے اس کا برا ہونا ختم ہو جاتا ہے، اگر ماں اور باپ بچوں کے سامنے جھوٹ بولیں تو گویا یہ بالواسطہ طور پر ان کو سکھاتے ہیں کہ جھوٹ بولنا کوئی قباحت نہیں رکھتا ہے اسی بالواسطہ تاثیر کی وجہ سے( جوکہ معاشرہ پر پڑتی ہے) اسلام نے تجاہر بہ فسق یعنی علی الاعلان گناہ کرنے کو منع کیا ہے اور بعض افعال کے متعلق یہ کہا ہے کہ اسکو علانیہ لوگوں کے سامنے انجام نہیں دے سکتے؛ یعنی اگر ایسے اعمال کو کسی نے تنہائی مین چھپ کر انجام دیا ہے تو صرف گناہ کیا ہے؛ لیکن حقوقی طور پراس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور حکومت اسلامی بھی اسکو کچھ کہنے والی نہیں ہے؛ لیکن اگر اسی عمل کو وہ لوگوں کے سامنے کھل کر انجام دیتا ہے تو وہ مجرم شمار کیا جائیگا اور اسکو سزا ہو گی ۔

۱۸۸

بہر حال وہ اعمال جو کہ اجتماعی تاثیر رکھتے ہیں اور انکے انجام دینے سے لوگوں کے حقوق پر تجاوز ہوتا ہے انکی نسبت اگر انکی تاثیر بلا واسطہ ہوتی ہے تو اس صورت میں دنیا کے تمام عقلاء کہتے ہیں کہ ایک اجتماعی قوت یعنی حکومت تا کہ ان غلط کاموں کو جن کو دوسرے کے حقوق پر تجاوز کہا جاتا ہے، روک سکے ،یہ مطلب اسلام اور دین الہیٰ سے مخصوص نہیں ہے۔ ان موارد کے علاوہ اگر کسی جگہ کوئی عمل سماج کے لئے معنوی ضرر کا باعث ہو تو اسلام نے حکومت کو اجازت دی ہے بلکہ اس کو مکلف کیا ہے کہ اس میں دخل دے اور اس کام کو روکے؛ اور اسلام کا یہ کام ایک بنیادی اور جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے بر خلاف دوسرے نظاموں جو کہ ڈموکراسی اورلیبرل نظام پر قائم ہیں جمہوری اور لیبرل نظام حکومت میں مثلاً اگر کوئی نیم عریاں یا نا مناسب لباس پہن کر سڑک پر آتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس انسان کی خاص رفتارہے اور اس کا ذاتی معاملہ ہے اوراس کو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا ، اس میں وہ پوری طرح سے آزاد ہے ؛لیکن اسلام نے اس عمل سے منع کیا ہے اس نے کہا کہ یہ عمل معنوی و تربیتی اعتبار سے تباہ کن اثرات کا حامل ہے ،اگر کوئی شخص ایسے عمل انجام دیتا ہے تو اسلام نے اس کو خطا کار کہا ہے اور اس کے ساتھ مجرم کے عنوان سے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔

جزائی اورکیفری قوانین، اجتماعی نظم قائم کرنے کا سبب

وہ اعمال جو کہ اجتماعی خرابیاں رکھتے ہیں اور دوسروںکے حقوق کی پامالی کا سبب بنتے ہیں ان کو ہر حالت میں روکا جانا چاہئے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ظاہر سی بات یہ ہے کہ حکومت ان کاموں کو انجام دینے کے لئے قانون بنانے کی محتاج ہے وہ قوانین جو کہ ایک معاشرہ اور سماج میں ہوتے ہیں ، ا ن کی دو قسم ہے: (۱) مدنی قانون (۲) جزائی قانون

۱۸۹

مدنی قانون (مدنی حقوق )

لوگوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کو بیان کرتا ہے جیسے تجارت،شادی بیاہ،طلاق،میراث اور ان جیسے قانون ۔

جزائی قانون(کیفری قانون)

اس حکم کو بیان کرتا ہے جو مدنی قانون کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتا ہے یعنی جب مدنی قانون نے لوگوں کی آزادی اور حقوق کو بیان کر دیا ؛اگر کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جزائی قانون اس کی سزا کو بیان کرتا ہے اور تمام حکومتوں کا ایک اہم قا نون یہی جزائی قانون ہے ؛حکومت اس قانون کو بناتی ہے اور اس کو لاگو بھی کرتی ہے؛ اس کی اصل وجہ اجتماعی نظم کو برقرار رکھنا اور اس کو جاری رکھنا ہے اور وہ سب اسی جزائی قانون سے مربوط ہے؛ اگر حکومت صرف مدنی قانون کے بنانے پر اکتفا کرے اور صرف لوگوں کے حقوق کو بیان کرے اور جب لوگ اس قانون کی خلاف ورزی کریں،ان کے لئے کوئی قانون نہ ہو تو ہم بہت سے مواقع اس مدنی قانون کی مخالفت اور خلاف ورزی کا مشاہدہ کریں گے ۔ہم خود اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگرراہنما پولیس وغیرہ اور جرما نہ نہ ہو تو بہت کم ہی لوگ لال بتیّ،ممنوعہ جگہ پر گاڑیوںکا پارک کرنا ، یک طرفہ راستے سے نہ گذرنا ان سب قوانین کی رعایت کوئی بھی نہیں کرے گا، جو چیز چوروں اور قاتلوںکو ان کے کام سے خوف زدہ کرتی ہے زندان اور قتل کا ڈر ہے اگر یہ ڈر نہ ہو تو لوگوں کے مال و دولت کو آرام سے لوٹ لیں اور ان لوگوں کو قتل کردیں ،بس اسی وجہ سے حکومتوں کا ایک سب سے اہم اور بنیادی کام جزائی قانون کا بنانا اور اس کو جاری کرنا ہے اس قانون کے بغیر اجتماعی نظم اور حکومت کا نظم و نسق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔

۱۹۰

دافعہ، جزائی قوانین کی فطری ماہیت ہے

یہ فطری بات ہے کہ جزائی قانون کے لاگو ہونے کے لئے دافعہ کا ہونا ضروری ہے ؛کیونکہ کوئی بھی قید،کوڑے اور جرمانے سے خوش نہیں ہوتا ہے اور یہ سب کام سخت اور درشت ہیں چاہے یہ سب مسکراہٹ اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام دیئے جائیں؛ اگر کوئی انسان غلط کام کئے ہو اس سے بہت ہی ادب اور مسکراہٹ کے ساتھ کہا جائے مہربانی کرکے پندرہ سال اس قید خانہ میں محبوس ہوجایئے؛ یا یہ کہیں کہ ذرا مہربانی کرکے اپنے جسم سے کپڑے کو ہٹایئے تاکہ اس جسم پر سو کوڑے لگائے جائیں، یا یہ کہا جائے مہربانی کر کے اپنی گردن کو آگے بڑھائیے تا کہ اس کو کاٹا جائے تویہ مسکراہٹ اور احترام کسی چیز کو نہیں بدلے گا اور جن کاموں میں ذاتی طور پر خشونت اور نفرت موجود ہے ان کے اثر کو نہیں بدلے گا ؛کس کو یہ آرزو ہے کہ پندرہ سال بیوی،بچے اور دوستوں سے دور قید خانوں میں جاکر زندگی بسر کرے؟ اگر ایک پولیس افسربہت ہی اچھے اخلاق،نہایت ادب اور عزت و احترام کے ساتھ ہم کو صرف لال بتی سے گذرنے کی وجہ سے نا قابل معافی پانچ ہزارروپئے کا جر مانہ کر دے تو ہم اس بات پر ناخوش ہوتے ہیں ؛ اگر چہ ہم زبان سے کچھ نہ کہیں لیکن دل ہی دل میں ضرور اس کو برا بھلا کہیں گے اب اگرجرمانہ پانچ لاکھ روپئے ہو یا قید خانہ کی سزا ،کوڑے اور جسمی اذیت کے ساتھ ہو تو ایسی جگہوں پر دافعہ کا پایا جانا لازمی ہے؛ بہر حال کوئی بھی انسان جزائی قوانین میں خشونت اور ذاتی دافعہ کا انکارنہیں کر سکتا ہے اور جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی عرض کیا ان جیسے قوانین کے بغیر حکومت کا ہونا بھی ناممکن ہے؛ لہذٰاساری حکومتیں لازمی اورفطری طور پر دافعہ اور خشونت رکھتی ہیں ۔

۱۹۱

البتہ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ عرف عام میں خشونت کا اطلاق اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں جسمانی اذیت اور تکلیف ہو مثلاً کسی کا ہاتھ کاٹا جائے؛ یا کسی کو مارا جائے لیکن پھر بھی ہر حال میں جہاں جرمانہ، قید خانہ اور اس جیسی سزائیں ہیں ،اگروہاں خشونت کا اطلاق نہ ہوتا ہو تو کم سے کم تھوڑا بہت دافعہ ضرورپایا جاتا ہے اور اکثر لوگ اپنے متعلق اس طرح کی سزائوں سے راضی اور خوش نہیں ہوتے ہیں ؛ لہذٰا حکومت، جزائی قانون کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جزائی قوانین ہمیشہ خشونت اور دافعہ کا پہلواپنے دامن میں رکھتے ہیں ۔ اور حکومت بغیر دافعہ کی طاقت کے ،صرف قوت جاذبہ رکھتی ہو ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور بغیر اس کے حکومت بیکار ہے، کیونکہ حکومت کا ایک اصلی اور اہم مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی انسان قانون کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس کو زبر دستی اس کام کے لئے مجبور کیا جائے، تاکہ وہ قانون پر عمل کرے؛ البتہ یہ زبر دستی اور سختی بہت سے مراحل اور مراتب رکھتی ہے کبھی جر مانہ ہے ،کبھی قید خانہ، کبھی جلا وطنی اور کبھی کو ڑے مارنا ہے اور سب سے آخری حد قتل اور پھانسی ہے۔

۱۹۲

عمل کے شخصی اور اجتماعی پہلو کے درمیان فرق پر توجہ

اس بنا پر دافعہ اس جگہ فائدہ مند ہے جہاں پر اجتماعی قوانین کی مخالفت پیش آتی ہو اور جب تک کوئی برا کام شخصی، فردی اورخصوصی پہلورکھتا ہو اور اس میں کوئی بھی اجتماعی پہلو نہ پایا جاتا ہو، حکومت کو سزا دینے یا دافعہ کا کوئی حق حاصل نہیں ہے؛ البتہ اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی شخص اکیلے میں گناہ انجام دے رہا ہے اور وہ یہ چاہتا ہو کہ کوئی بھی اس کے گناہ سے واقف نہ ہو اوریہ حقوق مدنی قانون کے اعتبار سے بھی مجرم ہے اگر کسی صورت سے یہ گناہ قاضی کے نزدیک عدالت میں ثابت ہو جائے تواس انسان پر اسلامی دستور کے مطابق سزا اور حد جاری ہوگی ؛اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر چہ اس نے یہ گناہ تنہائی میں انجام دیا ہے اور اس نے اس بات کی کوشش کی کہ کوئی اس کے گناہ سے مطلع نہ ہو؛ لیکن چونکہ کسی طریقے سے لوگ اس کے اس گناہ سے واقف ہو گئے ہیں اور یہ بات عام ہو گئی ہے اور اس صورت میں اس گناہ نے اجتماعی رخ اختیار کر لیا ہے تواس لحاظ سے کہ ممکن ہے اس کے اجتماعی اثرات تباہ کن ہوں،اس وجہ سے اس پر سزا ہوگی ؛یہاں تک کہ اگر ایک انسان بھی اس کے اس غلط کام سے واقف ہوگیا ،اس وقت بھی اس پر( اشاعہ فاحشہ )برے عمل کو پھیلانے کا عنوان صدق کر رہا ہے جوکہ اسلامی قانون کے مطابق حرام اور ممنوع ہے ؛ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے( ان الّذین یحبّون ان تشیع الفاحشة فی الّذین آمنوا لهم عذاب الیم فی الدّنیا والآخرة'' ) ( ۱ ) جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں کے درمیان برے کام کو پھیلائیں ؛ان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر سخت دردناک عذاب ہے ۔

____________________

(۱) سورہ نور : آیہ ۱۹۔

۱۹۳

غیراسلامی ممالک اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ اسلام کابرتائو

وہ لوگ جو کہ اسلامی ممالک اور اس کی حدوں سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے متعلق جاذبہ اور دافعہ کا کیا حکم ہے، یہ ایک تفصیلی اور تفصیلی بحث ہے جس کے لئے بہت زیادہ وقت چاہئے؛ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، چونکہ آئیندہ جلسے سے ایک نئی بحث شروع کرنے کا ارادہ ہے، لہذٰا اس بحث کو مکمل کرنے کے لئے یہاں پر مختصر طور پر] جو اس بحث سے مربوط ہے[ اس کو پیش کیا جا رہا ہے۔

جو لوگ اسلامی مملکت کے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں وہ دو حال سے خالی نہیں ہیں ؛ یا وہ لوگ ہیں جو کہ اسلام کے خلاف سازش اور تخریب کرتے ہیں اور اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی چال چلتے رہتے ہیں ؛یا ایسے نہیں ہیں ؛دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ایسے لوگ ہیں جو کہ اسلامی ممالک اور وہاںکے لوگوں سے دشمنی رکھتے ہیں اور ان کے لئے اذیت کا سبب بنتے ہیں یا ایسے لوگ نہیں ہیں ۔ اگر باہری ممالک کے لوگ مسلمانوں کی اذیت اور ان کو کمزور اورنابودکرنے ارادہ نہ رکھتے ہوں تو اس صورت میں مسلمان ان کے خلاف کو ئی بھی تجاوز کا حق نہیں رکھتے ہیں

۱۹۴

اور مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے ساتھ عدل و احسان کا برتائو رکھیں ،قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:( لا ینهاکم اللّه عن الّذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوهم و تقسطوا الیهم'' ) ( ۱ ) وہ تمھیں ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو ، جب تک وہ لوگ تم سے دشمنی اختیار نہ کریں اور تمھارے خلاف سازش نہ رچیں؛ تم کو چاہئے کہ ان کے ساتھ احسان کرو ؛یہاں تک کہ اپنے ملک میں رہنے والے افراد سے بھی زیادہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، تا کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔ ان جگہوں میں جہاں زکواة خرچ کی جاسکتی ہے ان میں ایک وہ جگہ بھی ہے کہ اصطلاح میں جس کومولّفة القلوبکہا جاتا ہے یعنی وہ کفار جو کہ اسلامی ملک کے اطراف میں رہتے ہیں ؛ صرف اس لئے کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں اور اسلام کی دوستی اور محبت داخل ہو زکواة کے مد سے ان کو ہدیہ وغیرہ دیاجائے لہذٰا کفار کے اس گروہ کی بہ نسبت نہ صرف یہ کہ خشونت اور دافعہ نہ رکھنے کا حکم ہے؛ بلکہ انکے متعلق جاذبہ بھی اختیار کرنا چاہئے۔

لیکن وہ لوگ جو کہ مسلمان اور اسلام کے خلاف دشمنی اور سازش اختیار کرتے ہیں ؛ ان کے ساتھ تو خدا وند عالم نے فیصلہ کن انداز اختیار کرنے کا حکم دیا ہے،

____________________

(۱) سورہ ممتحنہ: آیہ ۸۔

۱۹۵

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے:( انّما ینهاکم الله عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاهروا علیٰ اخراجکم ان تولوهم ) ( ۱ ) وہ تمھیں صرف ان لوگوںکی دوستی سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمھیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمھارے نکالنے پر دشمنوں سے مدد کی ہے۔

پہلے گروہ کے لئے جاذبہ رکھو، لیکن یہ گروہ کہ جو اسلام اور مسلمان کے دشمن ہیں ان کے ساتھ پوری طرح سے دافعہ رکھو، ان کی زندگی کو قید کیے رہو اور ان کوہلنے کی مہلت نہ دو اس بات کی پھر تاکید کروں گا کہ دافعہ کا سہارا فقط ان کے لئے استعمال کر لینا چاہئے جو لوگ کھلے طور اور عام طریقے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرتے ہیں اور اس گروہ کے علاوہ کسی کے متعلق ایسا حکم نہیں ہے؛ یہاں تک کہ قران میں حکم ہے کہ جنگ کا عالم ہو اور کفار کا لشکر ایک طرف اور مسلمانوں کا لشکردوسری جانب اوراگرجنگ بھی ہو رہی ہو؛ اگر مشرکین میں سے کوئی ایک شخص سفید پرچم اٹھائے]جو کہ صلح اور جنگ بندی کی نشانی ہے [ یا کسی طرح بھی آپ تک پیغام پہونچائے کہ میں ایک علمی سوال کرنا چاہتا ہوں اور یہ بات میرے نزدیک ظاہر نہیں ہو پارہی ہے کہ اسلام حق ہے یا نہیں اور میری آپ سے جنگ حق اور صحیح ہے یا غلط ہے ؟اسلام یہاں پر کہتا ہے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس شخص کوحفاظت کے ساتھ اسلامی کیمپ میں لایا

____________________

(۱) سورہ ممتحنہ: آیہ ۹۔

۱۹۶

جائے، اور وہاں بیٹھا کر اس کے سوال کا جواب دیا جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ دلیل وبرہان سے اس کو مطمئن کیا جائے اور اس کے بعدبھی اگر وہ واپس ہونا چاہے تو اس کو اسی طرح پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی اذیت کے اس کی پہلی جگہ جو کہ اسلامی لشکر کی پہونچ سے باہر ہو وہاں تک پہونچا دیا جائے؛ پھراگر وہاں اس نے جنگ کا ارادہ کیا تواس کے ساتھ جنگ کی جائے؛ ورنہ اس کوچھوڑ دیں اور وہ جہاں جانا چاہے وہاں چلا جائے، قرآن مجید میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے( و ان احد من المشرکین استجارک فا جره حتیٰ یسمع کلام الله ثم ّابلغه ما منه ) ( ۱ ) اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ کا طلب گار ہوتو اس کو پناہ دے دو تا کہ وہ خدا کے کلام کو سنے؛پھر اس کے بعد اس کو امن کی جگہ پر واپس کردو ۔آپ دنیا کے کسی حقوقی نظام میں ایسی چیزوں کا سراغ اور نشان رکھتے ہیں ؟اسلام یہ کہتا ہے مسلمان طالب علم تو اپنی جگہ اگر کوئی دشمن کافر کہ جس کے ہاتھ میں تلوارہے اور وہ تم سے جنگ کر رہا ہے اوراسی جنگ کی حالت میں وہ تم سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو اسلام کا حکم یہ ہے کہ تم اس کا جواب دو ۔ہم ایسے مکتب و مذہب کے پیرو ہیں ۔کون کہتا ہے کہ اسلام اور اس کا نظام حکومت سوالوں کے جواب نہیں دیتااور سوال کا جواب تلوار سے دیتا ہے ؟ وہ اسلام جو کہ کافر( اس حال میں بھی کہ تلوار اس کے ہاتھ میں ہو اور جنگ کاعالم ہو)

____________________

(۱) سورہ توبہ آیہ ۶.

۱۹۷

کے ساتھ اس طرح کے سلوک کا حکم دیتا ہے وہ خودمسلمانوں کے درمیان آپس میں اس کے برخلاف کیسے دستور اور حکم دے گا؟

اسلام کی پہلی سیاست یہ ہے کہ وہ پہلے دلیل ،موعظہ اور جدال احسن کا حکم دیتا ہے ؛لیکن اگر بات دشمنی اور تخریب تک پہونچ جائے اور اس بحث کا کوئی علمی جواب نہ ہو اور وہ لوگ اسلام اور اس حکومت کے خلاف سازش میں لگے ہوں اور اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے ہوں تو ان کے مقابلہ میں سوئی برابر بھی نہیں جھکنا چاہئے اور ان پر ذرہ برابر بھی رحم و کرم نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ان کا پوری سختی اور فیصلہ کن انداز میں سامنا کرنا چاہئے ۔

قوت دافعہ یا سختی کے استعمال کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ

لہٰذااسلام صرف دو جگہوں پر خشونت کو اختیار کرنے اورقوت دافعہ کا سہارا لینے کا حکم دیتا ہے۔ پہلی وہ جگہ جہاں مسلمان یا غیر مسلمان اسلامی معاشرہ میں دوسرے کے حقوق غصب کررہے ہوں اور کسی بندئہ خدا پر ظلم و ستم ہوتا ہو یا کسی کے ساتھ خیانت کی جارہی ہو دوسری وہ جگہ جہاں اسلامی مملکت کے باہراسلام اور اسلامی ملکوں کے خلاف دشمنی کی جا رہی ہو۔اور سازش رچی جارہی ہو۔ البتہ ان سزائوں کی حد اور حدود کیا ہیں ،اورکتنے اور کیسے ہیں ؟ جوکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں یا دوسرے کے حقوق کو غصب کرنے والوں کے متعلق ہوتی ہیں ، عقل بہت سی جگہوں پر ان کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یہ سزا ئیں براہ راست خود خدا وند عالم کی طرف سے اور صاحب شریعت کی طرف سے معین ہوئی ہیں ، لیکن سزا جو بھی ہو جب سزا معین ہو جائے تویہ سزا پوری سختی کیخلاف ورزی کرنے والوں کے متعلق جاری کرنا چاہئے۔ جو لوگ غلط اور برے کام انجام دیتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:( الزانية والزانی فا جلدوا کل واحد منهما مائة جلدة ولا تاخذکم بهما را فة فی دین الله ان کنتم تومنون بالله والیوم الآخر )

۱۹۸

( ولیشهد عذابهماطائفة من المومنین' ) ( ۱ ) زنا کرنے والے مرد اور عورت کو سو سو تازیانے مارو؛ اگر تم خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو احکام الہیٰ میں ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ کرو؛ اور جس وقت ان کو یہ سزا دو تو مومنین کا گروہ گواہ کے طور پر وہاں حاضر رہے ایسا خلاف اور غلط کام کرنے والے کے ساتھ جتنی بھی سختی ممکن ہو سکے اسے انجام دیاجائے اور کوئی بھی مسلمان جو واقعی طورسے خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو ذرہ برابر بھی اس کواس خطا کار پر رحم اور مہربانی نہیں کرنی چاہئے ، اس سزاکی شدّت و سختی اس وقت اور زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ یہ کوڑے لوگوں کے سامنے مارے جائیں اور عوام ان دونوںکی سزا پر گواہ ہوں تو یہ بات فطری ہے کہ اس کڑی اور سخت سزا کے برداشت کے ساتھ ساتھ وہ بے آبرو بھی ہوجاتے ہیں لہذا ان کو اس طرح سے سزا دی جائے کہ کوئی دوسرا شخص اس طرح کے کام کی جرائت نہ کر سکے ۔

____________________

(۱) سورہ نور آیہ ۲.

۱۹۹

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی بحث کا خلاصہ

اس حصّہ کی بحث کا نتیجہ اور خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی حدیہ ہے کہ اگر کسی کے حق پر اسلامی معاشرہ میں چاہے وہ مادی حق ہو یا معنوی ،بالواسطہ یا بلا واسطہ طریقے سے تجاوز کیا جائے یا اسلامی حکومت کی حدود سے باہر رہ کر اسلام اور اسلامی حکومت کے خلاف سازش ہو؛ تو ان دو صورتوں میں ایسا کرنے والے کے ساتھ خشونت اور سختی کرنی چاہئے ،اس کے علاوہ بقیہ جگہوں پر صرف جاذبی رخ اختیار کرنا چاہئے یا پھر نرم لہجہ اور رفتار کے ساتھ جس قدر کم سے کم امکان ہو جاذبہ کے ساتھ دافعہ کی قوت کو استعمال کرنا چاہئے ؛جس جگہ دافعہ اور خشونت کی اجازت ہے اس کی حد اور اس کے طریقہ کو بہت سی جگہوں پر خدا وند عالم نے خود براہ راست معین فرما دیا ہے یا ایک کلی قانون کو اس نے بتا دیا ہے( کہ اسی قانون کے تحت سزا دی جانی چاہئے )لہذا کسی بھی حال میں خشونت کو اختیار کرتے وقت ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:( تلک حدود الله فلا تعتدوها ومن یتعدّ حدود الله فاو لٰئک هم الظالمون'' ) ( ۱ ) یہ احکام اللہ کے حدود ہیں

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیہ ۲۲۹

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

۲۴۴ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلَّه فِي كُلِّ نِعْمَةٍ حَقّاً - فَمَنْ أَدَّاه زَادَه مِنْهَا - ومَنْ قَصَّرَ فِيه خَاطَرَ بِزَوَالِ نِعْمَتِه.

۲۴۵ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَثُرَتِ الْمَقْدِرَةُ قَلَّتِ الشَّهْوَةُ.

۲۴۶ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرُوا نِفَارَ النِّعَمِ فَمَا كُلُّ شَارِدٍ بِمَرْدُودٍ.

۲۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الْكَرَمُ أَعْطَفُ مِنَ الرَّحِمِ

۲۴۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ظَنَّ بِكَ خَيْراً فَصَدِّقْ ظَنَّه.

(۲۴۴)

اللہ کا ہر نعمت میں ایک حق ہے۔جو اسے ادا کردے گا۔اللہ اس کی نعمت کو بڑھادے گا اور جو کوتاہی کرے گا وہ موجودہ نعمت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا۔

(۲۴۵)

جب طاقت زیادہ(۱) ہو جاتی ہے توخواہش کم ہو جاتی ہے۔

(۲۴۶)

نعمتوں کے زوال سے ڈرتے رہو کہ ہر بے قابو ہوکر نکل جانے والی چیز واپس نہیں آیا کرتی ہے۔

(۲۴۷)

جذبہ کرم قرابت داری سے زیادہ مہربانی کا باعث ہوتا ہے۔

(۲۴۸)

جو تمہارے بارے میں اچھا خیال(۲) رکھتا ہو اس کے خیال کو سچا کرکے دکھلا دو۔

(۱)جب فطرت کا یہ نظام ہے کہ کمزور آدمی میں خواہش زیادہ ہوتی ہے اور طاقتور اس قدرخواہشات کاحامل نہیں ہوتا ہے تو سیاسی دنیا میں بھی انسان کا طرزعمل ویسا ہی ہونا چاہیے کہ جس قدر طاقت و قوت میںاضافہ ہوتا ہے اپنے کوخواہشات دنیا سے بے نیاز بناتا جائے اور اپنے کردار سے یہ ثابت کردے کہ اس کی زندگی نظام فطرت سے الگ اور جدا گانہ نہیں ہے۔

(۲)یہ انسانی زندگی کا انتہائی حساس نکتہ ہے کہ انسان عام طور سے لوگوں کو حسن ظن میں مبتلا پا کراس سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اوراسے یہ خیال پیداہو جاتا ہے کہ جب لوگ شراب خانہمیں دیکھ کر بھی یہی تصور کریںگے کہ تبلیغ مذہب کے لئے گئے تھے تو شراب خانہ سے فائدہ اٹھالینا چاہیے حالانکہ تقاضئاے عقل ودانش اورمقتضائے شرافت وانسانیت یہ ہے کہ لوگ جس قدر شریف تصورکرتے ہیں۔اتنی شرافت کا اثبات کرے اور ان کے حسن ظن کو سوظن میں تبدیل نہ ہونے دے ۔

۷۰۱

۲۴۹ - وقَالَعليه‌السلام أَفْضَلُ الأَعْمَالِ مَا أَكْرَهْتَ نَفْسَكَ عَلَيْه.

۲۵۰ - وقَالَعليه‌السلام عَرَفْتُ اللَّه سُبْحَانَه بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ - وحَلِّ الْعُقُودِ ونَقْضِ الْهِمَمِ.

۲۵۱ - وقَالَعليه‌السلام مَرَارَةُ الدُّنْيَا حَلَاوَةُ الآخِرَةِ - وحَلَاوَةُ الدُّنْيَا مَرَارَةُ الآخِرَةِ.

۲۵۲ - وقَالَعليه‌السلام فَرَضَ اللَّه الإِيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ - والصَّلَاةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ - والزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ - والصِّيَامَ ابْتِلَاءً لإِخْلَاصِ الْخَلْقِ - والْحَجَّ تَقْرِبَةً لِلدِّينِ - والْجِهَادَ عِزّاً لِلإِسْلَامِ - والأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَوَامِّ - والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعاً لِلسُّفَهَاءِ - وصِلَةَ الرَّحِمِ مَنْمَاةً لِلْعَدَدِ - والْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ - وإِقَامَةَ الْحُدُودِ إِعْظَاماً لِلْمَحَارِمِ

(۲۴۹)

بہترین عمل وہ ہے جس پر تمہیں(۱) اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے ۔

(۲۵۰)

میں نے پروردگار کو ارادوں کے ٹوٹ جانے ' نیتوں کے بدل جانے اورہمتوں کے پست ہو جانے سے پہچانا ہے۔

(۲۵۱)

دنیا کی تلخی آخرت کی شیرینی ہے اور دنیا کی شیرینی آخرت کی تلخی ۔

(۲۵۲)

اللہ نے ایمان کو لازم قراردیا ہے شرک سے پاک کرنے کے لئے۔اور نماز کو واجب کیا ہے غرور سے باز رکھنے کے لئے۔زکوٰة کو رزق کا وسیلہ قرار دیاہے اور روزہ کوآزمائش اخلاص کاوسیلہ ۔جہاد کواسلام کی عزت کے لئے رکھا ہے اور امر بالمعروف کو عوام کی مصلحت کے لئے۔نہی عن المنکر کو بیوقوفوں کو برائیوں سے روکنے کے لئے واجب کیا ہے اور صلہ رحم عدد میں اضافہ کے لئے ۔قصاص خون کے تحفظ کا وسیلہ ہے اور حدود کا قیام محرمات کی اہمیت کے سمجھانے کا

(۱)انسان تمام اعمال کونفسکی خواہش کے مطابق انجام دے گا تو ایک دن نفس کاغلام ہو کر رہ جائے گا لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسے اعمال انجام دیتا رہے جہاں نفس پر جبر کرنا پڑے اوراسے اس کی اوقات سے آشنا بناتا رہے تاکہ اس کے حوصلے اس قدربلند نہ ہوجائیںکہ انسان کو مکمل طور پراپنی گرفت میں لیلے اور پھرنجات کاکوئی راستہ نہ رہ جائے ۔

۷۰۲

وتَرْكَ شُرْبِ الْخَمْرِ تَحْصِيناً لِلْعَقْلِ - ومُجَانَبَةَ السَّرِقَةِ إِيجَاباً لِلْعِفَّةِ - وتَرْكَ الزِّنَى تَحْصِيناً لِلنَّسَبِ - وتَرْكَ اللِّوَاطِ تَكْثِيراً لِلنَّسْلِ - والشَّهَادَاتِ اسْتِظْهَاراً عَلَى الْمُجَاحَدَاتِ - وتَرْكَ الْكَذِبِ تَشْرِيفاً لِلصِّدْقِ - والسَّلَامَ أَمَاناً مِنَ الْمَخَاوِفِ - والأَمَانَةَ نِظَاماً لِلأُمَّةِ - والطَّاعَةَ تَعْظِيماً لِلإِمَامَةِ.

۲۵۳ - وكَانَعليه‌السلام يَقُولُ: أَحْلِفُوا الظَّالِمَ إِذَا أَرَدْتُمْ يَمِينَه - بِأَنَّه بَرِيءٌ

ذریعہ۔شراب خواری کو عقل کی حفاظت کے لئے حرام قراردیا ہے اورچوری سے اجتناب کو عفت کی حفاظت کے لئے لازم قرار دیا ہے۔ترک زنا کا لزوم نسب کی حفاظت کے لئے ہے اور ترک لواط(۱) کی ضرورت نسل کی بقا کے لئے ہے۔گواہیوں کو انکارکے مقابلہ میں ثبوت کا ذریعہ قراردیا گیا ہے اور ترک کذب کو صدق کی شرافت کا وسیلہ ٹھہرادیا گیا ہے۔قیام امن کو خطروں سے تحفظ کے لئے رکھا گیا ہے اور امامت کو ملت کی تنظیم کاوسیلہ قراردیا گیا ہے اور پھر اطاعت کو عظمت امامت کی نشانی قراردیا گیا ہے۔

(۲۵۳)

کسی ظالم سے قسم لینا ہو تو اس طح قسم لو کہ وہ پروردگار کی طاقت اور قوت سے بیزار ہے اگر اس کا

(۱)یہ اسلام کا عالم انسانیت پر عمومی احسان ہے کہ اس نے اپنے قوانین کے ذریعہ انسانی آبادی کو بڑھانے کا انتظام کیا ہے اور پھرحرام زادوں کی درآمد کو روک دیا ہے تاکہ عالم انسانیت میں شریف افراد پیداہوں اور یہ عالم ہر قسم کی بربادی اور تباہکاری سے محفوظ رہے۔اس کے بعد اس کا صنف نسواں پر خصوصی احسان یہ ہے کہ اس نے عورت کے علاوہ جنسی تسکین کے ہر راستہ کوبند کردیا ہے۔کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان میں جب جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے تو اسے عورت کی ضرورت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور کسی بھی طرقہ سے جب وہ ہیجانی مادہنکل جاتا ہے تو کسی مقدار میں سکون حاصل ہو جاتا ہے اور جذبات کا طوفان ک جاتا ہے۔اہل دنیا نے اس مادہ کے اخراج کے مختلف طریقے ایجاد کئے ہیں۔اپنی جنس کاکوئی مل جاتا ہے تو ہم جنسی سے تسکین حاصل کر لیتے ہیں اور اگر کوئی نہیں ملتا ہے تو خود کاری کا عمل انجام دے لیتے ہیں اور اس طرح عورت کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج آزاد معاشروں میں عورت عضو معطل ہوکر رہ گئی ہے اور ہزار وسائل اختیارکرنے کے بعد بھی اس کے طلب گاروں کی فہرست کم سے کمتر ہوتی جارہی ہے۔اسلام نے اس خطرناک صورت حال کامقابلہ کرنے کے لئے مجامعت کے علاوہ ہر وسیلہ تسکین کو حرام کردیا تاکہ مرد عورت کے وجودسے بے نیاز نہ ہونے پائے اورعورت کاوجود معاشرہ میں غیر ضروری نہ قرار پا جائے ۔

افسوس کہ اس آزادی اور عیاشی کی ماری ہوئی دنیامیں اس پاکیزہ تصورکا قدردان کوئی نہیں ہے اور سب اسلام پر عورت کی ناقدری ہی کا الزام لگاتے ہیں ۔گویا ان کی نظر میں اسے کھولنا بنالینا اور کھیلنے کے بعد پھینک دینا ہی سب سے بڑی قدردانی ہے۔

۷۰۳

مِنْ حَوْلِ اللَّه وقُوَّتِه فَإِنَّه إِذَا حَلَفَ بِهَا كَاذِباً عُوجِلَ - الْعُقُوبَةَ وإِذَا حَلَفَ بِاللَّه الَّذِي لَا إِلَه إِلَّا هُوَ لَمْ يُعَاجَلْ - لأَنَّه قَدْ وَحَّدَ اللَّه تَعَالَى.

۲۵۴ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ كُنْ وَصِيَّ نَفْسِكَ - فِي مَالِكَ واعْمَلْ فِيه مَا تُؤْثِرُ أَنْ يُعْمَلَ فِيه مِنْ بَعْدِكَ.

۲۵۵ - وقَالَعليه‌السلام الْحِدَّةُ ضَرْبٌ مِنَ الْجُنُونِ - لأَنَّ صَاحِبَهَا يَنْدَمُ - فَإِنْ لَمْ يَنْدَمْ فَجُنُونُه مُسْتَحْكِمٌ.

۲۵۶ - وقَالَعليه‌السلام صِحَّةُ الْجَسَدِ مِنْ قِلَّةِ الْحَسَدِ.

۲۵۷ - وقَالَعليه‌السلام لِكُمَيْلِ بْنِ زِيَادٍ النَّخَعِيِّ - يَا كُمَيْلُ مُرْ أَهْلَكَ أَنْ يَرُوحُوا فِي كَسْبِ الْمَكَارِمِ - ويُدْلِجُوا فِي حَاجَةِ مَنْ هُوَ نَائِمٌ - فَوَالَّذِي وَسِعَ سَمْعُه الأَصْوَاتَ -

بیان صحیح نہ ہو۔کہ اگ اس طرح جھوٹی قسم کھائے گا تو فوراً مبتلائے عذاب ہو جائے گا اور اگر خدائے وحدہ لا شریک کے نام کی قسم کھائی تو عذاب میں عجلت نہ ہوگی کہ بہرحال تو حید پروردگار کا اقرار کرلیا ہے۔

(۲۵۴)

فرزند آدم ! اپنے مال میں اپناوصی خود بن اور وہ کام خود انجام دے جس کے بارے میں امید رکھتا ہے کہ لوگ تیرے بعدانجام دے دیں گے ۔

(۲۵۵)

غصہ جنون کی ایک قسم ہے کہ غصہ ورکو بعد میں پشیمان ہونا پڑتا ہے اور پشیمان نہ ہو تو واقعاً اس کا جنون مستحکم ہے۔

(۲۵۶)

بدن کی صحت کا ایک ذریعہ حسد کی قلت بھی ہے۔

(۲۵۷)

اے کمیل! اپنے گھر والوں کو حکم دو کہ اچھی خصلتوں کو تلاش کرنے کے لئے دن میں نکلیں اور سوجانے والوں کی حاجت روائی کے لئے رات میں قیام کریں۔قسم ہے اس ذات کی جو ہر آواز کی سننے والی ہے کہ

۷۰۴

مَا مِنْ أَحَدٍ أَوْدَعَ قَلْباً سُرُوراً - إِلَّا وخَلَقَ اللَّه لَه مِنْ ذَلِكَ السُّرُورِ لُطْفاً - فَإِذَا نَزَلَتْ بِه نَائِبَةٌ جَرَى إِلَيْهَا كَالْمَاءِ فِي انْحِدَارِه - حَتَّى يَطْرُدَهَا عَنْه كَمَا تُطْرَدُ غَرِيبَةُ الإِبِلِ.

۲۵۸ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَمْلَقْتُمْ فَتَاجِرُوا اللَّه بِالصَّدَقَةِ.

۲۵۹ - وقَالَعليه‌السلام الْوَفَاءُ لأَهْلِ الْغَدْرِ غَدْرٌ عِنْدَ اللَّه - والْغَدْرُ بِأَهْلِ الْغَدْرِ وَفَاءٌ عِنْدَ اللَّه.

کوئی شخص کسی دل میں سرور وارد نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ پروردگار اس کے لئے اس سرور سے ایک لطف پیداکر دیتا ہے۔کہ اس کے بعد اگر اس پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے ۔تو وہ لطف(۱) اس کی طرف نشیب کی جانب بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھتا ہے اور اس مصیبت کو یوں ہنکا دیتا ہے جس طرح اجنبی اونٹ ہنکائے جاتے ہیں۔

(۲۵۸)

جب غربت کا شکار ہوجائو تو اللہ سے صدقہ کے ذریعہ تجارت(۲) کرلو(صدقہ صرف دولت مندوں کے لئے نہیں ہے )

(۲۵۹)

غداروں سے وفاداری بھی اللہ کے نزدیک ایک قسم کی غداری ہے اور غداروں سے بیوفائی ایک طرح کی وفاداری ہے۔

(۱)لطف پروردگار کا بہترین وسیلہ مومنین کے دلوں میں سرور کا داخل کرنا ہے اور ادخال سرور کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کی جاجت برآری کے لئے اس وقت کا انتخاب کیا جائے جب ساری دنیا خواب غفلت میں ہو کہ اس طرح کا رخیر کرنے والے کے اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے اور غریب وفقر انسان کی عزت وآبرو کاتحفظ ہوتا ہے اوراسے اس کارخیرسے فرحت بھی زیادہ حاصل ہوتی ہے کہ وہ دن بھر کی تگ و دو سے عاجز اور مایوس ہوکر بستر خواب کی طرف آیا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ایسے اوقات میں کار خیرکی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔

(۲)عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صدقہ اورکارخیر صرف بڑے لوگوں کے لئے ہے اورغریبوں کاکام صرف صدقات و خیرات کا گزارا کرنا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔دنیا میں جس طرح ہر امیر سے بڑا امیر پڑا ہوا ہے اسی طرح ہر فقیر سے بڑا فقیر بھی پایا جاتا ہے۔لہٰذا کوئی بھی انسان اگر کسی امیر کے اعتبارسے فقیر اورمحتاج خیرات ہے تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے فقیر کے اعتبارسے دولت مند اور مطمئن تصور کیاجاتا ہولہٰذا اس کا فرض ہے کہ اپنے سے کمتر افراد پر رحم کرے تاکہ پروردگار اس کی غربت پر مزیدرحم کرے کہ غربت کے عالم میں کارخیر دولت مندوں کے کارخیر سے یقینا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

۷۰۵

۲۶۰ - وقَالَعليه‌السلام كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه - ومَغْرُورٍ بِالسَّتْرِ عَلَيْه - ومَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه - ومَا ابْتَلَى اللَّه سُبْحَانَه أَحَداً بِمِثْلِ الإِمْلَاءِ لَه.

قال الرضي - وقد مضى هذا الكلام فيما تقدم - إلا أن فيه هاهنا زيادة جيدة مفيدة

(۲۶۰)

کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں احسان کے ذریعہ عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور وہ پردہ پوشی(۱) کی بنا پر دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں اورلوگوں کے اچھے الفاظ سن کرف ریب خوردہ ہوگئے ہیں۔اللہ نے کسی بھی شخص کا امتحان مہلت سے زیادہ بہتر کسی ذریعہ سے نہیں لیا ہے ۔

سید رضی : یہ بات پہلے گذر چکی تھی لیکن اس میں قدرے مفید اضافہ تھا اس لئے دوبارہ نقل کردی گئی ہے۔

(۱)خدا جانتا ہے کہ مالک کائنات اگرجبر کے ذریعہ انسان کو راہ راست پرلانا چاہتا تواسے طاقت استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور کسی کے سر پر جلادوں کے مسلط کرنے کا کوئی کام نہیں تھا۔وہ صرف عیوب کی پردہ پوشی کا سلسلہ ختم کردیتا اور ایک نظام بنادیتا کہ جو انسان بھی خلوت اور تنہائی میں کوئی غلط کام انجام دے گا یا اپنے دل و دماغ میں کسی غلط تصور کوجگہ دے گا۔اس کے اس عیب کا فوری اعلان کردیا جائے گا۔اور اسے اس کی پیشانی پر لکھ دیا جائے گا۔تو سارے انسان ایک لمحہ میں شریف ہو جاتے ہیں اور نہ کسی میں غداری اورمکاری کی ہمت ہوتی اورنہ کوئی منافقت اور ریاکاری سے کام لینے کی جرأت کرتا۔ہر انسان شریف ہوتا اور معاشرہ پاکیزہ کرداروں کا معاشرہ ہوتا لیکن وہ کسی طرح کے جبرو اکراہ کو استعمال نہیں کرنا چاہتا ہے اور انسان سے اسی کی شرافت کے راستہ سے کام لینا چاہتا ہے۔ورنہ جبرو اکراہ کو استعمال کرنا ہوتا تو شیطان سے بھی سجدہ کرایا جاتا تھا اور اسے اس قدر مہلت دینے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

۷۰۶

فصل

نذكر فيه شيئا من غريب كلامه المحتاج إلى التفسير

۱ - وفي حديثهعليه‌السلام

فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ ضَرَبَ يَعْسُوبُ الدِّينِ بِذَنَبِه - فَيَجْتَمِعُونَ إِلَيْه كَمَا يَجْتَمِعُ قَزَعُ الْخَرِيفِ.

قال الرضي - يعسوب الدين اليعسوب - السيد العظيم المالك لأمور الناس يومئذ - والقزع قطع الغيم التي لا ماء فيها.

۲ - وفي حديثهعليه‌السلام

هَذَا الْخَطِيبُ الشَّحْشَحُ.

يريد الماهر بالخطبة الماضي فيها - وكل ماض في كلام أو سير فهو شحشح - والشحشح في غير هذا الموضع البخيل الممسك

۳ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ لِلْخُصُومَةِ قُحَماً.

يريد بالقحم المهالك -

فصل

اس فصل میں حضرت کے ان کلمات کو نقل کیا گیا ہے جو محتاج تفسیر تھے اور پھر ان کی تفسیر و توضیح بھی نقل کیا گیا ہے۔

(۱)

جب وہ وقت آئے گا تو دین کا یعسوب اپنی جگہ پر قرار پائے گا اور لوگ اس کے پاس اس طرح جمع ہوں گے جس طرح موسم خریف کے قزع۔

سید رضی : یعسوب اس سردار کو کہا جاتا ہے جوت مام امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اور قزع بادلوں کے ان ٹکڑوں کا نام ہے جن میں پانی نہ ہو۔

(۲)

یہ خطیب شحشح ( صعصعہ بن صوحان عبدی)

شحشح اس خطیب کو کہتے ہیں جوخطابت میں ماہر ہوتا ہے اور زبان آوری یا رفتار میں تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر شحشح بخیل اور کنجوس کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

(۳)

لڑائی جھگڑے کے نتیجہ میں قحم ہوتے ہیں۔

قحم سے مراد تباہیاں ہیں۔کہ یہ لوگوں کی

۷۰۷

لأنها تقحم أصحابها في المهالك والمتالف في الأكثر - فمن ذلك قحمة الأعراب - وهو أن تصيبهم السنة فتتعرق أموالهم - فذلك تقحمها فيهم - وقيل فيه وجه آخر وهو أنها تقحمهم بلاد الريف - أي تحوجهم إلى دخول الحضر عند محول البدو.

۴ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِذَا بَلَغَ النِّسَاءُ نَصَّ الْحِقَاقِ فَالْعَصَبَةُ أَوْلَى.

والنص منتهى الأشياء ومبلغ أقصاها - كالنص في السير لأنه أقصى ما تقدر عليه الدابة - وتقول نصصت الرجل عن الأمر - إذا استقصيت مسألته عنه لتستخرج ما عنده فيه - فنص الحقاق يريد به الإدراك لأنه منتهى الصغر - والوقت الذي يخرج منه الصغير إلى حد الكبير - وهو من أفصح الكنايات عن هذا الأمر وأغربها - يقول فإذا بلغ النساء ذلك - فالعصبة أولى بالمرأة من أمها - إذا كانوا محرما مثل الإخوة والأعمام - وبتزويجها إن أرادوا ذلك -. والحقاق محاقة الأم للعصبة في المرأة - وهو الجدال والخصومة - وقول كل واحد منهما للآخر أنا أحق منك بهذا - يقال منه حاققته حقاقا مثل جادلته جدالا –

وقد قيل إن نص الحقاق بلوغ العقل وهو الإدراك - لأنهعليه‌السلام إنما أراد منتهى الأمر - الذي تجب فيه الحقوق والأحكام

ہلاکتوں میں گرادیتی ہیں اور اسی سے لفظ '' قحمتہ الاعراب '' نکلا ہے جب ایسا قحط پڑ جاتا ہے کہ جانور صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہجاتے ہیں اور گویا یہاس بلا میں ڈھکیل دئیے جاتے ہیں ۔یادوسرے اعتبارسے قحط سالی ان کی صحرائوں سے نکال کر شہروں کی طرف ڈھکیل دیتی ہے۔

(۴)

جب لڑکیاں نص الحقاق تکپ ہنچ جائیں تو ددھیالی قرابتدار زیادہ اولویت رکھتے ہیں۔

نص : آخری منزل کو کہا جاتا ہے۔

نصصت الرجل: یعنی جہاں تک ممکن تھا اس سے سوال کرلیا۔نص الحقاق سے مراد منزل ادراک ہے جو بچپنے کی آخری حد ہے اور یہاس سلسلہ کا بہترین کنایہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جب لڑکیاں حد بلوغ تک پہنچ جاتیں ہیں تو ددھیالی رشتہ دار جو محرم بھی ہوں جیسے بھائی اورچچا وغیرہ وہ اس کا رشتہ کرنے کے لئے ماں کے مقابلہ میں زیادہ اولویت رکھتے ہیں۔اور حقاق سے ماں کا ان رشتہ داروں سے جھگڑا کرنا اور ہرایک کا اپنے کو زیادہ حقدار ثابت کرنا مراد ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے '' حاققتہ حقاقا'' جادلتہ جدالا''

اوربعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نص الحقاق کمال عقل ہے جب لڑکی ادراک کی اس منزل پر ہوتی ہے جہاں اس کے ذمہ فرائض واحکام ثابت ہو جاتے ہیں اور

۷۰۸

ومن رواه نص الحقائق - فإنما أراد جمع حقيقة.

هذا معنى ما ذكره أبو عبيد القاسم بن سلام -. والذي عندي أن المراد بنص الحقاق هاهنا - بلوغ المرأة إلى الحد الذي يجوز فيه تزويجها - وتصرفها في حقوقها - تشبيها بالحقاق من الإبل وهي جمع حقة وحق - وهو الذي استكمل ثلاث سنين ودخل في الرابعة - وعند ذلك يبلغ إلى الحد الذي يتمكن فيه - من ركوب ظهره ونصه في السير - والحقائق أيضا جمع حقة - فالروايتان جميعا ترجعان إلى معنى واحد - وهذا أشبه بطريقة العرب من المعنى المذكور أولا.

۵ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ الإِيمَانَ يَبْدُو لُمْظَةً فِي الْقَلْبِ - كُلَّمَا ازْدَادَ الإِيمَانُ ازْدَادَتِ اللُّمْظَةُ.

واللمظة مثل النكتة أو نحوها من البياض - ومنه قيل فرس ألمظ - إذا كان بجحفلته شيء من البياض. 

جن لوگوں نے نص الحقائق نقل کیا ہے۔ان کے یہاں حقائق حقیقت کی جمع ہے۔یہ ساری باتیں ابو عبیدہ القاسم بن سلام نے بیان کی ہیں لیکن میرے نزدیک عورت کا قابل شادی اور قابل تصرف ہو جانا مراد ہے کہ حقاق حقہ کی جمع ہے اورحقہ وہ اونٹنی ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو جائے اور اس وت سواری کے قابل ہو جاتی ہے ۔اور حقائق بھی حقہ ہی کے جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہ مفہوم عرب کے اسلوب سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔

(۵)

ایمان ایک لمظہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر ایمان کے ساتھ یہ لمظہ بھی بڑھتا رہتا ہے ( لمظہ سفید نقطہ ہوتا ہے جو گھوڑے کے ہونٹ پر ظاہر ہوتا ہے )

۷۰۹

۶ - وفي حديثهعليه‌السلام

إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا كَانَ لَه الدَّيْنُ الظَّنُونُ - يَجِبُ عَلَيْه أَنْ يُزَكِّيَه لِمَا مَضَى إِذَا قَبَضَه.

فالظنون الذي لا يعلم صاحبه - أيقبضه من الذي هو عليه أم لا - فكأنه الذي يظن به - فمرة يرجوه ومرة لا يرجوه - وهذا من أفصح الكلام - وكذلك كل أمر تطلبه - ولا تدري على أي شيء أنت منه فهو ظنون - وعلى ذلك قول الأعشى:

ما يجعل الجد الظنون الذي

جنب صوب اللجب الماطر

مثل الفراتي إذا ما طما

يقذف بالبوصي والماهر

والجد البئر العادية في الصحراء - والظنون التي لا يعلم هل فيها ماء أم لا.

۷ - وفي حديثهعليه‌السلام

أنَّه شَيَّعَ جَيْشاً بِغَزْيَةٍ فَقَالَ - اعْذِبُوا عَنِ النِّسَاءِ مَا اسْتَطَعْتُمْ.

(۶)

جب کسی شخص کو دین ظنون مل جائے تو جتنے سال گزرے گئے ہوں ان کی زکوٰة واجب ہے۔

ظنون اس قرض کا نام ہے جس کے قرضدار کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ وصول بھی ہو سکے گا یا نہیں اور اس طرح ' طرح طرح کے خیالات پیدا ہو تے رہتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہر ایسے امر کو ظنون کہا جاتا ہے 'جیسا کہ اعشیٰ نے کہا ہے۔

''وہ جدظنون جو گرج کربرسنے والے ابر کی بارش سے بھی محروم ہو۔اسے دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جا سکتا ے جب کہ وہ ٹھاٹھیں مار رہا ہو اور کشتی اور تیراک دونوں کوڈھکیل کر باہر پھینک رہا ہو۔''

جد۔صحراکے پرانے کنویں کوکہاجاتا ہے اور ظنون اس کوکہا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ نہ معلوم ہو کہ اس میں پانی ہے یا نہیں ۔

(۷)

آپ نے ایک لشکر کومیدان جنگ میں بھیجتے ہوئے فرمایا : جہاں تک ممکن ہو عورتوں سے عاذبرہو یعنی ان کی یاد سے دور رہو

۷۱۰

ومعناه اصدفوا عن ذكر النساء وشغل القلب بهن - وامتنعوا من المقاربة لهن - لأن ذلك يفت في عضد الحمية - ويقدح في معاقد العزيمة ويكسر عن العدو - ويلفت عن الإبعاد في الغزو - فكل من امتنع من شيء فقد عذب عنه - والعاذب والعذوب الممتنع من الأكل والشرب.

۸ - وفي حديثهعليه‌السلام

كَالْيَاسِرِ الْفَالِجِ يَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزَةٍ مِنْ قِدَاحِه. الياسرون - هم الذين يتضاربون بالقداح على الجزور - والفالج القاهر والغالب - يقال فلج عليهم وفلجهم - وقال الراجز.

لما رأيت فالجا قد فلجا

۹ - وفي حديثهعليه‌السلام

كُنَّا إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللَّه -صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنَّا أَقْرَبَ إِلَى الْعَدُوِّ مِنْه.

۔ان میں دل مت لگائو اور ان سے مقاربت مت کرو کہ یہ طریقہ کار بازوئے حمیت میں کمزوری اور عزم کی پختگی میں سستی پیدا کردیتا ہے اور دشمن کے مقابلہ میں کمزور بنا دیتا ہے اور جنگ میں کوشش و سعی سے رو گردان کر دیتا ہے اورجوان تمام چیزوں سے الگ رہتا ہے اسے عاذب کہا جاتا ہے۔عاذب یا عذوب کھانے پینے سے دور رہنے والے کوبھی کہا جاتا ہے۔

(۸)

وہ اس یاسر فالج کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ہی مرحلہ پر کامیابی کی امید لگا لیتا ہے '' یا سرون '' وہ لوگ ہیں جونحرکی ہوئی اونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ہیں اورفالج ان میں کامیاب ہو جانے والے کو کہا جاتا ہے '' فلج علیھم '' یا '' فلجھم'' اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب کوئی غالب آجاتا ہے 'جیسا کہ رجز خواں شاعر نے کہا ہے :

'' جب میں نے کسی فالج کو دیکھا کہ وہ کامیاب ہوگیا''

(۹)

جب احمرار باس ہوتا تھا تو ہم لوگ رسول اکرم(ص) کی(۱) پناہ میں رہا کرتے تھے اور کوئی شخص بھی آپ سے زیادہ دشمن سے قریب نہیں ہوتا تھا ''

(۱)پیغمبر اسلام (ص) کاکمال احترام ہے کہ حضرت علی جسے اشجع عرب نے آپ کے بارے میں یہ بیان دیا ہے اورآپ کی عظمت و ہیبت وشجاعت کااعلان کیا ہے ۔دوسراکوئی ہوتا تو اس کے برعکس بیان کرتا کہ میدان جنگ میں سرکار ہماری پناہ میں رہا کرتے تھے اورہم نہ ہوتے توآپ کاخاتمہ ہو جاتا لیکن امیرالمومنین جیسا صاحب کرداراس انداز کا بیان نہیں دے سکتا ہے اور نہ یہ سوچ سکتا ہے ۔آپ کی نظرمیں انسان کتنا ہی بلند کردار اورصاحب طاقت و ہمت کیوں نہ ہو جائے سرکار دو عالم (ص) کا امتی ہی شمار ہوگا اور امتی کا مرتبہ پیغمبر (ص) سے بلند تر نہیں ہو سکتا ہے۔

۷۱۱

ومعنى ذلك أنه إذا عظم الخوف من العدو - واشتد عضاض الحرب - فزع المسلمون إلى قتال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنفسه - فينزل الله عليهم النصر به - ويأمنون مما كانوا يخافونه بمكانه.

وقوله إذا احمر البأس - كناية عن اشتداد الأمر - وقد قيل في ذلك أقوال - أحسنها أنه شبه حمي الحرب - بالنار التي تجمع الحرارة والحمرة بفعلها ولونها - ومما يقوي ذلك - قول رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وقد رأى مجتلد الناس - يوم حنين وهي حرب هوازن - الآن حمي الوطيس - فالوطيس مستوقد النار - فشبه رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ما استحر من جلاد القوم - باحتدام النار وشدة التهابها.

انقضى هذا الفصل ورجعنا إلى سنن الغرض الأول في هذا الباب.

۲۶۱ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا بَلَغَه إِغَارَةُ أَصْحَابِ مُعَاوِيَةَ عَلَى الأَنْبَارِ - فَخَرَجَ بِنَفْسِه مَاشِياً حَتَّى أَتَى النُّخَيْلَةَ - وأَدْرَكَه النَّاسُ

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دشمن کاخطرہ بڑھ جاتا تھا اور جنگ کی کاٹ شدید ہو جاتی تھی تو مسلمان میدان میں رسول اکرم (ص) کی پناہ تلاش کیا کرتے تھے اور آپ پر نصرت الٰہی کا نزول ہو جاتا تھا اور مسلمانوں کو امن و امان حاصل ہوجاتا تھا۔

احمر الباس درحقیقت سختی کا کنایہ ہے۔جس کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں اور سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جنگ کی تیزی اور گرمی کو آگیس تشبیہ دی گئی ہے جس میں گرمی اور سرخی دونوں ہوتی ہیں اوراس کا موید سرکار دو عالم (ص) کا یہ ارشاد ہے کہ آپ نے حنین کے دن قبیلہ بنی ہوازن کی جنگ میں لوگوں کوجنگ کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اب وطیس گرم ہوگیا ہے یعنی آپ نے میدان کا رزار کی گرم بازاری کو آگ کے بھڑکنے اور اس کے شعلوں سے تشبیہ دی ہے۔کہ وطیس اس جگہ کوکہتے ہیں جہاں آگ بھڑکائی جاتی ہے۔

یہ فصل تمام ہوگئی اورپھر گذشتہ باب کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے ۔

(۲۶۱)

جب آپ کو اطلاع دی گئی کہ معاویہ کے اصحاب نے انبار پر حملہ کردیا ہے تو آپ بہ نفس نفیس نکل کر نخیلہ تک تشریف لے گئے اور کچھ لوگ بھی آپ کے

۷۱۲

وقَالُوا - يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ نَحْنُ نَكْفِيكَهُمْ - فَقَالَ:

مَا تَكْفُونَنِي أَنْفُسَكُمْ - فَكَيْفَ تَكْفُونَنِي غَيْرَكُمْ - إِنْ كَانَتِ الرَّعَايَا قَبْلِي لَتَشْكُو حَيْفَ رُعَاتِهَا - وإِنَّنِي الْيَوْمَ لأَشْكُو حَيْفَ رَعِيَّتِي - كَأَنَّنِي الْمَقُودُ وهُمُ الْقَادَةُ - أَوِ الْمَوْزُوعُ وهُمُ الْوَزَعَةُ !

فلما قالعليه‌السلام هذا القول في كلام طويل - قد ذكرنا مختاره في جملة الخطب - تقدم إليه رجلان من أصحابه - فقال أحدهما إني لا أملك إلا نفسي وأخي - فمر بأمرك يا أمير المؤمنين ننقد له - فقالعليه‌السلام

وأَيْنَ تَقَعَانِ مِمَّا أُرِيدُ

۲۶۲ - وقِيلَ إِنَّ الْحَارِثَ بْنَ حَوْطٍ أَتَاه فَقَالَ - أَتَرَانِي أَظُنُّ أَصْحَابَ الْجَمَلِ كَانُوا عَلَى ضَلَالَةٍ ؟

فَقَالَعليه‌السلام يَا حَارِثُ إِنَّكَ نَظَرْتَ تَحْتَكَ ولَمْ تَنْظُرْ فَوْقَكَ

ساتھ پہنچ گئے اورکہنے لگے کہ آپ تشریف رکھیں۔ہم لوگ ان دشمنوں کے لئے کافی ہیں ۔تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے لئے کافی نہیں ہو تو دشمن کے لئے کیا کافی ہو سکتے ہو۔تم سے پہلے رعایا حکام کے ظلم سے فریادی تھی اورآج میں رعایا کے ظلم سے فریاد کر رہا ہوں۔جیسے کہ یہی لوگ قائد ہیں اور میں رعیت ہوں۔میں حلقہ بگوش ہوں اوریہ فرمانروا۔

جس وقت آپ نے یہ کلام ارشاد فرمایا جس کا ایک حصہ خطبوں کے ذیل میں نقل کیا جا چکا ہے تو آپکے اصحاب میں سے دو افراد آگے بڑھے جن میں سے ایک نے کہا کہ میں اپنا اور اپنے بھائی کا ذمہ دار ہوں۔آپ حکم دیں ہم تعمیل کے لئے تیار ہیں آپ نے فرمایا کہ میں جو کچھ چاہتا ہوں تمہارا اس سے کیا تعلق ہے۔

(۲۶۲)

کہا جاتا ہے کہ حارث بن جوط نے آپ کے پاس آکر یہ کہا کہ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ میں اصحاب جمل کو گمراہ مان لوں گا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ اے حارث! تم نے اپنے نیچے(۱) کی طرف دیکھاہے اوراوپر نہیں دیکھا ہے

(۱)یہ بات اس شخص سے کہی جاتی ہے جس کی نگاہ انتہائی محدود ہوتی ہے اورانپے زیر قدم اشیاء سے زیادہ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ورنہ انسان کی نگاہ بلندہو جائے تو بہت سے حقاق کا ادراک کر سکتی ہے۔حارث کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس نے صرف ام المومنین کی زوجیت پر نگاہ کی ہے اور طلحہ و زبیر کی صحابیت پر۔اورایسی محدود نگاہ رکھنے والا انسان حقاق کا ادراک نہیں کر سکتا ہے۔حقائق کا معیار قرآن و سنت ہے جس میں زوجہ کو گھرمیں بیٹھنے کی تلقین کی گئی ہے اور انسان کو بیعت شکنی سے منع کیا گیا ہے۔حقائق کامعیار کسی کی زوجیت یا صحابیت نہیں ہے ' ورنہ زوجہ نوح اور زوجہ لوط کو قابل مذمت نہ قراردیا جاتا اور اصحاب موسیٰ کی صریحی مذمت نہ کی جاتی ۔

۷۱۳

فَحِرْتَ - إِنَّكَ لَمْ تَعْرِفِ الْحَقَّ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاه ولَمْ تَعْرِفِ الْبَاطِلَ فَتَعْرِفَ مَنْ أَتَاه.

فَقَالَ الْحَارِثُ فَإِنِّي أَعْتَزِلُ مَعَ سَعِيدِ بْنِ مَالِكٍ وعَبْدِ اللَّه بْنِ عُمَرَ - فَقَالَعليه‌السلام

إِنَّ سَعِيداً وعَبْدَ اللَّه بْنَ عُمَرَ لَمْ يَنْصُرَا الْحَقَّ - ولَمْ يَخْذُلَا الْبَاطِلَ.

۲۶۳ - وقَالَ عليهلسلام صَاحِبُ السُّلْطَانِ كَرَاكِبِ الأَسَدِ - يُغْبَطُ بِمَوْقِعِه وهُوَ أَعْلَمُ بِمَوْضِعِه.

۲۶۴ - وقَالَعليه‌السلام أَحْسِنُوا فِي عَقِبِ غَيْرِكُمْ تُحْفَظُوا فِي عَقِبِكُمْ

۲۶۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ كَلَامَ الْحُكَمَاءِ إِذَا كَانَ صَوَاباً كَانَ دَوَاءً - وإِذَا كَانَ خَطَأً كَانَ دَاءً.

۲۶۶ - وسَأَلَه رَجُلٌ أَنْ يُعَرِّفَه الإِيمَانَ

اسی لئے حیران ہوگئے ہو۔تم حق ہی کو نہیں پہچانتے ہو تو کیا جانو کہ حقدار کون ہے اور باطل ہی کو نہیں جانتے ہو تو کیا جانو کہ باطل پرست کون ہے ۔

حارث نے کہا کہ میں سعید بن مالک اورعبداللہ بن عمر کے ساتھ گوشہ نشین ہوجائوں گا توآپنے فرمایاکہ سعید اورعبداللہ بن عمرنے نہ حق کی مدد کی ہے اورنہ ابطل کو نظر انداز کیا ہے (نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے )

(۲۶۳)

بادشاہ کا مصاحب(۱) شیرکاسوار ہوتا ہے کہ لوگ اس کے حالات پر رشک کرتے ہیں اور وہ خود اپنی حالت کو بہتر پہچانتا ہے۔

(۲۶۴)

دوسروں کے پسماندگان سے اچھا برتائو کرو تاکہ لوگ تمہارے پسماندگان کے ساتھ بھی اچھا برتائو کریں ۔

(۲۶۵)

حکماء کا کلام درست ہوتا ہے تو دوا بن جاتا ہے اور غلط ہوتا ہے تو بیماری بن جاتا ہے ۔

(۲۶۶)

ایک شخص نے آپ سے مطالبہ کیا کہ ایمان کی تعریف فرمائیں

(۱)حقیقت امر یہ ہے کہ مصاحبتکی زندگی دیکھنے میں انتہائی حسین دکھائی دیتی ہے کہ سارا امرو نہی کا نظام بظاہرمصاحب کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن اسکاواقعی حیثیت کیا ہوتی ہے یہ اسی کادل جانتا ہے کہ نہ صاحب اقتدار کے مزاج کا کوئی بھروسہ ہوتاہے اور نہ مصاحبت کے عہدہ اقتدارکا۔

رب کریم ہر انسان کوایسی بلائوں سے محفوظ رکھے جن کا ظاہر انتہائی حسین ہوتا ہے اور واقع انتہائی سنگین اور خطر ناک۔

۷۱۴

فَقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَ الْغَدُ - فَأْتِنِي حَتَّى أُخْبِرَكَ عَلَى أَسْمَاعِ النَّاسِ - فَإِنْ نَسِيتَ مَقَالَتِي حَفِظَهَا عَلَيْكَ غَيْرُكَ - فَإِنَّ الْكَلَامَ كَالشَّارِدَةِ يَنْقُفُهَا هَذَا ويُخْطِئُهَا هَذَا.

وقد ذكرنا ما أجابه به - فيما تقدم من هذا الباب وهو قوله - الإيمان على أربع شعب.

۲۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ لَا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذِي لَمْ يَأْتِكَ - عَلَى يَوْمِكَ الَّذِي قَدْ أَتَاكَ - فَإِنَّه إِنْ يَكُ مِنْ عُمُرِكَ يَأْتِ اللَّه فِيه بِرِزْقِكَ.

۲۶۸ - وقَالَعليه‌السلام أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْناً مَا - عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْماً مَا - وأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْناً مَا - عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْماً مَا.

توفرمایا کہ کل آنا تومیں مجمع عام میں بیان کروں گا تاکہ تم بھول جائو تو دوسرے لوگ محفوظ رکھ سکیں۔ اس لئے کہ کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتا ہے کہ ایک پکڑ لیتا ہے اورایک کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ( مفصل جواب اس سے پہلے ایمان کے شعبوں کے ذیل میں نقل کیا جا چکا ہے )

(۲۶۷)

فرزند آدم ! اس دن کاغم جو ابھی نہیں آیا ہے اس دن پر مٹ ڈالو جوآچکا ہے۔کہ اگر وہ تمہاری عمرمیں شامل ہوگا تو اس کا رزق بھی اس کے ساتھ ہی آئے گا۔

(۲۶۸)

اپنے دوست سے ایک محدود حد تک دوستی کرو کہیں ایسا(۱) نہ کہ ایک دن دشمن ہو جائے اوردشمن سے بھی ایک حد تک دشمنی کرو شائد ایک دن دوست بن جائے ( تو شرمندگی نہ ہو)

(۱)یہ ایک انتہائی عظیم معاشرتی نکتہ ہے جس کا اندازہ ہراس انسان کو ہے جس نے معاشرہ میں آنکھ کھول کر زندگی گذاری ہے اوراندھوں جیسی زندگی نہیں گذاری ہے۔اس دنیاکے سردو گرم کا تقاضا یہی ہے کہ یہاں افراد سے ملنا بھی پڑتا ہے اور کبھی الگ بھی ہونا پڑتا ہے۔لہٰذا تقاضائے عقل مندی یہی ہے کہ زندگی میں ایسا اعتدال رکھے کہاگر الگ ہونا پڑے تو سارے اسرار دوسرے کے قبضہ میں نہ ہوں کہ اس کا غلام بن کر رہ جائے اوراگرملنا پڑے تو ایسے حالات نہ ہوں کہ شرمندگی کے علاوہ اورکچھ ہاتھ نہ آئے ۔

۷۱۵

۲۶۹ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ فِي الدُّنْيَا عَامِلَانِ - عَامِلٌ عَمِلَ فِي الدُّنْيَا لِلدُّنْيَا - قَدْ شَغَلَتْه دُنْيَاه عَنْ آخِرَتِه - يَخْشَى عَلَى مَنْ يَخْلُفُه الْفَقْرَ ويَأْمَنُه عَلَى نَفْسِه - فَيُفْنِي عُمُرَه فِي مَنْفَعَةِ غَيْرِه - وعَامِلٌ عَمِلَ فِي الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا - فَجَاءَه الَّذِي لَه مِنَ الدُّنْيَا بِغَيْرِ عَمَلٍ - فَأَحْرَزَ الْحَظَّيْنِ مَعاً ومَلَكَ الدَّارَيْنِ جَمِيعاً - فَأَصْبَحَ وَجِيهاً عِنْدَ اللَّه - لَا يَسْأَلُ اللَّه حَاجَةً فَيَمْنَعُه.

۲۷۰ - ورُوِيَ أَنَّه ذُكِرَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي أَيَّامِه - حَلْيُ الْكَعْبَةِ وكَثْرَتُه فَقَالَ قَوْمٌ:لَوْ أَخَذْتَه فَجَهَّزْتَ بِه جُيُوشَ الْمُسْلِمِينَ - كَانَ أَعْظَمَ لِلأَجْرِ ومَا تَصْنَعُ الْكَعْبَةُ بِالْحَلْيِ - فَهَمَّ عُمَرُ بِذَلِكَ وسَأَلَ عَنْه أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام - فَقَالَعليه‌السلام :

(۲۶۹)

دنیا میں دو طرح کے عمل کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ایک وہ ہے جو دنیا میں دنیا ہی کے لئے کام کرتا ہے اوراسے دنیا نے آخرت سے غافل بنادیا ہے وہ اپنے بعد والوں(۱) کے فقرسے خوفزدہ رہتا ہے اور اپنے بارے میں بالکل مطمئن رہتا ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری زندگی دوسروں کے فائدہ کے لئے فنا کر دیتا ہے۔اور ایک شخص وہ ہوتا ہے جو دنیا میں اس کے بعد کے لئے عمل کرتا ہے اوراسے دنیا بغیر عمل کے مل جاتی ہے۔وہ دنیا و آخرت دونوں کو پالیتا ہے اوردونوں گھروں کامالک ہو جاتا ہے ۔ خدا کی بارگاہ میں سر خرو ہوجاتا ہے اور کسی بھی حاجت کاسوال کرتا ہ تو پروردگار اسے پورا کردیتا ہے۔

(۲۷۰)

روایت میں وارد ہوا ہے کہ عمر بن الخطاب کے سامنے ان کے دور حکومت میں خانۂ کعبہ کے زیورات اوران کی کثرت کا ذکر کیا گیا اور ایک قوم نے یہ تقاضا کیا کہ اگر آپ ان زیورات کو مسلمانوں کے لشکر پرصرف کردیں تو بہت بڑا اجرو ثواب ملے گا،کعبہ کو ان زیورات کی کیا ضرورت ہے؟تو انہوں نے اس رائے کو پسند کرتے ہوئے حضرت امیر سے دریافت کرلیا۔آپ نے فرمایا

(۱)دور قدیم میں اس کا نام دور اندیشی رکھا جاتاتھا جہاں انسان صبح و شام محنت کرنے کے باوجود نہ مال اپنی دنیا پر صرف کرتا تھا اور نہ آخرت پر۔بلکہ اپنے وارثوں کے لئے ذخیرہ بنا کر چلا جاتا تھا اس غریب کو یہ احساس بھی نہیں تھاکہ جب اسے خود اپنی عاقبت بنانے کی فکر نہیں ہے تو ورثاء کو اس کی عاقبت سے کیادلچسپی ہوسکتی ہے۔وہ تو ای کمال غنیمت کے مالک ہوگئے ہیں اور جس طرح چاہیں گے اسی طرح صرف کریں گے ۔

۷۱۶

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - والأَمْوَالُ أَرْبَعَةٌ أَمْوَالُ الْمُسْلِمِينَ - فَقَسَّمَهَا بَيْنَ الْوَرَثَةِ فِي الْفَرَائِضِ - والْفَيْءُ فَقَسَّمَه عَلَى مُسْتَحِقِّيه - والْخُمُسُ فَوَضَعَه اللَّه حَيْثُ وَضَعَه - والصَّدَقَاتُ فَجَعَلَهَا اللَّه حَيْثُ جَعَلَهَا - وكَانَ حَلْيُ الْكَعْبَةِ فِيهَا يَوْمَئِذٍ - فَتَرَكَه اللَّه عَلَى حَالِه - ولَمْ يَتْرُكْه نِسْيَاناً ولَمْ يَخْفَ عَلَيْه مَكَاناً - فَأَقِرَّه حَيْثُ أَقَرَّه اللَّه ورَسُولُه - فَقَالَ لَه عُمَرُ لَوْلَاكَ لَافْتَضَحْنَا - وتَرَكَ الْحَلْيَ بِحَالِه.

۲۷۱ - رُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام رُفِعَ إِلَيْه رَجُلَانِ سَرَقَا مِنْ مَالِ اللَّه - أَحَدُهُمَا عَبْدٌ مِنْ مَالِ اللَّه - والآخَرُ مِنْ عُرُوضِ النَّاسِ.

فَقَالَعليه‌السلام أَمَّا هَذَا فَهُوَ مِنْ مَالِ اللَّه ولَا حَدَّ عَلَيْه - مَالُ اللَّه أَكَلَ بَعْضُه بَعْضاً -

کہ یہ قرآن پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہواہے اور آپ کے دورمیں اموال کی چار قسمیں تھیں۔ایک مسلمان کاذاتی مال تھا جسے حسب فرائض و رثاء میں تقسیم کردیا کرتے تھے ۔ایک بیت المال کامال تھاجسے مستحقین میں تقسیم کرتے تھے ۔ایک خمس تھا جسے اس کے حقداروں کے حوالہ کردیتے تھے ۔اور کچھ صدقات تھے جنہیں انہیں کے محل پر صرف کیاکرتے تھے ۔کعبہ کے زیورات اس وقت بھی موجود تھے اورپروردگار نے انہیں اسی حالت میں چھوڑ رکھا تھا۔نہ رسول اکرم (ص) انہیں بھولے تھے اور نہان کا وجود آپ سے پوشیدہ تھا۔لہٰذا انہیں اسی حالت پر رہنے دیں جس حالت پرخدا(۱) اور رسول(ص) نے رکھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ عمر نے کہا آج اگر آپ نہ ہوتے تو میں رسوا ہوگیا ہوتا اور یہ کہہ کر زیورات کو ان کی جگہ چھوڑ دیا۔

(۲۷۱)

کہا جاتا ہے کہ آپ کے سامنے دو آدمیوں کوپیش کیا گیا جنہوں نے بیت المال سے مال چرایا تھا ایک ان میں سے غلام اور بیت المال کی ملکیت تھا اور دوسرا لوگوں میں سے کسی کی ملکیت تھا۔آپ نے فرمایا کہ جو بیت المال کی ملکیت ہے اس پر کوئی حد نہیں ہے کہ مال خداکے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھالیا ہے۔ لیکن

(۱)یہ صورت حال بظاہر خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مقدس مقامات کایہی حال ہے کہ ان کے زینت و آرائش کے اسباب اگرضروری ہیں توان کا تحفظ بھی ضروری ہے۔لیکن اگر ان کی کوئی افادیت نہیں ہے توان کے بارے میں ذمہ دار ان شریعت سے رجوع کرکے صحیح مصرف میں لگا دینا چاہیے۔بقول شخصے بجلی کے دورمیں موم بتی اورخوشبو کے دورمیں اگر بتی کے تحفظ کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہی پیسہ اسی مقدس مقام کے دیگر ضرورت پر صرف کیا جا سکتا ہے۔

۷۱۷

وأَمَّا الآخَرُ فَعَلَيْه الْحَدُّ الشَّدِيدُ فَقَطَعَ يَدَه.

۲۷۲ - وقَالَ عليهلامي لَوْ قَدِ اسْتَوَتْ قَدَمَايَ مِنْ هَذِه الْمَدَاحِضِ لَغَيَّرْتُ أَشْيَاءَ.

۲۷۳ - وقَالَعليه‌السلام اعْلَمُوا عِلْماً يَقِيناً أَنَّ اللَّه لَمْ يَجْعَلْ لِلْعَبْدِ - وإِنْ عَظُمَتْ حِيلَتُه واشْتَدَّتْ طَلِبَتُه - وقَوِيَتْ مَكِيدَتُه – أَكْثَرَ مِمَّا سُمِّيَ لَه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - ولَمْ يَحُلْ بَيْنَ الْعَبْدِ فِي ضَعْفِه وقِلَّةِ حِيلَتِه - وبَيْنَ أَنْ يَبْلُغَ مَا سُمِّيَ لَه فِي الذِّكْرِ الْحَكِيمِ - والْعَارِفُ لِهَذَا الْعَامِلُ بِه - أَعْظَمُ النَّاسِ رَاحَةً فِي مَنْفَعَةٍ - والتَّارِكُ لَه الشَّاكُّ فِيه - أَعْظَمُ النَّاسِ شُغُلًا فِي مَضَرَّةٍ - ورُبَّ مُنْعَمٍ عَلَيْه مُسْتَدْرَجٌ بِالنُّعْمَى - ورُبَّ مُبْتَلًى مَصْنُوعٌ لَه بِالْبَلْوَى - فَزِدْ أَيُّهَا الْمُسْتَنْفِعُ فِي شُكْرِكَ -

دوسرے پر شدید حد جاری کی جائے گی۔جس کے بعد اس کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے۔

(۲۷۲)

اگر ان پھسلنے والی جگہوں پر میرے قدم جم گئے تو میں بہت سی چیزوں کو بدل دوں گا(جنہیں پیشر و خلفاء نے ایجاد کیا ہے اور جن کا سنت پیغمبر (ص) سے کوئی تعلق نہیں ہے )

(۲۷۳)

یہ بات یقین کے ساتھ جان لو کہ پروردگار نے کسی بندہ کے لئے اس سے زیادہ نہیں قرار دیا ہے جتنا کتاب حکیم میں بیان کردیا گیا ہے چاہے اس کی تدبیر کتنی ہی عظیم ' اس کی جستجو کتنی ہی شدید اور اس کی ترکیبیں کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔اور اسی طرح وہ بندہ تک اس کامقسوم پہنچنے کی راہمیں کبھی حائل نہیں ہوتا ہے چاہے وہ کتنا ہی کمزور اور بیچارہ کیوں نہ ہو۔جو اس حقیقت کو جانتا ہے اوراس کے مطابق عمل کرتا ہے وہی سب سے زیادہ راحت اور فائدہ میں رہتا ہے اورجواس حقیقت کو نظرانداز کر دیتا ہے اور اس میں شک کرتا ہے ' وہی سب سے زیادہ نقصان میں مبتلا ہوتا ہے۔کتنے ہی افراد ہیں جنہیں نعمتیں دی جاتی ہیں اور انہیں کے ذریعہ عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے۔اور کتنے ہی افراد ہیں جومبتلائے مصیبت ہوتے ہیں لیکن یہی ابتلاء ان کے حق میں باعث برکت بن جاتی ہے ۔لہٰذا اے فائدہ کے طلب گارو! اپنے لشکر میں اضافہ کرو

۷۱۸

وقَصِّرْ مِنْ عَجَلَتِكَ - وقِفْ عِنْدَ مُنْتَهَى رِزْقِكَ.

۲۷۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَجْعَلُوا عِلْمَكُمْ جَهْلًا ويَقِينَكُمْ شَكَّاً - إِذَا عَلِمْتُمْ فَاعْمَلُوا وإِذَا تَيَقَّنْتُمْ فَأَقْدِمُوا.

اور اپنی جلدی کم کردو اور اپنے رزق کی حدوں پر ٹھہر جائو

(۲۷۴)

خبردار! اپنے علم کو جہل نہ بنائو اور اپنے یقین کو شک نہ قرار دو۔

جب جان لو تو عمل(۱) کرو اور جب یقین ہوجائے تو قدم آگے بڑھائو۔

(۱)امام علیہ السلام کی نظرمیں علم اور یقین کے ایک مخصوص معنی ہیں جن کااظہار انسان کے کردار سے ہوتا ہے ۔آپ کی نگاہ میں علم صرف جاننے کا نام نہیں ہے اور نہ یقین صرف اطمینان قلب کا نام ہے بلکہ دونوں کے وجود کا ایک فطری تقاضا ہے جس سے ان کی واقعیت اور اصالت کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسان واقعاً جب علم ہے تو باعمل بھی ہوگا اور واقعاً صاحب یقین ہے تو قدم بھی آگے بڑھائے گا۔ایسا نہ ہوتو علم جہل کہے جانے کے قابل ہے اور یقین شک سے بالا تر نہیں ہے۔

۷۱۹

۲۷۵ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الطَّمَعَ مُورِدٌ غَيْرُ مُصْدِرٍ وضَامِنٌ غَيْرُ وَفِيٍّ - ورُبَّمَا شَرِقَ شَارِبُ الْمَاءِ قَبْلَ رِيِّه - وكُلَّمَا عَظُمَ قَدْرُ الشَّيْءِ الْمُتَنَافَسِ فِيه - عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ لِفَقْدِه - والأَمَانِيُّ تُعْمِي أَعْيُنَ الْبَصَائِرِ - والْحَظُّ يَأْتِي مَنْ لَا يَأْتِيه.

۲۷۶ - وقَالَعليه‌السلام اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ - مِنْ أَنْ تُحَسِّنَ فِي لَامِعَةِ الْعُيُونِ عَلَانِيَتِي - وتُقَبِّحَ فِيمَا أُبْطِنُ لَكَ سَرِيرَتِي - مُحَافِظاً عَلَى رِثَاءِ النَّاسِ مِنْ نَفْسِي - بِجَمِيعِ مَا أَنْتَ مُطَّلِعٌ عَلَيْه مِنِّي - فَأُبْدِيَ لِلنَّاسِ حُسْنَ ظَاهِرِي - وأُفْضِيَ إِلَيْكَ بِسُوءِ عَمَلِي - تَقَرُّباً إِلَى عِبَادِكَ وتَبَاعُداً مِنْ مَرْضَاتِكَ.

(۲۷۵)

لالچ جہاں وارد کردیتی ہے وہاں سے نکلنے نہیں دیتی ہے اور یہ ایک ایسی ضمانت(۱) دار ہے جو وفادار نہیں ہے۔کہ کبھی کبھی تو پانی پینے والے کو سیرابی سے پہلے ہی اچھو لگ جاتا ہے اورجس قدر کسی مرغوب چیزکی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے اس کے کھوجانے کا رنج زیادہ ہوتا ہے۔آرزوئیں دیدہ بصیرت کو اندھا بنا دیتی ہیں اور جوکچھ نصیب میں ہوتا ہے وہ بغیر کوشش کے بھی مل جاتا ہے۔

(۲۷۶)

خدایا(۲) میں اس بات سے پناہ چاہتا ہوں کہ لوگوں کی ظاہری نگاہ میں میرا ظاہرحسین ہو اور جو باطن تیرے لئے چھپائے ہوئے ہوں وہ قبیح ہو۔میں لوگوں کے دکھاوے کے لئے ان چیزوں کی نگہداشت کروں جن پر تو اطلاع رکھتا ہے کہ لوگوں پر حسن ظاہر کا مظاہرہ کروں اورتیری بارگاہ میں بدترین عمل کے ساتھ حاضری دوں۔تیرے بندوں سے قربت اختیار کروں اور تیری مرضی سے دورہو جائوں۔

(۱)لالچ انسان کو ہزاروں چیزوں کا یقین دلا دیتی ہے اور اس سے وعدہ بھی کرلیتی ہے لیکن وقت پر وفا نہیں کرتی ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سیراب ہونے سے پہلے ہی اچھو لگ جاتا ہے اور سیراب ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔لہٰذا تقاضائے عقل و دانش یہی ہے کہ انسان لالچ سے اجتناب کرے اور بقدر ضرورت پر اکتفا کرے جو بہرحال اسے حاصل ہونے والا ہے۔

(۲)عام طور سے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کے سامنے آنے کے لئے اپنے ظاہر کو پاک و پاکیزہ اورحسین و جمیل بنا لیتے ہیں اور یہ خیال ہی نہیں رہ جاتا ہے کہ ایک دن اس کابھی سامنا کرنا ہے جو ظاہر کونہیں دیکھتا ہے بلکہ باطن پر نگاہ رکھتا ہے اور اسرار کابھی حساب کرنے والا ہے ۔

مولائے کائنات نے عالم انسانیت کواسی کمزوری کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس دعاکا لہجہ اختیار کیا ہے جہاں دوسروں پر براہ راست تنقید بھی نہ ہو اور اپنا پیغام بھی تمام افراد تک پہنچ جائے شائد انسانوں کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ عوام الناس کا سامناکرنے سے زیادہ اہمیت مالک کے سامنے جانے کی ہے اور اس کے لئے باطل کا پاک و صاف رکھنا بے حد ضروری ہے۔

۷۲۰

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863