نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)6%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 657164 / ڈاؤنلوڈ: 15928
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

مضبوط فوج تیار کرنا، مختلف ممالک میں سفیر بھیجنا اور اس زمانے کے بادشاہوں کو خبردار کرنا، نیز ان سے خط و کتابت کرنا ساتھ ہی ساتھ شہروں کے گورنر اور حکام معین کرنا اور ایسے ہی دوسرے امور کا انجام دینا اگر سیاست نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کے علاوہ خلفائے راشدین کا کردار اور خاص طور پرحضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ـ کا طرز عمل بھی شیعوں اور اہل سنت دونوں فرقوں کیلئے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست دین سے جدانہیں ہے.دونوں اسلامی فرقوں کے علماء نے حکومت

قائم کرنے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مفصل دلیلیں بیان کی ہیں نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

ابوالحسن ماوردی نے اپنی کتاب ''احکام سلطانیہ'' میں یوں لکھا ہے:

''المامة موضوعة لخلافة النبّوة ف حراسة الدین و سیاسة الدنیا و عقدها لمن یقوم بها ف الأمة واجب بالجماع'' ( ۱ )

امامت کو نبوت کی جانشینی کے لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دین کی حفاظت کی جاسکے اور دنیا کی سیاست و حکومت کا کام بھی چل سکے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی حکومت قائم کرنااس شخص پر واجب ہوجاتا ہے جو اس کام کو انجام دے سکتا ہو۔

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۱

اہل سنت کے مشہور عالم ماوردی نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کی دلیلیں پیش کی ہیں :

۱۔ عقلی دلیل

۲۔ شرعی دلیل

عقلی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''لما فى طباع العقلاء من التسلیم لزعیم یمنعهم من التظالم و یفعل بینهم فى التنازع والتخاصم ولولا الولاة لکانوا فوضیٰ مهملین همجاً مضاعین'' ( ۱ )

کیونکہ یہ بات عقلاء کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی رہبر کی پیروی کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرنے سے روکے اور اختلاف اور جھگڑوں کی صورت میں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرے اور اگر ایسے حکام نہ ہوتے تولوگ پراگندہ اور پریشان ہوجاتے اور پھر کسی کام کے نہ رہ جاتے.

اور شرعی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

''ولکن جاء الشرع بتفویض الأمور اِلی ولیه فى الدین قال اللّه عزّوجلّ (یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۲

اَطِیعُوا ﷲ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُوْلِى الْاَمْرِ مِنْکُم )ففرض علینا طاعة أولى الأمر فینا وهم الأئمة المأتمرون علینا'' ( ۱ )

لیکن شرعی دلیل میں یہ ہے کہ دین کے امور کو ولی کے سپرد کردیا گیا ہے خداوندکریم فرماتا ہے:ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں .پس خداوند نے ہم پرصاحبان امر کی اطاعت کو واجب کردیا ہے اور وہ ہمارے امام ہیں جو ہم پر حکومت کرتے ہیں

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضل بن شاذان سے ایک روایت نقل کی ہے جو ہمارے آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا ـ کی طرف منسوب ہے اس طولانی روایت میں امام ـ نے حکومت قائم کرنے کو ایک لازمی امر قرار دیا ہے ہم اس روایت کے چند جملے ذکر کرتے ہیں :

''انّا لا نجد فرقة من الفرق ولا ملة من الملل

بقوا و عاشوا اِلاّ بقیّم و رئیس، لما لابدّ لهم

منه من أمر الدین والدنیا، فلم یجزفحکمة

الحکیمأن یترک الخلق لما یعلم انه لابدّ لهم منه

____________________

(۱)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص۵ طبع مصر.

۱۴۳

والقوام لهم لاّ به فیقاتلون به عدوهم و یقسمون به فیئهم و یقیمون به جمعتهم و جماعتهم و یمنع ظالمهم من مظلومهم ''( ۱ )

ہمیں کوئی ایسی قوم یا ملت نہیں ملے گی جو اس دنیا میں باقی رہی ہواور اس نے زندگی گزاری ہو سوائے یہ کہ اس کے پاس ایک ایسا رہبر اور رئیس رہا ہو جس کے وہ لوگ دین اور دنیا کے امور میں محتاج رہے ہوں پس خداوند حکیم کی حکمت سے یہ بات دور ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز عطا نہ فرمائے جسکے وہ لوگ محتاج ہیں اور اسکے بغیر باقی نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے رہبر ہی کی ہمراہی میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے مال غنیمت کو تقسیم کرتے ہیں اور اس کی اقتداء میں نماز جمعہ اور بقیہ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور رہبر ہی ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا ہے.

اس سلسلے میں وارد ہونے والی ساری روایتوں کی تشریح کرنا اور تمام مسلمان فقہاء کے اقوال کا جائزہ لینا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے اس کام کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے۔اسلامی فقہ کا دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ شریعت کے بہت سے قوانین ایسے ہیں جو ایکمضبوط حکومت کے بغیر نافذ

____________________

(۱) علل الشرائع باب ۱۸۲ حدیث نمبر۹ ص ۲۵۳

۱۴۴

نہیں کئے جاسکتے ہیں

اسلام ہمیں جہاد اور دفاع کرنے ، ظالم سے انتقام لینے اور مظلوم کی حمایت کرنے، شرعی حدود اور تعزیرات جاری کرنے، امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دینے، ایک مالی نظام برقرار کرنے اور اسلامی معاشرے میں وحدت قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ اہداف ایک مضبوط نظام اور حکومت کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے کیونکہ شریعت کی حمایت اور اسلام سے دفاع کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی طاقتور فوج تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اور اسی طرح فرائض کی پابندی اور گناہوں سے دوری کے لئے حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا اور ظالموں سے مظلوموں کا حق لینا ایک حکومت اور نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر قوی حکومت نہ پائی جاتی ہو تو معاشرہ فتنہ اور آشوب کی آماجگاہ بن جائے گا اگرچہ حکومت قائم کرنے کے لازمی ہونے کے سلسلے میں ہماری ان دلیلوں کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں لیکن ان دلیلوں ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دین سیاست سے جدا نہیں ہے بلکہ شریعت کے قوانین کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرنا ایک لازمی امر ہے جو کہ اس دنیا میں پائے جانے والے ہر اسلامی معاشرہ کے لئے ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔

۱۴۵

بائیسواں سوال

شیعہ ، حضرت علی بن ابی طالب کے بیٹوں (امام حسنـ ا ور امام حسینـ) کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے کیوں کہتے ہیں ؟

جواب: تفسیر، تاریخ اور روایات کی کتابوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف شیعہ ہی یہ نظریہ نہیں رکھتے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سارے مسلمان محققین چاہے وہ کسی بھی اسلامی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، اسی نظرئیے کو قبول کرتے ہیں

اب ہم قرآن مجید، احادیث اور مشہور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں اس مسئلے کے دلائل کو بیان کریں گے :

قرآن مجید کی ایک اصل یہ ہے کہ اس نے ایک انسان کی نسل سے پیدا ہونے والی اولاد کو اسی انسان کی اولاد قرار دیا ہے اس اعتبار سے ایک انسان کی بیٹی یا اس کے بیٹے سے پیدا ہونے والی اولاد قرآن مجید کی نگاہ میں اس انسان کی اولاد ہے.

قرآن مجید اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس حقیقت کے متعلق بہت سے شواہد موجود ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

۱۔مندرجہ ذیل آیت میں قرآن مجید نے حضر ت عیسیٰ ـ کو حضرت ابراہیم ـ کی اولاد میں شمار کیاہے جبکہ حضرت عیسیٰ ـ حضرت مریم کے بیٹے ہیں اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم ـ تک پہنچتا ہے:

(وَوَهَبْنَا لَهُا ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا هَدَیْنَا وَنُوحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِ الْمُحْسِنِینَ ٭ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی )( ۱ )

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب دیئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھرابراھیم کی اولاد میں داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ، اور ہارون قراردئیے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں اور (اسی طرح ابراہیم کی اولاد میں سے) زکریا ، یحییٰ اور عیسیٰ ہیں .مسلمان علماء اس آیۂ شریفہ کو اس بات پر شاہد قرار دیتے ہیں کہ امام حسن اور امام حسین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولاد اورآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں نمونے کے طور پر ہم

____________________

(۱)سورہ انعام آیت : ۸۴ اور ۸۵

۱۴۶

یہاںان علماء میں سے ایک عالم کے کلام کو پیش کرتے ہیں :

جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :

''أرسل الحجاج اِلی یحییٰ بن یعمر فقال: بلغنى أنک تزعم أن الحسن والحسین من ذریة النبى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تجده فى کتاب اللّه و قد قرأته من أوله اِلیٰ آخره فلم أجده قال : ألست تقرأ سورة الانعام (وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ) حتی بلغ یَحْیَیٰ وَعِیسَیٰ ؟ قال بلیٰ قال: ألیس عیسیٰ من ذریة اِبراهیم و لیس له أب؟ قال: صدقتَ'' ( ۱ )

حجاج نے یحییٰ بن یعمرکے پاس پیغام بھیجا اور ان سے یہ کہا :مجھے خبر ملی ہے کہ تم یہ گمان کرتے ہو کہ حسن اور حسین نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت میں سے ہیں کیا تم نے اس بات کو کتاب خدا سے حاصل کیا ہے جبکہ میں نے قرآن مجید کو اول سے آخرتک پڑھا ہے لیکن میں نے کوئی ایسی بات اس میں نہیں دیکھی ہے.

یحییٰ بن یعمر نے کہا کیا تم نے سورہ انعام نہیں پڑھا ہے جس میں یہ ہے''وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ '' یہاں تک کہ خدا فرماتا

____________________

(۱)تفسیر در المنثور جلد۳ ص۲۸ طبع بیروت سورہ انعام کی ۸۴ اور ۸۵ آیت کی تفسیر کے ذیل میں

۱۴۷

ہےو یَحْیَی وَعِیسَی ؟''حجاج نے کہا کیوں نہیں پڑھی ہے یحییٰ نے کہا کیا حضرت عیسیٰ ـ حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے نہ تھے جب کہ ان کا کوئی باپ نہ تھا (اور ان کا سلسلہ نسب ماں کے ذریعہ حضرت ابراہیم تک پہنچتا ہے) حجاج نے جواب میں کہا کہ تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو

مذکورہ آیت اور مفسرین کے اقوال سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ نہ صرف شیعہ بلکہ تمام مسلمان علماء امام حسن اور امام حسین کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت اور اولاد سمجھتے ہیں

۲۔ اس قول کے صحیح ہونے پر ایک بہت ہی واضح دلیل آیہ مباہلہ ہے اب ہم اس آیت کو مفسرین کے اقوال کے ساتھ پیش کرتے ہیں :

(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَائَنَا وَاَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲِ عَلَی الْکَاذِبِین )( ۱ )

(اے پیغمبر)علم کے آجانے کے بعد جو لوگ آپ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے بیٹوں ، اپنی اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں

____________________

(۱) سورہ آل عمران آیت : ۶۱

۱۴۸

مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت ''مباہلہ'' کے نام سے مشہور ہے یہ آیت عیسائیوں کے سرداروں سے مناظرہ کرنے کے سلسلہ میں اس وقت نازل ہوئی جب وہ کٹ حجتی سے باز نہ آئے اور آنحضرت حکم خدا سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت فاطمہ زہرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ٪کی ہمراہی میں مباھلہ کے لئے تشریف لے گئے اور جب نصاری کے بزرگوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت ٪ کی یہ شان اور ہیبت دیکھی تو وہ سب خوفزدہ ہوگئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آکر یہ التماس کرنے لگے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان پر لعنت نہ کریں آنحضرت نے ان کی درخواست قبول کر لی اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کر کے اس قصے کو ختم کردیا شیعہ اور سنی علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ مباہلہ کے دن حضرت امیرالمومنین ، حضرت فاطمہ ، حضرت امام حسن اور

۱۴۹

حضرت امام حسین ٪ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھے اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ''ابنائنا''(یعنی ہمارے فرزند) سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد امام حسن اور ، امام حسین ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ آیہ مباہلہ نے بھی حضرت امام حسن اور امام حسین کو رسول خدا کا فرزند قرار دیا ہے

یہاں پر اس نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ مفسرین نے آیہ مباہلہ کے ذیل میں بہت سی روایات ذکر کرنے کے بعد اس قول کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض مفسرین کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف: جلال الدین سیوطی نے حاکم، ابن مرودیہ ،اور ابونعیم سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے : وہ کہتے ہیں :( أنفسنا و أنفسکم )رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و علی ،''ابنائنا''الحسن والحسین و ''نسائنا ''فاطمه.( ۱ )

(انفسنا)''(یعنی ہماری جانوں ) سے مراد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی ـ ہیں اور (ابنائنا)(یعنی ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین ہیں اور(نسائنا)(ہماری عورتوں ) سے مراد فاطمہ زہرا ہیں

ب:فخر رازی اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :

واعلم ان هذه الروایة کالمتفق علیٰ صحتها بین اهل التفسیر والحدیث ( ۲ )

جان لو کہ یہ روایت ایسی حدیث ہے کہ جس کے صحیح ہونے پر اہل تفسیر اور اہل حدیث کااتفاق ہے۔

اور پھر اس کے بعد یوں کہتے ہیں

''المسألة الرابعة: هذه الآیة دالة علی أن الحسن والحسین کانا ابن رسول اللّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وعد أن یدعوا أبنائه فدعا الحسن والحسین فوجب أن یکون ابنیه'' ( ۳ )

____________________

(۱) تفسیر در المثور جلد ۲ ص ۳۹ طبع بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں

(۲)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

(۳)تفسیر ''مفاتیح الغیب '' جلد ۲ ص ۴۸۸ طبع ۱ول مصر ۱۳۰۸ ھ

۱۵۰

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حسن اور حسین پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے طے یہ ہوا تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بیٹوں کو بلائیں پس آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حسن و حسین ہی کو بلایا تھا پس یہ ثابت ہوگیا کہ وہ دونوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیٹے ہیں ۔

ج:ابو عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں کہ :

(أبنائنا)دلیل علیٰ أن أبناء البنات یسمون أبناء اً .( ۱ )

کلمہ ابنائنا دلیل ہے کہ بیٹی سے ہونے والی اولاد بھی انسان کی اولاد کہلاتی ہے۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال شاہد ہیں کہ امام حسن اور امام حسین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند تھے.یہاں پر ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صرف دو اقوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

الف:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسن اور حسین کے متعلق فرماتے ہیں :

هذان ابناى مَن أحبهما فقد أحبن .( ۲ )

حسن اور حسین میرے دو فرزند ہیں جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی

ب:پیغمبر اسلام نے حسن اور حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

ان بنّى هٰذین ریحانتى من الدنیا .( ۳ )

میرے یہ دو بیٹے اس دنیا سے میرے دو پھول ہیں

____________________

(۱)الجامع لاحکام القرآن جلد ۴ ص ۱۰۴طبع بیروت.

(۲)تاریخ مدینہ دمشق مصنفہ ابن عساکر ترجمة الامام الحسین ـ ص۵۹حدیث ۱۰۶طبع اول بیروت ۰ ۱۴۰ھ.

(۳)گذشتہ حوالہ ص۶۲ حدیث نمبر ۱۱۲.

۱۵۱

تیئیسواں سوال

شیعوں کے نزدیک یہ کیوں ضروری ہے کہ خلیفہ کو خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی معین فرمائیں؟

جواب: یہ واضح ہے کہ اسلام ایک ہمیشہ رہنے والا عالمی دین ہے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں آپ ہی امت کے رہبر اور ہادی تھے لیکن آپ کی رحلت کے بعد ضروری تھا کہ جو سب سے زیادہ لائق فرد ہو اسے امت اسلامیہ کی رہبری سونپ دی جائے

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خلیفہ، نص کے ذریعہ معین کیا جائے گا(یعنی خدا اور رسول ہی اپنا خلیفہ معین فرمائیں گے )یا یہ کہ خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے ؟ اس سلسلہ میں چند نظریے پائے جاتے ہیں شیعوں کا اعتقاد ہے کہ منصب خلافت نص کے ذریعہ معین ہوتا ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی جانب سے معین کیا جائے

جب کہ اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ منصب خلافت ایک انتخابی عہدہ ہے اور ضروری ہے کہ پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت، مملکت کے امور کو چلانے کے لئے کسی ایک شخص کو خلیفہ چن لے.

۱۵۲

عصر رسالت کے حالات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ خلیفہ کونص کے ذریعہ معین ہونا چاہئے.

شیعہ علماء نے عقائد کی کتابوں میں خلیفہ کے نص کے ذریعہ معین کئے جانے کے بارے میں بہت سے دلائل بیان کئے ہیں لیکن وہ دلیل جسے یہاں بیان کیا جاسکتا ہے اور جس سے شیعوں کا عقیدہ بھی واضح ہوجاتا ہے وہ عصر رسالت کے حالات کا صحیح تجزیہ ہے.

عصر رسالت میں اسلام کی داخلی اور خارجی سیاست کا یہ تقاضا تھا کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین خدا کی طرف سے خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ معین کیا جائے کیونکہ مسلمانوں کو ہر لحظہ تین بڑی طاقتوں (روم کی سلطنت، ایران کی بادشاہت اور منافقین حجاز کی سازشوں ) کی طرف سے شکست اور نابودی کا خطرہ لاحق تھا اسی طرح امت کی کچھ مصلحتیں بھی تقاضا کررہی تھیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا خلیفہ معین کر کے ساری امت کو بیرونی دشمن کی طاقت کے مقابلے میں ایک صف میں کھڑا کردیں اور اس طرح ملت اسلامیہ کو ان داخلی اختلافات سے بچالیں جن سے دشمنوں کے نفوذ اور تسلط کا موقع فراہم ہوسکتا ہے

اس کی وضاحت

ان تین خطرناک طاقتوں میں سے ایک طاقت روم کی بادشاہی تھی جس سے پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی زندگی کے آخری لمحات تک فکر مند رہے ہجرت کے آٹھویں سال فلسطین کی سرزمین پرمسلمانوں اور روم کے عیسائیوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی تھی اس جنگ میں اسلامی فوج کے تین کمانڈر ''جعفر طیار'' ''زید بن حارثہ''اور ''عبداللہ بن رواحہ'' شہید ہوئے تھے اور سپاہ اسلام کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا

۱۵۳

کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی اس شکست سے قیصر روم کی فوج کے حوصلے بڑھ گئے تھے اور ہر وقت اس بات کاڈر رہتا تھا کہ کہیں وہ اسلام کے مرکزی علاقوں پر حملہ آور نہ ہوجائیں

اسی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے نویں سال مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کو شام کے اطراف میں بھیجا تھا اور ارادہ یہ تھا کہ اگر جنگ کی نوبت آگئی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود لشکر اسلام کی رہبری فرمائیں گے اس درد و رنج والے سفر میں سپاہ اسلام نے اپنی سابقہ شوکت پھر سے حاصل کی اور اسے اس کا سیاسی مقام و منصب دوبارہ مل گیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس فتح کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیماری سے چند دن پہلے مسلمانوں کی فوج کو ''اسامہ'' کی قیادت میں شام کی طرف جانے کا حکم دیا.

عصر رسالت میں مسلمانوں کی دوسری دشمن طاقت ایران کی بادشاہی تھی یہاں تک کہ ایران کے بادشاہ نے انتہائی غصے سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خط کو پھاڑ دیا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کو توہین کے ساتھ باہر نکال دیا تھا اور نیز یمن کے گورنر کو خط لکھا تھا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرفتار کرلے اورممانعت کی صورت میں انہیں قتل کرڈالے

۱۵۴

اگرچہ ایران کا بادشاہ خسرو پرویز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے ہی میں مر گیا تھا لیکن مدتوں سے ایران کے زیر اقتدار رہنے والے ملک یمن کا مسلمانوں کے ذریعہ استقلال حاصل کرلینا ایرانی بادشاہوں کو شدید ناگوار گزرا اس وجہ سے ایران کی سطوت شاہی کے لئے اسلام کی طاقت کو پھلتا پھولتا دیکھنا برداشت کے قابل نہیں تھا

مسلمانوں کو تیسرا خطرہ منافقین کے گروہ سے تھا منافقوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے ذریعہ فتنہ و فساد پیدا کریں ان لوگوں کے نفاق اور کینہ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تبوک سے مدینہ کے راستے میں حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا یہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت سے اسلام کی تحریک ختم ہوجائے گی اور وہ لوگ آسودہ خاطر ہوجائیں گے منافقین کے عزائم اور ان کی سازشوں کو آشکار کرنے کے لئے قرآن مجید نے ان سورتوں : آل عمران ، نساء ، مائدہ، انفال ، توبہ، عنکبوت، احزاب، محمد، فتح،مجادلہ، حدید، منافقین اور حشر میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے.( ۱ )

اسلام کے ایسے سرسخت اور خطرناک دشمنوں کی موجودگی میں کیا یہ صحیح تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تازہ مسلمانوں کے دینی اور سیاسی امور کی رہبری کے لئے اپنا کوئی جانشین معین نہ فرماتے؟

اس وقت کے اجتماعی حالات کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ضروری تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد اپنا جانشین معین کرکے ہر قسم کے اختلاف کا سد باب کردیتے اور ایک مستحکم دفاعی نظام تشکیل دیتے ہوئے اسلامی وحدت کو دوام بخشتے اگر

____________________

(۱)فروغ ابدیت ، مولف استاد جعفر سبحانی(اقتباس)

۱۵۵

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنا کوئی خلیفہ معین نہ فرماتے تو عالم اسلام کو شدید قسم کے ناگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجة ہر گروہ یہ کہنے لگتا کہ خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہئے.

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثیں

اجتماعی حالات کے تقاضوںاور چند دوسری وجوہات کی بنیاد پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اول بعثت سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنی جانشینی کے مسئلے کو بیان فرمایا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ میں جہاں اپنی رسالت کا اعلان فرمایا وہیں اپنے جانشین کو بھی معین فرما دیا تھا اور اسی طرح اپنی زندگی کے آخری ایام میں حجة الوداع سے لوٹتے وقت غدیر خم کے میدان میں اپنے جانشین کا اعلان فرمایا تھا اورنہ صرف ان دو مقامات پر بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی ساری زندگی کے دوران مختلف مقامات پر اپنے جانشین کی شناخت کراتے رہے مزید تفصیلات کے لئے اسی کتاب میں تیسرے سوال کے جواب کا مطالعہ فرمائیں ہم نے وہاں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیثوںکے تین ایسے نمونے ذکر کئے ہیں جن میں آنحضرت کے جانشنین کا تذکرہ ہے وہاں ہم نے ان حدیثوں کے ماخذ بھی ذکر کئے ہیں

صدر اسلام کے حالات اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان حدیثوں (جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا ہے) کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ خلیفہ خدا و رسول ہی کی طرف سے معین ہوتا ہے۔

۱۵۶

چوبیسواں سوال

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟

جواب: لفظ توحید اور شرک کے معنی جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی آیات اورحدیثوںکا مطالعہ کیا جائے کیونکہ قرآن مجید اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق کو باطل سے اور توحید کو شرک سے جدا کرنے کا بہترین معیار ہیں

اس بنیاد پر بہتر ہے کہ ہر قسم کے نظریہ اور عمل کو قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روشنی میں زندہ اور بے تعصب ضمیر کے ساتھ پرکھیں اب ہم یہاں پر قرآن و سنت سے غیر خدا کی قسم کھانے کے جائز ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے :

۱۔قرآن مجید میں چند محترم مخلوقات جیسے''پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''اور ''روح انسان'' ''قلم'' ''سورج'' ''چاند'' ''ستارے'' ''دن اور رات'' ''آسمان اور زمین'' ''زمانے'' ''پہاڑ اور سمندر'' وغیرہ کی قسم کھائی گئی ہے یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :

الف: (لَعَمْرُکَ ِانَّهُمْ لَفِى سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُونَ )( ۱ )

____________________

(۱)سورہ حجر آیت ۷۲

۱۵۷

(پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !) آپ کی جان کی قسم یہ لوگ اپنی خواہش نفس کے نشے میں اندھے ہورہے ہیں

ب: (وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ ِاذَا تَلاَهَا وَالنَّهَارِ اِذَا جَلاَّهَا وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشَاهَا وَالسَّمَائِ وَمَا بَنَاهَا وَالَْرْضِ وَمَا طَحَاهَا وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَاَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ... )( ۱ )

آفتاب اور اس کی روشنی کی قسم. اور چاند کی قسم جب وہ اس کے پیچھے چلے. اور دن کی قسم جب وہ روشنی بخشے.اور رات کی قسم جب وہ اسے ڈھانک لے اور آسمان کی قسم اور جس نے اسے بنایا. اور زمین کی قسم اور جس نے اسے بچھایا اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا. پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے.

ج: (وَالنَّجْمِ اِذَا هَوَی )( ۲ )

قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا.

د: (وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ )( ۳ )

____________________

(۱)سورہ شمس آیت ۱ تا ۸

(۲)سورہ نجم آیت:۱

(۳)سورہ قلم آیت:۱

۱۵۸

ھ: (وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنسَانَ لَفِى خُسْرٍ )( ۱ )

قسم ہے عصر کی بے شک انسان خسارے میں ہے.

و: (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ )( ۲ )

قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی.

ز: (وَالطُّورِ وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ فِى رَقٍّ مَنْشُورٍ وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِة وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ وَالْبَحْرِ الْمَسْجُور )( ۳ )

طور کی قسم. اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم جو کشادہ اوراق میں ہے اور بیت معمور کی قسم اور بلند چھت (آسمان)کی قسم. اور بھڑکتے ہوئے سمند ر کی قسم.

اسی طرح ان سورتوں '' نازعات'' ''مرسلات '' ''بروج'' ''طارق'' ''بلد'' ''تین'' ''ضحی'' میں بھی دنیا کی مختلف اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں

اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہوتا تو اس قرآن مجید میں جو توحید کا مظہر ہے ، ہر گز غیر خدا کی قسمیں نہ کھائی جاتیں اور اگر اس قسم کی قسمیں کھانا صرف خداوند کی

____________________

(۱)سورہ عصر آیت ۱ ا ور۲.

(۲)سورہ فجر آیت : ۱ اور ۲.

(۳)سورہ طور آیت نمبر ۱ سے ۶ تک.

۱۵۹

خصوصیات میں سے ہوتا تو قرآن مجیدمیں ضرور اس بات کی طرف متوجہ کرادیا جاتا تاکہ بعدمیں کسی کو دھوکہ نہ ہو

۲۔دنیا کے سارے مسلمان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے لئے اسوہ عمل سمجھتے ہیں اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو حق اور باطل کی شناخت کے لئے میزان قرار دیتے ہیں

عالم اسلام کے محققین اور اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں کے مؤلفین نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی ایسی قسموں کو نقل کیا ہے جو حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غیر خدا کے نام سے کھائی تھیں.

احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں روایت کی ہے :

''فلعمر لأن تتکلم بمعروف و تنهیٰ عن منکر خیر من أن تسکت'' ..( ۱ )

میری جان کی قسم ! تمہارے خاموش رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ تم امر بمعروف اور نھی از منکر کرو.

مسلم بن حجاج کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے کہ :

جاء رجل اِلی النبى فقال: یا رسول اللّه أّ الصدقة أعظم أجرًا؟ فقال: أما و أبیک لتنبأنّه أن تصدق و أنت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمل البقائ .....( ۲ )

____________________

(۱)مسند احمد جلد ۵ ص ۲۲۴ اور ۲۲۵ حدیث بشیر ابن خصاصیہ سدوسی.

(۲)صحیح مسلم، جزء سوم ، طبع مصر ، کتاب الزکاة، باب بیان ان افضل الصدقة ، صدقة الصحیح الشحیح، ص ۹۳ اور ۹۴

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

۳۴۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

۳۴۶ - وقَالَعليه‌السلام مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُه السُّؤَالُ - فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُه.

۳۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الِاسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ - والتَّقْصِيرُ عَنِ الِاسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

۳۴۸ - وقَالَعليه‌السلام أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِه صَاحِبُه.

۳۴۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِه اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِه

(۳۴۵)

گناہوں تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک طرح کی پاکدامنی(۱) ہے۔

(۳۴۶)

تمہاری آبرو محفوظ ہے اور سوال اسے مٹا دیتا ہے لہٰذا یہ دیکھتے رہو کہ کس کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہو اور آبرو کا سودا کررہے ہو ۔

(۳۴۷)

استحقاق سے زیادہ تعریف کرناخوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرناعاجزی ہے یا حسد۔

(۳۴۸)

سب سے سخت گناہوہ ہے جسے گناہ گار ہلکا(۲) قراردیدے ۔

(۳۴۹)

جواپنے عیب پر نگاہ رکھتا ہے وہ دوسروں کے عیب سے غافل ہو جاتا ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہوں کے بارے میں شریعت کامطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان ان سے اجتناب کرے اور ان میں مبتلا نہ ہونے پائے چاہے اس کا سبب اس کا تقدس ہو یا مجبوری۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے اختیار سے گناہوں کا ترک کردینے والا مستحق اجرو ثواب بھی ہوسکتا ہے اور مجبور اً ترک کردینے والا کس اجرو ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۲)غیر معصوم انسان کی زندگی کے بارے میں گناہوں کے امکانات توہمہ وقت رہتے ہیں لیکن انسان کی شرافت نفس یہ ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تواسے گناہ تصور کرے اور اس کی تلافی کی فکر کرے ورنہ اگر اسے خفیف اور ہلکا تصور کرلیا تو یہ دوسرا گناہ ہوگا جو پہلے گناہ سے بد تر ہوگا کہ پہلا گناہنفس کی کمزوری سے پیداہواتھا اور یہ ایمان اور عقیدہ کی کمزوری سے پیدا ہوا ہے۔

۷۴۱

- ومَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللَّه لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَه - ومَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِه - ومَنْ كَابَدَ الأُمُورَ عَطِبَ - ومَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ - ومَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ - ومَنْ كَثُرَ كَلَامُه كَثُرَ خَطَؤُه - ومَنْ كَثُرَ خَطَؤُه قَلَّ حَيَاؤُه - ومَنْ قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُه - ومَنْ قَلَّ وَرَعُه مَاتَ قَلْبُه - ومَنْ مَاتَ قَلْبُه دَخَلَ النَّارَ - ومَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا - ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِه فَذَلِكَ الأَحْمَقُ بِعَيْنِه - والْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ - ومَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ - رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ - ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَه مِنْ عَمَلِه - قَلَّ كَلَامُه إِلَّا فِيمَا يَعْنِيه.

۳۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلَاثُ عَلَامَاتٍ - يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَه بِالْمَعْصِيَةِ - ومَنْ دُونَه بِالْغَلَبَةِ

اور جو رزق خدا پر راضی رہتا ہے وہ کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔جو بغاوت کی تلوار کھینچتا ہے خوداسی سے ماراجاتا ہے اور جواہ امورکو زبر دستی انجام دیناچاہتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے لہروں میں پھاند پڑنے والا ڈوب جاتا ہے اورغلط جگہوں پردخل ہونے والا بدنام ہو جاتا ہے۔جس کی باتیں زیادہ ہوتیںہیں اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اورجس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیاکم ہو جاتی ہے اورجس کی حیاکم ہو جاتی ہے اس کا تقویٰ بھی کم ہوجاتا ہے اورجس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کادل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کادل مردہ ہوجاتا ہے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔

جولوگوں کے عیب کو دیکھ کرناگواری کا اظہارکرے اورپھراسی عیب کو اپنے لئے پسند کرلے تو اسی کو احمق کہا جاتا ہے ۔

قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جوختم ہونے والا نہیں ہے۔

جوموت کو برابر یاد کرتا رہتا ہے وہ دنیا کے مختصر حصہ پر بھی راضی ہو جاتا ہے۔اور جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام بھی عمل کا ایک حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ کلام نہیں کرتا ہے۔

(۳۵۰)

لوگوں میں ظالم کی تین علامات ہوتی ہیں۔اپنے سے بالاتر پر معصیت کے ذریعہ ظلم کرتا ہے۔اپنے سے کمتر پرغلبہ و قہر کے ذریعہ ظلم کرتا ہے اور پھر ظالم قوم کی

۷۴۲

ويُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَةَ

۳۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عِنْدَ تَنَاهِي الشِّدَّةِ تَكُونُ الْفَرْجَةُ - وعِنْدَ تَضَايُقِ حَلَقِ الْبَلَاءِ يَكُونُ الرَّخَاءُ.

۳۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه - لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ ووَلَدِكَ - فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ ووَلَدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَه - وإِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّه فَمَا هَمُّكَ وشُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّه.

۳۵۳ - وقَالَعليه‌السلام أَكْبَرُ الْعَيْبِ أَنْ تَعِيبَ مَا فِيكَ مِثْلُه

حمایت(۱) کرتا ہے۔

(۳۵۱)

سختیوں کی انتہا ہی پر کشائش حال پیدا ہوتی ہے اور بلائوں کے حلقوں کی تنگی ہی کے موقع پرآسائش(۲) پیدا ہوتی ہے۔

(۳۵۲)

اپنے بعض اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا: زیادہ حصہ بیوی بچوں کی فکرمیں مت رہا کرو کہ اگر یہ اللہ کے دوست ہیں تواللہ انہیں(۳) برباد نہیں ہونے دے گا اور اگراس کے دشمن ہیں تو تم دشمنان خدا کے بارے میں کیوں فکر مند ہو۔

(مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے دائرہ سے باہرنکل کر سماج اورمعاشرہکے بارے میں بھی فکر کرے ۔صرف کنویں کامینڈک بن کرنہ رہ جائے )

(۳۵۳)

بد ترین عیب یہ ہے کہ انسان کسی عیب کو برا کہے اور پھر اس میں وہی عیب پایا جاتا ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ صرف ظلم کرنا ہی ظلم نہیں ہے بلکہ ظالم کی حمایت بھی ایک طرح کا ظلم ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس ظلم سے بھی محفوظ رہے اور مکمل عادلانہ زندگی گذارے اور ہر شے کو اسی مقام پر رکھے جو اس کا محل اورموقع ہے۔

(۲)مقصد یہ ے کہ انسان کو سختیوں اور تنگیوں میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حوصلہ کو بلند رکھنا چاہیے اور سر گرم عمل رہنا چاہیے کہ قرآن کریم نے سہولت کو تنگی اورزحمت کے بعد نہیں رکھا ہے بلکہ اسی کے ساتھ رکھاہے '' ان مع الیسر یسرا ''

(۳)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے انسان اہل و عیال کی طرف سے یکسر غافل و جائے اورانہیں پروردگار کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔پروردگار کا رحم و کرم ماں باپ سے یقینا زیادہ ہے لیکن ماں باپ کی اپنی بھی ایک ذمہداری ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بقدرواجب خدمت کرکے باقی معاملات کو پروردگار کے حوالہ کردے اوران کی طرف سراپا توجہ بن کر پروردگار سے غافل نہ ہو جائے ۔

۷۴۳

۳۵۴ - وهَنَّأَ بِحَضْرَتِه رَجُلٌ رَجُلًا بِغُلَامٍ وُلِدَ لَه - فَقَالَ لَه لِيَهْنِئْكَ الْفَارِسُ - فَقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ ذَلِكَ - ولَكِنْ قُلْ شَكَرْتَ الْوَاهِبَ - وبُورِكَ لَكَ فِي الْمَوْهُوبِ - وبَلَغَ أَشُدَّه ورُزِقْتَ بِرَّه.

۳۵۵ - وبَنَى رَجُلٌ مِنْ عُمَّالِه بِنَاءً فَخْماً - فَقَالَعليه‌السلام أَطْلَعَتِ الْوَرِقُ رُءُوسَهَا - إِنَّ الْبِنَاءَ يَصِفُ لَكَ الْغِنَى.

۳۵۶ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ سُدَّ عَلَى رَجُلٍ بَابُ بَيْتِه وتُرِكَ فِيه - مِنْ أَيْنَ كَانَ يَأْتِيه رِزْقُه - فَقَالَعليه‌السلام مِنْ حَيْثُ يَأْتِيه أَجَلُه.

۳۵۷ - وعَزَّى قَوْماً عَنْ مَيِّتٍ مَاتَ لَهُمْ فَقَالَعليه‌السلام - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لَيْسَ لَكُمْ بَدَأَ - ولَا إِلَيْكُمُ انْتَهَى - وقَدْ كَانَ صَاحِبُكُمْ

(۳۵۴)

حضرت کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو فرزند کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ شہسوار مبارک ہو۔توآپ نے فرمایا کہ یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ تم نے دینے والے کا شکریہ ادا کیاہے لہٰذا تمہیں یہ تحفہ مبارک ہو۔خداکرے کہ یہ منزل کمال تک پہنچے اور تمہیں اس کی نیکی نصیب ہو۔

(۳۵۵)

آپ کے عمال میں سے ایک شخص نے عظیم عمارت تعمیر کرلی تو آپ نے فرمایا کہ چاندی کے سکوں نے سر نکال لیا ہے ۔یقینا یہ تعمیر تمہاری مالداری کی غمازی کرتی ہے۔

(۳۵۶)

کسی نے آپ سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کے گھر کادروازہ بند کردیا جائے اوراسے تنہا چھوڑ دیا جائے تو اس کا رزق کہاں سے آئے گا ؟ فرمایا کہ جہاں سے اس کی موت آئے گی ۔

(۳۵۷)

ایک جماعت کو کسی مرنے والے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات تمہارے یہاں کوئی نئی نہیں ہے اور نہ تمہیں پر اس کی انتہا ہے۔تمہارا یہ ساتھی سر

۷۴۴

هَذَا يُسَافِرُ فَعُدُّوه فِي بَعْضِ أَسْفَارِه - فَإِنْ قَدِمَ عَلَيْكُمْ وإِلَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْه.

۳۵۸ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ لِيَرَكُمُ اللَّه مِنَ النِّعْمَةِ وَجِلِينَ - كَمَا يَرَاكُمْ مِنَ النِّقْمَةِ فَرِقِينَ - إِنَّه مَنْ وُسِّعَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اسْتِدْرَاجاً فَقَدْ أَمِنَ مَخُوفاً - ومَنْ ضُيِّقَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اخْتِبَاراً فَقَدْ ضَيَّعَ مَأْمُولًا

۳۵۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَسْرَى الرَّغْبَةِ أَقْصِرُوا ،فَإِنَّ الْمُعَرِّجَ عَلَى الدُّنْيَا لَا يَرُوعُه مِنْهَا - إِلَّا صَرِيفُ أَنْيَابِ الْحِدْثَانِ أَيُّهَا النَّاسُ تَوَلَّوْا مِنْ أَنْفُسِكُمْ تَأْدِيبَهَا - واعْدِلُوا بِهَا عَنْ ضَرَاوَةِ عَادَاتِهَا.

گرم سفر رہا کرتاتھا تو سمجھو کہ یہ بھی ایک سفر ہے اس کے بعد یا وہ تمہارے پاس وارد ہوگا یاتم اس کے پاس وارد ہوگے۔

(۳۵۸)

لوگو! اللہ نعمت کے موقع پر بھی تمہیں(۱) ویسے ہی خوفزدہ دیکھے جس طرح عذاب کے معاملہ میں ہراساں دیکھتا ہے کہ جس شخص کو فراخدستی حاصل ہو جائے اور وہ اسے عذاب کی لپیٹ نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے بھی اپنے کومطمئن سمجھ لیا ہے اور جو تنگدستی میں مبتلا ہو جائے اوراسے امتحان نہ سمجھے اس نے اس ثواب کوبھی ضائع کردیا جس کی امید کی جاتی ہے۔

(۳۵۹)

اے حرص و طمع کے اسیرو!اب باز آجائو۔کہ دنیا پر ٹوٹ پڑنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے کے علاوہ کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا ہے ۔

اے لوگو! اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری خود سنبھال لو اور اپنی عادتوں کے تقاضوں(۲) سے منہ موڑ لو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ زندگانی کے دونوں طرح کے حالات میں دونوں طرح کے احتمالات پائے جاتے ہیں۔راحت وآرام میں امکان فضل و کرم بھی ہے اور احتمال مہلت و اتمام حجت بھی ہے اور اسی طرح مصیبت اور پریشانی کے ماحول میں احتمال عتاب و عقاب بھی ہے اور احتمال امتحان و اختیار بھی ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ راحتوں کے ماحول میں اس خطرہ سے محفوظ نہ ہو جائے کہ اس طرح بھی قوموں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور پریشانیوں کے حالات میں اس رخ سے غافل نہ ہو جائے کہ یہ امتحان بھی ہوسکتا ہے اوراس میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرکے اجرو ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ خواہشات کے اسیر نہ بنواور دنیا کا اعتبارنہکرو۔انجام کار کی زحمتوں سے ہوشیار رہو اور اپنے نفس کواپنے قابو میں رکھو تاکہ بیجا رسوم اورمہمل عادات کا اتباع نہ کرو۔

۷۴۵

۳۶۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ أَحَدٍ سُوءاً - وأَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا.

۳۶۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَتْ لَكَ إِلَى اللَّه سُبْحَانَه حَاجَةٌ - فَابْدَأْ بِمَسْأَلَةِ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ثُمَّ سَلْ حَاجَتَكَ - فَإِنَّ اللَّه أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ حَاجَتَيْنِ - فَيَقْضِيَ إِحْدَاهُمَا ويَمْنَعَ الأُخْرَى.

۳۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَنَّ بِعِرْضِه فَلْيَدَعِ الْمِرَاءَ

۳۶۳ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْخُرْقِ الْمُعَاجَلَةُ قَبْلَ الإِمْكَانِ - والأَنَاةُ بَعْدَ الْفُرْصَةِ

(۳۶۰)

کسی کی بات کے غلط معنی(۱) نہ لو جب تک صحیح معنی کا امکان موجود ہے۔

(۳۶۱)

اگر پروردگار کی بار گاہ(۲) میں تمہاری کوئی حاجت ہو تو اس کی طلب کا آغاز رسو ل اکرم (ص) پر صلوات سے کرو اور اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرو کہ پروردگار اس بات سے بالاتر ہے کہ اس سے دو باتوں کا سوال کیا جائے اور وہ ایک کو پورا کردے اور ایک کو نظر انداز کردے ۔

(۳۶۲)

جو اپنی آبرو کو بچانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے۔

(۳۶۳)

کسی بات کے امکان سے پہلے جلدی کرنا اور وقت آجانے پر دیر کرنا دونوں ہی حماقت ہے۔

(۱)کاش ہر شخص اس تعلیم کو اختیار کرلیتا تو سماج کے بے شمارمفاسد سے نجات مل جاتی اور دنیامیں فتنہ و فساد اکثر راستے بند ہو جاتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے اورہر شخص دوسرے کے بیان میں غلط پہلو پہلے تلاش کرتا ہے اور صحیح رخ کے بارے میں بعد میں سوچتا ہے۔

(۲)یہ صحیح ہے کہ رسول اکرم (ص) ہماری صلوات اوردعائے رحمت کے محتاج نہیں ہیں لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے ادائے شکر سے غافل ہو جائیں اور ان کی طرف سے ملنے والی نعمت ہدایت کا کسی شکل میں کوئی بدلہ دیں۔ورنہ پروردگار بھی ہماری عبادتوں کامحتاج نہیں ہے تو ہر انسان عبادتوں کو نظراندازکرکے چین سے سوجائے ۔صلوات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پروردگار کی نظر عنایت کا حقدار ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی دعائیں قابل قبول ہو جاتی ہیں۔

۷۴۶

۳۶۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَا يَكُونُ - فَفِي الَّذِي قَدْ كَانَ لَكَ شُغُلٌ

۳۶۵ - وقَالَعليه‌السلام الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ والِاعْتِبَارُ مُنْذِرٌ نَاصِحٌ - وكَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَه لِغَيْرِكَ.

۳۶۶ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ مَقْرُونٌ بِالْعَمَلِ فَمَنْ عَلِمَ عَمِلَ - والْعِلْمُ يَهْتِفُ بِالْعَمَلِ - فَإِنْ أَجَابَه وإِلَّا ارْتَحَلَ عَنْه.

(۳۶۴)

جو بات ہونے والی نہیں ہے۔اس کے بارے میں سوال مت کرو کہ جو ہوگیا ہے وہی تمہارے لئے کافی ہے۔

(۳۶۵)

فکر(۱) ایک شفاف آئینہ ہے اورعبرت حاصل کرنا ایک انتہائی مخلص متنبہ کرنیوالا ے۔تمہارے نفس کے ادب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو دوسروں کے لئے نا پسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔

(۳۶۶)

علم کا مقدر عمل(۲) سے جڑا ہوا ہے اورجو واقعی صاحب علم ہوتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے۔یاد رکھو کہ علم عمل کے لئے آوازدیتا ہے اور انسان سن لیتا ہے تو خیر ورنہ خود بھی رخصت ہو جاتا ہے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فکر ایک شفاف آئینہ ہے جس میں بآسانی مجہولات کاچہرہ دیکھ لیا جاتا ہے اور اہل منطق نے اس کی یہی تعریف کی ہے کہ معلومات کی اس طرح مرتب کیا جائے کہ اس سے مجہولات کاعلم حاصل ہو جائے ۔لیکن صرف مستقبل کاچہرہ دیکھ لینا ہی کوئی ہنرنہیں ہے۔اصل ہنر اور کام اس سے عبرت حاصل کرنا ہے کہ انسان کے حق میں عبرت سے زیادہ مخلص نصیحت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور یہی عبرت ہے جو اسے ہر برائی اور مصیبت سے بچا سکتی ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی یہ کار خیر انجام دینے والا نہیں ہے۔

(۲)بلا شک و شبہ علم ایک کمال ہے اور مجہولات کاحاصل کرلینا ایک ہنر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے با کمال اور صاحب ہنر کس طرح کہاجاسکتا ہے جو یہ تودریافت کرلے کہ فلاں چیز میں زہر ہے مگر اس سے اجتناب نہ کرے۔ایسے شخص کو تو مزید احمق اور نالائق تصور کیا جاتا ہے۔

علم کا کمال ہی یہ ہے کہ انسان اس کے مطابق عمل کرے تاکہ صاحب علم اور صاحب کمال کہے جانے کاحقدار ہو جائے ورنہ علم ایک وبال ہو جائے گا اوراپنی ناقدری سے ناراض ہو کر رخصت بھی ہو جائے گا۔صرف نام علم باقی رہ جائے گا ور حقیقت علم ختم ہو جائے گی۔

۷۴۷

۳۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَتَاعُ الدُّنْيَا حُطَامٌ مُوبِئٌ - فَتَجَنَّبُوا مَرْعَاه قُلْعَتُهَا أَحْظَى مِنْ طُمَأْنِينَتِهَا - وبُلْغَتُهَا أَزْكَى مِنْ ثَرْوَتِهَا - حُكِمَ عَلَى مُكْثِرٍ مِنْهَا بِالْفَاقَةِ - وأُعِينَ مَنْ غَنِيَ عَنْهَا بِالرَّاحَةِ - مَنْ رَاقَه زِبْرِجُهَا أَعْقَبَتْ نَاظِرَيْه كَمَهاً - ومَنِ اسْتَشْعَرَ الشَّغَفَ بِهَا مَلأَتْ ضَمِيرَه أَشْجَاناً - لَهُنَّ رَقْصٌ عَلَى سُوَيْدَاءِ قَلْبِه - هَمٌّ يَشْغَلُه وغَمٌّ يَحْزُنُه - كَذَلِكَ حَتَّى يُؤْخَذَ بِكَظَمِه فَيُلْقَى بِالْفَضَاءِ مُنْقَطِعاً أَبْهَرَاه - هَيِّناً عَلَى اللَّه فَنَاؤُه وعَلَى الإِخْوَانِ إِلْقَاؤُه - وإِنَّمَا يَنْظُرُ الْمُؤْمِنُ إِلَى الدُّنْيَا بِعَيْنِ الِاعْتِبَارِ - ويَقْتَاتُ مِنْهَا بِبَطْنِ الِاضْطِرَارِ - ويَسْمَعُ فِيهَا بِأُذُنِ الْمَقْتِ والإِبْغَاضِ - إِنْ قِيلَ أَثْرَى قِيلَ أَكْدَى - وإِنْ فُرِحَ لَه بِالْبَقَاءِ حُزِنَ لَه

(۳۶۷)

ایہاالناس! دنیا کا سرمایہ ایک سڑفا بھوسہ ہے جس سے وباء پھیلنے والی ہے لہٰذا اس کی چراگاہ سے ہوشیار رہو اس دنیا سے چل چلائو سکون کے ساتھ رہنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اور یہاں کابقدر ضرورت سامان ثروت سے زیادہ برکت والا ہے ۔یہاں کے دولت مند کے بارے میں ایک دن احتیاج لکھ دی گئی ہے اوراس سے بے نیاز رہنے والے کو راحت کا سہارا دے دیا جاتا ہے ۔جسے اس کی زینت پسندآگئی اس کی آنکھوں کوانجام کاری ہ اندھا کردیتی ہے اورجس نے اس سے شغف کو شعار بنا لیا اس کے ضمیر کو رنج و اندوہ سے بھردیتی ہے اور یہ فکریں اس کے نقطہ قلب کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں بعض اسے مشغول بنالیتی ہیں اور بعض محزون بنادیتی ہیں اور یہ سلسلہ یوں ہی قائم رہتا ہے یہاں تک کہاس کا گلا گھونٹ دیا جائے اوراسے فضائ( قبر) میں ڈال دیا جائے جہاں دل کی دونوں رگیں کٹ جائیں۔خداکے لئے اس کا فناکردینا بھی آسان ہے اور بھائیوںکے لئے اسے قبر میں ڈال دینابھی مشکل نہیں ہے۔مومن وہی ہے جو دنیاکی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت بھر سامان پر گذارا کر لیتا ہے۔اس کی باتوں کہ عداوت و نفرت کے کانوں سے سنتا ہے۔کہ جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مالدار ہوگیا ہے تو فوراً آوازآتی ہے کہ نادار ہوگیا ہے۔اور جب کسی کو بقا کے تصور سے مسرور کیا جاتا ہے تو فناکے خیال سے رنجیدہ بنادیاجاتاہے

۷۴۸

بِالْفَنَاءِ - هَذَا ولَمْ يَأْتِهِمْ يَوْمٌ فِيه يُبْلِسُونَ

۳۶۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وَضَعَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِه - والْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِه ذِيَادَةً لِعِبَادِه عَنْ نِقْمَتِه - وحِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِه.

۳۶۹ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ - لَا يَبْقَى فِيهِمْ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُه - ومِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه - ومَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ - خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى - سُكَّانُهَا وعُمَّارُهَا شَرُّ أَهْلِ الأَرْضِ - مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وإِلَيْهِمْ تَأْوِي الْخَطِيئَةُ - يَرُدُّونَ مَنْ شَذَّ عَنْهَا فِيهَا - ويَسُوقُونَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا إِلَيْهَا - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه فَبِي حَلَفْتُ - لأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ - وقَدْ فَعَلَ ونَحْنُ نَسْتَقِيلُ اللَّه عَثْرَةَ الْغَفْلَةِ.

۔اور یہ سباس وقت ہے جب ابھی وہ دن نہیں آیا ہے جب دن اہل دنیا مایوسی کاشکار ہوجائیں گے۔

(۳۶۸)

پروردگار عالم نے اطاعت پر ثواب اور معصیت پر عقاب اسی لئے رکھا ہے تاکہ بندوں کو اپنے غضب سے دور رکھ سکے اور انہیں گھیر جنت کی طرف لے آئے ۔

(۳۶۹)

لوگوں پر ایک ایسا دوربھی آنے والا ہے جب قرآن صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا مسجدیں(۱) تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔اس کے رہنے والے اورآباد کرنے والے سب بد ترین اہل زمانہ ہوں گے۔انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اورانہیں کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جودور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کرلے آئیں گے

پروردگار کا ارشاد ہے کہ میری ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایک ایسے فتنہ کو مسلط کردوں گا جو صاحب عقل کوبھی حیرت زدہ بنادے گا اور یہ یقینا ہو کر رہے گا۔ہم اس کی بارگاہ میں غفلتوں کی لغزشوں سے پناہ چاہتے ہیں۔

(۱)شائد کہ ہمارا دور اس ارشاد گرامی کا بہترین مصداق ہے جہاں مساجد کی تعمیر بھی ایک فیشن ہوگئی ہے اور اس کا اجتماع بھی ایک فنکشن ہو کر رہ گیا ہے ۔روح مسجد فنا ہوگئی ہے اور مساجد سے وہ کام نہیں لیا جا رہا ہے جو مولائے کائنات کے دور میں لیا جارہا تھا جہاں اسلام کی ہر تحریک کا مرکز مسجد تھی اورباطل سے ہر مقابلہ کامنصوبہ مسجد میں تیار ہوتا تھا۔لیکن آج مسجدیں صرف حکومتوں کے لئے دعائے خیر کامرکز ہیں اور ان کی شخصیتوں کے پروپگینڈہ کابہترین پلیٹ فارم ہیں۔رب کریم اس صورت حال کی اصلاح فرمائے ۔!

۷۴۹

۳۷۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام قَلَّمَا اعْتَدَلَ بِه الْمِنْبَرُ - إِلَّا قَالَ أَمَامَ الْخُطْبَةِ - أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه - فَمَا خُلِقَ امْرُؤٌ عَبَثاً فَيَلْهُوَ - ولَا تُرِكَ سُدًى فَيَلْغُوَ - ومَا دُنْيَاه الَّتِي تَحَسَّنَتْ لَه بِخَلَفٍ - مِنَ الآخِرَةِ الَّتِي قَبَّحَهَا سُوءُ النَّظَرِ عِنْدَه - ومَا الْمَغْرُورُ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الدُّنْيَا بِأَعْلَى هِمَّتِه - كَالآخَرِ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الآخِرَةِ بِأَدْنَى سُهْمَتِه

۳۷۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا شَرَفَ أَعْلَى مِنَ الإِسْلَامِ - ولَا عِزَّ أَعَزُّ مِنَ التَّقْوَى - ولَا مَعْقِلَ أَحْسَنُ مِنَ الْوَرَعِ - ولَا شَفِيعَ أَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَا كَنْزَ أَغْنَى مِنَ الْقَنَاعَةِ - ولَا مَالَ أَذْهَبُ لِلْفَاقَةِ مِنَ الرِّضَى بِالْقُوتِ - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى بُلْغَةِ الْكَفَافِ - فَقَدِ انْتَظَمَ الرَّاحَةَ وتَبَوَّأَ خَفْضَ الدَّعَةِ - والرَّغْبَةُ مِفْتَاحُ النَّصَبِ

ومَطِيَّةُ التَّعَبِ - والْحِرْصُ والْكِبْرُ والْحَسَدُ - دَوَاعٍ إِلَى التَّقَحُّمِ فِي الذُّنُوبِ - والشَّرُّ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوبِ.

(۳۷۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی منبر پرتشریف لے جاتے تھے تو خطبہ سے پہلے یہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔

لوگو! اللہ سے ڈرو۔اس نے کسی کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے کہ کھیل کود میں لگ جائے اور نہ آزاد چھوڑ دیا ہے کہ لغویتیں کرنے لگے۔یہ دنیا جو انسان کی نگاہ میں آراستہ ہوگئی ہے یہ اس آخرت کا بدل نہیں بن سکتی ہے جسے بری نگاہ نے قبیح بنادیا ہے ۔جو فریب خوردہ دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ اس کا جیسا نہیں ہے جو آخرت میں ادنیٰ حصہ بھی حاصل کرلے ۔

(۳۷۱)

اسلام سے بلند تر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزت کوئی عزت نہیں ہے۔پرہیز گاری سے بہترکوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کامیاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قناعت سے زیادہ مالدار بنانے والا کوئی خزانہ نہیں ہے اور روزی پر راضی ہو جانے سے زیادہ فقر و فاقہ کو دورکرنے والا نہیں ہے ۔

جس نے بقدرکفایت سامان پرگذارا کرلیا اس نے راحت کو حاصل کرلیا اور سکون کی منزل میں گھر بنالیا۔

خواہش رنج و تکلیف کی کنجی اور تکان و زحمت کی سواری ہے۔

حرص ' تکبر اورحسد گناہوں میں کود پڑنے کے اسباب و محرکات ہیں اورش ر تمام برائیوں کاجامع ہے

۷۵۰

۳۷۲ - وقَالَعليه‌السلام لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه الأَنْصَارِيِّ - يَا جَابِرُ قِوَامُ الدِّينِ والدُّنْيَا بِأَرْبَعَةٍ - عَالِمٍ مُسْتَعْمِلٍ عِلْمَه - وجَاهِلٍ لَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وجَوَادٍ لَا يَبْخَلُ بِمَعْرُوفِه - وفَقِيرٍ لَا يَبِيعُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه - فَإِذَا ضَيَّعَ الْعَالِمُ عِلْمَه - اسْتَنْكَفَ الْجَاهِلُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وإِذَا بَخِلَ الْغَنِيُّ بِمَعْرُوفِه - بَاعَ الْفَقِيرُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه.

يَا جَابِرُ مَنْ كَثُرَتْ نِعَمُ اللَّه عَلَيْه - كَثُرَتْ حَوَائِجُ النَّاسِ إِلَيْه - فَمَنْ قَامَ لِلَّه فِيهَا بِمَا يَجِبُ فِيهَا عَرَّضَهَا لِلدَّوَامِ والْبَقَاءِ ومَنْ لَمْ يَقُمْ فِيهَا بِمَا يَجِبُ عَرَّضَهَا لِلزَّوَالِ والْفَنَاءِ.

۳۷۳ - ورَوَى ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ فِي تَارِيخِه: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى الْفَقِيه - وكَانَ مِمَّنْ خَرَجَ لِقِتَالِ الْحَجَّاجِ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ - أَنَّه قَالَ فِيمَا كَانَ يَحُضُّ بِه النَّاسَ عَلَى الْجِهَادِ - إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيّاً رَفَعَ اللَّه دَرَجَتَه فِي الصَّالِحِينَ - وأَثَابَه ثَوَابَ الشُّهَدَاءِ والصِّدِّيقِينَ - يَقُولُ يَوْمَ لَقِينَا أَهْلَ الشَّامِ.

(۳۷۲)

آپ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا کہ جابر دین و دنیا کا قیام چارچیزوں سے ہے

وہ عالم جو اپنے علم کو استعمال بھی کرے اور وہ جاہل جو علم حاصل کرنے سے انکارنہ کرے وہ سختی جو اپنی نیکیوں میں بخل نہ کرے ۔اور فقیرو جو اپنی آخرت کو دنیاکے عوض فروخت نہ کرے ۔

لہٰذا ( یاد رکھو ) اگر عالم اپنے کوبرباد کردے گا تو جاہل بھی اس کے حصول سے اکڑ جائے گا اور اگر غنی اپنی نیکیوں میں بخل کرے گا توفقیر بھی آخرت کو دنیاکے عوض بیچنے پرآمادہ ہو جائے گا۔

جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرفرلوگوں کی احتیاج بھی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے مال میں اللہ کے فرائض کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اس کی بقا و دوام کا سامان فراہم کرلیتا ہے اورجوان وابجات کوادا نہیں کرتا ہے وہ اسے زوال و فنا کے راستہ پر لگا دیتا ہے ۔

(۳۷۳)

ابن جریر طبری نے اپنی تریخ میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے جو حجاج سے مقابلہ کرنے کے لئے ابن اشعث سے نکلا تھا اور لوگوں کوجہاد پرآمادہ کر رہا تھا کہ میں نے حضرت علی ( خداصالحین میں ان کے درجات کو کا ثواب عنایت کرے ) سے اسدن سنا ہے جب ہم لوگ شام والوں سے مقابلہ کر رہے تھے کہ حضرت نے فرمایا:

۷۵۱

أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ - إِنَّه مَنْ رَأَى عُدْوَاناً يُعْمَلُ بِه - ومُنْكَراً يُدْعَى إِلَيْه - فَأَنْكَرَه بِقَلْبِه فَقَدْ سَلِمَ وبَرِئَ - ومَنْ أَنْكَرَه بِلِسَانِه فَقَدْ أُجِرَ - وهُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِه - ومَنْ أَنْكَرَه بِالسَّيْفِ - لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّه هِيَ الْعُلْيَا وكَلِمَةُ الظَّالِمِينَ هِيَ السُّفْلَى - فَذَلِكَ الَّذِي أَصَابَ سَبِيلَ الْهُدَى - وقَامَ عَلَى الطَّرِيقِ ونَوَّرَ فِي قَلْبِه الْيَقِينُ.

۳۷۴ - وفِي كَلَامٍ آخَرَ لَه يَجْرِي هَذَا الْمَجْرَى: فَمِنْهُمُ الْمُنْكِرُ لِلْمُنْكَرِ بِيَدِه ولِسَانِه وقَلْبِه - فَذَلِكَ الْمُسْتَكْمِلُ لِخِصَالِ الْخَيْرِ - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِلِسَانِه وقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه - فَذَلِكَ مُتَمَسِّكٌ بِخَصْلَتَيْنِ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ - ومُضَيِّعٌ خَصْلَةً - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه ولِسَانِه - فَذَلِكَ الَّذِي ضَيَّعَ أَشْرَفَ الْخَصْلَتَيْنِ مِنَ الثَّلَاثِ - وتَمَسَّكَ بِوَاحِدَةٍ -

ایمان والو! جوشخص یہ دیکھے کہ ظلم و تعدی پر عمل ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور اپنے دل سے اس کا انکار کردے توگویا کہ محفو ظ رہ گیا اور بری(۱) ہوگیا۔اور اگر زبان سے انکار کردے تواجرکا حقداربھی ہوگیا کہ یہ صرف قلبی انکار سے بہتر صورت ہے اور اگر کوئی شخص تلوار کے ذریعہ اس کی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پستہو جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کے راستہ کو پالیا ہے اورسیدھے راستہ پر قائم ہوگیا ہے اور اس کے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہوگئی ہے۔

(۳۷۴)

( اسی موضوع سے متعلق دوسرے موقع پرارشاد فرمایا ) بعض لوگ منکرات کا انکار دل۔زبان اور ہاتھ سب سے کرتے ہیں تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اوردل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دوخصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک خصلت کو برباد کردیا ہے۔اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ زبان۔تو انہوں نے دوخصلتوں کو ضائع کردیا ہے اور صرف ایک کو پکڑ لیا ہے۔

(۱)اس فقرہ میں سلامتی اوربراء ت کامفہوم یہی ہے کہ منکرات کو برا سمجھنا اور اس سے راضی نہ ہونا انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے جس کا تقاضا اندر سے برابر جاری رہتا ہے لہٰذا اگر اس نے بیزاری کا اظہار کردیا توگویا فطرت کے سلیم ہونے کا ثبوت دے دیا اوراس فریضہ سے سبکدوش ہوگیا جو فطرت سلیم نے اس کے ذمہ عائد کیا تھا۔ورنہاگر ایسا بھی نہ کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ فطرت سلیم پرخارجی عناصر غالبآگئے ہیں اور انہوں نے بری الذمہ ہونے سے روک دیا ہے ۔

۷۵۲

ومِنْهُمْ تَارِكٌ لإِنْكَارِ الْمُنْكَرِ بِلِسَانِه وقَلْبِه ويَدِه - فَذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ - ومَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا والْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّه - عِنْدَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ - إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ - وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّه كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.

۳۷۵ - وعَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام يَقُولُ: أَوَّلُ مَا تُغْلَبُونَ عَلَيْه مِنَ الْجِهَادِ - الْجِهَادُ بِأَيْدِيكُمْ ثُمَّ بِأَلْسِنَتِكُمْ ثُمَّ بِقُلُوبِكُمْ - فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْ بِقَلْبِه مَعْرُوفاً ولَمْ يُنْكِرْ مُنْكَراً - قُلِبَ فَجُعِلَ أَعْلَاه أَسْفَلَه وأَسْفَلُه أَعْلَاه.

۳۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْحَقَّ ثَقِيلٌ مَرِيءٌ وإِنَّ الْبَاطِلَ خَفِيفٌ وَبِيءٌ

اوربعض وہ بھی ہیں جو دل۔زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکارنہیں کرتے ہیں تو یہ زندوں کی درمیان مردہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جوگہرے سمندر میں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے۔

اور ان تمام اعمال سے بلند تر عمل حاکم ظالم کے سامنے کلمۂ انصاف(۱) کااعلان ہے۔

(۳۷۵)

ابو حجیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امیر المومنین کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے تم ہاتھ کے جہاد میں مغلوب ہوگے اس کے بعد زبان کے جہادمیں اور اس کے بعد دل کے جہاد میں ۔مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر کسی شخص نے دل سے اچھائی کواچھا اوربرائی کو برا نہیں سمجھا تواسے اس طرح الٹ پلٹ دیاجائے گا کہ پست بلند ہو جائے اور بلند پست ہو جائے ۔

(۳۷۶)

حق ہمیشہ سنگین ہوتا ہے مگرخوشگوار ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ آسان ہوتا ہے مگرمہلک ہوتا ہے

(۱)تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثال ابن السکیت کاکردار ہے جہاں ان سے متوکل نے سردربار یہ سوال کرلیا کہ تمہاری نگاہ میں میرے دونوں فرزند معتبر اورموید بہترین یا علی کے دونوں فرزند حسن و حسین تو ابن السکیت نے سلطان ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا کہ حسن و حسین کاکیا ذکر ہے تیرے فرزند اور تو دونوں مل کرعلی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر نہیں ہیں۔

جس کے بعد متوکل نے حکم دے دیاکہ ان کی زبان کی گدی سے کھینچ لیا جائے اورابن السکیت نے نہایت درجہ سکون قلب کے ساتھ اس قربانی کو پیش کردیا اور اپنے پیشرو مثیم تمار۔حجر بن عدی۔عمروبن الحمق۔ابوذر۔عماریاسر اورمختار سے ملحق ہوگئے ۔

۷۵۳

۳۷۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَأْمَنَنَّ عَلَى خَيْرِ هَذِه الأُمَّةِ عَذَابَ اللَّه،لِقَوْلِه تَعَالَى -( فَلا يَأْمَنُ مَكْرَ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْخاسِرُونَ ) - ولَا تَيْأَسَنَّ لِشَرِّ هَذِه الأُمَّةِ مِنْ رَوْحِ اللَّه لِقَوْلِه تَعَالَى -( إِنَّه لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْكافِرُونَ ) .

۳۷۸ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ جَامِعٌ لِمَسَاوِئِ الْعُيُوبِ - وهُوَ زِمَامٌ يُقَادُ بِه إِلَى كُلِّ سُوءٍ.

۳۷۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ الرِّزْقُ رِزْقَانِ رِزْقٌ تَطْلُبُه -

(۳۷۷)

دیکھو اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں بھی عذاب سے مطمئن نہ ہو جانا کہ عذاب الٰہی کی طرف سے صرف خسارہ والے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اس امت کے بد ترین کے بارے میں بھی رحمت خداسے مایوس نہ ہو جانا کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف کافروں کا حصہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف ان گناہ گاروں سے ہے جن کا عمل انہیں سرحد کفر تک نہ پہنچا دے ورنہ کافر تو بہرحال رحمت خداسے مایوس رہتا ہے۔

(۳۷۸)

بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے۔اوریہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

(۳۷۰)

ابن آدم ! رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو اورایک رزق(۱) وہ ہے جو تم کو

(۱)اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ انسان محنت و مشقت چھوڑ دے اوراس امید میں بیٹھ جائے کہ رزق کی دوسری قسم بہرحال حاصل ہو جاے گی اوراسی پر قناعت کرلے گا ۔بلکہ یہ درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے یہاں محنت و مشقت بہرحال کرنا اوریہ انسان کے فرائض انسانیت وعبدیت میں شامل ہے لیکن اس کے بعد بھی رزق کا ایک حصہ ہے جو انسان کی محنت و مشقت سے بالاتر ہے اور وہ ان اسباب کے ذریعہ پہنچ جاتا ہے جن کا انسان تصوربھی نہیں کرتا ہے جس طرح کہ آپ گھر سے نکلیں اور کوئی شخص راستہ میں ایک گلاب پانی یا ایک پیالی چائے پلاے ۔ظاہر ہے کہ یہ پانی یا چائے نہ آپ کے حساب رزق کاکوئی حصہ ہے اور نہ آپنے اس کے لئے کوئی محنت کی ہے ۔یہ پروردگار کا ایک کر م ہے جوآپکے شامل حال ہوگیا ہے اور اس نے اس نکتہ کی وضاحت کردی کہ اگر زندگانی دنیا میں محنت ناکام بھی ہو جائے تو رزق کا سلسلہ بند ہونے والا نہیں ہے۔پروردگار کے پاس اپنے وسائل موجودہیں وہ ان وسائل سے رزق فراہم کردے گا۔وہ مسبب الاسباب ہے اسباب کا پابند نہیں ہے۔

۷۵۴

ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ فَإِنْ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - فَلَا تَحْمِلْ هَمَّ سَنَتِكَ عَلَى هَمِّ يَوْمِكَ - كَفَاكَ كُلُّ يَوْمٍ عَلَى مَا فِيه - فَإِنْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى سَيُؤْتِيكَ فِي كُلِّ غَدٍ جَدِيدٍ مَا قَسَمَ لَكَ - وإِنْ لَمْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَمَا تَصْنَعُ بِالْهَمِّ فِيمَا لَيْسَ لَكَ - ولَنْ يَسْبِقَكَ إِلَى رِزْقِكَ طَالِبٌ - ولَنْ يَغْلِبَكَ عَلَيْه غَالِبٌ - ولَنْ يُبْطِئَ عَنْكَ مَا قَدْ قُدِّرَ لَكَ.

قال الرضي وقد مضى هذا الكلام - فيما تقدم من هذا الباب - إلا أنه هاهنا أوضح وأشرح فلذلك كررناه - على القاعدة المقررة في أول الكتاب.

۳۸۰ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ مُسْتَقْبِلٍ يَوْماً لَيْسَ بِمُسْتَدْبِرِه - ومَغْبُوطٍ فِي أَوَّلِ لَيْلِه قَامَتْ بَوَاكِيه فِي آخِرِه.

۳۸۱ - وقَالَعليه‌السلام الْكَلَامُ فِي وَثَاقِكَ مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِه - فَإِذَا تَكَلَّمْتَ بِه صِرْتَ فِي وَثَاقِه - فَاخْزُنْ لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ ووَرِقَكَ - فَرُبَّ كَلِمَةٍ

تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ پہنچو گے تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔لہٰذا ایک سال کے ہم و غم کو ایک دن پر بار نہ کردو۔ہر دن کے لئے اسی دن کی فکر کافی ہے۔اس کے بعد اگر تمہاری عمر میں ایک سال باقی رہ گیا ہے تو ہرآنے والا دن اپنا رزق اپنے ساتھ لے کرآئے گا اوراگر سال باقی نہیں رہ گیا ہے تو سال بھر کی فکر کی ضرورت ہی کیا ہے۔تمہارے رزق کو تم سے پہلے کوئی پا نہیں سکتا ہے اور تمہارے حصہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے بلکہ جو تمہارے حق میں مقدر ہوچکا ہے وہ دیر سے بھی نہیں آئے گا۔

سید رضی : یہ ارشاد گرامی اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے مگر یہاں زیادہ واضح اور مفصل ہے لہٰذا دوبارہ ذکر کردیا گیا ہے۔

(۳۸۰)

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرنے والے ہیں جس سے پیٹھ پھیرانے والے نہیں ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی قسمت پر سر شام رشک کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہوتے ان پر رونے والیوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔

(۳۸۱)

گفتگو تمہارے قبضہ میں ہے۔جب تک اس کااظہار نہ ہو جائے ۔اس کے بعد پھر تم اس کے قبضہ میں چلے جاتے ہو۔لہٰذا اپنی زبان کو ویسے ہی محفوظ رکھو جسے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو۔کہ بعض کلمات نعمتوں کو

۷۵۵

سَلَبَتْ نِعْمَةً وجَلَبَتْ نِقْمَةً.

۳۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ - فَإِنَّ اللَّه فَرَضَ عَلَى جَوَارِحِكَ كُلِّهَا - فَرَائِضَ يَحْتَجُّ بِهَا عَلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

۳۸۳ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرْ أَنْ يَرَاكَ اللَّه عِنْدَ مَعْصِيَتِه - ويَفْقِدَكَ عِنْدَ طَاعَتِه - فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ - وإِذَا قَوِيتَ فَاقْوَ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - وإِذَا ضَعُفْتَ فَاضْعُفْ عَنْ مَعْصِيَةِ اللَّه.

۳۸۴ - وقَالَعليه‌السلام الرُّكُونُ إِلَى الدُّنْيَا مَعَ مَا تُعَايِنُ مِنْهَا جَهْلٌ - والتَّقْصِيرُ فِي حُسْنِ الْعَمَلِ - إِذَا وَثِقْتَ بِالثَّوَابِ عَلَيْه غَبْنٌ - والطُّمَأْنِينَةُ إِلَى كُلِّ أَحَدٍ قَبْلَ الِاخْتِبَارِ لَه عَجْزٌ.

۳۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّه أَنَّه لَا يُعْصَى إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنَالُ مَا عِنْدَه إِلَّا بِتَرْكِهَا.

سلب کر لیتے ہیں اورعذاب کو جذب کرلیتے ہیں۔

(۳۸۲)

جوبات نہیں جانتے ہو اسے زبان سے مت نکالو بلکہ ہر وہ بات جسے جانتے ہو اسے بھی مت بیان کرو کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قراردئیے ہیں اور انہیں کے ذریعہ روز قیامت حجت قائم کرنے والا ہے۔

(۳۸۳)

اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں معصیت کے موقع پرحاضر دیکھے اور اطاعت کے موقع پر غائب پائے کہ اس طرح خسارہ والوں میں شمار ہو جائو گے ۔اگر تمہارے پاس طاقت ہے تو اس کا اظہار اطاعت خدا میں کرو اور اگر کمزوری دکھلانا ہے تو اسے معصیت کے موقع پر دکھلائو۔

(۳۸۴)

دنیا کیحالات دیکھنے کے باوجود اس کی طرف رجحان اور میلان صرف جہالت ہے۔اورثواب کے یقین کے بعد بھی نیک عمل میں کوتاہی کرنا خسارہ ہے۔امتحان سے پہلے ہر ایک پر اعتبار کرلینا عاجزی اور کمزوری ہے۔

(۳۸۵)

خداکی نگاہ میں دنیا کی حقارت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کی معصیت اسی دنیا میں ہوتی ہے اور اس کی اصلی نعمتیں اس کوچھوڑنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔

۷۵۶

۳۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ طَلَبَ شَيْئاً نَالَه أَوْ بَعْضَه.

۳۸۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا خَيْرٌ بِخَيْرٍ بَعْدَه النَّارُ - ومَا شَرٌّ بِشَرٍّ بَعْدَه الْجَنَّةُ - وكُلُّ نَعِيمٍ دُونَ الْجَنَّةِ فَهُوَ مَحْقُورٌ - وكُلُّ بَلَاءٍ دُونَ النَّارِ عَافِيَةٌ.

۳۸۸ - وقَالَعليه‌السلام أَلَا وإِنَّ مِنَ الْبَلَاءِ الْفَاقَةَ - وأَشَدُّ مِنَ الْفَاقَةِ مَرَضُ الْبَدَنِ - وأَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْبِ - أَلَا وإِنَّ مِنْ صِحَّةِ الْبَدَنِ تَقْوَى الْقَلْبِ.

(۳۸۶)

جو کسی شے کا طلب گار ہوتا ہے وہ کل یا جزء بہرحال حاصل کر لیتا ہے۔

(۳۸۷)

وہ بھلائی بھلائی نہیں ہے جس کا انجام جہنم ہو۔اوروہ برائی برائی نہیں ہے جس کی عاقبت جنت ہو۔جنت کے علاوہ ہر نعمت حقیر ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر مصیبت عافیت ہے۔

(۳۸۸)

یاد رکھو کہ فقرو فاقہ بھی ایک بلاء ہے اور اس سے زیادہ سخت مصیبت بدن کی بیماری ہے اور اس سے زیادہ دشوار گذار دل کی بیماری ہے۔مالداری یقینا ایک نعمت ہے لیکن اس سے بڑی نعمت صحت(۱) بدن ہے اور اس سے بڑی نعمت دل کی پرہیز گاری ہے۔

(۱) یہ نکتہ ان غرباء اورفقراء کے سمجھنے کے لئے ہے جوہمیشہ غربت کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی صحت کا شکیرہ نہیں اداکرتے ہیں جب کہ تجربات کی دنیا میں یہبات ثابت ہوچکی ہے کہ امراض کا اوسط دولت مندوں میں غریبوں سے کہیں زیادہ ہے اور ہارٹ اٹیک کے بیشتر مریض اسی انچے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات توامیروں کی زندگی میں غذائوں سے زیادہ حصہ دوائوں کا ہوتا ہے اوروہ بیشمار غذائوں سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔

صحت بدن پروردگار کا ایک مخصوص کرم ہے جو وہ اپنے بندوں کے شامل حال کردیتا ہے لیکن غریبوں کوبھی اس نکتہ کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اس صحت کاشکریہ ادا کیا اور صرف غربت کی شکایت کرتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہیں لیکن روحانی اعتبار سے بہر حال مریض ہیں اوریہ مرض ناقابل علاج ہو چکا ہے۔رب کریم ہر مومن و مومنہ کو اس مرض سے نجات عطا فرمائے

۷۵۷

۳۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه: وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى: مَنْ فَاتَه حَسَبُ نَفْسِه لَمْ يَنْفَعْه حَسَبُ آبَائِه.

۳۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلْمُؤْمِنِ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّه - وسَاعَةٌ يَرُمُّ مَعَاشَه - وسَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِه - وبَيْنَ لَذَّتِهَا فِيمَا يَحِلُّ ويَجْمُلُ - ولَيْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ شَاخِصاً إِلَّا فِي ثَلَاثٍ - مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ أَوْ خُطْوَةٍ فِي مَعَادٍ - أَوْ لَذَّةٍ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ.

۳۹۱ - وقَالَعليه‌السلام ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُبَصِّرْكَ اللَّه عَوْرَاتِهَا - ولَا تَغْفُلْ فَلَسْتَ بِمَغْفُولٍ عَنْكَ.

۳۹۲ - وقَالَعليه‌السلام تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

(۳۸۹)

جس کو عمل پیچھے ہٹا دے اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔یا ( دوسری روایت میں ) جس کے ہاتھ سے اپنا کردار نکل جائے اسے آباء واجداد کے کارنامے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

(۳۹۰)

مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کوان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جوحلال اور پاکیزہ ہیں ۔

کسی عقل مند کویہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنے گھرسے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے کوئی ایک کام ہو۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ' آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے 'حلال اورپاکیزہ لذت حاصل کرے۔

(۳۹۱)

دنیامیں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے ۔اورخبر دار غافل نہ ہو جائو کہ تمہاری طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔

(۳۹۲)

بولو تاکہ پہچانے جائو اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔

۷۵۸

۳۹۳ - وقَالَعليه‌السلام خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا أَتَاكَ - وتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ فَأَجْمِلْ فِي الطَّلَبِ

۳۹۴ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ قَوْلٍ أَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ

۳۹۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُقْتَصَرٍ عَلَيْه كَافٍ.

۳۹۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَنِيَّةُ ولَا الدَّنِيَّةُ والتَّقَلُّلُ ولَا التَّوَسُّلُ ومَنْ لَمْ يُعْطَ قَاعِداً لَمْ يُعْطَ قَائِماً

(۳۹۳)

جو دنیا میں حاصل ہو جائے اسے لے لو اور جو چیز تم سے منہ موڑ لے تم بھی اس سے منہ پھیر لو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو طلب میں میانہ روی سے کام لو۔

(۳۹۴)

بہت سے الفاظ حملوں(۱) سے زیادہاثر رکھنے والے ہوتے ہیں۔

(۳۹۵)

جس پر اکتفا(۲) کرلی جائے وہی کافی ہے۔

(۳۹۶)

موت ہو لیکن خبردار ذلت نہ ہو۔

کم ہو لیکن دوسروں کو وسیلہ نہ بنانا پڑے۔

جسے بیٹھ کر(۳) نہیں مل سکتا ہے اسے کھڑے ہو کر بھی نہیں مل سکتا ہے

(۱)اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ہے۔اوراس کے علاوہ دونوں کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حملوں کا اثر محدود علاقوں پر ہوتا ہے اورجملوں کا اثر ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ اس دورمیں بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ حملے تمام دنیا میں بند پڑتے ہیں لیکن جملے اپنا کام کر رہے ہیں اور میڈیا ساری دنیا میں زہر پھیلا رہا ہے اورسارے عالم انسانیت کو ہرجہت اور ہراعتبار سے تباہی اوربربادی کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

(۲)حرص و ہوس وہ بیماری ہے جس کاعلاج قناعت اورکفایت شعاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ دنیا ایسی ہے کہ اگر انسان اس کی لالچ میں پڑ جائے تو ملک فرعون اور اقتداریزید وحجاج بھی کم پڑ جاتا ہے اور کفایت شعاری پر آجائے تو جو کی روٹیاں بھی اس کے کردار کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور وہ نہایت درجہ بے نیازی کے ساتھ دنیا کوطلاق دینے پرآمادہ ہو جاتا ہے اورپھر جوع کرنے کاب ھی ارادہ نہیں کرتا ہے۔

(۳)یہاں بیٹھنے سے مراد بیٹھ جانانہیں ہے ورنہ اس نصیحت کو سن کر ہر انسان بیٹھ جائے گا اور محنت و مشقت کا سلسلہ ہی موقوف ہو جائے گا بلکہ اس بیٹھنے سے مراد بقدر ضرورت محنت کرنا ہے جوانسانی زندگی کے لئے کافی ہواور انسان اس سے زیادہجان دینے پر آمادہ نہ ہوجائے کہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے اور فضول محنت سے کچھ زیادہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

۷۵۹

والدَّهْرُ يَوْمَانِ يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ عَلَيْكَ - فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ - وإِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ.

۳۹۷ - وقَالَعليه‌السلام نِعْمَ الطِّيبُ الْمِسْكُ خَفِيفٌ مَحْمِلُه عَطِرٌ رِيحُه.

۳۹۸ - وقَالَعليه‌السلام ضَعْ فَخْرَكَ واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ.

۳۹۹ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ حَقّاً - وإِنَّ لِلْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ حَقّاً - فَحَقُّ الْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ - أَنْ يُطِيعَه فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي مَعْصِيَةِ اللَّه سُبْحَانَه - وحَقُّ الْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ - أَنْ يُحَسِّنَ اسْمَه ويُحَسِّنَ أَدَبَه ويُعَلِّمَه الْقُرْآنَ.

زمانہ دونوں کا نام ہے۔ایک دن تمہارے حق میں ہوتا ہے تو دوسرا تمہارے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر تمہارے حق میں ہو تو مغرور نہ ہو جانا اور تمہارے خلاف ہو جائے تو صبر سے کام لینا۔

(۳۹۷)

بہترین خوشبو کا نام مشک ہے جس کاوزن انتہائی ہلکا ہوتا ہے اورخوشبو نہایت درجہ مہک دار ہوتی ہے۔

(۳۹۸)

فخرو سر بلندی کوچھوڑ دو اورتکبر و غرور کو فنا کردواور پھراپنی قبر کو یاد کرو۔

(۳۹۹)

فرزند کا باپ پر ایک حق ہوتا ہے اورباپ کا فرزند پرایک حق ہوتا ہے۔باپ کاحق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ اور فرزند کاحق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھاسانام تجویزکرے اوراسے بہترین ادب سکھائے ۔اور قرآن مجید کی تعلیم دے ۔

۷۶۰

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863