نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)4%

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ) مؤلف:
: علامہ السید ذیشان حیدر جوادی قدس سرہ
زمرہ جات: متن احادیث
صفحے: 863

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 863 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 656992 / ڈاؤنلوڈ: 15925
سائز سائز سائز
نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

نھج البلاغہ(مکمل اردو ترجمہ کے ساتھ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

۳۴۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْعِصْمَةِ تَعَذُّرُ الْمَعَاصِي.

۳۴۶ - وقَالَعليه‌السلام مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُه السُّؤَالُ - فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُه.

۳۴۷ - وقَالَعليه‌السلام الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الِاسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ - والتَّقْصِيرُ عَنِ الِاسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ.

۳۴۸ - وقَالَعليه‌السلام أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِه صَاحِبُه.

۳۴۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ نَظَرَ فِي عَيْبِ نَفْسِه اشْتَغَلَ عَنْ عَيْبِ غَيْرِه

(۳۴۵)

گناہوں تک رسائی کا نہ ہونا بھی ایک طرح کی پاکدامنی(۱) ہے۔

(۳۴۶)

تمہاری آبرو محفوظ ہے اور سوال اسے مٹا دیتا ہے لہٰذا یہ دیکھتے رہو کہ کس کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہو اور آبرو کا سودا کررہے ہو ۔

(۳۴۷)

استحقاق سے زیادہ تعریف کرناخوشامد ہے اور استحقاق سے کم تعریف کرناعاجزی ہے یا حسد۔

(۳۴۸)

سب سے سخت گناہوہ ہے جسے گناہ گار ہلکا(۲) قراردیدے ۔

(۳۴۹)

جواپنے عیب پر نگاہ رکھتا ہے وہ دوسروں کے عیب سے غافل ہو جاتا ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہوں کے بارے میں شریعت کامطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان ان سے اجتناب کرے اور ان میں مبتلا نہ ہونے پائے چاہے اس کا سبب اس کا تقدس ہو یا مجبوری۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے اختیار سے گناہوں کا ترک کردینے والا مستحق اجرو ثواب بھی ہوسکتا ہے اور مجبور اً ترک کردینے والا کس اجرو ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے ۔

(۲)غیر معصوم انسان کی زندگی کے بارے میں گناہوں کے امکانات توہمہ وقت رہتے ہیں لیکن انسان کی شرافت نفس یہ ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تواسے گناہ تصور کرے اور اس کی تلافی کی فکر کرے ورنہ اگر اسے خفیف اور ہلکا تصور کرلیا تو یہ دوسرا گناہ ہوگا جو پہلے گناہ سے بد تر ہوگا کہ پہلا گناہنفس کی کمزوری سے پیداہواتھا اور یہ ایمان اور عقیدہ کی کمزوری سے پیدا ہوا ہے۔

۷۴۱

- ومَنْ رَضِيَ بِرِزْقِ اللَّه لَمْ يَحْزَنْ عَلَى مَا فَاتَه - ومَنْ سَلَّ سَيْفَ الْبَغْيِ قُتِلَ بِه - ومَنْ كَابَدَ الأُمُورَ عَطِبَ - ومَنِ اقْتَحَمَ اللُّجَجَ غَرِقَ - ومَنْ دَخَلَ مَدَاخِلَ السُّوءِ اتُّهِمَ - ومَنْ كَثُرَ كَلَامُه كَثُرَ خَطَؤُه - ومَنْ كَثُرَ خَطَؤُه قَلَّ حَيَاؤُه - ومَنْ قَلَّ حَيَاؤُه قَلَّ وَرَعُه - ومَنْ قَلَّ وَرَعُه مَاتَ قَلْبُه - ومَنْ مَاتَ قَلْبُه دَخَلَ النَّارَ - ومَنْ نَظَرَ فِي عُيُوبِ النَّاسِ فَأَنْكَرَهَا - ثُمَّ رَضِيَهَا لِنَفْسِه فَذَلِكَ الأَحْمَقُ بِعَيْنِه - والْقَنَاعَةُ مَالٌ لَا يَنْفَدُ - ومَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ - رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ - ومَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَه مِنْ عَمَلِه - قَلَّ كَلَامُه إِلَّا فِيمَا يَعْنِيه.

۳۵۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلظَّالِمِ مِنَ الرِّجَالِ ثَلَاثُ عَلَامَاتٍ - يَظْلِمُ مَنْ فَوْقَه بِالْمَعْصِيَةِ - ومَنْ دُونَه بِالْغَلَبَةِ

اور جو رزق خدا پر راضی رہتا ہے وہ کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر رنجیدہ نہیں ہوتا ہے۔جو بغاوت کی تلوار کھینچتا ہے خوداسی سے ماراجاتا ہے اور جواہ امورکو زبر دستی انجام دیناچاہتا ہے وہ تباہ ہو جاتا ہے لہروں میں پھاند پڑنے والا ڈوب جاتا ہے اورغلط جگہوں پردخل ہونے والا بدنام ہو جاتا ہے۔جس کی باتیں زیادہ ہوتیںہیں اس کی غلطیاں بھی زیادہ ہوتی ہیں اورجس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں اس کی حیاکم ہو جاتی ہے اورجس کی حیاکم ہو جاتی ہے اس کا تقویٰ بھی کم ہوجاتا ہے اورجس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کادل مردہ ہوجاتا ہے اور جس کادل مردہ ہوجاتا ہے وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ۔

جولوگوں کے عیب کو دیکھ کرناگواری کا اظہارکرے اورپھراسی عیب کو اپنے لئے پسند کرلے تو اسی کو احمق کہا جاتا ہے ۔

قناعت ایک ایسا سرمایہ ہے جوختم ہونے والا نہیں ہے۔

جوموت کو برابر یاد کرتا رہتا ہے وہ دنیا کے مختصر حصہ پر بھی راضی ہو جاتا ہے۔اور جسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام بھی عمل کا ایک حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ کلام نہیں کرتا ہے۔

(۳۵۰)

لوگوں میں ظالم کی تین علامات ہوتی ہیں۔اپنے سے بالاتر پر معصیت کے ذریعہ ظلم کرتا ہے۔اپنے سے کمتر پرغلبہ و قہر کے ذریعہ ظلم کرتا ہے اور پھر ظالم قوم کی

۷۴۲

ويُظَاهِرُ الْقَوْمَ الظَّلَمَةَ

۳۵۱ - وقَالَعليه‌السلام عِنْدَ تَنَاهِي الشِّدَّةِ تَكُونُ الْفَرْجَةُ - وعِنْدَ تَضَايُقِ حَلَقِ الْبَلَاءِ يَكُونُ الرَّخَاءُ.

۳۵۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ أَصْحَابِه - لَا تَجْعَلَنَّ أَكْثَرَ شُغُلِكَ بِأَهْلِكَ ووَلَدِكَ - فَإِنْ يَكُنْ أَهْلُكَ ووَلَدُكَ أَوْلِيَاءَ اللَّه - فَإِنَّ اللَّه لَا يُضِيعُ أَوْلِيَاءَه - وإِنْ يَكُونُوا أَعْدَاءَ اللَّه فَمَا هَمُّكَ وشُغُلُكَ بِأَعْدَاءِ اللَّه.

۳۵۳ - وقَالَعليه‌السلام أَكْبَرُ الْعَيْبِ أَنْ تَعِيبَ مَا فِيكَ مِثْلُه

حمایت(۱) کرتا ہے۔

(۳۵۱)

سختیوں کی انتہا ہی پر کشائش حال پیدا ہوتی ہے اور بلائوں کے حلقوں کی تنگی ہی کے موقع پرآسائش(۲) پیدا ہوتی ہے۔

(۳۵۲)

اپنے بعض اصحاب سے خطاب کرکے فرمایا: زیادہ حصہ بیوی بچوں کی فکرمیں مت رہا کرو کہ اگر یہ اللہ کے دوست ہیں تواللہ انہیں(۳) برباد نہیں ہونے دے گا اور اگراس کے دشمن ہیں تو تم دشمنان خدا کے بارے میں کیوں فکر مند ہو۔

(مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے دائرہ سے باہرنکل کر سماج اورمعاشرہکے بارے میں بھی فکر کرے ۔صرف کنویں کامینڈک بن کرنہ رہ جائے )

(۳۵۳)

بد ترین عیب یہ ہے کہ انسان کسی عیب کو برا کہے اور پھر اس میں وہی عیب پایا جاتا ہو۔

(۱)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ صرف ظلم کرنا ہی ظلم نہیں ہے بلکہ ظالم کی حمایت بھی ایک طرح کا ظلم ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس ظلم سے بھی محفوظ رہے اور مکمل عادلانہ زندگی گذارے اور ہر شے کو اسی مقام پر رکھے جو اس کا محل اورموقع ہے۔

(۲)مقصد یہ ے کہ انسان کو سختیوں اور تنگیوں میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ حوصلہ کو بلند رکھنا چاہیے اور سر گرم عمل رہنا چاہیے کہ قرآن کریم نے سہولت کو تنگی اورزحمت کے بعد نہیں رکھا ہے بلکہ اسی کے ساتھ رکھاہے '' ان مع الیسر یسرا ''

(۳)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے انسان اہل و عیال کی طرف سے یکسر غافل و جائے اورانہیں پروردگار کے رحم و کرم پر چھوڑدے۔پروردگار کا رحم و کرم ماں باپ سے یقینا زیادہ ہے لیکن ماں باپ کی اپنی بھی ایک ذمہداری ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ بقدرواجب خدمت کرکے باقی معاملات کو پروردگار کے حوالہ کردے اوران کی طرف سراپا توجہ بن کر پروردگار سے غافل نہ ہو جائے ۔

۷۴۳

۳۵۴ - وهَنَّأَ بِحَضْرَتِه رَجُلٌ رَجُلًا بِغُلَامٍ وُلِدَ لَه - فَقَالَ لَه لِيَهْنِئْكَ الْفَارِسُ - فَقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ ذَلِكَ - ولَكِنْ قُلْ شَكَرْتَ الْوَاهِبَ - وبُورِكَ لَكَ فِي الْمَوْهُوبِ - وبَلَغَ أَشُدَّه ورُزِقْتَ بِرَّه.

۳۵۵ - وبَنَى رَجُلٌ مِنْ عُمَّالِه بِنَاءً فَخْماً - فَقَالَعليه‌السلام أَطْلَعَتِ الْوَرِقُ رُءُوسَهَا - إِنَّ الْبِنَاءَ يَصِفُ لَكَ الْغِنَى.

۳۵۶ - وقِيلَ لَهعليه‌السلام لَوْ سُدَّ عَلَى رَجُلٍ بَابُ بَيْتِه وتُرِكَ فِيه - مِنْ أَيْنَ كَانَ يَأْتِيه رِزْقُه - فَقَالَعليه‌السلام مِنْ حَيْثُ يَأْتِيه أَجَلُه.

۳۵۷ - وعَزَّى قَوْماً عَنْ مَيِّتٍ مَاتَ لَهُمْ فَقَالَعليه‌السلام - إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لَيْسَ لَكُمْ بَدَأَ - ولَا إِلَيْكُمُ انْتَهَى - وقَدْ كَانَ صَاحِبُكُمْ

(۳۵۴)

حضرت کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو فرزند کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ شہسوار مبارک ہو۔توآپ نے فرمایا کہ یہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ تم نے دینے والے کا شکریہ ادا کیاہے لہٰذا تمہیں یہ تحفہ مبارک ہو۔خداکرے کہ یہ منزل کمال تک پہنچے اور تمہیں اس کی نیکی نصیب ہو۔

(۳۵۵)

آپ کے عمال میں سے ایک شخص نے عظیم عمارت تعمیر کرلی تو آپ نے فرمایا کہ چاندی کے سکوں نے سر نکال لیا ہے ۔یقینا یہ تعمیر تمہاری مالداری کی غمازی کرتی ہے۔

(۳۵۶)

کسی نے آپ سے سوال کیا کہ اگر کسی شخص کے گھر کادروازہ بند کردیا جائے اوراسے تنہا چھوڑ دیا جائے تو اس کا رزق کہاں سے آئے گا ؟ فرمایا کہ جہاں سے اس کی موت آئے گی ۔

(۳۵۷)

ایک جماعت کو کسی مرنے والے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات تمہارے یہاں کوئی نئی نہیں ہے اور نہ تمہیں پر اس کی انتہا ہے۔تمہارا یہ ساتھی سر

۷۴۴

هَذَا يُسَافِرُ فَعُدُّوه فِي بَعْضِ أَسْفَارِه - فَإِنْ قَدِمَ عَلَيْكُمْ وإِلَّا قَدِمْتُمْ عَلَيْه.

۳۵۸ - وقَالَعليه‌السلام أَيُّهَا النَّاسُ لِيَرَكُمُ اللَّه مِنَ النِّعْمَةِ وَجِلِينَ - كَمَا يَرَاكُمْ مِنَ النِّقْمَةِ فَرِقِينَ - إِنَّه مَنْ وُسِّعَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اسْتِدْرَاجاً فَقَدْ أَمِنَ مَخُوفاً - ومَنْ ضُيِّقَ عَلَيْه فِي ذَاتِ يَدِه - فَلَمْ يَرَ ذَلِكَ اخْتِبَاراً فَقَدْ ضَيَّعَ مَأْمُولًا

۳۵۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَسْرَى الرَّغْبَةِ أَقْصِرُوا ،فَإِنَّ الْمُعَرِّجَ عَلَى الدُّنْيَا لَا يَرُوعُه مِنْهَا - إِلَّا صَرِيفُ أَنْيَابِ الْحِدْثَانِ أَيُّهَا النَّاسُ تَوَلَّوْا مِنْ أَنْفُسِكُمْ تَأْدِيبَهَا - واعْدِلُوا بِهَا عَنْ ضَرَاوَةِ عَادَاتِهَا.

گرم سفر رہا کرتاتھا تو سمجھو کہ یہ بھی ایک سفر ہے اس کے بعد یا وہ تمہارے پاس وارد ہوگا یاتم اس کے پاس وارد ہوگے۔

(۳۵۸)

لوگو! اللہ نعمت کے موقع پر بھی تمہیں(۱) ویسے ہی خوفزدہ دیکھے جس طرح عذاب کے معاملہ میں ہراساں دیکھتا ہے کہ جس شخص کو فراخدستی حاصل ہو جائے اور وہ اسے عذاب کی لپیٹ نہ سمجھے تو اس نے خوفناک چیز سے بھی اپنے کومطمئن سمجھ لیا ہے اور جو تنگدستی میں مبتلا ہو جائے اوراسے امتحان نہ سمجھے اس نے اس ثواب کوبھی ضائع کردیا جس کی امید کی جاتی ہے۔

(۳۵۹)

اے حرص و طمع کے اسیرو!اب باز آجائو۔کہ دنیا پر ٹوٹ پڑنے والوں کو حوادث زمانہ کے دانت پیسنے کے علاوہ کوئی خوف زدہ نہیں کر سکتا ہے ۔

اے لوگو! اپنے نفس کی اصلاح کی ذمہ داری خود سنبھال لو اور اپنی عادتوں کے تقاضوں(۲) سے منہ موڑ لو۔

(۱)مقصد یہ ہے کہ زندگانی کے دونوں طرح کے حالات میں دونوں طرح کے احتمالات پائے جاتے ہیں۔راحت وآرام میں امکان فضل و کرم بھی ہے اور احتمال مہلت و اتمام حجت بھی ہے اور اسی طرح مصیبت اور پریشانی کے ماحول میں احتمال عتاب و عقاب بھی ہے اور احتمال امتحان و اختیار بھی ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ راحتوں کے ماحول میں اس خطرہ سے محفوظ نہ ہو جائے کہ اس طرح بھی قوموں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور پریشانیوں کے حالات میں اس رخ سے غافل نہ ہو جائے کہ یہ امتحان بھی ہوسکتا ہے اوراس میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرکے اجرو ثواب بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

(۲)مقصد یہ ہے کہ خواہشات کے اسیر نہ بنواور دنیا کا اعتبارنہکرو۔انجام کار کی زحمتوں سے ہوشیار رہو اور اپنے نفس کواپنے قابو میں رکھو تاکہ بیجا رسوم اورمہمل عادات کا اتباع نہ کرو۔

۷۴۵

۳۶۰ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَظُنَّنَّ بِكَلِمَةٍ خَرَجَتْ مِنْ أَحَدٍ سُوءاً - وأَنْتَ تَجِدُ لَهَا فِي الْخَيْرِ مُحْتَمَلًا.

۳۶۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَتْ لَكَ إِلَى اللَّه سُبْحَانَه حَاجَةٌ - فَابْدَأْ بِمَسْأَلَةِ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ثُمَّ سَلْ حَاجَتَكَ - فَإِنَّ اللَّه أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ حَاجَتَيْنِ - فَيَقْضِيَ إِحْدَاهُمَا ويَمْنَعَ الأُخْرَى.

۳۶۲ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَنَّ بِعِرْضِه فَلْيَدَعِ الْمِرَاءَ

۳۶۳ - وقَالَعليه‌السلام مِنَ الْخُرْقِ الْمُعَاجَلَةُ قَبْلَ الإِمْكَانِ - والأَنَاةُ بَعْدَ الْفُرْصَةِ

(۳۶۰)

کسی کی بات کے غلط معنی(۱) نہ لو جب تک صحیح معنی کا امکان موجود ہے۔

(۳۶۱)

اگر پروردگار کی بار گاہ(۲) میں تمہاری کوئی حاجت ہو تو اس کی طلب کا آغاز رسو ل اکرم (ص) پر صلوات سے کرو اور اس کے بعد اپنی حاجت طلب کرو کہ پروردگار اس بات سے بالاتر ہے کہ اس سے دو باتوں کا سوال کیا جائے اور وہ ایک کو پورا کردے اور ایک کو نظر انداز کردے ۔

(۳۶۲)

جو اپنی آبرو کو بچانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرے۔

(۳۶۳)

کسی بات کے امکان سے پہلے جلدی کرنا اور وقت آجانے پر دیر کرنا دونوں ہی حماقت ہے۔

(۱)کاش ہر شخص اس تعلیم کو اختیار کرلیتا تو سماج کے بے شمارمفاسد سے نجات مل جاتی اور دنیامیں فتنہ و فساد اکثر راستے بند ہو جاتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے اورہر شخص دوسرے کے بیان میں غلط پہلو پہلے تلاش کرتا ہے اور صحیح رخ کے بارے میں بعد میں سوچتا ہے۔

(۲)یہ صحیح ہے کہ رسول اکرم (ص) ہماری صلوات اوردعائے رحمت کے محتاج نہیں ہیں لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے ادائے شکر سے غافل ہو جائیں اور ان کی طرف سے ملنے والی نعمت ہدایت کا کسی شکل میں کوئی بدلہ دیں۔ورنہ پروردگار بھی ہماری عبادتوں کامحتاج نہیں ہے تو ہر انسان عبادتوں کو نظراندازکرکے چین سے سوجائے ۔صلوات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پروردگار کی نظر عنایت کا حقدار ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی دعائیں قابل قبول ہو جاتی ہیں۔

۷۴۶

۳۶۴ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَا يَكُونُ - فَفِي الَّذِي قَدْ كَانَ لَكَ شُغُلٌ

۳۶۵ - وقَالَعليه‌السلام الْفِكْرُ مِرْآةٌ صَافِيَةٌ والِاعْتِبَارُ مُنْذِرٌ نَاصِحٌ - وكَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَه لِغَيْرِكَ.

۳۶۶ - وقَالَعليه‌السلام الْعِلْمُ مَقْرُونٌ بِالْعَمَلِ فَمَنْ عَلِمَ عَمِلَ - والْعِلْمُ يَهْتِفُ بِالْعَمَلِ - فَإِنْ أَجَابَه وإِلَّا ارْتَحَلَ عَنْه.

(۳۶۴)

جو بات ہونے والی نہیں ہے۔اس کے بارے میں سوال مت کرو کہ جو ہوگیا ہے وہی تمہارے لئے کافی ہے۔

(۳۶۵)

فکر(۱) ایک شفاف آئینہ ہے اورعبرت حاصل کرنا ایک انتہائی مخلص متنبہ کرنیوالا ے۔تمہارے نفس کے ادب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو دوسروں کے لئے نا پسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔

(۳۶۶)

علم کا مقدر عمل(۲) سے جڑا ہوا ہے اورجو واقعی صاحب علم ہوتا ہے وہ عمل بھی کرتا ہے۔یاد رکھو کہ علم عمل کے لئے آوازدیتا ہے اور انسان سن لیتا ہے تو خیر ورنہ خود بھی رخصت ہو جاتا ہے۔

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فکر ایک شفاف آئینہ ہے جس میں بآسانی مجہولات کاچہرہ دیکھ لیا جاتا ہے اور اہل منطق نے اس کی یہی تعریف کی ہے کہ معلومات کی اس طرح مرتب کیا جائے کہ اس سے مجہولات کاعلم حاصل ہو جائے ۔لیکن صرف مستقبل کاچہرہ دیکھ لینا ہی کوئی ہنرنہیں ہے۔اصل ہنر اور کام اس سے عبرت حاصل کرنا ہے کہ انسان کے حق میں عبرت سے زیادہ مخلص نصیحت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور یہی عبرت ہے جو اسے ہر برائی اور مصیبت سے بچا سکتی ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی یہ کار خیر انجام دینے والا نہیں ہے۔

(۲)بلا شک و شبہ علم ایک کمال ہے اور مجہولات کاحاصل کرلینا ایک ہنر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے با کمال اور صاحب ہنر کس طرح کہاجاسکتا ہے جو یہ تودریافت کرلے کہ فلاں چیز میں زہر ہے مگر اس سے اجتناب نہ کرے۔ایسے شخص کو تو مزید احمق اور نالائق تصور کیا جاتا ہے۔

علم کا کمال ہی یہ ہے کہ انسان اس کے مطابق عمل کرے تاکہ صاحب علم اور صاحب کمال کہے جانے کاحقدار ہو جائے ورنہ علم ایک وبال ہو جائے گا اوراپنی ناقدری سے ناراض ہو کر رخصت بھی ہو جائے گا۔صرف نام علم باقی رہ جائے گا ور حقیقت علم ختم ہو جائے گی۔

۷۴۷

۳۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَتَاعُ الدُّنْيَا حُطَامٌ مُوبِئٌ - فَتَجَنَّبُوا مَرْعَاه قُلْعَتُهَا أَحْظَى مِنْ طُمَأْنِينَتِهَا - وبُلْغَتُهَا أَزْكَى مِنْ ثَرْوَتِهَا - حُكِمَ عَلَى مُكْثِرٍ مِنْهَا بِالْفَاقَةِ - وأُعِينَ مَنْ غَنِيَ عَنْهَا بِالرَّاحَةِ - مَنْ رَاقَه زِبْرِجُهَا أَعْقَبَتْ نَاظِرَيْه كَمَهاً - ومَنِ اسْتَشْعَرَ الشَّغَفَ بِهَا مَلأَتْ ضَمِيرَه أَشْجَاناً - لَهُنَّ رَقْصٌ عَلَى سُوَيْدَاءِ قَلْبِه - هَمٌّ يَشْغَلُه وغَمٌّ يَحْزُنُه - كَذَلِكَ حَتَّى يُؤْخَذَ بِكَظَمِه فَيُلْقَى بِالْفَضَاءِ مُنْقَطِعاً أَبْهَرَاه - هَيِّناً عَلَى اللَّه فَنَاؤُه وعَلَى الإِخْوَانِ إِلْقَاؤُه - وإِنَّمَا يَنْظُرُ الْمُؤْمِنُ إِلَى الدُّنْيَا بِعَيْنِ الِاعْتِبَارِ - ويَقْتَاتُ مِنْهَا بِبَطْنِ الِاضْطِرَارِ - ويَسْمَعُ فِيهَا بِأُذُنِ الْمَقْتِ والإِبْغَاضِ - إِنْ قِيلَ أَثْرَى قِيلَ أَكْدَى - وإِنْ فُرِحَ لَه بِالْبَقَاءِ حُزِنَ لَه

(۳۶۷)

ایہاالناس! دنیا کا سرمایہ ایک سڑفا بھوسہ ہے جس سے وباء پھیلنے والی ہے لہٰذا اس کی چراگاہ سے ہوشیار رہو اس دنیا سے چل چلائو سکون کے ساتھ رہنے سے زیادہ فائدہ مند ہے اور یہاں کابقدر ضرورت سامان ثروت سے زیادہ برکت والا ہے ۔یہاں کے دولت مند کے بارے میں ایک دن احتیاج لکھ دی گئی ہے اوراس سے بے نیاز رہنے والے کو راحت کا سہارا دے دیا جاتا ہے ۔جسے اس کی زینت پسندآگئی اس کی آنکھوں کوانجام کاری ہ اندھا کردیتی ہے اورجس نے اس سے شغف کو شعار بنا لیا اس کے ضمیر کو رنج و اندوہ سے بھردیتی ہے اور یہ فکریں اس کے نقطہ قلب کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں بعض اسے مشغول بنالیتی ہیں اور بعض محزون بنادیتی ہیں اور یہ سلسلہ یوں ہی قائم رہتا ہے یہاں تک کہاس کا گلا گھونٹ دیا جائے اوراسے فضائ( قبر) میں ڈال دیا جائے جہاں دل کی دونوں رگیں کٹ جائیں۔خداکے لئے اس کا فناکردینا بھی آسان ہے اور بھائیوںکے لئے اسے قبر میں ڈال دینابھی مشکل نہیں ہے۔مومن وہی ہے جو دنیاکی طرف عبرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور پیٹ کی ضرورت بھر سامان پر گذارا کر لیتا ہے۔اس کی باتوں کہ عداوت و نفرت کے کانوں سے سنتا ہے۔کہ جب کسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مالدار ہوگیا ہے تو فوراً آوازآتی ہے کہ نادار ہوگیا ہے۔اور جب کسی کو بقا کے تصور سے مسرور کیا جاتا ہے تو فناکے خیال سے رنجیدہ بنادیاجاتاہے

۷۴۸

بِالْفَنَاءِ - هَذَا ولَمْ يَأْتِهِمْ يَوْمٌ فِيه يُبْلِسُونَ

۳۶۸ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ اللَّه سُبْحَانَه وَضَعَ الثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِه - والْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِه ذِيَادَةً لِعِبَادِه عَنْ نِقْمَتِه - وحِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِه.

۳۶۹ - وقَالَعليه‌السلام يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ - لَا يَبْقَى فِيهِمْ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُه - ومِنَ الإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه - ومَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ - خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى - سُكَّانُهَا وعُمَّارُهَا شَرُّ أَهْلِ الأَرْضِ - مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وإِلَيْهِمْ تَأْوِي الْخَطِيئَةُ - يَرُدُّونَ مَنْ شَذَّ عَنْهَا فِيهَا - ويَسُوقُونَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا إِلَيْهَا - يَقُولُ اللَّه سُبْحَانَه فَبِي حَلَفْتُ - لأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ فِتْنَةً تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ - وقَدْ فَعَلَ ونَحْنُ نَسْتَقِيلُ اللَّه عَثْرَةَ الْغَفْلَةِ.

۔اور یہ سباس وقت ہے جب ابھی وہ دن نہیں آیا ہے جب دن اہل دنیا مایوسی کاشکار ہوجائیں گے۔

(۳۶۸)

پروردگار عالم نے اطاعت پر ثواب اور معصیت پر عقاب اسی لئے رکھا ہے تاکہ بندوں کو اپنے غضب سے دور رکھ سکے اور انہیں گھیر جنت کی طرف لے آئے ۔

(۳۶۹)

لوگوں پر ایک ایسا دوربھی آنے والا ہے جب قرآن صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا مسجدیں(۱) تعمیرات کے اعتبار سے آباد ہوں گی اور ہدایت کے اعتبار سے برباد ہوں گی۔اس کے رہنے والے اورآباد کرنے والے سب بد ترین اہل زمانہ ہوں گے۔انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اورانہیں کی طرف غلطیوں کو پناہ ملے گی۔جو اس سے بچ کر جانا چاہے گا اسے اس کی طرف پلٹا دیں گے اور جودور رہنا چاہے گا اسے ہنکا کرلے آئیں گے

پروردگار کا ارشاد ہے کہ میری ذات کی قسم میں ان لوگوں پر ایک ایسے فتنہ کو مسلط کردوں گا جو صاحب عقل کوبھی حیرت زدہ بنادے گا اور یہ یقینا ہو کر رہے گا۔ہم اس کی بارگاہ میں غفلتوں کی لغزشوں سے پناہ چاہتے ہیں۔

(۱)شائد کہ ہمارا دور اس ارشاد گرامی کا بہترین مصداق ہے جہاں مساجد کی تعمیر بھی ایک فیشن ہوگئی ہے اور اس کا اجتماع بھی ایک فنکشن ہو کر رہ گیا ہے ۔روح مسجد فنا ہوگئی ہے اور مساجد سے وہ کام نہیں لیا جا رہا ہے جو مولائے کائنات کے دور میں لیا جارہا تھا جہاں اسلام کی ہر تحریک کا مرکز مسجد تھی اورباطل سے ہر مقابلہ کامنصوبہ مسجد میں تیار ہوتا تھا۔لیکن آج مسجدیں صرف حکومتوں کے لئے دعائے خیر کامرکز ہیں اور ان کی شخصیتوں کے پروپگینڈہ کابہترین پلیٹ فارم ہیں۔رب کریم اس صورت حال کی اصلاح فرمائے ۔!

۷۴۹

۳۷۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام قَلَّمَا اعْتَدَلَ بِه الْمِنْبَرُ - إِلَّا قَالَ أَمَامَ الْخُطْبَةِ - أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّه - فَمَا خُلِقَ امْرُؤٌ عَبَثاً فَيَلْهُوَ - ولَا تُرِكَ سُدًى فَيَلْغُوَ - ومَا دُنْيَاه الَّتِي تَحَسَّنَتْ لَه بِخَلَفٍ - مِنَ الآخِرَةِ الَّتِي قَبَّحَهَا سُوءُ النَّظَرِ عِنْدَه - ومَا الْمَغْرُورُ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الدُّنْيَا بِأَعْلَى هِمَّتِه - كَالآخَرِ الَّذِي ظَفِرَ مِنَ الآخِرَةِ بِأَدْنَى سُهْمَتِه

۳۷۱ - وقَالَعليه‌السلام لَا شَرَفَ أَعْلَى مِنَ الإِسْلَامِ - ولَا عِزَّ أَعَزُّ مِنَ التَّقْوَى - ولَا مَعْقِلَ أَحْسَنُ مِنَ الْوَرَعِ - ولَا شَفِيعَ أَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَةِ - ولَا كَنْزَ أَغْنَى مِنَ الْقَنَاعَةِ - ولَا مَالَ أَذْهَبُ لِلْفَاقَةِ مِنَ الرِّضَى بِالْقُوتِ - ومَنِ اقْتَصَرَ عَلَى بُلْغَةِ الْكَفَافِ - فَقَدِ انْتَظَمَ الرَّاحَةَ وتَبَوَّأَ خَفْضَ الدَّعَةِ - والرَّغْبَةُ مِفْتَاحُ النَّصَبِ

ومَطِيَّةُ التَّعَبِ - والْحِرْصُ والْكِبْرُ والْحَسَدُ - دَوَاعٍ إِلَى التَّقَحُّمِ فِي الذُّنُوبِ - والشَّرُّ جَامِعُ مَسَاوِئِ الْعُيُوبِ.

(۳۷۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی منبر پرتشریف لے جاتے تھے تو خطبہ سے پہلے یہ کلمات ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔

لوگو! اللہ سے ڈرو۔اس نے کسی کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے کہ کھیل کود میں لگ جائے اور نہ آزاد چھوڑ دیا ہے کہ لغویتیں کرنے لگے۔یہ دنیا جو انسان کی نگاہ میں آراستہ ہوگئی ہے یہ اس آخرت کا بدل نہیں بن سکتی ہے جسے بری نگاہ نے قبیح بنادیا ہے ۔جو فریب خوردہ دنیا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ اس کا جیسا نہیں ہے جو آخرت میں ادنیٰ حصہ بھی حاصل کرلے ۔

(۳۷۱)

اسلام سے بلند تر کوئی شرف نہیں ہے اور تقویٰ سے زیادہ باعزت کوئی عزت نہیں ہے۔پرہیز گاری سے بہترکوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور توبہ سے زیادہ کامیاب کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔قناعت سے زیادہ مالدار بنانے والا کوئی خزانہ نہیں ہے اور روزی پر راضی ہو جانے سے زیادہ فقر و فاقہ کو دورکرنے والا نہیں ہے ۔

جس نے بقدرکفایت سامان پرگذارا کرلیا اس نے راحت کو حاصل کرلیا اور سکون کی منزل میں گھر بنالیا۔

خواہش رنج و تکلیف کی کنجی اور تکان و زحمت کی سواری ہے۔

حرص ' تکبر اورحسد گناہوں میں کود پڑنے کے اسباب و محرکات ہیں اورش ر تمام برائیوں کاجامع ہے

۷۵۰

۳۷۲ - وقَالَعليه‌السلام لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّه الأَنْصَارِيِّ - يَا جَابِرُ قِوَامُ الدِّينِ والدُّنْيَا بِأَرْبَعَةٍ - عَالِمٍ مُسْتَعْمِلٍ عِلْمَه - وجَاهِلٍ لَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وجَوَادٍ لَا يَبْخَلُ بِمَعْرُوفِه - وفَقِيرٍ لَا يَبِيعُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه - فَإِذَا ضَيَّعَ الْعَالِمُ عِلْمَه - اسْتَنْكَفَ الْجَاهِلُ أَنْ يَتَعَلَّمَ - وإِذَا بَخِلَ الْغَنِيُّ بِمَعْرُوفِه - بَاعَ الْفَقِيرُ آخِرَتَه بِدُنْيَاه.

يَا جَابِرُ مَنْ كَثُرَتْ نِعَمُ اللَّه عَلَيْه - كَثُرَتْ حَوَائِجُ النَّاسِ إِلَيْه - فَمَنْ قَامَ لِلَّه فِيهَا بِمَا يَجِبُ فِيهَا عَرَّضَهَا لِلدَّوَامِ والْبَقَاءِ ومَنْ لَمْ يَقُمْ فِيهَا بِمَا يَجِبُ عَرَّضَهَا لِلزَّوَالِ والْفَنَاءِ.

۳۷۳ - ورَوَى ابْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ فِي تَارِيخِه: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى الْفَقِيه - وكَانَ مِمَّنْ خَرَجَ لِقِتَالِ الْحَجَّاجِ مَعَ ابْنِ الأَشْعَثِ - أَنَّه قَالَ فِيمَا كَانَ يَحُضُّ بِه النَّاسَ عَلَى الْجِهَادِ - إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيّاً رَفَعَ اللَّه دَرَجَتَه فِي الصَّالِحِينَ - وأَثَابَه ثَوَابَ الشُّهَدَاءِ والصِّدِّيقِينَ - يَقُولُ يَوْمَ لَقِينَا أَهْلَ الشَّامِ.

(۳۷۲)

آپ نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا کہ جابر دین و دنیا کا قیام چارچیزوں سے ہے

وہ عالم جو اپنے علم کو استعمال بھی کرے اور وہ جاہل جو علم حاصل کرنے سے انکارنہ کرے وہ سختی جو اپنی نیکیوں میں بخل نہ کرے ۔اور فقیرو جو اپنی آخرت کو دنیاکے عوض فروخت نہ کرے ۔

لہٰذا ( یاد رکھو ) اگر عالم اپنے کوبرباد کردے گا تو جاہل بھی اس کے حصول سے اکڑ جائے گا اور اگر غنی اپنی نیکیوں میں بخل کرے گا توفقیر بھی آخرت کو دنیاکے عوض بیچنے پرآمادہ ہو جائے گا۔

جابر ! جس پراللہ کی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کی طرفرلوگوں کی احتیاج بھی زیادہ ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے مال میں اللہ کے فرائض کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ اس کی بقا و دوام کا سامان فراہم کرلیتا ہے اورجوان وابجات کوادا نہیں کرتا ہے وہ اسے زوال و فنا کے راستہ پر لگا دیتا ہے ۔

(۳۷۳)

ابن جریر طبری نے اپنی تریخ میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے جو حجاج سے مقابلہ کرنے کے لئے ابن اشعث سے نکلا تھا اور لوگوں کوجہاد پرآمادہ کر رہا تھا کہ میں نے حضرت علی ( خداصالحین میں ان کے درجات کو کا ثواب عنایت کرے ) سے اسدن سنا ہے جب ہم لوگ شام والوں سے مقابلہ کر رہے تھے کہ حضرت نے فرمایا:

۷۵۱

أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ - إِنَّه مَنْ رَأَى عُدْوَاناً يُعْمَلُ بِه - ومُنْكَراً يُدْعَى إِلَيْه - فَأَنْكَرَه بِقَلْبِه فَقَدْ سَلِمَ وبَرِئَ - ومَنْ أَنْكَرَه بِلِسَانِه فَقَدْ أُجِرَ - وهُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِه - ومَنْ أَنْكَرَه بِالسَّيْفِ - لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّه هِيَ الْعُلْيَا وكَلِمَةُ الظَّالِمِينَ هِيَ السُّفْلَى - فَذَلِكَ الَّذِي أَصَابَ سَبِيلَ الْهُدَى - وقَامَ عَلَى الطَّرِيقِ ونَوَّرَ فِي قَلْبِه الْيَقِينُ.

۳۷۴ - وفِي كَلَامٍ آخَرَ لَه يَجْرِي هَذَا الْمَجْرَى: فَمِنْهُمُ الْمُنْكِرُ لِلْمُنْكَرِ بِيَدِه ولِسَانِه وقَلْبِه - فَذَلِكَ الْمُسْتَكْمِلُ لِخِصَالِ الْخَيْرِ - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِلِسَانِه وقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه - فَذَلِكَ مُتَمَسِّكٌ بِخَصْلَتَيْنِ مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ - ومُضَيِّعٌ خَصْلَةً - ومِنْهُمُ الْمُنْكِرُ بِقَلْبِه والتَّارِكُ بِيَدِه ولِسَانِه - فَذَلِكَ الَّذِي ضَيَّعَ أَشْرَفَ الْخَصْلَتَيْنِ مِنَ الثَّلَاثِ - وتَمَسَّكَ بِوَاحِدَةٍ -

ایمان والو! جوشخص یہ دیکھے کہ ظلم و تعدی پر عمل ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے اور اپنے دل سے اس کا انکار کردے توگویا کہ محفو ظ رہ گیا اور بری(۱) ہوگیا۔اور اگر زبان سے انکار کردے تواجرکا حقداربھی ہوگیا کہ یہ صرف قلبی انکار سے بہتر صورت ہے اور اگر کوئی شخص تلوار کے ذریعہ اس کی روک تھام کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے اور ظالمین کی بات پستہو جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کے راستہ کو پالیا ہے اورسیدھے راستہ پر قائم ہوگیا ہے اور اس کے دل میں یقین کی روشنی پیدا ہوگئی ہے۔

(۳۷۴)

( اسی موضوع سے متعلق دوسرے موقع پرارشاد فرمایا ) بعض لوگ منکرات کا انکار دل۔زبان اور ہاتھ سب سے کرتے ہیں تو یہ خیر کے تمام شعبوں کے مالک ہیں اور بعض لوگ صرف زبان اوردل سے انکار کرتے ہیں اور ہاتھ سے روک تھام نہیں کرتے ہیں تو انہوں نے نیکی کی دوخصلتوں کو حاصل کیا ہے اور ایک خصلت کو برباد کردیا ہے۔اور بعض لوگ صرف دل سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہاتھ استعمال کرتے ہیں اور نہ زبان۔تو انہوں نے دوخصلتوں کو ضائع کردیا ہے اور صرف ایک کو پکڑ لیا ہے۔

(۱)اس فقرہ میں سلامتی اوربراء ت کامفہوم یہی ہے کہ منکرات کو برا سمجھنا اور اس سے راضی نہ ہونا انسان کی فطرت سلیم کا حصہ ہے جس کا تقاضا اندر سے برابر جاری رہتا ہے لہٰذا اگر اس نے بیزاری کا اظہار کردیا توگویا فطرت کے سلیم ہونے کا ثبوت دے دیا اوراس فریضہ سے سبکدوش ہوگیا جو فطرت سلیم نے اس کے ذمہ عائد کیا تھا۔ورنہاگر ایسا بھی نہ کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ فطرت سلیم پرخارجی عناصر غالبآگئے ہیں اور انہوں نے بری الذمہ ہونے سے روک دیا ہے ۔

۷۵۲

ومِنْهُمْ تَارِكٌ لإِنْكَارِ الْمُنْكَرِ بِلِسَانِه وقَلْبِه ويَدِه - فَذَلِكَ مَيِّتُ الأَحْيَاءِ - ومَا أَعْمَالُ الْبِرِّ كُلُّهَا والْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّه - عِنْدَ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ - إِلَّا كَنَفْثَةٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ - وإِنَّ الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ والنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ - لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ ولَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ - وأَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّه كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.

۳۷۵ - وعَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام يَقُولُ: أَوَّلُ مَا تُغْلَبُونَ عَلَيْه مِنَ الْجِهَادِ - الْجِهَادُ بِأَيْدِيكُمْ ثُمَّ بِأَلْسِنَتِكُمْ ثُمَّ بِقُلُوبِكُمْ - فَمَنْ لَمْ يَعْرِفْ بِقَلْبِه مَعْرُوفاً ولَمْ يُنْكِرْ مُنْكَراً - قُلِبَ فَجُعِلَ أَعْلَاه أَسْفَلَه وأَسْفَلُه أَعْلَاه.

۳۷۶ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ الْحَقَّ ثَقِيلٌ مَرِيءٌ وإِنَّ الْبَاطِلَ خَفِيفٌ وَبِيءٌ

اوربعض وہ بھی ہیں جو دل۔زبان اور ہاتھ کسی سے بھی برائیوں کا انکارنہیں کرتے ہیں تو یہ زندوں کی درمیان مردہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جوگہرے سمندر میں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے۔

اور ان تمام اعمال سے بلند تر عمل حاکم ظالم کے سامنے کلمۂ انصاف(۱) کااعلان ہے۔

(۳۷۵)

ابو حجیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امیر المومنین کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے تم ہاتھ کے جہاد میں مغلوب ہوگے اس کے بعد زبان کے جہادمیں اور اس کے بعد دل کے جہاد میں ۔مگر یہ یاد رکھنا کہ اگر کسی شخص نے دل سے اچھائی کواچھا اوربرائی کو برا نہیں سمجھا تواسے اس طرح الٹ پلٹ دیاجائے گا کہ پست بلند ہو جائے اور بلند پست ہو جائے ۔

(۳۷۶)

حق ہمیشہ سنگین ہوتا ہے مگرخوشگوار ہوتا ہے اور باطل ہمیشہ آسان ہوتا ہے مگرمہلک ہوتا ہے

(۱)تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثال ابن السکیت کاکردار ہے جہاں ان سے متوکل نے سردربار یہ سوال کرلیا کہ تمہاری نگاہ میں میرے دونوں فرزند معتبر اورموید بہترین یا علی کے دونوں فرزند حسن و حسین تو ابن السکیت نے سلطان ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا کہ حسن و حسین کاکیا ذکر ہے تیرے فرزند اور تو دونوں مل کرعلی کے غلام قنبر کی جوتیوں کے تسمہ کے برابر نہیں ہیں۔

جس کے بعد متوکل نے حکم دے دیاکہ ان کی زبان کی گدی سے کھینچ لیا جائے اورابن السکیت نے نہایت درجہ سکون قلب کے ساتھ اس قربانی کو پیش کردیا اور اپنے پیشرو مثیم تمار۔حجر بن عدی۔عمروبن الحمق۔ابوذر۔عماریاسر اورمختار سے ملحق ہوگئے ۔

۷۵۳

۳۷۷ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَأْمَنَنَّ عَلَى خَيْرِ هَذِه الأُمَّةِ عَذَابَ اللَّه،لِقَوْلِه تَعَالَى -( فَلا يَأْمَنُ مَكْرَ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْخاسِرُونَ ) - ولَا تَيْأَسَنَّ لِشَرِّ هَذِه الأُمَّةِ مِنْ رَوْحِ اللَّه لِقَوْلِه تَعَالَى -( إِنَّه لا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ الله إِلَّا الْقَوْمُ الْكافِرُونَ ) .

۳۷۸ - وقَالَعليه‌السلام الْبُخْلُ جَامِعٌ لِمَسَاوِئِ الْعُيُوبِ - وهُوَ زِمَامٌ يُقَادُ بِه إِلَى كُلِّ سُوءٍ.

۳۷۹ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ الرِّزْقُ رِزْقَانِ رِزْقٌ تَطْلُبُه -

(۳۷۷)

دیکھو اس امت کے بہترین آدمی کے بارے میں بھی عذاب سے مطمئن نہ ہو جانا کہ عذاب الٰہی کی طرف سے صرف خسارہ والے ہی مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اسی طرح اس امت کے بد ترین کے بارے میں بھی رحمت خداسے مایوس نہ ہو جانا کہ رحمت خدا سے مایوسی صرف کافروں کا حصہ ہے۔

(واضح رہے کہ اس ارشاد کا تعلق صرف ان گناہ گاروں سے ہے جن کا عمل انہیں سرحد کفر تک نہ پہنچا دے ورنہ کافر تو بہرحال رحمت خداسے مایوس رہتا ہے۔

(۳۷۸)

بخل عیوب کی تمام برائیوں کا جامع ہے۔اوریہی وہ زمام ہے جس کے ذریعہ انسان کو ہر برائی کی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔

(۳۷۰)

ابن آدم ! رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو اورایک رزق(۱) وہ ہے جو تم کو

(۱)اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ انسان محنت و مشقت چھوڑ دے اوراس امید میں بیٹھ جائے کہ رزق کی دوسری قسم بہرحال حاصل ہو جاے گی اوراسی پر قناعت کرلے گا ۔بلکہ یہ درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے یہاں محنت و مشقت بہرحال کرنا اوریہ انسان کے فرائض انسانیت وعبدیت میں شامل ہے لیکن اس کے بعد بھی رزق کا ایک حصہ ہے جو انسان کی محنت و مشقت سے بالاتر ہے اور وہ ان اسباب کے ذریعہ پہنچ جاتا ہے جن کا انسان تصوربھی نہیں کرتا ہے جس طرح کہ آپ گھر سے نکلیں اور کوئی شخص راستہ میں ایک گلاب پانی یا ایک پیالی چائے پلاے ۔ظاہر ہے کہ یہ پانی یا چائے نہ آپ کے حساب رزق کاکوئی حصہ ہے اور نہ آپنے اس کے لئے کوئی محنت کی ہے ۔یہ پروردگار کا ایک کر م ہے جوآپکے شامل حال ہوگیا ہے اور اس نے اس نکتہ کی وضاحت کردی کہ اگر زندگانی دنیا میں محنت ناکام بھی ہو جائے تو رزق کا سلسلہ بند ہونے والا نہیں ہے۔پروردگار کے پاس اپنے وسائل موجودہیں وہ ان وسائل سے رزق فراہم کردے گا۔وہ مسبب الاسباب ہے اسباب کا پابند نہیں ہے۔

۷۵۴

ورِزْقٌ يَطْلُبُكَ فَإِنْ لَمْ تَأْتِه أَتَاكَ - فَلَا تَحْمِلْ هَمَّ سَنَتِكَ عَلَى هَمِّ يَوْمِكَ - كَفَاكَ كُلُّ يَوْمٍ عَلَى مَا فِيه - فَإِنْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَإِنَّ اللَّه تَعَالَى سَيُؤْتِيكَ فِي كُلِّ غَدٍ جَدِيدٍ مَا قَسَمَ لَكَ - وإِنْ لَمْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ - فَمَا تَصْنَعُ بِالْهَمِّ فِيمَا لَيْسَ لَكَ - ولَنْ يَسْبِقَكَ إِلَى رِزْقِكَ طَالِبٌ - ولَنْ يَغْلِبَكَ عَلَيْه غَالِبٌ - ولَنْ يُبْطِئَ عَنْكَ مَا قَدْ قُدِّرَ لَكَ.

قال الرضي وقد مضى هذا الكلام - فيما تقدم من هذا الباب - إلا أنه هاهنا أوضح وأشرح فلذلك كررناه - على القاعدة المقررة في أول الكتاب.

۳۸۰ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ مُسْتَقْبِلٍ يَوْماً لَيْسَ بِمُسْتَدْبِرِه - ومَغْبُوطٍ فِي أَوَّلِ لَيْلِه قَامَتْ بَوَاكِيه فِي آخِرِه.

۳۸۱ - وقَالَعليه‌السلام الْكَلَامُ فِي وَثَاقِكَ مَا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِه - فَإِذَا تَكَلَّمْتَ بِه صِرْتَ فِي وَثَاقِه - فَاخْزُنْ لِسَانَكَ كَمَا تَخْزُنُ ذَهَبَكَ ووَرِقَكَ - فَرُبَّ كَلِمَةٍ

تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ پہنچو گے تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔لہٰذا ایک سال کے ہم و غم کو ایک دن پر بار نہ کردو۔ہر دن کے لئے اسی دن کی فکر کافی ہے۔اس کے بعد اگر تمہاری عمر میں ایک سال باقی رہ گیا ہے تو ہرآنے والا دن اپنا رزق اپنے ساتھ لے کرآئے گا اوراگر سال باقی نہیں رہ گیا ہے تو سال بھر کی فکر کی ضرورت ہی کیا ہے۔تمہارے رزق کو تم سے پہلے کوئی پا نہیں سکتا ہے اور تمہارے حصہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے بلکہ جو تمہارے حق میں مقدر ہوچکا ہے وہ دیر سے بھی نہیں آئے گا۔

سید رضی : یہ ارشاد گرامی اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے مگر یہاں زیادہ واضح اور مفصل ہے لہٰذا دوبارہ ذکر کردیا گیا ہے۔

(۳۸۰)

بہت سے لوگ ایسے دن کا سامنا کرنے والے ہیں جس سے پیٹھ پھیرانے والے نہیں ہیں۔اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی قسمت پر سر شام رشک کیا جاتا ہے اور صبح ہوتے ہوتے ان پر رونے والیوں کا ہجوم لگ جاتا ہے ۔

(۳۸۱)

گفتگو تمہارے قبضہ میں ہے۔جب تک اس کااظہار نہ ہو جائے ۔اس کے بعد پھر تم اس کے قبضہ میں چلے جاتے ہو۔لہٰذا اپنی زبان کو ویسے ہی محفوظ رکھو جسے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو۔کہ بعض کلمات نعمتوں کو

۷۵۵

سَلَبَتْ نِعْمَةً وجَلَبَتْ نِقْمَةً.

۳۸۲ - وقَالَعليه‌السلام لَا تَقُلْ مَا لَا تَعْلَمُ بَلْ لَا تَقُلْ كُلَّ مَا تَعْلَمُ - فَإِنَّ اللَّه فَرَضَ عَلَى جَوَارِحِكَ كُلِّهَا - فَرَائِضَ يَحْتَجُّ بِهَا عَلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

۳۸۳ - وقَالَعليه‌السلام احْذَرْ أَنْ يَرَاكَ اللَّه عِنْدَ مَعْصِيَتِه - ويَفْقِدَكَ عِنْدَ طَاعَتِه - فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ - وإِذَا قَوِيتَ فَاقْوَ عَلَى طَاعَةِ اللَّه - وإِذَا ضَعُفْتَ فَاضْعُفْ عَنْ مَعْصِيَةِ اللَّه.

۳۸۴ - وقَالَعليه‌السلام الرُّكُونُ إِلَى الدُّنْيَا مَعَ مَا تُعَايِنُ مِنْهَا جَهْلٌ - والتَّقْصِيرُ فِي حُسْنِ الْعَمَلِ - إِذَا وَثِقْتَ بِالثَّوَابِ عَلَيْه غَبْنٌ - والطُّمَأْنِينَةُ إِلَى كُلِّ أَحَدٍ قَبْلَ الِاخْتِبَارِ لَه عَجْزٌ.

۳۸۵ - وقَالَعليه‌السلام مِنْ هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّه أَنَّه لَا يُعْصَى إِلَّا فِيهَا - ولَا يُنَالُ مَا عِنْدَه إِلَّا بِتَرْكِهَا.

سلب کر لیتے ہیں اورعذاب کو جذب کرلیتے ہیں۔

(۳۸۲)

جوبات نہیں جانتے ہو اسے زبان سے مت نکالو بلکہ ہر وہ بات جسے جانتے ہو اسے بھی مت بیان کرو کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قراردئیے ہیں اور انہیں کے ذریعہ روز قیامت حجت قائم کرنے والا ہے۔

(۳۸۳)

اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں معصیت کے موقع پرحاضر دیکھے اور اطاعت کے موقع پر غائب پائے کہ اس طرح خسارہ والوں میں شمار ہو جائو گے ۔اگر تمہارے پاس طاقت ہے تو اس کا اظہار اطاعت خدا میں کرو اور اگر کمزوری دکھلانا ہے تو اسے معصیت کے موقع پر دکھلائو۔

(۳۸۴)

دنیا کیحالات دیکھنے کے باوجود اس کی طرف رجحان اور میلان صرف جہالت ہے۔اورثواب کے یقین کے بعد بھی نیک عمل میں کوتاہی کرنا خسارہ ہے۔امتحان سے پہلے ہر ایک پر اعتبار کرلینا عاجزی اور کمزوری ہے۔

(۳۸۵)

خداکی نگاہ میں دنیا کی حقارت کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اس کی معصیت اسی دنیا میں ہوتی ہے اور اس کی اصلی نعمتیں اس کوچھوڑنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہیں۔

۷۵۶

۳۸۶ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ طَلَبَ شَيْئاً نَالَه أَوْ بَعْضَه.

۳۸۷ - وقَالَعليه‌السلام مَا خَيْرٌ بِخَيْرٍ بَعْدَه النَّارُ - ومَا شَرٌّ بِشَرٍّ بَعْدَه الْجَنَّةُ - وكُلُّ نَعِيمٍ دُونَ الْجَنَّةِ فَهُوَ مَحْقُورٌ - وكُلُّ بَلَاءٍ دُونَ النَّارِ عَافِيَةٌ.

۳۸۸ - وقَالَعليه‌السلام أَلَا وإِنَّ مِنَ الْبَلَاءِ الْفَاقَةَ - وأَشَدُّ مِنَ الْفَاقَةِ مَرَضُ الْبَدَنِ - وأَشَدُّ مِنْ مَرَضِ الْبَدَنِ مَرَضُ الْقَلْبِ - أَلَا وإِنَّ مِنْ صِحَّةِ الْبَدَنِ تَقْوَى الْقَلْبِ.

(۳۸۶)

جو کسی شے کا طلب گار ہوتا ہے وہ کل یا جزء بہرحال حاصل کر لیتا ہے۔

(۳۸۷)

وہ بھلائی بھلائی نہیں ہے جس کا انجام جہنم ہو۔اوروہ برائی برائی نہیں ہے جس کی عاقبت جنت ہو۔جنت کے علاوہ ہر نعمت حقیر ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر مصیبت عافیت ہے۔

(۳۸۸)

یاد رکھو کہ فقرو فاقہ بھی ایک بلاء ہے اور اس سے زیادہ سخت مصیبت بدن کی بیماری ہے اور اس سے زیادہ دشوار گذار دل کی بیماری ہے۔مالداری یقینا ایک نعمت ہے لیکن اس سے بڑی نعمت صحت(۱) بدن ہے اور اس سے بڑی نعمت دل کی پرہیز گاری ہے۔

(۱) یہ نکتہ ان غرباء اورفقراء کے سمجھنے کے لئے ہے جوہمیشہ غربت کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں اور کبھی صحت کا شکیرہ نہیں اداکرتے ہیں جب کہ تجربات کی دنیا میں یہبات ثابت ہوچکی ہے کہ امراض کا اوسط دولت مندوں میں غریبوں سے کہیں زیادہ ہے اور ہارٹ اٹیک کے بیشتر مریض اسی انچے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔بلکہ بعض اوقات توامیروں کی زندگی میں غذائوں سے زیادہ حصہ دوائوں کا ہوتا ہے اوروہ بیشمار غذائوں سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں۔

صحت بدن پروردگار کا ایک مخصوص کرم ہے جو وہ اپنے بندوں کے شامل حال کردیتا ہے لیکن غریبوں کوبھی اس نکتہ کا خیال رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اس صحت کاشکریہ ادا کیا اور صرف غربت کی شکایت کرتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہیں لیکن روحانی اعتبار سے بہر حال مریض ہیں اوریہ مرض ناقابل علاج ہو چکا ہے۔رب کریم ہر مومن و مومنہ کو اس مرض سے نجات عطا فرمائے

۷۵۷

۳۸۹ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ أَبْطَأَ بِه عَمَلُه لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه: وفِي رِوَايَةٍ أُخْرَى: مَنْ فَاتَه حَسَبُ نَفْسِه لَمْ يَنْفَعْه حَسَبُ آبَائِه.

۳۹۰ - وقَالَعليه‌السلام لِلْمُؤْمِنِ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ فَسَاعَةٌ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّه - وسَاعَةٌ يَرُمُّ مَعَاشَه - وسَاعَةٌ يُخَلِّي بَيْنَ نَفْسِه - وبَيْنَ لَذَّتِهَا فِيمَا يَحِلُّ ويَجْمُلُ - ولَيْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ يَكُونَ شَاخِصاً إِلَّا فِي ثَلَاثٍ - مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ أَوْ خُطْوَةٍ فِي مَعَادٍ - أَوْ لَذَّةٍ فِي غَيْرِ مُحَرَّمٍ.

۳۹۱ - وقَالَعليه‌السلام ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُبَصِّرْكَ اللَّه عَوْرَاتِهَا - ولَا تَغْفُلْ فَلَسْتَ بِمَغْفُولٍ عَنْكَ.

۳۹۲ - وقَالَعليه‌السلام تَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا فَإِنَّ الْمَرْءَ مَخْبُوءٌ تَحْتَ لِسَانِه.

(۳۸۹)

جس کو عمل پیچھے ہٹا دے اسے نسب آگے نہیں بڑھا سکتاہے۔یا ( دوسری روایت میں ) جس کے ہاتھ سے اپنا کردار نکل جائے اسے آباء واجداد کے کارنامے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں۔

(۳۹۰)

مومن کی زندگی کے تین اوقات ہوتے ہیں۔ ایک ساعت میں وہ اپنے رب سے راز و نیاز کرتا ہے اور دوسرے وقت میں اپنے معاش کی اصلاح کرتا ہے اور تیسرے وقت میں اپنے نفس کوان لذتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے جوحلال اور پاکیزہ ہیں ۔

کسی عقل مند کویہ زیب نہیں دیتا ہے کہ اپنے گھرسے دور ہو جائے مگر یہ کہ تین میں سے کوئی ایک کام ہو۔اپنے معاش کی اصلاح کرے ' آخرت کی طرف قدم آگے بڑھائے 'حلال اورپاکیزہ لذت حاصل کرے۔

(۳۹۱)

دنیامیں زہد اختیار کرو تاکہ اللہ تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے ۔اورخبر دار غافل نہ ہو جائو کہ تمہاری طرف سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔

(۳۹۲)

بولو تاکہ پہچانے جائو اس لئے کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی رہتی ہے۔

۷۵۸

۳۹۳ - وقَالَعليه‌السلام خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا أَتَاكَ - وتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ - فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ فَأَجْمِلْ فِي الطَّلَبِ

۳۹۴ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ قَوْلٍ أَنْفَذُ مِنْ صَوْلٍ

۳۹۵ - وقَالَعليه‌السلام كُلُّ مُقْتَصَرٍ عَلَيْه كَافٍ.

۳۹۶ - وقَالَعليه‌السلام الْمَنِيَّةُ ولَا الدَّنِيَّةُ والتَّقَلُّلُ ولَا التَّوَسُّلُ ومَنْ لَمْ يُعْطَ قَاعِداً لَمْ يُعْطَ قَائِماً

(۳۹۳)

جو دنیا میں حاصل ہو جائے اسے لے لو اور جو چیز تم سے منہ موڑ لے تم بھی اس سے منہ پھیر لو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے ہو تو طلب میں میانہ روی سے کام لو۔

(۳۹۴)

بہت سے الفاظ حملوں(۱) سے زیادہاثر رکھنے والے ہوتے ہیں۔

(۳۹۵)

جس پر اکتفا(۲) کرلی جائے وہی کافی ہے۔

(۳۹۶)

موت ہو لیکن خبردار ذلت نہ ہو۔

کم ہو لیکن دوسروں کو وسیلہ نہ بنانا پڑے۔

جسے بیٹھ کر(۳) نہیں مل سکتا ہے اسے کھڑے ہو کر بھی نہیں مل سکتا ہے

(۱)اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تلوار کا زخم بھرجاتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ہے۔اوراس کے علاوہ دونوں کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حملوں کا اثر محدود علاقوں پر ہوتا ہے اورجملوں کا اثر ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ اس دورمیں بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ حملے تمام دنیا میں بند پڑتے ہیں لیکن جملے اپنا کام کر رہے ہیں اور میڈیا ساری دنیا میں زہر پھیلا رہا ہے اورسارے عالم انسانیت کو ہرجہت اور ہراعتبار سے تباہی اوربربادی کے گھاٹ اتار رہا ہے۔

(۲)حرص و ہوس وہ بیماری ہے جس کاعلاج قناعت اورکفایت شعاری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ دنیا ایسی ہے کہ اگر انسان اس کی لالچ میں پڑ جائے تو ملک فرعون اور اقتداریزید وحجاج بھی کم پڑ جاتا ہے اور کفایت شعاری پر آجائے تو جو کی روٹیاں بھی اس کے کردار کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور وہ نہایت درجہ بے نیازی کے ساتھ دنیا کوطلاق دینے پرآمادہ ہو جاتا ہے اورپھر جوع کرنے کاب ھی ارادہ نہیں کرتا ہے۔

(۳)یہاں بیٹھنے سے مراد بیٹھ جانانہیں ہے ورنہ اس نصیحت کو سن کر ہر انسان بیٹھ جائے گا اور محنت و مشقت کا سلسلہ ہی موقوف ہو جائے گا بلکہ اس بیٹھنے سے مراد بقدر ضرورت محنت کرنا ہے جوانسانی زندگی کے لئے کافی ہواور انسان اس سے زیادہجان دینے پر آمادہ نہ ہوجائے کہ اس کاکوئی فائدہ نہیں ہے اور فضول محنت سے کچھ زیادہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

۷۵۹

والدَّهْرُ يَوْمَانِ يَوْمٌ لَكَ ويَوْمٌ عَلَيْكَ - فَإِذَا كَانَ لَكَ فَلَا تَبْطَرْ - وإِذَا كَانَ عَلَيْكَ فَاصْبِرْ.

۳۹۷ - وقَالَعليه‌السلام نِعْمَ الطِّيبُ الْمِسْكُ خَفِيفٌ مَحْمِلُه عَطِرٌ رِيحُه.

۳۹۸ - وقَالَعليه‌السلام ضَعْ فَخْرَكَ واحْطُطْ كِبْرَكَ واذْكُرْ قَبْرَكَ.

۳۹۹ - وقَالَعليه‌السلام إِنَّ لِلْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ حَقّاً - وإِنَّ لِلْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ حَقّاً - فَحَقُّ الْوَالِدِ عَلَى الْوَلَدِ - أَنْ يُطِيعَه فِي كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا فِي مَعْصِيَةِ اللَّه سُبْحَانَه - وحَقُّ الْوَلَدِ عَلَى الْوَالِدِ - أَنْ يُحَسِّنَ اسْمَه ويُحَسِّنَ أَدَبَه ويُعَلِّمَه الْقُرْآنَ.

زمانہ دونوں کا نام ہے۔ایک دن تمہارے حق میں ہوتا ہے تو دوسرا تمہارے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر تمہارے حق میں ہو تو مغرور نہ ہو جانا اور تمہارے خلاف ہو جائے تو صبر سے کام لینا۔

(۳۹۷)

بہترین خوشبو کا نام مشک ہے جس کاوزن انتہائی ہلکا ہوتا ہے اورخوشبو نہایت درجہ مہک دار ہوتی ہے۔

(۳۹۸)

فخرو سر بلندی کوچھوڑ دو اورتکبر و غرور کو فنا کردواور پھراپنی قبر کو یاد کرو۔

(۳۹۹)

فرزند کا باپ پر ایک حق ہوتا ہے اورباپ کا فرزند پرایک حق ہوتا ہے۔باپ کاحق یہ ہے کہ بیٹا ہر مسئلہ میں اس کی اطاعت کرے معصیت پروردگار کے علاوہ اور فرزند کاحق باپ پر یہ ہے کہ اس کا اچھاسانام تجویزکرے اوراسے بہترین ادب سکھائے ۔اور قرآن مجید کی تعلیم دے ۔

۷۶۰

۴۰۰ - وقَالَعليه‌السلام الْعَيْنُ حَقٌّ والرُّقَى حَقٌّ والسِّحْرُ حَقٌّ - والْفَأْلُ حَقٌّ والطِّيَرَةُ لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والْعَدْوَى لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والطِّيبُ نُشْرَةٌ والْعَسَلُ نُشْرَةٌ - والرُّكُوبُ نُشْرَةٌ والنَّظَرُ إِلَى الْخُضْرَةِ نُشْرَةٌ.

۴۰۱ - وقَالَعليه‌السلام : مُقَارَبَةُ النَّاسِ فِي أَخْلَاقِهِمْ أَمْنٌ مِنْ غَوَائِلِهِمْ

۴۰۲ - وقَالَعليه‌السلام لِبَعْضِ مُخَاطِبِيه - وقَدْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُسْتَصْغَرُ مِثْلُه عَنْ قَوْلِ مِثْلِهَا:

لَقَدْ طِرْتَ شَكِيراً وهَدَرْتَ سَقْباً.

(۴۰۰)

چشم بد ۔فسوں کاری۔جادوگری اورفال نیک یہ سب واقعیت رکھتے ہیں لیکن بدشگونی(۱) کی کوئی حقیت نہیں ہے اور بیماری کی چھوت چھات بھی بے بنیاد امر ہے۔

خوشبو سواری' شہد اور سبزہ دیکھنے سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔

(۴۰۱)

لوگوں کے ساتھ اخلاقیات میں قربت رکھنا ان کے شر سے بچانے(۲) کا بہترین ذریعہ ہے۔

(۴۰۲)

ایک شخص(۳) نے آپ کے سامنے اپنی اوقات سے اونچی بات کہہ دی۔تو فرمایا: تم تو پر نکلنے سے پہلے ہی اڑنے لگے اورجوانی آنے سے پہلے ہی بلبلانے لگے۔

(۱)کاش کوئی شخص ہمارے معاشرہ کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیتا اور اسے باور کرادیتا کہ بدشگونی ایک وہمی امر ہے اوراس کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے اور مرد مومن کو صرف حقائق اور واقعیات پراعتماد کرناچاہیے۔مگر افسوس کہ معاشرہ کا ساراکاروبار صرف اوہام وخیالات پرچل رہا ہے اور شگون نیک کی طرف کوئی شخص متوجہ نہیں ہے اور بد شگونی کا اعتبار ہر شخص کر لیتا ہے اوراس پر بیشمار سماجی اثرات بھی مرتبہو جاتے ہیں اور معاشرتی فساد کا ایک سللہ شروع ہو جاتا ہے۔

(۲)چونکہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھبرا برتائو نہ کریں اور وہ ہر ایک کے شر سے محفوظ رہے لہٰذا اس کابہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں سے تعلقات قائم کرے اوران سے رسم و راہ بڑھائے تاکہوہ شر پھیلانے کا ارادہ ہی نہ کریں۔کہ معاشر ہ میں زیادہ حصہ شراختلاف اوردوری سے پیدا ہوتا ہے ورنہ قربت کے بعد کسی نہ کسی مقدار میں تکلف ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔

(۳)بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس علم وفضل اور کمال و ہنر کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اونچی محفلوں میں بولنے کا شوق ضرور رکھتے ہیں جس طرح کہ بعض خطباء کمال جہالت کے باوجود ہر بڑی سے بڑی مجلس سے خطاب کرنے کے امیدوار رہتے ہیں اور ان کاخیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح اپنی شخصیت کارعب قائم کرلیں گے اور یہ احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ رہی سہی عزت بھی چلی جائے گی اور مجمع عام میں رسوا ہو جائیں گے۔

امیر المومنین نے اسے ہی افراد کو تنبیہ کی ہے جو قبل از وقت بالغ ہو جاتے ہیں اور بلوغ فکری سے پہلے ہی بلبلانے لگتے ہیں۔

۷۶۱

قال الرضي والشكير هاهنا أول ما ينبت من ريش الطائر - قبل أن يقوى ويستحصف - والسقب الصغير من الإبل - ولا يهدر إلا بعد أن يستفحل.

۴۰۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ أَوْمَأَ إِلَى مُتَفَاوِتٍ خَذَلَتْه الْحِيَلُ

۴۰۴ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ سُئِلَ عَنْ مَعْنَى قَوْلِهِمْ - لَا حَوْلَ ولَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّه - إِنَّا لَا نَمْلِكُ مَعَ اللَّه شَيْئاً ولَا نَمْلِكُ إِلَّا مَا مَلَّكَنَا - فَمَتَى مَلَّكَنَا مَا هُوَ أَمْلَكُ بِه مِنَّا كَلَّفَنَا - ومَتَى أَخَذَه مِنَّا وَضَعَ تَكْلِيفَه عَنَّا.

۴۰۵ - وقَالَعليه‌السلام لِعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ - وقَدْ سَمِعَه يُرَاجِعُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ كَلَاماً

سید رضی :شکیر پرندہ کے ابتدائی پروں کو کہا جاتا ہے اورسقب چھوٹے اونٹ کا نام ہے جب کہ بلبلانے کاسلسلہ جوانی کے بعد شروع ہوتا ہے۔

(۴۰۳)

جو مختلف چیزوں پر نظر رکھتا ہے اس کی تدبیریں اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔

(۴۰۴)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ'' لاحول ولا قوة الا باللہ '' کے معنی کیا ہیں ؟ توفرمایا کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں اور جو کچھ ملکیت ہے سب اسی کی دی ہوئی ہے تو جب وہ کسی ایسی چیز کا اختیار دیتا ہے جس کا اختیار اس کے پاس ہم سے زیادہ ہے تو ہمیں ذمہ داریاں بھی دیتا ہے اور جب واپس لے لیتا ہے تو ذمہ داریوں کو اٹھا لیتا ہے۔

(۴۰۵)

آپ نے دیکھا کہ عماریاسر مغیرہ(۱) بن شعبہ سے بحث

(۱)ابن ابی الحدید نے مغیرہ کے اسلام کی یہ تاریخ نقل کی ہے کہ یہ شخص ایک قافلہ کے ساتھ سفر میں جارہا تھا۔ایک مقام پر سب کو شراب پلا کر بے ہوش کردیا اور پھرقتل کرکے سارا سامان لوٹ لیا۔اس کے بعد جب یہ خطرہ پیدا ہواکہ ورثہ انتقام لیں گے اورجان کاب چانا مشکل ہو جائے گا تو بھاگکر مدینہآگیا اور فوراً اسلام قبول کرلیا کہاس طرح جان بچانے کا ایک راستہ نکل آئے گا۔

یہ شخص اسلام و ایمان دونوں سے بے بہرہ تھا۔اسلام جان بچانے کے لئے اختیار کیا تھا اورایمان کایہ عالم تھاکہ بر سر منبر '' کل ایمان'' کو گالیاں دیاکرتا تھا اور اسی بد ترین کردار کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگیا جو ہر دشمن علی کاآخری انجام ہوتا ہے۔

۷۶۲

دَعْه يَا عَمَّارُ - فَإِنَّه لَمْ يَأْخُذْ مِنَ الدِّينِ إِلَّا مَا قَارَبَه مِنَ الدُّنْيَا - وعَلَى عَمْدٍ لَبَسَ عَلَى نَفْسِه - لِيَجْعَلَ الشُّبُهَاتِ عَاذِراً لِسَقَطَاتِه.

۴۰۶ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَحْسَنَ تَوَاضُعَ الأَغْنِيَاءِ لِلْفُقَرَاءِ طَلَباً لِمَا عِنْدَ اللَّه - وأَحْسَنُ مِنْه تِيه الْفُقَرَاءِ عَلَى الأَغْنِيَاءِ - اتِّكَالًا عَلَى اللَّه.

۴۰۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَا اسْتَوْدَعَ اللَّه امْرَأً عَقْلًا إِلَّا اسْتَنْقَذَه بِه يَوْماً مَا.

۴۰۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ صَارَعَ الْحَقَّ صَرَعَه.

۴۰۹ - وقَالَعليه‌السلام : الْقَلْبُ مُصْحَفُ الْبَصَرِ

کر رہے ہیں تو فرمایا عمار! اسے اس کے حال پرچھوڑ دو۔اس نے دین میں سے اتنا ہی حصہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب تر بنا سکے اورجان بوجھ کر اپنے لئے امور کو مشتبہ بنالیا ہے تاکہ انہیں شبہات کو اپنی لغزشوں کا بہانہ قراردے سکے ۔

(۴۰۶)

کس قدر اچھی بات ہے کہ مالدار لوگ اجر الٰہی کی خاطر فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں لیکن اس سے اچھی بات یہ ہے کہ فقر اء خدا پر بھروسہ کرکے دولت مندوں کے ساتھ تمکنت(۱) سے پیش آئیں۔

(۴۰۷)

پروردگار کسی شخص کو عقل عنایت نہیں کرتاہے مگر یہ کہ ایک دن اسی کے ذریعہ اسے ہلاکت سے نکال لیتا ہے۔

(۴۰۸)

جو حق سے ٹکرائے گا حق بہر حال اسے پچھاڑ دے گا۔

(۴۰۹)

دل آنکھوں کا صحیفہ ہے

(۱)تکبراورتمکنت کوئی اچھی چیز نہیں ہے لیکن جہاں تواضع اورخاکساری میں فتنہ و فساد پایا جاتا ہو ورنہ تکبر اورتمکنت کا اظہار بے حد ضروری ہو جاتا ہے فقراء کے تکبرکامقصد یہ نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اپنی بڑائی کا اظہار کریں اوربے بنیاد تمکنت کا سہارالیں۔بلکہ اس کامقصد یہ ے کہ اغنیاء کے بجائے پروردگار پر بھروسہ کریں اور اسی کے بھروسہ پر اپنی بے نیازی کا اظہار کریں تاکہ ایمان و عقیدہ میں استحکام پیدا ہو اوراغنیاء بھی تواضع اور انکسا پر مجبور ہو جائیں اور اس تواضع سے انہیں بھی کچھ اجر و ثواب حاصل ہو جائے ۔

۷۶۳

۴۱۰ - وقَالَعليه‌السلام : التُّقَى رَئِيسُ الأَخْلَاقِ.

۴۱۱ - وقَالَعليه‌السلام : لَا تَجْعَلَنَّ ذَرَبَ لِسَانِكَ عَلَى مَنْ أَنْطَقَكَ - وبَلَاغَةَ قَوْلِكَ عَلَى مَنْ سَدَّدَكَ

۴۱۲ - وقَالَعليه‌السلام : كَفَاكَ أَدَباً لِنَفْسِكَ اجْتِنَابُ مَا تَكْرَهُه مِنْ غَيْرِكَ.

۴۱۳ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ صَبَرَ صَبْرَ الأَحْرَارِ وإِلَّا سَلَا سُلُوَّ الأَغْمَارِ

۴۱۴ - وفِي خَبَرٍ آخَرَ أَنَّهعليه‌السلام - قَالَ لِلأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ مُعَزِّياً عَنِ ابْنٍ لَه.

إِنْ صَبَرْتَ صَبْرَ الأَكَارِمِ - وإِلَّا سَلَوْتَ سُلُوَّ الْبَهَائِمِ.

۴۱۵ - وقَالَعليه‌السلام فِي صِفَةِ الدُّنْيَا: تَغُرُّ وتَضُرُّ وتَمُرُّ -.

(۴۱۰)

تقویٰ تمام اخلاقیات کا راس و رئیس ہے۔

(۴۱۱)

اپنی زبان کی تیزی اس کے خلاف استعمال نہ کرو جس نے تمہیں بولنا سکھایا ہے اور اپنے کلام کی فصاحت کا مظاہرہ اس پر نہ کرو جس نے راستہ دکھایاہے۔

(۴۱۲)

اپنے نفس کی تربیت کے لئے یہی کافی ہے کہ ان چیزوں سے اجتناب کرو جنہیں دوسروں کے لئے برا سمجھتے ہو۔

(۴۱۳)

انسان جواں مردوں کی طرح صبر کرے گا ورنہ سادہ لوحوں کی طرح چپ ہو جائے گا۔

(۴۱۴)

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اشعث بن قیس کو اس کے بیٹے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بزرگوں کی طرح صبر کرو ورنہ جانوروں کی طرح ایک دن ضرور بھول جائو گے ۔

(۴۱۵)

آپ نے دنیا کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دھوکہ دیتی ہے ۔نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے

۷۶۴

إِنَّ اللَّه تَعَالَى لَمْ يَرْضَهَا ثَوَاباً لأَوْلِيَائِه ولَا عِقَاباً لأَعْدَائِه وإِنَّ أَهْلَ الدُّنْيَا كَرَكْبٍ - بَيْنَا هُمْ حَلُّوا إِذْ صَاحَ بِهِمْ سَائِقُهُمْ فَارْتَحَلُوا

۴۱۶ - وقَالَ لِابْنِه الْحَسَنِعليه‌السلام لَا تُخَلِّفَنَّ وَرَاءَكَ شَيْئاً مِنَ الدُّنْيَا - فَإِنَّكَ تَخَلِّفُه لأَحَدِ رَجُلَيْنِ - إِمَّا رَجُلٌ عَمِلَ فِيه بِطَاعَةِ اللَّه - فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - وإِمَّا رَجُلٌ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - فَكُنْتَ عَوْناً لَه عَلَى مَعْصِيَتِه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ حَقِيقاً أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ.

قَالَ الرَّضِيُّ ويُرْوَى هَذَا الْكَلَامُ عَلَى وَجْه آخَرَ وهُوَ.

أَمَّا بَعْدُ - فَإِنَّ الَّذِي فِي يَدِكَ مِنَ الدُّنْيَا - قَدْ كَانَ لَه أَهْلٌ قَبْلَكَ - وهُوَ صَائِرٌ إِلَى أَهْلٍ بَعْدَكَ - وإِنَّمَا أَنْتَ جَامِعٌ لأَحَدِ رَجُلَيْنِ - رَجُلٍ عَمِلَ فِيمَا جَمَعْتَه بِطَاعَةِ اللَّه

اللہ نے اسے نہ اپنے اولیاء کے ثواب کے لئے پسند کیا ہے اور نہ دشمنوں کے عذاب کے لئے۔اہل دنیا ان سواروں کے مانند ہیں جنہوں نے جیسے ہی قیام کیا ہنکانے والے نے للکار دیاکہ کوچ کا وقت آگیا ہے اور پھر روانہ ہوگئے ۔

(۴۱۶)

اپنے فرزند حسن(۱) سے بیان فرمایا: خبردار دنیا کی کوئی چیز اپنے بعد کے لئے چھوڑ کرمت جانا کہ اس کے وارث دو ہی طرح کے لوگ ہوں گے۔یا وہوں گے جو نیک عمل کریں گے تو جو مال تمہاری بد بختی کا سبب بنا ہے وہی ان کی نیک بختی کا سبب ہوگا اور اگر انہوں نے معصیت میں لگادیا تو وہ تمہارے مال کی وجہ سے بد بخت ہوں گے اورتم ان کو معصیت کے مددگار شمار ہوگے اور ان دونوں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے تم اپنے نفس پر ترجیح دے سکتے ہو۔

سید رضی : اس کلام کو ایک دوسری طرح بھی نقل کیا گیا ہے کہ '' یہ دنیا جو آج تمہارے ہاتھ میں ہے کل دوسرے اس کے اہل رہ چکے ہیں اور کل دوسرے اس کے اہل ہوں گے اور تم اسے دو میں سے ایک کے لئے جمع کر رہے ہو یا وہ شخص جو تمہارے جمع کئے ہوئے کو اطاعت خدا میں صرف کرے گا تو جمع کرنے کی زحمت تمہاری

(۱)امام حسن سے خطاب مسئلہ کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے کہ اتنی عظیم بات کا سمجھنا اوراس سے فائدہ اٹھاناہر انسان کے بس کاکام نہیں ہے ورنہ امام حسن جیسی شخصیت کا انسان ان نکات کی طرف توجہ دلانے کامحتاج نہیں ہے اور ان کا کامخود ہی عالم انسانیت کو ان حقائق سے با خبر کرنااور ان نکات کی طرف متوجہ کرنا ہے۔

بہرحال مسئلہ انتہائی اہم ہے کہ انسان کو اپنی عاقبت کے لئے جو کچھ کرناہے وہ اپنی زندگی میں کرنا ہے۔مرنے کے بعد دوسروں سے امید لگانا ایک وسوسہ شیطانی ہے اور کچھ نہیں ہے۔پھرمال بھی پروردگارنے دیا ہے تو اس کا فیصلہ بھی خود ہی کرنا ہے۔چاہے زندگی میں صرف کردے یا اس کے مصرف کا تعین کردے ورنہ فائدہ دوسرے افراد اٹھائیں گے اور وبال اسے برداشت کرنا پڑے گا۔

۷۶۵

- فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - أَوْ رَجُلٍ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيتَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ أَهْلًا أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ - ولَا أَنْ تَحْمِلَ لَه عَلَى ظَهْرِكَ - فَارْجُ لِمَنْ مَضَى رَحْمَةَ اللَّه - ولِمَنْ بَقِيَ رِزْقَ اللَّه.

۴۱۷ - وقَالَعليه‌السلام لِقَائِلٍ قَالَ بِحَضْرَتِه أَسْتَغْفِرُ اللَّه - ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَتَدْرِي مَا الِاسْتِغْفَارُ - الِاسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ - وهُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلَى سِتَّةِ مَعَانٍ - أَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلَى مَا مَضَى - والثَّانِي الْعَزْمُ عَلَى تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْه أَبَداً - والثَّالِثُ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ - حَتَّى تَلْقَى اللَّه أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ - والرَّابِعُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ - ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا - والْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى اللَّحْمِ الَّذِي نَبَتَ عَلَى السُّحْتِ - فَتُذِيبَه بِالأَحْزَانِ

ہوگی اور نیک بختی اس کے لئے ہوگی۔یا وہ شخص ہوگا جو معصیت میں صرف کرے گا تو اس کے لئے جمع کرکے تم بد بختی کا شکار ہوگے اوران میںسے کوئی اس بات کا اہل نہیں ہے کہ اسے اپنے نفس پر مقدم کرسکو اور اس کے لئے اپنی پشت کو گرانبار بناسکو لہٰذا جوگزرگئے ان کے لئے رحمت خدا کی امید کرو اورجوباقی رہ گئے ہیں ان کے لئے رزق خداکی امید کرو ۔

(۴۱۷)

ایک شخص نے آپ کے سامنے استغفار کیا ''استغفر اللہ '' تو آپ نے فرمایا کہ تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ۔یہ استغفار بلند ترین لوگوں کا مقام ہے اوراس کے مفہوم میں چھ چیزیں شامل ہیں:(۱) ماضی پر شرمندگی(۲) آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم محکم(۳) مخلوقات کے حقوق کا ادا کردینا کہ اس کے بعد یوں پاکدامن ہو جائے کہ کوئی مواخذہ نہ رہ جائے(۴) جس فریضہ کو ضائع کردیا ہے اسے پورے طور پر ادا کردینا۔(۵) جو گوشت مال حرام سے اگا ہے اسے رنج و غم سے پگھلا(۱) دینا

(۱)اس سلسلہ میں سرکاردوعالم (ص) کا یہ ارشاد گرامی نقل کیاگیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ '' جس شخص نے ایک لقمہ حرام کھالیا اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس کی دعا بھی چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس حرام سے جوگوشت اگے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اوریاد رکھو کہ ایک لقمہ سے بھی کسی نہ کسی مقدارمیں گوشت ضرور روئیدہ ہوتا ہے۔

کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک لقمہ حرام کا یہاثر ہے تو جو لوگ صبح و شام لقمہ حرام ہی پر گذارا کرتے رہتے ہیں۔ان کی عبادتوں اوردعائوں کا انجام کیا ہوگا ۔ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ دعائوں کے قبول نہ ہونے کاشکوہ کرنے کے بجائے دعائوں ک قابل قبول ہونے کا انتظام کریں تاکہ پروردگار ان کی دعائوں کو قبول کرسکے اور ان کی نمازوں کا اجرو ثواب دے سکے ورنہ صحیح نماز عذاب سے تو محفوظ بنا سکتی ہے تواث کا حقدار نہیں بنا سکتی ہے جب تک قابل قبول نہ ہوجائے۔اور صحیح اور مقبول کا بنیادی فرق یہ ہے کہ صحیح ہونے کے لئے عمل کے شرائط اور واجبات کودیکھا جاتا ہے کہ ان میں کوتاہی نہیں ہوئی ہے تو عمل صحیح ہو جائے گا اور دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہ ہوگی ۔لیکن قبول ہونے کے لئے اس کے علاوہ عمل کرنے والے کے تقویٰ اور اخلاص کو دیکھاجاتا ہے کہ پوردگار متقین کے علاوہکسی کے عمل کو قابل قبول نہیں قرار دیتا ہے اور اسنے صاف لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ وہ صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور انہیں کے اعمال کو اجرو ثواب کاحقدار اور بلندی درجات کا وسیلہ و ذریعہ قراردیتا ہے۔

۷۶۶

حَتَّى تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ - ويَنْشَأَ بَيْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِيدٌ - والسَّادِسُ أَنْ تُذِيقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ - كَمَا أَذَقْتَه حَلَاوَةَ الْمَعْصِيَةِ - فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّه.

۴۱۸ - وقَالَعليه‌السلام الْحِلْمُ عَشِيرَةٌ

۴۱۹ - وقَالَعليه‌السلام : مِسْكِينٌ ابْنُ آدَمَ - مَكْتُومُ الأَجَلِ مَكْنُونُ الْعِلَلِ - مَحْفُوظُ الْعَمَلِ تُؤْلِمُه الْبَقَّةُ - وتَقْتُلُه الشَّرْقَةُ وتُنْتِنُه الْعَرْقَةُ

۴۲۰ - ورُوِيَ أَنَّهعليه‌السلام كَانَ جَالِساً فِي أَصْحَابِه - فَمَرَّتْ بِهِمُ امْرَأَةٌ جَمِيلَةٌ فَرَمَقَهَا الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ - فَقَالَعليه‌السلام :

إِنَّ أَبْصَارَ هَذِه الْفُحُولِ طَوَامِحُ وإِنَّ ذَلِكَ سَبَبُ هِبَابِهَا - فَإِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى امْرَأَةٍ تُعْجِبُه فَلْيُلَامِسْ أَهْلَه - فَإِنَّمَا هِيَ امْرَأَةٌ كَامْرَأَتِه.

یہاں تک کہ کھال ہڈیوں سے چپک جائے اورنیا گوشت پیدا ہو جائے(۶) جسم کو ویسے ہی اطاعت کا مزہ چکھائو جیسے طرح معصیت سے لطف اندوز کیا ہے ۔اس کے بعد کہو ''استغفر اللہ ''

(۴۱۸)

بردباری خود ایک پورا قبیلہ ہے۔

(۴۱۹)

ابن آدم کس قدر مسکین ہے کہ اس کی موت بھی پوشیدہ ہے اور اس کی بیماریاں بھی صیغہ راز میں ہیں اور اس کے اعمال بھی سب محفوظ کئے جا رہے ہیں۔حالت یہ ہے کہ مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتا ہے۔اچھو لگنے سے مرجاتا ہے اور پسینہ اسے بدبوداربنادیتا ہے ۔

(۴۲۰)

کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔ادھر سے ایک خوبصورت عورت کا گذر ہوگیا اور لوگوں نے اسے کن آنکھیوں سے دیکھنا شروع کردیا تو آپ نے فرمایا: '' ان مردوں کی آنکھیں تاکنے والی ہیں اور یہ نظر بازی ان کی خواہشات کو برانگیختہ کرنے کا ذریعہ ہے لہٰذا جب بھی تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی عورت کو دیکھے جو پسند آنے والی ہو تو اپنے اہل سے روابط پیدا کرے کہ یہ عورت بھی اپنی ہی عورت جیسی ہے''

۷۶۷

فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْخَوَارِجِ - قَاتَلَه اللَّه كَافِراً مَا أَفْقَهَه - فَوَثَبَ الْقَوْمُ لِيَقْتُلُوه - فَقَالَعليه‌السلام :رُوَيْداً إِنَّمَا هُوَ سَبٌّ بِسَبٍّ أَوْ عَفْوٌ عَنْ ذَنْبٍ

۴۲۱ - وقَالَعليه‌السلام : كَفَاكَ مِنْ عَقْلِكَ مَا أَوْضَحَ لَكَ سُبُلَ غَيِّكَ مِنْ رُشْدِكَ.

۴۲۲ - وقَالَعليه‌السلام : افْعَلُوا الْخَيْرَ ولَا تَحْقِرُوا مِنْه شَيْئاً،فَإِنَّ صَغِيرَه كَبِيرٌ وقَلِيلَه كَثِيرٌ - ولَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ إِنَّ أَحَداً أَوْلَى بِفِعْلِ الْخَيْرِ مِنِّي - فَيَكُونَ واللَّه كَذَلِكَ إِنَّ لِلْخَيْرِ والشَّرِّ أَهْلًا فَمَهْمَا تَرَكْتُمُوه مِنْهُمَا كَفَاكُمُوه أَهْلُه

۴۲۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ أَصْلَحَ سَرِيرَتَه أَصْلَحَ اللَّه عَلَانِيَتَه - ومَنْ عَمِلَ لِدِينِه كَفَاه اللَّه.

یہ سن کر ایک خارجی نے کہا کہ اللہ اس کا فرکو قتل کرے کس قدر فقیہ ہے۔تو لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ خبردار۔ٹہرو۔گالی کا بدلہ گالی ہوتا ہے یا خطا سے درگزر کرنا ہوتا ہے۔

(۴۲۱)

تمہارے لئے اتنی ہی عقل کافی ہے کہ گمراہی کا راستہ ہدایت کے راستہ سے الگ ہو جائے ۔

(۴۲۲)

نیکیاں انجام دو اور اس میں سے کسی چیز کوبھی حقیر نہ سمجھو کہ نیکی چھوٹی بھی بڑی ہوتی ہے اور تھوڑی بھی بہت ہوتی ہے۔خبردار تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ کوئی شخص کا رخیر کے لئے مجھ سے بہتر ہے ورنہ خدا کی قسم ایسا ہی ہو جائے گا۔نیکی اور برائی دونوںکے اہل ہوتے ہیں اگر تم اسے چھوڑ دوگے تو جو اس کا اہل ہوگا وہی اسے انجام دیدے گا۔

(۴۲۳)

جو اپنے باطن کی اصلاح(۱) کرے گا پروردگار اس کے ظاہر کو درست کردے گا اور جو اپنے دین کے لئے عمل کرے گا خدا اس کی دنیا کے لئے کافی ہو جائے گا

(۱)مقصد یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں ایکگہرا رابطہ پایا جاتاہے اور دونوں میں کس یایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ اس باطن کی اصلح پر زوردے جو ظاہری اعمال کا سرچشمہ ہے کہ اس کے بعد ظاہر کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی اور اس کا سبب وہمالک ہوگا جس نے ظاہر کے اعمال کو باطن کے محرکات کا تابع بنادیا ہے۔

۷۶۸

أَمْرَ دُنْيَاه - ومَنْ أَحْسَنَ فِيمَا بَيْنَه وبَيْنَ اللَّه - أَحْسَنَ اللَّه مَا بَيْنَه وبَيْنَ النَّاسِ

۴۲۴ - وقَالَعليه‌السلام : الْحِلْمُ غِطَاءٌ سَاتِرٌ والْعَقْلُ حُسَامٌ قَاطِعٌ - فَاسْتُرْ خَلَلَ خُلُقِكَ بِحِلْمِكَ وقَاتِلْ هَوَاكَ بِعَقْلِكَ.

۴۲۵ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ لِلَّه عِبَاداً يَخْتَصُّهُمُ اللَّه بِالنِّعَمِ لِمَنَافِعِ الْعِبَادِ - فَيُقِرُّهَا فِي أَيْدِيهِمْ مَا بَذَلُوهَا - فَإِذَا مَنَعُوهَا نَزَعَهَا مِنْهُمْ ثُمَّ حَوَّلَهَا إِلَى غَيْرِهِمْ.

۴۲۶ - وقَالَعليه‌السلام : لَا يَنْبَغِي لِلْعَبْدِ

اور جو اپنے اور اللہ کے معاملات کو درست کرے گا پروردگار اس کے اوردوسرے انسانوں کے معاملات کو بھی ٹھیک کردے گا۔

(۴۲۴)

بردباری(۱) ڈھانک لینے والا پردہ ہے اور عقل تیز ترین تلوار ہے لہٰذا اپنے اخلاق کی کمزوریوں کو تحمل سے چھپائو اور اپنی خواہشات کا عقل کی تلوارسے مقابلہ کرو۔

(۴۲۵)

اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جنہیں پروردگار مخصوص نعمتیں دوسرے بندوں(۲) کے فائدہ کے لئے عنایت کرتاہے تو اس کے بعد جب تک وہ داد و دہش کرتے رہتے ہیں ان نعمتوں کو ان کے ہاتھوں میں باقی رکھتا ہے اور جب جودو کرم کو روک دیتے ہیں تو ان سے واپس لے لیتا ہے اور دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے۔

(۴۲۶)

کسی بندہ کے لئے یہ مناسب نہی ہے کہ دو

(۱)انسانی زندگی کی دو عظیم خرابیاں ہیں :ایک کا نام ہے خواہش پرستی اوردوسری کا نام ہے بد اخلاقی ۔مولائے کائنات نے دونوں کا ایک ایک علاج بتایا ہے کہ خواہش پرستی کا علاج ہے اتباع عقل جس کے بعد خواہش کو امرونہی کرنے کا اختیار نہیں رہ جاتا ہے۔اوربداخلاقی کا علاج ہے بردباری کہ جس کے ذریعہ سے کم سے کم اس عیب کی پردہ پوشی کی جا سکتی ہے۔

(۲)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کے پاس نعمتوں کی فراوانی کسی ذاتی امتیاز یا مالک سے کسی خاص رشتہ داری کی بنیاد پرنہیں ہے۔اس کا سبب درحقیقت وہ امانتداری ہے جو پروردگار اپنے بندہ میں دیکھناچاہتا ہے اوروہ انتظام ہے جو مالک کمزوروں کے لئے طاقتور افراد کے ذریعہ انجام دیتا ہے۔لہٰذا کسی انسان کو کسی غرور میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور کمزوروں کی حاجت برآری کرکے اپنی شرافت اور امانتداری کا ثبوت دینا چاہیے۔

۷۶۹

أَنْ يَثِقَ بِخَصْلَتَيْنِ الْعَافِيَةِ والْغِنَى - بَيْنَا تَرَاه مُعَافًى إِذْ سَقِمَ وبَيْنَا تَرَاه غَنِيّاً إِذِ افْتَقَرَ.

۴۲۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ شَكَا الْحَاجَةَ إِلَى مُؤْمِنٍ فَكَأَنَّه شَكَاهَا إِلَى اللَّه - ومَنْ شَكَاهَا إِلَى كَافِرٍ فَكَأَنَّمَا شَكَا اللَّه.

۴۲۸ - وقَالَعليه‌السلام فِي بَعْضِ الأَعْيَادِ - إِنَّمَا هُوَ عِيدٌ لِمَنْ قَبِلَ اللَّه صِيَامَه وشَكَرَ قِيَامَه - وكُلُّ يَوْمٍ لَا يُعْصَى اللَّه فِيه فَهُوَ عِيدٌ.

۴۲۹ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَعْظَمَ الْحَسَرَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ - حَسْرَةُ رَجُلٍ كَسَبَ مَالًا فِي غَيْرِ طَاعَةِ اللَّه - فَوَرِثَه رَجُلٌ فَأَنْفَقَه فِي طَاعَةِ اللَّه سُبْحَانَه - فَدَخَلَ بِه الْجَنَّةَ ودَخَلَ الأَوَّلُ بِه النَّارَ.

۴۳۰ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَخْسَرَ النَّاسِ صَفْقَةً وأَخْيَبَهُمْ سَعْياً - رَجُلٌ

چیزوں پر بھروسہ کرے۔ایک عافیت اورایک مالداری۔ کہ عافیت دیکھتے دیکھتے بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مالداری دیکھتے دیکھتے غربت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

(۴۲۷)

جو اپنے درد دل کو کسی مومن سے بیان کرے گویا اس نے خدا سے بیان کیا اور جو اس کی فریاد کسی کافر سے کرے تو گویا اس نے خدا کی شکایت کی۔

(۴۲۸)

ایک عید کے موقع پر آپ نے فرمایا کہ ''یہ عید صرف ان کے لئے ہے جن کا روزہ قبول ہو جائے اور جن کی نماز قابل قدر ہو جائے اور ویسے جس دن بھی پروردگار کی معصیت نہ کی جائے مسلمان کے لئے وہی روز۔روز عید ہے۔

(۴۲۹)

روز قیامت سب سے زیادہ حسرت ناک صورت حال اس شخص کی ہوگی جو اطاعت خداسے ہٹ کر مال حاصل کرے اورپھر اس کا وارث وہ ہو جائے جو اسے اطاعت خدا میں صرف کردے کہ وہ اسی مال سے جنت میں چلا جائے گا اورکمانے والا اسی سے جہنم کا حقدار ہو جائے گا ۔

(۴۳۰)

معاملات میں سب سے زیادہ خسارہ والا اور کوششوں میں سب سے زیادہ ناکام وہ شخص ہے جو اپنے

۷۷۰

أَخْلَقَ بَدَنَه فِي طَلَبِ مَالِه - ولَمْ تُسَاعِدْه الْمَقَادِيرُ عَلَى إِرَادَتِه - فَخَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا بِحَسْرَتِه وقَدِمَ عَلَى الآخِرَةِ بِتَبِعَتِه

۴۳۱ - وقَالَعليه‌السلام : الرِّزْقُ رِزْقَانِ طَالِبٌ ومَطْلُوبٌ - فَمَنْ طَلَبَ الدُّنْيَا طَلَبَه الْمَوْتُ حَتَّى يُخْرِجَه عَنْهَا - ومَنْ طَلَبَ الآخِرَةَ طَلَبَتْه الدُّنْيَا حَتَّى يَسْتَوْفِيَ رِزْقَه مِنْهَا.

۴۳۲ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّه هُمُ الَّذِينَ نَظَرُوا إِلَى بَاطِنِ الدُّنْيَا - إِذَا نَظَرَ النَّاسُ إِلَى ظَاهِرِهَا - واشْتَغَلُوا بِآجِلِهَا إِذَا اشْتَغَلَ النَّاسُ بِعَاجِلِهَا -

جسم کو مال کی طلب میں خستہ حال کردے اور پھر بھی مقدر ساتھ نہ دے کہ اس طرح دنیا سے حسرتیں لے کر چلا جاتا ہے اور آخرت میں بہر حال اس کی پاداش کو برداشت کرناپڑتا ہے۔

(۴۳۱)

رزق دو طرح کا ہوتا ہے ۔ایک وہ ہے جو خود تلاش کرتا ہے اور ایک وہ ہے جسے تلاش کیاجاتا ہے۔لہٰذا یاد رکھو کہ جو دنیا کا طلب گار ہوتا ہے اس کی طلبگار موت ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے اس دنیا سے نکال باہر کرے اور جوآخرت کا طلب گار ہوتا ہے دنیا خود اسے تلاش کرتی ہے یہاں تک کہ اپنا پورا حق حاصل کرلے۔

(۴۳۲)

اولیائ(۱) خدا وہ لوگ ہیں جو دنیا کی حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں جب لوگ صرف اس کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور آخرت کے امور میں مشغول رہتے ہیں جب لوگ دنیا کی فکرمیں لگے رہتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان خواہشات

(۱)اس مقام پرحضرت نے اولیاء خداکے آٹھ صفات کاتذکرہ فرمایا ہے تاکہ ہر انسان اس کردار کو پہچانے اوراسے اختیارکرنے کی کوشش کرے کہ روز قیامت کے خوف و حزن سے اولیاء ء خداکے علاوہ کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔اولایء اللہ کے وہ صفات حسب ذیل ہیں:

(۱) جب لوگ دنیاکے ظاہر پر فریفتہ ہونے لگتے ہیں تو وہ اس کے اندرونی زہر کا مشاہدہ کرتے ہیں (۲) جب لوگ دنیا پر مرنے لگتے ہیں تبوہ آخرت کی فکرمیں لگ جاتے ہیں (۳) جوخواہشات انسان کو تباہ کر دیتی ہیں وہ انہیں کو تباہ کردیتے ہیں (۴) جو دولت دنیا انہیں چھوڑ دینے والی ہے وہ اسے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں (۵) جس دولت دنیا کو لوگ کثیر تصور کرتے ہیں وہ اسے حقیر سمجھتے ہیں (۶) جس باطل سے لوگ صلح کر لیتے ہیں وہ اس کے سدا دشمن رہتے ہیں (۷) ان کے اور قرآن کے درمیان ایسا اتحاد کردار ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے پہچانے جاتے ہیں (۸) اجرآخرت سے بہتر کوئی امید اور عذاب آخرت سے بد تر کوئی خوفناک شے اپنے دل و دماغ میں نہیں رکھتے ہیں۔

۷۷۱

فَأَمَاتُوا مِنْهَا مَا خَشُوا أَنْ يُمِيتَهُمْ - وتَرَكُوا مِنْهَا مَا عَلِمُوا أَنَّه سَيَتْرُكُهُمْ - ورَأَوُا اسْتِكْثَارَ غَيْرِهِمْ مِنْهَا اسْتِقْلَالًا - ودَرَكَهُمْ لَهَا فَوْتاً - أَعْدَاءُ مَا سَالَمَ النَّاسُ وسَلْمُ مَا عَادَى النَّاسُ - بِهِمْ عُلِمَ الْكِتَابُ وبِه عَلِمُوا - وبِهِمْ قَامَ الْكِتَابُ وبِه قَامُوا - لَا يَرَوْنَ مَرْجُوّاً فَوْقَ مَا يَرْجُونَ - ولَا مَخُوفاً فَوْقَ مَا يَخَافُونَ.

۴۳۳ - وقَالَعليه‌السلام : اذْكُرُوا انْقِطَاعَ اللَّذَّاتِ وبَقَاءَ التَّبِعَاتِ.

۴۳۴ - وقَالَعليه‌السلام : اخْبُرْ تَقْلِه

قال الرضي - ومن الناس من يروي هذا للرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم - ومما يقوي أنه من كلام أمير المؤمنينعليه‌السلام ما حكاه ثعلب عن ابن الأعرابي.

کو مردہ بنا دیتے ہیں جن سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں مار ڈالیں گی اور اس دولت کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ ایک دن ان کا ساتھ چھوڑ دے گی۔یہ لوگ اس چیز کو قلیل تصور کرتے ہیں جسے لوگ کثیر سمجھتے ہیں اور اس چیز کو فوت ہو جانا سمجھتے ہیں جسے لوگ حاصل کرلینا تصورکرتے ہیں۔اس چیز کے دشمن ہیں جس سے لوگوں کی دوستی ہے اور اس چیز کے دوست ہیں جس کے لوگ دشمن ہیں۔انہیں کے ذریعہ قرآن کو پہچانا گیا ہے اور یہ بھی قرآن ہی کے ذریعہ پہچانے گئے ہیں۔قرآن ان کے کردار سے قائم ہے اور یہ قرآن کی برکت سے زندہ ہیں۔یہ جس چیز کے امیدوار ہیں اس سے بالاتر کوئی تمنا نہیں سمجھتے ہیں اور جس چیز سے خوفزدہ ہیں اس سے زیادہ خوفناک کوئی مصیبت نہیں سمجھتے ہیں۔

(۴۳۳)

یہ یاد رکھو کہ لذتیں ختم ہونے والی ہیں اور ان کا حساب باقی رہنے والا ہے۔

(۴۳۴)

امتحان کرو تاکہ نفرت پیدا کرو۔

سید رضی : بعض حضرات نے اس قول کو رسول اکرم (ص) کے نام سے نقل کیا ہے۔حالانکہ یہ کلام امیر المومنین ہے اور اس کا شاہد ثعلب کا وہ بیان ہے جو انہوں نے ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ مامون نے اس فقرہ

۷۷۲

قال المأمون - لولا أن علياعليه‌السلام قال اخبر تقله - لقلت أقله تخبر

۴۳۵ - وقَالَعليه‌السلام : مَا كَانَ اللَّه لِيَفْتَحَ عَلَى عَبْدٍ بَابَ الشُّكْرِ - ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الزِّيَادَةِ - ولَا لِيَفْتَحَ عَلَى عَبْدٍ بَابَ الدُّعَاءِ ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الإِجَابَةِ - ولَا لِيَفْتَحَ لِعَبْدٍ بَابَ التَّوْبَةِ ويُغْلِقَ عَنْه بَابَ الْمَغْفِرَةِ.

۴۳۶ - وقَالَعليه‌السلام : أَوْلَى النَّاسِ بِالْكَرَمِ مَنْ عُرِفَتْ بِه الْكِرَامُ.

۴۳۷ - وسُئِلَعليه‌السلام أَيُّهُمَا أَفْضَلُ الْعَدْلُ أَوِ الْجُودُ فَقَالَعليه‌السلام - الْعَدْلُ يَضَعُ الأُمُورَ مَوَاضِعَهَا والْجُودُ يُخْرِجُهَا مِنْ جِهَتِهَا - والْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ والْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ - فَالْعَدْلُ أَشْرَفُهُمَا وأَفْضَلُهُمَا.

کو سن کر کہا کہ اگر حضرت علی نے اس طرح نہ فرمادیا ہوتا تو میں اسے یوں کہتا کہ ''نفرت کرو تاکہ آزمالو''

(۴۳۵)

اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ کسی بندہ کے لئے شکر کا دروازہ کھول دے اور پھر اضافہ نعمت کا دروازہ بند کردے یا دعا کا دروازہ کھول دے اورقبولیت کا دروازہ بند کردے یا توبہ کا دروازہ کھول دے اورمغفرت کا دروازہ بند کردے ۔

(۴۳۶)

کرم کے زیادہ حقدار وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی جڑیں ان اہل کرم میں ہوتی ہیں جن کا کرم جانا پہچانا ہوتا ہے۔

(۴۳۷)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ انصاف اور سخاوت میں زیادہ بہتر کون سا کمال ہے ؟ تو فرمایا کہ انصاف ہر شے کو اس کی منزل پر رکھتا ہے اور سخاوت اسے اس کی منزل سے باہرنکال دیتی ہے۔انصاف سب کا انتظام کرتا ہے اور سخاوت صرف اس کے کام آتی ہے جس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔لہٰذا انصاف بہر حال دونوں میں افضل اور اشرف ہے۔

۷۷۳

۴۳۸ - وقَالَعليه‌السلام : النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَهِلُوا.

۴۳۹ - وقَالَعليه‌السلام : الزُّهْدُ كُلُّه بَيْنَ كَلِمَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ اللَّه سُبْحَانَه -( لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ ولا تَفْرَحُوا بِما آتاكُمْ ) .ومَنْ لَمْ يَأْسَ عَلَى الْمَاضِي ولَمْ يَفْرَحْ بِالآتِي - فَقَدْ أَخَذَ الزُّهْدَ بِطَرَفَيْه.

۴۴۰ - وقَالَعليه‌السلام : مَا أَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَائِمِ الْيَوْمِ

(۴۳۸)

لوگ ان چیزوں(۱) کے دشمن ہیں جن سے ناواقف ہیں۔( اوریہی دین کی دشمنی اور آل محمد(ص) سے عداوت کا بھی راز ہے )

(۴۳۹)

تمام زہد(۲) قرآن مجید کے دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے '' جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اورجو ملجائے اس پر مغرورنہ ہو جائو ''لہٰذا جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اورآنے والے سے مغرورنہ ہوجائے اس نے سارا زہد سمیٹ لیا ہے ۔

(۴۴۰)

رات کی نیند دن کے عزائم کو کس قدر کمزوربنا دیتی ہے۔

(۱)یہ بات بعینہ حکمت ۱۷۱ میں بیان کی جاچکی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ جہالت ایک ایسی بلا ہے جس مبتلا ہونے کے بعد انسان اپنے نفع ونقصان کو بھی نہیں پہچانتا ہے اور بعض اوقات اپنا بھی دشمن ہوجاتاہے اوراس کا علاج اس کے ماسوا کچھ نہیں ہے کہ انسان کو صاحب علم بنایا جائے اور ایسا صاحب علم بنایا جائے جس میں غرور علم نہ پیدا ہو ورنہ بارش سے بھاگ کر پر نالہ کے نیچے کھڑے ہونے کے مرادف ہو جائے گا۔۔

(۲)زہد کا عام تصور غربت ' ناداری ' دنیا بیزاری اور پھٹے کپڑوں میں محصور کردیا گیا ہے ۔حالانکہ اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے۔اس کے نزدیک زہد دولت ک ساتھ جمع ہو سکتا ہے اور غربت کے ساتھ بھی۔اس کی نگاہ میں بہترین دولت مند بھی زاہد ہو سکتا ہے اگر اس دولت سے غرور نہ پیداہوجائے ۔اور بد ترین فقری بھی زاہد ہو سکتا ہے اگر دنیاکے ہاتھ سے نکل جانے سے رنجیدہ اور محزون نہ ہو۔

مولائے کائنات نے دوسرے مقامات پر اس کی بہترین تفسیر کی ہے کہ '' زہدیہ نہیں ہے کہ تم کسی چیز کے مالک نہ بنو۔بلکہ زہد یہ ہے کہ کوئی چیز تمہاری مالک اور صاحب اختیار نہ ہونے پائے ۔یعنی دولت اور کرسی انسان کے اختیار میں ہے تو انسان زاہد ہے اور انسان ان دونوں کے اختیار میں چلا جائے تو اس کا زہد و تقویٰ اسی آن رخصت ہو جاتا ہے اور اس کی بقا کا کوئی امکان نہیں رہ جاتا ہے ۔

۷۷۴

۴۴۱ - وقَالَعليه‌السلام : الْوِلَايَاتُ مَضَامِيرُ الرِّجَالِ

۴۴۲ - وقَالَعليه‌السلام : لَيْسَ بَلَدٌ بِأَحَقَّ بِكَ مِنْ بَلَدٍ خَيْرُ الْبِلَادِ مَا حَمَلَكَ.

۴۴۳ - وقَالَعليه‌السلام وقَدْ جَاءَه نَعْيُ الأَشْتَرِ رحمهالله :

مَالِكٌ ومَا مَالِكٌ واللَّه لَوْ كَانَ جَبَلًا لَكَانَ فِنْداً - ولَوْ كَانَ حَجَراً لَكَانَ صَلْداً - لَا يَرْتَقِيه الْحَافِرُ ولَا يُوفِي عَلَيْه الطَّائِرُ.

قال الرضي - والفند المنفرد من الجبال.

۴۴۴ - وقَالَعليه‌السلام : قَلِيلٌ مَدُومٌ عَلَيْه خَيْرٌ مِنْ كَثِيرٍ مَمْلُولٍ مِنْه.

۴۴۵ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا كَانَ فِي رَجُلٍ خَلَّةٌ رَائِقَةٌ فَانْتَظِرُوا أَخَوَاتِهَا.

(۴۴۱)

حکومتیں مردوں کے کردار کا میدان امتحان ہیں۔

(۴۴۲)

کوئی شہر تمہارے لئے دوسرے شہر سے زیادہ حقدار نہیں ہے۔بلکہ بہترین شہر وہ ہے جو تمہارا بوجھ اٹھائے رہے۔

(۴۴۳)

مالک اشتر کی خبر شہادت آنے کے بعدفرمایا: ''مالک کو کوئی کیا پہچان سکتا ہے۔واللہ اگر وہ پہاڑ ہوتا تو سب سے بلند تر ہوتا۔اور اگرپتھر ہوتا تو سب سے زیادہ سخت تر ہوتا۔اس کی بلندیوں کونہ کوئی سم روند سکتا ہے اور نہ وہاں کوئی پرندہ پرواز کرسکتا ہے۔

سید رضی : فند پہاڑوں میں منفرد پہاڑ کو کہا جاتا ہے۔

(۴۴۴)

مختصر عمل جس کی پابندی کی جا سکے اس کثیر عمل سے بہتر ہے جو انسان کو دل تنگ بنادے ۔

(۴۴۵)

اگر کسی انسان میں کوئی اچھی خصلت پائی جاتی ہے تو اس سے دوسری خصلتوں کی بھی توقع(۱) کی جاسکتی ہے۔

(۱)چونکہ اچھی خصلت شرافت نفس سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا ایک خصلت کو بھی دیکھ کر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص میں شرافت نفس پائی جاتی ہے اور یہ شرافت نفس جس طرح اس ایک خصلت پرآمادہ کر سکتی ہے اسی طرح دوسری خصلتیں بھی پیدا کر سکتی ہے کہ ایک درخست میں ایک ہی میورہ نہیں پیدا ہوتا ہے۔

۷۷۵

۴۴۶ - وقَالَعليه‌السلام لِغَالِبِ بْنِ صَعْصَعَةَ أَبِي الْفَرَزْدَقِ فِي كَلَامٍ دَارَ بَيْنَهُمَا.

مَا فَعَلَتْ إِبِلُكَ الْكَثِيرَةُ - قَالَ دَغْدَغَتْهَا الْحُقُوقُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - فَقَالَعليه‌السلام ذَلِكَ أَحْمَدُ سُبُلِهَا.

۴۴۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنِ اتَّجَرَ بِغَيْرِ فِقْه فَقَدِ ارْتَطَمَ فِي الرِّبَا.

۴۴۸ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ عَظَّمَ صِغَارَ الْمَصَائِبِ ابْتَلَاه اللَّه بِكِبَارِهَا.

۴۴۹ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْ كَرُمَتْ عَلَيْه نَفْسُه

(۴۴۶)

غالب بن صعصعہ(۱) (پدر فرزوق) سے گفتگو کے دوران فرمایا: تمہارے بیشمار اونٹوں کا کیا ہوا ؟ انہوں نے کہاکہ حقوق کی ادائیگی نے منتشر کردیا۔فرمایاکہ یہ بہترین اور قابل تعریف راستہ ہے۔

(۴۴۷)

جو احکام کو دریافت کئے بغیرتجارت(۲) کرے گاوہ کبھی نہ کبھی سود میں ضرور مبتلا ہو جائے گا۔

(۴۴۸)

جو چھوٹے(۳) مصائب کوبھی بڑا خیال کرے گا اسے خدا بڑے مصائب میں بھی مبتلا کردے گا۔

(۴۴۹)

جسے اس کانفس عزیز ہوگا اس کی نظرمیں

(۱)ابن ابی الحدید کا بیان ہے کہ غالب فرزدق کو لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اونٹوں کے بارے میں بھی سوال کیا ار فرزدق کے بارے میں بھی سوال کیا تو غالب نے کہاکہ یہ میرا فرزند ہے اور اسے میں نے شعرو ادب کی تعلیم دی ہے۔آپ نے فرمایا کہ اے کاش تم نے قرآن مجید کی تعلیم دی ہوتی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ بات دل کو لگ گئی اور انہوں نے اپنے پیروں میں زنجیریں ڈال لیں اور انہیں اس وقت تک نہیں کھولا جب تک سارا قرآن حفظ نہیں کرلیا۔

(۲)یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ فقہ کی ضرورت صرف صلوٰة صیم کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت زندگی کے ہر شعبہ میں ہے کہ تاکہ انسان برائیوں سے محفوظ رہ سکے اور لقمہ حلال پر زندگی گذار سکے ورنہفقہ کے بغیر تجارت کرنے میں بھی سود کا اندیشہ ہے اور سود سے بد تر اسلام میں کوئی مال نہیں ہے جس کا ایک پیسہ بھی حلال نہیں کیا گیا ہے۔

(۳)انسان کا ہنر یہ ہے کہ ہمیشہ مصائب کا مقالہ کرنے کے لئے تیار رہے اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی آجائے تو اسے حقیر اورمعمولی ہی سمجھے تاکہ دیگر مصائب کو حملہ کرنے کاموقع نہ ملے ورنہ ایک مرتبہ اپنی کمزوری کا اظہار کردیا تو مصائب کاہجوم عام ہوجائے گا اور انسان ایک لمحہ کے لئے بھی نجات حاصل نہ کرسے گا۔

۷۷۶

هَانَتْ عَلَيْه شَهَوَاتُه.

۴۵۰ - وقَالَعليه‌السلام : مَا مَزَحَ امْرُؤٌ مَزْحَةً إِلَّا مَجَّ مِنْ عَقْلِه مَجَّةً.

۴۵۱ - وقَالَعليه‌السلام : زُهْدُكَ فِي رَاغِبٍ فِيكَ نُقْصَانُ حَظٌّ - ورَغْبَتُكَ فِي زَاهِدٍ فِيكَ ذُلُّ نَفْسٍ.

۴۵۲ - وقالعليه‌السلام الْغِنَى والْفَقْرُ بَعْدَ الْعَرْضِ عَلَى اللَّه.

۴۵۳ - وقَالَعليه‌السلام : مَا زَالَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ - حَتَّى نَشَأَ ابْنُه الْمَشْئُومُ عَبْدُ اللَّه.

خواہشات(۱) بے قیمت ہوں گی( کہ انہیں سے عزت نفس کی تباہی پیدا ہوتی ہے )

(۴۵۰)

انسان جس قدر بھی مزاح(۲) کرتا ہے اس قدر اپنی عقل کا ایک حصہ الگ کر دیتا ہے۔

(۴۵۱)

جو تمہاری طرف رغبت کرے اس سے کنارہ کشی خسارہ ہے اور جوتم سے کنارہ کش ہو جائے اس کی طرف رغبت ذلت نفس ہے ۔

(۴۵۲)

مالداری اورغربت کا فیصلہ پروردگار کی بارگاہ میں پیشی کے بعد ہوگا۔

(۴۵۳)

زبیر ہمیشہ ہم اہل بیت کی ایک فرد شمار ہوتاتھا یہاں تک کہ اس کا منحوس فرزند عبداللہ نمودار ہوگیا۔

(۱)خواہش اس قید کا نام ہے جس کا قدی تا حیات آزاد نہیں ہو سکتا ہے کہ ہر قید کا تعلق انسان کی بیرونی زندگی سے ہوتا ہے اورخواہش انسان کواندر سے جکڑ لیتی ہے جس کے بعد کوئی آزاد کرانے والا بھی نہیں پیدا ہوتاہے اوریہی وجہ ہے کہ کہ جب ایک مرد حکیم سے پوچھا گیا کہ دنیا میں تمہاری خواہش کیا ے ؟ تو اس نیبرجستہ یہی جواب دیا کہ بس یہی کہ کسی چیز کی خواہش نہ پیدا ہو۔

(۲)مزاج ایک بہترین چیز ہے جس سے انسان خود بھی خوش ہوتا ہے اوردوسروں کوبھی خوشحال بناتا ہے لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ مزاح بحد مزاح ہو اوراس میں غلط بیانی ' فریب کاری' ایذاء مومن ' توہین مسلمان کا پہلو نہ پیداہونے پائے اورحد سے زیادہ بھی نہ ہو ورنہ حرام اورباعث ہلاکت و بربادی ہو جائے گا۔

۷۷۷

۴۵۴ - وقَالَعليه‌السلام : مَا لِابْنِ آدَمَ والْفَخْرِ - أَوَّلُه نُطْفَةٌ وآخِرُه جِيفَةٌ - ولَا يَرْزُقُ نَفْسَه ولَا يَدْفَعُ حَتْفَه.

۴۵۵ - وسُئِلَ مَنْ أَشْعَرُ الشُّعَرَاءِ فَقَالَعليه‌السلام :إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يَجْرُوا فِي حَلْبَةٍ - تُعْرَفُ الْغَايَةُ عِنْدَ قَصَبَتِهَا - فَإِنْ كَانَ ولَا بُدَّ فَالْمَلِكُ الضِّلِّيلُ

يريد إمرأ القيس

۴۵۶ - وقَالَعليه‌السلام : أَلَا حُرٌّ يَدَعُ هَذِه اللُّمَاظَةَ لأَهْلِهَا - إِنَّه لَيْسَ لأَنْفُسِكُمْ ثَمَنٌ إِلَّا الْجَنَّةَ فَلَا تَبِيعُوهَا إِلَّا بِهَا.

(۴۵۴)

آخر فرزند آدم(۱) کافخرو مباہات سے کیا تعلق ہے جب کہ اس کا ابتدا نطفہ ہے اورانتہا مردار۔وہ نہ اپنی روزی کا اختیار رکھتا ہے اور نہ اپنی موت کو ٹال سکتا ہے۔

(۴۵۵)

آپ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون تھا؟ تو فرمایا کہ سارے شعراء نے ایک میدان میں قدم نہیں رکھا کہ سبقت عمل سے ان کی انتہائے کمال کا فیصلہ کیاجاسکے لیکن اگر فیصلہ ہی کرنا ہے تو بادشاہ گمراہ (یعنی امراء القیس)

(۴۵۶)

کیاکوئی ایسا آزاد(۲) مرد نہیں ہے جو دنیاکے اس چبائے ہوئے لقمہ کو دوسروں کے لئے چھوڑ دے ؟ یاد رکھو کہ تمہارے نفس کی کوئی قیمت جنت کے علاوہ نہیں ہے لہٰذا اسے کسی اور قیمت پر بیچنے کا ارادہ مت کرنا۔

(۱)انسانی زندگی کے تین دورہوتے ہیں : ابتدائ، انتہاء ، وسط ۔اور انسان کاحال یہ ہے کہ وہ ابتداء میں ایک قطرۂ نجس ہوتا ہے اور انتہاء میں مردار ہو جاتا ہے۔درمیانی حالات یقینا طاقت و قوت اور طہارت و پاکیزگی کے ہوتے ہیں لیکن اس کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ نہ اپنا رزق اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے اور نہ اپنی موت اپنے اختیارمیں ہوتی ہے ۔ایسے حالات میں انسان کے لئے تکبرو غرورکا جوازکہاں سے پیداہوتا ہے۔تقاضائے شرافت و دیانت یہی ہے کہ جس نے پیداکیا ہے اسی کا شکریہ ادا کرے اوراسی کی اطاعت میں زندگی گذاردے تاکہ مرنے کے بعد خود بھی پاکیزہ رہے اوروہ زمین بھی پاکیزہ ہو جائے جس میں فن ہوگیا ہے۔

(۲)دنیا وہ ضعیفہ ہے جولاکھوں کے تصرف میں رہ چکی ہے اوروہ لقمہ ہے جسے کروڑوں آدمی چبا چکے ہیں۔کیا ایسی دنیا بھی اس لائق ہوتی ہے کہ انسان اس سے دل لگائے اور اس کی خاطر جان دینے کے لئے تیار ہوجائے ۔اس کا تو سب سے بہترین مصرف یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے حوالے کرکے اپنی جنت کا انتظام کرلے جہاں ہر چیز نئی ہے اور کوئی نعمت استعمال شدہ نہیں ہے۔

۷۷۸

۴۵۷ - وقَالَعليه‌السلام : مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ طَالِبُ عِلْمٍ وطَالِبُ دُنْيَا.

۴۵۸ - وقَالَعليه‌السلام : الإِيمَانُ أَنْ تُؤْثِرَ الصِّدْقَ حَيْثُ يَضُرُّكَ - عَلَى الْكَذِبِ حَيْثُ يَنْفَعُكَ - وأَلَّا يَكُونَ فِي حَدِيثِكَ فَضْلٌ عَنْ عَمَلِكَ - وأَنْ تَتَّقِيَ اللَّه فِي حَدِيثِ غَيْرِكَ

۴۵۹ - وقَالَعليه‌السلام : يَغْلِبُ الْمِقْدَارُ عَلَى التَّقْدِيرِ حَتَّى تَكُونَ الآفَةُ فِي التَّدْبِير.

قال الرضي وقد مضى هذا المعنى فيما تقدم - برواية تخالف هذه الألفاظ.

۴۶۰ - وقَالَعليه‌السلام : الْحِلْمُ والأَنَاةُ تَوْأَمَانِ يُنْتِجُهُمَا عُلُوُّ الْهِمَّةِ.

(۴۵۷)

دو بھوکے ایسے ہیں جو کبھی سیرنہیں ہو سکتے ہیں۔ایک طالب علم اور ایک طالب دنیا ۔

(۴۵۸)

ایمان کی علامت یہ ہے کہ سچ نقصان بھی پہنچائے تو اسے فائدہ پہنچانے والے جھوٹ(۱) پر مقدم رکھو۔ اور تمہاری باتیں تمہارے عمل سے زیادہ نہ ہوں اور دوسروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے خداسے ڈرتے رہو۔

(۴۵۹)

(کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ) قدرت کا مقرر کیا ہوا مقدر انسان کے اندازوں پرغالب آجاتا ہے یہاں تک کہ یہی تدبیرکی بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔

سید رضی : یہ بات دوسرے اندازسے اس سے پہلے گذر چکی ہے۔

(۴۶۰)

بردباری اورصبر(۲) دونوں جڑواں ہیں اور ان کی پیداوار کا سرچشمہ بلند ہمتی ہے۔

(۱)یقینا ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ سچ کو جھوٹ پر مقدم رکھا جائے اورمعمولی مفادات کی راہ میں اس عظیم نعمت صدق کو قربان نہ کیا جائے لیکن کبھی کبھی اسے مواقع آس کتے ہیں جب سچ کا نقصان نا قابل برداشت ہو جائے تو ایسے موقع پر عقل اورشرع دونوں کی اجازت ہے کہ کذب کا راستہ اختیار کرکے اس نقصان سے تحفظ کا انتظام کرلیا جائے جس طرح کہ قاتل کسی نبی برحق کی تلا ش میں ہواورآپ کو اس کا پتہ معلوم ہو تو آپ کے لئے شرعاً جائز نہیں ہے کہ پتہ بتا کر نبی برحق کے قتل میں حصہ دار ہو جائیں ۔

(۲)یہ غلط مشہور ہوگیا ہے کہ مجبوری کا نام صبر ہے۔صبر مجبوری نہیں ہے ۔صبر بلند ہمتی ہے۔صبر انسان کو مصائب سے مقابلہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔صبر نسان میں عزائم کی بلندی پیداکرتا ہے۔صبر پچھلے حالات پر افسوس کرنے کے بجائے اگلے حالات کے لئے آمادگی کی دعوت دیتا ہے ۔''انا الیہ راجعون ''

۷۷۹

۴۶۱ - وقَالَعليه‌السلام : الْغِيبَةُ جُهْدُ الْعَاجِزِ.

۴۶۲ - وقَالَعليه‌السلام : رُبَّ مَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه.

۴۶۳ - وقَالَعليه‌السلام : الدُّنْيَا خُلِقَتْ لِغَيْرِهَا ولَمْ تُخْلَقْ لِنَفْسِهَا.

۴۶۴ - وقَالَعليه‌السلام : إِنَّ لِبَنِي أُمَيَّةَ مِرْوَداً يَجْرُونَ فِيه - ولَوْ قَدِ اخْتَلَفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ - ثُمَّ كَادَتْهُمُ الضِّبَاعُ لَغَلَبَتْهُمْ.

قال الرضي - والمرود هنا مفعل من الإرواد وهو الإمهال والإظهار

(۴۶۱)

غیبت(۱) کرناکمزور آدمی کی آخری کوشش ہوتی ہے۔

(۴۶۲)

بہت سے لوگ اپنے بارے میں تعریف ہی سے مبتلائے فتنہ ہو جاتے ہیں۔

(۴۶۳)

دنیا دوسروں(۲) کے لئے پیدا ہوئی ہے اور اپنے لئے نہیں پیداکی گئی ہے۔

(۴۶۴)

بنی امیہ میں سب کا ایک خاص میدان ہے جس میں دوڑلگا رہے ہیں ورنہ جس دن ان میں اختلاف ہوگیا تواس کے بعد بجو بھی ان پر حملہ کرنا چاہے گا تو غالب آجائے گا۔

سید رضی : مرود۔ارواد سے مفعل کے وزن پر ہے اورارواد کے معنی فرصت اور مہلت دینے کے ہیں۔جو

(۱)غیبت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اس عیب کا تذکرہ کیا جائے جسے وہ خود پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے اور اس کے اظہار کو پسند نہیں کرتا ہے۔اسلام نے اس عمل کو فساد کی اشاعت سے تعبیر کیا ہے اوراسی بناپرحرام کردیا ہے ۔لیکن اگر کسی موقع پر عیب کے اظہارنہ کرنے ہی میں سماج یا مذہب کی بربادی کاخطرہ ہو تو بیان کرنا جائزبلکہ بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے جس طرح کہ علم رجال میں راویوں کی تحقیق کا مسئلہ ہے کہاگران کے عیوب پر پردہڈال دیا گیا تو مذہب کے تباہ و برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ہر جھوٹا شخص روایات کاانبار لگاسکتا ہے۔

(۲)دنیا کی تخلیق مقصود بالذات نہیں ہے ورنہ پروردگار اس کو دائمی اور ابدی بنادیتا ۔ دنیا کو فنا کرکے آخرت کو منظرعام پر لے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی تخلیق آخرت کے مقدمہ کے طور پرہوئی ہے ۔اب اگر کوئی شخص اسے قربان کرکے آخرت کما لیتاہے تو گویا اس نے صحیح مصرف میں لگا دیا ورنہ اپنی زندگی بھی برباد کی اورموت کوبھی صحیح راستہ پر نہیں لگایا۔

۷۸۰

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809

810

811

812

813

814

815

816

817

818

819

820

821

822

823

824

825

826

827

828

829

830

831

832

833

834

835

836

837

838

839

840

841

842

843

844

845

846

847

848

849

850

851

852

853

854

855

856

857

858

859

860

861

862

863