نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)0%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ شریف رضی علیہ رحمہ
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: صفحے: 863
مشاہدے: 632501
ڈاؤنلوڈ: 15173

تبصرے:

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 632501 / ڈاؤنلوڈ: 15173
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲۷۷ - وقَالَعليه‌السلام : لَا والَّذِي أَمْسَيْنَا مِنْه فِي غُبْرِ لَيْلَةٍ دَهْمَاءَ - تَكْشِرُ عَنْ يَوْمٍ أَغَرَّ مَا كَانَ كَذَا وكَذَا.

۲۷۸ - وقَالَعليه‌السلام قَلِيلٌ تَدُومُ عَلَيْه أَرْجَى مِنْ كَثِيرٍ مَمْلُولٍ مِنْه.

۲۷۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَضَرَّتِ النَّوَافِلُ بِالْفَرَائِضِ فَارْفُضُوهَا.

۲۸۰ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ تَذَكَّرَ بُعْدَ السَّفَرِ اسْتَعَدَّ.

۲۸۱ - وقَالَعليه‌السلام لَيْسَتِ الرَّوِيَّةُ كَالْمُعَايَنَةِ مَعَ الإِبْصَارِ - فَقَدْ تَكْذِبُ الْعُيُونُ أَهْلَهَا -

(۲۷۷)

اس ذات کی قسم جس کی بدولت ہم نے شب تاریک کے اس باقی حصہ کوگزار دیا ہے جس کے چھٹتے ہی روز درخشاں ظاہر ہوگا ایسا اور ایسا نہیں ہو ہے ۔

(۲۷۸)

تھوڑا عمل جسے پابندی سے انجام دیاجائے اس کثیر عمل سے بہتر ہے جس سے آدمی اکتاجائے ۔

(۲۷۹)

جب(۱) نوافل فرائض کو نقصان پہنچانے لگیں توانہیں چھوڑ دو۔

(۲۸۰)

جو دوری سفرکو یادرکھتا ہے وہ تیاری بھی کرتا ہے۔

(۲۸۱)

آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا شمار نہیں ہوتا ہے کہ کبھی کبھی آنکھیں اپنے اشخاص کودھوکہ دے

(۱)تقدس مآب حضرا ت کے لئے یہ بہترین نسخہ ہدایت ہے جو اجتماعی اور عوامی فرائض سے غافل ہوکرمستحباب پر جان دئیے پڑے رہتے ہیں اور اپنی ذمہداریوں کا احساس نہیں کرتے ہیں اور اسی طرح یہ ان صاحبان ایمان کے لئے سامان تنبیہ ہے جو مستحباب کی کوئی حیثیت نہیں ہے جن سے واجبات متاثر ہوجائیں اور انسان فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا شکار ہوجائے ۔

۷۲۱

ولَا يَغُشُّ الْعَقْلُ مَنِ اسْتَنْصَحَه.

۲۸۲ - وقَالَعليه‌السلام بَيْنَكُمْ وبَيْنَ الْمَوْعِظَةِ حِجَابٌ مِنَ الْغِرَّةِ

۲۸۳ - وقَالَعليه‌السلام جَاهِلُكُمْ مُزْدَادٌ وعَالِمُكُمْ مُسَوِّفٌ

۲۸۴ - وقَالَعليه‌السلام قَطَعَ الْعِلْمُ عُذْرَ الْمُتَعَلِّلِينَ.

۲۸۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُعَاجَلٍ يَسْأَلُ الإِنْظَارَ - وكُلُّ مُؤَجَّلٍ يَتَعَلَّلُ بِالتَّسْوِيفِ

۲۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَا قَالَ النَّاسُ لِشَيْءٍ طُوبَى لَه

دیتی ہیں لیکن عقل(۱) نصیحت حاصل کرنے والے کو فریب نہیں دیتی ہے۔

(۲۸۲)

تمہارے اور نصیحت کے درمیان غفلت کا ایک پردہ حائل رہتا ہے۔

(۲۸۳)

تمہارے جاہلوں کو دولت فراواں دے دی جاتی ہے اور عالم کو صرف مستقبل کی امید دلائی جاتی ہے۔

(۲۸۴)

علم ہمیشہ بہانہ بازوں(۲) کے عذر کو ختم کردیتا ہے۔

(۲۸۵)

جس کی موت جلدی آجاتی ہے وہ مہلت کا مطالبہ کرتا ہے اورجسے مہلت مل جاتی ہے وہ ٹال مٹول کرتا ہے۔

(۲۸۶)

جب بھی لوگ کسی چیز پر واہ واہ کرتے ہیں تو

(۱)انسانی علم کے تین وسائل ہیں ۔ایک اس کا ظاہری احساس و ادراک ہے اور ایک اس کی عقل ہے جس پر تمام عقلاء بشر کا اتفاق ہے اور تیسرا راستہ وحی الٰہی ہے جسپر صاحبان ایمان کا ایمان ہے اور بے ایمان اس وسیلہ ادراک سے محروم ہیں۔ان تینوں میں اگرچہ وحی کے بارے میں خطا کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس اعتبارسے اس کا مرتبہ سب سے افضل ہے لیکن خود وحی کا ادراک بھی عقل کے بغیر ممکن نہیں ہے اوراس اعتبار سے عقل کامرتبہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کتب احادیث میں کتاب العقل کو سب سے پہلے قراردیا گیا ہے اور اس طرح اس کی بنیادی حیثیت کا اعلان کیا گیا ہے ۔

(۲)اگر انسان واقعاً عالم ہے تو علم کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مطاق عمل کرے اور کسی طرح کی بہانہ بازی سے کام نہ لے جس طرح کہ درباری اور سیاسی علماء دیدہ و دانستہ حقائق سے انحراف کرتے ہیں اور دنیاوی مفادات کی خاطر اپنے عل کا ذبیحہ کردیتے ہیں ۔ایسے لوگقاتل اور رہزن کہے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔عالم اور فاضل کہے جانے کے لائق نہیں ہیں ۔

۷۲۲

إِلَّا وقَدْ خَبَأَ لَه الدَّهْرُ يَوْمَ سَوْءٍ.

۲۸۷ - وسُئِلَ عَنِ الْقَدَرِ - فَقَالَ طَرِيقٌ مُظْلِمٌ فَلَا تَسْلُكُوه - وبَحْرٌ عَمِيقٌ فَلَا تَلِجُوه - وسِرُّ اللَّه فَلَا تَتَكَلَّفُوه.

۲۸۸ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا أَرْذَلَ اللَّه عَبْداً حَظَرَ عَلَيْه الْعِلْمَ.

۲۸۹ - وقَالَعليه‌السلام : كَانَ لِي فِيمَا مَضَى أَخٌ فِي اللَّه - وكَانَ يُعْظِمُه فِي عَيْنِي صِغَرُ الدُّنْيَا فِي عَيْنِه - وكَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِه - فَلَا يَشْتَهِي مَا لَا يَجِدُ ولَا يُكْثِرُ إِذَا وَجَدَ -

زمانہ اس کے واسطے ایک برا دن چھپا کر رکھتا ہے۔

(۲۸۷)

آپ سے قضا و قدرکے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ یہ ایک تاریک راستہ ہے اس پرمت چلو اورایک گہرا سمندر ہے اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرو اورایک راز الٰہی ہے لہٰذا اسے(۱) معلوم کرنے کی زحمت نہ کرو۔

(۲۸۸)

جب پروردگار کسی بندہ کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو اسے علم و دانش سے محروم کردیتا ہے۔

(۲۸۹)

گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا۔جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اس کی نگاہوں(۲) میں حقیر تھی اور اس پر پیٹ کی حکومت نہیں تھی۔جو چیز نہیں ملتی تھی اس کی خواہش نہیں کرتا تھا اور جو مل جاتی تھی اسے زیادہ استعمال نہیں کرتاتھا۔اکثر

(۱)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام کسی بھی موضوع کے بارے میں جہالت کا طرفدار ہے اور نہ جاننے ہی کو افضلیت عطا کرتا ہے۔بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اکثر لوگ ان حقائق کے متحمل نہیں ہوتے ہیں۔لہٰذا انسان کو انہیں چیزوں کا علم حاصل کرنا چاہیے جواس کے لئے قابل تحمل و برداشت ہو۔ اس کے بعد اگر حدود تحمل سے باہر ہو تو پڑھ لکھ کر بہک جانے سے نا واقف رہنا ہی بہترہے۔

(۲)بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ واقعاً کسی شخصیت کی طرف اشارہ ہے جس کے حالات و کیفیات کا اندازہ نہیں ہو سکا ہے اوربعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ ایک آئیڈیل اور مثالیہ کی نشاندہی ہے کہ صاحب ایمان کو اسی کردار کا حامل ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسی راستہ پر چلنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ اس کاشمار واقعاً صاحبان ایمان و کردار میں ہو جائے ۔

۷۲۳

وكَانَ أَكْثَرَ دَهْرِه صَامِتاً - فَإِنْ قَالَ بَذَّ الْقَائِلِينَ ونَقَعَ غَلِيلَ السَّائِلِينَ - وكَانَ ضَعِيفاً مُسْتَضْعَفاً - فَإِنْ جَاءَ الْجِدُّ فَهُوَ لَيْثُ غَابٍ وصِلُّ وَادٍ - لَا يُدْلِي بِحُجَّةٍ حَتَّى يَأْتِيَ قَاضِياً - وكَانَ لَا يَلُومُ أَحَداً - عَلَى مَا يَجِدُ الْعُذْرَ فِي مِثْلِه حَتَّى يَسْمَعَ اعْتِذَارَه - وكَانَ لَا يَشْكُو وَجَعاً إِلَّا عِنْدَ بُرْئِه - وكَانَ يَقُولُ مَا يَفْعَلُ ولَا يَقُولُ مَا لَا يَفْعَلُ - وكَانَ إِذَا غُلِبَ عَلَى الْكَلَامِ لَمْ يُغْلَبْ عَلَى السُّكُوتِ - وكَانَ عَلَى مَا يَسْمَعُ أَحْرَصَ مِنْه عَلَى أَنْ يَتَكَلَّمَ - وكَانَ إِذَا بَدَهَه أَمْرَانِ - يَنْظُرُ أَيُّهُمَا أَقْرَبُ إِلَى الْهَوَى - فَيُخَالِفُه فَعَلَيْكُمْ بِهَذِه الْخَلَائِقِ فَالْزَمُوهَا وتَنَافَسُوا فِيهَا - فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِيعُوهَا - فَاعْلَمُوا أَنَّ أَخْذَ الْقَلِيلِ خَيْرٌ مِنْ تَرْكِ الْكَثِير.

۲۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لَوْ لَمْ يَتَوَعَّدِ اللَّه عَلَى مَعْصِيَتِه - لَكَانَ يَجِبُ أَلَّا يُعْصَى شُكْراً لِنِعَمِه.

۲۹۱ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ عَزَّى الأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ عَنِ ابْنٍ لَه.

اوقات خاموش رہا کرتا تھا اور اگر بولتا تھا تو تمام بولنے والوں کو چپ کردیتا تھا۔سائلوں کی پیاس کو بجھادیتا تھا اوربظاہر عاجز اور کمزور تھا لیکن جب جہاد کاموقع آجاتاتھا توایک شیر بیشہ شجاعت اور اژدروادی ہو جایا کرتاتھا جب تک عذرسن نہ لے۔کسی درد کی شکایت نہیں کرتا تھا جب تک اس سے صحت نہ حاصل ہوجائے۔جو کرتا تھا وہی کہتا تھا اور جو نہیں کرسکتا تھا وہ کہتا بھی نہیں تھا۔اگر بولنے میں اس پرغلبہ حاصل بھی کرلیا جائے تو سکوت میں کوئی اس پر غالب نہیں آسکتاتھا۔وہ بولنے سے زیادہ سننے کاخواہشمند رہتا تھا۔جب اس کے سامنے دو طرح کی چیزیں آتی تھیں اورایک خواہش سے قریب تر ہوتی تھی تو اسی کی مخالفت کرتاتھا۔لہٰذا تم سب بھی انہیں اخلاق کو اختیار کرو اور انہیں کی فکر کرواوراگرنہیں کرس کتے ہو تو یاد رکھو کہ قلیل کا اختیارکرلیناکثیر کی ترک کردینے سے بہر حال بہتر ہوتا ہے۔

(۲۹۰)

اگر خدا نا فرمانی پر عذاب کی وعید(۱) نہ بھی کرتا جب بھی ضرورتھی کہ شکرنعمت کی بنیاد پر اس کی نا فرمانی نہ کی جائے ۔

(۲۹۱)

اشعث بن قیس کو اس کے فرزند کا پرسہ دیتے ہوئے فرمایا۔اشعث ! اگر تم اپنے فرزند کے غم میں محزون

(۱)ضرورت نہیں ہے کہ انسان صرف عذاب کے خوف سے محرمات سے پرہیز کرے بلکہ تقاضائے شرافت یہ ہے کہ نعمت پروردگار کا احساس پیداکرکے اس کی دی ہوئی نعمتوں کو حرام میں صرف کرنے سے اجتناب کرے۔

۷۲۴

يَا أَشْعَثُ إِنْ تَحْزَنْ عَلَى ابْنِكَ - فَقَدِ اسْتَحَقَّتْ مِنْكَ ذَلِكَ الرَّحِمُ - وإِنْ تَصْبِرْ فَفِي اللَّه مِنْ كُلِّ مُصِيبَةٍ خَلَفٌ - يَا أَشْعَثُ إِنْ صَبَرْتَ - جَرَى عَلَيْكَ الْقَدَرُ وأَنْتَ مَأْجُورٌ - وإِنْ جَزِعْتَ جَرَى عَلَيْكَ الْقَدَرُ وأَنْتَ مَأْزُورٌ - يَا أَشْعَثُ ابْنُكَ سَرَّكَ وهُوَ بَلَاءٌ وفِتْنَةٌ - وحَزَنَكَ وهُوَ ثَوَابٌ ورَحْمَةٌ.

۲۹۲ - وقَالَعليه‌السلام عَلَى قَبْرِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - سَاعَةَ دَفْنِه.

إِنَّ الصَّبْرَ لَجَمِيلٌ إِلَّا عَنْكَ - وإِنَّ الْجَزَعَ لَقَبِيحٌ إِلَّا عَلَيْكَ - وإِنَّ الْمُصَابَ بِكَ لَجَلِيلٌ وإِنَّه قَبْلَكَ وبَعْدَكَ لَجَلَلٌ

۲۹۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَصْحَبِ الْمَائِقَ - فَإِنَّه

ہو تو یہ اس کی قرابت(۱) کاحق ہے لیکن اگر صبر کرلو تو اللہ کے یہاں ہرمصیبت کا ایک اجر ہے۔

اشعث ! اگر تم نے صبر کرلیا تو قضا و قدر الٰہی اس عالم میں جاری ہوگی کہ تم اجرکے حقدار ہوگے اور اگر تم نے فریاد کی تو قدر الٰہی اس عالم میں جاری ہوگی کہ تم پر گناہ کابوجھ ہوگا۔

اشعث ! تمہارے لئے بیٹا مسرت کا سبب تھا جب کہ وہ ایک آزمائش اور امتحان تھا اور حزن کا باعث ہوگیا ہے جب کہ اس میں ثواب اور رحمت ہے۔

(۲۹۲)

پیغمبر اسلام (ص) کے دفن کے وقت قبر کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا :

صبر عام طور سے بہترین چیز ہے(۲) مگر آپ کی مصیبت کے علاوہ ۔اور پریشانی و بے قراری بری چیز ہے لیکن آپ کی وفات کے علاوہ آپ کی مصیبت بڑی عظیم ہے اورآپ سے پہلے اور آپ کے بعد ہر مصیبت آسان ہے۔

(۲۹۳)

بیوقوف کی صحبت مت اختیار کرنا کہ وہ اپنے

(۱)یہ اس بات کی علامت ہے کہ بیٹے کے ملنے پر مسرت بھی ایک فطری امر ہے اور اس کے چلے جانے پرحزن و الم بھی ایک فطری تقاضا ہے لیکن انسان کی عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مسرت میں امتحان کو نظر انداز نہ کرے اور غم کے ماحول میں اجرو ثواب سے غافل نہ ہو جائے ۔

(۲)اس کا مطب یہ نہیں کہ صبر یا جزع و فزع کی دو قسمیں ہیں اوروہ کبھی جمیل ہوت ہے اورکبھی غیر جمیل۔بلکہ یہ مصیبت پیغمبر اسلام (ص) کی عظمت کی طرف اشارہ ہے کہ اس موقع پر صبر کا امکان ہی نہیں ہے جس طرف دوسرے مصائب میں جزع و فزع کاکوئی جواز نہیں ہے اور انسان کواسے برداشت ہی کرلینا چاہیے۔

۷۲۵

يُزَيِّنُ لَكَ فِعْلَه ويَوَدُّ أَنْ تَكُونَ مِثْلَه.

۲۹۴ - وقَدْ سُئِلَ عَنْ مَسَافَةِ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ والْمَغْرِبِ - فَقَالَعليه‌السلام مَسِيرَةُ يَوْمٍ لِلشَّمْسِ.

۲۹۵ - وقَالَعليه‌السلام أَصْدِقَاؤُكَ ثَلَاثَةٌ وأَعْدَاؤُكَ ثَلَاثَةٌ.فَأَصْدِقَاؤُكَ صَدِيقُكَ - وصَدِيقُ صَدِيقِكَ وعَدُوُّ عَدُوِّكَ - وأَعْدَاؤُكَ عَدُوُّكَ - وعَدُوُّ صَدِيقِكَ وصَدِيقُ عَدُوِّكَ.

۲۹۶ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ رَآه يَسْعَى عَلَى عَدُوٍّ لَه - بِمَا فِيه إِضْرَارٌ بِنَفْسِه - إِنَّمَا أَنْتَ كَالطَّاعِنِ نَفْسَه لِيَقْتُلَ رِدْفَه

۲۹۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا أَكْثَرَ الْعِبَرَ وأَقَلَّ الِاعْتِبَارَ.

عمل کو خوبصورت بناکر پیش کرے گا اور تم سے بھی ویسے ہی عمل کا تقاضا کرے گا۔

(۲۹۴)

آپ سے مشرق و مغرب کے فاصلہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ آفتاب کا ایک دن کا راستہ ۔

(۲۹۵)

تمہارے دوست بھی تین طرح کے ہیں اوردشمن بھی تین قسم کے ہیں۔دوستوں کی قسمیں یہ ہیں کہ تمہارا دوست ۔تمہارے دوست(۱) کا دوست اور تمہارے دشمن کا دشمن اور اسی طرح دشمنوں کی قسمیں یہ ہیں۔تمہارا دشمن ۔تمہارے دوست کادشمن اور تمہارے دشمن کا دوست۔

(۲۹۶)

آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس میں خود اس کا نقصان بھی ہے۔تو فرمایا کہ تیری مثال اس شخص کی ہے جو اپنے سینے میں نیزہ چبھولے تاکہ پیچھے بیٹھنے والا ہلاک ہوجائے ۔

(۲۹۷)

عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں۔

(۱)یہ اس موقع کے لئے کہا گیا ہے کہ دونوں کی دوستی کی بنیاد ایک ہوورنہ اگر ایک شخص ایک بنیاد پر دوستی کرتا ہے اور دوسرا دوسری بنیاد پرمحبت کرتا ہے تو دوست کا دوست ہرگز دوست شمارنہیں کیا جا سکتا ہے جس طرح کہ دشمن کے دشمن کے لئے بھی ضروری ہے کہ دشمنی کی بنیاد وہی ہو جس بنیاد پر یہ شخص دشمنی کرتا ہے ورنہ اپنے اپنے مفادات کے لئے کام کرنے والے کبھی ایک رشتہ محبت میں منسلک نہیں کئے جا سکتے ہیں۔

۷۲۶

۲۹۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ بَالَغَ فِي الْخُصُومَةِ أَثِمَ - ومَنْ قَصَّرَ فِيهَا ظُلِمَ - ولَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّه مَنْ خَاصَمَ.

۲۹۹ - وقَالَعليه‌السلام مَا أَهَمَّنِي ذَنْبٌ أُمْهِلْتُ بَعْدَه - حَتَّى أُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ وأَسْأَلَ اللَّه الْعَافِيَةَ.

۳۰۰ - وسُئِلَعليه‌السلام كَيْفَ يُحَاسِبُ اللَّه الْخَلْقَ عَلَى كَثْرَتِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام كَمَا يَرْزُقُهُمْ عَلَى كَثْرَتِهِمْ - فَقِيلَ كَيْفَ يُحَاسِبُهُمْ ولَا يَرَوْنَه - فَقَالَعليه‌السلام كَمَا يَرْزُقُهُمْ ولَا يَرَوْنَه.

۳۰۱ - وقَالَعليه‌السلام رَسُولُكَ تَرْجُمَانُ عَقْلِكَ - وكِتَابُكَ أَبْلَغُ مَا يَنْطِقُ عَنْكَ.

(۲۹۸)

جو لڑائی جھگڑے میں حد سے آگے بڑھ جائے وہ گناہ گار ہوتا ہے اور جو کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اوراس طرح جھگڑا کرنے والا تقویٰ کے راستے پر نہیں چل سکتا ہے ( لہٰذا مناسب یہی ہے کہ جھگڑے سے پرہیز کرے )

(۲۹۹)

اس گناہ کی کوئی عمر نہیں ہے جس کے بعد اتنی مہلت مل جائے کہ انسان دو رکعت نمازادا کرکے خدا سے عافیت کا سوال کرکسے ( لیکن سوال یہ ہے کہ اس مہلت کی ضمانت کیا ہے )

(۳۰۰)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ پروردگار اس قدر بے پناہ مخلوقات(۱) کاحساب کس طرح کرے گا؟ تو فرمایاکہ جس طرح ان سب کو رزق دیتا ہے دوبارہ سوال کیا گیا کہ جب وہ سامنے نہیں آئے گا تو حساب کس طرح لے گا ؟ فرمایا جس طرح سامنے نہیں آتا ہے اور روزی دے رہا ہے ۔

(۳۰۱)

تمہارا قاصد تمہاری عقل کاترجمان ہوتا ہے اور تمہارا بہترین ترجمان ہوتا ہے ۔

(۱)انسان کے ذہن میں یہ خیالات اور شبہات اسی لئے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ اس کی رزاقیت سے غافل ہوگیا ہے ورنہ ایک مسئلہ رزق سمجھ میں آجائے تو مسئلہ موت بھی سمجھ میں آسکتاہے اور مسئلہ حسات و کتاب بھی جو موتدے سکتا ہے وہ روزی بھی دے سکتا ہے اور جو روزی کاحساب رکھ سکتا ہے وہ اعمال کاحساب بھی کرسکتا ہے۔

۷۲۷

۳۰۲ - وقَالَعليه‌السلام مَا الْمُبْتَلَى الَّذِي قَدِ اشْتَدَّ بِه الْبَلَاءُ - بِأَحْوَجَ إِلَى الدُّعَاءِ - الَّذِي لَا يَأْمَنُ الْبَلَاءَ.

۳۰۳ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ أَبْنَاءُ الدُّنْيَا - ولَا يُلَامُ الرَّجُلُ عَلَى حُبِّ أُمِّه.

۳۰۴ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْمِسْكِينَ رَسُولُ اللَّه - فَمَنْ مَنَعَه فَقَدْ مَنَعَ اللَّه - ومَنْ أَعْطَاه فَقَدْ أَعْطَى اللَّه.

۳۰۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا زَنَى غَيُورٌ قَطُّ.

(۳۰۲)

شدید ترین بلائوں میں مبتلا ہو جانے والا اس سے زیادہ محتاج(۱) دعا نہیں ہے جو فی الحال عافیت میں ہے لیکن نہیں معلوم ہے کہ کب مبتلا ہو جائے ۔

(۳۰۳)

لوگ دنیا کی اولاد ہیں اور ماں کی محبت پر(۲) اولاد کی ملامت نہیں کی جاسکتی ہے۔

(۳۰۴)

فقیرو مسکین درحقیت خدائی فرستادہ ہے لہٰذا جس نے اس کومنع کردیا گویا خا کو منع کردیا اور جس نے اسے عطا کردیا گویا قدرت کے ہاتھ میں دے دیا۔

(۳۰۵)

غیرت دار انسان کبھی زنا نہیں کر سکتا ہے ( کہ یہی مصیبت اس کے گھر بھی آسکتی ہے )

(۱)انسان کی فطرت ہے کہ جب مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو دعائیں کرنے لگتا ہے اور دوسروں سے دعائوں کی التماس کرنے لگتا ہے اورجیسے ہی بلا ٹل جاتی ہے دعائوں سے غافل ہو جاتا ہے اور اس نکتہ کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔کہ اس عافیت کے پیچھے بھی کوئی بلا ہو سکتی ہے اور موجودہ بلا سے بالاتر ہو سکتی ہے۔لہٰذا تقاضائے دانش مندی یہی ہے کہ ہر حال میں دعاکرتا رہے اور کسی وقت بھی آنے والی مصیبتوں سے غافل نہ ہو کر اس کے نتیجہ میں یاد خداسے غافل ہو جائے ۔

(۲)انسان جس خاک سے بنتا ہے اس سے بہر حال محبت کرتا ہے اور جس ماحول میں زندگی گذارتا ہے اس سے بہر حال مانوس ہوتا ہے۔اس مسئلہ میں کسی انسان کی مذمت اورملامت نہیں کی جا سکتی ہے لیکن محبت جب حد سے گذر جاتی ہے اور اصول و قوانین پر غالب آجاتی ہے تو بہر حال قابل ملامت و مذمت ہو جاتی ہے اوراس کا لحاظ رکھنا ہر فرد بشر کا فریضہ ہے ورنہ اس کے بغیر انسان قابل معافی نہیں ہو سکتا ہے۔

۷۲۸

۳۰۶ - وقَالَعليه‌السلام كَفَى بِالأَجَلِ حَارِساً.

۳۰۷ - وقَالَعليه‌السلام يَنَامُ الرَّجُلُ عَلَى الثُّكْلِ ولَا يَنَامُ عَلَى الْحَرَبِ

قال الرضي - ومعنى ذلك أنه يصبر على قتل الأولاد - ولا يصبر على سلب الأموال.

۳۰۸ - وقَالَعليه‌السلام مَوَدَّةُ الآبَاءِ قَرَابَةٌ بَيْنَ الأَبْنَاءِ - والْقَرَابَةُ إِلَى الْمَوَدَّةِ أَحْوَجُ مِنَ الْمَوَدَّةِ إِلَى الْقَرَابَةِ.

۳۰۹ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقُوا ظُنُونَ الْمُؤْمِنِينَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ.

(۳۰۶)

موت سے بہتر محافظ کوئی نہیں ہے۔

(۳۰۷)

انسان اولاد کے مرنے پر سو جاتاہے لیکن مال کے لٹ جانے پر نہیں سوتا(۱) ہے۔

سید رضی :مقصد یہ ہے کہ اولاد کے مرنے پر صبر کرلیتا ہے لیکن مال کے چھننے پرصبر نہیں کرتاہے۔

(۳۰۸)

بزرگوں کی محبت بھی اولاد کے لئے قرابت کا درجہرکھتی ہے اور محبت قرابت کی اتنی محتاج نہیں جتنی قرابت محبت کی محتاج ہوتی ہے۔

(مقصد یہ ہے کہ تم لوگ آپس میں محبت اورالفت رکھو تاکہ تمہاری اولاد تمہارے دوستوں کو اپنا قرابتدار تصور کرے )

(۳۰۹)

مومنین کے گمان سے ڈرتے رہو کہ پروردگار حق کو صاحبان ایمان ہی کی زبان پر جاری کرتا رہتا ہے۔

(۱)اس کا مقصد طعن و طنز نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ موت کا تعلق قضا و قدر الٰہی سے ہے لہٰذا اس پر صبر کرنا انسان کافریضہ ہے۔لیکن مال کاچھن جاناظلم و ستم اورغضب و نہب کا نتیجہ ہوتا ہے لہٰذا اس پرسکوت اختیار کرنا اور سکون سے سو جانا کسی قیمت پر مناسب نہیں ہے اوریہ انسانی غیرت و شرافت کے خلاف ہے لہٰذا انسان کو اسنکتہ کی طرف متوجہ رہناچاہیے ۔

۷۲۹

۳۱۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَصْدُقُ إِيمَانُ عَبْدٍ - حَتَّى يَكُونَ بِمَا فِي يَدِ اللَّه - أَوْثَقَ مِنْه بِمَا فِي يَدِه.

۳۱۱ - وقَالَعليه‌السلام لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - وقَدْ كَانَ بَعَثَه إِلَى طَلْحَةَ والزُّبَيْرِ لَمَّا جَاءَ إِلَى الْبَصْرَةِ - يُذَكِّرُهُمَا شَيْئاً مِمَّا سَمِعَه مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فِي مَعْنَاهُمَا - فَلَوَى عَنْ ذَلِكَ فَرَجَعَ إِلَيْه - فَقَالَ:

إِنِّي أُنْسِيتُ ذَلِكَ الأَمْرَ - فَقَالَعليه‌السلام إِنْ كُنْتَ كَاذِباً - فَضَرَبَكَ اللَّه بِهَا بَيْضَاءَ لَامِعَةً لَا تُوَارِيهَا الْعِمَامَةُ.

قال الرضي يعني البرص - فأصاب أنسا هذا الداء فيما بعد في وجهه - فكان لا يرى إلا مبرقعا.

۳۱۲ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْقُلُوبِ إِقْبَالًا وإِدْبَاراً - فَإِذَا أَقْبَلَتْ فَاحْمِلُوهَا عَلَى النَّوَافِلِ -

(۳۱۰)

کسی بندہ کا ایمان اس وقت تک سچا نہیں ہو سکتا ہے جب تک خدائی خزانہ پر اپنے ہاتھ کی دولت سے زیادہ اعتبار نہ کرے۔

(۳۱۱)

حضرت نے بصرہ پہنچنے کے بعد انس بن مالک سے کہاکہ جاکر طلحہ و زبیر کو وہ ارشادات رسول(۱) اکرم (ص) بتائو جو حضرت نے میرے بارے میں فرمائے ہیں۔تو انہوں نے پہلو تہی کی اور پھرآکر یہ عذر کردیا کہ مجھے وہ ارشادات یاد نہیں رہے ! تو حضرت نے فرمایا اگر تم جھوٹے ہو تو پروردگار تمہیں ایسے چمکدار داغ کی مار مارے گا کہ اسے دستار بھی نہیں چھپا سکے گی۔

سیدرضی : اس داغ سے مراد برص ہے جس میں انس مبتلا ہوگئے اور تا حیات چہرہ نقاب ڈالے ہے۔

(۳۱۲)

دل بھی کبھی مائل ہوتے ہیں اور کبھی اچاٹ ہوجاتے ہیں۔لہٰذا جب مائل ہوں تو انہیں مستحباب پرآمادہ

(۱)جناب شیخ محمد عبدہ کا بیان ہے کہ اس سے اس ارشاد پیغمبر (ص) کی طرف اشارہ تھا جس میں آپ نے براہ راست طلحہ وزبیر سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا تھا کہ تم لوگ علی سے جنگ کرو گے اور ان کے حق میں ظالم ہوگے۔ اور ابن ابی الحدید کاکہنا ہے کہ یہ اس موقع کی طرف اشارہ ہے جب پیغمبر (ص) سے میدان عذیر میں علی کی مولائیت کا اعلانکیا تھا اورانس اس موقع پر موجود تھے لیکن جب حضرت نے گواہی طلب کی تو اپنی ضعیفی اور قلت حافظہ کا بہانہ کردیا جس پر حضرت نے یہ بد دعا دے دی اور انس اس مرض برص میں مبتلا ہوگئے جیسا کہ ابن قتیبہ نے معارف میں نقل کیا ہے۔

۷۳۰

وإِذَا أَدْبَرَتْ فَاقْتَصِرُوا بِهَا عَلَى الْفَرَائِضِ.

۳۱۳ - وقَالَعليه‌السلام وفِي الْقُرْآنِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ - وخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ

۳۱۴ - وقَالَعليه‌السلام رُدُّوا الْحَجَرَ مِنْ حَيْثُ جَاءَ - فَإِنَّ الشَّرَّ لَا يَدْفَعُه إِلَّا الشَّرُّ.

۳۱۵ - وقَالَعليه‌السلام لِكَاتِبِه عُبَيْدِ اللَّه بْنِ أَبِي رَافِعٍ - أَلِقْ دَوَاتَكَ وأَطِلْ جِلْفَةَ قَلَمِكَ - وفَرِّجْ بَيْنَ السُّطُورِ وقَرْمِطْ بَيْنَ الْحُرُوفِ - فَإِنَّ ذَلِكَ أَجْدَرُ بِصَبَاحَةِ الْخَطِّ.

۳۱۶ - وقَالَعليه‌السلام أَنَا يَعْسُوبُ الْمُؤْمِنِينَ والْمَالُ يَعْسُوبُ الْفُجَّارِ.

کرو ورنہ صرف واجبات(۱) پراکتفا کرلو( کہ زبر دستی عمل سے کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک اخلاص عمل نہ ہو)

(۳۱۳)

قرآن میں تمہارے پہلے کی خبر' تمہارے بعد کی پیشگوئی اور تمہارے درمیانی حالات کے احکام سب پائے جاتے ہیں۔

(۳۱۴)

جدھر سے پتھرآئے ادھر ہی پھینک دو کہ شرکا جواب شرہی ہوتا ہے ۔

(۳۱۵)

آپ نے اپنے کاتب عبید اللہ بن ابی رافع سے فرمایا۔اپنی دوات میں صوف ڈالا کرو اور اپنے قلم کی زبان لمبی رکھا کر و' سطروں کے درمیان فاصلہ رکھو اور حروف کو ساتھ ملا کر لکھا کرو۔کہ اس طرح خط زیادہ دیدہ زیب ہو جاتا ہے۔

(۳۱۶)

میں مومنین کا سردار ہوں اورمال فاجروں کا سردار ہوتا ہے ۔

(۱)انسانی اعمال کے دودرجات ہیں۔پہلا درجہ وہ ہوتا ہے جب عمل صحیح ہو جاتا ہے اور تکلیف رعی ادا ہو جاتی ہے لیکن نگاہ قدرت میں قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔یہ وہ عمل ہے جس پر جملہ شرائط و واجبات جمع ہو جاتے ہیں لیکن اخلاص نیت اوراقبال نفس نہیں ہوتا ہے لیکن دوسرادرجہوہ ہوتا ہے جس میں اقبال نفس بھی ہوتا ہے اورعمل قابل قبول بھی ہوجاتاہے۔

حضرت نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فریضہ بہر حال ادا کرنا ہے لیکن مستحباب کاواقعی ماحول اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اقبال نفس کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے اور واقعی عبادت الٰہی کی رغبت پیدا کرلیتا ہے۔

۷۳۱

قال الرضي ومعنى ذلك أن المؤمنين يتبعونني - والفجار يتبعون المال - كما تتبع النحل يعسوبها وهو رئيسها.

۳۱۷ - وقَالَ لَه بَعْضُ الْيَهُودِ - مَا دَفَنْتُمْ نَبِيَّكُمْ حَتَّى اخْتَلَفْتُمْ فِيه - فَقَالَعليه‌السلام لَه إِنَّمَا اخْتَلَفْنَا عَنْه لَا فِيه - ولَكِنَّكُمْ مَا جَفَّتْ أَرْجُلُكُمْ مِنَ الْبَحْرِ - حَتَّى قُلْتُمْ لِنَبِيِّكُمْ -( اجْعَلْ لَنا إِلهاً كَما لَهُمْ آلِهَةٌ - قالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ) .

۳۱۸ - وقِيلَ لَه بِأَيِّ شَيْءٍ غَلَبْتَ الأَقْرَانَ - فَقَالَعليه‌السلام مَا لَقِيتُ رَجُلًا إِلَّا أَعَانَنِي عَلَى نَفْسِه.

قال الرضي - يومئ بذلك إلى تمكن هيبته في القلوب.

سید رضی : یعنی صاحبان ایمان میرا اتباع کرتے ہیں اورفاسق و فاجر مال کے اشاروں پر چلا کرتے ہیں جس طرح شہد کی مکھیاں اپنے یعسوب ( سردار) کا اتباع کرتی ہیں۔

(۳۱۷)

ایک یہودی نے آپ پر طنز کردیا کہ آپ مسلمانوں(۱) نے اپنے پیغمبر (ص) کے دفن کے بعد ہی جھگڑا شروع کردیا۔تو آپنے فرمایا کہ ہم نے ان کی جانشینی میں اختلاف کیا ہے ۔ان سے اختلاف نہیں کیا ہے۔لیکن تم یہودیوں کے تو پیر نیل کے پانی سے خشک نہیں ہونے پائے تھے کہ تم نے اپنے پیغمبر (ص) ہی سے کہہ دیا کہ '' ہمیں بھی ویسا ہی خدا چاہیے جیسا ان لوگوں کے پاس ہے '' جس پر پیغمبر نے کہا کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔

(۳۱۸)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ بہادروں پر کس طرح غلبہ پالیتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں جس شخص کا بھی سامنا کرتا ہوں وہ خود ہی اپنے خلاف(۲) میری مدد کرتا ہے۔

سید رضی : یعنی اس کے دل میں میری ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔

(۱)یہ امیر المومنین کی بلندی کردار ہے کہ آپ نے یہودیوں کے مقابلہ میں عزت اسلام و مسلمین کا تحفظ کرلیا اور فوراً جواب دے دیا ورنہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اس کی اس طرح توجیہ کردیتا کہ جن لوگوں نے پیغمبر (ص) کی خلافت میں اختلاف کیا ہے وہ خود بھی مسلمان نہیں تھے بلکہ تمہاری برادری کے یہودی تھے جو اپنے مخصوص مفادات کے تحت اسلامی برادری میں شامل ہوگئے تھے ۔

(۲)یہ پروردگار کی وہ امداد ہے جو آج تک علی والوں کے ساتھ ہے کہ وہ طاقت ' کثرت اور اسلحہ میں کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی دہشت تمام عالم کفرو شرک کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے اورہر ایک کو ہر انقلاب و اقدام میں انہیں کا ہاتھ نظر آتا ہے۔

۷۳۲

۳۱۹ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ الْفَقْرَ - فَاسْتَعِذْ بِاللَّه مِنْه - فَإِنَّ الْفَقْرَ مَنْقَصَةٌ لِلدِّينِ - مَدْهَشَةٌ لِلْعَقْلِ دَاعِيَةٌ لِلْمَقْتِ.

۳۲۰ - وقَالَعليه‌السلام لِسَائِلٍ سَأَلَه عَنْ مُعْضِلَةٍ - سَلْ تَفَقُّهاً ولَا تَسْأَلْ تَعَنُّتاً - فَإِنَّ الْجَاهِلَ الْمُتَعَلِّمَ شَبِيه بِالْعَالِمِ - وإِنَّ الْعَالِمَ الْمُتَعَسِّفَ شَبِيه بِالْجَاهِلِ الْمُتَعَنِّتِ.

۳۲۱ - وقَالَعليه‌السلام لِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ - وقَدْ أَشَارَ إِلَيْه فِي شَيْءٍ لَمْ يُوَافِقْ رَأْيَه:

لَكَ أَنْ تُشِيرَ عَلَيَّ وأَرَى فَإِنْ عَصَيْتُكَ فَأَطِعْنِي.

۳۲۲ - ورُوِيَ: أَنَّهعليه‌السلام لَمَّا وَرَدَ الْكُوفَةَ - قَادِماً مِنْ صِفِّينَ مَرَّ بِالشِّبَامِيِّينَ - فَسَمِعَ بُكَاءَ النِّسَاءِ عَلَى قَتْلَى صِفِّينَ - وخَرَجَ إِلَيْه حَرْبُ بْنُ شُرَحْبِيلَ الشِّبَامِيِّ - وكَانَ مِنْ وُجُوه قَوْمِه فَقَالَعليه‌السلام لَه.

(۳۱۹)

آپ نے اپنے فرزند محمد حنفیہ سے فرمایا: فرزند! میں تمہارے بارے میں فقرو تنگدستی سے ڈرتا ہوں لہٰذا اس سے تم اللہ کی پناہ مانگو کہ فقر دین کی کمزوری ' عقل کی پریشانی اور لوگوں کی نفرت کا سبب بن جاتا ہے۔

(۳۲۰)

ایک شخص نے ایک مشکل مسئلہ دریافت کرلیا توآپ نے فرمایا سمجھنے کے لئے دریافت کرو الجھنے کے لئے نہیں کہ جاہل بھی اگرسیکھنا چاہے تو وہ عالم جیسا ہے اورعالم بھی اگر صرف الجھنا چاہے تو وہ جاہل جیسا ہے۔

(۳۲۱)

عبداللہ بن عباس نے آپ کے نظریہ کے خلاف آپ کومشورہ دے دیا تو فرمایا کہ تمہارا کام مشورہ دینا ہے۔اس کے بعد رائے میری ہے لہٰذا اگر میں تمہارے خلاف بھی رائے قائم کرلوں تو تمہارا فرض ہے کہ میری اطاعت کرو۔

(۳۲۲)

روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب آپ صفین سے واپسی پرکوفہ وارد ہوئے تو آپ کا گذر قبیلہ شام کے پاس سے ہوا جہاں عورتیں صفین کے مقتولین پر گریہ کررہی تھیں۔اوراتنے میں حرب بن شرجیل شبامی جو سردار قبیلہ تھے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔توآپ نے فرمایا کہ

۷۳۳

أَتَغْلِبُكُمْ نِسَاؤُكُمْ عَلَى مَا أَسْمَعُ - أَلَا تَنْهَوْنَهُنَّ عَنْ هَذَا الرَّنِينِ ؟

وأَقْبَلَ حَرْبٌ يَمْشِي مَعَه وهُوَعليه‌السلام رَاكِبٌ - فَقَالَعليه‌السلام :

ارْجِعْ فَإِنَّ مَشْيَ مِثْلِكَ مَعَ مِثْلِي - فِتْنَةٌ لِلْوَالِي ومَذَلَّةٌ لِلْمُؤْمِنِ.

۳۲۳ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ مَرَّ بِقَتْلَى الْخَوَارِجِ يَوْمَ النَّهْرَوَانِ - بُؤْساً لَكُمْ لَقَدْ ضَرَّكُمْ مَنْ غَرَّكُمْ - فَقِيلَ لَه مَنْ غَرَّهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَ الشَّيْطَانُ الْمُضِلُّ والأَنْفُسُ الأَمَّارَةُ بِالسُّوءِ - غَرَّتْهُمْ بِالأَمَانِيِّ وفَسَحَتْ لَهُمْ بِالْمَعَاصِي - ووَعَدَتْهُمُ الإِظْهَارَ فَاقْتَحَمَتْ بِهِمُ النَّارَ.

تمہاری عورتوں پرتمہارا بس نہیں چلتا ہے جو میں یہ آواز یں سن رہا ہوں اورتم انہیں اسی طرح کی فریاد(۱) سے منع کیوں نہیں کرتے ہو۔یہ کہہ کر حضرت آگے بڑھ گئے تو حرب بھی آپ کی رکاب میں ساتھ ہولئے۔آپ نے فرمایا کہ جائو واپس جائو۔حاکم کے ساتھ اس طرح پیدل چلنا حاکم کے حق میں فتنہ(۲) ہے اور مومن کے حق میں باعث ذلت ہے۔

(۳۲۳)

نہروان کے موقع پر آپ کا گزر خوارج کے مقتولین کے پاس سے ہوا تو فرمایا کہ تمہارے مقدرمیں صرف تباہی اوربربادی ہے جس نے تمہیں ورغلایا تھا اسنے دھوکہ ہی دیا تھا۔

لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ دھوکہ انہیں کس نے دیا ہے ؟ فرمایا گمراہ کن شیطان اورنفس امارہ نے ۔ اس نے انہیں تمنائوں میں الجھا دیا اور گناہوں کے راستے کھول دئیے اور ان سے غلبہ کاوعدہ کرلیا جس کے نتیجہ میں انہیں جہنم میں جھونک دیا۔

(۱)اسلامی روایات کی بناپر مردہ پر گریہ کرنایا بلند آوازسے گریہ کرناکوئی ممنوع اورحرام عمل نہیں ہے بلکہ گریہ سرکار دو عالم (ص) اورانبیاء کرام کی سیرت میں داخل ہے لہٰذا حضرت کی ممانعت کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح گریہ نہیں ہونا چاہیے۔جس سے دشمن کو کمزوری اورپریشانی کا احساس ہو جائے اور اس کے حوصلے بلند ہو جائیں یا گریہ میں ایسے الفاظ اور اندازشامل ہو جائیں جو مرضی پروردگار کے خلاف ہوں اور جن کی بناپرانسان عذابآخرت کامستحق ہو جائے ۔

(۲)اس کامقصد یہ ہے کہ اگر حاکم کے مغرور و متکبر ہو جانے اورمحکوم کے مبتلائے ذلت ہوجانے کاخطرہ ہے تو یہ انداز یقینا صحیح نہیں ہے۔لیکن اگرحاکم اس طرح کے احمقانہ جذبات سے بالات ر ہے اور محکوم بھی صرف اس کے علم و تقویٰ کا احترام کرناچاہتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ عالم اور متقی انسان کا احرام عین اسلام اور عین دیانتداری ہے۔

۷۳۴

۳۲۴ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقُوا مَعَاصِيَ اللَّه فِي الْخَلَوَاتِ - فَإِنَّ الشَّاهِدَ هُوَ الْحَاكِمُ.

۳۲۵ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا بَلَغَه قَتْلُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ:

إِنَّ حُزْنَنَا عَلَيْه عَلَى قَدْرِ سُرُورِهِمْ بِه - إِلَّا أَنَّهُمْ نَقَصُوا بَغِيضاً ونَقَصْنَا حَبِيباً.

۳۲۶ - وقَالَعليه‌السلام : الْعُمُرُ الَّذِي أَعْذَرَ اللَّه فِيه إِلَى ابْنِ آدَمَ سِتُّونَ سَنَةً.

۳۲۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا ظَفِرَ مَنْ ظَفِرَ الإِثْمُ بِه - والْغَالِبُ بِالشَّرِّ مَغْلُوبٌ.

(۳۲۴)

تنہائی میں بھی خداکی نا فرمانی سے ڈرو کہ جو دیکھنے والا(۱) ہے وہی فیصلہ کرنے والا ہے۔

(۳۲۵)

جب آپ کو محمد بن ابی بکر کی شہادت کی خبر ملی تو فرمایا کہ میرا غم محمد پر اتناہی ہے جتنی دشمن کی خوشی ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ دشمن کا ایک دشمن کم ہوا ہے اور میرا ایک دوست کم ہوگیا ہے۔

(۳۲۶)

جس عمرکے بعد پروردگار اولاد آدم کے کسی عذر کو قبول نہیں کرتا ہے۔وہ ساٹھ سال ہے ۔

(۳۲۷)

جس پر گناہ غلبہ حاصل کرلے وہ غالب نہیں ہے کہ شر کے ذریعہ غلبہ پانے والابھی مغلوب ہی ہوتا ہے۔

(۱)جب یہ طے ہے کہ روز قیامت فیصلہ کرنے والا اورعذاب دینے والا پروردگار ہے تو مخلوقات کی نگاہوں سے چھپ کر گناہ کرنے کافائدہ ہی کیا ہے فائدہ تو اسی وقت ہو سکتا ہے جب خالقین گاہ سے چھپ سکے یا فیصلہ مالک کے علاوہ کسی اور کے اختیارمیں ہو جس کاکوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ انسان ہرال میں گناہ سے پرہیز کرے اورعلی الاعلان یا خفیہ طریقہ سے گناہ کا ارادہ نہ کرے ۔

۷۳۵

۳۲۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه - فَرَضَ فِي أَمْوَالِ الأَغْنِيَاءِ أَقْوَاتَ الْفُقَرَاءِ - فَمَا جَاعَ فَقِيرٌ إِلَّا بِمَا مُتِّعَ بِه غَنِيٌّ - واللَّه تَعَالَى سَائِلُهُمْ عَنْ ذَلِكَ.

۳۲۹ - وقَالَعليه‌السلام الِاسْتِغْنَاءُ عَنِ الْعُذْرِ أَعَزُّ مِنَ الصِّدْقِ بِه.

۳۳۰ - وقَالَعليه‌السلام أَقَلُّ مَا يَلْزَمُكُمْ لِلَّه - أَلَّا تَسْتَعِينُوا بِنِعَمِه عَلَى مَعَاصِيه.

۳۳۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه جَعَلَ الطَّاعَةَ غَنِيمَةَ الأَكْيَاسِ - عِنْدَ تَفْرِيطِ الْعَجَزَةِ

(۳۲۸)

پروردگار نے مالداروں کے اموال میں غریبوں کا رزق قراردیاہے لہٰذا جب بھی کوئی فقیر بھوکا ہوگا تواس کا مطلب یہ ہے کہ غنی نے دولت کو سمیٹ لیا ہے اور پروردگار روز قیامت اس کا سوال ضرور کرنے والا ہے۔

(۳۲۹)

عذر و معذرت سے بے نیازی سچے عذرپیش کرنے سے بھی زیادہ عزیز(۱) تر ہے۔

(۳۳۰)

خدا کا سب سے مختصر حق یہ ہے کہ اس کی نعمت کو اس کی معصیت(۲) کاذریعہ نہ بنائو۔

(۳۳۱)

پروردگار نے ہوش مندوں کے لئے اطاعت کا وہ موقع بہترین قراردیا ہے جب کا اہل لوگ کوتاہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ( مثلاً نمازشب)

(۱)معذرت کرنے میں ایک طرح کی ندامت اور ذلت کا احساس بہرحال ہوتا ہے لہٰذا انسان کے لئے افضل اوربہتر یہی ہے کہ اپنے کو اس ندامت سے بے نیاز بنالے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس کے لئے بعد میں معذرت کرنا پڑے ۔

(۲)دنیامیں کوئی کریم سے کریم اور مہربان سے مہربان انسانبھی اس بات کوگوارہ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ مہربانی کرے اور دوسرا انسان اسی مہربانی کو اس کی نا فرمانی کا ذریعہ بنالے اور جب مخلوقات کے بارے میں اس طرح کی احسان فراموشی روا نہیں ہے توخالق کا حق انسان پر یقینا مخلوقات سے زیادہ ہوتا ہے اور ہرشخص کو اس کرامت و شرافت کا خیالرکھنا چاہیے کہ جب اس کا ساراوجود نعمت پروردگار ہے تو اس وجود کا کوئی ایک حصہ بھی پروردگار کی معصیت اورمخالفت میں صرف نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۷۳۶

۳۳۲ - وقَالَعليه‌السلام السُّلْطَانُ وَزَعَةُ اللَّه فِي أَرْضِه.

۳۳۳ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الْمُؤْمِنِ - الْمُؤْمِنُ بِشْرُه فِي وَجْهِه وحُزْنُه فِي قَلْبِه - أَوْسَعُ شَيْءٍ صَدْراً وأَذَلُّ شَيْءٍ نَفْساً - يَكْرَه الرِّفْعَةَ ويَشْنَأُ السُّمْعَةَ - طَوِيلٌ غَمُّه بَعِيدٌ هَمُّه - كَثِيرٌ صَمْتُه مَشْغُولٌ وَقْتُه - شَكُورٌ صَبُورٌ - مَغْمُورٌ بِفِكْرَتِه ضَنِينٌ بِخَلَّتِه - سَهْلُ الْخَلِيقَةِ لَيِّنُ الْعَرِيكَةِ - نَفْسُه أَصْلَبُ مِنَ الصَّلْدِ - وهُوَ أَذَلُّ مِنَ الْعَبْدِ.

۳۳۴ - وقَالَعليه‌السلام لَوْ رَأَى الْعَبْدُ الأَجَلَ ومَصِيرَه - لأَبْغَضَ الأَمَلَ وغُرُورَه.

(۳۳۲)

بادشاہ روئے زمین پراللہ کا پاسبان ہوتا ہے۔

(۳۳۳)

مومن کے چہرہ(۱) پر بشاشت ہوتی ہے اور دل میں رنج و اندوہ اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور متواضع ۔بلندی کو ناپسندکرتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ے۔اس کاغم طویل ہوتا ہے اور ہمت بڑی ہوتی ہے اورخاموشی زیادہ ہوتی ہے اوروقت مشغول ہوتا ہے۔وہ شکر کرنے والا۔صبر کرنے والا۔فکر میں ڈوبا ہوا۔دست طلب درازکرنے میں بخیل' خوش اخلاق اور نرم مزاج ہوتا ہے۔اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے اور وہخود غلام سے زیادہ متواضع ہوتا ہے۔

(۳۳۴)

اگر بندۂ خدا موت اوراس کے انجام کودیکھ لے تو امیدوار اس کے فریب سے نفرت کرنے لگے۔

(۱)اس مقام پرمومن کے چودہ صفات کاتذکرہ کردیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ سکے اوراپنے ایمان کا فیصلہ کرسکے ۔

۱۔وہ ادر سے محزون ہوتا ہے لیکن باہرسے بہرحال ہشاش بشاش رہتا ہے ۔۲۔اس کا سینہ اور دل کشادہ ہوتا ہے ۔ ۳۔اس کے نفس میں غرور و تکبر نہیں ہوتا ہے ۔۴۔وہ بلندی کو نا پسند کرتا ہے اور شہرت سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے ۔۵۔ خوف خدا سے رنجیدہ رہتا ہے ۔۶۔ اس کی ہمت ہمیشہ بلند رہتی ہے ۔۷۔ہمیشہ خاموش رہتا ہے اور اپنے فرائض کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔۸۔اپنے شب و روز کو فرائض کی ادائیگی میں مشغول رکھتا ہے ۔۹۔مصیبتوں میں صبراور نعمتوں پر شکر پروردگار کرتا ہے ۔۱۰۔فکر قیامت و حساب و کتاب میں غرق رہتا ہے ۔۱۱۔لوگوں پر اپنی ضرورت کے اظہار میں بخل کرتا ہے ۔۱۲۔مزاج اور طبیعت کے اعتبارسے بالکل نرم ہوت ہے ۔۱۳۔حق کے معاملہ میں پتھرسے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔۱۴۔خضوع خشوع میں غلاموں جیسی کیفیت کا حامل ہوتاہے۔

۷۳۷

۳۳۵ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ امْرِئٍ فِي مَالِه شَرِيكَانِ - الْوَارِثُ والْحَوَادِثُ.

۳۳۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَسْئُولُ حُرٌّ حَتَّى يَعِدَ.

۳۳۷ - وقَالَعليه‌السلام الدَّاعِي بِلَا عَمَلٍ كَالرَّامِي بِلَا وَتَرٍ.

۳۳۸ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ عِلْمَانِ مَطْبُوعٌ ومَسْمُوعٌ - ولَا يَنْفَعُ الْمَسْمُوعُ إِذَا لَمْ يَكُنِ الْمَطْبُوعُ.

(۳۳۵)

ہر شخص کے اس کے مال میں دو طرح(۱) کے شریک ہوتے ہیں۔ایک وارث اور ایک حوادث۔

(۳۳۶)

جس سے سوال کیا جاتا ہے وہ اس وقت تک آزاد رہتا ہے جب تک وعدہ نہ کرلے ۔

(۳۳۷)

بغیر عمل کے دوسروں کو دعوت دینے والا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بغیر چلئہ کمان کے تیر چلانے والا۔

(۳۳۸)

علم کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ ہوتا ہے جو(۲) بات میں ڈھل جاتا ہے اور ایک وہ ہوتا ہے جو صرف سن لیا جاتا ہے اور سنا سنایا اس وقت تک کام نہیں آتا ہے جب تک مزاج کاجزء نہ بن جائے ۔

(۱)یہ اشارہ ہے کہ انسان کو ایک تیسرے شریک کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور وہ ہے فقیر اورمسکین کو مذکورہ دونوں شریک اپنا حق خود لے لیتے ہیں اورتیسرے شریک کو اس کا حق دینا پڑتا ہے جو امتحان نفس بھی ہے اوروسیلہ اجر و ثواب بھی ہے۔

(۲)دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک علم انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور ایک علم باہر سے حاصل ہوتا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب تک فطرت کے اندر وجدان سلیم اوراس کی صلاحیتیں نہ ہوں ' باہرکے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اوراس سے استفادہ اندر کی صلاحیت ہی پر موقوف ہے۔

۷۳۸

۳۳۹ - وقَالَعليه‌السلام صَوَابُ الرَّأْيِ بِالدُّوَلِ - يُقْبِلُ بِإِقْبَالِهَا ويَذْهَبُ بِذَهَابِهَا.

۳۴۰ - وقَالَعليه‌السلام الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ والشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى.

۳۴۱ - وقَالَعليه‌السلام يَوْمُ الْعَدْلِ عَلَى الظَّالِمِ - أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الْجَوْرِ عَلَى الْمَظْلُومِ.

۳۴۲ - وقَالَعليه‌السلام الْغِنَى الأَكْبَرُ الْيَأْسُ عَمَّا فِي أَيْدِي النَّاسِ.

(۳۳۹)

رائے کی درستی دولت(۱) اقبال سے وابستہ ہے۔ اسی کے ساتھ آتی ہے اور ای کے ساتھ چلی جاتی ہے ( لیکن دولت بھی مفت نہیں آتی ہے اس کے لئے بھی صحیح رائے کی ضرورت ہوتی ہے)

(۳۴۰)

پاک(۲) دامانی فقیری کی زینت ہے اور شکر مالداری کی زینت ہے۔

(۳۴۱)

مظلوم کے حق میں ظلم کے دن سے زیادہ شدید ظالم کے حق میں انصاف کا دن ہوتا ہے۔

(۳۴۲)

لوگوں کے ہاتھ کی دولت سے مایوس(۳) ہوجانا ہی بہتر ین مالداری ہے ( کہ انسان صرف خدا سے لو لگاتا ہے)

(۱)یعنی دنیا کا معیار صواب و خطایہ ہے کہ جس کے پاس دولت کی فراوانی دیکھ لیتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اس کے پاس یقینا فکر سلیم بھی ہے ورنہ اس قدر دولت کس طرح حاصل کر سکتا تھا ۔اس کے بعد جب دولت چلی جاتی ہے تو اندازہ کرتے ہیں کہ یقینا اس کی رائے میں کمزوری پیداہوگئی ہے ورنہ اس طرح کی غربت سے کس طرح دوچار ہوسکتا تھا۔

(۲)حقیقت امریہ ہے کہ نہ فقیری کوئی عیب ہے اور نہ مالداری کو ئی حسن اور ہنر۔عیب و ہنر کی دنیا اس سے ذراماوراء ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان فقیری میں عفت سے کام لے اور کسی کے سامنے دست سوال درازنہ کرے اور مالداری میں شکر پروردگار ادا کرے اور کسی طرح کے غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہوجائے ۔

(۳)یہ عزت نفس کا بہترین مظاہرہ ہے جہاں انسان غربت کے باوجود دوسروں کی دولت کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا ہے اور ہمیشہ اس نکتہ کونگاہ میں رکھتا ہے کہ فقر و فاقہ سے صرف جسم کمزور ہوتا ہے لیکن ہاتھ پھیلا دینے سے نفس میں ذلت اورحقارت کا احساس پیدا ہوتا ہے جو جسم کے فاقہ سے یقینا بد تر اور شدید تر ہے ۔

۷۳۹

۳۴۳ - وقَالَعليه‌السلام الأَقَاوِيلُ مَحْفُوظَةٌ والسَّرَائِرُ مَبْلُوَّةٌ - و( كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ) - والنَّاسُ مَنْقُوصُونَ مَدْخُولُونَ إِلَّا مَنْ عَصَمَ اللَّه - سَائِلُهُمْ مُتَعَنِّتٌ ومُجِيبُهُمْ مُتَكَلِّفٌ - يَكَادُ أَفْضَلُهُمْ رَأْياً - يَرُدُّه عَنْ فَضْلِ رَأْيِه الرِّضَى والسُّخْطُ - ويَكَادُ أَصْلَبُهُمْ عُوداً تَنْكَؤُه اللَّحْظَةُ - وتَسْتَحِيلُه الْكَلِمَةُ الْوَاحِدَةُ.

۳۴۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَعَاشِرَ النَّاسِ اتَّقُوا اللَّه - فَكَمْ مِنْ مُؤَمِّلٍ مَا لَا يَبْلُغُه وبَانٍ مَا لَا يَسْكُنُه - وجَامِعٍ مَا سَوْفَ يَتْرُكُه - ولَعَلَّه مِنْ بَاطِلٍ جَمَعَه ومِنْ حَقٍّ مَنَعَه - أَصَابَه حَرَاماً واحْتَمَلَ بِه آثَاماً - فَبَاءَ بِوِزْرِه وقَدِمَ عَلَى رَبِّه آسِفاً لَاهِفاً - قَدْ «خَسِرَ الدُّنْيا والآخِرَةَ ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ».

(۳۴۳)

باتیں سب محفوظ رہتی ہیں۔اور دلوں کے رازوں کا امتحان ہونے والا ہے۔ہر نفس اپنے اعمال کے ہاتھوں گرو ہے ۔اور لوگوں کے جسم میں نقص اورعقلوں میں کمزوری آنے والی ہے مگر یہ کہ اللہ یہ بچالے۔ان میں کے سائل الجھانے والے ہیں اور جوابدینے والے بلا وجہ زحمت کر رہے ہیں۔قریب ہے کہ ان کا بہترین رائے والا بھی صرف خوشنودی یا غضب کے تصور سے اپنی راے سے پلٹا دیاجائے اورجو انتہائی مضبوط عقل وارادہ والا ہے اس کو بھی ایک نظر متاثر کردے یا ایک کلمہ اس می انقلاب پیدا کردے ۔

(۳۴۴)

ایہاالناس ! اللہ سے ڈرو کہ کتنے ہی امیدوار ہیں جن کی امیدیں پوری نہیں ہوتی ہیں اور کتنے یہ گھر بنانے والے ہیں جنہیں رہنا نصیب نہیں ہوتا ہے کتنے مال جمع کرنے والے ہیں جوچھوڑ کرچلے جاتے ہیں۔اوربہت ممکن ہے کہ باطل سے جمع کیا ہو یا کسی حق سے انکار کردیا ہو یا حرام سے حاصل کیا ہواور گناہوں کا بوجھ لاد لیا ہو۔تو اس کا وبال لے کرواپس ہو اور اسی عالم میں پروردگار کے حضور حاضرہو جائے جہاں صرف رنج اور افسوس ہواور دنیا و آخرت دونوں کا خسارہ ہو جو درحقیقت کھلا ہواخسارہ ہے۔

۷۴۰