نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)9%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656928 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

أَوْ نَهَيْتُ عَنْه لَكُنْتُ نَاصِراً - غَيْرَ أَنَّ مَنْ نَصَرَه لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ خَذَلَه مَنْ أَنَا خَيْرٌ مِنْه - ومَنْ خَذَلَه لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَ نَصَرَه مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي وأَنَا جَامِعٌ لَكُمْ أَمْرَه اسْتَأْثَرَ فَأَسَاءَ الأَثَرَةَ وجَزِعْتُمْ فَأَسَأْتُمُ الْجَزَعَ ولِلَّه حُكْمٌ وَاقِعٌ فِي الْمُسْتَأْثِرِ والْجَازِعِ

(۳۱)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما أنفذ عبد الله بن عباس - إلى الزبير يستفيئه إلى طاعته قبل حرب الجمل

لَا تَلْقَيَنَّ طَلْحَةَ - فَإِنَّكَ إِنْ تَلْقَه تَجِدْه كَالثَّوْرِ عَاقِصاً قَرْنَه يَرْكَبُ الصَّعْبَ ويَقُولُ هُوَ الذَّلُولُ - ولَكِنِ الْقَ الزُّبَيْرَ فَإِنَّه أَلْيَنُ عَرِيكَةً فَقُلْ لَه يَقُولُ لَكَ ابْنُ خَالِكَ - عَرَفْتَنِي بِالْحِجَازِ وأَنْكَرْتَنِي بِالْعِرَاقِ - فَمَا عَدَا مِمَّا بَدَا.

قال السيد الشريف وهوعليه‌السلام أول من سمعت منه هذه الكلمة - أعني فما عدا مما بدا.

اور اگر میں نے منع کیا ہوتا تو یقینا میں مدد گار قرار پاتا۔لیکن بہر حال یہ بات طے شدہ ہے کہ جن بنی امیہ نے مدد کی ہے وہ اپنے کو ان سے بہتر نہیں کہہ سکتے ہیں جنہوں نے نظر انداز کردیا ہے اور جن لوگوں نے نظرانداز کردیا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس نے مدد کی ہے وہ ہم سے بہتر تھا۔اب میں اس قتل کا خلاصہ بتائے دیتا ہوں' ''عثمان نے خلافت کو اختیار کیا تو بد ترین طریقہ سے اختیار کیا اورتم گھبرا گئے تو بری طرح سے گھبرا گئے اوراب اللہ دونوں کے بارے میں فیصلہ کرنے والا ہے ''۔

(۳۱)

آپ کا ارشاد گرامی

جب آپ نے عبداللہ بن عباس کو زبیر کے پاس بھیجا کہ اسے جنگ سے پہلے اطاعت امام کی طرف واپس لے آئیں۔

خبردار طلحہ سے ملاقات نہ کرناکہ اس سے ملاقات کروگے تواسےاس بیل جیساپائوگےجس کے سینگ مڑے ہوئے ہوں۔وہ سرکش سواری پرسوار ہوتا ہے اوراسے رام کیا ہوا کہتا ہے۔تم صرف زبیر سے ملاقات کرنا کہ اس کی طبیعت قدرے نرم ہےاس سے کہناکہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے فرمایا ہےکہ تم نے حجاز میں مجھے پہچانا تھا اور عراق میں آکربالکل بھول گئے ہوآخر یہ نیا سانحہ کیا ہوگیا ہے۔

سید رضی : ما عدا ما بدا '' یہ فقرہ پہلے پہل تاریخ عربیت میں امیر المومنین ہی سے سنا گیا ہے۔

۶۱

(۳۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها يصف زمانه بالجور، ويقسم الناس فيه خمسة أصناف، ثم يزهد في الدنيا

معنى جور الزمان

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّا قَدْ أَصْبَحْنَا فِي دَهْرٍ عَنُودٍ وزَمَنٍ كَنُودٍ يُعَدُّ فِيه الْمُحْسِنُ مُسِيئاً - ويَزْدَادُ الظَّالِمُ فِيه عُتُوّاً لَا نَنْتَفِعُ بِمَا عَلِمْنَا ولَا نَسْأَلُ عَمَّا جَهِلْنَا - ولَا نَتَخَوَّفُ قَارِعَةً حَتَّى تَحُلَّ بِنَا.

أصناف المسيئين

والنَّاسُ عَلَى أَرْبَعَةِ أَصْنَافٍ

مِنْهُمْ مَنْ لَا يَمْنَعُه الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ - إِلَّا مَهَانَةُ نَفْسِه وكَلَالَةُ حَدِّه ونَضِيضُ وَفْرِه ومِنْهُمْ الْمُصْلِتُ لِسَيْفِه والْمُعْلِنُ بِشَرِّه - والْمُجْلِبُ بِخَيْلِه ورَجِلِه قَدْ أَشْرَطَ نَفْسَه وأَوْبَقَ دِينَه لِحُطَامٍ يَنْتَهِزُه أَوْ مِقْنَبٍ يَقُودُه أَوْ مِنْبَرٍ يَفْرَعُه - ولَبِئْسَ الْمَتْجَرُ أَنْ تَرَى الدُّنْيَا لِنَفْسِكَ ثَمَناً - ومِمَّا لَكَ عِنْدَ اللَّه عِوَضاً –

ومِنْهُمْ مَنْ يَطْلُبُ الدُّنْيَا بِعَمَلِ الآخِرَةِ ولَا يَطْلُبُ الآخِرَةَ بِعَمَلِ الدُّنْيَا - قَدْ طَامَنَ مِنْ شَخْصِه - وقَارَبَ مِنْ خَطْوِه وشَمَّرَ مِنْ ثَوْبِه - وزَخْرَفَ مِنْ نَفْسِه لِلأَمَانَةِ - واتَّخَذَ سِتْرَ اللَّه ذَرِيعَةً إِلَى الْمَعْصِيَةِ -

(۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جس میں زمانہ کے ظلم کاتذکرہ ہے اورلوگوں کی پانچ قسموں کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد زہد کی دعوت دی گئی ہے۔

ایہا الناس! ہم ایک ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں جو سرکش اور نا شکرا ہے یہاں نیک کردار برا سمجھا جاتا ہے اورظالم اپنے ظلم میں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔نہ ہم علم سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ جن چیزوں سے نا واقف ہیں ان کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور نہ کسی مصیبت کا اس وقت تک احساس کرتے ہیں جب تک وہ نازل نہ ہو جائے۔بعض وہ ہیں جو تلوارکھینچے ہوئے اپنے شرکا اعلان کر رہے ہیں اور اپنے سوار و پیادہ کو جمع کر رہے ہیں۔اپنے نفس کو مال دنیا کے حصول اور لشکرکی قیادت یا منبر کی بلندی پر عروج کے لئے وقف کردیا ہے اور اپنے دین کو برباد کر دیا ہے اوریہ بد ترین تجارت ہے کہ تم دنیا کواپنے نفس کی قیمت بنا دو یا اجرآخرت کا بدل قراردے دو۔بعض وہ ہیں جو دنیا کو آخرت کے اعمال کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اورآخرت کو دنیا کے ذریعہ نہیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے نگاہوں کونیچا بنالیا ہے۔قدم ناپ ناپ کر رکھتے ہیں۔دامن کو سمیٹ لیا ہے اوراپنے نفس کوگویا امانتداری کے لئے آراستہ کرلیا ہے اور پروردگار کی پردہ داری کومعصیت کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔

۶۲

ومِنْهُمْ مَنْ أَبْعَدَه عَنْ طَلَبِ الْمُلْكِ ضُئُولَةُ نَفْسِه وانْقِطَاعُ سَبَبِه فَقَصَرَتْه الْحَالُ عَلَى حَالِه - فَتَحَلَّى بِاسْمِ الْقَنَاعَةِ - وتَزَيَّنَ بِلِبَاسِ أَهْلِ الزَّهَادَةِ - ولَيْسَ مِنْ ذَلِكَ فِي مَرَاحٍ ولَا مَغْدًى

الراغبون في اللَّه

وبَقِيَ رِجَالٌ غَضَّ أَبْصَارَهُمْ ذِكْرُ الْمَرْجِعِ - وأَرَاقَ دُمُوعَهُمْ خَوْفُ الْمَحْشَرِ - فَهُمْ بَيْنَ شَرِيدٍ نَادٍّ وخَائِفٍ مَقْمُوعٍ وسَاكِتٍ مَكْعُومٍ ودَاعٍ مُخْلِصٍ وثَكْلَانَ مُوجَعٍ - قَدْ أَخْمَلَتْهُمُ التَّقِيَّةُ وشَمِلَتْهُمُ الذِّلَّةُ - فَهُمْ فِي بَحْرٍ أُجَاجٍ أَفْوَاهُهُمْ ضَامِزَةٌ وقُلُوبُهُمْ قَرِحَةٌ قَدْ وَعَظُوا حَتَّى مَلُّوا وقُهِرُوا حَتَّى ذَلُّوا وقُتِلُوا حَتَّى قَلُّوا.

التزهيد في الدنيا

فَلْتَكُنِ الدُّنْيَا فِي أَعْيُنِكُمْ - أَصْغَرَ مِنْ حُثَالَةِ الْقَرَظِ وقُرَاضَةِ الْجَلَمِ واتَّعِظُوا بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ - قَبْلَ أَنْ يَتَّعِظَ بِكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ - وارْفُضُوهَا ذَمِيمَةً فَإِنَّهَا قَدْ رَفَضَتْ مَنْ كَانَ أَشْغَفَ بِهَا مِنْكُمْ.

بعض وہ ہیں جنہیں حصول اقتدارسے نفس کی کمزوری اوراسباب کی نابودی نے دور رکھا ہے اور جب حالات نے ساز گاری کا سہارا نہیں دیا تواس کا نام قناعت رکھ لیا ہے۔یہ لوگ اہل زہد کالباس زیب تن کئے ہوئے ہیں جب کہ نہ ان کی شام زاہدانہ ہے اورنہ صبح۔

(پانچویں قسم)

اس کے بعد کچھ لوگ باقی رہ گئے ہیں جن کی نگاہوں کو بازگشت کی یاد نے جھکا دیا ہے اوران کے آنسوئوں کو خوف محشر نے جاری کردیا ہے۔ان میں بعض آوارہ وطن اور دور افتادہ ہیں اور بعض خوفزدہ اورگوشہ نشین ہیں۔بعض کی زبانوں پر مہر لگی ہوئی ہے اور بعض اخلاص کے ساتھ محو دعا ہیں اور درد رسیدہ کی طرح رنجیدہ ہیں۔انہیں خوف حکام نے گمنامی کی منزل تک پہنچادیا ہے۔

اوربے چارگی نے انہیں گھیر لیا ہے۔گویا وہ ایک کھارے سمندر کے اندر زندگی گزار رہے ہیں جہاں منہ بند ہیں اور دل زخمی ہیں۔انہوں نے اس قدر موعظہ کیا ہے کہ تھک گئے ہیں اور وہ اسقدر دبائے گئے ہیں کہ بالآخر دب گئے ہیں اوراس قدر مارے گئے ہیں کہ ان کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے

لہٰذا اب دنیا کو تمہاری نگاہوں میں کیکر کے چھلوں اور اون کے ریزوں سے بھی زیادہ پست ہونا چاہیے اور اپنے پہلے والوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے قبل اس کے کہ بعد والے تمہارے انجام سے عبرت حاصل کریں۔اس دنیا کو نظرانداز کردو۔یہ بہت ذلیل ہے یہ ان کے کام نہیں آئی ہے جو تم سے زیادہ اس سے دل لگانے والے تھے۔

۶۳

قال الشريفرضي‌الله‌عنه أقول وهذه الخطبة ربما نسبها من لا علم له إلى معاوية - وهي من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام الذي لا يشك فيه - وأين الذهب من الرغام وأين العذب من الأجاج - وقد دل على ذلك الدليل الخريت ونقده الناقد البصير - عمرو بن بحر الجاحظ - فإنه ذكر هذه الخطبة في كتاب البيان والتبيين - وذكر من نسبها إلى معاوية - ثم تكلم من بعدها بكلام في معناها - جملته أنه قال وهذا الكلام بكلام عليعليه‌السلام أشبه - وبمذهبه في تصنيف الناس - وفي الإخبار عما هم عليه من القهر والإذلال - ومن التقية والخوف أليق - قال ومتى وجدنا معاوية في حال من الأحوال - يسلك في كلامه مسلك الزهاد ومذاهب العباد!

(۳۳)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

عند خروجه لقتال أهل البصرة، وفيها حكمة مبعث الرسل،

ثم يذكر فضله ويذم الخارجين

قَالَ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَبَّاسِرضي‌الله‌عنه - دَخَلْتُ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام بِذِي قَارٍ وهُوَ يَخْصِفُ نَعْلَه فَقَالَ لِي مَا قِيمَةُ هَذَا النَّعْلِ

سید رضی : بعض جاہلوں نے اس خطبہ کو معاویہ کی طرف منسوب کردیا ہے جب کہ بلا شک یہ امیرالمومنین کا کلام ہے اوربھلا کیاربطہ ہے سونے اورمٹی میں اور شیریں اور شور میں؟ اس حقیقت کی نشاندہی فن بلاغت کے ماہر اوربا بصیرت تنقیدی نظر رکھنے والے عالم عمرو بن بحر الجاحظ نے بھی کی ہے جب اس خطبہ کو'' البیان والتبیین'' میں نقل کرنے کے بعد یہ تبصرہ کیا ہے کہ بعض لوگوں نے اسے معاویہ کی طرف منسوب کردیا ہے حالانکہ یہ حضرت علی علیہ السلام کے انداز بیان سے زیادہ ملتا جلتا ہے کہ آپ ہی اس طرح لوگوں کے اقسام ' مذاہب اورقہر و ذلت اورتقیہ و خوف کا تذکر ہ کیا کرتے تھے ورنہ معاویہ کو کب اپنی گفتگومیں زاہدوں کا اندازیا عابدوں کا طریقہ اختیار کرتے دیکھا گیا ہے۔

(۳۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل بصرہ سے جہاد کے لئے نکلتے وقت جس میں آپ نے رسولوں کی بعثت کی حکمت اورپھر اپنی فضیلت اورخوارج کی رذیلت کاذکر کیا ہے)

عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ میں مقام ذی قار میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ اپنی نعلین کی مرمت کر رہے تھے۔آپ نے فرمایا:ابن عباس !ان جوتیوں کی کیا قیمت ہے '؟

۶۴

فَقُلْتُ لَا قِيمَةَ لَهَا - فَقَالَعليه‌السلام واللَّه لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ إِمْرَتِكُمْ - إِلَّا أَنْ أُقِيمَ حَقّاً أَوْ أَدْفَعَ بَاطِلًا - ثُمَّ خَرَجَ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ:

حكمة بعثة النبي

إِنَّ اللَّه بَعَثَ مُحَمَّداًصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ولَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ يَقْرَأُ كِتَاباً ولَا يَدَّعِي نُبُوَّةً - فَسَاقَ النَّاسَ حَتَّى بَوَّأَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ وبَلَّغَهُمْ مَنْجَاتَهُمْ فَاسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ واطْمَأَنَّتْ صَفَاتُهُمْ

فضل علي

أَمَا واللَّه إِنْ كُنْتُ لَفِي سَاقَتِهَاحَتَّى تَوَلَّتْ بِحَذَافِيرِهَا مَا عَجَزْتُ ولَا جَبُنْتُ وإِنَّ مَسِيرِي هَذَا لِمِثْلِهَا - فَلأَنْقُبَنَّ الْبَاطِلَ حَتَّى يَخْرُجَ الْحَقُّ مِنْ جَنْبِه.

میں نے عرض کی کچھ نہیں! فرمایاکہ خدا کی قسم یہ مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز(۱) ہیں مگریہ کہ حکومت کے ذریعہ میں کسی حق کو قائم کر سکوں یا کسی باطل کو دفع کرسکوں۔اس کے بعد لوگوں کے درمیان آکر یہ خطبہ ارشاد فرمایا:۔

اللہ نے حضرت محمد (ص) کواس وقت مبعوث کیا جب عربوں میں کوئی نہ آسمانی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت کا دعویدار تھا۔آپ نے لوگوں کو کھینچ کران کے مقام تک پہنچایا اور انہیں منزل نجات سے آشنا بنادیا یہاں تک کہ ان کی کجی درست ہوگئی اوران کے حالات استوار ہوگئے۔

آگاہ ہو جائو کہ بخدا قسم میں اس صورت حال کے تبدیل کرنے والوں میں شامل تھا یہاں تک کہ حالات مکمل طور پرتبدیل ہوگئے اورمیں نہ کمزور ہوا اور نہ خوفزدہ ہوا اورآج بھی میرا یہ سفر ویسے ہی مقاصد کے لئے ہے۔میں باطل کے شکم کو چاک کرکے اس کے پہلو سے وہ حق نکال لوں گا جسے اس نے مظالم کی تہوں میں چھپادیا ہے۔

(۱)اس مقام پر یہ خیال نہ کیا جائے کہ ایسے انداز گفتگو سے عوام الناس میں مزید نخوت پیداہو جاتی ہے اور ان میں کام کرنے کا جذبہ بالکل مردہ ہو جاتا ہے۔اوراگر واقعاً امام علیہ السلام اسی قدر عاجزآگئے تھے تو پھر بارباردہرانے کی کیا ضرورت تھی۔انہیں ان کے حال پر چھوڑدیا ہوتا۔جو انجام ہونے والا تھا ہو جاتا اوربالآخر لوگ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتے ؟

اس لئے کہ یہ ایک جذباتی مشورہ تو ہوسکتا ہے منطقی گفتگو نہیں ہو سکتی ہے۔اکتاہٹ اورناراضگی ایک فطری ردعمل ہے جوامربالمعروف کی منزل میں فریضہ بھی بن جاتا ہے۔لیکن اس کے بعد بھی اتمام حجت کا فریضہ بحرحال باقی رہ جاتاہے۔پھرامام کی نگاہیں اس مستقبل کوبھی دیکھ رہی تھیں جہاں مسلسل ہدایات کے پیش نظر چند افراد ضرورپیداہو جاتے ہیں اوراس وقت بھی پیدا ہو گئے تھے۔یہ اوربات ہے کہ قضا و قدر نے ساتھ نہیں دیا اور جہاد مکمل نہیں ہوسکا۔

اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اگر امیر المومنین نے سکوت اختیار کرلیا ہوتا تو دشمن اسے رضا مندی اور بیعت کی علامت بنا لیتے اور مخلصین اپنی کوتاہی عمل کا بہانہ قرار دے لیتے اوراسلام کی روح عمل اورتحریک دینداری مردہوکر رہ جاتی۔

۶۵

توبيخ الخارجين عليه

مَا لِي ولِقُرَيْشٍ - واللَّه لَقَدْ قَاتَلْتُهُمْ كَافِرِينَ - ولأُقَاتِلَنَّهُمْ مَفْتُونِينَ - وإِنِّي لَصَاحِبُهُمْ بِالأَمْسِ كَمَا أَنَا صَاحِبُهُمُ الْيَوْمَ - واللَّه مَا تَنْقِمُ مِنَّا قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّ اللَّه اخْتَارَنَا عَلَيْهِمْ - فَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي حَيِّزِنَا - فَكَانُوا كَمَا قَالَ الأَوَّلُ:

أَدَمْتَ لَعَمْرِي شُرْبَكَ الْمَحْضَ صَابِحاً

وأَكْلَكَ بِالزُّبْدِ الْمُقَشَّرَةَ الْبُجْرَا

ونَحْنُ وَهَبْنَاكَ الْعَلَاءَ ولَمْ تَكُنْ

عَلِيّاً وحُطْنَا حَوْلَكَ الْجُرْدَ والسُّمْرَا

( ۳۴)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في استنفار الناس إلى أهل الشام بعد فراغه من أمر الخوارج وفيها يتأفف بالناس، وينصح لهم بطريق السداد

أُفٍّ لَكُمْ لَقَدْ سَئِمْتُ عِتَابَكُمْ -

میرا قریش سے کیا تعلق ہے۔میں نے کل ان سے کفرکی بناپرجہاد کیا تھا اورآج فتنہ اور گمراہی کی بنا پر جہاد کروںگا۔میں ان کا پرانا مد مقابل ہوں اور آج بھی ان کے مقابلہ پرتیارہوں۔خدا کی قسم قریش کو ہم سے کوئی عداوت نہیں ہے مگر یہ کہ پروردگارنے ہمیں منتخب قراردیا ہے اور ہم نے ان کو اپنی جماعت میں داخل کرنا چاہا تو وہ ان اشعارکے مصداق ہوگئے:(ہماری جان کی قسم یہ شراب ناب صباح- یہ چرب چرب غذائیں ہمارا صدقہ ہیں)(ہمیں نے تم کو یہ ساری بلندیاں دی ہیں-وگرنہ تیغ و سناں بس ہمارا حصہ ہیں)

(۳۴)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں خوارج کےقصہ کےبعد لوگوں کو اہل شام سےجہادکےلئےآمادہ کیاگیا ہےاور انکے حالات پرافسوس کا اظہار کرتےہوئےانہیں نصیحت کی گئی ہے)

حیف ہےتمہارے حال پر۔میں تمہیں ملامت کرتے(۱) کرتے تھک گیا

(۱)اس مقام پر یہ خیال نہ کیا جائے کہ ایسے انداز گفتگو سے عوام الناس میں مزید نخوت پیدا ہو جاتی ہے اور ان میں کام کرنے کا جذبہ بالکل مردہ ہوجاتے ہے۔اوراگر واقعاً امام علیہ السلام اسی قدر عاجز آگئے تھے تو پھر بار بار دہرانے کی کیا ضرورت تھی۔انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہوتا۔جوانجام ہونے والا تھا ہو جاتا اور بالآخر لوگ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتے ؟اس لئے کہ یہ ایک جذباتی مشورہ تو ہو سکتا ہے منطقی گفتگو نہیں ہو سکتی ہے۔اکتاہٹ اور ناراضگی ایک فطری رد عمل ہے جو امر بالمعروف کی منز ل میں فریضہ بھی بن جاتا ہے۔لیکن اس کے بعد بھی اتمام حجت کا فریضہ بہر حال باقی رہ جاتا ہے۔پھر امام کی نگاہیں اس مستقبل کو بھی دیکھ رہی تھیں جہاں مسلسل ہدایات کے پیش نظر چند افراد ضرور پیدا ہو جاتے ہیں اور اس وقت بھی پیداہوگئے تھے یہ اوربات ہے کہ قضا وق در نے ساتھ نہیں دیا اور جہاد مکمل نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اگر امیرالمومنین نے سکتو اختیارکرلیا ہوتا تو دشمن اسے رضامندی اوربیعت کی علامت بنالیتے اور مخلصین اپنی کوتاہی عمل کا بہانہ قراردے لیتے اور اسلام کی روح عمل اور تحریک دینداری مردہ ہو کر رہ جاتی ہے۔

۶۶

( أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الآخِرَةِ ) عِوَضاً - وبِالذُّلِّ مِنَ الْعِزِّ خَلَفاً - إِذَا دَعَوْتُكُمْ إِلَى جِهَادِ عَدُوِّكُمْ دَارَتْ أَعْيُنُكُمْ كَأَنَّكُمْ مِنَ الْمَوْتِ فِي غَمْرَةٍ ومِنَ الذُّهُولِ فِي سَكْرَةٍ - يُرْتَجُ عَلَيْكُمْ حَوَارِي فَتَعْمَهُونَ وكَأَنَّ قُلُوبَكُمْ مَأْلُوسَةٌ فَأَنْتُمْ لَا تَعْقِلُونَ - مَا أَنْتُمْ لِي بِثِقَةٍ سَجِيسَ اللَّيَالِي ومَا أَنْتُمْ بِرُكْنٍ يُمَالُ بِكُمْ - ولَا زَوَافِرُ عِزٍّ يُفْتَقَرُ إِلَيْكُمْ - مَا أَنْتُمْ إِلَّا كَإِبِلٍ ضَلَّ رُعَاتُهَا - فَكُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ انْتَشَرَتْ مِنْ آخَرَ –

لَبِئْسَ لَعَمْرُ اللَّه سُعْرُ نَارِ الْحَرْبِ أَنْتُمْ - تُكَادُونَ ولَا تَكِيدُونَ - وتُنْتَقَصُ أَطْرَافُكُمْ فَلَا تَمْتَعِضُونَ لَا يُنَامُ عَنْكُمْ وأَنْتُمْ فِي غَفْلَةٍ سَاهُونَ - غُلِبَ واللَّه الْمُتَخَاذِلُونَ - وايْمُ اللَّه - إِنِّي لأَظُنُّ بِكُمْ أَنْ لَوْ حَمِسَ الْوَغَى واسْتَحَرَّ الْمَوْتُ قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ انْفِرَاجَ الرَّأْسِ

کیا تم لوگ واقعا آخرت کے عوض زندگانی دنیا پر راضی ہوگئے ہو اورتم نے ذلت کوعزت کا بدل سمجھ لیا ہے ؟ کہ جب میں تمہیں دشمن سے جہاد کی دعوت دیتا ہوں تو تم آنکھیں پھرانے لگتے ہو جیسے موت کی بے ہوشی طاری ہو اور غفلت کے نشہ میں مبتلا ہو۔تم پر جیسے میری گفتگو کے دروازے بند ہوگئے ہیں کہ تم گمراہ ہوتے جا رہے ہو اورتمہارے دلوں پردیوانگی کا اثر ہوگیا ہے کہ تمہاری سمجھ ہی میں کچھ نہیں آرہا ہے۔تم کبھی میرے لئے قابل اعتماد نہیں ہوسکتے ہو اور نہ ایسا ستون ہو جس پر بھروسہ کیا جا سکے اور نہ عزت کے وسائل ہو جس کی ضرورت محسوس کی جا سکے تو تو ان اونٹوں جیسے ہو جن کے چرواہے گم ہو جائیں کہ جب ایک طرف سے جمع کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف سے بھڑک جاتے ہیں۔

خداکی قسم۔تم بد ترین افراد ہوجن کے ذریعہ آتش جنگ کو بھڑکا یا جا سکے۔تمہارے ساتھ مکر کیا جاتا ہے اور تم کوئی تدبیر بھی نہیں کرتے ہو۔تمہارے علاقے کم ہو تے جا رہے ہیں اورتمہیں غصہ بھی نہیں آتا ہے۔دشمن تمہاری طرف سے غافل نہیں ہے مگر تم غفلت کی نیند سو رہے ہو۔خدا کی قسم سستی برتنے والے ہمیشہ مغلوب ہو جاتے ہیں اور بخدا میں تمہارے بارے میں یہی خیال رکھتا ہوں کہ اگرجنگ نے زور پکڑ لیا اور موت کا بازار گرم ہوگیا تو تم فرزند ابو طالب سے یوں ہی الگ ہو جائو گے جس طرح جسم سے سر الگ ہو جاتا ہے

۶۷

واللَّه إِنَّ امْرَأً يُمَكِّنُ عَدُوَّه مِنْ نَفْسِه - يَعْرُقُ لَحْمَه ويَهْشِمُ عَظْمَه - ويَفْرِي جِلْدَه لَعَظِيمٌ عَجْزُه - ضَعِيفٌ مَا ضُمَّتْ عَلَيْه جَوَانِحُ صَدْرِه أَنْتَ فَكُنْ ذَاكَ إِنْ شِئْتَ - فَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّه دُونَ أَنْ أُعْطِيَ ذَلِكَ ضَرْبٌ بِالْمَشْرَفِيَّةِ تَطِيرُ مِنْه فَرَاشُ الْهَامِ وتَطِيحُ السَّوَاعِدُ والأَقْدَامُ -( ويَفْعَلُ الله ) بَعْدَ ذَلِكَ( مِمَّا يَشاءُ )

طريق السداد

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّ لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً ولَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ - وتَوْفِيرُ فَيْئِكُمْ عَلَيْكُمْ - وتَعْلِيمُكُمْ كَيْلَا تَجْهَلُوا وتَأْدِيبُكُمْ كَيْمَا تَعْلَمُوا - وأَمَّا حَقِّي عَلَيْكُمْ فَالْوَفَاءُ بِالْبَيْعَةِ - والنَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ والْمَغِيبِ - والإِجَابَةُ حِينَ أَدْعُوكُمْ والطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُمْ

خدا کی قسم اگر کوئی شخص اپنے دشمن کو قابو دے دیتا ہے کہ وہ اس کا گوشت اتارے اور ہڈی توڑ ڈالے اور کھال کے ٹکڑے ٹکڑے کردے تو ایسا شخص عاجزی کی آخری سرحد پر ہے اور اس کا وہ دل انتہائی کمزور ہے جو اس کے پہلوؤں کے درمیان ہے تم چاہو تو ایسے ہی ہوجاؤ لیکن خدا گواہ ہے کہ اس نوبت کے آنے سے پہلے تلوار چلاؤں گا کہ کھوپڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اڑتی دکھائی دیں گے اور ہاتھ پیر کٹ کر گرتے نظرآئیں گے ۔ اس کے بعد خدا جو
چاہے گا وہ کرے گا ۔

ایہا الناس !یقینا ایک حق میرا تمہارے(۱) ذمہ ہے اورایک حق تمہارا میرے ذمہ ہے۔تمہارا حق میرے ذمہ یہ ہے کہ میں تمہیں نصیحت کروں اوربیت المال کا مال تمہارے حوالے کردوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہ جائو اورادب سکھائوں تاکہ با عمل ہو جائو۔اور میرا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ بیعت کا حق ادا کرو اور حاضر و غائب ہر حال میں خیر خواہ رہو۔جب پکاروں تو لبیک کہو اور جب حکم دوں تو اطاعت کرو۔

(۱)یہ دیانتداری اور ایمانداری کی عظیم ترین مثال ہے کہ کائنات کا امیر۔مسلمانوں کا حاکم۔اسلام کا ذمہ دار قوم کے سامنے کھڑے ہو کر اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ جس طرح میرا حق تمہارے ذمہ ہے اسی طرح تمہارا حق میرے ذمہ بھی ہے۔اسلام میں حاکم حقوق العباد سے بلند ترنہیں ہوتا ہے اور نہ اسے قانون الٰہی کے مقابلہ میں مطلق العنان قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد دوسری احتیاط یہ ہے کہ پہلے عوام کے حقوق کوادا کرنے کا ذکرکیا۔اس کے بعد اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اورحقوق کے بیان میں بھی عوام کے حقوق کو اپنے حق کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دی۔اپناحق صری یہ ہے کہ قوم مخلص رہے اور بیعت کا حق ادا کرتی رہے اور احکام کی اطاعت کرتی رہے جب کہ یہ کسی حاکم کے امتیازی حقوق نہیں ہیں بلکہ مذہب کے بنیادی فرائض ہیں۔اخلاص و نصیحت ہرشخص کابنیادی فریضہ ہے۔بیعت کی پابندی معاہدہ کی پابندی اورتقاضائے انسانیت ہے۔احکام کی اطاعت احکام الہیہ کی اطاعت ہے اوریہی عین تقاضائے اسلام ہے۔

اس کے برخلاف اپنے اوپر جن حقوق کاذکر کیا گیا ہے وہ اسلام کے بنیادی فرائض میں شامل نہیں ہیں بلکہ ایک حاکم کی ذمہ داری کے شعبہ ہیں کہ وہ لوگوں کو تعلیم دے کر ان کی جہالت کا علاج کریاور انہیں مہذب بنا کر عمل کیدعوت دے اورپھر برابرنصیحت کرتا رہے اور کسی آن بھی ان کے مصالح و منافع سے غافل نہ ہونے پائے۔

۶۸

(۳۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

بعد التحكيم وما بلغه من أمر الحكمين

وفيها حمد اللَّه على بلائه، ثم بيان سبب البلوى

الحمد على البلاء

الْحَمْدُ لِلَّه وإِنْ أَتَى الدَّهْرُ بِالْخَطْبِ الْفَادِحِ والْحَدَثِ الْجَلِيلِوأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّه لَا شَرِيكَ لَه لَيْسَ مَعَه إِلَه غَيْرُه - وأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

سبب البلوى

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ مَعْصِيَةَ النَّاصِحِ الشَّفِيقِ الْعَالِمِ الْمُجَرِّبِ - تُورِثُ الْحَسْرَةَ وتُعْقِبُ النَّدَامَةَ - وقَدْ كُنْتُ أَمَرْتُكُمْ فِي هَذِه الْحُكُومَةِ أَمْرِي،

ونَخَلْتُ لَكُمْ مَخْزُونَ رَأْيِي لَوْ كَانَ يُطَاعُ لِقَصِيرٍ أَمْرٌ - فَأَبَيْتُمْ عَلَيَّ إِبَاءَ الْمُخَالِفِينَ الْجُفَاةِ والْمُنَابِذِينَ الْعُصَاةِ - حَتَّى ارْتَابَ النَّاصِحُ بِنُصْحِه وضَنَّ الزَّنْدُ بِقَدْحِه فَكُنْتُ أَنَا وإِيَّاكُمْ كَمَا قَالَ أَخُو هَوَازِنَ

أَمَرْتُكُمْ أَمْرِي بِمُنْعَرَجِ اللِّوَى

فَلَمْ تَسْتَبِينُوا النُّصْحَ إِلَّا ضُحَى الْغَدِ

(۳۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب تحکیم کے بعد اس کے نتیجہ کی اطلاع دی گئی تو آپ نے حمدو ثنائے الٰہی کے بعد اس بلا کا سبب بیان فرمایا)

ہر حال میں خدا کاشکر ہے چاہے زمانہ کوئی بڑی مصیبت کیوں نہ لے آئے اورحادثات کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہو جائیں ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے اور حضرت محمد(ص) اس کے بندہ اور رسول ہیں ۔ (خدا کی رحمت ان پر اور ان کی آل پر)

اما بعد(یاد رکھو) کہ ناصح شفیق اور عالم تجربہ کار کی نا فرمانی ہمیشہ باعث حسرت اور موجب ندامت ہوا کرتی ہے۔میں نے تمہیں تحکیم کے بارے میں اپنی رائے سے با خبر کردیا تھا اور اپنی قیمتی رائے کا نچوڑ بیان کردیا تھا لیکن اے کاش ''قصیر''کے حاکم کی اطاعت کی جاتی۔تم نے تو میری اس طرح مخالفت کی جس طرح بد ترین مخالف اور عہد شکن نافرمان کیا کرتے ہیں یہاں تک کہ نصیحت کرنے والا خودبھی شبہ میں پڑ جائے کہ کس کو نصیحت کردی اور چقماق نے شعلہ بھڑکا نا بند کردئیے۔اب ہمارا اورتمہارا وہی حال ہوا ہے جو بنی ہوازن

کے شاعر نے کہا تھا:-" میں نے تم کو اپنی بات مقام منعرج اللوی میں بتادی تھی لیکن تم نے اس کی حقیقت کو دوسرے دن کی صبح ہی کو پہچانا"

۶۹

(۳۶)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

في تخويف أهل النهروان

فَأَنَا نَذِيرٌ لَكُمْ أَنْ تُصْبِحُوا صَرْعَى بِأَثْنَاءِ هَذَا النَّهَرِ - وبِأَهْضَامِ هَذَا الْغَائِطِ عَلَى غَيْرِ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ - ولَا سُلْطَانٍ مُبِينٍ مَعَكُمْ - قَدْ طَوَّحَتْ بِكُمُ الدَّارُ واحْتَبَلَكُمُ الْمِقْدَارُ وقَدْ كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ هَذِه الْحُكُومَةِ - فَأَبَيْتُمْ عَلَيَّ إِبَاءَ الْمُنَابِذِينَ - حَتَّى صَرَفْتُ رَأْيِي إِلَى هَوَاكُمْ - وأَنْتُمْ مَعَاشِرُ أَخِفَّاءُ الْهَامِ سُفَهَاءُ الأَحْلَامِ ولَمْ آتِ لَا أَبَا لَكُمْ بُجْراً ولَا أَرَدْتُ لَكُمْ ضُرّاً.

(۳۶)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(اہل نہروان کو انجام کارسے ڈرانےکے سلسلہ میں)

میں تمہیں با خبر(۱) دیتا ہوںکہ اس نہر کے موڑوں پر اور اس نشیب کی ہموار زمینوں پر پڑ ے دکھائی دوگے اور تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے کوئی واضح دلیل اور روشن حجت نہ ہوگی۔تمہارے گھروں نے تمہیں نکال باہر کردیا اورقضا وقدرنے تمہیں گرفتار کرلیا ۔ میں تمہیں اس تحکیم سے منع کر رہا تھا لیکن تم نے عہد شکن دشمنوں کی طرح میری مخالفت کی یہاں تک کہ میں نے اپنی رائے کو چھوڑ کر مجبوراً تمہاری بات کو تسلیم کرلیا مگر تم دماغ کے ہلکے اور عقل کے احمق نکلے۔خدا تمہارا برا کرے۔میں نے تمہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈالا ہے اور تمہارے لئے کوئی نقصان نہیں چاہاہے۔

(۱)صورت حال یہ ہے کہ جنگ صفین کے اختتام کے قریب جب عمرو عاص کے مشورہ سے معاویہ نے نیزوں پر قرآن بلند کردئیے اورقوم نے جنگ روکنے کا ارادہ کرلیا تو حضرت نے متنبہ کیا کہ یہ صرف مکاری ہے۔اس قوم کاقرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن قوم نے اس حد تک اصرار کیا کہ اگر آپ قرآن کے فیصلہ کو نہ مانیں گے تو ہم آپ کو قتل کردیں گے یا گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کردیں گے۔ظاہر ہے کہ اس کے نتائج انتہائی بدتر اورسنگین تھے لہٰذا آپ نے اپنی رائے سے قطع نظر کرکے اس بات کو تسلیم کرلیا مگر شرط یہی رکھی کہ فیصلہ کتاب و سنت ہی کے ذریعہ ہوگا۔

معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن فیصلہ کے وقت معاویہ کے نمائندہ عمروعاص نے حضرت علی کی طرف کے نمائندہ ابو موسیٰ اشعری کودھوکہ دیدیا اور اسنے حضرت علی کے معزول کرنے کا اعلان کردیا جس کے بعد عمروعاص نے معاویہ کو نا مزد کردیا اور اس کی حکومت مسلم ہوگئی۔

حضرت علی کے نام نہاد اصحاب کو اب اپنی حماقت کا اندازہ ہوا اور شرمندگی کو مٹانے کے لئے الٹا الزام لگانا شروع کردیا کہ آپ نے اس تحکیم کو کیوں منظور کیا تھا اور خدا کے علاوہ کسی کوحکم کیوں تسلیم کیاتھا۔آپ کافر ہوگئے ہیں اور آپ سے جنگ واجب ہے اور یہ کہہ کر مقام حر وراء پر لشکر جمع کرنا شروع کردیا۔ادھر حضرت شام کے مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے لیکن جب ان ظالموں کی شرارت حد سے آگے بڑھ گئی تو آپ نے ابو ایوب انصاری کو فہمائش کے لئے بھیجا۔ان کی تقریر کا یہ اثر ہوا کہ بارہ ہزار میں سے اکثریت کوفہ چلی گئی یاغیر جانب دار ہوگئی یا حضرت کے ساتھ آگئی اور صرف دو تین ہزار خوارج رہ گئے جن سے مقابلہ ہوا تو اس قیامت کا ہوا کہ صرف نو آدمی بچے۔باقی سب فی النار ہوگئے اور حضرت کے لشکر سے صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔یہ واقعہ ۹ صفر ۳۸ھ کو پیش آیا۔

۷۰

(۳۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

يجري مجرى الخطبة وفيه يذكر فضائلهعليه‌السلام قاله بعد وقعة النهروان

فَقُمْتُ بِالأَمْرِ حِينَ فَشِلُوا وتَطَلَّعْتُ حِينَ تَقَبَّعُوا ونَطَقْتُ حِينَ تَعْتَعُوا ومَضَيْتُ بِنُورِ اللَّه حِينَ وَقَفُوا وكُنْتُ أَخْفَضَهُمْ صَوْتاً وأَعْلَاهُمْ فَوْتاً فَطِرْتُ بِعِنَانِهَا واسْتَبْدَدْتُ بِرِهَانِهَا كَالْجَبَلِ لَا تُحَرِّكُه الْقَوَاصِفُ - ولَا تُزِيلُه الْعَوَاصِفُ - لَمْ يَكُنْ لأَحَدٍ فِيَّ مَهْمَزٌ ولَا لِقَائِلٍ فِيَّ مَغْمَزٌ الذَّلِيلُ عِنْدِي عَزِيزٌ حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ لَه - والْقَوِيُّ عِنْدِي ضَعِيفٌ حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ مِنْه - رَضِينَا عَنِ اللَّه قَضَاءَه وسَلَّمْنَا لِلَّه أَمْرَه - أَتَرَانِي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واللَّه لأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَه - فَلَا أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ كَذَبَ عَلَيْه - فَنَظَرْتُ فِي أَمْرِي - فَإِذَا طَاعَتِي قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَتِي - وإِذَا الْمِيثَاقُ فِي عُنُقِي لِغَيْرِي.

(۳۷)

آپ کا ارشاد گرامی(جو بمنزلہ' خطبہ ہے اور اس میں نہر وان کے واقعہ کےبعدآپ نےاپنے فضائل اورکارناموں کا تذکرہ کیا ہے)

میں نےاس وقت اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ قیام کیا جب سب ناکام ہوگئے تھےاور اس وقت سراٹھایاجب سب گوشوں میں چھپےہوئےتھے اوراس وقت بولاجب سب گونگے ہوگئے تھےاوراس وقت نورخداکےسہارےآگے بڑھاجب سب ٹھہرےہوئے تھےمیری آوازسب سے دھیمی تھی میں نے جب عنان حکومت سنبھالی تو اس میں قوت پرواز پیدا ہوگئی اور میں تنہااس میدان میں بازی لے گیامیرااثبات پہاڑوں جیسا تھا جنہیں نہ تیزہوائیں ہلا سکتی تھیں اورنہ آندھیاں ہٹا سکتی تھیں۔نہ کسی کے لئے میرےکردارمیں طعن و طنز کی گنجائش تھی اورنہ کوئی عیب لگا سکتاتھا۔یادرکھوکہ تمہارا ذلیل میری نگاہ میں عزیزہےیہاں تک کہ اس کا حق دلوادوں اور تمہارا عزیز میری نگاہ میں ذلیل ہےیہاں تک کہ اس سے حق لے لوں۔میں قضا الٰہی پر راضی ہوں اور اس کےحکم کےسامنے سراپا تسلیم ہوں۔کیا تمہارا خیال ہے کہ میں رسول اکرم (ص) کے بارے میں کوئی غلط بیانی کر سکتا ہوں جب کہ سب سےپہلے میں نےآپ کی تصدیق کی ہےتو اب سب سے پہلےجھوٹ بولنے والا نہیں ہوسکتا ہوں۔میں نے اپنےمعاملہ میں غورکیا تومیرے لئےاطاعت رسول (ص) کامرحلہ بیعت پرمقدم تھا اورمیری گردن میں حضرت کے عہد کا طوق پہلے سے پڑا ہوا تھا۔

۷۱

(۳۸)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيها علة تسمية الشبهة شبهة ثم بيان حال الناس فيها

وإِنَّمَا سُمِّيَتِ الشُّبْهَةُ شُبْهَةً لأَنَّهَا تُشْبِه الْحَقَّ - فَأَمَّا أَوْلِيَاءُ اللَّه فَضِيَاؤُهُمْ فِيهَا الْيَقِينُ - ودَلِيلُهُمْ سَمْتُ الْهُدَى وأَمَّا أَعْدَاءُ اللَّه فَدُعَاؤُهُمْ فِيهَا الضَّلَالُ - ودَلِيلُهُمُ الْعَمَى - فَمَا يَنْجُو مِنَ الْمَوْتِ مَنْ خَافَه ولَا يُعْطَى الْبَقَاءَ مَنْ أَحَبَّه.

(۳۹)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

خطبها عند علمه بغزوة النعمان بن بشير صاحب معاوية لعين التمر،وفيها يبدي عذره، ويستنهض الناس لنصرته

(۳۸)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں شبہ کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اور لوگوں کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے)

یقینا شبہ کو شبہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے مشابہ ہوتا ہے۔اس موقع پر اولیاء اللہ کے لئے یقین کی روشنی ہوتی ہے اور سمت ہدایت کی رہنمائی لیکن دشمنان خدا کی دعوت گمراہی اور رہنما بے بصیرتی ہوتی ہے۔یاد رکھو کہ موت سے ڈرنے والا موت سے بچ نہیں سکتا ہے اوربقاء کا طلب گار بقائے دوام پا نہیں سکتا ہے۔

(۳۹)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جو معاویہ کے سردار لشکر نعمان بن(۱) بشیرکے عین التمر پرحملہ کے وقت ارشاد فرمایا اور لوگوں کو اپنی نصرت پرآمادہ کیا )

(۱)معاویہ کی مفسدانہ کاروائیوں میں سے ایک عمل یہ بھی تھا کہ اس نے نعمان بن بشیر کی سر کردگی میں دو ہزار کالشکر عین التمر پرحملہ کرنے کے لئے بھیج دیا تھا جب کہ اس وقت امیر المومنین کی طرف سے مالک بن کعب ایک ہزار افراد کے ساتھ علاقہ کی نگرانی کر رہے تھے لیکن وہ سب موجود نہ تھے۔مالک نے حضرت کے پاس پیغام بھیجا۔آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا لیکن خاطر خواہ اثرنہ ہوا۔صرف عدی بن حاتم اپنے قبیلہ کے ساتھ تیار ہوئے لیکن آپ نے دوسرے قبائل کوبھی شامل کرنا چاہا اور جیسے ہی مخنف بن سلیم نے عبدالرحمن بن مخنف کے ہمراہ پچاس آدمی روانہ کردئیے لشکر معاویہ آتی ہوئی کمک کودیکھ فرار کرگیا لیکن قوم کے دامن پر نا فرمانی کادھبہ رہ گیا کہ عام افراد نے حضرت کے کلام پر کوئی توجہ نہیں دی۔

۷۲

مُنِيتُ بِمَنْ لَا يُطِيعُ إِذَا أَمَرْتُ ولَا يُجِيبُ إِذَا دَعَوْتُ لَا أَبَا لَكُمْ مَا تَنْتَظِرُونَ بِنَصْرِكُمْ رَبَّكُمْ - أَمَا دِينٌ يَجْمَعُكُمْ ولَا حَمِيَّةَ تُحْمِشُكُمْ أَقُومُ فِيكُمْ مُسْتَصْرِخاً وأُنَادِيكُمْ مُتَغَوِّثاً فَلَا تَسْمَعُونَ لِي قَوْلًا ولَا تُطِيعُونَ لِي أَمْراً - حَتَّى تَكَشَّفَ الأُمُورُ عَنْ عَوَاقِبِ الْمَسَاءَةِ - فَمَا يُدْرَكُ بِكُمْ ثَارٌ ولَا يُبْلَغُ بِكُمْ مَرَامٌ - دَعَوْتُكُمْ إِلَى نَصْرِ إِخْوَانِكُمْ - فَجَرْجَرْتُمْ جَرْجَرَةَ الْجَمَلِ الأَسَرِّ وتَثَاقَلْتُمْ تَثَاقُلَ النِّضْوِ الأَدْبَرِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ مِنْكُمْ جُنَيْدٌ مُتَذَائِبٌ ضَعِيفٌ –( كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وهُمْ يَنْظُرُونَ ) .

قال السيد الشريف - أقول قولهعليه‌السلام متذائب أي مضطرب - من قولهم تذاءبت الريح أي اضطرب هبوبها - ومنه سمي الذئب ذئبا لاضطراب مشيته.

میں ایسے افراد میں مبتلا ہوگیا ہوں جنہیں حکم دیتا ہوں تو اطاعت نہیں کرتے ہیں اور بلاتا ہوں تو لبیک نہیں کہتے ہیں۔خدا تمہارا برا کرے ' اپنے پروردگار کی مدد کرنے میں کس چیز کا انتظار کر رہے ہو۔کیا تمہیں جمع کرنے والا دین نہیں ہے اور کیا جوش دلانے والی غیرت نہیں ہے۔میں تم میں کھڑا ہو کر آواز دیتا ہوں اور تمہیں فریاد کے لئے بلاتا ہوں لیکن نہ میری بات سنتے ہو اور نہ میرے حکم کی اطاعت کرتے ہو۔یہاں تک کہ حالات کے بد ترین نتائج سامنے آجائیں ۔سچی بات یہ ہے کہ تمہارے ذریعہ نہ کسی خون نا حق کا بدلہ لیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔میں نے تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کے لئے پکارا مگر تم اس اونٹ کی طرح بلبلا نے لگے جس کی ناف میں درد ہو اور اس کمزور شتر کی طرح سست پڑ گئے جس کی پشت زخمی ہو۔اس کے بعد تم سے ایک مختصر سی کمزور' پریشان حال سپاہ برآمد ہوئی اس طرح جیسے انہیں موت کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہو اور یہ بے کسی سے موت دیکھ رہے ہوں۔

سیدرضی: حضرت کے کلام میں متذائب مضطرب کے معنی میں ہے کہ عرب اس لفظ کو اس ہوا کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جس کا رخ معین نہیں ہوتا ہے اوربھیڑئیے کوبھی ذئب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی چال بے ہنگم ہو تی ہے۔

۷۳

(۴۰)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في الخوارج لما سمع قولهم «لا حكم إلا لله»

قَالَعليه‌السلام : كَلِمَةُ حَقٍّ يُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ - نَعَمْ إِنَّه لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّه - ولَكِنَّ هَؤُلَاءِ يَقُولُونَ لَا إِمْرَةَ إِلَّا لِلَّه وإِنَّه لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ أَمِيرٍ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ - يَعْمَلُ فِي إِمْرَتِه الْمُؤْمِنُ - ويَسْتَمْتِعُ فِيهَا الْكَافِرُ - ويُبَلِّغُ اللَّه فِيهَا الأَجَلَ ويُجْمَعُ بِه الْفَيْءُ - ويُقَاتَلُ بِه الْعَدُوُّ وتَأْمَنُ بِه السُّبُلُ - ويُؤْخَذُ بِه لِلضَّعِيفِ مِنَ الْقَوِيِّ - حَتَّى يَسْتَرِيحَ بَرٌّ ويُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ.

وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى أَنَّهعليه‌السلام لَمَّا سَمِعَ تَحْكِيمَهُمْ قَالَ:

حُكْمَ اللَّه أَنْتَظِرُ فِيكُمْ.

.

(۴۰)

آپ کا ارشاد گرامی

(خوارج کے بارے میں ان کا یہ مقولہ سن کر کہ'' حکم اللہ کے علاوہ کسی کے لئے نہیں ہے)

یہ ایک کلمہ حق ہے جس سے باطل معنی مراد لئے گئے ہیں۔بیشک حکم صرف اللہ کے لئے ہے۔لیکن ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور امارت(۱) بھی صرف اللہ کے لئے ہے حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نظام انسانیت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہر حال ضروری ہے چاہے نیک کردار ہو یا فاسق کہ حکومت کے زیرسایہ ہی مومن کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے اور کافر بھی مزے اڑا سکتا ہے اور اللہ ہرچیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے اور مال غنیمت و خراج وغیرہ جمع کیا جاتا ہے اور دشمنوں سے جنگ کی جاتی ہے اور راستوں کا تحفظ کیا جاتا ہے اور طاقتور سے کمزور کا حق لیا جاتا ہے تاکہ نیک کردار انسان کو راحت ملے اوربد کردار انسان سے راحت ملے۔

(ایک روایت میں ہے کہ جب آپ کو تحکیم کی اطلاع ملی توفرمایا)'' میں تمہارے بارے میں حکم خدا کا انتظار کر رہا ہوں ''

(۱)سترہویں صدی میں ایک فلسفہ ایسا بھی پیداہوا تھا جس کا مقصد مزاج کی حمایت تھا اوراس کا دعوی یہ تھا کہ حکومت کا وجود سماج میں حاکم و محکوم کا امتیاز پیدا کرتا ہے۔حکومت سے ایک طبقہ کو اچھی اچھی تنخواہیں مل جاتی ہیں اور دوسرا محروم رہ جاتا ہے۔ایک طبقہ کو طاقت استعمال کرنے کا حق ہوتا ہے۔اوردوسرے کو یہ حق نہیں ہوتا ہے اور یہ ساری باتیں مزاج انسانیت کے خلاف ہیں لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ یہ بیان لفظوں میں انتہائی حسین ہے اور حقیقت کے اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے اوربیان کردہ مفاسد کا علاج یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ کو معصوم اورعام حکام کو عدالت کا پابند تسلیم کرلیا جائے۔سارے فسادات کاخودبخود علاج ہو جائے گا۔

مذکورہ بالا فلسفہ کے خلاف فطرت کی روش بھی وہ تھی جس نے ۱۹۲۰ئ میں اس کا جنازہ نکال دیا اور پھر کوئی ایسا احمق فلسفی نہیں پیدا ہوا۔

۷۴

وقَالَ أَمَّا الإِمْرَةُ الْبَرَّةُ فَيَعْمَلُ فِيهَا التَّقِيُّ - وأَمَّا الإِمْرَةُ الْفَاجِرَةُ فَيَتَمَتَّعُ فِيهَا الشَّقِيُّ - إِلَى أَنْ تَنْقَطِعَ مُدَّتُه وتُدْرِكَه مَنِيَّتُه

(۴۱)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وفيها ينهى عن الغدر ويحذر منه

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ الْوَفَاءَ تَوْأَمُ الصِّدْقِ ولَا أَعْلَمُ جُنَّةً أَوْقَى مِنْه - ومَا يَغْدِرُ مَنْ عَلِمَ كَيْفَ الْمَرْجِعُ - ولَقَدْ أَصْبَحْنَا فِي زَمَانٍ قَدِ اتَّخَذَ أَكْثَرُ أَهْلِه الْغَدْرَ كَيْساً ونَسَبَهُمْ أَهْلُ الْجَهْلِ فِيه إِلَى حُسْنِ الْحِيلَةِ - مَا لَهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّه - قَدْ يَرَى الْحُوَّلُ الْقُلَّبُ وَجْه الْحِيلَةِ ودُونَهَا مَانِعٌ - مِنْ أَمْرِ اللَّه ونَهْيِه - فَيَدَعُهَا رَأْيَ عَيْنٍ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهَا - ويَنْتَهِزُ فُرْصَتَهَا مَنْ لَا حَرِيجَةَ لَه فِي الدِّينِ.

پھر فرمایا:حکومت نیک ہوتی ہے تو متقی کو کام کرنے کا موقع ملتا ہے اورحاکم فاسق و فاجر ہوتا ہے تو بد بختوں کو مزہ اڑانے کا موقع ملتا ہے یہاں تک کہ اس کی مدت تمام ہو جائے اور موت اسے اپنی گرفت میں لے لے

(۴۱)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جس میں غداری سے روکا گیا ہے اور اس کے نتائج سے ڈرایا گیا ہے)

ایہا الناس!یاد رکھو وفا ہمیشہ صداقت کے ساتھ رہتی ہے اور میں اس سے بہتر محافظ کوئی سپرنہیں جانتا ہوں اور جسے باز گشت کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے وہ غداری نہیں کرتا ہے۔ہم ایک ایسے دورمیں واقع ہوئے ہیں جس کی اکثریت نے غداری اور مکاری کا نام ہوشیاری رکھ لیا ہے۔اور اہل جہالت نے اس کا نام حسن تدبیر رکھ لیا ہے۔آخر انہیں کیا ہوگیا ہے۔خدا انہیں غارت کرے۔وہ انسان جو حالات کے الٹ پھیر کو دیکھ چکا ہے وہ بھی حیلہ کے رخ کو جانتا ہے لیکن امرو نہی الٰہی اس کا راستہ روک لیتے ہیں اور وہ امکان رکھنے کے باوجود اس راستہ کو ترک کر دیتا ہے اور وہ شخص اس موقع سے فائدہ اٹھالیتا ہے جس کے لئے دین سد راہ نہیں ہوتا ہے۔

۷۵

(۴۲)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وفيه يحذر من اتباع الهوى وطول الأمل في الدنيا

أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ - اثْنَانِ اتِّبَاعُ الْهَوَى وطُولُ الأَمَلِ فَأَمَّا اتِّبَاعُ الْهَوَى فَيَصُدُّ عَنِ الْحَقِّ - وأَمَّا طُولُ الأَمَلِ

فَيُنْسِي الآخِرَةَ - أَلَا وإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ وَلَّتْ حَذَّاءَ فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الإِنَاءِ - اصْطَبَّهَا صَابُّهَا أَلَا وإِنَّ الآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ ولِكُلٍّ مِنْهُمَا بَنُونَ - فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الآخِرَةِ ولَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا - فَإِنَّ كُلَّ وَلَدٍ سَيُلْحَقُ بِأَبِيه يَوْمَ الْقِيَامَةِ - وإِنَّ الْيَوْمَ عَمَلٌ ولَا حِسَابَ وغَداً حِسَابٌ ولَا عَمَلَ.

قال الشريف - أقول الحذاء السريعة - ومن الناس من يرويه جذاء.

(۴۲)

آپ کا ارشاد گرامی

(جس میں اتباع خواہشات اور طول امل سے ڈرایا گیا ہے)

ایہاالناس! میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کا خوف رکھتا ہوں۔اتباع خواہشات اور درازی امید کہ اتباع خواہشات انسان کو راہ حق سے روک دیتا ہے اور طول امل آخرت کو بھلا دیتا ہے۔یاد رکھو دنیا منہ پھیر کر جا رہی ہے اور اس میں سے کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے مگر اتنا جتنا برتن سے چیز کوانڈیل دینے کے بعد تہ میں باقی رہ جاتا ہے اور آخرت اب سامنے آرہی ہے۔

دنیا وآخرت دونوں کی اپنی اولاد ہیں۔لہٰذا تم آخرت کے فرزندوں میں شامل ہو جائو اور خبردار فرزندان دنیا میں شمار ہونا اس لئے کہ عنقریب ہر فرزند کو اس کے ماں کے(۱) ساتھ ملادیا جائے گا۔آج عمل کی منزل ہے اور کوئی حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہے اور کوئی عمل کی گنجائش نہیں ہے۔

سید رضی شریف نے فرمایا " میں کہتا ہوں کہ (الحذاء) یعنی جلدی اور بعض لوگوں نے جذاء بھی روایت کی ہے

(۱)انسان کی عاقبت کا دارومدارحقائق اورواقعات پر ہے اور وہاں ہرشخص کواس کی ماں کے نام سے پکارا جائے گا کہ ماں ہی ایک ثابت حقیقت ہے باپ کی تشخیص میں تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ماں کی تشخیص میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا ہے۔امام علیہ السلام کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں آخرت کی گود میں پرورش پائو تاکہ قیامت کے دن اسی سے ملادئیے جائو ورنہ ابناء دنیا اس دن وہیتیم ہوں گے جن کا کوئی باپ نہ ہوگا اور ماں کو بھی پیچھے چھوڑ کرآئے ہوں گے۔ایسا بے سہارا بننے سے بہتر یہ ہے کہ یہیں سے سہارے کا انتظام کرلو اور پورے انتظام کے ساتھ آخرت کا سفراختیار کرو۔

۷۶

(۴۳)

ومن كلام لهعليه‌السلام

وقد أشار عليه أصحابه بالاستعداد لحرب أهل الشام بعد إرساله جرير بن عبد الله

البجلي إلى معاوية ولم ينزل معاوية على بيعته

إِنَّ اسْتِعْدَادِي لِحَرْبِ أَهْلِ الشَّامِ وجَرِيرٌ عِنْدَهُمْ - إِغْلَاقٌ لِلشَّامِ وصَرْفٌ لأَهْلِه عَنْ خَيْرٍ إِنْ أَرَادُوه - ولَكِنْ قَدْ وَقَّتُّ لِجَرِيرٍ وَقْتاً لَا يُقِيمُ بَعْدَه - إِلَّا مَخْدُوعاً أَوْ عَاصِياً - والرَّأْيُ عِنْدِي مَعَ الأَنَاةِ فَأَرْوِدُوا ولَا أَكْرَه لَكُمُ الإِعْدَادَ

ولَقَدْ ضَرَبْتُ أَنْفَ هَذَا الأَمْرِ وعَيْنَه وقَلَّبْتُ ظَهْرَه وبَطْنَه - فَلَمْ أَرَ لِي فِيه إِلَّا الْقِتَالَ أَوِ الْكُفْرَ - بِمَا جَاءَ مُحَمَّدٌصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - إِنَّه قَدْ كَانَ عَلَى الأُمَّةِ وَالٍ أَحْدَثَ أَحْدَاثاً - وأَوْجَدَ النَّاسَ مَقَالًا فَقَالُوا ثُمَّ نَقَمُوا فَغَيَّرُوا.

(۴۳)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(جب جریربن عبداللہ البجلی کو معاویہ کے پاس بھیجنے اور معاویہ کے انکار بیعت کے بعد اصحاب کو اہل شام سے جنگ پرآمادہ کرنا چاہا )

اس وقت میری اہل شام سے جنگ کی تیاری جب کہ جریر وہاں موجود ہیں شام پر تمام دروازے بند کردینا ہے اور انہیں خیرکے راستہ سے روک دینا ہے اگروہ خیر کا ارادہ بھی کرنا چاہیں۔میں نے جریر کے لئے ایک وقت مقرر کردیا ہے۔اس کے بعدوہ وہاں یا کسی دھوکہ کی بنا پر رک سکتے ہیں یا نا فرمانی کی بنا پر۔اور دونوں صورتوں میں میری رائے یہی ہے کہ انتظار کیا جائے لہٰذا ابھی پیشقدمی نہ کرو اور میں منع بھی نہیں کرتا ہوں اگر اندراندر تیاری(۱) کرتے رہو۔

میں نے اس مسئلہ پر مکمل غور و فکرکرلیا ہے اوراس کے ظاہر و باطن کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے۔اب میر ے سامنے دو ہی راستے ہیں یا جنگ کروں یا بیانات پیغمبر السلام (ص) کا انکار کردوں۔مجھ سے پہلے اس قوم کا ایک حکمران تھا۔اس نے اسلام میں بدعتیں ایجاد کیں اور لوگوں کوبولنے کا موقع دیا تو لوگوں نے زبان کھولی۔پھراپنی ناراضگی کااظہار کیا اورآخر میں سماج کا ڈھانچہ بدل دیا۔

(۱) یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عملی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ دشمن کو کوئی بہانہ فراہم نہ کرو اور واقعی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مکرو فریب سے ہوشیار رہو اورہر وقت مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہو۔

۷۷

(۴۴)

ومن كلام لهعليه‌السلام

لما هرب مصقلة بن هبيرة الشيباني إلى معاوية، وكان قد ابتاع سبي بني ناجية من عامل أمير المؤمنينعليه‌السلام وأعتقهم، فلما طالبه بالمال خاس به وهرب إلى الشام

قَبَّحَ اللَّه مَصْقَلَةَ - فَعَلَ فِعْلَ السَّادَةِ وفَرَّ فِرَارَ الْعَبِيدِ - فَمَا أَنْطَقَ مَادِحَه حَتَّى أَسْكَتَه - ولَا صَدَّقَ وَاصِفَه حَتَّى بَكَّتَه ولَوْ أَقَامَ لأَخَذْنَا مَيْسُورَه وانْتَظَرْنَا بِمَالِه وُفُورَه

(۴۴)

حضرت کا ارشاد گرامی

(اس موقع پر جب مصقلہ(۱) بن ہیرہ شیبانی نے آپ کے عامل سبے بنی ناجیہ کے اسیرکو خرید کر آزاد کردیا اور جب حضرت نے اس سے قیمت کامطالبہ کیا تو بد دیانتی کرتے ہوئے شام کی طرف فرار کر گیا)

خدا برے کرے مصقلہ کاکہ اس نے کام شریفوں جیسا کیا لیکن فرار غلاموں کی طرح کیا۔ابھی اس کے مداح نے زبان کھولی بھی نہیں تھی کہ اسنے خود ہی خاموش کردیا اور اس کی تعریف میں کچھ کہنے والا کچھ کہنے بھی نہ پایا تھا کہ اس نے منہ بند کردیا۔اگر وہیں ٹھہرا رہتا تو میں جس قدر ممکن ہوتا اس سے لے لیتا اورباقی کے لئے اس کے مال کی زیادتی کا انتظار کرتا۔

(۱) اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحکیم کے بعد خوارج نے جن شورشوں کاآغاز کیا تھا ان میں ایک بنی ناجیہ کے ایک شخص خریت بن راشد کا اقدام تھا جس کودبانے کے لئے حضرت نے زیادہ بن حفصہ کو روانہ کیا تھا اور انہوں نے اس شورش کودبا دیا تھا لیکن خریت دوسرے علاقوں میں فتنے برپا کرنے لگا تو حضرت معقل بن قیس ریاحی کو دو ہزار کا لشکردے کر روانہ کردیا اور ادھر ابن عباس نے بصرہ کے لئے کمک بھیج دی اوربالآخر حضرت کے لشکر نے فتنہ کو دبا دیا اور بہت سے افراد کو قیدی بنالیا۔قیدیوں کو لے کر جا رہے تھے کہ راستہ میں مصقلہ کے شہر سے گزر ہوا۔اس نے قیدیوں کی فریاد پر انہیں خرید کرآزاد کردیا اور قیمت کی صرف ایک قسط ادا کردی۔اس کے بعد خاموش بیٹھ گیا۔حضرت نے بار ارمطالبہ کیا۔آخر میں کوفہ آکردو لاکھ درہم دےدئیے اور جان بچانے کے لئے شام بھاگ گیا۔حضرت نے فرمایا کہ کام شریفوں کا کیاتھا لیکن واقعاً ذلیل ہی ثابت ہوا۔

کاش اسے اسلام کے اس قانون کی اطلاع ہوتی کہ قرض کی ادائیگی میں جبر نہیں کیا جاتا ہے بلکہ حالات کا انتظار کیا جاتا ہے اورجب مقروض کے پاس امکانات فراہم ہو جاتے ہیں تب قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔!

۷۸

(۴۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

وهو بعض خطبة طويلة خطبها يوم الفطر وفيها يحمد الله ويذم الدنيا

حمد الله

الْحَمْدُ لِلَّه غَيْرَ مَقْنُوطٍ مِنْ رَحْمَتِه - ولَا مَخْلُوٍّ مِنْ نِعْمَتِه - ولَا مَأْيُوسٍ مِنْ مَغْفِرَتِه - ولَا مُسْتَنْكَفٍ عَنْ عِبَادَتِه - الَّذِي لَا تَبْرَحُ مِنْه رَحْمَةٌ - ولَا تُفْقَدُ لَه نِعْمَةٌ.

ذم الدنيا

والدُّنْيَا دَارٌ مُنِيَ لَهَا الْفَنَاءُ - ولأَهْلِهَا مِنْهَا الْجَلَاءُ وهِيَ حُلْوَةٌ خَضْرَاءُ - وقَدْ عَجِلَتْ لِلطَّالِبِ - والْتَبَسَتْ بِقَلْبِ النَّاظِرِ - فَارْتَحِلُوا مِنْهَا بِأَحْسَنِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ مِنَ الزَّادِ - ولَا تَسْأَلُوا فِيهَا فَوْقَ الْكَفَافِ ولَا تَطْلُبُوا مِنْهَا أَكْثَرَ مِنَ الْبَلَاغِ

(۴۶)

ومن كلام لهعليه‌السلام

عند عزمه على المسير إلى الشام

وهو دعاء دعا به ربه عند وضع رجله في الركاب

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ

(۴۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(یہ عید الفطر کے موقع پرآپ کے طویل خطبہ کا ایک جز ہے جس میں حمد خدا اور مذمت دنیا کا ذکر کیا گیا ہے)

تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی رحمت سے مایوس نہیں ہوا جاتا اور جس کی نعمت سے کسی کا دامن خالی نہیں ہے۔نہ کوئی شخص اس کی مغرفت سے مایوس ہو سکتا ہے اور نہ کسی میں اس کی عبادت سے اکڑنے کا امکان ہے۔نہ اس کی رحمت تمام ہوتی ہے اور نہ اس کی نعمت کا سلسلہ رکتا ہے۔

یہ دنیا ایک ایسا گھر ہے جس کے لئے فنا اور اس کے باشندوں کے لئے جلا وطنی مقدر ہے۔یہ دیکھنے میں شیریں اور سر سبز ہے جو اپنے طلب گار کی طرف تیزی سے بڑھتی ہے اور اس کے دل میں سما جاتی ہے۔لہٰذا خبردار اس سے کوچ کی تیاری کرو اور بہترین زاد راہ لے کر چلو۔اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال نہ کرنا اور جتنے سے کام چل جائے اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرنا۔

(۴۶)

آپ کا ارشاد گرامی

(جب شام کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور اس دعا کو رکاب میں پائوں رکھتے ہوئے درد زبان فرمایا)

خدایا:میں سفر کی مشقت اور واپسی کے اندوہ و غم

۷۹

وكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وسُوءِ الْمَنْظَرِ - فِي الأَهْلِ والْمَالِ والْوَلَدِ - اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ - وأَنْتَ الْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ - ولَا يَجْمَعُهُمَا غَيْرُكَ - لأَنَّ الْمُسْتَخْلَفَ لَا يَكُونُ مُسْتَصْحَباً - والْمُسْتَصْحَبُ لَا يَكُونُ مُسْتَخْلَفاً.

قال السيد الشريفرضي‌الله‌عنه - وابتداء هذا الكلام مروي عن رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - وقد قفاه أمير المؤمنينعليه‌السلام بأبلغ كلام وتممه بأحسن تمام - من قوله ولا يجمعهما غيرك - إلى آخر الفصل.

(۴۷)

ومن كلام لهعليه‌السلام

في ذكر الكوفة

كَأَنِّي بِكِ يَا كُوفَةُ تُمَدِّينَ مَدَّ الأَدِيمِ الْعُكَاظِيِّ تُعْرَكِينَ بِالنَّوَازِلِ وتُرْكَبِينَ بِالزَّلَازِلِ - وإِنِّي لأَعْلَمُ أَنَّه مَا أَرَادَ بِكِ جَبَّارٌ سُوءاً - إِلَّا ابْتَلَاه اللَّه بِشَاغِلٍ ورَمَاه بِقَاتِلٍ!

اور اہل و مال و اولاد کی بد حالی سے تیرے پناہ چاہتا ہوں۔تو ہی سفرکا ساتھی ہے اور گھر کا نگراں ہے کہ یہ دونوں کام تیرے علاوہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا کہ جسے گھر میں چھوڑ دیا جائے وہ سفرمیں کام نہیں آتا ہے اور جسے سفرمیں ساتھ لے لیاجائے گا وہ گھر کی نگرانی نہیں کر سکتا ہے۔

سید رضی : اس دعا کا ابتدائی حصہ سرکار دوعالم (ص) سے نقل کیا گیا ہے اور آخری حصہ مولائے کائنات کی تضمین کا ہے جو سرکار (ص) کے کلمات کی بہترین توضیح اور تکمیل ہے ۔'' لا یجمعهما غیرک ''

(۴۷)

آپ کا ارشاد گرامی

(کوفہ کے بارے میں )

اے کوفہ! جیسے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے بازار عکاظ کے چمڑے کی طرح کھینچا جا رہا ہے۔تجھ پرحوادث کے حملے ہو رہے ہیں اور تجھے زلزلوں کا مرکب بنادیا گیا ہے اور مجھے یہ معلوم ہے کہ جو ظالم و جابر بھی تیرے ساتھ کوئی برائی کرنا چاہے گا پروردگار اسے کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردے گا اور اسے کسی قاتل کی زد پر لے آئے گا۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

خندق کھورنے لگے امیر المؤمنین کھدی ہوئی مٹی کو خندق سے نکال کر باہر لے جار رہے تھے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اتنا کام کیا کہ پسینہ سے تر ہوگئے اور تھکاوٹ کے آثار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ سے نمایاں تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''لا عیش لا عیش الاخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرین '' (۱)

آخرت کے آرام کے سوا اور کوئی آرام نہیں ہے اے اللہ مہاجرین و انصار کی مغفرت فرما_

جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بہ نفس نفیس خندق کھودنے اور مٹی اٹھانے میں منہمک میں تو ان کو اور زیادہ جوش سے کام کرنے لگے_

جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں : خندق کھودتے کھودتے ہم ایک بہت ہی سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اب کیا کیا جائے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : وہاں تھوڑا پانی ڈال دو اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں خود تشریف لائے حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھو کے بھی تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین مرتبہ خدا کا نام زبان پر جاری کرنے کے بعد اس جگہ پر ضرب لگائی تو وہ جگہ بڑی آسانی سے کھد گئی_(۲)

عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ میں اور سلمان اور انصار میں سے چند افراد مل کر چالیس ہاتھ کے قریب زمین کھود رہے تھے ایک جگہ سخت پتھر آگیا جس کی وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲ ص ۲۱۸) _

۲ (بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۱۸۱

گئے ہم نے سلمان سے کہا تم جاکر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ماجرا بیان کردو سلمان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سارا واقعہ بیان کردیاآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود تشریف لائے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند ضربوں میں پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا _(۱)

کھانا تیار کرنے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شرکت

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اپنی سواریوں سے اترے اور اپنا سامان اتار لیا تو یہ طے پایا کہ بھیڑ کو ذبح کرکے کھانا تیار کیا جائے _

اصحاب میں سے ایک نے کہا گوسفند ذبح کرنے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ، دوسرے نے کہا اس کی کھال میں اتاروں گا ، تیسرے نے کہا گوشت میں پکاؤں گا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جنگل سے لکڑی لانے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زحمت نہ فرمائیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آرام سے بیٹھیں ان سارے کاموں کو ہم لوگ فخر کے ساتھ انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سارا کام کرلو گے لیکن خدا کسی بندہ کو اس کے دوستوں کے درمیان امتیازی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتا _پھر اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صحرا کی جانب گئے اور وہاں سے لکڑی و غیرہ جمع کرکے لے آئے _(۲)

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۰ ص ۱۹۸)_

۲) ( داستان راستان منقول از کحل البصر ص ۶۸)_

۱۸۲

شجاعت کے معنی :

شجاعت کے معنی دلیری اور بہادری کے ہیں علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے یہ ایک ایسی غصہ والی طاقت ہے جس کے ذریعہ نفس اس شخص پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے دشمنی ہوجاتی ہے _(۱)

جب میدان کا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو کسی انسان کی شجاعت اور بزدلی کا اندازہ ایسے ہی موقع پر لگایا جاتا ہے _

شجاعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

صدر اسلام میں کفار اور مسلمانوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تاریخ کی گواہی کے مطابق اس میں کامیابی کی بہت بڑی وجہ حضور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت تھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہ نفس نفیس بہت سی جنگوں میں موجود تھے اور جنگ کی کمان اپنے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے تھے _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت علیعليه‌السلام کی زبانی :

تقریبا چالیس سال کا زمانہ علیعليه‌السلام نے میدان جنگ میں گذارا عرب کے بڑے بڑے

___________________

۱) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)

۱۸۳

پہلوانوں کو زیر کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ بیان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کی بہترین دلیل ہے کہ آپعليه‌السلام فرماتا ہیں :

''کنا اذا احمر الباس و القی القوم اتقینا برسول الله فما کان احد اقرب الی العدو منه'' (۱)

جب جنگ کی آگ بھڑکتی تھی اور لشکر آپس میں ٹکراتے تھے تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لیتے تھے ایسے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک ہوئے تھے_

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

''لقد رایتنی یوم بدر و نحن نلوذ بالنبی و هو اقربنا الی العدو و کان من اشد الناس یومئذ'' (۲)

بے شک تم نے مجھ کو جنگ بدر کے دن دیکھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا کی پناہ میں تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن سے سب سے زیادہ نزدیک اور لشکر میں سب سے زیادہ قوی تھے_

جنگ '' حنین '' میں براء بن مالک سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کے بارے میں دوسری روایت نقل ہوئے ہے جب قبیلہ قیس کے ایک شخص نے براء سے پوچھا کہ کیا تم جنگ حنین کے دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان کی مدد نہیں کی

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳) _

۲) ( الوفا باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۴

تھی ؟ تو انہوں نے کہا :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے محاذ جنگ سے فرار نہیں اختیار کیا قبیلہ '' ہوازان '' کے افراد بڑے ماہر تیرانداز تھے _ ابتداء میں جب ہم نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے فرار اختیار کیا _ جب ہم نے یہ ماحول دیکھا تو ہم مال غنیمت لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ، اچانک انہوں نے ہم پر تیروں سے حملہ کردیا ہیں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ وہ سفید گھوڑے پر سوارہیں_ ابو سفیان بن حارث نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی ہے اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرما رہے ہیں :

''اناالنبی لا کذب و انا بن عبدالمطلب'' (۱)

میں راست گو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں میں فرزند عبدالمطلب ہوں _

___________________

۱) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۳)_

۱۸۵

خلاصہ درس :

۱ _ باہمی امداد اور تعاون معاشرتی زندگی کی اساس ہے اس سے افراد قوم کے دلوں میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے _

۲ _ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف باہمی تعاون کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے کام میں خود بھی شریک ہوجاتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل سے باہمی تعاون کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے _

۳_شجاعت کے معنی میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے مظاہرہ کے ہیں اور علمائے اخلاق کے نزدیک تہور اور جبن کی درمیانی قوت کا نام شجاعت ہے _

۴_ تاریخ گواہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ہیں ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور استقامت فتح کا سب سے اہم سبب تھا_

۵_ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جنگ بدر کے دن ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامن میں پناہ لے لی اور وہ دشمنوں کے سب سے زیادہ قریب تھے اور اس دن تمام لوگوں میں سے سب زیادہ قوی اور طاقت ور تھے_

۱۸۶

سوالات :

۱_ باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی اہمیت کو ایک روایت کے ذریعے بیان کیجئے؟

۲_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ابوطالب کے ساتھ کس زمانہ اور کس چیز میں تعاون تھا ؟

۳ _ وہ امور جن کا تعلق معاشرتی امور سے تھا ان میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کیا روش تھی مختصر طور پر بیان کیجئے؟

۴_ شجاعت کا کیا مطلب ہے ؟

۵_ علمائے اخلاق نے شجاعت کی کیا تعریف کی ہے ؟

۶_ جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت کیا تھی ؟ بیان کیجئے؟

۱۸۷

تیرہواں سبق:

(پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بخشش و عطا )

دین اسلام میں جس صفت اور خصلت کی بڑی تعریف کی گئی ہے اور معصومینعليه‌السلام کے اقوال میں جس پر بڑا زور دیا گیا ہے وہ جود و سخا کی صفت ہے _

سخاوت عام طور پر زہد اور دنیا سے عدم رغبت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور یہ بات ہم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انبیاء کرامعليه‌السلام سب سے بڑے زاہد اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے افراد تھے اس بنا پر سخاوت کی صفت بھی زہد کے نتیجہ کے طور پر ان کی ایک علامت اور خصوصیت شمار کی جاتی ہے _

اس خصوصیت کا اعلی درجہ یعنی ایثار تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصاً پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ما جبل الله اولیائه الا علی السخا ء و حسن الخلق'' (۱)

___________________

۱) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی )_

۱۸۸

سخاوت اور حسن خلق کی سرشت کے بغیر خدا نے اپنے اولیاء کو پیدا نہیں کیا ہے _

سخاوت کی تعریف :

سخاوت یعنی مناسب انداز میں اس طرح فائدہ پہونچانا کہ اس سے کسی غرض کی بونہ آتی ہو اور نہ اس کے عوض کسی چیز کا تقاضا ہو(۱)

اسی معنی میں سخی مطلق صرف خدا کی ذات ہے جس کی بخشش غرض مندی پر مبنی نہیں ہے انبیاءعليه‌السلام خدا '' جن کے قافلہ سالار حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب اور اخلاق الہی سے مزین ہیں'' سخاوت میں تمام انسانوں سے نمایان حیثیت کے مالک ہیں _

علماء اخلاق نے نفس کے ملکات اور صفات کو تقسیم کرتے ہوئے سخاوت کو بخل کا مد مقابل قرار دیا ہے اس بنا پر سخاوت کو اچھی طرح پہچاننے کے لئے اس کی ضد کو بھی پہچاننا لازمی ہے _

مرحوم نراقی تحریر فرماتے ہیں :'' البخل هو الامساک حیث ینبغی البذل کما ان الاسراف هو البذل حیث ینبغی الامساک و کلا هما مذمومان و المحمود هو الوسط و هو الجود و السخا ء'' (۲) بخشش کی جگہ پر بخشش و عطا

___________________

۱) ( فرہنگ دہخدا ، منقول از کشاف اصطلاحات الفنون)_

۲) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت)_

۱۸۹

نہ کرنا بخل ہے اور جہاں بخشش کی جگہ نہیں ہے وہاں بخشش و عطا سے کام لینا اسراف ہے یہ دونوں باتیں ناپسندیدہ میں ان میں سے نیک صفت وہ ہے جو درمیانی ہے اور وہ ہے جودوسخا_

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے :

( لا تجعل یدک مغلولة الی عنقک و لا تبسطها کل البسط فتقعد ملوما محسورا ) (۱)

اپنے ہاتھوں کو لوگوں پر احسان کرنے میں نہ تو بالکل بندھا ہوا رکھیں اور نہ بہت کھلا ہوا ان میں سے دونوں باتیں مذمت و حسرت کے ساتھ بیٹھے کا باعث ہیں _

اپنے اچھے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :

( و الذین اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا و کان بین ذالک قواما ) (۲)

اور وہ لوگ جو مسکینوں پر انفاق کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ احسان میں میانہ رو ہوتے ہیں _

مگر صرف انہیں باتوں سے سخاوت متحقق نہیں ہوتی بلکہ دل کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے مرحوم نراقی لکھتے ہیں :''و لا یکفی فی تحقق الجود و السخا ان یفعل

___________________

۱) ( الاسراء ۲۹) _

۲) (فرقان ۶۷) _

۱۹۰

ذلک بالجوارح ما لم یکن قلبه طیبا غیر منازع له فیه'' (۱) سخاوت کے تحقق کیلئے صرف سخاوت کرنا کافی نہیں ہے بلکہ دل کا بھی اس کام پر راضی ہونا اور نزاع نہ کرنا ضروری ہے _

سخاوت کی اہمیت :

اسلام کی نظر میں سخاوت ایک بہترین اور قابل تعریف صفت ہے اس کی بہت تاکید بھی کی گئی ہے نمونہ کے طور پر اس کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں_

''السخا شجرة من شجر الجنة ، اغصانها متدلیة علی الارض فمن اخذ منها غصنا قاده ذالک الغصن الی الجنة '' (۲)

سخاوت جنت کا ایک ایسا درخت ہے جس کی شاخیں زمین پر جھکی ہوئی ہیں جو اس شاخ کو پکڑلے وہ شاخ اسے جنت تک پہونچا دے گی _

''قال جبرئیل: قال الله تعالی : ان هذا دین ارتضیته لنفسی و لن یصلحه الا السخاء و حسن الخلق فاکرموه بهما ما استطعم '' (۳)

___________________

۱) ( جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۲ مطبوعہ بیروت )_

۲) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷فیض کاشانی ) _

۳) ( الحقائق فی محاسن الاخلاق ۱۱۷ فیض کاشانی ) _

۱۹۱

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خدا سے نقل کیا ہے کہ خداوند فرماتا ہے : اسلام ایک ایسا دین ہے جس کو میں نے اپنے لیئے منتخب کر لیا ہے اس میں جود و سخا اور حسن خلق کے بغیر بھلائی نہیں ہے پس اس کو ان دو چیزوں کے ساتھ ( سخاوت او حسن خلق ) جہاں تک ہوسکے عزیز رکھو _

''تجافوا عن ذنب السخی فان الله آخذ بیده کلما عثر'' (۱) سخی کے گناہوں کو نظر انداز کردو کہ خدا ( اس کی سخاوت کی وجہ سے ) لغزشوں سے اس کے ہاتھ روک دیتا ہے _

سخاوت کے آثار :

خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب چیز ہے کہ بہت سی جگہوں پر اس نے سخاوت کی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے ساتھ مدارات کا حکم دیا ہے_

۱ _ بہت بولنے والا سخی

امام جعفر صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ یمن سے ایک وفدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کیلئے آیا ان میں ایک ایسا بھی شخص تھا جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بڑی باتیں اور جدال کرنے والا شخص تھا اس نے کچھ ایسی باتیں کیں کہ غصہ کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ابرو اور چہرہ سے پسینہ ٹپکنے لگا _

___________________

۱) (جامع السعادات ج ۲ ص ۱۱۷ مطبوعہ بیروت )_

۱۹۲

اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا: کہ یہ شخص ایک سخی انسان ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے _ یہ بات سن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ کم ہوگیا اس شخص کی طرف مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اگر جبرئیل نے مجھ کو یہ خبر نہ دی ہوتی کہ تو ایک سخی انسان ہے تو میں تیرے ساتھ بڑا سخت رویہ اختیار کرتا ایسا رویہ جس کی بنا پر تودوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاتا _

اس شخص نے کہا : کہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خدا سخاوت کو پسند کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا : ہاں ، اس شخص نے یہ سن کے کلمہ شہادتیں زبان پر جاری کیا اور کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے آج تک کسی کو اپنے مال سے محروم نہیں کیا ہے(۱)

۲_سخاوت روزی میں اضافہ کا سبب ہے :

مسلمانوں میں سخاوت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ روزی کے معاملہ میں خدا پر توکل کرتے ہیں جو خدا کو رازق مانتا ہے اور اس بات کا معتقد ہے کہ اس کی روزی بندہ تک ضرور پہنچے گی وہ بخشش و عطا سے انکار نہیں کرتا اس لئے کہ اس کو یہ معلوم ہے کہ خداوند عالم اس کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا _

انفاق اور بخشش سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معراج کے واقعات بتاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے_

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۲۲ ص ۸۴)_

۱۹۳

''و رایت ملکین ینادیان فی السماء احدهما یقول : اللهم اعط کل منفق خلفا و الاخر یقول : اللهم اعط کل ممسک تلفا'' (۱)

میں نے آسمان پر دو فرشتوں کو آواز دیتے ہوئے دیکھا ان میں سے ایک کہہ رہا تھا خدایا ہر انفاق کرنے والے کو اس کا عوض عطا کر _ دوسرا کہہ رہا تھا ہر بخیل کے مال کو گھٹادے _

دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا :

بخل کے مد مقابل جو صفت ہے اس کا نام سخاوت ہے _ بخل کا سرچشمہ دنیا سے ربط و محبت ہے اس بنا پر سخاوت کا سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے اندر دنیا کی محبت ختم ہوجاتی ہے _ اس کے دل سے مال کی محبت نکل جاتی ہے اور اس جگہ حقیقی محبوب کا عشق سماجاتا ہے _

اصحاب کی روایت کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سخاوت

جناب جابر بیان کرتے ہیں :

''ما سئل رسول الله شیئا قط فقال : لا'' (۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' نہیں '' نہیں فرمایا _

امیرالمؤمنینعليه‌السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں ہمیشہ فرمایا کرتے تھے :

___________________

۱) ( بحار الانوار ج ۱۸ ص ۳۲۳) _

۲) ( الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۱) _

۱۹۴

'' کان اجود الناس کفا و اجرا الناس صدرا و اصدق الناس لهجةو اوفاهم ذمة و الینهم عریکهة و اکرمهم عشیرة من راه بدیهة هابه و من خالطه معرفة احبه لم ارقبله و بعده مثله '' (۱)

بخشش و عطا میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ سب سے زیادہ کھلے ہوئے تھے_ شجاعت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سینہ سب سے زیادہ کشادہ تھا ، آپ کی زبان سب سے زیادہ سچی تھی ، وفائے عہد کی صفت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سب سے زیادہ موجود تھی ، تمام انسانوں سے زیادہ نرم عادت کے مالک تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان تمام خاندانوں سے زیادہ بزرگ تھا ، آپ کو جو دیکھتا تھا اسکے اوپر ہیبت طاری ہوجاتی تھی اور جب کوئی معرفت کی غرض سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ بیٹھتا تھا وہ اپنے دل میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت لیکر اٹھتا تھا _ میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کسی کو بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسا نہیں پایا _

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول کی یہ صفت تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو بھی ملتا تھا وہ عطا کردیتے تھے اپنے لئے کوئی چیز بچاکر نہیں رکھتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے نوے ہزار درہم لایا گیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان درہموں کو تقسیم کردیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی کسی ساءل کو واپس نہیں کیا جب تک اسے فارغ نہیں کیا _(۲)

___________________

۱) ( مکارم الاخلاق ص ۱۸) _

۲) (ترجمہ احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۷۱)_

۱۹۵

خلاصہ درس :

۱) اسلام نے جس چیز کی تاکید کی اور جس پر سیرت معصومینعليه‌السلام کی روایتوںمیں توجہ دلائی گئی ہے وہ سخاوت کی صفت ہے _

۲) تمام انبیاءعليه‌السلام خصوصا ً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس صفت کے اعلی درجہ '' ایثار '' فائز تھے _

۳) سخاوت یعنی مناسب جگہوں پر اس طرح سے فائدہ پہونچانا کہ غرض مندی کی بو اس میں نہ آتی ہوا اور نہ کسی عوض کے تقاضے کی فکر ہو _

۴) سخاوت بخل کی ضد ہے بخل اور اسراف کے درمیان جو راستہ ہے اس کا نام سخاوت ہے_

۵)خدا کی نظر میں سخاوت ایسی محبوب صفت ہے کہ اس نے اپنے حبیب کو کافر سخی انسان کی عزت کرنے کا حکم دیا _

۶) انفاق اور بخشش نعمت و روزی میں اضافہ کا سبب ہے_

۷)رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو ملتا تھا اس کو بخش دیا کرتے تھے اپنے پاس بچاکر کچھ بھی نہیں رکھتے تھے_

۱۹۶

سوالات :

۱_ جود و سخاوت کا کیا مطلب ہے ؟

۲_ سب سے اعلی درجہ کی سخاوت کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے ؟

۳_قرآن کریم کی ایک آیت کے ذریعہ سخاوت کے معنی بیان کیجئے؟

۴_ سخاوت کی اہمیت اور قدر و قیمت بتانے کیلئے ایک روایت پیش کیجئے؟

۵_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جودو سخا کی ایک روایت کے ذریعے وضاحت کیجئے؟

۱۹۷

چودھواں سبق:

(سخاوت ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خداداد صفت )

ابن عباس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول نقل کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''انا ادیب الله و علی ادیبی امرنی ربی بالسخاء و البر و نهانی عن البخل و الجفاء و ما شئ ابغض الی الله عزوجل من البخل و سوء الخلق و انه لیفسد العمل کما یفسد الخل العسل '' (۱)

میری تربیت خدا نے کی ہے اور میں نے علی علیہ السلام کی تربیت کی ہے ، خدا نے مجھ کو سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے اور اس نے مجھے بخل اور جفا سے منع کیا ہے ، خدا کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ برا اخلاق عمل کو اسی طرح خراب کردیتا ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے _ جبیربن مطعم سے منقول ہے کہ ''حنین'' سے واپسی کے بعد ، اعراب مال غنیمت میں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارد گرد اکھٹے ہوئے اور بھیڑ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ردا اچک لے گئے _

___________________

۱) مکارم الاخلاق ص ۱۷_

۱۹۸

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

''ردوا علی ردائی اتخشون علی البخل ؟ فلو کان لی عدد هذه العضاة ذهبا لقسمته بینکم و لا تجدونی بخیلا و لا کذابا و لا جبانا'' (۱)

میری ردا مجھ کو واپس کردو کیا تم کو یہ خوف ہے کہ میں بخل کرونگا ؟ اگر اس خار دار جھاڑی کے برابر بھی سونا میرے پاس ہو تو میں تم لوگوں کے درمیان سب تقسیم کردوں گا تم مجھ کو بخیل جھوٹا اور بزدل نہیں پاؤگے _

صدقہ کو حقیر جاننا

جناب عائشہ کہتی ہیں کہ : ایک دن ایک ساءل میرے گھر آیا ، میں نے کنیز سے کہا کہ اس کو کھانا دیدو ، کنیز نے وہ چیز مجھے دکھائی جو اس ساءل کو دینی تھی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ تم اس کو گن لوتا کہ تمہارے لئے گنا نہ جائے_(۲)

انفاق کے سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ انفاق کرنے والا اپنے اس عمل کو بڑا نہ سمجھے ورنہ اگر کوئی کسی عمل کو بہت عظیم سمجھتا ہے تو اس کے اندر غرور اور خود پسندی پیدا ہوگی کہ جو اسے کمال سے دور کرتی ہے یہ ایسی بیماری ہے کہ جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہلاکت اور رسوائی تک پہونچا دیتی ہے _

___________________

۱) الوفاء باحوال المصطفی ج ۲ ص ۴۴۲ _

۲) شرف النبی ج ۶۹_

۱۹۹

اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد :

'' رایت المعروف لا یصلح الابثلاث خصال : تصغیره و تستیره و تعجیله ، فانت اذا صغرته عظمته من تصنعه الیه و اذا سترته تممته و اذا عجلته هناته و ان کان غیر ذلک محقته و نکدته'' (۱)

نیک کام میں بھلائی نہیں ہے مگر تین باتوں کی وجہ سے اس کو چھوٹا سمجھنے ، چھپا کر صدقہ دینے اور جلدی کرنے سے اگر تم اس کو چھوٹا سمجھ کر انجام دو گے تو جس کے لئے تم وہ کام کررے ہو اس کی نظر میں وہ کام بڑا شمار کیا جائیگا اگر تم نے اسے چھپا کر انجام دیا تو تم نے اس کام کو کمال تک پہونچا دیا اگر اس کو کرنے میں جلدی کی تو تم نے اچھا کام انجام دیا اس کے علاوہ اگر دوسری کوئی صورت اپنائی ہو تو گویا تم نے ( اس نیک کام ) کو برباد کردیا _

اس طرح کے نمونے ائمہ کی سیرت میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں ،رات کی تاریکی میں روٹیوں کا بورا پیٹھ پر لاد کر غریبوں میں تقسیم کرنے کا عمل حضرت امیرالمومنین اور معصومین علیہم السلام کی زندگی میں محتاج بیان نہیں ہے _

___________________

۱) (جامع السعادہ ج ۲ ص ۱۳۵)_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863