نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657084 / ڈاؤنلوڈ: 15926
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

۲۷۷ - وقَالَعليه‌السلام : لَا والَّذِي أَمْسَيْنَا مِنْه فِي غُبْرِ لَيْلَةٍ دَهْمَاءَ - تَكْشِرُ عَنْ يَوْمٍ أَغَرَّ مَا كَانَ كَذَا وكَذَا.

۲۷۸ - وقَالَعليه‌السلام قَلِيلٌ تَدُومُ عَلَيْه أَرْجَى مِنْ كَثِيرٍ مَمْلُولٍ مِنْه.

۲۷۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَضَرَّتِ النَّوَافِلُ بِالْفَرَائِضِ فَارْفُضُوهَا.

۲۸۰ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ تَذَكَّرَ بُعْدَ السَّفَرِ اسْتَعَدَّ.

۲۸۱ - وقَالَعليه‌السلام لَيْسَتِ الرَّوِيَّةُ كَالْمُعَايَنَةِ مَعَ الإِبْصَارِ - فَقَدْ تَكْذِبُ الْعُيُونُ أَهْلَهَا -

(۲۷۷)

اس ذات کی قسم جس کی بدولت ہم نے شب تاریک کے اس باقی حصہ کوگزار دیا ہے جس کے چھٹتے ہی روز درخشاں ظاہر ہوگا ایسا اور ایسا نہیں ہو ہے ۔

(۲۷۸)

تھوڑا عمل جسے پابندی سے انجام دیاجائے اس کثیر عمل سے بہتر ہے جس سے آدمی اکتاجائے ۔

(۲۷۹)

جب(۱) نوافل فرائض کو نقصان پہنچانے لگیں توانہیں چھوڑ دو۔

(۲۸۰)

جو دوری سفرکو یادرکھتا ہے وہ تیاری بھی کرتا ہے۔

(۲۸۱)

آنکھوں کا دیکھنا حقیقت میں دیکھنا شمار نہیں ہوتا ہے کہ کبھی کبھی آنکھیں اپنے اشخاص کودھوکہ دے

(۱)تقدس مآب حضرا ت کے لئے یہ بہترین نسخہ ہدایت ہے جو اجتماعی اور عوامی فرائض سے غافل ہوکرمستحباب پر جان دئیے پڑے رہتے ہیں اور اپنی ذمہداریوں کا احساس نہیں کرتے ہیں اور اسی طرح یہ ان صاحبان ایمان کے لئے سامان تنبیہ ہے جو مستحباب کی کوئی حیثیت نہیں ہے جن سے واجبات متاثر ہوجائیں اور انسان فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا شکار ہوجائے ۔

۷۲۱

ولَا يَغُشُّ الْعَقْلُ مَنِ اسْتَنْصَحَه.

۲۸۲ - وقَالَعليه‌السلام بَيْنَكُمْ وبَيْنَ الْمَوْعِظَةِ حِجَابٌ مِنَ الْغِرَّةِ

۲۸۳ - وقَالَعليه‌السلام جَاهِلُكُمْ مُزْدَادٌ وعَالِمُكُمْ مُسَوِّفٌ

۲۸۴ - وقَالَعليه‌السلام قَطَعَ الْعِلْمُ عُذْرَ الْمُتَعَلِّلِينَ.

۲۸۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُعَاجَلٍ يَسْأَلُ الإِنْظَارَ - وكُلُّ مُؤَجَّلٍ يَتَعَلَّلُ بِالتَّسْوِيفِ

۲۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَا قَالَ النَّاسُ لِشَيْءٍ طُوبَى لَه

دیتی ہیں لیکن عقل(۱) نصیحت حاصل کرنے والے کو فریب نہیں دیتی ہے۔

(۲۸۲)

تمہارے اور نصیحت کے درمیان غفلت کا ایک پردہ حائل رہتا ہے۔

(۲۸۳)

تمہارے جاہلوں کو دولت فراواں دے دی جاتی ہے اور عالم کو صرف مستقبل کی امید دلائی جاتی ہے۔

(۲۸۴)

علم ہمیشہ بہانہ بازوں(۲) کے عذر کو ختم کردیتا ہے۔

(۲۸۵)

جس کی موت جلدی آجاتی ہے وہ مہلت کا مطالبہ کرتا ہے اورجسے مہلت مل جاتی ہے وہ ٹال مٹول کرتا ہے۔

(۲۸۶)

جب بھی لوگ کسی چیز پر واہ واہ کرتے ہیں تو

(۱)انسانی علم کے تین وسائل ہیں ۔ایک اس کا ظاہری احساس و ادراک ہے اور ایک اس کی عقل ہے جس پر تمام عقلاء بشر کا اتفاق ہے اور تیسرا راستہ وحی الٰہی ہے جسپر صاحبان ایمان کا ایمان ہے اور بے ایمان اس وسیلہ ادراک سے محروم ہیں۔ان تینوں میں اگرچہ وحی کے بارے میں خطا کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس اعتبارسے اس کا مرتبہ سب سے افضل ہے لیکن خود وحی کا ادراک بھی عقل کے بغیر ممکن نہیں ہے اوراس اعتبار سے عقل کامرتبہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کتب احادیث میں کتاب العقل کو سب سے پہلے قراردیا گیا ہے اور اس طرح اس کی بنیادی حیثیت کا اعلان کیا گیا ہے ۔

(۲)اگر انسان واقعاً عالم ہے تو علم کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مطاق عمل کرے اور کسی طرح کی بہانہ بازی سے کام نہ لے جس طرح کہ درباری اور سیاسی علماء دیدہ و دانستہ حقائق سے انحراف کرتے ہیں اور دنیاوی مفادات کی خاطر اپنے عل کا ذبیحہ کردیتے ہیں ۔ایسے لوگقاتل اور رہزن کہے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔عالم اور فاضل کہے جانے کے لائق نہیں ہیں ۔

۷۲۲

إِلَّا وقَدْ خَبَأَ لَه الدَّهْرُ يَوْمَ سَوْءٍ.

۲۸۷ - وسُئِلَ عَنِ الْقَدَرِ - فَقَالَ طَرِيقٌ مُظْلِمٌ فَلَا تَسْلُكُوه - وبَحْرٌ عَمِيقٌ فَلَا تَلِجُوه - وسِرُّ اللَّه فَلَا تَتَكَلَّفُوه.

۲۸۸ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا أَرْذَلَ اللَّه عَبْداً حَظَرَ عَلَيْه الْعِلْمَ.

۲۸۹ - وقَالَعليه‌السلام : كَانَ لِي فِيمَا مَضَى أَخٌ فِي اللَّه - وكَانَ يُعْظِمُه فِي عَيْنِي صِغَرُ الدُّنْيَا فِي عَيْنِه - وكَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِه - فَلَا يَشْتَهِي مَا لَا يَجِدُ ولَا يُكْثِرُ إِذَا وَجَدَ -

زمانہ اس کے واسطے ایک برا دن چھپا کر رکھتا ہے۔

(۲۸۷)

آپ سے قضا و قدرکے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ یہ ایک تاریک راستہ ہے اس پرمت چلو اورایک گہرا سمندر ہے اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرو اورایک راز الٰہی ہے لہٰذا اسے(۱) معلوم کرنے کی زحمت نہ کرو۔

(۲۸۸)

جب پروردگار کسی بندہ کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو اسے علم و دانش سے محروم کردیتا ہے۔

(۲۸۹)

گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا۔جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اس کی نگاہوں(۲) میں حقیر تھی اور اس پر پیٹ کی حکومت نہیں تھی۔جو چیز نہیں ملتی تھی اس کی خواہش نہیں کرتا تھا اور جو مل جاتی تھی اسے زیادہ استعمال نہیں کرتاتھا۔اکثر

(۱)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام کسی بھی موضوع کے بارے میں جہالت کا طرفدار ہے اور نہ جاننے ہی کو افضلیت عطا کرتا ہے۔بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اکثر لوگ ان حقائق کے متحمل نہیں ہوتے ہیں۔لہٰذا انسان کو انہیں چیزوں کا علم حاصل کرنا چاہیے جواس کے لئے قابل تحمل و برداشت ہو۔ اس کے بعد اگر حدود تحمل سے باہر ہو تو پڑھ لکھ کر بہک جانے سے نا واقف رہنا ہی بہترہے۔

(۲)بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ واقعاً کسی شخصیت کی طرف اشارہ ہے جس کے حالات و کیفیات کا اندازہ نہیں ہو سکا ہے اوربعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ ایک آئیڈیل اور مثالیہ کی نشاندہی ہے کہ صاحب ایمان کو اسی کردار کا حامل ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسی راستہ پر چلنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ اس کاشمار واقعاً صاحبان ایمان و کردار میں ہو جائے ۔

۷۲۳

وكَانَ أَكْثَرَ دَهْرِه صَامِتاً - فَإِنْ قَالَ بَذَّ الْقَائِلِينَ ونَقَعَ غَلِيلَ السَّائِلِينَ - وكَانَ ضَعِيفاً مُسْتَضْعَفاً - فَإِنْ جَاءَ الْجِدُّ فَهُوَ لَيْثُ غَابٍ وصِلُّ وَادٍ - لَا يُدْلِي بِحُجَّةٍ حَتَّى يَأْتِيَ قَاضِياً - وكَانَ لَا يَلُومُ أَحَداً - عَلَى مَا يَجِدُ الْعُذْرَ فِي مِثْلِه حَتَّى يَسْمَعَ اعْتِذَارَه - وكَانَ لَا يَشْكُو وَجَعاً إِلَّا عِنْدَ بُرْئِه - وكَانَ يَقُولُ مَا يَفْعَلُ ولَا يَقُولُ مَا لَا يَفْعَلُ - وكَانَ إِذَا غُلِبَ عَلَى الْكَلَامِ لَمْ يُغْلَبْ عَلَى السُّكُوتِ - وكَانَ عَلَى مَا يَسْمَعُ أَحْرَصَ مِنْه عَلَى أَنْ يَتَكَلَّمَ - وكَانَ إِذَا بَدَهَه أَمْرَانِ - يَنْظُرُ أَيُّهُمَا أَقْرَبُ إِلَى الْهَوَى - فَيُخَالِفُه فَعَلَيْكُمْ بِهَذِه الْخَلَائِقِ فَالْزَمُوهَا وتَنَافَسُوا فِيهَا - فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِيعُوهَا - فَاعْلَمُوا أَنَّ أَخْذَ الْقَلِيلِ خَيْرٌ مِنْ تَرْكِ الْكَثِير.

۲۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لَوْ لَمْ يَتَوَعَّدِ اللَّه عَلَى مَعْصِيَتِه - لَكَانَ يَجِبُ أَلَّا يُعْصَى شُكْراً لِنِعَمِه.

۲۹۱ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ عَزَّى الأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ عَنِ ابْنٍ لَه.

اوقات خاموش رہا کرتا تھا اور اگر بولتا تھا تو تمام بولنے والوں کو چپ کردیتا تھا۔سائلوں کی پیاس کو بجھادیتا تھا اوربظاہر عاجز اور کمزور تھا لیکن جب جہاد کاموقع آجاتاتھا توایک شیر بیشہ شجاعت اور اژدروادی ہو جایا کرتاتھا جب تک عذرسن نہ لے۔کسی درد کی شکایت نہیں کرتا تھا جب تک اس سے صحت نہ حاصل ہوجائے۔جو کرتا تھا وہی کہتا تھا اور جو نہیں کرسکتا تھا وہ کہتا بھی نہیں تھا۔اگر بولنے میں اس پرغلبہ حاصل بھی کرلیا جائے تو سکوت میں کوئی اس پر غالب نہیں آسکتاتھا۔وہ بولنے سے زیادہ سننے کاخواہشمند رہتا تھا۔جب اس کے سامنے دو طرح کی چیزیں آتی تھیں اورایک خواہش سے قریب تر ہوتی تھی تو اسی کی مخالفت کرتاتھا۔لہٰذا تم سب بھی انہیں اخلاق کو اختیار کرو اور انہیں کی فکر کرواوراگرنہیں کرس کتے ہو تو یاد رکھو کہ قلیل کا اختیارکرلیناکثیر کی ترک کردینے سے بہر حال بہتر ہوتا ہے۔

(۲۹۰)

اگر خدا نا فرمانی پر عذاب کی وعید(۱) نہ بھی کرتا جب بھی ضرورتھی کہ شکرنعمت کی بنیاد پر اس کی نا فرمانی نہ کی جائے ۔

(۲۹۱)

اشعث بن قیس کو اس کے فرزند کا پرسہ دیتے ہوئے فرمایا۔اشعث ! اگر تم اپنے فرزند کے غم میں محزون

(۱)ضرورت نہیں ہے کہ انسان صرف عذاب کے خوف سے محرمات سے پرہیز کرے بلکہ تقاضائے شرافت یہ ہے کہ نعمت پروردگار کا احساس پیداکرکے اس کی دی ہوئی نعمتوں کو حرام میں صرف کرنے سے اجتناب کرے۔

۷۲۴

يَا أَشْعَثُ إِنْ تَحْزَنْ عَلَى ابْنِكَ - فَقَدِ اسْتَحَقَّتْ مِنْكَ ذَلِكَ الرَّحِمُ - وإِنْ تَصْبِرْ فَفِي اللَّه مِنْ كُلِّ مُصِيبَةٍ خَلَفٌ - يَا أَشْعَثُ إِنْ صَبَرْتَ - جَرَى عَلَيْكَ الْقَدَرُ وأَنْتَ مَأْجُورٌ - وإِنْ جَزِعْتَ جَرَى عَلَيْكَ الْقَدَرُ وأَنْتَ مَأْزُورٌ - يَا أَشْعَثُ ابْنُكَ سَرَّكَ وهُوَ بَلَاءٌ وفِتْنَةٌ - وحَزَنَكَ وهُوَ ثَوَابٌ ورَحْمَةٌ.

۲۹۲ - وقَالَعليه‌السلام عَلَى قَبْرِ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - سَاعَةَ دَفْنِه.

إِنَّ الصَّبْرَ لَجَمِيلٌ إِلَّا عَنْكَ - وإِنَّ الْجَزَعَ لَقَبِيحٌ إِلَّا عَلَيْكَ - وإِنَّ الْمُصَابَ بِكَ لَجَلِيلٌ وإِنَّه قَبْلَكَ وبَعْدَكَ لَجَلَلٌ

۲۹۳ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَصْحَبِ الْمَائِقَ - فَإِنَّه

ہو تو یہ اس کی قرابت(۱) کاحق ہے لیکن اگر صبر کرلو تو اللہ کے یہاں ہرمصیبت کا ایک اجر ہے۔

اشعث ! اگر تم نے صبر کرلیا تو قضا و قدر الٰہی اس عالم میں جاری ہوگی کہ تم اجرکے حقدار ہوگے اور اگر تم نے فریاد کی تو قدر الٰہی اس عالم میں جاری ہوگی کہ تم پر گناہ کابوجھ ہوگا۔

اشعث ! تمہارے لئے بیٹا مسرت کا سبب تھا جب کہ وہ ایک آزمائش اور امتحان تھا اور حزن کا باعث ہوگیا ہے جب کہ اس میں ثواب اور رحمت ہے۔

(۲۹۲)

پیغمبر اسلام (ص) کے دفن کے وقت قبر کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا :

صبر عام طور سے بہترین چیز ہے(۲) مگر آپ کی مصیبت کے علاوہ ۔اور پریشانی و بے قراری بری چیز ہے لیکن آپ کی وفات کے علاوہ آپ کی مصیبت بڑی عظیم ہے اورآپ سے پہلے اور آپ کے بعد ہر مصیبت آسان ہے۔

(۲۹۳)

بیوقوف کی صحبت مت اختیار کرنا کہ وہ اپنے

(۱)یہ اس بات کی علامت ہے کہ بیٹے کے ملنے پر مسرت بھی ایک فطری امر ہے اور اس کے چلے جانے پرحزن و الم بھی ایک فطری تقاضا ہے لیکن انسان کی عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مسرت میں امتحان کو نظر انداز نہ کرے اور غم کے ماحول میں اجرو ثواب سے غافل نہ ہو جائے ۔

(۲)اس کا مطب یہ نہیں کہ صبر یا جزع و فزع کی دو قسمیں ہیں اوروہ کبھی جمیل ہوت ہے اورکبھی غیر جمیل۔بلکہ یہ مصیبت پیغمبر اسلام (ص) کی عظمت کی طرف اشارہ ہے کہ اس موقع پر صبر کا امکان ہی نہیں ہے جس طرف دوسرے مصائب میں جزع و فزع کاکوئی جواز نہیں ہے اور انسان کواسے برداشت ہی کرلینا چاہیے۔

۷۲۵

يُزَيِّنُ لَكَ فِعْلَه ويَوَدُّ أَنْ تَكُونَ مِثْلَه.

۲۹۴ - وقَدْ سُئِلَ عَنْ مَسَافَةِ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ والْمَغْرِبِ - فَقَالَعليه‌السلام مَسِيرَةُ يَوْمٍ لِلشَّمْسِ.

۲۹۵ - وقَالَعليه‌السلام أَصْدِقَاؤُكَ ثَلَاثَةٌ وأَعْدَاؤُكَ ثَلَاثَةٌ.فَأَصْدِقَاؤُكَ صَدِيقُكَ - وصَدِيقُ صَدِيقِكَ وعَدُوُّ عَدُوِّكَ - وأَعْدَاؤُكَ عَدُوُّكَ - وعَدُوُّ صَدِيقِكَ وصَدِيقُ عَدُوِّكَ.

۲۹۶ - وقَالَعليه‌السلام لِرَجُلٍ رَآه يَسْعَى عَلَى عَدُوٍّ لَه - بِمَا فِيه إِضْرَارٌ بِنَفْسِه - إِنَّمَا أَنْتَ كَالطَّاعِنِ نَفْسَه لِيَقْتُلَ رِدْفَه

۲۹۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا أَكْثَرَ الْعِبَرَ وأَقَلَّ الِاعْتِبَارَ.

عمل کو خوبصورت بناکر پیش کرے گا اور تم سے بھی ویسے ہی عمل کا تقاضا کرے گا۔

(۲۹۴)

آپ سے مشرق و مغرب کے فاصلہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ آفتاب کا ایک دن کا راستہ ۔

(۲۹۵)

تمہارے دوست بھی تین طرح کے ہیں اوردشمن بھی تین قسم کے ہیں۔دوستوں کی قسمیں یہ ہیں کہ تمہارا دوست ۔تمہارے دوست(۱) کا دوست اور تمہارے دشمن کا دشمن اور اسی طرح دشمنوں کی قسمیں یہ ہیں۔تمہارا دشمن ۔تمہارے دوست کادشمن اور تمہارے دشمن کا دوست۔

(۲۹۶)

آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس میں خود اس کا نقصان بھی ہے۔تو فرمایا کہ تیری مثال اس شخص کی ہے جو اپنے سینے میں نیزہ چبھولے تاکہ پیچھے بیٹھنے والا ہلاک ہوجائے ۔

(۲۹۷)

عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور اس کے حاصل کرنے والے کتنے کم ہیں۔

(۱)یہ اس موقع کے لئے کہا گیا ہے کہ دونوں کی دوستی کی بنیاد ایک ہوورنہ اگر ایک شخص ایک بنیاد پر دوستی کرتا ہے اور دوسرا دوسری بنیاد پرمحبت کرتا ہے تو دوست کا دوست ہرگز دوست شمارنہیں کیا جا سکتا ہے جس طرح کہ دشمن کے دشمن کے لئے بھی ضروری ہے کہ دشمنی کی بنیاد وہی ہو جس بنیاد پر یہ شخص دشمنی کرتا ہے ورنہ اپنے اپنے مفادات کے لئے کام کرنے والے کبھی ایک رشتہ محبت میں منسلک نہیں کئے جا سکتے ہیں۔

۷۲۶

۲۹۸ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ بَالَغَ فِي الْخُصُومَةِ أَثِمَ - ومَنْ قَصَّرَ فِيهَا ظُلِمَ - ولَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّه مَنْ خَاصَمَ.

۲۹۹ - وقَالَعليه‌السلام مَا أَهَمَّنِي ذَنْبٌ أُمْهِلْتُ بَعْدَه - حَتَّى أُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ وأَسْأَلَ اللَّه الْعَافِيَةَ.

۳۰۰ - وسُئِلَعليه‌السلام كَيْفَ يُحَاسِبُ اللَّه الْخَلْقَ عَلَى كَثْرَتِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام كَمَا يَرْزُقُهُمْ عَلَى كَثْرَتِهِمْ - فَقِيلَ كَيْفَ يُحَاسِبُهُمْ ولَا يَرَوْنَه - فَقَالَعليه‌السلام كَمَا يَرْزُقُهُمْ ولَا يَرَوْنَه.

۳۰۱ - وقَالَعليه‌السلام رَسُولُكَ تَرْجُمَانُ عَقْلِكَ - وكِتَابُكَ أَبْلَغُ مَا يَنْطِقُ عَنْكَ.

(۲۹۸)

جو لڑائی جھگڑے میں حد سے آگے بڑھ جائے وہ گناہ گار ہوتا ہے اور جو کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اوراس طرح جھگڑا کرنے والا تقویٰ کے راستے پر نہیں چل سکتا ہے ( لہٰذا مناسب یہی ہے کہ جھگڑے سے پرہیز کرے )

(۲۹۹)

اس گناہ کی کوئی عمر نہیں ہے جس کے بعد اتنی مہلت مل جائے کہ انسان دو رکعت نمازادا کرکے خدا سے عافیت کا سوال کرکسے ( لیکن سوال یہ ہے کہ اس مہلت کی ضمانت کیا ہے )

(۳۰۰)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ پروردگار اس قدر بے پناہ مخلوقات(۱) کاحساب کس طرح کرے گا؟ تو فرمایاکہ جس طرح ان سب کو رزق دیتا ہے دوبارہ سوال کیا گیا کہ جب وہ سامنے نہیں آئے گا تو حساب کس طرح لے گا ؟ فرمایا جس طرح سامنے نہیں آتا ہے اور روزی دے رہا ہے ۔

(۳۰۱)

تمہارا قاصد تمہاری عقل کاترجمان ہوتا ہے اور تمہارا بہترین ترجمان ہوتا ہے ۔

(۱)انسان کے ذہن میں یہ خیالات اور شبہات اسی لئے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ اس کی رزاقیت سے غافل ہوگیا ہے ورنہ ایک مسئلہ رزق سمجھ میں آجائے تو مسئلہ موت بھی سمجھ میں آسکتاہے اور مسئلہ حسات و کتاب بھی جو موتدے سکتا ہے وہ روزی بھی دے سکتا ہے اور جو روزی کاحساب رکھ سکتا ہے وہ اعمال کاحساب بھی کرسکتا ہے۔

۷۲۷

۳۰۲ - وقَالَعليه‌السلام مَا الْمُبْتَلَى الَّذِي قَدِ اشْتَدَّ بِه الْبَلَاءُ - بِأَحْوَجَ إِلَى الدُّعَاءِ - الَّذِي لَا يَأْمَنُ الْبَلَاءَ.

۳۰۳ - وقَالَعليه‌السلام النَّاسُ أَبْنَاءُ الدُّنْيَا - ولَا يُلَامُ الرَّجُلُ عَلَى حُبِّ أُمِّه.

۳۰۴ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْمِسْكِينَ رَسُولُ اللَّه - فَمَنْ مَنَعَه فَقَدْ مَنَعَ اللَّه - ومَنْ أَعْطَاه فَقَدْ أَعْطَى اللَّه.

۳۰۵ - وقَالَعليه‌السلام مَا زَنَى غَيُورٌ قَطُّ.

(۳۰۲)

شدید ترین بلائوں میں مبتلا ہو جانے والا اس سے زیادہ محتاج(۱) دعا نہیں ہے جو فی الحال عافیت میں ہے لیکن نہیں معلوم ہے کہ کب مبتلا ہو جائے ۔

(۳۰۳)

لوگ دنیا کی اولاد ہیں اور ماں کی محبت پر(۲) اولاد کی ملامت نہیں کی جاسکتی ہے۔

(۳۰۴)

فقیرو مسکین درحقیت خدائی فرستادہ ہے لہٰذا جس نے اس کومنع کردیا گویا خا کو منع کردیا اور جس نے اسے عطا کردیا گویا قدرت کے ہاتھ میں دے دیا۔

(۳۰۵)

غیرت دار انسان کبھی زنا نہیں کر سکتا ہے ( کہ یہی مصیبت اس کے گھر بھی آسکتی ہے )

(۱)انسان کی فطرت ہے کہ جب مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو دعائیں کرنے لگتا ہے اور دوسروں سے دعائوں کی التماس کرنے لگتا ہے اورجیسے ہی بلا ٹل جاتی ہے دعائوں سے غافل ہو جاتا ہے اور اس نکتہ کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔کہ اس عافیت کے پیچھے بھی کوئی بلا ہو سکتی ہے اور موجودہ بلا سے بالاتر ہو سکتی ہے۔لہٰذا تقاضائے دانش مندی یہی ہے کہ ہر حال میں دعاکرتا رہے اور کسی وقت بھی آنے والی مصیبتوں سے غافل نہ ہو کر اس کے نتیجہ میں یاد خداسے غافل ہو جائے ۔

(۲)انسان جس خاک سے بنتا ہے اس سے بہر حال محبت کرتا ہے اور جس ماحول میں زندگی گذارتا ہے اس سے بہر حال مانوس ہوتا ہے۔اس مسئلہ میں کسی انسان کی مذمت اورملامت نہیں کی جا سکتی ہے لیکن محبت جب حد سے گذر جاتی ہے اور اصول و قوانین پر غالب آجاتی ہے تو بہر حال قابل ملامت و مذمت ہو جاتی ہے اوراس کا لحاظ رکھنا ہر فرد بشر کا فریضہ ہے ورنہ اس کے بغیر انسان قابل معافی نہیں ہو سکتا ہے۔

۷۲۸

۳۰۶ - وقَالَعليه‌السلام كَفَى بِالأَجَلِ حَارِساً.

۳۰۷ - وقَالَعليه‌السلام يَنَامُ الرَّجُلُ عَلَى الثُّكْلِ ولَا يَنَامُ عَلَى الْحَرَبِ

قال الرضي - ومعنى ذلك أنه يصبر على قتل الأولاد - ولا يصبر على سلب الأموال.

۳۰۸ - وقَالَعليه‌السلام مَوَدَّةُ الآبَاءِ قَرَابَةٌ بَيْنَ الأَبْنَاءِ - والْقَرَابَةُ إِلَى الْمَوَدَّةِ أَحْوَجُ مِنَ الْمَوَدَّةِ إِلَى الْقَرَابَةِ.

۳۰۹ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقُوا ظُنُونَ الْمُؤْمِنِينَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ.

(۳۰۶)

موت سے بہتر محافظ کوئی نہیں ہے۔

(۳۰۷)

انسان اولاد کے مرنے پر سو جاتاہے لیکن مال کے لٹ جانے پر نہیں سوتا(۱) ہے۔

سید رضی :مقصد یہ ہے کہ اولاد کے مرنے پر صبر کرلیتا ہے لیکن مال کے چھننے پرصبر نہیں کرتاہے۔

(۳۰۸)

بزرگوں کی محبت بھی اولاد کے لئے قرابت کا درجہرکھتی ہے اور محبت قرابت کی اتنی محتاج نہیں جتنی قرابت محبت کی محتاج ہوتی ہے۔

(مقصد یہ ہے کہ تم لوگ آپس میں محبت اورالفت رکھو تاکہ تمہاری اولاد تمہارے دوستوں کو اپنا قرابتدار تصور کرے )

(۳۰۹)

مومنین کے گمان سے ڈرتے رہو کہ پروردگار حق کو صاحبان ایمان ہی کی زبان پر جاری کرتا رہتا ہے۔

(۱)اس کا مقصد طعن و طنز نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ موت کا تعلق قضا و قدر الٰہی سے ہے لہٰذا اس پر صبر کرنا انسان کافریضہ ہے۔لیکن مال کاچھن جاناظلم و ستم اورغضب و نہب کا نتیجہ ہوتا ہے لہٰذا اس پرسکوت اختیار کرنا اور سکون سے سو جانا کسی قیمت پر مناسب نہیں ہے اوریہ انسانی غیرت و شرافت کے خلاف ہے لہٰذا انسان کو اسنکتہ کی طرف متوجہ رہناچاہیے ۔

۷۲۹

۳۱۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا يَصْدُقُ إِيمَانُ عَبْدٍ - حَتَّى يَكُونَ بِمَا فِي يَدِ اللَّه - أَوْثَقَ مِنْه بِمَا فِي يَدِه.

۳۱۱ - وقَالَعليه‌السلام لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - وقَدْ كَانَ بَعَثَه إِلَى طَلْحَةَ والزُّبَيْرِ لَمَّا جَاءَ إِلَى الْبَصْرَةِ - يُذَكِّرُهُمَا شَيْئاً مِمَّا سَمِعَه مِنْ رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فِي مَعْنَاهُمَا - فَلَوَى عَنْ ذَلِكَ فَرَجَعَ إِلَيْه - فَقَالَ:

إِنِّي أُنْسِيتُ ذَلِكَ الأَمْرَ - فَقَالَعليه‌السلام إِنْ كُنْتَ كَاذِباً - فَضَرَبَكَ اللَّه بِهَا بَيْضَاءَ لَامِعَةً لَا تُوَارِيهَا الْعِمَامَةُ.

قال الرضي يعني البرص - فأصاب أنسا هذا الداء فيما بعد في وجهه - فكان لا يرى إلا مبرقعا.

۳۱۲ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْقُلُوبِ إِقْبَالًا وإِدْبَاراً - فَإِذَا أَقْبَلَتْ فَاحْمِلُوهَا عَلَى النَّوَافِلِ -

(۳۱۰)

کسی بندہ کا ایمان اس وقت تک سچا نہیں ہو سکتا ہے جب تک خدائی خزانہ پر اپنے ہاتھ کی دولت سے زیادہ اعتبار نہ کرے۔

(۳۱۱)

حضرت نے بصرہ پہنچنے کے بعد انس بن مالک سے کہاکہ جاکر طلحہ و زبیر کو وہ ارشادات رسول(۱) اکرم (ص) بتائو جو حضرت نے میرے بارے میں فرمائے ہیں۔تو انہوں نے پہلو تہی کی اور پھرآکر یہ عذر کردیا کہ مجھے وہ ارشادات یاد نہیں رہے ! تو حضرت نے فرمایا اگر تم جھوٹے ہو تو پروردگار تمہیں ایسے چمکدار داغ کی مار مارے گا کہ اسے دستار بھی نہیں چھپا سکے گی۔

سیدرضی : اس داغ سے مراد برص ہے جس میں انس مبتلا ہوگئے اور تا حیات چہرہ نقاب ڈالے ہے۔

(۳۱۲)

دل بھی کبھی مائل ہوتے ہیں اور کبھی اچاٹ ہوجاتے ہیں۔لہٰذا جب مائل ہوں تو انہیں مستحباب پرآمادہ

(۱)جناب شیخ محمد عبدہ کا بیان ہے کہ اس سے اس ارشاد پیغمبر (ص) کی طرف اشارہ تھا جس میں آپ نے براہ راست طلحہ وزبیر سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا تھا کہ تم لوگ علی سے جنگ کرو گے اور ان کے حق میں ظالم ہوگے۔ اور ابن ابی الحدید کاکہنا ہے کہ یہ اس موقع کی طرف اشارہ ہے جب پیغمبر (ص) سے میدان عذیر میں علی کی مولائیت کا اعلانکیا تھا اورانس اس موقع پر موجود تھے لیکن جب حضرت نے گواہی طلب کی تو اپنی ضعیفی اور قلت حافظہ کا بہانہ کردیا جس پر حضرت نے یہ بد دعا دے دی اور انس اس مرض برص میں مبتلا ہوگئے جیسا کہ ابن قتیبہ نے معارف میں نقل کیا ہے۔

۷۳۰

وإِذَا أَدْبَرَتْ فَاقْتَصِرُوا بِهَا عَلَى الْفَرَائِضِ.

۳۱۳ - وقَالَعليه‌السلام وفِي الْقُرْآنِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ - وخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ

۳۱۴ - وقَالَعليه‌السلام رُدُّوا الْحَجَرَ مِنْ حَيْثُ جَاءَ - فَإِنَّ الشَّرَّ لَا يَدْفَعُه إِلَّا الشَّرُّ.

۳۱۵ - وقَالَعليه‌السلام لِكَاتِبِه عُبَيْدِ اللَّه بْنِ أَبِي رَافِعٍ - أَلِقْ دَوَاتَكَ وأَطِلْ جِلْفَةَ قَلَمِكَ - وفَرِّجْ بَيْنَ السُّطُورِ وقَرْمِطْ بَيْنَ الْحُرُوفِ - فَإِنَّ ذَلِكَ أَجْدَرُ بِصَبَاحَةِ الْخَطِّ.

۳۱۶ - وقَالَعليه‌السلام أَنَا يَعْسُوبُ الْمُؤْمِنِينَ والْمَالُ يَعْسُوبُ الْفُجَّارِ.

کرو ورنہ صرف واجبات(۱) پراکتفا کرلو( کہ زبر دستی عمل سے کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک اخلاص عمل نہ ہو)

(۳۱۳)

قرآن میں تمہارے پہلے کی خبر' تمہارے بعد کی پیشگوئی اور تمہارے درمیانی حالات کے احکام سب پائے جاتے ہیں۔

(۳۱۴)

جدھر سے پتھرآئے ادھر ہی پھینک دو کہ شرکا جواب شرہی ہوتا ہے ۔

(۳۱۵)

آپ نے اپنے کاتب عبید اللہ بن ابی رافع سے فرمایا۔اپنی دوات میں صوف ڈالا کرو اور اپنے قلم کی زبان لمبی رکھا کر و' سطروں کے درمیان فاصلہ رکھو اور حروف کو ساتھ ملا کر لکھا کرو۔کہ اس طرح خط زیادہ دیدہ زیب ہو جاتا ہے۔

(۳۱۶)

میں مومنین کا سردار ہوں اورمال فاجروں کا سردار ہوتا ہے ۔

(۱)انسانی اعمال کے دودرجات ہیں۔پہلا درجہ وہ ہوتا ہے جب عمل صحیح ہو جاتا ہے اور تکلیف رعی ادا ہو جاتی ہے لیکن نگاہ قدرت میں قابل قبول نہیں ہوتا ہے۔یہ وہ عمل ہے جس پر جملہ شرائط و واجبات جمع ہو جاتے ہیں لیکن اخلاص نیت اوراقبال نفس نہیں ہوتا ہے لیکن دوسرادرجہوہ ہوتا ہے جس میں اقبال نفس بھی ہوتا ہے اورعمل قابل قبول بھی ہوجاتاہے۔

حضرت نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فریضہ بہر حال ادا کرنا ہے لیکن مستحباب کاواقعی ماحول اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اقبال نفس کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے اور واقعی عبادت الٰہی کی رغبت پیدا کرلیتا ہے۔

۷۳۱

قال الرضي ومعنى ذلك أن المؤمنين يتبعونني - والفجار يتبعون المال - كما تتبع النحل يعسوبها وهو رئيسها.

۳۱۷ - وقَالَ لَه بَعْضُ الْيَهُودِ - مَا دَفَنْتُمْ نَبِيَّكُمْ حَتَّى اخْتَلَفْتُمْ فِيه - فَقَالَعليه‌السلام لَه إِنَّمَا اخْتَلَفْنَا عَنْه لَا فِيه - ولَكِنَّكُمْ مَا جَفَّتْ أَرْجُلُكُمْ مِنَ الْبَحْرِ - حَتَّى قُلْتُمْ لِنَبِيِّكُمْ -( اجْعَلْ لَنا إِلهاً كَما لَهُمْ آلِهَةٌ - قالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ) .

۳۱۸ - وقِيلَ لَه بِأَيِّ شَيْءٍ غَلَبْتَ الأَقْرَانَ - فَقَالَعليه‌السلام مَا لَقِيتُ رَجُلًا إِلَّا أَعَانَنِي عَلَى نَفْسِه.

قال الرضي - يومئ بذلك إلى تمكن هيبته في القلوب.

سید رضی : یعنی صاحبان ایمان میرا اتباع کرتے ہیں اورفاسق و فاجر مال کے اشاروں پر چلا کرتے ہیں جس طرح شہد کی مکھیاں اپنے یعسوب ( سردار) کا اتباع کرتی ہیں۔

(۳۱۷)

ایک یہودی نے آپ پر طنز کردیا کہ آپ مسلمانوں(۱) نے اپنے پیغمبر (ص) کے دفن کے بعد ہی جھگڑا شروع کردیا۔تو آپنے فرمایا کہ ہم نے ان کی جانشینی میں اختلاف کیا ہے ۔ان سے اختلاف نہیں کیا ہے۔لیکن تم یہودیوں کے تو پیر نیل کے پانی سے خشک نہیں ہونے پائے تھے کہ تم نے اپنے پیغمبر (ص) ہی سے کہہ دیا کہ '' ہمیں بھی ویسا ہی خدا چاہیے جیسا ان لوگوں کے پاس ہے '' جس پر پیغمبر نے کہا کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔

(۳۱۸)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ بہادروں پر کس طرح غلبہ پالیتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں جس شخص کا بھی سامنا کرتا ہوں وہ خود ہی اپنے خلاف(۲) میری مدد کرتا ہے۔

سید رضی : یعنی اس کے دل میں میری ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔

(۱)یہ امیر المومنین کی بلندی کردار ہے کہ آپ نے یہودیوں کے مقابلہ میں عزت اسلام و مسلمین کا تحفظ کرلیا اور فوراً جواب دے دیا ورنہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اس کی اس طرح توجیہ کردیتا کہ جن لوگوں نے پیغمبر (ص) کی خلافت میں اختلاف کیا ہے وہ خود بھی مسلمان نہیں تھے بلکہ تمہاری برادری کے یہودی تھے جو اپنے مخصوص مفادات کے تحت اسلامی برادری میں شامل ہوگئے تھے ۔

(۲)یہ پروردگار کی وہ امداد ہے جو آج تک علی والوں کے ساتھ ہے کہ وہ طاقت ' کثرت اور اسلحہ میں کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی دہشت تمام عالم کفرو شرک کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے اورہر ایک کو ہر انقلاب و اقدام میں انہیں کا ہاتھ نظر آتا ہے۔

۷۳۲

۳۱۹ - وقَالَعليه‌السلام لِابْنِه مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكَ الْفَقْرَ - فَاسْتَعِذْ بِاللَّه مِنْه - فَإِنَّ الْفَقْرَ مَنْقَصَةٌ لِلدِّينِ - مَدْهَشَةٌ لِلْعَقْلِ دَاعِيَةٌ لِلْمَقْتِ.

۳۲۰ - وقَالَعليه‌السلام لِسَائِلٍ سَأَلَه عَنْ مُعْضِلَةٍ - سَلْ تَفَقُّهاً ولَا تَسْأَلْ تَعَنُّتاً - فَإِنَّ الْجَاهِلَ الْمُتَعَلِّمَ شَبِيه بِالْعَالِمِ - وإِنَّ الْعَالِمَ الْمُتَعَسِّفَ شَبِيه بِالْجَاهِلِ الْمُتَعَنِّتِ.

۳۲۱ - وقَالَعليه‌السلام لِعَبْدِ اللَّه بْنِ الْعَبَّاسِ - وقَدْ أَشَارَ إِلَيْه فِي شَيْءٍ لَمْ يُوَافِقْ رَأْيَه:

لَكَ أَنْ تُشِيرَ عَلَيَّ وأَرَى فَإِنْ عَصَيْتُكَ فَأَطِعْنِي.

۳۲۲ - ورُوِيَ: أَنَّهعليه‌السلام لَمَّا وَرَدَ الْكُوفَةَ - قَادِماً مِنْ صِفِّينَ مَرَّ بِالشِّبَامِيِّينَ - فَسَمِعَ بُكَاءَ النِّسَاءِ عَلَى قَتْلَى صِفِّينَ - وخَرَجَ إِلَيْه حَرْبُ بْنُ شُرَحْبِيلَ الشِّبَامِيِّ - وكَانَ مِنْ وُجُوه قَوْمِه فَقَالَعليه‌السلام لَه.

(۳۱۹)

آپ نے اپنے فرزند محمد حنفیہ سے فرمایا: فرزند! میں تمہارے بارے میں فقرو تنگدستی سے ڈرتا ہوں لہٰذا اس سے تم اللہ کی پناہ مانگو کہ فقر دین کی کمزوری ' عقل کی پریشانی اور لوگوں کی نفرت کا سبب بن جاتا ہے۔

(۳۲۰)

ایک شخص نے ایک مشکل مسئلہ دریافت کرلیا توآپ نے فرمایا سمجھنے کے لئے دریافت کرو الجھنے کے لئے نہیں کہ جاہل بھی اگرسیکھنا چاہے تو وہ عالم جیسا ہے اورعالم بھی اگر صرف الجھنا چاہے تو وہ جاہل جیسا ہے۔

(۳۲۱)

عبداللہ بن عباس نے آپ کے نظریہ کے خلاف آپ کومشورہ دے دیا تو فرمایا کہ تمہارا کام مشورہ دینا ہے۔اس کے بعد رائے میری ہے لہٰذا اگر میں تمہارے خلاف بھی رائے قائم کرلوں تو تمہارا فرض ہے کہ میری اطاعت کرو۔

(۳۲۲)

روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب آپ صفین سے واپسی پرکوفہ وارد ہوئے تو آپ کا گذر قبیلہ شام کے پاس سے ہوا جہاں عورتیں صفین کے مقتولین پر گریہ کررہی تھیں۔اوراتنے میں حرب بن شرجیل شبامی جو سردار قبیلہ تھے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔توآپ نے فرمایا کہ

۷۳۳

أَتَغْلِبُكُمْ نِسَاؤُكُمْ عَلَى مَا أَسْمَعُ - أَلَا تَنْهَوْنَهُنَّ عَنْ هَذَا الرَّنِينِ ؟

وأَقْبَلَ حَرْبٌ يَمْشِي مَعَه وهُوَعليه‌السلام رَاكِبٌ - فَقَالَعليه‌السلام :

ارْجِعْ فَإِنَّ مَشْيَ مِثْلِكَ مَعَ مِثْلِي - فِتْنَةٌ لِلْوَالِي ومَذَلَّةٌ لِلْمُؤْمِنِ.

۳۲۳ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ مَرَّ بِقَتْلَى الْخَوَارِجِ يَوْمَ النَّهْرَوَانِ - بُؤْساً لَكُمْ لَقَدْ ضَرَّكُمْ مَنْ غَرَّكُمْ - فَقِيلَ لَه مَنْ غَرَّهُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَ الشَّيْطَانُ الْمُضِلُّ والأَنْفُسُ الأَمَّارَةُ بِالسُّوءِ - غَرَّتْهُمْ بِالأَمَانِيِّ وفَسَحَتْ لَهُمْ بِالْمَعَاصِي - ووَعَدَتْهُمُ الإِظْهَارَ فَاقْتَحَمَتْ بِهِمُ النَّارَ.

تمہاری عورتوں پرتمہارا بس نہیں چلتا ہے جو میں یہ آواز یں سن رہا ہوں اورتم انہیں اسی طرح کی فریاد(۱) سے منع کیوں نہیں کرتے ہو۔یہ کہہ کر حضرت آگے بڑھ گئے تو حرب بھی آپ کی رکاب میں ساتھ ہولئے۔آپ نے فرمایا کہ جائو واپس جائو۔حاکم کے ساتھ اس طرح پیدل چلنا حاکم کے حق میں فتنہ(۲) ہے اور مومن کے حق میں باعث ذلت ہے۔

(۳۲۳)

نہروان کے موقع پر آپ کا گزر خوارج کے مقتولین کے پاس سے ہوا تو فرمایا کہ تمہارے مقدرمیں صرف تباہی اوربربادی ہے جس نے تمہیں ورغلایا تھا اسنے دھوکہ ہی دیا تھا۔

لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ دھوکہ انہیں کس نے دیا ہے ؟ فرمایا گمراہ کن شیطان اورنفس امارہ نے ۔ اس نے انہیں تمنائوں میں الجھا دیا اور گناہوں کے راستے کھول دئیے اور ان سے غلبہ کاوعدہ کرلیا جس کے نتیجہ میں انہیں جہنم میں جھونک دیا۔

(۱)اسلامی روایات کی بناپر مردہ پر گریہ کرنایا بلند آوازسے گریہ کرناکوئی ممنوع اورحرام عمل نہیں ہے بلکہ گریہ سرکار دو عالم (ص) اورانبیاء کرام کی سیرت میں داخل ہے لہٰذا حضرت کی ممانعت کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح گریہ نہیں ہونا چاہیے۔جس سے دشمن کو کمزوری اورپریشانی کا احساس ہو جائے اور اس کے حوصلے بلند ہو جائیں یا گریہ میں ایسے الفاظ اور اندازشامل ہو جائیں جو مرضی پروردگار کے خلاف ہوں اور جن کی بناپرانسان عذابآخرت کامستحق ہو جائے ۔

(۲)اس کامقصد یہ ہے کہ اگر حاکم کے مغرور و متکبر ہو جانے اورمحکوم کے مبتلائے ذلت ہوجانے کاخطرہ ہے تو یہ انداز یقینا صحیح نہیں ہے۔لیکن اگرحاکم اس طرح کے احمقانہ جذبات سے بالات ر ہے اور محکوم بھی صرف اس کے علم و تقویٰ کا احترام کرناچاہتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ عالم اور متقی انسان کا احرام عین اسلام اور عین دیانتداری ہے۔

۷۳۴

۳۲۴ - وقَالَعليه‌السلام اتَّقُوا مَعَاصِيَ اللَّه فِي الْخَلَوَاتِ - فَإِنَّ الشَّاهِدَ هُوَ الْحَاكِمُ.

۳۲۵ - وقَالَعليه‌السلام لَمَّا بَلَغَه قَتْلُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ:

إِنَّ حُزْنَنَا عَلَيْه عَلَى قَدْرِ سُرُورِهِمْ بِه - إِلَّا أَنَّهُمْ نَقَصُوا بَغِيضاً ونَقَصْنَا حَبِيباً.

۳۲۶ - وقَالَعليه‌السلام : الْعُمُرُ الَّذِي أَعْذَرَ اللَّه فِيه إِلَى ابْنِ آدَمَ سِتُّونَ سَنَةً.

۳۲۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا ظَفِرَ مَنْ ظَفِرَ الإِثْمُ بِه - والْغَالِبُ بِالشَّرِّ مَغْلُوبٌ.

(۳۲۴)

تنہائی میں بھی خداکی نا فرمانی سے ڈرو کہ جو دیکھنے والا(۱) ہے وہی فیصلہ کرنے والا ہے۔

(۳۲۵)

جب آپ کو محمد بن ابی بکر کی شہادت کی خبر ملی تو فرمایا کہ میرا غم محمد پر اتناہی ہے جتنی دشمن کی خوشی ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ دشمن کا ایک دشمن کم ہوا ہے اور میرا ایک دوست کم ہوگیا ہے۔

(۳۲۶)

جس عمرکے بعد پروردگار اولاد آدم کے کسی عذر کو قبول نہیں کرتا ہے۔وہ ساٹھ سال ہے ۔

(۳۲۷)

جس پر گناہ غلبہ حاصل کرلے وہ غالب نہیں ہے کہ شر کے ذریعہ غلبہ پانے والابھی مغلوب ہی ہوتا ہے۔

(۱)جب یہ طے ہے کہ روز قیامت فیصلہ کرنے والا اورعذاب دینے والا پروردگار ہے تو مخلوقات کی نگاہوں سے چھپ کر گناہ کرنے کافائدہ ہی کیا ہے فائدہ تو اسی وقت ہو سکتا ہے جب خالقین گاہ سے چھپ سکے یا فیصلہ مالک کے علاوہ کسی اور کے اختیارمیں ہو جس کاکوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ انسان ہرال میں گناہ سے پرہیز کرے اورعلی الاعلان یا خفیہ طریقہ سے گناہ کا ارادہ نہ کرے ۔

۷۳۵

۳۲۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه - فَرَضَ فِي أَمْوَالِ الأَغْنِيَاءِ أَقْوَاتَ الْفُقَرَاءِ - فَمَا جَاعَ فَقِيرٌ إِلَّا بِمَا مُتِّعَ بِه غَنِيٌّ - واللَّه تَعَالَى سَائِلُهُمْ عَنْ ذَلِكَ.

۳۲۹ - وقَالَعليه‌السلام الِاسْتِغْنَاءُ عَنِ الْعُذْرِ أَعَزُّ مِنَ الصِّدْقِ بِه.

۳۳۰ - وقَالَعليه‌السلام أَقَلُّ مَا يَلْزَمُكُمْ لِلَّه - أَلَّا تَسْتَعِينُوا بِنِعَمِه عَلَى مَعَاصِيه.

۳۳۱ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه جَعَلَ الطَّاعَةَ غَنِيمَةَ الأَكْيَاسِ - عِنْدَ تَفْرِيطِ الْعَجَزَةِ

(۳۲۸)

پروردگار نے مالداروں کے اموال میں غریبوں کا رزق قراردیاہے لہٰذا جب بھی کوئی فقیر بھوکا ہوگا تواس کا مطلب یہ ہے کہ غنی نے دولت کو سمیٹ لیا ہے اور پروردگار روز قیامت اس کا سوال ضرور کرنے والا ہے۔

(۳۲۹)

عذر و معذرت سے بے نیازی سچے عذرپیش کرنے سے بھی زیادہ عزیز(۱) تر ہے۔

(۳۳۰)

خدا کا سب سے مختصر حق یہ ہے کہ اس کی نعمت کو اس کی معصیت(۲) کاذریعہ نہ بنائو۔

(۳۳۱)

پروردگار نے ہوش مندوں کے لئے اطاعت کا وہ موقع بہترین قراردیا ہے جب کا اہل لوگ کوتاہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ( مثلاً نمازشب)

(۱)معذرت کرنے میں ایک طرح کی ندامت اور ذلت کا احساس بہرحال ہوتا ہے لہٰذا انسان کے لئے افضل اوربہتر یہی ہے کہ اپنے کو اس ندامت سے بے نیاز بنالے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس کے لئے بعد میں معذرت کرنا پڑے ۔

(۲)دنیامیں کوئی کریم سے کریم اور مہربان سے مہربان انسانبھی اس بات کوگوارہ نہیں کرسکتا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ مہربانی کرے اور دوسرا انسان اسی مہربانی کو اس کی نا فرمانی کا ذریعہ بنالے اور جب مخلوقات کے بارے میں اس طرح کی احسان فراموشی روا نہیں ہے توخالق کا حق انسان پر یقینا مخلوقات سے زیادہ ہوتا ہے اور ہرشخص کو اس کرامت و شرافت کا خیالرکھنا چاہیے کہ جب اس کا ساراوجود نعمت پروردگار ہے تو اس وجود کا کوئی ایک حصہ بھی پروردگار کی معصیت اورمخالفت میں صرف نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۷۳۶

۳۳۲ - وقَالَعليه‌السلام السُّلْطَانُ وَزَعَةُ اللَّه فِي أَرْضِه.

۳۳۳ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الْمُؤْمِنِ - الْمُؤْمِنُ بِشْرُه فِي وَجْهِه وحُزْنُه فِي قَلْبِه - أَوْسَعُ شَيْءٍ صَدْراً وأَذَلُّ شَيْءٍ نَفْساً - يَكْرَه الرِّفْعَةَ ويَشْنَأُ السُّمْعَةَ - طَوِيلٌ غَمُّه بَعِيدٌ هَمُّه - كَثِيرٌ صَمْتُه مَشْغُولٌ وَقْتُه - شَكُورٌ صَبُورٌ - مَغْمُورٌ بِفِكْرَتِه ضَنِينٌ بِخَلَّتِه - سَهْلُ الْخَلِيقَةِ لَيِّنُ الْعَرِيكَةِ - نَفْسُه أَصْلَبُ مِنَ الصَّلْدِ - وهُوَ أَذَلُّ مِنَ الْعَبْدِ.

۳۳۴ - وقَالَعليه‌السلام لَوْ رَأَى الْعَبْدُ الأَجَلَ ومَصِيرَه - لأَبْغَضَ الأَمَلَ وغُرُورَه.

(۳۳۲)

بادشاہ روئے زمین پراللہ کا پاسبان ہوتا ہے۔

(۳۳۳)

مومن کے چہرہ(۱) پر بشاشت ہوتی ہے اور دل میں رنج و اندوہ اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور متواضع ۔بلندی کو ناپسندکرتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ے۔اس کاغم طویل ہوتا ہے اور ہمت بڑی ہوتی ہے اورخاموشی زیادہ ہوتی ہے اوروقت مشغول ہوتا ہے۔وہ شکر کرنے والا۔صبر کرنے والا۔فکر میں ڈوبا ہوا۔دست طلب درازکرنے میں بخیل' خوش اخلاق اور نرم مزاج ہوتا ہے۔اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت ہوتا ہے اور وہخود غلام سے زیادہ متواضع ہوتا ہے۔

(۳۳۴)

اگر بندۂ خدا موت اوراس کے انجام کودیکھ لے تو امیدوار اس کے فریب سے نفرت کرنے لگے۔

(۱)اس مقام پرمومن کے چودہ صفات کاتذکرہ کردیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ سکے اوراپنے ایمان کا فیصلہ کرسکے ۔

۱۔وہ ادر سے محزون ہوتا ہے لیکن باہرسے بہرحال ہشاش بشاش رہتا ہے ۔۲۔اس کا سینہ اور دل کشادہ ہوتا ہے ۔ ۳۔اس کے نفس میں غرور و تکبر نہیں ہوتا ہے ۔۴۔وہ بلندی کو نا پسند کرتا ہے اور شہرت سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے ۔۵۔ خوف خدا سے رنجیدہ رہتا ہے ۔۶۔ اس کی ہمت ہمیشہ بلند رہتی ہے ۔۷۔ہمیشہ خاموش رہتا ہے اور اپنے فرائض کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔۸۔اپنے شب و روز کو فرائض کی ادائیگی میں مشغول رکھتا ہے ۔۹۔مصیبتوں میں صبراور نعمتوں پر شکر پروردگار کرتا ہے ۔۱۰۔فکر قیامت و حساب و کتاب میں غرق رہتا ہے ۔۱۱۔لوگوں پر اپنی ضرورت کے اظہار میں بخل کرتا ہے ۔۱۲۔مزاج اور طبیعت کے اعتبارسے بالکل نرم ہوت ہے ۔۱۳۔حق کے معاملہ میں پتھرسے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔۱۴۔خضوع خشوع میں غلاموں جیسی کیفیت کا حامل ہوتاہے۔

۷۳۷

۳۳۵ - وقَالَعليه‌السلام لِكُلِّ امْرِئٍ فِي مَالِه شَرِيكَانِ - الْوَارِثُ والْحَوَادِثُ.

۳۳۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَسْئُولُ حُرٌّ حَتَّى يَعِدَ.

۳۳۷ - وقَالَعليه‌السلام الدَّاعِي بِلَا عَمَلٍ كَالرَّامِي بِلَا وَتَرٍ.

۳۳۸ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ عِلْمَانِ مَطْبُوعٌ ومَسْمُوعٌ - ولَا يَنْفَعُ الْمَسْمُوعُ إِذَا لَمْ يَكُنِ الْمَطْبُوعُ.

(۳۳۵)

ہر شخص کے اس کے مال میں دو طرح(۱) کے شریک ہوتے ہیں۔ایک وارث اور ایک حوادث۔

(۳۳۶)

جس سے سوال کیا جاتا ہے وہ اس وقت تک آزاد رہتا ہے جب تک وعدہ نہ کرلے ۔

(۳۳۷)

بغیر عمل کے دوسروں کو دعوت دینے والا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بغیر چلئہ کمان کے تیر چلانے والا۔

(۳۳۸)

علم کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ ہوتا ہے جو(۲) بات میں ڈھل جاتا ہے اور ایک وہ ہوتا ہے جو صرف سن لیا جاتا ہے اور سنا سنایا اس وقت تک کام نہیں آتا ہے جب تک مزاج کاجزء نہ بن جائے ۔

(۱)یہ اشارہ ہے کہ انسان کو ایک تیسرے شریک کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور وہ ہے فقیر اورمسکین کو مذکورہ دونوں شریک اپنا حق خود لے لیتے ہیں اورتیسرے شریک کو اس کا حق دینا پڑتا ہے جو امتحان نفس بھی ہے اوروسیلہ اجر و ثواب بھی ہے۔

(۲)دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک علم انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور ایک علم باہر سے حاصل ہوتا ہے اور کھلی ہوئی بات ہے کہ جب تک فطرت کے اندر وجدان سلیم اوراس کی صلاحیتیں نہ ہوں ' باہرکے علم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اوراس سے استفادہ اندر کی صلاحیت ہی پر موقوف ہے۔

۷۳۸

۳۳۹ - وقَالَعليه‌السلام صَوَابُ الرَّأْيِ بِالدُّوَلِ - يُقْبِلُ بِإِقْبَالِهَا ويَذْهَبُ بِذَهَابِهَا.

۳۴۰ - وقَالَعليه‌السلام الْعَفَافُ زِينَةُ الْفَقْرِ والشُّكْرُ زِينَةُ الْغِنَى.

۳۴۱ - وقَالَعليه‌السلام يَوْمُ الْعَدْلِ عَلَى الظَّالِمِ - أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الْجَوْرِ عَلَى الْمَظْلُومِ.

۳۴۲ - وقَالَعليه‌السلام الْغِنَى الأَكْبَرُ الْيَأْسُ عَمَّا فِي أَيْدِي النَّاسِ.

(۳۳۹)

رائے کی درستی دولت(۱) اقبال سے وابستہ ہے۔ اسی کے ساتھ آتی ہے اور ای کے ساتھ چلی جاتی ہے ( لیکن دولت بھی مفت نہیں آتی ہے اس کے لئے بھی صحیح رائے کی ضرورت ہوتی ہے)

(۳۴۰)

پاک(۲) دامانی فقیری کی زینت ہے اور شکر مالداری کی زینت ہے۔

(۳۴۱)

مظلوم کے حق میں ظلم کے دن سے زیادہ شدید ظالم کے حق میں انصاف کا دن ہوتا ہے۔

(۳۴۲)

لوگوں کے ہاتھ کی دولت سے مایوس(۳) ہوجانا ہی بہتر ین مالداری ہے ( کہ انسان صرف خدا سے لو لگاتا ہے)

(۱)یعنی دنیا کا معیار صواب و خطایہ ہے کہ جس کے پاس دولت کی فراوانی دیکھ لیتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اس کے پاس یقینا فکر سلیم بھی ہے ورنہ اس قدر دولت کس طرح حاصل کر سکتا تھا ۔اس کے بعد جب دولت چلی جاتی ہے تو اندازہ کرتے ہیں کہ یقینا اس کی رائے میں کمزوری پیداہوگئی ہے ورنہ اس طرح کی غربت سے کس طرح دوچار ہوسکتا تھا۔

(۲)حقیقت امریہ ہے کہ نہ فقیری کوئی عیب ہے اور نہ مالداری کو ئی حسن اور ہنر۔عیب و ہنر کی دنیا اس سے ذراماوراء ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان فقیری میں عفت سے کام لے اور کسی کے سامنے دست سوال درازنہ کرے اور مالداری میں شکر پروردگار ادا کرے اور کسی طرح کے غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہوجائے ۔

(۳)یہ عزت نفس کا بہترین مظاہرہ ہے جہاں انسان غربت کے باوجود دوسروں کی دولت کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا ہے اور ہمیشہ اس نکتہ کونگاہ میں رکھتا ہے کہ فقر و فاقہ سے صرف جسم کمزور ہوتا ہے لیکن ہاتھ پھیلا دینے سے نفس میں ذلت اورحقارت کا احساس پیدا ہوتا ہے جو جسم کے فاقہ سے یقینا بد تر اور شدید تر ہے ۔

۷۳۹

۳۴۳ - وقَالَعليه‌السلام الأَقَاوِيلُ مَحْفُوظَةٌ والسَّرَائِرُ مَبْلُوَّةٌ - و( كُلُّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ) - والنَّاسُ مَنْقُوصُونَ مَدْخُولُونَ إِلَّا مَنْ عَصَمَ اللَّه - سَائِلُهُمْ مُتَعَنِّتٌ ومُجِيبُهُمْ مُتَكَلِّفٌ - يَكَادُ أَفْضَلُهُمْ رَأْياً - يَرُدُّه عَنْ فَضْلِ رَأْيِه الرِّضَى والسُّخْطُ - ويَكَادُ أَصْلَبُهُمْ عُوداً تَنْكَؤُه اللَّحْظَةُ - وتَسْتَحِيلُه الْكَلِمَةُ الْوَاحِدَةُ.

۳۴۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَعَاشِرَ النَّاسِ اتَّقُوا اللَّه - فَكَمْ مِنْ مُؤَمِّلٍ مَا لَا يَبْلُغُه وبَانٍ مَا لَا يَسْكُنُه - وجَامِعٍ مَا سَوْفَ يَتْرُكُه - ولَعَلَّه مِنْ بَاطِلٍ جَمَعَه ومِنْ حَقٍّ مَنَعَه - أَصَابَه حَرَاماً واحْتَمَلَ بِه آثَاماً - فَبَاءَ بِوِزْرِه وقَدِمَ عَلَى رَبِّه آسِفاً لَاهِفاً - قَدْ «خَسِرَ الدُّنْيا والآخِرَةَ ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ».

(۳۴۳)

باتیں سب محفوظ رہتی ہیں۔اور دلوں کے رازوں کا امتحان ہونے والا ہے۔ہر نفس اپنے اعمال کے ہاتھوں گرو ہے ۔اور لوگوں کے جسم میں نقص اورعقلوں میں کمزوری آنے والی ہے مگر یہ کہ اللہ یہ بچالے۔ان میں کے سائل الجھانے والے ہیں اور جوابدینے والے بلا وجہ زحمت کر رہے ہیں۔قریب ہے کہ ان کا بہترین رائے والا بھی صرف خوشنودی یا غضب کے تصور سے اپنی راے سے پلٹا دیاجائے اورجو انتہائی مضبوط عقل وارادہ والا ہے اس کو بھی ایک نظر متاثر کردے یا ایک کلمہ اس می انقلاب پیدا کردے ۔

(۳۴۴)

ایہاالناس ! اللہ سے ڈرو کہ کتنے ہی امیدوار ہیں جن کی امیدیں پوری نہیں ہوتی ہیں اور کتنے یہ گھر بنانے والے ہیں جنہیں رہنا نصیب نہیں ہوتا ہے کتنے مال جمع کرنے والے ہیں جوچھوڑ کرچلے جاتے ہیں۔اوربہت ممکن ہے کہ باطل سے جمع کیا ہو یا کسی حق سے انکار کردیا ہو یا حرام سے حاصل کیا ہواور گناہوں کا بوجھ لاد لیا ہو۔تو اس کا وبال لے کرواپس ہو اور اسی عالم میں پروردگار کے حضور حاضرہو جائے جہاں صرف رنج اور افسوس ہواور دنیا و آخرت دونوں کا خسارہ ہو جو درحقیقت کھلا ہواخسارہ ہے۔

۷۴۰

۳۴۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

۳۴۶ - وقَالَعليه‌السلام مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُه السُّؤَالُ - فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُه.

۳۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الِاسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ - والتَّقْصِيرُ عَنِ الِاسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

۳۴۸ - وقَالَعليه‌السلام أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِه صَاحِبُه.

۳۴۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِه اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِه

(۳۴۵)

گناہوں تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک طرح کی پاکدامنی(۱) ہے۔

(۳۴۶)

تمہاری آبرو محفوظ ہے اور سوال اسے مٹا دیتا ہے لہٰذا یہ دیکھتے رہو کہ کس کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہو اور آبرو کا سودا کررہے ہو ۔

(۳۴۷)

استحقاق سے زیادہ تعریف کرناخوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرناعاجزی ہے یا حسد۔

(۳۴۸)

سب سے سخت گناہوہ ہے جسے گناہ گار ہلکا(۲) قراردیدے ۔

(۳۴۹)

جواپنے عیب پر نگاہ رکھتا ہے وہ دوسروں کے عیب سے غافل ہو جاتا ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہوں کے بارے میں شریعت کامطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان ان سے اجتناب کرے اور ان میں مبتلا نہ ہونے پائے چاہے اس کا سبب اس کا تقدس ہو یا مجبوری۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے اختیار سے گناہوں کا ترک کردینے والا مستحق اجرو ثواب بھی ہوسکتا ہے اور مجبور اً ترک کردینے والا کس اجرو ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۲)غیر معصوم انسان کی زندگی کے بارے میں گناہوں کے امکانات توہمہ وقت رہتے ہیں لیکن انسان کی شرافت نفس یہ ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تواسے گناہ تصور کرے اور اس کی تلافی کی فکر کرے ورنہ اگر اسے خفیف اور ہلکا تصور کرلیا تو یہ دوسرا گناہ ہوگا جو پہلے گناہ سے بد تر ہوگا کہ پہلا گناہنفس کی کمزوری سے پیداہواتھا اور یہ ایمان اور عقیدہ کی کمزوری سے پیدا ہوا ہے۔

۷۴۱

- ومَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللَّه لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَه - ومَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِه - ومَنْ كَابَدَ الأُمُورَ عَطِبَ - ومَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ - ومَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ - ومَنْ كَثُرَ كَلَامُه كَثُرَ خَطَؤُه - ومَنْ كَثُرَ خَطَؤُه قَلَّ حَيَاؤُه - ومَنْ قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُه - ومَنْ قَلَّ وَرَعُه مَاتَ قَلْبُه - ومَنْ مَاتَ قَلْبُه دَخَلَ النَّارَ - ومَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا - ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِه فَذَلِكَ الأَحْمَقُ بِعَيْنِه - والْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ - ومَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ - رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ - ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَه مِنْ عَمَلِه - قَلَّ كَلَامُه إِلَّا فِيمَا يَعْنِيه.

۳۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلَاثُ عَلَامَاتٍ - يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَه بِالْمَعْصِيَةِ - ومَنْ دُونَه بِالْغَلَبَةِ

اور جو رزق خدا پر راضی رہتا ہے وہ کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔جو بغاوت کی تلوار کھینچتا ہے خوداسی سے ماراجاتا ہے اور جواہ امورکو زبر دستی انجام دیناچاہتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے لہروں میں پھاند پڑنے والا ڈوب جاتا ہے اورغلط جگہوں پردخل ہونے والا بدنام ہو جاتا ہے۔جس کی باتیں زیادہ ہوتیںہیں اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اورجس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیاکم ہو جاتی ہے اورجس کی حیاکم ہو جاتی ہے اس کا تقویٰ بھی کم ہوجاتا ہے اورجس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کادل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کادل مردہ ہوجاتا ہے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔

جولوگوں کے عیب کو دیکھ کرناگواری کا اظہارکرے اورپھراسی عیب کو اپنے لئے پسند کرلے تو اسی کو احمق کہا جاتا ہے ۔

قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جوختم ہونے والا نہیں ہے۔

جوموت کو برابر یاد کرتا رہتا ہے وہ دنیا کے مختصر حصہ پر بھی راضی ہو جاتا ہے۔اور جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام بھی عمل کا ایک حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ کلام نہیں کرتا ہے۔

(۳۵۰)

لوگوں میں ظالم کی تین علامات ہوتی ہیں۔اپنے سے بالاتر پر معصیت کے ذریعہ ظلم کرتا ہے۔اپنے سے کمتر پرغلبہ و قہر کے ذریعہ ظلم کرتا ہے اور پھر ظالم قوم کی

۷۴۲

ويُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَةَ

۳۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عِنْدَ تَنَاهِي الشِّدَّةِ تَكُونُ الْفَرْجَةُ - وعِنْدَ تَضَايُقِ حَلَقِ الْبَلَاءِ يَكُونُ الرَّخَاءُ.

۳۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه - لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ ووَلَدِكَ - فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ ووَلَدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَه - وإِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّه فَمَا هَمُّكَ وشُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّه.

۳۵۳ - وقَالَعليه‌السلام أَكْبَرُ الْعَيْبِ أَنْ تَعِيبَ مَا فِيكَ مِثْلُه

حمایت(۱) کرتا ہے۔

(۳۵۱)

سختیوں کی انتہا ہی پر کشائش حال پیدا ہوتی ہے اور بلائوں کے حلقوں کی تنگی ہی کے موقع پرآسائش(۲) پیدا ہوتی ہے۔

(۳۵۲)

اپنے بعض اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا: زیادہ حصہ بیوی بچوں کی فکرمیں مت رہا کرو کہ اگر یہ اللہ کے دوست ہیں تواللہ انہیں(۳) برباد نہیں ہونے دے گا اور اگراس کے دشمن ہیں تو تم دشمنان خدا کے بارے میں کیوں فکر مند ہو۔

(مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے دائرہ سے باہرنکل کر سماج اورمعاشرہکے بارے میں بھی فکر کرے ۔صرف کنویں کامینڈک بن کرنہ رہ جائے )

(۳۵۳)

بد ترین عیب یہ ہے کہ انسان کسی عیب کو برا کہے اور پھر اس میں وہی عیب پایا جاتا ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ صرف ظلم کرنا ہی ظلم نہیں ہے بلکہ ظالم کی حمایت بھی ایک طرح کا ظلم ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس ظلم سے بھی محفوظ رہے اور مکمل عادلانہ زندگی گذارے اور ہر شے کو اسی مقام پر رکھے جو اس کا محل اورموقع ہے۔

(۲)مقصد یہ ے کہ انسان کو سختیوں اور تنگیوں میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حوصلہ کو بلند رکھنا چاہیے اور سر گرم عمل رہنا چاہیے کہ قرآن کریم نے سہولت کو تنگی اورزحمت کے بعد نہیں رکھا ہے بلکہ اسی کے ساتھ رکھاہے '' ان مع الیسر یسرا ''

(۳)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے انسان اہل و عیال کی طرف سے یکسر غافل و جائے اورانہیں پروردگار کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔پروردگار کا رحم و کرم ماں باپ سے یقینا زیادہ ہے لیکن ماں باپ کی اپنی بھی ایک ذمہداری ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بقدرواجب خدمت کرکے باقی معاملات کو پروردگار کے حوالہ کردے اوران کی طرف سراپا توجہ بن کر پروردگار سے غافل نہ ہو جائے ۔

۷۴۳

۳۵۴ - وهَنَّأَ بِحَضْرَتِه رَجُلٌ رَجُلًا بِغُلَامٍ وُلِدَ لَه - فَقَالَ لَه لِيَهْنِئْكَ الْفَارِسُ - فَقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ ذَلِكَ - ولَكِنْ قُلْ شَكَرْتَ الْوَاهِبَ - وبُورِكَ لَكَ فِي الْمَوْهُوبِ - وبَلَغَ أَشُدَّه ورُزِقْتَ بِرَّه.

۳۵۵ - وبَنَى رَجُلٌ مِنْ عُمَّالِه بِنَاءً فَخْماً - فَقَالَعليه‌السلام أَطْلَعَتِ الْوَرِقُ رُءُوسَهَا - إِنَّ الْبِنَاءَ يَصِفُ لَكَ الْغِنَى.

۳۵۶ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ سُدَّ عَلَى رَجُلٍ بَابُ بَيْتِه وتُرِكَ فِيه - مِنْ أَيْنَ كَانَ يَأْتِيه رِزْقُه - فَقَالَعليه‌السلام مِنْ حَيْثُ يَأْتِيه أَجَلُه.

۳۵۷ - وعَزَّى قَوْماً عَنْ مَيِّتٍ مَاتَ لَهُمْ فَقَالَعليه‌السلام - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لَيْسَ لَكُمْ بَدَأَ - ولَا إِلَيْكُمُ انْتَهَى - وقَدْ كَانَ صَاحِبُكُمْ

(۳۵۴)

حضرت کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو فرزند کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ شہسوار مبارک ہو۔توآپ نے فرمایا کہ یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ تم نے دینے والے کا شکریہ ادا کیاہے لہٰذا تمہیں یہ تحفہ مبارک ہو۔خداکرے کہ یہ منزل کمال تک پہنچے اور تمہیں اس کی نیکی نصیب ہو۔

(۳۵۵)

آپ کے عمال میں سے ایک شخص نے عظیم عمارت تعمیر کرلی تو آپ نے فرمایا کہ چاندی کے سکوں نے سر نکال لیا ہے ۔یقینا یہ تعمیر تمہاری مالداری کی غمازی کرتی ہے۔

(۳۵۶)

کسی نے آپ سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کے گھر کادروازہ بند کردیا جائے اوراسے تنہا چھوڑ دیا جائے تو اس کا رزق کہاں سے آئے گا ؟ فرمایا کہ جہاں سے اس کی موت آئے گی ۔

(۳۵۷)

ایک جماعت کو کسی مرنے والے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات تمہارے یہاں کوئی نئی نہیں ہے اور نہ تمہیں پر اس کی انتہا ہے۔تمہارا یہ ساتھی سر

۷۴۴

هَذَا يُسَافِرُ فَعُدُّوه فِي بَعْضِ أَسْفَارِه - فَإِنْ قَدِمَ عَلَيْكُمْ وإِلَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْه.

۳۵۸ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ لِيَرَكُمُ اللَّه مِنَ النِّعْمَةِ وَجِلِينَ - كَمَا يَرَاكُمْ مِنَ النِّقْمَةِ فَرِقِينَ - إِنَّه مَنْ وُسِّعَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اسْتِدْرَاجاً فَقَدْ أَمِنَ مَخُوفاً - ومَنْ ضُيِّقَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اخْتِبَاراً فَقَدْ ضَيَّعَ مَأْمُولًا

۳۵۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَسْرَى الرَّغْبَةِ أَقْصِرُوا ،فَإِنَّ الْمُعَرِّجَ عَلَى الدُّنْيَا لَا يَرُوعُه مِنْهَا - إِلَّا صَرِيفُ أَنْيَابِ الْحِدْثَانِ أَيُّهَا النَّاسُ تَوَلَّوْا مِنْ أَنْفُسِكُمْ تَأْدِيبَهَا - واعْدِلُوا بِهَا عَنْ ضَرَاوَةِ عَادَاتِهَا.

گرم سفر رہا کرتاتھا تو سمجھو کہ یہ بھی ایک سفر ہے اس کے بعد یا وہ تمہارے پاس وارد ہوگا یاتم اس کے پاس وارد ہوگے۔

(۳۵۸)

لوگو! اللہ نعمت کے موقع پر بھی تمہیں(۱) ویسے ہی خوفزدہ دیکھے جس طرح عذاب کے معاملہ میں ہراساں دیکھتا ہے کہ جس شخص کو فراخدستی حاصل ہو جائے اور وہ اسے عذاب کی لپیٹ نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے بھی اپنے کومطمئن سمجھ لیا ہے اور جو تنگدستی میں مبتلا ہو جائے اوراسے امتحان نہ سمجھے اس نے اس ثواب کوبھی ضائع کردیا جس کی امید کی جاتی ہے۔

(۳۵۹)

اے حرص و طمع کے اسیرو!اب باز آجائو۔کہ دنیا پر ٹوٹ پڑنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے کے علاوہ کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا ہے ۔

اے لوگو! اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری خود سنبھال لو اور اپنی عادتوں کے تقاضوں(۲) سے منہ موڑ لو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ زندگانی کے دونوں طرح کے حالات میں دونوں طرح کے احتمالات پائے جاتے ہیں۔راحت وآرام میں امکان فضل و کرم بھی ہے اور احتمال مہلت و اتمام حجت بھی ہے اور اسی طرح مصیبت اور پریشانی کے ماحول میں احتمال عتاب و عقاب بھی ہے اور احتمال امتحان و اختیار بھی ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ راحتوں کے ماحول میں اس خطرہ سے محفوظ نہ ہو جائے کہ اس طرح بھی قوموں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور پریشانیوں کے حالات میں اس رخ سے غافل نہ ہو جائے کہ یہ امتحان بھی ہوسکتا ہے اوراس میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرکے اجرو ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ خواہشات کے اسیر نہ بنواور دنیا کا اعتبارنہکرو۔انجام کار کی زحمتوں سے ہوشیار رہو اور اپنے نفس کواپنے قابو میں رکھو تاکہ بیجا رسوم اورمہمل عادات کا اتباع نہ کرو۔

۷۴۵

۳۶۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ أَحَدٍ سُوءاً - وأَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا.

۳۶۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَتْ لَكَ إِلَى اللَّه سُبْحَانَه حَاجَةٌ - فَابْدَأْ بِمَسْأَلَةِ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ثُمَّ سَلْ حَاجَتَكَ - فَإِنَّ اللَّه أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ حَاجَتَيْنِ - فَيَقْضِيَ إِحْدَاهُمَا ويَمْنَعَ الأُخْرَى.

۳۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَنَّ بِعِرْضِه فَلْيَدَعِ الْمِرَاءَ

۳۶۳ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْخُرْقِ الْمُعَاجَلَةُ قَبْلَ الإِمْكَانِ - والأَنَاةُ بَعْدَ الْفُرْصَةِ

(۳۶۰)

کسی کی بات کے غلط معنی(۱) نہ لو جب تک صحیح معنی کا امکان موجود ہے۔

(۳۶۱)

اگر پروردگار کی بار گاہ(۲) میں تمہاری کوئی حاجت ہو تو اس کی طلب کا آغاز رسو ل اکرم (ص) پر صلوات سے کرو اور اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرو کہ پروردگار اس بات سے بالاتر ہے کہ اس سے دو باتوں کا سوال کیا جائے اور وہ ایک کو پورا کردے اور ایک کو نظر انداز کردے ۔

(۳۶۲)

جو اپنی آبرو کو بچانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے۔

(۳۶۳)

کسی بات کے امکان سے پہلے جلدی کرنا اور وقت آجانے پر دیر کرنا دونوں ہی حماقت ہے۔

(۱)کاش ہر شخص اس تعلیم کو اختیار کرلیتا تو سماج کے بے شمارمفاسد سے نجات مل جاتی اور دنیامیں فتنہ و فساد اکثر راستے بند ہو جاتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے اورہر شخص دوسرے کے بیان میں غلط پہلو پہلے تلاش کرتا ہے اور صحیح رخ کے بارے میں بعد میں سوچتا ہے۔

(۲)یہ صحیح ہے کہ رسول اکرم (ص) ہماری صلوات اوردعائے رحمت کے محتاج نہیں ہیں لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے ادائے شکر سے غافل ہو جائیں اور ان کی طرف سے ملنے والی نعمت ہدایت کا کسی شکل میں کوئی بدلہ دیں۔ورنہ پروردگار بھی ہماری عبادتوں کامحتاج نہیں ہے تو ہر انسان عبادتوں کو نظراندازکرکے چین سے سوجائے ۔صلوات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پروردگار کی نظر عنایت کا حقدار ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی دعائیں قابل قبول ہو جاتی ہیں۔

۷۴۶

۳۶۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَا يَكُونُ - فَفِي الَّذِي قَدْ كَانَ لَكَ شُغُلٌ

۳۶۵ - وقَالَعليه‌السلام الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ والِاعْتِبَارُ مُنْذِرٌ نَاصِحٌ - وكَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَه لِغَيْرِكَ.

۳۶۶ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ مَقْرُونٌ بِالْعَمَلِ فَمَنْ عَلِمَ عَمِلَ - والْعِلْمُ يَهْتِفُ بِالْعَمَلِ - فَإِنْ أَجَابَه وإِلَّا ارْتَحَلَ عَنْه.

(۳۶۴)

جو بات ہونے والی نہیں ہے۔اس کے بارے میں سوال مت کرو کہ جو ہوگیا ہے وہی تمہارے لئے کافی ہے۔

(۳۶۵)

فکر(۱) ایک شفاف آئینہ ہے اورعبرت حاصل کرنا ایک انتہائی مخلص متنبہ کرنیوالا ے۔تمہارے نفس کے ادب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو دوسروں کے لئے نا پسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔

(۳۶۶)

علم کا مقدر عمل(۲) سے جڑا ہوا ہے اورجو واقعی صاحب علم ہوتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے۔یاد رکھو کہ علم عمل کے لئے آوازدیتا ہے اور انسان سن لیتا ہے تو خیر ورنہ خود بھی رخصت ہو جاتا ہے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فکر ایک شفاف آئینہ ہے جس میں بآسانی مجہولات کاچہرہ دیکھ لیا جاتا ہے اور اہل منطق نے اس کی یہی تعریف کی ہے کہ معلومات کی اس طرح مرتب کیا جائے کہ اس سے مجہولات کاعلم حاصل ہو جائے ۔لیکن صرف مستقبل کاچہرہ دیکھ لینا ہی کوئی ہنرنہیں ہے۔اصل ہنر اور کام اس سے عبرت حاصل کرنا ہے کہ انسان کے حق میں عبرت سے زیادہ مخلص نصیحت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور یہی عبرت ہے جو اسے ہر برائی اور مصیبت سے بچا سکتی ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی یہ کار خیر انجام دینے والا نہیں ہے۔

(۲)بلا شک و شبہ علم ایک کمال ہے اور مجہولات کاحاصل کرلینا ایک ہنر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے با کمال اور صاحب ہنر کس طرح کہاجاسکتا ہے جو یہ تودریافت کرلے کہ فلاں چیز میں زہر ہے مگر اس سے اجتناب نہ کرے۔ایسے شخص کو تو مزید احمق اور نالائق تصور کیا جاتا ہے۔

علم کا کمال ہی یہ ہے کہ انسان اس کے مطابق عمل کرے تاکہ صاحب علم اور صاحب کمال کہے جانے کاحقدار ہو جائے ورنہ علم ایک وبال ہو جائے گا اوراپنی ناقدری سے ناراض ہو کر رخصت بھی ہو جائے گا۔صرف نام علم باقی رہ جائے گا ور حقیقت علم ختم ہو جائے گی۔

۷۴۷

۳۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَتَاعُ الدُّنْيَا حُطَامٌ مُوبِئٌ - فَتَجَنَّبُوا مَرْعَاه قُلْعَتُهَا أَحْظَى مِنْ طُمَأْنِينَتِهَا - وبُلْغَتُهَا أَزْكَى مِنْ ثَرْوَتِهَا - حُكِمَ عَلَى مُكْثِرٍ مِنْهَا بِالْفَاقَةِ - وأُعِينَ مَنْ غَنِيَ عَنْهَا بِالرَّاحَةِ - مَنْ رَاقَه زِبْرِجُهَا أَعْقَبَتْ نَاظِرَيْه كَمَهاً - ومَنِ اسْتَشْعَرَ الشَّغَفَ بِهَا مَلأَتْ ضَمِيرَه أَشْجَاناً - لَهُنَّ رَقْصٌ عَلَى سُوَيْدَاءِ قَلْبِه - هَمٌّ يَشْغَلُه وغَمٌّ يَحْزُنُه - كَذَلِكَ حَتَّى يُؤْخَذَ بِكَظَمِه فَيُلْقَى بِالْفَضَاءِ مُنْقَطِعاً أَبْهَرَاه - هَيِّناً عَلَى اللَّه فَنَاؤُه وعَلَى الإِخْوَانِ إِلْقَاؤُه - وإِنَّمَا يَنْظُرُ الْمُؤْمِنُ إِلَى الدُّنْيَا بِعَيْنِ الِاعْتِبَارِ - ويَقْتَاتُ مِنْهَا بِبَطْنِ الِاضْطِرَارِ - ويَسْمَعُ فِيهَا بِأُذُنِ الْمَقْتِ والإِبْغَاضِ - إِنْ قِيلَ أَثْرَى قِيلَ أَكْدَى - وإِنْ فُرِحَ لَه بِالْبَقَاءِ حُزِنَ لَه

(۳۶۷)

ایہاالناس! دنیا کا سرمایہ ایک سڑفا بھوسہ ہے جس سے وباء پھیلنے والی ہے لہٰذا اس کی چراگاہ سے ہوشیار رہو اس دنیا سے چل چلائو سکون کے ساتھ رہنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اور یہاں کابقدر ضرورت سامان ثروت سے زیادہ برکت والا ہے ۔یہاں کے دولت مند کے بارے میں ایک دن احتیاج لکھ دی گئی ہے اوراس سے بے نیاز رہنے والے کو راحت کا سہارا دے دیا جاتا ہے ۔جسے اس کی زینت پسندآگئی اس کی آنکھوں کوانجام کاری ہ اندھا کردیتی ہے اورجس نے اس سے شغف کو شعار بنا لیا اس کے ضمیر کو رنج و اندوہ سے بھردیتی ہے اور یہ فکریں اس کے نقطہ قلب کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں بعض اسے مشغول بنالیتی ہیں اور بعض محزون بنادیتی ہیں اور یہ سلسلہ یوں ہی قائم رہتا ہے یہاں تک کہاس کا گلا گھونٹ دیا جائے اوراسے فضائ( قبر) میں ڈال دیا جائے جہاں دل کی دونوں رگیں کٹ جائیں۔خداکے لئے اس کا فناکردینا بھی آسان ہے اور بھائیوںکے لئے اسے قبر میں ڈال دینابھی مشکل نہیں ہے۔مومن وہی ہے جو دنیاکی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت بھر سامان پر گذارا کر لیتا ہے۔اس کی باتوں کہ عداوت و نفرت کے کانوں سے سنتا ہے۔کہ جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مالدار ہوگیا ہے تو فوراً آوازآتی ہے کہ نادار ہوگیا ہے۔اور جب کسی کو بقا کے تصور سے مسرور کیا جاتا ہے تو فناکے خیال سے رنجیدہ بنادیاجاتاہے

۷۴۸

بِالْفَنَاءِ - هَذَا ولَمْ يَأْتِهِمْ يَوْمٌ فِيه يُبْلِسُونَ

۳۶۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وَضَعَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِه - والْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِه ذِيَادَةً لِعِبَادِه عَنْ نِقْمَتِه - وحِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِه.

۳۶۹ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ - لَا يَبْقَى فِيهِمْ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُه - ومِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه - ومَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ - خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى - سُكَّانُهَا وعُمَّارُهَا شَرُّ أَهْلِ الأَرْضِ - مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وإِلَيْهِمْ تَأْوِي الْخَطِيئَةُ - يَرُدُّونَ مَنْ شَذَّ عَنْهَا فِيهَا - ويَسُوقُونَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا إِلَيْهَا - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه فَبِي حَلَفْتُ - لأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ - وقَدْ فَعَلَ ونَحْنُ نَسْتَقِيلُ اللَّه عَثْرَةَ الْغَفْلَةِ.

۔اور یہ سباس وقت ہے جب ابھی وہ دن نہیں آیا ہے جب دن اہل دنیا مایوسی کاشکار ہوجائیں گے۔

(۳۶۸)

پروردگار عالم نے اطاعت پر ثواب اور معصیت پر عقاب اسی لئے رکھا ہے تاکہ بندوں کو اپنے غضب سے دور رکھ سکے اور انہیں گھیر جنت کی طرف لے آئے ۔

(۳۶۹)

لوگوں پر ایک ایسا دوربھی آنے والا ہے جب قرآن صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا مسجدیں(۱) تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔اس کے رہنے والے اورآباد کرنے والے سب بد ترین اہل زمانہ ہوں گے۔انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اورانہیں کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جودور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کرلے آئیں گے

پروردگار کا ارشاد ہے کہ میری ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایک ایسے فتنہ کو مسلط کردوں گا جو صاحب عقل کوبھی حیرت زدہ بنادے گا اور یہ یقینا ہو کر رہے گا۔ہم اس کی بارگاہ میں غفلتوں کی لغزشوں سے پناہ چاہتے ہیں۔

(۱)شائد کہ ہمارا دور اس ارشاد گرامی کا بہترین مصداق ہے جہاں مساجد کی تعمیر بھی ایک فیشن ہوگئی ہے اور اس کا اجتماع بھی ایک فنکشن ہو کر رہ گیا ہے ۔روح مسجد فنا ہوگئی ہے اور مساجد سے وہ کام نہیں لیا جا رہا ہے جو مولائے کائنات کے دور میں لیا جارہا تھا جہاں اسلام کی ہر تحریک کا مرکز مسجد تھی اورباطل سے ہر مقابلہ کامنصوبہ مسجد میں تیار ہوتا تھا۔لیکن آج مسجدیں صرف حکومتوں کے لئے دعائے خیر کامرکز ہیں اور ان کی شخصیتوں کے پروپگینڈہ کابہترین پلیٹ فارم ہیں۔رب کریم اس صورت حال کی اصلاح فرمائے ۔!

۷۴۹

۳۷۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام قَلَّمَا اعْتَدَلَ بِه الْمِنْبَرُ - إِلَّا قَالَ أَمَامَ الْخُطْبَةِ - أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه - فَمَا خُلِقَ امْرُؤٌ عَبَثاً فَيَلْهُوَ - ولَا تُرِكَ سُدًى فَيَلْغُوَ - ومَا دُنْيَاه الَّتِي تَحَسَّنَتْ لَه بِخَلَفٍ - مِنَ الآخِرَةِ الَّتِي قَبَّحَهَا سُوءُ النَّظَرِ عِنْدَه - ومَا الْمَغْرُورُ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الدُّنْيَا بِأَعْلَى هِمَّتِه - كَالآخَرِ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الآخِرَةِ بِأَدْنَى سُهْمَتِه

۳۷۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا شَرَفَ أَعْلَى مِنَ الإِسْلَامِ - ولَا عِزَّ أَعَزُّ مِنَ التَّقْوَى - ولَا مَعْقِلَ أَحْسَنُ مِنَ الْوَرَعِ - ولَا شَفِيعَ أَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَا كَنْزَ أَغْنَى مِنَ الْقَنَاعَةِ - ولَا مَالَ أَذْهَبُ لِلْفَاقَةِ مِنَ الرِّضَى بِالْقُوتِ - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى بُلْغَةِ الْكَفَافِ - فَقَدِ انْتَظَمَ الرَّاحَةَ وتَبَوَّأَ خَفْضَ الدَّعَةِ - والرَّغْبَةُ مِفْتَاحُ النَّصَبِ

ومَطِيَّةُ التَّعَبِ - والْحِرْصُ والْكِبْرُ والْحَسَدُ - دَوَاعٍ إِلَى التَّقَحُّمِ فِي الذُّنُوبِ - والشَّرُّ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوبِ.

(۳۷۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی منبر پرتشریف لے جاتے تھے تو خطبہ سے پہلے یہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔

لوگو! اللہ سے ڈرو۔اس نے کسی کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے کہ کھیل کود میں لگ جائے اور نہ آزاد چھوڑ دیا ہے کہ لغویتیں کرنے لگے۔یہ دنیا جو انسان کی نگاہ میں آراستہ ہوگئی ہے یہ اس آخرت کا بدل نہیں بن سکتی ہے جسے بری نگاہ نے قبیح بنادیا ہے ۔جو فریب خوردہ دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ اس کا جیسا نہیں ہے جو آخرت میں ادنیٰ حصہ بھی حاصل کرلے ۔

(۳۷۱)

اسلام سے بلند تر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزت کوئی عزت نہیں ہے۔پرہیز گاری سے بہترکوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کامیاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قناعت سے زیادہ مالدار بنانے والا کوئی خزانہ نہیں ہے اور روزی پر راضی ہو جانے سے زیادہ فقر و فاقہ کو دورکرنے والا نہیں ہے ۔

جس نے بقدرکفایت سامان پرگذارا کرلیا اس نے راحت کو حاصل کرلیا اور سکون کی منزل میں گھر بنالیا۔

خواہش رنج و تکلیف کی کنجی اور تکان و زحمت کی سواری ہے۔

حرص ' تکبر اورحسد گناہوں میں کود پڑنے کے اسباب و محرکات ہیں اورش ر تمام برائیوں کاجامع ہے

۷۵۰

۳۷۲ - وقَالَعليه‌السلام لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه الأَنْصَارِيِّ - يَا جَابِرُ قِوَامُ الدِّينِ والدُّنْيَا بِأَرْبَعَةٍ - عَالِمٍ مُسْتَعْمِلٍ عِلْمَه - وجَاهِلٍ لَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وجَوَادٍ لَا يَبْخَلُ بِمَعْرُوفِه - وفَقِيرٍ لَا يَبِيعُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه - فَإِذَا ضَيَّعَ الْعَالِمُ عِلْمَه - اسْتَنْكَفَ الْجَاهِلُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وإِذَا بَخِلَ الْغَنِيُّ بِمَعْرُوفِه - بَاعَ الْفَقِيرُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه.

يَا جَابِرُ مَنْ كَثُرَتْ نِعَمُ اللَّه عَلَيْه - كَثُرَتْ حَوَائِجُ النَّاسِ إِلَيْه - فَمَنْ قَامَ لِلَّه فِيهَا بِمَا يَجِبُ فِيهَا عَرَّضَهَا لِلدَّوَامِ والْبَقَاءِ ومَنْ لَمْ يَقُمْ فِيهَا بِمَا يَجِبُ عَرَّضَهَا لِلزَّوَالِ والْفَنَاءِ.

۳۷۳ - ورَوَى ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ فِي تَارِيخِه: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى الْفَقِيه - وكَانَ مِمَّنْ خَرَجَ لِقِتَالِ الْحَجَّاجِ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ - أَنَّه قَالَ فِيمَا كَانَ يَحُضُّ بِه النَّاسَ عَلَى الْجِهَادِ - إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيّاً رَفَعَ اللَّه دَرَجَتَه فِي الصَّالِحِينَ - وأَثَابَه ثَوَابَ الشُّهَدَاءِ والصِّدِّيقِينَ - يَقُولُ يَوْمَ لَقِينَا أَهْلَ الشَّامِ.

(۳۷۲)

آپ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا کہ جابر دین و دنیا کا قیام چارچیزوں سے ہے

وہ عالم جو اپنے علم کو استعمال بھی کرے اور وہ جاہل جو علم حاصل کرنے سے انکارنہ کرے وہ سختی جو اپنی نیکیوں میں بخل نہ کرے ۔اور فقیرو جو اپنی آخرت کو دنیاکے عوض فروخت نہ کرے ۔

لہٰذا ( یاد رکھو ) اگر عالم اپنے کوبرباد کردے گا تو جاہل بھی اس کے حصول سے اکڑ جائے گا اور اگر غنی اپنی نیکیوں میں بخل کرے گا توفقیر بھی آخرت کو دنیاکے عوض بیچنے پرآمادہ ہو جائے گا۔

جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرفرلوگوں کی احتیاج بھی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے مال میں اللہ کے فرائض کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اس کی بقا و دوام کا سامان فراہم کرلیتا ہے اورجوان وابجات کوادا نہیں کرتا ہے وہ اسے زوال و فنا کے راستہ پر لگا دیتا ہے ۔

(۳۷۳)

ابن جریر طبری نے اپنی تریخ میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے جو حجاج سے مقابلہ کرنے کے لئے ابن اشعث سے نکلا تھا اور لوگوں کوجہاد پرآمادہ کر رہا تھا کہ میں نے حضرت علی ( خداصالحین میں ان کے درجات کو کا ثواب عنایت کرے ) سے اسدن سنا ہے جب ہم لوگ شام والوں سے مقابلہ کر رہے تھے کہ حضرت نے فرمایا:

۷۵۱

أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ - إِنَّه مَنْ رَأَى عُدْوَاناً يُعْمَلُ بِه - ومُنْكَراً يُدْعَى إِلَيْه - فَأَنْكَرَه بِقَلْبِه فَقَدْ سَلِمَ وبَرِئَ - ومَنْ أَنْكَرَه بِلِسَانِه فَقَدْ أُجِرَ - وهُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِه - ومَنْ أَنْكَرَه بِالسَّيْفِ - لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّه هِيَ الْعُلْيَا وكَلِمَةُ الظَّالِمِينَ هِيَ السُّفْلَى - فَذَلِكَ الَّذِي أَصَابَ سَبِيلَ الْهُدَى - وقَامَ عَلَى الطَّرِيقِ ونَوَّرَ فِي قَلْبِه الْيَقِينُ.

۳۷۴ - وفِي كَلَامٍ آخَرَ لَه يَجْرِي هَذَا الْمَجْرَى: فَمِنْهُمُ الْمُنْكِرُ لِلْمُنْكَرِ بِيَدِه ولِسَانِه وقَلْبِه - فَذَلِكَ الْمُسْتَكْمِلُ لِخِصَالِ الْخَيْرِ - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِلِسَانِه وقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه - فَذَلِكَ مُتَمَسِّكٌ بِخَصْلَتَيْنِ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ - ومُضَيِّعٌ خَصْلَةً - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه ولِسَانِه - فَذَلِكَ الَّذِي ضَيَّعَ أَشْرَفَ الْخَصْلَتَيْنِ مِنَ الثَّلَاثِ - وتَمَسَّكَ بِوَاحِدَةٍ -

ایمان والو! جوشخص یہ دیکھے کہ ظلم و تعدی پر عمل ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور اپنے دل سے اس کا انکار کردے توگویا کہ محفو ظ رہ گیا اور بری(۱) ہوگیا۔اور اگر زبان سے انکار کردے تواجرکا حقداربھی ہوگیا کہ یہ صرف قلبی انکار سے بہتر صورت ہے اور اگر کوئی شخص تلوار کے ذریعہ اس کی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پستہو جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کے راستہ کو پالیا ہے اورسیدھے راستہ پر قائم ہوگیا ہے اور اس کے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہوگئی ہے۔

(۳۷۴)

( اسی موضوع سے متعلق دوسرے موقع پرارشاد فرمایا ) بعض لوگ منکرات کا انکار دل۔زبان اور ہاتھ سب سے کرتے ہیں تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اوردل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دوخصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک خصلت کو برباد کردیا ہے۔اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ زبان۔تو انہوں نے دوخصلتوں کو ضائع کردیا ہے اور صرف ایک کو پکڑ لیا ہے۔

(۱)اس فقرہ میں سلامتی اوربراء ت کامفہوم یہی ہے کہ منکرات کو برا سمجھنا اور اس سے راضی نہ ہونا انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے جس کا تقاضا اندر سے برابر جاری رہتا ہے لہٰذا اگر اس نے بیزاری کا اظہار کردیا توگویا فطرت کے سلیم ہونے کا ثبوت دے دیا اوراس فریضہ سے سبکدوش ہوگیا جو فطرت سلیم نے اس کے ذمہ عائد کیا تھا۔ورنہاگر ایسا بھی نہ کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ فطرت سلیم پرخارجی عناصر غالبآگئے ہیں اور انہوں نے بری الذمہ ہونے سے روک دیا ہے ۔

۷۵۲

ومِنْهُمْ تَارِكٌ لإِنْكَارِ الْمُنْكَرِ بِلِسَانِه وقَلْبِه ويَدِه - فَذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ - ومَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا والْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّه - عِنْدَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ - إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ - وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّه كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.

۳۷۵ - وعَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام يَقُولُ: أَوَّلُ مَا تُغْلَبُونَ عَلَيْه مِنَ الْجِهَادِ - الْجِهَادُ بِأَيْدِيكُمْ ثُمَّ بِأَلْسِنَتِكُمْ ثُمَّ بِقُلُوبِكُمْ - فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْ بِقَلْبِه مَعْرُوفاً ولَمْ يُنْكِرْ مُنْكَراً - قُلِبَ فَجُعِلَ أَعْلَاه أَسْفَلَه وأَسْفَلُه أَعْلَاه.

۳۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْحَقَّ ثَقِيلٌ مَرِيءٌ وإِنَّ الْبَاطِلَ خَفِيفٌ وَبِيءٌ

اوربعض وہ بھی ہیں جو دل۔زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکارنہیں کرتے ہیں تو یہ زندوں کی درمیان مردہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جوگہرے سمندر میں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے۔

اور ان تمام اعمال سے بلند تر عمل حاکم ظالم کے سامنے کلمۂ انصاف(۱) کااعلان ہے۔

(۳۷۵)

ابو حجیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امیر المومنین کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے تم ہاتھ کے جہاد میں مغلوب ہوگے اس کے بعد زبان کے جہادمیں اور اس کے بعد دل کے جہاد میں ۔مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر کسی شخص نے دل سے اچھائی کواچھا اوربرائی کو برا نہیں سمجھا تواسے اس طرح الٹ پلٹ دیاجائے گا کہ پست بلند ہو جائے اور بلند پست ہو جائے ۔

(۳۷۶)

حق ہمیشہ سنگین ہوتا ہے مگرخوشگوار ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ آسان ہوتا ہے مگرمہلک ہوتا ہے

(۱)تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثال ابن السکیت کاکردار ہے جہاں ان سے متوکل نے سردربار یہ سوال کرلیا کہ تمہاری نگاہ میں میرے دونوں فرزند معتبر اورموید بہترین یا علی کے دونوں فرزند حسن و حسین تو ابن السکیت نے سلطان ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا کہ حسن و حسین کاکیا ذکر ہے تیرے فرزند اور تو دونوں مل کرعلی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر نہیں ہیں۔

جس کے بعد متوکل نے حکم دے دیاکہ ان کی زبان کی گدی سے کھینچ لیا جائے اورابن السکیت نے نہایت درجہ سکون قلب کے ساتھ اس قربانی کو پیش کردیا اور اپنے پیشرو مثیم تمار۔حجر بن عدی۔عمروبن الحمق۔ابوذر۔عماریاسر اورمختار سے ملحق ہوگئے ۔

۷۵۳

۳۷۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَأْمَنَنَّ عَلَى خَيْرِ هَذِه الأُمَّةِ عَذَابَ اللَّه،لِقَوْلِه تَعَالَى -( فَلا يَأْمَنُ مَكْرَ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْخاسِرُونَ ) - ولَا تَيْأَسَنَّ لِشَرِّ هَذِه الأُمَّةِ مِنْ رَوْحِ اللَّه لِقَوْلِه تَعَالَى -( إِنَّه لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْكافِرُونَ ) .

۳۷۸ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ جَامِعٌ لِمَسَاوِئِ الْعُيُوبِ - وهُوَ زِمَامٌ يُقَادُ بِه إِلَى كُلِّ سُوءٍ.

۳۷۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ الرِّزْقُ رِزْقَانِ رِزْقٌ تَطْلُبُه -

(۳۷۷)

دیکھو اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں بھی عذاب سے مطمئن نہ ہو جانا کہ عذاب الٰہی کی طرف سے صرف خسارہ والے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اس امت کے بد ترین کے بارے میں بھی رحمت خداسے مایوس نہ ہو جانا کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف کافروں کا حصہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف ان گناہ گاروں سے ہے جن کا عمل انہیں سرحد کفر تک نہ پہنچا دے ورنہ کافر تو بہرحال رحمت خداسے مایوس رہتا ہے۔

(۳۷۸)

بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے۔اوریہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

(۳۷۰)

ابن آدم ! رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو اورایک رزق(۱) وہ ہے جو تم کو

(۱)اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ انسان محنت و مشقت چھوڑ دے اوراس امید میں بیٹھ جائے کہ رزق کی دوسری قسم بہرحال حاصل ہو جاے گی اوراسی پر قناعت کرلے گا ۔بلکہ یہ درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے یہاں محنت و مشقت بہرحال کرنا اوریہ انسان کے فرائض انسانیت وعبدیت میں شامل ہے لیکن اس کے بعد بھی رزق کا ایک حصہ ہے جو انسان کی محنت و مشقت سے بالاتر ہے اور وہ ان اسباب کے ذریعہ پہنچ جاتا ہے جن کا انسان تصوربھی نہیں کرتا ہے جس طرح کہ آپ گھر سے نکلیں اور کوئی شخص راستہ میں ایک گلاب پانی یا ایک پیالی چائے پلاے ۔ظاہر ہے کہ یہ پانی یا چائے نہ آپ کے حساب رزق کاکوئی حصہ ہے اور نہ آپنے اس کے لئے کوئی محنت کی ہے ۔یہ پروردگار کا ایک کر م ہے جوآپکے شامل حال ہوگیا ہے اور اس نے اس نکتہ کی وضاحت کردی کہ اگر زندگانی دنیا میں محنت ناکام بھی ہو جائے تو رزق کا سلسلہ بند ہونے والا نہیں ہے۔پروردگار کے پاس اپنے وسائل موجودہیں وہ ان وسائل سے رزق فراہم کردے گا۔وہ مسبب الاسباب ہے اسباب کا پابند نہیں ہے۔

۷۵۴

ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ فَإِنْ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - فَلَا تَحْمِلْ هَمَّ سَنَتِكَ عَلَى هَمِّ يَوْمِكَ - كَفَاكَ كُلُّ يَوْمٍ عَلَى مَا فِيه - فَإِنْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى سَيُؤْتِيكَ فِي كُلِّ غَدٍ جَدِيدٍ مَا قَسَمَ لَكَ - وإِنْ لَمْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَمَا تَصْنَعُ بِالْهَمِّ فِيمَا لَيْسَ لَكَ - ولَنْ يَسْبِقَكَ إِلَى رِزْقِكَ طَالِبٌ - ولَنْ يَغْلِبَكَ عَلَيْه غَالِبٌ - ولَنْ يُبْطِئَ عَنْكَ مَا قَدْ قُدِّرَ لَكَ.

قال الرضي وقد مضى هذا الكلام - فيما تقدم من هذا الباب - إلا أنه هاهنا أوضح وأشرح فلذلك كررناه - على القاعدة المقررة في أول الكتاب.

۳۸۰ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ مُسْتَقْبِلٍ يَوْماً لَيْسَ بِمُسْتَدْبِرِه - ومَغْبُوطٍ فِي أَوَّلِ لَيْلِه قَامَتْ بَوَاكِيه فِي آخِرِه.

۳۸۱ - وقَالَعليه‌السلام الْكَلَامُ فِي وَثَاقِكَ مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِه - فَإِذَا تَكَلَّمْتَ بِه صِرْتَ فِي وَثَاقِه - فَاخْزُنْ لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ ووَرِقَكَ - فَرُبَّ كَلِمَةٍ

تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ پہنچو گے تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔لہٰذا ایک سال کے ہم و غم کو ایک دن پر بار نہ کردو۔ہر دن کے لئے اسی دن کی فکر کافی ہے۔اس کے بعد اگر تمہاری عمر میں ایک سال باقی رہ گیا ہے تو ہرآنے والا دن اپنا رزق اپنے ساتھ لے کرآئے گا اوراگر سال باقی نہیں رہ گیا ہے تو سال بھر کی فکر کی ضرورت ہی کیا ہے۔تمہارے رزق کو تم سے پہلے کوئی پا نہیں سکتا ہے اور تمہارے حصہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے بلکہ جو تمہارے حق میں مقدر ہوچکا ہے وہ دیر سے بھی نہیں آئے گا۔

سید رضی : یہ ارشاد گرامی اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے مگر یہاں زیادہ واضح اور مفصل ہے لہٰذا دوبارہ ذکر کردیا گیا ہے۔

(۳۸۰)

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرنے والے ہیں جس سے پیٹھ پھیرانے والے نہیں ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی قسمت پر سر شام رشک کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہوتے ان پر رونے والیوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔

(۳۸۱)

گفتگو تمہارے قبضہ میں ہے۔جب تک اس کااظہار نہ ہو جائے ۔اس کے بعد پھر تم اس کے قبضہ میں چلے جاتے ہو۔لہٰذا اپنی زبان کو ویسے ہی محفوظ رکھو جسے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو۔کہ بعض کلمات نعمتوں کو

۷۵۵

سَلَبَتْ نِعْمَةً وجَلَبَتْ نِقْمَةً.

۳۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ - فَإِنَّ اللَّه فَرَضَ عَلَى جَوَارِحِكَ كُلِّهَا - فَرَائِضَ يَحْتَجُّ بِهَا عَلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

۳۸۳ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرْ أَنْ يَرَاكَ اللَّه عِنْدَ مَعْصِيَتِه - ويَفْقِدَكَ عِنْدَ طَاعَتِه - فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ - وإِذَا قَوِيتَ فَاقْوَ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - وإِذَا ضَعُفْتَ فَاضْعُفْ عَنْ مَعْصِيَةِ اللَّه.

۳۸۴ - وقَالَعليه‌السلام الرُّكُونُ إِلَى الدُّنْيَا مَعَ مَا تُعَايِنُ مِنْهَا جَهْلٌ - والتَّقْصِيرُ فِي حُسْنِ الْعَمَلِ - إِذَا وَثِقْتَ بِالثَّوَابِ عَلَيْه غَبْنٌ - والطُّمَأْنِينَةُ إِلَى كُلِّ أَحَدٍ قَبْلَ الِاخْتِبَارِ لَه عَجْزٌ.

۳۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّه أَنَّه لَا يُعْصَى إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنَالُ مَا عِنْدَه إِلَّا بِتَرْكِهَا.

سلب کر لیتے ہیں اورعذاب کو جذب کرلیتے ہیں۔

(۳۸۲)

جوبات نہیں جانتے ہو اسے زبان سے مت نکالو بلکہ ہر وہ بات جسے جانتے ہو اسے بھی مت بیان کرو کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قراردئیے ہیں اور انہیں کے ذریعہ روز قیامت حجت قائم کرنے والا ہے۔

(۳۸۳)

اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں معصیت کے موقع پرحاضر دیکھے اور اطاعت کے موقع پر غائب پائے کہ اس طرح خسارہ والوں میں شمار ہو جائو گے ۔اگر تمہارے پاس طاقت ہے تو اس کا اظہار اطاعت خدا میں کرو اور اگر کمزوری دکھلانا ہے تو اسے معصیت کے موقع پر دکھلائو۔

(۳۸۴)

دنیا کیحالات دیکھنے کے باوجود اس کی طرف رجحان اور میلان صرف جہالت ہے۔اورثواب کے یقین کے بعد بھی نیک عمل میں کوتاہی کرنا خسارہ ہے۔امتحان سے پہلے ہر ایک پر اعتبار کرلینا عاجزی اور کمزوری ہے۔

(۳۸۵)

خداکی نگاہ میں دنیا کی حقارت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کی معصیت اسی دنیا میں ہوتی ہے اور اس کی اصلی نعمتیں اس کوچھوڑنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔

۷۵۶

۳۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ طَلَبَ شَيْئاً نَالَه أَوْ بَعْضَه.

۳۸۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا خَيْرٌ بِخَيْرٍ بَعْدَه النَّارُ - ومَا شَرٌّ بِشَرٍّ بَعْدَه الْجَنَّةُ - وكُلُّ نَعِيمٍ دُونَ الْجَنَّةِ فَهُوَ مَحْقُورٌ - وكُلُّ بَلَاءٍ دُونَ النَّارِ عَافِيَةٌ.

۳۸۸ - وقَالَعليه‌السلام أَلَا وإِنَّ مِنَ الْبَلَاءِ الْفَاقَةَ - وأَشَدُّ مِنَ الْفَاقَةِ مَرَضُ الْبَدَنِ - وأَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْبِ - أَلَا وإِنَّ مِنْ صِحَّةِ الْبَدَنِ تَقْوَى الْقَلْبِ.

(۳۸۶)

جو کسی شے کا طلب گار ہوتا ہے وہ کل یا جزء بہرحال حاصل کر لیتا ہے۔

(۳۸۷)

وہ بھلائی بھلائی نہیں ہے جس کا انجام جہنم ہو۔اوروہ برائی برائی نہیں ہے جس کی عاقبت جنت ہو۔جنت کے علاوہ ہر نعمت حقیر ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر مصیبت عافیت ہے۔

(۳۸۸)

یاد رکھو کہ فقرو فاقہ بھی ایک بلاء ہے اور اس سے زیادہ سخت مصیبت بدن کی بیماری ہے اور اس سے زیادہ دشوار گذار دل کی بیماری ہے۔مالداری یقینا ایک نعمت ہے لیکن اس سے بڑی نعمت صحت(۱) بدن ہے اور اس سے بڑی نعمت دل کی پرہیز گاری ہے۔

(۱) یہ نکتہ ان غرباء اورفقراء کے سمجھنے کے لئے ہے جوہمیشہ غربت کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی صحت کا شکیرہ نہیں اداکرتے ہیں جب کہ تجربات کی دنیا میں یہبات ثابت ہوچکی ہے کہ امراض کا اوسط دولت مندوں میں غریبوں سے کہیں زیادہ ہے اور ہارٹ اٹیک کے بیشتر مریض اسی انچے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات توامیروں کی زندگی میں غذائوں سے زیادہ حصہ دوائوں کا ہوتا ہے اوروہ بیشمار غذائوں سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔

صحت بدن پروردگار کا ایک مخصوص کرم ہے جو وہ اپنے بندوں کے شامل حال کردیتا ہے لیکن غریبوں کوبھی اس نکتہ کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اس صحت کاشکریہ ادا کیا اور صرف غربت کی شکایت کرتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہیں لیکن روحانی اعتبار سے بہر حال مریض ہیں اوریہ مرض ناقابل علاج ہو چکا ہے۔رب کریم ہر مومن و مومنہ کو اس مرض سے نجات عطا فرمائے

۷۵۷

۳۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه: وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى: مَنْ فَاتَه حَسَبُ نَفْسِه لَمْ يَنْفَعْه حَسَبُ آبَائِه.

۳۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلْمُؤْمِنِ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّه - وسَاعَةٌ يَرُمُّ مَعَاشَه - وسَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِه - وبَيْنَ لَذَّتِهَا فِيمَا يَحِلُّ ويَجْمُلُ - ولَيْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ شَاخِصاً إِلَّا فِي ثَلَاثٍ - مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ أَوْ خُطْوَةٍ فِي مَعَادٍ - أَوْ لَذَّةٍ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ.

۳۹۱ - وقَالَعليه‌السلام ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُبَصِّرْكَ اللَّه عَوْرَاتِهَا - ولَا تَغْفُلْ فَلَسْتَ بِمَغْفُولٍ عَنْكَ.

۳۹۲ - وقَالَعليه‌السلام تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

(۳۸۹)

جس کو عمل پیچھے ہٹا دے اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔یا ( دوسری روایت میں ) جس کے ہاتھ سے اپنا کردار نکل جائے اسے آباء واجداد کے کارنامے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

(۳۹۰)

مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کوان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جوحلال اور پاکیزہ ہیں ۔

کسی عقل مند کویہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنے گھرسے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے کوئی ایک کام ہو۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ' آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے 'حلال اورپاکیزہ لذت حاصل کرے۔

(۳۹۱)

دنیامیں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے ۔اورخبر دار غافل نہ ہو جائو کہ تمہاری طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔

(۳۹۲)

بولو تاکہ پہچانے جائو اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔

۷۵۸

۳۹۳ - وقَالَعليه‌السلام خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا أَتَاكَ - وتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ فَأَجْمِلْ فِي الطَّلَبِ

۳۹۴ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ قَوْلٍ أَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ

۳۹۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُقْتَصَرٍ عَلَيْه كَافٍ.

۳۹۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَنِيَّةُ ولَا الدَّنِيَّةُ والتَّقَلُّلُ ولَا التَّوَسُّلُ ومَنْ لَمْ يُعْطَ قَاعِداً لَمْ يُعْطَ قَائِماً

(۳۹۳)

جو دنیا میں حاصل ہو جائے اسے لے لو اور جو چیز تم سے منہ موڑ لے تم بھی اس سے منہ پھیر لو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو طلب میں میانہ روی سے کام لو۔

(۳۹۴)

بہت سے الفاظ حملوں(۱) سے زیادہاثر رکھنے والے ہوتے ہیں۔

(۳۹۵)

جس پر اکتفا(۲) کرلی جائے وہی کافی ہے۔

(۳۹۶)

موت ہو لیکن خبردار ذلت نہ ہو۔

کم ہو لیکن دوسروں کو وسیلہ نہ بنانا پڑے۔

جسے بیٹھ کر(۳) نہیں مل سکتا ہے اسے کھڑے ہو کر بھی نہیں مل سکتا ہے

(۱)اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ہے۔اوراس کے علاوہ دونوں کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حملوں کا اثر محدود علاقوں پر ہوتا ہے اورجملوں کا اثر ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ اس دورمیں بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ حملے تمام دنیا میں بند پڑتے ہیں لیکن جملے اپنا کام کر رہے ہیں اور میڈیا ساری دنیا میں زہر پھیلا رہا ہے اورسارے عالم انسانیت کو ہرجہت اور ہراعتبار سے تباہی اوربربادی کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

(۲)حرص و ہوس وہ بیماری ہے جس کاعلاج قناعت اورکفایت شعاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ دنیا ایسی ہے کہ اگر انسان اس کی لالچ میں پڑ جائے تو ملک فرعون اور اقتداریزید وحجاج بھی کم پڑ جاتا ہے اور کفایت شعاری پر آجائے تو جو کی روٹیاں بھی اس کے کردار کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور وہ نہایت درجہ بے نیازی کے ساتھ دنیا کوطلاق دینے پرآمادہ ہو جاتا ہے اورپھر جوع کرنے کاب ھی ارادہ نہیں کرتا ہے۔

(۳)یہاں بیٹھنے سے مراد بیٹھ جانانہیں ہے ورنہ اس نصیحت کو سن کر ہر انسان بیٹھ جائے گا اور محنت و مشقت کا سلسلہ ہی موقوف ہو جائے گا بلکہ اس بیٹھنے سے مراد بقدر ضرورت محنت کرنا ہے جوانسانی زندگی کے لئے کافی ہواور انسان اس سے زیادہجان دینے پر آمادہ نہ ہوجائے کہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے اور فضول محنت سے کچھ زیادہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

۷۵۹

والدَّهْرُ يَوْمَانِ يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ عَلَيْكَ - فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ - وإِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ.

۳۹۷ - وقَالَعليه‌السلام نِعْمَ الطِّيبُ الْمِسْكُ خَفِيفٌ مَحْمِلُه عَطِرٌ رِيحُه.

۳۹۸ - وقَالَعليه‌السلام ضَعْ فَخْرَكَ واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ.

۳۹۹ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ حَقّاً - وإِنَّ لِلْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ حَقّاً - فَحَقُّ الْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ - أَنْ يُطِيعَه فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي مَعْصِيَةِ اللَّه سُبْحَانَه - وحَقُّ الْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ - أَنْ يُحَسِّنَ اسْمَه ويُحَسِّنَ أَدَبَه ويُعَلِّمَه الْقُرْآنَ.

زمانہ دونوں کا نام ہے۔ایک دن تمہارے حق میں ہوتا ہے تو دوسرا تمہارے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر تمہارے حق میں ہو تو مغرور نہ ہو جانا اور تمہارے خلاف ہو جائے تو صبر سے کام لینا۔

(۳۹۷)

بہترین خوشبو کا نام مشک ہے جس کاوزن انتہائی ہلکا ہوتا ہے اورخوشبو نہایت درجہ مہک دار ہوتی ہے۔

(۳۹۸)

فخرو سر بلندی کوچھوڑ دو اورتکبر و غرور کو فنا کردواور پھراپنی قبر کو یاد کرو۔

(۳۹۹)

فرزند کا باپ پر ایک حق ہوتا ہے اورباپ کا فرزند پرایک حق ہوتا ہے۔باپ کاحق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ اور فرزند کاحق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھاسانام تجویزکرے اوراسے بہترین ادب سکھائے ۔اور قرآن مجید کی تعلیم دے ۔

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863